Professional Documents
Culture Documents
بچپن کی شادیاں
پاکستان کے مختلف عالقوں میں آج بھی بچپن کی شادیاں کرنے کا رواج ملتا ہے
جیساکہ ایک رپورٹ میں ہے کہ’’گو کہ مجموعی طور پ((ر پاکس((تان میں خ((واتین
کی پہلی ش((ادی کی عم((ر ب((ڑھ رہی ہے اور اس وقت 25سے 29س((ال کی ش((ادی
شدہ خواتین کی شادی ہونے کی اوسط عمر 23سال ہے۔ اب بھی تقریب(ا ً 50فیص((د
)
پاکستانی خواتین کی شادی 19سال کی عمر کے آس پاس ہو جاتی ہے۔‘‘([]2
خاور ممتاز ،سہیل وڑائچ ،شارق امام و دیگر ذکر کرتے ہیں:
’’عام طو رپر شادی کی کم سے کم عمر ج((و کہ مس((لم ع((ائلی ق((وانین کے مط((ابق
16سال ہے اس پر عمل درآمد بھی بہت کمزور ہے اور پیدائش کا اندراج اور اس
ک((ا ریک((ارڈ رکھ((نے ک((ا رواج نہ ہ((ونے کی وجہ س((ے ش((ادی کے وقت ل((ڑکی کی
صحیح عمر کا تعین کرنا مشکل ہوتا ہے۔ مختلف عالقوں سے اکٹھے ك((ىے گ((ئے
شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ کئی عالقے ایسے ہیں جہاں پر کم عم((ری میں ش((ادیاں
)
کرنے کا رواج اب بھی عام ہے۔‘‘([]3
اگرچہ صوبہ پنجاب کے شہری عالقوں میں بچپن کی ش((ادیوں ک((ا رجح((ان کم ہ((و
رہا ہے لیکن پنج((اب کے دیہ((اتی عالق((وں میں ش((رح خوان((دگی کم ہ((ونے کی وجہ
سے یہ رواج آج بھی موجود ہے۔
صوبہ سندھ کے شہری عالقوں میں اگرچہ شرح خوان((دگی زی((ادہ ہ((ونے کی وجہ
سے بچپن کی شادیوں کا رجحان ختم ہ((و رہ((ا ہے لیکن دیہی عالق((وں میں آج بھی
یہ رواج بدستور موجود ہے۔ وڈیروں اور زمین((داروں میں اک((ثر بچپن کی ش((ادیوں
کی مثالیں پائی جاتی ہیں کیونکہ وڈی((روں اور ج((اگیرداروں کے ہ((اں جائی((داد بہت
اہم ذریعہ ہے جس پر ان کی معاش اور معاش((رت کی مض((بوطی ک((ا انحص((ار ہے
لہٰ ذا وہ لوگ اپنی اوالد کی شادیاں خاندان میں بچپن ہی میں ک(ر دی(تے ہیں (چ(اہے
وہ رشتہ کتنا ہی بے جوڑ کی((وں نہ ہ((و) کی((ونکہ خان((دان کے ب((زرگ کبھی بھی یہ
نہیں چاہتے کہ ان کی جائیداد خاندان سے باہر ج(ائے ی((ا ک(وئی دوس(را خان((دان ان
کی جائیداد میں حصہ دار بن جائے لہٰ ذا وہ اپنے بی((ٹے ی((ا بی((ٹی کی ش((ادی خان((دان
کے اندر ہی کرتے ہیں چاہے لڑکی نابالغ ہو اور اس کا شوہر اس س((ے عم((ر میں
بہت بڑا۔ اسی طرح بعض اوقات لڑکا کم عمر ہوتا ہے اور اس کی بیوی اس س((ے
کہیں زیادہ بڑی عمر کی اور ایسی بے جوڑ شادیوں کا انجام برا ہی ہوتا ہے جس
سے بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ نامناسب اور غیر موزوں جوڑ کی وجہ س((ے
میاں بیوی کے ازدواجی تعلقات استوار ہونے کی بجائے ناگوار ہو جاتے ہیں اور
اکثر اوقات بہت سے معاشرتی و نفسیاتی اور اخالقی مس((ائل س((امنے آتے ہیں جن
کی وجہ سے اکثر شادیاں ناکام بھی ہو جاتی ہیں۔
پنجاب اور س(ندھ کی ط(رح خی(بر پختونخ(واہ میں بھی بچپن کی ش(ادیوں ک(ا رواج
عام ہے بلکہ وہاں تو لڑکے اور لڑکی کو بل((وغت کے بع((د بھی بچپن کی ش((ادیوں
کو ختم کرنے کی اجازت نہیں کیونکہ یہ دونوں خاندانوں یا ق((بیلے کی غ((یرت ک((ا
مسئلہ ہو سکتا ہے۔
بلوچستان میں بھی بچپن کی شادیوں ک((ا رواج پای((ا جات((ا ہے لیکن رئیس((ائی ق((بیلے
میں اگر والدین اپنے بچوں کی ش((ادی بچپن میں ک((ر دیں ت((و انہیں 50ہ((زار روپے
جرمانہ سزا کے طور پر ادا کرنا پڑتا ہے۔
پاکس(((تانی معاش(((رے میں بچپن کی ش(((ادیوں کے پیچھے بہت س(((ے اس(((باب اور
محرکات موجود ہیں مثالً:
1۔عالقائی رسوم و رواج اور قب((ائلی /خان((دانی روای((ات و اق((دار بچپن کی ش((ادیوں
میں بہت اہم وجہ ہے کیونکہ جن خاندانوں میں ذات برادری کا تص((ور بہت زی((ادہ
پایا جاتا ہے وہاں پر ایسی شادیو ں کی مثالیں کثرت سے ملتی ہیں۔
2۔اسی طرح جس خاندان میں ادل بدل یعنی ’’ Exchange Marriageوٹہ س((ٹہ''
کے تحت شادیوں کا رواج ہو وہاں پر بچپن میں ہی بچ((وں ک((و ب((دل کے ط((ور پ((ر
دوسرے خاندان میں بیاہ دیتے ہیں۔ اس ضمن میں اگر بدلے کے طور پ((ر خان((دان
میں لڑکی موجود ہو تو آئندہ پیدا ہ((ونے والی بچی ک((ا رش((تہ پی((دائش س((ے قب((ل ہی
طے کر دیتے ہیں اور اس رسم کو پیٹ لکھی کہتے ہیں۔
3۔سوارا ،ڈنڈ اور ونی جیسی قبائلی رسوم و رواج کو پورا ک((رنے کے ل((یے بھی
بچپن میں شادیاں کر دی جاتی ہیں۔
4۔بعض وال((دین اپ((نی بی((ٹیوں کی ش((ادیاں کم عم((ری میں اس ل((یے ک((رتے ہیں کہ
انہیں اس وقت مناسب ''بَر' یعنی مناس((ب رش((تہ م((ل رہ((ا ہوت((ا ہے ل ٰہ( ذا وہ یہ موق((ع
گنوانا نہیں چاہتے۔
5۔غربت و افالس بھی بچپن کی شادیوں کا ای((ک بہت ب((ڑا مح((رک ہے کی((ونکہ وہ
والدین اپنی بیٹیوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت پ((ر خ((رچ نہیں ک((ر س((کتے بلکہ
اکثر اوقات وہ اپنی کم عمر بیٹیوں کے نکاح کے ب((دلے میں رقم بھی وص((ول ک((ر
لیتے ہیں۔
6۔اس طرح جرائم پیشہ افراد ،جواری اور نشئی والدین بھی اپ((نی کم عم((ر بی((ٹیوں
کو اپنے ذاتی مفاد یع((نی ان کے ب((دلے میں رقم کے حص((ول کے ل((یے قرب((ان ک((ر
دیتے ہیں۔
7۔بعض والدین اپ((نی اوالد ک((و ب((داخالقی اور بے راہ روی س((ے بچ((انے کے ل((یے
بھی کم عمری میں ان کی شادی کر دیتے ہیں تاکہ ان کے اندر احس((اس ذمہ داری
پیدا ہو اور وہ بری عا دتوں کی طرف راغب نہ ہو سکیں۔
پاکستانی معاشرے میں خاندان اور ذات برادری کے اندر شادیاں ک((رنے ک((ا رواج
کثرت سے پایا جاتا ہے اور معاشرے میں ایسے رشتوں کو ہی مناسب و م((وزوں
سمجھا جاتا ہے جو ایک ہی برادری اور ایک ہی فرقے کے ان((در طے پ((اتے ہیں۔
ذات برادری،خاندان سے باہر رش(توں ک(و معی((وب س((مجھنے کی وجہ س(ے بعض
اوقات لڑکیاں کنواری رہ ج((اتی ہیں ی((اان کی عم((ر ب((ڑھ ج((انے کی وجہ س((ے بے
جوڑ رشتے طے پاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معاشرے میں ابھی تک لوگوں
میں ذات برادری کا بہت زیادہ احساس پایا جاتا ہے۔
’’1990ء کے پاکستان ڈیموگرافک این((ڈ ہیلتھ س((روے کے مط((ابق مل((ک بھ((ر میں
تقریبا ً دو تہائی شادیاں سگے رشتہ کے تایا ،چچا ،پھ((وپھی ،م((اموں زاد اور خ((الہ
زاد بہن بھائیوں (فرسٹ اور سیکنڈ کزنز) کے درمیان ہوئیں اور یہ شرح دنیا میں
)
سب سے زیادہ سمجھی جاتی ہے۔‘‘([]4
پاکستانی معاشرے میں ت((و مختل((ف پیش((وں س((ے متعلقہ ذاتیں بھی پ((ائی ج((اتی ہیں۔
آبائی کاروباری پیشے بھی ایک طویل عرصہ گزرنے کے بعد ذات کے طو رپ((ر
ش((مار ک((ئے ج((اتے ہیں اور یہ تص((ور پاکس((تانی معاش((رے میں ہن((دو تہ((ذیب کے
زیراث((ر ابھی ت((ک موج((ود ہے۔ ہن((دو تہ((ذیب کے ان اث((رات کی وجہ س((ے آج بھی
پاکستانی معاشرے میں ذات ک((و انس(ان کی ش(ناخت کی ای((ک عالمت س(مجھا جات((ا
ہے اور معاشرے کے افراد اپنی یہ شناخت کھونا پسند نہیں کرتے۔
پاکستانی معاشرے میں خاندان کے اندر کی جانے والی ’’کزنز میرج‘‘ کو جبری
شادیوں کی ایک ہلکی پھلکی قسم سمجھا جاتا ہے اور اکثر والدین اپنے بچوں کی
ت(((ربیت ہی اس ان(((داز میں ک(((رتے ہیں کہ ان کے ذہن(((وں میں ذات ب(((رادری اور
خاندانی اہمیت کے ش((عور ک((و اُج((اگر ک((ر س((کیں اور ش((ادی کے وقت وال((دین ک((و
بچوں کے ساتھ س((خت رویہ نہ اپنان((ا پ((ڑے اور بچے بھی اس ش((ادی ک((و باآس((انی
قبول کرلیں۔
پاکستانی معاشرے میں خاندان ،ذات برادری میں شادیوں کے درج ذی ل
اسباب و محرکات ہیں:
1۔چونکہ پاکستانی معاشرے پر ہندو تہذیب و ثق((افت کے اث((رات ابھی بھی موج((ود
ہیں اس وجہ سے اکثر لوگ اپنی برادری ،خاندان میں ہی شادی ک(و ت(رجیح دی(تے
ہیں تاکہ ان کے اس باہمی خاندانی تعلق میں اور مضبوطی پیدا ہو سکے۔
2۔ کچھ خان((دانوں میں ان ش((ادیوں کی یہ بھی وجہ ہ((وتی ہے کہ ان کی نس((ل اور
خون " "Bloodlineخالص رہ سکے جیسا کہ سید خاندان کے افراد اپ((نے بچ((وں
کی غیر سید خاندان میں شادی کرنے ک((و معی((وب س((مجھتے ہیں خ((اص ط((ور پ((ر
بچیوں کی شادیوں کے حوالے سے سید خاندان سے ہی لڑکے تالش ک((ئے ج((اتے
ہیں کیونکہ ایک سید زادی کی غیر سید لڑکے سے شادی کو اکثر گناہ تصور کی((ا
جاتا ہے اور وہ ایک سید لڑکے کو ہی سید زادی کا ہم کفو سمجھتے ہیں۔
3معاشرتی و سماجی مقام و مرتبے کو برقرار رکھنے کے لیے بھی خان((دان میں
شادیوں کو ترجیح دی جاتی ہے کیونکہ ہم پلہ خاندان ہی ای((ک دوس((رے کی بی((ٹیو
ں کو قدرومنزلت اور مق((ام دے س((کتے ہیں ت((اکہ ان کے مق((ام و مرت((بے میں کچھ
ف(رق نہ آئے اور نامناس(ب معاش(ی و معاش(رتی حی(ثیت کی وجہ س(ے زوجین کے
مابین باہمی تعلق میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہ ہو سکے۔
4۔بعض والدین گھریلو مشکالت سے دوچار ہونے کی وجہ سے خاندان کے ان((در
ہی اپنی بیٹیوں کے لیے مناسب جوڑ تالش کرنا ش((روع ک((ر دی((تے ہیں اور ان کی
شادیاں کم عمری میں ہی کر دی((تے ہیں ت((اکہ ان کے ل((یے مس((تقبل میں آس((انی اور
سہولت پیدا ہو سکے اور یوں وہ اپنی بیٹی پ((ر ک((ئے ج((انے والے اخراج((ات س((ے
سبکدوش ہو سکیں۔
5۔جن خاندانوں میں وٹہ سٹہ کا رواج پایا جاتا ہے وہاں بھی ایک خاندان اپنی ذات
برادری ہی س((ے متعلقہ دوس((رے خان((دان میں ب((اہمی تب((ادلے کی ش((ادیاں بچپن ہی
میں کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
6۔جن عالقوں میں ل((ڑکی ک((و خری((د ک((ر ش((ادی کی ج((اتی ہے وہ((اں پ((ر بھی ل((وگ
خاندان کے اندر شادی کر تے ہیں تاکہ ان کا یہ مالی بوجھ کم ہو س((کے جیس((ا کہ
صوبہ خیبر پختوانخوا کے کچھ خاندانوں میں ہوتا ہے۔
7۔ ص((وبہ بلوچس((تان میں ت((و خان((دان کے عالوہ ف((رقے اور مس((لک کی اس ق((در
اہمیت ہے کہ لوگ اپنے بچوں کی شادیوں کے لیے اپ((نے ف((رقے اور مس((لک ک((و
ہی ترجیح دیتے ہیں۔
8۔جاگیرداروں اور وڈیروں کے ہاں بھی خاندان میں ب((اہمی ش((ادیوں ک((ا رواج اس
لیے بھی زیادہ ہے کہ ان کی جائیداد خاندان کے اندر ہی رہے اور دوسرا خان((دان
اس میں حصہ دار نہ بن سکے۔
جیس((ا کہ پاکس((تان کے مختل((ف عالق((وں میں خان((دان کے ان((در ش((ادیوں ک((ا رواج
بدستور پایا جات((ا ہے لیکن کچھ لوگ((وں کے نزدی((ک یہ بنی((ادی انس((انی حق((وق کے
خالف ہے اور خاص طو رپ((ر عورت((وں کے حق((وق پ((ر ڈاکہ ڈال((نے کے م((ترادف
ہے۔
وٹہ سٹہ بدل کی شادیاں اور ان اس کے اسباب و محرکات
بدل کی شادی س(ے م(راد ہے کہ ای(ک خان(دان اپ(نے ل(ڑکے اور ل(ڑکی کی ش(ادی
ت ح((الدوسرے خاندان کے لڑکے اور لڑکی سے ب((دل میں ک((ردے۔ ایس((ی ص((ور ِ
میں فریقین میں برابری کا انحص((ار بہت س((ی ب((اتوں پ((ر ہوت((ا ہے مثالً ل((ڑکے اور
لڑکی کی عمر ،شکل و صورت اور تعلیم کے عالوہ دونوں خاندانوں کی س((ماجی
و معاش((ی حی((ثیت و مرت((بے ک((و بھی م((دنظر رکھ((ا جات((ا ہے اور اگ((ر ای((ک دلہن
دوسری کے مقابلے میں کسی بھی ح(والے س(ے کم ہ((و ت(و اس کمی ک(ا ازالہ کچھ
رقم یا جائیداد کا کچھ حصہ دے کر کیا جاتا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خاندان کے اندر کی جانے والی شادیوں کی
شرح مجموعی شرح میں سے %60ہے اور ایک تہائی شادیاں ادل بدل یعنی وٹہ
سٹہ کے رواج کے مطابق طے پاتی ہیں۔ ایسی شادیوں کا رواج زی((ادہ ت((ر دیہ((اتی
عالقوں اور زمینداروں میں پایا جات((ا ہے۔ خ((اص ط((و رپ((ر ان عالق((وں میں جہ((اں
''بین الذات'' اور ''بین التقابل'' شادیاں کرنے کا عمومی رواج ہو۔
’’ اور ان اولیاء کےلئے ان کے مابین تفریق کروانا جائز ہے۔ ‘‘
ظاہرہے یہ تفریق اسی طریقہ کے مطابق ہو گی جیسے امام شیبانی نے بیان کیا
کہ امام اور قاضی یہ تفریق کروائے گا۔ اسی طرح بالغہ ثیبہ جب دوسرا نکاح
کرے تو اس میں بھی اسے کفوکا لحاظ رکھنا چاہئے۔ امام ابن العربی مالکی اس
حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ:
)
فدل علی أن املعروف املراد باآلىة هو الكفاء ة وفیها حق عظیم لألولیاء۔ []16
(
سو یہ بات داللت کرتی ہے کہ اس آیت میں معروف سے مراد کفو(براب((ری) ہے
کہ اس بات میں اولیاء کو بہت زیادہ حق ہے۔
امام ابن العربی اس کی وجہ اور اس مسئلہ پر اجماع کا ذکر یوں کرتے ہیں:
)
ملا فی تركها من إدخال العار علیهم و ذلك امجاع من االمة۔([]17
’’کیونکہ کفوکے ترک میں ان ( اولیاء) کےل((ئے ش((رمندگی ہے اور اس مس((ئلہ
پر امت کا اتفاق ہے۔
اس س((ے معل((وم ہ((وا کہ ع((ورت ک((و نک((اح ک((رتے وقت کفوک((ا اعتب((ار کرن((ا ہ((و
گابصورت دیگر اولیاء کو فسخ نک((اح ک((ا ح((ق حاص((ل ہ((و گ((ا اور یہ چ((یز ب((ذریعہ
عدالت ہو گی۔
محمڈن الء سیکشن259کی تشریح میں ہے:
A boy or a girl who has attained puberty, is at liberty to marry
anyone he or she, likes, and the guardian has no right to interfere
)]if the match be equal.([18
ایک بالغ لڑکا یا لڑکی اس ب((ات کے مج((از ہیں کہ وہ جس کے س((اتھ چ((اہیں نک((اح
کر لیں اگرنکاح (کفو)میں کیا گیا ہے تو ولی کو اس میں دخل دینے کا ح((ق نہیں
ہے۔
اگر نابالغ لڑکی یا ل(ڑکے ک(ا نک(اح ب(اپ دادا کے سواکس(ی نے ک(ر دی(ا ہے ت(و ان
دونوں کو بعد البلوغ خیار ہوگا:
فإن كان غیر األب والج((د من األولی((اء ك((األخ والعم ال یل((زم النك((اح ح((تی یثبت لهم((ا
)
الخیار بعد البلوغ وهذا قول أبی حنیفة ومحمد۔([]19
’’ اگر نکاح کرانے میں ولی باپ دادا کے عالوہ مثال بھائی ی((ا چچ((ا ہ((و ت((و نک((اح
برقرار رکھنا الزم نہیں اور بلوغ کے بعد انہیں خیار بلوغ ہوگا۔ یہ امام اب((و ح((نیفہ
اور امام محمد کا قول ہے۔ ‘‘
مذکورہ عبارتوں سے معلوم ہوا کہ ما سوا باپ و دادا کے کرائے ہوئے نک((اح پ((ر
بعد البلوغ خیارحاصل ہوگا ،لیکن فقہاء کی نصوص کاجائزہ لینے کے بع((د معل((وم
ہوتا ہے کہ ان دونوں کے نکاح پر بھی چند شرطوں کے ساتھ خیار حاصل ہوگا۔
١۔ باپ و دادا عقد سے پہلے س((وء االختی((ار میں مع((روف ہ((وں۔ ٢۔ ان دون((وں میں
سکر ہو اور ان کے جنون کا فیصلہ بھی ہو چکا ہ(و۔ ٣۔ اس کے ش(ادی ک(ر دی(نے
)
کی وجہ سے جو بغیر مہر مثل کے یا کسی فاسق سے یا غیر کفو میں ہو۔([]20
"فمجرد أن تری الص2غریة ال2دم تش2هد أهنا فس2خت الق2د واخت2ارت نفس2ها مث یف2رق القاض2ی بینهما[(".
)
]21
’’بالغ ہوتے ہی وہ عقد نکاح کو فسخ ک(ر دے گی اور اپ(نے آپ ک(و مخت(ار بن(الے
گی ،پھر قاضی باہم تفریق کر دے گا۔ ‘‘
خاموش رہنے سے اختیار ختم ہو جائے گا ۔فتاوی عالمگیری میں ہے:
)
"حتی لو سكتت كما بلغت وهی بكر بطل خیارها۔"([]22
’’ اگر وہ حد بل((وغ ک((و پہنچ((تے ہی خ((اموش رہی اور وہ کن((واری تھی ت((و اس ک((ا
خیار باطل ہو جائے گا۔ ‘‘
حق خیار بلوغ
نابالغہ کا نکاح اگر باپ دادا نے کیا ہے تو فس((خ نہیں ہوس((کتا لیکن ای((ک ص((ورت
ہے جس میں فس((خ نک((اح ک((ا دع( ٰ
(وی قاب((ل س((ماعت ہوگ((ا ،اور وہ یہ ہے کہ ب((اپ
معروف بسوء االختیار ہو ،باپ زیر والیت ل((ڑکی کے مص((الح کے خالف مش((ہور
و معروف ہو ،عالمہ ش((امی ؒنے فتح الق((دیر کی ای((ک بحث کے ذی((ل میں مع((روف
بسوء االختیار کی تشریح یوں کی ہے کہ
"واحلاص22ل أن املانع ه22و ك22ون األب مش22هورا بس22وء االختی22ار قب22ل العق22د ف2إذا مل یكن مش22هورا ب22ذلك مث
زوج بنت 22ه من فاس22ق ص 22ح وإن حتق 22ق ب22ذلك أن 22ه س22ىء االختی 22ار واش22تهر ب 22ه عن22د الن22اس فل 22و زوج بنت 22ا
أخ 22ری من فاس 22ق مل یص 22ح الث 22انی ألن 22ه ك 22ان مش 22هورا بس 22وء االختی 22ار قبل 22ه خبالف العق 22د األول لع 22دم
)
وجود املانع قبله۔"([]23
’’ باپ سى ء االختیار اس صورت میں کہا ج((ائے گ((ا جبکہ اس س((ے قب((ل اس نے
ایسی حرکت کی ہو کہ ایک لڑکی ک((ا نک((اح قص((داً اس کے مص((الح اور مف((اد کے
خالف کرچک((ا ہ((و ت((و یہ عق((د ص((حیح اور ناف((ذ ہوگی((ا کی((ونکہ اس وقت وہ س((ىء
االختیار میں متعارف نہ تھا۔ اگر دوسری کا اس((ی ط((رح ک((ردے گ((ا ت((و اب س((ى ء
االختیار میں شہرت کی وجہ سے دوسرا نکاح صحیح نہ ہوگا۔
در مختار میں ہے:
"إن ك22ان ال22وىل املزوج بنفس22ه أب22ا أو ج22دا مل یع22رف منهم22ا س22وء االختی22ار جمان22ة وفس22قا وإن ع22رف ال
)
یصح النكاح اتفاقا۔"([]24
اگر بذات خود شادی کرانے واال ولی باپ ی((ا دادا ہ((و جن ک((ا ال اب((الی پن اور فس((ق
میں سوء االختیار ہونا مشہور نہ ہو اور اگر مشہور ہو تو باالتفاق نکاح صحیح نہ
ہوگا۔
"
مل یعرف بسوء االختیار"
ك(ا واض(ح مطلب یہ ہے کہ یہ ب(ات درجہ یقین ك(و پہنچ ج(ائے کہ اس نے اپ(نی
خود غرضی ،كسی دباؤ اور طمع زر سے ل((ڑكی كے مص((الح اور مف((اد ك((و نظ((ر
انداز كردیا ہے تو ایسا نكاح نافذ اور صحیح نہ ہوگا۔
"وقی22ده الش22ارحون وغ22ریهم ب22أن ال یك22ون معروف22ا بس22وء االختی22ار ح22تی ل22و ك22ان معروف22ا ب22ذلك جمان22ة
)
وفسقا فالعقد باطل علی الصحیح۔"([]25
’’ ائمہ نے سوء االختیار کی قید اس لئے لگ((ائی کہ وہ مع((روف ہ((و ت((و ص((حیح یہ
ہے کہ وہ نکاح باطل ہے۔ ‘‘
پس اگر ولی نے لڑکی کے مصالح و مفادات کا لحاظ کئے بغیر نکاح ک((ر دی((ا اور
قاضی کے نزدیک لڑکی نے اپ((نے مف((اد کے خالف ک((ئے گ((ئے نک((اح کے خالف
دعوی کو ثابت کر دیا اور فسخ نک(اح ک(ا مط(البہ کی(ا ت(و قاض(ی ش(ریعت ک(و ح(ق
حاصل ہے کہ اس نکاح کو فسخ کرے ،کیونکہ نکاح کے الزم ہونے کے ل((ئے یہ
بھی شرط ہے کہ ولی سوء اختیار میں معروف نہ ہو اور نہ ہی ال پرواہی و فس((ق
)
میں نکاح سے قبل معروف ہو۔([]26
اگر ولی نے لڑکی کا نکاح کرنے کے وقت لڑکی کے مصالح و مفادات ک((ا لح((اظ
نہیں کیا تو اس کی چند صورتیں ہو سکتی ہیں:
اول یہ کہ اس وقت ولی ہ((وش و ح((واس کی ح((الت میں نہ ہ((و اور نک((اح اس نے
کسی ایسے شخص سے کر دیا ج((و فاس((ق ،ش((ریر ،ل((ڑکی کے خان((دان کے مق((ابلہ
میں بہت غریب یا پیشہ کے اعتبا ر سے کم ت(ر پیش((ہ واال ہ((و ت(و یہ نک(اح درس(ت
)
نہیں۔([]27
دوسری ص((ورت یہ ہے کہ وہ اپ((نی س((فاہت و بے وق((وفی اور ح((رص و طم((ع کی
وجہ سے اختیارات کے غلط استعمال میں مصروف ہے تو باال تفاق اس کا کیا ہوا
نکاح درست نہیں۔ عالمہ شامی نے شرح مجمع کے حوالہ سے نقل کیا ہے:
)
" لو عرف من األب سوء االختیار لسفهه أو لطمعه ال جیوز عقده اتفاقا۔"([]28
’’تیس(((ری ص(((ورت یہ ہے کہ وہ فس(((ق و فج(((ور اور ال پ(((رواہی کی وجہ س(((ے
اختیارات کے غلط استعمال میں معروف ہو تو ایسے باپ اور دادا کا کیا ہوا نکاح
بھی منعقد نہیں ہوگا۔ ‘‘
)
"حتی لو كان معروفاً بذلك جمانة أو فسقا فالعقد باطل علی الصحیح۔"([]29
لیکن سوال یہ ہے کہ ’’ معروف بسوء االخیار‘‘ سے کی((ا م((راد ہے؟ ع((ام ط((ور
پر فقہاء کا رجحان یہ ہے کہ اگر باپ نے پہلے کسی ل((ڑکی کے نک((اح میں اپ((نے
اختیارات کا غلط استعمال کیا ہو تب ہی اس دوسری لڑکی کا نکاح نا درست ہوگا،
)
اور اگر ایسا نہ ہو تو یہ نکاح الزم ہوگا۔([]30
لیکن بظ((اہر مع((روف بس((وء االختی((ار ق((رار پ((انے کے ل((ئے خ((اص نک((اح ہی کے
معاملہ میں نا تجربہ کاری ک((ا ظہ((ور ض((روری ہ((و ،یہ ب((ات س((مجھ میں نہیں آتی۔
بعض دفعہ دوسرے معامالت اور روز مرہ کے معموالت سے بھی یہ ب((ات عی((اں
ہو جاتی ہے کہ یہ شخص اپنے اختیارات کے صحیح استعمال کی صالحیت س((ے
محروم ہے یا قصداً اس کا ارتکاب کرتا ہے۔اس لئے اگر کس((ی ش((خص کی ایس((ی
ناتجربہ کاری کا ظہور ہوا ہو اور وہ کوئی ایسا نکاح کر دے جو مصلحت و مف((اد
کے خالف ہو تو اس نکاح کو درست نہیں ہوناچاہیے۔
چنانچہ امام کاسانی ؒ اور ابن نجیم نے ذک(ر کی(ا ہے کہ اگ(ر ناب(الغ ل(ڑکی ک(ا مہ(ر،
مہر مثل سے نمایاں طور پر زیادہ مقرر کر دے ،یا نابالغ لڑکی کا مہر ،مہر مث((ل
سے نمایاں طور پر کم خود باپ یا دادا نے مقرر کیا ہ((و ت((و ام((ام اب((و یوس((ف ؒ اور
امام محمد ؒ کے نزدیک نکاح منعقد نہیں ہوگا ،کیونکہ والیت کا حق اس کی شفقت
و محبت کی وجہ س((ے اس ک((و دی((ا گی((ا ہے اور اس ک((ا یہ عم((ل ص((ریح ط((ور پ((ر
تقاضۂ شفقت کے خالف ہے۔
)
"ألن الوالیة مقیدة بشرط النظر فعند فواته یبطل العقد۔"([]31
’’کیونکہ والیت میں شفقت پیش نظر ہوتی ہے اور یہ ہی مفقود ہو تو س((رے س((ے
عقد ہی باطل ہوجائے گا۔ ‘‘
میرے خیال میں دور حاضر میں یہی نقطہ نظر زیادہ ق((رین ص((واب ہے ،کی((ونکہ
جب کسی شخص کا سوء اختیار اس کے عمل ہی س((ے ظ(اہر ہ((و ت(و محض گم((ان
شفقت کو اس پر ترجیح نہیں دی جاسکتی۔ حص((کفی ؒ نے نش((ہ میں مبتال ب((اپ اور
دادا کے کئے ہوئے ناموزوں نکاح کے غیر معتبر ہونے پر یہی استدالل کیا ہے۔
)
"لظهور سوء اختیاره فال تعارضه شفقته املظنونة۔"([]32
اس لئے اگر قاضی محسوس ک((رے کہ ولی نے اس نک((اح میں ل((ڑکی کے مص((الح
اور مفادات کا کوئی لحاظ نہیں کیا ہے تو وہ اس نکاح کو فسخ کرسکتا ہے۔
اگر ولی نے لڑکی کا نکاح کرتے وقت خود لڑکی کے مصالح و مفادات ک((ا لح((اظ
نہیں کیا بلکہ کسی دباؤ ی(ا اپ((نے کس((ی مف(اد کی خ(اطر ن(ا مناس(ب جگہ ل(ڑکی کی
شادی کردی ،ل(ڑکی اس نک(اح س(ے مطمئن اور راض(ی نہیں ہے ،چن(انچہ قاض(ی
کے یہاں فسخ نکاح کا دعوی لے کر آتی ہے ،بیانات اور گواہوں کے بع((د قاض((ی
یہ بات محسوس کرتا ہے کہ ولی نے اس نکاح میں ل((ڑکی کے مص((الح و مف((ادات
کا سرے سے لحاظ نہیں کیا ہے تو قاضی اس نکاح کو فسخ کرسکتا ہے۔
کیونکہ قاضی کا گواہوں اور بیانات سے اس بات پر مطمئن ہوجان((ا کہ نک((اح میں
لڑکی کے مصالح و مفادات بری طرح پامال کئے گئے ہیں۔ ولی کا سىء االختیار
ہونا متحقق وغیر مشتبہ ہوچکا ہے ،اس لئے یہ نکاح باط((ل ہے ،اس میں قض((ائے
قاضی کی ضرورت ہی نہیں ہے ،لیکن اگر معاملہ قاضی تک آگیا ہے ت((و قاض((ی
اس نکاح کو ضابطے کے مطابق فسخ کرسکتا ہے۔
والیت اجبار نابالغ اور مجنون افراد پر ثابت ہے مگر بچوں کی شادی کی ممانعت
کے ایکٹ ())The Child Marriage Restraint Actمیں اٹھارہ سال سے کم
عمر لڑکے اور سولہ سال سے کم عمر لڑکی کے نکاح ک((و ممن(وع ق(رار دی(ا گی(ا
)
ہے اور اس پر تعزیری سزا بھی مقرر کی گئی ہے۔]33[(
بچوں کی شادی کی مم((انعت کے ایکٹ سیکشن6-4کے مط((ابق اٹھ((ارہ س((ال س((ے
زائد عمر کے آدمی کے بچی سے نک((اح ک((رنے ،چائل((ڈ م((یرج (اىس((ی ش((ادی جس
میں فریقین معاہدہ میں سے کوئی ایک بچہ ہو) کا اہتمام کرنے والے ،وال((دین ی((ا
سرپرست کو ایک ماہ قید یا ایک ہزار روپے جرمانہ یا دونوں س((زائیں ہ((و س((کتی
)
ہیں جبکہ عورت کو قید کی سزا نہیں ہو سکتی۔([]34
سیکشن264کے مطابق باپ دادا کے عالوہ دیگر اولیاء کے نکاح کرنے پر خی((ار
بلوغ حاصل ہو گا۔
The minor has the option to repudiate the marriage on attaining
(
] puberty. This is technically called the "option of puberty.([35
تو نابالغ کو بلوغت کے وقت فسخ نکاح کا اختیار حاص((ل ہ((و گ((ا۔ اس((ے اص((طالح
میں ’’خیار بلوغ‘‘ کہا جاتا ہے۔
خالصہ بحث
پاکستانی معاشرے میں جبری شادیوں کی اقسام اور اسباب و محرکات پر تفصیلی
دور جدید میں بھی عورتوں کے استحصال ک((ا بحث سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ ِ
سلسلہ مختلف ناموں سے جاری ہے۔ دین اور اس((الم ک((ا ن((ام ت((و لی((ا جات((ا ہے لیکن
عمل احکام اسالمی کے خالف کیا جا رہا ہے۔
اسالم میں خاص طو رپر بنیادی انسانی حقوق کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ والدین پر
ان کی اوالد کی طرف سے بہت سی ذمہ داریاں عائد ہیں جن میں ان کی پی((دائش،
تربیت ،تعلیم اور ان کی شادی جیسا اہم معاملہ بھی شامل ہے جس میں والدین ک((و
اوالد کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے اور یہ حق اس((الم نے انہیں اوالد کے س((اتھ محبت
و شفقت کی وجہ سے دیا ہےتاکہ اپنی اوالد کے بہتر مستقبل کو س((امنے رکھ((تے
ہوئے ان کی زندگی کا فیصلہ کریں۔
اگ((رچہ اس((الم نے وال((دین پ((ر اوالد کے ض((من میں محبت و ش((فقت ک((و پیش نظ((ر
رکھتے ہوئے ان کی زندگی کے اہم ترین فیصلے میں انہیں حق والیت س((ونپا ہے
لیکن ان اسالمی احکامات کی آڑ میں اکثر والدین اپ((نی ذاتی ان((ا ،خان((دانی روای((ات
اور بہت سے ذاتی و معاشرتی اور معاشی مقاصد کے حص((ول کیل((ئے اپ((نی اوالد
کو قربان کر دیتے ہیں۔ کچھ عالقوں میں خاندانی اور قبائلی جھگڑے اور دش((منی
کو ختم کرنے کے لیے بیٹوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ قتل ک((و مع((اف ک((رانے کے
لیے مقتول کے خاندان میں اپنی کم عمر بچیوں ک(و دی(نے ک(ا رواج پای(ا جات(ا ہے۔
ونی ،سوارا ،ڈنڈ میں دی جانے والی بچی((اں روپے پیس((ے کے نعم الب((دل کے ط((و
رپر دشمن قبیلے کو سونپ دی جاتی ہیں۔ کیا اسالم نے انسانی زندگی کا اس((تعمال
مال و دولت کے طور پر کرنے کا حکم دیا ہے۔ شریعت میں اس بات کی گنجائش
موجود نہیں کہ خون بہا کے طور پر گھر کی بہنوں بیٹیو ں کو دش((من ق((بیلے کے
حوالے کردیا جائے یا اپنی غلطیوں اور گناہوں کی تالفی کے طور پر بیٹیوں اور
بہن((وں ک((و قرب((ان کردی((ا ج((ائے۔ ج((انوروں کی ط((رح ان کی خری((د و ف((روخت کی
ج((ائے۔ ک((وئی م((ذہب بھی اس قس((م کی غ((یر انس((انی روای((ات پ((ر عم((ل ک((رنے کی
اجازت نہیں دیتا۔
اگر اسالم اولیاء کو اپنی کم عمر اوالد کا حق کفالت و کفایت بخش((ا ہے ت((و اس ک((ا
قطعا ً یہ مقصد نہیں کہ اس حق کو ذاتی اغراض و مقاص((د کے ل((یے اس((تعمال کی((ا
جائے اور اپنی محبت و شفقت کا مظاہرہ ان پر جبراً اپنے غیر فطری فیصلوں کو
مسلط کرتے ہوئے کیا جائے۔ کوئی مہ((ذب معاش((رہ ایس((ی روای((ات اور رس((وم ک((و
قبول نہیں کرتا۔ عورتوں کے حقوق کا مع(املہ آئین پاکس(تان مىں بھی موج(ود ہے
لیکن پھ(((ر بھی ع(((ورت عالق(((ائی رس(((م و رواج کی بھینٹ چ(((ڑھ ج(((اتی ہے۔ اس
معاشرتی خرابی کی سب سے بڑی وجہ ارب((اب حک((ومت ہیں ج((و ج(ان ب((وجھ ک((ر
اس خرابی کو دور کرنا نہیں چ((اہتے۔ ع((وام کے ل((ئے اس((الم اور ق((انون کی ب((اتیں
کرنے والے خود رسوم و رواج کو پروان چڑھانے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ لہذا
ضرورت ہے کہ اہ((ل دانش اور ہم((دردی رکھ((نے والے ل((وگ آگے ب((ڑھیں اور ان
ظالمانہ رسوم کو ختم کرنے کی جدوجہد کاآغاز کریں۔
Reference
[Great Britain, (2007). Foreign and Commonwealth office,-]1
Human Rights, Annual Report, P:85
[ ]2۔ پاکستان میں آبادی اور گھرانوں کا ڈیمو گرافک ہیلتھ سروے2007،ء
[ ]3۔ خاور ممتاز ،سہیل وڑائچ ،شارق امام و دیگر ،شرکت گاہ ویم((نز ریس((ورس
سنٹر ،الہور ،پاکستان2012ء ،ص5 :
[ ]4۔ خال((د رحمن ،ع((ورت ق((انون اور معاش((رہ ،کن((ٹری رپ((ورٹ ،ش((رکت گ((اہ،
1996ء ،ص14 :
[Muslim Arbitration Tribunal (MAT), Report: Liberation for -]5
.Forced Marriages, Anjuman-e-Urdu Press P:7
[Muslim Arbitration Tribunal (MAT), Report, P:8 - ]6
[ ]7۔ عورت قانون اور معاشرہ ،کنٹری رپورٹ ،ص112 :
[ ]8۔ عورت قانون اور معاشرہ ،کنٹری رپورٹ ،ص320 :
[ ]9۔ عورت قانون اور معاشرہ ،کنٹری رپورٹ ،ص320 :
[ ]10۔ گلریز محمود ،دور نب(وت میں ش(ادی بی(اہ کے رس(م و رواج اور پاکس(تانی
معاشرہ ،ص239 :۔ 238
[ ]11۔ عورت قانون اور معاشرہ ،کنٹری رپورٹ ،ص77 :
[ ]12۔ گلریز محمود ،پاکستانی معاشرہ اور شادی بیاہ ،ص161 :
[ ]13۔ گلریز محمود ،پاکستانی معاشرہ اور شادی بیاہ ،ص206 :
[ - ]14شیبانی ،ابوعبدہللا محمد بن الحسن ،کتاب اآلثار ،بیروت ،لبن((ان ،دارالکتب
العلمیہ1993 ء ،ص95 :
[ ]15۔ جصاص ،ابوبکراحمد بن علی رازی حنفی ،احکام القرآن ،ب((یروت ،لبن((ان،
ط احیاء التراث الغربی1405( ،ھ) ص546 :
[ ]16۔ ابن العربی ،ابوبکر محمد بن عبدہللا احکام القرآن ،بیروت ،لبنان ،دارالکتب
العلمیہ۲۰۰۳( ،ء) ۲۲۱ ،
[ ]17۔ ابن العربی ،احکام القرآن ،ص ۳۲۱
[Inamul Haque, Muhammadan Law, Lahore, Mansoor - ]18
Book House, p.347
[ ]19۔ کاسانی ،عالؤ الدین ابو بکر بن مسعود بن أحمد .،بدائع الص((نائع فی ت((رتیب
الشرائع ،بیروت ،لبنان :دار الکتاب العربی١٩٨٢ ،ء ،ج ،٢ص ٣١٥
[ - ]20جزی((ری ،عب((د ال((رحمن بن محم((د ع((وض٢٠٠٣( ،ء) .الفق((ه علی الم((ذاهب
االربعة ،بیروت ،لبنان ،دار الکتب العلمىة ،ج ،٤ص ٣٣
[ - ]21ايضا ً
ٰ
(الفتاوی الہندیہ) ،بیروت ،لبنان :دار الفکر ، [ - ]22نظام الدین ،فتاوی عالمگیری
1991ء ،ج ،1ص286 :
[ - ]23ابن عاب((دین الش((امی ،محم((د بن محم((د امین بن عم((ر بن عب((دالعزیز( عاب((دین
دمشقی ،رد المحتار علی الدرالمختار ،بیروت ،لبنان ،دار الفکر للطباعة والنش((ر (،
٢٠٠٠ء) ج ،٣ص٦٧
[ - ]24حص(((کفی ،محم(((د بن علی بن محم(((د ال ِح ْ
ص(((نی المع(((روف بعالء ال(((دین
الحصکفی الحنفی ،الدر المختار شرح تنویر األبصار وجامع البحار ،بیروت ،لبنان،
دار کتب العلمىة ٢٠٠٢( ،ء) ج ،٣ص ٦٦
[ - ]25ابن نجیم ،الش(((یخ زین بن اب(((راهىم بن محم(((د بن محم(((د بن بک(((ر الحنفی(
٩٧٠ھ) ،البحر الرائق شرح کنز الدقائق۔ مصر (:مطبوعة مطبع((ة علمى((ة١٣١١ ،ھ،
ج ،٣ص ١٤٤
[ ]26۔ حصکفی ،الدر المختار ،ج ،٣ص ٦٦
[ ]27۔ ابن عابدین شامی ،رد المحتار علی الدر المختار ،ج ،٣ص ٦٧
[ - ]28ابن نجيم ،البحر الرائق ج ،٣ص ١٤٤
[ - ]29ابن نجیم ،البحر الرائق ،ج ،٣ص١٤٤
[ ]30۔ حصکفی ،الدر المحتار ،ج ،٣ص ٦٧
[Inamul Haque, Muhammadan Law/474 - ]31
[Inamul Haque, Muhammadan Law / 474 - ]32
[ ]33۔ Inamul Haque, Muhammadan Law / 351
[ ]34۔ ibid
[ibid ]35