You are on page 1of 8

‫﷽‬

‫موسیقی اور اسالمی فنون لطیفہ‬


‫عام طور پر مذاہب کے بارے میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ یہ دنیا سے‬
‫دوری پیدا کردیتے ہیں۔ مگر دین اسالم کا مزاج اس کے برعکس ہے۔اسالم‬
‫دین اور دنیا میں تفریق کاقائل نہیں ہے۔ یہ دنیا کو اچھے سے برتنے کی‬
‫ترغیب دیتا ہے۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ اسالم انسان کے اندر یہ احساس‬
‫ہمیشہ زندہ دیکھنا چاہتا ہے کہ وہ ہر عمل میں یہ ملحوظ رکھے کہ رب‬
‫کی کیا مرضی ہے۔اس بات سے انکار نہیں کہ عام مذاہب کی دنیا بیزاری‬
‫پر مبنی تصور نے مذہبی لوگوں کے اندر ایک الگ سی شخصیت پیدا کی‬
‫ہے کہ وہ خشک مزاج اور ہنسی مزاح سے دور رہتے ہیں۔ہر وقت آہیں‬
‫بھرتے ہیں‪ ،‬دنیا کے تئیں اسی سوچ کے باعث‪ ،‬ان کے اندر قدرت کے‬
‫حسن و جمال کی طرف رغبت نہیں پائی جاتی۔ تاہم اسالم کا مبنی بر‬
‫اعتدال مزاج بندے کی دنیاوی زندگی نہ صرف پرسکون بناتا ہے بلکہ‬
‫خوشگواربھی۔ مذہب انسان کے چہرے پرہروقت مسکراہٹ دیکھناچاہتاہے‬
‫– مسکراہٹ انسان کا خاصہ ہے کیوں کہ جانور نہیں مسکراتے۔ اس بات‬
‫میں کوئی دو رائے نہیں کہ انسان کو ذمہ دار اور مدبر ہونا چاہئے لیکن‬
‫اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ سنکی مزاج ہو۔ مذاہب کا عمومی مزاج‬
‫دیکھا گیا ہے کہ وہ مختلف فنون لطیفہ کے تئیں مثبت سوچ نہیں رکھتے‬
‫در آں حا لیکہ مختلف فنون لطیفہ سے دلچسپی ایک فطری امر ہے اور ان‬
‫فنون کی نفی فطرت کے خالف اقدام کے مترادف ہے۔ دین اسالم جائز‬
‫حدود کے اندر نہ صرف فنون لطیفہ کو جائز قرار دیتا ہے بلکہ ان کی‬
‫حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے۔‬
‫فن کا لفظ عربی ہے اور اس کے معنی ہنر اور کاری گری کے ہیں جب کہ‬
‫فنون فن کی جمع ہے۔‬
‫لطیفہ کے معنی اچھی چیز‪،‬انوکھا‪،‬عجیب کسی بھی اچھی خوبیوں‪،‬عمدگی‬
‫اور کمال کو فنون لطیفہ کے طور پر کہا‪،‬پڑھا اور لکھا جاتا ہے جو اس‬
‫کی پہچان یا تعارف ہوتی ہے کہ یہ چیز دلچسپ‪،‬انوکھی‪،‬عجیب اور لطف‬
‫اندوزی کا ذریعہ ہے۔امر حقیقت ہے کہ کسی بھی قوم کے خوبصورت اور‬
‫لطیف احساسات اور جمالی کماالت کو فنون لطیفہ کہتے ہیں۔حقیقت یہ ہے‬
‫کہ وہ شے معنوی طورپر جتنی حسین اور جمیل ہوگی صوری طور پر‬
‫بھی وہ اتنی ہی حسین اور جمیل ہوگی۔اسی لیے اسالم نے جمال اور کمال‬
‫کا معیار پاکیزگی پر رکھا ہے۔کسی بھی جمال کو پرکھا‪،‬چھا نا‪،‬چھانٹا پھر‬
‫اس کو جمال یا جمالیات کا ممتاز مقام و مرتبہ دیا۔ گویا اسالم کی نظریں‬
‫صرف ظاہر ہی تک نہیں بلکہ باطن اور اصل تک ہے۔‬
‫آدمی کی فہم و فراست اور اس کی ذکاوت کی جانچ اس کے عیش اور‬
‫طیش سے ظاہر ہو جاتی ہے اسی لیے سورہ العصر میں انسان کو خسارہ‬
‫والوں میں قرار دیا گیاہے لیکن فرق کرتے ہوئے کہا گیا سوائے ایمان اور‬
‫عمل صالح پر کاربند رہنے واال‪ ،‬خوشی اور غم میں حق پر یکساں‬
‫طورپرکا ربند رہنے واال‪ ،‬اس خسارے سے مستثنی ہے۔‬
‫تعالی ہے‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫جیسا کہ فرمان باری‬
‫ت ہَّللا ِ الَّتِی اَخ َر َج لِ ِعبَا ِد ِہ“‬
‫”قل َمن َح َّر َم ِزینَ َ‬
‫تم فرماؤ کس نے حرام کی ہللا کی وہ زینت جو اس نے اپنے بندوں لیے‬
‫نکالی۔‬
‫جب کہ حدیث نبویﷺ ہے”اِ َّن ہَّللا َ َج ِمی ٌل یُ ِحبُّ ال َج َما َل“ہللا جمیل ہے‪،‬دوست‬
‫رکھتا ہے جمال کو۔“‬
‫و من الناس من یشتری لھو الحدیث لیضل عن سبیل ہللا بغیر علم و یتخذھا‬
‫ھزوا اولئک لھم عذاب مھین (ومن لقمان‪)۶ :‬‬
‫اور بعض ٓادمی ایسا ہے جوان باتوں کا خریدار بنتا ہے جو غافل کرنے‬
‫والی ہیں تاکہ ہللا کی راہ سے بے سمجھے بوجھے گمراہ کرے اور اس‬
‫کی ہنسی اڑا دے‪ ،‬ایسے لوگوں کیلئے ذلت کا عذاب ہے۔‬
‫حضرت عبدہللا بن مسعود رضی ہللا عنہ نے تین بار قسم اٹھا کر فرمایا کہ‬
‫اس ٓایت میں ’’لھو الحدیث‘‘ سے مراد گانا بجانا ہے اسی طرح حضرت‬
‫ابن عباس‪ ،‬حضرت جابر رضی ہللا عنھما‪ ،‬حضرت عکرمہ ‪ ،‬سعید بن‬
‫تعالی‬
‫ٰ‬ ‫جبیر‪ ،‬مجاہد‪ ،‬مکحول‪ ،‬عمرو بن شعیب اور علی بن جذیمہ رحمھم ہللا‬
‫سے بھی اس ٓایت کی یہی تفسیر منقول ہے‪1‬۔‬
‫صحیح بخار شریف کی روایت ہے‪:‬‬
‫’’لیکونن من امتی اقوام یستحلون الحر والحریر والخمر والمعازف‘‘‬
‫میری امت میں کچھ لوگ پیدا ہوں گے جو زنا ‪ ،‬ریشم‪ ،‬شراب اور راگ‬
‫باجوں کو حالل قرار دیں گے۔‬
‫اسی طرح ابو دأود ‪ ،‬ابن ماجہ اور ابن حبان رحمھم ہللا کی روایت ہے۔‬
‫لیشربن الناس من امتی الخمر یسمونھا بغیر اسمھا یعزف علی رٔوسھم‬
‫بالمعازف والمغنیات یخسف ہّٰللا بھم االرض…۔ الخ‬

‫میری امت کے کچھ لوگ شراب پئیں گے مگر اس کا نام بدل کر ان کی‬
‫مجلسیں راگ باجوں اور گانے والی عورتوں سے گرم ہوں گی۔ ہللا انہیں‬
‫زمین میں دھنسا دے گا اور ان میں سے بعض کو بندر اور خنزیر بنا دے‬
‫گا۔‬
‫گھنٹیاں اور باجے شیطان کا ساز ہے‪:‬‬
‫حضرت ابوہریرہ �نبی کریمﷺکا یہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں‪:‬‬
‫” ْال َج َرسُ َم َزا ِمي ُر ال َّش ْي َ‬
‫طا ِن“گھنٹی شیطان کا ساز ہے۔(مسند احمد‪)8850:‬‬
‫‪1‬‬

‫تفسیر ابن کثیر ‪ ،۳/۴۵۷‬تفسیر قرطبی ‪ ،۱۴/۵۱‬تفسیر بغوی ‪ ،۴/۴۰۸‬تفسیر مظہری ‪۷/۲۴۶‬‬
‫گانے باجے والوں کے ساتھ رحمت کے فرشتے نہیں ہوتے‪:‬‬
‫نبی کریمﷺکااِرشادہے‪”:‬اَل تَصْ َحبُ ْال َماَل ِئ َكةُ ِر ْفقَةً فِيهَا َك ْلبٌ َأ ْو َج َرسٌ “‬
‫فرشتے اس جماعت کے ہم راہ نہیں ہوتے جس میں کتا یا گھنٹی ہو۔‬
‫(ابوداؤد‪ )2555:‬وعن جابر قال ‪ :‬قال رسول هللا صلى هللا عليه وسلم ‪" :‬‬

‫الغناء ينبت النفاق في القلب كما ينبت الماء الزرع‪" ‬۔‬


‫ترجمہ‪:‬رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ‪ :‬گانا دل میں نفاق‬
‫کو اس طرح پیدا کرتا ہے‪ ،‬جیسے پانی کھیتی کو اگاتا ہے۔‬
‫بہر کیف مسلمانوں کو اس قسم کے گناہوں سے بچتے ہوئے قرٓان مجید کو‬
‫زیادہ سے زیادہ پڑھنے‪ ،‬سننے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنی‬
‫چاہیے۔‬
‫قرآن و حدیث میں موسیقی کا جواز‬
‫حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ‪ ،‬حدثنا ابو اسامة ‪ ،‬عن هشام ‪ ،‬عن ابيه ‪ ،‬عن‬
‫عائشة ‪ ،‬قالت‪ :‬دخل علي ابو بكر وعندي جاريتان من جواري االنصار‪،‬‬
‫تغنيان بما تقاولت به االنصار يوم بعاث‪ ،‬قالت‪ :‬وليستا بمغنيتين‪ ،‬فقال ابو بكر‪:‬‬
‫ابمزمور الشيطان في بيت رسول هللا صلى هللا عليه وسلم‪ ،‬وذلك في يوم عيد‪،‬‬
‫فقال رسول هللا صلى هللا عليه وسلم‪ " :‬يا ابا بكر إن لكل قوم عيدا وهذا عيدنا‬
‫"‪.‬‬
‫اللّہصلی ہّٰللا علیہ وسلم و عندی جاریتان‬
‫عن عائشۃ قالت‪ :‬دخل علي رسول ٰ‬
‫تغنیان بغناء بعاث فاضطجع علی الفراش وحولوجھہ ودخل ابوبکر‬
‫فانتھرنی وقال مزمارۃ الشیطان عند النبی فاقبل علیہ رسول ہّٰللا صلی ہللا‬
‫علیہ السالم فقال دعھما فلما غفل غمزتھما فخرجتا وکان یوم عید‪(.‬بخاری‪،‬‬
‫رقم ‪)۹۰۷‬‬
‫؂اسی موضوع کی ایک روایت سیدہ ام سلمہ رضی ہللا عنھا کے حوالے‬
‫سے المعجم الکبیر میں نقل ہوئی ہے۔ وہ بیان فرماتی ہیں‪:‬‬
‫دخلت علینا جاریۃ لحسان بن ثابت یوم فطر ناشرۃ شعرھا معھا دف تغنی‬
‫فزجرتھا ام سلمۃ فقال النبی دعیھا یا ام سلمۃ فان لکل قوم عیدا وھذا یوم‬
‫عیدنا‪ ( .‬رقم ‪)۵۵۸‬‬
‫شادی بیاہ پرموسیقی۔‬
‫عن ابن عباس قال انکحت عائشۃ ذات قرابۃ لھا من االنصار فجاء رسول ہّٰللا‬
‫صلی ہّٰللا علیہ وسلم فقال أھدیتم الفتاۃقالوا® نعم قال ارسلتم معھا من یغنی قالت‬
‫ال فقال رسول ہّٰللا صلی ہّٰللا علیہوسلم‪ :‬ان االنصار قوم فیھم غزل فلو بعثتم‬
‫معھا من یقول‪:‬‬
‫اتیناکم اتیناکم‬
‫فحیانا وحیاکم‪( .‬ابن ماجہ‪ ،‬رقم‪)۱۹۰۰‬‬
‫اس کے بعض دوسرے طرق سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم نے یہ گفتگو اس بنا پر فرمائی کہ آپ کو شادی والے گھر میں گانے‬
‫کی کوئی آواز سنائی نہ دی۔ ابن حبان کی روایت ہے‪:‬‬

‫عن عائشۃ قالت کان فی حجری جاریۃ من االنصار فزوجتھا قالت فدخل علي‬
‫رسول ہّٰللا صلی ہّٰللا علیہ وسلم یوم عرسھا فلم یسمع غناء وال لعبا فقال یا‬
‫عائشۃ ھل غنیتم علیھا او ال تغنون علیھا ثم قال ان ھذاالحی من االنصار‬
‫یحبون الغناء‪( .‬رقم ‪)۵۸۷۵‬‬

‫جشن پرموسیقی‬
‫‪۱‬۔ عن ابن عائشۃ لما قدم رسول ہّٰللا صلی ہّٰللا علیہ وسلم المدینہ جعل النساء و‬
‫الصبیان یقلن‪:‬‬
‫طلع البدر علینا من ثنیآت الوداع‬
‫وجب الشکر علینا ما دعا ہلل داع‬
‫السیرۃ الحلبیۃ‪۲/۲۳۵‬‬
‫ہجرت کے موقع پر‬
‫انس بن مالک رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ‪ ‬نبی اکرم‪ ‬صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم‪ ‬مدینہ کے ایک راستہ سے گزرے تو دیکھا کہ کچھ لڑکیاں دف‬
‫بجاتے ہوئے گا رہی ہیں اور کہہ رہی ہیں‪« :‬نحن جوار من بني النجار يا حبذا‬
‫محمد من جار»‪ ‬ہم بنی نجار کی لڑکیاں ہیں کیا ہی عمدہ پڑوسی ہیں‬
‫محمد‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬یہ سن کر نبی اکرم‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬نے‬
‫تعالی جانتا ہے کہ میں تم سے محبت رکھتا ہوں“۔‬ ‫ٰ‬ ‫فرمایا‪” :‬ہللا‬

‫سفر میں موسیقی۔‬


‫‪ ‬عن‪ ‬سلمة بن االكوع‪ ‬رضي هللا عنه‪ ،‬قال‪ :‬خرجنا مع النبي صلى هللا‬
‫عليه وسلم إلى خيبر‪ ،‬فسرنا ليال‪ ،‬فقال رجل من القوم لعامر‪ :‬يا عامر‪،‬‬
‫اال تسمعنا من هنيهاتك؟ وكان عامر رجال شاعرا‪ ،‬فنزل يحدو بالقوم‬
‫يقول‪ :‬اللهم لوال انت ما اهتدينا وال تصدقنا وال صلينا فاغفر فداء لك ما‬
‫ابقينا والقين سكينة علينا وثبت االقدام إن القينا إنا إذا صيح بنا ابينا‬
‫وبالصياح عولوا علينا فقال رسول هللا صلى هللا عليه وسلم‪ ":‬من هذا‬
‫السائق؟"‪ ،‬قالوا‪ :‬عامر بن االكوع‪ ،‬قال‪ ":‬يرحمه هللا"‬

‫آالت موسیقی۔‬
‫عن الربیع بنت معوذ قالت دخل عليالنبی صلی ہّٰللا علیہ وسلم غداۃ بنی علي‬
‫فجلس علی فراشی کمجلسک منی وجویریاتی ضربن بالدف و یندبن من قتل‬
‫من اباءھن یوم بدر حتی قالت جاریۃ و فینا نبی یعلم مافی غد فقال النبی ال‬
‫تقولی ھکذا وقولی ما کنت تقولین‪( .‬بخاری‪ ،‬رقم‪۹ )۳۷۷۹‬‬
‫۔ بعض روایتیں اس کے جواز سے آگےبڑھ کرنکاح کے موقع پر اس کے‬
‫لزوم کو بھی بیان کرتی ہیں‪:‬‬
‫قال رسول ہّٰللا صلی ہّٰللا علیہوسلم‪ :‬فصل بین الحالل والحرام الدف والصوت‬
‫فی النکاح‪.‬‬
‫(ابن ماجہ‪ ،‬رقم ‪)۱۸۹۶‬‬
‫دف کے آلۂ موسیقی ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ یہ ہاتھ سے بجانے واال‬
‫ایک ساز ہے جوقدیم زمانے سے استعمال ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر جواد علی نے‬
‫اس کے بارے میں لکھا ہے‪:‬‬
‫والدف من آالت الطرب القدیمۃ المشھورۃو یستعمل للتعبیر عن العواطف فی‬
‫الفرح والسرور… و تنقر بہ النساء ایضاً‪ .‬وقد کان شائعا ً عند العرب‪ ،‬ینقرون‬
‫بہ فی افراحھم‪ .‬ولما وصل الرسول الی یثرب‪ ،‬استقبل بفرح عظیم و بالغناء و‬
‫بنقر الدفوف‪ .‬واکثر ما استعملہ العرب فی المناسبات المفرحۃ‪،‬کالنکاح‪،‬‬
‫ورافقوا الضرب بہ اصوات الغناء‬
‫تاریخ العرب ‪۵‬؍ ‪۱۰۸‬‬

‫فن موسیقی‬
‫یعن السائب بن یزید ان امراۃ جاء ت الی رسول ہّٰللا صلی ہّٰللا علیہ وسلم فقال‪:‬‬
‫یا عائشۃ تعرفین ھذہ؟ قالت‪ :‬ال یا نبی ہّٰللا ‪ .‬قال‪ :‬ھذہ قینۃ بنی فالن تحبین ان‬
‫تغنیک؟ فغنتھا‬
‫ٰ‬
‫الکبری ‪،‬رقم ‪۸۹۶۰‬‬ ‫‪ .‬سنن البیہقی‬

‫ترمذی اور بیہقی کی حسب ذیل روایتوں سے یہی تاثر ملتاہے ‪:‬‬
‫عن عائشۃ قالت ‪ :‬کان رسول ہّٰللا جالسا فسمعنا لغطا و صوت صبیان فقام‬
‫رسول ہّٰللا صلی ہّٰللا علیہ وسلم فاذا حبشیۃتزفن والصبیان حولھا فقال یا عائشۃ‬
‫تعالي فانظری فجئت فوضعت لحیی علی منکب رسول ہّٰللا صلی ہّٰللا علیہ‬
‫وسلم فجعلت انظر الیھا ما بین المنکب الی رأسہ فقال لي اماشبعت اما‬
‫شبعت ؟ قالت فجعلت اقول ال ألنظر منزلتی عندہ اذ طلع عمر قال فارفض‬
‫الناسعنھا قالت فقال رسول ہّٰللا صلی ہّٰللا علیہ وسلم انی ألنظر الی شیاطین‬
‫االنس والجن قد فروا من عمر‬
‫‪( .‬ترمذی ‪ ،‬رقم ‪)۳۶۹۱‬‬
‫؂حدثنا عبدہّٰللا بن بریدۃ عن ابیہ ان النبی صلی ہّٰللا علیہ وسلم قدم من بعض‬
‫مغازیہ فأتتہ جاریۃ سوداء فقالت یا رسول ہّٰللا انی کنت نذرت ان ردک ہّٰللا‬
‫سالما ان اضرب بین یدیک بالدف فقال ان کنت نذرت فاضربی قال فجعلت‬
‫تضرب فدخل ابوبکر رضی ہّٰللا عنہ وھی تضرب ثم دخل عمر رضی ہّٰللا‬
‫عنہ فالقت الدف تحتھا وقعدت علیہ فقال رسول ہّٰللا صلی ہّٰللا علیہ وسلم‪:‬ان‬
‫الشیطان یخاف منک یا عمر‪.‬‬
‫ٰ‬
‫الکبری‪ ،‬رقم ‪)۱۹۸۸۸‬‬ ‫(بیہقی سنن‬

You might also like