You are on page 1of 22

‫‪Abstract‬‬

‫‪Before the advent of Islam, a woman was considered as‬‬


‫‪property, with no rights at all. They did not have the right to‬‬
‫‪choose a husband. Islam liberated women and gave them the‬‬
‫‪basic rights. Unfortunately, in Pakistan many parents and legal‬‬
‫‪guardians misinterpret and misuse the guardianship of their‬‬
‫‪children, especially with reference to marriage. They deny some‬‬
‫‪religious rights to their children because of local traditions,‬‬
‫‪customs and taboos. Forcing children to marry against their‬‬
‫‪wishes, does not conform to the Islamic code. Forced marriages‬‬
‫‪are considered illegal in Sharia. Even in the case of marriage of‬‬
‫‪a minor arranged, by a father or a grandfather, the girl has the‬‬
‫‪right to cancal it on reaching Puberty. According to Shariah the‬‬
‫‪boy and the girls has the right to turn to a court for a settlement‬‬
‫‪of the issue.‬‬
‫جبری شادی کا عموما ً یہ مفہوم لیا جاتا ہے کہ لڑکے اور ل((ڑکی کی مکم((ل رائے‬
‫لیے بغیر ایک یا دونوں کے اولیاء (‪ )Guardians‬اپنے اپنے اختیارات کو مکم((ل‬
‫طور پر استعمال کرتے ہوئے دونوں کو بتا کر یابغیر بتائے ان ک((ا نک((اح ک((رادیں۔‬
‫جیسا کہ برطانیہ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق‪:‬‬
‫‪A Forced Marriage is conducted without the valid consent of‬‬
‫‪both parties and where duress either physical or emotional, is a‬‬
‫]‪factor.[1‬‬
‫یعنی دولہا دلہن کی مکمل رضامندی ل((یے بغ((یر ان دون((وں ک((و رش((تۂ ازدواج میں‬
‫منسلک کردیاجائے اور بعض اوقات اس عمل کے لیے چ((اہے کس((ی بھی قس((م ک((ا‬
‫ظلم و ستم یا زبردستی کرنا پڑے‪ ،‬اولیاء اپنے حق کو مکم((ل اس((تعمال ک((رتے ہیں‬
‫ح((االنکہ کس((ی بھی مہ((ذب معاش((رے میں اس کی گنج((ائش موج((ود نہیں کی((ونکہ‬
‫جبری شادی میں ہر لحاظ سے دباؤ اور تشدد کا مفہوم ہی پایا جاتا ہے۔‬
‫جبری شادیوں کو اگر تاریخ کے تناظر میں دیکھ((ا ج((ائے ت((و بالک((ل ابت((داء میں یہ‬
‫رواج غالموں اور جنگی قیدیوں کے ذکر کے ساتھ ملتا ہے۔ مفت((وحہ اق((وام جنگی‬
‫قیدی عورتوں کو یا تو غالم ‪ /‬کنیزیں بنا کر بیچ دیتی تھیں یا ان سے جنس((ی فائ((دہ‬
‫اٹھانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھ((ا اور بع((د میں ان کی ج((بری ش((ادیاں ک((را دی‬
‫جاتی تھیں۔‬
‫دنیا کے تمام حصو ں میں یہ رواج کسی نہ کس((ی ش((کل میں موج((ود رہ((ا ہے اور‬
‫اس میں ہر لحاظ سے تشدد‪ ،‬ظلم و ستم‪ ،‬جبر اور جوروجفا پائی جاتی ہے۔ ہر قسم‬
‫کا خطرہ الحق رہتا ہے مثالً جنسی تش((دد‪ ،‬جس((مانی تش((دد‪ ،‬نفس((یاتی تش((دد وغ((یرہ۔‬
‫جبری شادیوں کی دنیا کے مختلف عالق((وں میں عالق((ائی و قب((ائلی رس((وم و رواج‬
‫پائے جاتے ہیں اور ایسی شادیوں کی ادائیگی کے طریق کار بھی ہ((ر عالقے میں‬
‫مختلف پائے جاتے ہیں۔‬
‫پاکستانی معاشرہ میں شادی بیاہ کے حوالے س((ے بہت س((ے رس((وم و رواج پ((ائے‬
‫جاتے ہیں جن کا اسالمی تعلیمات سے کوئی واسطہ نہیں۔ ان کا تعل((ق ہ((ر ص((وبے‬
‫ی((ا عالقے کی روای((ات و اق((دار س((ے ہے بلکہ اف((راد کی شخص((ی حی((ثیت‪ ،‬ذات‬
‫ب((رادری اور رن((گ و نس((ل کے ح((والے س((ے بھی ان میں اختالف پای((ا جات((ا ہے۔‬
‫ش((ہری عالق((وں اور دیہ((ات کے رس((وم و رواج بھی ای((ک دوس((رے س((ے ق((درے‬
‫مختلف ہیں۔ اسی طرح خوان((دہ طبقے میں وقت کے س((اتھ س((اتھ رس((م و رواج میں‬
‫کافی تبدیلی آچکی ہے لیکن اس کے باوجود معاشرے کے افراد اپنی روای((ات اور‬
‫رس((وم و رواج س((ے وف(اداری رکھ((تے ہیں خ(اص ط((ور پ((ر ایس((ے رواج جن میں‬
‫خاندان کے مرد عورتوں پر اپنا تسلط قائم رکھ سکیں۔‬
‫‪   ‬ذی((ل میں ج((بری ش((ادیوں کی مختل((ف اقس((ام اور ان کے اس((باب و محرک((ات ک((ا‬
‫مفصل جائزہ پیش کیا گیا ہے۔‬
‫پاکستانی معاشرے میں مروج جبری شادیوں کی اقسام درج ذیل ہیں‪: ‬‬
‫‪١‬بچپن کی شادیاں‬
‫‪ ٢‬ذات برادری‪ /‬خاندان میں جبری شادیاں‬
‫‪ ٣‬وٹہ سٹہ ‪ /‬بدل کی شادیاں‬
‫‪ ٤‬امیگرنٹس کی جبری شادیاں‬
‫‪ ٥‬اغواء اور سمگلنگ کے ذریعے ہونے والی جبری شادیاں‬
‫‪ ٦‬تالفی اور مفاہمت کی شادیاں‬
‫‪ ٧‬لڑکی خرید کر شادی کرنا‬
‫‪ ٨‬قرآن سے شادی کرنا‪ /‬حق بخشوانا‬
‫بچپن کی شادی سے مراد ہے کہ لڑکے کی ق(انونی عم((ر (‪ ١٨‬س(ال س(ے کم) اور‬
‫لڑکی کی (‪ ١٦‬سال )سے کم ہوتو ان کی شادی کرا دی جائے۔ پاکستانی معاش((رے‬
‫میں بچپن کی شادیوں کی دو اقسام پائی جاتی ہیں۔‬
‫((‪ i‬چھوٹی عمر کی لڑکی ‪/‬لڑکے کی شادی اس کی ق((انونی عم((ر س((ے پہلے ک((را‬
‫دی جائے۔‬
‫((‪ ii‬والدین‪ ،‬اولیاء اپنے نابالغ بچوں کے نکاح کرا دیں۔‬

‫بچپن کی شادیاں‬
‫پاکستان کے مختلف عالقوں میں آج بھی بچپن کی شادیاں کرنے کا رواج ملتا ہے‬
‫جیساکہ ایک رپورٹ میں ہے کہ’’گو کہ مجموعی طور پ((ر پاکس((تان میں خ((واتین‬
‫کی پہلی ش((ادی کی عم((ر ب((ڑھ رہی ہے اور اس وقت ‪ 25‬سے‪ 29‬س((ال کی ش((ادی‬
‫شدہ خواتین کی شادی ہونے کی اوسط عمر ‪23‬سال ہے۔ اب بھی تقریب(ا ً ‪ 50‬فیص((د‬
‫)‬
‫پاکستانی خواتین کی شادی ‪19‬سال کی عمر کے آس پاس ہو جاتی ہے۔‘‘([‪]2‬‬
‫خاور ممتاز‪ ،‬سہیل وڑائچ‪ ،‬شارق امام و دیگر ذکر کرتے ہیں‪:‬‬
‫’’عام طو رپر شادی کی کم سے کم عمر ج((و کہ مس((لم ع((ائلی ق((وانین کے مط((ابق‬
‫‪16‬سال ہے اس پر عمل درآمد بھی بہت کمزور ہے اور پیدائش کا اندراج اور اس‬
‫ک((ا ریک((ارڈ رکھ((نے ک((ا رواج نہ ہ((ونے کی وجہ س((ے ش((ادی کے وقت ل((ڑکی کی‬
‫صحیح عمر کا تعین کرنا مشکل ہوتا ہے۔ مختلف عالقوں سے اکٹھے ك((ىے گ((ئے‬
‫شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ کئی عالقے ایسے ہیں جہاں پر کم عم((ری میں ش((ادیاں‬
‫)‬
‫کرنے کا رواج اب بھی عام ہے۔‘‘([‪]3‬‬
‫اگرچہ صوبہ پنجاب کے شہری عالقوں میں بچپن کی ش((ادیوں ک((ا رجح((ان کم ہ((و‬
‫رہا ہے لیکن پنج((اب کے دیہ((اتی عالق((وں میں ش((رح خوان((دگی کم ہ((ونے کی وجہ‬
‫سے یہ رواج آج بھی موجود ہے۔‬
‫صوبہ سندھ کے شہری عالقوں میں اگرچہ شرح خوان((دگی زی((ادہ ہ((ونے کی وجہ‬
‫سے بچپن کی شادیوں کا رجحان ختم ہ((و رہ((ا ہے لیکن دیہی عالق((وں میں آج بھی‬
‫یہ رواج بدستور موجود ہے۔ وڈیروں اور زمین((داروں میں اک((ثر بچپن کی ش((ادیوں‬
‫کی مثالیں پائی جاتی ہیں کیونکہ وڈی((روں اور ج((اگیرداروں کے ہ((اں جائی((داد بہت‬
‫اہم ذریعہ ہے جس پر ان کی معاش اور معاش((رت کی مض((بوطی ک((ا انحص((ار ہے‬
‫لہٰ ذا وہ لوگ اپنی اوالد کی شادیاں خاندان میں بچپن ہی میں ک(ر دی(تے ہیں (چ(اہے‬
‫وہ رشتہ کتنا ہی بے جوڑ کی((وں نہ ہ((و) کی((ونکہ خان((دان کے ب((زرگ کبھی بھی یہ‬
‫نہیں چاہتے کہ ان کی جائیداد خاندان سے باہر ج(ائے ی((ا ک(وئی دوس(را خان((دان ان‬
‫کی جائیداد میں حصہ دار بن جائے لہٰ ذا وہ اپنے بی((ٹے ی((ا بی((ٹی کی ش((ادی خان((دان‬
‫کے اندر ہی کرتے ہیں چاہے لڑکی نابالغ ہو اور اس کا شوہر اس س((ے عم((ر میں‬
‫بہت بڑا۔ اسی طرح بعض اوقات لڑکا کم عمر ہوتا ہے اور اس کی بیوی اس س((ے‬
‫کہیں زیادہ بڑی عمر کی اور ایسی بے جوڑ شادیوں کا انجام برا ہی ہوتا ہے جس‬
‫سے بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ نامناسب اور غیر موزوں جوڑ کی وجہ س((ے‬
‫میاں بیوی کے ازدواجی تعلقات استوار ہونے کی بجائے ناگوار ہو جاتے ہیں اور‬
‫اکثر اوقات بہت سے معاشرتی و نفسیاتی اور اخالقی مس((ائل س((امنے آتے ہیں جن‬
‫کی وجہ سے اکثر شادیاں ناکام بھی ہو جاتی ہیں۔‬
‫پنجاب اور س(ندھ کی ط(رح خی(بر پختونخ(واہ میں بھی بچپن کی ش(ادیوں ک(ا رواج‬
‫عام ہے بلکہ وہاں تو لڑکے اور لڑکی کو بل((وغت کے بع((د بھی بچپن کی ش((ادیوں‬
‫کو ختم کرنے کی اجازت نہیں کیونکہ یہ دونوں خاندانوں یا ق((بیلے کی غ((یرت ک((ا‬
‫مسئلہ ہو سکتا ہے۔‬
‫بلوچستان میں بھی بچپن کی شادیوں ک((ا رواج پای((ا جات((ا ہے لیکن رئیس((ائی ق((بیلے‬
‫میں اگر والدین اپنے بچوں کی ش((ادی بچپن میں ک((ر دیں ت((و انہیں ‪50‬ہ((زار روپے‬
‫جرمانہ سزا کے طور پر ادا کرنا پڑتا ہے۔‬
‫پاکس(((تانی معاش(((رے میں بچپن کی ش(((ادیوں کے پیچھے بہت س(((ے اس(((باب اور‬
‫محرکات موجود ہیں مثالً‪:‬‬
‫‪1‬۔عالقائی رسوم و رواج اور قب((ائلی‪ /‬خان((دانی روای((ات و اق((دار بچپن کی ش((ادیوں‬
‫میں بہت اہم وجہ ہے کیونکہ جن خاندانوں میں ذات برادری کا تص((ور بہت زی((ادہ‬
‫پایا جاتا ہے وہاں پر ایسی شادیو ں کی مثالیں کثرت سے ملتی ہیں۔‬
‫‪2‬۔اسی طرح جس خاندان میں ادل بدل یعنی ‪’’ Exchange Marriage‬وٹہ س((ٹہ''‬
‫کے تحت شادیوں کا رواج ہو وہاں پر بچپن میں ہی بچ((وں ک((و ب((دل کے ط((ور پ((ر‬
‫دوسرے خاندان میں بیاہ دیتے ہیں۔ اس ضمن میں اگر بدلے کے طور پ((ر خان((دان‬
‫میں لڑکی موجود ہو تو آئندہ پیدا ہ((ونے والی بچی ک((ا رش((تہ پی((دائش س((ے قب((ل ہی‬
‫طے کر دیتے ہیں اور اس رسم کو پیٹ لکھی کہتے ہیں۔‬
‫‪ 3‬۔سوارا‪ ،‬ڈنڈ اور ونی جیسی قبائلی رسوم و رواج کو پورا ک((رنے کے ل((یے بھی‬
‫بچپن میں شادیاں کر دی جاتی ہیں۔‬
‫‪ 4‬۔بعض وال((دین اپ((نی بی((ٹیوں کی ش((ادیاں کم عم((ری میں اس ل((یے ک((رتے ہیں کہ‬
‫انہیں اس وقت مناسب ''بَر' یعنی مناس((ب رش((تہ م((ل رہ((ا ہوت((ا ہے ل ٰہ( ذا وہ یہ موق((ع‬
‫گنوانا نہیں چاہتے۔‬
‫‪5‬۔غربت و افالس بھی بچپن کی شادیوں کا ای((ک بہت ب((ڑا مح((رک ہے کی((ونکہ وہ‬
‫والدین اپنی بیٹیوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت پ((ر خ((رچ نہیں ک((ر س((کتے بلکہ‬
‫اکثر اوقات وہ اپنی کم عمر بیٹیوں کے نکاح کے ب((دلے میں رقم بھی وص((ول ک((ر‬
‫لیتے ہیں۔‬
‫‪6‬۔اس طرح جرائم پیشہ افراد‪ ،‬جواری اور نشئی والدین بھی اپ((نی کم عم((ر بی((ٹیوں‬
‫کو اپنے ذاتی مفاد یع((نی ان کے ب((دلے میں رقم کے حص((ول کے ل((یے قرب((ان ک((ر‬
‫دیتے ہیں۔‬
‫‪7‬۔بعض والدین اپ((نی اوالد ک((و ب((داخالقی اور بے راہ روی س((ے بچ((انے کے ل((یے‬
‫بھی کم عمری میں ان کی شادی کر دیتے ہیں تاکہ ان کے اندر احس((اس ذمہ داری‬
‫پیدا ہو اور وہ بری عا دتوں کی طرف راغب نہ ہو سکیں۔‬
‫پاکستانی معاشرے میں خاندان اور ذات برادری کے اندر شادیاں ک((رنے ک((ا رواج‬
‫کثرت سے پایا جاتا ہے اور معاشرے میں ایسے رشتوں کو ہی مناسب و م((وزوں‬
‫سمجھا جاتا ہے جو ایک ہی برادری اور ایک ہی فرقے کے ان((در طے پ((اتے ہیں۔‬
‫ذات برادری‪،‬خاندان سے باہر رش(توں ک(و معی((وب س((مجھنے کی وجہ س(ے بعض‬
‫اوقات لڑکیاں کنواری رہ ج((اتی ہیں ی((اان کی عم((ر ب((ڑھ ج((انے کی وجہ س((ے بے‬
‫جوڑ رشتے طے پاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معاشرے میں ابھی تک لوگوں‬
‫میں ذات برادری کا بہت زیادہ احساس پایا جاتا ہے۔‬
‫’’‪1990‬ء کے پاکستان ڈیموگرافک این((ڈ ہیلتھ س((روے کے مط((ابق مل((ک بھ((ر میں‬
‫تقریبا ً دو تہائی شادیاں سگے رشتہ کے تایا‪ ،‬چچا‪ ،‬پھ((وپھی‪ ،‬م((اموں زاد اور خ((الہ‬
‫زاد بہن بھائیوں (فرسٹ اور سیکنڈ کزنز) کے درمیان ہوئیں اور یہ شرح دنیا میں‬
‫)‬
‫سب سے زیادہ سمجھی جاتی ہے۔‘‘([‪]4‬‬
‫پاکستانی معاشرے میں ت((و مختل((ف پیش((وں س((ے متعلقہ ذاتیں بھی پ((ائی ج((اتی ہیں۔‬
‫آبائی کاروباری پیشے بھی ایک طویل عرصہ گزرنے کے بعد ذات کے طو رپ((ر‬
‫ش((مار ک((ئے ج((اتے ہیں اور یہ تص((ور پاکس((تانی معاش((رے میں ہن((دو تہ((ذیب کے‬
‫زیراث((ر ابھی ت((ک موج((ود ہے۔ ہن((دو تہ((ذیب کے ان اث((رات کی وجہ س((ے آج بھی‬
‫پاکستانی معاشرے میں ذات ک((و انس(ان کی ش(ناخت کی ای((ک عالمت س(مجھا جات((ا‬
‫ہے اور معاشرے کے افراد اپنی یہ شناخت کھونا پسند نہیں کرتے۔‬
‫پاکستانی معاشرے میں خاندان کے اندر کی جانے والی ’’کزنز میرج‘‘ کو جبری‬
‫شادیوں کی ایک ہلکی پھلکی قسم سمجھا جاتا ہے اور اکثر والدین اپنے بچوں کی‬
‫ت(((ربیت ہی اس ان(((داز میں ک(((رتے ہیں کہ ان کے ذہن(((وں میں ذات ب(((رادری اور‬
‫خاندانی اہمیت کے ش((عور ک((و اُج((اگر ک((ر س((کیں اور ش((ادی کے وقت وال((دین ک((و‬
‫بچوں کے ساتھ س((خت رویہ نہ اپنان((ا پ((ڑے اور بچے بھی اس ش((ادی ک((و باآس((انی‬
‫قبول کرلیں۔‬
‫پاکستانی معاشرے میں خاندان ‪ ،‬ذات برادری میں شادیوں کے درج ذی ل‬
‫اسباب و محرکات ہیں‪:‬‬
‫‪1‬۔چونکہ پاکستانی معاشرے پر ہندو تہذیب و ثق((افت کے اث((رات ابھی بھی موج((ود‬
‫ہیں اس وجہ سے اکثر لوگ اپنی برادری‪ ،‬خاندان میں ہی شادی ک(و ت(رجیح دی(تے‬
‫ہیں تاکہ ان کے اس باہمی خاندانی تعلق میں اور مضبوطی پیدا ہو سکے۔‬
‫‪2‬۔ کچھ خان((دانوں میں ان ش((ادیوں کی یہ بھی وجہ ہ((وتی ہے کہ ان کی نس((ل اور‬
‫خون "‪ "Bloodline‬خالص رہ سکے جیسا کہ سید خاندان کے افراد اپ((نے بچ((وں‬
‫کی غیر سید خاندان میں شادی کرنے ک((و معی((وب س((مجھتے ہیں خ((اص ط((ور پ((ر‬
‫بچیوں کی شادیوں کے حوالے سے سید خاندان سے ہی لڑکے تالش ک((ئے ج((اتے‬
‫ہیں کیونکہ ایک سید زادی کی غیر سید لڑکے سے شادی کو اکثر گناہ تصور کی((ا‬
‫جاتا ہے اور وہ ایک سید لڑکے کو ہی سید زادی کا ہم کفو سمجھتے ہیں۔‬
‫‪ 3‬معاشرتی و سماجی مقام و مرتبے کو برقرار رکھنے کے لیے بھی خان((دان میں‬
‫شادیوں کو ترجیح دی جاتی ہے کیونکہ ہم پلہ خاندان ہی ای((ک دوس((رے کی بی((ٹیو‬
‫ں کو قدرومنزلت اور مق((ام دے س((کتے ہیں ت((اکہ ان کے مق((ام و مرت((بے میں کچھ‬
‫ف(رق نہ آئے اور نامناس(ب معاش(ی و معاش(رتی حی(ثیت کی وجہ س(ے زوجین کے‬
‫مابین باہمی تعلق میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہ ہو سکے۔‬
‫‪4‬۔بعض والدین گھریلو مشکالت سے دوچار ہونے کی وجہ سے خاندان کے ان((در‬
‫ہی اپنی بیٹیوں کے لیے مناسب جوڑ تالش کرنا ش((روع ک((ر دی((تے ہیں اور ان کی‬
‫شادیاں کم عمری میں ہی کر دی((تے ہیں ت((اکہ ان کے ل((یے مس((تقبل میں آس((انی اور‬
‫سہولت پیدا ہو سکے اور یوں وہ اپنی بیٹی پ((ر ک((ئے ج((انے والے اخراج((ات س((ے‬
‫سبکدوش ہو سکیں۔‬
‫‪5‬۔جن خاندانوں میں وٹہ سٹہ کا رواج پایا جاتا ہے وہاں بھی ایک خاندان اپنی ذات‬
‫برادری ہی س((ے متعلقہ دوس((رے خان((دان میں ب((اہمی تب((ادلے کی ش((ادیاں بچپن ہی‬
‫میں کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔‬
‫‪6‬۔جن عالقوں میں ل((ڑکی ک((و خری((د ک((ر ش((ادی کی ج((اتی ہے وہ((اں پ((ر بھی ل((وگ‬
‫خاندان کے اندر شادی کر تے ہیں تاکہ ان کا یہ مالی بوجھ کم ہو س((کے جیس((ا کہ‬
‫صوبہ خیبر پختوانخوا کے کچھ خاندانوں میں ہوتا ہے۔‬
‫‪7‬۔ ص((وبہ بلوچس((تان میں ت((و خان((دان کے عالوہ ف((رقے اور مس((لک کی اس ق((در‬
‫اہمیت ہے کہ لوگ اپنے بچوں کی شادیوں کے لیے اپ((نے ف((رقے اور مس((لک ک((و‬
‫ہی ترجیح دیتے ہیں۔‬
‫‪8‬۔جاگیرداروں اور وڈیروں کے ہاں بھی خاندان میں ب((اہمی ش((ادیوں ک((ا رواج اس‬
‫لیے بھی زیادہ ہے کہ ان کی جائیداد خاندان کے اندر ہی رہے اور دوسرا خان((دان‬
‫اس میں حصہ دار نہ بن سکے۔‬
‫جیس((ا کہ پاکس((تان کے مختل((ف عالق((وں میں خان((دان کے ان((در ش((ادیوں ک((ا رواج‬
‫بدستور پایا جات((ا ہے لیکن کچھ لوگ((وں کے نزدی((ک یہ بنی((ادی انس((انی حق((وق کے‬
‫خالف ہے اور خاص طو رپ((ر عورت((وں کے حق((وق پ((ر ڈاکہ ڈال((نے کے م((ترادف‬
‫ہے۔‬
‫وٹہ سٹہ ‪ ‬بدل کی شادیاں اور ان اس کے اسباب و محرکات‬
‫بدل کی شادی س(ے م(راد ہے کہ ای(ک خان(دان اپ(نے ل(ڑکے اور ل(ڑکی کی ش(ادی‬
‫ت ح((ال‬‫دوسرے خاندان کے لڑکے اور لڑکی سے ب((دل میں ک((ردے۔ ایس((ی ص((ور ِ‬
‫میں فریقین میں برابری کا انحص((ار بہت س((ی ب((اتوں پ((ر ہوت((ا ہے مثالً ل((ڑکے اور‬
‫لڑکی کی عمر‪ ،‬شکل و صورت اور تعلیم کے عالوہ دونوں خاندانوں کی س((ماجی‬
‫و معاش((ی حی((ثیت و مرت((بے ک((و بھی م((دنظر رکھ((ا جات((ا ہے اور اگ((ر ای((ک دلہن‬
‫دوسری کے مقابلے میں کسی بھی ح(والے س(ے کم ہ((و ت(و اس کمی ک(ا ازالہ کچھ‬
‫رقم یا جائیداد کا کچھ حصہ دے کر کیا جاتا ہے۔‬
‫ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خاندان کے اندر کی جانے والی شادیوں کی‬
‫شرح مجموعی شرح میں سے ‪ %60‬ہے اور ایک تہائی شادیاں ادل بدل یعنی وٹہ‬
‫سٹہ کے رواج کے مطابق طے پاتی ہیں۔ ایسی شادیوں کا رواج زی((ادہ ت((ر دیہ((اتی‬
‫عالقوں اور زمینداروں میں پایا جات((ا ہے۔ خ((اص ط((و رپ((ر ان عالق((وں میں جہ((اں‬
‫''بین الذات'' اور ''بین التقابل'' شادیاں کرنے کا عمومی رواج ہو۔‬

‫پاکستانی معاشرے میں وٹہ سٹہ ‪،‬ادل ب دل کی ش ادیوں کے پیچھے بہت‬


‫سے اسباب و محرکات ہیں جو درج ذیل ہیں‪:‬‬
‫‪1‬۔ ( ‪   ‬کچھ خاندانوں میں ذات برادری سے ب((اہر ش((ادی کرن((ا بہت معی((وب س((مجھا‬
‫جات((ا ہے۔ ق((بیلے اور ب((رادری کی اہمیت کے پیش نظ((ر ای((ک ہی ق((بیلے کے دو‬
‫خاندان اپنے بچوں کی باہمی تب((ادلے کی ش((ادیاں کران((ا زی((ادہ بہ((تر س((مجھتے ہیں‬
‫جیساکہ سید خاندان میں سید ہی ایک دوسرے کے ہم کفوس((مجھے ج((اتے ہیں ل ٰہ( ذا‬
‫وہ آپس میں ہی ادل بدل کی شادیاں طے کر لیتے ہیں۔‬
‫‪2‬۔ ( ‪  ‬بعض اوقات کچھ لوگ وٹہ سٹہ کی شادی کے ح((ق میں اس ل((یے بھی ہ((وتے‬
‫ہیں کہ ان کی بیٹی کے ساتھ اس کا سسرال اور شوہر ن(اروا س(لوک نہ ک(ر س(کے‬
‫اس لیے وہ بدل کے طور پر اپنے بیٹے کی شادی بھی اسی خاندان کی لڑکی سے‬
‫کر دیتے ہیں تاکہ وہ اپنی بی((ٹی کے س((اتھ ہ((ونے والے کس((ی بھی قس((م کے ن((اروا‬
‫سلوک کا بدلہ لے سکیں اور اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک جوڑے کے تعلقات‬
‫کی خرابی کی وجہ س((ے دوس((را ج((وڑا بھی مش((کل میں گرفت((ار ہ((و جات((ا ہے اور‬
‫ت حال دو خاندانوں کی تب((اہی ک((ا بھی ب((اعث بن ج((اتی ہے‬ ‫اکثر اوقات ایسی صور ِ‬
‫اور دونوں جوڑوں میں طالق واقع ہو جانے سے دو گھر برباد ہو جاتے ہیں۔‬
‫‪3‬۔( ‪  ‬کچھ لوگ وٹہ سٹہ کی شادیوں کو کامیاب اور دیرپا سمجھتے ہیں تاکہ باہمی‬
‫ش((ادیوں کے تحت دون((وں خان((دان اس مض((بوط ب((اہمی تعل((ق کے س((اتھ بہت س((ی‬
‫قباحتوں سے بچ سکیں۔‬
‫‪ 4‬۔‪ ‬بعض گھرانوں میں معاشی حاالت کی وجہ سے بھی وٹہ سٹہ کی شادیاں ہوتی‬
‫ہیں تاکہ دونوں خاندان اپنی مالی مشکالت سے بچ سکیں جو کہ ہمارے معاش((رے‬
‫میں جہیز‪ ،‬بری اور شادی کے فضول اور بے جا اخراجات پر مبنی ہیں۔‬
‫‪5‬۔( ‪  ‬جن عالقوں میں بیٹی کی قیمت لینے کارواج موجود ہے وہاں پر وہ لوگ جو‬
‫لڑکی کی قیمت ادا نہیں کر سکتے وہ بدلے میں اپنے خان((دان کی ل((ڑکی ک((ا رش((تہ‬
‫دوسرے خاندان کو پیش کر دیتے ہیں۔‬
‫(تارکین وطن) کی جبر ی شادیاں‬
‫ِ‬ ‫امیگرنٹس‬
‫پاکس((تانی مس((لمان ج((و ای((ک طوی((ل عرص((ے س((ے دنی((ا کے مختل((ف ممال((ک میں‬
‫حصول روزگا راور بہتر مس(تقبل کی خ(واہش کی خ(اطر آب((اد ہیں ان کے س((امنے‬
‫اپنی اوالد کی شادیاں کرنا ایک انتہائی اہم مسئلہ ہے۔ خاص طور پر ان لوگوں کو‬
‫زیادہ دش((واری ک((ا س((امنا کرن((ا پڑت((ا ہے ج((و اپ((نے مل((ک‪ ،‬خان((دان‪ ،‬ذات ب((رادری‪،‬‬
‫عالقائی رسوم و رواج اور اپنے عقی(دے و مس(لک س(ے زی(ادہ وابس(تگی رکھ(تے‬
‫ہیں۔ لہٰ ذا ان تارکین وطن کے بچ(وں کی ش(ادیاں ان کے ل((یے ای((ک اہم مع((املہ ہے‬
‫کیونکہ اکثر بچے بالغ ہو کر اپنی مرضی سے اپنے ل((یے ج((وڑ (‪ )Spouse‬تالش‬
‫کر لیتے ہیں لیکن جو والدین بچوں پر اپنا تسلط برقرار رکھن((ا چ((اہتے ہیں ان کے‬
‫بچوں کی شادیاں درج ذیل طریقوں سے انجام پاتی ہیں‪:‬‬
‫پہال ط(((ریقہ ‪ Coercd Marriage‬یع(((نی بچ(((وں پ(((ر دب(((اؤ ڈال ک(((ر زبردس(((تی‬
‫سمجھابجھاکر شادیاں کرنا۔‬
‫دوسرا طریقہ ہے مکمل طو رپر جبری شادیاں ‪Totally Forced Marriages‬‬
‫‪1‬۔دباؤ‪ ‬ڈال کر شادی کرنا‪ ‬‬
‫‪U.K‬میں چھپنے والی ایک رپورٹ کے مطابق‪:‬‬
‫‪i. Coerced Marriages are when the two individuals concerned‬‬
‫‪are not consulted at all or the consulation is at the best‬‬
‫‪.coremonial‬‬
‫‪ii. Marriages that use the method of coercion are ones where the‬‬
‫‪parents or other members of the family pressurise the‬‬
‫]‪individuals using tactics[5‬‬
‫والدین حیلے بہانے بنا کر بچوں کوخود سمجھاتے ہیں یا ان پر دیگر قریبی رش((تہ‬
‫داروں کے ذریعے مختلف طریقوں سے دباؤ ڈلواتے ہیں اور انہیں اس ش((ادی پ((ر‬
‫قائل کرتے ہیں۔‬
‫اوالد پر دباؤ ڈالنے کے چند طریقے یہ بھی ہوتے ہیں۔‬
‫(‪ )i‬والدین اپنے بچوں کو جذباتی طور پر بلیک میل کرتے ہیں۔‬
‫(‪ )ii‬بچوں کو اپنی حیثیت‪،‬پوزیشن کے کم پڑنے کا احساس دالتے ہیں۔‬
‫(‪ Iii‬اوالد کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس شادی سے ان کی آئندہ‬
‫آنے والی نسل کی بھالئی مقصود ہے۔‬
‫(‪ )iv‬شادی نہ کرنے کی صورت میں ان کی اور ان کے والدین کی پورے خاندان‬
‫میں شہرت خراب ہو سکتی ہے۔‬
‫(‪ )v‬والدین اپنی جائیداد سے بے دخل کرنے کی دھمکی بھی استعمال کرتے ہیں۔‬
‫(‪ )vi‬خاندانی ع((زت وغ((یرت (‪  )Family honor‬کی خ(اطر یہ ش(ادی کرن((ا الزم‬
‫ہے۔ ل ٰہذا‪  ‬والدین مختلف حیلوں بہانوں سے ان پر دباؤ ڈال کر انہیں اس ش((ادی پ((ر‬
‫آمادہ کر لیتے ہیں۔‬
‫(‪ )2‬مکمل طور پر جبری شادی‬
‫مختلف حیلوں بہانوں سے دباؤ ڈال کر یا ڈرا دھمکا کر بھی جب اوالد ش((ادی کے‬
‫لیے تیار نہیں ہوتی تو پھر والدین مکم((ل ط((ور پ((ر ج((برو تش((دد کے ذریعے انہیں‬
‫اس شادی پر آمادہ کرتے ہیں۔ ‪MAT‬کی رپورٹ کے مطابق اس قسم کی شادی کا‬
‫مفہوم یہ ہے کہ‪:‬‬
‫" ‪Forced marriages are where consultation is the least of the‬‬
‫‪priorites and intention of the parents prevails Instead, the‬‬
‫‪son/daughter will be told firmly the wishes of their parents and‬‬
‫]‪would be expected to comply.[6‬‬
‫اسباب و محرکات‬
‫بیرون مل(ک خ(اص ط(ور پ(ر ام(ریکہ و ی(ورپ میں بس(نے والے پاکس(تانیوں کے‬
‫بچ((وں کی ش((ادی ان کے ل((یے ای((ک اہم مع((املہ ہوت((ا ہے کی((ونکہ آزاد م((احول میں‬
‫پرورش پانے کی وجہ سے بچوں پر اس معاشرے کا اثر ہوت((ا ہے س((کول‪ ،‬ک((الج‪،‬‬
‫یونیورسٹی اور اردگرد کے ماحول کے عالوہ دوستوں کے ماحول سے متاثر ہ((و‬
‫کر یہ بچے وال((دین کی ت((ربیت ک((ا اث((ر نہیں لی((تے۔ اس کے عالوہ شخص((ی آزادی‬
‫کے ن((ام پ((ر ض((رورت س((ے زی((ادہ بے ب((اک معاش((رہ‪ ،‬لڑکی((وں اور لڑک((وں کی‬
‫دوستیاں‪ ،‬نائٹ کلب اور بال رومز پر جانے پر انہیں کوئی پابندی نہیں ہ((وتی لہٰ ( ذا‬
‫والدین اپنے بچو ں کے شب و روز کی نامناس((ب مص((روفیات س((ے گھ((برا ج((اتے‬
‫ہیں اور اپنے بچ((وں کے بہ((تر اخالق‪ ،‬پائی((دار اور مض((بوط ازدواجی زن((دگی کے‬
‫لیے ان کی شادی کی فکر کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اگر انہیں اسی مل((ک میں‬
‫اپنے رشتہ داروں اور دوس((ت و احب((اب میں رش((تے نہ ملیں ت((و انہیں اپ((نے آب((ائی‬
‫وطن ال کر ان کی جبراً شادیاں کرا دیتے ہیں۔‬
‫ان شادیوں کے پیچھے عموم(ا ً ذاتی مف((ادات بھی کارفرم((ا ہ((وتے ہیں جن کی وجہ‬
‫سے والدین اوالد کی پسند کو یکسر نظرانداز کر کے اپ((نی پس((ند ک((و ج((براً ان پ((ر‬
‫مسلط کرتے ہیں لیکن ذاتی مفاد کی بجائے اکثر اوقات والدین کے پیش نظر اوالد‬
‫کی بہتر ازدواجی زن((دگی کی خ((واہش بھی ہ((وتی ہے جس کی درج ذی((ل وجوہ((ات‬
‫ہیں‪:‬‬
‫(‪ )1‬وہ اپنی اوالد کو اخالقی بے راہ روی سے بچانے کے ل((یے ش((ادیا ں ک((راتے‬
‫ہیں۔‬
‫(‪ )2‬الکوحل اور ڈرگز‪  ‬وغیرہ کی عادت سے بچانے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔‬
‫(‪ )3‬اوالد کے مذہب اور عقیدے کی حفاظت کے لیے ایسا کرتے ہیں۔‬
‫(‪ )4‬بچو ں کے کامیاب ازدواجی مستقبل کے لیے ایسا کرتے ہیں۔‬
‫(‪ )5‬اپنی آئندہ آنے والی نسل کی بہتر تربیت کے لیے ایسا کرتے ہیں۔‬
‫اس کے عالوہ وہ اپ((نے بچ((وں کی ش((ادیاں اپ((نے عالق((ائی اور خان((دانی رس((وم و‬
‫رواج ک((و نبھ((انے کے ل((یے بھی ک((رتے ہیں ت((اکہ ان کے آب((ائی مل((ک میں اپ((نے‬
‫خاندان اور معاشرے کی روایات کے ساتھ ان کی وفاداری قائم رہ سکے۔‬
‫لہٰ ذا تارکین وطن کی ایک کثیر تعداد اپنے بچوں کے بہ((تر ازدواجی مس((تقبل‪  ‬کے‬
‫لئے فکر مند رہتی ہے اور اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے ج(بری ش(ادیوں ک(ا‬
‫سہارا لیا جاتا ہے۔‬
‫اغواء اور سمگلنگ کے ذریعہ ہونے والی جبری شادیاں‬
‫دنیا کے قدیم ترین معاشروں میں اس قسم کی شادیوں کی بے شمار مثالیں موج((ود‬
‫ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں خاص طو رپر ان عالقوں میں اس قسم کی شادیوں کا‬
‫عام رواج پایا جاتا ہے جہ((اں پ((ر ل((ڑکی کی قیمت وص((ول کی ج((اتی ہے وہ((اں پ((ر‬
‫زور آور لوگ کسی دوسرے قبیلے (یا اپ((نے ہی عالقے کی) ل((ڑکی ک((و اغ((وا ک((ر‬
‫کے صرف ایک رات یا اس سے زیادہ عرصہ اپنے پاس رکھ کر اس سے جنسی‬
‫تعلق ق(ائم ک(رتے ہیں بع(د میں اس ل(ڑکی کے گھ(ر وال(وں س(ے اس کے نک(اح ک(ا‬
‫مطالبہ کرتے ہیں اور اکثر اوقات خان((دان والے اپ((نی ع((زت بچ((انے کے ل((یے اس‬
‫نکاح پر مجبور ہو جاتے ہیں۔‬
‫پاکس((تان کے کچھ عالق((وں میں ش((ادی ک((رنے کے ل((یے ای((ک اور بہت ب((ڑا ذریعہ‬
‫انس((انی س((مگلنگ ہے یع((نی اغ((واء کنن((دگان ک((ا یہ گ((روہ انتہ((ائی منظم ان((داز میں‬
‫اردگرد کے عالقوں سے لڑکیوں ‪ /‬عورتوں ک((و اغ((واء ک((ر کے دوس((رے ممال((ک‬
‫میں سمگل کرت((ا ہے۔ عورت((وں اور لڑکی((وں کی یہ س((مگلنگ خ((اص ط((ور پ((ر ان‬
‫عالقوں میں کی جاتی ہے جہ((اں پ((ر عورت((وں کے مق((ابلے میں م((ردوں کی تع((داد‬
‫زی((ادہ ہ((و بعض اوق((ات عورت((وں کی ش((رح پی((دائش کم ہ((ونے کی وجہ ‪Femail‬‬
‫‪( infanticide‬یعنی پیدا ہونے والے بچے کی جنس اگر لڑکی ہو تو اس حمل ک((و‬
‫ختم کر دیاجاتا ہے) بھی ہے۔‬
‫سمگلنگ کے لیے ای((ک اور ح((ربہ بھی اس((تعمال کی((ا جات((ا ہے۔ غ((ریب اور ن((ادار‬
‫والدین سے یا آفت زدہ عالقوں سے الوارث بچیوں ک((و لے پال((ک کے ط((ور اپ((نی‬
‫سرپرس((تی میں لے لی((ا جات((ا ہے۔ یع((نی ‪Adoption‬کے ذریعے اپ((نے گھ((ر میں‬
‫رکھتے ہیں اور پھر کچھ عرصہ کے بعد مل(ک کے ان عالق(وں میں جہ(اں ل(ڑکی‬
‫کی قیمت وص((ول کی ج((اتی ہے ش((ادی کے ل((یے بیچ دی((تے ہیں ی((ا پھ((ر دوس((ری‬
‫صورت میں بیرون ممالک سمگل کردیا جاتا ہے۔‬
‫اسباب و محرکات‬
‫‪1‬۔لڑکی کو اغواء کرنے کے بعد شادی کا رواج ان عالقوں میں بھی پایا جات((ا ہے‬
‫جہاں پر دلہن کی قیمت دے کر شادی کی جاسکتی ہے۔‬
‫‪2‬۔بعض اوقات دو قبیلوں یا خاندانوں کے مابین دشمنی کا بدلہ لینے کے ل((ىے بھی‬
‫ایک قبیلہ دوسرے قبیلے کی لڑکی کو اغواء کر کے جبراً اس سے شادی کر لیت((ا‬
‫ہے۔‬
‫ایک رپورٹ کے مطابق‪:‬‬
‫’’صوبہ پنجاب میں نکاح کے بغیر شادی اس وقت ہوتی ہے جب عورت کو اغ((وا‬
‫کیا گیا ہو۔ اغواء کی وجہ دشمنی بھی ہو سکتی ہے۔ ایسے واقعات بھی ہ((وتے ہیں‬
‫)‬
‫جس میں عورت اور مرد اکٹھے بھاگ جاتے ہیں۔‘‘([‪]7‬‬
‫اس رپورٹ کے مطابق صوبہ س((ندھ اور بلوچس((تان میں اغ((وا کے ذریعے ہ((ونے‬
‫والی شادیوں کے بہت سے واقعات ملتے ہیں جبکہ اس کے برعکس( صوبہ خی((بر‬
‫پختونخواہ میں عموما ً نچلے طبقے میں ہی اس قسم کی مثالیں ملتی ہیں۔‬
‫‪ 3‬۔کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ خاندان والے اپنے بیمار‪ ،‬نشئی یا جواری لڑکے کی‬
‫شادی کرنے کے لیے لڑکی کو اغوا کر لی((تے ہیں اور ایس((ی ش((ادیاں بہت ہی بے‬
‫جوڑ ہوتی ہیں جن کا انجام عموما ً اچھا نہیں ہوتا۔‬
‫‪4‬۔معاشی و معاشرتی بدحالی بھی لڑکیوں ‪ ،‬عورتوں کے اغواء کا ایک ب((ڑا س((بب‬
‫ہے۔ یعنی جب والدین اپنی بیٹیوں ‪ ،‬بہنوں کی مناسب حف((اظت نہ ک((ر س((کتے ہ((وں‬
‫خاص ط((ور پ((ر ان عالق((وں میں جہ((اں ج((رائم پیش((ہ اف((راد موج((ود ہ((وں ت((و ایس((ی‬
‫الوارث عورتیں ‪،‬لڑکیاں ان جرائم پیشہ افراد کے ہاتھ لگ جاتی ہیں اور وہ ان کو‬
‫ملک کے اندر یا ملک سے باہر شادی کے لیے دوسرے م((ردوں کے ہ((اتھوں بیچ‬
‫دیتے ہیں۔ ملک سے باہر انسانی س((مگلنگ پاکس((تان میں ای((ک کاروب((ار کی ش((کل‬
‫اختیار کر چکی ہے۔‬
‫تالفی اور مفاہمت کی شادیاں‬
‫پاکستان کے قبائلی عالقوں اور دیہات میں مفاہمت اور تالفی کی شادیوں کا رواج‬
‫آج بھی موجود ہے۔ جس میں ایک خاندان دوس(رے خان(دان کے س(اتھ دش(منی اور‬
‫جھگڑے نمٹانے کے لیے اپ(نی بی(ٹی ک(و پیش کرت(ا ہے۔ تالفی اور مف(اہمت کی یہ‬
‫شادیاں ملک کے مختلف حصوں میں ان ناموں سے مروج ہیں۔‬
‫(‪ )1‬سوارا‪ :‬یہ رسم صوبہ سرحد کے پشتون قبیلے میں مروج ہے۔‬
‫(‪ )2‬سانگ (ڈنڈ) ‪  :   ‬اس رسم کا رواج صوبہ سندھ کے دیہ(اتی عالق(وں میں پای(ا‬
‫جاتا ہے۔‬
‫(‪ )3‬ونی‪ :‬پاکستان کے قب((ائلی رس((وم و رواج میں ونی ای((ک ق(دیم روایت ہے ج((و‬
‫پنجاب کے دیہی عالقوں میں پائی جاتی ہے۔‬
‫اسباب و محرکات‬
‫پاکستانی معاشرے میں مختلف شکلوں اور قبائلی روایات کے ساتھ جبری شادیوں‬
‫کی یہ قسم مختل(ف ن(اموں کےس(اتھ پ(ائی ج(اتی ہے ج(و ج(بری ش(ادیوں کی ای(ک‬
‫سنگین قسم ہے۔ اس رسم میں لڑکیوں کو خان((دان کے م(رد اپ(نے قب((ائلی جھگ(ڑے‬
‫اور خاندانی دشمنیاں ختم کرنے کی خاطر بھیڑ بکریوں کی طرح ایک جگہ س((ے‬
‫دوسری جگہ دھکی((ل دی((تے ہیں۔ انس((انیت کی یہ ت((ذلیل عالق((ائی رس((م و رواج اور‬
‫قبائلی روایات کی بقا کی خاطر آج بھی پاکستانی معاشرے میں رائج ہے۔‬
‫‪1‬۔ ‪   ‬جیسا کہ ''سوارا''‪ ‬کی رس((م ص((وبہ س((رحد کے پش((تون خان((دانوں میں پ((ائی‬
‫جاتی ہے۔ سوارا کی شرائط طے کرتے وقت مقتولین کی تع((داد‪ ،‬قب((ائلی جھگ((ڑوں‬
‫کی نوعیت اور دونوں خاندانوں کی سماجی حیثیت کو بھی مدنظر رکھا جات((ا ہے۔‬
‫بعض اوقات ''سوارا'' کے طور پر دی ج((انے والی ل((ڑکی کی عم((ر بہت کم ہ((وتی‬
‫ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق‪:‬‬
‫’’سوارا‘‘ میں تبادلے کا تسلیم شدہ ریٹ سات برس سے اوپ((ر کی ای((ک ل((ڑکی ی((ا‬
‫سات برس سے کم عم((ر کی دو لڑکی(اں ہیں۔ ایس((ے واقع(ات بھی ہ(وئے ہیں جہ(اں‬
‫والدین نے سات برس سے کم عمر لڑکی کے دودھ کے دانت خود توڑ دیئے تاکہ‬
‫)‬
‫انہیں دو کی بجائے ایک لڑکی دینا پڑے۔‘‘([‪]8‬‬
‫سوارا کے طو رپر دی جانے والی لڑکی کو اپنے خان((دان وال((وں کے س((اتھ کس((ی‬
‫قسم کا تعلق رکھنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ جس سے خاندان ک((و وہ دی ج((اتی ہے‬
‫وہ بھی اس کو پوری طرح قبول نہیں کرتا۔ قب((ائلی روایت کے مط((ابق بغ((یر کس((ی‬
‫تقریب کے اس لڑکی کا نکاح پڑھا دیا جاتا ہے لیکن جہ((اں جھگ((ڑوں کی ن((وعیت‬
‫ک((افی س((نگین ہ((وتی ہے اور ج((رگے کے س((امنے انتہ((ائی منت س((ماجت کے بع((د‬
‫سوارا کا معاملہ طے ہوا ہو وہ((اں پ((ر ت((و نک((اح کے بغ((یر ہی ل((ڑکی ک((و دوس((رے‬
‫قبیلے کے سپرد کردیا جاتا ہے جیسا کہ ڈی((رہ اس((مٰ عیل خ((ان میں ل((ڑکی ک((و نک((اح‬
‫کے بغیر ہی حوالے کرنے کی روایت موج((ود ہے اور ایس((ی لڑکی((وں کی حی((ثیت‬
‫کنیز وں سے بڑھ کر نہیں ہوتی۔‬
‫اس رپورٹ کے مطابق‪:‬‬
‫’’ڈیرہ اسمٰ عیل خان کے عالقے میں ''س((وارا'' میں ج((و ع((ورت دی ج((اتی ہے اس‬
‫کی قسمت کا فیصلہ مکمل طور پر اس خاندان کے ہ((اتھ میں ہوت((ا ہے جس ک((و وہ‬
‫دی گئی ہو وہ چاہیں تو اسے تنخواہ کے بغیر مالزمہ کے ط((ور پ((ر اس((تعمال ک((ر‬
‫سکتے ہیں۔کئی قبائل میں جس مرد کو عورت ''س((وارا'' میں دی ج((اتی ہے وہ اس‬
‫عورت کو اپنے خاندان کے کس((ی دوس((رے م((رد کے ہ((اتھ ش((ادی کے مقص((د کے‬
‫لیے فروخت کر سکتا ہے۔‘‘‬
‫‪ 2‬۔ س انگ ۔ ڈن ڈ‪ :‬صوبہ س((ندھ میں بھی ج((رگے کے فیص((لے کے مط((ابق ل((ڑائی‬
‫جھگڑا نمٹانے کے لیے تالفی اور مفاہمت کے طورپر لڑکیاں پیش کی ج((اتی ہیں۔‬
‫اس عالقائی روایت کو سانگ یا ڈنڈ کہتے ہیں۔‬
‫’’یہاں قبائلی جھگڑے کی بجائے عموماًکاروکاری‘‘قتل برائے غیرت'' ک((ا مس((ئلہ‬
‫درپیش ہوت((ا ہے۔ م((رد ’’ک((ارو‘‘ کی ش((کل میں قت((ل ہ((وتے ہیں۔ بچ((نے کے ل((یے‬
‫’’کاری‘‘ کے خاندان کو رقم دے کر جان بچاتا ہے۔ اکثر کاری کے خاندان والے‬
‫)‬
‫نقد رقم کی بجائے ’’کارو‘‘ کے خاندان سے لڑکی لینا پسند کرتے ہیں۔‘‘([‪]9‬‬
‫کاروکاری کی سزا‬
‫ک((ارو کے عالق((ائی زب((ان میں مع((نی ہیں ’’ک((اال آدمی‘‘ اور ک((اری ک((ا مفہ((وم ہے‬
‫’’کالی عورت‘‘( اصطالحاًاس سے زانی اور زانیہ مراد لی((ا جات((ا ہے۔ عالقے میں‬
‫جب مرد اور عورت مبینہ ناجائز تعلقات ی((ا ش((ک کی بنی((اد میں پک((ڑے ج((ائیں ت((و‬
‫ق((انون کی بج((ائے انہیں پنچ((ایت کے س((امنے پیش کی((ا جات((اہے اور‪  ‬فیص((لے کے‬
‫مطابق ان دون((وں ک((و م((وت کی س((زا س((نائی ج((اتی ہے۔ ل ٰہ( ذا ب((دکار م((رد س((زا کی‬
‫بجائے ک((افی زی((ادہ رقم ی((ا اپ((نے خان((دان کی ل((ڑکی بھی دے س((کتا ہے بش((رطیکہ‬
‫کاری عورت کے خاندان والے ایسی پیشکش پر راضی ہو جائیں‪  ‬یہ رس((م پنج(اب‬
‫کے عالقے ڈیرہ غازی خان اور مظفرگڑھ میں موجود ہے۔‬
‫ونی‬
‫پاکستان کے عالقائی رسوم و رواج میں س((ے ای((ک ق((دیم روایت ونی کی ہے۔ اس‬
‫روایت کے مطابق خان((دانی جھگ((ڑے اور دش((منی ک((و ختم ک((رنے کے ل((یے ای((ک‬
‫خاندا ن دوسرے خاندان کے لڑکے سے اپ((نی بی((ٹی کی ش((ادی کرت((ا ہے۔ اور اگ((ر‬
‫اس خاندان میں لڑک((ا نہ ہ((و ت((و خان((دان کے س((ربراہ س((ے (خ((واہ وہ کتن((ا ہی عم((ر‬
‫رسیدہ کیوں نہ ہو) اس لڑکی کا نکاح پڑھا دیا جاتا ہے۔‬
‫ونی کی روایت پر عمل کرنے کی ایک اور وجہ دو مختلف خاندانوں کے ل((ڑکے‬
‫اور لڑکی کی پسند کی شادی یعنی ‪ Love Marriage‬بھی ہو سکتی ہے۔ عالقے‬
‫کی روایت کے مطابق یہ شادی ایک جرم س((ے کم ش((مار نہیں کی ج((اتی اور ع((ام‬
‫طور پ(ر ل(ڑکے کی بہن کی ش(ادی دوس(رے خان(دان کے کس(ی بھی ش(خص س(ے‬
‫کردی جاتی ہے۔‬
‫پنجاب کے دیہی عالقوں میں خاندانی رقابت اور دش((منی ک((و ختم ک((رنے کے بھی‬
‫دشمن خان(دان میں بچی(وں کی ش(ادیاں ک(رنے ک(ا رواج موج(ود ہے ت(اکہ آپس کے‬
‫جھگڑوں اور دشمنی کو مستقل طور پر ختم کردیا جائے۔‬
‫’’سرگودھا اور اس کے گ((ردو ن((واح کے عالق((وں خوش((اب‪ ،‬مٹھ((ا ن((ور‪ ،‬نورپ((ور‪،‬‬
‫تھل‪ ،‬بندیال اور قائدآباد وغیرہ میں ونی کی رسم ع((ام ہے۔‪  ‬اس رس((م کی رو س((ے‬
‫اگر کوئی لڑکا اور لڑکی کورٹ میرج کرلیں یا کوئی لڑکی کسی لڑکے کے ساتھ‬
‫بھاگ جائے اور‪  ‬بعد میں صلح کرنی پڑے تو جو لڑکی بھ((اگی تھی اس کے ب((اپ‬
‫)‬
‫یا بھائی یا کسی رشتہ دار سے لڑکے کی بہن کو شادی کرنا پڑتی ہے۔‘‘([‪]10‬‬
‫لڑکی خرید کر شادی کرنا‬
‫پاکستانی معاشرے میں اگر زم((انے کے ب((دلنے کے س(اتھ بہت س((ی ق((دیم عالق((ائی‬
‫روایات میں کمی واقع ہ((وئی ہے لیکن ابھی بھی کچھ عالقے ایس((ے ہیں جہ(اں پ((ر‬
‫والدین اپنی بیٹی کی شادی اس کی قیمت وصول کر کے کرتے ہیں۔‬
‫اس روایت کے مطابق لڑکی کی قیمت ک((ا ان((دازہ اور تعین اس کی عم((ر‪ ،‬ش((کل و‬
‫صورت اور ذات برادری کی معاشرتی و معاشی حیثیت و مقام کو مدنظر رکھ کر‬
‫کیا جاتا ہے۔ یہ رسم مختلف عالقوں میں مختلف ناموں سے مروج ہے۔‬
‫(‪ )i‬ولور‬
‫(‪ )ii‬دسرپسہ‬
‫(‪ )iii‬کپاس کی سیل‬
‫(‪ )iv‬بجار‬
‫ایک رپورٹ کے مطابق‪:‬‬
‫’’دلہن کی قیمت لی((نے ک((ا رواج مختل((ف عالق((وں میں ’’ول((ور‘‘‪’’ (،‬دسرپس((ہ‘‘‪،‬‬
‫’’لب‘‘ اور کپاس کی سیل کہالت((ا ہے۔ یہ رواج ص((وبہ س((رحد اور بلوچس((تان کے‬
‫زی((ادہ ت((ر حص((وں کے عالوہ س((ندھ اور پنج((اب کے کچھ عالق((وں میں پای((ا جات((ا‬
‫ہے۔‘‘[‪]11‬‬
‫اسباب و محرکات‬
‫پاکستانی معاشرے میں آج بھی قدیم عالقائی رسوم و رواج پ((ائے ج((اتے ہیں۔ کچھ‬
‫عالقے ایسے ہیں جہاں پر لڑکی کو خرید کر شادی کرنے کا رواج جو ’’ول((ور‘‘‬
‫اور ’’بجار‘‘ کے نام سے موج((ود ہیں۔ اس کے عالوہ یہ رواج دسرپس((ہ‪ ،‬لب اور‬
‫کپاس کی سیل کے عالقائی ناموں سے مختلف عالقوں میں موجود ہے۔ اس رواج‬
‫کے مطابق لڑکی و الے اپنی لڑکی کے نک(اح ک(و ب((دلے میں ل((ڑکے و ال((وں س(ے‬
‫رقم وصول کرتے ہیں۔ لڑکی کی قیمت کی ادائیگی نقد رقم کے عالوہ دیگر قیمتی‬
‫اشیاء سے بھی کی جاسکتی ہے مثالً گ((ائے‪ ،‬بھینس‪ ،‬بکری((اں اور اونٹ وغ((یرہ ی((ا‬
‫اس عالقے کی اہم فصل کی ص((ورت میں بھی ل((ڑکی کی قیمت وص((ول کی ج((اتی‬
‫ہے۔‬
‫’’صوبہ سرحد اور بلوچستان کے عالقوں میں ولور یعنی دلہن کی قیمت دینے کا‬
‫رواج کسی نہ کسی شکل میں عام طور پر پایا جاتا ہے اس لیے لڑک((وں ک((و ک((افی‬
‫عم((ر ت((ک انتظ((ار کرن((ا پڑت((ا ہے۔ ’’ول((ور‘‘( یع((نی ل((ڑکی کی قیمت اور اس کی‬
‫ادائیگی کی کئی ش((کلیں ہیں ج((و یہ ل((وگ روپیہ پیس((ہ‪ ،‬مویش((ی‪ ،‬زمین وغ((یرہ کی‬
‫شکل میں ادا کرتے ہیں۔ ولور کی مقدار اور اس کی ادائیگی کی کی((ا ش((کل ہ((وگی‬
‫یہ پہلے ہی طے کرلیا جاتا ہے۔ اس طرح سے شادی کا سارا ب(ار ل(ڑکے پ(ر پڑت(ا‬
‫ہے اور ل((ڑکی ک((ا ب((اپ جہ((یز کی قیمت‪ ،‬ش((ادی اور ب((اراتیوں کی دع((وت کے‬
‫مصارف لڑکے سے وصول کرتا ہے۔ ''ولور'' کی ایک قسط منگ((نی کے وقت دی‬
‫)‬
‫جاتی ہے اور پوری رقم نکاح سے قبل ادا کر دی جاتی ہے۔‘‘([‪]12‬‬
‫قبائل میں ولور اور بجار کی روایت کے مط((ابق دی گ((ئی ل((ڑکی کی حی((ثیت ای((ک‬
‫زرخرید کنیز سے بڑھ کر نہیں ہوتی۔ خاوند کے فوت ہونے کی صورت میں اگ(ر‬
‫خاوند کی جائیداد ہوتو اس عورت کو خاوند کے بھائی سے شادی کرن((ا پ((ڑتی ہے‬
‫کیونکہ خریدی ہوئی عورت کو دوسرے خاندان میں جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔‬
‫لہٰ ذا وہ بھی متوفی کی جائیداد کی طرح اس کے وارثوں کے پاس ہی رہتی ہے۔‬
‫قرآن سے شادی (حق بخشوانا)‬
‫پاکستان میں آج بھی کچھ عالقے ایسے پائے جاتے ہیں جہاں پر وال(دین ی(ا قری(بی‬
‫رشتہ دار جائیداد کی خاطر اپنی بیٹیوں ‪ ،‬بہنوں کی ش((ادیاں ق((رآن س((ے ک((ر دی((تے‬
‫ہیں۔ جس کو ''حق بخشوانا'' بھی کہا جاتا ہے۔‬
‫حق بخشوانے کی رسم کی ادائیگی کے لیے پورے خان((دان ک((و باقاع((دہ ط((ور پ((ر‬
‫مدعو کیا جاتا ہے۔ لڑکی ک(و س(جا س(نوار ک(ر دلہن بنای(ا جات(ا ہے پھ(ر خان(دان ک(ا‬
‫کوئی بزرگ اس کے پاس قرآن لے کر آت((ا ہے اور ل((ڑکی کے ہ((اتھ میں تھم((ا ک((ر‬
‫اسے بتاتا ہے کہ اس کی شادی قرآن سے ہو گ(ئی ہے لہٰ( ذا اب اس(ے اپ(نی عفت و‬
‫عصمت کی حفاظت کرنی چاہئے اور اسے ''بی بی پاک دامن''کے لقب سے نوازا‬
‫جاتا ہے۔ اس رسم کی ادائیگی کے بع((د اس کی حی((ثیت ای((ک پ((یرنی کی ط((رح ہ((و‬
‫جاتی ہے۔ خاندان بھر اور اردگرد کے لوگ اپنے بچوں کو اس پاک دامن بی بی ‪،‬‬
‫پیرنی سے قرآن (ناظرہ) پڑھواتے ہیں۔ بیم((اری اور دکھ تکلی((ف میں اس س((ے دم‬
‫کراتے ہیں اور مشکل سے نجات کے تعویذ دینا اس پیرنی ک((ا انتہ((ائی اہم منص((ب‬
‫بن جات((ا ہے۔ اور اہم ب((ات یہ کہ جس خان((دان میں زی((ادہ س((ے زی((ادہ لڑکی((وں کی‬
‫شادیاں قرآن سے ہوتی ہوں معاشرے میں اس خاندان کے مقام و مرتبہ اور ع((زت‬
‫وقار میں بہت زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ اردگرد کے معاشرے میں اس خان((دان ک((و‬
‫انتہائی عزت و احترام اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔‬
‫اسباب و محرکات‬
‫صوبہ سندھ کے دیہی عالقے اور جن((وبی پنج((اب میں ق((رآن کے س((اتھ ش((ادی کی‬
‫رسم پائی جاتی ہے۔ خاص طور پر جاگیرداروں اور وڈی((روں میں کی((ونکہ ان کی‬
‫طاقت اور سماجی مقام و مرتبے اور حیثیت کا سارا داروم((دار ان کی جائی((داد پ((ر‬
‫ہی ہوتا ہے لہٰ ذا وہ اپنی جائیداد کو تقسیم ہونے سے بچانے کے ل((یے اپ((نی بی((ٹیوں‬
‫کی شادیاں قرآن س((ے ک((ر کے جائی((داد ک((و خان((دا ن میں ہی رہ((نے دی((تے ہیں۔ اس‬
‫رسم کو حق بخشوانا بھی کہا جاتا ہے۔‬
‫’’جائیداد کی تقسیم سے بچانے کے لیے باپ اپنے بھتیجوں یا بھ((انجوں کے س((اتھ‬
‫شادی کو ترجیح دیت((ا ہے۔ چ((اہے وہ رش((تہ بالک((ل بے ج((وڑ ہی کی((وں نہ ہ((و۔ ک((ئی‬
‫مرتبہ لڑکی کی شادی کسی بوڑھے آدمی یا بالکل ناب((الغ ل((ڑکے کے س((اتھ ک((ردی‬
‫جاتی ہے۔ اگر کسی کو ایسے رشتے قابل قبول نہ ہوں تو سیدوں میں ایک ح((یرت‬
‫انگیز رسم یہ ہے کہ اس کی شادی ق((رآن کے س((اتھ ک((ردی ج((اتی ہے اور اگ((ر وہ‬
‫)‬
‫ایسا کرنے پر بھی تیار نہ ہو تو جان سے مار دی جاتی ہے۔‘‘([‪]13‬‬
‫قرآن کے ساتھ شادی کرنے یا حق بخشوانے کی یہ ظالم((انہ رس((م ن((واب ش((اہ کے‬
‫گرد و نواح‪ ،‬دادو‪ ،‬س((انگھڑ‪ ،‬م((ورو‪ ،‬ب((دین اور م((یرپور خ((اص کے عالوہ جن((وبی‬
‫پنجاب کے وڈی((روں اورزمین((داروں( میں پ((ائی ج((اتی ہے۔ اس رس((م کی ب((ڑی وجہ‬
‫مادی فوائد کا حص((ول اور جائی((داد ک((و تقس((یم س((ے بچان((ا ہے لیکن اس کے عالوہ‬
‫ذات پات کی اہمیت بھی ایک محرک ہے یع((نی ایس((ے خان((دانوں میں بھی یہ رس((م‬
‫پائی جاتی ہے جو اپنی بیٹیوں ‪ ،‬بہنوں کی شادی کو خاندان سے ب((اہر نہیں ک((رتے‬
‫بلکہ ایسا کرنے کو گناہ تصور کرتے ہیں۔‬
‫جبری نکاحوں کی شرعی و قانونی حیثیت‬
‫اگر زیروالیت افراد کے حوالے سے ک((وئی مس((ئلہ درپیش ہ(و ت(و ولی ک(و ع(دالت‬
‫میں رجوع کا ح(ق حاص(ل ہے جیس(ے ع(اقلہ ب((الغہ ع(ورت غ((یرکفوگھرانے میں‪ ‬‬
‫نکاح کرلے تو ولی کو حق حاصل ہے کہ وہ عدالت میں‪  ‬جا کر اس کا نکاح فسخ‬
‫کروائے۔‬
‫شیبانی اس حوالے سے کہتے ہیں‪: ‬‬
‫ؒ‬ ‫امام محمد‬
‫"اذا تزوجت المرأة غیر كفو فرفعها ولیها إلی اإلمام فرق بینهما وهو قول أبی حنیفة‬
‫)‬
‫رحمه هللا تعالی‪]14[(.‬‬
‫’’ جب عورت غیرکفو میں‪  ‬نکاح کر لے ت((و اس ک((ا ولی اس مس((ئلہ ک((و ام((ام کے‬
‫حنیفہ کا قول ہے۔ ‘‘‬
‫ؒ‬ ‫پاس لے جائے تو وہ ان میں‪  ‬تفریق کرادے گا۔ یہ امام ابو‬
‫امام جصاص غیر کفو میں‪  ‬نکاح کو جائز ق((رار دی((تے ہیں مگ((ر اس کے س((اتھ یہ‬
‫بھی لکھتے ہیں‪: ‬‬
‫)‬
‫ولألولیاء أن یفرقوا بینهما۔ [‪]15‬‬
‫(‬

‫’’ اور ان اولیاء کےلئے ان کے مابین تفریق کروانا جائز ہے۔ ‘‘‬
‫ظاہرہے یہ تفریق اسی طریقہ کے مطابق ہو گی جیسے امام شیبانی نے بیان کیا‬
‫کہ امام اور قاضی یہ تفریق کروائے گا۔ اسی طرح بالغہ ثیبہ جب دوسرا نکاح‬
‫کرے تو اس میں بھی اسے کفوکا لحاظ رکھنا چاہئے۔ امام ابن العربی مالکی اس‬
‫حوالے سے بیان کرتے ہیں‪  ‬کہ‪:‬‬
‫)‬
‫فدل علی أن املعروف املراد باآلىة هو الكفاء ة وفیها حق عظیم لألولیاء۔ [‪]16‬‬
‫(‬

‫سو یہ بات داللت کرتی ہے کہ اس آیت میں‪  ‬معروف سے مراد کفو(براب((ری) ہے‬
‫کہ اس بات میں‪  ‬اولیاء کو بہت زیادہ حق ہے۔‬
‫امام ابن العربی اس کی وجہ اور اس مسئلہ پر اجماع کا ذکر یوں کرتے ہیں‪:‬‬
‫)‬
‫ملا فی تركها من إدخال العار علیهم و ذلك امجاع من االمة۔([‪]17‬‬
‫’’کیونکہ کفوکے ترک میں‪   ‬ان ‪(  ‬اولیاء) کےل((ئے ش((رمندگی ہے اور اس مس((ئلہ‬
‫پر امت کا اتفاق ہے۔‬
‫اس س((ے معل((وم ہ((وا کہ ع((ورت ک((و نک((اح ک((رتے وقت کفوک((ا اعتب((ار کرن((ا ہ((و‬
‫گابصورت دیگر اولیاء کو فسخ نک((اح ک((ا ح((ق حاص((ل ہ((و گ((ا اور یہ چ((یز ب((ذریعہ‬
‫عدالت ہو گی۔‬
‫محمڈن الء سیکشن‪259‬کی تشریح میں‪  ‬ہے‪:‬‬
‫‪A boy or a girl who has attained puberty, is at liberty to marry‬‬
‫‪anyone he or she, likes, and the guardian has no right to interfere‬‬
‫)]‪if the match be equal.([18‬‬
‫ایک بالغ لڑکا یا لڑکی اس ب((ات کے مج((از ہیں کہ وہ جس کے س((اتھ چ((اہیں نک((اح‬
‫کر لیں اگرنکاح (کفو)میں‪  ‬کیا گیا ہے تو ولی کو اس میں‪  ‬دخل دینے کا ح((ق نہیں‬
‫ہے۔‬
‫اگر نابالغ لڑکی یا ل(ڑکے ک(ا نک(اح ب(اپ دادا کے سواکس(ی نے ک(ر دی(ا ہے ت(و ان‬
‫دونوں کو بعد البلوغ خیار ہوگا‪:‬‬
‫فإن كان غیر األب والج((د من األولی((اء ك((األخ والعم ال یل((زم النك((اح ح((تی یثبت لهم((ا‬
‫)‬
‫الخیار بعد البلوغ وهذا قول أبی حنیفة ومحمد۔([‪]19‬‬
‫’’ اگر نکاح کرانے میں ولی باپ دادا کے عالوہ مثال بھائی ی((ا چچ((ا ہ((و ت((و نک((اح‬
‫برقرار رکھنا الزم نہیں اور بلوغ کے بعد انہیں خیار بلوغ ہوگا۔ یہ امام اب((و ح((نیفہ‬
‫اور امام محمد کا قول ہے۔ ‘‘‬
‫مذکورہ عبارتوں سے معلوم ہوا کہ ما سوا باپ و دادا کے کرائے ہوئے نک((اح پ((ر‬
‫بعد البلوغ خیارحاصل ہوگا‪ ،‬لیکن فقہاء کی نصوص کاجائزہ لینے کے بع((د معل((وم‬
‫ہوتا ہے کہ ان دونوں کے نکاح پر بھی چند شرطوں کے ساتھ خیار حاصل ہوگا۔‬
‫‪١‬۔ باپ و دادا عقد سے پہلے س((وء االختی((ار میں مع((روف ہ((وں۔ ‪٢‬۔ ان دون((وں میں‬
‫سکر ہو اور ان کے جنون کا فیصلہ بھی ہو چکا ہ(و۔ ‪٣‬۔ اس کے ش(ادی ک(ر دی(نے‬
‫)‬
‫کی وجہ سے جو بغیر مہر مثل کے یا کسی فاسق سے یا غیر کفو میں ہو۔([‪]20‬‬
‫"فمجرد أن تری الص‪2‬غریة ال‪2‬دم تش‪2‬هد أهنا فس‪2‬خت الق‪2‬د واخت‪2‬ارت نفس‪2‬ها مث یف‪2‬رق القاض‪2‬ی بینهما‪[(".‬‬
‫)‬
‫‪]21‬‬
‫’’بالغ ہوتے ہی وہ عقد نکاح کو فسخ ک(ر دے گی اور اپ(نے آپ ک(و مخت(ار بن(الے‬
‫گی‪ ،‬پھر قاضی باہم تفریق کر دے گا۔ ‘‘‬
‫خاموش رہنے سے اختیار ختم ہو جائے گا ۔فتاوی عالمگیری میں ہے‪:‬‬
‫)‬
‫"حتی لو سكتت كما بلغت وهی بكر بطل خیارها۔"([‪]22‬‬
‫’’ اگر وہ حد بل((وغ ک((و پہنچ((تے ہی خ((اموش رہی اور وہ کن((واری تھی ت((و اس ک((ا‬
‫خیار باطل ہو جائے گا۔ ‘‘‬
‫حق خیار بلوغ‬
‫نابالغہ کا نکاح اگر باپ دادا نے کیا ہے تو فس((خ نہیں ہوس((کتا لیکن ای((ک ص((ورت‬
‫ہے جس میں فس((خ نک((اح ک((ا دع( ٰ‬
‫(وی قاب((ل س((ماعت ہوگ((ا‪ ،‬اور وہ یہ ہے کہ ب((اپ‬
‫معروف بسوء االختیار ہو‪ ،‬باپ زیر والیت ل((ڑکی کے مص((الح کے خالف مش((ہور‬
‫و معروف ہو‪ ،‬عالمہ ش((امی ؒنے فتح الق((دیر کی ای((ک بحث کے ذی((ل میں مع((روف‬
‫بسوء االختیار کی تشریح یوں کی ہے کہ‬
‫"واحلاص‪22‬ل أن املانع ه‪22‬و ك‪22‬ون األب مش‪22‬هورا بس‪22‬وء االختی‪22‬ار قب‪22‬ل العق‪22‬د ف‪2‬إذا مل یكن مش‪22‬هورا ب‪22‬ذلك مث‬
‫زوج بنت ‪22‬ه من فاس‪22‬ق ص ‪22‬ح وإن حتق ‪22‬ق ب‪22‬ذلك أن ‪22‬ه س‪22‬ىء االختی ‪22‬ار واش‪22‬تهر ب ‪22‬ه عن‪22‬د الن‪22‬اس فل ‪22‬و زوج بنت ‪22‬ا‬
‫أخ ‪22‬ری من فاس ‪22‬ق مل یص ‪22‬ح الث ‪22‬انی ألن ‪22‬ه ك ‪22‬ان مش ‪22‬هورا بس ‪22‬وء االختی ‪22‬ار قبل ‪22‬ه خبالف العق ‪22‬د األول لع ‪22‬دم‬
‫)‬
‫وجود املانع قبله۔"([‪]23‬‬
‫’’ باپ سى ء االختیار اس صورت میں کہا ج((ائے گ((ا جبکہ اس س((ے قب((ل اس نے‬
‫ایسی حرکت کی ہو کہ ایک لڑکی ک((ا نک((اح قص((داً اس کے مص((الح اور مف((اد کے‬
‫خالف کرچک((ا ہ((و ت((و یہ عق((د ص((حیح اور ناف((ذ ہوگی((ا کی((ونکہ اس وقت وہ س((ىء‬
‫االختیار میں متعارف نہ تھا۔ اگر دوسری کا اس((ی ط((رح ک((ردے گ((ا ت((و اب س((ى ء‬
‫االختیار میں شہرت کی وجہ سے دوسرا نکاح صحیح نہ ہوگا۔‬
‫در مختار میں ہے‪:‬‬
‫"إن ك‪22‬ان ال‪22‬وىل املزوج بنفس‪22‬ه أب‪22‬ا أو ج‪22‬دا مل یع‪22‬رف منهم‪22‬ا س‪22‬وء االختی‪22‬ار جمان‪22‬ة وفس‪22‬قا وإن ع‪22‬رف ال‬
‫)‬
‫یصح النكاح اتفاقا۔"([‪]24‬‬
‫اگر بذات خود شادی کرانے واال ولی باپ ی((ا دادا ہ((و جن ک((ا ال اب((الی پن اور فس((ق‬
‫میں سوء االختیار ہونا مشہور نہ ہو اور اگر مشہور ہو تو باالتفاق نکاح صحیح نہ‬
‫ہوگا۔‬
‫"‬
‫مل یعرف بسوء االختیار"‬
‫ك(ا واض(ح مطلب‪  ‬یہ‪  ‬ہے کہ یہ ب(ات درجہ یقین ك(و پہنچ ج(ائے‪  ‬کہ اس نے اپ(نی‬
‫خود غرضی‪ ،‬كسی دباؤ اور طمع زر سے ل((ڑكی كے مص((الح اور مف((اد ك((و نظ((ر‬
‫انداز كردیا ہے تو ایسا نكاح نافذ اور صحیح نہ ہوگا۔‬
‫"وقی‪22‬ده الش‪22‬ارحون وغ‪22‬ریهم ب‪22‬أن ال یك‪22‬ون معروف‪22‬ا بس‪22‬وء االختی‪22‬ار ح‪22‬تی ل‪22‬و ك‪22‬ان معروف‪22‬ا ب‪22‬ذلك جمان‪22‬ة‬
‫)‬
‫وفسقا فالعقد باطل علی الصحیح۔"([‪]25‬‬
‫’’ ائمہ نے سوء االختیار کی قید اس لئے لگ((ائی کہ وہ مع((روف ہ((و ت((و ص((حیح یہ‬
‫ہے کہ وہ نکاح باطل ہے۔ ‘‘‬
‫پس اگر ولی نے لڑکی کے مصالح و مفادات کا لحاظ کئے بغیر نکاح ک((ر دی((ا اور‬
‫قاضی کے نزدیک لڑکی نے اپ((نے مف((اد کے خالف ک((ئے گ((ئے نک((اح کے خالف‬
‫دعوی کو ثابت کر دیا اور فسخ نک(اح ک(ا مط(البہ کی(ا ت(و قاض(ی ش(ریعت ک(و ح(ق‬
‫حاصل ہے کہ اس نکاح کو فسخ کرے‪ ،‬کیونکہ نکاح کے الزم ہونے کے ل((ئے یہ‬
‫بھی شرط ہے کہ ولی سوء اختیار میں معروف نہ ہو اور نہ ہی ال پرواہی و فس((ق‬
‫)‬
‫میں نکاح سے قبل معروف ہو۔([‪]26‬‬
‫اگر ولی نے لڑکی کا نکاح کرنے کے وقت لڑکی کے مصالح و مفادات ک((ا لح((اظ‬
‫نہیں کیا تو اس کی چند صورتیں ہو سکتی ہیں‪: ‬‬
‫اول یہ کہ اس وقت ولی ہ((وش و ح((واس کی ح((الت میں نہ ہ((و اور نک((اح اس نے‬
‫کسی ایسے شخص سے کر دیا ج((و فاس((ق‪ ،‬ش((ریر‪ ،‬ل((ڑکی کے خان((دان کے مق((ابلہ‬
‫میں بہت غریب یا پیشہ کے اعتبا ر سے کم ت(ر پیش((ہ واال ہ((و ت(و یہ نک(اح درس(ت‬
‫)‬
‫نہیں۔([‪]27‬‬
‫دوسری ص((ورت یہ ہے کہ وہ اپ((نی س((فاہت و بے وق((وفی اور ح((رص و طم((ع کی‬
‫وجہ سے اختیارات کے غلط استعمال میں مصروف ہے تو باال تفاق اس کا کیا ہوا‬
‫نکاح درست نہیں۔ عالمہ‪  ‬شامی نے شرح مجمع کے حوالہ سے نقل کیا ہے‪:‬‬
‫)‬
‫" لو عرف من األب سوء االختیار لسفهه أو لطمعه ال جیوز عقده اتفاقا۔"([‪]28‬‬
‫’’تیس(((ری ص(((ورت یہ ہے کہ وہ فس(((ق و فج(((ور اور ال پ(((رواہی کی وجہ س(((ے‬
‫اختیارات کے غلط استعمال میں معروف ہو تو ایسے باپ اور دادا کا کیا ہوا نکاح‬
‫بھی منعقد نہیں ہوگا۔ ‘‘‬
‫)‬
‫"حتی لو كان معروفاً بذلك جمانة أو فسقا فالعقد باطل علی الصحیح۔"([‪]29‬‬
‫لیکن سوال یہ ہے کہ‪ ’’  ‬معروف بسوء االخیار‪‘‘  ‬سے کی((ا م((راد ہے؟ ع((ام ط((ور‬
‫پر فقہاء کا رجحان یہ ہے کہ اگر باپ نے پہلے کسی ل((ڑکی کے نک((اح میں اپ((نے‬
‫اختیارات کا غلط استعمال کیا ہو تب ہی اس دوسری لڑکی کا نکاح نا درست ہوگا‪،‬‬
‫)‬
‫اور اگر ایسا نہ ہو تو یہ نکاح الزم ہوگا۔([‪]30‬‬
‫لیکن بظ((اہر مع((روف بس((وء االختی((ار ق((رار پ((انے کے ل((ئے خ((اص نک((اح ہی کے‬
‫معاملہ میں نا تجربہ کاری ک((ا ظہ((ور ض((روری ہ((و‪ ،‬یہ ب((ات س((مجھ میں نہیں آتی۔‬
‫بعض دفعہ دوسرے معامالت اور روز مرہ کے معموالت سے بھی یہ ب((ات عی((اں‬
‫ہو جاتی ہے کہ یہ شخص اپنے اختیارات کے صحیح استعمال کی صالحیت س((ے‬
‫محروم ہے یا قصداً اس کا ارتکاب کرتا ہے۔اس لئے اگر کس((ی ش((خص کی ایس((ی‬
‫ناتجربہ کاری کا ظہور ہوا ہو اور وہ کوئی ایسا نکاح کر دے جو مصلحت و مف((اد‬
‫کے خالف ہو تو اس نکاح کو درست نہیں ہوناچاہیے۔‬
‫چنانچہ امام کاسانی ؒ اور ابن نجیم نے ذک(ر کی(ا ہے کہ اگ(ر ناب(الغ ل(ڑکی ک(ا مہ(ر‪،‬‬
‫مہر مثل سے نمایاں طور پر زیادہ مقرر کر دے‪ ،‬یا نابالغ لڑکی کا مہر‪ ،‬مہر مث((ل‬
‫سے نمایاں طور پر کم خود باپ یا دادا نے مقرر کیا ہ((و ت((و ام((ام اب((و یوس((ف ؒ اور‬
‫امام محمد ؒ کے نزدیک نکاح منعقد نہیں ہوگا‪ ،‬کیونکہ والیت کا حق اس کی شفقت‬
‫و محبت کی وجہ س((ے اس ک((و دی((ا گی((ا ہے اور اس ک((ا یہ عم((ل ص((ریح ط((ور پ((ر‬
‫تقاضۂ شفقت کے خالف ہے۔‬
‫)‬
‫"ألن الوالیة مقیدة بشرط النظر فعند فواته یبطل العقد۔"([‪]31‬‬
‫’’کیونکہ والیت میں شفقت پیش نظر ہوتی ہے اور یہ ہی مفقود ہو تو س((رے س((ے‬
‫عقد ہی باطل ہوجائے گا۔ ‘‘‬
‫میرے خیال میں دور حاضر میں یہی نقطہ نظر زیادہ ق((رین ص((واب ہے‪ ،‬کی((ونکہ‬
‫جب کسی شخص کا سوء اختیار اس کے عمل ہی س((ے ظ(اہر ہ((و ت(و محض گم((ان‬
‫شفقت کو اس پر ترجیح نہیں دی جاسکتی۔ حص((کفی ؒ نے نش((ہ میں مبتال ب((اپ اور‬
‫دادا کے کئے ہوئے ناموزوں نکاح کے غیر معتبر ہونے پر یہی استدالل کیا ہے۔‬
‫)‬
‫"لظهور سوء اختیاره فال تعارضه شفقته املظنونة۔"([‪]32‬‬
‫اس لئے اگر قاضی محسوس ک((رے کہ ولی نے اس نک((اح میں ل((ڑکی کے مص((الح‬
‫اور مفادات کا کوئی لحاظ نہیں کیا ہے تو وہ اس نکاح کو فسخ کرسکتا ہے۔‬
‫اگر ولی نے لڑکی کا نکاح کرتے وقت خود لڑکی کے مصالح و مفادات ک((ا لح((اظ‬
‫نہیں کیا بلکہ کسی دباؤ ی(ا اپ((نے کس((ی مف(اد کی خ(اطر ن(ا مناس(ب جگہ ل(ڑکی کی‬
‫شادی کردی‪ ،‬ل(ڑکی اس نک(اح س(ے مطمئن اور راض(ی نہیں ہے‪ ،‬چن(انچہ قاض(ی‬
‫کے یہاں فسخ نکاح کا دعوی لے کر آتی ہے‪ ،‬بیانات اور گواہوں کے بع((د قاض((ی‬
‫یہ بات محسوس کرتا ہے کہ ولی نے اس نکاح میں ل((ڑکی کے مص((الح و مف((ادات‬
‫کا سرے سے لحاظ نہیں کیا ہے تو قاضی اس نکاح کو فسخ کرسکتا ہے۔‬
‫کیونکہ قاضی کا گواہوں اور بیانات سے اس بات پر مطمئن ہوجان((ا کہ نک((اح میں‬
‫لڑکی کے مصالح و مفادات بری طرح پامال کئے گئے ہیں۔ ولی کا سىء االختیار‬
‫ہونا متحقق وغیر مشتبہ ہوچکا ہے‪ ،‬اس لئے یہ نکاح باط((ل ہے‪ ،‬اس میں قض((ائے‬
‫قاضی کی ضرورت ہی نہیں ہے‪ ،‬لیکن اگر معاملہ قاضی تک آگیا ہے ت((و قاض((ی‬
‫اس نکاح کو ضابطے کے مطابق فسخ کرسکتا ہے۔‬
‫والیت اجبار نابالغ اور مجنون افراد پر ثابت ہے مگر بچوں کی شادی کی ممانعت‬
‫کے ایکٹ (‪))The Child Marriage Restraint Act‬میں‪  ‬اٹھارہ سال سے کم‬
‫عمر لڑکے اور سولہ سال سے کم عمر لڑکی کے نکاح ک((و ممن(وع ق(رار دی(ا گی(ا‬
‫)‬
‫ہے اور اس پر تعزیری سزا بھی مقرر کی گئی ہے۔‪]33[( ‬‬
‫بچوں کی شادی کی مم((انعت کے ایکٹ سیکشن‪6-4‬کے مط((ابق اٹھ((ارہ س((ال س((ے‬
‫زائد عمر کے آدمی کے بچی سے نک((اح ک((رنے‪ ،‬چائل((ڈ م((یرج (اىس((ی ش((ادی جس‬
‫میں فریقین معاہدہ میں‪  ‬سے کوئی ایک بچہ ہو) کا اہتمام کرنے والے ‪ ،‬وال((دین ی((ا‬
‫سرپرست کو ایک ماہ قید یا ایک ہزار روپے جرمانہ یا دونوں س((زائیں ہ((و س((کتی‬
‫)‬
‫ہیں جبکہ عورت کو قید کی سزا نہیں ہو سکتی۔([‪]34‬‬
‫سیکشن‪264‬کے مطابق باپ دادا کے عالوہ دیگر اولیاء کے نکاح کرنے پر خی((ار‬
‫بلوغ حاصل ہو گا۔‬
‫‪The minor has the option to repudiate the marriage on attaining‬‬
‫(‬
‫]‪ puberty. This is technically called the "option of puberty.([35‬‬
‫تو نابالغ کو بلوغت کے وقت فسخ نکاح کا اختیار حاص((ل ہ((و گ((ا۔ اس((ے اص((طالح‬
‫میں ’’خیار بلوغ‘‘ کہا جاتا ہے۔‬

‫خالصہ بحث‬
‫پاکستانی معاشرے میں جبری شادیوں کی اقسام اور اسباب و محرکات پر تفصیلی‬
‫دور جدید میں بھی عورتوں کے استحصال ک((ا‬ ‫بحث سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ ِ‬
‫سلسلہ مختلف ناموں سے جاری ہے۔ دین اور اس((الم ک((ا ن((ام ت((و لی((ا جات((ا ہے لیکن‬
‫عمل احکام اسالمی کے خالف کیا جا رہا ہے۔‬
‫اسالم میں خاص طو رپر بنیادی انسانی حقوق کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ والدین پر‬
‫ان کی اوالد کی طرف سے بہت سی ذمہ داریاں عائد ہیں جن میں ان کی پی((دائش‪،‬‬
‫تربیت‪ ،‬تعلیم اور ان کی شادی جیسا اہم معاملہ بھی شامل ہے جس میں والدین ک((و‬
‫اوالد کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے اور یہ حق اس((الم نے انہیں اوالد کے س((اتھ محبت‬
‫و شفقت کی وجہ سے دیا ہےتاکہ اپنی اوالد کے بہتر مستقبل کو س((امنے رکھ((تے‬
‫ہوئے ان کی زندگی کا فیصلہ کریں۔‬
‫اگ((رچہ اس((الم نے وال((دین پ((ر اوالد کے ض((من میں محبت و ش((فقت ک((و پیش نظ((ر‬
‫رکھتے ہوئے ان کی زندگی کے اہم ترین فیصلے میں انہیں حق والیت س((ونپا ہے‬
‫لیکن ان اسالمی احکامات کی آڑ میں اکثر والدین اپ((نی ذاتی ان((ا‪ ،‬خان((دانی روای((ات‬
‫اور بہت سے ذاتی و معاشرتی اور معاشی مقاصد کے حص((ول کیل((ئے اپ((نی اوالد‬
‫کو قربان کر دیتے ہیں۔ کچھ عالقوں میں خاندانی اور قبائلی جھگڑے اور دش((منی‬
‫کو ختم کرنے کے لیے بیٹوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ قتل ک((و مع((اف ک((رانے کے‬
‫لیے مقتول کے خاندان میں اپنی کم عمر بچیوں ک(و دی(نے ک(ا رواج پای(ا جات(ا ہے۔‬
‫ونی‪ ،‬سوارا‪ ،‬ڈنڈ میں دی جانے والی بچی((اں روپے پیس((ے کے نعم الب((دل کے ط((و‬
‫رپر دشمن قبیلے کو سونپ دی جاتی ہیں۔ کیا اسالم نے انسانی زندگی کا اس((تعمال‬
‫مال و دولت کے طور پر کرنے کا حکم دیا ہے۔ شریعت میں اس بات کی گنجائش‬
‫موجود نہیں کہ خون بہا کے طور پر گھر کی بہنوں بیٹیو ں کو دش((من ق((بیلے کے‬
‫حوالے کردیا جائے یا اپنی غلطیوں اور گناہوں کی تالفی کے طور پر بیٹیوں اور‬
‫بہن((وں ک((و قرب((ان کردی((ا ج((ائے۔ ج((انوروں کی ط((رح ان کی خری((د و ف((روخت کی‬
‫ج((ائے۔ ک((وئی م((ذہب بھی اس قس((م کی غ((یر انس((انی روای((ات پ((ر عم((ل ک((رنے کی‬
‫اجازت نہیں دیتا۔‬
‫اگر اسالم اولیاء کو اپنی کم عمر اوالد کا حق کفالت و کفایت بخش((ا ہے ت((و اس ک((ا‬
‫قطعا ً یہ مقصد نہیں کہ اس حق کو ذاتی اغراض و مقاص((د کے ل((یے اس((تعمال کی((ا‬
‫جائے اور اپنی محبت و شفقت کا مظاہرہ ان پر جبراً اپنے غیر فطری فیصلوں کو‬
‫مسلط کرتے ہوئے کیا جائے۔ کوئی مہ((ذب معاش((رہ ایس((ی روای((ات اور رس((وم ک((و‬
‫قبول نہیں کرتا۔ عورتوں کے حقوق کا مع(املہ آئین پاکس(تان ‪ ‬مىں بھی موج(ود ہے‬
‫لیکن پھ(((ر بھی ع(((ورت عالق(((ائی رس(((م و رواج کی بھینٹ چ(((ڑھ ج(((اتی ہے۔ اس‬
‫معاشرتی خرابی کی سب سے بڑی وجہ ارب((اب حک((ومت ہیں ج((و ج(ان ب((وجھ ک((ر‬
‫اس خرابی کو دور کرنا نہیں چ((اہتے۔ ع((وام کے ل((ئے اس((الم اور ق((انون کی ب((اتیں‬
‫کرنے والے خود رسوم و رواج کو پروان چڑھانے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ لہذا‬
‫ضرورت ہے کہ اہ((ل دانش اور ہم((دردی رکھ((نے والے ل((وگ آگے ب((ڑھیں اور ان‬
‫ظالمانہ رسوم کو ختم کرنے کی جدوجہد کاآغاز کریں۔‬
‫‪Reference‬‬
‫[‪Great Britain, (2007). Foreign and Commonwealth office,-]1‬‬
‫‪Human Rights, Annual Report, P:85‬‬
‫[‪ ]2‬۔ پاکستان میں آبادی اور گھرانوں کا ڈیمو گرافک ہیلتھ سروے‪2007،‬ء‬
‫[‪ ]3‬۔ خاور ممتاز‪ ،‬سہیل وڑائچ‪ ،‬شارق امام و دیگر‪ ،‬شرکت گاہ ویم((نز ریس((ورس‬
‫سنٹر‪ ،‬الہور‪ ،‬پاکستان‪2012‬ء‪ ،‬ص‪5 :‬‬
‫[‪ ]4‬۔ خال((د رحمن‪ ،‬ع((ورت ق((انون اور معاش((رہ‪ ،‬کن((ٹری رپ((ورٹ‪ ،‬ش((رکت گ((اہ‪،‬‬
‫‪1996‬ء‪ ،‬ص‪14 :‬‬
‫[‪Muslim Arbitration Tribunal (MAT), Report: Liberation for -]5‬‬
‫‪.Forced Marriages, Anjuman-e-Urdu Press P:7‬‬
‫[‪Muslim Arbitration Tribunal (MAT), Report, P:8 - ]6‬‬
‫[‪ ]7‬۔ عورت قانون اور معاشرہ‪ ،‬کنٹری رپورٹ‪ ،‬ص‪112 :‬‬
‫[‪ ]8‬۔ عورت قانون اور معاشرہ‪ ،‬کنٹری رپورٹ‪ ،‬ص‪320 :‬‬
‫[‪ ]9‬۔ عورت قانون اور معاشرہ‪ ،‬کنٹری رپورٹ‪ ،‬ص‪320 :‬‬
‫[‪ ]10‬۔ گلریز محمود‪ ،‬دور نب(وت میں ش(ادی بی(اہ کے رس(م و رواج اور پاکس(تانی‬
‫معاشرہ‪ ،‬ص‪239  :‬۔ ‪238‬‬
‫[‪ ]11‬۔ عورت قانون اور معاشرہ‪ ،‬کنٹری رپورٹ‪  ،‬ص‪77 :‬‬
‫[‪ ]12‬۔ گلریز محمود‪ ،‬پاکستانی معاشرہ اور شادی بیاہ‪  ،‬ص‪161 :‬‬
‫[‪ ]13‬۔ گلریز محمود‪ ،‬پاکستانی معاشرہ اور شادی بیاہ‪ ،‬ص‪206 : ‬‬
‫[‪ - ]14‬شیبانی‪ ،‬ابوعبدہللا محمد بن الحسن ‪ ،‬کتاب اآلثار‪ ،‬بیروت‪ ،‬لبن((ان‪ ،‬دارالکتب‬
‫العلمیہ‪1993  ‬ء‪ ،‬ص‪95 :‬‬
‫[‪ ]15‬۔ جصاص‪ ،‬ابوبکراحمد بن علی رازی حنفی‪ ،‬احکام القرآن‪ ،‬ب((یروت‪ ،‬لبن((ان‪،‬‬
‫ط احیاء التراث الغربی‪1405(  ،‬ھ) ص‪546 : ‬‬
‫[‪ ]16‬۔‪ ‬ابن العربی‪ ،‬ابوبکر محمد بن عبدہللا احکام القرآن‪ ،‬بیروت‪ ،‬لبنان‪ ،‬دارالکتب‬
‫العلمیہ‪۲۰۰۳( ،‬ء) ‪۲۲۱  ، ‬‬
‫[‪ ]17‬۔ ابن العربی‪ ،‬احکام القرآن‪ ،‬ص ‪۳۲۱‬‬
‫[‪Inamul Haque, Muhammadan Law, Lahore, Mansoor - ]18‬‬
‫‪Book House, p.347‬‬
‫[‪ ]19‬۔ کاسانی‪ ،‬عالؤ الدین ابو بکر بن مسعود بن أحمد‪ .،‬بدائع الص((نائع فی ت((رتیب‬
‫الشرائع‪ ،‬بیروت‪ ،‬لبنان‪ :‬دار الکتاب العربی‪١٩٨٢ ،‬ء‪  ،‬ج ‪ ،٢‬ص ‪٣١٥‬‬
‫[‪ - ]20‬جزی((ری‪ ،‬عب((د ال((رحمن بن محم((د ع((وض‪٢٠٠٣( ،‬ء)‪ .‬الفق((ه علی الم((ذاهب‬
‫االربعة‪ ،‬بیروت‪ ،‬لبنان‪ ،‬دار الکتب العلمىة‪ ،‬ج ‪ ،٤‬ص ‪٣٣‬‬
‫[‪ - ]21‬ايضا ً‬
‫ٰ‬
‫(الفتاوی الہندیہ)‪ ،‬بیروت‪ ،‬لبنان‪ :‬دار الفکر ‪،‬‬ ‫[‪ - ]22‬نظام الدین‪  ،‬فتاوی عالمگیری‬
‫‪1991‬ء‪  ،‬ج ‪ ،1‬ص‪286 :‬‬
‫[‪ - ]23‬ابن عاب((دین الش((امی‪ ،‬محم((د بن محم((د امین بن عم((ر بن عب((دالعزیز( عاب((دین‬
‫دمشقی‪ ،‬رد المحتار علی الدرالمختار‪ ،‬بیروت‪ ،‬لبنان‪ ،‬دار الفکر للطباعة والنش((ر ‪(،‬‬
‫‪٢٠٠٠‬ء) ‪ ‬ج ‪ ،٣‬ص‪٦٧‬‬
‫[‪ - ]24‬حص(((کفی‪ ،‬محم(((د بن علی بن محم(((د ال ِح ْ‬
‫ص(((نی المع(((روف بعالء ال(((دین‬
‫الحصکفی الحنفی‪ ،‬الدر المختار شرح تنویر األبصار وجامع البحار‪ ،‬بیروت‪ ،‬لبنان‪،‬‬
‫دار کتب العلمىة ‪٢٠٠٢( ،‬ء) ج ‪ ،٣‬ص ‪٦٦‬‬
‫[‪ - ]25‬ابن نجیم‪ ،‬الش(((یخ زین بن اب(((راهىم بن محم(((د بن محم(((د بن بک(((ر الحنفی(‬
‫‪٩٧٠‬ھ) ‪ ،‬البحر الرائق شرح کنز الدقائق۔ مصر‪ (:‬مطبوعة مطبع((ة علمى((ة‪١٣١١ ،‬ھ‪،‬‬
‫ج ‪ ،٣‬ص ‪١٤٤‬‬
‫[‪ ]26‬۔ حصکفی‪ ،‬الدر المختار‪ ،‬ج ‪ ،٣‬ص ‪٦٦‬‬
‫[‪ ]27‬۔ ابن عابدین شامی‪ ،‬رد المحتار علی الدر المختار‪ ،‬ج ‪ ،٣‬ص ‪٦٧‬‬
‫[‪  - ]28‬ابن نجيم ‪ ،‬البحر الرائق ج ‪ ،٣‬ص ‪١٤٤‬‬
‫[‪ - ]29‬ابن نجیم‪ ،‬البحر الرائق‪ ،‬ج ‪ ،٣‬ص‪١٤٤‬‬
‫[‪ ]30‬۔ حصکفی‪ ،‬الدر المحتار‪ ،‬ج ‪ ،٣‬ص ‪٦٧‬‬
‫[‪Inamul Haque, Muhammadan Law/474 - ]31‬‬
‫[‪Inamul Haque, Muhammadan Law / 474 - ]32‬‬
‫[‪ ]33‬۔ ‪Inamul Haque, Muhammadan Law / 351‬‬
‫[‪ ]34‬۔ ‪ibid‬‬
‫[‪ibid ]35‬‬

You might also like