Professional Documents
Culture Documents
نُ
ه د ِِلََّ
َِ ِ ْ
الي ِع َص
َاب ِ أ
بع َر
َْ ُ أ َْ
دار َا م
ِق همَُ
ْنبي ُوَ
ن َ يكن ََْ
ِي أ ْب
َغ ََ
ين :2و
ُ ُ ْ َ
ُ إلى الخشوع
ِ ْر
َب َق
أ
(رد المحتار :ج 2ص 163باب صفۃ الصالة)
ترجمہ :نمازی کے دونوں پاؤ ں کے درمیان ہاتھ کی چار انگلیوں کا فاصلہ ہونا چاہیے کیونکہ یہ
خشوع کے زیادہ قریب ہے۔
فقہ مالکی:
دمين بأن يكون المصلي بحالة متوسطة في ََ
ُ الق دب تفريجَْ
ينُ
ُهما كثيرا
ِجيفر ُم
ُّهما وال ُ القيام بحيث ال َ
يض
(فقہ العبادات -مالکی :ص)161
2
ترجمہ:قیام کی حالت میں دونوں پاؤں کے درمیان متوسط حالت کا فاصلہ رکھنا مستحب ہے ،وہ
اس طرح کہ دونوں پاؤں کو نہ زیادہ مالئے اور نہ زیادہ کشادہ کرے۔
فقہ شافعی:
ْر
ِبِش َر
ِق بين قدميہ ب ُّ ان ُ
يف يسَن
وُ :1
(اعانۃ الطالبین البی بکر الدمیاطی:ج3ص)247
ترجمہ :نمازی کے لیے اپنے دونوں پاؤں کے درمیان ایک بالشت کی مقدار فاصلہ رکھنا سنت ہے۔
ْرِب
ِشَ او ب ُ بينہما ای باربع اصابع َ التفريق دب َ
ونُ :2
(اسنی المطالب فی شرح روض الطالب لزکریا االنصاری الشافعی :ج 2ص)345
ترجمہ :دونوں پاؤں کے درمیان چار انگشت یا ایک بالشت کی مقدار فاصلہ رکھنامستحب ہے۔
فقہ حنبلی:
إحداهما يمس وال وكان ابن عمر ال يفرج بين قدميه
باِلخرى ولكن بين ذلك ال يقارب وال يباعد
(المغنی البن قدامۃ :ج 1ص -696فصل :ما یكرہ من حركۃ البصر فی الصالة)
ترجمہ :حضرت ابن عمر رضی ہللا عنہما دونوں قدموں کے درمیان نہ زیادہ فاصلہ کرتے اور نہ
ایک دوسرے سے ساتھ لگاتے بلکہ (ان دونوں کی درمیانی حالت کو اختیار فرماتے یعنی ) دونوں
پاؤں کو نہ ایک دوسرے کے زیادہ قریب کرتے اور نہ ایک دوسرے سے زیادہ دور رکھتے۔
ب غیر مقلدین:
مذہ ِ
ت قیام میں دونوں پاؤں کے درمیان کافی زیادہ فاصلہ
طرز عمل یہ ہے کہ حال ِ
ِ غیر مقلدین کا
رکھتے ہیں جن کی وجہ سے پاؤں کے اس فاصلہ کی مقدار دو بالشت سے لے کر اڑھائی بالشت
صلوة الرسول صلی ہللا علیہ و سلم“ کے شروع میں جو
تک ہو جاتی ہے۔ ”تسہیل الوصول الی تخریج ٰ
نماز پڑھنے کی عملی مشق کی تصاویر دی گئی ہے اس سے یہ بات بخوبی معلوم کی جاتی ہے۔ نیز
فتوی سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔ موصوف لکھتے ٰ عبد ہللا روپڑی صاحب ( تنظیم اہلحدیث) کے
ہیں:
” قدموں میں فاصلہ اتنا ہی ہونا چاہیے جتنا کہ کندھوں میں ہے۔ تاکہ دونوں مل جائیں۔ “
فتاوی علمائے حدیث:جلد 3ص )21
ٰ (
دالئل اہل السنت وا لجماعت:
: 1مصنف عبد الرزاق میں حضرت ابن عمر رضی ہللا عنہ کے بارے میں حضرت نافع سے مروی
ہے:
أن بن عمر كان ال يفرسخ بينهما وال يمس إحداهما اِلخرى
قال بين ذلك
(مصنف عبد الرزاق :ج 2ص172باب التحریک فی الصالة)
ترجمہ :حضرت عبدہللا بن عمر رضی ہللا عنہما دونوں پاں کو پھیال کر (اور چیز کر )نہیں کھڑے
ہوتے تھے اور نہ ایک پاؤں کو دوسرے پاؤں سے چھوتے تھے بلکہ ان کی درمیانی حالت پر
رکھتے تھے۔
حضرت ابن عمر رضی ہللا عنہما ہی کے بارے میں مروی ہے: :2
وكان ابن عمر ال يفرج بين قدميه وال يمس إحداهما
باِلخرى ولكن بين ذلك ال يقارب وال يباعد
(المغنی البن قدامۃ :ج 1ص -696فصل :ما یكرہ من حركۃ البصر فی الصالة)
ترجمہ :حضرت ابن عمر رضی ہللا عنہما دونوں قدموں کے درمیان نہ زیادہ فاصلہ کرتے اور نہ
ایک دوسرے سے ساتھ لگاتے بلکہ (ان دونوں کی درمیانی حالت کو اختیار فرماتے یعنی ) دونوں
پاؤں کو نہ ایک دوسرے کے زیادہ قریب کرتے اور نہ ایک دوسرے سے زیادہ دور رکھتے۔
عالمہ بدر الدین العینی لکھتے ہیں: :3
يستحب للمصلي أن يكون بين قدميه في القيام [ قدر]
أربع أصابع يديه ِ ،لن هذا أقرب للخشوع.
الیسری فی الصالة)
ٰ (شرح ابی داود للعینی:ج 3ص 354باب وضع الیمنی علی
3
ترجمہ :نمازی کے مستحب ہے کہ اس کے دونوں پاؤں کے درمیان ہاتھ کی چار انگلیوں کا فاصلہ
ہونا چاہیے کیونکہ یہ خشوع کے زیادہ قریب ہے۔
خالد بن ابراہیم السقبعی الحنبلی لکھتے ہیں: :4
ُه بين قدميه ,والقاعدة هنا { أن الهيئات َت
ِقْرتفرابعاَ :
في الصَلة تكون على مقتضى الطبيعة ,وال تخالف الطبيعة إال
ما دل النص عليه} ,والوقوف الطبيعي أن يفرج بين قدميه
فكذلك في الصَلة ,فما كان على غير وفق الطبيعة يحتاج إلى
دليل.
(القول الراجح مع الدلیل :ج 2ص)85
ترجمہ :چوتھی سنت قدموں کے درمیان فاصلہ کرنا ہے۔ فاصلہ کرنے کے بارے میں قاعدہ یہ ہے
کہ نماز والی کیفیات انسانی طبیعت کےتقاضا کے مطابق ہوتی ہیں اور طبیعت کے تقاضے کے
خالف وہی کیفیت ہو گی جو مستقل نص سے ثابت ہو۔ چنانچہ قیام کی حالت میں طبعی تقاضا یہ ہے
کہ کہ دونوں قدموں کے درمیان کشادگی ہو ،لہذا نماز میں قیام کی حالت میں طبعی تقاضے کے
مطابق قدموں کے درمیان فاصلہ ہونا چاہیے۔ پس نماز کی جو کیفیت بھی غیر طبعی ہے وہ محتاجِ
دلیل ہے۔
:5قال اِلثرم [احمد بن محمد ہانی البغدادی] ( :رأيت أبا
َّج بين قدميه)۔۔۔ هذا هو اِلولى ِ ،لن عبد هللا وهو يصلي وقد فر
قبل هذا الفعل يجعل القدمين على طبيعتها ،وحيث لم يرد
نص في قدميه حال القيام فإنه يبقيهما على الطبيعة
(شرح زاد المستقنع للشیخ حمد بن عبد ہللا :ج 5ص)150
ترجمہ :امام اثرم کہتے ہیں :میں نے امام ابو عبد ہللا (احمد بن حنبل) کو نماز پڑھتے دیکھا کہ آپ
نے اپنے قدموں کے درمیان فاصلہ کیا ہوا ہے۔ یہی بہتر ہے کہ نماز شروع کرنے سے پہلے اپنے
قدموں کو اپنی طبعی حالت پر رکھے ،چونکہ قیام کی حالت میں قدموں کے درمیان فاصلہ کے بارے
میں کوئی نص موجود نہیں ہے اس لیے ان کو اپنی طبعی حالت پر باقی رکھے۔
:6پاؤں پھیال کر کھڑا ہونا تکبر کی عالمت ہے۔ یہ بات واضح ہے۔
تنبیہ:
غیر مقلدین کے پاس اپنے موقف کے بارے میں نہ صریح حدیث مرفوع ہے نہ موقوف ،یہ
لوگ اس بات کو بنیاد قرار دینے پر مصر ہیں کہ نماز میں ٹخنے سے ٹخنہ مالنا چاہیے اس لیے
قدموں کے درمیان فاصلہ خود بخود ہو جاتا ہے۔ لیکن ان کا یہ موقف درست نہیں اس لیے کہ ٹخنے
سے ٹخنہ مالنے کا مطلب قریب قریب کھڑا ہونا ہے۔ لہذا ان لوگوں کا استدالل باطل ہے۔ (اس کی
مزید تفصیل آئندہ عنوان آ رہی ہے)
االمر االول:
”رص“ اور ”الزاق“ سے قرب واال معنی مراد لینا
مذکورہ الفاظ سے ”قرب“ واال معنی مراد لیا جا سکتا ہے اور حضرات محدثین و محققین نے یہی
معنی مراد لیا ہے۔ توضیح پیش خدمت ہے:
ْا“ کا لفظ دراصل ”الرصاص“ سے ہے بمعنی ”سیسہ“ اس سے مراد َاص
ُّو ترْاَ ، ُّو
ُص”ر
ایسی چیز ہوتی ہے جس میں شگاف اور فاصلہ نہ ہو لیکن بعض مرتبہ اس سےقرب والی چیز بھی
مراد لی جاتی ہے اگرچہ اس میں فاصلہ اور شگاف موجود ہو۔ قرآن کریم میں ہے:
ٌ
َان ْ
بنيْ ُ هم ََّ َ
ًّا كأنُ َف
ِ ص ِهِيلِي سَب ن ف ِلوََاتُ يقَ ُِين ُّ َّ
الذ اّٰللَ ُ
يحِب ن َّ َِّ
﴿إ
ٌ﴾( .سورة الصف)4 : ُوص
ْص َ
مر
ترجمہ :ہللا ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کے راستے میں اس طرح صف بنا کر لڑتے ہیں
جیسے وہ سیسہ پالئی ہوئی عمارت ہوں۔
ُوصٌ﴾ جیسا ہونے کا یہ مطلب ہر گر نہیں کہ مجاہدین ْص
مر ن ََاٌْيبنیہ بات ظاہر ہے کہ ﴿ ُ
کی صفیں ایک دوسرے کے ساتھ باہم گتھم گتھا ہوں ورنہ تو وہ حرکت بھی نہ کر سکیں گے چہ
جائیکہ دشمن کا مقابلہ کریں۔ تو یہاں قرب اور برابری واال معنی مراد ہے۔ چنانچہ عالمہ ابو الحسن
علی بن خلف ابن بطال لکھتے ہیں:
رص البنيان والقوم فى الحرب رصا ،إذا قرب بعضها إلى
ُوصٌ)
ْصمرن ََاٌْي بنْ ُ همنََُّ
َأبعض ،ومنه قوله تعالى ( :ك
(شرح صحیح البخاری البن بطال :ج 9ص)334
ترجمہ” :رص البنيان“ (عمارت کا مضبوط ہونا) اور ”رص القوم فی الحرب
رصا“( لوگوں کا میدان جنگ سیدھا پالئی دیوار بننا) یہ اس وقت کہا جاتا ہے جب ایک شخص
ُوصٌ﴾
ْصمر َاٌ
ن َ ْي
بنْ ُهم نََُّ
َأدوسرے کے قریب کھڑا ہو جائے۔ اسی سے ہللا کا یہ فرمان ہے﴿ :ك
عالمہ ابو سلیمان حمد بن محمد بن ابراہیم خطابی لکھتے ہیں:
ُوصٌ)ومنه التراص في ْص ن َ
مر َاٌْي
بن ْ ُ هم ََّ
نُ َأقال هللا تعالى( :ك
الصفوف وهو التقارب( .غریب الحدیث للخطابی :ص)634
تعالی کا ارشاد ہے ”:جیسے وہ سیسہ پالئی ہوئی عمارت ہوں“ ،اسی سے لفظ ہے : ٰ ترجمہ :ہللا
”التراص فی الصفوف“ کہ صفوں میں قریب قریب کھڑے ہونا۔
محدثین و محققین حضرات نے ان الفاظ سے قریب واال معنی مراد لیا ہے کہ صف میں قریب
8
قریب کھڑا ہونا چاہیے کہ درمیان میں کوئی جگہ خالی نہ رہے۔
[ :]۱شیخ عالمہ محمد بن صالح ابن عثیمین لکھتے ہیں:
المراصة نوعان اِلولى يكون بها سد الخلل بان ال يبقى
بين الرجل وصاحبة فرجة هذہ مشروعة ومراصة شديدة تتعب
المصلين فهذہ مؤذية وليست هي التي أمر بها النبي -صلى هللا
عليه وسلم -الن إيذاء الناس وخاصة في الصَلة أمر غير
مرغوب فيه بل منهي عنه فهذہ مراصة أما قوله قاربوا بينها
فالمعنى أن يقرب الصف الثاني من الصف اِلول والثالث من
الثاني
(الشرح المختصر علی بلوغ المرام :ج3ص)245
ترجمہ :صف میں ایک دوسرے کے ساتھ ملنے کی دوقسمیں ہیں ایک یہ کہ اس طرح ملنا کہ
اس کے ساتھ دو نمازیوں کے درمیان خالی جگہ پُر ہوجائے ۔یعنی آدمی اور اس کے ساتھی کے
درمیان خالی جگہ باقی نہ رہے یہ قسم مشروع ہے دوسری قسم یہ ہے کہ اس طرح ملنا جو
نمازیوں کو تھکا دے اور مشقت میں ڈال دے اس کا نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے حکم نہیں
دیا کیونکہ لوگوں کو تکلیف دینا خصوصا ً نماز میں کوئی پسندیدہ کام نہیں بلکہ ممنوع ہے یہ
تو صفوں کے اندر نمازیوں کے ملنے کی وضاحت ہے رہا یہ حکم کہ صفوں کو قریب کرو
اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسری صف ،صف اول ،کے اور تیسری صف ،صف ثانی کے قریب ہو۔
شیخ ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
ليس المراد بالمراصة المراصة التي تشوش على اآلخرين
وإنما المراد منها أال يكون بينك وبينه فرجة.
(شرح ریاض الصالحین:ج1ص)1448
ترجمہ :ملنے سے ایسا مراد نہیں جو دوسروں کو پریشان کر دے صرف اس قدر ملنا مراد ہے
کہ دو نمازیوں کے درمیان دوسرے نمازی کی جگہ خالی نہ رہے ۔
[:]۲حافظ ابن حجر عسقالنی شافعی رحمۃ ہللا علیہ ”الزاق“ (چپکانا ،مالنا) کا معنی بیان کرتے ہوئے
فرماتے ہیں:
المراد بذلک المبالغة فی تعديل الصف وسد خللہ( .فتح
الباری:ج 2ص)211
[:]۳عالمہ قسطالنی رحمہ ہللا نے بھی بعینہ یہی عبارت نقل فرمائی ہے:
المراد بذلک المبالغة فی تعديل الصف وسد خللہ( .ارشاد
الساری ج 2ص )368
[ :]۴عالمہ بدر الدین عینی رحمۃ ہللا علیہ فرماتے ہیں:
واشار بہذا الی المبالغة فی تعديل الصفوف وسد الخلل.
(عمدة القاری:ج4ص)360
ترجمہ” :الزاق“ سے مراد صف سیدھی رکھنے اور خالی جگہوں کو پُرکرنے میں مبالغہ کرنا ہے۔
[ :]۵عالمہ سید محمد انور شاہ کشمیری رحمہ ہللا لکھتے ہیں:
قال الحافظ :المراد بذلک المبالغة فی تعديل الصف وسد
ُ :و هو مرادہ عند الفقہاء االربعۃ ای ان ال يترک خللہ .قلت
فی البين فرجۃ تسع فيہا ثالثا( .فیض الباری:ج2ص)236
ترجمہ :حافظ ابن حجر رحمہ ہللا فرماتے ہیں” :الزاق سے مراد صف سیدھی رکھنے اور خالی
جگہوں کو پُرکرنے میں مبالغہ کرنا ہے“ ،میں کہتا ہوں کہ فقہاء اربعہ کے نزدیک بھی یہی مراد ہے
یعنی درمیان میں اتنی جگہ نہ چھوڑی جائے جس میں تیسرا آدمی آ سکتا ہو۔
[ :]۶عالمہ عبدالمحسن عباد لکھتے ہیں :
أن كل واحد يقرب من صاحبه حتى يلتصق به ،وحتى يكون
متصَل به ،فَل يكون بين شخص وآخر فجوة ،وإنما تكون الصفوف
متراصة ،ومتقاربة ،ويتصل بعضها ببعض( .شرح سنن ابی داؤد عبدالمحسن عباد:
ج4ص)22
9
ترجمہ :اپنے ٹخنے کو اپنے ساتھی کے ٹخنے مالنے سے مراد یہ ہے یعنی ہر ایک اپنے ساتھ
کے قریب ہو کر کھڑا ہو تاکہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ متصل ہوں ،پس دونوں کے
درمیان خالی جگہ نہ اور صفیں بھی متصل اور قریب ہوں۔
[ :]۷عالمہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں:
وما روي أنهم ألصقوا الكعاب بالكعاب أريد به الجماعة
أي قام كل واحد بجانب اآلخر( .رد المحتار :ج 2ص 163بحث القیام)
ترجمہ :یہ جو روایت کیا گیاہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی ہللا عنہم ٹخنوں کو ٹخنوں سے
مالتے تھے اس مقصود جماعت (کی کیفیت بتانا) ہے کہ ہر نمازی دوسرے کے قریب کھڑا ہو۔
[ :]۸عالمہ سید محمد یوسف بنوری رحمۃ ہللا علیہ فرماتے ہیں:
والحاصل ان المرادهو التسويۃ و االعتدال لکيَل يتاخر
او يتقدم ،فالمحاذاة بين المناکب و الزاق الکعاب کنايۃ
عن التسويۃ( .معارف السنن :ج 2ص)298
ترجمہ :خالصہ کالم یہ ہے کہ اس سے مراد صفیں سیدھی کرنا اور اعتدال سے کھڑا ہونا ہے تاکہ
نمازی آگے پیچھے نہ رہیں۔ کندھوں کو سیدھا رکھنا اور ٹخنوں کو ٹخنوں سے مالنا صف برابر
کرنے سے کنایہ ہے۔
االمر الثانی:
ظاہری معنی مراد لینے میں تکلف و مشقت ہے:
اگر ان الفاظ اور تعبیرات کا ظاہری معنی مراد لیا جائے تو اس میں تکلف‘ تصنع‘ کلفت اور
مشقت پائی جاتی ہے‘ حاالنکہ ہللا جل شانہ نے دین میں آسانی اور سہولت رکھی ہے۔ ارشاد خداوندی
ہے:
َج﴾( .سورة الحج)78: ْ ح
َر ِنِينِ م ِي الد ْ فُم
ْك َ
َليَ ع َل
َعما جََ
﴿و
ها﴾( .سورة البقرة)286: ََ
ُسْع َِّ
ال و ْسا إ نفاّٰللُ َ
ُ َّ ِفَل
يك ﴿َ
ال ُ
:1موالنا خلیل احمد سہارنپوری رحمۃ ہللا علیہ فرماتے ہیں:
فان الزاق الرکبة بالرکبة والکعب بالکعب فی الصَلة
مشکل( .بذل المجہود:ج 4ص)330
ترجمہ :نماز میں گھٹنے سے گھٹنا اور ٹخنے سے ٹخنا مالنا مشکل ہے۔
:2شیخ االسالم عالمہ ظفر احمد عثمانی رحمۃ ہللا علیہ فرماتے ہیں:
واليخفی ان فی الزاق االقدام باالقدام مع الزاق المناکب
بالمناکب و الرکب بالرکب مشقة عظيمة السيما مع ابقائہا
کذلک آخر الصَلة کما ہو مشاہد والحرج مدفوع بالنص( .اعالء
السنن:ج 4ص)360
ترجمہ :یہ بات ظاہر اور مشاہدہ کی ہے کہ گھٹنے سے گھٹنا مالنے کے ساتھ قدم سے قدم مالنے میں
بہت زیادہ مشقت ہے‘ جبکہ اس کو اسی طرح نماز کے آخر تک باقی رکھنا ہو اور حرج نص سے
مدفوع ہے (یعنی زائل کیاگیا ہے)
:3محدث العصر حضرت عالمہ سید محمد یوسف بنوری رحمۃ ا ہلل علیہ اس مسئلہ کی وضاحت
کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
فزعمہ بعض الناس انہ علی الحقيقة وليس االمر کذلک‘ بل
المراد بذلک مبالغة الراوی فی تعديل الصف وسد الخلل کما
فی الفتح والعمدة وہذا يرد علی الذين يدعون العمل بالسنة
ويزعمون التمسک باالحاديث فی بَلدنا حيث يجتہدون فی الزاق
کعابہم بکعاب القائمين فی الصف ويفرجون جد التفريج بين
قدميہم ما يؤدی الی تکلف وتصنع ويبدلون االوضاع الطبيعية
ويشوہون الہيئة المَلئمة للخشوع‘ وارادوا ان يسدوا الخلل
والفرج بين المقتدين فابقوا خلَل وفرجة واسعة بين قدميہم
ولم يدروا ان ہذا اقبح من ذلک( .معارف السنن:ج 2ص)298 ،297
10
ترجمہ :بعض لوگ یہ سمجھے ہیں کہ یہ روایت اپنے ظاہری معنی پر محمول ہے‘ حاالنکہ معاملہ
ایسا نہیں ہے بلکہ اس سے مراد راوی کا صف درست کرنے اور خالء پُر کرنے میں مبالغہ ہے‘
جیساکہ فتح الباری اور عمدة القاری میں ہے۔ اور یہ بات ان لوگوں کی تردید کرتی ہے جو ہمارے
شہروں میں سنت پر عمل کے دعویدار ہیں اور تمسک باالحادیث کا دم بھرتے ہیں۔ وہ اپنے ٹخنے
صف میں کھڑے نمازی کے ٹخنوں کے ساتھ مالنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے دونوں قدموں
کے درمیان کشاد گی کی وجہ سے بہت چوڑے ہوکر اس طرح کھڑے ہوتے ہیں جو تکلف وتصنع
تک پہنچ جاتا ہے اور وہ لوگ طبعی وضع کو بدلتے ہیں اور مناسب خشوع و ہیئت کو بگاڑ دیتے
ہیں‘ بظاہر وہ مقتدیوں کے درمیان خال پُر کرنا چاہتے ہیں‘ لیکن اپنے دونوں قدموں کے درمیان اس
سے بھی زیادہ خالء ا ور فاصلہ اختیار کر لیتے ہیں اور انہیں یہ خیال نہیں آتا یہ تو اس سے بھی
زیادہ قبیح عمل ہے۔
االمر الثالث:
جوابات الزامی
جواب نمبر:1
کندھے سے کندھا ،گھٹنے سے گھٹنا اور ٹخنے سے ٹخنہ مالنے کا قول نعمان بن بشیر اور
حضرت انس رضی ہللا عنہما کا ہے۔ چنانچہ امام بخاری فرماتے ہیں:
وقال النعمان بن بشير رأيت الرجل منا يلزق كعبه بكعب
صاحبه.
(صحیح البخاری :ج 1ص 100باب الزاق المنکب بالمنکب والقدم بالقدم)
ترجمہ :حضرت نعمان بن بشیر رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ایک شخص دوسرے
کے ٹخنے سے ٹخنہ مال رہا تھا۔
اور حافظ احمد بن علی بن حجر عسقالنی رحمۃ ہللا علیہ حدیث انس کے ان الفاظ ”وكان
أحدنا يلزق“ پر لکھتے ہیں :
قوله عن أنس رواہ سعيد بن منصور عن هشيم فصرح فيه
بتحديث أنس لحميد وفيه الزيادة التي في آخرہ وهي قوله
وكان أحدنا الخ وصرح بأنها من قول أنس وأخرجه اإلسماعيلي
من رواية معمر عن حميد بلفظ قال أنس فلقد رأيت أحدنا الخ
(فتح الباری :ج 2ص)274
ترجمہ :اس حدیث (حدیث انس رضی ہللا عنہ) کو امام سعید بن منصور نے امام ہشیم سے روایت کیا
ہے اور اس میں حمید کے حضرت انس رضی ہللا عنہ سے سماع کی تصریح ہے۔ اس روایت کے
آخر میں ایک زیادت بھی ہے اور وہ یہ ہے” :وكان أحدنا الخ“ انہوں نے تصریح کی ہے
کہ یہ حضرت انس کا قول ہے اور امام اسماعیلی معمر عن حمید کی روایت نقل کرتے ہیں جس میں
حضرت انس کے یہ الفاظ ہیں” :فلقد رأيت أحدنا الخ“
جبکہ غیر مقلدین کے نزدیک صحابی کا قول و عمل حجت نہیں ہے:
:1افعال الصحابۃ رضی هللا عنہم ال تنتہض لَلحتجاج بها۔ (فتاوی
نذیریہ بحوالہ مظالم روپڑی :ص )58
:2صحابہ کا قول حجت نہیں۔ (عرف الجادی :ص )101
:3صحابی کا کردار کوئی دلیل نہیں اگرچہ وہ صحیح طور پر ثابت ہوں۔ (بدور االہلہ :ج 1ص )28
:4آثار صحابہ سے حجیت قائم نہیں ہوتی۔ (عرف الجادی :ص )80
تعالی نے اپنے بندوں میں سے کسی کو صحابہ کرام کے آثار کا غالم نہیں بنایاہے۔ (عرف ٰ :5خداوند
الجادی :ص )80
:6موقوفات صحابہ حجت نہیں۔ (بدورا الہلہ :ص )129
جواب نمبر:2
اگر روایت کو ظاہری معنی ہی پر محمول کرنا ہے تو حضرت نعمان بن بشیر رضی ہللا عنہ
ہی کی ایک روایت میں ہے ،فرماتے ہیں:
َة
ِ ْ
ُكب ِر ه بَ
َتُ ْ
ُكبَرِ و َاحِب
ِه ِبِ صْ
َنكِم
ه ب َُِب ْ
منك ُ َِقلزيْ
َ ُ ُل ُ الر
َّج يتَْ
َأَر
َ فَالق
11
ِ.
ِه َع
ْب ِك َُ
ه ب َع
ْب َك
ِ و
ِهَاحِب
ص
(سنن ابی داؤد :ج 1ص 104باب تسویۃ الصفوف)
ترجمہ :حضرت نعمان بن بشیر رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں :میں نے دیکھا کہ ایک شخص دوسرے
کے کندھے سے کندھا مالتا ہے ،گھٹنے سے گھٹنہ اور ٹخنے سے ٹخنہ۔
مسند احمد میں یہ الفاظ ہیں:
قال فرأيت الرجل يلزق کعبہ بکعب صاحبہ ورکبتہ برکبتہ
ومنکبہ بمنکبہ( .مسند امام احمد:ج 4ص)276
ترجمہ :میں نے ایک آدمی کو دیکھا کہ اس نے اپنے ساتھی کے ٹخنے سے اپنا ٹخنا اور گھٹنے سے
گھٹنا اور کندھے سے اپنا کندھا مالیا ہوا تھا۔
تو غیر مقلدین کو چاہیے کہ ظاہری معنی پر عمل کرتے ہوئے اب ” گھٹنے سے گھٹنا “ بھی مالئیں۔
جواب نمبر:3
یہ بات غور طلب ہے کہ غیر مقلدین نماز میں ٹخنے سے ٹخنا اور قدم سے قدم مالنے کے
باعث اپنے دونوں قدموں کے درمیان جتنا وسیع اور کشادہ فاصلہ اختیار کرتے ہیں‘ کیا اس کا ثبوت
فرمان نبوی سے پیش کرسکتے ہیں؟ دو نمازیوں کے درمیان تو شیطان کے ِ کسی حدیث سے اور
لئے خالی جگہ نہیں چھوڑتے لیکن اپنی ٹانگوں کے درمیان اسے محفوظ پناہ گاہ فراہم کرتے ہیں۔
یاللعجب
جواب نمبر:4
جناب عبد ہللا روپڑی (تنظیم اہلحدیث) حدیث انس رضی ہللا عنہ میں ”کعب“ سے قدم مراد
لیتے ہوئے لکھتے ہیں:
رہی یہ بات کہ ٹخنے سے مراد ٹخنہ ہی ہے یا قدم ہے تو صحیح یہی کہ قدم مراد ہے کیوں
کہ جب تک پائوں ٹیڑھا نہ کیا جائے۔ ٹخنہ سے ٹخنہ نہیں مل سکتا۔ تو گویا دونوں پائوں ٹیڑھے کر
کے کھڑا ہونا پڑے گا۔ جس میں کئی خرابیاں ہیں۔ ایک تو زیادہ دیر تک اس طرح کھڑے رہنا مشکل
ہے دوم انگلیاں قبلہ ُرخ نذہیں رہتیں۔ سوم اس لیے بار بار حرکت کرنی پڑتی ہے جو نماز میں
خضوع کے منافی ہے۔ چہارم اس قسم کے کئی نقصان ہیں۔ اس لیے ٹخنہ سے ٹخنہ مراد نہیں ہوسکتا۔
بلکہ قدم مراد ہے۔
فتاوی علمائے حدیث:ج 3ص)21
ٰ (
جب حقیقی اور ظاہری معنی پر خود غیر مقلد بھی عمل کرنے سے قاصر ہیں تو دوسروں کو
مالمت کیوں؟! نیز خود غیر مقلدین پاؤں پھیال کر انگلی سے انگلی کو مالتے ہیں اور پاؤں پھیالنے
کی وجہ سے کندھوں کے درمیان فاصلہ بھی بڑھ جاتا ہے ،نہ پاؤں مل سکے نہ کندھے چپک سکے۔
بقول شاعر:
خدا ہی مال نہ وصال صنم نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے
خالصہ کالم:
صفوں کو سیدھا رکھنے کے متعلق رسول ہللا صلی ہللا علیہ و سلم کے مذکورہ ارشادات پر
عمل پیرا ہونے کی کیفیت کو بطور مبالغہ بیان کرنے کے لیے ان صحابہ کرام رضی ہللا عنہم میں
سے کسی نے یہ کہا کہ ہم لوگ اپنی صفوں کو اس طرح سیدھی رکھتی تھے کہ ہمارا کاندھا سے
کاندھا مال ہوا کرتا تھا ،کسی نے یہ کہا کہ ہم کھڑے ہوتے تو ہمارا ٹخنہ سے ٹخنہ مال ہوتا اور کسی
نے یہ کہا کہ ہم قدم سے قدم مال کر کھڑے ہوتے اور مقصود سب کا یہی تھا کہ نماز میں ہماری
صفیں سیدھی ہوا کرتی تھیں۔ وہللا اعلم بالصواب