You are on page 1of 72

‫بسم ہللا الرحمٰ ن الرحیم‬

‫تقریظ‬

‫استاد محترم حضرت موالنا محمد عبدہللا صاحب‬

‫ہیڈ ماسٹر گورنمنٹ فاضل ہائی اسکول ‪ ،‬احمد پور شرقیہ‬

‫رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کا فرمان ہے‪:‬۔‬

‫نماز دین کا ستون ہے‪ ،‬جس نے اسے قائم کیا اس نے سارے دین کو قائم کیا اور جس نے‬
‫اسے گرادیا اس نے سارے دین کو گرا دیا۔‬
‫سید نا فاروق اعظم ؓ نے اپنے دور خالفت میں اپنے گورنروں کو یہ فرمان جاری کیا تھا‬
‫کہ’’میرے نزدیک تمہارا سب سے اہم عمل نماز ہے۔ جس نے اس کی حفاظت کی تو وہ‬
‫باقی دین کی بھی حفاظت کرے گا‪ ،‬اور جس نے اسے ضائع کردیا تو وہ دوسرے اعمال کو‬
‫اولی ضائع کردے گا‘‘۔ (موطا امام مالک ؒ)‬
‫بدرجہ ٰ‬

‫نماز کی اہمیت اسی سے ظاہر ہے کہ خلیفہ اول سیدنا ابو بکر صدیق ؓ کا انتخاب اسی بنا پر‬
‫عمل میں ٓایا تھا کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے مرض الوفات کے دوران انہیں اپنا‬
‫نائب مقرر فرمایا تھا۔‬
‫مگر وائے صد افسوس‪ ،‬کہ خدا بیزاری کے اس دور میں عامۃ الناس بالخصوص ٹی ۔وی‬
‫کے ڈراموں اور وی۔ سی ۔ ٓار کی فلموں کے دلدادہ نوجوان ‪ ،‬اس اہم ترین فریضہ سے‬
‫اس حد تک غافل ہیں کہ گویا ان کے دل و دماغ کے کسی گوشہ میں بھی خدا کے پیش‬
‫ہونے کا تصور نہیں پایا جاتا۔ پھر کچھ خوش نصیب اگر مسجد میں ٓا بھی جاتے ہیں تو‬
‫مسائل سے بالکل ناواقف اور بے خبر ہوتے ہیں ‪ ،‬نتیجتا ً ان کی نمازیں نقرالدیک (مرغ‬
‫کے ٹھونگے مارنے) سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتیں ۔‬

‫تعالی جزا خیر دے کہ انہوں نے زیر‬


‫ٰ‬ ‫عزیز مکرم موالنا سعید الحسن شاہ صاحب کو ہللا‬
‫نظر کتابچہ لکھ کر ایک اہم دینی خدمت سر انجام دی ہے۔ ایک بزرگ زادہ اور صاحب علم‬
‫و فضل ہونے کی حیثیت سے ان کے گرد عقیدت مندوں کا ایک وسیع حلقہ ہے ان کی یہ‬
‫حین ان کے قلم سے کچھ نکلوا دیتی ہے۔ ان کی حالیہ کوشش بھی‬‫مقتدایانہ حیثیت حینا ً بعد ٍ‬
‫تعالی عزیز موصوف کو‬
‫ٰ‬ ‫اس سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ میں دل سے دعا کرتا ہوں کہ ہللا‬
‫زیادہ سے زیادہ خدمت دین کا موقع عطا فرمائے اور ان کی تصنیفات کو شرف قبولیت سے‬
‫نوازے۔‬

‫میں نے زیر نظر کتابچہ کو جستہ جستہ دیکھا ہے۔ مسائل صحیح درج ہیں اس کی‬
‫تصنیف کا اولین مقصد مصنف نے طالب علموں کی ضرورت کو پورا کرنا لکھا ہے۔ اس‬
‫لحاظ سے کتابچہ مختصر ہونا چاہیے تھا۔ اور ایسا ہے۔‬

‫تعالی اعلم‬
‫ٰ‬ ‫فقط وہللا‬

‫الراقم‬

‫محمد عبدہللا عفی عنہ‬


‫احمد پور شرقیہ‬

‫پیش لفظ‬

‫حضرات! زمانہ حاضرہ میں اسالم کا صرف نام باقی رہ گیا ہے ہمارے دلوں میں اسالم‬
‫کی حقیقت اور عظمت نہیں ہے۔ اور نہ ہی اسالم کے ضروری احکام کا علم ہے۔‬

‫اسالم کے اہم ارکان اور ستون پانچ ہیں جن میں سب سے زیادہ اہمیت نماز کو ہے۔ ایک‬
‫حدیث شریف کا ترجمہ ایک بزرگ شاعر نے ان لفظوں میں کیا ہے‪:‬۔‬

‫روز محشر کہ جاں گداز بود‬

‫ا ّولین پرسش نماز بود‬

‫یعنی قیامت کے روز سب سے پہلی پوچھ گچھ نماز کی ہوگی اور حضور صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم کا فرمان ہے‪:‬۔‬

‫‘‘ترجمہ‪’’ :‬جس نے جان بوجھ کر نماز چھوڑدی وہ کافر ہوگیا‬

‫تعالی فرماتے ہیں‬


‫ٰ‬ ‫‪ :‬ہللا‬
‫‘‘ترجمہ‪ ’’:‬نماز قائم کرو اور مشرک نہ بنو‬

‫یعنی نماز پڑھنے واال مسلمان ہے اور اس کا چھوڑنے واال مشرک ہے۔ اسی طرح حضور‬
‫صلی ہللا علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے‪:‬۔‬

‫‘‘ترجمہ‪’’:‬مسلمان اور کافر کے درمیان فرق صرف نماز ہے‬

‫معلوم ہوا کہ نماز اسالم کس سب سے اہم رکن ہے اس لئے ایسے عظیم رکن کے شرائط ‪،‬‬
‫واحیات اور فرائض وغیرہ کا یاد ہونا بھی ضروری ہے ۔ عام طور ہر طالب علمی کے‬
‫دوران بچوں کو نماز یاد کرائی جاتی ہے۔ لیکن نماز کے فرائض اور دوسرے ضروری‬
‫مسائل یاد نہیں کرائے جاتے۔ بعض احباب کے مشورہ اور بار بار اصرار کرنے سے بندہ‬
‫نے ضروری سمجھا کہ نماز اور اس کے ضروری مسائل لکھے جائیں ۔ حضرت العالمہ‬
‫استاذی المکرم حضرت موالنا محمد عبدہللا صاحب دامت برکاتہم ہیڈ ماسٹر گورنمنٹ فاضل‬
‫ہائی اسکول احمد پور شرقیہ نے اس کتابچہ کا نام ’’ٓاسان نماز اور اس کے ضروری‬
‫مسائل ‘‘ منتخب فرمایا ہے۔‬

‫میرے ناقص خیال میں پرائمری‪ ،‬مڈل اسکولوں میں جماعت ہشتم تک اگر اسی نماز کو‬
‫مکمل طور پڑھا لیا جائے۔ اور یاد کرادیا جائے تو بچوں کے لئے بہت بہتر ہوگا۔ نیز اگر‬
‫تمام مسلمان اپنے پاس رکھیں اور مندرجہ مسائل ٓاہستہ ٓاہستہ یاد کرتے رہیں تو انہیں بھی‬
‫تعالی احقر ناچیز کی اس حقیر سی کوشش کو منظور و‬ ‫ٰ‬ ‫ٓاسانی سے یاد ہوسکتے ہیں ۔ ہللا‬
‫مقبول فرمائیں ۔ ٓامین‬

‫نیز تمام مستفید ہونے والوں سے استدعا ہے کہ احقر کے لیے خاتمہ بالخیر کی دعا‬
‫فرمائیں ۔‬
‫والسالم‬

‫سید سعید الحسن عفی ہللا عنہ‬

‫بسم ہللا الرحمٰ ن الرحیم‬

‫ا ّول کلمہ طیّب‬

‫آل اِلَهَ اِاّل اللّهُ حُمَ َّم ٌد َر ُس ُول اللّ ِه‬

‫ترجمہ ’’‪ :‬ہللا کے سوا کوئی معبود نہیں ‪ ،‬حضرت محمد صلی ہللا علیہ وسلم ہللا کے رسول‬
‫‘‘ ہیں‬

‫دوم کلمہ شہادت‬


‫ِ ِ‬
‫ا ْش َه ُد ا ْن آّل الهَ ااَّل اللّهُ َو ْح َده اَل َش ِريْ َ‬
‫ك لَه‪َ ،‬و اَ ْش َه ُد اَ َّن حُمَ َّم ًد َ‬
‫اعْب ُده َو َر ُسولُه‬

‫ترجمہ‪ ’’:‬میں گواہی دیتا ہوں کہ ہللا کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں‬
‫‘‘ کہ حضرت محمد صلی ہللا علیہ وسلم ہللا کے بندے اور اس کے رسول ہیں‬

‫سوم کلمہ تمجید‬


‫ترجمہ‪ ’’:‬ہللا پاک ہے اور سب تعریفیں ہللا ہی کے لئے ہے۔ اور ہللا کے سوا کوئی معبود‬
‫نہیں ۔ اور ہللا سب سے بڑا ہے۔ اور نہیں ہے کوئی طاقت اور نہ کوئی قوت مگر ساتھ ہللا‬
‫‘‘تعالی کے جو بڑی شان اور بڑی عظمت واال ہے‬
‫ٰ‬

‫چہارم کلمہ توحید‬

‫ترجمہ‪ ’’ :‬ہللا کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیال ہے اس کا کوئی شریک نہیں اسی کے‬
‫لئے بادشاہی ہے۔ اور سب تعریفیں اسی کے لئے ہے۔ وہ زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے اور‬
‫‘‘وہ زندہ ہے مرے گا نہیں ۔ اسی کے ہاتھ میں بھالئی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے‬

‫پنجم کلمہ استغفار‬

‫ترجمہ‪ :‬میں ہللا سے معافی مانگتا ہوں جو میرا پروردگار ہے۔ ہر گناہ سے جومیں نے کیا‬
‫جان بوجھ کر یا بھول کر چھپا کے یا کھلم کھال اور میں توبہ کرتا ہوں اس کے حضور‬
‫میں اس گناہ سے جو مجھے معلوم ہے اور اس گناہ سے جو مجھے معلوم نہیں ‪ ،‬بے شک‬
‫تو ُ تو غیبوں کے جاننے واال ہے ۔ اور گناہوں کے بخشنے واال ہے۔ اور گناہوں سے‬
‫بچنے کی طاقت اور نیک کام کرنے کی قوت ہللا ہی کے پاس ہے جو بڑی شان اور عظمت‬
‫‘‘واال ہے‬

‫ششم کلمہ ر ِّد کفر‬

‫ترجمہ‪ ’’ :‬اے ہللا میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ تیرا شریک بتائوں کسی چیز‬
‫کو جان بوجھ کر ۔ اور معافی مانگتا ہوں اس گناہ سے جس کا مجھے علم نہیں اور میں‬
‫نے اس سے توبہ کی ہے۔ اور میں بیزار ہوں کفر اور بدعت سے اور چغل خوری سے‬
‫اور بے حیائی کو کاموں سے اور تہمت لگانے سے اور باقی ہر قسم کی نافرمانیوں سے‬
‫اور میں ایمان التا ہوں اور کہتا ہوں کہ ہللا کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد‬
‫مصطفی صلی ہللا علیہ وسلم ہللا کے رسول ہیں ۔‬
‫ٰ‬

‫ایمان مفصل‬

‫ترجمہ‪ ’’ :‬میں ایمان الیا ہوں ہللا پر اور اس کے فرشتوں ہر اور اس کی کتابوں پر اور‬
‫اس کے رسولوں پر اور دن ٓاخرت پر اور اچھی اور بری تقدیر پر کہ وہ ہللا کی طرف‬
‫‘‘سے ہے اور مرنے کے بعد اٹھنے پر‬

‫ایمان مجمل‬

‫ترجمہ‪ ’’:‬میں ایمان الیا ہوں ہللا پر جیسے اس کی ذات اپنے ناموں اور صفاتوں کے‬
‫ساتھ ہے۔ اور میں نے اس کے تمام احکام زبان سے اقرار کرتے ہوئے اور دل سے‬
‫تصدیق کرتے ہوئے قبول کیے ہیں ۔‬

‫نجاست اور اس کے احکام‬

‫چونکہ نماز کے لئے طہارت فرض ہے اور طہارت میں وضو اور نجاست کے مسائل ‪\t‬‬
‫ذکر کیے جاتے ہیں اس لئے یہاں پہلے نجاست کا بیان ہوگا۔ نجاست کے معنی پلیدی کے‬
‫ہیں ۔ نجاست کی دو قسمیں ہیں ‪ )١( :‬نجاست غلیظہ (‪ )٢‬نجاست خفیفہ۔ اگر نجاست سخت‬
‫ہو تھوڑی سی لگ جائے تو اسے دھونے کا حکم ہے۔ ایسی نجاست کو نجاست غلیظہ‬
‫کہتے ہیں ۔ نجاست غلیظہ یہ ہیں ؒ خون‪ٓ ،‬ادمی کا پاخانہ اور پیشاب‪ ،‬منی‪ ،‬شراب ‪ ،‬کتے بلی‬
‫کا پاخانہ اور پیشاب‪ ،‬سور کا گوشت اس کے بال و ہڈی وغیرہ اور اس کی ساری چیزیں ۔‬
‫گھوڑے ‪ ،‬گدھے اور خچر کی لید‪ ،‬گائے ‪ ،‬بیل ‪ ،‬بھینس وغیرہ کا گوبر ‪ ،‬بکری اور بھیڑ ‪\t‬‬
‫کی مینگنی ۔ سب جانوروں کا پاخانہ ‪ ،‬مرغی ‪ ،‬بچح اور مرغابی کی بیٹ ‪ ،‬گدھے ‪ ،‬خچر‬
‫اور سب حرام جانوروں کا پیشاب‪ ،‬دودھ پیتے بچوں کا پیشاب‪ ،‬پاخانہ۔‬

‫نجاست غلیظہ میں سے کوئی پتلی اور بہنے والی چیز کپڑے یا بدن میں لگ جائے اگر ‪\t‬‬
‫ھیالئو میں ایک درہم کے برابر (چاندی کا روپیہ) یا اس سے کم ہو تو معاف ہے لیکن‬
‫دھونا افضل ہے۔ اور اگر روپے سے زیادہ ہو معاف نہیں ۔ دھونے کے بغیر نماز نہ ہوگی۔‬
‫اور اگر نجاست غلیظہ میں سے گاڑھی چیز لگ جائے جیسے پاخانہ مرغی کی بیٹ تو‬
‫اگر وزن میں ساڑھے چار ماشہ یا اس سے کم ہو تو بے دھوئے ہوئے نماز درست نہیں‬
‫(بنا عذر احتیاطاً) ۔‬

‫دوسری وہ جس کی نجاست ذرا کم اور ہلکی ہو تو اسے نجاست خفیفہ کہتے ہیں نجاست ‪\t‬‬
‫خفیفہ کپڑے یا بدن میں لگ جائے اگر یہ چوتھائی سے کم ہو تو معاف ہے ۔ کپڑے میں‬
‫ہر عضو کی چوتھائی راد ہے۔ مثالً جیب ‪ ،‬کف ‪ ،‬بازو وغیرہ لیکن اور پورا چوتھائی یا اس‬
‫سے زیادہ ہو تو معاف نہیں ۔ اس کا دھونا واجب ہے۔ بال دھوئے ہوئے نماز درست نہیں ۔‬
‫نجاست خفیفہ یہ ہیں ‪ :‬حرام پرندوں کی بیٹ‪ ،‬حالل جانوروں کا پیشاب جیسے بکری ‪،‬‬
‫گائے‪ ،‬بھینس اور گھوڑے وغیرہ نجاست غلیظہ اور خفیفہ بیان کرنے کے بعد وضو کے‬
‫مسائل بیان کئے جاتے ہیں ۔ اوالً فرائض وضو کا بیان ہوگا۔‬

‫‪ :‬وضو کے فرائض‬

‫تعالی نے قراان پاک میں بیان فرمایا ہے‪:‬۔‬


‫ٰ‬ ‫وضو کے فرض چار ہیں جیسا کہ ہللا‬
‫ترجمہ‪ ’’ :‬اے ایمان والو جس وقت تم نماز پڑھنے کا ارادہ کرو تو اپنے منہ کو دھئو اور‬
‫اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک دھوئیں اور اپنے سر کا مسح کرو۔ اور اپنے پائوں کو‬
‫‘‘ گھٹنوں تک دھوئیں‬

‫تشریح ‪ :‬وضو کے فرض چار ہیں جیسا کہ قرٓان مجید میں مذکور ہیں ۔‬

‫منہ کا دھونا ۔ چول (لمبائی ) میں شروع پیشانی سے تھوڑی کے نیچے تک اور )‪(١‬‬
‫عرض (چوڑائی ) میں ایک کان کی لو سے دوسرے کان کی لو تک۔‬

‫دونوں ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھونا۔ )‪(٢‬‬

‫چوتھائی سر کا مسح کرنا۔)‪(٣‬‬

‫ٹخنوں سمیت دونوں پائوں کا دھونا۔ )‪(٤‬‬

‫‪ :‬وضو کی سنتیں‬

‫وضو کی سنتیں تیرہ ہیں ‪:‬۔‬

‫وضو کی نیت کرنا۔‪(١)\t‬‬


‫زبان سے تسمیہ یعنی بسم ہللا الرحمٰ ن الرحیم پڑھنا۔‪(٢)\t‬‬

‫پہنچوں تک دونوں ہاتھ دھونا۔‪(٣)\t‬‬

‫مسواک کرنا۔‪(٤)\t‬‬

‫کلی کرنا۔‪(٥)\t‬‬

‫ناک میں پانی دینا۔‪(٦)\t‬‬

‫ہر عضو کو تین بار دھونا۔‪(٧)\t‬‬

‫ترتیب وضو ملحوظ رکھنا۔‪(٨)\t‬‬

‫پے درپے دھونا یعنی ایک عضو کے دھونے تک دوسرا عضو خشک نہ ہوجائے۔‪(٩)\t‬‬

‫داڑھی کا خالل کرنا اس صورت سے کہ پشت دست ٓانکھوں کے سامنے رہو۔‪(٠١)\t‬‬

‫دونوں ہاتھوں اور پائوں کی انگلیوں کا خالل کرنا۔‪(١١)\t‬‬

‫سارے سر کا مسح کرنا ۔‪(٢١)\t‬‬


‫کانوں کا مسح کرنا۔‪(٣١)\t‬‬

‫‪ :‬وضو کے مستحبات‬

‫کعبہ شریف کی طرف منہ کر کے بیٹھنا۔‪(١)\t‬‬

‫پاک اور اونچی جگہ پر بیٹھ کر وضو کرنا۔‪(٢)\t‬‬

‫اعضائ کو دھونے میں دائیں طرف سے شروع کرنا۔‪(٣)\t‬‬

‫ہر عضو دھوتے وقت بسم ہللا کہنا۔‪(٤)\t‬‬

‫وضو میں درورد شریف پڑھنا۔‪(٥)\t‬‬

‫اعضائ مامورہ کو حدود معینہ سے زیادہ دھونا۔‪(٦)\t‬‬

‫بائیں ہاتھ سےدونوں پائوں کا دھونا۔‪(٧)\t‬‬

‫وضو کے کام کو خود کرنا دوسرے سے مدد نہ لینا۔‪(٨)\t‬‬


‫دلک یعنی اعضائ وضو کا مل کر دھونا۔‪(٩)\t‬‬

‫اطمنان سے وضو کرنا۔‪(٠١)\t‬‬

‫کپڑوں کو قطروں (چھینٹوں ) سے محفوظ رکھنا۔‪(١١)\t‬‬

‫ہر فرض نماز کے لئے تازہ وضو کرنا۔‪(٢١)\t‬‬

‫ہاتھ کی انگوٹھی اور کان کی بالی کو حرکت دینا۔‪(٣١)\t‬‬

‫قبل از وقت وضو کرنا۔‪(٤١)\t‬‬

‫وضو کے بعد اگر وقت مکروہ نہ ہو تو دو رکعت نفل تحیۃ الوض̃و ادا کرنا۔‪(٥١)\t‬‬

‫‪:‬نواقض وضو‬

‫جن چیزوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ‪:‬۔‬

‫پیشاب پاخانہ کی جگہ سے کوئی چیز نکلنا۔‪(١)\t‬‬

‫جسم کے اندر کسی جگہ سے خون یا پیپ کا نکل کر مخرج سے پاک جگہ پر پہنچنا۔‪(٢)\t‬‬
‫لیٹ کر یا سہارا لگا کر سونا۔‪(٣)\t‬‬

‫منہ بھر کر قے ٓانا۔‪(٤)\t‬‬

‫رکوع اور سجدہ والی نماز میں بالغ کا قہقہ (تھکارا) مار کر ہنسنا۔‪(٥)\t‬‬

‫بیماری یا کسی اور وجہ سے بے ہوش ہوجانا۔‪(٦)\t‬‬

‫مباشرت فاحشہ یعنی دونوں شرمگاہوں کا بال میالن بل جانا اگرچہ دونوں کت ‪(٧)\t‬‬
‫درمیان کوئی چیز حائل بھی ہو۔‬

‫ریح یعنی ہوا کا پیچے سے نکلنا۔‪(٨)\t‬‬

‫مجنون یعنی دیوانہ ہونا۔‪(٩)\t‬‬

‫‪:‬مکروہات وضو‬

‫چہرہ پر زور سے پانی مارنا۔‪(١)\t‬‬


‫پانی کا حاجت سے کم و بیش کرنا یعنی نہ تھوڑا پانی لگائے اور نہ حاجت سے زیادہ ‪(٢)\t‬‬
‫ہو۔‬

‫وضو کے اندر بال ضرورت دنیا کی باتیں کرنا۔‪(٣)\t‬‬

‫تین بار نئے پانی سے وضو کرنا۔‪(٤)\t‬‬

‫ناپاک مکان میں وضو کرنا۔‪(٥)\t‬‬

‫عورت کے بچے ہوئے پانی سے وضو کرنا۔‪(٦)\t‬‬

‫مسجد کے اندر وضو کرنا۔‪(٧)\t‬‬

‫جس پانی سے وضو کر رہا ہو اسی پانی میں تھوکنا۔ اور ناک سڑکنا اگرچہ پانی ‪(٨)\t‬‬
‫جاری ہو۔‬

‫وضو میں پائوں دھونے کے وقت پائوں کو قبلہ رخ سے نہ پھیرنا۔‪(٩)\t‬‬

‫داہنے ہاتھ سے بغیر عذر کے ناک صاف کرنا۔‪(٠١)\t‬‬

‫بائیں ہاتھ سے منہ میں کلی کے لئے پانی لینا (عالگیری‪ ،‬در مختار)‪(١١)\t‬‬
‫‪:‬تیمم‬

‫تیمم کا لغوی معنی قصد کرنا اور شرعی مفہوم یہ ہے کہ پاک مٹی کا قصد کرنا اور پاکی‪\t‬‬
‫حاصل کرنے کیلئے خاص طریقے ۔ پاک مٹی یا کسی ایسی چیز سے جو مٹی کے حکم‬
‫میں ہو کے ذریعے بدن کو نجاست حکمیہ سے پاک کرنے کو تیمم کہتے ہیں ۔‬

‫وضو اور غسل دونوں کے لئے ایک جیسا تیمم ہے۔ اگر دونوں کے لئے تیمم کی ‪\t‬‬
‫ضرورت ہو تو ایک بار تیمم کرنا کافی ہے۔‬

‫‪:‬فرائض تیمم‬

‫نیت کرنا۔‪(١)\t‬‬

‫دونوں ہاتھ مٹی پر مار کر تمام چہرہ پر پھیرنا کہ بال برابر جگہ باقی نہ رہے۔‪(٢)\t‬‬

‫دونوں ہاتھ مٹی پا مار کر دونوں ہاتھوں کو کہنیوں سمیت ملنا۔‪(٣)\t‬‬

‫غسل(نہانا)‬

‫‪:‬فرائض غسل‬
‫منہ بھر کر کلی کرنا یعنی غر غرہ کرنا۔‪(١)\t‬‬

‫ناک میں پانی ڈلنا۔ حد یہ ہے کہ جہاں تک کا چمڑہ نرم ہے‪ ،‬وہاں تک پانی ‪(٢)\t‬‬
‫پہنچائے۔‬

‫تمام بدن کا دھونا۔‪(٣)\t‬‬

‫‪ :‬سنن غسل‬

‫نیت کرنا۔‪(١)\t‬‬

‫دونوں ہاتھوں کو پونچوں تک دھونا۔‪(٢)\t‬‬

‫بسم ہللا پڑھنا۔‪(٣)\t‬‬

‫شرمگاہ کو غسل سے پہلے دھونا خواہ نجاست ہو یا نہ ہو۔‪(٤)\t‬‬

‫وضو کرنا۔‪(٥)\t‬‬

‫پھر تین بار سر اور تمام بدن پر پانی ڈالنا۔ پانی ڈالنے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے تین ‪(٦)\t‬‬
‫بار سر پر ڈالے پھر تین بار داہنے کندھے پر پھر تین بار بائیں کندھے پر۔‬
‫جب تک ننگا ہو قبلہ کی طرف منہ نہ کرنا۔‪(٧)\t‬‬

‫تمام بدن پر پانی مل لینا تاکہ تمام بدن پر پانی اچھی طرح پہنچ جائے نیز اگر بدن میں ‪(٨)\t‬‬
‫کسی جگہ نجاست لگی ہوئی ہو تو اسے زائل کرنا۔‬

‫ایسی جگہ نہانا جہاں کوئی نہ دیکھے۔‪(٩)\t‬‬

‫پانی میں کمی اور زیادتی نہ کرنا۔‪(٠١)\t‬‬

‫‪:‬مستحبات غسل‬

‫غسل کرتے وقت کالم نہ کرنا۔‪(١)\t‬‬

‫بعد غسل کپڑے سے بدن پونچھ لینا۔‪(٢)\t‬‬

‫‪:‬غسل کے احکام‬

‫عورت سے صحبت کرنا۔‪(١)\t‬‬


‫بد خوابی سے احتالم کا ہوجانا یا منی کا کود کر شہوت سے نکلنا۔ ‪(٢)\t‬‬

‫جب عورت حیض سے پاک ہو۔‪(٣)\t‬‬

‫جب عورت نفاس سے پاک ہو۔‪(٤)\t‬‬

‫مرد کی شرمگاہ کا اگال حصہ عورتے کی شرمگاہ میں داخل ہونا منی خارج ہو یا نہ ‪(٥)\t‬‬
‫ہو۔‬

‫جن مواقعت پر غسل کرنا سنت ہے‬

‫جمعہ کی نماز کے لئے ۔‪(١)\t‬‬

‫دونوں عیدوں کی نماز کے لئے۔‪(٢)\t‬‬

‫حج کا احرام باندھنے سے پہلے۔‪(٣)\t‬‬

‫عرفات میں وقوف کرنے کے لئے۔‪(٤)\t‬‬

‫جن مواقع پر غسل کرنا مستحب ہے‬


‫شب براۃ یعنی شعبان کی پندرھویں رات میں ۔‪(١)\t‬‬

‫عرفہ کی رات میں یعنی نویں ذولحجہ کی رات میں ۔‪(٢)\t‬‬

‫سورج گرہن اور چاند گرہن کی نماز کے لئے۔‪(٣)\t‬‬

‫نماز استسقائ کے لئے۔‪(٤)\t‬‬

‫مکہ معظمہ یا مدینہ منورہ میں داخل ہونے کے لئے۔ ‪(٥)\t‬‬

‫میت کو غسل دینے کے بعد ۔‪(٦)\t‬‬

‫کافر کو اسالم النے کے بعد ۔‪(٧)\t‬‬

‫نوٹ‪ :‬جسم کے کسی حصہ پر اگر پانی نہ پہنچ سکے خواہ ناخون پالش کی وجہ سے ہو تو‬
‫غسل نہیں ہوگا اس لئے غسل کرتے وقت تمام جسم پر پانی اچھی طرح پہنچایا جائے۔‬

‫ف‪:‬۔ جو عورتیں ناخن پالش لگاتی ہیں جس کی وجہ سے ناخنوں پر پانی نہیں پہنچ سکتا‬
‫تو ان کا غسل نہیں ہوتا۔ شرعی رو سے وہ ناپاک ہی رہتی ہے نماز وغیرہ بھی ان کی ادا‬
‫نہیں ہوتی۔‬

‫فائدہ‪:‬۔ مندرجہ ذیل امور کا یاد کرنا ضروری ہے۔‬


‫فرض وہ ہے جو ایسی قطعی دلیل سے ثابت ہو جس میں کچھ شبہ نہ ہو فرض کے‬
‫چھوٹنے سے نماز نہیں ہوتی۔‬

‫واجب وہ ہے جو ایسی دلیل سے ثابت ہو جس کا ثبوت تو قطعی ہو لیکن اس کی مراد ‪\t‬‬


‫قطعی نہ ہو۔ ترک واجب سے سجدہ سہو الزم ٓاتا ہے۔‬

‫سنت وہ ہے جس پر رسول ہللا صلی علیہ وسلم نے ہمیشگی اختیار کی ہو مگر ایک دو ‪\t‬‬
‫دفعہ اسے چھوڑا بھی ہو۔‬

‫حکم سنت کا یہ ہے کہ اس کے ادا کرنے سے ثواب اور اسے چھوڑنے سے گناہ ہوگا۔ ‪\t‬‬
‫مگر نماز ہوجائے گی۔ سجدہ سہو بھی الزم نہیں ٓائے گا۔‬

‫مستحب وہ ہے کہ جس عمل کو رسول ہللا صلی علیہ وسلم نے کبھی کیا ہو اور کبھی ‪\t‬‬
‫چھوڑ دیا ہو اور بزرگان دین نے اس کو اختیار کر لیا مستحب کے کرنے سے عمل کا‬
‫ثواب بڑھ جاتا ہے۔ مگر ترک کرنے پر کوئی گناہ الزم نہیں ٓاتا۔‬

‫مباح وہ ہے جس کے کرنے اور چھوڑنے میں کچھ ثواب وہ گناہ نہ ہو۔‪\t‬‬

‫حرام وہ ہے جس میں ممانعت دلیل قطعی کے ساتھ ثابت ہو ۔ حکم اس کا یہ ہے کہ حرام ‪\t‬‬
‫کو ترک کرنے میں ثواب ہے اور اس کے کرنے میں عذاب ہے اس کو حالل اور جائز‬
‫جاننا کفر ہے۔‬
‫مکروہ وہ ہے جس کی ممانعت دلیل ظنی کے ساتھ ثابت ہو۔ مکروہ کی دو قسمیں ہیں ‪:‬۔ (‪\t‬‬
‫‪ )١‬مکروہ تحریمی وہ ہے جو حرام کے قریب ہو۔ اس کا حکم یہ ہے کہ اس کو چھوڑنے‬
‫سے ثواب اور اس کے کرنے سے گناہ ہے۔ (‪ )٢‬مکروہ تنزیہی وہ ہے جس کے کرنے‬
‫سے اس کا چھوڑنا بہترہے۔‬

‫مفسد وہ ہے جو کسی جائز عمل کے توڑنے واال ہے۔ حکم اس کا یہ ہے کہ جان بوجھ کر‪\t‬‬
‫کرنے سے عذاب اور بھول کر کرنے سے عذاب نہیں ۔‬

‫نماز پڑھنے کے لئے ضروری ہدایات‬

‫جب نمازی نماز پڑھنے کے لئے کھڑا ہو تو پہلے اپنے کپڑے درست کرلے۔ پیشانی سے‪\t‬‬
‫رومال ‪ ،‬پگڑی دور کرتے قمیص کی ٓاستینیں اگر کہنیوں پر چڑھا رکھی ہوں تو انہیں‬
‫اتار دے ۔ سردی کی وجہ سے اگر کپڑا اوڑھ رکھا ہو جس سے منہ چھپا ہوا ہو تو منہ‬
‫اچھی طرح کھول دے۔ جب نیت باندھے تو تکبیر تحریمہ کے لئے ہاتھ چادر سے باہر نکال‬
‫لے۔ مرد کو چاہیے کہ اگر چادر یا شلوار ٹخنوں سے نیچی ہو تو اوپر کر لے۔ سر کے‬
‫کپڑے کو اچھی طرح دیکھ لے تاکہ درمیان میں سر کھال نہ رہے۔‬

‫عورت ایسا باریک دوپٹی یا قمیص نہ پہنے جس سے بعدبدن اور بال صاف دکھائی دیتے ‪\t‬‬
‫ہیں ۔ ایسے کپڑے میں عورتوں کی نماز مطلق نہیں ہوتی۔ اگر غلطی سے پڑھ لے تو‬
‫دوبارہ نماز ادا کرے۔‬

‫ٓا ج کل عورتوں میں باریک کپڑے پہننے کا بہت رواج ہوچکا ہے۔ انہیں چاہیے کہ اپنی‪\t‬‬
‫تعالی کی عظمت و ہیبت کو پوری‬
‫ٰ‬ ‫نماز برباد نہ کریں ۔ جب نماز پڑھنا شروع کرے تو ہللا‬
‫طرح نماز میں مد نظر رکھے۔‬
‫نماز کی ہر حرکت کو پوری تسلی و اطمنان سے ادا کرے قرٔات اس طرح پڑھے گویا ‪\t‬‬
‫خدا کے سامنے سبق سنا رہا ہے۔ نماز اس طرح ادا کرے گویا اپنی زندگی کی ٓاخری نماز‬
‫ادا کر رہا ہے۔ اور یہ وصور کرے کہ میں خدا کو دیکھ رہا ہوں ۔ اگر یہ نہ ہو سکے تو‬
‫کم از کم یہ تصور کرے کہ خدا مجھے دیکھ رہا ہے۔ نماز میں قرٓان کے الفاظ اور معنی‬
‫کا خیال رکھے ۔ خیاالت نماز میں نہ الئے بلکہ جو خیاالت ٓایں ان کی طرف توجہ نہ‬
‫کرے۔‬

‫‪:١‬۔پائوں کی انگلیوں کا رخ سیدھا کعبہ کی طرف ہو۔‪\t‬‬

‫‪:٢‬۔ عورتیں نیت باندھتے وقت اپنے ہاتھ کانوں تک اٹھانے کی بجائے صرف کندھوں ‪\t‬‬
‫تک اٹھائیں ۔ اس طرح کہ ہاتھوں کی انگلیوں کے سرے کندھوں کے برابر ہوجائیں ۔‬

‫‪:٣‬۔ تکبیر تحریمہ میں عورت اپنے ہاتھ اوپر اٹھاتے وقت اپنے دوپٹہ سے باہر نہ نکالے۔‪\t‬‬
‫نیز تکبیر تحریمہ میں سر کو سیدھا رکھے اور ہللا اکبر میں الف کو نہ کھینچے۔‬

‫‪:٤‬۔ تکبیر کہنے کے بعد ہر نمازی بال تاخیر اپنے دونوں ہاتھ ناف کے نیچے باندھ لے۔ ‪\t‬‬
‫اپنی داہنی ہتھیلی اپنے بائیں ہاتھ کی پشت پر رکھے۔ چھوٹی انگلی اور انگوٹھے سے اپنے‬
‫پہونچے کو پکڑلے باقی تین انگلیاں اپنی کالئی پر رکھے اس کے برعکس عورتیں اپنے‬
‫ہاتھ سینہ پر باندھیں جس کا طریقہ یہ ہے کہ اپنے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کی‬
‫پشت پر رکھ دیں ۔ مردوں کی طرح پہونچے نہ پکڑیں ۔‬

‫‪:٥‬۔ حالت قیام میں اپنی نگاہ سجدے پر جمائے رکھے جب سورۃ ختم کر چکے تو رکوع ‪\t‬‬
‫کے لئے تکبیر کہے اور تکبیر اس طرح کہے کہ قرٔات اور تکبیر کے الفاظ ٓاپس میں نہ‬
‫مل جائیں ۔ نیز تکبیر کے الفاظ رکوع میں کمر برابر ہونے تک ختم کردے۔‬
‫‪:٦‬۔ حالت رکوع میں اپنے گھٹنوں کو ہاتھوں سے اس طرح پکڑے کہ ہاتھوں کی ‪\t‬‬
‫انگلیاں کھلی رہیں ۔ گھٹنوں کو ہاتھوں سے سہارا دے رکھے۔ ہاتھوں اور گھٹنوں کو‬
‫کمان کی طرح نہ جھکائے بلکہ سیدھا رکھے ۔ رکوع میں سر اور کمر برابر ہیں اور‬
‫نظر پائوں پر رکھے۔‬

‫‪:٧‬۔ عورت رکوع میں تھوڑا جھکے ‪ ،‬ہاتھوں کو گھٹنوں سے سہارا نہ دے گھٹنے ‪\t‬‬
‫پکڑنے میں ہاتھوں کی انگلیاں بند رکھے گھٹنے جھکائے رکھے اور بازو اپنے جسم‬
‫سے علیحدہ نہ رکھے۔‬

‫‪:٨‬۔ سجدہ کرتے وقت پائوں کو زمین پر جمائے رکھے اگر سجدے میں دونوں پائوں ‪\t‬‬
‫اٹھ گئے تو نماز فاسد ہو جائے گی۔‬

‫‪:٩‬۔ عورت کے لئے سجدہ کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ خوب اچھی طرح سمٹ کر اور دب ‪\t‬‬
‫کر سجدے کرے۔ اپنے پیٹ کو دونوں رانوں سے اور رانوں کو پنڈلیوں سے اور بازئوں‬
‫کو اپنے دونوں پہلئوں سے مالئے رکھے۔ نیز اپنی بانہوں کو حالت سجدہ میں زمین پر‬
‫بچھا دے۔‬

‫‪:٠١‬۔ ہر نمازی حالت سجدہ میں نگاہ ناک کی نوک پر جمائے رکھے۔‪\t‬‬

‫‪:١١‬۔ عورت کا التحیات میں بیٹھنے کا طریقہ یہ ہے کہ اپنی بائیں سرین پر بیٹھے اور ‪\t‬‬
‫دونوں پائوں اپنی داہنی طرف نکال دے۔ اور ہاتھوں کی انگلیوں˜ کو رانوں کے اوپر‬
‫مالئے رکھے۔‬
‫‪:٢١‬۔نیت نماز ‪ :‬نمازی قبلہ رو ہو کر دل میں نیت کرے کہ اس وقت کی نماز خدا کے ‪\t‬‬
‫واسطے پڑھتا ہوں ۔ اگر مقتدی ہے تو یہ بھی خیال کرے کہ میں پیچھے امام کے ہوں ۔‬
‫اگر قلبی نیت کو پختہ کرنے کی غرض سے زبانی بھی کہہ لے تو اچھا ہے۔‬

‫)شامی ص‪ ٦٨٣‬جلد اول(‬

‫اذان اور اقامت‬

‫معنی ٓاگاہ اور خبردار کرنا۔ اصطالح شرع میں فرض نمازوں کے لئے بطریق‬‫ٰ‬ ‫اذان لفظی‬
‫مخصوص چند معینہ اور مرتبہ کلموں کے ساتھ خبردار کرنے کو کہتے ہیں وہ کلمات یہ‬
‫ہیں ‪:‬۔‬

‫اقامت اور فجر کی اذا میں دو ‪ ٢‬کلمے زیادہ کہے جاتے ہیں ان دونوں کے ساتھ سترہ‬
‫ٰ‬
‫الصلو̃ۃ خیر من النوم دو مرتبہ اور زیادہ کیا جائے۔‬ ‫‪ ٧١‬کلمے ہوئے۔ فجر کی اذان میں‬
‫ٰ‬
‫الصلوۃ دو بار کہا جائے۔‬ ‫علی االفالح کے بعد قد قامت‬
‫اقامت میں حی ٰ‬

‫اذام کہنے کا طریقہ‬

‫موذن خارج مسجد اونچی جگہ پر کھڑا ہوجائے اور اپنے دونوں کانوں میں شہادت کی‬
‫انگلیاں دے کہ اول چار مرتبہ ہّٰللا اکبر ایک ٓاواز میں ‪ ،‬شہادتین کو دو‪ ٢‬مرتبہ چار ٓاوازوں‬
‫ٰ‬
‫الصلوۃ دو ٓاوازیں دوبار کہے۔‬ ‫علی‬
‫کے ساتھ ادا کرے۔ پھر دائیں طرف التفات کر حی ٰ‬
‫اسی طرح بائیں طرف التفات کر کے دو ٓاواز میں حی علی الفالح کہے پھر ایک ٓاواز میں‬
‫دو بار تکیبر اور ایک ٓاواز میں تہلیل ادا کر کے اذان ختم کرے۔ فجر کی اذان میں دو ٓاواز‬
‫ٰ‬
‫الصلوۃ خیر من النوم دوبار کہے۔‬ ‫کے ساتھ حی علی الفالح کے بعد‬

‫نماز پڑھنے کا طریقہ‬

‫ثنائ‬

‫ترجمہ‪’’ :‬پاک ہے اے ہللا تو اور سب تعریف تیرے لئے ہے اور برکت واال ہے نام تیرا‬
‫‘‘اور بلند ہے بزرگی تیری اور نہیں ہے کوئی معبود سوا تیرے‬

‫تعوذ‬

‫‘‘ترجمہ‪ ’’ :‬میں پناہ مانگتا ہوں ساتھ ہللا کے شیطان مردود سے‬

‫تسمیہ‬

‫‘‘ترجمہ‪ ’’ :‬شروع کرتا ہوں ہللا کے نامز سے جو بڑا مہربان نہایت رحم واال ہے‬

‫سورۃ الفاتحہ‬

‫ترجمہ‪’’ :‬سب تعریفیں ہللا کے لئے ہے جو سب جہانوں کا پروردگار ہے۔ دنیا میں اور‬
‫ٓاخرت میں مہربانی ہے۔ قیامت کے دن کا مالک ہے۔ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور‬
‫تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں ۔ ہمیں سیدھا راستہ دکھال۔ راستہ ان لوگوں کا جن پر تو نے‬
‫‘‘انعام کیا۔ نہ ان لوگوں کا جن پر غصہ کیا گیا اور نہ گمراہوں کا‬

‫سورۃ اخالص‬

‫ترجمہ‪ ’’ :‬کہہ دے وہ ہللا ایک ہے ۔ ہللا بے نیاز ہے۔ نہ اس نے جنا اور نہ وہ جنا گیا۔ اور‬
‫‘‘نہیں اس کے برابر کوئی‬

‫مسئلہ‪:‬۔ با جماعت نماز میں مقتدی ثنائ پڑھ کو خاموش کھڑا رہے گا۔ نمازی نماز شروع‬
‫کرنے کے بعد ثنائ وغیرہ پڑھ کر سورۃ اخالص یا کوئی اور سورت پڑھے ۔ اس کے بعد‬
‫ہللا اکبر کہتا ہوا رکوع میں چال جائے۔ اور تین بار یا پانچ یا سات بار تسبیح پڑھے۔‬

‫تسبیح رکوع‬

‫‘‘ ترجمہ‪’’ :‬پاک ہے میرا رب بزرگی واال‬

‫اس کے بعد رکوع سے اٹھ کر کھڑا ہو تسمیع اورتمحید پڑھے۔‬

‫تسمیع‬

‫‘‘ترجمہ ‪ ’’ :‬سنتا ہے ہللا جو اس کی تعریف کرے‬


‫تحمید‬

‫‘‘ترجمہ‪ ’’ :‬اے ہمارے رب تیری ہی تعریف ہے‬

‫مسئلہ‪:‬۔ اگر امام ہو تو صرف تسمیع کہے۔ مقتدی ہو تو صرف تھمید کہے۔ اور اکیال نمازی‬
‫تو تسمیع و تحمید دونوں کہے۔ پھر ہللا اکبر کہہ کر سجدہ میں چال جائے اور تین بار یا‬
‫پانچ بار یا سات با تسبیح سجدہ پڑھے۔‬

‫تسبیح سجدہ‬

‫‘‘ ترجمہ‪ ’’ :‬پاک ہے میرا رب بلند شان واال‬

‫پھر ہللا اکبر کہتا ہوا سجدہ سے اٹھ کر بیٹھ جائے دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنے کو‬
‫جلسہ کہتے ہیں ۔‬

‫مسئلہ‪:‬۔ بہتر یہ ہے کہ جلسہ کی حالت میں مسنون دعا پڑھے۔‬

‫ترجمہ‪ ’’ :‬اے ہللا میری لغزشیں معاف فرما اور مجھ پر رحم فرما اور مجھے بلند کر۔ اور‬
‫میری کمزوری دور فرما اور مجھے عافیت دے۔ اور مجھے کو ہدایت دے اور مجھے‬
‫‘‘روزی عطا فرما‬
‫نوٹ‪ :‬اگر زیادہ وقت نہ ملے تو صرف دو تین مرتبہ ربی اغفرلی کہے (ترجمہ‪ :‬ہللا میری‬
‫لغزشیں معاف فرما)‬

‫اس کے بعد دوسرا سجدہ کرے۔ پھر ہللا اکبر کہتا ہوا کھڑا ہو جائے ۔ پہلے رکعت کی طرح‬
‫دوسری رکعت پڑھے مگر ثنائ پڑھے اور دوسرا سجدہ کرنے کے بعد بیٹھ جائے اور‬
‫تشہد پڑھے۔‬

‫تشہد‬

‫ترجمہ‪ ’’ :‬تمام قولی اور بدنی اور مالی عبادتیں ہللا کے لئے ہیں ۔ اے نبی (صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم) ٓاپ پر سالم ہو اور ہللا کی رحمتیں اس کی برکتیں ۔ سالم ہو ہم پر اور ہللا کے نیک‬
‫بندوں پر۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ ہللا کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں‬
‫کہ تحقیق حضرت محمد صلی ہللا علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں ‘‘۔‬

‫پھر ہللا اکبر کہہ کر کھڑا ہو جائے۔ تسمیہ اور سورۃ فاتحہ پڑھے اگر فرض یا واجب ہو ‪\t‬‬
‫تو سورۃ فاتحہ کے بعد اور سورۃ نہ مالئے اگر سنت یا نفل ہو تو سورۃ مالئے یعنی اس‬
‫کے ٓاگے پہلی رکعتوں کی طرح پڑھے۔ پھر بیٹھ کر تشہد پڑھے۔ ہر نماز کی ٓاخری رکعت‬
‫میں تشہد کے بعد درورد شریف اور دعا پڑھے۔‬

‫درورد شریف اول‬


‫ترجمہ‪ ’’ :‬اے ہللا رحمت بھیج حضرت محمد صلی ہللا علیہ وسلم پر اور ٓاپ کی ٓال پر جیسا‬
‫کہ تونے رحمت بھیجی ہے ابراہیم ؑ پر اور ان کی ٓال پر تحقیق تو تعریف کے الئق اور‬
‫بزرگی واال ہے‘‘۔‬

‫درورد شریف ثانی‬

‫ترجمہ‪ ’’ :‬اے ہللا برکت نازل فرما حضرت محمد صلی ہللا علیہ وسلم پر اور ٓاپ کی ٓال پر‬
‫جیسا کہ تو نے برکت نازل فرمائی ابراہیم ؑ پر اور ان کی ٓال پر تحقیق تو تعریف کے قابل‬
‫بزرگی واال ہے‘‘۔‬

‫دعا‬

‫ترجمہ‪ ’’ :‬اے میرے رب مجھے قائم کر نماز پر اور میری اوالد کو اے ہمارے رب میری‬
‫دعا قبول فرما اے ہمارے رب بخش دے مجھے اور میرے ماں باپ کو اور تمام ایمان‬
‫والوں کو جس دن حساب قائم ہوگا۔ اس کے بعد اول داہنی طرف منہ کر کے سالم پھیرے‬
‫اور پھر بائیں طرف منہ کر کے سالم پھیرے۔ بائیں طرف سالم پھیرتے وقت امام ٓاواز‬
‫کچھ پست کرے‘‘۔‬

‫سالم‬

‫ترجمہ‪ ’’ :‬تم پر سالم ہو اور ہللا کی رحمت ہو‘‘۔‬


‫اس کے بعد دعا مانگے۔ اگر نماز امام کے ساتھ پڑھی ہو تو دعا بھی امام کے ساتھ مانگو‬
‫جس کو قرٓانی دعائیں یاد ہوں وہی پڑھے یا وہ دعائیں جو حدیث میں منقول ہیں ۔ یاد نہ‬
‫ہونے کی صورت میں اپنی زبان میں دعا مانگ لے۔‬

‫دعا بعد نماز‬

‫ترجمہ‪ ’’ :‬اے ہللا وہی سالمتی دینے واال ہے اور تجھ سے ہی سالمتی ہے تو برکت واال‬
‫ہے۔ اے بزرگی اور عزت والے۔‬

‫جمعہ اور پانچ نمازوں کی کل رکعتوں کا نقشہ‬

‫نام نماز‬

‫سنت‪SOH\t‬‬

‫مٔوکدہ‬

‫سنت غیر مٔوکدہ‪SOHUS‬‬


SOH\t‫فرض‬

SOHETB‫سنت مٔوکدہ‬

SOH

‫وافل‬

SOH\t‫وتر‬

SOHBEL‫کل‬

‫رکعات‬

SOHBEL‫فجر‬

SOHSTX2

SOHSTXx
SOHSTX2

SOHSTXx

SOHSTXx

SOHSTXx

SOHSTX4

SOHBEL‫ظہر‬

SOHSTX4

SOHSTXx

SOHSTX4

SOHSTX2

SOHSTX2
SOHSTXx

SOHETX12

SOH\t‫عصر‬

SOHSTXx

SOHSTX4

SOHSTX4

SOHSTXx

SOHSTXx

SOHSTXx

SOHSTX8
SOHVT‫مغرب‬

SOHSTXx

SOHSTXx

SOHSTX3

SOHSTX2

SOHSTX2

SOHSTXx

SOHSTX7

SOHVT‫عشائ‬

SOHSTXx

SOHSTX4
SOHSTX4

SOHSTX2

SOHSTX4

SOHSTX3

SOHETX17

SOHVT‫جمعہ‬

SOHSTX4

SOHSTXx

SOHSTX2

SOH2+4
‫‪SOHSTX2‬‬

‫‪SOHSTXx‬‬

‫‪SOHETX14‬‬

‫نماز وتر‪SOHDC3‬‬

‫عشائ کی نماز میں تین وتر ہوتے ہیں جو چار فرض دو سنتوں اور چار نفلوں کے بعد‬
‫پڑھے جاتے ہیں ۔ وتر تین رکعتیں ہیں پہلی دو رکعتیں حسب دستور پڑھ کر تیسری‬
‫رکعت میں مکمل قرٔات کے بعد ہاتھ اٹھا کر تکبیر کہے اور پھر دعٔا قنوت پڑھے۔‬

‫دعائ قنوت‬

‫ترجمہ‪ ’’ :‬اے ہللا ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں اور تیری بخشش مانگتے ہیں اور تجھ پر‬
‫ایمان التے ہیں اور تجھ پر بھروسہ کرتے ہیں اور تیری خوبیاں بیان کرتے ہیں ۔ اور ہم‬
‫تیرا شکر ادا کرتے ہیں اور تیری ناشکری نہیں کرتے اور ہم علیحدہ رہتے ہیں اور‬
‫چھوڑت دیتے ہیں اس شخص کو جو تیری نافرمانی کرے۔ اے ہللا ہم تیری عبادت کرتے‬
‫ہیں ۔ اور تیرے لئے نماز پڑھتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں ۔ اور تیری طرف دوڑتے ہیں‬
‫اور تیری خدمت میں حاضر ہیں اور تیری رحمت کی امید رکھتے ہیں اور تیرے عذا‬
‫سے ڈرتے ہیں تحقیق تیرا عذاب کافروں کو پہنچنے واال ہے‘‘۔‬

‫نماز تراویح‬
‫صرف رمضان شریف میں نماز عشائ کے بعد اور وتر سے پہلے بیس رکعت تراویح‬
‫پڑھنا سنت مٔوکدہ ہے اور افضل یہ ہے کہ ایک سالم سے دو دو رکعتیں پڑھی جائیں اور‬
‫ہر چار رکعت کے بعد بقدر رکعت بیٹھ کر درود شریف اور تسبیح پڑھنے میں وقت صرف‬
‫کیا جائے۔‬

‫مندرجہ ذیل تسبیح کا تین مرتبہ پڑھ لینا پسندیدہ ہے‪:‬۔‬

‫تسبیح تراویح‪:‬۔‬

‫مسئلہ ‪:‬۔ اگر چار رکعت کے برابر بیٹھنے یا تین مرتبہ تسبیح پڑھنے سے نمازیوں کو‬
‫تنگی محسوس ہوتی ہو تو صرف ایک ہی مرتبہ تسبیح پڑھ لی جائے۔‬

‫مسئلہ‪:‬۔ اگر کسی ٓادمی کو یہ تسبیح یاد نہ ہو تو وہ ذکر کرتا رہے یا درود شریف پڑھتا‬
‫رہے۔‬

‫نماز تہجد‬

‫اس نماز کا وقت ٓادھی رات کے بعد سے صبح صادق تک رہتا ہے دو دو رکعت کر کے‬
‫اس نماز کو پڑھنا چاہیے اس کے تین طریقے ہیں ‪:‬۔ (‪ )١‬چار رکعت (‪ٓ )٢‬اٹھ رکعت (‪)٣‬بارہ‬
‫رکعت اس نماز کے فضائل بہت ہیں ۔‬
‫ٓاپ ؐ نے فرمایا ہے کہ فرض نمازوں کے بعد تہجد کا درجہ ہے۔ صوفیا کرام اور علمائ‬
‫حضرات فرماتے ہیں کہ کوئی شخص بغیر تہجد کے درجہ والیت کو نہیں پہنچ سکتا۔‬

‫نماز اشراق‬

‫ٓافتاب طلوع ہونے کے بعد دو یا چار رکعت نماز اشراق پڑھے۔‬

‫نماز چاشت‬

‫اس نماز کا وقت نو دس بجے دن سے شروع ہو کر زوال تک رہتا ہے ۔ اس کی چار رکعت‬


‫سے ٓاٹھ رکعت تک نفل پڑھی جاتی ہے۔‬

‫نماز ا ّوابین‬

‫نماز مغرب کے فوراً بعد نماز اوابین پڑھی جاتی ہے اس کی کم از کم چھ رکعتیں ہوتی ہیں‬
‫۔ اور زیادہ سے زیادہ بیس رکعات ہیں ۔‬

‫نماز کے اوقات‬

‫دن اور رات میں پانچ نمازیں ہر عاقل بالغ مسلمان (مرد ہو عورت) پر فرض ہیں ۔‬

‫فجر (‪ )٢‬ظہر (‪ )٣‬عصر (‪ )٤‬مغرب (‪ )٥‬عشائ )‪(١‬‬


‫نماز صبح‪:‬۔ صبح کی نماز کا وقت صبح صادق سے شروع ہوتا ہے اور ٓافتاب کے نکلنے‬
‫تک رہتا ہے۔‬

‫صبح صادق کی تعریف‪:‬۔ صبح صادق اس سفیدی کو کہتے ہیں جو ٓاسمان کے کنارہ پر‬
‫چوڑائی میں شماالً جنوبا ً پھیلتی ہے اس سے پہلے صبح کاذب ہتی ہے ۔ جو تھوڑی دیر‬
‫کے لئے طوالً (لمبائی) شرقا ً غربا ً ظاہر ہوتی ہے۔ اس کے بعد اندھیرا ہوجاتا ہے۔ صبح‬
‫کاذب میں نماز اور روزے کا وقت نہیں ہے۔ صبح کی نماز کا مستحب وقت یہ ہے کہ‬
‫فلش اندھیرے میں شروع کی جائے اور اسفار سفیدی تک ختم کی جائے۔‬

‫نماز ظہر‪:‬۔ ظہر کی نماز کا وقت زوال ٓافتاب کے بعد سے شروع ہوتا ہے اور سایہ کے دو‬
‫مثل ہونے تک رہتا ہے لیکن یہ بات یاد رہے کہ اصلی سایہ کو چھوڑ کر ہر چیز کا سایہ‬
‫دو مثل نا پا جائے۔‬

‫سایہ اصلی کی تعریف‪:‬۔ اس کو کہتے ہیں جو عین استوار کے وقت ہر چیز کا رہتا ہے۔‬
‫ظہر کی نماز سردیوں میں جلدی اور گرمیوں میں تاخیر کر کے پڑھی جائے۔‬

‫نماز عصر‪̃:‬۔ نماز عصر کا وقت ظہر کا وقت نکلنے کے بعد شروع ہوتا ہے اور غروب‬
‫ٓافتاب تک رہتا ہے۔‬

‫نماز مغرب‪:‬۔ غروب ٓافتاب سے شروع ہوتا ہے اور شفق کے غائب ہونے تک رہتا ہے۔ امام‬
‫اعظم ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک مشفق اس سفیدی کا نام ہے جو سرخی کے غائب ہونے کے‬
‫بعد پیدا ہوتی ہے۔ امام صاحب ؒ کے نزدیک مغرب کا وقت اسی وقت تک رہتا ہے۔ اور اسی‬
‫قول میں زیادہ احتیاط ہے۔‬
‫نماز عشائ‪:‬۔ اس شفق سے چھپنے سے شروع ہوتا ہے اور صبح صادق تک رہتا ہے۔‬
‫وتروں کا وقت بھی یہی ہے۔‬

‫شرائط نماز‬

‫شرائط نماز کی دو قسمیں ہیں ‪ )١( :‬نماز کا فرض ہونا۔ (‪ )٢‬نماز کا صحیح ہونا۔ نماز کے‬
‫فرض ہونے کے لئے مندرجہ ذیل شرائط ہیں ‪:‬۔‬

‫مسلمان ہونا‪ ،‬کافر ‪ ،‬مرتد اور ہر قسم کے غیر مسلم پر نماز فرض نہیں ہے۔‪(١)\t‬‬

‫عقل کا صحیح ہونا‪ ،‬عقل کی صحت بھی نماز کے لئے شرط ہے مجنون (دیوانہ) پر ‪(٢)\t‬‬
‫نماز فرض نہیں ہے۔‬

‫بالغ ہونا‪ ،‬نماز کے لئے بالغ ہونا شرط ہے۔ نابالغ بچہ بچی پر نماز فرض نہیں ۔‪(٣)\t‬‬

‫وقت کا پایا جانا‪ ،‬نامز کی ادائیگی کے لئے اسی نماز کا وقت ہونا ضروری ہے اگر ‪(٤) \t‬‬
‫وقت نہیں تو نماز کسی پر واجب نہیں ہوتی۔‬

‫ف‪:‬۔ شرائط باال سے ثابت ہوا کہ مسلمان عاقل بالغ مرد اور عورت پر کتاب و سنت اور‬
‫اجماع کی رو سے اوقات مقررہ مذکورہ میں نماز کا ادا کرنا فرض عین ہے۔ یہاں تک کہ‬
‫اس کا تارک منکر کافر ہے ۔ جیسے حضور ؐ کا فرمان ہے۔‬
‫ترجمہ‪ ’’ :‬جس نے نماز جان بوجھ کر چھوڑی وہ کافر ہو گیا ‘‘ ۔ اور تارک غیر منکر‬
‫اعلی درجہ کا فاسق ہے۔‬
‫ٰ‬

‫احناف کے نزدیک فاسق ایک وقت کی نماز چھوڑنے پر قید کیا جائے گا۔ جب تک کہ ‪\t‬‬
‫ٰ‬
‫صلوۃ کو قتل کردیا جائے ۔ بال عذر شرعی کسی‬ ‫توبہ نہ کرے۔ باقی ٓائمہ کے نزدیک تارک‬
‫طرح نماز چھوڑنے کی گنجائش نہیں عذر شرعی یہ ہیں ‪:‬۔ حیض‪ ،‬نفاس‪ ،‬بیہوشی‪ ،‬غشی ‪،‬‬
‫نسیان‪ ،‬دیوانگی‪ ،‬نیند۔‬

‫نماز کے صحیح ہونے کی شرائط‬

‫نمازی کے بدن کا نجاست غلیظ اور نجاست خفیفہ سے پاک ہونا۔‪(١)\t‬‬

‫نمازی کے کپڑوں کا پاک ہونا۔‪(٢)\t‬‬

‫نماز کی جگہ کا پاک ہونا۔‪(٣)\t‬‬

‫شرمگاہ کا چھپانا‪ :‬مردوں کو ناف کے نیچے سے گھٹنوں تک اور عورت ٓازاد بالغہ‪(٤)\t‬‬
‫کو تمام بدن سوائے چہرہ‪ ،‬دونوں ہتھیلیوں اور اور دونوں قدموں کے لونڈیوں کو پیٹ‬
‫اور زانو تک ۔‬

‫نماز میں قبلہ کی طرف منہ کرنا۔‪(٥)\t‬‬

‫نیت‪ ،‬نماز کا ارادہ خالص ہللا کے واسطے کرنا۔‪(٦)\t‬‬


‫ارکان (فرائض نماز)‬

‫بمعنی فرض ہے۔ رکن اس کو کہتے ہیں ۔ جن کی ادائیگی میں‬


‫ٰ‬ ‫رکن کی تعریف‪:‬۔ رکن‬
‫ضروری ہو۔ اگر کوئی رکن نماز ترک (چھوٹ) ہو جائے تو نماز باطل ہو جائے گی ‪،‬‬
‫ارکان یہ ہیں ‪:‬۔‬

‫تکبیر تحریمہ ؛ نماز شروع کرتے وات ہللا اکبر کہنا۔‪(١)\t‬‬

‫قیام ؛ سیدھا کھڑا ہونا۔ اس طرح کہ اگر ہاتھ چھوڑ دئیے جائیں تو گھٹنوں پر نہ پہنچ‪(٢)\t‬‬
‫سکیں اگر گھٹنوں پر پہنچ جائیں تو قیام ادا نہ ہوگا۔‬

‫قرٔات؛ قرٓان کی ایک بڑی ٓایت یا تین ٓایتیں پڑھنا مطلق قرٔات فرض ہے۔‪(٣)\t‬‬

‫رکوع؛ اس قدر جھکنا کہ اگر دونوں ہاتھ پھیالدے تو زانو پکڑ ے ہوئے ورنہ ‪؎(٤)\t‬‬
‫رکوع نہ ہوگا۔ اور بیٹھ کر رکوع کرنے میں پیشانی مقابل زانو ہو۔‬

‫سجدہ؛ ناک اور پیشانی دونوں زمین پر رکھے اور پائوں کی انگلیوں میں سے ایک‪(٥)\t‬‬
‫انگلی کاٹکا رہنا بھی شرط سجدہ ہے۔ اگر ایک انگلی نہ ٹکی رہی اور دونوں پائوں سجدہ‬
‫میں اٹھ جائیں تو سجدہ نہ ہوگا۔‬

‫قعدہ اخیرہ؛ بقدر تشہد اخیر نماز میں بیٹھنا۔‪(٦)\t‬‬


‫واجبات نماز‬

‫فرض نمازوں کی پہلی دو رکعتوں میں قرٔات معین کرنا۔‪(١)\t‬‬

‫سورۃ فاتحہ کا پڑھنا۔‪(٢)\t‬‬

‫سورۃ فاتحہ کا سورۃ سے پہلے پڑھنا ‪ ،‬نیز فاتحہ کے ساتھ کسی سورۃ کا مالنا۔‪(٣)\t‬‬

‫فرض نمازوں کی پہلی دو رکعتوں میں واجب سنتوں اور نوافل کی تمام رکعتوں ‪(٤)\t‬‬
‫میں سورۃ فاتحہ کے بعد کوئی سورۃ مالنا۔‬

‫قومہ کرنا‪ ،‬یعنی رکع سے اٹھ کر سیدھا کھڑا ہونا۔‪(٥)\t‬‬

‫جلسہ‪ ،‬یعنی دونوں سجدوں کے درمیان سیدھا بیٹھنا۔‪(٦)\t‬‬

‫تعدیل ارکان؛ یعنی اعضائ کا رکوع سجود قومہ اور جلسہ میں بقدر سبحان ہللا کہنے‪(٧)\t‬‬
‫کے ساکن کرنا۔ یعنی اطمنان سے ادا کرنا۔‬

‫امام کو جہری نمازوں میں مثل فجر‪ ،‬مغرب ‪ ،‬عشائ ‪ ،‬جمعہ ‪ ،‬عیدین ‪ ،‬تراویح اور ‪(٨)\t‬‬
‫رمضان شریف کے وتروں میں پکار کر پحنا اور عصر و ظہر نمازوں میں ٓاہستہ پڑھنا۔‬
‫پہال قعدہ میں تین تین یا چار رکعت والی نماز میں خواہ نسف ہو ہو نشد کی مقدار ‪(٩)\t‬‬
‫بیٹھنا۔‬

‫دونوں قعدوں میں تشہد یعنی التحیات پڑھنا۔‪(٠١)\t‬‬

‫لفظ السالم علیکم ورحمۃ ہللا کے ساتھ نماز سے نکلنا۔‪(١١)\t‬‬

‫نماز وتر میں تکبیر قنوت کہنا اور دعائ قنوت پڑھنا۔‪(٢١)\t‬‬

‫تکبیرات عیدین کہنا۔‪(٣١)\t‬‬

‫مقتدی کا قرٔاۃ سے خاموش رہنا۔‪(٤١)\t‬‬

‫مقتدی کو امام کی تابعداری کرنا۔‪(٥١)\t‬‬

‫سجدہ تالوت۔‪(٦١)\t‬‬

‫رعایت ترتیب یعنی ارکان میں ترتیب قائم رکھنا۔‪(٧١)\t‬‬

‫نوٹ‪:‬۔ اگر کوئی واجب نماز میں ترک ہوجائے تو سجدہ سہو کا کرنا ضروری ہے ورنہ‬
‫نماز نہیں ہوگی۔‬
‫نمازی کے لئے قرٔاۃ رکوع‪ ،‬سجود میں ترتیب کو قائم رکھنا بھی واجب ہے پہلے قیام پھر‪\t‬‬
‫تحریمہ پھر قرٔات پھر رکوع پھر سجدہ اور ٓاخر میں قعدہ ۔‬

‫مسئلہ‪:‬۔ اگر رکوع مکرر کیا یا تین سجدے کر لئے یا پہلے تشہد کے بعد درود شریف پڑھ‬
‫لیا جس کی وجہ سے تیسری رکعت کے قیام میں تاخیر ہوگی تو سجدہ سہو الزم ٓائے گا۔‬

‫سجدہ سہو‬

‫سہو کے معنی بھولنے کے ہیں ۔ بعض اوقات بھول کر نماز میں کمی یا زیادہ ہوجاتی ہے‬
‫اگر واجبات نماز میں سے کمی یا زیادتی بھول کر ہوجائے و سجدہ سہو کیا جاتا ہے۔‬

‫سجدہ سہو کا طریقہ یہ ہے کہ ٓاکری قعدہ میں التحیات پڑھنے کے بعد ایک طرف سالم ‪\t‬‬
‫پھیر کر تکبیر اور لگاتار نماز کے سجدوں کی طرح دو سجدے کرے پھر دوبارہ التحیات‬
‫درود شریف اور دعا پڑھ کر سالم پھیر دے‪ ،‬اگر سجدہ سہو سے پہلے التحیات کے ساتھ‬
‫درود شریف پڑھ لے تب بھی جائز ہے اگر کوئی دونوں طرف سالم پھیر کر پھر سجدہ‬
‫سہو کرے تب بھی جائز ہے بشرطیکہ سینہ قبلہ کی طرف سے نہ پھرا ہو اور نہ کوئی بات‬
‫چیت کی ہو۔‬

‫کن کن صورتوں میں سجدہ سہو واجب ہوتا ہے‬

‫جب کوئی نمازی سہواً سورۃ فاتحہ پڑھنا بھول جائے۔‪(١)\t‬‬


‫وتر نماز میں کوئی نمازی دعائے قنوت بھول جائے۔‪(٢)\t‬‬

‫جب کوئی نمازی تشہد میں بیٹھنا بھول جائے اس تشہد سے مراد درمیانی تشہد ہے ‪(٣)\t‬‬
‫کیونکہ تین یا چار رکعت کی نماز کا درمیانی تشہد واجب ہے۔ یا درمیانی تشہد کے بعد‬
‫علی محمد پڑھ لے یا اتنی دی خاموش بیٹھا رہے تو سجدہ سہو واجب‬‫درود بمقدار اللہم صل ٰ‬
‫ہے۔‬

‫جب کوئی عیدین کی تکبیر چھوڑ دے تب بھی سجدہ سہو کرنا واجب ہے ۔‪(٤)\t‬‬

‫جب کوئی امام جہری نمازوں میں اخفائ کر جائے اور اخفا والی نمازوں قرٔات جہر‪(٥)\t‬‬
‫کے ساتھ پڑھ جائے تو سجدہ سہو واجب ہوتا ہے۔‬

‫جب کوئی نماز رکن نماز مکرر یعنی دو مرتبہ کرجائے مثالً دو رکوع کرے یا تین ‪(٦)\t‬‬
‫سجدے تو سجدہ سہو واجب ہے۔‬

‫جب کسی واجب کی کیفیت بدل جائے تو سجدہ سہو کرے۔ مثالً سورۃ فاتحہ سے پہلے ‪(٧)\t‬‬
‫سورۃ پڑھ جائے۔‬

‫جب کسی نمازی تعداد رکعات میں شبہ لگ جائے تو وہ کم از کم مقدار جو یقینی ہے ‪(٨)\t‬‬
‫اسے اصل قرار دے کر باقی نماز مکمل کرے اور ٓاخر میں سجدہ سہو کرے۔ بشر طیکہ‬
‫اکثر ایسا ہوتا ہو ورنہ نئے سرے سے نماز پڑھے۔ اگر کوئی نمازی چوتھی رکعت کا قعدہ‬
‫کرے پھر پانچویں کے لئے اٹھ پڑا اور سالم نہ پھیرا اور اسے پہال قعدہ خیال کیا مگر بعد‬
‫میں یاد ٓاگیا تو نمازی کو چاہیے کہ پانچویں رکعت کو سجدہ کے ساتھ مال دیا تو اس کے‬
‫ساتھ ایک رکعت اور مال دے اس طرح نماز پوری ہوگی۔ اخیر میں سجدہ سہو کرے چار‬
‫رکعات فرض ہوجائیں گے اور دو رکعات نفل ہوجائے گی۔‬
‫نوٹ‪:‬۔ سجدہ سہو سے ایک بہت بڑی سہولت یہ ہے کہ اس سے نمازی اپنی نماز کی کمی‬
‫اور زیادتی کی اصالح اور درستی کرلیتا ہے۔ اس طرح نماز کے نقص کی تالفی ہوجاتی‬
‫ہے۔ شیطان جو مسلمانوں کو نماز میں بہکاتا ہے اور بھول کرادیتا ہے اس کے اوپر لعت‬
‫اور پھٹکار بھیجنے کا طریقہ یہ ہے۔ اس طرح مسالمان نمازی اپنے رب کے سامنے اور‬
‫مزید دو سجدے کر لیتا ہے۔ جو شیطان کی ناراضگی اور خفت کا سبب بنتا ہے وہ اپنے‬
‫مشن میں ناکام اور رسوا ہوتا ہے۔ خدا ان سجدوں کی بدولت نماز کی کمی اور بھول‬
‫چوک کو معاف کردیتا ہے۔‬

‫سنن نماز‬

‫نماز کی سنتیں یہ ہیں ‪:‬۔‬

‫تکبیر تحریمہ کہنے سے پہلے دونوں ہاتھوں کا کانوں تک اٹھانا۔‪(١)\t‬‬

‫تکبیر کے وقت دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کا رخ قبلہ کی طرف رکھنا اور انگلیوں ‪(٢)\t‬‬
‫کا کشادہ ہونا۔‬

‫امام کا تکبیر تحریمہ اور ایک رکن سے دوسرے میں جانے کی تمام تکبیریں بقدر ‪(٣)\t‬‬
‫حاجت بلند ٓاواز سے کہنا۔‬

‫دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے اوپر ناف کے نیچے بادھنا مرد کے لئے ہاتھوں کو ناف‪(٤)\t‬‬
‫کی نیچے رکھنا اور عورت کےلئے سینہ پر رکھنا۔‬
‫ثنائ پڑھنا۔‪(٥)\t‬‬

‫تعوذ پڑھنا۔‪(٦)\t‬‬

‫تسمیہ پڑھنا۔‪(٧)\t‬‬

‫فرض کی پچھلی دونوں رکعتوں میں سورۃ فاتحہ پڑھنا۔‪(٨)\t‬‬

‫ٓامین کہنا۔‪(٩)\t‬‬

‫ثنائ تعوذ تسمیہ اور امین کو ٓاہستہ کہنا ۔‪(٠١) \t‬‬

‫قرٔات میں مسنونہ پڑھنا۔‪(١١)\t‬‬

‫رکوع میں تسبیح سبحان ربی العظیمن تین بار کہنا۔‪(٢١)\t‬‬

‫رکوع میں دونوں گھٹنوں کو ہاتھوں کی کشادہ انگلیوں سے پکڑنا۔‪(٣١)\t‬‬

‫امام کو سمیع ہللا لمن حمدہ کہنا اور مقتدی کو ربنا لک الحمد کہنا۔ منفر د کو دونوں ‪(٤١)\t‬‬
‫کہنا۔‬
‫سجدوں میں دونوں ہاتھوں اور دونوں گھٹنوں کا پیشانی سے پہلے رکھنا اور ‪(٥١)\t‬‬
‫ہاتھوں کی انگلیاں ملی ہوئی قبلہ رخ رکھنا۔‬

‫االعلی پڑھنا۔‪(٦١)\t‬‬
‫ٰ‬ ‫سجدوں میں تین بار سبحان ربی‬

‫جلسہ اور تشہد میں داہنا پائوں کھڑا رکھنا اور بایاں پائوں بچھانا۔‪(٧١)\t‬‬

‫ہر جلسہ اور تشہد میں دونوں ہاتھ رانوں پر رکھنا۔‪(٨١)\t‬‬

‫قعدہ اخیرہ میں درود شریف پڑھنا اور دعا پڑھنا۔‪(٩١)\t‬‬

‫سالم کے وقت منہ دائیں طرف پھیرنا۔‪(٠٢)\t‬‬

‫ان لفظوں سے سالم پھیرنا السالم علیم ورحمۃ ہللا‪(١٢)\t‬‬

‫مستحبات نماز‬

‫مرد کو تکبیر تحریمہ کے وقت دونوں ہاتھ ٓاستینوں سے باہر نکال لینا اور عورتیں ‪(١)\t‬‬
‫اندر ہی رکھیں ۔‬

‫منفرد کو رکوع اور سجدہ میں تین بار سے زیادہ تسبیح کہنا۔‪(٢)\t‬‬
‫قیام کے وقت نگاہ کا سجدہ گاہ پر رکھنا اور رکوع میں دونوں پائوں کی پیٹھ پر ‪(٣)\t‬‬
‫سجدہ میں ناک کے سرے پر اور قعدہ میں اپنی گو د پر۔ پہلے سالم میں اپنے داہنے‬
‫کندھے پر اور دوسرے سالم میں بائیں کندھے پر نظر رکھنا۔‬

‫جمائی کے وقت منہ بند رکھنا۔ قیام کی حالت میں دائیں ہاتھ کی پشت سے باقی ‪(٤)\t‬‬
‫حالتوں میں بائیں ہاتھ کی پشت سے یا ٓاستین سے منہ بند کرنا۔‬

‫جہاں تک ہو سکے کھانسی کو روکے رکھنا۔‪( ٥)\t‬‬

‫مفسدات نماز‬

‫نماز کو توڑنے والی اشیائ مندرجہ ذیل ہیں ‪:‬۔‬

‫نماز میں کالم کرنا خواہ قصداً ہو یا تھوڑا ہو یا بہت ہر صورت میں نما ٹوٹ جاتی ‪(١)\t‬‬
‫ہے۔‬

‫سالم تحیۃً کرنا خواہ قصداً ہو یا سہواً ہر صورت میں نماز ٹوٹ جاتی ہے۔‪(٢)\t‬‬

‫سالم کا جواب دینا یا چھینکنے والے کو یر حمک ہللا کہنا یا نماز سے باہر والے کسی‪(٣)\t‬‬
‫شخص کی دعا پر ٓامین کہنا۔‬
‫بری خبر کے جواب میں انا لل وانا الیہ راجعون پڑھنا‪ ،‬خوشی کی خبر میں الحمد ہلل‪(٤)\t‬‬
‫پڑھنا کسی عجیب خبر پر سبحا ہللا یا الل الہ اال ہللا کہنا۔‬

‫سوائے اپنے امام کے کسی اور امام کو نماز میں لقمہ دینا۔‪(٥)\t‬‬

‫نماز میں ایسی چیز مانگنا جو لوگوں سے مانگتے ہو مثالً یا ٰالہی عورت سے میرا ‪(٦)\t‬‬
‫نکاح کردے یا مجھ کو ہزار روپیہ دے دے۔‬

‫بیماری یا درد و رنج کی وجہ سے ٓاہ یا اوہ یا اف کہنا۔‪(٧)\t‬‬

‫قرٓان شریف نماز میں دیکھ کر پڑھنا۔‪(٨)\t‬‬

‫قرٓان شریف پڑھنے میں کوئی سخت غلطی کرنا۔‪(٩)\t‬‬

‫عمل کثیر کرنا یا کوئی ایسا کام کرنا جس سے دیکھنے والے یہ سمجھیں یہ شخص‪(٠١)\t‬‬
‫نماز نہیں پڑھ رہاہے۔‬

‫قصداً یا بھول کر کھا نا پینا۔‪(١١)\t‬‬

‫بال عذر قبلہ کی طرف سے سینا پھیر لینا۔‪(٢١)\t‬‬

‫دو صفوں کی مقدار کے برار چلنا۔‪(٣١)\t‬‬


‫امام سے ٓاگے بڑھ جانا۔‪(٤١)\t‬‬

‫تین کلموں کی مقدار نماز لکھنا۔‪(٥١)\t‬‬

‫درد اور مصیبت سے رونا۔‪(٦١)\t‬‬

‫بالغ کا نماز میں پکار کر ہنسنا۔‪(٧١)\t‬‬

‫ناپاک جگہ پر سجدہ کرنا۔‪(٨١)\t‬‬

‫ستر کھل جانے ککی حالت میں ایک رکن کی مقدار ٹہرنا۔‪(٩١)\t‬‬

‫مکروہات نماز‬

‫سول یعنی کپڑے کو لٹکانا۔ مثالً چادر سر پر ڈال کر دونوں کنارے لٹکا دینا۔‪(١)\t‬‬

‫کپڑوں کو مٹی سے بچانے کے لئے ہاتھ سے روکنا بچانا۔‪(٢)\t‬‬

‫اپنے کپڑے یا بدن سے کھیلنا۔‪(٣)\t‬‬


‫معمولی کپڑوں میں جنہیں پہن کر مجمع میں جانا پسند نہیں کرتا نماز پڑھنا ‪(٤)\t‬‬
‫مکروہ ہے۔‬

‫منہ میں روپیہ یا پیسہ یا کوئی ایسی چیز رکھ کر نماز پڑھنا۔‪(٥)\t‬‬

‫سستی اور بے پرواہی کی وجہ سے ننگے سر نماز پڑھنا۔‪(٦)\t‬‬

‫پاخانہ یا پیشاب کی حالت ہونے کی حالت میں نماز پڑھنا۔‪(٧)\t‬‬

‫بالوں کو سر پر جمع کر کے چٹال باندھنا۔‪( ٨)\t‬‬

‫کنکریوں کو ہٹانا لیکن اگر سجدہ کرنا مشکل ہوتو ایک مرتبہ ہٹانے میں مضائقہ ‪(٩)\t‬‬
‫نہیں ۔‬

‫انگلیاں چٹخانہ یا ایک ہاتھ کی انگلی دوسرے ہاتھ کی انگلیوں˜ میں ڈالنا۔‪(٠١)\t‬‬

‫کمر یا کوکھ یا کولھے پر ہاتھ رکھنا۔‪(١١)\t‬‬

‫قبلہ کی طرف سے منہ پھیر کر یا صرف نگاہ سے ادھر ادھر دیکھنا۔‪(٢١)\t‬‬

‫کتے کی طرح بیٹھنا یعنی رانیں کھڑی کر کے بیٹھنا اور رانوں پیٹ سے اور ‪(٣١)\t‬‬
‫گھٹنوں کو سینے سے مال لینا۔ اور ہاتھوں کو زمین پر رکھ لینا۔‬
‫کسی ایسے ٓادمی کی طرف نماز پڑھنا جو نمازی کی طرف منہ کئے ہوئے بیٹھا ہو۔‪(٤١)\t‬‬

‫سجدے میں دونوں کالئیوں کو زمین پر بچھا لینا مرد کیلئے مکروہ ہے۔‪(٥١)\t‬‬

‫ہاتھ یا ست کے اشارے سے سالم کا جواب دینا۔‪(٦١)\t‬‬

‫بال عذر چار زانو (ٓالتی پالتی) مار کر بیٹھنا۔‪(٧١)\t‬‬

‫قصداً جمائی لینا یا روک سکنے کی صورت میں نہ روکنا۔‪(٨١)\t‬‬

‫ٓانکھوں کو بند کرنا لیکن اگر نماز میں دل لگنے کے لئے بند کرے تو مکروہ ‪(٩١)\t‬‬
‫نہیں ۔‬

‫امام کا محراب کے اندر کھڑا ہونا لیکن قدم اگر محراب کے باہر ہوں تو مکروہ ‪(٠٢)\t‬‬
‫نہیں ۔‬

‫اکیلے امام کا ایک ہاتھ اونچی جگہ پر کھڑا ہونا اور اگر اس کے ساتھ مقتدی ہوں ‪(١٢)\t‬‬
‫تو مکروہ نہیں ۔‬

‫ایسی صف کے پیچے کھڑے ہونا جس میں خالی جگہ ہو۔‪(٢٢)\t‬‬


‫کسی جاندار کی تصویر والے کپڑے پہن کر نماز پڑھنا۔‪(٣٢)\t‬‬

‫ایسی جگہ نماز پڑھنا کہ نماز کے سر کے اوپر یاس اس کے سامنے یا دائیں بائیں ‪(٤٢)\t‬‬
‫طرف یا سجدے کی جگہ تصویر ہو۔‬

‫ٓایتیں ‪ ،‬سورتیں یا تسبیحیں انگلیوں پر شمار کرنا مکروہ ہے۔‪(٥٢ )\t‬‬

‫چادر یا کوئی اور کپڑا ایسی طرف لپیٹ کر نماز پڑھنا کہ جلدی سے ہاتھ نہ کل ‪(٦٢)\t‬‬
‫سکیں ۔‬

‫نماز میں انگڑائی لینا یعنی سستی اتارنا۔‪(٧٢)\t‬‬

‫عمامہ کے پیچ پر سجدہ کرنا۔‪(٨٢)\t‬‬

‫سنت کے خالف نماز میں کوئی کام کرنا۔‪(٩٢)\t‬‬

‫سترہ‬

‫سترہ کی تعریف‪̃:‬۔ جب کوئی جنگل میں یا لوگوں کی گذرگاہ پر نماز پڑھنے کے لئے‬
‫کھڑا ہو تو اپنے من کے سامنے کوئی چیز یا لکڑی کھڑی کرے۔ اس کے بعد اگر کوئی‬
‫ٓاگے سے گذرے گا تو نماز میں کوئی خلل نہ ٓائے گا اسے سترہ کہتے ہیں ۔ سترہ کی‬
‫لمبائی کم از کم ایک ہاتھ ہونی چاہیے۔‬
‫اگر ایسے مقام پر نماز باجماعت ہو رہی ہو تو صرف امام کے سامنے سترہ کافی ہے ‪(٢)\t‬‬
‫وہ مقتدیوں کا بھی تصور ہوگا۔‬

‫نمازی کے سامنے دیوار یا درخت یا اونٹ ہو تو وہ بھی سترہ ہے۔‪(٣)\t‬‬

‫نمازی کے ٓاگے سے گذرنا سخت گناہ ہے۔ حدیث شریف میں ٓایا ہے کہ اگر نمازی ‪(٤)\t‬‬
‫کے سامنے سے گذرنے والے کو اس کی برائی یا گناہ کا معلوم ہوجائے تو سو برس تو‬
‫رکا رہے اور ٓاگے سے نہ گذرے۔‬

‫سامنے کے فاصلے میں علمائ کا اختالف ہے۔ بہر حال صحیح مذہب یہ ہے کہ نماز کے‪\t‬‬
‫سجدے کی جگہ سے نہ گذرے اگر کوئی شخس نمازی کے سجدے سے گذرے تو نمازی‬
‫کو چاہیے کہ اسے ایک ہارھ سے روک دے۔‬

‫ممنوع اوقات‬

‫مندرجہ ذیل اوقات میں نماز پڑھنا ممنوع ہے۔‬

‫استوا کے وقت ۔‪(١)\t‬‬

‫طلوع ٓافتاب کے وقت۔‪(٢)\t‬‬


‫غروب ٓافتاب کے وقت۔‪(٣)\t‬‬

‫نماز عصر کے بعد سنت و نفل پڑھنا۔‪(٤)\t‬‬

‫صبح صادق کے بعد نماز فجر سے قبل نوافل پڑھنا۔‪(٥)\t‬‬

‫عید کے دن نماز عید سے پہلے اور طلوع ٓافتاب کے بعد۔‪(٦)\t‬‬

‫مکروہ مقامات‬

‫مندرجہ ذیل مقامات پر نماز پڑھنا مکروہ ہے۔‬

‫قبرستان‪(١)\t‬‬

‫شارع عام‪(٢)\t‬‬

‫کوڑا کباڑ پھینکنے کی جگہ‪(٣)\t‬‬

‫مویشی خانہ‪(٤)\t‬‬

‫مذبح یعنی جانوروں کے ذبح کرنے کی جگہ‪(٥)\t‬‬


‫حمام یعنی غسل خانہ‪(٦)\t‬‬

‫اصطبل یعنی گھوڑوں کی جگہ‪(٧)\t‬‬

‫بیت الخالئ‪(٨)\t‬‬

‫جمعہ کی نماز‬

‫جمعہ کی نماز فرض ہے۔ یہ ظہر کے قائم مقام ہے۔ جمعہ کے دن ظہر کی نماز نہیں ‪\t‬‬
‫ہے۔ جمعہ کی نماز ہر ٓازاد عاقل بالغ تندرست اور مقیم مردوں پر فرض ہے۔ جمعہ کی‬
‫نماز کے فرض دور رکعت ہیں جو باجماعت ادا کئے جاتے ہیں ۔ اگر جماعت ہوچکے تو‬
‫پھر ظہر ہی کی نماز ادا کے جائے جمعہ سے پہلے امام دو خطبے پڑھے۔‬

‫خطبہ پڑھنا اور سننا واجب ہے۔ حضور صلی ہللا علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جمعہ سب ‪\t‬‬
‫دنوں سے افضل ہے اسی روز حضرت ٓادم علیہ السالم پیدا ہوئے۔ اسی روز جنت میں‬
‫گئے اسی رواز وہاں سے نکلے۔ اسی دن قیامت ہوگی۔ ہر ٓاٹھویں روز جمعہ ہوتا ہے۔ تمام‬
‫مسلمان اسی روز مساجد کبیرہ میں اکھٹے ہوتے ہیں اور جمعہ کی نماز پڑھتے ہیں ۔‬

‫ٰ‬
‫نصاری کو بھی جمعہ کا روز ‪\t‬‬ ‫حضور پاک صلی ہللا علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ یہود اور‬
‫دیا گیا لیکن انہوں نے تغیر و تبدیل کر کے ہفتہ اور اتوار کو منتخب کیا۔ لیکن ہم نے جمعہ‬
‫کو منتخب کر کے فضیلت حاصل کر لی۔ اس لئے جمعہ کے روز تمام مسلمانوں کو اہتمام‬
‫کر کے نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے جامع مسجد میں پہنچانا چاہیے۔‬

‫جمعہ کے روز مندرجہ ذیل اشیائ مسنون ہیں ‪:‬۔‪\t‬‬

‫غسل کرنا‪ :‬جمعہ کے روز اور خصوصا ً نماز جمعہ کے لئے غسل کرنا سنت ہے۔‪(١)\t‬‬

‫لباس ‪ :‬نیا دھال ہوا صاف ستھرا لباس پہننا مسنون ہے۔‪(٢)\t‬‬

‫خوشبواستعمال کرنا مسنون ہے۔‪(٣)\t‬‬

‫مسواک کرنا۔‪(٤)\t‬‬

‫ناخن تراشنا ‪ ،‬بال وغیرہ صاف کرنا مسنون ہے۔ افضل یہ ہے کہ جمعہ کی نماز سے ‪(٥)\t‬‬
‫قبل بال وغیرہ صاف کرے اور ناخن تراش لے۔‬

‫اذان کے بعد تمام کاروبار چھوڑ کر جمعہ پر پہنچنا۔‪(٦)\t‬‬

‫جمعہ کا وقت وہی ہے جو نماز ظہر کا وقت ہے سردیوں میں جلدی اور گرمیوں ‪(٧)\t‬‬
‫میں دن ٹھنڈا کر کے نماز پڑھنا چاہیے۔‬

‫عیدین کی نماز‬
‫شوال کے مہینے کی پہلے تاریخ کو عید الفطر اور ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو عید ‪\t‬‬
‫الضحی کہتے ہیں ۔ یہ دونوں دن اسالم میں عید اور خوشی کے ہیں ۔ ان دونوں دنوں‬
‫ٰ‬
‫میں دو رکعت نماز بطور شمریہ کے پڑھنا واجب ہے۔ جمعہ کی نماز کی جو شرائط ہیں‬
‫وہی سب عیدین کی نماز میں بھی ہیں ۔ سوائے خطبہ کے کہ جمعہ کی نماز میں خطبہ‬
‫فرض اور شرط ہے اور نماز سے پہلے پڑھا جاتا ہے اور عیدین کی نماز میں فرض نہیں‬
‫سنت ہے اور نماز کے بعد پڑھا جاتا ہے۔‬

‫مگر عیدین کا خطبہ سننا بھی جمعہ کے خطبہ کی طرح واجب ہے یعنی اس وقت بولنا ‪\t‬‬
‫نماز پڑھنا وغیرہ سب حرام ہے۔‬

‫عیدالفطر کے دن جو چیزیں مسنون ہیں ‪:‬۔‬

‫شرع کے موافق ٓارائش کرنا۔‪(١)\t‬‬

‫غسل کرنا۔‪(٢)\t‬‬

‫مسواک کرنا۔‪(٣)\t‬‬

‫عمدہ سے عمدہ کپڑے جو پاس ہوں پہننا۔‪(٤)\t‬‬

‫اپنے جسم پر خوشبو لگانا ۔‪(٥)\t‬‬


‫صبح کو بہت سویرے اٹھنا۔‪(٦)\t‬‬

‫عید گاہ میں بہت سویرے جانا۔‪(٧)\t‬‬

‫نماز سے پہلے کوئی شیرینی چیز مثل چھوہارے وغیرہ کھانا۔‪(٨)\t‬‬

‫عیدگاہ جانے سے پہلے صدقہ دے دینا۔‪(٩)\t‬‬

‫زیادہ کھانا پکوا کر فقیروں اور پڑوسیوں کو تقسیم کرنا۔‪(٠١)\t‬‬

‫عید کی نماز عید گاہ میں جا کر پڑھنا۔‪(١١)\t‬‬

‫عید گاہ میں نماز کے ٓاداب کا خیال رکھنا۔‪(٢١)\t‬‬

‫راستہ تبدیل کرنا یعنی جس راستے سے عید گاہ کی طرف جائے اس سے نہ ٓائے ‪(٣١)\t‬‬
‫بلکہ دوسرے راستہ سے واپس ٓانا۔‬

‫راستہ میں تکبیر ٓاہستہ ٓاہستہ کہنا۔ تکبیر کے الفاظ یہ ہیں ۔‪(٤١)\t‬‬
‫عید الفطر کی نماز پڑھنے کا طریقہ اور نیت‬

‫نیت‪:‬۔‬

‫ترجمہ‪:‬۔ ’’ میں نیت کرتا ہوں دو رکعت نماز عید الفطر واجب ساتھ چھ تکبیریں زاید‬
‫تعالی کی ‘‘ ہللا اکبر یہ نیت کر کے ہاتھ باندھ‬
‫ٰ‬ ‫واجبہ کے منہ طرف کعبہ شریف بندگی خدا‬
‫لے اور ثنا یعنی سبحانک ٰ‬
‫اللھم ۔۔۔ پڑھ کر تین مرتبہ ہللا اکبر کہے اور ہر مرتبہ مثل تکبیر‬
‫تحریمہ کے دونوں ہاتھ اٹھا کر دونوں کانوں کی لو تک لے جائے اور بعد تکبیر کے ہاتھ‬
‫لٹکا دے۔ اور ہر تکبیر کے بعد اتنی دیر تک توقف کرے کہ تین مرتبہ سبحان ہللا کہہ سکیں‬
‫۔ تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ نہ لٹکائے بلکہ ہاتھ باندھ لے۔ تعوذ اور تسمیہ پڑھ کر سورۃ‬
‫فاتحہ اور کوئی دوسری سورۃ پڑھ کر حسب دستور رکوع سجود کر کے کھڑا ہو دوسری‬
‫رکعت میں پہلے سورۃ فاتحہ اور دوسری سورۃ پڑھ لے اس کے بعد تین تکبیریں اسی‬
‫طرح کہے لیکن یہاں تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ نہ باندھے بلکہ لٹکائے رکھے اور پھر‬
‫تکبیر کہہ کر رکوع میں جاوے۔ نماز کے بعد دو خطبے ممبر پر کھڑے ہو کر پڑھے۔‬
‫دونوں خطبوں کے درمیان اتنی دیر بیٹھے جتنی جمعہ کے خطبہ میں بیٹھا جاتا ہے۔‬

‫عیدالضحی کی نماز‬
‫ٰ‬

‫عیدالضحی کی نماز کا وہی طریقہ ہے جو عیدالفطر کی نماز کا ہے۔ اس میں بھی وہ سب‬
‫ٰ‬
‫عیدالضحی کی‬
‫ٰ‬ ‫چیزیں مسنون ہیں جو عید الفطر میں ہیں ۔ فرق صرف اس قدر ہے کہ‬
‫عیدالضحی کا لفظ داخل کرے۔ عیدالفطر میں عیدگاہ جانے‬
‫ٰ‬ ‫نیت میں بجائے عیدالفطر کے‬
‫عیدالضحی میں پہلے کوئی چیز کھانا‬
‫ٰ‬ ‫سے پہلے کوئی میٹھی چیز کھانا مسنون ہے۔ لیکن‬
‫مسنون نہیں ہے۔ عیدالفطر راستہ میں چلتے وقت ٓاہستہ تکبیر کہنا مسنون ہے اور‬
‫عیدالضحی میں بلند ٓاواز سے تکبیرکہنا مسنون ہے۔ عیدالفطر کی نماز دیر کر کے پڑھنا‬
‫ٰ‬
‫عیدالضحی میں صدقہ فطر‬
‫ٰ‬ ‫عیدالضحی کی نماز جلدی پحنا مسنون ہے ۔‬
‫ٰ‬ ‫مسنون ہے اور‬
‫نہیں بلکہ بعد میں قربانی ہے۔ اذان اور اقامت نہ یہاں ہے اور نہ وہاں ۔‬
‫فائدہ‪:‬۔ تکبیر تشریق نویں تاریخ(یوم عرفہ) کی فجر سے تیرھویں کی عصر تک ایک‬
‫مرتبہ ہر فرض نماز کے بعد کہنا واجب ہے۔ تکبیر تشریق یہ ہے‪:‬۔‬

‫مسئلہ‪:‬۔ اگر کوئی شخص کسی عید کی نماز میں ایسے وقت ٓاکر شریک ہوا ہو کہ امام‬
‫تکبیروں سے فراغت کرچکا ہو تو اگر قیام میں ٓاکر شریک ہوا ہو تو نیت کے فوراً بعد‬
‫تکبیریں کہہ لیں ۔ اگرچہ امام قرٔات شروع کرچکا ہو۔ اگر رکوع میں ٓاکر شریک ہوا ہو‬
‫اور غالب گمان ہو کہ تکبیروں کی فراغت کے بعد امام کا رکوع مل جائے گا تو نیت باندھ‬
‫کر تکبیریں کہہ لے۔ اس کے بعد رکوع میں جائے اگر رکوع نہ ملنے کا خوف ہو تو‬
‫رکوع میں شریک ہوجائے ۔ اور حالت رکوع میں بجائے تسبیح کے تکبیریخ کہہ لے۔‬
‫مگر حالت رکوع میں تکبیریں کہتے وقت ہاتھ نہ اٹھائے۔ اور اگر قبل اس کے پوری‬
‫تکبیریں کہہ چکے امام رکوع سے سر نہ اٹھالے۔ یہ بھی کھڑا ہوجائے جس قدر تکبیریں‬
‫رہ جائیں وہ معاف ہے۔‬

‫مسئلہ‪:‬۔ اگر کسی کی رکعت عید کی نماز میں چلی جائے تو جس اس کو ادا کرنے لگے تو‬
‫پہلے قرٔات کرے اور اس کے بعد تکبیریں کہے۔‬

‫ٰ‬
‫صلوۃ المسافر (مسافر کی نماز)‬

‫سفر کی تعریف‪:‬۔ گھر سے اتنا دور جانے کا اراد ہ ہو کہ جس پر پیادہ چلنے سے تین دن‬
‫اور تین راتیں لگ جائیں ۔ بعض علمائ نے اسی مسافت کا تخمینہ تین منزل یعنی ‪ 48‬میل‬
‫مقرر کیا ہے۔‬
‫اگر کسی شخص نے سفر کی مقدار میں جانے کا ارادہ کیا تو سفر شروع کرنے سے ‪٢\t‬۔‬
‫مسافر شمار ہونے لگتا ہے۔ البتہ اپنے گھر سے نکل کر شہر سے باہر نکلنے سے پہلے‬
‫کسر نہیں کر سکتا۔‬

‫مسافر کے لئے نماز کا حکم‬

‫ماسفر کو چار فرض والی نماز کے دو فرض پڑھنے چاہئیں ۔دو سے زیادہ نہیں ۔ اگر کسی‬
‫نے چار فرض پڑھ لئے تو دیکھنا چاہیے کہ پہلے قعدہ میں بیٹھنا ہے تو دو فرض ہوں‬
‫گے اور دو نفل۔ اگر پہلے قعدہ میں نہیں بیٹھا تو امام ابو حنیفہ رحمۃ ہللا علیہ کے نزدیک‬
‫اور امام ابو یوسف رحمۃ ہللا علیہ کے نزدیک چاروں رکعتیں نفل ہوں گی۔‬

‫اگر کوئی مسافر کسی شہر میں پہنچے اور پندرہ روز ٹہرنے کی نیت نہ کرے اور ‪٣\t‬۔‬
‫کہتا رہے ٓاج جائوں گا یا کل۔ اسی حالت میں کئی برس گذر جائیں تو دو رکعت ہی فرض‬
‫پڑھتا رہے گا۔‬

‫مسافر تین چیزوں سے مقیم ہوجاتا ہے۔‪٤\t‬۔‬

‫کسی شہر میں پندرہ روز ٹہرنے کی نیت کرے۔‪\t‬الف۔‬

‫مقیم امام کی اقتدائ کرے۔ تو اسی نماز کے لئے مقیم شمار ہوگا۔ اس سے بعد والی ‪\t‬ب۔‬
‫نماز اگر منفرد پڑھی تو مسافر ہوگا۔ اور نماز کسر ہوئی۔‬

‫اپنے شہر میں پہنچے خواہ نیت پندرہ روز کی کرے یا نہ کرے۔‪\t‬ج۔‬
‫مریض کی نماز‬

‫اگر کوئی شخص بیمار ہے۔ کھڑے ہو کر نماز نہیں پڑھ سکتا تو بیٹھ کر پڑھے اور رکوع‬
‫و سجود کرے۔ اگر رکوع و سجود نہین کرسکتا تو اشارے سے پڑھے مگر رکوع کے‬
‫وقت سر کو جھکائے اور سجدے کے وقت اس سے زیادہ جھکائے تاکہ رکوع و سجود میں‬
‫فرق ہو اور سجدے کے واسطے منہ کے سامنے کوئی چیز اس قدر بلند نہ رکھے کہ جس‬
‫میں جھکنا نہ پڑے بلکہ اسی طرح اشارے سے سجدہ کرنا چاہیے کہ کوئی شخص بلند‬
‫سامنے رکھ دے جس پر جھک کر سجدہ کرے۔‬

‫اگر بیٹھ بھی نہیں سکتا ہے تو چت لیٹے پائوں قبلے کی طرف کرے اور سر اٹھاکر ‪\t‬‬
‫رکوع و سجود کا اشارہ کرے۔ اگر نماز کو اشارہ سر سے بھی نہ پڑھ سکے تو موقوف‬
‫رکھے۔ جسم ۔ ابرو۔ دل کے اشارے سے نہ پڑھو۔‬

‫قضائ الفوائت (فوت شدہ نمازوں کے مسائل )‬

‫اگر کسی شخص کی کوئی نماز فوت ہوئی اور دوسری نماز کا وقت ٓاگیا تو پہلے کونسی ‪\t‬‬
‫نماز پڑھے؟ اگر نماز کے وقت میں گنجائش ہے تو پہلے فوت شدہ نماز کو ادا کرے اگر‬
‫وقت تنگ ہے تو پہلے وقتی نماز پڑھے۔ یعنی قضا نماز کو فوراً پڑھے ۔ بال کسی عذر‬
‫کے قضا پڑھنے میں دیر لگانا گناہ ہے۔‬

‫ترتیب نماز تین وجہ سے ساقط ہوتی ہے۔‬

‫فوت شدہ نمازوں کا حد کثرت کو پہنچ جانا)‪ \t(٣‬تنگی وقت)‪ \t(٢‬فراموشی)‪(١‬‬


‫فراموشی‪:‬۔ بھول جانے کی صورت یہ ہے کہ مثالً کسی شخص نے ظہر کی نماز پڑھی‬
‫پھر اس کو یاد ٓایا کہ صبح کی نماز نہیں پڑھی تو اب صبح کی نماز پڑھ لے اور ظہر کی‬
‫نماز کا اعادہ نہ کرے اس کو بھول جانا کہتے ہیں ۔‬

‫تنگی وقت‪:‬۔ تنگی وقت کی صورت یہ ہے کسی شخص نے عشائ کی نماز نہیں پڑھی اور‬
‫صبح کی نماز میں اس کو یاد ٓایا اور وقت میں تنگی ٓاجاتی ہے تو کیا کرے؟‬

‫اگر وقت ایسا ہے کہ چھ رکعت نماز کی پڑھ سکتا ہے تو ہنوز وقت باقی ہے پہلے عشا ‪\t‬‬
‫کی نماز پڑھے اور اس کے بد صبح کی نماز پڑھے۔ اگر وقت ایسا ہے کہ اتنی رکعتیں‬
‫نہین پڑھ سکتا ہے تو پہلے صبح کی نماز ادا کرے۔ پھر طلوع ٓافتاب عشائ کی نماز پڑھ‬
‫لے۔‬

‫کثرت کی صورت یہ ہے کہ ایک شخص کی نماز یں بہت فوت ہوئی ہیں اگر چھ سے ‪\t‬‬
‫کم ہوں تو جس طرح فوت ہوئی ہیں ۔ بالترتیب اسی طرح ادا کرے۔ اگر چھ سے زیادہ ہوں‬
‫تو ترتیب ساقط ہوجائے گی‪ ،‬جس کو چاہے پہلے پڑھ لے۔‬

‫نوٹ‪:‬۔ کسی بے نمازی نے توبہ کی تو جتنی نمازیں عمر بھر میں قضا ہوئی ہیں سب کی‬
‫قضا پڑھنی واجب ہے توبہ سے نماز معاف نہیں ہوتی۔ البتہ نہ پڑھنے سے جو گناہ ہوا تھا‬
‫وہ توبہ سے معاف ہوگای۔ اب ان کی قضا نہ پڑھے گا تو پھر گناہ گار ہوگا۔ جس شخص‬
‫کی ایک دو رکعتیں رہ گئی ہوں اس کو مسبوق کہتے ہیں ۔‬

‫مسبوق کا بیان‬
‫مسبوق کا حکم یہ ہے کہ پہلے امام کے ساتھ شریک ہو کر جس قدر نماز باقی ہو جماعت‬
‫سے ادا کرے۔ امام کی نماز ختم ہونے کے بعد کھڑا ہوجائے اور اپنی گئی ہوئی رکعتوں‬
‫کو ادا کرے۔‬

‫مسبوق کو اپنی گئی ہوئی رکعتیں منفرد کی طرح قرٔات کے ساتھ ادا کرنا چاہیے۔ اور‪(٢)\t‬‬
‫اگر ان رکعتوں میں کوئی سہ ہوجائے تو اس کو سجدہ سہو بھی کرنا ضروری ہے۔‬

‫مسبوق کو اپنی گئی ہوئی رکعتیں اس ترتیب سے ادا کرنا چاہیے کہ پہلے قرٔات والی‪(٣)\t‬‬
‫پھر بے قرٔات کی اور جو رکعتیں امام کے ساتھ پڑھ چکا ہے۔ ان ے حساب سے قعدہ‬
‫کرے یعنی ان رکعتوں کے حساب سے جو دوسری ہو رسمیں پہال قعدہ کرے۔ اور جو‬
‫تیسیر رکعت ہو اور نماز تین رکعت والی ہو۔ تو اس میں اخیرہ قعدہ کرے۔‬

‫ظہر کی نماز میں تین رکعت ہوجانے کے بعد کوئی شخص شریک ہو اس کو چاہیے )‪(٤‬‬
‫کہ بعد امام کے سالم پھیر دینے کے کھڑا ہوجائے اور گئی ہوئی تین رکعتیں اس ترتیب‬
‫سے ادا کرے۔ پہلی رکعت میں ثنائ سورۃ فاتحہ کے ساتھ اور سورۃ مال کر رکوع سجدہ‬
‫کر کے پہال قعدہ کرے اس لئے کہ یہ ملی ہوئی رکعت کے حساب سے دوسری ہے پھر‬
‫دوسی رکعت میں بھی سورۃ فاتحہ کے ساتھ سورت مالئے اور اس کے بعد قعدہ نہ کرے‬
‫اس لئے کہ یہ رکعت اس ملی ہوئی رکعت کے حساب سے تیسری ہے۔ پھر تیسری رکعت‬
‫میں سورۃ فاتحہ کے ساتھ دوسری سورت نہ مالئے کیونکہ یہ رکعت قرٔات کی نہ تھی اور‬
‫اس میں قعدہ کرے کہ یہ قعدہ اخیرہ ہے۔‬

‫الحق کا بیان‬

‫الحق وہ مقتدہ ہے جس کی کچھ رکعتیں یا سب رکعتیں بعد شریک جماعت ہونے کے ‪\t‬‬
‫جاتی رہیں خواہ بعذر مثالً نماز میں سو جائے اور اس درمیان میں کوئی رکعت وغیرہ‬
‫جاتی رہی یا لوگوں کی کثرت سے رکوع سجدے وغیرہ نہ کرسکے یا وضو ٹوٹ جائے‬
‫اور وضو کرنے کے لیے جائے اور اس درمیان میں اس کی رکعتیں جاتی رہیں (نماز‬
‫خوف میں پہال گروہ الحق ہے اسی طرح جو مقیم مسافر کی اقتدائ کرے اور مسافر کسر‬
‫کرے تو وہ مقیم بعد امام کے نماز ختم کرنے کے الحق ہے) یا بے عذر جاتی رہیں ۔ مثالً‬
‫امام سے پہلے کسی رکعت کا رکوع سجدہ کر لے اور اس وجہ سے رکعت اس کی کالعدم‬
‫سمجھی جائے تو اس رکعت کے اعتبار سے وہ الحق سمجھا جائے گا۔ پس الحق کو واجب‬
‫ہے کہ پہلے اپنی ان رکعتوں کو ادا کرے جو اس کی جاتی رہی ہیں ۔ بعد اس کے ادا‬
‫کرنے کے اگر جماعت باقی ہو تو شریک ہوجائے ورنہ باقی نماز بھی پڑھ لے الحق اپنی‬
‫گئی ہوئی رکعتوں میں بھی مقتدی سمجھا جائے یعنی جیسے مقتدی قرٔات نہیں کرتا‬
‫ویسے الحق بھی قرٔات نہ کرے۔ بلکہ سکوت کئے ہوئے کھڑا رہے اور جیسے مقتدی کو‬
‫اگر سہو ہوجائے تو سجدہ سہو کی ضرورت˜ نہیں ہوتی ویسے الحق کو بھی۔‬

‫الحق اور مسبوق دونوں کا بیان‬

‫اگر کوئی شخص الحق بھی اور مسبوق بھی مثالً کچھ رکعتیں ہوجانے کے بعد شریک ‪\t‬‬
‫ہوا ہو اور بعد شرکت کے پھر کچھ رکعتیں رکعتیں اس کی چلی جائیں تو اس کو چاہیے‬
‫کہ پہلے اپنی ان رکعتوں کو ادا کرے جو بعد شرکت کے گئی ہیں جن میں وہ الحق ہے‬
‫مگر ان کے ادا کرنے میں اپنے کو ایسا سمجھے جیسا وہ امام کے پیچھے نماز پڑھ رہا‬
‫ہے یعنی قرٔات نہ کرے اور امام کی ترتیب کا لحاظ رکھے اس کے بعد اگر جماعت باقی ہو‬
‫تو اس میں شریک ہوجائے ورنہ باقی نماز بھی پڑھ لے بقدر اپنی ان رکعتوں کو ادا کرے‬
‫جن میں مسبوق ہے۔ مثا ًل عصر کی نماز میں ایک رکعت ہوجانے کے بعد کوئی شخص‬
‫شریک ہوا اور شریک ہونے کے بعد ہی اس کا وضو ٹوٹ گیا اور وضو کرنے گیا اس‬
‫درمیان میں نماز ختم ہوگئی تو اس کو چاہیے کہ پہلے ان تینوں رکعتوں کو ادا کرے جو‬
‫بعد میں شریک ہونے کے گئی ہیں ۔ پھر اس رکعت کو جو اس کے شریک ہونے سے‬
‫پہلے ہوچکی تھی۔ اور ان تینوں کی پہلے رکعتوں کو مقتدی کی طرح ادا کرے یعنی‬
‫قرٔات نہ کرے اور ان تین کی پہلے رکعت میں قعدہ کرے اس لئے کہ یہ امام کی دوسری‬
‫رکعت ہے اور امام نے اس میں قعدہ کیا تھا۔ پھر دوسری رکعت میں قعدہ نہ کرے اس‬
‫لئے کہ یہ امام کی تیسری رکعت ہے۔ پھر تیسری رکعت میں قعدہ کرے اس لئے کہ یہ‬
‫امام کی چوتھی رکعت ہے اور اس رکعت میں امام نے قعدہ کیا تھا پھر اس رکعت کو ادا‬
‫کرے جو اس شریک ہونے سے پہلے پوچکی تھی اور اس میں بھی قعدہ کرے اس لئے کہ‬
‫یہ اس کی چعتھی رکعت ہے اور اس رکعت میں اس کو قرٔات بھی کرنا ہوگی اس لئے کہ‬
‫اس رکعت میں وہ مسبوق ہے اور مسبوق اپنی گئی ہوئی رکعتوں کے ادا کرنے میں‬
‫منفرد کا حکم رکھتا ہے۔‬

‫نماز جنازہ‬

‫جنازہ کے ارکان‪:‬۔‬

‫چار تکبیریں جو چار رکعتوں کے قائم مقام ہیں ۔‪١\t‬۔‬

‫کھڑے ہونا۔ اگر کوئی عذر ہو تو بیٹھ کر جنازہ کی نماز پڑھے تو درست نہیں ۔‪٢\t‬۔‬

‫واجبات نماز جنازہ‪:‬۔ نماز کے اندر میت کے لیے دعا کرنا واجب ہے۔ (در مختار)‬

‫سنن جنازہ ‪:‬۔ ثنائ اور درود شریف پڑھنا جنازہ میں سنت ہے۔‬

‫مفسدات جنازہ‪:‬۔ جو مفسدات عام نماز کے ہیں وہی مفسدات نماز جنازہ کے ہیں ۔‬

‫شرائط نماز جنازہ‬


‫جو شرائط دوسری نمازوں میں ہیں ان کے عالوہ خاص وہ شرطیں جو اس نماز سے‬
‫مخصوص ہیں درج ذیل ہیں ‪:‬۔‬

‫میت کا سامنے ہونا۔‪١\t‬۔‬

‫میت کا زمین پر ہونا۔‪٢\t‬۔‬

‫اگر جنازہ غائب ہو یا سواری پر ہو یا ہاتھوں پر ہو یا پیچھے ہو تو نماز درست نہیں ۔ ‪٣\t‬۔‬
‫(عالمگیری۔ در مختار)‬

‫میت کے لئے مندرجہ ذیل شرائط ہیں ‪:‬۔‬

‫میت کا مسلمان ہونا۔‪١\t‬۔‬

‫میت کا پاک ہونا۔‪٢\t‬۔‬

‫میت کے کفن کا پاک ہونا۔‪٣\t‬۔‬

‫میت کے ستر کا ڈھکا ہونا۔‪٤\t‬۔‬

‫میت کا نمازیوں کے سامنے ہونا۔‪٥\t‬۔‬


‫نماز جنازہ کا مکمل طریقہ‬

‫امام سینہ میت کے برابر کھڑا ہو کر پہلے نیت کرے۔‬

‫تعالی‬
‫ٰ‬ ‫نیت جنازہ‪:‬۔ میں نیت کرتا ہوں چار تکبیر نماز جنازہ فرض کفایہ ثنائ واسطے ہللا‬
‫مصطفی صلی ہللا علیہ وسلم کے اور دعا واسطے اس‬ ‫ٰ‬ ‫کے درود واسطے حضرت محمد‬
‫تعالی کی۔ (اگر امام ہو تو انا اما ٌم‬
‫ٰ‬ ‫حاضر میت کے منہ طرف کعبہ شریف کے بندگی خدا‬
‫میں امام ہوں کہے اور اگر مقدتی ہو دل میں کہے پیچھے اس امام کے) تکبیر تحریمہ ہللا‬
‫اکبر بلند ٓاواز سے کہہ کر ہاتھ باندھ لیں ۔ مقتدی ٓاہستی کہے پھر ثنائ پڑھے۔‬

‫پھر ہللا اکبر بغیر رفع یدین کے (یعنی بغیر ہاتھ اٹھانے کے) کہے اور پھر وہ درود شریف‬
‫پڑھے جو نماز کے قعدہ اخیرہ میں پڑھا جاتا ہے پھر تیسری تکبیر کے بعد یہ دعا پڑھے۔‬

‫بالغ مرد عورت کی میت کے لئے دعائ‬

‫ترجمہ‪ ’’ :‬اے ہللا بخش دے ہمارے زندہ اور مردہ اور حاضر اور غائب کو اور ہمارے‬
‫چھوٹے اور بڑے اور ہمارے مرد اور عورت کو اے ہللا تو ہم میں سے زندہ رکھے تو‬
‫اسے اسالم پر زندہ رکھیو اور جس کو ہم میں سے وفات دے تو اسے ایمان پر وفات‬
‫دیجیو‘‘۔‬

‫پھر چوتھی تکبیر ہللا اکبر کہہ کر دونوں طرف سالم پھیر دے۔‬
‫نوٹ ‪:‬۔اگر کسی کو یہ دعا یاد نہ ہو تو یہ دعا پڑھے۔‬

‫ترجمہ‪ ’’ :‬اے ہللا ہمیں اور ہمارے والدین اور مومنین مرد اور مومنات عورتوں کو بخش‬
‫دے‘‘۔‬

‫نابالغ لڑکے کی میت کے لئے دعائ‬

‫’’الہی˜ اس لڑکے کو ہمارے لئے ٓاگے سامان کرنے واال بنادے اور اس کو ہمارے‬‫ترجمہ‪ٰ :‬‬
‫لئے اجر کا موجب اور وقت پر کام ٓانے واال بنا دے۔ اور اس کو ہماری سفارش واال بناد ے‬
‫جس کی سفارش منظور ہوجائے‘‘۔‬

‫نابالغ لڑکی کی میت کے لئے دعائ‬

‫ترجمہ‪’’ :‬اے ہللا اس لڑکی کو ہمارے لئے ٓاگے پہنچ کر سامان بنانے والی بنادے اور اس‬
‫کو ہمارے لئے اجر کی موجب اور وقت پر کام ٓانے والی بنادے اور اس کو ہمارے لئے‬
‫سفارش کرنے والی بنا دے اور وہ جس کی سفارش منظور ہو ‘‘۔‬

You might also like