مسئلہ توسل از افادات متکلم اسالم موالنا محمد الیاس گھمن حفظہ ہللا تمہید: مسئلہ کی تفصیل سے قبل چند باتیں عرض کی جاتی ہیں: معنی: ٰ توسل کا لغوی وشرعی معنی: ٰ لغوی ُ به َر َّب َق يتُ به إلى الشَّيْء وُ َص َّل َو يتْل ما ُ َس َ ِيلة هي في األص الو :1 (النہايۃ فى غريب االثرالبن االثیرالجزرى :ج5ص)402 کہ ”وسیلہ “دراصل اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ذريعے کسی (مطلوبہ) چیز کی طرف پہنچا جائے اور اس کا قرب حاصل کیا جائے مصباح اللغات میں ہے: :2 الوسیلہ :تقرب حاصل کرنے کاذريعہ (مصباح اللغات :ص)946 :3حکیم االمت حضرت تھانوی رحمہ ہللا فرماتے ہیں” :توسل“ لغت میں تقرب اور نزديکی کو کہتے ہیں قرآن شريف میں ہے﴿ :وابتغوااليہ الوسيلة﴾ يعنی ہللا کاقرب حاصل کرو (ملفوظات حکیم االمت ج25ص)123 معنی: ٰ شرعی شرعا ً توسل کا اطالق ان اقسام پر ہوتا ہے: توسل بالدعاء: التوسل ۔۔۔ بدعاء الرجل الصالح الحي الموجود فتقول يا شيخ ادع هللا لي ونحو ذلك ،كما استسقى الصحابة برسول هللا صلى هللا عليه وسلم. (التوسل المشروع و الممنوع :ص)17 ترجمہ :توسل بالدعاء سے مراد يہ ہے کہ زندہ نیک آدمی کو دعا کی درخواست کرنا کہ حضرت! میرے لیے ہللا سے دعا فرمائیں ،جیسا کہ صحابہ رضی ہللا عنہم نے رسول ہللا صلی ہللا علیہ و سلم سے بارش کے لیے دعا کی درخواست کی۔ توسل باالعمال: واتباع وعبادته هو التقرب إلى هللا تعالى بطاعته أنبيائه ورسله وبكل عمل يحبه هللا ويرضاه . (التوصل الی حقیقۃ التوسل لمحمد نسیب الرفاعي :ص)13 تعالی کی اطاعت ،عبادت ،اس کے انبیاء و رسل کی اتباع اور ٰ ترجمہ :وسیلہ باالعمال سے مراد ہللا تعالی کو پسند ہو اور ہللا اس سے راضی ٰ ہر اس عمل کے ذريعے ہللا کا قرب حاصل کرنا ہے جو ہللا ہو۔ توسل بالذات: و ان يتوسل بالنبی صلی هللا عليہ و سلم و باحد من ٰ و يتوسل االولياء العظام جائز بان يکون السوال من هللا تعالی بوليہ و نبيہ صلی هللا عليہ و سلم۔ الفتاوی :ج 6ص)327 ٰ (امداد ترجمہ :نبی صلی ہللا علیہ و سلم اور کسی ولی کی ذات سے وسیلہ کیا جائے جس کی صورت يہ ہے تعالی سے جائے لیکن واسطہ ولی يا نبی صلی ہللا علیہ و سلم کا ہو۔ ٰ کہ مانگا تو ہللا پیش نظر توسل کی شرعی تعريف کچھ يوں ہے: مندرجہ باال تین اقسام کے ِ ً هو التقرب إلى هللا تعالی بدعاء النبيين و التوسل شرعا و الصالحين و االولياء و شفاعتہم او بکل عمل يحبه هللا مسئلہ توسل 2 ٰۃ و الصيام و غير ذلک و ويرضاه من عبادتہ کالصالۃ و الزکو اتباع أنبيائه ورسله او بجاه النبيين و الصالحين و ٰ سواء بحرمتہم و ببرکتہم و بحقہم علی هللا سبحانہ و تعالی کان فی حياتہم او بعد وفاتہم تعالی کا قرب حاصل کرنا ہے چاہے وہ انبیاء ،صالحین اورٰ ترجمہ :شريعت میں توسل سے مرد ہللا اولیاء سے دعا کروا کر اور ان کی شفاعت سے حاصل کیا جائے يا ہر اس عمل سے کیا جائے جسے ہللا پسند فرماتا ہے جیسے اس کی عبادت کرنا مثالً نماز پڑھناٰ ، زکوۃ دينا ،روزہ رکھنا وغیرہ اور انبیاء ،رسل کی اطاعت کرنا يا انبیاء و صالحین کی جاہ ،حرمت ،برکت اور ان کے (ہللا پر ہونے والے) حق(يا اس قسم کے ديگر الفاظ مثالً بطفیل فالں ،بوسیلہ فالں وغیرہ) سے حاصل کیا جائے چاہےاس دنیوی زندگی میں ہو يا وفات کے بعد والی زندگی میں۔ فائدہ: توسل کی ان تین اقسام میں سے توسل بالدعاء اور توسل باالعمال اہل السنۃ وا لجماعۃ اور فريق مخالف [مماتی اور غیر مقلدين] کے ہاں متفق علیہ ہے لیکن توسل بالذات کے اہل السنۃ و الجماعۃ تو قائل ہیں البتہ فريق مخالف اس کا منکر ہے۔ اہل السنۃ وا لجماعۃ اور فريق مخالف کا پیش خدمت ہے: موقف ِ مذہب اہل السنت والجماعت: عالمہ تقی الدين علی بن عبد الکافی ابن علی السبکی الشافعی [م756ھ] لکھتے ہیں: :1 ان التوسل بالنبی صلی هللا عليہ وسلم جائز فی کل حال قبل خلقہ وبعدخلقہ فی مدۃ حياتہ فی الدنيا وبعد موتہ فی مدۃ البرزخ (شفاءالسقام للسبکی :ص)358 ترجمہ :نبی اکرم صلی ہللا علیہ و سلم کا توسل لینا ہر حال میں جائز ہے چاہے آپ کی تخلیق سے پہلے ہو ،آپ کی پیدائش کے بعد آپ کی دنیوی زندگی میں ہو يا آپ کی وفات کے بعد آپ کی برزخی زندگی میں ہو۔ عالمہ احمد بن محمد القسطالنی الشافعی رحمۃ ہللا علیہ [م923ھ] لکھتے ہیں: :2 َ من الدعاء و التضرع و ِر و ينبغی للزائر ان ُ يکث االشتغاثۃ و التشفع و التوسل بہ صلی هللا عليہ و سلم (المواہب اللدنیۃ :ج3ص 417الفصل الثانی فی زيارۃ قبرہ الشريف الخ) ترجمہ :زائر کو چاہیے کہ بہت کثرت سے دُعا مانگے ،گڑگڑائے ،مدد چاہے ،شفاعت کی دعا کرے اور حضور صلی ہللا علیہ وسلم کا وسیلہ پکڑے۔ شاہ ولی ہللا محدث دہلوی رحمہ ہللا (م1176ھ) فرماتے ہیں: :3 ومن ادب الدعاء تقديم الثناء علی هللا و التوسل بنبی هللا ليستجاب( .حجۃ ہللا البالغۃ ج2ص)6 تعالی کی تعريف اور حضور صلی ہللا علیہ وسلمٰ ترجمہ :اور دُعا کا مستحب طريقہ يہ ہے کہ اہللا کے وسیلہ کو مقدّم کیا جائے تاکہ دُعا کو قبولیت کا شرف ہو۔ علماءديوبند کی اجماعی و متفقہ دستاويز ”المہند علی المفند“ میں تیسرا اور چوتھا سوال توسل :4 کے متعلق تھا ،حضرات علماء ديوبند کا متفقہ مسلک اس سوال و جواب میں مالحظہ فرمائیں: السوال الثالث والرابع :هل للرجل ان يتوسل فی دعواتہ بالنبی صلی هللا عليہ وسلم بعد الوفاۃ ام ال؟ ايجوزالتوسل عندکم بالسلف الصالحين من االنبياء والصديقين والشھداء واولياءرب العالمين ام ال؟ الجواب :عندنا وعندمشائخنا يجوزالتوسل فی الدعوات باالنبياء والصالحين من االولياء والشھداء والصديقين فی حياتھم وبعدوفاتھم بان يقول فی دعائہ اللھم انی اتوسل اليک بفالن ان تجيب دعوتی وتقضی حاجتی الی غيرذلک مسئلہ توسل 3 (المہند علی المفند :ص)37 ،36 ترجمہ :تیسرااورچوتھا سوال:کیا وفات کے بعد رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کاتوسل لینا دعاؤں میں جائز ہے يا نہیں ؟ تمہارے نزديک سلف صالحین يعنی انبیاء ،صديقین ،شہداء اور اولیاء ہللا کا توسل بھی جائز ہے يا ناجائز؟ جواب :ہمارے نزديک اور ہمارے مشائخ کے نزديک دعا میں انبیاء ،اولیاء ،شہداءاور صديقین کا توسل جائز ہے ،ان کی زندگی میں بھی اور وفات کے بعد بھی ،آدمی يوں دعاکرے :اے ہللا! فالں بزرگ کے وسیلہ سے میری دعا قبول فرما اورمیری اس ضرورت کوپورافرما۔ حکیم االمت موالنا محمد اشرف علی تھانوی رحمۃ ہللا علیہ [م1362ھ] لکھتے ہیں: :5 و الثالث دعاء هللا ببرکۃ هذا لمخلوق المقبول و هذا قد جوزه الجمہور الخ (بوادر النوادر :ص)708 تعالی ٰ ترجمہ :اور توسل کی تیسری صورت يہ ہے کی کسی مقبول مخلوق کی برکت کے ساتھ ہللا سے مانگے اور اسے جمہور نے جائز قرار ديا ہے۔ لہذا اہل السنت والجماعت کے نزديک دعامیں کسی نبی ياولی کاوسیلہ دينا مستحب ،اقرب الی االجابت اورآداب میں سے ہے۔ مذہب اہل بدعت: موجودہ دور کے غیر مقلدين اورمماتی حضرات توسل کے منکر ہیں اور اسے ہنود و نصاری کا طريقہ کہا ،شرک کے اسباب قرار ديا اور مشرکین کا عقیدہ بتاليا۔ اس کا موقف ان کی ٰ چند عبارات میں مالحظہ ہو: غیر مقلدين حضرات کی عبارات: :1سید طالب الرحمن صاحب غیر مقلد لکھتے ہیں: کسی فوت شدہ نبی يا ولی کا وسیلہ دينا جائز نہیں کیونکہ يہ عم ِل صالح نہیں۔ (آئیے عقیدہ سیکھیے: ص)159 :2محمود احمد میر پوری صاحب غیر مقلد وسیلہ بالذات کو غیر مشروع قرار ديتے ہوئے لکھتے ہیں: فتاوی صراط ٰ وسیلے کا يہی وہ غیر مشروع طريقہ ہے جو انسان کو شرک میں مبتال کر ديتا ہے۔ ( مستقیم :ص)70 :3محمد رئیس ندوی صاحب نے توسل بالذات کے بارے میں جس قسم کی زبان استعمال کی اور قائلین توسل پر جو گالیوں کی بوچھاڑ کی وہ صرف انہی کا حصہ ہے۔ گالیاں ديتے ديتے موصوف دعوی مکذوبہ و قبیحہ ،حرام وغیرہ کہہ کر دل کی بھڑاس ٰ نے توسل کی اس قسم کو مشرکانہ توسل، نکالی ہے۔ (مجموعہ مقاالت پر سلفی تحقیقی جائزہ از رئیس ندوی :ص 856تا )872
مماتی حضرات کی عبارات:
:1محمد حسین نیلوی صاحب اپنی کتاب ”ندائے حق“میں لکھتے ہیں: دراصل يہ مسئلہ (توسل) ہنود ونصاری سے چالآرہا ہے۔ (ج 2ص 349عنوان :مسئلہ وسیلہ بالذوات وا الموات کا اصل ماخذ) :2محمد طاہر صاحب پنجپیری کی کتاب ”البصائر مصنفہ مولوی حمد ہللا الداجوی“ کے حاشیہ میں ہے: قائلین توسل اور پہلے دور کےمشرکین کاعقیدہ ايک جیسا ہے۔ (حاشیہ البصائر:ص)237 :3عطاء ہللا بنديالوی صاحب لکھتے ہیں: اسالم میں وسیلہ کاکوئی ثبوت نہیں ،جواز وسیلہ پر کوئی ايک آيت ،حديث ياصحابی کا عمل موجود نہیں۔ لہذا وسیلہ قرآن وحديث کے خالف ہے ۔ (وسیلہ کیا ہے؟ )64 ،46 ،42 ،41: ايک مقام پر متو ِسل کے بارے میں لکھتے ہیں: اور وہ پاگل اپنے درخواست پیش کرنے کے لیے مخلوق میں سے وسیلوں اور واسطوں کو ڈھونڈتا مسئلہ توسل 4 پھرے۔ (شرک کیا ہے :ص)19 : 4میاں محمد الیاس صاحب محمد طاہر پنج پیری صاحب کی ايک تصنیف کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: يہ موالنا کی پہلی مطبوعہ تصنیف ہے اور جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ اس کا موضوع”توسل و وسیلہ“ ہے جو کہ پورے ہندوستان میں عام ہے اورشرک کے بنیادی اسباب میں سے ہے۔ (موالنا طاہر کی خدمات :ص)194 توسل بالذات کا ثبوت: حضرات انبیاء علیہم السالم اور صالحین رحمۃ ہللا علیہم کی ذاتوں سے توسل کرنے کا جواز کتاب ہللا ،سنت رسول ہللا صلی ہللا علیہ و سلم ،اجماع امت اور سلف صالحین کے اقوال سے ثابت ہے۔ خصوصا ً حضور اکرم صلی ہللا علیہ و سلم سے توسل کرنے کا جواز عقالً و نقالً ثابت ہے۔ عقالً ثبوت: ق مخالف بھی اس کا قائل ہے۔ اعمال فرع ہیں اورذات اعمال کا وسیلہ تو مسلّم ہے حتی کہ فري ِ :1 زکوۃ ،حج وغیرہ اعمال فرع ہیں اور ذات پیغمبر صلی ہللا علیہ اصل ہے۔ بالفاظ ديگر نماز ،روزہٰ ، وسلم اصل ہے کیونکہ حضور صلی ہللا علیہ وسلم کے جسم سے نکلنے والے اعمال کا نام ”دين“ اولی جائز ہوگا۔ ہے۔ جب اعمال اورفرع کا وسیلہ جائز ہے تو ذات پیغمبر اور اصل کا وسیلہ بدرجہ ٰ نیز اعمال خود نہیں آئے نبی صلی ہللا علیہ و سلم الئے ہیں۔ اگر نبی صلی ہللا علیہ و سلم نہ ہوتے تو اعمال ہمیں نہ ملتے۔ تو وہ اعمال جن کے وسیلے کے تم قائل ہو ان کا وسیلہ خود حضور صلی ہللا علیہ و سلم کی ذات ہے۔ تعالی کی جانب سے نعمت ہیں ،ان کا وسیلہ جائز ہے۔ حضرت انبیاء ٰ اعمال صالحہ خداوند :2 علیہم السالم و صالحین حضرات خصوصا ً آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم کی ذات گرامی تمام نعمتوں کبری ہے۔ ارشاد خداوندی ہے: ٰ ت کا سرچشمہ بلکہ نعم ِ ْ ِن ً َسُوال م ْ ر ِم ِيھَث ف َ بع ْ ِذ َ َ ِين إ ِن ْ ُؤم ْ َلى الم َ اَّللُ ع َّ َّ من د َ َْ ﴿َلق ْ﴾ (آل عمران)64: ِھ ِم ُسنفَْأ ترجمہ:بے شک ہللا کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں ايک رسول انہی میں سے بھیجا۔ توجب چھوٹی نعمتوں (اعمال صالحہ وغیرہ) سے توسل کرنا جائز ہے تو بڑی نعمتوں (جناب رسول ت مبارکہ اور ديگر انبیاء علیہم السالم اور صالحین رحمۃ ہللا علیہم)سے ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کی ذا ِ اولی جائز اور درست ہوگا۔ توسل کرنا بدرجہ ٰ اعما ِل صالحہ چونکہ تقرب الی ہللا کا ذريعہ ہیں ،اس لیے ان سے توسل جائز ہے تو انبیاء :3 علیہم السالم ان سے بڑھ کر تقرب کا ذريعہ ہیں۔ وجہ يہ ہے کہ اگر ايمان نہ ہو تو اعمال صالحہ سے ب ب خداوندی نہیں ملتا اور اگر ايمان ہو اور اعما ِل صالحہ بھی ہوں تو اعما ِل صالحہ سے اتنا قر ِ قر ِ خداوندی نہیں ملتا جتنا پیغمبر کی ذات سے ملتا ہے۔ َلكَُ َّ ع َم َ َطن َح ْب َ َ لي ْتَك َ ْ أشْر َ تعالی کا يہ فرمان ہے﴿ :لئ ِن اول کی دلیل ہللا ٰ َ﴾ [سورۃ الزمر]65: ِين ِرالخَاس َ ْ ِنَّ م ُ َ ونن َكََلتو کہ اگر تم نے شرک کا ارتکاب کیا تو تمہارے سارے اعمال غارت جائیں گے اور تم يقینی طور پر سخت نقصان اٹھانے والوں میں شامل ہو جاؤ گے۔ ثانی کی دلیل حضور صلی ہللا علیہ و سلم کے صحابہ رضی ہللا عنہم ہیں۔ رسول ہللا صلی ہللا علیہ و سلم نے فرمايا: ال تسبوا أحدا من أصحابي فإن أحدكم لو أنفق مثل أحد ذهبا ما أدرك مد أحدهم وال نصيفه (صحیح مسلم :ج 2ص 310باب تحريم سب الصحابہ) کہ میرے صحابہ کی شان میں نازيبا کلمہ نہ کہنا اس لیے کہ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے اور يہ (صحابہ رضی ہللا عنہم) ايک جو مٹھی بھر َجوخرچ کريں تو تمہارا احد پہاڑ کے برابر سونا اِن کی مٹھی بھر جو کے برابر نہیں۔ مٹھی بھر َجو خرچ کرنا چھوٹا عمل ہے ،احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرنا بڑا عمل ہے۔ اب ت پیغمبر يہاں احد پہاڑ کی مثل سونا مٹھی بھر َجو کے برابر اس لیے نہیں کہ مٹھی بھر َجو کو ذا ِ مسئلہ توسل 5 ت پیغمبر کی صحبت نہیں ملی۔ ثابتکی صحبت ملی ہےاور ہمارے احد پہاڑ کی مثل سونے کو ذا ِ ب خداوندی نہیں ملتا جتنا پیغمبر کی ذات سے ملتا ہے۔ ہوا کہ اعمال صالحہ سے اتنا قر ِ کتاب ہللا سے توسل کا ثبوت: پہلی آيت: وتعالی نے يہود کے بارے میں فرمايا : ٰ ہللا تبارک ُوا ﴾ (سورۃ البقرۃ)89: َ َ ِين كفر َ َّ َلى الذ َ َ ُون ع ِح ْ َ يسْتفت ُ ْل َ َ ْ ِن قب ُ َكانوا م َ ﴿و ترجمہ :اور اس سے پہلے وہ اس نبی کے وسیلہ سے کافروں پر فتح مانگتے تھے۔ شاہ عبد العزيز محدث دہلوی رحمۃ ہللا علیہ(م 1239ھ) لکھتے ہیں: ابو نعیم اوربیہقی اورحاکم نےساتھ اسناد صحیحہ اورطرق متعددہ کے روايت کی ہے کہ يہودی مدينہ کے اوريہودی خیبر کے جس وقت ساتھ بت پرستوں عرب کے يعنی فرقہ بنی اسد اوربنی غطفان اورجہینہ اورغدرہ کے جنگ کرتے تھے ،مغلوب ہوجاتے اورشکست کھاتے ،الچارہوکرطرف دانشمندوں اور کتاب اپنے کے رجوع کیا انہوں نے بعدتامل بسیار کے ،يہ دعا اپنے سپاہیوں کو تعلیم کی کہ لڑائی کے وقت میں پڑھا کريں ،پھرمغلوب نہ ہوئے اورفتح پاتے تھے ،دعا يہ ہے: ِیِ االمی الذی َّب د الن اللھم ربنا انا نسالک بحق احمَ وعدتنا ان تخرجہ لنا فی آخرالزمان وبکتابک الذی تنزل َّ عليہ آخرماينزل ان تنصرناعلی اعدائنا ۔ (تفسیرعزيزی :ج2ص)581 ترجمہ :اے ہللا!ہم تجھ سے حضرت احمد صلی ہللا علیہ و سلم کے حق اور وسیلے سے جو نبی امی ہیں ،جس کا تو نے ہم سے وعدہ کیا ہے کہ اس کو تو آخری زمانہ میں بھیجے گا ،اور اس کتاب کے وسیلہ سے جس کا تو نے آخری زمانہ میں نازل کرنے کا وعدہ فرمايا ہے ،سوال کرتے ہیں کہ آج کے دن تو ہمیں ہمارے دشمن پر غلبہ عطا فرما۔ عالمہ محمود آلوسی بغدادی رحمۃ ہللا علیہ [م1270ھ] لکھتے ہیں: وہ لوگ يہ دعا کرتے تھے: اللھم إنا نسألك بحق نبيك الذي وعدتنا أن تبعثه في آخر الزمان أن تنصرنا اليوم على عدونا ( .روح المعانی:ج1ص)320 ترجمہ :اے ہللا!ہم تجھ سے تیرے اس رسول کے حق اور وسیلے سے جس کا تو نے ہم سے وعدہ کیا ہے کہ اس کو تو آخری زمانہ میں بھیجے گا ،سوال کرتے ہیں کہ آج کے دن تو ہمیں ہمارے دشمن پر غلبہ عطا فرما۔ شیخ ابو محمد عبد الحق حقانی دہلوی رحمہ ہللا(م 1336ھ) لکھتے ہیں: مدينہ کے يہود بنی اسد اوربنی غطفان وغیرہ قبائل عرب سے جب شکست کھاکرعاجز ہوئے تواپنے علماءکی تعلیم سے دعاکیاکرتے تھے :اللھم ربنا انا نسالک بحق احمد النبی االمی الذی وعدتنا ان تخرجہ لنا فی آخرالزمان وبکتابک الذی تنزل عليہ آخرماينزل ان تنصرناعلی اعدائنا کہ ٰالہی ہم کو ببرکت نبی آخرالزمان محمدصلی ہللا علیہ وسلم کے اورببرکت قرآن مجید کے ہمارے دشمنوں پر فتح ياب کر۔ (تفسیرحقانی :ج1ص)510 شیخ التفسیر موالنا محمد ادريس کاندھلوی رحمہ ہللا(م 1394ھ) اس آيت کے تحت لکھتے ہیں: حاالنکہ نزو ِل قرآن اورآپ کی بعثت سے پہلے ہی لوگ کافراوربت پرستوں کے مقابلہ میں آپ کے نام کی برکت سے فتح ونصرت ہللا سے مانگا کرتے تھے۔ چنانچہ يہودمدينہ اوريہودخیبر کی جب عرب کےبت پرستوں سے لڑائی ہوتی تويہ دعا مانگتے: اللھم ربنا انا نسالک بحق احمد النبی االمی الذی وعدتنا ان تخرجہ لنا فی آخرالزمان وبکتابک الذی تنزل عليہ آخرماتنزل ان تنصرناعلی اعدائنا۔ (تفسیرمعارف القرآن کاندھلوی :ج1ص)233 ترجمہ :اے ہللا! ہم تجھ سے حضرت احمد صلی ہللا علیہ و سلم کے حق اور وسیلے سے جو نبی امی مسئلہ توسل 6 ہیں ،جس کا تو نے ہم سے وعدہ کیا ہے کہ اس کو تو آخری زمانہ میں بھیجے گا ،اور اس کتاب کے وسیلہ سے جس کا تو نے آخری زمانہ میں نازل کرنے کا وعدہ فرمايا ہے ،سوال کرتے ہیں کہ آج کے دن تو ہمیں ہمارے دشمن پر غلبہ عطا فرما۔ ان تصريحات سے معلوم ہوا کہ يہود مدينہ آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم کی آمد سے قبل آپ کے وسیلہ سے دعا مانگتے تھے ۔ اعتراض: اس آيت سے تو يہ ثابت ہوتا ہے کہ توسل بالذات يہود کا طريقہ تھا اور يہی کچھ مماتی حضرات کہتے ہیں۔ جواب: اوالً۔۔۔۔ اصول الفقہ کی مشہور کتاب ”نور االنوار“ میں مال جیون(م 1130ھ) فرماتے ہیں: شرائع من قبلنا شريعتنا ما لم تنسخ ( نور االنوار :ص 227بحث الفرق بین الہام النبی صلی ہللا علیہ و سلم و غیرہ) ترجمہ :ہم سے پہلی شريعتیں جب تک منسوخ نہ ہو جائیں توانہیں بھی ہماری شريعت سمجھا جائے گا۔ عالمہ محمود آلوسی بغدادی رحمہ ہللا (م1270ھ) فرماتے ہیں: مذهبنا في شرع من قبلنا وإن كان إنه يلزمنا على أنہ شريعتنا لكن ال مطلقا بل إن قصہ هللا تعالى علينا بال إنكار (روح المعانى :ج 8ص 239تحت سورۃ كہف آيت)21 تعالی بغیر انکار کے ہمیں بیان ٰ ترجمہ :پہلی شريعتوں کے بارے میں ہمارا مذہب يہ ہے کہ اگر ہللا فرما ديں تو ہمارے لیے بھی ان کا حکم ثابت ہو گا۔ شريعت محمديہ علی صاحبہا السالم میں توسل بالذات سےمنع نہیں آيا بلکہ اس کا اثبات منقول ہے جیسا کہ آگے دالئل میں آرہا ہے۔ لہذا اس آيت سے توسل کا جواز ثابت ہوا۔ اگر اسی شبہ پر توسل بالذات کا انکار کر ديا جائے کہ يہ پہلی شريعتوں کا مسئلہ ہے ثانیاً۔۔۔ تو ہم ان منکرين سے پوچھتے ہیں کہ توسل باالعمال کے آپ بھی توقائل ہیں اور اس پر جو اصحاب الغار واال واقعہ پیش کرتے ہیں تو وہ بھی اس امت کے اولیاء نہیں تھے بلکہ بنی اسرائیل تعالی نے بنی اسرائیل ٰ کے اولیاء تھے ،تو پھر اس کا انکار کر ديا جائے۔ اصل بات يہ ہے کہ جب ہللا کے توسل کا تذکرہ کیا اور ترديد نہیں فرمائی تو وہ اب ہماری شريعت ہے اور نبی اکرم صلی ہللا علیہ و سلم نے اصحاب الغاروالی حديث بیان فرمائی اور ترديد نہیں فرمائی تو وہ بھی ہماری شريعت ہے۔ دوسری آيت: اَّللَ َّ ُوا ْف َر َغَاسْتَ ف ءوك َاُ ْ ج ھم ُسَُنفَْ ُوا أ ََ لم ْ ظ ِذْ إ ھم نََُّ ْ أ ََلوو ًا(سورۃ النساء)64: َحِيم با ر َّاًتو اَّللَ َ دوا َّ َُ ُ َلو َج َّسُول ُ الر ھمَ َلُ َرْفَغ َاسْت و ترجمہ :اور جب ان لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا ،اگر يہ اس وقت تمہارے پاس آ کر ہللا سے مغفرت مانگتے اور رسول بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے تو يہ ہللا کو بہت معاف کرنے واال ،بڑامہربان پاتے۔ اس آيت میں دو چیزيں ہیں: :2نبی اکرم صلی ہللا علیہ و سلم کا استغفار :1ان لوگوں کا اپنا استغفار تعالی نے صرف ان کے استغفار پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ اس کے ساتھ پیغمبر صلی ہللا علیہ ٰ ہللا و سلم کے استغفار کا بھی ذکر کیا۔ تو جس طرح ان کے اپنے استغفار کا ذکر کیا درمیان میں پیغمبر َ ﴾ ہے کہ ءوك َاُتعالی کا فرمان ﴿ :ج ٰ کی ذات کو بھی ذکر کیا۔ پیغمبر کو شامل کرنے پر دلیل ہللا وہ لوگ آپ صلی ہللا علیہ و سلم کے پاس آئیں۔ اگر صرف استغفار ہی کافی تھا تو پھر حضور صلی ہللا علیہ و سلم کے پاس آنے کی ضرورت نہیں تھی۔ معلوم ہوا کہ عام استغفار کے قبول ہونے میں ان لوگوں کی ذات کو دخل ہے لیکن وہ استغفار جو رسول ہللا صلی ہللا علیہ و سلم کی ذات کے قريب َ ﴾ ذکر نہ فرماتے۔ ءوك َاُ ت نبوت کو دخل ہے ورنہ ﴿ ج آکر کیا جائے اس کی قبولیت میں ذا ِ جواز وسیلہ پر استدالل کرتے ہیں۔ چنانچہِ امام مالک بن انس المدنی (م179ھ) اسی آيت سے مسئلہ توسل 7 منقول ہے کہ ايک مرتبہ خلیفہ منصور مدينہ منورہ آيا اور اس نے امام مالک سے دريافت کیا : استقبل القبلۃ و ادعو ام استقبل رسول هللا صلی هللا عليہ و سلم؟ فقال :و لم تصرف وجہک عنہ و ہو وسيلتک و وسيلۃ ابيک آدم عليہ ا لسالم الی هللا يوم القيامۃ؟ بل استقبلہ وا ٰ :و لو انہم اذ ظلموا ستشفع بہ فيشفعہ هللا۔ قال هللا تعالی الباب ٰ :ج 2ص26 انفسہم االيۃ ( .الشفاء بتعريف حقوق المصطفی وجوب توقيره) الثالث فی تعظيم امره و ترجمہ :میں قبر نبوی کی زيارت کرتے وقت دعا کرتے ہوئے قبلہ رخ ہوں يا حضور صلی ہللا علیہ وسلم کی طرف رخ کروں ؟ امام مالک رحمۃ ہللا علیہ نے جواب ديا :اے امیر! آپ رسول ہللا صلی ہللا اعلی ٰ علیہ وسلم کی جانب سے منہ کیوں موڑتے ہیں حاالنکہ وہ تمہارے لیے اور تمہارے جد روز قیامت وسیلہ ہیں ،بلکہ اے امیر! آپ کو چاہیے کہ رسول ہللا حضرت آدم علیہ السالم کے لیے ِ صلی ہللا علیہ و سلم کی جانب متوجہ رہیے اور حضور صلی ہللا علیہ و سلم کی شفاعت کے طلب تعالی کا فرمان ہے :جب ان لوگوں نے اپنی ٰ گار رہیے ،ہللا ان کی شفاعت قبول فرمائے گا کیونکہ ہللا جانوں پر ظل م کیا تھا ،اگر يہ اس وقت تمہارے پاس آ کر ہللا سے مغفرت مانگتے اور رسول بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے تو يہ ہللا کو بہت معاف کرنے واال ،بڑامہربان پاتے۔ عالمہ تقی الدين السبکی الشافعی (م756ھ ) اس آيت کو توسل بالذوات کی دلیل قرار ديتے ہوئے لکھتے ہیں: واالحاديث و اآلثار فی ذلک اکثر من ان تحصر ،و لو ْ ِذ ْ إ ھمنََُّ ْ أََلو ٰ﴿:و ً ،و نص قولہ تعالی تتبعتہا لوجدت منہا الوفا ُ﴾ َّسُولُ الر ھمَ َلُ َرْفَغ َاسْت ُوا َّ اَّللَ و ْف َر َغَاسْتَ ف ءوكَاُ ْ جھمُسَُ نفَُْوا أ لمََ ظ اآليۃ صريح فی ذلک( .شفاء السقام :ص 376الباب الثامن فی التوسل وا الستغاثہ و التشفع بالنبی صلی هللا عليہ و سلم) ترجمہ :توسل بالذوات کے بارے میں احاديث و آثار شمار سے باہر ہیں ،اگر آپ ان کو جمع کريں تو ْ ھمُسَُ نفَْ ُوا أ لمََْ ظ ْ إ ِذ ھمنََُّ ْ أ ََلو تعالی کا فرمان﴿و ٰ ان کی تعداد ہزاروں میں پائیں گے۔ ہللا ُ﴾ توسل بالذوات کے جواز میںَّسُولُ الر َ َلُ ھم َرْفَغ َاسْت ُوا َّ اَّللَ و َرْف َغَاسْت َ ف ءوكَاُ ج نص صريح ہے۔ ِ تیسری آيت: َ َس َ ِيلة ِ ْ الو ْهَِلي ُوا إ َغ َاْ بت ُوا َّ اَّللَ و ُوا َّ اتق منَ آَ ِين ھا َّ الذ يََُّ َ يا أ االيۃ (سورۃ المائدۃ)35: ترجمہ :اے ايمان والو! ہللا سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو ۔ امام ابو عبد ہللا الحاکم رحمۃ ہللا علیہ (م405ھ) نے حضرت حذيفہ رضی ہللا عنہم سے ہللا ة﴾ (اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو) کے ِيلَ َس َ ِ ْ الو َِلي ْه ُوا إ َغ بتَاْ تعالی کے فرمان﴿ :و ٰ بارے میں يہ بات بیان کی ہے: لقد علم المحفوظون من أصحاب محمد صلى هللا عليه و سلم أن ابن أم عبد هللا من أقربھم إلى هللا وسيلة (المستدرک علی الصحیحین :ج3ص 37کتاب التفسیر تحت سورۃ المائدۃ) ترجمہ :بے شک حضور نبی کريم صلی ہللا علیہ و سلم کے اصحاب میں سے محفوظ حضرات نے تعالی کی جانب ان ٰ جان لیا کہ ابن ام عبد ہللا (حضرت عبد ہللا بن مسعود) وسیلہ کے طور پر ہللا حضرات میں سے اقرب اشخاص میں ہیں۔ شیخ االسالم عالمہ زاہد بن الحسن الکوثری رحمہ ہللا (م1371ھ) لکھتے ہیں: َل التوسل باالشخاص ،و التوسل تشْموالوسيلة بعمومہا َ باالعمال۔۔۔ اما شمول الوسيلۃ فی اآليۃ المذکورۃ للتوسل باالشخاص فليس برای مجرد و ال ہو بماخوذ من العموم اللغوی فحسب بل ہو الماثور عن عمر الفاروق رضی هللا عنہ الخ (مقاالت الکوثری :ص)286 مسئلہ توسل 8 پیش نظر ذاتوں کے وسیلہ کو بھی شامل ہے اور ترجمہ :اس آيت میں لفظ ”الوسيلۃ“ عموم کے ِ اعمال کے وسیلہ کو بھی۔۔۔ آيت مذکورہ میں وسیلہ کا توسل باالشخاص کو شامل ہونا محض رائے عموم لغوی کا نتیجہ ہے بلکہ يہ حضرت عمر فاروق رضی ہللا عنہ سے ِ سے نہیں اور نہ ہی لفظ کے منقول ہے الخ۔ آگے عالمہ کوثری رح مہ ہللا نے کئی ايک آثار ذکر فرمائے ہیں جن سے توسل باالشخاص ثابت ہوتا ہے۔ وسیلہ ذوات واعمال دونوں کو اس لئے شامل ہے کہ وسیلہ سے مراد ”قربت“ ہے ،جیسا کہ عامہ مفسرين نے فرمايا ہے۔ (ديکھیے تفسیر الدر المنثور ،تفسیر ابن کثیر ،تفسیر جاللین وغیرہ) چوتھی آيت: ْ همَُ ْ و ھم َِ بُ َذ معاَّللُ ُ ن َّ َاَ ََ ما ك ْ و ِم َ ف ِيھ نتَْ َأْ و ھم َِ بُ َذ ُع اَّللُ ِ لي ن َّ َاَ ما كََو ُوَ ن ِرْفَغ َ يسْت (سورۃ االنفال)33: ترجمہ :اور (اے پیغمبر!) ہللا ايسا نہیں ہے کہ اِن کو اِس حالت میں عذاب دے جب تم ان کے درمیان موجود ہو اور ہللا انہیں عذاب دينے واال نہیں ہے جب کہ وہ بخشش مانگتے ہوں۔ امام ترمذی رحمۃ ہللا علیہ(م 279ھ)نے ايک حديث روايت کی ہے کہ حضور اکرم صلی ہللا تعالی نے مجھ پر میری اُمت کے لئے دو امانتیں نازل فرمائیں: ٰ علیہ و سلم نے فرمايا :ہللا ْ ھم بََُِذ معاَّللُ ُ َ ما كان ََّ ََْ } {و ِمِيھ َ َأنت فَْ ْ وھمبَُِ َذُع لياَّللُ ِ ن َّ َاَ ما ك ََ {و ُون} إذا مضيت تركت فيھم االستغفار إلى يوم َ ِر ْ َ يسْتغفْ َ َُ هم و القيامة( .جامع الترمذی :ج 2ص 139ابواب التفسير ،تحت تفسير سورۃ االنفال) ترجمہ :ايک امانت يہ آيت” :اور ہللا ايسا نہ کرے گا کہ انہیں تیرے ہوتے ہوئے عذاب دے“اور دوسری يہ آيت ” :ہللا انہیں عذاب دينے واال نہیں ہے جب کہ وہ بخشش مانگتے ہوں“۔ پس جب میں (دنیا) سے چال جاؤں گا تو ان میں استغفار کو قیامت تک کے لئے چھوڑ جاؤں گا۔ عذاب سے بچنے کے دو سبب اس آيت میں ذکر کیے گئے ہیں۔ايک سبب پہلے حصہ میں ْ﴾ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب تک آپ صلی ہللا علیہ و سلم ان میں ِم ِيھ َ فنتَْ َأوارد الفاظ﴿ :و ُوَ ن﴾ ِرْف َغيسْتْ َهم َُتشريف فرما ہوں اس وقت تک عذاب نہ آئے گا اور دوسرا سبب ان الفاظ﴿ :و ْ﴾ ذوات کے بیان کے لئے ہے اور ِم ِيھ َ فنتَْ َأسے معلوم ہو رہا ہے۔ تو يہاں پہال جملہ ﴿و ن﴾ اعمال کے بیان کے لئے ہے۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ ذوات ُوَِرْف َغ ْ َ يسْت همَُدوسرا جملہ ﴿و کا وسیلہ بھی جائز ہے اور اعمال کا بھی جائز ہے۔ احاديث مبارکہ سے توسل کا ثبوت: حديث نمبر:1 امام بخاری رحمہ ہللا نے اپنی صحیح میں حضرت انس رضی ہللا عنہ سے روايت کیا ہے: َ ُوا اسْتسْقى َ َط َا ق َح ِذ ن إَاَ ه ك َُْناَّللُ ع ِيَ َّ َّابِ ر َض َ اْلخَط بنَ َْر ُم ََّ ن ع أ ْكَ َُ إ ِلي َو َسَّل َ َّا نت ُن َّ ِنا ك َّ إ ھم َّ َ اللُ َ َقال ِبِ ف َّ ُطل ْ ِ الم َب ْد بنِ ع َب َّاسِ ْ ب ْ ِالع َال َ َا قِنَاسْق َا ف ِيِن نبِ َ َم ِع ْكَ ب َِلي ُ إ َو َسَّل نا َ نت َِّ َإَا و ِين َت َسْق َا فِيِنَب ِنب َ ْن َ ُسْقوفيَ (صحیح البخاری :ج1ص 137باب سوال الناس االمام االستسقاء اذا قحطوا) ترجمہ :جب لوگ قحط میں مبتال ہوتے تو عمر بن خطاب ،عباس بن عبدالمطلب کے وسیلہ سے دعا کرتے اور فرماتے کہ اے ہللا! ہم تیرے پاس تیرے نبی صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ لے کر آيا کرتے تھے تو تو ہمیں سیراب کرتا تھا ،اب ہم لوگ اپنے نبی کے چچا (عباس رضی ہللا عنہ) کا وسیلہ لے کر آئے ہیں ،ہمیں سیراب کر۔ راوی کا بیان ہے کہ لوگ سیراب کئے جاتے( يعنی بارش ہوجاتی)۔ اعتراض: اس حديث سے تو يہ ثابت ہوتا ہے کہ وسیلہ باالحیاء تو جائز ہے ،وسیلہ باالموات جائز نہیں مسئلہ توسل 9 ہے۔ اس لیے کہ حضرت عمر رضی ہللا عنہ نے حضرت عباس رضی ہللا عنہ کا وسیلہ ديا ہے۔ اگر اموات کا وسیلہ جائز ہوتا تو رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کو چھوڑ کر حضرت عباس رضی ہللا عنہ کا وسیلہ ذات کا وسیلہ نہ ديا جاتا۔ جواب: حضور صلی ہللا علیہ وسلم کو چھوڑ کر حضرت عباس رضی ہللا عنہ کی ذات سے توسل کرنے کی يہ وجوہات ہیں: حضرت عمر رضی ہللا عنہ حضرت عباس رضی ہللا عنہ کا وسلیہ سے يہ بتانا چاہتے :1 تھ ے کہ جس طرح انبیاء علیہم السالم کا توسل جائز ہے اسی طرح غیر االنبیاء کا توسل بھی جائز ہے۔ يہ بتانا مقصود تھا کہ توسل بالنبی صلی ہللا علیہ وسلم کی دو صورتیں ہیں ،ايک بذات :2 النبی صلی ہللا علیہ وسلم اور دوسری توسل باھل قرابت النبی صلی ہللا علیہ وسلم۔ يہ بتانا مقصود تھا کہ غیر انیباء علیہم السالم کا توسل بھی رحمت وبرکت کا باعث ہے :3 ۔ انسانی طبعیت کا تقاضا يہ ہے کہ محسوس ،موجود اور مبصر پر زيادہ مطمئن ہوتی :4 ہے ۔ جیسے اگر کوئی آدمی روضہ رسول صلی ہللا علیہ وسلم پر جا رہا ہو تو اس کو سالم پہنچانے کا واسطہ بنايا جاتا ہے ۔ حاالنکہ سالم تو فرشتے بھی پہنچاتے جن کی رفتار بھی تیز ہے اور سالم پہنچانا بھی يقینی ہے۔ اسی لیے بتقاضائے انسانی حضر ت عمر رضی ہللا عنہ نے حضرت عباس رضی ہللا عنہ کی ذات کا توسل لیا۔ رہا معترض کا يہ کہنا کہ ”وسیلہ باالحیاء تو جائز ہے ،وسیلہ باالموات جائز نہیں“ بال دلیل وحجت ہے ۔ اس لیے کہ : دعوی نہ داللت النص سے ثابت ہے ،نہ عبارت النص سے ،نہ اشارۃ النص ہے نہ ٰ يہ :1 اقتضاء النص سے۔ حضرت عمر رضی ہللا عنہ کے حضرت عباس رضی ہللا عنہ کی ذات سے توسل لینے :2 میں تو توسل باالموات کا اثبات ہوتا ہے کہ نہ انکار۔ اس لیے کہ حضرت عمر رضی ہللا عنہ بنبيا فتسقينا “ اور يہ اليک انا نتوسل نے فرمايا تھا”اللھم ضابطہ ہے کہ صحابی کے اس قول ”کنا نفعل کذا“ (ہم ايسا کیا کرتے تھے) کا مطلب يہ کہ ہم جوبات کہہ رہے ہیں اس قول کے وقت تک ہمارا يہی عمل ہے۔ا ب حضرت عمر رضی ہللا عنہ کے قول کا مطلب يہ ہوگا کہ ہم اس وقت تک (يعنی قحط والے سال تک) حضور صلی ہللا علیہ وسلم کی ذات کا وسیلہ ديتے آئے ہیں ۔ اب اس میں حضور صلی ہللا علیہ وسلم کی حیات دنیوی آپ کی صلی ہللا علیہ وسلم کی موت کے بعد والی زندگی دونوں کا اولی ثابت ہوا۔ زمانہ شامل ہے۔ لہذا اس سے تو توسل باالحیاء بدرجہ ٰ حضرت عباس رضی ہللا عنہ کا توسل بھی درحقیقت حضور صلی ہللا علیہ وسلم کا توسل :3 تھا کیونکہ حضرت عمر رضی ہللا عنہ کے الفاظ يہ تھے ”وانا نتوسل اليک بعم نبينا“ يہاں حضرت عباس رضی ہللا عنہ کی جو نسبت حضو ر صلی ہللا علیہ وسلم کے ساتھ ہے يعنی”عم“ ( چچا) والی نسبت کو ذکر کیا ہے پھر وسیلہ مانگا ہے ۔ معلوم ہوا کہ صرف حضرت عباس رضی ہللا عنہ کا وسیلہ نہیں بلکہ اس عباس رضی ہللا عنہ کا وسیلہ مانگا جو حضور صلی ہللا علیہ وسلم کے چچا ہیں ۔ تو حضو ر صلی ہللا علیہ وسلم کی ذات درمیان میں آتی ہے۔ فائدہ: يہ جوابات اور مؤقف حضرات اکابر کی عبارات اور تصريحات سے واضح ہوتا ہے جنہوں نے اس حديث سے استدالل فرمايا ہے ،ذيل میں ان مستدلین حضرات پیش خدمت ہیں: مستدلین: حافظ ابن حجر عسقالنی رحمۃ ہللا علیہ (م 852ھ)نے فتح الباری میں حضرت عبد ہللا بن عمر :1 رضی ہللا عنہما کی سند کے ساتھ اس حديث کو ذکر کیا ہے اور فرمايا ہے کہ اس حديث میں ہے کہ مسئلہ توسل 10 حضرت عمر رضی ہللا عنہ نے خطبہ ارشاد فرمايا: إن رسول هللا صلى هللا عليه و سلم كان يرى للعباس ما يرى الولد للوالد فاقتدوا أيھا الناس برسول هللا صلى هللا عليه و سلم في عمه العباس واتخذوه وسيلة إلى هللا وفيه فما برحوا حتى سقاهم هللا (فتح الباری :ج2ص 641باب سوال الناس االمام االستسقاء اذا قحطوا) ترجمہ ”:رسول ہللا صلی ہللا علیہ و سلم کی نظر میں حضرت عباس رضی ہللا عنہ کا مرتبہ ايسا تھا جیسا اوالد کی نظر میں والد ہوتا ہے ،اس لیےاے لوگو!حضور صلی ہللا علیہ و سلم کے چچاحضرت عالی عباس رضی ہللا عنہ کے بارےمیں رسول اکرم صلی ہللا علیہ و سلم کی اقتداء کرو اور ان کوہللا ت ٰ کی جانب وسیلہ بناؤ۔“ ابھی دعا مانگ رہے ہوتے کہ دعا کا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ حکیم االمت حضرت موالنا اشرف علی تھانوی رحمۃ ہللا علیہ(م 1362ھ) اس حديث مبارک :2 کو نقل کرکے فرماتے ہیں: ” ف :مثل حديث باالاس سے بھی توسل کاجواز ثابت ہے اورنبی صلی ہللا علیہ وسلم کے ساتھ تو جوازتوسل ظاہرتھا ،حضرت عمر رضی ہللا عنہ کواس قول سے يہ بتالناتھا کہ غیرانبیاء سے بھی توسل جائز ہے ،تو اس سے بعض کا سمجھنا کہ احیاء واموات کا حکم متفاوت ہے بالدلیل ہے ۔اول تو آپ بنص حديث قبر میں زندہ ہیں ،دوسرے جوعلت جواز کی ہے جب وہ مشترک ہے توحکم کیوں مشترک نہ ہوگا ؟ (التکشف :ص 675بعنوان :غیر انبیاء سے بھی توسل جائز ہے) شیخ االسالم شیخ زاہد بن حسن الکوثری رحمہ ہللا (م1371ھ)اس حديث سے استدالل کرتے :3 ہوئے فرماتے ہیں: ُّ علی ما قبل َب ان قول الصحابی(( :کنا نفعل کذا)) ينص زمن القول فيکون المعنی ان الصحابۃ رضی هللا عنہم کانوا يتوسلون بہ صلی هللا عليہ وسلم فی حياتہ و بعد لحوقہ ٰ الی عام الرماد و قصر ذلک علی ما قبل بالرفيق االعلی وفاتہ عليہ السالم تقصير عن ہوی و تحريف للنص و تاويل بدون دليل (مقاالت الکوثری :ص)287 ترجمہ :صحابی کے اس قول کا کہ ((کنا نفعل کذا)) [ہم ايسا کیا کرتے تھے] مطلب يہ ہے کہ يہ فعل اس قول کے وقت سے پہلے والے زمانے میں ہوتا رہا ہے۔ لہذا حضرت عمر رضی ہللا ُ) کا مطلب يہ ہو گا کہ صحابہ رضی ہللا عنہم حضور َو َسَّل نتَّا َُن نا ك َِّ عنہ کے اس قول (إ عالی کے صلی ہللا علیہ و سلم کا توسل آپ علیہ السالم کی حیات میں اور آپ علیہ السالم کے خدا ت ٰ پاس جانے کے بعد سے لے کر قحط والے سال تک کرتے رہے ہیں۔ اس توسل کو حضور صلی ہللا ت دنیوی جو وفات سے پہلے وہ زمانہ علیہ و سلم کی وفات سے قبل والے زمانے(يعنی صرف حیا ِ ہے) کے ساتھ خاص کرنا خواہشات کی پیروی ،نصوص میں تحريف اور بال دلیل تاويل کرنے کے مترادف ہے۔ شیخ االسالم موالنا ظفراحمدعثمانی رحمہ ہللا (م 1394ھ)ايک سوال کا جواب ديتے ہوئے :4 فرماتے ہیں: حضرات صحابہ کا بعدوصال نبوی علیہ الصلوۃ والسالم الی يوم القیامہ کے حضرت عباس رضی ہللا عنہ سے استسقاء میں توسل کرنا ہرگزاس امر پردال نہیں کہ بعد وصال کے حضور سے دعوی ہے تو داللت النص وعبارت النص يا اشارۃ النصٰ توسل فی الدعاء ممنوع ہوگیا تھا ۔اگرکسی کو واقتضاء النص کے طريق سے کسی طريقہ سے ثابت کرے کہ يہ حديث اس امر پر کیونکر دال ہے ۔بلکہ اگر غور کیا جائے تو خود اس واقعہ میں بھی توسل بسید الرسل صلی ہللا علیہ وسلم تھا ،کیونکہ َم ِ ِع َِلي ْكَ ب ُ إ َو َسَّل نت نا ََِّ َ إ ھم َللُ حضرت عمر رضی ہللا عنہ کے الفاظ يہ ہیں(( :ا ِ)) يہاں بھی در حقیقت حضور صلی ہللا علیہ و سلم ہی سے توسل تھا، ْہِيَب ِ اْوِنَصِيِك و نبَ حضرت عباس رضی ہللا عنہ کو اس توسل بالنبی صلی ہللا علیہ و سلم کی تقويت کے لئے آگے کیا مسئلہ توسل 11 تھا۔ (امداد االحکام :ج1ص)133 فقیہ العصر مفتی رشیداحمدلدھیانوی رحمۃ ہللا علیہ(م 1422ھ) اس حديث مبارک کو نقل :5 کرکے فرماتے ہیں: حضرت عمر رضی ہللا عنہ کے فعل سے بعض حضرات نے جوازتوسل کی تخصیص باالحیاء کا دعوی کیا ہے جو صحیح نہیں ،جب توسل ثابت ہوگیا تو احیاء و اموات میں ما بہ الفرق تغیراحوال کیاہے؟ اگر کچھ فرق تسلیم کر لیا جائے تو مسئلہ برعکس ہونا چاہیئے کیونکہ زندہ انسان ِ سے مامون نہیں ،اسی لئے حديث میں وارد ہے کہ کسی کی اقتداء کرنا چاہو تو میت کی اقتداء کرو: ٰ عنہ :من كان مستنا فليستن عن ابن مسعود رضی هللا تعالی بمن قد مات فإن الحي ال تؤمن عليه الفتنة الحديث رواه ٰ :ص)32 رزين (مشکو تعالی عنہم توسل با لحی کا استحباب ثابت ہوا توتوسل ٰ پس جب باجماع صحابہ رضی ہللا بالمیت بطريق اولی مستحب ہوگا۔ عالوہ ازيں دلیل اول ،ثالث اور رابع توسل بالمیت کے باب میں صريح ہیں۔ تعالی عنہ نے حضوراکرم صلی ہللا علیہ وسلم ٰ باقی رہا يہ اشکال کہ حضرت عمررضی ہللا تعالی عنہ سےکیوں توسل کیا ؟ سو اس کی چند توجیہات ٰ کی بجائے حضرت عباس رضی ہللا ہوسکتی ہیں: تعالی عنہ سے توسل کے ساتھ آپ کی دعا بھی مقصود تھی۔ ٰ :۱حضرت عباس رضی ہللا : ۲اس پرتنبیہ مقصود تھی کہ توسل بالنبی صلی ہللا علیہ وسلم کی دو صورتیں ہیں؛ ايک توسل بذاتہ دوسری توسل باہل قرابتہ صلی ہللا علیہ وسلم۔ :۳يہ بتانا مقصود تھا کہ توسل بغیر االنبیاء علیہم السالم من االولیاء والصلحاء بھی باعث برکت وجالب رحمت ہے۔ : ۴طبع انسانی اپنے اندر موجود محسوس مبصر شخص پر زيادہ مطمئن ہوتی ہے۔ چنانچہ حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم کی خدمت میں سالم بھیجنے اور دعا کی درخواست پہنچانے میں انسانی وسائط کا اہتمام کیا جاتا ہے ،حاالنکہ مالئکہ کا واسطہ انتہائی سريع ہونے کے ساتھ انتہائی قوی بھی ہے ،نہ ادائے امانت میں غفلت کا خطرہ ،نہ نسیان کا انديشہ ۔ الفتاوی :ج1ص )335 ،334 ٰ (احسن حديث نمبر:2 ْف :أن رجال ضرير البصر أتى النبي صلىَي ُنعن عثمان بن ح هللا عليه و سلم فقال ادع هللا لی أن يعافيني .فقال ( إن شئت أخرت لك وهو خير .وإن شئت دعوت ) فقال ادعه .فأمره أن يتوضأ فيحسن وضوءه .ويصلي ركعتين .ويدعو بھذا الدعاء (اللھم إني أسألك وأتوجه إليك بمحمد نبي الرحمة .يا محمد إني قد توجھت بك إلى ربي في حاجتي هذه لتقضى . ْه ف ِيَّ ) ِعاللھم فشَف صلوۃ الحاجۃ ،مسند احمد بن حنبل :ج13ص 315رقم الحديث ،17175المعجم الصغیر (سنن ابن ماجۃ :ص 99باب ٰ للطبرانی :ص 183من اسمہ طاہر ،التاريخ الکبیر للبخاری :ج6ص 56رقم الترجمۃ )2191 ترجمہ :حضرت عثمان بن حنیف رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں کہ ايک نابیناآدمی رسول صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور درخواست کی کہ ہللا سے میرے لئے عافیت اور تندرستی کی دعا مانگیے ۔ آپ نے فرمايا :اگر چاہو تو آخرت کے لئے دعا مانگوں ،يہ تمہارے لئے بہتر ہے اور چاہو تو (ابھی) دعا کر دوں ؟ اس نے عرض کیا :دعا فرما ديجئے۔ آپ صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم نے اس سے کہا کہ اچھی طرح وضو کرو اور دو رکعتیں پڑھ کر يہ دعا مانگو: َ ِ يا َ ْمة َّ ِيِ الرح نبٍ َ َّد َمُح ِمْکَ بَِليه إ َج َُّ ََ تو َُلکَ و َأ َسْأ ِي أ ِنَّ إ ھم َّ اللُ َّ ُم َّ اللھ َیْض ُقلت ِ ِِههذِي َ َتَاج ِي ح ِي ف َبَِلی ر ِکَ إُ بھت َج َّْ د َ تو َْ ِي ق ِن َُّ د إ َم ُ مح ِيَّ ُْ ه ف ِع َ شف [اے ہللا ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں اور آپ کی طرف متوجہ ہوتا ہوں رحمت والے نبی صلی ہللا مسئلہ توسل 12 علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے ،اے محمد! میں نے آپ کے وسیلہ سے اپنے پروردگار کی طرف توجہ کی اپنی اس حاجت کے سلسلہ میں تاکہ يہ حاجت پوری ہو جائے ،اے ہللا! محمد صلی ہللا علیہ وسلم کی سفارش میرے بارے میں قبول فرما لیجئے ۔] تصحیح حديث: ( )1امام ابن ماجہ رحمۃ ہللا علیہ (م 273ھ)نے اس حديث کو نقل کر کے فرمايا: قال أبو إسحاق هذا حديث صحيح صلوۃ الحاجۃ) (سنن ابن ماجۃ :ص 99باب ٰ ترجمہ :ابو اسحاق نے کہا :يہ حديث صحیح ہے۔ عیسی ترمذی (م 279ھ)فرماتے ہیں: ٰ ( )2امام ابو هذا حديث حسن صحيح (جامع الترمذی:ج2ص ،198ابواب الدعوات) ترجمہ :يہ حديث حسن صحیح ہے۔ ()3امام ابو عبد ہللا الحاکم (م 405ھ)اس حديث کو نقل کر کے فرماتے ہیں: هذا حديث صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه (المستدرك للحاکم :ج1ص 621دعاء رد البصر رقم الحديث )1221 ترجمہ :يہ حديث امام بخاری اور امام مسلم کی شرط پر صحیح ہے لیکن انہوں نے اس کو تخريج نہیں کیا۔ ( )4ناصر الدين البانی غیر مقلد(م 1420ھ)اس کے بارے میں لکھتے ہیں: صحيح( .جامع الترمذى باحکام االلبانی :رقم الحديث)3578 کہ يہ حديث صحیح ہے۔ ( )5موالنا حبیب الرحمٰ ن االعظمی اس کے بارے میں فرماتے ہیں: اسناده صحيح( .صحيح ابن خزيمۃ :ج2ص 225باب صالۃ الترغيب الترہيب) ترجمہ :اس حديث کی سند صحیح ہے۔ مستدلین: :1قاضى محمد بن علی شوكانى(م 1250ھ) لکھتے ہیں: وفي الحديث دليل على جواز التوسل برسول هللا صلى هللا عليه وسلم إلى هللا عز وجل مع اعتقاد أن الفاعل هو هللا سبحانه وتعالى (تحفۃ الذاكرين :ص)208 تعالی کے دربار میں رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلمٰ ترجمہ :اس حديث میں اس بات کی دلیل ہے کہ ہللا تعالی کی ہے۔ ٰ کی ذات کا توسل پکڑنا جائز ہے ،لیکن اعتقاد يہ ہو کہ فاعل (و مختار) ذات ہللا :2حکیم االمت حضرت موالنا اشرف علی تھانوی رحمۃ ہللا علیہ(م 1362ھ) يہ حديث نقل کرنے کے بعدفرماتے ہیں: ”اس سے توسل صراحتا ثابت ہوا اور چونکہ آپ صلی ہللا علیہ وسلم کا اس کے لئے دعا فرمانا کہیں منقول نہیں،اس سے ثابت ہوا کہ جس طرح توسل کسی کی دعا کا جائز ہے اسی طرح توسل دعا میں کسی کی ذات کا بھی جائز ہے۔“ (نشرالطیب :ص 240اڑتیسويں فصل) مفتی اعظم ہند مفتی محمد کفايت ہللا دہلوی علیہ الرحمۃ(م 1372ھ) توسل کے متعلق ايک :3 سوال کے جواب میں فرماتے ہیں: اکثرجواز کے قائل ہیں ۔۔۔ اللھم انی اتوجہ اليک بنبيک نبی الرحمة [الخ] حديث میں موجود،مذکورہے جوجوازکے لئے دلیل ہے۔ (کفايت المفتی :ج2ص)85 اعتراض: اس روايت کی سندمیں راوی ”ابو جعفر“سے مراد ”ابوجعفرعبدہللا بن مسور المدائنی“ ہے جوضعیف بلکہ وضاع ہے ۔ مسئلہ توسل 13 جواب نمبر:1 ْم ِی المدنی“ ہے۔ يہاں ابوجعفرسے مراد”ابوجعفرعمیربن يزيداالنصاری الخَط :1امام ابوبکراحمد بن محمد المعروف بابن السنی (م364ھ)نے يہی حديث نقل کی جس میں ”الخطمی“ کی صراحت ہے :عن أبي جعفر المدني وهو الخطمي عمل الیوم والیلۃ :رقم الحديث 627 مسند احمد کے بھی ايک طريق میں الخطمی کی صراحت ہے: :2 َ َ دثنا َ ح ََّ َ َة قالَ َ بن سَلمَ ِي اْ ْن د َ يع َّاٌ َم َ دثنا ح َ َ ح ََّ َ ٌ قال َ مؤَّ مل َ دثنا ُ َ ََّ ح بنِ َاَ ن ْ ْ ُثمْ عَن ِتٍ ع َ بنِ ثاب َ َة ْيمَْ ُز بنِ خۃ ْ ََ َار ُمْ عَن ْم ِيُّ ع ٍ ْ الخَط َر ْفَعبو جَُأ َُر ُه بصَ َ ََ هب د ذ َْ َ ق َسََّ لم ِ و ْه ليََ اَّللُ ع لى َّ ََّ ِيَّ صَّب تى الن َ ال أَ ًُ َجن ر َ ْفٍ أََّيُنح َ ِيثَد ْ َ الح َ َ فذكر َ مسنداحمد :رقم الحديث 17242 :3أخبرنا حمزۃ بن العباس العقبي ببغداد ثنا العباس بن محمد الدوري ثنا عون بن عمارۃ البصري ثنا روح بن القاسم ِي عن أبي أمامة بن سھل بن حنيف عن عمه ْم عن أبي جعفر الخَط عثمان بن حنيف رضي هللا عنه أن رجال ضرير البصر[الحديث] المستدرك للحاکم :ج2ص213رقم1972 :4أخبرنا أبو محمد عبد العزيز بن عبد الرحمن بن سھل الدباس بمكة من أصل كتابه ثنا أبو عبد هللا محمد بن علي بن زيد الصائغ ثنا أحمد بن شبيب بن سعيد الحبطي حدثني أبي ْم ِي عن أبي عن روح بن القاسم عن أبي جعفر المدني وهو الخَط أمامة بن سھل بن حنيف عن عمه عثمان بن حنيف قال سمعت رسول هللا صلى هللا عليه وسلم وجاءه رجل ضرير فشكا إليه ذهاب بصره[الحديث] المستدرك للحاکم :ج2ص213رقم1973 المدني ْم ِي الخَط جعفر أبي عن القاسم بن روح :5عن [الحديث] المعجم الصغیر للطبرانی :رقم الحديث 508 :6امام اہل سنت موالنا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ ہللا فرماتے ہیں :ترمذی مطبوعہ مصر ْم ِي “کے الفاظ ہیں اورہندی نسخہ میں غالبا ً کتابت کی غلطی کیوجہ سے لفظ میں”وهو الخَط ”غير“زائد ہوگیا ۔ تسکین الصدور :ص432 ْم ِی“کی صراحت چنانچہ المکتبۃ الشاملۃ میں موجودترمذی کے نسخہ میں ”وهو الخَط ہے۔ جامع الترمذى :رقم 3578المکتبۃ الشاملۃ وقال الترمذي هذا حديث حسن صحيح غريب ال نعرفه إال من :7 ْم ِي هذا الوجه من حديث أبي جعفر وهو غير الخَط هكذا وقع في الترمذي وسائر العلماء قالوا هو أبو جعفر الخطمي وهو الصواب. القاعدۃ الجلیلۃ فى التوسل والوسیلۃ البن تیمیۃ :ج2ص202 جواب نمبر:2 اس روايت کی اسناددرج ذيل ہیں : سند نمبر:1 حدثنا محمود بن غيالن حدثنا عثمان بن عمر حدثنا شعبة عن أبي جعفر عن عمارۃ بن خزيمة بن ثابت عن عثمان بن حنيف جامع الترمذى :رقم3578 مسئلہ توسل 14 سند نمبر:2 حدثنا عثمان بن حدثنا محمد بن بشار و أبو موسى قاال سمعت عمارۃ بن عمر نا شعبة عن أبي جعفر المدني قال خزيمة يحدث عن عثمان بن حنيف .صحيح ابن خزيمۃ :رقم 1219 سند نمبر:3 َال َ ِيِ قِينَد ٍ ْ الم َر ْفَع ِي ج َب أ ْ َنة عَُ ْبَا شُع دَ ثن َ ح ََّ َال ْح ٌ ق َا ر َو دَ ثن ََّ ح ْفٍَ ُنيبنِ ح َ َان ْ ْ ُثم ْ َن عع ُ ِثَد يحِتٍ ُ َ َة ْ بنِ ثاب َيم َُ َ بن خزْ َ َۃ َْار ُمُ ع ْت ِعسَم مسنداحمد :رقم الحديث 17242 سند نمبر:4 أخبرنا أبو محمد عبد العزيز بن عبد الرحمن بن سھل الدباس بمكة من أصل كتابه ثنا أبو عبد هللا محمد بن علي بن زيد الصائغ ثنا أحمد بن شبيب بن سعيد الحبطي حدثني أبي ْم ِي عن أبي عن روح بن القاسم عن أبي جعفر المدني وهو الخَط أمامة بن سھل بن حنيف عن عمه عثمان بن حنيف المستدرك للحاکم :ج2ص213رقم1973 سند نمبر:5 أخبرني زكريا بن يحيى قال حدثنا محمد بن المثنى قال حدثنا معاذ بن هشام قال حدثني أبي عن أبي جعفر عن أبي أمامة بن سھل بن حنيف عن عمه السنن الكبرى للنسائی :ج6ص169رقم 10420 سند نمبر:6 أخبرنا محمد بن معمر قال حدثنا حبان قال حدثنا حماد قال أخبرنا جعفر[والصوب ابوجعفر] عن عمارۃ بن خزيمة عن عثمان بن حنيف السنن الكبرى للنسائی:ج6ص168رقم 10419 الحاصل ان روايات میں امام ابوجعفرالخطمی کے اساتذہ يہ ہیں: :1عمارہ بن خزيمہ :2ابوامامہ اورشاگرديہ ہیں: :4حمادبن سلمۃ :3ھشام :2روح بن قاسم :1شعبہ کتب اسماء الرجال میں ان حضرات کا شمارامام ابوجعفر المدنی الخطمی کے اساتذہ اورشاگردوں میں کیا گیا ہے نہ کہ ابوجعفرعبدہللا بن مسور المدائنی کے اساتذہ و شاگردوں میں۔ عن ابى جعفر المدينى سمع عمارۃ بن خزيمة بن ثابت عن عثمان بن حنيف التاريخ الكبیرالمام البخارى ج6ص210 عن ابى جعفر يزيد بن عمير أو عمير بن يزيد عن ابى امامة بن سھل رضى هللا عنه عن عمه التاريخ الكبیرالمام البخارى ج6ص210 عن روح بن القاسم :عن ابى جعفر المدينى عن ابى امامة بن سھل بن حنيف :عن عمه عثمان ابن حنيف رضى هللا عنه التاريخ الكبیرالمام البخارى ج6ص210 ِي اسمه عمير بن يزيد۔۔۔ يروى عن أبيه ْم أبو جعفر الخَط وسعيد بن المسيب روى عنه شعبة وحماد بن سلمة كتاب الثقات البن حبان رقم الترجمه 10028 ْم ِي عمير بن يزيد بن عمير بن حبيب بن خماشة أبو جعفر الخَط بصرى ولجده صحبة روى عن ابيه عن جده وعن ابن المسيب ً روى عنه حماد بن سلمة ومحمد بن كعب وروى هو عن جده ايضا مسئلہ توسل 15 سمعت ابى يقول ذلك قال أبو محمد وروى عنه شعبة بن الحجاج وهشام الدستوائى وروح بن القاسم الجرح والتعديل للرازى ج6ص379رقم الترجمه 2099 ِي واسمه عمير بن يزيد ۔۔۔۔وروى عنه شعبةْم أبو جعفر الخَط وحماد ابن سلمة ويحيى بن سعيد القطان الطبقات الكبرى البن سعد ج1ص347رقم الترجمه 257 ْم ِي عن بن المسيب وأبي أمامة عمير بن يزيد أبو جعفر الخَط بن سھل وعنه شعبة والقطان وعدۃ ثقة الكاشف المام ذھبى ج2ص98رقم الترجمه 4290 عمير بن يزيد بن عمير بن حبيب بن خماشة ويقال ابن حباشة ِي المدني ۔۔۔روى عن أبيه وخاله ْم االنصاري أبو جعفر الخَط عبدالرحمن بن عقبة وأبي أمامة بن سھل بن حنيف وسعيد ابن المسيب ومحمد بن كعب القرظي وعمارۃ بن خزيمة بن ثابت ِي وعمارۃ بن عثمان بن حبيب.وعنه ْموالحارث بن فضيل الخَط هشام الدستوائي وعدي بن الفضل وشعبة وروح ابن القاسم وحماد بن سلمة ويوسف السمتي ويحيى القطان .تھذيب التھذيب ج5ص139رقم الترجمہ 2168 جواب نمبر:3 عالمہ شمس الدين الذہبی (م748ھ) میزان االعتدال میں لکھتے ہیں: ورمزت على اسم الرجل من أخرج له في كتابه من االئمة الستة :البخاري[،خ] ومسلم[م] ،وأبى داود[،د] والنسائي[ ،س] والترمذي[ ،ت]وابن ماجه [ق]برموزهم السائرۃ. (میزان االعتدال للذہبی :ج 1ص 46مقدمۃ المصنف) ترجمہ :ہر راوی کے نام کے ساتھ میں نے وہ عالمت لگائی ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ صحاحِ ستہ میں سے کس کس محدث نے ان سے روايت لی ہے يعنی امام بخاری (کے لیے عالمت ”خ“)، امام مسلم (کے لیے عالمت ”م“) ،امام ابو داؤ (کے لیے عالمت ”د“) ،امام ترمذی (کے لیے عالمت ”ت“) ،امام ابن ماجہ (کے لیے عالمت ”ق“)۔ اس تفصیل کے بعدعرض ہے کہ ہماری پیش کردہ روايت ترمذی اور ابن ماجہ کی ہے جن کی عالمت بالترتیب ”ت“ اور ”ق“ ہے۔ عالمہ ذہبی نے میزان االعتدال میں ”ابوجعفرالمدائنی“ کے حاالت ذکرکئے ہیں (تحت الرقم )461 :اوراس پرجرح بھی نقل کی ہے لیکن اس کے ساتھ عالمت ”ت“ اور ”ق“نہیں لگائی جو اس بات کی دلیل ہے کہ ہماری روايت کا راوی ابوجعفرالمدائنی نہیں ِی ہے جو کہ ثقہ ہے۔ اس کی ْم جو کہ ضعیف و مجروح ہے بلکہ يہ ابو جعفر عمیربن يزيدالخَط ثقاہت درج ذيل ہے: وذكره ابن حبان في قال ابن معين والنسائي :ثقة، الثقات وقال عبدالرحمن بن مھدي :كان أبو جعفر وأبوه وجده قوما يتوارثون الصدق بعضھم عن بعض. قلت [ابن حجر] :وقال أبو الحسن ابن المديني :هو مدني قدم البصرۃ وليس الهل المدينة عنه اثر وال يعرفونه ووثقه ابن نمير والعجلي فيما نقله ابن خلفون وقال الطبراني في االوسط :ثقة. تہذيب التہذيب :ج5ص139رقم الترجمہ 2168 عمير بن يزيد بن عمير بن حبيب األنصاري أبو جعفر ِي بفتح المعجمة وسكون الطاء المدني نزيل البصرۃ ْم الخَط صدوق من السادسة .4تقريب التہذيب :ج1ص432رقم الترجمۃ 5190 حديث نمبر:3 مسئلہ توسل 16 حضرت انس رضی ہللا عنہ سے روايت ہے کہ جب حضرت فاطمہ بنت اسد بن ہاشم کی وفات ہوئی ،ان کی قبر کھودی گئی تو رسول ہللا صلی ہللا علیہ و سلم وہاں تشريف لے گئے ،اپنے ہاتھ سے قبر کی مٹی نکالی۔ وہاں آپ صلی ہللا علیہ و سلم نے ان الفاظ سے دعا کی: َ ِي فاطمة بنتِ ْف ِر ِألم هللا الذي يحيي ويميت وهو حي ال يموت اغ لھا بحق نبيك واألنبياء ََ دخ مْ ْ عليھا ُ َھا ووس ِع َّت ُج ْھا ح ِن أسد َ ولق الذين من قبلي فإنك أرحم الراحمين (المعجم الکبیر للطبرانی :ج ،10ص 337رقم الحديث)20324 ترجمہ :ہللا کی ذات وہ ہے جو زندہ بھی کرتی ہے اور مارتی بھی ہے ،وہ زندہ ہے اسے موت نہیں آئے گی ،اے ہللا! میری ماں فاطمہ بنت اسد کی مغفتر فرما ،اس کو اس کی حجت (دلیل) سکھا دے (تاکہ وہ فرشتوں کو جواب دے سکے)اور اس پر اس کی قبرکو کشادہ کر دے اس حق کے وسیلے سے جو تیرے نبی کا (يعنی میرا) تجھ پر ہے اور جوان انبیاء علیہم السالم کا ہے جو مجھ سے پہلے ہیں۔ تصحیح الحديث: امام ابن حبان اور امام حاکم رحمہما ہللا نے اسے صحیح قرار ديا ہے۔ اس کی سند میں روح بن صالح ہے۔ امام ابن حبان اور امام حاکم رحمہما ہللا نے اس کی توثیق کی ہے۔ ت کوثری :ص)380 (مقاال ِ استدالل: عالمہ کوثری رحمہ ہللا (م 1371ھ)اس حديث کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: الی و فيہ التوسل بذوات االنبياء الذين انتقلوا الدار اآلخرۃ ت کوثری :ص)380 (مقاال ِ ترجمہ :اس حديث میں اس بات کی دلیل ہےکہ جو انبیاء علیہم السالم حضور صلی ہللا علیہ وسلم سے پہلے گزر چکے ہیں ان کا توسل جائز ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ اس میں"واألنبياء الذين من قبلي "وہ انبیاء جو مجھ سے پہلے ہیں]کے الفاظ ہیں جو مذکورہ توسل پر واضح دلیل ہیں۔ حديث نمبر:4 امام ابو عبد ہللا الحاکم نے حضرت عمربن خطاب رضی ہللا عنہ سے روايت کیا ہے کہ آپ صلی ہللا علیہ و سلم نے فرمايا: لما اقترف آدم الخطيئة قال يا رب أسألك بحق محمد لما غفرت لي فقال هللا :يا آدم و كيف عرفت محمدا و لم أخلقه ؟ قال :يا رب ألنك لما خلقتني بيدك و نفخت في من روحك و رفعت رأسي فرأيت على قوائم العرش مكتوبا ال إله إال هللا محمد رسول هللا فعلمت أنك لم تضف إلى اسمك إالَّأحب الخلق فقال هللا : ُني بحقه فقد غفرت لك و دعُْ صدقت يا آدم إنه ألحب الخلق إليَّ ا لوال محمد ما خلقتك (المستدرک للحاکم :ج3ص 517باب استغفار آدم علیہ السالم بحق محمد صلی ہللا علیہ و سلم ،المعجم الصغیر للطبرانی: ص ،82ص)83 ترجمہ :جب حضرت آدم علیہم السالم سے خطاء صادر ہو گئی (يعنی وہ امر صادر ہو گیا جسے اس حديث میں خطاء سے تعبیر کیا گیا ہے) توآپ نے عرض کی:اے رب! میں تجھ سے حق محمد ی کے تعالی نے فرمايا :اے آدم! تم نے محمد ( صلی ہللا علیہ و ٰ وسیلہ سے اپنی بخشش مانگتا ہوں۔ تب ہللا سلم ) کو کیسے پہچانا؟ جب کہ میں نے انہیں ابھی پیدا ہی نہیں کیا۔ عرض کیا :اے رب! يہ اس لئے کہ جب تو نے مجھے اپنے دست ِ قدرت سے پیدا فرمايا اور اپنی جانب سے روح مبارک کو مجھ میں ڈاال ،میں نے اپنے سر کو اٹھايا تو میں نے عرش کے ستونوں پر ((ال الہ اال هللا محمد رسول هللا )) لکھا ہوا ديکھا ،تب میں نے جان لیا کہ تو اپنے پاک نام کے ساتھ کسی کے نام کا اضافہ ت گرامی کے نام نامی کا اضافہ فرماتا ہے جو مخلوقات میں سے تجھے سب نہیں فرماتا مگر اس ذا ِ مسئلہ توسل 17 تعالی نے فرمايا :اے آدم! تم نے سچ کہا،بے شک وہ مخلوقات میں ٰ سے زيادہ محبوب ہے۔ تب ہللا سے مجھے سب سے زيادہ محبوب ہیں اسی کے وسیلہ سے مجھ سے دعا کیجیے۔ میں نےتجھے بخش ديا ہے اور اگر محمد ( صلی ہللا علیہ و سلم ) نہ ہوتے تو میں تمہیں پیدا ہی نہ کرتا۔ تصحیح حديث: امام حاکم رحمہ ہللا فرماتے ہیں: هذا حديث صحيح اإلسناد (المستدرک للحاکم :ج3ص 517باب استغفار آدم علیہ السالم بحق محمد صلی ہللا علیہ و سلم) ترجمہ :اس حديث کی سند صحیح ہے۔ اس سے توسل بالذات کا ثبوت ہوا۔ و ہلل الحمد حديث نمبر:5 امام ابو عبد ہللا محمدابن سعد البصری (م230ھ) نے روايت نقل کی ہے: عن سليم بن عامر الخبائري أن السماء قحطت فخرج معاوية بن أبي سفيان وأهل دمشق يستسقون فلما قعد معاوية على المنبر قال أين يزيد بن األسود الجرشي قال فناداه الناس فأقبل يتخطى فأمره معاوية فصعد المنبر فقعد عند رجليه فقال معاوية اللھم إنا نستشفع إليك اليوم بخيرنا وأفضلنا اللھم إنا نستشفع إليك بيزيد بن األسود الجرشي يا يزيد ارفع يديك إلى هللا فرفع يزيد يديه ورفع الناس أيديھم فما كان أوشك أن ثارت سحابة في المغرب وهبت لھا ريح فسقينا حتى كاد الناس ال يصلون إلى منازلھم (طبقات ابن سعد :ج7ص 444تحت :مائۃ رجل وسبعۃ نفر) ترجمہ :سلیم بن عامر الخبائری سے روايت ہے کہ آ سمان سے پانی برسنابند ہوگیا ،توحضرت معاويہ بن ابو سفیان رضی ہللا عنہما اور اہل دمشق بارش کی دعا کرنے نکلے۔ جب حضرت معاويہ رضی ہللا عنہ منبر پر بیٹھے توفرمايا :يزيد بن اسود رضی ہللا عنہ جرشی کہاں ہیں؟راوی کہتے ہیں :لوگوں نے انہیں پکارا ،تو وہ آگے بڑھتے ہوئےتشريف الئے۔ حضرت معاويہ رضی ہللا عنہ نے انہیں حکم فرمايا تو وہ منبر پر چڑھے اور نیچے کی طرف بیٹھے۔ پھر حضرت معاويہ رضی ہللا عنہ نے دعا کی :اے ہللا ! آج ہم لوگ تیری جانب اپنے بہترين اور افضل آدمی کی شفاعت طلب کرتے ہیں ،اے ہللا! ہم آپ کی بارگاہ میں يزيد بن اسود الجرشی کی ذات کوپیش کرتے ہیں ،اے يزيد! آپ اپنے ہاتھوں تعالی کی جانب اٹھائیں ،حضرت يزيد بن اسود نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور لوگو ں نے بھی اپنے ٰ کو ہللا ہاتھوں کو اٹھايا۔ جلد ہی مغرب کی جانب ايک بادل اٹھا اور اسے ہوا لے (کر ہماری جانب) اڑی ،تب (بارش ہوئی اور) ہم لوگ ايسے سیراب ہوئے کہ لوگوں کا اپنے مکانوں تک پہنچنا تقريبا ً دشوار ہو گیا۔ مستدلین: ( )1امام ابو اسحٰ ق ابرا ہیم بن علی (م 476ھ)نے اس روايت کو ”المہذب“ کے ”باب االستسقاء“ میں روايت کر کے استدالل کیا ہے۔ (المہذب مع شرحہ المجموع :ج 6ص)100 ( )2امام نووی رحمۃ ہللا علیہ(م 676ھ) نے اس واقعہ کو ثابت اور مشہور مانتے ہوئے امام ابو اسحاق ابراہیم بن علی کی تائید کی ہے۔ (المجموع شرح المہذب :ج 6ص)101 مذکورہ احاديث وآثار سے واضح ہوا کہ ذوات سے توسل کرنا جائز ہے۔ حديث نمبر:6 امام ابو القاسم سلیمان بن احمدطبرانی رحمۃ ہللا علیہ (م 360ھ)نے ايک روايت نقل کی ہے: عن أبي أمامة بن سھل بن حنيف عن عمه عثمان بن حنيف : أن رجال كان يختلف إلى عثمان بن عفان رضي هللا عنه في حاجة له فكان عثمان ال يلتفت إليه وال ينظر في حاجته فلقي عثمان مسئلہ توسل 18 بن حنيف فشكا ذلك إليه فقال له عثمان بن حنيف ائت الميضأۃ فتوضأ ثم ائت المسجد فصلي فيه ركعتين ثم قل اللھم إني أسألك وأتوجه إليك بنبينا محمد صلى هللا عليه و سلم نبي الرحمة (المعجم الصغیر للطبرانی :ص 183من اسمہ طاہر) ترجمہ:ايک شخص حضرت عثمان بن عفان رضی ہللا عنہ کے پاس کسی کام کے سلسلے میں آيا جايا کرتا تھا اور حضرت عثمان بن عفان رضی ہللا عنہ (غالبا ً کسی مصروفیت کی وجہ سے) نہ تو اس کی طرف توجہ فرماتے اور نہ ہی اس کی حاجت براری کرتے۔ وہ شخص حضرت عثمان بن حنیف رضی ہللا عنہ سے مال اور اس بات کی شکايت کی تو انھوں نے فرماياکہ وضو کی جگہ جا اور وضو کر ،پھر مسجد میں جا کر دو رکعت نماز پڑھ ،پھر کہہ:اللھم إني أسألك وأتوجه إليك بنبينا محمد صلى هللا عليه و سلم نبي الرحمة [اے ہللا!میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور بوسیلہ محمد صلی ہللا علیہ تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں جونبی الرحمۃ ہیں] اس روايت کے آخر میں تصريح ہے کہ اس نے ايسا ہی کیا اور دعا کی برکت سے حضرت عثمان بن عفان رضی ہللا عنہ نے اس کی تعظیم و تکريم بھی کی اور اس کا کام بھی پورا کر ديا۔ تصحیح حديث: :1امام طبرانی(م 360ھ) فرماتے ہیں: و الحديث صحيح (المعجم الصغیر للطبرانی ج 1ص)184 ترجمہ :يہ حديث صحیح ہے۔ :2عالمہ منذری رحمہ ہللا (م 656ھ)بھی ان کی تائیدکرتے ہیں۔ (الترغیب و الترہیب :ج 1ص 272الترغیب فی صالۃ الحاجۃ و دعائھا) :3عالمہ ابن حجر مکی رحمہ ہللا(م 974ھ) فرماتے ہیں: رواه الطبرانی بسند جيد (حاشیہ ابن حجر المکی علی االيضاح فی المناسک للنووی :ص)500 ترجمہ :اس حديث کو امام طبرانی رحمہ ہللا نے سند جید کے ساتھ روايت کیا ہے۔ فائدہ: دور خالفت کا ہے۔حضرت عثمان بن حنیف يہ واقعہ حضرت عثمان بن عفان رضی ہللا عنہ کے ِ رضی ہللا عنہ اس دور میں يہ دعا سکھا کر نبی صلی ہللا علیہ وسلم کی ذات کا توسل سکھا رہے ہیں۔ معلوم ہوا کہ توسل بعد الوفات بھی جائز ہے۔ تعالی ان دالئل سے حضرات انبیاء علیہم السالم اور صالحین کی ذوات سے توسل کرنا ثابت ٰ بحمدہللا ہوگیا۔ وہلل الحمد توسل کا ثبوت اجماع سے: اس پر حضرات صحابہ کرام رضی ہللا عنہم کا اجماع ہے کہ حضرات انبیاء علیہم السالم اور صالحین سے توسل جائز ہے۔ دلیل نمبر:1 جیسا کہ ماقبل میں گزرا کہ امام بخاری رحمہ ہللا نے اپنی صحیح میں حضرت انس رضی ہللا عنہ سے روايت کیا ہے: َ َ َطوا اسْتسْقى ُ َ ِذا قحَ َ َ ه كان إ ْ َنُ اَّللُ ع ِيَ َّ َض ََّ ْ بن الخطابِ ر َ َ َْر ُمن ع ََّ أ ْكَ َ ِلي ُ إ َسَّلَ َ َّا نتو ُ ِنا كن ََّّ إھم َّ َ اللُ َ َ ِبِ فقال َّ ُطل ْ ِ الم َب ْد َّاسِ ْ بنِ ع َب ب ْ ِالع َال َ َا ق ِنَاسْقَا فِيِن نبِ َ َم ِعْكَ ب َِلي ُ إ َو َسَّل نا َ نت َِّ َا و َإ ِين َت َسْق َا ف ِيِنَب ِنب َْ ن َو َي ُسْق ف (صحیح البخاری :ج1ص 137باب سوال الناس االمام االستسقاء اذا قحطوا) ترجمہ :جب لوگ قحط میں مبتال ہوتے تو عمر بن خطاب ،عباس بن عبدالمطلب کے وسیلہ سے دعا کرتے اور فرماتے کہ اے ہللا! ہم تیرے پاس تیرے نبی صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ لے کر آيا مسئلہ توسل 19 کرتے تھے تو تو ہمیں سیراب کرتا تھا ،اب ہم لوگ اپنے نبی کے چچا (عباس رضی ہللا عنہ) کا وسیلہ لے کر آئے ہیں ،ہمیں سیراب کر۔ راوی کا بیان ہے کہ لوگ سیراب کئے جاتے( يعنی بارش ہوجاتی)۔ عالمہ ابن حجر عسقالنی رحمۃ ہللا علیہ نے حضرت عمر رضی ہللا عنہ کے اس ارشاد کا ذکر کیا کہ آپ رضی ہللا عنہ سے صحابہ رضی ہللا عنہم سے فرمايا: واتخذوه وسيلة إلى هللا (فتح الباری :ج2ص 641باب سوال الناس االمام االستسقاء اذا قحطوا) تعالی کی جانب وسیلہ ٰ ترجمہ:حضور صلی ہللا علیہ و سلم کے چچاحضرت عباس رضی ہللا عنہ کوہللا بناؤ۔“ صحابہ کرام رضی ہللا عنہم میں سے کسی نے بھی اس قول وفعل میں حضرت عمر رضی ہللا عنہ پر انکار نہیں کیا۔ گويا اس پر اجماع و اتفاق کر لیا۔ دلیل نمبر:2 اسی طرح جب صحابہ کرام رضی ہللا عنہم اورتابعین رحمہم ہللا کی موجودگی میں حضرت معاويہ بن ابی سفیان رضی ہللا عنہما نے حضرت يزيد بن اسود رضی ہللا عنہ سے توسل کرتے ہوئے بارش کی دعا کی: اللھم إنا نستشفع إليك اليوم بخيرنا وأفضلنا اللھم إنا نستشفع إليك بيزيد بن األسود الجرشي (طبقات ابن سعد :ج7ص 444تحت :مائۃ رجل وسبعۃ نفر) ترجمہ :اے ہللا ! آج ہم لوگ تیری جانب اپنے بہترين اور افضل آدمی کی شفاعت طلب کرتے ہیں ،اے ہللا! ہم آپ کی بارگاہ میں يزيد بن اسود الجرشی کی ذات کوپیش کرتے ہیں۔ حاضرين میں سے کسی ايک نے حضرت معاويہ رضی ہللا عنہ کے اس فعل مبارک پر انکار نہیں کیا۔گويا ذوات سے توسل کرنے کے جائز ہونے پر صحابہ کرام رضی ہللا عنہم وتابعین رحمہم ہللا کااجماع ہو گیا۔ دلیل نمبر:3 عالمہ محمد بن علی شوکانی (م1250ھ)نے اپنے رسالہ ”الدرالنضيد فی کلمۃ اخالص التوحيد“ میں تصريح کی ہے: ً و ثبت التوسل بغيره بعد موتہ باجماع الصحابۃ اجماعا ً (.ص)20 سکوتيا سل کرنا اجماع صحابہ کہ حضور نبی کريم صلی ہللا علیہ و سلم کی وفات کے بعد آپ کے غیر کا تو ّ رضی ہللا عنہم سے ثابت ہے۔ اقوال ِسلف اور مسئلہ توسل: حضرات سلف صالحین مسئلہ توسل میں جواز کے قائل چلے آ رہے ہیں ،ذيل میں ہم بعض حضرات کا کالم نقل کريں گے تا کہ معاندين و منکرين پر حجت پوری ہو جائے۔ خلیفۃ رابع حضرت علی کرم ہللا وجہہ (م40ھ) عن أنس قال" :جاء أعرابي إلى النبي صلى هللا عليه وسلم ة السنة فقال :يا رسول هللا لقد بََْ دوَُ وشكا إليه قلة المطر وج ُ"،فمد رسول هللا صلى هللا َب َح ْط يصَ وال صبي َ ْط ِيأتيناك وما لنا بعير ن عليه وسلم يده يدعو فما رد يده إلى نحره حتى استوت ن يا رسول هللا الطرق، ُّوَ ِج ِ َ يض َاحُطالسماء بأرواقھا وجاء أهل الب فقال :حوالينا وال علينا ،فانجلى السحاب حتى أحدق بالمدينة كاإلكليل فضحك رسول هللا صلى هللا عليه وسلم حتى بدت نواجذه وقال" :هلل در أبي طالب لو كان حيا لقرت عيناه ،من ينشدنا قوله "،فقام علي بن أبي طالب فقال :يا رسول هللا لعلك أردت قوله: ٌ َة ْم ِص َاَ می ع َت ُ ْ الي َال ِم****ث ِ ِه َج ْھ ُ ب ِو َامَم الغ َ َسْقی ْ َضَ ُ يسْت بيَْ َأو مسئلہ توسل 20 ِل ِ َامَلْ ِْلر (کنز العمال :ج 8ص 204باب صالۃ االستسقاء رقم الحديث)23544 کہ حضرت انس رضی ا ہلل عنہ سےروايت ہے کہ ايک اعرابی حضور صلی ہللا علیہ و سلم کی خدمت میں آيا اور بارش کی قلت اور خشک سالی کی شکايت کی اور عرض کی يا رسول ہللا! ہم آپ کی خدمت میں اس حال میں حاضر ہوئے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی جانور نہیں رہا اور نہ کوئی آواز تعالی سے دعا فرمائی ۔ حضور صلی ٰ نکالنے واال بچہ رہا تو آپ نے دونوں ہاتھ بلند فرمائےاور ہللا ہللا علیہ و سلم نے ہاتھ نیچے نہیں فرمائے تھے کہ بادل برسا اور کھل کربرسا۔ تو جن لوگوں کے گھر پانی میں ڈوب رہے تھے وہ آئے اور چیخ و پکار کرنے لگے اور عرض کی :يا رسول ہللا ! آمد و رفت کے راستے ختم ہوگئے تو حضور صلی ہللا علیہ و سلم نے دعا کی :اے ہللا! ہم پر بارش نہ برسا قريب والوں پر برسا تو بادل کھال اور مدينہ کو اس طرح گھیر لیا جس طرح بہت کھانےواال (کھانے کو گھیر لیتا ہے)۔ حضور صلی ہللا علیہ و سلم مسکرا ديے اور آپ نے فرمايا :ابو طالب کے کیا کہنے! اگر وہ آج زندہ وہتے توان کی آنکھیں ضرور ٹھنڈی ہوتیں ،ہمیں ابو طالب کا شعر کون پڑھ کر سنائے گا؟اس پر حضرت علی رضی ہللا عنہ نے عرض کی :يا رسول ہللا! کیا آپ کی مراد ان کا يہ شعر ہے: ٌ َةْمِص می ع َاََت ُ ْ الي َال ِم ****ث ِ ِه َج ْھ ُ ب ِو َام َمالغ َ َسْقی ْ َضَ ُ يسْت بيَْ َأو ِل ِ َام َلْ ِْلر ترجمہ :آپ سفید (گندم گوں) ہیں ،آپ ک ے چہرہ کے وسیلہ سے بارش مانگی جاتی ہے ،آپ يتیموں کے فرياد رس ہیں ،آپ بیواؤ ں کے نگہبان ہیں۔ اسے سن کر رسو ل اکرم صلی ہللا علیہ و سلم نے فرمايا :ہاں میری مراد يہی تھی۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صديقہ رضی ہللا عنہا (م58ھ) عن ابی الجوزاء اوس بن عبد هللا قال قحط اہل المدينۃ قحطا شديدا فشکوا الی عائشۃ فقالت :انظروا الی قبر النبی َوا الی السماء حتی ال يکونصلی هللا عليہ و سلم فاجعلوا منہ ک ًحتی نبعتبينہ و بين السماء سقف قال :ففعلوا فمطرنا مطرا ُشْب و سمنت االبل حتی تفتقت من الشحم فسمی عام الفتق۔ الع تعالی نبیہ بعد موتہ ،رقم الحديث )92 ٰ (سنن الدارمی :ج1ص 56باب ما اکرم ہللا ترجمہ :حضرت ابوالجوزاء اوس بن عبد ہللا سے روايت ہے ،فرماتے ہیں کہ مدينہ منورہ کے لوگ شديد قحط سالی میں مبتال ہوئے۔ ان لوگو ں نے حضرت عائشہ رضی ہللا عنہا کی خدمت میں درخواست پیش کی توآپ رضی ہللا عنہانے فرمايا :نبی اکرم صلی ہللا علیہ و سلم کی قبر مبارک کی طرف ديکھو(يعنی آپ کی قبر پر جاؤ) ،پھر آسمان کی طرف ايک روشندان بناؤ کہ آپ کے اور ی کہ آسمان کے درمیان چھت نہ رہے۔ ان لوگوں نے ايسا ہی کیا ،تب بارش سے سیراب ہوئے حت ّٰ سبز گھ اس اگی ،اونٹ اتنے موٹے ہوئے کہ گويا چربی سے پھٹے جا رہے ہوں۔ تو اس سال کو تنگی واال سال قرار ديا گیا۔ امام مالک رحمۃ ہللا علیہ (م179ھ) ايک مرتبہ خلیفہ منصور مدينہ منورہ آيا اور اس نے امام مالک سے دريافت کیا : استقبل القبلۃ و ادعو ام استقبل رسول هللا صلی هللا عليہ و سلم؟ فقال :و لم تصرف وجہک عنہ و ہو وسيلتک و وسيلۃ ابيک آدم عليہ ا لسالم الی هللا يوم القيامۃ؟ بل استقبلہ وا ٰ :و لو انہم اذ ظلموا ستشفع بہ فيشفعہ هللا۔ قال هللا تعالی انفسہم االيۃ المصطفی :ج 2ص 26الباب الثالث فی تعظیم امرہ و وجوب توقیرہ) ٰ ( الشفاء بتعريف حقوق ترجمہ :میں قبر نبوی کی زيارت کرتے وقت دعا کرتے ہوئے قبلہ رخ ہوں يا حضور صلی ہللا علیہ وسلم کی طرف رخ کروں ؟ امام مالک رحمۃ ہللا علیہ نے جواب ديا :اے امیر! آپ رسول ہللا صلی ہللا اعلی ٰ علیہ وسلم کی جانب سے منہ کیوں موڑتے ہیں حاالنکہ وہ تمہارے لیے اور تمہارے جد روز قیامت وسیلہ ہیں ،بلکہ اے امیر! آپ کو چاہیے کہ رسول ہللا حضرت آدم علیہ السالم کے لیے ِ مسئلہ توسل 21 صلی ہللا علیہ و سلم کی جانب متوجہ رہیے اور حضور صلی ہللا علیہ و سلم کی شفاعت کے طلب تعالی کا فرمان ہے: ٰ گار رہیے ،ہللا ان کی شفاعت قبول فرمائے گا کیونکہ ہللا امام محمد بن ادريس الشافعی رحمہ ہللا [م 204ھ] امام ابوبکر احمد بن علی خطیب بغدادی علی بن میمون سے روايت کرتے ہیں کہ میں نے امام شافعی رحمۃ ہللا علیہ کو يہ کہتے سنا کہ: اني ألتبرك بأبي حنيفة وأجيء إلى قبره في كل يوم يعني زائرا فإذا عرضت لي حاجة صليت ركعتين وجئت إلى قبره وسألت هللا تعالى الحاجة عنده فما تبعد عني حتى تقضى ( تاريخ بغداد للخطيب :ج 1ص 101باب ما ذکر فی مقابر بغداد الخ) ترجمہ :میں امام ابو حنیفہ رحمۃ ہللا علیہ کے وسیلے سے برکت حاصل کرتا ہوں ہر روز ان کی قبر تعالی سے حاجت روائی کی دُعا کرتا ہوں ٰ پر زيارت کے لیے حاضر ہوتا ہوں اور اس کے قريب اہللا ۔ اس کے بعد بہت جلد میری دعا پوری ہو جاتی ہے۔ عالمہ ابن حجر مکی رحمۃ ہللا علیہ ’’الخیرات الحسان‘‘ میں تحرير فرماتے ہیں :واضح رہے کہ علماء اور اہل حاجات ہمیشہ امام ابو حنیفہ رحمۃ ہللا علیہ کے مزار کی زيارت کرتے اور اپنی حاجات براری میں ان کا وسیلہ پکڑتے رہے ہیں ۔ ان علماء میں امام شافعی رحمۃ ہللا علیہ بھی شامل ہیں۔ (الخیرات الحسان :ص)129 سل کرتے ہوئے يہ شعر فرمايا حضرت امام شافعی رحمۃ ہللا علیہ نے حضرات اہل بیت نبوی سے تو ّ ہے ،جسے عالمہ ابن حجر الہیثمی نے نقل کیا ہے :شعر ٰل النبی ذريتی وهم ،اليہ وسيلتی *** ارجو بھم اعطی ٰ ا غدابيد اليمين صحيفتی تعالی کی جانب میرا ذريعہ اور وسیلہ ہیں ،اور ٰ ترجمہ :نبی اکرم صلی ہللا علیہ و سلم کے اہل بیت ہللا تعالی میرا صحیفہ مجھے ٰ میں امیدکرتا ہوں کہ ان ہستیوں کے وسیلہ سے کل (قیامت) کے دن ہللا داہنے ہاتھ میں دے گا۔ (الصواعق المحرقہ:ج2ص)524 امام احمد بن حنبل رحمۃ ہللا علیہ (م241ھ) عالمہ يوسف بن اسماعیل امام احمد بن حنبل رحمہ ہللا کے بارے میں ايک روايت نقل کرتے ہیں : تعالی سے دعا کرتے ہوئے امام شافعی رحمہ ہللا کو وسیلہ بنايا تو ٰ امام احمد بن حنبل رحمہ ہللا نے ہللا ان کے بیٹے عبد ہللا کو تعجب ہوا ،اس پر امام احمد بن حنبل نے فرمايا :امام شافعی رحمہ ہللا لوگوں کے لیے آفتاب اور بدن کے لیے صحت کی مانند ہیں ۔ (شواہد الحق فی االستغاثۃ بسیدالخلق :ص )166 ابوعیسی ترمذی رحمۃ ہللا علیہ (م279ھ) ٰ امام سل کو جائز رکھا ہے۔ چنانچہ جامع الترمذی کے ابواب الجہادآپ رحمہ ہللا نے ذوات ِ مسلمین سے تو ّ میں سے ايک باب کا عنوان اس طرح قائم کیا ہے: باب ما جاء في االستفتاح بصعاليك المسلمين( .جامع الترمذی :ج 1ص 299کتاب الجہاد) کہ يہ فقراء مسلمین کے وسیلہ سے مدد طلب کرنے کے بارے میں آئی ہوئی روايات کا باب ہے۔ پھر حضرت ابوالدرداءرضی ہللا عنہ کی اس حديث کوروايت کیا ہے: سمعت النبي صلى هللا عليه و سلم يقول آبغوني ضعفاءكم فإنما ترزقون وتنصرون بضعفائكم ترجمہ :میں نے نبی اکرم صلی ہللا علیہ و سلم نےسنا کہ آپ فرما رہے تھے :مجھے اپنے ضعفاء میں ڈھونڈو کہ تم لوگوں کو اپنے ضعفاء ہی کی بدولت رزق دياجاتاہے اور مدد کی جاتی ہے۔ امام محمد بن محمدالغزالی الشافعی رحمۃ ہللا علیہ [م505ھ ] منورہ کی زيارت اور اس کے آداب “ کے باب میں فرمايا کہ ّ آپ نے احیاء علوم الدين کے ” مدينہ زائر جب روضہ رسول صلی ہللا علیہ و سلم پر آئے تو ديگر دعاؤں کے ساتھ يہ کلمات بھی کہے: اللھم إنا قد سمعنا قولك وأطعنا أمرك وقصدنا نبيك مسئلہ توسل 22 متشفعين به إليك في ذنوبنا (احیاء علوم الدين:ج1ص)308 ترجمہ۔اے ہللا! ہم نے آپ کا فرمان سنا اور آپ کے حکم کو مانااور اپنے گناہوں کی بخشش کے لئے نبی صلی ہللا علیہ و سلم کی شفاعت طلب کرتے ہوئے آپ کا قصد کیا۔ امام نووی الشافعی رحمۃ ہللا علیہ(م676ھ) آپ رحمۃ ہللا علیہ فرماتے ہیں: ويستحب إذا كان فيھم رجل مشھور بالصالح أن يستسقوا به فيقولوا " :اللھم إنا نستسقي ونتشفع إليك بعبدك فالن ". روينا في " صحيح البخاري " أن عمر بن الخطاب رضي هللا عنه ، كان إذا قحطوا استسقى بالعباس بن عبد المطلب. . . . وجاء االستسقاء بأهل الصالح عن معاوية وغيره. (کتاب االذکار للنووی :ص 218باب االذکار فی االستسقاء) اورتقوی کے لحاظ سے مشہور ہوتو ٰ ترجمہ :يہ مستحب ہے کہ جب لوگوں میں کوئی آدمی پاکیزگی اس کے وسیلہ سے استسقاء کر يں اور يوں کہیں: اللھم إنا نستسقي ونتشفع إليك بعبدك فالن کہ اے ہللا ! ہم تیری جانب تیرے بندہ فالں کے وسیلہ سے استسقاء کرتے ہیں اور ان کی شفاعت کی درخواست کرتے ہیں۔ جیسا کہ صحیح البخاری میں روايت ہے کہ حضرت عمر رضی ہللا عنہ نے حضرت عباس رضی ہللا عنہ کے وسیلہ سے استسقاء فرمايااسی طرح حضرت معاويہ رضی ہللا عنہ وغیرہ سے اہل خیر وپاکیزہ لوگوں کے وسیلہ سے استسقاء کرنا بھی آيا ہے۔ امام کمال الدين بن الہمام الحنفی رحمۃ ہللا علیہ (م861ھ) آپ رحمہ ہللا” باب زيارۃقبر النبی صلی ہللا علیہ و سلم “ میں فرماتے ہیں: ثم يسأل النبي صلى هللا عليه وسلم الشفاعة فيقول يا رسول هللا أسألك الشفاعة يا رسول هللا أسألك الشفاعة وأتوسل بك ثم ينصرف إلى هللا في أن أموت مسلما عن ملتك وسنتك…….. متباكيا متحسرا على فراق الحضرۃ الشريفة النبوية والقرب منھا (فتح القدير :ج 3ص 169و ص 174کتاب الحج ،ا لمقصد الثالث فی زيارۃ قبر النبی ) ترجمہ :پھر نبی اکرم صلی ہللا علیہ و سلم سے شفاعت کا سوال کرے اور يہ کہے :يا رسول ہللا! میں آپ صلی ہللا علیہ و سلم سے شفاعت کا سوال کرتا ہوں ،يا رسول ہللا! میں آپ صلی ہللا علیہ و سلم تعالی کے ہاں بطور وسیلہ پیش ٰ سے شفاعت کا سوال کرتا ہوں اور آپ صلی ہللا علیہ و سلم کو ہللا کرتا ہوں کہ میں مسلمان ہونے کی حالت میں مروں اور آپ کی سنتوں پر عامل ہو کر اس دنیا سے رخصت ہوں۔۔۔ پھر آپ صلی ہللا علیہ و سلم کے قرب اقدس سے روتا ہوا اور جد ائی کا غم ساتھ لئے ہوئے واپس ہو۔ عالمہ احمد بن محمد القسطالنی الشافعی رحمۃ ہللا علیہ [م923ھ] عالمہ قسطالنی شافعی رحمہ ہللا نے ”المواہب اللدنیۃ“ میں لکھا ہے کہ: و و ينبغی للزائر ان يکثر من الدعاء و التضرع االشتغاثۃ و التشفع و التوسل بہ صلی هللا عليہ و سلم (المواہب اللدنیۃ :ج3ص 417الفصل الثانی فی زيارۃ قبرہ الشريف الخ) ترجمہ :زائر کو چاہیے کہ بہت کثرت سے دُعا مانگے ،گڑگڑائے ،مدد چاہے ،شفاعت کی دعا کرے اور حضور صلی ہللا علیہ وسلم کا وسیلہ پکڑے۔ مسند الہند شاہ ولی اہللامحدث دہلوی رحمۃ ہللا علیہ (م1176ھ) اپنی مشہور زمانہ کتاب ”حجۃ ہللا البالغہ“ میں فرماتے ہیں: ومن ادب الدعاء تقديم الثناء علی هللا و التوسل نببی هللا ليستجاب مسئلہ توسل 23 (حجۃ ہللا البالغۃ ج2ص)6 تعالی کی تعريف اور حضور صلی ہللا علیہ وسلم ٰ ترجمہ :اور دُعا کا مستحب طريقہ يہ ہے کہ اہللا کے وسیلہ کو مقدّم کیا جائے تاکہ دُعا کو قبولیت کا شرف ہو۔ المہند علی المفند کا حوالہ: علماءديوبند کی اجماعی و متفقہ دستاويز ”المہند علی المفند“ میں تیسرا اور چوتھا سوال توسل کے متعلق تھا ،حضرات علماء ديوبند کا متفقہ مسلک اس سوال و جواب میں مالحظہ فرمائیں: السوال الثالث والرابع :هل للرجل ان يتوسل فی دعواتہ بالنبی صلی هللا عليہ وسلم بعد الوفاۃ ام ال؟ ايجوزالتوسل عندکم بالسلف الصالحين من االنبياء والصديقين والشھداء واولياءرب العالمين ام ال؟ الجواب :عندنا وعندمشائخنا يجوزالتوسل فی الدعوات باالنبياء والصالحين من االولياء والشھداء والصديقين فی حياتھم وبعدوفاتھم بان يقول فی دعائہ اللھم انی اتوسل اليک بفالن ان تجيب دعوتی وتقضی حاجتی الی غيرذلک (المہند علی المفند :ص)37 ،36 ترجمہ: تیسرااورچوتھا سوال: کیا وفات کے بعد رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کاتوسل لینا دعاؤں میں جائز ہے يا نہیں ؟ تمہارے نزديک سلف صالحین يعنی انبیاء ،صديقین ،شہداء اور اولیاء ہللا کا توسل بھی جائز ہے يا ناجائز؟ جواب: ہمارے نزديک اور ہمارے مشائخ کے نزديک دعا میں انبیاء ،اولیاء ،شہداءاور صديقین کا توسل جائز ہے ،ان کی زندگی میں بھی اور وفات کے بعد بھی ،آدمی يوں دعاکرے :اے ہللا! فالں بزرگ کے وسیلہ سے میری دعا قبول فرما اورمیری اس ضرورت کوپورافرما۔ تنبیہ: ”المہند علی المفند“کی اس دور کے مکہ مکرمہ ،مدينہ منورہ وديگرعرب ممالک کے علماءکے ساتھ ساتھ اکابرين ديوبند مثالًحضرت شیخ الہند موالنا محمود حسن ،موالنا مفتی عزيزالرحمٰ ن ،حکیم االمت موالنا اشرف علی تھانوی ،موالنا شاہ عبد الرحیم رائے پوری ،موالنا محمداحمد قاسمی بن حضرت نانوتوی،موالنا مفتی کفايت ہللا دہلوی،موالنا عاشق ٰالہی میرٹھی اورموالنا محمد يحی سہارنپوری جواز توسل پر ان تمام حضرات اکابر ومشائخ کا اجماع و ِ وغیرہ نے تائیدوتصديق فرمائی تھی۔ گويا اتفاق ہے۔ و ہلل الحمد مسئلہ توسل اور غیر مقلدين: غیر مقلدين حضرات میں سے بعض حضرات نے مسئلہ توسل کا انکار کیا ہے اور بعض اس کو ثابت مانتے ہیں۔ ذيل میں ہم ان کے کچھ علماء کا ذکر کرتے ہیں جو توسل کو جائز قرار ديتے ہیں۔ قاضی محمد بن علی شوکانی(م1250ھ ) غیر مقلدين کے پیشوا قاضی محمد بن علی شوکانی نے اپنی کتاب ”تحفۃ الذاکرين“ میں لکھتے ہیں: ويتوسل إلى هللا سبحانه بأنبيائه والصالحين أقول ومن التوسل باألنبياء ما أخرجه الترمذي ۔۔۔ من حديث عثمان بن حنيف رضي هللا عنه۔۔۔ وأما التوسل بالصالحين فمنه ما ثبت في الصحيح أن الصحابة استسقوا بالعباس رضي هللا عنه عم رسول هللا صلى هللا عليه وسلم (تحفۃ الذاکرين:ص)56 ترجمہ :ہللا کی جانب اس کے انبیاء اور صالحین سے توسل کیا جائے گا ،انبیاءعلیہم السالم سے توسل کرنے کے باب سے وہ حديث ہے جسےامام ترمذی رحمہ ہللا وغیرہ نے حضرت عثمان بن حنیف سے روايت کیا ہے۔۔۔ صالحین سے توسل کرنے کے باب سے صحیح بخاری میں يہ حديث موجودہے مسئلہ توسل 24 کہ صحابہ رضی ہللا عنہم نے حضور صلی ہللا علیہ و سلم کے چچا حضرت عباس رضی ہللا عنہ کے وسیلہ سے استسقاء کیا۔ حضرت عثمان بن حنیف رضی ہللا عنہ والی حديث کہ” ايک آدمی حضرت عثمان بن عفان رضی ہللا عنہ کے پاس بار بار جاتا تھا الخ“ کوذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں: وفي الحديث دليل على جواز التوسل برسول هللا صلى هللا عليه وسلم إلى هللا عز وجل (تحفۃ الذاکرين:ص)208 ترجمہ :اس حديث میں رسول ہللا صلی ہللا علیہ و سلم سے ہللا عزوجل کی جانب توسل کرنے کے جواز پر دلیل ہے۔ عالمہ شوکانی نے اپنے رسالہ ”الدرالنضید“ میں يہ بھی کہا ہے: ان التوسل بہ صلی هللا عليہ و سلم يکون فی حياتہ ،و بعد موتہ ،و فی حضرتہ ،و مغيبہ (الدر النضید :ص ،19ص)20 ترجمہ :آپ صلی ہللا علیہ و سلم سےتوسل آپ کی حیات میں بھی ہوتا ہے ،موت کے بعد بھی ،آپ کے سامنے بھی ،آپ کے پیچھے بھی۔ اس عبارت کو عبد الرحمٰ ن مبارکپوری غیر مقلد نے ”تحفۃ االحوذی شرح جامع الترمذی“ (ج4ص )282میں بھی نقل کیا ہے۔ عالمہ وحید الزمان غیر مقلد [م1338ھ ] عالمہ وحید الزمان اپنی کتاب ”ہديۃ المہدی“میں لکھتے ہیں: وقال الشوکانی من اصحابنا :ال وجہ لتخصيص جواز التوسل بالنبی کمازعمہ الشيخ عزالدين بن عبدالسالم والتوسل الی هللا ٰ باهل الفضل والعلم هو فی الحقيقۃ توسل باعمالھم تعالی ٰ الصالحۃ ومزاياهم الفاضلۃ ،وقال فی مقام اخر :الباس بالتوسل بنبی من االنبياء او ولی من االولياء او عالم من ً اودعاهللا وحده وتوسل العلماء والذی جاء الی القبر زائرا بذلک الميت کان يقول :اللھم انی اسالک ان تشفينی من کذا واتوسل اليک بھذا العبد الصالح ،فھذا الترددفی جوازه ً ٰ مختصرا انتھی (ہديۃ المہدی :ص)49 ،48 ترجمہ :ہمارے اصحاب میں سے قاضی شوکانی نے کہا ہے کہ ”توسل کے جواز کو نبی (علیہ السالم) کے ساتھ خاص قرار دينے کی کوئی وجہ نہیں ہے جیسا کہ عز الدين بن عبد السالم نے گمان تعالی کی جانب اہل فضل اور اہل علم کے ذريعے توسل کرنا درحقیقت ان کے اعمال ٰ کیا ہے۔ ہللا صالحہ اور ان کے اوصاف فاضلہ سے توسل کرنا ہے۔“ قاضی شوکانی ايک اور جگہ کہتے ہیں کہ ” انبیاء میں سے کسی نبی سے ،اولیاء میں سے کسی ولی سے يا علماء میں سے کسی عالم سے تعالی سے دعا کی اور اس قبر ٰ توسل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جو بندہ قبر کے پاس آيا ،ہللا والے سے اس طرح توسل کیا کہ اے ہللا ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ فالں مرض سے مجھے شفاء بخش اور اہل صالح بندہ سے تیری جانب توسل کرتا ہوں ،تواس کے جائز ہونے میں کوئی تردد انتہی مختصراً۔ نہیں ہے “ ٰ منکرين توسل کے شبہات جا ئزہ شبہ نمبر:1 قرآن کريم میں ہے کہ مشرکین خدا کو چھوڑ کر ديگر چیزوں کی عبادت کرنے کی وجہ يہ بتاتے تھے: َىُْلف َِلى َّ اَّللِ ز ونا إب َ َر ُِ ُق ليِالَّ ِ ْ إ هم ُُ دُ ْب نعما ََ (سورۃ الزمر)3: ترجمہ :ہم ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ يہ ہمیں ہللا سے قريب کر ديں۔ مسئلہ توسل 25 کافروں کا بھی يہی وطیرہ تھا اور متوسلین بالذات بھی بزرگوں کا توسل اسی لیے لیتے ہیں کہ اس کے ذريعے ہللا کا قرب حاصل کريں ،تو پھر اِن میں اور اُن میں کیافرق رہا؟ جواب: ْ“ کی تصريح ہے اور غیر ہللا کی عبادت اور ان کو مصائب هم ُُ دُ ْب نعاس آيت کريمہ میں ”َ وحاجات میں براہ راست بالنے کا تذکرہ ہے جو شرکیہ عقائد کو متضمن ہے اور ان کا يہ عقیدہ تھا کہ چھوٹے چھوٹے کام جوا ن کے اختیار میں ہیں وہ خود کريں گے اور بڑے کام جو ان کے اختیار میں نہیں تو اس کےلیے ہمارے سفارشی بنیں گے اور وسیلے میں يہ باتیں نہیں تعالی ہی کو مانا جاتا ہے اور ٰ ہوتیں بلکہ وسیلہ میں مشکل کشا ،عالم الغیب ،متصرف االمور ہللا ت دعا میں محض واسطہ سمجھا جاتا ہے۔ وسیلہ کی حقیقت کو سمجھنے انبیاء اور اولیاء کو قبولی ِ طرز عمل میں زمین و ِ سے يہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ ہمارے وسیلہ اور مشرکین کے آسمان کا فرق ہے۔ حکیم االمت موالنا اشرف علی تھانوی رحمہ ہللا لکھتے ہیں: ارشاد :توسل کی حقیقت يہ ہے کہ اے ہللا! فالں شخص میرے نزديک آپ کا مقبول ہے اورمقبولین سے محبت رکھنے پر آپ کا وعدہ رحمت ہے المرءمع من احب میں ،پس میں آپ سے اس رحمت کومانگتا ہوں ۔ پس توسل میں يہ شخص اپنی محبت کو اولیاءہللا کے ساتھ ظاہر کرکے اس محبت پررحمت وثواب مانگتا ہے اوراولیاءہللا کا موجب رحمت وثواب ہونا نصوص سے ثابت ہے۔ چنانچہ متحابین فی ہللا کے فضائل سے احاديث بھری ہوئی ہیں ۔ (ملفوظات حکیم االمت :ج21ص)48 طرز عمل میں بہت بڑا فرق ہے ۔ دونوں کو ايک سمجھنا کم علمی ِ ٰلہذا اس میں اور مشرکین کے ہے۔ شبہ نمبر:2 ہللا پر کوئی چیز واجب نہیں اور اس کے ذمہ کسی کا حق نہیں جیسا کہ مرقاۃ میں ہے ” وال يجب على هللا شيء خالفا للمعتزلة “ (مرقاۃ ج1ص 237کتاب االيمان) لہذا ”بحق فالں“ کہنا کیسے درست ہو گا؟! اور صاحب ِ ہدايہ فرماتے ہیں: بحق او فالن فی دعائہ بحق ان يقول ويکره الخالق انبيائک او رسلک النہ الحق للمخلوق علی (ہدايۃ :ج4ص)211 جب کہ متوسلین ”بحق فالں“ کے ذريعے توسل کے قائل ہیں جواب : معنی میں استعمال ہوتا ہے اسی طرح ”تفضلی واستحسانی“ٰ لفط ”حق“ وجوبی جس طرح ِ طورپر بھی استعمال ہوتا ہے ،مثالً: ً ِكَ حَقاذلََ ُوا ك َ آَ من ِين َ َّ الذ َا و لنُسََُجِي ر ننَّ ُ ثم ُ :1قرآن مجید میں ہے” : َ “ (سورۃ يونس)103 : ِين ْم ِن ُؤالمْجِ ْ َا ُ نن ْنليََ ع ترجمہ :پھر ہم ( اس عذاب سے) اپنے پیغمبروں کو اور ايمان والوں کو بچالیتے تھے(جس طرح ان مؤ منین کو ہم نے نجات دی تھی) ہم اسی طرح سب ايمان والوں کو نجات ديا کرتے ہیں يہ (حسب وعدہ) ہمارے ذمہ ہے۔ َ “ (سورۃِين ِنْم ُؤ ُ ْ الم ْر نص َا َ ْن ليًََ ع َقا ن حَاَ َك :2ايک دوسرے مقام پر ہے ” :و الروم)47: ترجمہ :اور ايمان والوں کی مدد کرنا ہمارے ذمہ تھا۔ :3حديث مبارک میں ہے : قال رسول هللا صلى هللا عليه و سلم من قال حين يمسي رضيت باهلل ربا وباإلسالم دينا وبمحمد نبيا كان حقا على هللا أن يرضيه امسی) ٰ (جامع الترمذی :ابواب الدعوات -باب الدعا اذا اصبح و اذا مسئلہ توسل 26 ترجمہ :رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے ارشاد فرمايا کہ جو شخص شام کے وقت يہ دعا پڑھے: ” رضيت باهلل ربا وباإلسالم دينا وبمحمد نبيا“ تو ہللا کے ذمہ ہے کہ اسے (قیامت کے دن) راضی کرے۔ ہمارا اہل السنت والجماعت کا نظريہ ہےکہ کوئی چیز ہللا پر واجب نہیں ۔ اس لیے ہم معنی میں۔ فقہاء کرام نے ٰ معنی استعمال کرتے ہیں نہ کہ وجوب کے ٰ وسیلہ میں”حق“ کو تفضلی بمعنی وجوبی ہے جس کی طرف ٰ بھی جہاں اس دعا ِء وسیلہ کو مکروہ لکھا ہے جس میں”حق“ ”الحق للمخلوق علی الخالق “سے اشارہ ملتا ہے ۔ لہذا ہللا پر حق وجوبی کا عقیدہ رکھتے ہوئے دعا میں بحق فالں کا لفظ استعمال کرنا مکروہ ہے اور حق سے مراد غیر وجوبی يعنی تفضلی واستحسانی کے ساتھ دعا کرنا بال کراہت جائز ہے ۔ شبہ نمبر :3 ِيَن ِي عَادِبََلكَ ع َا سَأ ِذَإ ہللا کادربار ہر وقت کھال ہے۔ ہللا خود فرماتے ہیں ﴿و ِي﴾ [سورۃُوا ل َجِيبَسْت َْ َانِ فليدعَا َ ِذ ِ إ َّ الداع ََ ۃ ْو ُ َ دع ُجِيبٌ أِيب َر ِي ق َِ إن ف البقرۃ ]186 :لیکن قائلین توسل برا ِہ راست خدا سے عرض و معروض کرنے کی بجائےان بزرگوں کے واسطوں اور وسیلوں کے قائل بنتے ہیں۔ جواب نمبر:1 يہ سوال اس وقت ہو سکتا ہے جب غیر ہللا سے مانگا جائے اور وسیلہ میں غیر ہللا سے نہیں مانگا جاتا بلکہ انبیاء اور اولیا کے وسیلہ سے خدا مانگا جاتا ہے کیونکہ اس طرح دعا کی قبولیت میں اثر ہوتا ہے کہ وہ دعا جو وسیلہ سے مانگی جائے جلد قبول ہوتی ہے ۔ جواب نمبر:2 ہم اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ توسل بالذات کے بغیر دعا قبول ہی نہیں ہوتی بلکہ ہمارا موقف يہ ہے کہ توسل کو دعاکے قبول ہونے میں دخل ہے ،جیسے زمان ،مکان اور افراد کے بدلنے سے قبولیت دعا کی سرعت میں فرق آنا ظاہر ہے۔ مثالً َّللِ صلی هللا عليہ ِ اہْلَسُو لرَ ِ ْل َ ق ِي َال ۃ رضی هللا عنہ ق مَ ماَ َُ َب ِیْ ا ْ اَن٭ ع َاتِ ََالص َّلو بردَُُ ُو ْٰ ِ االخِر ْل َّ ُ اللي ْف َو َ ُ قال ج َ َع َ َائِ اسْم ُّ َ وسلم ایُّ الدع َْ باتِ۔ ْت ُو َک ْ الم (جامع الترمذی ج 2ص 187باب بال ترجمۃ ابواب الدعوات ،السنن الکبر ٰی للنسائی ج 6ص 32ما يستحب من الدعاء دبر الصلوات المکتوبات) ترجمہ :حضرت ابو مامہ رضی ہللا عنہ سے مروی ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سی دعا سب سے زيادہ قبول ہوتی ہے؟ تو آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمايا :رات کے آخر میں اور فرض نمازوں کے بعد۔ ٭ بیت ہللا میں دعا کرنا اجابت کے زيادہ قريب ہے بنسبت عام مسجد اور اپنے گھر میں دعا کرنے سے۔ ٭ بنی اور ولی دعا کرے تو اس کی قبولیت بنسبت عام آدمی کے زيادہ ہے۔ جواب نمبر:3 اگر توسل بالذات شرک ہے ،جائز نہیں کیونکہ ہللا کا دربار ہر وقت کھال رہتا ہے کسی کے واسطے کی ضرورت نہیں تو پھر ہم قائلین توسل بالدعاء و االعمال سے پوچھتے ہیں کہ اس دلیل تعالی کے دربار میں واسطہ جائز ٰ کی بناء پر توسل باالعمال بھی ٹھیک نہ ہونا چاہیے کیونکہ خدا نہیں تو پھر اعمال پیش کرنے کی ضرورت کیا ہے؟! لہذا جس توسل باالعمال جائز ہے اسی طرح توسل بالذات بھی جائز ہے۔