You are on page 1of 27

ALLAMA IQBAL OPEN UNIVERSITY

ASSIGNMENT # 1

SUBMITTED BY: NAZAHAT RASHEED


ROLL NO: CB664655

COURSE TITLE: FOUNDATION OF EDUCATION

COURSE CODE: 0831

SUBMITTED TO: MUSHFIQA ARSHAD

SEMESTER: AUTUMN 2020

PROGRAME : M.ED

DATE OF SUBMISSION: 28 FEBURARY 2021

‫ش‬ ‫ن ت‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ع‬
‫ لی م کی اسالمی ب ی اد کے طور پر حدی ث کی رو ی می ں اہ می ت ب ی ان کری ں؟‬:۱‫سوال مب ر‬
‫‪:‬ج واب‬
‫ت‬ ‫ق‬ ‫ت‬
‫ع‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫اسالمی علی م کی اص‬
‫وی) حق کے دوسرے ماخ ذ کے طور پر لی م‬ ‫ب‬ ‫ث‬ ‫ی‬ ‫(حد‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫س‬ ‫کہ‬ ‫ب‬ ‫ے۔ ج‬
‫ہ‬ ‫رآن‬ ‫اد‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫ل‬
‫ن‬ ‫ق‬ ‫ت ظ‬ ‫ع‬
‫ے۔ اسالمی لی م کے ن ا ر می ں رآن اور س ت رسول سب سے ا م‬
‫ہ‬ ‫کے ل کا سب سے اہ م حصہ ہ‬
‫عم‬
‫حصہ ہ ی ں۔‬
‫علم کے بغیر کسی بھی دین و مذہب کا تصور نہیں کیا جاسکتا لیکن دین اگر‪ ‬اسالم‪ ‬ہو تو یہ‬
‫تصور اور بھی مشکل ہوجاتا ہے کیوں کہ یہ وہ مذہب نہیں جو صرف چند عقائد اور رسومات‬
‫کا مجموعہ ہو اور جس کی بنیاد اساطیر اولین اور دیوماالئی قصے ہوں بلکہ یہ وہ نظام‬
‫نبوی پر قائم ہے اور جو اپنے‬
‫ؐ‬ ‫زندگی و دستور حیات ہے جس کی بنیاد کتاب ٰالہی اور سنت‬
‫ماننے والوں سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ بشمول عقائد و عبادات زندگی کے تمام شعبوں میں‬
‫تعالی کے احکام اور اسؤہ رسول اکرم‪ ‬ﷺ‪ ‬کا پابند ہو۔ لفظ 'مسلم' کا لغوی معنی‬ ‫ٰ‬ ‫ہللا سبحانہ و‬
‫بھی اطاعت گزار اور فرمانبردار کے ہی ہیں۔ چنانچہ کامل‪ ‬مسلمان‪ ‬کہے جانے کا مستحق‬
‫صرف وہ شخص ہے جس نے عقائد‪ ،‬عبادات‪ U،‬اخالق و معامالت‪ U،‬معاشرت‪ ،‬معیشت‪ ،‬سیاست‬
‫اور نظام عدل و انصاف جیسے شعبوں میں ہللا کے احکام اور نبی کریم‪ ‬ﷺ‪ ‬کی سنتوں کے‬
‫سامنے اپنا سر جھکا دیا ہو اور اپنے نفس کی خواہشات اور پسندیدگی و ناپسندیدگی سے دست‬
‫بردار ہوگیا ہو۔ ظاہر ہے یہ تبھی ممکن ہے جب ایک انسان ان مختلف شعبوں سے متعلق ہللا‬
‫تعالی کے احکام اور نبی مکرم‪ ‬ﷺ‪ ‬کے طریقہ کا علم رکھتا ہو۔‬ ‫ٰ‬
‫ْق َر ْا‪:‬‬ ‫ِا‬
‫نبی پر اپنی ہدایات‬
‫علم کی اسی اہمیت کے پیش نظر ہللا رب العزت نے جب اپنے ٓاخری ؐ‬
‫کونازل کرنے کا ارادہ فرمایا تو اس کی ابتدا ''اِ ْق َر ْا ''سے فرمائی جس کا مطلب ہے 'پڑھو' ‪،‬‬
‫پھر ان پر علم و حکمت کا فیضان کیا جس کا مقصد امت کی تعلیم و تربیت ہی تھا اور اسی‬
‫لئے ان کا تعارف بھی امت سے بحیثیت معلم کرایا۔‬
‫چنانچہ ارشاد ربانی ہے‪:‬‬
‫ک ُم‬ ‫ک ْم ٰا ٰیتِنَا َو یُ َز ِّک ْی ُ‬
‫ک ْم َو یُ َعلِّ ُم ُ‬ ‫ک ْم یَ ْتلُ ْوا َعلَ ْی ُ‬
‫سواًل ِّم ْن ُ‬ ‫ک ْم َر ُ‬ ‫س ْلنَا فِ ْی ُ‬
‫{ َک َمٓا اَ ْر َ‬
‫ک ْونُ ْوا تَ ْعلَ ُم ْو َن}۔‬‫ک ْم َّمالَ ْم تَ ُ‬ ‫ب َو ا ْل ِح ْک َمۃَ َو یُ َعلِّ ُم ُ‬ ‫ک ٰت َ‬‫ا ْل ِ‬
‫(ترجمہ)‪'' :‬جیسا کہ ہم نے تم میں ایک رسول تم میں سے بھیجا‪ ،‬وہ تم پر ہماری ٓایات پڑھتے‬
‫ہیں اور تمھیں پاک کرتے ہیں اور وہ تمھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں اور تمھیں‬
‫ایسی باتیں سکھاتے ہیں جنہیں تم نہیں جانتے تھے)۔ (البقرۃ‪)۱۵۱ :‬۔‬
‫ٓاپ کا ارشاد ہے‪:‬‬
‫خود رسول ہللا‪ ‬ﷺ نے بھی اپنا تعارف بحیثیت معلم کرایا ہے۔ ؐ‬
‫'' ِان َّ َما بُ ِعث ُْت ُم َع ِِّل ًما''‬
‫یعنی ''میں تو صرف معلم بناکر بھیجا گیا ہوں''۔ (سنن ابن ماجہ‪)ؓ ،‬۔‬
‫ٓاپ ﷺنے امت کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری کو اپنی ٓاخری سانس تک‬ ‫‪ؐ  ‬‬
‫نبھایا اور معلم ہونے کا حق ادا کردیا۔ علم اور دین کے گہرے تعلق کی وجہ سے ہی ہللا رب‬
‫العزت نے اپنے بندوں کے لئے یہ حکم جاری فرمایا‪:‬‬
‫سئَلُ ْو ٓا اَ ْھ َل ِّ‬
‫الذ ْک ِر اِنْ ُک ْنتُ ْم اَل تَ ْعلَ ُم ْو َن ھ}۔‬ ‫{فَ ْ‬
‫(ترجمہ)‪ '':‬پس اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سے دریافت کرلو ''۔ (النحل‪)۴۳ :‬۔‬
‫کریم نے علم دین کی طلب کو فرض قرار دیا ہے ‪،‬‬
‫ؐ‬ ‫اور نبی‬
‫ٓاپ نے فرمایا‪:‬‬
‫ؐ‬
‫لی ُک ِّل ُم ْ‬
‫سلِ ٍم''‬ ‫ب ا ْل ِع ْل ِم فَ ِر ْی َ‬
‫ضۃٌ َع ٰ‬ ‫''طَلَ ُ‬
‫یعنی ''علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے''۔ (سنن ابن ماجہ‪،‬‬
‫نبوی کو قرآن کریم سے الگ کر دیا جائے تو صرف قرآن مجید سے ضابطۂ حیات‬ ‫ؐ‬ ‫اگر حدیث‬
‫کی تکمیل نہیں ہو پاتی اور کوئی شخص صرف قرآن کی روشنی میں نظام زندگی مرتب نہیں‬
‫کر سکے گافرمان ٰالہی میں حکمت کا یہ لفظ کیا ہے؟ یہ تعلیم رسول کریم ؐ ہے جو قرآن کے‬
‫آپ نے صحابہ کرام کو دی اور خود عمل کر‬ ‫نبوی ہے۔ جس کی تعلیم ؐ‬
‫ؐ‬ ‫عالوہ ہے‘ یہ سنت‬
‫کے دکھالیا۔‬
‫قرآن کریم ایک اصولی کتاب ہے۔ اس کا کام اصول وکلیات بیان کرنا ہے اور اس کی جزئیات‬
‫ہمیں ترجمان القرآن‘ رسول کریم ؐ کی احادیث سے ملتی ہیں۔ اگر قرآن مجید ہی کو دین کی‬
‫کریم کی تشریف آوری کی چنداں ضرورت نہ‬ ‫ؐ‬ ‫توضیح وتشریح کا کفیل گردانا جاتا تو رسول‬
‫ہللا کو سامنے رکھے بغیر نہ تو قرآن کو اور نہ ہی اسالم کو سمجھا جا سکتا‬
‫تھی۔ سنت رسول ؐ‬
‫ہے۔‬
‫! ایک جگہ ارشاد ہے‬

‫ہم نے تمہاری طرف ایک رسول بھیجا تم ہی میں سے کہ پڑھتا ہے تم پر ہماری آیتیں اور‬
‫پاک کرتا ہے تم کو اور سکھاتا ہے کتاب اور حکمت کی باتیں جو تم نہیں جانتے۔‬

‫کریم‬
‫ؐ‬ ‫جزیرہ نمائے عرب کے لوگوں کے ہاں پڑھنے لکھنے کا رواج بالکل نہیں تھا۔ رسول‬
‫نے ‪7‬ھ میں مشرقی عرب عالقہ االحساء میں ایک تبلیغی خط بھیجا۔ سارے عالقہ میں کوئی‬
‫اسے پڑھنے واال نہ مال۔ بہت تالش وجستجو کے بعد ایک بچہ مال جس نے یہ خط پڑھ کر‬
‫سنایا۔‬

‫کریم کی طرف جو پہلی وحی نازل ہوئی وہ لکھنے کی‬


‫ؐ‬ ‫یہ کتنا ولولہ انگیز امر ہے کہ رسول‬
‫تعریف اور پڑھنے کے حکم پر تھی اور جس کی آپ نے عمر بھر تعمیل کروائی۔‬

‫کریم وقتا فوقتا ً نازل ہونے والی آیتوں اور سورتوں کے لکھوانے کا فوراً بندوبست‬
‫ؐ‬ ‫رسول‬
‫کرتے۔ کچھ لوگ مدینہ منورہ میں مسلمان ہوئے تو وہاں آپ نے ایک معلم سیدنا مصعب بن‬
‫عمیر جو مقری کہالتے تھے قرآن‘ اور دینیات کی تعلیم کے لیے بھیجا۔‬
‫ؓ‬

‫مسجد نبوی کی تعمیر کے وقت ایک حصہ میں (صفہ) چبوترہ بنایا۔ یہ اولین اقامتی اسالمی‬
‫جامعہ تھی۔ رات کو طلبہ وہاں پر سوتے۔ اساتذہ مامور کیے گئے جو دن کو انہیں لکھنے‬
‫پڑھنے اور مسائل دین وغیرہ کی تعلیم دیتے۔صرف قبیلہ تمیم سے تقریبا ستر طلبہ آئے‬
‫جنہوں نے مدینہ میں رہ کر قرآن سیکھا اور دینی تعلیم حاصل‪ U‬کی۔ سب طالب علم اپنے اپنے‬
‫عالقوں میں جا کر تبلیغ میں مصروف ہو گئے۔ جنگ بدر کے قیدیوں سے جو اچھا برتاؤ کیا‬
‫گیا اس پر آدمی حیران رہ جانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ چنانچہ قیدیوں کی رہائی کا فدیہ یہ‬
‫مقرر کیا گیا کہ جو قیدی پڑھنا لکھنا جانتا ہے وہ دس دس مسلمان بچوں کو تعلیم دے‘ مشرک‬
‫کو استاد بنانے کا جواز کوئی اتفاقی نہ تھا بلکہ تعلیم پھیالنے کے متعلق مستقل پیش رفت‬
‫تھی۔‬

‫عہد نبوی ؐ میں نو مسجدیں تھیں‘ لوگ وہاں پانچ وقت نماز پڑھتے اور جمعہ مسجد نبوی میں‬
‫پڑھتے تھے۔ (ہفتہ میں ایک دن عورتوں کی تعلیم وتزکیہ کے لیے مخصوص تھا۔ رسول‬
‫‪r‬کریم خود ان کو تعلیم دیتے۔ سیدہ عائشہ‬
‫ؐ‬ ‫پڑھنا لکھنا جانتی تھیں۔ عورتوں کی ‪r‬سیدہ حفصہ‬
‫کریم کا معاہدہ مدینہ دنیا کا پہال‬
‫ؐ‬ ‫تعلیم کا خاص بندوبست کیا گیا۔ یہودیوں کے ساتھ رسول‬
‫تحریری دستور مملکت ہے جس میں حاکم ومحکوم دونوں کے حقوق وواجبات کی تفصیل‬
‫ہے۔‬

‫علم کی اہمیت کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ اس کے بغیر اسالمی شریعت کے اندر ہللا اور‬
‫رسول نے جو بنیادی سہولیات اور ٓاسانیاں رکھی ہیں ان سے واقف نہیں ہوا جاسکتا۔‬ ‫ؐ‬ ‫اس کے‬
‫تعالی‬
‫ٰ‬ ‫اس کا الزمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دین پر عمل کرنا مشکل معلوم ہوتا ہے حاالنکہ ہللا‬
‫نے انسان کی فطرت اور اس کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے دین کو بالکل ٓاسان بنایا ۔‬
‫علم کے ذریعہ ہی آدمی ایمان ویقین کی دنیا آباد کرتا ہے ‪،‬بھٹکے ہوے لوگوں ک‪UU‬و س‪UU‬یدھا‬
‫راستہ دکھاتا ہے‪ ،‬بروں کو اچھا بناتا ہے‪ ،‬دشمن کو دوست بنات‪UU‬اہے ‪ ،‬بے گ‪UU‬انوں ک‪UU‬و اپن‪UU‬ا بنات‪UU‬ا‬
‫ہے اور دنی‪UU‬ا میں امن وام‪UU‬ان کی فض‪UU‬اء پی‪UU‬دا کرت‪UU‬ا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ح‪UU‬املین علم کی ق‪UU‬رآن‬
‫وحدیث میں بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے اور اسے دنیوی و اخ‪UU‬روی بش‪UU‬ارتوں س‪UU‬ے نوازاگی‪UU‬ا‬
‫ہے۔‬
‫قرآن کہتا ہے‪:‬‬

‫ک ْم َوالَّ ِذ ْی َن أُوتُوا ا ْل ِع ْل َم َد َر َجا ٍ‬


‫ت َوہَّللا ُ بِ َما تَ ْع َملُ َ‬
‫ون َخبِ ْی ٌر‪(“.‬المجادلہ‪:‬‬ ‫”یَ ْرفَ ِع ہَّللا ُ الَّ ِذ ْی َن آ َمنُوا ِمن ُ‬
‫‪)۱۱‬‬
‫(تم میں سے جو لوگ ایمان الئے اور جن کو علم عطا ہواہے ‪،‬ہللا اس کے درجات بلند‬
‫فرمائے گا اورجو عمل تم کرتے ہو اس سے ہللا باخبر ہے۔)‬
‫دوسرے مقام پر فرمایا گیا ہے‪:‬‬

‫ون إِنَّ َما یَتَ َذ َّک ُر أُ ْولُوا اأْل َ ْلبَاب‪( “.‬الزمر‪)۹:‬‬


‫ون َوالَّ ِذ ْی َن اَل یَ ْعلَ ُم َ‬
‫ی الَّ ِذ ْی َن یَ ْعلَ ُم َ‬ ‫”قُ ْل ہَ ْل یَ ْ‬
‫ستَ ِو ْ‬
‫(اے نبی‪،‬کہہ دیجیے کیاعلم رکھنے والے(عالم) اور علم نہ رکھنے والے (جاہل) برابر‬
‫ہوسکتے ہیں۔نصیحت تو وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں۔)‬
‫تاریکی اور روشنی کی مثال دے کر عالم اور جاہل کے ف‪UU‬رق ک‪UU‬و واض‪UU‬ح کی‪UU‬ا گی‪UU‬اہے۔ ہللا‬
‫وتعالی فرماتا ہے‪:‬‬ ‫ٰ‬ ‫تبارک‬

‫ی ال ُّ‬
‫ظلُ َماتُ َوالنُّور‪(“.‬الرعد‪)۱۶:‬‬ ‫ص ْی ُر أَ ْم ہَ ْل تَ ْ‬
‫ستَ ِو ْ‬ ‫ی األَ ْع َمی َوا ْلبَ ِ‬ ‫”قُ ْل ہَ ْل یَ ْ‬
‫ستَ ِو ْ‬
‫(کہہ دیجیے‪،‬کیا برابر ہوسکتے ہیں اندھا(جاہل) اور دیکھنے واال(عالم) یا کہیں برابر‬
‫ہوسکتا ہے اندھیرا اور اجاال۔)‬
‫اس طرح کی بہت ساری آیتیں ہیں جن میں عالم اور جاہل کے فرق کو واضح کیا گی‪UU‬ا ہے‬
‫اور ان کے درجات کے تعین کے ساتھ مسلمانوں کو حصول علم کے لیے ابھارا گیا ہے۔‬
‫‪ ‬اس سلسلے میں کثرت سے احادیث بھی وارد ہ‪UU‬وئی ہیں جن میں اہ‪UU‬ل علم کی س‪UU‬تائش کی‬
‫گئی ہے اور انہیں انسانیت کا سب سے اچھا آدمی قرار دیا گیا ہے۔‬
‫ہللا کے رسول فرماتے ہیں‪:‬‬
‫سو ُل ہّٰللا ِ صلى هللا عليه‬ ‫ضلِی َعلَی اَ ْدنَا ُک ْم‪ ،‬ثُ َّم قَا َل َر ُ‬ ‫ض ُل ا ْل َعالِ ِم َعلَی ا ْلعابِ ِد ‪َ ،‬کفَ ْ‬ ‫” َوفَ ْ‬
‫ض ْی َن َحتَّی النَّ ْملَةَ فِی ُج ْح ِر َھا َو َحتَّی‬ ‫ہّٰللا‬
‫ت َو ااْل َ ْر ِ‬ ‫وسلم‪ :‬اِنَّ َ َو َماَل ئِ َکتَہُ َوا ْھ َل ال َّ‬
‫سمٰ َوا ِ‬
‫س ا ْل َخ ْی َر‪)۳(“.‬‬ ‫صلُّ ْو َن َعلی ُم َعلِّ ِم النَّا ِ‬ ‫ا ْل ُح ْوتَ لَیُ َ‬
‫(اورعابد پر عالم کی فضیلت ایسی ہے جیسے میری فضیلت تم میں سے ادنی پر۔ یقینا ہللا‬
‫حتی کہ چیونٹی اپنے سوراخ میں اور‬ ‫عزوجل ‪،‬اس کے فرشتے اور آسمان وزمین والے ٰ‬
‫مچھلی تک لوگوں کے معلم کے لیے بھالئی کی دعاء کرتی ہیں۔)‬
‫ایک دوسرے حدیث کے راوی حضرت عبدہللا بن عمر رضی ہللا عنہ ہیں ‪،‬وہ بیان کرتے‬
‫ہیں‪:‬‬

‫عض ُح َج‪ِ U‬ر ِہ‪ ،‬فَ‪َ U‬د َخ َل ْال َم ْس‪ِ U‬ج َد‪ ،‬فَ‪U‬اِ َذا ھُ‪َ U‬و‬ ‫‪U‬و ٍم ِمن بَ ِ‬ ‫ات یَ ْ‬‫” َخ َر َج َرس ُْو ُل ہّٰللا ِ صلى هللا عليه وس‪U‬لم َذ َ‬
‫‪U‬ون‪ .‬فَقَ‪U‬ا َل النَّبِ ُی‪ُ :‬ک‪ٌّ U‬ل َعلی‬ ‫آن َویَ‪ْ U‬د ُع ْو َن ہّٰللا ‪َ ،‬وااْل ُ ْخ‪َ U‬ری یَتَ َعلَّ ُم َ‬
‫‪U‬ون َویُ َعلِّ ُم َ‬ ‫قروٴُن الُقُرْ َ‬‫بِ َح ْلقَتَ ْی ِن‪ :‬اِحْ داھُ َما یَ َ‬
‫‪U‬و َن‬‫آن َویَ ‪ْ U‬د ُع ْو َن ہّٰللا ‪ ،‬فَ ‪U‬اِ ْن َش ‪U‬ا َء اَ ْعطَ‪UU‬اھُ ْم َواِ ْن َش ‪U‬ا َء َمنَ َعھُ ْم‪َ ،‬و ٰھوٴاَل ِء یَتَ َعلَّ ُم‪ْ U‬‬‫‪U‬روٴ َُن ْالقُ‪UU‬رْ َ‬ ‫‪U‬ر‪ٰ ،‬ھوٴُاَل ِء یَقُ‪َ U‬‬‫َخ ْی‪ٍ U‬‬
‫س َم َعھُ ْم‪)۴(“.‬‬ ‫ت ُم َعلِّماً‪ ،‬فَ َجلَ َ‬ ‫َویُ َعلِّ ُم ْو َن‪َ ،‬واِنَّ ّما ب ُِع ْث ُ‬
‫(ایک دن رسول ہللا اپنے حجرے سے باہر تشریف الئے اور مسجد (نبوی) میں داخل‬
‫ہوے‪،‬وہاں دوحلقے بیٹھے ہوے تھے‪،‬ایک حلقہ قرآن کی تالوت کررہا تھا اورہللا سے دعاء‬
‫کررہا تھا‪،‬دوسرا تعلیم وتعلم کا کام سرانجام دے رہا تھا۔ آپ نے فرمایا‪ :‬دونوں بھالئی پر ہیں۔‬
‫یہ حلقہ قرآن پڑھ رہا ہے اور ہللا سے دعاء کررہاہے ۔ ہللا چاہے تو اس کی دعاء قبول‬
‫فرمائے ‪ ،‬یا نہ فرمائے۔دوسرا حلقہ تعلیم وتعلم میں مشغول ہے (یہ زیادہ بہتر ہے) اور میں تو‬
‫معلم بناکر بھیجا گیا ہوں۔ پھر یہیں بیٹھ گئے۔)‬
‫اہل علم کاصرف یہی مقام ومرتبہ نہیں ہے کہ اسے دنیا کی تم‪UU‬ام چ‪UU‬یزوں پ‪UU‬ر فض‪UU‬یلت دی‬
‫‪U‬الی کی تم‪UU‬ام مخل‪UU‬وق اس کے ل‪UU‬یے‬ ‫گئی ہے اور اس کام میں وہ جب تک مصروف ہیں ‪ ،‬ہللا تع‪ٰ U‬‬
‫دعاء کرتی رہتی ہے‪،‬بلکہ اس کا مقام ومرتبہ یہ بھی ہے کہ ہللا کے رسول نے انہیں انبی‪UU‬اء ک‪UU‬ا‬
‫وارث اور جانشین قرار دیا ہے ‪:‬‬

‫ط ِریْقا ً اَلَی ْال َجنَّ ِة‪َ ،‬واِ َّن ْال َمالئِ َکةَ لَتَ َ‬
‫ض ُع‬ ‫ک ہّٰللا ُ بِہ َ‬
‫ک طَ ِریْقا ً یَ ْبتَ ِغی فِ ْی ِہ ِع ْلما ً َسلَ َ‬ ‫” َم ْن َسلَ َ‬
‫ض َحتَّی ْال ِحیتَ ُ‬
‫ان‬ ‫ت َو َم ْن فِی ااْل َرْ ِ‬ ‫ب ْال ِع ْل ِم‪َ ،‬واِ َّن ْال َعالِ َم لَیَ ْستَ ْغفِ ُر لَہُ َم ْن فِی ال َّس َموا ِ‬
‫اَجنِحْ تَھَا َرضًی لَطَالِ ِ‬
‫ان ْالع ُْل َما َ‪U‬ء َو َرثَةُ ااْل َ ْنبِیَا ِء‪ ،‬اِ َّن‬ ‫فَی ْال َما ِء‪َ U،‬وفَضْ ُل ْال َعالِم َعلَی ْال َعابِ ِد‪َ ،‬کفَضْ ِل ْالقَ َم ِر َعلَی َسائِ ِر ْال َک َوا ِک ِ‬
‫ب‪َّ U،‬‬
‫ااْل َ ْنبِیَا َء لَ ْم ی َُورِّ ثُ ْوا ِد ْینَارًا َواَل ِدرْ ھَماً‪ ،‬اِنَّ َما َو َّرثُوا ْال ِع ْل َم‪ ،‬فَ َم ْن اَ َخ َذ بِہ فَقَ ْد اَ َخ َذ بِ َحظّ َوافَ ٍر‪)۵(“.‬‬

‫(جو کوئی حصول علم کی غرض سے راستہ طے کرے تو خدا اس کے سبب اسے جنت‬
‫کی ایک راہ چالتا ہے۔ فرشتے طالب علم کی خوشی کے لیے اپنے پر بچھادیتے ہیں اور یقینا‬
‫عالم کے لیے آسمان اور زمین کی تمام چیزیں مغفرت طلب کرتی ہیں‪،‬یہاں تک کہ وہ مچھلیاں‬
‫بھی جو پانی میں ہیں ۔ عابد پر عالم کو ایسی فضیلت حاصل ہے جیسی چاند کو تمام تاروں پر۔‬
‫بالشبہ علماء ہی پیغمبروں کے وارث ہیں۔پیغمبروں نے ترکہ میں نہ دینار چھوڑا ہے اور نہ‬
‫درہم ۔ انہوں نے تو صرف علم کو اپنے ترکہ میں چھوڑا۔ پس جس کسی نے علم حاصل کیا‬
‫اس نے ہی حصہ کامل پایا۔)‬
‫قرآن میں جہاں بھی علم کا تذکرہ کیا گیا ہے ‪،‬بیش تر مقامات‪ U‬پر مطلق علم کاذکر ہوا ہے۔‬
‫اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علم اپنی ذات کے اعتبار سے ال مح‪UU‬دود ہے اور اس‪UU‬الم نے اس کی‬
‫المحدودیت کو برقرار رکھتے ہوے حکم دیا ہے کہ علم حاصل کرو۔حضرت‪ U‬ابو ہریرہ رض‪UU‬ی‬
‫ہللا بیان کرتے ہیں‪:‬‬
‫ہّٰللا‬
‫ض ٌل‪ ،‬آیَةٌ ُم ْح َک َمةٌ‪،‬‬ ‫س ْو ُل ِ صلى هللا عليه وسلم اَ ْل ِع ْل ُم ثَالثَةٌ‪ :‬فَ َما َو َرا َء ٰذلِ َ‬
‫ک فَ ُھ َو فَ ْ‬ ‫”قَا َل َر ُ‬
‫ضةٌ َعا ِدلَةٌ‪)۶(“.‬‬ ‫سنَّةٌ قَائِ َمةٌ اَ ْو فَ ِر ْی َ‬
‫اَ ْو ُ‬

‫(ہللا کے رسول صلى هللا عليه وسلم نے فرمایا ‪:‬علم تین ہیں‪:‬آیت محکمہ‪،‬سنت قائمہ اور‬
‫فریضہ عادلہ‪،‬اس کے سوا جو کچھ بھی ہے وہ زائد ہے۔)‬
‫ٴ‬
‫ای‪UU‬ک دوس‪UU‬ری ح‪UU‬دیث میں ج‪UU‬و تفص‪UU‬یل آئی ہے ‪،‬اس س‪UU‬ے بھی یہی واض‪UU‬ح ہوت‪UU‬ا ہے۔ آپ‬
‫ﷺنے فرمایا‪:‬‬

‫”یبع ُ ہّٰللا‬
‫ث ُ ا ْل ِعبَا َد یَ ْو َم ا ْلقِیَا َم ِة‪ ،‬ثُ َّم یُ َمیِّ ُز ا ْل ُعلَ َما َء فَیَقُ ْو ُل‪ :‬یَا َم ْعش ََر ا ْل ُعلَ َما ِء اِنِّی لَ ْم اَ َ‬
‫ض ْع ِع ْل ِم ْی‬ ‫َْ َ‬
‫ک ْم‪)۷(“.‬‬ ‫ک ْم‪ْ ،‬اذ َھبُ ْوا فَقَ ْد َغفَ ْرتُ لَ ُ‬ ‫ک ْم اِل َع ِّذبَ ُ‬‫فِ ْی ُ‬
‫تعالی لوگوں کو زندہ کرے گا اور اس میں علماء کو ممتاز کرے گا‬ ‫ٰ‬ ‫(قیامت کے دن ہللا‬
‫اور فرمائے گا اے پڑھے لکھے لوگو!میں نے اپنا علم تمہارے اندر اس لیے نہیں رکھا کہ‬
‫‪،‬جاو تم سب کی مغفرت کردی۔)‬ ‫میں تمہیں عذاب دوں ٴ‬ ‫ق‬
‫رآن مکمل ض اب طہ ح ی ات‪:‬‬
‫عالم کہتے ہی ہیں پڑھے لکھے لوگوں کو ‪،‬چاہے‪ U‬اس نے قرآن کی تعلیم حاصل کی ہو یا‬
‫حدیث کی‪ ،‬فقہ کی کی ہو یا کالم ومنطق کی ۔ سائنس کی ڈگری لی ہو ی‪UU‬ا می‪UU‬ڈیکل س‪UU‬ائنس کی ۔‬
‫نیچ‪U‬رل س‪U‬ائنس پڑھ‪U‬اہو ی‪UU‬اآرٹس کے مض‪U‬امین ۔ س‪U‬ارے کے س‪UU‬ارے پ‪U‬ڑھے لکھے لوگ‪UU‬وں میں‬
‫شمار کیے جائیں گے۔ یہ ایسی چیز ہے جو انسان کو ہمیشہ کام آئے گی‪ ،‬مقص‪UU‬د نی‪UU‬ک ہ‪UU‬و اور‬
‫اس کا صحیح استعمال کی‪UU‬ا ج‪UU‬ائے ت‪UU‬و اس کی ب‪UU‬دولت وہ دین ودنی‪UU‬ا کی س‪UU‬اری نعمت اور دولت‬
‫حاصل کرسکتا ہے۔‬
‫انسان کو جس چیز سے واسطہ پڑ سکتا ہے ‪،‬اس کے حل کے لیے معلومات حاصل کرنا‬
‫‪U‬الی نے‬
‫اور اس میں مہارت پیدا کرنا اسالم کو مطلوب ہے۔حض‪UU‬رت آدم علیہ الس‪UU‬الم ک‪UU‬و ہللا تع‪ٰ U‬‬
‫جب پیدا کیا تو انہیں وہ تمام علوم عطاکیے جن سے ان کا واسطہ پڑ سکتا تھا۔ق‪UU‬رآن ک‪UU‬ریم میں‬
‫اس کی صراحت موجودہے‪:‬‬

‫‪UU‬ال أَنبِئُ‪UU‬ونِ ْی بِأ َ ْس‪َ UU‬ماء ہَ‪ُ UU‬ؤالء إِن ُکنتُ ْم‬ ‫ض‪UU‬ہُ ْم َعلَی ْال َمالَئِ َک‪ِ UU‬ة فَقَ َ‬ ‫”و َعلَّ َم آ َد َم األَ ْس‪َ UU‬ماء ُکلَّہَ‪UU‬ا ثُ َّم َع َر َ‬ ‫َ‬
‫ال یَ‪UU‬ا آ َد ُم أَنبِ ْئہُم بِأ َ ْس ‪َ U‬مآئِ ِہ ْم‬
‫نت ْال َعلِ ْی ُم ْال َح ِک ْی ُم‪ .‬قَ َ‬
‫ک أَ َ‬
‫ک الَ ِع ْل َم لَنَا إِالَّ َما َعلَّ ْمتَنَا إِنَّ َ‬ ‫وا ُسب َْحانَ َ‬ ‫صا ِدقِیْن‪ .‬قَالُ ْ‬ ‫َ‬
‫ون َو َم‪UU‬ا ُکنتُ ْم‬ ‫ض َوأَ ْعلَ ُم َم‪UU‬ا تُ ْب‪ُ U‬د َ‬
‫ت َواألَرْ ِ‬ ‫ب َّ‬
‫الس ‪َ U‬م َوا ِ‬ ‫‪U‬ال أَلَ ْم أَقُ‪UU‬ل لَّ ُک ْم إِنِّ ْی أَ ْعلَ ُم َغ ْْی َ‬
‫فَلَ َّما أَنبَأَہُ ْم بِأ َ ْس َمآئِ ِہ ْم قَ‪َ U‬‬
‫ون‪( “.‬البقرہ‪)۳۱:‬‬ ‫تَ ْکتُ ُم َ‬
‫تعالی نے آدم کو تمام چیزوں کے نام اور پھر سامنے کیا ان سب چیزوں‬ ‫ٰ‬ ‫(اور سکھایا ہللا‬
‫بتاو مجھ کو ان کے نام اگر تم سچے(جانتے) ہو؟‬ ‫کوفرشتوں کے‪،‬پھر ہللا نے فرمایا ان سے ٴ‬
‫فرشتوں نے کہا‪ :‬تیری ذات پاک ہے ‪،‬ہم کو نہیں معلوم‪ ،‬مگر جتنا تونے مجھے علم دیا ہے۔‬
‫بتاو تم ان کو‬ ‫بے شک تو ہی ہے اصل جاننے واال اور حکمت واال۔ پھر ہللا نے آدم سے کہا‪ :‬ٴ‬
‫ان چیزوں کے نام ۔ جب انہوں نے بتادیا ان کے نام ‪،‬توہللا نے فرشتوں سے کہا‪ :‬کیا میں نے‬
‫تم سے نہیں کہا تھا کہ میں خوب جانتا ہوں ان چیزوں کو جو آسمان و زمیں میں چھپی ہوئی‬
‫ہیں اور میں یہ بھی جانتا ہوں جو ظاہر ہے اور جو چیز چھپی ہوئی ہے۔)‬

‫‪References:‬‬ ‫ن ت‬
‫ع‬
‫اسالم کا ظ ری ٴہ لی م اور مسلمان‬
‫از‪ :‬محمد شمیم اختر قاسمی ‪ ،‬ادارہ تحقیق وتصنیف اسالمی‪ ،‬علی گڑھ‬

‫‪Religious Foundation of Education‬‬


‫‪Seyed Ali akbar‬‬

‫سوال نمبر ‪:2‬تعلیم کی فلسفیانہ بنیادوں کے مطالعہ کی ضرورت پر بحث کریں‬

‫تعلیم کی ضرورت و اہمیت‪:‬‬


‫انسان کو ہللا تعالی نے بے شمار صالحیتیوں سے نوازا ہے۔ ان صالحیتیوں کے لحاظ سے ہر‬
‫انسان دوسرے انسان سے مختلف ہے۔ تعلیم کا عمل انسان کی ان صالحیتیوں کو بروئے کار‬
‫النے اور پروان چڑھانے کا فریضہ سر انجام دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تعلیم ‪ ،‬انسان کی‬
‫سیرت و کردار کی تعمیر و تشکیل کرتی ہے تاکہ وہ معاشرے میں ایک کامیاب اور اچھے‬
‫شہری کی حیثیت سے زندگی بسر کرنے کے قابل ہوجائے۔‬
‫تعلیم ایک ایسا عمل ہے جو متعلم کی تمام صالحیتیوں کے اظہار اور ہمہ پہلو نشو و نما کے‬
‫نیتجے میں اس کی شخصیت کی تکمیل کرتا ہے اور اس کی سیرت و کردار کی اس طرح‬
‫تعمیر و تشکیل کرتا ہے کہ وہ معاشرے میں اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی ایک کامیاب‬
‫شہری کی حیثیت سے بسر کرنے کے قابل ہوجائے۔‬

‫تعلیم کی تعریف کے نما یاں پہلو‪:‬‬


‫تعلیم کی مندرجہ باال تعریف میں چار پہلو نمایاں ہیں؛‬
‫‪١‬۔ متعلم کی تمام صالحیتیوں کا اظہار اور نشو و نما‬
‫‪٢‬۔ متعلم کی شخصیت کی تکمیل‬
‫‪٣‬۔ سیرت و کردار کی تعمیر و تشکیل‬
‫‪٤‬۔ انفرادی و اجتماعی زندگی میں کامیاب شہری کی حیثیت سے تیاری‬
‫تعلیم کی یہ تعریف انتہائی جامع اور مکمل ہے جو دنیا کے ہر معاشرے اور تمام افراد پر‬
‫صادق آتی ہے۔ تعلیمی عمل کے نیتجے میں کوئی فرد‪ ،‬معاشرے کے کسی بھی شعبہ میں‬
‫ایک کارکن ‪ ،‬ماہر یا قائد کی حیثیت سے اپنا کردار کامیابی سے ادا کرنے کے قابل ہوتا ہے‬
‫گویا معاشرے کے مطلوب افراد تعلیم کے اسی عمل سے تیار ہو کر معاشرے کی تعمیر و‬
‫تشکیل کرتے ہیں۔‬
‫ماہرین تعلیم نے تعلیم کے مفہوم کے بارے میں مختلف آراء کا اظہار کیا ہے۔ کسی نے اسے‬
‫انسانی ذہن کی نشو و نما قرار دیا ہے۔ کسی نے اسے معاشرتی مطابقت ( ‪Social‬‬
‫‪ ) Adjustment‬کا نام دیا ہے۔ سقراط نے اسے سچائی کی تالش ‪ ،‬ارسطو نے جسمانی و‬
‫اخالقی نشو و نما کا عمل اور افالطون نے صحت مند معاشرے کی تنظیم کا عمل قرار دیا‬
‫ہے۔ جان ڈیوی اسے تجربے کی مسلسل تعمیر نو اور تنظیم نو کا نام دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے‬
‫کہ تعلیم انسانی زندگی کے ان تمام پہلوؤں کی مسلسل نشو و نما اور بالیدگی کا عمل ہے جو‬
‫انسان کی شخصیت کے نکھار اور اعلی کمال حصول کا باعث بنتا ہے۔‬
‫انسانی صالحیتیں‪:‬‬
‫انسان کی یہ صالحیتیں مندرجہ باال ہیں۔‬
‫‪١‬۔ جسمانی صالحیتیں ( ‪) Physical Abilities‬‬
‫‪٢‬۔ ذہنی اور فکری صالحیتیں ( ‪) Mental & Intellectual Abilities‬‬
‫‪٣‬۔ معاشرتی صالحیتیں ( ‪) Social Abilities‬‬
‫‪٤‬۔ جذباتی صالحیتیں ( ‪) Emotional Abilities‬‬
‫‪٥‬۔ اخالقی صالحیتیں ( ‪) Moral Abilities‬‬
‫‪٦‬۔ روحانی صالحیتیں ( ‪) Spiritual Abilities‬‬

‫‪:‬ماہر تعلیم کی نظر میں تعلیم کی اہمیت‬


‫پلیٹو )‪(Plato‬‬
‫پلیٹو )‪، (Plato‬کی نظر میں تعلیم کا اہم کام بہترین شہریوں کی تعمیر کرنا ہے‬

‫یعنی تعلیم بہترین شہریوں کی‪Education is a mean of developing good citizens‬‬


‫تعمیر کا ایک سرچشمہ ہے۔‬

‫لیکن ماہرین نفسیات نے اس بات کی تو ضیح کی ہے کہ انسان کی نشوونما اس کے خداداد‬


‫صالحیتوں اور اس کے ماحول پر منحصر کرتی ہے‪ ،‬اس لیئے تعلیم کے ذریعے سب سے‬
‫پہلے انسانوں کی خداداد صالحتیوں کی نشوونماء کرنا چاہیئے اور اس کے بعد انھیں سب‬
‫سکھانا چاہیئے جو معاشرہ یا ملک انھیں سکھانا چاہتا ہے۔‬

‫پستاالذی )‪(Pestalozzi‬‬

‫تعلیم کی تعریف اسی بنیاد پر یوں بیان کرتا ہے‬


‫‪Education is natural harmonious and progressive development of man’s‬‬
‫‪innate powers.‬‬
‫یعنی تعلیم انسان کی خداداد صالحتوں کا قدرتی ہم آہنگ اور ترقی پذیر نشونما ہے۔‬
‫ف‬
‫لسفی و مفکر جون ڈیوی‬

‫کے نزدیک تعلیم کیا ہے‪ ،‬ہر قسم کی تعلیم کی بنیاد اس وقت پڑتی ہے جب فرد اپنے نسلی‬
‫گروہ کے اجتماعی شعور کا حصہ دار بنتا ہے‪ ،‬یہ عمل قریب پیدائش کے وقت سے ہی غیر‬
‫شعوری طور پر شروع ہوجاتا ہے‪ ،‬یہی عمل فرد کی دماغی صالحیتوں کی کی تشکیل کرتا‬
‫ہے‪ ،‬فرد کے علم و آگہی میں اضافہ کرتا ہے‪ ،‬اس کی عادات و اطوار بناتا ہے‪ ،‬اس کے‬
‫خیاالت کی تربیت کرتا ہے اوراس کے جذبات و احساسات کی تہذیب کرتا ہے اس غیر‬
‫شعوری تعلیم کے ذریعے فرد بتدریج اس علمی و اخالقی سرمایہ میں اپنا حصہ بنانے کے‬
‫قابل ہوجاتا ہے‪ ،‬جو بنی نوع انسان نے آج تک جمع کیا ہے گویا وہ تہذیب کے اس جمع شدہ‬
‫سرمایہ کا وارث بن جاتا ہے‪ ،‬یہ تو ہوسکتا ہے کہ اس تعلیم کو کسی خاص انداز میں منظم‬
‫کرلیا جائے یا اسے خاص رخ دے دیا جائے‪ ،‬لیکن انتہائی میکانکی اور رسمی تعلیم بھی اس‬
‫عام روش سے انحراف نہیں کرسکتی۔‬

‫فلسفہ کیا ہے؟‬


‫اگر فلسفے کا معنی و مفہوم علم سے محبت گوکہ فلسفے اور فالسفروں کا کام کائنات‪ ،‬روح‪،‬‬
‫جسم ‪ ،‬موت‪ ،‬زندگی چاند‪ ،‬سورج زمین‪ ،‬آسمان اور خدا کیا ہیں؟ اور کیسے وجود میں آئے؟‬
‫کب وجود میں آئے؟ چلو ٹھیک یہ فلسفہ اور فالسفروں کا کام اور انسان کو سمجھنا ماہرین‬
‫نفسیات کا کام ہے۔ کیا پھر بھی ہم بحیثیت انسان اور انسانوں سے رشتے اور تعلق کی بنیاد پر‬
‫انسانوں کو ایک دوسرے کو علم نفسیات کی روشنی میں دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش نہ‬
‫کرلیں؟‬
‫ہر قسم کی علمی ترقی در حقیقت فکری ارتقاء میں پوشیدہ ہے اور تمام انسانی علوم شعوری‬
‫یا ال شعوری طور پرکسی نہ کسی خاص فلسفے پر مبنی ہیں۔ انہی فلسفوں کا باہمی تضاد ہی‬
‫انسانی علوم میں موجود نظریات و تصورات کے اختالف کا باعث بنتاہے۔ مثال کے طور پر‬
‫جو مادہ پرستانہ (‪ )Materialism‬فلسفی نظام کے تابع ہوگا تو وہ محسوسات‪  ‬سے ماوراء‬
‫کسی غیبی حقیقت کوقبول نہ کرے گا‪ ،‬یا جو کوئی عدمیّت (‪ )Nihilism‬کے فلسفے کے‬
‫زیراثر ہوگا تو وہ انسانی اقدار کو کوئی اہمیت نہ دے گا اور ہر موقعے کو لذتیّت (‬
‫‪ )Epicureanism‬کے لئے استعمال کرے گاـ۔‬
‫مندرجہ باال پس منظر کے ساتھ ہمیں اپنے افکار و تصورات کی صحیح فلسفی فکر کے‬
‫ذریعے پرورش کی کرنے ضرورت ہے۔ یہی فلسفہ نہ صرف انسان کی علمی‪ ،‬فکری اور‬
‫سماجی شخصیت کی بنیاد فراہم کرتا ہے بلکہ پورے انسانی‪  ‬نظام تصور و عمل پر بھی‬
‫اثرانداز ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے دنیا میں تمام تربیتی مکاتب فکر (‪Educational Schools‬‬
‫اعلی ترین مرتبہ کمال و سعادت کے‬
‫ٰ‬ ‫‪ )of Thought‬انسانی خلقت کے ہدف اور اس کے‬
‫بارے میں اپنا خاص تصور اور نقطہ نظرپیش کرتے ہیں۔ تصورات کے اس مجموعے سے‬
‫ہرمکتب کی تہذیب و تمدن اور تعلیم وتربیت کی بنیاد تشکیل پاتی ہے‪ ،‬اور اس بنیاد پر مختلف‬
‫اصول و مبادیات اور طریقہ کار اپنائے جاتے ہیں۔ انہی بنیادی ترین تصورات کو مبانی کہا‬
‫جاتا ہے۔‬

‫اسالم کا فلسفہ تعلیم ‪:‬‬


‫ٓاج مسلمانوں کے درمیان اسالم کے سنہری اصولوں اور تعلیمات کے مفقود ہونے کی سب‬
‫سے بڑی وجہ ہمارے مبانی و بنیادی تصورات میں اور ہمارے تربیتی و تعلیمی نظام کے‬
‫اصولوں‪ ،‬اہداف اور طریقہ کار میں پایا جانے واال تضاد ہے۔ یہی تضاد ہمارے حقیقی دینی‬
‫تصورات کی جڑیں کھوکھلی کر نے کا باعث بن رہا ہے۔ حتی ہماری نسل کا ایک بڑا حصّہ‬
‫اس تربیت کے نتیجے میں اپنی عتماد سے عاری اور شکست خوردہ روح کی وجہ سے‬
‫مغربی تعلیم کے ساتھ وہاں کی تہذیب اور فلسفہ حیات اور مبانی کو بھی بعینہ قبول کر رہی‬
‫ہے۔ یہاں سے ہمیں اس مو ضوع پر بحث کی ضرورت اور اہمیت کا احساس ہوتا ہے۔‬
‫اسالم کا فلسفہ تعلیم یہ ہے کہ وہ انسانی معاشرے کو ایک ایسا ضابطہ حیات دے جو ہللا اور‬
‫اس کے رسول پر ایمان و کامل اعتقاد سے ہم آہنگ ہو ۔ اگر اسالمی تاریخ کی ورق گردانی‬
‫کی جائے اور اس قلیل التعداد اور بے سرو سامان جماعت کے کردار پر نظر ڈالی جائے جس‬
‫کسری جیسی یا جبروث سلطنتوں کو صفحہ¿ ہستی سے مٹا ڈاال تو معلوم ہوتا‬ ‫ٰ‬ ‫نے قیصر و‬
‫ہے کہ ان کی کامیابی کا راز ہللا پر کامل یقین اور اس کے رسول کی راہنمائی پر مضبوطی‬
‫سے قائم رہنے میں پنہاں تھا ۔ اس لئے اگر کوئی بہتر نظام تعلیم ہے تو وہ وہی ہے جس کو‬
‫اسالم نے دنیا کے سامنے پیش کیا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسالمی نظام تعلیم ‪ ،‬انسانی‬
‫معاشرے کو عدل و انصاف ‪ ،‬حق شناسی اور پاکیزگی کے اعتبار سے بلند و باال بنانے کا‬
‫خواہش مند ہے ۔ اسالم کا نظام تعلیم ضابطہ اخالق کو استوار کرتا ہے اور الدین عناصر کے‬
‫مقابلے میں اچھی عادتوں اور عمدہ سیرت و کردار کی تعمیر پر زور دیتا ہے اس کا سبب یہ‬
‫ہے کہ الدینیت یا مادہ پرستی قوم کے لئے ذہنی ‪ ،‬قلبی اور روحانی سکون فراہم نہیں کرتی‬
‫لیکن اسالم میں تعلیم کا رشتہ ‪ ،‬دین و اخالق اور تہذیب و شائستگی سے جڑا ہوا ہے اس لئے‬
‫تعالی ہے کہ‬
‫ٰ‬ ‫آل عمران میں ارشاد باری‬
‫مسلمانوں کو خیر االمم کہا گیا ہے چنانچہ سورئہ ِ‬
‫”اے مسلمانو! جتنی قومیں دنیا میں پیدا ہوئیں تم ان سے بہتر ہو کہ نیک کام کرنے کو کہتے‬
‫ہو اور بُرے کاموں سے روکتے اور ہللا پر ایمان رکھتے ہو۔“‬

‫تعلیم کی فلسفیانہ بنیادوں کی ضرورت اور اہمیت ‪:‬‬


‫تعلیم وتربیت یاتعلیمی نظام کے مبانی سے ٓاشنایی کی ضرورت اور اہمیت اس مثال سے‬
‫واضح ہو سکتی ہے۔ فرض کریں ہم ایک شاندارعمارت تعمیرکرناچاہتے ہیں۔ یقینی طور پر‬
‫اس عمارت کی بنیادوں اور ان ‪ ‬پر وجود میں ٓانے والی تعمیرات کو ایک ماہرانہ اور تفصیلی‬
‫نقشے کے تحت اول سے آخر تک پایٔہ تکمیل کو پہنچائیں گے۔ اگر یوں نہ کریں تو کبھی بھی‬
‫اس مقصد میں کامیاب نہ ہوسکیں گے۔ اگر ہم زیر زمین بنیادوں کو تو ایک‪  ‬ماہر تعمیرات‬
‫کے نقشے کے تحت تیار کروایں‪ ،‬جبکہ اوپر کھڑی ہونے والی عمارت کو کسی دوسرے‬
‫ماہر تعمیر کے نقشے کے تحت بناوائیں‪ ،‬جسے زیر زمین بنیادوں کے ڈیزائین سے متعلق‬
‫کچھ بھی معلوم نہ ہو‪ ،‬توٓاپ خود اندازہ لگائیں اس قسم کی عمارت جسکی بنیادوں اور اوپر‬
‫تعمیر کی گئی عمارت میں ھم آھنگی نہ ہو تو وہ کتنی پائیدار ہوگی!‬
‫بالکل اسی طرح اگر کسی معاشرے کے تربیتی مبانی (تصوری بنیادیں) تو اسالمی ہوں جبکہ‬
‫جو تربیتی اہداف‪ ،‬عمومی اصول و مبادی‪ ،‬طریقہ کار اور انسانی قابل تربیت پہلووں کا‬
‫انتخاب کیا جائے وہ مغربی تربیتی مبانی کے تحت ڈیزائن کیا گیا ہو‪ ،‬تو جو نسل ہم معاشرے‬
‫کو پروان چڑھا کر پیش کریں گے اسکی شخصیت کتنی پائیدار اور پراعتماد ہو گی؟ نیز وہ‬
‫نسل اپنی انسانی‪ ،‬دینی‪ ،‬سماجی اقدار‪ ،‬اجتماعی تصوارت اور اخالقی نظریات کی کتنی‬
‫پاسداری کرنے والی ہوگی؟‬
‫انسان جب کوئی اصول بناتا ہے تو اس کے پیچھے الزما اخالق‪ ،‬معاشرت اور تمدن کا کوئی‬
‫خاص نقشہ (تصور و نظریہ) ہوتا ہے‪ ،‬جس کے مطابق وہ اپنی زندگی ڈھالنا چاہتا ہے۔ اسی‬
‫طرح جب وہ اپنے کسی اصول یا قدر کو پایمال کرتا ہے تو وہ دراصل اپنے نظام اقدار اور‬
‫نظام حیات کے بنیادی تصورات جن پر وہ اصول اور اقدار قائم تھیں انہیں توڑتا ہے۔‬

‫خیال‪:‬‬ ‫فلسفہ تعلیم« پر اظہار‬


‫ٗ‬ ‫ماہر تعلیم کا‬

‫‪:‬معلم انسانیت ﷺ کا فلسفہ تعلیم‬


‫ِ‬
‫ت نبوی ؐ کا فلسفٔہ تعلیم درحقیقت انسانیت کی تربیت اور کردار سازی‬
‫رسول اور تعلیما ِ‬
‫ؐ‬ ‫اسؤہ‬
‫ہے۔تعلیم کے بغیرتربیت ممکن نہیں‪،‬اور تربیت بغیر تعلیم پورے طور پر مٔوثر نہیں ہوسکتی‪،‬‬
‫ت طیبہ ہمیں‬
‫حصول علم کی فرضیت کا حکم اور رسول اللہﷺ کی سیر ِ‬ ‫ِ‬ ‫لہٰذا‬
‫اصالح معاشرہ اور لوگوں کی تربیت اورکردار سازی کے لیے اپنا ہر‬‫ِ‬ ‫یہ پیغام دیتی ہے کہ ہم‬
‫ممکن کردار ادا کریں۔جس طرح حصو ِل علم ایک دینی فریضہ ہے‪،‬اسی طرح امر بالمعروف‪،‬‬
‫نہی عن المنکر اور معاشرے کی اصالح بھی ایک دینی فریضہ ہے اور تعلیم اس کی اساس‬
‫اور بنیاد ہے‬
‫‪:‬سرسید کا فلسفہ تعلیم‬
‫سر سید کافلسفہ تعلیم جداگانہ تھا۔ وہ تعلیم سے مرادصرف لکھنا ‪،‬پڑھنا اور سیکھنا مراد نہیں‬
‫لیتے تھے بلکہ وہ تعلیم کو انسان کی ہمہ جہت ترقیاتی منصوبوں کا ضامن قرار دیتے تھے۔‬
‫وہ تعلیم کو اخالقی بلندی‪ ،‬مہذب رویہ اورذہنی کشادگی کا ایک بہترین وسیلہ سمجھتے تھے‬
‫اور ساتھ ساتھ اسے سماجی بہتری کا ٓالہ کار گردانتے تھے ۔وہ کہتے ہیںـــ’’مجھے اس سے‬
‫زیادہ خوشی نہیں کہ کسی نے بی۔اے یا ایم۔اے کی ڈگری حاصل کرلی بلکہ میری خوشی تو‬
‫’’ قوم کو قوم بنانے میں ہے اسی ضمن میں پھر فرماتے ہیں‬
‫عزیزو! تعلیم! اگر اس کے ساتھ تربیت نہ ہواور جس تعلیم سے قوم قوم نہ بن سکے۔ وہ تعلیم‬
‫در حقیقت کچھ قدر کے الئق نہیں ہے۔ پس انگریزی پڑھ لینا اور بی۔اے اور ایم۔اے ہو جانا‬
‫جب تک کہ اس کے ساتھ تربیت اور قومیت کی فیلنگنہ ہوہم قوم کو قوم اور ایک معزز قوم‬
‫‘‘نہیں بنا سکتے‬
‫۔سر سید تعلیم کے ساتھ تربیت کو الزمی سمجھتے ہیں۔ اُن کے نزدیک’ ’جوکچھ انسان میں‬
‫ہے۔ اس کو باہر نکالنا انسان کو ’تعلیم‘دینا ہے اوراس کو کسی کام کے الئق کرنا‪ ،‬اس کا‬
‫تربیت کرنا ہے‘‘۔اس طرسر سید کے مطابق تعلیم ایک جوہر ہے جس سے انسان کی اندرونی‬
‫خدا داد صالحتوں کو تحریک ملتی ہے اور وہ شگفتہ و شاداب ہو کر انسان کی ذاتی‬
‫‪،‬تہذیبی ‪،‬سماجی اور قومی و ملکی ترقی میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔‬
‫سر سید کے نزدیک اگر تعلیم کے ذریعہ انسان کے اندرون میںپوشیدہ صالحتیں نہیں نکھرتی‬
‫ہیں تو وہ بے کار‪ ،‬برائے نام تعلیم ہے جس کا اندازہ ہم موجودہ دور میں کر سکتے ہیں۔سر‬
‫سید کے خیال میں اگر کوئی انسان کتنا ہی نیک دل کیوں نہ ہوجب تک وہ عمدہ تعلیم و تربیت‬
‫سے ٓاراستہ نہیں ہوتا‪ ،‬اس وقت تک اس کی ہرخوبی اور اس کا ہر کمال اس کے اندر ہی‬
‫پوشیدہ رہتے ہیں اور اسکی شخصیت کی سچھی اور اچھی تصویر ابھر کر سامنے نہیں‬
‫ٓاپاتی۔اسی طرح عام مسلمانوں کی عموما ً اور ہندوستانی مسلمانوں کی خصوصا ً وہ ساری‬
‫اعلی‬
‫ٰ‬ ‫خرابیاں مثالً جہالت‪ U،‬تنگ نظری‪ ،‬تعصب‪ ،‬عیب جوی وغیرہ کو دور کرنے کے لئے‬
‫‪:‬تعلیم کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے سر سید فرماتے ہیں‬
‫میں اپنی قوم میں ہزاروں خوبیاں دیکھتا ہوں پرناشائستہ‪ ،‬ان میں جرٔات مندی اور بیباکی پاتا’’‬
‫ہوں پر خوفناک‪،‬ان میں قومی استقالل دیکھتاہوں پربے ڈھنگا‪،‬ان میں صبرو قناعت بھی ہے‬
‫پر بے موقع‪،‬پس میراد ل جلتا ہے اور میں خیال کرتا ہوں کہ اگر یہی انکی عمدہ صفتیں عمدہ‬
‫‘‘تعلیم و تربیت سے ٓاراستہ ہو جائیں تو دین و دنیا دونوں کے لئے کیسی کچھ مفید ہوں‬
‫سر سید کا فلسفہ تعلیم تین اہم اصولوں پر مبنی ہے۔ ایک علیگ عالم و مفکر وہ ہوگا جس کے‬
‫دائیں ہاتھ میں فلسفہ‪ ،‬بائیں ہاتھ میں سائنس اور ٹیکنالوجی اور سر پر کلمہ طیبہ کا تاج۔ تمام‬
‫کے تمام امور کوسمجھنے کے لئے فلسفہ کا ادراک ہونا از حد ضروری ہے گویا علم المعاملہ‬
‫مین عقلی دالئل‪ ،‬حاالت کا منطقی جائزہ‪ ،‬فہم وفراست کا درست استعمال اور زندگی کے تمام‬
‫شعبہ جات مین تدبّر‪ ،‬تعقّل‪ ،‬تف ّکر سے کام لیا جائے تاکہ انسان میں بردباری‪ ،‬نیکی‪ ،‬خوشی‬
‫اخالقی‪ ،‬کشادہ دلی اور انسانی خدمت کے جذبات جگہ پا سکیں۔ سائنسی مزاج اور روز مرہ‬
‫کی ضرورتوں کو پورا کرنے اور ترقیاتی میدانوں میں ٓاگے بڑھنے کے لئے ٹکنالوجی کو‬
‫اپنانے کی ضرورت ہے۔ لہذا سائنسی علوم‪ ،‬انگریزی اور دوسری زبانوں کی بھی مہارت‬
‫ہونا الذمی ہے۔ تیرا اہم اصول تو حید اور رسالت کا ہے جس پر مسلمانوںکی اساس ٹکی ہے‬
‫لہذا فلسفہ‪ ،‬سائنس اور دیگر سارے علوم کو حاصل کرتے ہوئے ان کے استعمال میں یہ یاد‬
‫رکھنا ضروری ہے کہ پورا تعلیمی مشن تو حید اور رسالت کے مطابق ہو‪ ،‬وہ لکھتے ہیں‪’’ ،‬‬
‫اس بات کی خوشی کہ مسلمان مختلف علوم و فنون میں ترقی کریں اسی وقت ہو سکتی ہے‬
‫جبکہ دنیاوی علوم کے ساتھ مذہبی تعلیم و تربیت میں بھی وہ ترقی کریں‘‘۔‬
‫سر سید کے فلسفہ تعلیم کے بر عکس ٓاج اکیسویں صدی کی مسلم دنیا کا جب ہم بغور مطالعہ‬
‫کرتے ہیں۔ تویہ پاتے ہیں کہ تعلیمی میدان میں ہمارا مقام جو ہونا چاہئے تھا وہ نہیں ہے۔ اگر‬
‫ت حال مایوس ُکن نہیںمگر بہت بہتر بھی نہیں۔ مدرسوں کا حال دیکھئے‪ ،‬علما کی‬ ‫چہ صور ِ‬
‫تبلیغات کو سنئے‪ ،‬یونیورسٹیوں کی تعلیم کا جائزہ لیجئے‪ ،‬پڑھے لکھے بے روذگار‬
‫نوجوانوں پر نظرڈالئے ‪،‬ہر طرف سوائے مایوسی کے کچھ بھی حاصل نہیں۔ خاص کران دو‬
‫صدیوں میں ہمارے کپڑے اور زیور ہی بدلے ہیں فکر و تحقیق نہیں۔ اب تو تعلیم‪ ،‬خواہ دینی‬
‫ہو یا دنیاوی‪ ،‬کمرشل ہو گئی ہے اور ہم سب کھڑے تماشا ہی بنے دیکھ رہے ہیں ۔اب سماج کا‬
‫ہر ٓادمی عام طور پر یہ کہتا ہے کہ سماج اور دین و مذہب کی خرابیوں کا ذمہ دار’’پڑھا لکھا‬
‫طبقہ‘‘ ہے نہ کہ جاہل و اَن پڑھ۔ سر سید اپنے دور میں بھی یہ کہتے نظر ٓاتے ہیں۔ ’’ہم اپنے‬
‫قوی بالکل نیست ‪ ‬و نابود ہو‬‫ہاںکے عالموں کا حال بالکل ہی دیکھتے ہیں‪ :‬کہ ان کے روحانی ٰ‬
‫قابل‬
‫جاتے ہیں‪ ،‬اور صرف زبانی بک بک یا تکبر و غرور‪ ،‬اور اپنے کو بے مثل و نظیر‪ِ ،‬‬
‫ادب سمجھنے کے اور کچھ باقی نہیں رہتا‪ ،‬زندہ ہوتے ہیں مگر دلی اور روحانی ٰ‬
‫قوی کی‬
‫شگفتگی کے اعتبار سے بالکل مردار ہوتے ہیں۔۔ اور ہماری حالت تمام معامالت میں‪ ،‬کیا دین‬
‫کے کیا دنیا کے‪ ،‬خراب ہوئی چلی جاتی ہے۔‬
‫سر سید احمد خاں مسلمانوں کو دینی اور دنیاوی علوم دونوں دالنے کے حق میں تھے۔‬
‫‪REFRENCES:‬‬
‫مقاالت سر سید‪ ،‬صفحہ‪۸۱ :‬‬
‫مقاالت سرسید‪ ،‬مرتب‪:‬محمدعبد ہللا خویشگی صفحات‪۷۶ U:‬۔‪۷۷‬‬
‫ٗ‬
‫اقرا‬ ‫مفتی محمد نعیم میگزین‬

‫سوال نمبر‪ :۳‬مثالیت پسندی بطور اہم فلسفہ کی نوعیت پر روشنی ڈالیں۔‬
‫‪:‬ج واب‬
‫ے؟‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫دی‬ ‫مث ا ت پ س ن‬
‫یہ‬ ‫لی‬
‫مثالیت پسندی کا فلسفہ‪ ،‬ایک نظریہ حقیقت اور علم ہے جو کہ شعور یا غیر مادی ذہن‪،‬ہے اور‬
‫یہ دنیا ک کی فکریات میں ایک بنیادی کردار تو کرتا ہے مگر اس کی صفات‪ U‬بھی بہت ہیںاگر‬
‫ہم مابعدالطبیعیات حوالے سے دیکھیں تو تمام جسمانی معروضیت کے ہوتے ہوئے اس کو ہم‬
‫اپنے ہوش میں ہوتے ہوئے اس کے وجود داخلیت پر انحصار کرلیتے ہیں۔‬
‫اشیاء آپس میں اس کے بجائے تمام وجود کی حتمی معقولیت کے لیے دلیل دیتے ہوئے اپنی‬
‫کم علمی یا ناگزیر انسانی کی جہالت کو بھی کھول کر سامنے رکھ دیتے ہیں ۔ ہیگل کے بقول‬
‫انسانی روح (ثقافت‪ ،‬سائنس‪ ،‬مذہب اور ریاست) سب سے زیادہ کامیابیوں سے ہم کنار ذہن‬
‫میں قدرتی طور پر عزم عمل کا نتیجہ نہیں ہوتے۔‬

‫تمام فلسفے مادیت پسندی ”مٹیریل ازم“ یا مثالیت پسندی یعنی ”آئیڈیل ازم“ کے رجحانات میں‬
‫اور پھر ان کے ماتحت ذیلی رجحانوں میں تقسیم ہیں۔ قدیم ہندوستانی مادیت پسند فلسفے‬
‫”لوکایتا‪/‬چارواکیہ“ اور قدیم یونانی مادیت پسند فلسفے کے افکار نے ہی آگے چل کر سائنس‬
‫مظاہر فطرت اور فطری عوامل کی توجیح و تشریح‬ ‫ِ‬ ‫کی داغ بیل ڈالی۔ مادیت پسند مفکرین نے‬
‫مادی اشیا کے ذریعے کی اور مادے یا کائنات سے ماورا کسی محیرالعقول ہستی کے مسبب‬
‫االسباب ہونے کے خیال سے اتفاق نہیں کیا۔‬

‫مثالیت پسندی کا رجحان رکھنے والے مفکرین نے مذہب‪ ،‬روحانیت‪ U،‬تصوف‪،‬توہم پرستی‬
‫مظاہر فطرت اور فطری عوامل‬
‫ِ‬ ‫وغیرہ کی مختلف شکلیں اختیار کیں اور کائنات میں موجود‬
‫کی توجیح و تشریح کے لیے ماورائے وجود ہستیوں یا ان کے ”تصورات“ کا سہارا لیا۔ اس‬
‫فرق کو عام زندگی کی اس مثال سے باآسانی سمجھا جا سکتا ہے کہ جب کوئی شخص بیمار‬
‫ہوتا ہے تو اس کے عالج کا مادیت پسندانہ طریقہ یہ ہے کہ وہ کسی ڈاکٹر سے معائنہ‬
‫کروائے اور ”دوا“ استعمال کرے جب کہ مثالیت پسندانہ طریقہ یہ ہے وہ کسی پیر یا فقیر‬
‫سے جڑی بوٹی یا تعویذ یا دم کیے ہوئے پانی سے ”شفا“ حاصل کرنے کی کوشش کرے‬

‫مثالیت پسندی سے متاثر حلقوں نے‪ ،‬خصوصٓا پادریوں‪ ،‬مولویوں‪ ،‬علما‪ ،‬توہم پرستوں وغیرہ‬
‫نے مادیت پسندی کی مخالفت میں اسے مال و دولت کی ہوس اور دنیا پرستی سے تعبیر کیا‬
‫اور یہ تاثر پیدا کیا کہ مادیت پسند لوگوں کی زندگی کا محور دھن دولت اور دنیاوی چیزوں‬
‫کا حصول ہوتا ہے جس کے سبب وہ اخالقی گراوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس سے بچاؤ کا‬
‫طریقہ یہ بتایا گیا کہ دنیاوی خواہشات یا ضروریات کو ترک یا کم سے کم کر دیا جائے اور‬
‫خالق حقیقی سے لو لگائی جائے‪.‬‬ ‫ِ‬
‫پ ن ب ہ ف ف‬
‫مث الی ت س دی طورا م لس ہ‪:‬‬
‫عملی مثالیت پسندی ایک ایسا فلسفہ ہے جو اخالقی اصول نافذ کرنے کو ایک اخالقی فرض‬
‫گردانتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ اس بات کو غیر اخالقی تصور کرتا ہے کہ ارفع اخالقی مقاصد‬
‫کے حصول کیلئے ضروری سمجھوتے نہ کئے جائیں ۔ اور اس بات کو بھی غیر اخالقی‬
‫تصور کرتا ہے کہ مصلحت کے نام پر اخالقیات‪ U‬اور مثالیت پسندی کو ہی رد کر دیا‬
‫جائےامریکی سیاست میں یہ اصطالح بہت زیادہ استعمال ہوتی ہے۔ نکسن‪ ،‬الگور‪ ،‬کونڈلیزا‬
‫رائس جیسے امریکی سیاستدان اپنی سیاست کو عملی مثالیت پسندی کا نتیجہ خیال کرتے‬
‫تھے۔ اس فلسفے میں میری دلچسپی کی وجہ یہ ہے کہ یہ فلسفہ ’’زمینی حقائق‘‘ کے ساتھ‬
‫سمجھوتے کرنے کو اخالقی لحاظ سے نہ صرف درست خیال کرتا ہے بلکہ ایسا نہ کرنے کو‬
‫غیر اخالقی تصور کرتا ہے‪ ،‬شرط صرف یہ ہے کہ سمجھوتے اعلی اورارفع مقاصد کے‬
‫حصول کی خاطر ہوں۔اس فلسفے کو میکاولی کے بے رحم سیاسی مفاد پرستی کے فلسفے‬
‫کے متبادل کے طور پر لیا جاتا ہے۔ویسے تو کسی بھی معاشرے میں ایسے لوگ بہت کم‬
‫ہوتے ہیں جو عملی زندگی میں اخالقی اقدارکے مطابق فیصلے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‬
‫تقریباًتمام مذاہب کی اخالقی تعلیمات بھی ایک فرد کو مثالیت پسند بننے پر زور دیتی ہیں‬

‫عمانوایل کانٹ کا نظریہ‬


‫جرمن فلسفہ نے انیسویں صدی کے دوران غلبہ پایا اور یہ عمانوایل کانٹ کی بدولت ممکن‬
‫ہوا۔ اس کے مثالیت پسند (ٓائیڈیل ازم) فلسفہ نے فلسفیانہ سوچ کا دھارا یکسر تبدیل کر دیا۔ اس‬
‫دعوی تھا کہ ہم کبھی بھی ایسی چیزوں کے بارے میں کوئی چیز نہیں جان‬ ‫ٰ‬ ‫کے فلسفہ کا‬
‫سکتے جو ہماری ذات سے ہٹ کر پائی جاتی ہے۔ اگرچہ وہ ہیوم اور روسو سے محض چند‬
‫برس چھوٹا تھا لیکن کانٹ کا تعلق بہر حال اگلی نسل سے تھا اس نے اپنا کام ان کی وفات‬
‫کے بعد کیا۔‬
‫کانٹ کے پیروکاروں میں فشے‪ ،‬شیلنگ اور ہیگل شامل تھے۔ یہ سب مل کر جرمن ’’مثالیت‬
‫پسند‘‘ کے طور پر جانے گئے۔ لیکن شوپن ہار کو بھی اسی صف میں شامل کیا گیا۔ اس کی‬
‫کانٹ کے فلسفہ کی مخصوص تعبیر میں مشرقی فلسفہ کے خیاالت مدغم تھے۔ ہیگل سخت‬
‫گیر ’’مثالیت پسند‘‘ تھا۔ اس کے پیروکار کارل مارکس نے خوبصورتی کے ساتھ جرمن‬
‫فلسفیانہ طریقوں‪ ،‬فرانسیسی انقالبی سیاسی فلسفہ اور برطانوی معاشی نظریہ کو اکٹھا کر دیا۔‬
‫فلسفہ ایک کمپیکٹ ڈسپلن ہے جو اپنے آپ میں بہت سارے اصول پیدا کرتا ہے۔ ان دونوں‬
‫شرائط کو غیر رسمی طور پر فلسفہ کی دو شاخیں کہا جاتا ہے اور اس میں کچھ نمایاں‬
‫اختالفات ہیں۔ ان دونوں کے درمیان بنیادی فرق یہ ہے کہ فطرت واحد حقیقت ہے کیونکہ یہ‬
‫ایک کمپیکٹ نظام ہے اور جسمانی دنیا اس کی تعمیل میں حکمرانی کرتی ہے۔ اگرچہ‬
‫‪،‬مثالیت پسندی خود ساختہ ہے اور اس حقیقت سے بھی متضاد ہے جو اس دنیا میں موجود‬
‫ہے۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ مثالیت پسندی کسی ایسی چیز کو قبول کرنا یا اس پر یقین‬
‫کرنا ہے جو آپ کے ذاتی خیال پر مبنی ہو اور اس کی کوئی زیادہ اہمیت نہیں ہوگی کیونکہ‬
‫اسے عالمی سطح پر کبھی قبول نہیں کیا گیا۔‬
‫افالطون کا مثالیت پسندی کا نظریہ‬
‫فسفیانہ سائنس میں موجودہ مقصد قدیم زمانے میں ظاہر ہ‪UU‬وا تھ‪UU‬ا۔ ان برس‪UU‬وں میں ‪ ،‬ل‪UU‬وگ ابھی‬
‫بھی اپ‪UU‬نی تعلیم‪UU‬ات ک‪UU‬و اس ط‪UU‬رح ک‪UU‬ا ش‪UU‬ریک نہیں ک‪UU‬رتے تھے ‪ ،‬لہ‪UU‬ذا یہ ن‪UU‬ام موج‪UU‬ود نہیں تھ‪UU‬ا۔‬
‫معروضی آئیڈیالوزم کا باپ افالطون سمجھا جاتا ہے ‪ ،‬جس نے لوگوں کو پوری دنیا کو متکلم‬
‫اور الہی کہانیوں کے فریم ورک میں ختم کیا۔ ان کا ایک بیان صدیوں سے گ‪UU‬زر چک‪UU‬ا ہے اور‬
‫اب بھی تمام مثالی پرستوں کا ایک متنازعہ نع‪UU‬رہ ہے۔ یہ حقیقت پس‪UU‬ندی میں مبتال ہے ‪ ،‬مث‪UU‬الی‬
‫نظریہ ایک ایسا شخص ہے جو معمولی مشکالت اور پریش‪UU‬انیوں کے ب‪UU‬اوجود اعلی ہم آہنگی ‪،‬‬
‫اعلی نظری‪UU‬وں کے ل‪UU‬ئے جدوجہ‪UU‬د کرت‪UU‬ا ہے۔ ن‪UU‬وادرات میں ‪ ،‬اس‪UU‬ی ط‪UU‬رح کے ک‪UU‬ورس کی بھی‬
‫پروکلس اور پالٹینس نے حمایت کی۔‬
‫فلسفے میں ‪ ،‬آئیڈیالوزم کو فلسفیانہ فکر کی شاخ کہا جاتا ہے جو اپنے نظریات کو نظریہ کی‬
‫خوبی پر مبنی رکھتا ہے جو مادہ پرستی کے مخالف ہونے کے باوجود ‪ ،‬جاننے کے اصول‬
‫اشیاء ‪ objects‬کے طور پر نظریات کی تائید کرتی ہے۔ اس لحاظ سے ‪ ،‬آئیڈیالوجی کے ل‬
‫موجود نہیں ہوسکتی ہیں اگر ان کا خیال ذہن سے نہیں ہوا ہو جو ان سے واقف ہو۔ اس طرح‬
‫کی اصطالح سترہویں صدی میں پہلی بار فلسفہ فلسفہ کے حوالے سے استعمال‬
‫ہوئی‪ ‬افالطون‪ ،‬جس کے مطابق حقیقی حقیقت خیاالت کی ہوتی ہے ‪ ،‬اور مادی چیزیں نہیں۔‬
‫ایسے ہی ‪ ،‬آئیڈیالوجی کی دو مختلف قسمیں ہیں‪ :‬معروضی آئیڈیلزم اور ساپیکش آئیڈیل ازم۔۔‬
‫‪References:‬‬
‫‪1. Idealism and Philosophy of Education‬‬
‫‪By Plato, Aristotle, John Dewey, and Rousseau among others.‬‬
‫سوال نمبر ‪ :۴‬طلب ٗا کی وقوفی ترقی اور بہتر نتائج حاصل کرنے کے لئے استاد کو‬
‫کون سی وقوفی تدریسی حکمت عملیاں استعمال کرنی چاہیے؟ بحث کریں‬
‫‪:‬جواب‬

‫وقوفی تدریس‬
‫(‪)Cognitive teaching‬‬
‫سی ک ن‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ث ق‬ ‫ق‬ ‫سی ک ن‬
‫ے‬‫ھ‬ ‫ے۔‬‫ی ہ‬‫ا‬ ‫ت‬ ‫د‬ ‫مدد‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ے‬ ‫کر‬ ‫عمال‬ ‫س‬‫ا‬ ‫سے‬
‫ی ف ئ ت‬ ‫ے‬ ‫طر‬ ‫ر‬ ‫مو‬ ‫ادہ‬ ‫ی‬‫ز‬ ‫کو‬ ‫دماغ‬ ‫کے‬ ‫ان‬ ‫کو‬ ‫ا‬ ‫ب‬ ‫ل‬‫ط‬ ‫و‬ ‫ج‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫طر‬ ‫ایسا‬
‫ت‬ ‫ک‬ ‫ی‬‫ا‬ ‫کا‬ ‫ے‬‫ھ‬
‫ن‬ ‫ک‬ ‫ی‬ ‫ف‬ ‫ق‬
‫ے کے عمل می ں‬ ‫ے کہ وہ س ھ‬ ‫ے۔ اس سے طل ب ا کو حوصلہ ائزا ی ہ و ی ہ‬ ‫ری اور دیرپ ا ہ‬ ‫عال ‪ ،‬عمی‬ ‫ش‬ ‫کا ی ہ طری ہ‬
‫ت‬ ‫غ‬
‫وری طرح م ول ہ وں اکہ سی کھ ن ا ‪ ،‬سوچ ن ا اور ی اد رکھ ن ا آسان ہ وج اے۔‬ ‫پق ف‬
‫ت‬
‫و و ی دری سی حکمت عمل ی اں‪:‬‬
‫طریقہ تدریسں کا برا ِہ راست تعلق سبق کی پیش کش سے ہوتا ہے۔ ایک استاد مختلف مضامین‬
‫پڑھانے کے لیے مختلف طریقہ تدریس کا استعمال کرتا ہے جس کا انحصار ذیادہ تر مضمون‬
‫کی نوعیت اور استاد کے اختیار کردہ طریقہ پر ہوتا ہے۔ ان طریقوں کو بعض اوقات تدریسی‬
‫حکمت عملی یا ترکیب کہا جاتا ہے۔ تعلیم کے میدان میں ترقی سے طریقہ تدریس بھی تبدیل‬
‫ہو چکے ہیں۔ روایتی طریقہ تدریس میں استاد لیکچر دیتا تھا اور طلباء نوٹس لیتے تھے۔ ہو‬
‫سکتا ہے کہ یہ طریقہ آج بھی کارگر ہومگر تعلیمی ارتقاء کی وجہ سے آج اساتذہ اپنے بچوں‬
‫کے تجسس کو ابھارنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے‬
‫طلباء غیر روایتی انداز میں سوچیں۔‬
‫ت عملیوں اور طریقہ تدریس میں مہارت حاصل‪ U‬کرنے میں‬ ‫اس سیکشن سے آپ کو ان حکم ِ‬
‫مدد ملے گی اور ہم آپ کی مدد کریں گے کہ کس طرح سے آپ نئے انداز اپنا کر اپنی تدریس‬
‫کو ذیادہ موثر اور دلچسپ بنا سکتے ہیں۔‬
‫سر گرمی اور کردار نگاری‪:‬‬
‫زیر‬
‫ت عملی ہے جو کہ سماجی سائنس کے ِ‬
‫رول پلے یا کردار نبھانا ایک ایسی تدریسی حکم ِ‬
‫اثر آتی ہے۔‬
‫پراجیکٹ طریقہ کار‪:‬‬
‫اس اپروچ کے تحت استاد اپنے بچوں کے دل اور دماغ کو مشغول کرکے ان میں گہرائی‬
‫سے سوچنے کا ایک راستہ فراہم کرتے ہیں۔‬
‫ڈسکیشن کا طریقہ‪:‬‬
‫ڈسکشن میتھڈ کی ضرورت ہے کہ طلباء اچھی طرح سے تیاری کرکے کالس روم میں آئیں۔‬
‫طلباء کو اس بات کے لیے ترغیب دینا۔‬
‫بحث و مباحثہ‪:‬‬
‫بحث کا آغاز بچوں کو اس بات کی اجازت دے کر کریں کہ وہ کردار نبھانے کے دوران اپنے‬
‫محسوسات کو بیان کریں۔‬
‫تدریسی اصولوں سے باخبر استاد بنیادی تدریسی و نفسیاتی اصولوں کی یکجائی سے تعلیم و‪ ‬‬
‫اکتساب کو طلبہ مرکوز بنادیتا ہے۔ذیل میں اہمیت کے حامل چند نمایاں تدریسی وقوفی حکمت‬
‫عملی کو بیان کیا جارہاہے ۔‬

‫‪ ‬ترغیب و محرکہ تدریسی اصولوں میں اساسی حیثیت کا حامل ہے۔طلبہ میں تحریک و‬
‫ترغیب پیدا کیئے بغیر موثر تدریس کو انجام نہیں دیا جاسکتا۔ طلبہ میں اکتسابی میالن‬
‫ترغیب و تحریک کے مرہون منت جاگزیں ہوتاہے۔ حصول علم‪ ،‬پائیدار اکتساب اور‬
‫علم سے کسب فیض حاصل کرنے کے لئے طلبہمیں دلچسپی اور تحریک پیدا کرنا بہت‬
‫ضروری ہوتا ہے۔فعال و ثمر آور اکتساب ترغیب و تحریک کے زیر اثر ہی ممکن ہے۔‬
‫تدریس میں ہر مقام پر طلبہ میں محرکہ کا مطالبہ کرتی ہے۔ بغیر محرکہ پیدا کیئے‬
‫کامیاب اکتساب ممکن ہی نہیں ہے۔اکتسابی دلچسپیوں کی برقراری کے لئے محرکہ‬
‫بہت اہم ہے۔محرکہ کی وجہ سے طلبہ میں اکتساب کی تمنا انگڑائی لیتی ہے۔‬

‫‪ ‬درس و تدریس استاد اور طالب علم پر مبنی ایک دوطرفہ عمل ہے۔موثر تدریس اور‬
‫کامیاب اکتساب کے لئے تعلیمی عمل میں استاد اور شاگرد دونوں کی سرگرم شرکت‬
‫الزمی تصور کی جاتی ہے۔تعلیمی سرگرمیوں کے بغیر تدریسی عمل بے کیف اور عدم‬
‫دلچسپ بن جاتا ہے۔طلبہ میں اکتسابی دلچسپی کی نمو ‪،‬فروغ اور برقراری میں تعلیمی‬
‫سرگرمیاں بہت اہم ہوتی ہیں۔ کامیاب اکتساب اور موثر تدریس میں محرکہ کے بعد سب‬
‫سے نمایاں مقام سرگرمیوں پر مبنی تدریس و اکتساب ( ‪Activity Based‬‬
‫‪)Teaching‬کو حاصل ہے۔ سرگرمیوں پر مبنیتدریس طلبہ میں تعلیم سے دلچسپی‬
‫‪،‬شوق و ذوق پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے۔سرگرمیوں کے زیر اثر طلبہ میں نصابی‬
‫مہارتیں فروغ پانے لگتی ہیں۔سرگرمیوں کے زیر اثر انجام پانے والی تدریس اور‬
‫اکتساب موثر اور پائیدار واقع ہوتے ہیں۔سرگرمیوں کے ذریعے طلبہ میں عملی اکتساب‬
‫(‪)Practical Learning‬فروغ پاتی ہے۔تدریسی اصولوں میں سرگرمیوں پر مبنی‬
‫تدریس کو بہت اہمیت حاصل ہے اسی لئے اساتذہ اپنی تدریس کو کامیابی سے ہمکنار‬
‫کرنے کے لئے سرگرمیوں(‪)activities‬کو اپنی تدریس کا الزمی جزو بنا لیں‬
‫‪ ‬‬
‫دوران تدریس استاد جو حکمت عملی اختیار کرتا ہے اسے تدریسی حکمت عملی یا‬ ‫‪‬‬
‫طریقہ تدریس کہتے ہیں۔تدریسی طریقہ کار معلومات کی منتقلی اورطلبہ میں علم سے‬
‫محبت و دلچسپی پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔تدریس دراصل معلومات کی‬
‫منتقلی کا نام نہیں ہے بلکہ طلبہ میں ذوق و شوق کو پیدا کرنے کا نام ہے۔ طلبہ میں علم‬
‫کا ذوق و شو ق اگر پیدا کردیا جائے تب اپنی منزلیں وہ خود تالش کرلیتے ہیں۔ایک‬
‫کامیاب استاد اپنے طریقہ تدریس سے طلبہ میں معلومات کی منتقلی سے زیادہ شوق و‬
‫ذوق کی بیداری کو اہمیت دیتا ہے۔وہ تدریسی حکمت عملی اور طریقہ کار کامیاب‬
‫کہالتا ہے جو بچوں میں اکتساب کی دلچسپی کو برقرار رکھے ۔اساتذہ طلبہ میں‬
‫اکتسابی دلچسپی کی برقراری کے لئے تدریسی معاون‬
‫اشیاء(چارٹ‪،‬نقشے‪،‬خاکے‪،‬تصاویر‪،‬قصے ‪،‬کہانیوں‪،‬دلچسپ مکالموں اور فقروں) کو‬
‫اپنی تدریسی حکمت عملی میں شامل رکھیں۔‬
‫‪ ‬اختیار کردہ تعلیمی پروگرام اور سرگرمیوں کے پہلے سے طئے شدہ مقاصد ہونے‬
‫چاہیئے۔ اور ان مقاصد کے حصول کے لئے مناسب الئحہ عمل کے تحت اساتذہ کو‬
‫تعلیمی سرگرمیوں کو منتخب کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔مبنی بر مقاصد تعلیمی‬
‫سرگرمیاں تعلیمی اقدار کی سربلندی اور بامعنی اکتساب میں بہت معاون ہوتی ہیں۔‬
‫تعلیمی سرگرمیاں تعلیمی مقاصد سے مربوط ہونی چاہیئے۔ورنہ تعلیمی مقاصد کا‬
‫حصول اور بامقصد اکتساب دونوں بھی ناممکن ہوجاتے ہیں۔‬
‫(‪)5‬اساتذہ تدریسی تنوع کے لئے جہاں مختلف سرگرمیوں سے کام لیتے ہیں وہیں‬
‫تدریس کے دوران انھیں ایک بات کا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہو تی ہے اور‬
‫یہ توجہ تدریس کا سب سے اہم اصول ہے اور وہ ہے بچہ کی انفرادیت کا احترام ۔بچے‬
‫کی انفرادیت اور اس کی شخصیت کو کوئی نقصان پہنچائے بغیر اساتذہ کو تدریسی‬
‫خدمات انجام دینی چاہیئے۔دوران تدریس بچے کی انفرادیت اور اس کے اکتسابی تنوع (‬
‫‪)Learning Diversities‬کا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔کیونکہ ہر‬
‫بچے کی ذہنی صالحیت ‪ ،‬ذہانت ‪ ،‬جذباتیت‪ ،‬احساس دلچسپی اور ضروریا ت میں‬
‫نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔ان تمام امور کو مد نظر رکھتے ہوئے اساتذہ کو تدریسی‬
‫فرائض انجام دینا ضروری ہوتا ہے۔اساتذہ جب طلبہ کی شخصیت اور انفرادیت کو‬
‫ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنے فرائض انجام دیتے ہیں تب استاد اور شاگرد میں ایک‬
‫اٹوٹ وابستگی پیدا ہوجاتی ہے اور کند ذہن سے کند ذہن طالب علم بھی تعلیم میں‬
‫دلچسپی لینے لگتا ہے ۔طلبہ کی انفرادیت اور اکتسابی تنوع کا خیال رکھنے سے ایک‬
‫بہت ہی خوش گوار تدریسی اور اکتسابی فضا جنم لیتی ہے۔اور اس فضاء میں ہر بچہ‬
‫خود کو نہایت اہم اور خاص تصور کرنے لگتا ہے۔ تعلیمی و تدریسی حکمت عملی‬
‫اختیار کرتے وقت اساتذہ طلبہ کے تنوع اور انفرادیت کا بطور خاص خیال رکھیں۔‬
‫‪ ‬موثر تدریس ‪،‬بہتر اکتساب اور طلبہ میں تخلیقیت اور اختراعی صالحیتوں کی نمو و‬
‫فروغ کے لئے اساتذہ تخلیقی اور اختراعی طریقہ ہائے تدریس کو بروئے کار الئیں۔ طلبہ‬
‫میں ہر قسم کی تخلیقی صالحیتوں کو پروان چڑھانا ضروری ہوتا ہے اور تخلیقی تدریس‬
‫می ں ایک اہم عنصر تصور کی جاتی ہے۔تخلیقی صالحیتوں کو فروغ‬ ‫اس اہم کام کی تکمیل ٖ‬
‫دینے والی تدریسی اقداربامقصد اور ثمر آور اکتساب میں کلیدی کردار انجام دیتے ہیں‬
‫تدریس کو معقول موثر اور طلبہ کے لئے دلچسپ بنانے کے لئے اساتذہ ‪ ،‬بہتر سے بہتر‬ ‫‪‬‬
‫طریقہ تدریس(‪،)Teaching methods‬تدریسی حکمت عملی(‪teaching‬‬
‫‪،)strategies‬تعلیمی معاون اشیاء (‪)Teaching aids‬اور دیگر وسائل کا بر موقع استعمال‬
‫کرنے میں غایت درجہ کی احتیاط سے کام لیں۔موثر تدریس مناسب طریقہ تدریس کے‬
‫انتخاب کا دوسرا نام ہے۔ اسی لئے اساتذہ کمرۂ جماعت ‪،‬طلبہ کی استعداد‪ ،‬اور ذہنی تنوع‬
‫کو مد نظر رکھتے ہوئے تدریسی طریقوں کا انتخاب کریں ۔‬
‫تعلیم و تدریس کا اہم مقصد طلبہ میں صحت مند اقدار کی منتقلی ‪،‬صحت‪ U‬مند رویوں ‪،‬‬ ‫‪‬‬
‫عادات کی تشکیل و استحکام‪،‬نظم و ضبط(‪ )discipline‬کا فروغ ‪،‬کردار سازی‪ ،‬زندگی‬
‫میں معاون مہارتوں اور عزت نفس کا فروغ ہے۔وہ تعلیم بامقصد اور کارآمد تصور کی‬
‫جاتی ہے جو ہر طالب علم کو ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرنے کے ساتھ ایک‬
‫بامقصد اور کارآمد زندگی کے لئے کو تیار کیا جاتا ہے ۔مذکورہ مقاصد کے پیش نظر‬
‫درس و تدریس کو طلبہ کی شخصی ترقی کا ایک اہم ذریعہ تصور کیا گیا ہے۔ اساتذہ‬
‫ایسی تدریسی حکمت عملی اور طریقوں کو بروئے کار الئیں جو طلبہ کی شخصی‬
‫ترقی اور استحکام کا باعث بنے۔‬
‫اعادہ (‪)Recapitulation‬اور تعین قدر ‪،‬جانچ (‪ )Evaluation‬اکتساب کی ترقی اور‬ ‫‪‬‬
‫تدریس کی تاثیر کا پتا چلتا ہے۔ اسی لئے ایسی تدریس کامیاب تصور کی جاتی ہے جس‬
‫میں طلبہ کی مسلسل جانچ اور اعادہ کی کنجائش فراہم کی جاتی ہے۔ اساتذہ موثر‬
‫تدریس اور مستحکم اکتساب کے لئے اپنی تدریسی حکمت عملی میں جانچ (تعین قدر)‬
‫اور اعادہ (‪)Recapitulation‬کو الزما جگہ دیں۔مسلسل جانچ و تعین قدر کے ذریعہ‬
‫استاد طلبہ کی اکتسابی ترقی کی جانچ و پیمائش کو انجام دیتا ہے ۔جانچ و تعین قدر کے‬
‫ذریعہ استاد طلبہ کی اکتسابی ترقی میں مانع عوامل سے واقف ہوتا ہے۔ جانچ و تعین‬
‫قدر ہی اساتذہ کو اصالحی تدریس کے طریقے وضع کرنے میں مددفراہم کرتا ہے۔‬
‫اساتذہ طلبہ کی جانچ و پیمائش کے بعد اصالحی تدریس کے ذریعہ اکتسابی کوتاہیوں‬
‫اور کمزوریوں کو دور کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ اساتذہ اپنی تدریسی سرگرمیوں میں‬
‫طلبہ کی مسلسل جامع جانچ ‪،‬اکتسابی ‪ ،‬اخالقی اور برتاؤ کی ترقی کے لئے مکمل‬
‫گنجائش اور مواقع فراہم کریں۔‬
‫طلبہ میں خوش گوار اکتساب کے فروغ کے لئے مختلف اوقات اور مراحل میں طلبہ‬ ‫‪‬‬
‫کی نفسیات اور اپنی تدریسی سطح پر اساتذہ کا نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔نفسیاتی‬
‫اور ذہنی صالحیتوں کو پیش نظر رکھ کر اساتذہ طریقہ تدریس کو اپنائیں تاکہ تدریس‬
‫کو طلبہ مرکوز بنایا جاسکے۔وہ تدریس بہتر مانی جاتی ہے جس میں نفسیاتی عوامل پر‬
‫توجہمرکوز کی جاتی ہے اور نفساتی تقاضوں کے عین مطابق طریقہ تدریس اور‬
‫تدریسی حکمت عملی وضع واختیار کی جاتی ہے‬
‫‪ ‬تدریس عمل کو جدید تکنیکی و تخلیقی نظریات سیہم آہنگ کرتے ہوئیمزید بہتر‬
‫اورعصری تقاضوں کے عین مطابق بنایا جاسکتا ہے۔اساتذہ نئے تعلیمی رجحانات‪ U‬اور‬
‫اختراعی و تکنیکی وسائل سے مطابقت پیدا کرتے ہوئے اکتساب کے عمل کو پر‬
‫کیف ‪،‬پائیدار‪،‬موثر اور یاد گار عمل بنا سکتے ہیں۔تجربوں اور تجزیات پر مبنی تدریس‬
‫نہ صرف موثر بلکہ پائیدار بھی ہوتی ہے۔تعلیمی دنیا میں وقوع پذیر تبدیلیوں سے‬
‫اساتذہ کا واقف ہونا ضروری ہے۔ اساتذہ اپنی صالحیتوں کو عصری تقاضوں کے عین‬
‫مطابق بناکر طلبہ کو تعلیمی عمل میں مزید فعال اور سرگرم بناسکتے ہیں۔عصری‬
‫تقاضوں سے نا واقف اساتذہ معلومات میں اضافہ تو کجا طلبہ کی رہی سہی صالحیتوں‬
‫کے بے دردانہ قتل کے مرتکب ہوجاتے ہیں۔ایک بہتر استاد تدریس کے اساسی پہلوؤں‬
‫سے سرموئے انحراف کیئے بغیر نئے تدریسی تجربات و طریقوں کو ایجاد و اختیار‬
‫کرتا ہے۔‬
‫تدریسی اصولوں پر عمل کرتے ہوئے استاد نہ صرف اپنی تدریسی صالحیتوں کو‬
‫فروغ دیتا ہے بلکہ معیاری اکتساب کو پروان چڑھانے میں کامیابی بھی حاصل کرتا‬
‫ہے۔تدریسی اصولوں پر عمل پیرائی کے ذریعہ مشکل اور گنجلک تدریسی مسائل آسان‬
‫اور سہل ہوجاتے ہیں۔ تدریسی اصول کے ذریعے نہ صرف استاد الجھن اور پریشانی‬
‫سے محفوظ رہتا ہے بلکہ طلبہ بھی تشکیک اور تشویش سے مامون رہتے ہیں۔استاد کا‬
‫میکانکی انداز میں سبق پڑھا نا طلبہ کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ زمانے قدیم سے‬
‫یہ بات کہی جاتی رہی ہے کہ طلبہ میں علم حاصل کرنے کے لئے شوق و ذوق بہت‬
‫ضروری ہے۔ میری نظر میں جس طرح حصول علم کے لئے طلبہ میں شو ق و ذوق‬
‫ضروری ہے بالکل اسی طرح موثر تدریس کے لئے استا د میں بھی تدریس افعال کی‬
‫انجام دہی کے لئے شوق و ذوق اور جوش و جذبے کا پا یا جا نا نہایت ضروری ہے۔‬
‫طالب علم کی ذہنی استعداد کی طرح معلم کی تدریسی لیاقت‪ U‬بھی اہمیت کی حامل ہوتی‬
‫ہے ۔اکثر و بیشتر طلبہ ہی امتحان اور آزمائش کے نام پر تختہ مشق بنایا جاتا ہے۔ بہت‬
‫ہی کم یا نہیں کے برابر اساتذہ کی تدریسی لیاقت اور استعداد کو موضوع بحث بنایا جاتا‬
‫ہے۔ اکتساب کے زوال یاماند پڑھنے پر عموما طلبہ کو لعن طعن کا سامنا کرنا پڑتا ہے‬
‫بہت کم اساتذہ کی تدریسی لغزشوں کی طرف نگاہ کی جاتی ہے ۔اس حقیقت سے‬
‫مجھے کوئی انکار نہیں ہے کہ فروغ علم اور اکتساب کے زوال میں طلبہ کی غفلت‬
‫شامل حال ہے لیکن بد کو بدتر بنانے میں اساتذہ کا بھی کہیں نہ کہیں ہاتھ ہے۔ اساتذہ‬
‫کامیاب طلبہ کو جس شان سے اپنی کارکردگی کا نمونہ بنا کر پیش کرتے ہیں اسی‬
‫طرح ضروری ہے کہ وہ بچوں میں اکتساب کی ماندگی کے اسباب تالش کرنے‬
‫کیعالوہ اپنے تدریسی طریقہ کارکی خامیوں کا بھی جائزہ لیں۔اپنے تدریسی تجربات کی‬
‫روشنی میں مجھے یہ بات کہتے کوئی عار محسوس نہیں ہورہاہے کہ اساتذہ اپنی‬
‫تدریسی جہالت کی بناء پر بچوں کی صالحیتوں کا قتل کر رہے ہیں۔حروف کی ترتیب‬
‫و صوتیات سے واقف فرد استاد نہیں ہوتا ہے بلکہ استاد طلبہ کے نفسیاتی ‪،‬معاشرتی‬
‫مسائل کا ادراک رکھتا ہے ان کی سابقہ معلومات اور ذہنی صالحیتوں اور استعداد کو‬
‫ملحوظ رکھ کر اپنی تدریسی حکمت عملی وضع کرتا ہے۔بہتر ‪،‬کامیاب اور موثر‬
‫تدریس کی انجام دہی کے لئے استاد کا الئق ‪،‬قابل اور تربیت یافتہ ہونابہت ضروری‬
‫ہے۔ اساتذہ درس و تدریس کے جدید نظریات اور تکینک سے خود کو آراستہ کرتے‬
‫ہوئے ایک جہالت سے پاک معاشرے کی تعمیر میں نمایا ں کردار انجام دے سکتے‬
‫ہیں‪،‬‬

‫‪REFRENCES:‬‬

‫۔‪1‬‬

‫فاروق طاہر‬

‫یجوکیشن اینڈ ٹرین‬

‫ماہر تعلیم‬

‫جامعہ عثمانیہ‬

‫۔‪2‬‬

‫‪http://zahanat.com/resources/resources-for-teachers/effective-teaching-strategies-techniques-‬‬

‫سوال نمبر‪ :5‬تعلیم اور معاشی حاالت کا باہمی تعلق واضح کیجئے۔‬
‫‪:‬جواب‬
‫تعلیم اور معاشرہ‬
‫فرد کو معاشرتی اقدار کی تفہیم دے کر اسے معاشرتی تقاضوں کی تکمیل کے قابل بنانا تعلیم‬
‫کی اہم ذمہ داری ہے۔ تعلیم اور معاشرہ ایک دوسرے سے جدا رہ کر اپناوجود برقرار نہیں‬
‫رکھ سکتے۔ دونوں ہی ایکد وسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ تعلیم فرد کے لئے بے پناہ راہیں‬
‫ہموار کرتی ہے جس پر چل کر وہ معاشرے میں ایک کامیاب زندگی گزارنے کے قابل ہو‬
‫جاتا ہے۔ فرد تعلیم کے ذریعے معاشرتی فہم حاصل کرتا ہے ا ور معاشرے کی تنظیم و‬
‫ترتیب کو سمجھتے ہوئے اپنا معاشرتی کردار ادا کرتا ہے ۔ تعلیم ہی فرد کو یہ شعور بخشتی‬
‫ہے کہ اسے معاشرے کی ترقی کیلئے کون سی خدمات سر انجام دینی ہیں تعلیم ہی فرد کو‬
‫اس قابل بناتی ہے کہ اپنی تہذیبی اقدار سے آگاہی حاصل کر کے معاشرے کا مفید رکن بن‬
‫سکے۔ دنیا کے ہر معاشرے کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے۔‬

‫‪:‬معاشرتی استحکام‬
‫علیم فرد اور معاشرے کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔ تعلیم ہی وہ سماجی‬
‫سرگرمی ہے جو فرد اور معاشرے کے باہمی رشتوں کو فروغ دیتی ہے۔ معاشرتی استحکام‬
‫کی منزل کا حصول ہر معاشرے کی شعوری خواہش ہوتی ہے۔ تعلیم کے بغیر معاشرے کا یہ‬
‫خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ تعلیم ہی وہ واحد آلہ ہے جس کے ذریعے معاشرتی ورثہ‬
‫کی حفاظت‪ ،‬تبلیغ اور منتقلی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔کوئی ملک یا معاشرہ کسی بھی قسم‬
‫کی ترقی کا تصور ہی نہیں کرسکتا جب تک وہ معاشرے یا قوم علم کی اہمیت کو تسلیم نہیں‬
‫کرلیتے اور اس کو اپنے ملک کی ترقی کیلئے ناگزیر نہیں سمجھ لیتے۔ یہی وجہ ہے کہ آج‬
‫اگر ہم جائزہ لیں تو وہی ملک ترقی کی بلندیوں پر نظر آتے ہیں جنہوں نے علم کی اہمیت کو‬
‫تسلیم کیا۔ حاالنکہ بحیثیت مسلمان ہم جانتے ہیں کہ ہمارے نبی کریم ﷺ نے‬
‫آج سے چودہ سو سال پہلے علم کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ" علم حاصل کرو‬
‫چاہے اس کیلئے چین ہی کیوں نہ جانا پڑے "۔پھر اگر ہم دنیا کے فالسفرز کو دیکھیں چاہے‬
‫وہ جرمنی کاایمانیول کینٹ ہو‪،‬فرانس کا رینے ڈیکارڈ ہو‪،‬اسکاٹ لینڈ کا ایڈم اسمتھ ہو‪ ،‬یونان‬
‫کا افالطون اور ارسطو ہو‪ ،‬ان کی فالسفی کی بنیاد ہی علم کی اہمیت پر تھی ۔ اسی طرح اگر‬
‫مسلم دنیا پر نظر دوڑائیں تو ہمیں ابن سینا ہوں‪ ،‬ابونصر الفارابی‪ U‬ہوں‪ ،‬ابو حامد الغزالی‬
‫ہوں ‪،‬فخر الدین الرازی ہوں‪ ،‬ابن خلدون ہوں ‪ ،‬ابن طفیل ہوں‪ ،‬عالمہ اقبال ہوں یادیگر ہوں ‪ ،‬یہ‬
‫تمام لوگ بھی علم کی ہی وجہ سے تاریخ کے روشن ستارے ہیں ۔اسی لئے جب تک مسلم امہ‬
‫علم کے ساتھ وابستہ رہی دنیا پر مسلمانوں نے حکمرانی کی اور آج بھی تاریخ میں بغداد کے‬
‫کتب خانے اس بات کے گواہ ہیں دشمنوں نے سب سے پہلے ان ہی پرحملہ کیا تھا کیونکہ وہ‬
‫جانتے تھے کہ علم وہنر کے خزانوں کو تباہ کئے بغیرکسی بھی قوم کی طاقت ختم نہیں کی‬
‫جاسکتی۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انسانی ترقی میں علم کی کیا اہمیت ہے خصوصا ً‬
‫جدید معاشی ترقی علم کے بغیر ناممکن ہے۔‬

‫تعلیم کا بنیادی مقصد کیا ہے؟‬


‫جدید تعلیم کا پورا نظام اسی سوال کے جواب میں کھڑا کیا گیا ہے۔ جدید فلسفٔہ تعلیم اور‬
‫اصو ِل تعلیم کے وسیع علوم اس سوال کا تفصیلی جواب سامنے التے ہیں۔ اس جواب کا‬
‫خالصہ یہ ہے کہ فرد کو ایک جمہوری اور لبرل معاشرے کا کارآمد شہری بنانا اور اسے‬
‫زندگی گزارنے کے قابل بنانا جدید تعلیم کا بنیادی مقصد اور ذمہ داری ہے۔ انسانی معاشرے‬
‫میں پایا جانے واال عام فرد خام مال کی حیثیت رکھتا ہے‪ ،‬جسے جدید تعلیم کے نظام سے‬
‫گزار کر ایک مفید شہری بنایا جا سکتا ہے۔ ”شہری“ بن کر وہ ترقی کے انفرادی اور‬
‫اجتماعی آدرش کا حامل ہو جاتا ہے۔ عام ”شہری“ معاشرے میں قانون کی پاسداری کرتا ہے‬
‫اور معاشی نظام میں ”فرض“ کی بجا آوری کا اہل ہوتا ہے۔ جدید فلسفۂ تعلیم اور اصول تعلیم‬
‫کو سرسری دیکھنے سے بھی فوراً اندازہ ہو جاتا ہے کہ جدید تعلیم کے تمام مقاصد سیاسی‬
‫اور معاشی ہیں یعنی ”سسٹم“ کے لیے ہیں‪ ،‬اخالقی یا مذہبی وغیرہ نہیں ہیں۔‬
‫‪:‬تعلیم اور معاشی حاالت کا باہمی تعلق‬
‫جدید علم کی مستقل کارگزاری یہ ہے کہ وہ تعلیم کے معاشی مقاصد کو ادھر ادھر نہ ہونے‬
‫دے‪ ،‬اور اخالقی مقاصد کو صرف ڈسپلن تک محدود رکھے۔ جدید علم چونکہ خود سرمائے‬
‫اور عہدے سے استناد پاتا ہے‪ ،‬اس لیے جدید تعلیم کے حتمی مقاصد بھی صرف معاشی اور‬
‫سیاسی ہیں۔ جدید تعلیم سے ایک اور مقصد ضمنی طور پر حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنے مق ّوم‬
‫علم میں مسلسل توسیع کی خدمت بھی بجا التی رہے۔ مغرب نے ”علمی ترقی“ کی آڑ میں‬
‫تعلیم کے تہذیبی ہونے کا التباس باقی رکھا ہے۔ ہمارے ہاں یہ پہلو کبھی موجود ہی نہیں تھا‬
‫اور اب ہماری جدید تعلیم ایک ننگی اور سفاک کارپوریٹ سرگرمی بن کر سامنے آئی ہے‬
‫جس میں ریاست اس کی مکمل معاونت کر رہی ہے‪ ،‬اور متوسط اور غریب طبقات کے لیے‬
‫اچھی تعلیم کے مواقع بہت تیزی سے ناپید ہو رہے ہیں۔‬
‫ہماری روایت میں تعلیم کا مقصد متعین کرنے کے لیے کوئی لمبے چوڑے علمی یا نظری‬
‫مباحث موجود نہیں رہے‪ ،‬اور نہ کبھی ان کی ضرورت محسوس ہوئی ہے۔ ہماری روایت میں‬
‫تعلیم کا پورا عمل اور اس کے مقاصد دینی اقدار سے متعین ہوتے تھے۔ یسی صورت حال کی‬
‫وجہ ظاہر ہے‪ ،‬یہ طے شدہ سوچ ہے کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہمیں معاشی مسائل سے چھٹکارا‬
‫مل جائے گا یا بہتر مالزمت مل سکے گی۔ معاشرے کے متوسط اور نچلے طبقے کے لوگ جب اپنا‬
‫پیٹ کاٹ کر بچوں کو تعلیم دال رہے ہوتے ہیں تو اس کے پیچھے بھی یہی سوچ ہوتی ہے کہ مستقبل‬
‫میں نہ صرف وہ آسودہ ہوں گے بلکہ ان کے بچے بھی پُرسکون زندگی گزاریں گے۔ تاہم‪ ،‬جب طویل‬
‫عرصے تک مہنگی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی وہی صورت حال سامنے آئے تو اضطراب پیدا‬
‫ہونا اچنبھے کی بات نہیں۔‬
‫پھر ایک تعلیم یافتہ فرد ہونے کے ناتے ان کی حساسیت اور شعور ایک اَن پڑھ یا کم تعلیم یافتہ فرد‬
‫سے کئی گنا بڑھ چکا ہوتا ہے‪ ،‬ل ٰہ ذا اسی تناسب سے وہ ہمت ہار بیٹھتے ہیں اور ان کی خود اعتمادی‬
‫کو ایسا گہن لگتا ہے کہ ساری قابلیت اور صالحیت بھی ٹھٹھر کر رہ جاتی ہے۔ ایسے میں جب انہیں‬
‫یہ مشورے دیے جائیں کہ ’’کہیں بھی محنت مزوری کرلو یا اپنے شعبے کے برعکس کوئی دوسری‬
‫نوکری کرلو‘‘ تو ان کی ذہنی اذیت اور کوفت مزید کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ کیوںکہ یہ نصیحت کرنے‬
‫والے معاشرے کی اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ الکھوں روپے تنخواہ حاصل کرنے والوں کے لیے‬
‫تو یہ باتیں فقط الفاظ کی ُج گالی ہوتے ہیں جنہیں وہ اپنے کالموں اور مضامین میں ُدہراتے رہتے ہیں‬
‫اور جی بھرکے اعال تعلیم یافتہ نوجوانوں‪ U‬کو کاہل اور کام چور جیسے القابات سے نوازتے ہیں۔‬
‫‪:‬تعلیم اور معاشی تعلق الزم و ملزوم‬
‫تعلیم اور روزگار‪ ،‬دو مختلف چیزیں ہونے کے باوجود ان میں ایک خصوصی تعلق پایا جاتا‬
‫ہے۔‬
‫لیکن ہمارے ہاں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مالزمت نہ دینے والی تعلیم کی تو کوئی گنجایش ہی نہیں‬
‫ہے۔ جوں ہی کسی شعبے کی کھپت میں کمی واقع ہوتی ہے اس کی تعلیم کا رجحان خاتمے کے قریب‬
‫پہنچ جاتا ہے۔‬
‫عموما ً لوگوں کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ ایسی تعلیم حاصل کی جائے جو اعال سے عال تر مالزمت‬
‫دلوا سکے۔ اس مقصد کے لیے اکثر فطری رجحانات کا گال گھوٹ دیا جاتا ہے اور جیسے تیسے‬
‫مطلوبہ تعلیمی معیار حاصل کیا جاتا ہے تاکہ اصل منشا حاصل ہوسکے۔ اس کے بعد بھی اگر کسی‬
‫وجہ سے روزگار اور مالزمت کے حوالے سے دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے تو نتیجہ‪ U‬شدید مایوسی‬
‫کی صورت میں نکلتا ہے اور یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ کیا فائدہ ہوا اتنا پڑھنے کا؟ یا جب یہ ہی کام‬
‫کرنا تھا تو پھر خوامخواہ‪ U‬تعلیم میں وقت کیوں ضایع کیا؟‬
‫تعلیم کسی بھی فرد کو شعور جیسی نعمت سے ماالمال کرتی ہے۔ تاہم‪ ،‬اسے خالصتا ً معاشی‬
‫نقطۂ نظر سے دیکھنا بھی صحیح نہیں ہے۔ موجودہ شرح تعلیم اور معاشی صورت حال کے‬
‫فکر معاش سے قطعی طور پر الگ بھی نہیں کر سکتے۔ تعلیمی لحاظ سے‬ ‫تناظر میں ہم اسے ِ‬
‫نہایت پس ماندہ حاالت اور اعال تعلیم کی شرح ایک فی صد سے بھی کم ہونے کے باوجود‬
‫ریاست معاشرے میں انہیں درست طور پر کھپانے میں ناکام ہے۔ اگرچہ بھیڑ چال کا بھی‬
‫مسئلہ ہے مگر مجموعی طور پر جب ہمارے طلبہ کی ایک محدود تعداد ہی جامعات تک پہنچ‬
‫پاتی ہے اور اسے بھی اپنے شعبے میں روزگار کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو یقینی طور پر یہ‬
‫حکام باال کی سنگین غفلت ہے۔ پھر ہم ایک ترقی پذیر معاشرے میں رہ رہے ہیں جس کی‬
‫وجہ سے بہت سے پیشوں کو کم تر سمجھا جانے کے باعث تعلیم یافتہ نوجوان اس کا رخ‬
‫کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ جب ہم اپنے ملک میں معیار تعلیم کو قابل قدر سطح تک لے‬
‫آئیں گے تو یقینا ً اس سے یہ روش بھی بدلنے میں مدد ملے گی۔‬
‫تعلیم اور روزگار کا یہ مسئلہ حل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومتی سطح پر ہر شعبہ‬
‫ہائے زندگی میں روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں۔ اس کے بعد باقاعدہ منصوبہ بندی کے‬
‫تحت ہر شعبے کے ماہرین تیار کیے جائیں تاکہ پہلے سے جمع کردہ اعداد وشمار کی روشنی‬
‫میں ہمیں ڈاکٹر‪ ،‬انجینئر‪ ،‬صحافی‪ ،‬استاد اور دیگر سماجی وسائنسی علوم کے ماہرین مل‬
‫سکیں تاکہ ایک طرف ہم تعلیم یافتہ نوجوانوں کی صالحیتوں سے بھرپور استفادہ کر سکیں تو‬
‫دوسری طرف ’’تعلیم یافتہ بے روزگاری‘‘ جیسے مسئلے سے بھی گلوخالصی ہو۔ جس کے‬
‫بعد بتدریج شرح خواندگی اور تعلیمی میدان میں ترقی کی راہیں کھُلتی چلی جائیں اور ’’تعلیم‬
‫برائے مالزمت‘‘ کے نظریے کو بدلنے میں بھی مدد ملے‪ ،‬ورنہ اس وقت سرکاری سطح پر‬
‫پی ایچ ڈی کرنے والے طالب علم کے لیے بھی من پسند پیشہ یا روزگار اختیار کرنے کی‬
‫ضمانت موجود نہیں ہے جو ملک سے جہالت کے اندھیرے دور کرنے والے دانشوروں‬
‫سمیت‪ ،‬حکومت کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔‬

‫‪References:‬‬
‫‪1-Relationship Between Education And Economic‬‬

‫‪By Mario Bogdanovic‬‬

‫‪By ZeljkoPozega‬‬

‫‪2-The Economics of Education‬‬

‫‪ByElsevier‬‬

You might also like