You are on page 1of 1

‫شرعی نقطہ نظر سے نابالغ اوالد کی پرورش کا حق ان کی ماں کو حاصل ہے ۔نرینہ اوالد میں پرورش کا یہ حق سات سال تک ہوتا‬

‫ہے ‪،‬جبکہ بچیوں میں نو سال کی عمر ہونے تک حق حضانت ماں کو حاصل ہوتا ہےاس کے بعد یہ حق باپ کو منتقل ہوتاہے ۔‬

‫صورت مسؤلہ میں اگر واقعی سائل کے بیٹے کی عمر سات سال پوری ہو چکی ہو تو ایسی صورت میں شرعا ً اس بچے کی‬
‫پرورش کاحق والد کو حاصل ہے اور حسب ِ سوال چونکہ سائل کی بیٹی کی عمر ساڑھے تین سال ہے تونوسال کی عمر تک اس بچی‬
‫کا حق حضانت ماں کوحاصل ہوگاجبکہ نوسال کی عمر پوری ہونے کے بعد باپ کی طرف یہ حق منتقل ہوگا تاہم اگر ماں ناگفتہ بہ کردار‬
‫میں مبتال ہو نے کی وجہ سے اوالد کی تربیت نہ کرسکے اور یا میاں بیوی کے درمیان ازدواجی رشتہ ختم ہوجائے اور وہ دوسرا نکاح بچوں‬
‫کے غیر ذی رحم کے ساتھ کرے توایسی صورت میں ان بچوں کی پرورش کی حقدار نانی ہوگی اور اگر نانی نہ ہو تو بالترتیب دادی پھر‬
‫حقیقی بہن پھر خالہ اور پھر پھوپھی بچوں کی تربیت کی زیادہ حقدار ہوگی ۔‬

‫أحق الناس بحضانة الصغير حال قيام النكاح أو بعد الفرقة األم۔(الفتاوى الهندية‪،‬كتاب الطالق‪،‬الباب السادس عشر في الحضانة‪،‬ج‪1‬ص‪)541‬‬

‫( والحاضنة ) أما أو غيرها ( أحق به ) أي بالغالم حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى ألنه الغالب۔۔۔ ( واألم والجدة ) ألم أو ألب (‬
‫أحق بها ) بالصغيرة ( حتى تحيض ) ( وغيرهما أحق بها حتى تشتهي ) أي تبلغ في ظاهر الروايةوقدر بتسع وبه يفتى۔۔۔ ( وعن محمد أن‬
‫الحكم في األم والجدة كذلك ) وبه يفتى لكثرة الفساد۔‬

‫وقال ابن عابدين‪ :‬قوله ( وبه يفتى ) قال في البحر بعد نقل تصحيحه ولحاصل أن الفتوى على خالف ظاهر الرواية ۔(رد المحتارمع الدر‬
‫المختار‪،‬كتاب الطالق‪،‬باب الحضانةج‪3‬ص‪)566‬‬

‫( تثبت لألم ) النسبية ( ولو ) كتابية أو مجوسية أو ( بعد الفرقة إال أن تكون مرتدة أو فاجرة ) فجورا يضيع الولد به كزنا وغناء وسرقة ونياحة‬
‫كما في البحر و النهر( أو غير مأمونة۔وقال ابن عابدين ‪:‬والحاصل أن الحاضنة إن كانت فاسقة فسقا يلزم منه ضياع الولد عندها سقط حقها‬
‫وإال فهي أحق به إلى أن يعقل فينزع منها كالكتابية۔(رد المحتارمع الدر المختار‪[،‬كتاب الطالق‪،‬باب الحضانة‪،‬مطلب شروط الحاضنة‪،‬ج‪5‬ص‬
‫‪)254‬‬

You might also like