You are on page 1of 26

‫مسئلہ توسل‬ ‫‪1‬‬

‫بسم ہللا الرحمن الرحیم‬


‫مسئلہ توسل‬
‫از افادات متکلم اسالم موالنا محمد الیاس گھمن حفظہ ہللا‬
‫تمہید‪:‬‬
‫مسئلہ کی تفصیل سے قبل چند باتیں عرض کی جاتی ہیں‪:‬‬
‫معنی‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫توسل کا لغوی وشرعی‬
‫معنی‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫لغوی‬
‫ُ به‬ ‫َر‬
‫َّب‬ ‫َق‬
‫يت‬‫ُ به إلى الشَّيْء وُ‬ ‫َص‬
‫َّل‬ ‫َو‬
‫يت‬‫ْل ما ُ‬ ‫َس َ‬
‫ِيلة هي في األص‬ ‫الو‬ ‫‪:1‬‬
‫(النہايۃ فى غريب االثرالبن االثیرالجزرى‪ :‬ج‪5‬ص‪)402‬‬
‫کہ ”وسیلہ “دراصل اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ذريعے کسی (مطلوبہ) چیز کی طرف پہنچا‬
‫جائے اور اس کا قرب حاصل کیا جائے‬
‫مصباح اللغات میں ہے‪:‬‬ ‫‪:2‬‬
‫الوسیلہ‪ :‬تقرب حاصل کرنے کاذريعہ‬
‫(مصباح اللغات‪ :‬ص‪)946‬‬
‫‪ :3‬حکیم االمت حضرت تھانوی رحمہ ہللا فرماتے ہیں‪” :‬توسل“ لغت میں تقرب اور نزديکی کو‬
‫کہتے ہیں قرآن شريف میں ہے‪﴿ :‬وابتغوااليہ الوسيلة﴾ يعنی ہللا کاقرب حاصل کرو‬
‫(ملفوظات حکیم االمت ج‪25‬ص‪)123‬‬
‫معنی‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫شرعی‬
‫شرعا ً توسل کا اطالق ان اقسام پر ہوتا ہے‪:‬‬
‫توسل بالدعاء‪:‬‬
‫التوسل ۔۔۔ بدعاء الرجل الصالح الحي الموجود فتقول يا‬
‫شيخ ادع هللا لي ونحو ذلك‪ ،‬كما استسقى الصحابة برسول هللا صلى‬
‫هللا عليه وسلم‪.‬‬
‫(التوسل المشروع و الممنوع‪ :‬ص‪)17‬‬
‫ترجمہ‪ :‬توسل بالدعاء سے مراد يہ ہے کہ زندہ نیک آدمی کو دعا کی درخواست کرنا کہ حضرت!‬
‫میرے لیے ہللا سے دعا فرمائیں‪ ،‬جیسا کہ صحابہ رضی ہللا عنہم نے رسول ہللا صلی ہللا علیہ و سلم‬
‫سے بارش کے لیے دعا کی درخواست کی۔‬
‫توسل باالعمال‪:‬‬
‫واتباع‬ ‫وعبادته‬ ‫هو التقرب إلى هللا تعالى بطاعته‬
‫أنبيائه ورسله وبكل عمل يحبه هللا ويرضاه ‪.‬‬
‫(التوصل الی حقیقۃ التوسل لمحمد نسیب الرفاعي‪ :‬ص‪)13‬‬
‫تعالی کی اطاعت‪ ،‬عبادت‪ ،‬اس کے انبیاء و رسل کی اتباع اور‬
‫ٰ‬ ‫ترجمہ‪ :‬وسیلہ باالعمال سے مراد ہللا‬
‫تعالی کو پسند ہو اور ہللا اس سے راضی‬
‫ٰ‬ ‫ہر اس عمل کے ذريعے ہللا کا قرب حاصل کرنا ہے جو ہللا‬
‫ہو۔‬
‫توسل بالذات‪:‬‬
‫و ان يتوسل بالنبی صلی هللا عليہ و سلم و باحد من‬
‫ٰ و يتوسل‬
‫االولياء العظام جائز بان يکون السوال من هللا تعالی‬
‫بوليہ و نبيہ صلی هللا عليہ و سلم۔‬
‫الفتاوی‪ :‬ج‪ 6‬ص‪)327‬‬
‫ٰ‬ ‫(امداد‬
‫ترجمہ‪ :‬نبی صلی ہللا علیہ و سلم اور کسی ولی کی ذات سے وسیلہ کیا جائے جس کی صورت يہ ہے‬
‫تعالی سے جائے لیکن واسطہ ولی يا نبی صلی ہللا علیہ و سلم کا ہو۔‬
‫ٰ‬ ‫کہ مانگا تو ہللا‬
‫پیش نظر توسل کی شرعی تعريف کچھ يوں ہے‪:‬‬ ‫مندرجہ باال تین اقسام کے ِ‬
‫ً هو التقرب إلى هللا تعالی بدعاء النبيين‬ ‫و التوسل شرعا‬
‫و الصالحين و االولياء و شفاعتہم او بکل عمل يحبه هللا‬
‫مسئلہ توسل‬ ‫‪2‬‬
‫ٰۃ و الصيام و غير ذلک و‬ ‫ويرضاه من عبادتہ کالصالۃ و الزکو‬
‫اتباع أنبيائه ورسله او بجاه النبيين و الصالحين و‬
‫ٰ سواء‬ ‫بحرمتہم و ببرکتہم و بحقہم علی هللا سبحانہ و تعالی‬
‫کان فی حياتہم او بعد وفاتہم‬
‫تعالی کا قرب حاصل کرنا ہے چاہے وہ انبیاء‪ ،‬صالحین اور‬‫ٰ‬ ‫ترجمہ‪ :‬شريعت میں توسل سے مرد ہللا‬
‫اولیاء سے دعا کروا کر اور ان کی شفاعت سے حاصل کیا جائے يا ہر اس عمل سے کیا جائے جسے‬
‫ہللا پسند فرماتا ہے جیسے اس کی عبادت کرنا مثالً نماز پڑھنا‪ٰ ،‬‬
‫زکوۃ دينا‪ ،‬روزہ رکھنا وغیرہ اور‬
‫انبیاء ‪،‬رسل کی اطاعت کرنا يا انبیاء و صالحین کی جاہ‪ ،‬حرمت‪ ،‬برکت اور ان کے (ہللا پر ہونے‬
‫والے) حق(يا اس قسم کے ديگر الفاظ مثالً بطفیل فالں‪ ،‬بوسیلہ فالں وغیرہ) سے حاصل کیا جائے‬
‫چاہےاس دنیوی زندگی میں ہو يا وفات کے بعد والی زندگی میں۔‬
‫فائدہ‪:‬‬
‫توسل کی ان تین اقسام میں سے توسل بالدعاء اور توسل باالعمال اہل السنۃ وا لجماعۃ اور‬
‫فريق مخالف [مماتی اور غیر مقلدين] کے ہاں متفق علیہ ہے لیکن توسل بالذات کے اہل السنۃ و‬
‫الجماعۃ تو قائل ہیں البتہ فريق مخالف اس کا منکر ہے۔ اہل السنۃ وا لجماعۃ اور فريق مخالف کا‬
‫پیش خدمت ہے‪:‬‬
‫موقف ِ‬
‫مذہب اہل السنت والجماعت‪:‬‬
‫عالمہ تقی الدين علی بن عبد الکافی ابن علی السبکی الشافعی [م‪756‬ھ] لکھتے ہیں‪:‬‬ ‫‪:1‬‬
‫ان التوسل بالنبی صلی هللا عليہ وسلم جائز فی کل حال قبل‬
‫خلقہ وبعدخلقہ فی مدۃ حياتہ فی الدنيا وبعد موتہ فی مدۃ‬
‫البرزخ‬
‫(شفاءالسقام للسبکی‪ :‬ص‪)358‬‬
‫ترجمہ‪ :‬نبی اکرم صلی ہللا علیہ و سلم کا توسل لینا ہر حال میں جائز ہے چاہے آپ کی تخلیق سے‬
‫پہلے ہو‪ ،‬آپ کی پیدائش کے بعد آپ کی دنیوی زندگی میں ہو يا آپ کی وفات کے بعد آپ کی برزخی‬
‫زندگی میں ہو۔‬
‫عالمہ احمد بن محمد القسطالنی الشافعی رحمۃ ہللا علیہ [م‪923‬ھ] لکھتے ہیں‪:‬‬ ‫‪:2‬‬
‫َ من الدعاء و التضرع و‬ ‫ِر‬ ‫و ينبغی للزائر ان ُ‬
‫يکث‬
‫االشتغاثۃ و التشفع و التوسل بہ صلی هللا عليہ و سلم‬
‫(المواہب اللدنیۃ‪ :‬ج‪3‬ص‪ 417‬الفصل الثانی فی زيارۃ قبرہ الشريف الخ)‬
‫ترجمہ‪ :‬زائر کو چاہیے کہ بہت کثرت سے دُعا مانگے‪ ،‬گڑگڑائے‪ ،‬مدد چاہے‪ ،‬شفاعت کی دعا کرے‬
‫اور حضور صلی ہللا علیہ وسلم کا وسیلہ پکڑے۔‬
‫شاہ ولی ہللا محدث دہلوی رحمہ ہللا (م‪1176‬ھ) فرماتے ہیں‪:‬‬ ‫‪:3‬‬
‫ومن ادب الدعاء تقديم الثناء علی هللا و التوسل بنبی هللا‬
‫ليستجاب‪( .‬حجۃ ہللا البالغۃ ج‪2‬ص‪)6‬‬
‫تعالی کی تعريف اور حضور صلی ہللا علیہ وسلم‬‫ٰ‬ ‫ترجمہ‪ :‬اور دُعا کا مستحب طريقہ يہ ہے کہ اہللا‬
‫کے وسیلہ کو مقدّم کیا جائے تاکہ دُعا کو قبولیت کا شرف ہو۔‬
‫علماءديوبند کی اجماعی و متفقہ دستاويز ”المہند علی المفند“ میں تیسرا اور چوتھا سوال توسل‬ ‫‪:4‬‬
‫کے متعلق تھا‪ ،‬حضرات علماء ديوبند کا متفقہ مسلک اس سوال و جواب میں مالحظہ فرمائیں‪:‬‬
‫السوال الثالث والرابع‪ :‬هل للرجل ان يتوسل فی دعواتہ‬
‫بالنبی صلی هللا عليہ وسلم بعد الوفاۃ ام ال؟ ايجوزالتوسل‬
‫عندکم بالسلف الصالحين من االنبياء والصديقين والشھداء‬
‫واولياءرب العالمين ام ال؟‬
‫الجواب‪ :‬عندنا وعندمشائخنا يجوزالتوسل فی الدعوات‬
‫باالنبياء والصالحين من االولياء والشھداء والصديقين فی‬
‫حياتھم وبعدوفاتھم بان يقول فی دعائہ اللھم انی اتوسل‬
‫اليک بفالن ان تجيب دعوتی وتقضی حاجتی الی غيرذلک‬
‫مسئلہ توسل‬ ‫‪3‬‬
‫(المہند علی المفند‪ :‬ص‪)37 ،36‬‬
‫ترجمہ‪ :‬تیسرااورچوتھا سوال‪:‬کیا وفات کے بعد رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کاتوسل لینا دعاؤں میں‬
‫جائز ہے يا نہیں ؟ تمہارے نزديک سلف صالحین يعنی انبیاء ‪،‬صديقین ‪،‬شہداء اور اولیاء ہللا کا توسل‬
‫بھی جائز ہے يا ناجائز؟‬
‫جواب‪ :‬ہمارے نزديک اور ہمارے مشائخ کے نزديک دعا میں انبیاء ‪،‬اولیاء‪ ،‬شہداءاور صديقین کا‬
‫توسل جائز ہے‪ ،‬ان کی زندگی میں بھی اور وفات کے بعد بھی‪ ،‬آدمی يوں دعاکرے‪ :‬اے ہللا! فالں‬
‫بزرگ کے وسیلہ سے میری دعا قبول فرما اورمیری اس ضرورت کوپورافرما۔‬
‫حکیم االمت موالنا محمد اشرف علی تھانوی رحمۃ ہللا علیہ [م‪1362‬ھ] لکھتے ہیں‪:‬‬ ‫‪:5‬‬
‫و الثالث دعاء هللا ببرکۃ هذا لمخلوق المقبول و هذا‬
‫قد جوزه الجمہور الخ‬
‫(بوادر النوادر‪ :‬ص‪)708‬‬
‫تعالی‬
‫ٰ‬ ‫ترجمہ‪ :‬اور توسل کی تیسری صورت يہ ہے کی کسی مقبول مخلوق کی برکت کے ساتھ ہللا‬
‫سے مانگے اور اسے جمہور نے جائز قرار ديا ہے۔‬
‫لہذا اہل السنت والجماعت کے نزديک دعامیں کسی نبی ياولی کاوسیلہ دينا مستحب ‪،‬اقرب الی‬
‫االجابت اورآداب میں سے ہے۔‬
‫مذہب اہل بدعت‪:‬‬
‫موجودہ دور کے غیر مقلدين اورمماتی حضرات توسل کے منکر ہیں اور اسے ہنود و‬
‫نصاری کا طريقہ کہا‪ ،‬شرک کے اسباب قرار ديا اور مشرکین کا عقیدہ بتاليا۔ اس کا موقف ان کی‬
‫ٰ‬
‫چند عبارات میں مالحظہ ہو‪:‬‬
‫غیر مقلدين حضرات کی عبارات‪:‬‬
‫‪ :1‬سید طالب الرحمن صاحب غیر مقلد لکھتے ہیں‪:‬‬
‫کسی فوت شدہ نبی يا ولی کا وسیلہ دينا جائز نہیں کیونکہ يہ عم ِل صالح نہیں۔ (آئیے عقیدہ سیکھیے‪:‬‬
‫ص‪)159‬‬
‫‪ :2‬محمود احمد میر پوری صاحب غیر مقلد وسیلہ بالذات کو غیر مشروع قرار ديتے ہوئے لکھتے‬
‫ہیں‪:‬‬
‫فتاوی صراط‬
‫ٰ‬ ‫وسیلے کا يہی وہ غیر مشروع طريقہ ہے جو انسان کو شرک میں مبتال کر ديتا ہے۔ (‬
‫مستقیم‪ :‬ص‪)70‬‬
‫‪ :3‬محمد رئیس ندوی صاحب نے توسل بالذات کے بارے میں جس قسم کی زبان استعمال کی اور‬
‫قائلین توسل پر جو گالیوں کی بوچھاڑ کی وہ صرف انہی کا حصہ ہے۔ گالیاں ديتے ديتے موصوف‬
‫دعوی مکذوبہ و قبیحہ‪ ،‬حرام وغیرہ کہہ کر دل کی بھڑاس‬
‫ٰ‬ ‫نے توسل کی اس قسم کو مشرکانہ توسل‪،‬‬
‫نکالی ہے۔ (مجموعہ مقاالت پر سلفی تحقیقی جائزہ از رئیس ندوی‪ :‬ص‪ 856‬تا ‪)872‬‬

‫مماتی حضرات کی عبارات‪:‬‬


‫‪ :1‬محمد حسین نیلوی صاحب اپنی کتاب ”ندائے حق“میں لکھتے ہیں‪:‬‬
‫دراصل يہ مسئلہ (توسل) ہنود ونصاری سے چالآرہا ہے۔ (ج‪ 2‬ص‪ 349‬عنوان‪ :‬مسئلہ وسیلہ بالذوات‬
‫وا الموات کا اصل ماخذ)‬
‫‪ :2‬محمد طاہر صاحب پنجپیری کی کتاب ”البصائر مصنفہ مولوی حمد ہللا الداجوی“ کے حاشیہ‬
‫میں ہے‪:‬‬
‫قائلین توسل اور پہلے دور کےمشرکین کاعقیدہ ايک جیسا ہے۔ (حاشیہ البصائر‪:‬ص‪)237‬‬
‫‪ :3‬عطاء ہللا بنديالوی صاحب لکھتے ہیں‪:‬‬
‫اسالم میں وسیلہ کاکوئی ثبوت نہیں‪ ،‬جواز وسیلہ پر کوئی ايک آيت ‪،‬حديث ياصحابی کا عمل‬
‫موجود نہیں۔ لہذا وسیلہ قرآن وحديث کے خالف ہے ۔‬
‫(وسیلہ کیا ہے؟ ‪)64 ،46 ،42 ،41:‬‬
‫ايک مقام پر متو ِسل کے بارے میں لکھتے ہیں‪:‬‬
‫اور وہ پاگل اپنے درخواست پیش کرنے کے لیے مخلوق میں سے وسیلوں اور واسطوں کو ڈھونڈتا‬
‫مسئلہ توسل‬ ‫‪4‬‬
‫پھرے۔ (شرک کیا ہے ‪:‬ص‪)19‬‬
‫‪ : 4‬میاں محمد الیاس صاحب محمد طاہر پنج پیری صاحب کی ايک تصنیف کا ذکر کرتے ہوئے‬
‫لکھتے ہیں‪:‬‬
‫يہ موالنا کی پہلی مطبوعہ تصنیف ہے اور جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ اس کا موضوع”توسل و‬
‫وسیلہ“ ہے جو کہ پورے ہندوستان میں عام ہے اورشرک کے بنیادی اسباب میں سے ہے۔ (موالنا‬
‫طاہر کی خدمات‪ :‬ص‪)194‬‬
‫توسل بالذات کا ثبوت‪:‬‬
‫حضرات انبیاء علیہم السالم اور صالحین رحمۃ ہللا علیہم کی ذاتوں سے توسل کرنے کا جواز‬
‫کتاب ہللا‪ ،‬سنت رسول ہللا صلی ہللا علیہ و سلم‪ ،‬اجماع امت اور سلف صالحین کے اقوال سے ثابت‬
‫ہے۔ خصوصا ً حضور اکرم صلی ہللا علیہ و سلم سے توسل کرنے کا جواز عقالً و نقالً ثابت ہے۔‬
‫عقالً ثبوت‪:‬‬
‫ق مخالف بھی اس کا قائل ہے۔ اعمال فرع ہیں اورذات‬ ‫اعمال کا وسیلہ تو مسلّم ہے حتی کہ فري ِ‬ ‫‪:1‬‬
‫زکوۃ ‪ ،‬حج وغیرہ اعمال فرع ہیں اور ذات پیغمبر صلی ہللا علیہ‬ ‫اصل ہے۔ بالفاظ ديگر نماز‪ ،‬روزہ‪ٰ ،‬‬
‫وسلم اصل ہے کیونکہ حضور صلی ہللا علیہ وسلم کے جسم سے نکلنے والے اعمال کا نام ”دين“‬
‫اولی جائز ہوگا۔‬
‫ہے۔ جب اعمال اورفرع کا وسیلہ جائز ہے تو ذات پیغمبر اور اصل کا وسیلہ بدرجہ ٰ‬
‫نیز اعمال خود نہیں آئے نبی صلی ہللا علیہ و سلم الئے ہیں۔ اگر نبی صلی ہللا علیہ و سلم نہ ہوتے تو‬
‫اعمال ہمیں نہ ملتے۔ تو وہ اعمال جن کے وسیلے کے تم قائل ہو ان کا وسیلہ خود حضور صلی ہللا‬
‫علیہ و سلم کی ذات ہے۔‬
‫تعالی کی جانب سے نعمت ہیں‪ ،‬ان کا وسیلہ جائز ہے۔ حضرت انبیاء‬ ‫ٰ‬ ‫اعمال صالحہ خداوند‬ ‫‪:2‬‬
‫علیہم السالم و صالحین حضرات خصوصا ً آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم کی ذات گرامی تمام نعمتوں‬
‫کبری ہے۔ ارشاد خداوندی ہے‪:‬‬ ‫ٰ‬ ‫ت‬
‫کا سرچشمہ بلکہ نعم ِ‬
‫ْ‬
‫ِن‬ ‫ً‬
‫َسُوال م‬ ‫ْ ر‬ ‫ِم‬
‫ِيھ‬‫َث ف‬ ‫َ‬ ‫بع‬ ‫ْ‬
‫ِذ َ‬ ‫َ‬
‫ِين إ‬ ‫ِن‬ ‫ْ‬
‫ُؤم‬ ‫ْ‬
‫َلى الم‬ ‫َ‬ ‫اَّللُ ع‬
‫َّ‬ ‫َّ‬
‫من‬ ‫د َ‬ ‫َْ‬
‫﴿َلق‬
‫ْ﴾ (آل عمران‪)64:‬‬ ‫ِھ‬
‫ِم‬ ‫ُس‬‫نف‬‫َْ‬‫أ‬
‫ترجمہ‪:‬بے شک ہللا کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں ايک رسول انہی میں سے بھیجا۔‬
‫توجب چھوٹی نعمتوں (اعمال صالحہ وغیرہ) سے توسل کرنا جائز ہے تو بڑی نعمتوں (جناب رسول‬
‫ت مبارکہ اور ديگر انبیاء علیہم السالم اور صالحین رحمۃ ہللا علیہم)سے‬ ‫ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کی ذا ِ‬
‫اولی جائز اور درست ہوگا۔‬ ‫توسل کرنا بدرجہ ٰ‬
‫اعما ِل صالحہ چونکہ تقرب الی ہللا کا ذريعہ ہیں‪ ،‬اس لیے ان سے توسل جائز ہے تو انبیاء‬ ‫‪:3‬‬
‫علیہم السالم ان سے بڑھ کر تقرب کا ذريعہ ہیں۔ وجہ يہ ہے کہ اگر ايمان نہ ہو تو اعمال صالحہ سے‬
‫ب‬
‫ب خداوندی نہیں ملتا اور اگر ايمان ہو اور اعما ِل صالحہ بھی ہوں تو اعما ِل صالحہ سے اتنا قر ِ‬ ‫قر ِ‬
‫خداوندی نہیں ملتا جتنا پیغمبر کی ذات سے ملتا ہے۔‬
‫َلكَ‬‫ُ‬ ‫َّ ع‬
‫َم‬ ‫َ‬
‫َطن‬ ‫َح‬
‫ْب‬ ‫َ‬
‫َ لي‬ ‫ْت‬‫َك‬ ‫َ‬
‫ْ أشْر‬ ‫َ‬
‫تعالی کا يہ فرمان ہے‪﴿ :‬لئ‬
‫ِن‬ ‫اول کی دلیل ہللا‬
‫ٰ‬
‫َ﴾ [سورۃ الزمر‪]65:‬‬ ‫ِين‬ ‫ِر‬‫الخَاس‬ ‫َ ْ‬ ‫ِن‬‫َّ م‬ ‫ُ َ‬
‫ونن‬ ‫َك‬‫ََلت‬‫و‬
‫کہ اگر تم نے شرک کا ارتکاب کیا تو تمہارے سارے اعمال غارت جائیں گے اور تم يقینی طور پر‬
‫سخت نقصان اٹھانے والوں میں شامل ہو جاؤ گے۔‬
‫ثانی کی دلیل حضور صلی ہللا علیہ و سلم کے صحابہ رضی ہللا عنہم ہیں۔ رسول ہللا صلی ہللا‬
‫علیہ و سلم نے فرمايا‪:‬‬
‫ال تسبوا أحدا من أصحابي فإن أحدكم لو أنفق مثل أحد‬
‫ذهبا ما أدرك مد أحدهم وال نصيفه‬
‫(صحیح مسلم‪ :‬ج‪ 2‬ص‪ 310‬باب تحريم سب الصحابہ)‬
‫کہ میرے صحابہ کی شان میں نازيبا کلمہ نہ کہنا اس لیے کہ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ‬
‫کے برابر سونا خرچ کرے اور يہ (صحابہ رضی ہللا عنہم) ايک جو مٹھی بھر َجوخرچ کريں تو‬
‫تمہارا احد پہاڑ کے برابر سونا اِن کی مٹھی بھر جو کے برابر نہیں۔‬
‫مٹھی بھر َجو خرچ کرنا چھوٹا عمل ہے‪ ،‬احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرنا بڑا عمل ہے۔ اب‬
‫ت پیغمبر‬
‫يہاں احد پہاڑ کی مثل سونا مٹھی بھر َجو کے برابر اس لیے نہیں کہ مٹھی بھر َجو کو ذا ِ‬
‫مسئلہ توسل‬ ‫‪5‬‬
‫ت پیغمبر کی صحبت نہیں ملی۔ ثابت‬‫کی صحبت ملی ہےاور ہمارے احد پہاڑ کی مثل سونے کو ذا ِ‬
‫ب خداوندی نہیں ملتا جتنا پیغمبر کی ذات سے ملتا ہے۔‬
‫ہوا کہ اعمال صالحہ سے اتنا قر ِ‬
‫کتاب ہللا سے توسل کا ثبوت‪:‬‬
‫پہلی آيت‪:‬‬
‫وتعالی نے يہود کے بارے میں فرمايا ‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫ہللا تبارک‬
‫ُوا ﴾ (سورۃ البقرۃ‪)89:‬‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫ِين كفر‬ ‫َ‬ ‫َّ‬
‫َلى الذ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫ُون ع‬ ‫ِح‬ ‫ْ‬ ‫َ‬
‫يسْتفت‬ ‫ُ‬
‫ْل َ‬ ‫َ‬ ‫ْ‬
‫ِن قب‬ ‫ُ‬
‫َكانوا م‬ ‫َ‬ ‫﴿و‬
‫ترجمہ‪ :‬اور اس سے پہلے وہ اس نبی کے وسیلہ سے کافروں پر فتح مانگتے تھے۔‬
‫شاہ عبد العزيز محدث دہلوی رحمۃ ہللا علیہ(م ‪1239‬ھ) لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ابو نعیم اوربیہقی اورحاکم نےساتھ اسناد صحیحہ اورطرق متعددہ کے روايت کی ہے کہ يہودی مدينہ‬
‫کے اوريہودی خیبر کے جس وقت ساتھ بت پرستوں عرب کے يعنی فرقہ بنی اسد اوربنی غطفان‬
‫اورجہینہ اورغدرہ کے جنگ کرتے تھے‪ ،‬مغلوب ہوجاتے اورشکست کھاتے‪ ،‬الچارہوکرطرف‬
‫دانشمندوں اور کتاب اپنے کے رجوع کیا انہوں نے بعدتامل بسیار کے‪ ،‬يہ دعا اپنے سپاہیوں کو تعلیم‬
‫کی کہ لڑائی کے وقت میں پڑھا کريں‪ ،‬پھرمغلوب نہ ہوئے اورفتح پاتے تھے‪ ،‬دعا يہ ہے‪:‬‬
‫ِیِ االمی الذی‬ ‫َّب‬
‫د الن‬ ‫اللھم ربنا انا نسالک بحق احمَ‬
‫وعدتنا ان تخرجہ لنا فی آخرالزمان وبکتابک الذی تنزل‬ ‫َّ‬
‫عليہ آخرماينزل ان تنصرناعلی اعدائنا ۔‬
‫(تفسیرعزيزی‪ :‬ج‪2‬ص‪)581‬‬
‫ترجمہ‪ :‬اے ہللا!ہم تجھ سے حضرت احمد صلی ہللا علیہ و سلم کے حق اور وسیلے سے جو نبی امی‬
‫ہیں‪ ،‬جس کا تو نے ہم سے وعدہ کیا ہے کہ اس کو تو آخری زمانہ میں بھیجے گا‪ ،‬اور اس کتاب کے‬
‫وسیلہ سے جس کا تو نے آخری زمانہ میں نازل کرنے کا وعدہ فرمايا ہے‪ ،‬سوال کرتے ہیں کہ آج‬
‫کے دن تو ہمیں ہمارے دشمن پر غلبہ عطا فرما۔‬
‫عالمہ محمود آلوسی بغدادی رحمۃ ہللا علیہ [م‪1270‬ھ] لکھتے ہیں‪:‬‬
‫وہ لوگ يہ دعا کرتے تھے‪:‬‬
‫اللھم إنا نسألك بحق نبيك الذي وعدتنا أن تبعثه في آخر‬
‫الزمان أن تنصرنا اليوم على عدونا ‪( .‬روح المعانی‪:‬ج‪1‬ص‪)320‬‬
‫ترجمہ‪ :‬اے ہللا!ہم تجھ سے تیرے اس رسول کے حق اور وسیلے سے جس کا تو نے ہم سے وعدہ کیا‬
‫ہے کہ اس کو تو آخری زمانہ میں بھیجے گا‪ ،‬سوال کرتے ہیں کہ آج کے دن تو ہمیں ہمارے دشمن‬
‫پر غلبہ عطا فرما۔‬
‫شیخ ابو محمد عبد الحق حقانی دہلوی رحمہ ہللا(م‪ 1336‬ھ) لکھتے ہیں‪:‬‬
‫مدينہ کے يہود بنی اسد اوربنی غطفان وغیرہ قبائل عرب سے جب شکست کھاکرعاجز ہوئے تواپنے‬
‫علماءکی تعلیم سے دعاکیاکرتے تھے‪ :‬اللھم ربنا انا نسالک بحق احمد‬
‫النبی االمی الذی وعدتنا ان تخرجہ لنا فی آخرالزمان‬
‫وبکتابک الذی تنزل عليہ آخرماينزل ان تنصرناعلی اعدائنا‬
‫کہ ٰالہی ہم کو ببرکت نبی آخرالزمان محمدصلی ہللا علیہ وسلم کے اورببرکت قرآن مجید کے ہمارے‬
‫دشمنوں پر فتح ياب کر۔‬
‫(تفسیرحقانی‪ :‬ج‪1‬ص‪)510‬‬
‫شیخ التفسیر موالنا محمد ادريس کاندھلوی رحمہ ہللا(م‪ 1394‬ھ) اس آيت کے تحت لکھتے ہیں‪:‬‬
‫حاالنکہ نزو ِل قرآن اورآپ کی بعثت سے پہلے ہی لوگ کافراوربت پرستوں کے مقابلہ میں آپ کے‬
‫نام کی برکت سے فتح ونصرت ہللا سے مانگا کرتے تھے۔ چنانچہ يہودمدينہ اوريہودخیبر کی جب‬
‫عرب کےبت پرستوں سے لڑائی ہوتی تويہ دعا مانگتے‪:‬‬
‫اللھم ربنا انا نسالک بحق احمد النبی االمی الذی وعدتنا‬
‫ان تخرجہ لنا فی آخرالزمان وبکتابک الذی تنزل عليہ‬
‫آخرماتنزل ان تنصرناعلی اعدائنا۔‬
‫(تفسیرمعارف القرآن کاندھلوی‪ :‬ج‪1‬ص‪)233‬‬
‫ترجمہ‪ :‬اے ہللا! ہم تجھ سے حضرت احمد صلی ہللا علیہ و سلم کے حق اور وسیلے سے جو نبی امی‬
‫مسئلہ توسل‬ ‫‪6‬‬
‫ہیں‪ ،‬جس کا تو نے ہم سے وعدہ کیا ہے کہ اس کو تو آخری زمانہ میں بھیجے گا‪ ،‬اور اس کتاب کے‬
‫وسیلہ سے جس کا تو نے آخری زمانہ میں نازل کرنے کا وعدہ فرمايا ہے‪ ،‬سوال کرتے ہیں کہ آج‬
‫کے دن تو ہمیں ہمارے دشمن پر غلبہ عطا فرما۔‬
‫ان تصريحات سے معلوم ہوا کہ يہود مدينہ آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم کی آمد سے‬
‫قبل آپ کے وسیلہ سے دعا مانگتے تھے ۔‬
‫اعتراض‪:‬‬
‫اس آيت سے تو يہ ثابت ہوتا ہے کہ توسل بالذات يہود کا طريقہ تھا اور يہی کچھ مماتی‬
‫حضرات کہتے ہیں۔‬
‫جواب‪:‬‬
‫اوالً۔۔۔۔ اصول الفقہ کی مشہور کتاب ”نور االنوار“ میں مال جیون(م ‪1130‬ھ) فرماتے ہیں‪:‬‬
‫شرائع من قبلنا شريعتنا ما لم تنسخ‬
‫( نور االنوار‪ :‬ص‪ 227‬بحث الفرق بین الہام النبی صلی ہللا علیہ و سلم و غیرہ)‬
‫ترجمہ‪ :‬ہم سے پہلی شريعتیں جب تک منسوخ نہ ہو جائیں توانہیں بھی ہماری شريعت سمجھا جائے‬
‫گا۔‬
‫عالمہ محمود آلوسی بغدادی رحمہ ہللا (م‪1270‬ھ) فرماتے ہیں‪:‬‬
‫مذهبنا في شرع من قبلنا وإن كان إنه يلزمنا على أنہ‬
‫شريعتنا لكن ال مطلقا بل إن قصہ هللا تعالى علينا بال إنكار‬
‫(روح المعانى‪ :‬ج‪ 8‬ص‪ 239‬تحت سورۃ كہف آيت‪)21‬‬
‫تعالی بغیر انکار کے ہمیں بیان‬
‫ٰ‬ ‫ترجمہ‪ :‬پہلی شريعتوں کے بارے میں ہمارا مذہب يہ ہے کہ اگر ہللا‬
‫فرما ديں تو ہمارے لیے بھی ان کا حکم ثابت ہو گا۔‬
‫شريعت محمديہ علی صاحبہا السالم میں توسل بالذات سےمنع نہیں آيا بلکہ اس کا اثبات منقول‬
‫ہے جیسا کہ آگے دالئل میں آرہا ہے۔ لہذا اس آيت سے توسل کا جواز ثابت ہوا۔‬
‫اگر اسی شبہ پر توسل بالذات کا انکار کر ديا جائے کہ يہ پہلی شريعتوں کا مسئلہ ہے‬ ‫ثانیاً۔۔۔‬
‫تو ہم ان منکرين سے پوچھتے ہیں کہ توسل باالعمال کے آپ بھی توقائل ہیں اور اس پر جو‬
‫اصحاب الغار واال واقعہ پیش کرتے ہیں تو وہ بھی اس امت کے اولیاء نہیں تھے بلکہ بنی اسرائیل‬
‫تعالی نے بنی اسرائیل‬
‫ٰ‬ ‫کے اولیاء تھے‪ ،‬تو پھر اس کا انکار کر ديا جائے۔ اصل بات يہ ہے کہ جب ہللا‬
‫کے توسل کا تذکرہ کیا اور ترديد نہیں فرمائی تو وہ اب ہماری شريعت ہے اور نبی اکرم صلی ہللا‬
‫علیہ و سلم نے اصحاب الغاروالی حديث بیان فرمائی اور ترديد نہیں فرمائی تو وہ بھی ہماری شريعت‬
‫ہے۔‬
‫دوسری آيت‪:‬‬
‫اَّللَ‬
‫َّ‬ ‫ُوا‬ ‫ْف‬
‫َر‬ ‫َغ‬‫َاسْت‬‫َ ف‬ ‫ءوك‬ ‫َاُ‬ ‫ْ ج‬ ‫ھم‬ ‫ُسَُ‬‫نف‬‫َْ‬ ‫ُوا أ‬ ‫ََ‬
‫لم‬ ‫ْ ظ‬ ‫ِذ‬‫ْ إ‬ ‫ھم‬ ‫نُ‬‫ََّ‬
‫ْ أ‬ ‫ََلو‬‫و‬
‫ًا(سورۃ النساء‪)64:‬‬ ‫َحِيم‬ ‫با ر‬ ‫َّاً‬‫تو‬ ‫اَّللَ َ‬
‫دوا َّ‬ ‫َُ‬ ‫ُ َلو‬
‫َج‬ ‫َّسُول‬
‫ُ الر‬ ‫ھم‬‫َ َلُ‬ ‫َر‬‫ْف‬‫َغ‬ ‫َاسْت‬
‫و‬
‫ترجمہ‪ :‬اور جب ان لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا‪ ،‬اگر يہ اس وقت تمہارے پاس آ کر ہللا سے‬
‫مغفرت مانگتے اور رسول بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے تو يہ ہللا کو بہت معاف کرنے‬
‫واال‪ ،‬بڑامہربان پاتے۔‬
‫اس آيت میں دو چیزيں ہیں‪:‬‬
‫‪ :2‬نبی اکرم صلی ہللا علیہ و سلم کا استغفار‬ ‫‪ :1‬ان لوگوں کا اپنا استغفار‬
‫تعالی نے صرف ان کے استغفار پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ اس کے ساتھ پیغمبر صلی ہللا علیہ‬ ‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫و سلم کے استغفار کا بھی ذکر کیا۔ تو جس طرح ان کے اپنے استغفار کا ذکر کیا درمیان میں پیغمبر‬
‫َ ﴾ ہے کہ‬ ‫ءوك‬ ‫َاُ‬‫تعالی کا فرمان‪ ﴿ :‬ج‬
‫ٰ‬ ‫کی ذات کو بھی ذکر کیا۔ پیغمبر کو شامل کرنے پر دلیل ہللا‬
‫وہ لوگ آپ صلی ہللا علیہ و سلم کے پاس آئیں۔ اگر صرف استغفار ہی کافی تھا تو پھر حضور صلی‬
‫ہللا علیہ و سلم کے پاس آنے کی ضرورت نہیں تھی۔ معلوم ہوا کہ عام استغفار کے قبول ہونے میں‬
‫ان لوگوں کی ذات کو دخل ہے لیکن وہ استغفار جو رسول ہللا صلی ہللا علیہ و سلم کی ذات کے قريب‬
‫َ ﴾ ذکر نہ فرماتے۔‬ ‫ءوك‬ ‫َاُ‬ ‫ت نبوت کو دخل ہے ورنہ ﴿ ج‬ ‫آکر کیا جائے اس کی قبولیت میں ذا ِ‬
‫جواز وسیلہ پر استدالل کرتے ہیں۔ چنانچہ‬‫ِ‬ ‫امام مالک بن انس المدنی (م‪179‬ھ) اسی آيت سے‬
‫مسئلہ توسل‬ ‫‪7‬‬
‫منقول ہے کہ ايک مرتبہ خلیفہ منصور مدينہ منورہ آيا اور اس نے امام مالک سے دريافت کیا ‪:‬‬
‫استقبل القبلۃ و ادعو ام استقبل رسول هللا صلی هللا عليہ‬
‫و سلم؟ فقال‪ :‬و لم تصرف وجہک عنہ و ہو وسيلتک و وسيلۃ‬
‫ابيک آدم عليہ ا لسالم الی هللا يوم القيامۃ؟ بل استقبلہ وا‬
‫ٰ‪ :‬و لو انہم اذ ظلموا‬ ‫ستشفع بہ فيشفعہ هللا۔ قال هللا تعالی‬
‫الباب‬ ‫ٰ‪ :‬ج‪ 2‬ص‪26‬‬ ‫انفسہم االيۃ‪ ( .‬الشفاء بتعريف حقوق المصطفی‬
‫وجوب توقيره)‬ ‫الثالث فی تعظيم امره و‬
‫ترجمہ‪ :‬میں قبر نبوی کی زيارت کرتے وقت دعا کرتے ہوئے قبلہ رخ ہوں يا حضور صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم کی طرف رخ کروں ؟ امام مالک رحمۃ ہللا علیہ نے جواب ديا‪ :‬اے امیر! آپ رسول ہللا صلی ہللا‬
‫اعلی‬
‫ٰ‬ ‫علیہ وسلم کی جانب سے منہ کیوں موڑتے ہیں حاالنکہ وہ تمہارے لیے اور تمہارے جد‬
‫روز قیامت وسیلہ ہیں ‪ ،‬بلکہ اے امیر! آپ کو چاہیے کہ رسول ہللا‬ ‫حضرت آدم علیہ السالم کے لیے ِ‬
‫صلی ہللا علیہ و سلم کی جانب متوجہ رہیے اور حضور صلی ہللا علیہ و سلم کی شفاعت کے طلب‬
‫تعالی کا فرمان ہے‪ :‬جب ان لوگوں نے اپنی‬ ‫ٰ‬ ‫گار رہیے‪ ،‬ہللا ان کی شفاعت قبول فرمائے گا کیونکہ ہللا‬
‫جانوں پر ظل م کیا تھا‪ ،‬اگر يہ اس وقت تمہارے پاس آ کر ہللا سے مغفرت مانگتے اور رسول بھی ان‬
‫کے لیے مغفرت کی دعا کرتے تو يہ ہللا کو بہت معاف کرنے واال‪ ،‬بڑامہربان پاتے۔‬
‫عالمہ تقی الدين السبکی الشافعی (م‪756‬ھ ) اس آيت کو توسل بالذوات کی دلیل قرار ديتے‬
‫ہوئے لکھتے ہیں‪:‬‬
‫واالحاديث و اآلثار فی ذلک اکثر من ان تحصر‪ ،‬و لو‬
‫ْ‬
‫ِذ‬ ‫ْ إ‬ ‫ھم‬‫نُ‬‫ََّ‬
‫ْ أ‬‫ََلو‬
‫ٰ‪﴿:‬و‬ ‫ً‪ ،‬و نص قولہ تعالی‬ ‫تتبعتہا لوجدت منہا الوفا‬
‫ُ﴾‬ ‫َّسُول‬‫ُ الر‬ ‫ھم‬‫َ َلُ‬ ‫َر‬‫ْف‬‫َغ‬
‫َاسْت‬ ‫ُوا َّ‬
‫اَّللَ و‬ ‫ْف‬
‫َر‬ ‫َغ‬‫َاسْت‬‫َ ف‬ ‫ءوك‬‫َاُ‬ ‫ْ ج‬‫ھم‬‫ُسَُ‬
‫نف‬‫َْ‬‫ُوا أ‬ ‫لم‬‫ََ‬
‫ظ‬
‫اآليۃ صريح فی ذلک‪( .‬شفاء السقام‪ :‬ص‪ 376‬الباب الثامن فی التوسل‬
‫وا الستغاثہ و التشفع بالنبی صلی هللا عليہ و سلم)‬
‫ترجمہ‪ :‬توسل بالذوات کے بارے میں احاديث و آثار شمار سے باہر ہیں‪ ،‬اگر آپ ان کو جمع کريں تو‬
‫ْ‬
‫ھم‬‫ُسَُ‬
‫نف‬‫َْ‬
‫ُوا أ‬ ‫لم‬‫ََ‬‫ْ ظ‬ ‫ْ إ‬
‫ِذ‬ ‫ھم‬‫نُ‬‫ََّ‬
‫ْ أ‬ ‫ََلو‬
‫تعالی کا فرمان﴿و‬
‫ٰ‬ ‫ان کی تعداد ہزاروں میں پائیں گے۔ ہللا‬
‫ُ﴾ توسل بالذوات کے جواز میں‬‫َّسُول‬‫ُ الر‬ ‫َ َلُ‬
‫ھم‬ ‫َر‬‫ْف‬‫َغ‬ ‫َاسْت‬ ‫ُوا َّ‬
‫اَّللَ و‬ ‫َر‬‫ْف‬
‫َغ‬‫َاسْت‬
‫َ ف‬ ‫ءوك‬‫َاُ‬ ‫ج‬
‫نص صريح ہے۔‬ ‫ِ‬
‫تیسری آيت‪:‬‬
‫َ‬ ‫َس َ‬
‫ِيلة‬ ‫ِ ْ‬
‫الو‬ ‫ْه‬‫َِلي‬
‫ُوا إ‬
‫َغ‬ ‫َاْ‬
‫بت‬ ‫ُوا َّ‬
‫اَّللَ و‬ ‫ُوا َّ‬
‫اتق‬ ‫من‬‫َ آَ‬
‫ِين‬ ‫ھا َّ‬
‫الذ‬ ‫يَ‬‫َُّ‬ ‫َ‬
‫يا أ‬
‫االيۃ‬
‫(سورۃ المائدۃ‪)35:‬‬
‫ترجمہ‪ :‬اے ايمان والو! ہللا سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو ۔‬
‫امام ابو عبد ہللا الحاکم رحمۃ ہللا علیہ (م‪405‬ھ) نے حضرت حذيفہ رضی ہللا عنہم سے ہللا‬
‫ة﴾ (اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو) کے‬ ‫ِيلَ‬
‫َس َ‬ ‫ِ ْ‬
‫الو‬ ‫َِلي‬
‫ْه‬ ‫ُوا إ‬ ‫َغ‬
‫بت‬‫َاْ‬ ‫تعالی کے فرمان‪﴿ :‬و‬
‫ٰ‬
‫بارے میں يہ بات بیان کی ہے‪:‬‬
‫لقد علم المحفوظون من أصحاب محمد صلى هللا عليه و سلم‬
‫أن ابن أم عبد هللا من أقربھم إلى هللا وسيلة‬
‫(المستدرک علی الصحیحین‪ :‬ج‪3‬ص‪ 37‬کتاب التفسیر تحت سورۃ المائدۃ)‬
‫ترجمہ‪ :‬بے شک حضور نبی کريم صلی ہللا علیہ و سلم کے اصحاب میں سے محفوظ حضرات نے‬
‫تعالی کی جانب ان‬
‫ٰ‬ ‫جان لیا کہ ابن ام عبد ہللا (حضرت عبد ہللا بن مسعود) وسیلہ کے طور پر ہللا‬
‫حضرات میں سے اقرب اشخاص میں ہیں۔‬
‫شیخ االسالم عالمہ زاہد بن الحسن الکوثری رحمہ ہللا (م‪1371‬ھ) لکھتے ہیں‪:‬‬
‫َل التوسل باالشخاص‪ ،‬و التوسل‬ ‫تشْم‬‫والوسيلة بعمومہا َ‬
‫باالعمال۔۔۔ اما شمول الوسيلۃ فی اآليۃ المذکورۃ للتوسل‬
‫باالشخاص فليس برای مجرد و ال ہو بماخوذ من العموم اللغوی‬
‫فحسب بل ہو الماثور عن عمر الفاروق رضی هللا عنہ الخ‬
‫(مقاالت الکوثری‪ :‬ص‪)286‬‬
‫مسئلہ توسل‬ ‫‪8‬‬
‫پیش نظر ذاتوں کے وسیلہ کو بھی شامل ہے اور‬
‫ترجمہ‪ :‬اس آيت میں لفظ ”الوسيلۃ“ عموم کے ِ‬
‫اعمال کے وسیلہ کو بھی۔۔۔ آيت مذکورہ میں وسیلہ کا توسل باالشخاص کو شامل ہونا محض رائے‬
‫عموم لغوی کا نتیجہ ہے بلکہ يہ حضرت عمر فاروق رضی ہللا عنہ سے‬
‫ِ‬ ‫سے نہیں اور نہ ہی لفظ کے‬
‫منقول ہے الخ۔‬
‫آگے عالمہ کوثری رح مہ ہللا نے کئی ايک آثار ذکر فرمائے ہیں جن سے توسل باالشخاص‬
‫ثابت ہوتا ہے۔‬
‫وسیلہ ذوات واعمال دونوں کو اس لئے شامل ہے کہ وسیلہ سے مراد ”قربت“ ہے‪ ،‬جیسا کہ‬
‫عامہ مفسرين نے فرمايا ہے۔‬
‫(ديکھیے تفسیر الدر المنثور‪ ،‬تفسیر ابن کثیر‪ ،‬تفسیر جاللین وغیرہ)‬
‫چوتھی آيت‪:‬‬
‫ْ‬
‫هم‬‫َُ‬
‫ْ و‬
‫ھم‬ ‫َِ‬
‫بُ‬ ‫َذ‬
‫مع‬‫اَّللُ ُ‬
‫ن َّ‬ ‫َاَ‬ ‫ََ‬
‫ما ك‬ ‫ْ و‬
‫ِم‬ ‫َ ف‬
‫ِيھ‬ ‫نت‬‫َْ‬
‫َأ‬‫ْ و‬
‫ھم‬ ‫َِ‬
‫بُ‬ ‫َذ‬
‫ُع‬ ‫اَّللُ ِ‬
‫لي‬ ‫ن َّ‬ ‫َاَ‬
‫ما ك‬‫ََ‬‫و‬
‫ُوَ‬
‫ن‬ ‫ِر‬‫ْف‬‫َغ‬ ‫َ‬
‫يسْت‬
‫(سورۃ االنفال‪)33:‬‬
‫ترجمہ‪ :‬اور (اے پیغمبر!) ہللا ايسا نہیں ہے کہ اِن کو اِس حالت میں عذاب دے جب تم ان کے درمیان‬
‫موجود ہو اور ہللا انہیں عذاب دينے واال نہیں ہے جب کہ وہ بخشش مانگتے ہوں۔‬
‫امام ترمذی رحمۃ ہللا علیہ(م‪ 279‬ھ)نے ايک حديث روايت کی ہے کہ حضور اکرم صلی ہللا‬
‫تعالی نے مجھ پر میری اُمت کے لئے دو امانتیں نازل فرمائیں‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫علیہ و سلم نے فرمايا‪ :‬ہللا‬
‫ْ‬
‫ھم‬ ‫بُ‬‫َِ‬‫َذ‬
‫مع‬‫اَّللُ ُ‬ ‫َ‬
‫ما كان َّ‬‫َ‬ ‫ََ‬‫ْ } {و‬ ‫ِم‬‫ِيھ‬ ‫َ‬
‫َأنت ف‬‫ْ‬‫َ‬ ‫ْ و‬‫ھم‬‫بُ‬‫َِ‬
‫َذ‬‫ُع‬
‫لي‬‫اَّللُ ِ‬
‫ن َّ‬ ‫َاَ‬ ‫ما ك‬ ‫ََ‬
‫{و‬
‫ُون} إذا مضيت تركت فيھم االستغفار إلى يوم‬ ‫َ‬ ‫ِر‬ ‫ْ‬ ‫َ‬
‫يسْتغف‬‫ْ َ‬ ‫َُ‬
‫هم‬ ‫و‬
‫القيامة‪( .‬جامع الترمذی‪ :‬ج‪ 2‬ص‪ 139‬ابواب التفسير‪ ،‬تحت تفسير سورۃ‬
‫االنفال)‬
‫ترجمہ‪ :‬ايک امانت يہ آيت‪” :‬اور ہللا ايسا نہ کرے گا کہ انہیں تیرے ہوتے ہوئے عذاب دے“اور‬
‫دوسری يہ آيت‪ ” :‬ہللا انہیں عذاب دينے واال نہیں ہے جب کہ وہ بخشش مانگتے ہوں“۔ پس جب میں‬
‫(دنیا) سے چال جاؤں گا تو ان میں استغفار کو قیامت تک کے لئے چھوڑ جاؤں گا۔‬
‫عذاب سے بچنے کے دو سبب اس آيت میں ذکر کیے گئے ہیں۔ايک سبب پہلے حصہ میں‬
‫ْ﴾ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب تک آپ صلی ہللا علیہ و سلم ان میں‬ ‫ِم‬
‫ِيھ‬ ‫َ ف‬‫نت‬‫َْ‬
‫َأ‬‫وارد الفاظ‪﴿ :‬و‬
‫ُوَ‬
‫ن﴾‬ ‫ِر‬‫ْف‬
‫َغ‬‫يسْت‬‫ْ َ‬‫هم‬ ‫َُ‬‫تشريف فرما ہوں اس وقت تک عذاب نہ آئے گا اور دوسرا سبب ان الفاظ‪﴿ :‬و‬
‫ْ﴾ ذوات کے بیان کے لئے ہے اور‬ ‫ِم‬
‫ِيھ‬ ‫َ ف‬‫نت‬‫َْ‬
‫َأ‬‫سے معلوم ہو رہا ہے۔ تو يہاں پہال جملہ ﴿و‬
‫ن﴾ اعمال کے بیان کے لئے ہے۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ ذوات‬ ‫ُوَ‬‫ِر‬‫ْف‬
‫َغ‬ ‫ْ َ‬
‫يسْت‬ ‫هم‬‫َُ‬‫دوسرا جملہ ﴿و‬
‫کا وسیلہ بھی جائز ہے اور اعمال کا بھی جائز ہے۔‬
‫احاديث مبارکہ سے توسل کا ثبوت‪:‬‬
‫حديث نمبر‪:1‬‬
‫امام بخاری رحمہ ہللا نے اپنی صحیح میں حضرت انس رضی ہللا عنہ سے روايت کیا ہے‪:‬‬
‫َ‬
‫ُوا اسْتسْقى‬
‫َ‬ ‫َط‬ ‫َا ق‬
‫َح‬ ‫ِذ‬
‫ن إ‬‫َاَ‬ ‫ه ك‬ ‫ُْ‬‫َن‬‫اَّللُ ع‬
‫ِيَ َّ‬ ‫َّابِ ر‬
‫َض‬ ‫َ اْلخَط‬
‫بن‬‫َ ْ‬‫َر‬
‫ُم‬ ‫ََّ‬
‫ن ع‬ ‫أ‬
‫ْكَ‬ ‫َ‬‫ُ إ‬
‫ِلي‬ ‫َو‬
‫َسَّل‬ ‫َ‬
‫َّا نت‬ ‫ُن‬ ‫َّ‬
‫ِنا ك‬ ‫َّ إ‬ ‫ھم‬ ‫َّ‬
‫َ اللُ‬ ‫َ‬
‫َقال‬ ‫ِبِ ف‬ ‫َّ‬
‫ُطل‬ ‫ْ‬
‫ِ الم‬ ‫َب‬
‫ْد‬ ‫بنِ ع‬ ‫َب‬
‫َّاسِ ْ‬ ‫ب ْ‬
‫ِالع‬
‫َال‬
‫َ‬ ‫َا ق‬‫ِن‬‫َاسْق‬ ‫َا ف‬ ‫ِيِن‬
‫نب‬‫ِ َ‬ ‫َم‬
‫ِع‬ ‫ْكَ ب‬ ‫َِلي‬
‫ُ إ‬ ‫َو‬
‫َسَّل‬ ‫نا َ‬
‫نت‬ ‫َِّ‬
‫َإ‬‫َا و‬
‫ِين‬ ‫َت‬
‫َسْق‬ ‫َا ف‬‫ِيِن‬‫َب‬
‫ِن‬‫ب‬
‫َ‬
‫ْن‬ ‫َ‬
‫ُسْقو‬‫في‬‫َ‬
‫(صحیح البخاری‪ :‬ج‪1‬ص‪ 137‬باب سوال الناس االمام االستسقاء اذا قحطوا)‬
‫ترجمہ‪ :‬جب لوگ قحط میں مبتال ہوتے تو عمر بن خطاب‪ ،‬عباس بن عبدالمطلب کے وسیلہ سے دعا‬
‫کرتے اور فرماتے کہ اے ہللا! ہم تیرے پاس تیرے نبی صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ لے کر آيا‬
‫کرتے تھے تو تو ہمیں سیراب کرتا تھا‪ ،‬اب ہم لوگ اپنے نبی کے چچا (عباس رضی ہللا عنہ) کا‬
‫وسیلہ لے کر آئے ہیں‪ ،‬ہمیں سیراب کر۔ راوی کا بیان ہے کہ لوگ سیراب کئے جاتے( يعنی بارش‬
‫ہوجاتی)۔‬
‫اعتراض‪:‬‬
‫اس حديث سے تو يہ ثابت ہوتا ہے کہ وسیلہ باالحیاء تو جائز ہے ‪ ،‬وسیلہ باالموات جائز نہیں‬
‫مسئلہ توسل‬ ‫‪9‬‬
‫ہے۔ اس لیے کہ حضرت عمر رضی ہللا عنہ نے حضرت عباس رضی ہللا عنہ کا وسیلہ ديا ہے۔‬
‫اگر اموات کا وسیلہ جائز ہوتا تو رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کو چھوڑ کر حضرت عباس‬
‫رضی ہللا عنہ کا وسیلہ ذات کا وسیلہ نہ ديا جاتا۔‬
‫جواب‪:‬‬
‫حضور صلی ہللا علیہ وسلم کو چھوڑ کر حضرت عباس رضی ہللا عنہ کی ذات سے توسل‬
‫کرنے کی يہ وجوہات ہیں‪:‬‬
‫حضرت عمر رضی ہللا عنہ حضرت عباس رضی ہللا عنہ کا وسلیہ سے يہ بتانا چاہتے‬ ‫‪:1‬‬
‫تھ ے کہ جس طرح انبیاء علیہم السالم کا توسل جائز ہے اسی طرح غیر االنبیاء کا توسل بھی‬
‫جائز ہے۔‬
‫يہ بتانا مقصود تھا کہ توسل بالنبی صلی ہللا علیہ وسلم کی دو صورتیں ہیں‪ ،‬ايک بذات‬ ‫‪:2‬‬
‫النبی صلی ہللا علیہ وسلم اور دوسری توسل باھل قرابت النبی صلی ہللا علیہ وسلم۔‬
‫يہ بتانا مقصود تھا کہ غیر انیباء علیہم السالم کا توسل بھی رحمت وبرکت کا باعث ہے‬ ‫‪:3‬‬
‫۔‬
‫انسانی طبعیت کا تقاضا يہ ہے کہ محسوس ‪ ،‬موجود اور مبصر پر زيادہ مطمئن ہوتی‬ ‫‪:4‬‬
‫ہے ۔ جیسے اگر کوئی آدمی روضہ رسول صلی ہللا علیہ وسلم پر جا رہا ہو تو اس کو سالم‬
‫پہنچانے کا واسطہ بنايا جاتا ہے ۔ حاالنکہ سالم تو فرشتے بھی پہنچاتے جن کی رفتار بھی تیز‬
‫ہے اور سالم پہنچانا بھی يقینی ہے۔ اسی لیے بتقاضائے انسانی حضر ت عمر رضی ہللا عنہ نے‬
‫حضرت عباس رضی ہللا عنہ کی ذات کا توسل لیا۔‬
‫رہا معترض کا يہ کہنا کہ ”وسیلہ باالحیاء تو جائز ہے ‪ ،‬وسیلہ باالموات جائز نہیں“ بال‬
‫دلیل وحجت ہے ۔ اس لیے کہ ‪:‬‬
‫دعوی نہ داللت النص سے ثابت ہے ‪ ،‬نہ عبارت النص سے ‪،‬نہ اشارۃ النص ہے نہ‬ ‫ٰ‬ ‫يہ‬ ‫‪:1‬‬
‫اقتضاء النص سے۔‬
‫حضرت عمر رضی ہللا عنہ کے حضرت عباس رضی ہللا عنہ کی ذات سے توسل لینے‬ ‫‪:2‬‬
‫میں تو توسل باالموات کا اثبات ہوتا ہے کہ نہ انکار۔ اس لیے کہ حضرت عمر رضی ہللا عنہ‬
‫بنبيا فتسقينا “ اور يہ‬ ‫اليک‬ ‫انا نتوسل‬ ‫نے فرمايا تھا”اللھم‬
‫ضابطہ ہے کہ صحابی کے اس قول ”کنا نفعل کذا“ (ہم ايسا کیا کرتے تھے) کا‬
‫مطلب يہ کہ ہم جوبات کہہ رہے ہیں اس قول کے وقت تک ہمارا يہی عمل ہے۔ا ب حضرت‬
‫عمر رضی ہللا عنہ کے قول کا مطلب يہ ہوگا کہ ہم اس وقت تک (يعنی قحط والے سال تک)‬
‫حضور صلی ہللا علیہ وسلم کی ذات کا وسیلہ ديتے آئے ہیں ۔ اب اس میں حضور صلی ہللا‬
‫علیہ وسلم کی حیات دنیوی آپ کی صلی ہللا علیہ وسلم کی موت کے بعد والی زندگی دونوں کا‬
‫اولی ثابت ہوا۔‬
‫زمانہ شامل ہے۔ لہذا اس سے تو توسل باالحیاء بدرجہ ٰ‬
‫حضرت عباس رضی ہللا عنہ کا توسل بھی درحقیقت حضور صلی ہللا علیہ وسلم کا توسل‬ ‫‪:3‬‬
‫تھا کیونکہ حضرت عمر رضی ہللا عنہ کے الفاظ يہ تھے ”وانا نتوسل اليک بعم‬
‫نبينا“ يہاں حضرت عباس رضی ہللا عنہ کی جو نسبت حضو ر صلی ہللا علیہ وسلم کے‬
‫ساتھ ہے يعنی”عم“ ( چچا) والی نسبت کو ذکر کیا ہے پھر وسیلہ مانگا ہے ۔ معلوم ہوا کہ صرف‬
‫حضرت عباس رضی ہللا عنہ کا وسیلہ نہیں بلکہ اس عباس رضی ہللا عنہ کا وسیلہ مانگا جو‬
‫حضور صلی ہللا علیہ وسلم کے چچا ہیں ۔ تو حضو ر صلی ہللا علیہ وسلم کی ذات درمیان میں‬
‫آتی ہے۔‬
‫فائدہ‪:‬‬
‫يہ جوابات اور مؤقف حضرات اکابر کی عبارات اور تصريحات سے واضح ہوتا ہے‬
‫جنہوں نے اس حديث سے استدالل فرمايا ہے‪ ،‬ذيل میں ان مستدلین حضرات پیش خدمت ہیں‪:‬‬
‫مستدلین‪:‬‬
‫حافظ ابن حجر عسقالنی رحمۃ ہللا علیہ (م ‪852‬ھ)نے فتح الباری میں حضرت عبد ہللا بن عمر‬ ‫‪:1‬‬
‫رضی ہللا عنہما کی سند کے ساتھ اس حديث کو ذکر کیا ہے اور فرمايا ہے کہ اس حديث میں ہے کہ‬
‫مسئلہ توسل‬ ‫‪10‬‬
‫حضرت عمر رضی ہللا عنہ نے خطبہ ارشاد فرمايا‪:‬‬
‫إن رسول هللا صلى هللا عليه و سلم كان يرى للعباس ما يرى‬
‫الولد للوالد فاقتدوا أيھا الناس برسول هللا صلى هللا عليه و‬
‫سلم في عمه العباس واتخذوه وسيلة إلى هللا وفيه فما برحوا‬
‫حتى سقاهم هللا‬
‫(فتح الباری‪ :‬ج‪2‬ص‪ 641‬باب سوال الناس االمام االستسقاء اذا قحطوا)‬
‫ترجمہ‪ ”:‬رسول ہللا صلی ہللا علیہ و سلم کی نظر میں حضرت عباس رضی ہللا عنہ کا مرتبہ ايسا تھا‬
‫جیسا اوالد کی نظر میں والد ہوتا ہے‪ ،‬اس لیےاے لوگو!حضور صلی ہللا علیہ و سلم کے چچاحضرت‬
‫عالی‬
‫عباس رضی ہللا عنہ کے بارےمیں رسول اکرم صلی ہللا علیہ و سلم کی اقتداء کرو اور ان کوہللا ت ٰ‬
‫کی جانب وسیلہ بناؤ۔“ ابھی دعا مانگ رہے ہوتے کہ دعا کا سلسلہ شروع ہو جاتا۔‬
‫حکیم االمت حضرت موالنا اشرف علی تھانوی رحمۃ ہللا علیہ(م ‪1362‬ھ) اس حديث مبارک‬ ‫‪:2‬‬
‫کو نقل کرکے فرماتے ہیں‪:‬‬
‫” ف‪ :‬مثل حديث باالاس سے بھی توسل کاجواز ثابت ہے اورنبی صلی ہللا علیہ وسلم کے ساتھ تو‬
‫جوازتوسل ظاہرتھا ‪،‬حضرت عمر رضی ہللا عنہ کواس قول سے يہ بتالناتھا کہ غیرانبیاء سے بھی‬
‫توسل جائز ہے‪ ،‬تو اس سے بعض کا سمجھنا کہ احیاء واموات کا حکم متفاوت ہے بالدلیل ہے ۔اول تو‬
‫آپ بنص حديث قبر میں زندہ ہیں‪ ،‬دوسرے جوعلت جواز کی ہے جب وہ مشترک ہے توحکم کیوں‬
‫مشترک نہ ہوگا ؟‬
‫(التکشف‪ :‬ص‪ 675‬بعنوان‪ :‬غیر انبیاء سے بھی توسل جائز ہے)‬
‫شیخ االسالم شیخ زاہد بن حسن الکوثری رحمہ ہللا (م‪1371‬ھ)اس حديث سے استدالل کرتے‬ ‫‪:3‬‬
‫ہوئے فرماتے ہیں‪:‬‬
‫ُّ علی ما قبل‬ ‫َب‬
‫ان قول الصحابی‪(( :‬کنا نفعل کذا)) ينص‬
‫زمن القول فيکون المعنی ان الصحابۃ رضی هللا عنہم کانوا‬
‫يتوسلون بہ صلی هللا عليہ وسلم فی حياتہ و بعد لحوقہ‬
‫ٰ الی عام الرماد و قصر ذلک علی ما قبل‬ ‫بالرفيق االعلی‬
‫وفاتہ عليہ السالم تقصير عن ہوی و تحريف للنص و تاويل‬
‫بدون دليل‬
‫(مقاالت الکوثری‪ :‬ص‪)287‬‬
‫ترجمہ‪ :‬صحابی کے اس قول کا کہ ((کنا نفعل کذا)) [ہم ايسا کیا کرتے تھے] مطلب يہ ہے‬
‫کہ يہ فعل اس قول کے وقت سے پہلے والے زمانے میں ہوتا رہا ہے۔ لہذا حضرت عمر رضی ہللا‬
‫ُ) کا مطلب يہ ہو گا کہ صحابہ رضی ہللا عنہم حضور‬ ‫َو‬
‫َسَّل‬ ‫نت‬‫َّا َ‬‫ُن‬
‫نا ك‬ ‫َِّ‬
‫عنہ کے اس قول (إ‬
‫عالی کے‬
‫صلی ہللا علیہ و سلم کا توسل آپ علیہ السالم کی حیات میں اور آپ علیہ السالم کے خدا ت ٰ‬
‫پاس جانے کے بعد سے لے کر قحط والے سال تک کرتے رہے ہیں۔ اس توسل کو حضور صلی ہللا‬
‫ت دنیوی جو وفات سے پہلے وہ زمانہ‬ ‫علیہ و سلم کی وفات سے قبل والے زمانے(يعنی صرف حیا ِ‬
‫ہے) کے ساتھ خاص کرنا خواہشات کی پیروی‪ ،‬نصوص میں تحريف اور بال دلیل تاويل کرنے کے‬
‫مترادف ہے۔‬
‫شیخ االسالم موالنا ظفراحمدعثمانی رحمہ ہللا (م ‪1394‬ھ)ايک سوال کا جواب ديتے ہوئے‬ ‫‪:4‬‬
‫فرماتے ہیں‪:‬‬
‫حضرات صحابہ کا بعدوصال نبوی علیہ الصلوۃ والسالم الی يوم القیامہ کے حضرت عباس‬
‫رضی ہللا عنہ سے استسقاء میں توسل کرنا ہرگزاس امر پردال نہیں کہ بعد وصال کے حضور سے‬
‫دعوی ہے تو داللت النص وعبارت النص يا اشارۃ النص‬‫ٰ‬ ‫توسل فی الدعاء ممنوع ہوگیا تھا ۔اگرکسی کو‬
‫واقتضاء النص کے طريق سے کسی طريقہ سے ثابت کرے کہ يہ حديث اس امر پر کیونکر دال ہے‬
‫۔بلکہ اگر غور کیا جائے تو خود اس واقعہ میں بھی توسل بسید الرسل صلی ہللا علیہ وسلم تھا‪ ،‬کیونکہ‬
‫َم‬
‫ِ‬ ‫ِع‬ ‫َِلي‬
‫ْكَ ب‬ ‫ُ إ‬ ‫َو‬
‫َسَّل‬ ‫نت‬ ‫نا َ‬‫َِّ‬
‫َ إ‬
‫ھم‬ ‫َللُ‬ ‫حضرت عمر رضی ہللا عنہ کے الفاظ يہ ہیں‪(( :‬ا‬
‫ِ)) يہاں بھی در حقیقت حضور صلی ہللا علیہ و سلم ہی سے توسل تھا‪،‬‬ ‫ْہ‬‫ِي‬‫َب‬
‫ِ ا‬‫ْو‬‫ِن‬‫َص‬‫ِيِك و‬ ‫نب‬‫َ‬
‫حضرت عباس رضی ہللا عنہ کو اس توسل بالنبی صلی ہللا علیہ و سلم کی تقويت کے لئے آگے کیا‬
‫مسئلہ توسل‬ ‫‪11‬‬
‫تھا۔‬
‫(امداد االحکام‪ :‬ج‪1‬ص‪)133‬‬
‫فقیہ العصر مفتی رشیداحمدلدھیانوی رحمۃ ہللا علیہ(م‪ 1422‬ھ) اس حديث مبارک کو نقل‬ ‫‪:5‬‬
‫کرکے فرماتے ہیں‪:‬‬
‫حضرت عمر رضی ہللا عنہ کے فعل سے بعض حضرات نے جوازتوسل کی تخصیص‬
‫باالحیاء کا دعوی کیا ہے جو صحیح نہیں‪ ،‬جب توسل ثابت ہوگیا تو احیاء و اموات میں ما بہ الفرق‬
‫تغیراحوال‬
‫کیاہے؟ اگر کچھ فرق تسلیم کر لیا جائے تو مسئلہ برعکس ہونا چاہیئے کیونکہ زندہ انسان ِ‬
‫سے مامون نہیں‪ ،‬اسی لئے حديث میں وارد ہے کہ کسی کی اقتداء کرنا چاہو تو میت کی اقتداء کرو‪:‬‬
‫ٰ عنہ‪ :‬من كان مستنا فليستن‬ ‫عن ابن مسعود رضی هللا تعالی‬
‫بمن قد مات فإن الحي ال تؤمن عليه الفتنة الحديث رواه‬
‫ٰ‪ :‬ص‪)32‬‬ ‫رزين (مشکو‬
‫تعالی عنہم توسل با لحی کا استحباب ثابت ہوا توتوسل‬ ‫ٰ‬ ‫پس جب باجماع صحابہ رضی ہللا‬
‫بالمیت بطريق اولی مستحب ہوگا۔ عالوہ ازيں دلیل اول‪ ،‬ثالث اور رابع توسل بالمیت کے باب میں‬
‫صريح ہیں۔‬
‫تعالی عنہ نے حضوراکرم صلی ہللا علیہ وسلم‬ ‫ٰ‬ ‫باقی رہا يہ اشکال کہ حضرت عمررضی ہللا‬
‫تعالی عنہ سےکیوں توسل کیا ؟ سو اس کی چند توجیہات‬ ‫ٰ‬ ‫کی بجائے حضرت عباس رضی ہللا‬
‫ہوسکتی ہیں‪:‬‬
‫تعالی عنہ سے توسل کے ساتھ آپ کی دعا بھی مقصود تھی۔‬ ‫ٰ‬ ‫‪ :۱‬حضرت عباس رضی ہللا‬
‫‪ : ۲‬اس پرتنبیہ مقصود تھی کہ توسل بالنبی صلی ہللا علیہ وسلم کی دو صورتیں ہیں؛ ايک توسل بذاتہ‬
‫دوسری توسل باہل قرابتہ صلی ہللا علیہ وسلم۔‬
‫‪ :۳‬يہ بتانا مقصود تھا کہ توسل بغیر االنبیاء علیہم السالم من االولیاء والصلحاء بھی باعث برکت‬
‫وجالب رحمت ہے۔‬
‫‪ : ۴‬طبع انسانی اپنے اندر موجود محسوس مبصر شخص پر زيادہ مطمئن ہوتی ہے۔ چنانچہ حضور‬
‫اکرم صلی ہللا علیہ وسلم کی خدمت میں سالم بھیجنے اور دعا کی درخواست پہنچانے میں انسانی‬
‫وسائط کا اہتمام کیا جاتا ہے‪ ،‬حاالنکہ مالئکہ کا واسطہ انتہائی سريع ہونے کے ساتھ انتہائی قوی بھی‬
‫ہے‪ ،‬نہ ادائے امانت میں غفلت کا خطرہ‪ ،‬نہ نسیان کا انديشہ ۔‬
‫الفتاوی ‪:‬ج‪1‬ص ‪)335 ،334‬‬
‫ٰ‬ ‫(احسن‬
‫حديث نمبر‪:2‬‬
‫ْف ‪ :‬أن رجال ضرير البصر أتى النبي صلى‬‫َي‬
‫ُن‬‫عن عثمان بن ح‬
‫هللا عليه و سلم فقال ادع هللا لی أن يعافيني ‪ .‬فقال ( إن شئت‬
‫أخرت لك وهو خير ‪ .‬وإن شئت دعوت ) فقال ادعه ‪ .‬فأمره أن‬
‫يتوضأ فيحسن وضوءه ‪ .‬ويصلي ركعتين ‪ .‬ويدعو بھذا الدعاء‬
‫(اللھم إني أسألك وأتوجه إليك بمحمد نبي الرحمة ‪ .‬يا‬
‫محمد إني قد توجھت بك إلى ربي في حاجتي هذه لتقضى ‪.‬‬
‫ْه ف‬
‫ِيَّ )‬ ‫ِع‬‫اللھم فشَف‬
‫صلوۃ الحاجۃ‪ ،‬مسند احمد بن حنبل‪ :‬ج‪13‬ص‪ 315‬رقم الحديث ‪ ،17175‬المعجم الصغیر‬
‫(سنن ابن ماجۃ‪ :‬ص‪ 99‬باب ٰ‬
‫للطبرانی‪ :‬ص‪ 183‬من اسمہ طاہر‪ ،‬التاريخ الکبیر للبخاری‪ :‬ج‪6‬ص‪ 56‬رقم الترجمۃ ‪)2191‬‬
‫ترجمہ‪ :‬حضرت عثمان بن حنیف رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں کہ ايک نابیناآدمی رسول صلی ہللا علیہ‬
‫وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور درخواست کی کہ ہللا سے میرے لئے عافیت اور تندرستی‬
‫کی دعا مانگیے ۔ آپ نے فرمايا‪ :‬اگر چاہو تو آخرت کے لئے دعا مانگوں‪ ،‬يہ تمہارے لئے بہتر ہے‬
‫اور چاہو تو (ابھی) دعا کر دوں ؟ اس نے عرض کیا‪ :‬دعا فرما ديجئے۔ آپ صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم‬
‫نے اس سے کہا کہ اچھی طرح وضو کرو اور دو رکعتیں پڑھ کر يہ دعا مانگو‪:‬‬
‫َ‬
‫ِ يا‬ ‫َ‬
‫ْمة‬ ‫َّ‬
‫ِيِ الرح‬ ‫نب‬‫ٍ َ‬ ‫َّد‬
‫َم‬‫ُح‬
‫ِم‬‫ْکَ ب‬‫َِلي‬‫ه إ‬ ‫َج‬
‫َُّ‬ ‫ََ‬
‫تو‬ ‫َُلکَ و‬
‫َأ‬ ‫َسْأ‬
‫ِي أ‬ ‫ِن‬‫َّ إ‬
‫ھم‬ ‫َّ‬
‫اللُ‬
‫َّ‬
‫ُم‬ ‫َّ‬
‫اللھ‬ ‫َی‬‫ْض‬
‫ُق‬‫لت‬ ‫ِ ِ‬‫ِه‬‫هذ‬‫ِي َ‬ ‫َت‬‫َاج‬ ‫ِي ح‬ ‫ِي ف‬ ‫َب‬‫َِلی ر‬ ‫ِکَ إ‬‫ُ ب‬‫ھت‬ ‫َج‬
‫َّْ‬ ‫د َ‬
‫تو‬ ‫َْ‬
‫ِي ق‬ ‫ِن‬ ‫َُّ‬
‫د إ‬ ‫َم‬ ‫ُ‬
‫مح‬
‫ِيَّ‬ ‫ُْ‬
‫ه ف‬ ‫ِع‬ ‫َ‬
‫شف‬
‫[اے ہللا ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں اور آپ کی طرف متوجہ ہوتا ہوں رحمت والے نبی صلی ہللا‬
‫مسئلہ توسل‬ ‫‪12‬‬
‫علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے‪ ،‬اے محمد! میں نے آپ کے وسیلہ سے اپنے پروردگار کی طرف‬
‫توجہ کی اپنی اس حاجت کے سلسلہ میں تاکہ يہ حاجت پوری ہو جائے‪ ،‬اے ہللا! محمد صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم کی سفارش میرے بارے میں قبول فرما لیجئے ۔]‬
‫تصحیح حديث‪:‬‬
‫(‪ )1‬امام ابن ماجہ رحمۃ ہللا علیہ (م‪ 273‬ھ)نے اس حديث کو نقل کر کے فرمايا‪:‬‬
‫قال أبو إسحاق هذا حديث صحيح‬
‫صلوۃ الحاجۃ)‬
‫(سنن ابن ماجۃ‪ :‬ص‪ 99‬باب ٰ‬
‫ترجمہ‪ :‬ابو اسحاق نے کہا‪ :‬يہ حديث صحیح ہے۔‬
‫عیسی ترمذی (م‪ 279‬ھ)فرماتے ہیں‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫(‪ )2‬امام ابو‬
‫هذا حديث حسن صحيح‬
‫(جامع الترمذی‪:‬ج‪2‬ص‪ ،198‬ابواب الدعوات)‬
‫ترجمہ‪ :‬يہ حديث حسن صحیح ہے۔‬
‫(‪)3‬امام ابو عبد ہللا الحاکم (م ‪405‬ھ)اس حديث کو نقل کر کے فرماتے ہیں‪:‬‬
‫هذا حديث صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه‬
‫(المستدرك للحاکم‪ :‬ج‪1‬ص‪ 621‬دعاء رد البصر رقم الحديث ‪)1221‬‬
‫ترجمہ‪ :‬يہ حديث امام بخاری اور امام مسلم کی شرط پر صحیح ہے لیکن انہوں نے اس کو تخريج‬
‫نہیں کیا۔‬
‫(‪ )4‬ناصر الدين البانی غیر مقلد(م ‪1420‬ھ)اس کے بارے میں لکھتے ہیں‪:‬‬
‫صحيح‪( .‬جامع الترمذى باحکام االلبانی‪ :‬رقم الحديث‪)3578‬‬
‫کہ يہ حديث صحیح ہے۔‬
‫(‪ )5‬موالنا حبیب الرحمٰ ن االعظمی اس کے بارے میں فرماتے ہیں‪:‬‬
‫اسناده صحيح‪( .‬صحيح ابن خزيمۃ‪ :‬ج‪2‬ص‪ 225‬باب صالۃ الترغيب‬
‫الترہيب)‬
‫ترجمہ‪ :‬اس حديث کی سند صحیح ہے۔‬
‫مستدلین‪:‬‬
‫‪ :1‬قاضى محمد بن علی شوكانى(م ‪1250‬ھ) لکھتے ہیں‪:‬‬
‫وفي الحديث دليل على جواز التوسل برسول هللا صلى هللا عليه‬
‫وسلم إلى هللا عز وجل مع اعتقاد أن الفاعل هو هللا سبحانه‬
‫وتعالى‬
‫(تحفۃ الذاكرين‪ :‬ص‪)208‬‬
‫تعالی کے دربار میں رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم‬‫ٰ‬ ‫ترجمہ‪ :‬اس حديث میں اس بات کی دلیل ہے کہ ہللا‬
‫تعالی کی ہے۔‬
‫ٰ‬ ‫کی ذات کا توسل پکڑنا جائز ہے‪ ،‬لیکن اعتقاد يہ ہو کہ فاعل (و مختار) ذات ہللا‬
‫‪ :2‬حکیم االمت حضرت موالنا اشرف علی تھانوی رحمۃ ہللا علیہ(م‪ 1362‬ھ) يہ حديث نقل کرنے کے‬
‫بعدفرماتے ہیں‪:‬‬
‫”اس سے توسل صراحتا ثابت ہوا اور چونکہ آپ صلی ہللا علیہ وسلم کا اس کے لئے دعا فرمانا کہیں‬
‫منقول نہیں‪،‬اس سے ثابت ہوا کہ جس طرح توسل کسی کی دعا کا جائز ہے اسی طرح توسل دعا میں‬
‫کسی کی ذات کا بھی جائز ہے۔“ (نشرالطیب‪ :‬ص‪ 240‬اڑتیسويں فصل)‬
‫مفتی اعظم ہند مفتی محمد کفايت ہللا دہلوی علیہ الرحمۃ(م ‪1372‬ھ) توسل کے متعلق ايک‬ ‫‪:3‬‬
‫سوال کے جواب میں فرماتے ہیں‪:‬‬
‫اکثرجواز کے قائل ہیں ۔۔۔ اللھم انی اتوجہ اليک بنبيک نبی الرحمة‬
‫[الخ] حديث میں موجود‪،‬مذکورہے جوجوازکے لئے دلیل ہے۔‬
‫(کفايت المفتی‪ :‬ج‪2‬ص‪)85‬‬
‫اعتراض‪:‬‬
‫اس روايت کی سندمیں راوی ”ابو جعفر“سے مراد ”ابوجعفرعبدہللا بن مسور المدائنی“ ہے‬
‫جوضعیف بلکہ وضاع ہے ۔‬
‫مسئلہ توسل‬ ‫‪13‬‬
‫جواب نمبر‪:1‬‬
‫ْم‬
‫ِی المدنی“ ہے۔‬ ‫يہاں ابوجعفرسے مراد”ابوجعفرعمیربن يزيداالنصاری الخَط‬
‫‪ :1‬امام ابوبکراحمد بن محمد المعروف بابن السنی (م‪364‬ھ)نے يہی حديث نقل کی جس میں‬
‫”الخطمی“ کی صراحت ہے‪ :‬عن أبي جعفر المدني وهو الخطمي‬
‫عمل الیوم والیلۃ‪ :‬رقم الحديث ‪627‬‬
‫مسند احمد کے بھی ايک طريق میں الخطمی کی صراحت ہے‪:‬‬ ‫‪:2‬‬
‫َ‬ ‫َ‬
‫دثنا‬ ‫َ ح‬
‫ََّ‬ ‫َ‬
‫َة قال‬‫َ‬ ‫َ‬
‫بن سَلم‬‫َ‬ ‫ِي اْ‬ ‫ْن‬ ‫د َ‬
‫يع‬ ‫َّاٌ‬ ‫َم‬ ‫َ‬
‫دثنا ح‬ ‫َ‬ ‫َ ح‬
‫ََّ‬ ‫َ‬
‫ٌ قال‬ ‫َ‬
‫مؤَّ‬
‫مل‬ ‫َ‬
‫دثنا ُ‬ ‫َ‬ ‫ََّ‬
‫ح‬
‫بنِ‬ ‫َاَ‬
‫ن ْ‬ ‫ْ‬
‫ُثم‬‫ْ ع‬‫َن‬
‫ِتٍ ع‬ ‫َ‬
‫بنِ ثاب‬ ‫َ‬
‫َة ْ‬‫يم‬‫َْ‬
‫ُز‬ ‫بنِ خ‬‫ۃ ْ‬ ‫ََ‬
‫َار‬ ‫ُم‬‫ْ ع‬‫َن‬ ‫ْم‬
‫ِيُّ ع‬ ‫ٍ ْ‬
‫الخَط‬ ‫َر‬ ‫ْف‬‫َع‬‫بو ج‬‫َُ‬‫أ‬
‫ُ‬‫َر‬
‫ُه‬ ‫بص‬‫َ َ‬ ‫ََ‬
‫هب‬ ‫د ذ‬ ‫َْ‬
‫َ ق‬ ‫َسََّ‬
‫لم‬ ‫ِ و‬ ‫ْه‬
‫لي‬‫ََ‬
‫اَّللُ ع‬
‫لى َّ‬ ‫ََّ‬
‫ِيَّ ص‬‫َّب‬
‫تى الن‬ ‫َ‬
‫ال أَ‬ ‫ًُ‬
‫َج‬‫ن ر‬ ‫َ‬
‫ْفٍ أَّ‬‫َي‬‫ُن‬‫ح‬
‫َ‬
‫ِيث‬‫َد‬ ‫ْ‬
‫َ الح‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫فذكر‬ ‫َ‬
‫مسنداحمد‪ :‬رقم الحديث ‪17242‬‬
‫‪ :3‬أخبرنا حمزۃ بن العباس العقبي ببغداد ثنا العباس بن‬
‫محمد الدوري ثنا عون بن عمارۃ البصري ثنا روح بن القاسم‬
‫ِي عن أبي أمامة بن سھل بن حنيف عن عمه‬ ‫ْم‬
‫عن أبي جعفر الخَط‬
‫عثمان بن حنيف رضي هللا عنه أن رجال ضرير البصر[الحديث]‬
‫المستدرك للحاکم‪ :‬ج‪2‬ص‪213‬رقم‪1972‬‬
‫‪ :4‬أخبرنا أبو محمد عبد العزيز بن عبد الرحمن بن سھل‬
‫الدباس بمكة من أصل كتابه ثنا أبو عبد هللا محمد بن علي بن‬
‫زيد الصائغ ثنا أحمد بن شبيب بن سعيد الحبطي حدثني أبي‬
‫ْم‬
‫ِي عن أبي‬ ‫عن روح بن القاسم عن أبي جعفر المدني وهو الخَط‬
‫أمامة بن سھل بن حنيف عن عمه عثمان بن حنيف قال سمعت‬
‫رسول هللا صلى هللا عليه وسلم وجاءه رجل ضرير فشكا إليه ذهاب‬
‫بصره[الحديث]‬
‫المستدرك للحاکم‪ :‬ج‪2‬ص‪213‬رقم‪1973‬‬
‫المدني‬ ‫ْم‬
‫ِي‬ ‫الخَط‬ ‫جعفر‬ ‫أبي‬ ‫عن‬ ‫القاسم‬ ‫بن‬ ‫روح‬ ‫‪ :5‬عن‬
‫[الحديث]‬
‫المعجم الصغیر للطبرانی‪ :‬رقم الحديث ‪508‬‬
‫‪ :6‬امام اہل سنت موالنا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ ہللا فرماتے ہیں‪ :‬ترمذی مطبوعہ مصر‬
‫ْم‬
‫ِي “کے الفاظ ہیں اورہندی نسخہ میں غالبا ً کتابت کی غلطی کیوجہ سے لفظ‬ ‫میں”وهو الخَط‬
‫”غير“زائد ہوگیا ۔‬
‫تسکین الصدور‪ :‬ص‪432‬‬
‫ْم‬
‫ِی“کی صراحت‬ ‫چنانچہ المکتبۃ الشاملۃ میں موجودترمذی کے نسخہ میں ”وهو الخَط‬
‫ہے۔‬
‫جامع الترمذى‪ :‬رقم‪ 3578‬المکتبۃ الشاملۃ‬
‫وقال الترمذي هذا حديث حسن صحيح غريب ال نعرفه إال من‬ ‫‪:7‬‬
‫ْم‬
‫ِي‬ ‫هذا الوجه من حديث أبي جعفر وهو غير الخَط‬
‫هكذا وقع في الترمذي وسائر العلماء قالوا هو أبو جعفر‬
‫الخطمي وهو الصواب‪.‬‬
‫القاعدۃ الجلیلۃ فى التوسل والوسیلۃ البن تیمیۃ‪ :‬ج‪2‬ص‪202‬‬
‫جواب نمبر‪:2‬‬
‫اس روايت کی اسناددرج ذيل ہیں ‪:‬‬
‫سند نمبر‪:1‬‬
‫حدثنا محمود بن غيالن حدثنا عثمان بن عمر حدثنا شعبة‬
‫عن أبي جعفر عن عمارۃ بن خزيمة بن ثابت عن عثمان بن حنيف‬
‫جامع الترمذى‪ :‬رقم‪3578‬‬
‫مسئلہ توسل‬ ‫‪14‬‬
‫سند نمبر‪:2‬‬
‫حدثنا عثمان بن‬ ‫حدثنا محمد بن بشار و أبو موسى قاال‬
‫سمعت عمارۃ بن‬ ‫عمر نا شعبة عن أبي جعفر المدني قال‬
‫خزيمة يحدث عن عثمان بن حنيف‪ .‬صحيح ابن خزيمۃ‪ :‬رقم ‪1219‬‬
‫سند نمبر‪:3‬‬
‫َال‬
‫َ‬ ‫ِيِ ق‬‫ِين‬‫َد‬ ‫ٍ ْ‬
‫الم‬ ‫َر‬
‫ْف‬‫َع‬
‫ِي ج‬ ‫َب‬
‫أ‬ ‫ْ‬
‫َن‬‫ة ع‬‫َُ‬
‫ْب‬‫َا شُع‬ ‫دَ‬
‫ثن‬ ‫َ ح‬
‫ََّ‬ ‫َال‬ ‫ْح‬
‫ٌ ق‬ ‫َا ر‬
‫َو‬ ‫دَ‬
‫ثن‬ ‫ََّ‬
‫ح‬
‫ْفٍ‬‫َ‬
‫ُني‬‫بنِ ح‬ ‫َ‬
‫َان ْ‬ ‫ْ‬
‫ُثم‬ ‫ْ‬
‫َن ع‬‫ع‬ ‫ُ‬
‫ِث‬‫َد‬
‫يح‬‫ِتٍ ُ‬ ‫َ‬ ‫َة ْ‬
‫بنِ ثاب‬ ‫َ‬‫يم‬ ‫َ‬‫ُ‬ ‫َ‬
‫بن خزْ‬ ‫َ‬
‫َۃ ْ‬‫َار‬
‫ُم‬‫ُ ع‬ ‫ْت‬
‫ِع‬‫سَم‬
‫مسنداحمد‪ :‬رقم الحديث ‪17242‬‬
‫سند نمبر‪:4‬‬
‫أخبرنا أبو محمد عبد العزيز بن عبد الرحمن بن سھل‬
‫الدباس بمكة من أصل كتابه ثنا أبو عبد هللا محمد بن علي بن‬
‫زيد الصائغ ثنا أحمد بن شبيب بن سعيد الحبطي حدثني أبي‬
‫ْم‬
‫ِي عن أبي‬ ‫عن روح بن القاسم عن أبي جعفر المدني وهو الخَط‬
‫أمامة بن سھل بن حنيف عن عمه عثمان بن حنيف‬
‫المستدرك للحاکم‪ :‬ج‪2‬ص‪213‬رقم‪1973‬‬
‫سند نمبر‪:5‬‬
‫أخبرني زكريا بن يحيى قال حدثنا محمد بن المثنى قال‬
‫حدثنا معاذ بن هشام قال حدثني أبي عن أبي جعفر عن أبي‬
‫أمامة بن سھل بن حنيف عن عمه‬
‫السنن الكبرى للنسائی‪ :‬ج‪6‬ص‪169‬رقم ‪10420‬‬
‫سند نمبر‪:6‬‬
‫أخبرنا محمد بن معمر قال حدثنا حبان قال حدثنا حماد‬
‫قال أخبرنا جعفر[والصوب ابوجعفر] عن عمارۃ بن خزيمة عن‬
‫عثمان بن حنيف‬
‫السنن الكبرى للنسائی‪:‬ج‪6‬ص‪168‬رقم ‪10419‬‬
‫الحاصل ان روايات میں امام ابوجعفرالخطمی کے اساتذہ يہ ہیں‪:‬‬
‫‪ :1‬عمارہ بن خزيمہ ‪ :2‬ابوامامہ‬
‫اورشاگرديہ ہیں‪:‬‬
‫‪ :4‬حمادبن سلمۃ‬ ‫‪ :3‬ھشام‬ ‫‪ :2‬روح بن قاسم‬ ‫‪ :1‬شعبہ‬
‫کتب اسماء الرجال میں ان حضرات کا شمارامام ابوجعفر المدنی الخطمی کے اساتذہ اورشاگردوں میں‬
‫کیا گیا ہے نہ کہ ابوجعفرعبدہللا بن مسور المدائنی کے اساتذہ و شاگردوں میں۔‬
‫عن ابى جعفر المدينى سمع عمارۃ بن خزيمة بن ثابت عن‬
‫عثمان بن حنيف‬
‫التاريخ الكبیرالمام البخارى ج‪6‬ص‪210‬‬
‫عن ابى جعفر يزيد بن عمير أو عمير بن يزيد عن ابى امامة‬
‫بن سھل رضى هللا عنه عن عمه‬
‫التاريخ الكبیرالمام البخارى ج‪6‬ص‪210‬‬
‫عن روح بن القاسم‪ :‬عن ابى جعفر المدينى عن ابى امامة بن‬
‫سھل بن حنيف‪ :‬عن عمه عثمان ابن حنيف رضى هللا عنه‬
‫التاريخ الكبیرالمام البخارى ج‪6‬ص‪210‬‬
‫ِي اسمه عمير بن يزيد۔۔۔ يروى عن أبيه‬ ‫ْم‬
‫أبو جعفر الخَط‬
‫وسعيد بن المسيب روى عنه شعبة وحماد بن سلمة‬
‫كتاب الثقات البن حبان رقم الترجمه ‪10028‬‬
‫ْم‬
‫ِي‬ ‫عمير بن يزيد بن عمير بن حبيب بن خماشة أبو جعفر الخَط‬
‫بصرى ولجده صحبة روى عن ابيه عن جده وعن ابن المسيب‬
‫ً روى عنه حماد بن سلمة‬ ‫ومحمد بن كعب وروى هو عن جده ايضا‬
‫مسئلہ توسل‬ ‫‪15‬‬
‫سمعت ابى يقول ذلك قال أبو محمد وروى عنه شعبة بن الحجاج‬
‫وهشام الدستوائى وروح بن القاسم‬
‫الجرح والتعديل للرازى ج‪6‬ص‪379‬رقم الترجمه ‪2099‬‬
‫ِي واسمه عمير بن يزيد ۔۔۔۔وروى عنه شعبة‬‫ْم‬
‫أبو جعفر الخَط‬
‫وحماد ابن سلمة ويحيى بن سعيد القطان‬
‫الطبقات الكبرى البن سعد ج‪1‬ص‪347‬رقم الترجمه ‪257‬‬
‫ْم‬
‫ِي عن بن المسيب وأبي أمامة‬ ‫عمير بن يزيد أبو جعفر الخَط‬
‫بن سھل وعنه شعبة والقطان وعدۃ ثقة‬
‫الكاشف المام ذھبى ج‪2‬ص‪98‬رقم الترجمه ‪4290‬‬
‫عمير بن يزيد بن عمير بن حبيب بن خماشة ويقال ابن حباشة‬
‫ِي المدني ۔۔۔روى عن أبيه وخاله‬ ‫ْم‬
‫االنصاري أبو جعفر الخَط‬
‫عبدالرحمن بن عقبة وأبي أمامة بن سھل بن حنيف وسعيد ابن‬
‫المسيب ومحمد بن كعب القرظي وعمارۃ بن خزيمة بن ثابت‬
‫ِي وعمارۃ بن عثمان بن حبيب‪.‬وعنه‬ ‫ْم‬‫والحارث بن فضيل الخَط‬
‫هشام الدستوائي وعدي بن الفضل وشعبة وروح ابن القاسم‬
‫وحماد بن سلمة ويوسف السمتي ويحيى القطان‪ .‬تھذيب التھذيب‬
‫ج‪5‬ص‪139‬رقم الترجمہ ‪2168‬‬
‫جواب نمبر‪:3‬‬
‫عالمہ شمس الدين الذہبی (م‪748‬ھ) میزان االعتدال میں لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ورمزت على اسم الرجل من أخرج له في كتابه من االئمة‬
‫الستة‪ :‬البخاري‪[،‬خ] ومسلم[م]‪ ،‬وأبى داود‪[،‬د] والنسائي‪[ ،‬س]‬
‫والترمذي‪[ ،‬ت]وابن ماجه [ق]برموزهم السائرۃ‪.‬‬
‫(میزان االعتدال للذہبی‪ :‬ج‪ 1‬ص‪ 46‬مقدمۃ المصنف)‬
‫ترجمہ‪ :‬ہر راوی کے نام کے ساتھ میں نے وہ عالمت لگائی ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ صحاحِ‬
‫ستہ میں سے کس کس محدث نے ان سے روايت لی ہے يعنی امام بخاری (کے لیے عالمت ”خ“)‪،‬‬
‫امام مسلم (کے لیے عالمت ”م“)‪ ،‬امام ابو داؤ (کے لیے عالمت ”د“)‪ ،‬امام ترمذی (کے لیے‬
‫عالمت ”ت“)‪ ،‬امام ابن ماجہ (کے لیے عالمت ”ق“)۔‬
‫اس تفصیل کے بعدعرض ہے کہ ہماری پیش کردہ روايت ترمذی اور ابن ماجہ کی ہے جن‬
‫کی عالمت بالترتیب ”ت“ اور ”ق“ ہے۔ عالمہ ذہبی نے میزان االعتدال میں ”ابوجعفرالمدائنی“ کے‬
‫حاالت ذکرکئے ہیں (تحت الرقم‪ )461 :‬اوراس پرجرح بھی نقل کی ہے لیکن اس کے ساتھ عالمت‬
‫”ت“ اور ”ق“نہیں لگائی جو اس بات کی دلیل ہے کہ ہماری روايت کا راوی ابوجعفرالمدائنی نہیں‬
‫ِی ہے جو کہ ثقہ ہے۔ اس کی‬ ‫ْم‬
‫جو کہ ضعیف و مجروح ہے بلکہ يہ ابو جعفر عمیربن يزيدالخَط‬
‫ثقاہت درج ذيل ہے‪:‬‬
‫وذكره ابن حبان في‬ ‫قال ابن معين والنسائي‪ :‬ثقة‪،‬‬
‫الثقات وقال عبدالرحمن بن مھدي‪ :‬كان أبو جعفر وأبوه وجده‬
‫قوما يتوارثون الصدق بعضھم عن بعض‪.‬‬
‫قلت [ابن حجر]‪ :‬وقال أبو الحسن ابن المديني‪ :‬هو مدني‬
‫قدم البصرۃ وليس الهل المدينة عنه اثر وال يعرفونه ووثقه‬
‫ابن نمير والعجلي فيما نقله ابن خلفون وقال الطبراني في‬
‫االوسط‪ :‬ثقة‪.‬‬
‫تہذيب التہذيب‪ :‬ج‪5‬ص‪139‬رقم الترجمہ ‪2168‬‬
‫عمير بن يزيد بن عمير بن حبيب األنصاري أبو جعفر‬
‫ِي بفتح المعجمة وسكون الطاء المدني نزيل البصرۃ‬ ‫ْم‬
‫الخَط‬
‫صدوق من السادسة ‪ .4‬تقريب التہذيب‪ :‬ج‪1‬ص‪432‬رقم الترجمۃ ‪5190‬‬
‫حديث نمبر‪:3‬‬
‫مسئلہ توسل‬ ‫‪16‬‬
‫حضرت انس رضی ہللا عنہ سے روايت ہے کہ جب حضرت فاطمہ بنت اسد بن ہاشم کی‬
‫وفات ہوئی ‪ ،‬ان کی قبر کھودی گئی تو رسول ہللا صلی ہللا علیہ و سلم وہاں تشريف لے گئے‪ ،‬اپنے‬
‫ہاتھ سے قبر کی مٹی نکالی۔ وہاں آپ صلی ہللا علیہ و سلم نے ان الفاظ سے دعا کی‪:‬‬
‫َ‬
‫ِي فاطمة بنتِ‬ ‫ْف‬
‫ِر ِألم‬ ‫هللا الذي يحيي ويميت وهو حي ال يموت اغ‬
‫لھا بحق نبيك واألنبياء‬ ‫ََ‬
‫دخ‬ ‫مْ‬ ‫ْ عليھا ُ‬ ‫َھا ووس‬
‫ِع‬ ‫َّت‬
‫ُج‬ ‫ْھا ح‬ ‫ِن‬ ‫أسد َ‬
‫ولق‬
‫الذين من قبلي فإنك أرحم الراحمين‬
‫(المعجم الکبیر للطبرانی‪ :‬ج‪ ،10‬ص‪ 337‬رقم الحديث‪)20324‬‬
‫ترجمہ‪ :‬ہللا کی ذات وہ ہے جو زندہ بھی کرتی ہے اور مارتی بھی ہے‪ ،‬وہ زندہ ہے اسے موت نہیں‬
‫آئے گی‪ ،‬اے ہللا! میری ماں فاطمہ بنت اسد کی مغفتر فرما ‪ ،‬اس کو اس کی حجت (دلیل) سکھا دے‬
‫(تاکہ وہ فرشتوں کو جواب دے سکے)اور اس پر اس کی قبرکو کشادہ کر دے اس حق کے وسیلے‬
‫سے جو تیرے نبی کا (يعنی میرا) تجھ پر ہے اور جوان انبیاء علیہم السالم کا ہے جو مجھ سے پہلے‬
‫ہیں۔‬
‫تصحیح الحديث‪:‬‬
‫امام ابن حبان اور امام حاکم رحمہما ہللا نے اسے صحیح قرار ديا ہے۔ اس کی سند میں روح‬
‫بن صالح ہے۔ امام ابن حبان اور امام حاکم رحمہما ہللا نے اس کی توثیق کی ہے۔‬
‫ت کوثری‪ :‬ص‪)380‬‬
‫(مقاال ِ‬
‫استدالل‪:‬‬
‫عالمہ کوثری رحمہ ہللا (م ‪1371‬ھ)اس حديث کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں‪:‬‬
‫الی‬ ‫و فيہ التوسل بذوات االنبياء الذين انتقلوا‬
‫الدار اآلخرۃ‬
‫ت کوثری‪ :‬ص‪)380‬‬
‫(مقاال ِ‬
‫ترجمہ‪ :‬اس حديث میں اس بات کی دلیل ہےکہ جو انبیاء علیہم السالم حضور صلی ہللا علیہ وسلم سے‬
‫پہلے گزر چکے ہیں ان کا توسل جائز ہے۔‬
‫وجہ صاف ظاہر ہے کہ اس میں"واألنبياء الذين من قبلي "وہ انبیاء جو مجھ سے‬
‫پہلے ہیں]کے الفاظ ہیں جو مذکورہ توسل پر واضح دلیل ہیں۔‬
‫حديث نمبر‪:4‬‬
‫امام ابو عبد ہللا الحاکم نے حضرت عمربن خطاب رضی ہللا عنہ سے روايت کیا ہے کہ آپ صلی ہللا‬
‫علیہ و سلم نے فرمايا‪:‬‬
‫لما اقترف آدم الخطيئة قال يا رب أسألك بحق محمد لما‬
‫غفرت لي فقال هللا ‪ :‬يا آدم و كيف عرفت محمدا و لم أخلقه ؟‬
‫قال ‪ :‬يا رب ألنك لما خلقتني بيدك و نفخت في من روحك و‬
‫رفعت رأسي فرأيت على قوائم العرش مكتوبا ال إله إال هللا محمد‬
‫رسول هللا فعلمت أنك لم تضف إلى اسمك إالَّأحب الخلق فقال هللا ‪:‬‬
‫ُني بحقه فقد غفرت لك و‬ ‫دع‬‫ُْ‬ ‫صدقت يا آدم إنه ألحب الخلق إليَّ ا‬
‫لوال محمد ما خلقتك‬
‫(المستدرک للحاکم‪ :‬ج‪3‬ص‪ 517‬باب استغفار آدم علیہ السالم بحق محمد صلی ہللا علیہ و سلم‪ ،‬المعجم الصغیر للطبرانی‪:‬‬
‫ص‪ ،82‬ص‪)83‬‬
‫ترجمہ‪ :‬جب حضرت آدم علیہم السالم سے خطاء صادر ہو گئی (يعنی وہ امر صادر ہو گیا جسے اس‬
‫حديث میں خطاء سے تعبیر کیا گیا ہے) توآپ نے عرض کی‪:‬اے رب! میں تجھ سے حق محمد ی کے‬
‫تعالی نے فرمايا‪ :‬اے آدم! تم نے محمد ( صلی ہللا علیہ و‬
‫ٰ‬ ‫وسیلہ سے اپنی بخشش مانگتا ہوں۔ تب ہللا‬
‫سلم ) کو کیسے پہچانا؟ جب کہ میں نے انہیں ابھی پیدا ہی نہیں کیا۔ عرض کیا‪ :‬اے رب! يہ اس لئے‬
‫کہ جب تو نے مجھے اپنے دست ِ قدرت سے پیدا فرمايا اور اپنی جانب سے روح مبارک کو مجھ میں‬
‫ڈاال‪ ،‬میں نے اپنے سر کو اٹھايا تو میں نے عرش کے ستونوں پر ((ال الہ اال هللا محمد‬
‫رسول هللا )) لکھا ہوا ديکھا‪ ،‬تب میں نے جان لیا کہ تو اپنے پاک نام کے ساتھ کسی کے نام کا اضافہ‬
‫ت گرامی کے نام نامی کا اضافہ فرماتا ہے جو مخلوقات میں سے تجھے سب‬ ‫نہیں فرماتا مگر اس ذا ِ‬
‫مسئلہ توسل‬ ‫‪17‬‬
‫تعالی نے فرمايا‪ :‬اے آدم! تم نے سچ کہا‪،‬بے شک وہ مخلوقات میں‬ ‫ٰ‬ ‫سے زيادہ محبوب ہے۔ تب ہللا‬
‫سے مجھے سب سے زيادہ محبوب ہیں اسی کے وسیلہ سے مجھ سے دعا کیجیے۔ میں نےتجھے‬
‫بخش ديا ہے اور اگر محمد ( صلی ہللا علیہ و سلم ) نہ ہوتے تو میں تمہیں پیدا ہی نہ کرتا۔‬
‫تصحیح حديث‪:‬‬
‫امام حاکم رحمہ ہللا فرماتے ہیں‪:‬‬
‫هذا حديث صحيح اإلسناد‬
‫(المستدرک للحاکم‪ :‬ج‪3‬ص‪ 517‬باب استغفار آدم علیہ السالم بحق محمد صلی ہللا علیہ و سلم)‬
‫ترجمہ‪ :‬اس حديث کی سند صحیح ہے۔‬
‫اس سے توسل بالذات کا ثبوت ہوا۔ و ہلل الحمد‬
‫حديث نمبر‪:5‬‬
‫امام ابو عبد ہللا محمدابن سعد البصری (م‪230‬ھ) نے روايت نقل کی ہے‪:‬‬
‫عن سليم بن عامر الخبائري أن السماء قحطت فخرج‬
‫معاوية بن أبي سفيان وأهل دمشق يستسقون فلما قعد معاوية‬
‫على المنبر قال أين يزيد بن األسود الجرشي قال فناداه‬
‫الناس فأقبل يتخطى فأمره معاوية فصعد المنبر فقعد عند‬
‫رجليه فقال معاوية اللھم إنا نستشفع إليك اليوم بخيرنا‬
‫وأفضلنا اللھم إنا نستشفع إليك بيزيد بن األسود الجرشي يا‬
‫يزيد ارفع يديك إلى هللا فرفع يزيد يديه ورفع الناس أيديھم‬
‫فما كان أوشك أن ثارت سحابة في المغرب وهبت لھا ريح‬
‫فسقينا حتى كاد الناس ال يصلون إلى منازلھم‬
‫(طبقات ابن سعد‪ :‬ج‪7‬ص‪ 444‬تحت‪ :‬مائۃ رجل وسبعۃ نفر)‬
‫ترجمہ‪ :‬سلیم بن عامر الخبائری سے روايت ہے کہ آ سمان سے پانی برسنابند ہوگیا‪ ،‬توحضرت معاويہ‬
‫بن ابو سفیان رضی ہللا عنہما اور اہل دمشق بارش کی دعا کرنے نکلے۔ جب حضرت معاويہ رضی‬
‫ہللا عنہ منبر پر بیٹھے توفرمايا‪ :‬يزيد بن اسود رضی ہللا عنہ جرشی کہاں ہیں؟راوی کہتے ہیں‪ :‬لوگوں‬
‫نے انہیں پکارا‪ ،‬تو وہ آگے بڑھتے ہوئےتشريف الئے۔ حضرت معاويہ رضی ہللا عنہ نے انہیں حکم‬
‫فرمايا تو وہ منبر پر چڑھے اور نیچے کی طرف بیٹھے۔ پھر حضرت معاويہ رضی ہللا عنہ نے دعا‬
‫کی‪ :‬اے ہللا ! آج ہم لوگ تیری جانب اپنے بہترين اور افضل آدمی کی شفاعت طلب کرتے ہیں‪ ،‬اے‬
‫ہللا! ہم آپ کی بارگاہ میں يزيد بن اسود الجرشی کی ذات کوپیش کرتے ہیں‪ ،‬اے يزيد! آپ اپنے ہاتھوں‬
‫تعالی کی جانب اٹھائیں‪ ،‬حضرت يزيد بن اسود نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور لوگو ں نے بھی اپنے‬
‫ٰ‬ ‫کو ہللا‬
‫ہاتھوں کو اٹھايا۔ جلد ہی مغرب کی جانب ايک بادل اٹھا اور اسے ہوا لے (کر ہماری جانب) اڑی‪ ،‬تب‬
‫(بارش ہوئی اور) ہم لوگ ايسے سیراب ہوئے کہ لوگوں کا اپنے مکانوں تک پہنچنا تقريبا ً دشوار ہو‬
‫گیا۔‬
‫مستدلین‪:‬‬
‫(‪ )1‬امام ابو اسحٰ ق ابرا ہیم بن علی (م ‪476‬ھ)نے اس روايت کو ”المہذب“ کے ”باب االستسقاء“‬
‫میں روايت کر کے استدالل کیا ہے۔‬
‫(المہذب مع شرحہ المجموع‪ :‬ج‪ 6‬ص‪)100‬‬
‫(‪ )2‬امام نووی رحمۃ ہللا علیہ(م ‪676‬ھ) نے اس واقعہ کو ثابت اور مشہور مانتے ہوئے امام ابو‬
‫اسحاق ابراہیم بن علی کی تائید کی ہے۔‬
‫(المجموع شرح المہذب‪ :‬ج‪ 6‬ص‪)101‬‬
‫مذکورہ احاديث وآثار سے واضح ہوا کہ ذوات سے توسل کرنا جائز ہے۔‬
‫حديث نمبر‪:6‬‬
‫امام ابو القاسم سلیمان بن احمدطبرانی رحمۃ ہللا علیہ (م‪ 360‬ھ)نے ايک روايت نقل کی ہے‪:‬‬
‫عن أبي أمامة بن سھل بن حنيف عن عمه عثمان بن حنيف ‪:‬‬
‫أن رجال كان يختلف إلى عثمان بن عفان رضي هللا عنه في حاجة‬
‫له فكان عثمان ال يلتفت إليه وال ينظر في حاجته فلقي عثمان‬
‫مسئلہ توسل‬ ‫‪18‬‬
‫بن حنيف فشكا ذلك إليه فقال له عثمان بن حنيف ائت‬
‫الميضأۃ فتوضأ ثم ائت المسجد فصلي فيه ركعتين ثم قل‬
‫اللھم إني أسألك وأتوجه إليك بنبينا محمد صلى هللا عليه و‬
‫سلم نبي الرحمة‬
‫(المعجم الصغیر للطبرانی‪ :‬ص‪ 183‬من اسمہ طاہر)‬
‫ترجمہ‪:‬ايک شخص حضرت عثمان بن عفان رضی ہللا عنہ کے پاس کسی کام کے سلسلے میں آيا جايا‬
‫کرتا تھا اور حضرت عثمان بن عفان رضی ہللا عنہ (غالبا ً کسی مصروفیت کی وجہ سے) نہ تو اس‬
‫کی طرف توجہ فرماتے اور نہ ہی اس کی حاجت براری کرتے۔ وہ شخص حضرت عثمان بن حنیف‬
‫رضی ہللا عنہ سے مال اور اس بات کی شکايت کی تو انھوں نے فرماياکہ وضو کی جگہ جا اور‬
‫وضو کر‪ ،‬پھر مسجد میں جا کر دو رکعت نماز پڑھ‪ ،‬پھر کہہ‪:‬اللھم إني أسألك‬
‫وأتوجه إليك بنبينا محمد صلى هللا عليه و سلم نبي الرحمة [اے‬
‫ہللا!میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور بوسیلہ محمد صلی ہللا علیہ تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں جونبی‬
‫الرحمۃ ہیں]‬
‫اس روايت کے آخر میں تصريح ہے کہ اس نے ايسا ہی کیا اور دعا کی برکت سے حضرت‬
‫عثمان بن عفان رضی ہللا عنہ نے اس کی تعظیم و تکريم بھی کی اور اس کا کام بھی پورا کر ديا۔‬
‫تصحیح حديث‪:‬‬
‫‪ :1‬امام طبرانی(م ‪360‬ھ) فرماتے ہیں‪:‬‬
‫و الحديث صحيح‬
‫(المعجم الصغیر للطبرانی ج‪ 1‬ص‪)184‬‬
‫ترجمہ‪ :‬يہ حديث صحیح ہے۔‬
‫‪ :2‬عالمہ منذری رحمہ ہللا (م ‪656‬ھ)بھی ان کی تائیدکرتے ہیں۔‬
‫(الترغیب و الترہیب‪ :‬ج‪ 1‬ص‪ 272‬الترغیب فی صالۃ الحاجۃ و دعائھا)‬
‫‪:3‬عالمہ ابن حجر مکی رحمہ ہللا(م ‪974‬ھ) فرماتے ہیں‪:‬‬
‫رواه الطبرانی بسند جيد‬
‫(حاشیہ ابن حجر المکی علی االيضاح فی المناسک للنووی‪ :‬ص‪)500‬‬
‫ترجمہ‪ :‬اس حديث کو امام طبرانی رحمہ ہللا نے سند جید کے ساتھ روايت کیا ہے۔‬
‫فائدہ‪:‬‬
‫دور خالفت کا ہے۔حضرت عثمان بن حنیف‬ ‫يہ واقعہ حضرت عثمان بن عفان رضی ہللا عنہ کے ِ‬
‫رضی ہللا عنہ اس دور میں يہ دعا سکھا کر نبی صلی ہللا علیہ وسلم کی ذات کا توسل سکھا رہے ہیں۔‬
‫معلوم ہوا کہ توسل بعد الوفات بھی جائز ہے۔‬
‫تعالی ان دالئل سے حضرات انبیاء علیہم السالم اور صالحین کی ذوات سے توسل کرنا ثابت‬
‫ٰ‬ ‫بحمدہللا‬
‫ہوگیا۔ وہلل الحمد‬
‫توسل کا ثبوت اجماع سے‪:‬‬
‫اس پر حضرات صحابہ کرام رضی ہللا عنہم کا اجماع ہے کہ حضرات انبیاء علیہم السالم اور‬
‫صالحین سے توسل جائز ہے۔‬
‫دلیل نمبر‪:1‬‬
‫جیسا کہ ماقبل میں گزرا کہ امام بخاری رحمہ ہللا نے اپنی صحیح میں حضرت انس رضی ہللا عنہ‬
‫سے روايت کیا ہے‪:‬‬
‫َ‬ ‫َ‬
‫َطوا اسْتسْقى‬ ‫ُ‬ ‫َ‬
‫ِذا قح‬‫َ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫ه كان إ‬ ‫ْ‬
‫َنُ‬ ‫اَّللُ ع‬
‫ِيَ َّ‬ ‫َض‬ ‫َّ‬‫َ‬ ‫ْ‬
‫بن الخطابِ ر‬ ‫َ‬ ‫َ ْ‬‫َر‬
‫ُم‬‫ن ع‬ ‫ََّ‬
‫أ‬
‫ْكَ‬ ‫َ‬
‫ِلي‬ ‫ُ إ‬ ‫َسَّل‬‫َ‬ ‫َ‬
‫َّا نتو‬ ‫ُ‬
‫ِنا كن‬ ‫َّ‬‫َّ إ‬‫ھم‬ ‫َّ‬
‫َ اللُ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫ِبِ فقال‬ ‫َّ‬
‫ُطل‬ ‫ْ‬
‫ِ الم‬ ‫َب‬
‫ْد‬ ‫َّاسِ ْ‬
‫بنِ ع‬ ‫َب‬ ‫ب ْ‬
‫ِالع‬
‫َال‬
‫َ‬ ‫َا ق‬ ‫ِن‬‫َاسْق‬‫َا ف‬‫ِيِن‬
‫نب‬‫ِ َ‬ ‫َم‬
‫ِع‬‫ْكَ ب‬ ‫َِلي‬
‫ُ إ‬ ‫َو‬
‫َسَّل‬ ‫نا َ‬
‫نت‬ ‫َِّ‬ ‫َا و‬
‫َإ‬ ‫ِين‬ ‫َت‬
‫َسْق‬ ‫َا ف‬ ‫ِيِن‬‫َب‬
‫ِن‬‫ب‬
‫َْ‬
‫ن‬ ‫َو‬ ‫َي‬
‫ُسْق‬ ‫ف‬
‫(صحیح البخاری‪ :‬ج‪1‬ص‪ 137‬باب سوال الناس االمام االستسقاء اذا قحطوا)‬
‫ترجمہ‪ :‬جب لوگ قحط میں مبتال ہوتے تو عمر بن خطاب‪ ،‬عباس بن عبدالمطلب کے وسیلہ سے دعا‬
‫کرتے اور فرماتے کہ اے ہللا! ہم تیرے پاس تیرے نبی صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ لے کر آيا‬
‫مسئلہ توسل‬ ‫‪19‬‬
‫کرتے تھے تو تو ہمیں سیراب کرتا تھا‪ ،‬اب ہم لوگ اپنے نبی کے چچا (عباس رضی ہللا عنہ) کا‬
‫وسیلہ لے کر آئے ہیں‪ ،‬ہمیں سیراب کر۔ راوی کا بیان ہے کہ لوگ سیراب کئے جاتے( يعنی بارش‬
‫ہوجاتی)۔‬
‫عالمہ ابن حجر عسقالنی رحمۃ ہللا علیہ نے حضرت عمر رضی ہللا عنہ کے اس ارشاد کا‬
‫ذکر کیا کہ آپ رضی ہللا عنہ سے صحابہ رضی ہللا عنہم سے فرمايا‪:‬‬
‫واتخذوه وسيلة إلى هللا‬
‫(فتح الباری‪ :‬ج‪2‬ص‪ 641‬باب سوال الناس االمام االستسقاء اذا قحطوا)‬
‫تعالی کی جانب وسیلہ‬
‫ٰ‬ ‫ترجمہ‪:‬حضور صلی ہللا علیہ و سلم کے چچاحضرت عباس رضی ہللا عنہ کوہللا‬
‫بناؤ۔“‬
‫صحابہ کرام رضی ہللا عنہم میں سے کسی نے بھی اس قول وفعل میں حضرت عمر رضی ہللا عنہ پر‬
‫انکار نہیں کیا۔ گويا اس پر اجماع و اتفاق کر لیا۔‬
‫دلیل نمبر‪:2‬‬
‫اسی طرح جب صحابہ کرام رضی ہللا عنہم اورتابعین رحمہم ہللا کی موجودگی میں حضرت‬
‫معاويہ بن ابی سفیان رضی ہللا عنہما نے حضرت يزيد بن اسود رضی ہللا عنہ سے توسل کرتے ہوئے‬
‫بارش کی دعا کی‪:‬‬
‫اللھم إنا نستشفع إليك اليوم بخيرنا وأفضلنا اللھم‬
‫إنا نستشفع إليك بيزيد بن األسود الجرشي‬
‫(طبقات ابن سعد‪ :‬ج‪7‬ص‪ 444‬تحت‪ :‬مائۃ رجل وسبعۃ نفر)‬
‫ترجمہ‪ :‬اے ہللا ! آج ہم لوگ تیری جانب اپنے بہترين اور افضل آدمی کی شفاعت طلب کرتے ہیں‪ ،‬اے‬
‫ہللا! ہم آپ کی بارگاہ میں يزيد بن اسود الجرشی کی ذات کوپیش کرتے ہیں۔‬
‫حاضرين میں سے کسی ايک نے حضرت معاويہ رضی ہللا عنہ کے اس فعل مبارک پر انکار‬
‫نہیں کیا۔گويا ذوات سے توسل کرنے کے جائز ہونے پر صحابہ کرام رضی ہللا عنہم وتابعین رحمہم‬
‫ہللا کااجماع ہو گیا۔‬
‫دلیل نمبر‪:3‬‬
‫عالمہ محمد بن علی شوکانی (م‪1250‬ھ)نے اپنے رسالہ ”الدرالنضيد فی کلمۃ‬
‫اخالص التوحيد“ میں تصريح کی ہے‪:‬‬
‫ً‬
‫و ثبت التوسل بغيره بعد موتہ باجماع الصحابۃ اجماعا‬
‫ً ‪(.‬ص‪)20‬‬ ‫سکوتيا‬
‫سل کرنا اجماع صحابہ‬
‫کہ حضور نبی کريم صلی ہللا علیہ و سلم کی وفات کے بعد آپ کے غیر کا تو ّ‬
‫رضی ہللا عنہم سے ثابت ہے۔‬
‫اقوال ِسلف اور مسئلہ توسل‪:‬‬
‫حضرات سلف صالحین مسئلہ توسل میں جواز کے قائل چلے آ رہے ہیں‪ ،‬ذيل میں ہم بعض حضرات‬
‫کا کالم نقل کريں گے تا کہ معاندين و منکرين پر حجت پوری ہو جائے۔‬
‫خلیفۃ رابع حضرت علی کرم ہللا وجہہ (م‪40‬ھ)‬
‫عن أنس قال‪" :‬جاء أعرابي إلى النبي صلى هللا عليه وسلم‬
‫ة السنة فقال‪ :‬يا رسول هللا لقد‬ ‫بَ‬‫َْ‬
‫دو‬‫َُ‬
‫وشكا إليه قلة المطر وج‬
‫ُ‪"،‬فمد رسول هللا صلى هللا‬ ‫َب‬
‫َح‬ ‫ْط‬
‫يص‬‫َ وال صبي َ‬ ‫ْط‬
‫ِي‬‫أتيناك وما لنا بعير ن‬
‫عليه وسلم يده يدعو فما رد يده إلى نحره حتى استوت‬
‫ن يا رسول هللا الطرق‪،‬‬ ‫ُّوَ‬
‫ِج‬ ‫ِ َ‬
‫يض‬ ‫َاح‬‫ُط‬‫السماء بأرواقھا وجاء أهل الب‬
‫فقال‪ :‬حوالينا وال علينا‪ ،‬فانجلى السحاب حتى أحدق‬
‫بالمدينة كاإلكليل فضحك رسول هللا صلى هللا عليه وسلم حتى بدت‬
‫نواجذه وقال‪" :‬هلل در أبي طالب لو كان حيا لقرت عيناه‪ ،‬من‬
‫ينشدنا قوله‪ "،‬فقام علي بن أبي طالب فقال‪ :‬يا رسول هللا‬
‫لعلك أردت قوله‪:‬‬
‫ٌ‬
‫َة‬ ‫ْم‬
‫ِص‬ ‫َاَ‬
‫می ع‬ ‫َت‬ ‫ُ ْ‬
‫الي‬ ‫َال‬
‫ِم‬‫****ث‬ ‫ِ‬
‫ِه‬ ‫َج‬
‫ْھ‬ ‫ُ ب‬
‫ِو‬ ‫َام‬‫َم‬
‫الغ‬ ‫َ‬
‫َسْقی ْ‬ ‫َضَ ُ‬
‫يسْت‬ ‫بي‬‫َْ‬
‫َأ‬‫و‬
‫مسئلہ توسل‬ ‫‪20‬‬
‫ِل‬
‫ِ‬ ‫َام‬‫َ‬‫لْ‬
‫ِْلر‬
‫(کنز العمال‪ :‬ج‪ 8‬ص‪ 204‬باب صالۃ االستسقاء رقم الحديث‪)23544‬‬
‫کہ حضرت انس رضی ا ہلل عنہ سےروايت ہے کہ ايک اعرابی حضور صلی ہللا علیہ و سلم کی‬
‫خدمت میں آيا اور بارش کی قلت اور خشک سالی کی شکايت کی اور عرض کی يا رسول ہللا! ہم آپ‬
‫کی خدمت میں اس حال میں حاضر ہوئے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی جانور نہیں رہا اور نہ کوئی آواز‬
‫تعالی سے دعا فرمائی ۔ حضور صلی‬ ‫ٰ‬ ‫نکالنے واال بچہ رہا تو آپ نے دونوں ہاتھ بلند فرمائےاور ہللا‬
‫ہللا علیہ و سلم نے ہاتھ نیچے نہیں فرمائے تھے کہ بادل برسا اور کھل کربرسا۔ تو جن لوگوں کے‬
‫گھر پانی میں ڈوب رہے تھے وہ آئے اور چیخ و پکار کرنے لگے اور عرض کی‪ :‬يا رسول ہللا ! آمد‬
‫و رفت کے راستے ختم ہوگئے تو حضور صلی ہللا علیہ و سلم نے دعا کی‪ :‬اے ہللا! ہم پر بارش نہ‬
‫برسا قريب والوں پر برسا تو بادل کھال اور مدينہ کو اس طرح گھیر لیا جس طرح بہت کھانےواال‬
‫(کھانے کو گھیر لیتا ہے)۔ حضور صلی ہللا علیہ و سلم مسکرا ديے اور آپ نے فرمايا‪ :‬ابو طالب‬
‫کے کیا کہنے! اگر وہ آج زندہ وہتے توان کی آنکھیں ضرور ٹھنڈی ہوتیں‪ ،‬ہمیں ابو طالب کا شعر‬
‫کون پڑھ کر سنائے گا؟اس پر حضرت علی رضی ہللا عنہ نے عرض کی‪ :‬يا رسول ہللا! کیا آپ کی‬
‫مراد ان کا يہ شعر ہے‪:‬‬
‫ٌ‬
‫َة‬‫ْم‬‫ِص‬ ‫می ع‬ ‫َاَ‬‫َت‬ ‫ُ ْ‬
‫الي‬ ‫َال‬ ‫ِم‬
‫****ث‬ ‫ِ‬
‫ِه‬ ‫َج‬
‫ْھ‬ ‫ُ ب‬
‫ِو‬ ‫َام‬ ‫َم‬‫الغ‬ ‫َ‬
‫َسْقی ْ‬ ‫َضَ ُ‬
‫يسْت‬ ‫بي‬‫َْ‬
‫َأ‬‫و‬
‫ِل‬
‫ِ‬ ‫َام‬ ‫َ‬‫لْ‬
‫ِْلر‬
‫ترجمہ‪ :‬آپ سفید (گندم گوں) ہیں‪ ،‬آپ ک ے چہرہ کے وسیلہ سے بارش مانگی جاتی ہے‪ ،‬آپ يتیموں‬
‫کے فرياد رس ہیں‪ ،‬آپ بیواؤ ں کے نگہبان ہیں۔‬
‫اسے سن کر رسو ل اکرم صلی ہللا علیہ و سلم نے فرمايا‪ :‬ہاں میری مراد يہی تھی۔‬
‫ام المؤمنین حضرت عائشہ صديقہ رضی ہللا عنہا (م‪58‬ھ)‬
‫عن ابی الجوزاء اوس بن عبد هللا قال قحط اہل المدينۃ‬
‫قحطا شديدا فشکوا الی عائشۃ فقالت‪ :‬انظروا الی قبر النبی‬
‫َوا الی السماء حتی ال يکون‬‫صلی هللا عليہ و سلم فاجعلوا منہ ک‬
‫ًحتی نبعت‬‫بينہ و بين السماء سقف قال‪ :‬ففعلوا فمطرنا مطرا‬
‫ُشْب و سمنت االبل حتی تفتقت من الشحم فسمی عام الفتق۔‬ ‫الع‬
‫تعالی نبیہ بعد موتہ‪ ،‬رقم الحديث ‪)92‬‬
‫ٰ‬ ‫(سنن الدارمی‪ :‬ج‪1‬ص‪ 56‬باب ما اکرم ہللا‬
‫ترجمہ‪ :‬حضرت ابوالجوزاء اوس بن عبد ہللا سے روايت ہے‪ ،‬فرماتے ہیں کہ مدينہ منورہ کے لوگ‬
‫شديد قحط سالی میں مبتال ہوئے۔ ان لوگو ں نے حضرت عائشہ رضی ہللا عنہا کی خدمت میں‬
‫درخواست پیش کی توآپ رضی ہللا عنہانے فرمايا‪ :‬نبی اکرم صلی ہللا علیہ و سلم کی قبر مبارک کی‬
‫طرف ديکھو(يعنی آپ کی قبر پر جاؤ)‪ ،‬پھر آسمان کی طرف ايک روشندان بناؤ کہ آپ کے اور‬
‫ی کہ‬
‫آسمان کے درمیان چھت نہ رہے۔ ان لوگوں نے ايسا ہی کیا‪ ،‬تب بارش سے سیراب ہوئے حت ّٰ‬
‫سبز گھ اس اگی‪ ،‬اونٹ اتنے موٹے ہوئے کہ گويا چربی سے پھٹے جا رہے ہوں۔ تو اس سال کو‬
‫تنگی واال سال قرار ديا گیا۔‬
‫امام مالک رحمۃ ہللا علیہ (م‪179‬ھ)‬
‫ايک مرتبہ خلیفہ منصور مدينہ منورہ آيا اور اس نے امام مالک سے دريافت کیا ‪:‬‬
‫استقبل القبلۃ و ادعو ام استقبل رسول هللا صلی هللا عليہ‬
‫و سلم؟ فقال‪ :‬و لم تصرف وجہک عنہ و ہو وسيلتک و وسيلۃ‬
‫ابيک آدم عليہ ا لسالم الی هللا يوم القيامۃ؟ بل استقبلہ وا‬
‫ٰ‪ :‬و لو انہم اذ ظلموا‬ ‫ستشفع بہ فيشفعہ هللا۔ قال هللا تعالی‬
‫انفسہم االيۃ‬
‫المصطفی‪ :‬ج‪ 2‬ص‪ 26‬الباب الثالث فی تعظیم امرہ و وجوب توقیرہ)‬
‫ٰ‬ ‫( الشفاء بتعريف حقوق‬
‫ترجمہ‪ :‬میں قبر نبوی کی زيارت کرتے وقت دعا کرتے ہوئے قبلہ رخ ہوں يا حضور صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم کی طرف رخ کروں ؟ امام مالک رحمۃ ہللا علیہ نے جواب ديا‪ :‬اے امیر! آپ رسول ہللا صلی ہللا‬
‫اعلی‬
‫ٰ‬ ‫علیہ وسلم کی جانب سے منہ کیوں موڑتے ہیں حاالنکہ وہ تمہارے لیے اور تمہارے جد‬
‫روز قیامت وسیلہ ہیں ‪ ،‬بلکہ اے امیر! آپ کو چاہیے کہ رسول ہللا‬
‫حضرت آدم علیہ السالم کے لیے ِ‬
‫مسئلہ توسل‬ ‫‪21‬‬
‫صلی ہللا علیہ و سلم کی جانب متوجہ رہیے اور حضور صلی ہللا علیہ و سلم کی شفاعت کے طلب‬
‫تعالی کا فرمان ہے‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫گار رہیے‪ ،‬ہللا ان کی شفاعت قبول فرمائے گا کیونکہ ہللا‬
‫امام محمد بن ادريس الشافعی رحمہ ہللا [م‪ 204‬ھ]‬
‫امام ابوبکر احمد بن علی خطیب بغدادی علی بن میمون سے روايت کرتے ہیں کہ میں نے امام شافعی‬
‫رحمۃ ہللا علیہ کو يہ کہتے سنا کہ‪:‬‬
‫اني ألتبرك بأبي حنيفة وأجيء إلى قبره في كل يوم يعني‬
‫زائرا فإذا عرضت لي حاجة صليت ركعتين وجئت إلى قبره‬
‫وسألت هللا تعالى الحاجة عنده فما تبعد عني حتى تقضى ( تاريخ‬
‫بغداد للخطيب‪ :‬ج‪ 1‬ص‪ 101‬باب ما ذکر فی مقابر بغداد الخ)‬
‫ترجمہ‪ :‬میں امام ابو حنیفہ رحمۃ ہللا علیہ کے وسیلے سے برکت حاصل کرتا ہوں ہر روز ان کی قبر‬
‫تعالی سے حاجت روائی کی دُعا کرتا ہوں‬
‫ٰ‬ ‫پر زيارت کے لیے حاضر ہوتا ہوں اور اس کے قريب اہللا‬
‫۔ اس کے بعد بہت جلد میری دعا پوری ہو جاتی ہے۔‬
‫عالمہ ابن حجر مکی رحمۃ ہللا علیہ ’’الخیرات الحسان‘‘ میں تحرير فرماتے ہیں‪ :‬واضح رہے‬
‫کہ علماء اور اہل حاجات ہمیشہ امام ابو حنیفہ رحمۃ ہللا علیہ کے مزار کی زيارت کرتے اور اپنی‬
‫حاجات براری میں ان کا وسیلہ پکڑتے رہے ہیں ۔ ان علماء میں امام شافعی رحمۃ ہللا علیہ بھی شامل‬
‫ہیں۔‬
‫(الخیرات الحسان‪ :‬ص‪)129‬‬
‫سل کرتے ہوئے يہ شعر فرمايا‬ ‫حضرت امام شافعی رحمۃ ہللا علیہ نے حضرات اہل بیت نبوی سے تو ّ‬
‫ہے‪ ،‬جسے عالمہ ابن حجر الہیثمی نے نقل کیا ہے‪ :‬شعر‬
‫ٰل النبی ذريتی وهم‪ ،‬اليہ وسيلتی *** ارجو بھم اعطی‬
‫ٰ‬ ‫ا‬
‫غدابيد اليمين صحيفتی‬
‫تعالی کی جانب میرا ذريعہ اور وسیلہ ہیں‪ ،‬اور‬
‫ٰ‬ ‫ترجمہ‪ :‬نبی اکرم صلی ہللا علیہ و سلم کے اہل بیت ہللا‬
‫تعالی میرا صحیفہ مجھے‬
‫ٰ‬ ‫میں امیدکرتا ہوں کہ ان ہستیوں کے وسیلہ سے کل (قیامت) کے دن ہللا‬
‫داہنے ہاتھ میں دے گا۔ (الصواعق المحرقہ‪:‬ج‪2‬ص‪)524‬‬
‫امام احمد بن حنبل رحمۃ ہللا علیہ (م‪241‬ھ)‬
‫عالمہ يوسف بن اسماعیل امام احمد بن حنبل رحمہ ہللا کے بارے میں ايک روايت نقل کرتے ہیں ‪:‬‬
‫تعالی سے دعا کرتے ہوئے امام شافعی رحمہ ہللا کو وسیلہ بنايا تو‬
‫ٰ‬ ‫امام احمد بن حنبل رحمہ ہللا نے ہللا‬
‫ان کے بیٹے عبد ہللا کو تعجب ہوا‪ ،‬اس پر امام احمد بن حنبل نے فرمايا‪ :‬امام شافعی رحمہ ہللا لوگوں‬
‫کے لیے آفتاب اور بدن کے لیے صحت کی مانند ہیں ۔‬
‫(شواہد الحق فی االستغاثۃ بسیدالخلق‪ :‬ص ‪)166‬‬
‫ابوعیسی ترمذی رحمۃ ہللا علیہ (م‪279‬ھ)‬
‫ٰ‬ ‫امام‬
‫سل کو جائز رکھا ہے۔ چنانچہ جامع الترمذی کے ابواب الجہاد‬‫آپ رحمہ ہللا نے ذوات ِ مسلمین سے تو ّ‬
‫میں سے ايک باب کا عنوان اس طرح قائم کیا ہے‪:‬‬
‫باب ما جاء في االستفتاح بصعاليك المسلمين‪( .‬جامع‬
‫الترمذی‪ :‬ج‪ 1‬ص‪ 299‬کتاب الجہاد)‬
‫کہ يہ فقراء مسلمین کے وسیلہ سے مدد طلب کرنے کے بارے میں آئی ہوئی روايات کا باب ہے۔‬
‫پھر حضرت ابوالدرداءرضی ہللا عنہ کی اس حديث کوروايت کیا ہے‪:‬‬
‫سمعت النبي صلى هللا عليه و سلم يقول آبغوني ضعفاءكم‬
‫فإنما ترزقون وتنصرون بضعفائكم‬
‫ترجمہ‪ :‬میں نے نبی اکرم صلی ہللا علیہ و سلم نےسنا کہ آپ فرما رہے تھے‪ :‬مجھے اپنے ضعفاء میں‬
‫ڈھونڈو کہ تم لوگوں کو اپنے ضعفاء ہی کی بدولت رزق دياجاتاہے اور مدد کی جاتی ہے۔‬
‫امام محمد بن محمدالغزالی الشافعی رحمۃ ہللا علیہ [م‪505‬ھ ]‬
‫منورہ کی زيارت اور اس کے آداب “ کے باب میں فرمايا کہ‬
‫ّ‬ ‫آپ نے احیاء علوم الدين کے ” مدينہ‬
‫زائر جب روضہ رسول صلی ہللا علیہ و سلم پر آئے تو ديگر دعاؤں کے ساتھ يہ کلمات بھی کہے‪:‬‬
‫اللھم إنا قد سمعنا قولك وأطعنا أمرك وقصدنا نبيك‬
‫مسئلہ توسل‬ ‫‪22‬‬
‫متشفعين به إليك في ذنوبنا‬
‫(احیاء علوم الدين‪:‬ج‪1‬ص‪)308‬‬
‫ترجمہ۔اے ہللا! ہم نے آپ کا فرمان سنا اور آپ کے حکم کو مانااور اپنے گناہوں کی بخشش کے لئے‬
‫نبی صلی ہللا علیہ و سلم کی شفاعت طلب کرتے ہوئے آپ کا قصد کیا۔‬
‫امام نووی الشافعی رحمۃ ہللا علیہ(م‪676‬ھ)‬
‫آپ رحمۃ ہللا علیہ فرماتے ہیں‪:‬‬
‫ويستحب إذا كان فيھم رجل مشھور بالصالح أن يستسقوا به‬
‫فيقولوا ‪ " :‬اللھم إنا نستسقي ونتشفع إليك بعبدك فالن "‪.‬‬
‫روينا في " صحيح البخاري " أن عمر بن الخطاب رضي هللا عنه ‪،‬‬
‫كان إذا قحطوا استسقى بالعباس بن عبد المطلب‪. . . .‬‬
‫وجاء االستسقاء بأهل الصالح عن معاوية وغيره‪.‬‬
‫(کتاب االذکار للنووی‪ :‬ص‪ 218‬باب االذکار فی االستسقاء)‬
‫اورتقوی کے لحاظ سے مشہور ہوتو‬
‫ٰ‬ ‫ترجمہ‪ :‬يہ مستحب ہے کہ جب لوگوں میں کوئی آدمی پاکیزگی‬
‫اس کے وسیلہ سے استسقاء کر يں اور يوں کہیں‪:‬‬
‫اللھم إنا نستسقي ونتشفع إليك بعبدك فالن‬
‫کہ اے ہللا ! ہم تیری جانب تیرے بندہ فالں کے وسیلہ سے استسقاء کرتے ہیں اور ان کی شفاعت کی‬
‫درخواست کرتے ہیں۔‬
‫جیسا کہ صحیح البخاری میں روايت ہے کہ حضرت عمر رضی ہللا عنہ نے حضرت عباس رضی‬
‫ہللا عنہ کے وسیلہ سے استسقاء فرمايااسی طرح حضرت معاويہ رضی ہللا عنہ وغیرہ سے اہل خیر‬
‫وپاکیزہ لوگوں کے وسیلہ سے استسقاء کرنا بھی آيا ہے۔‬
‫امام کمال الدين بن الہمام الحنفی رحمۃ ہللا علیہ (م‪861‬ھ)‬
‫آپ رحمہ ہللا” باب زيارۃقبر النبی صلی ہللا علیہ و سلم “ میں فرماتے ہیں‪:‬‬
‫ثم يسأل النبي صلى هللا عليه وسلم الشفاعة فيقول يا‬
‫رسول هللا أسألك الشفاعة يا رسول هللا أسألك الشفاعة وأتوسل بك‬
‫ثم ينصرف‬ ‫إلى هللا في أن أموت مسلما عن ملتك وسنتك‪……..‬‬
‫متباكيا متحسرا على فراق الحضرۃ الشريفة النبوية والقرب‬
‫منھا‬
‫(فتح القدير‪ :‬ج‪ 3‬ص‪ 169‬و ص‪ 174‬کتاب الحج‪ ،‬ا لمقصد الثالث فی زيارۃ قبر النبی )‬
‫ترجمہ‪ :‬پھر نبی اکرم صلی ہللا علیہ و سلم سے شفاعت کا سوال کرے اور يہ کہے‪ :‬يا رسول ہللا! میں‬
‫آپ صلی ہللا علیہ و سلم سے شفاعت کا سوال کرتا ہوں‪ ،‬يا رسول ہللا! میں آپ صلی ہللا علیہ و سلم‬
‫تعالی کے ہاں بطور وسیلہ پیش‬
‫ٰ‬ ‫سے شفاعت کا سوال کرتا ہوں اور آپ صلی ہللا علیہ و سلم کو ہللا‬
‫کرتا ہوں کہ میں مسلمان ہونے کی حالت میں مروں اور آپ کی سنتوں پر عامل ہو کر اس دنیا سے‬
‫رخصت ہوں۔۔۔ پھر آپ صلی ہللا علیہ و سلم کے قرب اقدس سے روتا ہوا اور جد ائی کا غم ساتھ لئے‬
‫ہوئے واپس ہو۔‬
‫عالمہ احمد بن محمد القسطالنی الشافعی رحمۃ ہللا علیہ [م‪923‬ھ]‬
‫عالمہ قسطالنی شافعی رحمہ ہللا نے ”المواہب اللدنیۃ“ میں لکھا ہے کہ‪:‬‬
‫و‬ ‫و ينبغی للزائر ان يکثر من الدعاء و التضرع‬
‫االشتغاثۃ و التشفع و التوسل بہ صلی هللا عليہ و سلم‬
‫(المواہب اللدنیۃ‪ :‬ج‪3‬ص‪ 417‬الفصل الثانی فی زيارۃ قبرہ الشريف الخ)‬
‫ترجمہ‪ :‬زائر کو چاہیے کہ بہت کثرت سے دُعا مانگے‪ ،‬گڑگڑائے‪ ،‬مدد چاہے‪ ،‬شفاعت کی دعا کرے‬
‫اور حضور صلی ہللا علیہ وسلم کا وسیلہ پکڑے۔‬
‫مسند الہند شاہ ولی اہللامحدث دہلوی رحمۃ ہللا علیہ (م‪1176‬ھ)‬
‫اپنی مشہور زمانہ کتاب ”حجۃ ہللا البالغہ“ میں فرماتے ہیں‪:‬‬
‫ومن ادب الدعاء تقديم الثناء علی هللا و التوسل نببی هللا‬
‫ليستجاب‬
‫مسئلہ توسل‬ ‫‪23‬‬
‫(حجۃ ہللا البالغۃ ج‪2‬ص‪)6‬‬
‫تعالی کی تعريف اور حضور صلی ہللا علیہ وسلم‬
‫ٰ‬ ‫ترجمہ‪ :‬اور دُعا کا مستحب طريقہ يہ ہے کہ اہللا‬
‫کے وسیلہ کو مقدّم کیا جائے تاکہ دُعا کو قبولیت کا شرف ہو۔‬
‫المہند علی المفند کا حوالہ‪:‬‬
‫علماءديوبند کی اجماعی و متفقہ دستاويز ”المہند علی المفند“ میں تیسرا اور چوتھا سوال توسل کے‬
‫متعلق تھا‪ ،‬حضرات علماء ديوبند کا متفقہ مسلک اس سوال و جواب میں مالحظہ فرمائیں‪:‬‬
‫السوال الثالث والرابع‪ :‬هل للرجل ان يتوسل فی دعواتہ‬
‫بالنبی صلی هللا عليہ وسلم بعد الوفاۃ ام ال؟ ايجوزالتوسل‬
‫عندکم بالسلف الصالحين من االنبياء والصديقين والشھداء‬
‫واولياءرب العالمين ام ال؟‬
‫الجواب‪ :‬عندنا وعندمشائخنا يجوزالتوسل فی الدعوات‬
‫باالنبياء والصالحين من االولياء والشھداء والصديقين فی‬
‫حياتھم وبعدوفاتھم بان يقول فی دعائہ اللھم انی اتوسل‬
‫اليک بفالن ان تجيب دعوتی وتقضی حاجتی الی غيرذلک‬
‫(المہند علی المفند‪ :‬ص‪)37 ،36‬‬
‫ترجمہ‪:‬‬
‫تیسرااورچوتھا سوال‪:‬‬
‫کیا وفات کے بعد رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کاتوسل لینا دعاؤں میں جائز ہے يا نہیں ؟ تمہارے‬
‫نزديک سلف صالحین يعنی انبیاء ‪،‬صديقین ‪،‬شہداء اور اولیاء ہللا کا توسل بھی جائز ہے يا ناجائز؟‬
‫جواب‪:‬‬
‫ہمارے نزديک اور ہمارے مشائخ کے نزديک دعا میں انبیاء ‪،‬اولیاء‪ ،‬شہداءاور صديقین کا توسل جائز‬
‫ہے‪ ،‬ان کی زندگی میں بھی اور وفات کے بعد بھی‪ ،‬آدمی يوں دعاکرے‪ :‬اے ہللا! فالں بزرگ کے‬
‫وسیلہ سے میری دعا قبول فرما اورمیری اس ضرورت کوپورافرما۔‬
‫تنبیہ‪:‬‬
‫”المہند علی المفند“کی اس دور کے مکہ مکرمہ ‪،‬مدينہ منورہ وديگرعرب ممالک کے علماءکے ساتھ‬
‫ساتھ اکابرين ديوبند مثالًحضرت شیخ الہند موالنا محمود حسن ‪،‬موالنا مفتی عزيزالرحمٰ ن ‪،‬حکیم االمت‬
‫موالنا اشرف علی تھانوی‪ ،‬موالنا شاہ عبد الرحیم رائے پوری ‪،‬موالنا محمداحمد قاسمی بن حضرت‬
‫نانوتوی‪،‬موالنا مفتی کفايت ہللا دہلوی‪،‬موالنا عاشق ٰالہی میرٹھی اورموالنا محمد يحی سہارنپوری‬
‫جواز توسل پر ان تمام حضرات اکابر ومشائخ کا اجماع و‬
‫ِ‬ ‫وغیرہ نے تائیدوتصديق فرمائی تھی۔ گويا‬
‫اتفاق ہے۔ و ہلل الحمد‬
‫مسئلہ توسل اور غیر مقلدين‪:‬‬
‫غیر مقلدين حضرات میں سے بعض حضرات نے مسئلہ توسل کا انکار کیا ہے اور بعض اس‬
‫کو ثابت مانتے ہیں۔ ذيل میں ہم ان کے کچھ علماء کا ذکر کرتے ہیں جو توسل کو جائز قرار ديتے‬
‫ہیں۔‬
‫قاضی محمد بن علی شوکانی(م‪1250‬ھ )‬
‫غیر مقلدين کے پیشوا قاضی محمد بن علی شوکانی نے اپنی کتاب ”تحفۃ الذاکرين“ میں لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ويتوسل إلى هللا سبحانه بأنبيائه والصالحين أقول ومن‬
‫التوسل باألنبياء ما أخرجه الترمذي ۔۔۔ من حديث عثمان بن‬
‫حنيف رضي هللا عنه۔۔۔ وأما التوسل بالصالحين فمنه ما ثبت في‬
‫الصحيح أن الصحابة استسقوا بالعباس رضي هللا عنه عم رسول هللا‬
‫صلى هللا عليه وسلم‬
‫(تحفۃ الذاکرين‪:‬ص‪)56‬‬
‫ترجمہ‪ :‬ہللا کی جانب اس کے انبیاء اور صالحین سے توسل کیا جائے گا‪ ،‬انبیاءعلیہم السالم سے توسل‬
‫کرنے کے باب سے وہ حديث ہے جسےامام ترمذی رحمہ ہللا وغیرہ نے حضرت عثمان بن حنیف‬
‫سے روايت کیا ہے۔۔۔ صالحین سے توسل کرنے کے باب سے صحیح بخاری میں يہ حديث موجودہے‬
‫مسئلہ توسل‬ ‫‪24‬‬
‫کہ صحابہ رضی ہللا عنہم نے حضور صلی ہللا علیہ و سلم کے چچا حضرت عباس رضی ہللا عنہ‬
‫کے وسیلہ سے استسقاء کیا۔‬
‫حضرت عثمان بن حنیف رضی ہللا عنہ والی حديث کہ” ايک آدمی حضرت عثمان بن عفان رضی ہللا‬
‫عنہ کے پاس بار بار جاتا تھا الخ“ کوذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں‪:‬‬
‫وفي الحديث دليل على جواز التوسل برسول هللا صلى هللا عليه‬
‫وسلم إلى هللا عز وجل‬
‫(تحفۃ الذاکرين‪:‬ص‪)208‬‬
‫ترجمہ‪ :‬اس حديث میں رسول ہللا صلی ہللا علیہ و سلم سے ہللا عزوجل کی جانب توسل کرنے کے‬
‫جواز پر دلیل ہے۔‬
‫عالمہ شوکانی نے اپنے رسالہ ”الدرالنضید“ میں يہ بھی کہا ہے‪:‬‬
‫ان التوسل بہ صلی هللا عليہ و سلم يکون فی حياتہ‪ ،‬و بعد‬
‫موتہ‪ ،‬و فی حضرتہ‪ ،‬و مغيبہ‬
‫(الدر النضید‪ :‬ص‪ ،19‬ص‪)20‬‬
‫ترجمہ‪ :‬آپ صلی ہللا علیہ و سلم سےتوسل آپ کی حیات میں بھی ہوتا ہے‪ ،‬موت کے بعد بھی‪ ،‬آپ‬
‫کے سامنے بھی‪ ،‬آپ کے پیچھے بھی۔‬
‫اس عبارت کو عبد الرحمٰ ن مبارکپوری غیر مقلد نے ”تحفۃ االحوذی شرح جامع الترمذی“‬
‫(ج‪4‬ص‪ )282‬میں بھی نقل کیا ہے۔‬
‫عالمہ وحید الزمان غیر مقلد [م‪1338‬ھ ]‬
‫عالمہ وحید الزمان اپنی کتاب ”ہديۃ المہدی“میں لکھتے ہیں‪:‬‬
‫وقال الشوکانی من اصحابنا‪ :‬ال وجہ لتخصيص جواز التوسل‬
‫بالنبی کمازعمہ الشيخ عزالدين بن عبدالسالم والتوسل الی هللا‬
‫ٰ باهل الفضل والعلم هو فی الحقيقۃ توسل باعمالھم‬ ‫تعالی‬
‫ٰ‬
‫الصالحۃ ومزاياهم الفاضلۃ‪ ،‬وقال فی مقام اخر‪ :‬الباس‬
‫بالتوسل بنبی من االنبياء او ولی من االولياء او عالم من‬
‫ً اودعاهللا وحده وتوسل‬ ‫العلماء والذی جاء الی القبر زائرا‬
‫بذلک الميت کان يقول‪ :‬اللھم انی اسالک ان تشفينی من کذا‬
‫واتوسل اليک بھذا العبد الصالح‪ ،‬فھذا الترددفی جوازه‬
‫ً‬
‫ٰ مختصرا‬ ‫انتھی‬
‫(ہديۃ المہدی‪ :‬ص‪)49 ،48‬‬
‫ترجمہ‪ :‬ہمارے اصحاب میں سے قاضی شوکانی نے کہا ہے کہ ”توسل کے جواز کو نبی (علیہ‬
‫السالم) کے ساتھ خاص قرار دينے کی کوئی وجہ نہیں ہے جیسا کہ عز الدين بن عبد السالم نے گمان‬
‫تعالی کی جانب اہل فضل اور اہل علم کے ذريعے توسل کرنا درحقیقت ان کے اعمال‬ ‫ٰ‬ ‫کیا ہے۔ ہللا‬
‫صالحہ اور ان کے اوصاف فاضلہ سے توسل کرنا ہے۔“ قاضی شوکانی ايک اور جگہ کہتے ہیں کہ‬
‫” انبیاء میں سے کسی نبی سے‪ ،‬اولیاء میں سے کسی ولی سے يا علماء میں سے کسی عالم سے‬
‫تعالی سے دعا کی اور اس قبر‬
‫ٰ‬ ‫توسل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جو بندہ قبر کے پاس آيا‪ ،‬ہللا‬
‫والے سے اس طرح توسل کیا کہ اے ہللا ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ فالں مرض سے مجھے‬
‫شفاء بخش اور اہل صالح بندہ سے تیری جانب توسل کرتا ہوں‪ ،‬تواس کے جائز ہونے میں کوئی تردد‬
‫انتہی مختصراً۔‬
‫نہیں ہے “ ٰ‬
‫منکرين توسل کے شبہات جا ئزہ‬
‫شبہ نمبر‪:1‬‬
‫قرآن کريم میں ہے کہ مشرکین خدا کو چھوڑ کر ديگر چیزوں کی عبادت کرنے کی وجہ يہ‬
‫بتاتے تھے‪:‬‬
‫َى‬‫ُْلف‬ ‫َِلى َّ‬
‫اَّللِ ز‬ ‫ونا إ‬‫ب َ‬ ‫َر‬
‫ُِ‬ ‫ُق‬
‫لي‬‫ِالَّ ِ‬
‫ْ إ‬
‫هم‬ ‫ُُ‬
‫دُ‬ ‫ْب‬
‫نع‬‫ما َ‬‫َ‬
‫(سورۃ الزمر‪)3:‬‬
‫ترجمہ‪ :‬ہم ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ يہ ہمیں ہللا سے قريب کر ديں۔‬
‫مسئلہ توسل‬ ‫‪25‬‬
‫کافروں کا بھی يہی وطیرہ تھا اور متوسلین بالذات بھی بزرگوں کا توسل اسی لیے لیتے‬
‫ہیں کہ اس کے ذريعے ہللا کا قرب حاصل کريں‪ ،‬تو پھر اِن میں اور اُن میں کیافرق رہا؟‬
‫جواب‪:‬‬
‫ْ“ کی تصريح ہے اور غیر ہللا کی عبادت اور ان کو مصائب‬ ‫هم‬ ‫ُُ‬
‫دُ‬ ‫ْب‬
‫نع‬‫اس آيت کريمہ میں ”َ‬
‫وحاجات میں براہ راست بالنے کا تذکرہ ہے جو شرکیہ عقائد کو متضمن ہے اور ان کا يہ عقیدہ‬
‫تھا کہ چھوٹے چھوٹے کام جوا ن کے اختیار میں ہیں وہ خود کريں گے اور بڑے کام جو ان‬
‫کے اختیار میں نہیں تو اس کےلیے ہمارے سفارشی بنیں گے اور وسیلے میں يہ باتیں نہیں‬
‫تعالی ہی کو مانا جاتا ہے اور‬
‫ٰ‬ ‫ہوتیں بلکہ وسیلہ میں مشکل کشا‪ ،‬عالم الغیب‪ ،‬متصرف االمور ہللا‬
‫ت دعا میں محض واسطہ سمجھا جاتا ہے۔ وسیلہ کی حقیقت کو سمجھنے‬ ‫انبیاء اور اولیاء کو قبولی ِ‬
‫طرز عمل میں زمین و‬ ‫ِ‬ ‫سے يہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ ہمارے وسیلہ اور مشرکین کے‬
‫آسمان کا فرق ہے۔ حکیم االمت موالنا اشرف علی تھانوی رحمہ ہللا لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ارشاد‪ :‬توسل کی حقیقت يہ ہے کہ اے ہللا! فالں شخص میرے نزديک آپ کا مقبول ہے اورمقبولین‬
‫سے محبت رکھنے پر آپ کا وعدہ رحمت ہے المرءمع من احب میں‪ ،‬پس میں آپ سے اس‬
‫رحمت کومانگتا ہوں ۔ پس توسل میں يہ شخص اپنی محبت کو اولیاءہللا کے ساتھ ظاہر کرکے اس‬
‫محبت پررحمت وثواب مانگتا ہے اوراولیاءہللا کا موجب رحمت وثواب ہونا نصوص سے ثابت ہے۔‬
‫چنانچہ متحابین فی ہللا کے فضائل سے احاديث بھری ہوئی ہیں ۔‬
‫(ملفوظات حکیم االمت‪ :‬ج‪21‬ص‪)48‬‬
‫طرز عمل میں بہت بڑا فرق ہے ۔ دونوں کو ايک سمجھنا کم علمی‬
‫ِ‬ ‫ٰلہذا اس میں اور مشرکین کے‬
‫ہے۔‬
‫شبہ نمبر‪:2‬‬
‫ہللا پر کوئی چیز واجب نہیں اور اس کے ذمہ کسی کا حق نہیں جیسا کہ مرقاۃ میں ہے‬
‫” وال يجب على هللا شيء خالفا للمعتزلة “‬
‫(مرقاۃ ج‪1‬ص‪ 237‬کتاب االيمان)‬
‫لہذا ”بحق فالں“ کہنا کیسے درست ہو گا؟!‬
‫اور صاحب ِ ہدايہ فرماتے ہیں‪:‬‬
‫بحق‬ ‫او‬ ‫فالن‬ ‫فی دعائہ بحق‬ ‫ان يقول‬ ‫ويکره‬
‫الخالق‬ ‫انبيائک او رسلک النہ الحق للمخلوق علی‬
‫(ہدايۃ‪ :‬ج‪4‬ص‪)211‬‬
‫جب کہ متوسلین ”بحق فالں“ کے ذريعے توسل کے قائل ہیں‬
‫جواب ‪:‬‬
‫معنی میں استعمال ہوتا ہے اسی طرح ”تفضلی واستحسانی“‬‫ٰ‬ ‫لفط ”حق“ وجوبی‬ ‫جس طرح ِ‬
‫طورپر بھی استعمال ہوتا ہے‪ ،‬مثالً‪:‬‬
‫ً‬
‫ِكَ حَقا‬‫ذل‬‫ََ‬
‫ُوا ك‬ ‫َ آَ‬
‫من‬ ‫ِين‬ ‫َ َّ‬
‫الذ‬ ‫َا و‬ ‫لن‬‫ُسَُ‬‫َجِي ر‬ ‫نن‬‫َّ ُ‬
‫ثم‬ ‫ُ‬ ‫‪:1‬قرآن مجید میں ہے‪” :‬‬
‫َ “ (سورۃ يونس‪)103 :‬‬ ‫ِين‬ ‫ْم‬
‫ِن‬ ‫ُؤ‬‫الم‬‫ْجِ ْ‬ ‫َا ُ‬
‫نن‬ ‫ْن‬‫لي‬‫ََ‬
‫ع‬
‫ترجمہ‪ :‬پھر ہم ( اس عذاب سے) اپنے پیغمبروں کو اور ايمان والوں کو بچالیتے تھے(جس طرح‬
‫ان مؤ منین کو ہم نے نجات دی تھی) ہم اسی طرح سب ايمان والوں کو نجات ديا کرتے ہیں يہ‬
‫(حسب وعدہ) ہمارے ذمہ ہے۔‬
‫َ “ (سورۃ‬‫ِين‬ ‫ِن‬‫ْم‬
‫ُؤ‬ ‫ُ ْ‬
‫الم‬ ‫ْر‬
‫نص‬ ‫َا َ‬ ‫ْن‬
‫لي‬‫ََ‬‫ً ع‬ ‫َقا‬ ‫ن ح‬‫َاَ‬ ‫َك‬‫‪ :2‬ايک دوسرے مقام پر ہے‪ ” :‬و‬
‫الروم‪)47:‬‬
‫ترجمہ‪ :‬اور ايمان والوں کی مدد کرنا ہمارے ذمہ تھا۔‬
‫‪ :3‬حديث مبارک میں ہے ‪:‬‬
‫قال رسول هللا صلى هللا عليه و سلم من قال حين يمسي رضيت‬
‫باهلل ربا وباإلسالم دينا وبمحمد نبيا كان حقا على هللا أن‬
‫يرضيه‬
‫امسی)‬
‫ٰ‬ ‫(جامع الترمذی‪ :‬ابواب الدعوات‪ -‬باب الدعا اذا اصبح و اذا‬
‫مسئلہ توسل‬ ‫‪26‬‬
‫ترجمہ‪ :‬رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے ارشاد فرمايا کہ جو شخص شام کے وقت يہ دعا پڑھے‪:‬‬
‫” رضيت باهلل ربا وباإلسالم دينا وبمحمد نبيا“ تو ہللا کے ذمہ ہے کہ‬
‫اسے (قیامت کے دن) راضی کرے۔‬
‫ہمارا اہل السنت والجماعت کا نظريہ ہےکہ کوئی چیز ہللا پر واجب نہیں ۔ اس لیے ہم‬
‫معنی میں۔ فقہاء کرام نے‬
‫ٰ‬ ‫معنی استعمال کرتے ہیں نہ کہ وجوب کے‬
‫ٰ‬ ‫وسیلہ میں”حق“ کو تفضلی‬
‫بمعنی وجوبی ہے جس کی طرف‬ ‫ٰ‬ ‫بھی جہاں اس دعا ِء وسیلہ کو مکروہ لکھا ہے جس میں”حق“‬
‫”الحق للمخلوق علی الخالق “سے اشارہ ملتا ہے ۔‬
‫لہذا ہللا پر حق وجوبی کا عقیدہ رکھتے ہوئے دعا میں بحق فالں کا لفظ استعمال کرنا‬
‫مکروہ ہے اور حق سے مراد غیر وجوبی يعنی تفضلی واستحسانی کے ساتھ دعا کرنا بال‬
‫کراہت جائز ہے ۔‬
‫شبہ نمبر ‪:3‬‬
‫ِي‬‫َن‬
‫ِي ع‬‫َاد‬‫ِب‬‫ََلكَ ع‬
‫َا سَأ‬ ‫ِذ‬‫َإ‬
‫ہللا کادربار ہر وقت کھال ہے۔ ہللا خود فرماتے ہیں ﴿و‬
‫ِي﴾ [سورۃ‬‫ُوا ل‬ ‫َجِيب‬‫َسْت‬ ‫ْ‬‫َ‬
‫َانِ فلي‬‫دع‬‫َا َ‬ ‫ِذ‬
‫ِ إ‬ ‫َّ‬
‫الداع‬ ‫ََ‬
‫ۃ‬ ‫ْو‬ ‫ُ َ‬
‫دع‬ ‫ُجِيب‬‫ٌ أ‬‫ِيب‬ ‫َر‬
‫ِي ق‬ ‫َِ‬
‫إن‬ ‫ف‬
‫البقرۃ‪ ]186 :‬لیکن قائلین توسل برا ِہ راست خدا سے عرض و معروض کرنے کی بجائےان بزرگوں‬
‫کے واسطوں اور وسیلوں کے قائل بنتے ہیں۔‬
‫جواب نمبر‪:1‬‬
‫يہ سوال اس وقت ہو سکتا ہے جب غیر ہللا سے مانگا جائے اور وسیلہ میں غیر ہللا سے‬
‫نہیں مانگا جاتا بلکہ انبیاء اور اولیا کے وسیلہ سے خدا مانگا جاتا ہے کیونکہ اس طرح دعا کی‬
‫قبولیت میں اثر ہوتا ہے کہ وہ دعا جو وسیلہ سے مانگی جائے جلد قبول ہوتی ہے ۔‬
‫جواب نمبر‪:2‬‬
‫ہم اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ توسل بالذات کے بغیر دعا قبول ہی نہیں ہوتی بلکہ ہمارا‬
‫موقف يہ ہے کہ توسل کو دعاکے قبول ہونے میں دخل ہے‪ ،‬جیسے زمان‪ ،‬مکان اور افراد کے بدلنے‬
‫سے قبولیت دعا کی سرعت میں فرق آنا ظاہر ہے۔ مثالً‬
‫َّللِ صلی هللا عليہ‬ ‫ِ اہ‬‫ْل‬‫َسُو‬
‫لر‬‫َ ِ‬ ‫ْل‬ ‫َ ق‬
‫ِي‬ ‫َال‬ ‫ۃ رضی هللا عنہ ق‬ ‫مَ‬
‫ماَ‬ ‫َُ‬ ‫َب‬
‫ِیْ ا‬ ‫ْ ا‬‫َن‬‫٭ ع‬
‫َاتِ‬ ‫َ‬‫َالص‬
‫َّلو‬ ‫بر‬‫دُ‬‫َُ‬
‫ُو‬ ‫ٰ‬‫ْ‬
‫ِ االخِر‬ ‫ْل‬ ‫َّ‬
‫ُ اللي‬ ‫ْف‬
‫َو‬ ‫َ‬
‫ُ قال ج‬ ‫َ‬ ‫َع‬ ‫َ‬
‫َائِ اسْم‬ ‫ُّ‬ ‫َ‬
‫وسلم ایُّ الدع‬
‫َْ‬
‫باتِ۔‬ ‫ْت‬
‫ُو‬ ‫َک‬ ‫ْ‬
‫الم‬
‫(جامع الترمذی ج ‪2‬ص‪ 187‬باب بال ترجمۃ ابواب الدعوات ‪،‬السنن الکبر ٰی للنسائی ج‪ 6‬ص‪ 32‬ما يستحب من الدعاء‬
‫دبر الصلوات المکتوبات)‬
‫ترجمہ‪ :‬حضرت ابو مامہ رضی ہللا عنہ سے مروی ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے پوچھا‬
‫گیا کہ کون سی دعا سب سے زيادہ قبول ہوتی ہے؟ تو آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمايا ‪ :‬رات کے‬
‫آخر میں اور فرض نمازوں کے بعد۔‬
‫٭ بیت ہللا میں دعا کرنا اجابت کے زيادہ قريب ہے بنسبت عام مسجد اور اپنے گھر میں دعا کرنے‬
‫سے۔‬
‫٭ بنی اور ولی دعا کرے تو اس کی قبولیت بنسبت عام آدمی کے زيادہ ہے۔‬
‫جواب نمبر‪:3‬‬
‫اگر توسل بالذات شرک ہے‪ ،‬جائز نہیں کیونکہ ہللا کا دربار ہر وقت کھال رہتا ہے کسی کے‬
‫واسطے کی ضرورت نہیں تو پھر ہم قائلین توسل بالدعاء و االعمال سے پوچھتے ہیں کہ اس دلیل‬
‫تعالی کے دربار میں واسطہ جائز‬
‫ٰ‬ ‫کی بناء پر توسل باالعمال بھی ٹھیک نہ ہونا چاہیے کیونکہ خدا‬
‫نہیں تو پھر اعمال پیش کرنے کی ضرورت کیا ہے؟! لہذا جس توسل باالعمال جائز ہے اسی طرح‬
‫توسل بالذات بھی جائز ہے۔‬

You might also like