Professional Documents
Culture Documents
تقریظ
نماز دین کا ستون ہے ،جس نے اسے قائم کیا اس نے سارے دین کو قائم کیا اور جس نے
اسے گرادیا اس نے سارے دین کو گرا دیا۔
سید نا فاروق اعظم ؓ نے اپنے دور خالفت میں اپنے گورنروں کو یہ فرمان جاری کیا تھا
کہ’’میرے نزدیک تمہارا سب سے اہم عمل نماز ہے۔ جس نے اس کی حفاظت کی تو وہ
باقی دین کی بھی حفاظت کرے گا ،اور جس نے اسے ضائع کردیا تو وہ دوسرے اعمال کو
اولی ضائع کردے گا‘‘۔ (موطا امام مالک ؒ)
بدرجہ ٰ
نماز کی اہمیت اسی سے ظاہر ہے کہ خلیفہ اول سیدنا ابو بکر صدیق ؓ کا انتخاب اسی بنا پر
عمل میں ٓایا تھا کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے مرض الوفات کے دوران انہیں اپنا
نائب مقرر فرمایا تھا۔
مگر وائے صد افسوس ،کہ خدا بیزاری کے اس دور میں عامۃ الناس بالخصوص ٹی ۔وی
کے ڈراموں اور وی۔ سی ۔ ٓار کی فلموں کے دلدادہ نوجوان ،اس اہم ترین فریضہ سے
اس حد تک غافل ہیں کہ گویا ان کے دل و دماغ کے کسی گوشہ میں بھی خدا کے پیش
ہونے کا تصور نہیں پایا جاتا۔ پھر کچھ خوش نصیب اگر مسجد میں ٓا بھی جاتے ہیں تو
مسائل سے بالکل ناواقف اور بے خبر ہوتے ہیں ،نتیجتا ً ان کی نمازیں نقرالدیک (مرغ
کے ٹھونگے مارنے) سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتیں ۔
میں نے زیر نظر کتابچہ کو جستہ جستہ دیکھا ہے۔ مسائل صحیح درج ہیں اس کی
تصنیف کا اولین مقصد مصنف نے طالب علموں کی ضرورت کو پورا کرنا لکھا ہے۔ اس
لحاظ سے کتابچہ مختصر ہونا چاہیے تھا۔ اور ایسا ہے۔
تعالی اعلم
ٰ فقط وہللا
الراقم
پیش لفظ
حضرات! زمانہ حاضرہ میں اسالم کا صرف نام باقی رہ گیا ہے ہمارے دلوں میں اسالم
کی حقیقت اور عظمت نہیں ہے۔ اور نہ ہی اسالم کے ضروری احکام کا علم ہے۔
اسالم کے اہم ارکان اور ستون پانچ ہیں جن میں سب سے زیادہ اہمیت نماز کو ہے۔ ایک
حدیث شریف کا ترجمہ ایک بزرگ شاعر نے ان لفظوں میں کیا ہے:۔
یعنی قیامت کے روز سب سے پہلی پوچھ گچھ نماز کی ہوگی اور حضور صلی ہللا علیہ
وسلم کا فرمان ہے:۔
یعنی نماز پڑھنے واال مسلمان ہے اور اس کا چھوڑنے واال مشرک ہے۔ اسی طرح حضور
صلی ہللا علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے:۔
معلوم ہوا کہ نماز اسالم کس سب سے اہم رکن ہے اس لئے ایسے عظیم رکن کے شرائط ،
واحیات اور فرائض وغیرہ کا یاد ہونا بھی ضروری ہے ۔ عام طور ہر طالب علمی کے
دوران بچوں کو نماز یاد کرائی جاتی ہے۔ لیکن نماز کے فرائض اور دوسرے ضروری
مسائل یاد نہیں کرائے جاتے۔ بعض احباب کے مشورہ اور بار بار اصرار کرنے سے بندہ
نے ضروری سمجھا کہ نماز اور اس کے ضروری مسائل لکھے جائیں ۔ حضرت العالمہ
استاذی المکرم حضرت موالنا محمد عبدہللا صاحب دامت برکاتہم ہیڈ ماسٹر گورنمنٹ فاضل
ہائی اسکول احمد پور شرقیہ نے اس کتابچہ کا نام ’’ٓاسان نماز اور اس کے ضروری
مسائل ‘‘ منتخب فرمایا ہے۔
میرے ناقص خیال میں پرائمری ،مڈل اسکولوں میں جماعت ہشتم تک اگر اسی نماز کو
مکمل طور پڑھا لیا جائے۔ اور یاد کرادیا جائے تو بچوں کے لئے بہت بہتر ہوگا۔ نیز اگر
تمام مسلمان اپنے پاس رکھیں اور مندرجہ مسائل ٓاہستہ ٓاہستہ یاد کرتے رہیں تو انہیں بھی
تعالی احقر ناچیز کی اس حقیر سی کوشش کو منظور و ٰ ٓاسانی سے یاد ہوسکتے ہیں ۔ ہللا
مقبول فرمائیں ۔ ٓامین
نیز تمام مستفید ہونے والوں سے استدعا ہے کہ احقر کے لیے خاتمہ بالخیر کی دعا
فرمائیں ۔
والسالم
ترجمہ ’’ :ہللا کے سوا کوئی معبود نہیں ،حضرت محمد صلی ہللا علیہ وسلم ہللا کے رسول
‘‘ ہیں
ترجمہ ’’:میں گواہی دیتا ہوں کہ ہللا کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں
‘‘ کہ حضرت محمد صلی ہللا علیہ وسلم ہللا کے بندے اور اس کے رسول ہیں
ترجمہ ’’ :ہللا کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیال ہے اس کا کوئی شریک نہیں اسی کے
لئے بادشاہی ہے۔ اور سب تعریفیں اسی کے لئے ہے۔ وہ زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے اور
‘‘وہ زندہ ہے مرے گا نہیں ۔ اسی کے ہاتھ میں بھالئی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے
ترجمہ :میں ہللا سے معافی مانگتا ہوں جو میرا پروردگار ہے۔ ہر گناہ سے جومیں نے کیا
جان بوجھ کر یا بھول کر چھپا کے یا کھلم کھال اور میں توبہ کرتا ہوں اس کے حضور
میں اس گناہ سے جو مجھے معلوم ہے اور اس گناہ سے جو مجھے معلوم نہیں ،بے شک
تو ُ تو غیبوں کے جاننے واال ہے ۔ اور گناہوں کے بخشنے واال ہے۔ اور گناہوں سے
بچنے کی طاقت اور نیک کام کرنے کی قوت ہللا ہی کے پاس ہے جو بڑی شان اور عظمت
‘‘واال ہے
ترجمہ ’’ :اے ہللا میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ تیرا شریک بتائوں کسی چیز
کو جان بوجھ کر ۔ اور معافی مانگتا ہوں اس گناہ سے جس کا مجھے علم نہیں اور میں
نے اس سے توبہ کی ہے۔ اور میں بیزار ہوں کفر اور بدعت سے اور چغل خوری سے
اور بے حیائی کو کاموں سے اور تہمت لگانے سے اور باقی ہر قسم کی نافرمانیوں سے
اور میں ایمان التا ہوں اور کہتا ہوں کہ ہللا کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد
مصطفی صلی ہللا علیہ وسلم ہللا کے رسول ہیں ۔
ٰ
ایمان مفصل
ترجمہ ’’ :میں ایمان الیا ہوں ہللا پر اور اس کے فرشتوں ہر اور اس کی کتابوں پر اور
اس کے رسولوں پر اور دن ٓاخرت پر اور اچھی اور بری تقدیر پر کہ وہ ہللا کی طرف
‘‘سے ہے اور مرنے کے بعد اٹھنے پر
ایمان مجمل
ترجمہ ’’:میں ایمان الیا ہوں ہللا پر جیسے اس کی ذات اپنے ناموں اور صفاتوں کے
ساتھ ہے۔ اور میں نے اس کے تمام احکام زبان سے اقرار کرتے ہوئے اور دل سے
تصدیق کرتے ہوئے قبول کیے ہیں ۔
چونکہ نماز کے لئے طہارت فرض ہے اور طہارت میں وضو اور نجاست کے مسائل \t
ذکر کیے جاتے ہیں اس لئے یہاں پہلے نجاست کا بیان ہوگا۔ نجاست کے معنی پلیدی کے
ہیں ۔ نجاست کی دو قسمیں ہیں )١( :نجاست غلیظہ ( )٢نجاست خفیفہ۔ اگر نجاست سخت
ہو تھوڑی سی لگ جائے تو اسے دھونے کا حکم ہے۔ ایسی نجاست کو نجاست غلیظہ
کہتے ہیں ۔ نجاست غلیظہ یہ ہیں ؒ خونٓ ،ادمی کا پاخانہ اور پیشاب ،منی ،شراب ،کتے بلی
کا پاخانہ اور پیشاب ،سور کا گوشت اس کے بال و ہڈی وغیرہ اور اس کی ساری چیزیں ۔
گھوڑے ،گدھے اور خچر کی لید ،گائے ،بیل ،بھینس وغیرہ کا گوبر ،بکری اور بھیڑ \t
کی مینگنی ۔ سب جانوروں کا پاخانہ ،مرغی ،بچح اور مرغابی کی بیٹ ،گدھے ،خچر
اور سب حرام جانوروں کا پیشاب ،دودھ پیتے بچوں کا پیشاب ،پاخانہ۔
نجاست غلیظہ میں سے کوئی پتلی اور بہنے والی چیز کپڑے یا بدن میں لگ جائے اگر \t
ھیالئو میں ایک درہم کے برابر (چاندی کا روپیہ) یا اس سے کم ہو تو معاف ہے لیکن
دھونا افضل ہے۔ اور اگر روپے سے زیادہ ہو معاف نہیں ۔ دھونے کے بغیر نماز نہ ہوگی۔
اور اگر نجاست غلیظہ میں سے گاڑھی چیز لگ جائے جیسے پاخانہ مرغی کی بیٹ تو
اگر وزن میں ساڑھے چار ماشہ یا اس سے کم ہو تو بے دھوئے ہوئے نماز درست نہیں
(بنا عذر احتیاطاً) ۔
دوسری وہ جس کی نجاست ذرا کم اور ہلکی ہو تو اسے نجاست خفیفہ کہتے ہیں نجاست \t
خفیفہ کپڑے یا بدن میں لگ جائے اگر یہ چوتھائی سے کم ہو تو معاف ہے ۔ کپڑے میں
ہر عضو کی چوتھائی راد ہے۔ مثالً جیب ،کف ،بازو وغیرہ لیکن اور پورا چوتھائی یا اس
سے زیادہ ہو تو معاف نہیں ۔ اس کا دھونا واجب ہے۔ بال دھوئے ہوئے نماز درست نہیں ۔
نجاست خفیفہ یہ ہیں :حرام پرندوں کی بیٹ ،حالل جانوروں کا پیشاب جیسے بکری ،
گائے ،بھینس اور گھوڑے وغیرہ نجاست غلیظہ اور خفیفہ بیان کرنے کے بعد وضو کے
مسائل بیان کئے جاتے ہیں ۔ اوالً فرائض وضو کا بیان ہوگا۔
:وضو کے فرائض
تشریح :وضو کے فرض چار ہیں جیسا کہ قرٓان مجید میں مذکور ہیں ۔
منہ کا دھونا ۔ چول (لمبائی ) میں شروع پیشانی سے تھوڑی کے نیچے تک اور )(١
عرض (چوڑائی ) میں ایک کان کی لو سے دوسرے کان کی لو تک۔
:وضو کی سنتیں
مسواک کرنا۔(٤)\t
کلی کرنا۔(٥)\t
پے درپے دھونا یعنی ایک عضو کے دھونے تک دوسرا عضو خشک نہ ہوجائے۔(٩)\t
:وضو کے مستحبات
وضو کے بعد اگر وقت مکروہ نہ ہو تو دو رکعت نفل تحیۃ الوض̃و ادا کرنا۔(٥١)\t
:نواقض وضو
جسم کے اندر کسی جگہ سے خون یا پیپ کا نکل کر مخرج سے پاک جگہ پر پہنچنا۔(٢)\t
لیٹ کر یا سہارا لگا کر سونا۔(٣)\t
رکوع اور سجدہ والی نماز میں بالغ کا قہقہ (تھکارا) مار کر ہنسنا۔(٥)\t
مباشرت فاحشہ یعنی دونوں شرمگاہوں کا بال میالن بل جانا اگرچہ دونوں کت (٧)\t
درمیان کوئی چیز حائل بھی ہو۔
:مکروہات وضو
جس پانی سے وضو کر رہا ہو اسی پانی میں تھوکنا۔ اور ناک سڑکنا اگرچہ پانی (٨)\t
جاری ہو۔
بائیں ہاتھ سے منہ میں کلی کے لئے پانی لینا (عالگیری ،در مختار)(١١)\t
:تیمم
تیمم کا لغوی معنی قصد کرنا اور شرعی مفہوم یہ ہے کہ پاک مٹی کا قصد کرنا اور پاکی\t
حاصل کرنے کیلئے خاص طریقے ۔ پاک مٹی یا کسی ایسی چیز سے جو مٹی کے حکم
میں ہو کے ذریعے بدن کو نجاست حکمیہ سے پاک کرنے کو تیمم کہتے ہیں ۔
وضو اور غسل دونوں کے لئے ایک جیسا تیمم ہے۔ اگر دونوں کے لئے تیمم کی \t
ضرورت ہو تو ایک بار تیمم کرنا کافی ہے۔
:فرائض تیمم
نیت کرنا۔(١)\t
دونوں ہاتھ مٹی پر مار کر تمام چہرہ پر پھیرنا کہ بال برابر جگہ باقی نہ رہے۔(٢)\t
غسل(نہانا)
:فرائض غسل
منہ بھر کر کلی کرنا یعنی غر غرہ کرنا۔(١)\t
ناک میں پانی ڈلنا۔ حد یہ ہے کہ جہاں تک کا چمڑہ نرم ہے ،وہاں تک پانی (٢)\t
پہنچائے۔
:سنن غسل
نیت کرنا۔(١)\t
وضو کرنا۔(٥)\t
پھر تین بار سر اور تمام بدن پر پانی ڈالنا۔ پانی ڈالنے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے تین (٦)\t
بار سر پر ڈالے پھر تین بار داہنے کندھے پر پھر تین بار بائیں کندھے پر۔
جب تک ننگا ہو قبلہ کی طرف منہ نہ کرنا۔(٧)\t
تمام بدن پر پانی مل لینا تاکہ تمام بدن پر پانی اچھی طرح پہنچ جائے نیز اگر بدن میں (٨)\t
کسی جگہ نجاست لگی ہوئی ہو تو اسے زائل کرنا۔
:مستحبات غسل
:غسل کے احکام
مرد کی شرمگاہ کا اگال حصہ عورتے کی شرمگاہ میں داخل ہونا منی خارج ہو یا نہ (٥)\t
ہو۔
نوٹ :جسم کے کسی حصہ پر اگر پانی نہ پہنچ سکے خواہ ناخون پالش کی وجہ سے ہو تو
غسل نہیں ہوگا اس لئے غسل کرتے وقت تمام جسم پر پانی اچھی طرح پہنچایا جائے۔
ف:۔ جو عورتیں ناخن پالش لگاتی ہیں جس کی وجہ سے ناخنوں پر پانی نہیں پہنچ سکتا
تو ان کا غسل نہیں ہوتا۔ شرعی رو سے وہ ناپاک ہی رہتی ہے نماز وغیرہ بھی ان کی ادا
نہیں ہوتی۔
سنت وہ ہے جس پر رسول ہللا صلی علیہ وسلم نے ہمیشگی اختیار کی ہو مگر ایک دو \t
دفعہ اسے چھوڑا بھی ہو۔
حکم سنت کا یہ ہے کہ اس کے ادا کرنے سے ثواب اور اسے چھوڑنے سے گناہ ہوگا۔ \t
مگر نماز ہوجائے گی۔ سجدہ سہو بھی الزم نہیں ٓائے گا۔
مستحب وہ ہے کہ جس عمل کو رسول ہللا صلی علیہ وسلم نے کبھی کیا ہو اور کبھی \t
چھوڑ دیا ہو اور بزرگان دین نے اس کو اختیار کر لیا مستحب کے کرنے سے عمل کا
ثواب بڑھ جاتا ہے۔ مگر ترک کرنے پر کوئی گناہ الزم نہیں ٓاتا۔
حرام وہ ہے جس میں ممانعت دلیل قطعی کے ساتھ ثابت ہو ۔ حکم اس کا یہ ہے کہ حرام \t
کو ترک کرنے میں ثواب ہے اور اس کے کرنے میں عذاب ہے اس کو حالل اور جائز
جاننا کفر ہے۔
مکروہ وہ ہے جس کی ممانعت دلیل ظنی کے ساتھ ثابت ہو۔ مکروہ کی دو قسمیں ہیں :۔ (\t
)١مکروہ تحریمی وہ ہے جو حرام کے قریب ہو۔ اس کا حکم یہ ہے کہ اس کو چھوڑنے
سے ثواب اور اس کے کرنے سے گناہ ہے۔ ( )٢مکروہ تنزیہی وہ ہے جس کے کرنے
سے اس کا چھوڑنا بہترہے۔
مفسد وہ ہے جو کسی جائز عمل کے توڑنے واال ہے۔ حکم اس کا یہ ہے کہ جان بوجھ کر\t
کرنے سے عذاب اور بھول کر کرنے سے عذاب نہیں ۔
جب نمازی نماز پڑھنے کے لئے کھڑا ہو تو پہلے اپنے کپڑے درست کرلے۔ پیشانی سے\t
رومال ،پگڑی دور کرتے قمیص کی ٓاستینیں اگر کہنیوں پر چڑھا رکھی ہوں تو انہیں
اتار دے ۔ سردی کی وجہ سے اگر کپڑا اوڑھ رکھا ہو جس سے منہ چھپا ہوا ہو تو منہ
اچھی طرح کھول دے۔ جب نیت باندھے تو تکبیر تحریمہ کے لئے ہاتھ چادر سے باہر نکال
لے۔ مرد کو چاہیے کہ اگر چادر یا شلوار ٹخنوں سے نیچی ہو تو اوپر کر لے۔ سر کے
کپڑے کو اچھی طرح دیکھ لے تاکہ درمیان میں سر کھال نہ رہے۔
عورت ایسا باریک دوپٹی یا قمیص نہ پہنے جس سے بعدبدن اور بال صاف دکھائی دیتے \t
ہیں ۔ ایسے کپڑے میں عورتوں کی نماز مطلق نہیں ہوتی۔ اگر غلطی سے پڑھ لے تو
دوبارہ نماز ادا کرے۔
ٓا ج کل عورتوں میں باریک کپڑے پہننے کا بہت رواج ہوچکا ہے۔ انہیں چاہیے کہ اپنی\t
تعالی کی عظمت و ہیبت کو پوری
ٰ نماز برباد نہ کریں ۔ جب نماز پڑھنا شروع کرے تو ہللا
طرح نماز میں مد نظر رکھے۔
نماز کی ہر حرکت کو پوری تسلی و اطمنان سے ادا کرے قرٔات اس طرح پڑھے گویا \t
خدا کے سامنے سبق سنا رہا ہے۔ نماز اس طرح ادا کرے گویا اپنی زندگی کی ٓاخری نماز
ادا کر رہا ہے۔ اور یہ وصور کرے کہ میں خدا کو دیکھ رہا ہوں ۔ اگر یہ نہ ہو سکے تو
کم از کم یہ تصور کرے کہ خدا مجھے دیکھ رہا ہے۔ نماز میں قرٓان کے الفاظ اور معنی
کا خیال رکھے ۔ خیاالت نماز میں نہ الئے بلکہ جو خیاالت ٓایں ان کی طرف توجہ نہ
کرے۔
:٢۔ عورتیں نیت باندھتے وقت اپنے ہاتھ کانوں تک اٹھانے کی بجائے صرف کندھوں \t
تک اٹھائیں ۔ اس طرح کہ ہاتھوں کی انگلیوں کے سرے کندھوں کے برابر ہوجائیں ۔
:٣۔ تکبیر تحریمہ میں عورت اپنے ہاتھ اوپر اٹھاتے وقت اپنے دوپٹہ سے باہر نہ نکالے۔\t
نیز تکبیر تحریمہ میں سر کو سیدھا رکھے اور ہللا اکبر میں الف کو نہ کھینچے۔
:٤۔ تکبیر کہنے کے بعد ہر نمازی بال تاخیر اپنے دونوں ہاتھ ناف کے نیچے باندھ لے۔ \t
اپنی داہنی ہتھیلی اپنے بائیں ہاتھ کی پشت پر رکھے۔ چھوٹی انگلی اور انگوٹھے سے اپنے
پہونچے کو پکڑلے باقی تین انگلیاں اپنی کالئی پر رکھے اس کے برعکس عورتیں اپنے
ہاتھ سینہ پر باندھیں جس کا طریقہ یہ ہے کہ اپنے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کی
پشت پر رکھ دیں ۔ مردوں کی طرح پہونچے نہ پکڑیں ۔
:٥۔ حالت قیام میں اپنی نگاہ سجدے پر جمائے رکھے جب سورۃ ختم کر چکے تو رکوع \t
کے لئے تکبیر کہے اور تکبیر اس طرح کہے کہ قرٔات اور تکبیر کے الفاظ ٓاپس میں نہ
مل جائیں ۔ نیز تکبیر کے الفاظ رکوع میں کمر برابر ہونے تک ختم کردے۔
:٦۔ حالت رکوع میں اپنے گھٹنوں کو ہاتھوں سے اس طرح پکڑے کہ ہاتھوں کی \t
انگلیاں کھلی رہیں ۔ گھٹنوں کو ہاتھوں سے سہارا دے رکھے۔ ہاتھوں اور گھٹنوں کو
کمان کی طرح نہ جھکائے بلکہ سیدھا رکھے ۔ رکوع میں سر اور کمر برابر ہیں اور
نظر پائوں پر رکھے۔
:٧۔ عورت رکوع میں تھوڑا جھکے ،ہاتھوں کو گھٹنوں سے سہارا نہ دے گھٹنے \t
پکڑنے میں ہاتھوں کی انگلیاں بند رکھے گھٹنے جھکائے رکھے اور بازو اپنے جسم
سے علیحدہ نہ رکھے۔
:٨۔ سجدہ کرتے وقت پائوں کو زمین پر جمائے رکھے اگر سجدے میں دونوں پائوں \t
اٹھ گئے تو نماز فاسد ہو جائے گی۔
:٩۔ عورت کے لئے سجدہ کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ خوب اچھی طرح سمٹ کر اور دب \t
کر سجدے کرے۔ اپنے پیٹ کو دونوں رانوں سے اور رانوں کو پنڈلیوں سے اور بازئوں
کو اپنے دونوں پہلئوں سے مالئے رکھے۔ نیز اپنی بانہوں کو حالت سجدہ میں زمین پر
بچھا دے۔
:٠١۔ ہر نمازی حالت سجدہ میں نگاہ ناک کی نوک پر جمائے رکھے۔\t
:١١۔ عورت کا التحیات میں بیٹھنے کا طریقہ یہ ہے کہ اپنی بائیں سرین پر بیٹھے اور \t
دونوں پائوں اپنی داہنی طرف نکال دے۔ اور ہاتھوں کی انگلیوں˜ کو رانوں کے اوپر
مالئے رکھے۔
:٢١۔نیت نماز :نمازی قبلہ رو ہو کر دل میں نیت کرے کہ اس وقت کی نماز خدا کے \t
واسطے پڑھتا ہوں ۔ اگر مقتدی ہے تو یہ بھی خیال کرے کہ میں پیچھے امام کے ہوں ۔
اگر قلبی نیت کو پختہ کرنے کی غرض سے زبانی بھی کہہ لے تو اچھا ہے۔
معنی ٓاگاہ اور خبردار کرنا۔ اصطالح شرع میں فرض نمازوں کے لئے بطریقٰ اذان لفظی
مخصوص چند معینہ اور مرتبہ کلموں کے ساتھ خبردار کرنے کو کہتے ہیں وہ کلمات یہ
ہیں :۔
اقامت اور فجر کی اذا میں دو ٢کلمے زیادہ کہے جاتے ہیں ان دونوں کے ساتھ سترہ
ٰ
الصلو̃ۃ خیر من النوم دو مرتبہ اور زیادہ کیا جائے۔ ٧١کلمے ہوئے۔ فجر کی اذان میں
ٰ
الصلوۃ دو بار کہا جائے۔ علی االفالح کے بعد قد قامت
اقامت میں حی ٰ
موذن خارج مسجد اونچی جگہ پر کھڑا ہوجائے اور اپنے دونوں کانوں میں شہادت کی
انگلیاں دے کہ اول چار مرتبہ ہّٰللا اکبر ایک ٓاواز میں ،شہادتین کو دو ٢مرتبہ چار ٓاوازوں
ٰ
الصلوۃ دو ٓاوازیں دوبار کہے۔ علی
کے ساتھ ادا کرے۔ پھر دائیں طرف التفات کر حی ٰ
اسی طرح بائیں طرف التفات کر کے دو ٓاواز میں حی علی الفالح کہے پھر ایک ٓاواز میں
دو بار تکیبر اور ایک ٓاواز میں تہلیل ادا کر کے اذان ختم کرے۔ فجر کی اذان میں دو ٓاواز
ٰ
الصلوۃ خیر من النوم دوبار کہے۔ کے ساتھ حی علی الفالح کے بعد
ثنائ
ترجمہ’’ :پاک ہے اے ہللا تو اور سب تعریف تیرے لئے ہے اور برکت واال ہے نام تیرا
‘‘اور بلند ہے بزرگی تیری اور نہیں ہے کوئی معبود سوا تیرے
تعوذ
‘‘ترجمہ ’’ :میں پناہ مانگتا ہوں ساتھ ہللا کے شیطان مردود سے
تسمیہ
‘‘ترجمہ ’’ :شروع کرتا ہوں ہللا کے نامز سے جو بڑا مہربان نہایت رحم واال ہے
سورۃ الفاتحہ
ترجمہ’’ :سب تعریفیں ہللا کے لئے ہے جو سب جہانوں کا پروردگار ہے۔ دنیا میں اور
ٓاخرت میں مہربانی ہے۔ قیامت کے دن کا مالک ہے۔ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور
تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں ۔ ہمیں سیدھا راستہ دکھال۔ راستہ ان لوگوں کا جن پر تو نے
‘‘انعام کیا۔ نہ ان لوگوں کا جن پر غصہ کیا گیا اور نہ گمراہوں کا
سورۃ اخالص
ترجمہ ’’ :کہہ دے وہ ہللا ایک ہے ۔ ہللا بے نیاز ہے۔ نہ اس نے جنا اور نہ وہ جنا گیا۔ اور
‘‘نہیں اس کے برابر کوئی
مسئلہ:۔ با جماعت نماز میں مقتدی ثنائ پڑھ کو خاموش کھڑا رہے گا۔ نمازی نماز شروع
کرنے کے بعد ثنائ وغیرہ پڑھ کر سورۃ اخالص یا کوئی اور سورت پڑھے ۔ اس کے بعد
ہللا اکبر کہتا ہوا رکوع میں چال جائے۔ اور تین بار یا پانچ یا سات بار تسبیح پڑھے۔
تسبیح رکوع
تسمیع
مسئلہ:۔ اگر امام ہو تو صرف تسمیع کہے۔ مقتدی ہو تو صرف تھمید کہے۔ اور اکیال نمازی
تو تسمیع و تحمید دونوں کہے۔ پھر ہللا اکبر کہہ کر سجدہ میں چال جائے اور تین بار یا
پانچ بار یا سات با تسبیح سجدہ پڑھے۔
تسبیح سجدہ
پھر ہللا اکبر کہتا ہوا سجدہ سے اٹھ کر بیٹھ جائے دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنے کو
جلسہ کہتے ہیں ۔
ترجمہ ’’ :اے ہللا میری لغزشیں معاف فرما اور مجھ پر رحم فرما اور مجھے بلند کر۔ اور
میری کمزوری دور فرما اور مجھے عافیت دے۔ اور مجھے کو ہدایت دے اور مجھے
‘‘روزی عطا فرما
نوٹ :اگر زیادہ وقت نہ ملے تو صرف دو تین مرتبہ ربی اغفرلی کہے (ترجمہ :ہللا میری
لغزشیں معاف فرما)
اس کے بعد دوسرا سجدہ کرے۔ پھر ہللا اکبر کہتا ہوا کھڑا ہو جائے ۔ پہلے رکعت کی طرح
دوسری رکعت پڑھے مگر ثنائ پڑھے اور دوسرا سجدہ کرنے کے بعد بیٹھ جائے اور
تشہد پڑھے۔
تشہد
ترجمہ ’’ :تمام قولی اور بدنی اور مالی عبادتیں ہللا کے لئے ہیں ۔ اے نبی (صلی ہللا علیہ
وسلم) ٓاپ پر سالم ہو اور ہللا کی رحمتیں اس کی برکتیں ۔ سالم ہو ہم پر اور ہللا کے نیک
بندوں پر۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ ہللا کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں
کہ تحقیق حضرت محمد صلی ہللا علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں ‘‘۔
پھر ہللا اکبر کہہ کر کھڑا ہو جائے۔ تسمیہ اور سورۃ فاتحہ پڑھے اگر فرض یا واجب ہو \t
تو سورۃ فاتحہ کے بعد اور سورۃ نہ مالئے اگر سنت یا نفل ہو تو سورۃ مالئے یعنی اس
کے ٓاگے پہلی رکعتوں کی طرح پڑھے۔ پھر بیٹھ کر تشہد پڑھے۔ ہر نماز کی ٓاخری رکعت
میں تشہد کے بعد درورد شریف اور دعا پڑھے۔
ترجمہ ’’ :اے ہللا برکت نازل فرما حضرت محمد صلی ہللا علیہ وسلم پر اور ٓاپ کی ٓال پر
جیسا کہ تو نے برکت نازل فرمائی ابراہیم ؑ پر اور ان کی ٓال پر تحقیق تو تعریف کے قابل
بزرگی واال ہے‘‘۔
دعا
ترجمہ ’’ :اے میرے رب مجھے قائم کر نماز پر اور میری اوالد کو اے ہمارے رب میری
دعا قبول فرما اے ہمارے رب بخش دے مجھے اور میرے ماں باپ کو اور تمام ایمان
والوں کو جس دن حساب قائم ہوگا۔ اس کے بعد اول داہنی طرف منہ کر کے سالم پھیرے
اور پھر بائیں طرف منہ کر کے سالم پھیرے۔ بائیں طرف سالم پھیرتے وقت امام ٓاواز
کچھ پست کرے‘‘۔
سالم
ترجمہ ’’ :اے ہللا وہی سالمتی دینے واال ہے اور تجھ سے ہی سالمتی ہے تو برکت واال
ہے۔ اے بزرگی اور عزت والے۔
نام نماز
سنتSOH\t
مٔوکدہ
SOHETBسنت مٔوکدہ
SOH
وافل
SOH\tوتر
SOHBELکل
رکعات
SOHBELفجر
SOHSTX2
SOHSTXx
SOHSTX2
SOHSTXx
SOHSTXx
SOHSTXx
SOHSTX4
SOHBELظہر
SOHSTX4
SOHSTXx
SOHSTX4
SOHSTX2
SOHSTX2
SOHSTXx
SOHETX12
SOH\tعصر
SOHSTXx
SOHSTX4
SOHSTX4
SOHSTXx
SOHSTXx
SOHSTXx
SOHSTX8
SOHVTمغرب
SOHSTXx
SOHSTXx
SOHSTX3
SOHSTX2
SOHSTX2
SOHSTXx
SOHSTX7
SOHVTعشائ
SOHSTXx
SOHSTX4
SOHSTX4
SOHSTX2
SOHSTX4
SOHSTX3
SOHETX17
SOHVTجمعہ
SOHSTX4
SOHSTXx
SOHSTX2
SOH2+4
SOHSTX2
SOHSTXx
SOHETX14
نماز وترSOHDC3
عشائ کی نماز میں تین وتر ہوتے ہیں جو چار فرض دو سنتوں اور چار نفلوں کے بعد
پڑھے جاتے ہیں ۔ وتر تین رکعتیں ہیں پہلی دو رکعتیں حسب دستور پڑھ کر تیسری
رکعت میں مکمل قرٔات کے بعد ہاتھ اٹھا کر تکبیر کہے اور پھر دعٔا قنوت پڑھے۔
دعائ قنوت
ترجمہ ’’ :اے ہللا ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں اور تیری بخشش مانگتے ہیں اور تجھ پر
ایمان التے ہیں اور تجھ پر بھروسہ کرتے ہیں اور تیری خوبیاں بیان کرتے ہیں ۔ اور ہم
تیرا شکر ادا کرتے ہیں اور تیری ناشکری نہیں کرتے اور ہم علیحدہ رہتے ہیں اور
چھوڑت دیتے ہیں اس شخص کو جو تیری نافرمانی کرے۔ اے ہللا ہم تیری عبادت کرتے
ہیں ۔ اور تیرے لئے نماز پڑھتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں ۔ اور تیری طرف دوڑتے ہیں
اور تیری خدمت میں حاضر ہیں اور تیری رحمت کی امید رکھتے ہیں اور تیرے عذا
سے ڈرتے ہیں تحقیق تیرا عذاب کافروں کو پہنچنے واال ہے‘‘۔
نماز تراویح
صرف رمضان شریف میں نماز عشائ کے بعد اور وتر سے پہلے بیس رکعت تراویح
پڑھنا سنت مٔوکدہ ہے اور افضل یہ ہے کہ ایک سالم سے دو دو رکعتیں پڑھی جائیں اور
ہر چار رکعت کے بعد بقدر رکعت بیٹھ کر درود شریف اور تسبیح پڑھنے میں وقت صرف
کیا جائے۔
تسبیح تراویح:۔
مسئلہ :۔ اگر چار رکعت کے برابر بیٹھنے یا تین مرتبہ تسبیح پڑھنے سے نمازیوں کو
تنگی محسوس ہوتی ہو تو صرف ایک ہی مرتبہ تسبیح پڑھ لی جائے۔
مسئلہ:۔ اگر کسی ٓادمی کو یہ تسبیح یاد نہ ہو تو وہ ذکر کرتا رہے یا درود شریف پڑھتا
رہے۔
نماز تہجد
اس نماز کا وقت ٓادھی رات کے بعد سے صبح صادق تک رہتا ہے دو دو رکعت کر کے
اس نماز کو پڑھنا چاہیے اس کے تین طریقے ہیں :۔ ( )١چار رکعت (ٓ )٢اٹھ رکعت ()٣بارہ
رکعت اس نماز کے فضائل بہت ہیں ۔
ٓاپ ؐ نے فرمایا ہے کہ فرض نمازوں کے بعد تہجد کا درجہ ہے۔ صوفیا کرام اور علمائ
حضرات فرماتے ہیں کہ کوئی شخص بغیر تہجد کے درجہ والیت کو نہیں پہنچ سکتا۔
نماز اشراق
نماز چاشت
نماز ا ّوابین
نماز مغرب کے فوراً بعد نماز اوابین پڑھی جاتی ہے اس کی کم از کم چھ رکعتیں ہوتی ہیں
۔ اور زیادہ سے زیادہ بیس رکعات ہیں ۔
نماز کے اوقات
دن اور رات میں پانچ نمازیں ہر عاقل بالغ مسلمان (مرد ہو عورت) پر فرض ہیں ۔
صبح صادق کی تعریف:۔ صبح صادق اس سفیدی کو کہتے ہیں جو ٓاسمان کے کنارہ پر
چوڑائی میں شماالً جنوبا ً پھیلتی ہے اس سے پہلے صبح کاذب ہتی ہے ۔ جو تھوڑی دیر
کے لئے طوالً (لمبائی) شرقا ً غربا ً ظاہر ہوتی ہے۔ اس کے بعد اندھیرا ہوجاتا ہے۔ صبح
کاذب میں نماز اور روزے کا وقت نہیں ہے۔ صبح کی نماز کا مستحب وقت یہ ہے کہ
فلش اندھیرے میں شروع کی جائے اور اسفار سفیدی تک ختم کی جائے۔
نماز ظہر:۔ ظہر کی نماز کا وقت زوال ٓافتاب کے بعد سے شروع ہوتا ہے اور سایہ کے دو
مثل ہونے تک رہتا ہے لیکن یہ بات یاد رہے کہ اصلی سایہ کو چھوڑ کر ہر چیز کا سایہ
دو مثل نا پا جائے۔
سایہ اصلی کی تعریف:۔ اس کو کہتے ہیں جو عین استوار کے وقت ہر چیز کا رہتا ہے۔
ظہر کی نماز سردیوں میں جلدی اور گرمیوں میں تاخیر کر کے پڑھی جائے۔
نماز عصر̃:۔ نماز عصر کا وقت ظہر کا وقت نکلنے کے بعد شروع ہوتا ہے اور غروب
ٓافتاب تک رہتا ہے۔
نماز مغرب:۔ غروب ٓافتاب سے شروع ہوتا ہے اور شفق کے غائب ہونے تک رہتا ہے۔ امام
اعظم ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک مشفق اس سفیدی کا نام ہے جو سرخی کے غائب ہونے کے
بعد پیدا ہوتی ہے۔ امام صاحب ؒ کے نزدیک مغرب کا وقت اسی وقت تک رہتا ہے۔ اور اسی
قول میں زیادہ احتیاط ہے۔
نماز عشائ:۔ اس شفق سے چھپنے سے شروع ہوتا ہے اور صبح صادق تک رہتا ہے۔
وتروں کا وقت بھی یہی ہے۔
شرائط نماز
شرائط نماز کی دو قسمیں ہیں )١( :نماز کا فرض ہونا۔ ( )٢نماز کا صحیح ہونا۔ نماز کے
فرض ہونے کے لئے مندرجہ ذیل شرائط ہیں :۔
مسلمان ہونا ،کافر ،مرتد اور ہر قسم کے غیر مسلم پر نماز فرض نہیں ہے۔(١)\t
عقل کا صحیح ہونا ،عقل کی صحت بھی نماز کے لئے شرط ہے مجنون (دیوانہ) پر (٢)\t
نماز فرض نہیں ہے۔
بالغ ہونا ،نماز کے لئے بالغ ہونا شرط ہے۔ نابالغ بچہ بچی پر نماز فرض نہیں ۔(٣)\t
وقت کا پایا جانا ،نامز کی ادائیگی کے لئے اسی نماز کا وقت ہونا ضروری ہے اگر (٤) \t
وقت نہیں تو نماز کسی پر واجب نہیں ہوتی۔
ف:۔ شرائط باال سے ثابت ہوا کہ مسلمان عاقل بالغ مرد اور عورت پر کتاب و سنت اور
اجماع کی رو سے اوقات مقررہ مذکورہ میں نماز کا ادا کرنا فرض عین ہے۔ یہاں تک کہ
اس کا تارک منکر کافر ہے ۔ جیسے حضور ؐ کا فرمان ہے۔
ترجمہ ’’ :جس نے نماز جان بوجھ کر چھوڑی وہ کافر ہو گیا ‘‘ ۔ اور تارک غیر منکر
اعلی درجہ کا فاسق ہے۔
ٰ
احناف کے نزدیک فاسق ایک وقت کی نماز چھوڑنے پر قید کیا جائے گا۔ جب تک کہ \t
ٰ
صلوۃ کو قتل کردیا جائے ۔ بال عذر شرعی کسی توبہ نہ کرے۔ باقی ٓائمہ کے نزدیک تارک
طرح نماز چھوڑنے کی گنجائش نہیں عذر شرعی یہ ہیں :۔ حیض ،نفاس ،بیہوشی ،غشی ،
نسیان ،دیوانگی ،نیند۔
شرمگاہ کا چھپانا :مردوں کو ناف کے نیچے سے گھٹنوں تک اور عورت ٓازاد بالغہ(٤)\t
کو تمام بدن سوائے چہرہ ،دونوں ہتھیلیوں اور اور دونوں قدموں کے لونڈیوں کو پیٹ
اور زانو تک ۔
قیام ؛ سیدھا کھڑا ہونا۔ اس طرح کہ اگر ہاتھ چھوڑ دئیے جائیں تو گھٹنوں پر نہ پہنچ(٢)\t
سکیں اگر گھٹنوں پر پہنچ جائیں تو قیام ادا نہ ہوگا۔
قرٔات؛ قرٓان کی ایک بڑی ٓایت یا تین ٓایتیں پڑھنا مطلق قرٔات فرض ہے۔(٣)\t
رکوع؛ اس قدر جھکنا کہ اگر دونوں ہاتھ پھیالدے تو زانو پکڑ ے ہوئے ورنہ ؎(٤)\t
رکوع نہ ہوگا۔ اور بیٹھ کر رکوع کرنے میں پیشانی مقابل زانو ہو۔
سجدہ؛ ناک اور پیشانی دونوں زمین پر رکھے اور پائوں کی انگلیوں میں سے ایک(٥)\t
انگلی کاٹکا رہنا بھی شرط سجدہ ہے۔ اگر ایک انگلی نہ ٹکی رہی اور دونوں پائوں سجدہ
میں اٹھ جائیں تو سجدہ نہ ہوگا۔
سورۃ فاتحہ کا سورۃ سے پہلے پڑھنا ،نیز فاتحہ کے ساتھ کسی سورۃ کا مالنا۔(٣)\t
فرض نمازوں کی پہلی دو رکعتوں میں واجب سنتوں اور نوافل کی تمام رکعتوں (٤)\t
میں سورۃ فاتحہ کے بعد کوئی سورۃ مالنا۔
تعدیل ارکان؛ یعنی اعضائ کا رکوع سجود قومہ اور جلسہ میں بقدر سبحان ہللا کہنے(٧)\t
کے ساکن کرنا۔ یعنی اطمنان سے ادا کرنا۔
امام کو جہری نمازوں میں مثل فجر ،مغرب ،عشائ ،جمعہ ،عیدین ،تراویح اور (٨)\t
رمضان شریف کے وتروں میں پکار کر پحنا اور عصر و ظہر نمازوں میں ٓاہستہ پڑھنا۔
پہال قعدہ میں تین تین یا چار رکعت والی نماز میں خواہ نسف ہو ہو نشد کی مقدار (٩)\t
بیٹھنا۔
نماز وتر میں تکبیر قنوت کہنا اور دعائ قنوت پڑھنا۔(٢١)\t
سجدہ تالوت۔(٦١)\t
نوٹ:۔ اگر کوئی واجب نماز میں ترک ہوجائے تو سجدہ سہو کا کرنا ضروری ہے ورنہ
نماز نہیں ہوگی۔
نمازی کے لئے قرٔاۃ رکوع ،سجود میں ترتیب کو قائم رکھنا بھی واجب ہے پہلے قیام پھر\t
تحریمہ پھر قرٔات پھر رکوع پھر سجدہ اور ٓاخر میں قعدہ ۔
مسئلہ:۔ اگر رکوع مکرر کیا یا تین سجدے کر لئے یا پہلے تشہد کے بعد درود شریف پڑھ
لیا جس کی وجہ سے تیسری رکعت کے قیام میں تاخیر ہوگی تو سجدہ سہو الزم ٓائے گا۔
سجدہ سہو
سہو کے معنی بھولنے کے ہیں ۔ بعض اوقات بھول کر نماز میں کمی یا زیادہ ہوجاتی ہے
اگر واجبات نماز میں سے کمی یا زیادتی بھول کر ہوجائے و سجدہ سہو کیا جاتا ہے۔
سجدہ سہو کا طریقہ یہ ہے کہ ٓاکری قعدہ میں التحیات پڑھنے کے بعد ایک طرف سالم \t
پھیر کر تکبیر اور لگاتار نماز کے سجدوں کی طرح دو سجدے کرے پھر دوبارہ التحیات
درود شریف اور دعا پڑھ کر سالم پھیر دے ،اگر سجدہ سہو سے پہلے التحیات کے ساتھ
درود شریف پڑھ لے تب بھی جائز ہے اگر کوئی دونوں طرف سالم پھیر کر پھر سجدہ
سہو کرے تب بھی جائز ہے بشرطیکہ سینہ قبلہ کی طرف سے نہ پھرا ہو اور نہ کوئی بات
چیت کی ہو۔
جب کوئی نمازی تشہد میں بیٹھنا بھول جائے اس تشہد سے مراد درمیانی تشہد ہے (٣)\t
کیونکہ تین یا چار رکعت کی نماز کا درمیانی تشہد واجب ہے۔ یا درمیانی تشہد کے بعد
علی محمد پڑھ لے یا اتنی دی خاموش بیٹھا رہے تو سجدہ سہو واجبدرود بمقدار اللہم صل ٰ
ہے۔
جب کوئی عیدین کی تکبیر چھوڑ دے تب بھی سجدہ سہو کرنا واجب ہے ۔(٤)\t
جب کوئی امام جہری نمازوں میں اخفائ کر جائے اور اخفا والی نمازوں قرٔات جہر(٥)\t
کے ساتھ پڑھ جائے تو سجدہ سہو واجب ہوتا ہے۔
جب کوئی نماز رکن نماز مکرر یعنی دو مرتبہ کرجائے مثالً دو رکوع کرے یا تین (٦)\t
سجدے تو سجدہ سہو واجب ہے۔
جب کسی واجب کی کیفیت بدل جائے تو سجدہ سہو کرے۔ مثالً سورۃ فاتحہ سے پہلے (٧)\t
سورۃ پڑھ جائے۔
جب کسی نمازی تعداد رکعات میں شبہ لگ جائے تو وہ کم از کم مقدار جو یقینی ہے (٨)\t
اسے اصل قرار دے کر باقی نماز مکمل کرے اور ٓاخر میں سجدہ سہو کرے۔ بشر طیکہ
اکثر ایسا ہوتا ہو ورنہ نئے سرے سے نماز پڑھے۔ اگر کوئی نمازی چوتھی رکعت کا قعدہ
کرے پھر پانچویں کے لئے اٹھ پڑا اور سالم نہ پھیرا اور اسے پہال قعدہ خیال کیا مگر بعد
میں یاد ٓاگیا تو نمازی کو چاہیے کہ پانچویں رکعت کو سجدہ کے ساتھ مال دیا تو اس کے
ساتھ ایک رکعت اور مال دے اس طرح نماز پوری ہوگی۔ اخیر میں سجدہ سہو کرے چار
رکعات فرض ہوجائیں گے اور دو رکعات نفل ہوجائے گی۔
نوٹ:۔ سجدہ سہو سے ایک بہت بڑی سہولت یہ ہے کہ اس سے نمازی اپنی نماز کی کمی
اور زیادتی کی اصالح اور درستی کرلیتا ہے۔ اس طرح نماز کے نقص کی تالفی ہوجاتی
ہے۔ شیطان جو مسلمانوں کو نماز میں بہکاتا ہے اور بھول کرادیتا ہے اس کے اوپر لعت
اور پھٹکار بھیجنے کا طریقہ یہ ہے۔ اس طرح مسالمان نمازی اپنے رب کے سامنے اور
مزید دو سجدے کر لیتا ہے۔ جو شیطان کی ناراضگی اور خفت کا سبب بنتا ہے وہ اپنے
مشن میں ناکام اور رسوا ہوتا ہے۔ خدا ان سجدوں کی بدولت نماز کی کمی اور بھول
چوک کو معاف کردیتا ہے۔
سنن نماز
تکبیر کے وقت دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کا رخ قبلہ کی طرف رکھنا اور انگلیوں (٢)\t
کا کشادہ ہونا۔
امام کا تکبیر تحریمہ اور ایک رکن سے دوسرے میں جانے کی تمام تکبیریں بقدر (٣)\t
حاجت بلند ٓاواز سے کہنا۔
دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے اوپر ناف کے نیچے بادھنا مرد کے لئے ہاتھوں کو ناف(٤)\t
کی نیچے رکھنا اور عورت کےلئے سینہ پر رکھنا۔
ثنائ پڑھنا۔(٥)\t
تعوذ پڑھنا۔(٦)\t
تسمیہ پڑھنا۔(٧)\t
ٓامین کہنا۔(٩)\t
امام کو سمیع ہللا لمن حمدہ کہنا اور مقتدی کو ربنا لک الحمد کہنا۔ منفر د کو دونوں (٤١)\t
کہنا۔
سجدوں میں دونوں ہاتھوں اور دونوں گھٹنوں کا پیشانی سے پہلے رکھنا اور (٥١)\t
ہاتھوں کی انگلیاں ملی ہوئی قبلہ رخ رکھنا۔
االعلی پڑھنا۔(٦١)\t
ٰ سجدوں میں تین بار سبحان ربی
جلسہ اور تشہد میں داہنا پائوں کھڑا رکھنا اور بایاں پائوں بچھانا۔(٧١)\t
مستحبات نماز
مرد کو تکبیر تحریمہ کے وقت دونوں ہاتھ ٓاستینوں سے باہر نکال لینا اور عورتیں (١)\t
اندر ہی رکھیں ۔
منفرد کو رکوع اور سجدہ میں تین بار سے زیادہ تسبیح کہنا۔(٢)\t
قیام کے وقت نگاہ کا سجدہ گاہ پر رکھنا اور رکوع میں دونوں پائوں کی پیٹھ پر (٣)\t
سجدہ میں ناک کے سرے پر اور قعدہ میں اپنی گو د پر۔ پہلے سالم میں اپنے داہنے
کندھے پر اور دوسرے سالم میں بائیں کندھے پر نظر رکھنا۔
جمائی کے وقت منہ بند رکھنا۔ قیام کی حالت میں دائیں ہاتھ کی پشت سے باقی (٤)\t
حالتوں میں بائیں ہاتھ کی پشت سے یا ٓاستین سے منہ بند کرنا۔
مفسدات نماز
نماز میں کالم کرنا خواہ قصداً ہو یا تھوڑا ہو یا بہت ہر صورت میں نما ٹوٹ جاتی (١)\t
ہے۔
سالم تحیۃً کرنا خواہ قصداً ہو یا سہواً ہر صورت میں نماز ٹوٹ جاتی ہے۔(٢)\t
سالم کا جواب دینا یا چھینکنے والے کو یر حمک ہللا کہنا یا نماز سے باہر والے کسی(٣)\t
شخص کی دعا پر ٓامین کہنا۔
بری خبر کے جواب میں انا لل وانا الیہ راجعون پڑھنا ،خوشی کی خبر میں الحمد ہلل(٤)\t
پڑھنا کسی عجیب خبر پر سبحا ہللا یا الل الہ اال ہللا کہنا۔
سوائے اپنے امام کے کسی اور امام کو نماز میں لقمہ دینا۔(٥)\t
نماز میں ایسی چیز مانگنا جو لوگوں سے مانگتے ہو مثالً یا ٰالہی عورت سے میرا (٦)\t
نکاح کردے یا مجھ کو ہزار روپیہ دے دے۔
عمل کثیر کرنا یا کوئی ایسا کام کرنا جس سے دیکھنے والے یہ سمجھیں یہ شخص(٠١)\t
نماز نہیں پڑھ رہاہے۔
ستر کھل جانے ککی حالت میں ایک رکن کی مقدار ٹہرنا۔(٩١)\t
مکروہات نماز
سول یعنی کپڑے کو لٹکانا۔ مثالً چادر سر پر ڈال کر دونوں کنارے لٹکا دینا۔(١)\t
منہ میں روپیہ یا پیسہ یا کوئی ایسی چیز رکھ کر نماز پڑھنا۔(٥)\t
کنکریوں کو ہٹانا لیکن اگر سجدہ کرنا مشکل ہوتو ایک مرتبہ ہٹانے میں مضائقہ (٩)\t
نہیں ۔
انگلیاں چٹخانہ یا ایک ہاتھ کی انگلی دوسرے ہاتھ کی انگلیوں˜ میں ڈالنا۔(٠١)\t
کتے کی طرح بیٹھنا یعنی رانیں کھڑی کر کے بیٹھنا اور رانوں پیٹ سے اور (٣١)\t
گھٹنوں کو سینے سے مال لینا۔ اور ہاتھوں کو زمین پر رکھ لینا۔
کسی ایسے ٓادمی کی طرف نماز پڑھنا جو نمازی کی طرف منہ کئے ہوئے بیٹھا ہو۔(٤١)\t
سجدے میں دونوں کالئیوں کو زمین پر بچھا لینا مرد کیلئے مکروہ ہے۔(٥١)\t
ٓانکھوں کو بند کرنا لیکن اگر نماز میں دل لگنے کے لئے بند کرے تو مکروہ (٩١)\t
نہیں ۔
امام کا محراب کے اندر کھڑا ہونا لیکن قدم اگر محراب کے باہر ہوں تو مکروہ (٠٢)\t
نہیں ۔
اکیلے امام کا ایک ہاتھ اونچی جگہ پر کھڑا ہونا اور اگر اس کے ساتھ مقتدی ہوں (١٢)\t
تو مکروہ نہیں ۔
ایسی جگہ نماز پڑھنا کہ نماز کے سر کے اوپر یاس اس کے سامنے یا دائیں بائیں (٤٢)\t
طرف یا سجدے کی جگہ تصویر ہو۔
چادر یا کوئی اور کپڑا ایسی طرف لپیٹ کر نماز پڑھنا کہ جلدی سے ہاتھ نہ کل (٦٢)\t
سکیں ۔
سترہ
سترہ کی تعریف̃:۔ جب کوئی جنگل میں یا لوگوں کی گذرگاہ پر نماز پڑھنے کے لئے
کھڑا ہو تو اپنے من کے سامنے کوئی چیز یا لکڑی کھڑی کرے۔ اس کے بعد اگر کوئی
ٓاگے سے گذرے گا تو نماز میں کوئی خلل نہ ٓائے گا اسے سترہ کہتے ہیں ۔ سترہ کی
لمبائی کم از کم ایک ہاتھ ہونی چاہیے۔
اگر ایسے مقام پر نماز باجماعت ہو رہی ہو تو صرف امام کے سامنے سترہ کافی ہے (٢)\t
وہ مقتدیوں کا بھی تصور ہوگا۔
نمازی کے ٓاگے سے گذرنا سخت گناہ ہے۔ حدیث شریف میں ٓایا ہے کہ اگر نمازی (٤)\t
کے سامنے سے گذرنے والے کو اس کی برائی یا گناہ کا معلوم ہوجائے تو سو برس تو
رکا رہے اور ٓاگے سے نہ گذرے۔
سامنے کے فاصلے میں علمائ کا اختالف ہے۔ بہر حال صحیح مذہب یہ ہے کہ نماز کے\t
سجدے کی جگہ سے نہ گذرے اگر کوئی شخس نمازی کے سجدے سے گذرے تو نمازی
کو چاہیے کہ اسے ایک ہارھ سے روک دے۔
ممنوع اوقات
مکروہ مقامات
قبرستان(١)\t
شارع عام(٢)\t
مویشی خانہ(٤)\t
بیت الخالئ(٨)\t
جمعہ کی نماز
جمعہ کی نماز فرض ہے۔ یہ ظہر کے قائم مقام ہے۔ جمعہ کے دن ظہر کی نماز نہیں \t
ہے۔ جمعہ کی نماز ہر ٓازاد عاقل بالغ تندرست اور مقیم مردوں پر فرض ہے۔ جمعہ کی
نماز کے فرض دور رکعت ہیں جو باجماعت ادا کئے جاتے ہیں ۔ اگر جماعت ہوچکے تو
پھر ظہر ہی کی نماز ادا کے جائے جمعہ سے پہلے امام دو خطبے پڑھے۔
خطبہ پڑھنا اور سننا واجب ہے۔ حضور صلی ہللا علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جمعہ سب \t
دنوں سے افضل ہے اسی روز حضرت ٓادم علیہ السالم پیدا ہوئے۔ اسی روز جنت میں
گئے اسی رواز وہاں سے نکلے۔ اسی دن قیامت ہوگی۔ ہر ٓاٹھویں روز جمعہ ہوتا ہے۔ تمام
مسلمان اسی روز مساجد کبیرہ میں اکھٹے ہوتے ہیں اور جمعہ کی نماز پڑھتے ہیں ۔
ٰ
نصاری کو بھی جمعہ کا روز \t حضور پاک صلی ہللا علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ یہود اور
دیا گیا لیکن انہوں نے تغیر و تبدیل کر کے ہفتہ اور اتوار کو منتخب کیا۔ لیکن ہم نے جمعہ
کو منتخب کر کے فضیلت حاصل کر لی۔ اس لئے جمعہ کے روز تمام مسلمانوں کو اہتمام
کر کے نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے جامع مسجد میں پہنچانا چاہیے۔
غسل کرنا :جمعہ کے روز اور خصوصا ً نماز جمعہ کے لئے غسل کرنا سنت ہے۔(١)\t
لباس :نیا دھال ہوا صاف ستھرا لباس پہننا مسنون ہے۔(٢)\t
مسواک کرنا۔(٤)\t
ناخن تراشنا ،بال وغیرہ صاف کرنا مسنون ہے۔ افضل یہ ہے کہ جمعہ کی نماز سے (٥)\t
قبل بال وغیرہ صاف کرے اور ناخن تراش لے۔
جمعہ کا وقت وہی ہے جو نماز ظہر کا وقت ہے سردیوں میں جلدی اور گرمیوں (٧)\t
میں دن ٹھنڈا کر کے نماز پڑھنا چاہیے۔
عیدین کی نماز
شوال کے مہینے کی پہلے تاریخ کو عید الفطر اور ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو عید \t
الضحی کہتے ہیں ۔ یہ دونوں دن اسالم میں عید اور خوشی کے ہیں ۔ ان دونوں دنوں
ٰ
میں دو رکعت نماز بطور شمریہ کے پڑھنا واجب ہے۔ جمعہ کی نماز کی جو شرائط ہیں
وہی سب عیدین کی نماز میں بھی ہیں ۔ سوائے خطبہ کے کہ جمعہ کی نماز میں خطبہ
فرض اور شرط ہے اور نماز سے پہلے پڑھا جاتا ہے اور عیدین کی نماز میں فرض نہیں
سنت ہے اور نماز کے بعد پڑھا جاتا ہے۔
مگر عیدین کا خطبہ سننا بھی جمعہ کے خطبہ کی طرح واجب ہے یعنی اس وقت بولنا \t
نماز پڑھنا وغیرہ سب حرام ہے۔
غسل کرنا۔(٢)\t
مسواک کرنا۔(٣)\t
راستہ تبدیل کرنا یعنی جس راستے سے عید گاہ کی طرف جائے اس سے نہ ٓائے (٣١)\t
بلکہ دوسرے راستہ سے واپس ٓانا۔
راستہ میں تکبیر ٓاہستہ ٓاہستہ کہنا۔ تکبیر کے الفاظ یہ ہیں ۔(٤١)\t
عید الفطر کی نماز پڑھنے کا طریقہ اور نیت
نیت:۔
ترجمہ:۔ ’’ میں نیت کرتا ہوں دو رکعت نماز عید الفطر واجب ساتھ چھ تکبیریں زاید
تعالی کی ‘‘ ہللا اکبر یہ نیت کر کے ہاتھ باندھ
ٰ واجبہ کے منہ طرف کعبہ شریف بندگی خدا
لے اور ثنا یعنی سبحانک ٰ
اللھم ۔۔۔ پڑھ کر تین مرتبہ ہللا اکبر کہے اور ہر مرتبہ مثل تکبیر
تحریمہ کے دونوں ہاتھ اٹھا کر دونوں کانوں کی لو تک لے جائے اور بعد تکبیر کے ہاتھ
لٹکا دے۔ اور ہر تکبیر کے بعد اتنی دیر تک توقف کرے کہ تین مرتبہ سبحان ہللا کہہ سکیں
۔ تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ نہ لٹکائے بلکہ ہاتھ باندھ لے۔ تعوذ اور تسمیہ پڑھ کر سورۃ
فاتحہ اور کوئی دوسری سورۃ پڑھ کر حسب دستور رکوع سجود کر کے کھڑا ہو دوسری
رکعت میں پہلے سورۃ فاتحہ اور دوسری سورۃ پڑھ لے اس کے بعد تین تکبیریں اسی
طرح کہے لیکن یہاں تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ نہ باندھے بلکہ لٹکائے رکھے اور پھر
تکبیر کہہ کر رکوع میں جاوے۔ نماز کے بعد دو خطبے ممبر پر کھڑے ہو کر پڑھے۔
دونوں خطبوں کے درمیان اتنی دیر بیٹھے جتنی جمعہ کے خطبہ میں بیٹھا جاتا ہے۔
عیدالضحی کی نماز
ٰ
عیدالضحی کی نماز کا وہی طریقہ ہے جو عیدالفطر کی نماز کا ہے۔ اس میں بھی وہ سب
ٰ
عیدالضحی کی
ٰ چیزیں مسنون ہیں جو عید الفطر میں ہیں ۔ فرق صرف اس قدر ہے کہ
عیدالضحی کا لفظ داخل کرے۔ عیدالفطر میں عیدگاہ جانے
ٰ نیت میں بجائے عیدالفطر کے
عیدالضحی میں پہلے کوئی چیز کھانا
ٰ سے پہلے کوئی میٹھی چیز کھانا مسنون ہے۔ لیکن
مسنون نہیں ہے۔ عیدالفطر راستہ میں چلتے وقت ٓاہستہ تکبیر کہنا مسنون ہے اور
عیدالضحی میں بلند ٓاواز سے تکبیرکہنا مسنون ہے۔ عیدالفطر کی نماز دیر کر کے پڑھنا
ٰ
عیدالضحی میں صدقہ فطر
ٰ عیدالضحی کی نماز جلدی پحنا مسنون ہے ۔
ٰ مسنون ہے اور
نہیں بلکہ بعد میں قربانی ہے۔ اذان اور اقامت نہ یہاں ہے اور نہ وہاں ۔
فائدہ:۔ تکبیر تشریق نویں تاریخ(یوم عرفہ) کی فجر سے تیرھویں کی عصر تک ایک
مرتبہ ہر فرض نماز کے بعد کہنا واجب ہے۔ تکبیر تشریق یہ ہے:۔
مسئلہ:۔ اگر کوئی شخص کسی عید کی نماز میں ایسے وقت ٓاکر شریک ہوا ہو کہ امام
تکبیروں سے فراغت کرچکا ہو تو اگر قیام میں ٓاکر شریک ہوا ہو تو نیت کے فوراً بعد
تکبیریں کہہ لیں ۔ اگرچہ امام قرٔات شروع کرچکا ہو۔ اگر رکوع میں ٓاکر شریک ہوا ہو
اور غالب گمان ہو کہ تکبیروں کی فراغت کے بعد امام کا رکوع مل جائے گا تو نیت باندھ
کر تکبیریں کہہ لے۔ اس کے بعد رکوع میں جائے اگر رکوع نہ ملنے کا خوف ہو تو
رکوع میں شریک ہوجائے ۔ اور حالت رکوع میں بجائے تسبیح کے تکبیریخ کہہ لے۔
مگر حالت رکوع میں تکبیریں کہتے وقت ہاتھ نہ اٹھائے۔ اور اگر قبل اس کے پوری
تکبیریں کہہ چکے امام رکوع سے سر نہ اٹھالے۔ یہ بھی کھڑا ہوجائے جس قدر تکبیریں
رہ جائیں وہ معاف ہے۔
مسئلہ:۔ اگر کسی کی رکعت عید کی نماز میں چلی جائے تو جس اس کو ادا کرنے لگے تو
پہلے قرٔات کرے اور اس کے بعد تکبیریں کہے۔
ٰ
صلوۃ المسافر (مسافر کی نماز)
سفر کی تعریف:۔ گھر سے اتنا دور جانے کا اراد ہ ہو کہ جس پر پیادہ چلنے سے تین دن
اور تین راتیں لگ جائیں ۔ بعض علمائ نے اسی مسافت کا تخمینہ تین منزل یعنی 48میل
مقرر کیا ہے۔
اگر کسی شخص نے سفر کی مقدار میں جانے کا ارادہ کیا تو سفر شروع کرنے سے ٢\t۔
مسافر شمار ہونے لگتا ہے۔ البتہ اپنے گھر سے نکل کر شہر سے باہر نکلنے سے پہلے
کسر نہیں کر سکتا۔
ماسفر کو چار فرض والی نماز کے دو فرض پڑھنے چاہئیں ۔دو سے زیادہ نہیں ۔ اگر کسی
نے چار فرض پڑھ لئے تو دیکھنا چاہیے کہ پہلے قعدہ میں بیٹھنا ہے تو دو فرض ہوں
گے اور دو نفل۔ اگر پہلے قعدہ میں نہیں بیٹھا تو امام ابو حنیفہ رحمۃ ہللا علیہ کے نزدیک
اور امام ابو یوسف رحمۃ ہللا علیہ کے نزدیک چاروں رکعتیں نفل ہوں گی۔
اگر کوئی مسافر کسی شہر میں پہنچے اور پندرہ روز ٹہرنے کی نیت نہ کرے اور ٣\t۔
کہتا رہے ٓاج جائوں گا یا کل۔ اسی حالت میں کئی برس گذر جائیں تو دو رکعت ہی فرض
پڑھتا رہے گا۔
مقیم امام کی اقتدائ کرے۔ تو اسی نماز کے لئے مقیم شمار ہوگا۔ اس سے بعد والی \tب۔
نماز اگر منفرد پڑھی تو مسافر ہوگا۔ اور نماز کسر ہوئی۔
اپنے شہر میں پہنچے خواہ نیت پندرہ روز کی کرے یا نہ کرے۔\tج۔
مریض کی نماز
اگر کوئی شخص بیمار ہے۔ کھڑے ہو کر نماز نہیں پڑھ سکتا تو بیٹھ کر پڑھے اور رکوع
و سجود کرے۔ اگر رکوع و سجود نہین کرسکتا تو اشارے سے پڑھے مگر رکوع کے
وقت سر کو جھکائے اور سجدے کے وقت اس سے زیادہ جھکائے تاکہ رکوع و سجود میں
فرق ہو اور سجدے کے واسطے منہ کے سامنے کوئی چیز اس قدر بلند نہ رکھے کہ جس
میں جھکنا نہ پڑے بلکہ اسی طرح اشارے سے سجدہ کرنا چاہیے کہ کوئی شخص بلند
سامنے رکھ دے جس پر جھک کر سجدہ کرے۔
اگر بیٹھ بھی نہیں سکتا ہے تو چت لیٹے پائوں قبلے کی طرف کرے اور سر اٹھاکر \t
رکوع و سجود کا اشارہ کرے۔ اگر نماز کو اشارہ سر سے بھی نہ پڑھ سکے تو موقوف
رکھے۔ جسم ۔ ابرو۔ دل کے اشارے سے نہ پڑھو۔
اگر کسی شخص کی کوئی نماز فوت ہوئی اور دوسری نماز کا وقت ٓاگیا تو پہلے کونسی \t
نماز پڑھے؟ اگر نماز کے وقت میں گنجائش ہے تو پہلے فوت شدہ نماز کو ادا کرے اگر
وقت تنگ ہے تو پہلے وقتی نماز پڑھے۔ یعنی قضا نماز کو فوراً پڑھے ۔ بال کسی عذر
کے قضا پڑھنے میں دیر لگانا گناہ ہے۔
تنگی وقت:۔ تنگی وقت کی صورت یہ ہے کسی شخص نے عشائ کی نماز نہیں پڑھی اور
صبح کی نماز میں اس کو یاد ٓایا اور وقت میں تنگی ٓاجاتی ہے تو کیا کرے؟
اگر وقت ایسا ہے کہ چھ رکعت نماز کی پڑھ سکتا ہے تو ہنوز وقت باقی ہے پہلے عشا \t
کی نماز پڑھے اور اس کے بد صبح کی نماز پڑھے۔ اگر وقت ایسا ہے کہ اتنی رکعتیں
نہین پڑھ سکتا ہے تو پہلے صبح کی نماز ادا کرے۔ پھر طلوع ٓافتاب عشائ کی نماز پڑھ
لے۔
کثرت کی صورت یہ ہے کہ ایک شخص کی نماز یں بہت فوت ہوئی ہیں اگر چھ سے \t
کم ہوں تو جس طرح فوت ہوئی ہیں ۔ بالترتیب اسی طرح ادا کرے۔ اگر چھ سے زیادہ ہوں
تو ترتیب ساقط ہوجائے گی ،جس کو چاہے پہلے پڑھ لے۔
نوٹ:۔ کسی بے نمازی نے توبہ کی تو جتنی نمازیں عمر بھر میں قضا ہوئی ہیں سب کی
قضا پڑھنی واجب ہے توبہ سے نماز معاف نہیں ہوتی۔ البتہ نہ پڑھنے سے جو گناہ ہوا تھا
وہ توبہ سے معاف ہوگای۔ اب ان کی قضا نہ پڑھے گا تو پھر گناہ گار ہوگا۔ جس شخص
کی ایک دو رکعتیں رہ گئی ہوں اس کو مسبوق کہتے ہیں ۔
مسبوق کا بیان
مسبوق کا حکم یہ ہے کہ پہلے امام کے ساتھ شریک ہو کر جس قدر نماز باقی ہو جماعت
سے ادا کرے۔ امام کی نماز ختم ہونے کے بعد کھڑا ہوجائے اور اپنی گئی ہوئی رکعتوں
کو ادا کرے۔
مسبوق کو اپنی گئی ہوئی رکعتیں منفرد کی طرح قرٔات کے ساتھ ادا کرنا چاہیے۔ اور(٢)\t
اگر ان رکعتوں میں کوئی سہ ہوجائے تو اس کو سجدہ سہو بھی کرنا ضروری ہے۔
مسبوق کو اپنی گئی ہوئی رکعتیں اس ترتیب سے ادا کرنا چاہیے کہ پہلے قرٔات والی(٣)\t
پھر بے قرٔات کی اور جو رکعتیں امام کے ساتھ پڑھ چکا ہے۔ ان ے حساب سے قعدہ
کرے یعنی ان رکعتوں کے حساب سے جو دوسری ہو رسمیں پہال قعدہ کرے۔ اور جو
تیسیر رکعت ہو اور نماز تین رکعت والی ہو۔ تو اس میں اخیرہ قعدہ کرے۔
ظہر کی نماز میں تین رکعت ہوجانے کے بعد کوئی شخص شریک ہو اس کو چاہیے )(٤
کہ بعد امام کے سالم پھیر دینے کے کھڑا ہوجائے اور گئی ہوئی تین رکعتیں اس ترتیب
سے ادا کرے۔ پہلی رکعت میں ثنائ سورۃ فاتحہ کے ساتھ اور سورۃ مال کر رکوع سجدہ
کر کے پہال قعدہ کرے اس لئے کہ یہ ملی ہوئی رکعت کے حساب سے دوسری ہے پھر
دوسی رکعت میں بھی سورۃ فاتحہ کے ساتھ سورت مالئے اور اس کے بعد قعدہ نہ کرے
اس لئے کہ یہ رکعت اس ملی ہوئی رکعت کے حساب سے تیسری ہے۔ پھر تیسری رکعت
میں سورۃ فاتحہ کے ساتھ دوسری سورت نہ مالئے کیونکہ یہ رکعت قرٔات کی نہ تھی اور
اس میں قعدہ کرے کہ یہ قعدہ اخیرہ ہے۔
الحق کا بیان
الحق وہ مقتدہ ہے جس کی کچھ رکعتیں یا سب رکعتیں بعد شریک جماعت ہونے کے \t
جاتی رہیں خواہ بعذر مثالً نماز میں سو جائے اور اس درمیان میں کوئی رکعت وغیرہ
جاتی رہی یا لوگوں کی کثرت سے رکوع سجدے وغیرہ نہ کرسکے یا وضو ٹوٹ جائے
اور وضو کرنے کے لیے جائے اور اس درمیان میں اس کی رکعتیں جاتی رہیں (نماز
خوف میں پہال گروہ الحق ہے اسی طرح جو مقیم مسافر کی اقتدائ کرے اور مسافر کسر
کرے تو وہ مقیم بعد امام کے نماز ختم کرنے کے الحق ہے) یا بے عذر جاتی رہیں ۔ مثالً
امام سے پہلے کسی رکعت کا رکوع سجدہ کر لے اور اس وجہ سے رکعت اس کی کالعدم
سمجھی جائے تو اس رکعت کے اعتبار سے وہ الحق سمجھا جائے گا۔ پس الحق کو واجب
ہے کہ پہلے اپنی ان رکعتوں کو ادا کرے جو اس کی جاتی رہی ہیں ۔ بعد اس کے ادا
کرنے کے اگر جماعت باقی ہو تو شریک ہوجائے ورنہ باقی نماز بھی پڑھ لے الحق اپنی
گئی ہوئی رکعتوں میں بھی مقتدی سمجھا جائے یعنی جیسے مقتدی قرٔات نہیں کرتا
ویسے الحق بھی قرٔات نہ کرے۔ بلکہ سکوت کئے ہوئے کھڑا رہے اور جیسے مقتدی کو
اگر سہو ہوجائے تو سجدہ سہو کی ضرورت˜ نہیں ہوتی ویسے الحق کو بھی۔
اگر کوئی شخص الحق بھی اور مسبوق بھی مثالً کچھ رکعتیں ہوجانے کے بعد شریک \t
ہوا ہو اور بعد شرکت کے پھر کچھ رکعتیں رکعتیں اس کی چلی جائیں تو اس کو چاہیے
کہ پہلے اپنی ان رکعتوں کو ادا کرے جو بعد شرکت کے گئی ہیں جن میں وہ الحق ہے
مگر ان کے ادا کرنے میں اپنے کو ایسا سمجھے جیسا وہ امام کے پیچھے نماز پڑھ رہا
ہے یعنی قرٔات نہ کرے اور امام کی ترتیب کا لحاظ رکھے اس کے بعد اگر جماعت باقی ہو
تو اس میں شریک ہوجائے ورنہ باقی نماز بھی پڑھ لے بقدر اپنی ان رکعتوں کو ادا کرے
جن میں مسبوق ہے۔ مثا ًل عصر کی نماز میں ایک رکعت ہوجانے کے بعد کوئی شخص
شریک ہوا اور شریک ہونے کے بعد ہی اس کا وضو ٹوٹ گیا اور وضو کرنے گیا اس
درمیان میں نماز ختم ہوگئی تو اس کو چاہیے کہ پہلے ان تینوں رکعتوں کو ادا کرے جو
بعد میں شریک ہونے کے گئی ہیں ۔ پھر اس رکعت کو جو اس کے شریک ہونے سے
پہلے ہوچکی تھی۔ اور ان تینوں کی پہلے رکعتوں کو مقتدی کی طرح ادا کرے یعنی
قرٔات نہ کرے اور ان تین کی پہلے رکعت میں قعدہ کرے اس لئے کہ یہ امام کی دوسری
رکعت ہے اور امام نے اس میں قعدہ کیا تھا۔ پھر دوسری رکعت میں قعدہ نہ کرے اس
لئے کہ یہ امام کی تیسری رکعت ہے۔ پھر تیسری رکعت میں قعدہ کرے اس لئے کہ یہ
امام کی چوتھی رکعت ہے اور اس رکعت میں امام نے قعدہ کیا تھا پھر اس رکعت کو ادا
کرے جو اس شریک ہونے سے پہلے پوچکی تھی اور اس میں بھی قعدہ کرے اس لئے کہ
یہ اس کی چعتھی رکعت ہے اور اس رکعت میں اس کو قرٔات بھی کرنا ہوگی اس لئے کہ
اس رکعت میں وہ مسبوق ہے اور مسبوق اپنی گئی ہوئی رکعتوں کے ادا کرنے میں
منفرد کا حکم رکھتا ہے۔
نماز جنازہ
جنازہ کے ارکان:۔
کھڑے ہونا۔ اگر کوئی عذر ہو تو بیٹھ کر جنازہ کی نماز پڑھے تو درست نہیں ۔٢\t۔
واجبات نماز جنازہ:۔ نماز کے اندر میت کے لیے دعا کرنا واجب ہے۔ (در مختار)
سنن جنازہ :۔ ثنائ اور درود شریف پڑھنا جنازہ میں سنت ہے۔
مفسدات جنازہ:۔ جو مفسدات عام نماز کے ہیں وہی مفسدات نماز جنازہ کے ہیں ۔
اگر جنازہ غائب ہو یا سواری پر ہو یا ہاتھوں پر ہو یا پیچھے ہو تو نماز درست نہیں ۔ ٣\t۔
(عالمگیری۔ در مختار)
تعالی
ٰ نیت جنازہ:۔ میں نیت کرتا ہوں چار تکبیر نماز جنازہ فرض کفایہ ثنائ واسطے ہللا
مصطفی صلی ہللا علیہ وسلم کے اور دعا واسطے اس ٰ کے درود واسطے حضرت محمد
تعالی کی۔ (اگر امام ہو تو انا اما ٌم
ٰ حاضر میت کے منہ طرف کعبہ شریف کے بندگی خدا
میں امام ہوں کہے اور اگر مقدتی ہو دل میں کہے پیچھے اس امام کے) تکبیر تحریمہ ہللا
اکبر بلند ٓاواز سے کہہ کر ہاتھ باندھ لیں ۔ مقتدی ٓاہستی کہے پھر ثنائ پڑھے۔
پھر ہللا اکبر بغیر رفع یدین کے (یعنی بغیر ہاتھ اٹھانے کے) کہے اور پھر وہ درود شریف
پڑھے جو نماز کے قعدہ اخیرہ میں پڑھا جاتا ہے پھر تیسری تکبیر کے بعد یہ دعا پڑھے۔
ترجمہ ’’ :اے ہللا بخش دے ہمارے زندہ اور مردہ اور حاضر اور غائب کو اور ہمارے
چھوٹے اور بڑے اور ہمارے مرد اور عورت کو اے ہللا تو ہم میں سے زندہ رکھے تو
اسے اسالم پر زندہ رکھیو اور جس کو ہم میں سے وفات دے تو اسے ایمان پر وفات
دیجیو‘‘۔
پھر چوتھی تکبیر ہللا اکبر کہہ کر دونوں طرف سالم پھیر دے۔
نوٹ :۔اگر کسی کو یہ دعا یاد نہ ہو تو یہ دعا پڑھے۔
ترجمہ ’’ :اے ہللا ہمیں اور ہمارے والدین اور مومنین مرد اور مومنات عورتوں کو بخش
دے‘‘۔
’’الہی˜ اس لڑکے کو ہمارے لئے ٓاگے سامان کرنے واال بنادے اور اس کو ہمارےترجمہٰ :
لئے اجر کا موجب اور وقت پر کام ٓانے واال بنا دے۔ اور اس کو ہماری سفارش واال بناد ے
جس کی سفارش منظور ہوجائے‘‘۔
ترجمہ’’ :اے ہللا اس لڑکی کو ہمارے لئے ٓاگے پہنچ کر سامان بنانے والی بنادے اور اس
کو ہمارے لئے اجر کی موجب اور وقت پر کام ٓانے والی بنادے اور اس کو ہمارے لئے
سفارش کرنے والی بنا دے اور وہ جس کی سفارش منظور ہو ‘‘۔