You are on page 1of 4

‫ہنسی مزاح اور دل لگی اُسؤہ رسول ﷺکی ُروشنی میں‬

‫‪2018‬جمعه‪ 23 ‬فروری‬
‫زندگی کے تقریبا ً تمام ہی شعبوں میں باہمی رنجش وں ‪،‬رق ابتوں اور ن اموافقتوں‬
‫کا کھیل جاری رہتا ہے‪ ،‬کبھی کسی نے کوئی عیب اُچھال دی ا‪ ،‬ک وئی جملہ کس‬
‫دیا‪ ،‬یا بھرے مجمع میں لوگوں کے سامنے ذلیل کردیا اور مجمع نے ای ک زور‬
‫دار قہقہ لگادیا تو اِس سے فطرتی طور پر انسان کے دل و دماغ پر اُداس ی چھ ا‬
‫جاتی ہے‪ ،‬طبیعت تلمال اُٹھتی ہے‪ ،‬اور روح تڑپ کر رہ جاتی ہے۔ اِنسان کو ہللا‬
‫تعالی نے انتہائی محترم اور قاب ل ع زت بنای ا ہے‪ ،‬اِس ل یے اس الم اِس قس م کی‬
‫ٰ‬
‫تمام گھٹیا و رذیل حرکات و خراف ات کی مکم ل ط ور پ ر نفی کرت ا ہے کہ جس‬
‫میں کسی قاب ل اح ترام انس انیت کی ت ذلیل و ت وہین ک و اپ نی طبعی تف ریح اور و‬
‫روحانی تسکین کا ذریعہ بنایا جائے۔ہ اں! ک وئی ایس ی ص ورت ہ و کہ جس میں‬
‫کسی انسان کی توہین و تنقیص اور ہتک و تذلیل کا پہلو مفقود ہ و‪ ،‬اور اُس س ے‬
‫اُس کے نقائص و عیوب کا اُچھالن ا مقص ود نہ ہ و ت و اخالقی اور ش رعی دائ رہ‬
‫کار کے ان در رہ تے ہ وئے اپ نے بی وی بچ وں‪ ،‬عزی ز و اق ارب اور بے تکل ف‬
‫دوس توں اور س اتھیوں کے س اتھ ب اہمی ہنس ی م زاح اور دل لگی ک رنے کی نہ‬
‫صرف یہ کہ اسالم اجازت دیتا ہے‪ ،‬بلکہ اِس کی حوصلہ افزائی بھی کرتاہے۔‬
‫چنانچہ ای ک ٓادمی نے حض رت ابن عب اس ص س ے پوچھ ا کہ‪’’ :‬کی ا حض ورا‬
‫م زاح فرمای ا ک رتے تھے؟۔‘‘ حض رت ابن عباس ص نے فرمای ا‪’’ :‬ہ اں!۔‘‘ اُس‬
‫ٓادمی نے کہ ا‪ٓ’’ :‬اپ ا ک ا م زاح کیس ا ہوت ا تھ ا؟۔‘‘ حض رت ابن عب اس ص نے‬
‫حضور ا کے مزاح کا یہ قصہ سنایا کہ ‪ٓ’’ :‬اپ ا نے اپنی ایک زوجٔہ مطہرہ ک و‬
‫کھال کپڑے پہننے کو دیا اور فرمایا‪’’ :‬اسے پہن لو اور ہللا کا شکر ادا کرو اور‬
‫نئی ُدلہن کی طرح اِس کا دامن گھسیٹ کر چلو!۔‘‘(تاریخ دمشق البن عساکر)‬
‫حضرت انس بن مالک ص فرماتے ہیں کہ‪’’ :‬ای ک م رتبہ ن بی ک ریم ا حض رت‬
‫طلحہص کے ہاں تشریف لے گئے‪ ،‬تو اُن کے ایک بیٹے کو بڑا غمگین دیکھ ا‪،‬‬
‫جس کی کنیت ’’ابو عم یر‘‘ تھی‪ ،‬حض ور ا ک ا معم ول یہ تھ ا کہ ٓاپ ا جب اب و‬
‫عم یر ک و دیکھ ا ک رتے ت و اُس س ے م زاح فرمای ا ک رتے۔ چن انچہ ٓاپ ا نے‬
‫فرمایا‪ ’’:‬کیا بات ہے ابو عمیر ! غمگین نظر ٓارہے ہو؟۔‘‘ گھ ر وال وں نے بتای ا‬
‫کہ‪ ’’ :‬اِس کا نُغیر (الل چڑیا یا بلبل) پرندہ مرگی ا ہے‪ ،‬جس س ے یہ کھیال کرت ا‬
‫تھا(اِس ل یے غمگین نظ ر ٓارہ ا ہے)۔‘‘ اِس پ ر حض ورا اُس س ے (دل لگی کے‬
‫لیے) فرمانے لگے‪’’ :‬اے ابو عمیر! تمہارے نُغیر پرندے کا کیا بن ا؟۔‘‘(طبق ات‬
‫ابن سعد)‬
‫حضرت انس بن مالک ص فرماتے ہیں کہ‪’’ :‬حضور انے ای ک دفعہ مجھے از‬
‫نن ابی دأود)‬ ‫ان والے!۔‘‘(س‬ ‫ا‪ ’’ :‬او دو ک‬ ‫زاح فرمای‬ ‫را ِہ م‬
‫حضرت انس بن مالک ص فرم اتے ہیں کہ‪ ’’ :‬ای ک ٓادمی حض ور ا کی خ دمت‬
‫میں ٓایا اور اُس نے ٓاپ ا سے اپنے لیے سواری مانگی تو حضور ا نے فرمای ا ‪:‬‬
‫’’ہم تمہیں اونٹنی کا بچہ دیں گے۔‘‘ اُس نے عرض کیا‪’’ :‬یارس ول ہللا (ا)! میں‬
‫اُونٹنی کے بچہ کا کیا کروں گا؟(مجھے تو س واری کے ل یے ج انور چ اہیے وہ‬
‫بچہ ت و س واری کے ک ام نہیں ٓاس کے گ ا۔‘‘) حض ورا نے فرمای ا‪’’ :‬ہ ر اونٹ‬
‫ذی)‬ ‫مائل ترم‬ ‫ا ہے۔‘‘ (ش‬ ‫و ہوت‬ ‫ا بچہ ہی ت‬ ‫نی ک‬ ‫اُونٹ‬
‫حض رت انس بن مال ک ا فرم اتے ہیں کہ‪ ’’ :‬دیہ ات کے رہ نے والے ای ک‬
‫صحابی کا نام ’’زاہر‘‘ تھا ‪ ،‬وہ گأوں سے ٓانحضرت اکے لیے (سبزی ترک اری‬
‫وغیرہ) ہدیہ الیا کرتے ‪ ،‬اور جب یہ واپس جانے لگتے ت و حض ورا اُنہیں ش ہر‬
‫کی چیزیں دے دیا کرتے‪،‬اورٓاپ ا فرماتے‪’’ :‬زاہر ہمارا ’’دیہ ات‘‘ ہے‪ ،‬اور ہم‬
‫اُس کے ’’ش ہر‘‘ ہیں۔‘‘ حض ور ا ک و اِن س ے ب ڑی محبت تھی‪،‬لیکن تھے یہ‬
‫بدصورت۔ ایک مرتبہ حضرت زاہر ص اپنا س امان بیچ رہے تھے‪ ،‬حض ورانے‬
‫پیچھے س ے ج اکر اُن کی ’’ک ولی‘‘ ایس ی بھ ری کہ وہ حض ور ا ک و نہ دیکھ‬
‫سکیں‪ ،‬یعنی اُن کی کمر اپنے سینے سے لگا ک ر اُن کی بغل وں کے نیچے س ے‬
‫دونوں ہاتھ لے جاکر اُن کی ٓانکھوں پ ر رکھ دی ئے۔ حض رت زاہ ر ص نے کہ ا‪:‬‬
‫’’مجھے چھوڑ دو! یہ ک ون ہے؟۔‘‘ پھ ر پیچھے مڑک ر دیکھ ا ت و حض ورا ک و‬
‫پہچان لیا‪ ،‬اور اپنی پیٹھ حضوراکے سینے سے اچھی طرح چمٹ انے لگے‪ ،‬اور‬
‫بطور مزاح فرمانے لگے‪’’ :‬اِس غالم کو کون خریدے گا؟۔‘‘ حضرت‬ ‫ِ‬ ‫حضور ا‬
‫زاہر ص نے عرض کیا‪’’ :‬یا رسول ہللا(ا)! اگر ٓاپ مجھے بیچیں گے تو مجھے‬
‫کھوٹا اور کم قیمت پائیں گے۔‘‘ حضور ا نے فرمای ا‪’’ :‬لیکن تم ہللا کے نزدی ک‬
‫کھوٹے اور کم قیمت نہیں ہو‪ ،‬بلکہ ہللا کے ہاں تمہاری بڑی قیمت ہے۔‘‘(ش مائل‬
‫ذی)‬ ‫ترم‬
‫حضرت عائشہ رضی ہللا عنہا فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضور اکے س اتھ‬
‫سفر میں گئی ‪ ،‬میں اس وقت نوعمر لڑکی تھی ‪ ،‬میرے جسم پر گوش ت بھی کم‬
‫تھا اور میرا بدن بھاری نہیں تھا ‪ ،‬حضورا نے لوگوں سے فرمایا ‪ٓ ’’ :‬اپ ل وگ‬
‫ٓاگے چلے جائیں ‘‘چنانچہ سب چلے گئے ‪ ،‬تو مجھ س ے فرمای ا ‪ٓ ’’ :‬أو! میں تم‬
‫سے دوڑ میں مقابلہ ک روں ‘‘چن انچہ ہم دون وں میں مق ابلہ ہ وا ت و میں حض ور‬
‫اسے ٓاگے نکل گ ئی اور حض ور ا خ اموش رہے ۔پھ ر م یرے جس م پ ر گوش ت‬
‫زیادہ ہوگیا اور میرا بدن بھاری ہوگیا اور میں پہلے قصہ کو بھول گئی ‪ ،‬تو پھر‬
‫میں ٓاپ کے ساتھ س فر میں گ ئی ‪ٓ ،‬اپ ا نے لوگ وں س ے فرمای ا ‪ٓ ’’ :‬اگے چلے‬
‫ج أو‘‘ ل وگ چلے گ ئے ‪ ،‬پھ ر مجھ س ے فرمای ا ‪ٓ ’’ :‬أو!میں تم س ے دوڑ میں‬
‫مقابلہ کروں ‘‘ چنانچہ ہم دونوں میں مقابلہ ہوا تو حض ورا مجھ س ے ٓاگے نک ل‬
‫گ ئے ‪ ،‬حض ور اہنس نے لگے اور فرمای ا‪ ’’ :‬یہ پہلی دوڑ کے ب دلہ میں ہے ‘‘‬
‫فوۃ ‪) ۱/۶۸ :‬‬ ‫فوۃ الص‬ ‫ا )۔(ص‬ ‫ر ہوگی‬ ‫املہ براب‬ ‫( اب مع‬
‫حض رت حس ن ص فرم اتے ہیں کہ‪’’ :‬ای ک ب وڑھی ع ورت نے حض ور ا کی‬
‫خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا‪’’ :‬یا رسول ہللا(ا)! ٓاپ ُدع اء فرم ائیں کہ‪’’ :‬‬
‫تعالی مجھے جنت میں داخل ک ردے۔‘‘ ٓاپ ا نے فرمای ا‪’’ :‬اے اُم فالں! جنت‬ ‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫میں کوئی بوڑھی عورت نہیں جائے گی۔‘‘ وہ عورت روتے ہوئے واپس جانے‬
‫لگی‪ ،‬تو حضور ا نے فرمایا‪’’ :‬اس ے بت ادو کہ وہ جنت میں بڑھ اپے کی ح الت‬
‫میں داخل نہ ہوگی( بلکہ جوان کنواری بن کر جنت میں جائے گی۔) کیوں کہ ہللا‬
‫تعالی فرماتے ہیں‪’’ :‬ترجمہ‪ :‬ہم نے (وہاں کی) اِن عورتوں کو خ اص ط ور پ ر‬ ‫ٰ‬
‫بنایا ہے۔ یعنی ہم نے اِن کو ایسا بنایا ہے کہ وہ کنواریاں ہیں۔‘‘ (شمائل ترم ذی)‬
‫حضرت عو ف بن مالک اشجعی صفرماتے ہیں کہ‪’’ :‬میں ’’غزؤہ تبوک‘‘ میں‬
‫حضور ا کی خدمت میں حاض ر ہ وا‪ٓ ،‬اپ اچم ڑے کے ای ک چھ وٹے خیمہ میں‬
‫تشریف فرماتھے‪ ،‬میں نے ٓاپ ا کو سالم کیا‪ٓ ،‬اپ انے س الم ک ا ج واب دی ا‪ ،‬اور‬
‫فرمایا‪’’ :‬اندر ٓاجأو!۔‘‘ میں نے عرض کی ا‪’’ :‬کی ا س ارا ہی ٓاج أوں؟۔‘‘ ٓاپ ا نے‬
‫نن ابی دأود)‬ ‫أو!۔‘‘ (س‬ ‫ارے ہی ٓاج‬ ‫ا‪’’ :‬س‬ ‫فرمای‬
‫حضرت بکر بن عب د اللہص فرم اتے ہیں کہ‪’’ :‬حض ور اکے ص حابہ ث م زاح‬
‫میں ایک دوسرے پر’’ خربوزے‘‘ پھینکتے تھے‪ ،‬لیکن جب حقیقت اور کام ک ا‬
‫وقت ہوتا تو اُس وقت وہ مر ِد میداں ہوتے۔‘‘ (یع نی اُس وقت م زاح نہیں ک رتے‬
‫تھے‪ ،‬جب ک ام نہیں ہوت ا ت و کبھی کبھ ار ک رتے تھے۔) (االدب المف رد)‬
‫ش اعر مش رق عالمہ اقب ال ؒ نے انہیں مق دس ہس تیو ں کے ب ارے میں کہ ا تھ ا‪:‬‬
‫رم‬ ‫رح ن‬ ‫م‘‘ کی ط‬ ‫و’’ بریش‬ ‫اراں ت‬ ‫و حلقہ ی‬ ‫ہ‬
‫ٔومن‬ ‫والد‘‘ ہے م‬ ‫و ’’ف‬ ‫وت‬ ‫لہ‬ ‫ق و باط‬ ‫رزم ح‬
‫حاصل یہ کہ حدو ِد شرعیہ کے اندر رہتے ہ وئے کس ی کی پھب تی اُڑائے بغ یر‪،‬‬
‫کسی تذلیل و تنقیص کیے بغیر‪ ،‬کسی کے عی وب و نق ائص اُچھ الے بغ یر اپ نے‬
‫بیوی بچوں‪ ،‬رشتہ داروں‪ ،‬عزیز و اقارب اور دوستوں کے س اتھ گ اہے بگ اہے‬
‫ہنسی مذاح اور دل لگی کرنا نہ صرف یہ کہ اسالم میںجائز و مستحسن ہے بلکہ‬
‫اسالم اِس کی تعری ف بھی کرت ا ہے اور کھلے دل س ے اِس کی تائی د بھی کرت ا‬
‫ہے۔‬

You might also like