You are on page 1of 4

‫محسن اسالم قبل از اسالم‬

‫ِ‬
‫دمحم عمر ب ن ع ب د العزیز ج ھ ن گ‬
‫ئ ت‬ ‫ق ن‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ن ن‬ ‫شخ‬
‫ے‬ ‫ے وب‬ ‫ے تکہ اری خ خ می نں اپ ا ای ک م ہامت ب ای نا ب تلکہ اگر ی ہ کہکا ج ا ئ‬
‫صرف ی ہ ہ‬
‫خ‬ ‫ن‬‫ے کہ ج ہوںن ے ن ہ‬ ‫ہ‬ ‫دامن اسالم ب ہت سی ای سی صات سے لب ریز‬
‫ج ا ن ہ ہ وگا کہ ا ہوں ے ود ای سی ای سی ا یر ی ں ب ادی ہ ی ں کہ ر ی د ی ا ک ی اد ر ھی ج ا ی ں گی۔‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ض‬ ‫ن‬ ‫ن ت‬ ‫ف‬ ‫شخ‬ ‫ت‬
‫ن ا یر خن ب ھی ازاں‬ ‫ام جخس پر ٓاج‬ ‫ے س ی د ا صدیق اکب ر ر ی ہللا عن ہ کا م ب ارک ش‬ ‫ہ‬ ‫ے وہ‬‫ہ‬ ‫ان ا یر خ ساز ص ی ات می ں سب سے سر ہرست ج و ام ٓا ا‬
‫ج‬
‫ے۔‬ ‫ے کہ اس کے دامن می ں ای سی ص ی ات ے م ل ی ا ہ‬ ‫ہ‬
‫ن‬
‫‪ :‬ام‬

‫ع ب د ہللا‬
‫ق‬
‫‪:‬ال اب‬
‫خ ف‬
‫ث ن ثن ف‬ ‫تق‬
‫ابوبکر‪ ،‬الصدیق‪ ،‬العت ی ق‪ ،‬اال ی‪ ،‬االواہ‪ ،‬ا ی ا ی ن ی الغ ار اور لی ۃ رسول ہللا‬
‫ئ‬ ‫ف‬
‫ن‬ ‫ل‬
‫والدت‪ :‬عام ا ی ل سے دو سال ب عد ‪ 573‬ی ا ‪ 574‬عی سوی می ں مکہ مکرمہ کے ا در پ ی دا ہ وے۔‬
‫ن‬
‫‪ :‬سب‬
‫قش‬ ‫ق ف ث‬
‫والد‪ :‬ابو حا ہ‪ ،‬ع مان ب ن عامر ب ن عمرو الت ی می ال ر ی‬
‫قش‬ ‫خ‬ ‫خ س‬
‫والدہ‪ :‬ام الی ر ل ٰمی ب ن ت ص ر ب ن عامر الت یمی ہ ال ر ی ہ‬
‫قت‬
‫ازواج‪ :‬ی لہ ب ن ت ع ب د العزی‪ ،‬ام رومان ب ن ت عامر‪،‬اسماء ب ن ت عمیس اور ح ب ی ب ہ ب ن ت خ ارج ہ‬
‫ن‬ ‫ض‬ ‫بٹ‬
‫ے‪ :‬ع ب د الرحمن‪ ،‬ع ب د ہللا اور دمحم ر ی ہللا ع ھم‬ ‫ی‬
‫ن‬ ‫کث ض‬ ‫ئ‬ ‫ض‬ ‫ن‬ ‫ض‬ ‫ٹ‬
‫ق‬ ‫ش‬
‫ب ی ی اں‪ :‬ح رت اسماء‪ ،‬ام الموم ی ن ح رت عا ہ صدی ہ اور ام ل وم ر ی ہللا ع ھن۔‬

‫ابو کے معنی واال اور بکر کے معنی اولیت ہے اسی سے بکرہ یا باکرہ ہے۔ ابو بکر کے معنی ہوئے اولیت‬
‫والے۔ چونکہ آپ ایمان ‪ ،‬ہجرت ‪ ،‬حضور کی وفات کے بعد وفات میں اور قیامت کے دن قبر کھلنے وغیرہ‬
‫سب کاموں میں آپ ہی اول ہیں اس لیے آپ کو ابو بکر کہا گیا۔‬

‫‪:‬لقب صدیق کی وجہ تسمیہ‬

‫المرتضی سے روایت کرتے ہوئے فرمایا ہے‪’’ :‬ابو بکر کا لقب صدیق اس وجہ‬ ‫ٰؓ‬ ‫نووی نے سیدنا علی‬
‫ؒ‬ ‫امام‬
‫سے ہے کہ ٓاپ ہمیشہ سچ بوال کرتے تھے‪ٓ ،‬اپ نے نبی کریمﷺ کی نبوت کی تصدیق میں‬
‫جلدی کی اور ٓاپ سے کبھی کوئی لغزش نہیں ہوئی۔‘‘ ابن سعد کی روایت ہے‪’’ :‬جب معراج میں‬
‫حضورﷺ کو ٓاسمانوں کی سیر کرائی گئی تو ٓاپ نے جبرائیل سے فرمایا کہ میری اس سیر‬
‫بکر کریں گے‪ ،‬کیونکہ وہ‬ ‫کو کوئی تسلیم نہیں کرے گا؟ جبرائیل نے عرض کیا ٓاپ کی تصدیق سیدنا ابو ؓ‬
‫مالک سے مروی ہے‪’’ :‬حضورﷺ جبل احد پر تشریف لے‬ ‫ؓ‬ ‫صدیق ہیں۔‘‘ حضرت انس بن‬
‫غنی بھی تھے۔ احد پہاڑ پر زلزلہ ٓاگیا۔‬ ‫ؓ‬
‫فاروق اور عثمان ؓ‬ ‫ؓ‬
‫صدیق‪ ،‬عمر‬ ‫گئے اور ٓاپ کے ہمراہ ابو بکر‬
‫حضورﷺ نے اپنے پیر کی ٹھوکر لگائی اور فرمایا اے احد! ٹھہر جا‪ ،‬تجھ پر ایک نبی‪،‬‬
‫ایک صدیق اور دو شہید موجود ہیں۔‘‘ سیدنا علی المرتضی نے سیدنا ابو بکر صدیق کے وصال پر فرمایا‪:‬‬
‫‪:‬ہللا عزوجل نے ابوبکر کا نام صدیق رکھا اور پھر ٓاپ نے سورۃ الزمر کی ٓایت ذیل تالوت فرمائی‬
‫ص َّد َ‬
‫ق بِ ِه[الزمر‪]۳۳:‬‬ ‫َوالَّ ِذي َجا َء ِبالصِّ ْد ِ‬
‫ق َو َ‬

‫وہ جو سچائی لے کر ٓایا اور وہ جس نے اس سچائی کی تصدیق کی وہی متقی ہیں۔‬

‫‪:‬لقب عتیق کی وجہ تسمیہ‬

‫لفظ عتیق کے متعلق بعض محدثین کا خیال ہے کہ یہ ٓاپ کا نام تھا‪ ،‬جبکہ بیشتر محدثین کرام کا خیال ہے کہ‬
‫عتیق ٓاپ کا لقب تھا اور اس ضمن میں حضرت عائشہ کی ایک روایت ہے کہ ’’ایک روز میں اپنے حجرہ‬
‫مبارک میں موجود تھی اور باہر صحن میں کچھ صحابہ کرام حضورﷺ کے ہمراہ تھے۔‬
‫اس دوران سیدنا ابو بکر تشریف الئے تو حضورﷺ نے فرمایا‪ :‬جو لوگ کسی عتیق (ٓازاد)‬
‫زبیر سے مروی ہے کہ نبی‬ ‫کو دیکھنا چاہیں وہ ابو بکر کو دیکھ لیں۔‘‘ حضرت عبد ہللا بن ؓ‬
‫کریمﷺ نے سیدنا ابو بکر صدیق کے بارے میں فرمایا‪’’ :‬ہللا نے ابو بکر صدیق کو ٓاگ‬
‫سے ٓازاد کر دیا ہے۔‘‘ چنانچہ حضورﷺ کے اس فرمان کے بعد ٓاپ عتیق کے لقب سے‬
‫حسن صورت وجہ‬ ‫ِ‬ ‫ؓ‬
‫صدیق کو عتیق‬ ‫بھی مشہور ہوئے۔ حضرت لیث بن سعد سے منقول ہے‪’’ :‬سیدنا ابو بکر‬
‫سے کہا جاتا ہے۔‘‘ بعض علما کا قول ہے کہ چونکہ ٓاپ کے نسب میں کوئی بھی ایسی بات نہیں جو عیب‬
‫سمجھی جا سکے پس سلسلہ نسب کے بے عیب ہونے کے سبب ٓاپ کا نام عتیق مشہور ہوا۔‬

‫‪:‬بچپن‬

‫ٓاپ کا بچپن دیکھیں توانسان حیران ہوتا ہے کہ ٓاپ نے جس ماحول کی ٓاغوش میں پرورش پائی وہ کفر و‬
‫شرک اور فسق و فجور کا دور تھا‪ ،‬حتی کہ جس خانٔہ خدا سے توحید کی ٓاوازیں بلند ہونی تھیں اسی کے‬
‫متولی اور محافظ قریش بھی عرب کے دوسرے قبیلوں کی طرح بلکہ اس سے بھی دو ہاتھ ٓاگے کفر و‬
‫شرک میں مبتال تھے۔ اس کے باوجود ٓاپ کا بچپن اعتدال پسندی‪ ،‬پاکبازی‪ ،‬معیاری اخالق وکردار سے‬
‫مزین تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ جب اس بچے کی عمر چار سال تھی تو اس کے والد ابو قحافہ اس کو‬
‫اپنے ساتھ بت خانہ لے گئے اور وہاں کے ایک بڑے بت کی طرف اشارہ کر کے کہا‪” :‬یہ ہے تمہارا بلند و‬
‫“باال خدا اس کو سجدہ کرو۔‬

‫اس بچے کی ذہنی استعداد پر قربان جائیں کہ بت سے مخاطب ہوکر کہا‪” :‬میں بھوکا ہوں مجھے کھانا دے‪،‬‬
‫میں ننگا ہوں مجھے کپڑے دے‪ ،‬میں پتھر مارتا ہوں اگر خدا ہے تو اپنے ٓاپ کو بچا۔“ اس چیلنج کا کیا‬
‫جواب ملنا تھا‪ ،‬اس کا نتیجہ یہ نکال کہ بچے نے اس بڑے (بظاہر خدا) پتھر کو ایک چھوٹا سا پتھر بچپنے‬
‫کے باوجود اس زور سے مارا کہ وہ گر پڑا۔ والد یہ دیکھ کر غضبناک ہو گئے‪ ،‬اپنے خدا کی یہ توہین‬
‫برداشت نہ ہوئی تو اپنے معصوم بچے کو تھپڑ مارا اور وہاں سے گھسیٹے ہوئے ام الخیر کے پاس الئے۔‬
‫انہوں نے ننھے بچے کو گلے لگا لیا اور ابو قحافہ سے کہا‪” :‬اسے اس کے حال پر چھوڑ دوجب یہ پیدا ہوا‬
‫تھا تو مجھے اس کے بارے میں غیب سے کئی اچھی باتیں بتائی گئی تھیں۔“ اس وقعے کے بعد کسی نے‬
‫ٓاپ کو بت پرستی وغیرہ پر مجبور نہیں کیا اور اس طرح ٓاپ کا دامن شرک سے پاک رہا۔‬

‫عرب قوم من حیث القوم ان پڑھ تھی‪ ،‬لکھنے پڑھنے کا رواج نہیں تھا اور نہ ہی اس کی طرف کوئی توجہ‬
‫دی جاتی تھی‪ ،‬البتہ خال خال لوگ پڑھنا لکھنا جانتے تھے اور سیدنا ابو بکر ان میں سے ایک تھے۔ قیاس‬
‫یہ ہے کہ ابو قحافہ نے اپنے فرزند کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دی۔ اس طرح ٓاپ صرف نہ پڑھنا‬
‫لکھنا جان گئے بلکہ شرفاء کے دوسرے اچھے مشاغل میں بھی ٓاپ کو دسترس حاصل ہو گئی مثالً لڑنے کا‬
‫ڈھنگ‪ ،‬ہتھیاروں کا استعمال‪ ،‬شعر گوئی اور شعر فہمی‪ ،‬تجارت وغیرہ۔ گھر میں دولت کی ریل پیل تھی‬
‫لیکن ٓاپ عیش و عشرت اور شراب خوری جیسے ذمائم سے ہمیشہ نفرت فرماتے رہے۔‬
‫‪:‬جوانی کے حاالت‬

‫مکہ مکرمہ میں زراعت تو تھی نہیں‪ ،‬ل ٰہذا قریش قوم تجارت پیشہ تھی اور اس کا ہر فرد اس شغل میں‬
‫مصروف تھا۔ چنانچہ ٓاپ نے بھی جوان ہو کر کپڑے کی تجارت شروع کر دی جس میں ٓاپ کو غیر معمولی‬
‫فروغ حاصل ہوا اور ٓاپ کا شمار بہت جلد مکہ کے نہایت کامیاب تاجروں میں ہونے لگا۔ تجارت میں ٓاپ‬
‫ؓ‬
‫صدیق کی‬ ‫کی کامیابی میں ٓاپ کی جاذب شخصیت اور بے نظیر اخالق کو خاصا دخل تھا۔ جب ابو بکر‬
‫عمر اٹھارہ سال تھی تو ٓاپ حضورﷺ کے ہمراہ تجارت کی غرض سے ملک شام گئے اور‬
‫ایک مقام پر بیری کے درخت کے نیچے تشریف فرما ہوئے۔ قریب ہی ایک اہل کتاب راہب رہتا تھا سیدنا ابو‬
‫‪:‬بکر اس کے پاس گئے تو اس نے پوچھا کہ بیری کے درخت کے نیچے کون ہے؟ ٓاپ نے جواب دیا‬

‫محمد بن عبد ہللا بن عبد المطلب۔‬

‫اس راہب نے کہا وہللا یہ نبی ہیں۔ اس درخت کے سائے میں حضرت مسیح کے بعد سوائے حضرت محمد‬
‫نبی ہللا کے اور کوئی نہیں بیٹھا۔ یہ بات ٓاپ کے دل میں جم گئی اور اسی دن سے انہوں نے‬
‫حضورﷺ کی صحبت و محبت اختیار کر لی۔‬

‫ایک مرتبہ حضرت ابو بکر صحن کعبہ میں کھڑے تھے۔ اتنے میں امیہ بن ابی صلت ثقفی شاعر جو جاہلی‬
‫دور میں موحدانہ نظمیں کہا کرتا تھا وہاں ٓایا اور ٓاپ سے خطاب کر کے کہنے لگا جس نبی کی ٓامد کا‬
‫انتظار ہے وہ ہم (اہل طائف) میں مبعوث ہوگا یا تم (قریش مکہ) میں؟ ٓاپ نے کہا مجھے معلوم نہیں۔ اس‬
‫گفتگو کے بعد ٓاپ تصدیق حال کے لیے ورقہ بن نوفل کے پاس گئے۔ یہ اکثر ٓاسمان کی طرف دیکھتے‬
‫رہتے تھے اور منہ میں کچھ گنگنایا کرتے تھے۔ حضرت ابو بکر نے امیہ بن ابی صلت کا مقولہ پیش کر‬
‫‪:‬کے ان کا خیال معلوم کرنا چاہا۔ ورقہ بن نوفل نے کہا‬

‫وسط عرب کے ایک ”‬ ‫ِ‬ ‫ہاں بھائی مجھے علوم سموی پر عبور حاصل ہے جس نبی کی ٓامد کا انتظار ہے وہ‬
‫خاندان سے ظاہر ہو گا اور چونکہ میں علم نسب کا بھی ماہر ہوں اس بنا پر کہتا ہوں کہ وہ تمہارے اندر‬
‫‘‘ہوگا۔‬

‫ورقہ کا بیان سن کر ٓاپ کا اشتیاق و انتظار اور بڑھ گیا۔ حضرت ابو بکر صدیقﷺ نے ایک‬
‫دفعہ خواب میں دیکھا کہ ایک چاند مکہ پر نازل ہو کر کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا اور اس کا ایک ایک‬
‫ٹکڑا ایک ایک گھر میں داخل ہوا پھر یہ ٹکڑے باہم مل گئے اور مکمل چاند ٓاپ کی گود میں ٓاگیا۔ ٓاپ بیدار‬
‫ہوئے تو رٔویا کی تعبیر میں مہارت رکھنے والے ایک شخص کے پاس گئے اور اس سے اپنے خواب کی‬
‫تعبیر پوچھی۔ اس نے بتایا کہ اس نبی ٓاخر الزمان کی پیروی کرو گے جس کا انتظار کیا جا رہا ہے اور تم‬
‫اس نبی کے پیرؤوں میں سب سے افضل ہو گے۔‬

‫ابن عساکر نے حضرت کعب سے روایت کی ہے کہ حضرت ابو بکر ایک مرتبہ بغرض تجارت ملک شام‬
‫گئے‪ ،‬وہاں ایک عجیب خواب دیکھا۔ اس کی تعبیر دریافت کرنے کے لیے وہاں کے ایک مشہور راہب‬
‫بحیرا راہب کے پاس گئے۔ بحیرا نے خواب سن کر کہا تم کہاں کے رہنے والے ہو؟ ٓاپ نے جواب دیا مکہ۔‬
‫بحیرا نے پوچھا کس خاندان سے ہو؟ ٓاپ نے فرمایا قریش سے۔ بحیرا نے پوچھا کیا کام کرتے ہو؟ ٓاپ نے‬
‫فرمایا تاجر ہوں۔ بحیرا نے کہا‪" :‬تو پھر سنو تمہارا خواب سچا ہے۔ تمہاری قوم میں ایک عظیم الشان رسول‬
‫مبعوث ہوں گے تم ان کی زندگی میں ان کے وزیر اور وفات کے بعد ان کے خلیفہ ہو گے۔" عہد جاہلیت‬
‫میں قبیلہ قریش کی شاخ بنو تمیم کے معتلق دیت اور تاوان کا فیصلہ تھا۔ بنو تمیم میں حضرت ابو بکر‬
‫صدیق خون بہا اور تاوان کا فیصلہ کرتے تھے جس کو ٓاپ مان لیتے تمام قریش اس کو تسلیم کرتے اگر‬
‫کوئی دوسرا اقرار کرتا تو کوئی بھی اس کا ساتھ نہیں دیتا۔ ٓاپ اس شرف و فضیلت کے کہ وہ اپنے قبیلے‬
‫کے سردار اور منجملہ دس سرداران قریش کے ایک سردار تھے۔ مال و دولت کے اعتبار سے بھی بڑے‬
‫متمول اور صاحب اثر تھے۔ ٓاپ قریش میں بڑے بامروت اور لوگوں پر احسان کرنے والے تھے۔ مصائب‬
‫کے وقت صبر و استقامت سے کام لیتے اور مہمانوں کی خوب مدارات و توضع بجا التے۔ لوگ اپنے‬
‫اعلی درجے کا صائب الرائے سمجھتے تھے۔ ٓاپ‬
‫ٰ‬ ‫معامالت میں ٓاپ سے ٓاکر مشورہ لیا کرتے اور اپ کو‬
‫انساب اور اخبار عرب کے بڑے ماہر تھے۔‬

‫نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ ٓامین‬


‫ِ‬ ‫تعالی ہمیں بھی ان حضرات کے‬
‫ٰ‬ ‫ہللا‬

You might also like