Professional Documents
Culture Documents
ASSIGNMENT # 1
PROGRAME : M.ED
ش ن ت
ن ن ع
لی م کی اسالمی ب ی اد کے طور پر حدی ث کی رو ی می ں اہ می ت ب ی ان کری ں؟:۱سوال مب ر
:ج واب
ت ق ت
ع ن ن ن
اسالمی علی م کی اص
وی) حق کے دوسرے ماخ ذ کے طور پر لی م ب ث ی (حد ت ت س کہ ب ے۔ ج
ہ رآن اد ی ب ل
ن ق ت ظ ع
ے۔ اسالمی لی م کے ن ا ر می ں رآن اور س ت رسول سب سے ا م
ہ کے ل کا سب سے اہ م حصہ ہ
عم
حصہ ہ ی ں۔
علم کے بغیر کسی بھی دین و مذہب کا تصور نہیں کیا جاسکتا لیکن دین اگر اسالم ہو تو یہ
تصور اور بھی مشکل ہوجاتا ہے کیوں کہ یہ وہ مذہب نہیں جو صرف چند عقائد اور رسومات
کا مجموعہ ہو اور جس کی بنیاد اساطیر اولین اور دیوماالئی قصے ہوں بلکہ یہ وہ نظام
نبوی پر قائم ہے اور جو اپنے
ؐ زندگی و دستور حیات ہے جس کی بنیاد کتاب ٰالہی اور سنت
ماننے والوں سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ بشمول عقائد و عبادات زندگی کے تمام شعبوں میں
تعالی کے احکام اور اسؤہ رسول اکرم ﷺ کا پابند ہو۔ لفظ 'مسلم' کا لغوی معنی ٰ ہللا سبحانہ و
بھی اطاعت گزار اور فرمانبردار کے ہی ہیں۔ چنانچہ کامل مسلمان کہے جانے کا مستحق
صرف وہ شخص ہے جس نے عقائد ،عبادات U،اخالق و معامالت U،معاشرت ،معیشت ،سیاست
اور نظام عدل و انصاف جیسے شعبوں میں ہللا کے احکام اور نبی کریم ﷺ کی سنتوں کے
سامنے اپنا سر جھکا دیا ہو اور اپنے نفس کی خواہشات اور پسندیدگی و ناپسندیدگی سے دست
بردار ہوگیا ہو۔ ظاہر ہے یہ تبھی ممکن ہے جب ایک انسان ان مختلف شعبوں سے متعلق ہللا
تعالی کے احکام اور نبی مکرم ﷺ کے طریقہ کا علم رکھتا ہو۔ ٰ
ْق َر ْا: ِا
نبی پر اپنی ہدایات
علم کی اسی اہمیت کے پیش نظر ہللا رب العزت نے جب اپنے ٓاخری ؐ
کونازل کرنے کا ارادہ فرمایا تو اس کی ابتدا ''اِ ْق َر ْا ''سے فرمائی جس کا مطلب ہے 'پڑھو' ،
پھر ان پر علم و حکمت کا فیضان کیا جس کا مقصد امت کی تعلیم و تربیت ہی تھا اور اسی
لئے ان کا تعارف بھی امت سے بحیثیت معلم کرایا۔
چنانچہ ارشاد ربانی ہے:
ک ُم ک ْم ٰا ٰیتِنَا َو یُ َز ِّک ْی ُ
ک ْم َو یُ َعلِّ ُم ُ ک ْم یَ ْتلُ ْوا َعلَ ْی ُ
سواًل ِّم ْن ُ ک ْم َر ُ س ْلنَا فِ ْی ُ
{ َک َمٓا اَ ْر َ
ک ْونُ ْوا تَ ْعلَ ُم ْو َن}۔ک ْم َّمالَ ْم تَ ُ ب َو ا ْل ِح ْک َمۃَ َو یُ َعلِّ ُم ُ ک ٰت َا ْل ِ
(ترجمہ)'' :جیسا کہ ہم نے تم میں ایک رسول تم میں سے بھیجا ،وہ تم پر ہماری ٓایات پڑھتے
ہیں اور تمھیں پاک کرتے ہیں اور وہ تمھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں اور تمھیں
ایسی باتیں سکھاتے ہیں جنہیں تم نہیں جانتے تھے)۔ (البقرۃ)۱۵۱ :۔
ٓاپ کا ارشاد ہے:
خود رسول ہللا ﷺ نے بھی اپنا تعارف بحیثیت معلم کرایا ہے۔ ؐ
'' ِان َّ َما بُ ِعث ُْت ُم َع ِِّل ًما''
یعنی ''میں تو صرف معلم بناکر بھیجا گیا ہوں''۔ (سنن ابن ماجہ)ؓ ،۔
ٓاپ ﷺنے امت کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری کو اپنی ٓاخری سانس تک ؐ
نبھایا اور معلم ہونے کا حق ادا کردیا۔ علم اور دین کے گہرے تعلق کی وجہ سے ہی ہللا رب
العزت نے اپنے بندوں کے لئے یہ حکم جاری فرمایا:
سئَلُ ْو ٓا اَ ْھ َل ِّ
الذ ْک ِر اِنْ ُک ْنتُ ْم اَل تَ ْعلَ ُم ْو َن ھ}۔ {فَ ْ
(ترجمہ) '':پس اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سے دریافت کرلو ''۔ (النحل)۴۳ :۔
کریم نے علم دین کی طلب کو فرض قرار دیا ہے ،
ؐ اور نبی
ٓاپ نے فرمایا:
ؐ
لی ُک ِّل ُم ْ
سلِ ٍم'' ب ا ْل ِع ْل ِم فَ ِر ْی َ
ضۃٌ َع ٰ ''طَلَ ُ
یعنی ''علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے''۔ (سنن ابن ماجہ،
نبوی کو قرآن کریم سے الگ کر دیا جائے تو صرف قرآن مجید سے ضابطۂ حیات ؐ اگر حدیث
کی تکمیل نہیں ہو پاتی اور کوئی شخص صرف قرآن کی روشنی میں نظام زندگی مرتب نہیں
کر سکے گافرمان ٰالہی میں حکمت کا یہ لفظ کیا ہے؟ یہ تعلیم رسول کریم ؐ ہے جو قرآن کے
آپ نے صحابہ کرام کو دی اور خود عمل کر نبوی ہے۔ جس کی تعلیم ؐ
ؐ عالوہ ہے‘ یہ سنت
کے دکھالیا۔
قرآن کریم ایک اصولی کتاب ہے۔ اس کا کام اصول وکلیات بیان کرنا ہے اور اس کی جزئیات
ہمیں ترجمان القرآن‘ رسول کریم ؐ کی احادیث سے ملتی ہیں۔ اگر قرآن مجید ہی کو دین کی
کریم کی تشریف آوری کی چنداں ضرورت نہ ؐ توضیح وتشریح کا کفیل گردانا جاتا تو رسول
ہللا کو سامنے رکھے بغیر نہ تو قرآن کو اور نہ ہی اسالم کو سمجھا جا سکتا
تھی۔ سنت رسول ؐ
ہے۔
! ایک جگہ ارشاد ہے
ہم نے تمہاری طرف ایک رسول بھیجا تم ہی میں سے کہ پڑھتا ہے تم پر ہماری آیتیں اور
پاک کرتا ہے تم کو اور سکھاتا ہے کتاب اور حکمت کی باتیں جو تم نہیں جانتے۔
کریم
ؐ جزیرہ نمائے عرب کے لوگوں کے ہاں پڑھنے لکھنے کا رواج بالکل نہیں تھا۔ رسول
نے 7ھ میں مشرقی عرب عالقہ االحساء میں ایک تبلیغی خط بھیجا۔ سارے عالقہ میں کوئی
اسے پڑھنے واال نہ مال۔ بہت تالش وجستجو کے بعد ایک بچہ مال جس نے یہ خط پڑھ کر
سنایا۔
کریم وقتا فوقتا ً نازل ہونے والی آیتوں اور سورتوں کے لکھوانے کا فوراً بندوبست
ؐ رسول
کرتے۔ کچھ لوگ مدینہ منورہ میں مسلمان ہوئے تو وہاں آپ نے ایک معلم سیدنا مصعب بن
عمیر جو مقری کہالتے تھے قرآن‘ اور دینیات کی تعلیم کے لیے بھیجا۔
ؓ
مسجد نبوی کی تعمیر کے وقت ایک حصہ میں (صفہ) چبوترہ بنایا۔ یہ اولین اقامتی اسالمی
جامعہ تھی۔ رات کو طلبہ وہاں پر سوتے۔ اساتذہ مامور کیے گئے جو دن کو انہیں لکھنے
پڑھنے اور مسائل دین وغیرہ کی تعلیم دیتے۔صرف قبیلہ تمیم سے تقریبا ستر طلبہ آئے
جنہوں نے مدینہ میں رہ کر قرآن سیکھا اور دینی تعلیم حاصل Uکی۔ سب طالب علم اپنے اپنے
عالقوں میں جا کر تبلیغ میں مصروف ہو گئے۔ جنگ بدر کے قیدیوں سے جو اچھا برتاؤ کیا
گیا اس پر آدمی حیران رہ جانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ چنانچہ قیدیوں کی رہائی کا فدیہ یہ
مقرر کیا گیا کہ جو قیدی پڑھنا لکھنا جانتا ہے وہ دس دس مسلمان بچوں کو تعلیم دے‘ مشرک
کو استاد بنانے کا جواز کوئی اتفاقی نہ تھا بلکہ تعلیم پھیالنے کے متعلق مستقل پیش رفت
تھی۔
عہد نبوی ؐ میں نو مسجدیں تھیں‘ لوگ وہاں پانچ وقت نماز پڑھتے اور جمعہ مسجد نبوی میں
پڑھتے تھے۔ (ہفتہ میں ایک دن عورتوں کی تعلیم وتزکیہ کے لیے مخصوص تھا۔ رسول
rکریم خود ان کو تعلیم دیتے۔ سیدہ عائشہ
ؐ پڑھنا لکھنا جانتی تھیں۔ عورتوں کی rسیدہ حفصہ
کریم کا معاہدہ مدینہ دنیا کا پہال
ؐ تعلیم کا خاص بندوبست کیا گیا۔ یہودیوں کے ساتھ رسول
تحریری دستور مملکت ہے جس میں حاکم ومحکوم دونوں کے حقوق وواجبات کی تفصیل
ہے۔
علم کی اہمیت کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ اس کے بغیر اسالمی شریعت کے اندر ہللا اور
رسول نے جو بنیادی سہولیات اور ٓاسانیاں رکھی ہیں ان سے واقف نہیں ہوا جاسکتا۔ ؐ اس کے
تعالی
ٰ اس کا الزمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دین پر عمل کرنا مشکل معلوم ہوتا ہے حاالنکہ ہللا
نے انسان کی فطرت اور اس کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے دین کو بالکل ٓاسان بنایا ۔
علم کے ذریعہ ہی آدمی ایمان ویقین کی دنیا آباد کرتا ہے ،بھٹکے ہوے لوگوں کUUو سUUیدھا
راستہ دکھاتا ہے ،بروں کو اچھا بناتا ہے ،دشمن کو دوست بناتUUاہے ،بے گUUانوں کUUو اپنUUا بناتUUا
ہے اور دنیUUا میں امن وامUUان کی فضUUاء پیUUدا کرتUUا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حUUاملین علم کی قUUرآن
وحدیث میں بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے اور اسے دنیوی و اخUUروی بشUUارتوں سUUے نوازاگیUUا
ہے۔
قرآن کہتا ہے:
ی ال ُّ
ظلُ َماتُ َوالنُّور(“.الرعد)۱۶: ص ْی ُر أَ ْم ہَ ْل تَ ْ
ستَ ِو ْ ی األَ ْع َمی َوا ْلبَ ِ ”قُ ْل ہَ ْل یَ ْ
ستَ ِو ْ
(کہہ دیجیے،کیا برابر ہوسکتے ہیں اندھا(جاہل) اور دیکھنے واال(عالم) یا کہیں برابر
ہوسکتا ہے اندھیرا اور اجاال۔)
اس طرح کی بہت ساری آیتیں ہیں جن میں عالم اور جاہل کے فرق کو واضح کیا گیUUا ہے
اور ان کے درجات کے تعین کے ساتھ مسلمانوں کو حصول علم کے لیے ابھارا گیا ہے۔
اس سلسلے میں کثرت سے احادیث بھی وارد ہUUوئی ہیں جن میں اہUUل علم کی سUUتائش کی
گئی ہے اور انہیں انسانیت کا سب سے اچھا آدمی قرار دیا گیا ہے۔
ہللا کے رسول فرماتے ہیں:
سو ُل ہّٰللا ِ صلى هللا عليه ضلِی َعلَی اَ ْدنَا ُک ْم ،ثُ َّم قَا َل َر ُ ض ُل ا ْل َعالِ ِم َعلَی ا ْلعابِ ِد َ ،کفَ ْ ” َوفَ ْ
ض ْی َن َحتَّی النَّ ْملَةَ فِی ُج ْح ِر َھا َو َحتَّی ہّٰللا
ت َو ااْل َ ْر ِ وسلم :اِنَّ َ َو َماَل ئِ َکتَہُ َوا ْھ َل ال َّ
سمٰ َوا ِ
س ا ْل َخ ْی َر)۳(“. صلُّ ْو َن َعلی ُم َعلِّ ِم النَّا ِ ا ْل ُح ْوتَ لَیُ َ
(اورعابد پر عالم کی فضیلت ایسی ہے جیسے میری فضیلت تم میں سے ادنی پر۔ یقینا ہللا
حتی کہ چیونٹی اپنے سوراخ میں اور عزوجل ،اس کے فرشتے اور آسمان وزمین والے ٰ
مچھلی تک لوگوں کے معلم کے لیے بھالئی کی دعاء کرتی ہیں۔)
ایک دوسرے حدیث کے راوی حضرت عبدہللا بن عمر رضی ہللا عنہ ہیں ،وہ بیان کرتے
ہیں:
عض ُح َجِ Uر ِہ ،فََ Uد َخ َل ْال َم ْسِ Uج َد ،فَUاِ َذا ھَُ Uو Uو ٍم ِمن بَ ِ ات یَ ْ” َخ َر َج َرس ُْو ُل ہّٰللا ِ صلى هللا عليه وسUلم َذ َ
Uون .فَقَUا َل النَّبِ ُیُ :کٌّ Uل َعلی آن َویَْ Uد ُع ْو َن ہّٰللا َ ،وااْل ُ ْخَ Uری یَتَ َعلَّ ُم َ
Uون َویُ َعلِّ ُم َ قروٴُن الُقُرْ َبِ َح ْلقَتَ ْی ِن :اِحْ داھُ َما یَ َ
Uو َنآن َویَ ْ Uد ُع ْو َن ہّٰللا ،فَ Uاِ ْن َش Uا َء اَ ْعطَUUاھُ ْم َواِ ْن َش Uا َء َمنَ َعھُ ْمَ ،و ٰھوٴاَل ِء یَتَ َعلَّ ُمْ UUروٴ َُن ْالقُUUرْ َ Uرٰ ،ھوٴُاَل ِء یَقَُ Uَخ ْیٍ U
س َم َعھُ ْم)۴(“. ت ُم َعلِّماً ،فَ َجلَ َ َویُ َعلِّ ُم ْو َنَ ،واِنَّ ّما ب ُِع ْث ُ
(ایک دن رسول ہللا اپنے حجرے سے باہر تشریف الئے اور مسجد (نبوی) میں داخل
ہوے،وہاں دوحلقے بیٹھے ہوے تھے،ایک حلقہ قرآن کی تالوت کررہا تھا اورہللا سے دعاء
کررہا تھا،دوسرا تعلیم وتعلم کا کام سرانجام دے رہا تھا۔ آپ نے فرمایا :دونوں بھالئی پر ہیں۔
یہ حلقہ قرآن پڑھ رہا ہے اور ہللا سے دعاء کررہاہے ۔ ہللا چاہے تو اس کی دعاء قبول
فرمائے ،یا نہ فرمائے۔دوسرا حلقہ تعلیم وتعلم میں مشغول ہے (یہ زیادہ بہتر ہے) اور میں تو
معلم بناکر بھیجا گیا ہوں۔ پھر یہیں بیٹھ گئے۔)
اہل علم کاصرف یہی مقام ومرتبہ نہیں ہے کہ اسے دنیا کی تمUUام چUUیزوں پUUر فضUUیلت دی
Uالی کی تمUUام مخلUUوق اس کے لUUیے گئی ہے اور اس کام میں وہ جب تک مصروف ہیں ،ہللا تعٰ U
دعاء کرتی رہتی ہے،بلکہ اس کا مقام ومرتبہ یہ بھی ہے کہ ہللا کے رسول نے انہیں انبیUUاء کUUا
وارث اور جانشین قرار دیا ہے :
ط ِریْقا ً اَلَی ْال َجنَّ ِةَ ،واِ َّن ْال َمالئِ َکةَ لَتَ َ
ض ُع ک ہّٰللا ُ بِہ َ
ک طَ ِریْقا ً یَ ْبتَ ِغی فِ ْی ِہ ِع ْلما ً َسلَ َ ” َم ْن َسلَ َ
ض َحتَّی ْال ِحیتَ ُ
ان ت َو َم ْن فِی ااْل َرْ ِ ب ْال ِع ْل ِمَ ،واِ َّن ْال َعالِ َم لَیَ ْستَ ْغفِ ُر لَہُ َم ْن فِی ال َّس َموا ِ
اَجنِحْ تَھَا َرضًی لَطَالِ ِ
ان ْالع ُْل َما َUء َو َرثَةُ ااْل َ ْنبِیَا ِء ،اِ َّن فَی ْال َما ِءَ U،وفَضْ ُل ْال َعالِم َعلَی ْال َعابِ ِدَ ،کفَضْ ِل ْالقَ َم ِر َعلَی َسائِ ِر ْال َک َوا ِک ِ
بَّ U،
ااْل َ ْنبِیَا َء لَ ْم ی َُورِّ ثُ ْوا ِد ْینَارًا َواَل ِدرْ ھَماً ،اِنَّ َما َو َّرثُوا ْال ِع ْل َم ،فَ َم ْن اَ َخ َذ بِہ فَقَ ْد اَ َخ َذ بِ َحظّ َوافَ ٍر)۵(“.
(جو کوئی حصول علم کی غرض سے راستہ طے کرے تو خدا اس کے سبب اسے جنت
کی ایک راہ چالتا ہے۔ فرشتے طالب علم کی خوشی کے لیے اپنے پر بچھادیتے ہیں اور یقینا
عالم کے لیے آسمان اور زمین کی تمام چیزیں مغفرت طلب کرتی ہیں،یہاں تک کہ وہ مچھلیاں
بھی جو پانی میں ہیں ۔ عابد پر عالم کو ایسی فضیلت حاصل ہے جیسی چاند کو تمام تاروں پر۔
بالشبہ علماء ہی پیغمبروں کے وارث ہیں۔پیغمبروں نے ترکہ میں نہ دینار چھوڑا ہے اور نہ
درہم ۔ انہوں نے تو صرف علم کو اپنے ترکہ میں چھوڑا۔ پس جس کسی نے علم حاصل کیا
اس نے ہی حصہ کامل پایا۔)
قرآن میں جہاں بھی علم کا تذکرہ کیا گیا ہے ،بیش تر مقامات Uپر مطلق علم کاذکر ہوا ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علم اپنی ذات کے اعتبار سے ال محUUدود ہے اور اسUUالم نے اس کی
المحدودیت کو برقرار رکھتے ہوے حکم دیا ہے کہ علم حاصل کرو۔حضرت Uابو ہریرہ رضUUی
ہللا بیان کرتے ہیں:
ہّٰللا
ض ٌل ،آیَةٌ ُم ْح َک َمةٌ، س ْو ُل ِ صلى هللا عليه وسلم اَ ْل ِع ْل ُم ثَالثَةٌ :فَ َما َو َرا َء ٰذلِ َ
ک فَ ُھ َو فَ ْ ”قَا َل َر ُ
ضةٌ َعا ِدلَةٌ)۶(“. سنَّةٌ قَائِ َمةٌ اَ ْو فَ ِر ْی َ
اَ ْو ُ
(ہللا کے رسول صلى هللا عليه وسلم نے فرمایا :علم تین ہیں:آیت محکمہ،سنت قائمہ اور
فریضہ عادلہ،اس کے سوا جو کچھ بھی ہے وہ زائد ہے۔)
ٴ
ایUUک دوسUUری حUUدیث میں جUUو تفصUUیل آئی ہے ،اس سUUے بھی یہی واضUUح ہوتUUا ہے۔ آپ
ﷺنے فرمایا:
”یبع ُ ہّٰللا
ث ُ ا ْل ِعبَا َد یَ ْو َم ا ْلقِیَا َم ِة ،ثُ َّم یُ َمیِّ ُز ا ْل ُعلَ َما َء فَیَقُ ْو ُل :یَا َم ْعش ََر ا ْل ُعلَ َما ِء اِنِّی لَ ْم اَ َ
ض ْع ِع ْل ِم ْی َْ َ
ک ْم)۷(“. ک ْمْ ،اذ َھبُ ْوا فَقَ ْد َغفَ ْرتُ لَ ُ ک ْم اِل َع ِّذبَ ُفِ ْی ُ
تعالی لوگوں کو زندہ کرے گا اور اس میں علماء کو ممتاز کرے گا ٰ (قیامت کے دن ہللا
اور فرمائے گا اے پڑھے لکھے لوگو!میں نے اپنا علم تمہارے اندر اس لیے نہیں رکھا کہ
،جاو تم سب کی مغفرت کردی۔) میں تمہیں عذاب دوں ٴ ق
رآن مکمل ض اب طہ ح ی ات:
عالم کہتے ہی ہیں پڑھے لکھے لوگوں کو ،چاہے Uاس نے قرآن کی تعلیم حاصل کی ہو یا
حدیث کی ،فقہ کی کی ہو یا کالم ومنطق کی ۔ سائنس کی ڈگری لی ہو یUUا میUUڈیکل سUUائنس کی ۔
نیچUرل سUائنس پڑھUاہو یUUاآرٹس کے مضUامین ۔ سUارے کے سUUارے پUڑھے لکھے لوگUUوں میں
شمار کیے جائیں گے۔ یہ ایسی چیز ہے جو انسان کو ہمیشہ کام آئے گی ،مقصUUد نیUUک ہUUو اور
اس کا صحیح استعمال کیUUا جUUائے تUUو اس کی بUUدولت وہ دین ودنیUUا کی سUUاری نعمت اور دولت
حاصل کرسکتا ہے۔
انسان کو جس چیز سے واسطہ پڑ سکتا ہے ،اس کے حل کے لیے معلومات حاصل کرنا
Uالی نے
اور اس میں مہارت پیدا کرنا اسالم کو مطلوب ہے۔حضUUرت آدم علیہ السUUالم کUUو ہللا تعٰ U
جب پیدا کیا تو انہیں وہ تمام علوم عطاکیے جن سے ان کا واسطہ پڑ سکتا تھا۔قUUرآن کUUریم میں
اس کی صراحت موجودہے:
UUال أَنبِئُUUونِ ْی بِأ َ ْسَ UUماء ہَُ UUؤالء إِن ُکنتُ ْم ضUUہُ ْم َعلَی ْال َمالَئِ َکِ UUة فَقَ َ ”و َعلَّ َم آ َد َم األَ ْسَ UUماء ُکلَّہَUUا ثُ َّم َع َر َ َ
ال یَUUا آ َد ُم أَنبِ ْئہُم بِأ َ ْس َ Uمآئِ ِہ ْم
نت ْال َعلِ ْی ُم ْال َح ِک ْی ُم .قَ َ
ک أَ َ
ک الَ ِع ْل َم لَنَا إِالَّ َما َعلَّ ْمتَنَا إِنَّ َ وا ُسب َْحانَ َ صا ِدقِیْن .قَالُ ْ َ
ون َو َمUUا ُکنتُ ْم ض َوأَ ْعلَ ُم َمUUا تُ ْبُ Uد َ
ت َواألَرْ ِ ب َّ
الس َ Uم َوا ِ Uال أَلَ ْم أَقُUUل لَّ ُک ْم إِنِّ ْی أَ ْعلَ ُم َغ ْْی َ
فَلَ َّما أَنبَأَہُ ْم بِأ َ ْس َمآئِ ِہ ْم قََ U
ون( “.البقرہ)۳۱: تَ ْکتُ ُم َ
تعالی نے آدم کو تمام چیزوں کے نام اور پھر سامنے کیا ان سب چیزوں ٰ (اور سکھایا ہللا
بتاو مجھ کو ان کے نام اگر تم سچے(جانتے) ہو؟ کوفرشتوں کے،پھر ہللا نے فرمایا ان سے ٴ
فرشتوں نے کہا :تیری ذات پاک ہے ،ہم کو نہیں معلوم ،مگر جتنا تونے مجھے علم دیا ہے۔
بتاو تم ان کو بے شک تو ہی ہے اصل جاننے واال اور حکمت واال۔ پھر ہللا نے آدم سے کہا :ٴ
ان چیزوں کے نام ۔ جب انہوں نے بتادیا ان کے نام ،توہللا نے فرشتوں سے کہا :کیا میں نے
تم سے نہیں کہا تھا کہ میں خوب جانتا ہوں ان چیزوں کو جو آسمان و زمیں میں چھپی ہوئی
ہیں اور میں یہ بھی جانتا ہوں جو ظاہر ہے اور جو چیز چھپی ہوئی ہے۔)
References: ن ت
ع
اسالم کا ظ ری ٴہ لی م اور مسلمان
از :محمد شمیم اختر قاسمی ،ادارہ تحقیق وتصنیف اسالمی ،علی گڑھ
پستاالذی )(Pestalozzi
کے نزدیک تعلیم کیا ہے ،ہر قسم کی تعلیم کی بنیاد اس وقت پڑتی ہے جب فرد اپنے نسلی
گروہ کے اجتماعی شعور کا حصہ دار بنتا ہے ،یہ عمل قریب پیدائش کے وقت سے ہی غیر
شعوری طور پر شروع ہوجاتا ہے ،یہی عمل فرد کی دماغی صالحیتوں کی کی تشکیل کرتا
ہے ،فرد کے علم و آگہی میں اضافہ کرتا ہے ،اس کی عادات و اطوار بناتا ہے ،اس کے
خیاالت کی تربیت کرتا ہے اوراس کے جذبات و احساسات کی تہذیب کرتا ہے اس غیر
شعوری تعلیم کے ذریعے فرد بتدریج اس علمی و اخالقی سرمایہ میں اپنا حصہ بنانے کے
قابل ہوجاتا ہے ،جو بنی نوع انسان نے آج تک جمع کیا ہے گویا وہ تہذیب کے اس جمع شدہ
سرمایہ کا وارث بن جاتا ہے ،یہ تو ہوسکتا ہے کہ اس تعلیم کو کسی خاص انداز میں منظم
کرلیا جائے یا اسے خاص رخ دے دیا جائے ،لیکن انتہائی میکانکی اور رسمی تعلیم بھی اس
عام روش سے انحراف نہیں کرسکتی۔
سوال نمبر :۳مثالیت پسندی بطور اہم فلسفہ کی نوعیت پر روشنی ڈالیں۔
:ج واب
ے؟ ا ک دی مث ا ت پ س ن
یہ لی
مثالیت پسندی کا فلسفہ ،ایک نظریہ حقیقت اور علم ہے جو کہ شعور یا غیر مادی ذہن،ہے اور
یہ دنیا ک کی فکریات میں ایک بنیادی کردار تو کرتا ہے مگر اس کی صفات Uبھی بہت ہیںاگر
ہم مابعدالطبیعیات حوالے سے دیکھیں تو تمام جسمانی معروضیت کے ہوتے ہوئے اس کو ہم
اپنے ہوش میں ہوتے ہوئے اس کے وجود داخلیت پر انحصار کرلیتے ہیں۔
اشیاء آپس میں اس کے بجائے تمام وجود کی حتمی معقولیت کے لیے دلیل دیتے ہوئے اپنی
کم علمی یا ناگزیر انسانی کی جہالت کو بھی کھول کر سامنے رکھ دیتے ہیں ۔ ہیگل کے بقول
انسانی روح (ثقافت ،سائنس ،مذہب اور ریاست) سب سے زیادہ کامیابیوں سے ہم کنار ذہن
میں قدرتی طور پر عزم عمل کا نتیجہ نہیں ہوتے۔
تمام فلسفے مادیت پسندی ”مٹیریل ازم“ یا مثالیت پسندی یعنی ”آئیڈیل ازم“ کے رجحانات میں
اور پھر ان کے ماتحت ذیلی رجحانوں میں تقسیم ہیں۔ قدیم ہندوستانی مادیت پسند فلسفے
”لوکایتا/چارواکیہ“ اور قدیم یونانی مادیت پسند فلسفے کے افکار نے ہی آگے چل کر سائنس
مظاہر فطرت اور فطری عوامل کی توجیح و تشریح ِ کی داغ بیل ڈالی۔ مادیت پسند مفکرین نے
مادی اشیا کے ذریعے کی اور مادے یا کائنات سے ماورا کسی محیرالعقول ہستی کے مسبب
االسباب ہونے کے خیال سے اتفاق نہیں کیا۔
مثالیت پسندی کا رجحان رکھنے والے مفکرین نے مذہب ،روحانیت U،تصوف،توہم پرستی
مظاہر فطرت اور فطری عوامل
ِ وغیرہ کی مختلف شکلیں اختیار کیں اور کائنات میں موجود
کی توجیح و تشریح کے لیے ماورائے وجود ہستیوں یا ان کے ”تصورات“ کا سہارا لیا۔ اس
فرق کو عام زندگی کی اس مثال سے باآسانی سمجھا جا سکتا ہے کہ جب کوئی شخص بیمار
ہوتا ہے تو اس کے عالج کا مادیت پسندانہ طریقہ یہ ہے کہ وہ کسی ڈاکٹر سے معائنہ
کروائے اور ”دوا“ استعمال کرے جب کہ مثالیت پسندانہ طریقہ یہ ہے وہ کسی پیر یا فقیر
سے جڑی بوٹی یا تعویذ یا دم کیے ہوئے پانی سے ”شفا“ حاصل کرنے کی کوشش کرے
مثالیت پسندی سے متاثر حلقوں نے ،خصوصٓا پادریوں ،مولویوں ،علما ،توہم پرستوں وغیرہ
نے مادیت پسندی کی مخالفت میں اسے مال و دولت کی ہوس اور دنیا پرستی سے تعبیر کیا
اور یہ تاثر پیدا کیا کہ مادیت پسند لوگوں کی زندگی کا محور دھن دولت اور دنیاوی چیزوں
کا حصول ہوتا ہے جس کے سبب وہ اخالقی گراوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس سے بچاؤ کا
طریقہ یہ بتایا گیا کہ دنیاوی خواہشات یا ضروریات کو ترک یا کم سے کم کر دیا جائے اور
خالق حقیقی سے لو لگائی جائے. ِ
پ ن ب ہ ف ف
مث الی ت س دی طورا م لس ہ:
عملی مثالیت پسندی ایک ایسا فلسفہ ہے جو اخالقی اصول نافذ کرنے کو ایک اخالقی فرض
گردانتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ اس بات کو غیر اخالقی تصور کرتا ہے کہ ارفع اخالقی مقاصد
کے حصول کیلئے ضروری سمجھوتے نہ کئے جائیں ۔ اور اس بات کو بھی غیر اخالقی
تصور کرتا ہے کہ مصلحت کے نام پر اخالقیات Uاور مثالیت پسندی کو ہی رد کر دیا
جائےامریکی سیاست میں یہ اصطالح بہت زیادہ استعمال ہوتی ہے۔ نکسن ،الگور ،کونڈلیزا
رائس جیسے امریکی سیاستدان اپنی سیاست کو عملی مثالیت پسندی کا نتیجہ خیال کرتے
تھے۔ اس فلسفے میں میری دلچسپی کی وجہ یہ ہے کہ یہ فلسفہ ’’زمینی حقائق‘‘ کے ساتھ
سمجھوتے کرنے کو اخالقی لحاظ سے نہ صرف درست خیال کرتا ہے بلکہ ایسا نہ کرنے کو
غیر اخالقی تصور کرتا ہے ،شرط صرف یہ ہے کہ سمجھوتے اعلی اورارفع مقاصد کے
حصول کی خاطر ہوں۔اس فلسفے کو میکاولی کے بے رحم سیاسی مفاد پرستی کے فلسفے
کے متبادل کے طور پر لیا جاتا ہے۔ویسے تو کسی بھی معاشرے میں ایسے لوگ بہت کم
ہوتے ہیں جو عملی زندگی میں اخالقی اقدارکے مطابق فیصلے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
تقریباًتمام مذاہب کی اخالقی تعلیمات بھی ایک فرد کو مثالیت پسند بننے پر زور دیتی ہیں
وقوفی تدریس
()Cognitive teaching
سی ک ن ن ت ث ق ق سی ک ن
ےھ ے۔ی ہا ت د مدد ں ی م ے کر عمال سا سے
ی ف ئ ت ے طر ر مو ادہ یز کو دماغ کے ان کو ا ب لط و ج ہ ی طر ایسا
ت ک یا کا ےھ
ن ک ی ف ق
ے کے عمل می ں ے کہ وہ س ھ ے۔ اس سے طل ب ا کو حوصلہ ائزا ی ہ و ی ہ ری اور دیرپ ا ہ عال ،عمی ش کا ی ہ طری ہ
ت غ
وری طرح م ول ہ وں اکہ سی کھ ن ا ،سوچ ن ا اور ی اد رکھ ن ا آسان ہ وج اے۔ پق ف
ت
و و ی دری سی حکمت عمل ی اں:
طریقہ تدریسں کا برا ِہ راست تعلق سبق کی پیش کش سے ہوتا ہے۔ ایک استاد مختلف مضامین
پڑھانے کے لیے مختلف طریقہ تدریس کا استعمال کرتا ہے جس کا انحصار ذیادہ تر مضمون
کی نوعیت اور استاد کے اختیار کردہ طریقہ پر ہوتا ہے۔ ان طریقوں کو بعض اوقات تدریسی
حکمت عملی یا ترکیب کہا جاتا ہے۔ تعلیم کے میدان میں ترقی سے طریقہ تدریس بھی تبدیل
ہو چکے ہیں۔ روایتی طریقہ تدریس میں استاد لیکچر دیتا تھا اور طلباء نوٹس لیتے تھے۔ ہو
سکتا ہے کہ یہ طریقہ آج بھی کارگر ہومگر تعلیمی ارتقاء کی وجہ سے آج اساتذہ اپنے بچوں
کے تجسس کو ابھارنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے
طلباء غیر روایتی انداز میں سوچیں۔
ت عملیوں اور طریقہ تدریس میں مہارت حاصل Uکرنے میں اس سیکشن سے آپ کو ان حکم ِ
مدد ملے گی اور ہم آپ کی مدد کریں گے کہ کس طرح سے آپ نئے انداز اپنا کر اپنی تدریس
کو ذیادہ موثر اور دلچسپ بنا سکتے ہیں۔
سر گرمی اور کردار نگاری:
زیر
ت عملی ہے جو کہ سماجی سائنس کے ِ
رول پلے یا کردار نبھانا ایک ایسی تدریسی حکم ِ
اثر آتی ہے۔
پراجیکٹ طریقہ کار:
اس اپروچ کے تحت استاد اپنے بچوں کے دل اور دماغ کو مشغول کرکے ان میں گہرائی
سے سوچنے کا ایک راستہ فراہم کرتے ہیں۔
ڈسکیشن کا طریقہ:
ڈسکشن میتھڈ کی ضرورت ہے کہ طلباء اچھی طرح سے تیاری کرکے کالس روم میں آئیں۔
طلباء کو اس بات کے لیے ترغیب دینا۔
بحث و مباحثہ:
بحث کا آغاز بچوں کو اس بات کی اجازت دے کر کریں کہ وہ کردار نبھانے کے دوران اپنے
محسوسات کو بیان کریں۔
تدریسی اصولوں سے باخبر استاد بنیادی تدریسی و نفسیاتی اصولوں کی یکجائی سے تعلیم و
اکتساب کو طلبہ مرکوز بنادیتا ہے۔ذیل میں اہمیت کے حامل چند نمایاں تدریسی وقوفی حکمت
عملی کو بیان کیا جارہاہے ۔
ترغیب و محرکہ تدریسی اصولوں میں اساسی حیثیت کا حامل ہے۔طلبہ میں تحریک و
ترغیب پیدا کیئے بغیر موثر تدریس کو انجام نہیں دیا جاسکتا۔ طلبہ میں اکتسابی میالن
ترغیب و تحریک کے مرہون منت جاگزیں ہوتاہے۔ حصول علم ،پائیدار اکتساب اور
علم سے کسب فیض حاصل کرنے کے لئے طلبہمیں دلچسپی اور تحریک پیدا کرنا بہت
ضروری ہوتا ہے۔فعال و ثمر آور اکتساب ترغیب و تحریک کے زیر اثر ہی ممکن ہے۔
تدریس میں ہر مقام پر طلبہ میں محرکہ کا مطالبہ کرتی ہے۔ بغیر محرکہ پیدا کیئے
کامیاب اکتساب ممکن ہی نہیں ہے۔اکتسابی دلچسپیوں کی برقراری کے لئے محرکہ
بہت اہم ہے۔محرکہ کی وجہ سے طلبہ میں اکتساب کی تمنا انگڑائی لیتی ہے۔
درس و تدریس استاد اور طالب علم پر مبنی ایک دوطرفہ عمل ہے۔موثر تدریس اور
کامیاب اکتساب کے لئے تعلیمی عمل میں استاد اور شاگرد دونوں کی سرگرم شرکت
الزمی تصور کی جاتی ہے۔تعلیمی سرگرمیوں کے بغیر تدریسی عمل بے کیف اور عدم
دلچسپ بن جاتا ہے۔طلبہ میں اکتسابی دلچسپی کی نمو ،فروغ اور برقراری میں تعلیمی
سرگرمیاں بہت اہم ہوتی ہیں۔ کامیاب اکتساب اور موثر تدریس میں محرکہ کے بعد سب
سے نمایاں مقام سرگرمیوں پر مبنی تدریس و اکتساب ( Activity Based
)Teachingکو حاصل ہے۔ سرگرمیوں پر مبنیتدریس طلبہ میں تعلیم سے دلچسپی
،شوق و ذوق پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے۔سرگرمیوں کے زیر اثر طلبہ میں نصابی
مہارتیں فروغ پانے لگتی ہیں۔سرگرمیوں کے زیر اثر انجام پانے والی تدریس اور
اکتساب موثر اور پائیدار واقع ہوتے ہیں۔سرگرمیوں کے ذریعے طلبہ میں عملی اکتساب
()Practical Learningفروغ پاتی ہے۔تدریسی اصولوں میں سرگرمیوں پر مبنی
تدریس کو بہت اہمیت حاصل ہے اسی لئے اساتذہ اپنی تدریس کو کامیابی سے ہمکنار
کرنے کے لئے سرگرمیوں()activitiesکو اپنی تدریس کا الزمی جزو بنا لیں
دوران تدریس استاد جو حکمت عملی اختیار کرتا ہے اسے تدریسی حکمت عملی یا
طریقہ تدریس کہتے ہیں۔تدریسی طریقہ کار معلومات کی منتقلی اورطلبہ میں علم سے
محبت و دلچسپی پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔تدریس دراصل معلومات کی
منتقلی کا نام نہیں ہے بلکہ طلبہ میں ذوق و شوق کو پیدا کرنے کا نام ہے۔ طلبہ میں علم
کا ذوق و شو ق اگر پیدا کردیا جائے تب اپنی منزلیں وہ خود تالش کرلیتے ہیں۔ایک
کامیاب استاد اپنے طریقہ تدریس سے طلبہ میں معلومات کی منتقلی سے زیادہ شوق و
ذوق کی بیداری کو اہمیت دیتا ہے۔وہ تدریسی حکمت عملی اور طریقہ کار کامیاب
کہالتا ہے جو بچوں میں اکتساب کی دلچسپی کو برقرار رکھے ۔اساتذہ طلبہ میں
اکتسابی دلچسپی کی برقراری کے لئے تدریسی معاون
اشیاء(چارٹ،نقشے،خاکے،تصاویر،قصے ،کہانیوں،دلچسپ مکالموں اور فقروں) کو
اپنی تدریسی حکمت عملی میں شامل رکھیں۔
اختیار کردہ تعلیمی پروگرام اور سرگرمیوں کے پہلے سے طئے شدہ مقاصد ہونے
چاہیئے۔ اور ان مقاصد کے حصول کے لئے مناسب الئحہ عمل کے تحت اساتذہ کو
تعلیمی سرگرمیوں کو منتخب کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔مبنی بر مقاصد تعلیمی
سرگرمیاں تعلیمی اقدار کی سربلندی اور بامعنی اکتساب میں بہت معاون ہوتی ہیں۔
تعلیمی سرگرمیاں تعلیمی مقاصد سے مربوط ہونی چاہیئے۔ورنہ تعلیمی مقاصد کا
حصول اور بامقصد اکتساب دونوں بھی ناممکن ہوجاتے ہیں۔
()5اساتذہ تدریسی تنوع کے لئے جہاں مختلف سرگرمیوں سے کام لیتے ہیں وہیں
تدریس کے دوران انھیں ایک بات کا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہو تی ہے اور
یہ توجہ تدریس کا سب سے اہم اصول ہے اور وہ ہے بچہ کی انفرادیت کا احترام ۔بچے
کی انفرادیت اور اس کی شخصیت کو کوئی نقصان پہنچائے بغیر اساتذہ کو تدریسی
خدمات انجام دینی چاہیئے۔دوران تدریس بچے کی انفرادیت اور اس کے اکتسابی تنوع (
)Learning Diversitiesکا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔کیونکہ ہر
بچے کی ذہنی صالحیت ،ذہانت ،جذباتیت ،احساس دلچسپی اور ضروریا ت میں
نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔ان تمام امور کو مد نظر رکھتے ہوئے اساتذہ کو تدریسی
فرائض انجام دینا ضروری ہوتا ہے۔اساتذہ جب طلبہ کی شخصیت اور انفرادیت کو
ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنے فرائض انجام دیتے ہیں تب استاد اور شاگرد میں ایک
اٹوٹ وابستگی پیدا ہوجاتی ہے اور کند ذہن سے کند ذہن طالب علم بھی تعلیم میں
دلچسپی لینے لگتا ہے ۔طلبہ کی انفرادیت اور اکتسابی تنوع کا خیال رکھنے سے ایک
بہت ہی خوش گوار تدریسی اور اکتسابی فضا جنم لیتی ہے۔اور اس فضاء میں ہر بچہ
خود کو نہایت اہم اور خاص تصور کرنے لگتا ہے۔ تعلیمی و تدریسی حکمت عملی
اختیار کرتے وقت اساتذہ طلبہ کے تنوع اور انفرادیت کا بطور خاص خیال رکھیں۔
موثر تدریس ،بہتر اکتساب اور طلبہ میں تخلیقیت اور اختراعی صالحیتوں کی نمو و
فروغ کے لئے اساتذہ تخلیقی اور اختراعی طریقہ ہائے تدریس کو بروئے کار الئیں۔ طلبہ
میں ہر قسم کی تخلیقی صالحیتوں کو پروان چڑھانا ضروری ہوتا ہے اور تخلیقی تدریس
می ں ایک اہم عنصر تصور کی جاتی ہے۔تخلیقی صالحیتوں کو فروغ اس اہم کام کی تکمیل ٖ
دینے والی تدریسی اقداربامقصد اور ثمر آور اکتساب میں کلیدی کردار انجام دیتے ہیں
تدریس کو معقول موثر اور طلبہ کے لئے دلچسپ بنانے کے لئے اساتذہ ،بہتر سے بہتر
طریقہ تدریس(،)Teaching methodsتدریسی حکمت عملی(teaching
،)strategiesتعلیمی معاون اشیاء ()Teaching aidsاور دیگر وسائل کا بر موقع استعمال
کرنے میں غایت درجہ کی احتیاط سے کام لیں۔موثر تدریس مناسب طریقہ تدریس کے
انتخاب کا دوسرا نام ہے۔ اسی لئے اساتذہ کمرۂ جماعت ،طلبہ کی استعداد ،اور ذہنی تنوع
کو مد نظر رکھتے ہوئے تدریسی طریقوں کا انتخاب کریں ۔
تعلیم و تدریس کا اہم مقصد طلبہ میں صحت مند اقدار کی منتقلی ،صحت Uمند رویوں ،
عادات کی تشکیل و استحکام،نظم و ضبط( )disciplineکا فروغ ،کردار سازی ،زندگی
میں معاون مہارتوں اور عزت نفس کا فروغ ہے۔وہ تعلیم بامقصد اور کارآمد تصور کی
جاتی ہے جو ہر طالب علم کو ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرنے کے ساتھ ایک
بامقصد اور کارآمد زندگی کے لئے کو تیار کیا جاتا ہے ۔مذکورہ مقاصد کے پیش نظر
درس و تدریس کو طلبہ کی شخصی ترقی کا ایک اہم ذریعہ تصور کیا گیا ہے۔ اساتذہ
ایسی تدریسی حکمت عملی اور طریقوں کو بروئے کار الئیں جو طلبہ کی شخصی
ترقی اور استحکام کا باعث بنے۔
اعادہ ()Recapitulationاور تعین قدر ،جانچ ( )Evaluationاکتساب کی ترقی اور
تدریس کی تاثیر کا پتا چلتا ہے۔ اسی لئے ایسی تدریس کامیاب تصور کی جاتی ہے جس
میں طلبہ کی مسلسل جانچ اور اعادہ کی کنجائش فراہم کی جاتی ہے۔ اساتذہ موثر
تدریس اور مستحکم اکتساب کے لئے اپنی تدریسی حکمت عملی میں جانچ (تعین قدر)
اور اعادہ ()Recapitulationکو الزما جگہ دیں۔مسلسل جانچ و تعین قدر کے ذریعہ
استاد طلبہ کی اکتسابی ترقی کی جانچ و پیمائش کو انجام دیتا ہے ۔جانچ و تعین قدر کے
ذریعہ استاد طلبہ کی اکتسابی ترقی میں مانع عوامل سے واقف ہوتا ہے۔ جانچ و تعین
قدر ہی اساتذہ کو اصالحی تدریس کے طریقے وضع کرنے میں مددفراہم کرتا ہے۔
اساتذہ طلبہ کی جانچ و پیمائش کے بعد اصالحی تدریس کے ذریعہ اکتسابی کوتاہیوں
اور کمزوریوں کو دور کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ اساتذہ اپنی تدریسی سرگرمیوں میں
طلبہ کی مسلسل جامع جانچ ،اکتسابی ،اخالقی اور برتاؤ کی ترقی کے لئے مکمل
گنجائش اور مواقع فراہم کریں۔
طلبہ میں خوش گوار اکتساب کے فروغ کے لئے مختلف اوقات اور مراحل میں طلبہ
کی نفسیات اور اپنی تدریسی سطح پر اساتذہ کا نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔نفسیاتی
اور ذہنی صالحیتوں کو پیش نظر رکھ کر اساتذہ طریقہ تدریس کو اپنائیں تاکہ تدریس
کو طلبہ مرکوز بنایا جاسکے۔وہ تدریس بہتر مانی جاتی ہے جس میں نفسیاتی عوامل پر
توجہمرکوز کی جاتی ہے اور نفساتی تقاضوں کے عین مطابق طریقہ تدریس اور
تدریسی حکمت عملی وضع واختیار کی جاتی ہے
تدریس عمل کو جدید تکنیکی و تخلیقی نظریات سیہم آہنگ کرتے ہوئیمزید بہتر
اورعصری تقاضوں کے عین مطابق بنایا جاسکتا ہے۔اساتذہ نئے تعلیمی رجحانات Uاور
اختراعی و تکنیکی وسائل سے مطابقت پیدا کرتے ہوئے اکتساب کے عمل کو پر
کیف ،پائیدار،موثر اور یاد گار عمل بنا سکتے ہیں۔تجربوں اور تجزیات پر مبنی تدریس
نہ صرف موثر بلکہ پائیدار بھی ہوتی ہے۔تعلیمی دنیا میں وقوع پذیر تبدیلیوں سے
اساتذہ کا واقف ہونا ضروری ہے۔ اساتذہ اپنی صالحیتوں کو عصری تقاضوں کے عین
مطابق بناکر طلبہ کو تعلیمی عمل میں مزید فعال اور سرگرم بناسکتے ہیں۔عصری
تقاضوں سے نا واقف اساتذہ معلومات میں اضافہ تو کجا طلبہ کی رہی سہی صالحیتوں
کے بے دردانہ قتل کے مرتکب ہوجاتے ہیں۔ایک بہتر استاد تدریس کے اساسی پہلوؤں
سے سرموئے انحراف کیئے بغیر نئے تدریسی تجربات و طریقوں کو ایجاد و اختیار
کرتا ہے۔
تدریسی اصولوں پر عمل کرتے ہوئے استاد نہ صرف اپنی تدریسی صالحیتوں کو
فروغ دیتا ہے بلکہ معیاری اکتساب کو پروان چڑھانے میں کامیابی بھی حاصل کرتا
ہے۔تدریسی اصولوں پر عمل پیرائی کے ذریعہ مشکل اور گنجلک تدریسی مسائل آسان
اور سہل ہوجاتے ہیں۔ تدریسی اصول کے ذریعے نہ صرف استاد الجھن اور پریشانی
سے محفوظ رہتا ہے بلکہ طلبہ بھی تشکیک اور تشویش سے مامون رہتے ہیں۔استاد کا
میکانکی انداز میں سبق پڑھا نا طلبہ کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ زمانے قدیم سے
یہ بات کہی جاتی رہی ہے کہ طلبہ میں علم حاصل کرنے کے لئے شوق و ذوق بہت
ضروری ہے۔ میری نظر میں جس طرح حصول علم کے لئے طلبہ میں شو ق و ذوق
ضروری ہے بالکل اسی طرح موثر تدریس کے لئے استا د میں بھی تدریس افعال کی
انجام دہی کے لئے شوق و ذوق اور جوش و جذبے کا پا یا جا نا نہایت ضروری ہے۔
طالب علم کی ذہنی استعداد کی طرح معلم کی تدریسی لیاقت Uبھی اہمیت کی حامل ہوتی
ہے ۔اکثر و بیشتر طلبہ ہی امتحان اور آزمائش کے نام پر تختہ مشق بنایا جاتا ہے۔ بہت
ہی کم یا نہیں کے برابر اساتذہ کی تدریسی لیاقت اور استعداد کو موضوع بحث بنایا جاتا
ہے۔ اکتساب کے زوال یاماند پڑھنے پر عموما طلبہ کو لعن طعن کا سامنا کرنا پڑتا ہے
بہت کم اساتذہ کی تدریسی لغزشوں کی طرف نگاہ کی جاتی ہے ۔اس حقیقت سے
مجھے کوئی انکار نہیں ہے کہ فروغ علم اور اکتساب کے زوال میں طلبہ کی غفلت
شامل حال ہے لیکن بد کو بدتر بنانے میں اساتذہ کا بھی کہیں نہ کہیں ہاتھ ہے۔ اساتذہ
کامیاب طلبہ کو جس شان سے اپنی کارکردگی کا نمونہ بنا کر پیش کرتے ہیں اسی
طرح ضروری ہے کہ وہ بچوں میں اکتساب کی ماندگی کے اسباب تالش کرنے
کیعالوہ اپنے تدریسی طریقہ کارکی خامیوں کا بھی جائزہ لیں۔اپنے تدریسی تجربات کی
روشنی میں مجھے یہ بات کہتے کوئی عار محسوس نہیں ہورہاہے کہ اساتذہ اپنی
تدریسی جہالت کی بناء پر بچوں کی صالحیتوں کا قتل کر رہے ہیں۔حروف کی ترتیب
و صوتیات سے واقف فرد استاد نہیں ہوتا ہے بلکہ استاد طلبہ کے نفسیاتی ،معاشرتی
مسائل کا ادراک رکھتا ہے ان کی سابقہ معلومات اور ذہنی صالحیتوں اور استعداد کو
ملحوظ رکھ کر اپنی تدریسی حکمت عملی وضع کرتا ہے۔بہتر ،کامیاب اور موثر
تدریس کی انجام دہی کے لئے استاد کا الئق ،قابل اور تربیت یافتہ ہونابہت ضروری
ہے۔ اساتذہ درس و تدریس کے جدید نظریات اور تکینک سے خود کو آراستہ کرتے
ہوئے ایک جہالت سے پاک معاشرے کی تعمیر میں نمایا ں کردار انجام دے سکتے
ہیں،
REFRENCES:
۔1
فاروق طاہر
ماہر تعلیم
جامعہ عثمانیہ
۔2
http://zahanat.com/resources/resources-for-teachers/effective-teaching-strategies-techniques-
سوال نمبر :5تعلیم اور معاشی حاالت کا باہمی تعلق واضح کیجئے۔
:جواب
تعلیم اور معاشرہ
فرد کو معاشرتی اقدار کی تفہیم دے کر اسے معاشرتی تقاضوں کی تکمیل کے قابل بنانا تعلیم
کی اہم ذمہ داری ہے۔ تعلیم اور معاشرہ ایک دوسرے سے جدا رہ کر اپناوجود برقرار نہیں
رکھ سکتے۔ دونوں ہی ایکد وسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ تعلیم فرد کے لئے بے پناہ راہیں
ہموار کرتی ہے جس پر چل کر وہ معاشرے میں ایک کامیاب زندگی گزارنے کے قابل ہو
جاتا ہے۔ فرد تعلیم کے ذریعے معاشرتی فہم حاصل کرتا ہے ا ور معاشرے کی تنظیم و
ترتیب کو سمجھتے ہوئے اپنا معاشرتی کردار ادا کرتا ہے ۔ تعلیم ہی فرد کو یہ شعور بخشتی
ہے کہ اسے معاشرے کی ترقی کیلئے کون سی خدمات سر انجام دینی ہیں تعلیم ہی فرد کو
اس قابل بناتی ہے کہ اپنی تہذیبی اقدار سے آگاہی حاصل کر کے معاشرے کا مفید رکن بن
سکے۔ دنیا کے ہر معاشرے کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے۔
:معاشرتی استحکام
علیم فرد اور معاشرے کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔ تعلیم ہی وہ سماجی
سرگرمی ہے جو فرد اور معاشرے کے باہمی رشتوں کو فروغ دیتی ہے۔ معاشرتی استحکام
کی منزل کا حصول ہر معاشرے کی شعوری خواہش ہوتی ہے۔ تعلیم کے بغیر معاشرے کا یہ
خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ تعلیم ہی وہ واحد آلہ ہے جس کے ذریعے معاشرتی ورثہ
کی حفاظت ،تبلیغ اور منتقلی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔کوئی ملک یا معاشرہ کسی بھی قسم
کی ترقی کا تصور ہی نہیں کرسکتا جب تک وہ معاشرے یا قوم علم کی اہمیت کو تسلیم نہیں
کرلیتے اور اس کو اپنے ملک کی ترقی کیلئے ناگزیر نہیں سمجھ لیتے۔ یہی وجہ ہے کہ آج
اگر ہم جائزہ لیں تو وہی ملک ترقی کی بلندیوں پر نظر آتے ہیں جنہوں نے علم کی اہمیت کو
تسلیم کیا۔ حاالنکہ بحیثیت مسلمان ہم جانتے ہیں کہ ہمارے نبی کریم ﷺ نے
آج سے چودہ سو سال پہلے علم کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ" علم حاصل کرو
چاہے اس کیلئے چین ہی کیوں نہ جانا پڑے "۔پھر اگر ہم دنیا کے فالسفرز کو دیکھیں چاہے
وہ جرمنی کاایمانیول کینٹ ہو،فرانس کا رینے ڈیکارڈ ہو،اسکاٹ لینڈ کا ایڈم اسمتھ ہو ،یونان
کا افالطون اور ارسطو ہو ،ان کی فالسفی کی بنیاد ہی علم کی اہمیت پر تھی ۔ اسی طرح اگر
مسلم دنیا پر نظر دوڑائیں تو ہمیں ابن سینا ہوں ،ابونصر الفارابی Uہوں ،ابو حامد الغزالی
ہوں ،فخر الدین الرازی ہوں ،ابن خلدون ہوں ،ابن طفیل ہوں ،عالمہ اقبال ہوں یادیگر ہوں ،یہ
تمام لوگ بھی علم کی ہی وجہ سے تاریخ کے روشن ستارے ہیں ۔اسی لئے جب تک مسلم امہ
علم کے ساتھ وابستہ رہی دنیا پر مسلمانوں نے حکمرانی کی اور آج بھی تاریخ میں بغداد کے
کتب خانے اس بات کے گواہ ہیں دشمنوں نے سب سے پہلے ان ہی پرحملہ کیا تھا کیونکہ وہ
جانتے تھے کہ علم وہنر کے خزانوں کو تباہ کئے بغیرکسی بھی قوم کی طاقت ختم نہیں کی
جاسکتی۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انسانی ترقی میں علم کی کیا اہمیت ہے خصوصا ً
جدید معاشی ترقی علم کے بغیر ناممکن ہے۔
References:
1-Relationship Between Education And Economic
By ZeljkoPozega
ByElsevier