Professional Documents
Culture Documents
الاعتراضات الجديدة
الاعتراضات الجديدة
اکثر یہ سوال جدید طبقے کی جانب سے اٹھایا جاتا ہے کہ مردوں کیلئے تو جنت میں حوریں ہونگی خواتین کیلئے کیا معاملہ
ہوگا گزشتہ دنوں جب ہمارے ایک صوفی مزاج اسالم پسند دوست کی جانب سے یہ سوال آیا تو خادم نے لکھنے کی ٹھانی وہ
قارئین کہ جو اس موضوع میں دلچسپی رکھتے ہیں انکی معلومات کیلئے چند سطور پیش خدمت ہیں ..
پہلے تو وہ بنیادی سوال کہ جو اٹھایا گیا ہے ;
" میں نے محض ایک واقعہ بتالیا تھا کہ ایک خاتون نے مجھے بتالیا ہے کہ جنت میں جس طرح مردوں کو حوریں ملیں گی
ویسے ہی خواتین کو غلمان ملیں گے۔ میں نے اسے محض ایک مذاق کے طور پر پیش کیا تھا مگر دوستوں نے اتنی سنجیدہ
باتیں کیں کہ میں نے اسی خاتون سے دوبارہ رابطہ کیا کہ یہ معامالت ہیں ،خاتون نے بڑی تفصیل اور مدلل طریقے سے
سمجھایا کہ جب نزول قرن ہو رہا تھا تو مردوں کی باالدستی کا دور تھا اس لئے خواتین کے بارے بہت سی باتیں اشاروں اور
کنایوں میں ہیں چند باتیں پہلے سمجھ لیں ہللا تعالی کسی صنف کے حق میں جانبدار نہیں ،جنت میں صنف کی بنیاد پر تفریق
نہیں ہوگی غلمان کا ذکر حوروں کی طرح قرآن مجید میں موجود ہے اس زمانے کے مزاج کی وجہ سے اس کی ایسی تشریح
ممکن نہیں تھی اگر شوہر کو بیوی کے عالوہ حوریں ملیں گی تو خواتین کو بھی اسی درجے پر سلوک ملے گا ان کو بھی
شوہر کے عالوہ غلمان ملیں گے اگر کوئی خاتون اپنے زمینی شوہر کو نہیں لینا چاہے گی تو چاہے شوہر جنت میں ہی ہو
اسے اپنے کو اپنانے کی کوئی مجبوری نہیں ہوگی جنت میں جب زمینی نقائص اور اس طرح جنسی طلب نہیں ہوگی تو پھر
کیا مسئلہ ہے مردوں اور عورتوں کو ایک طرح انعام نہ دیئے جائیں غیرت اور شرم اور اس طرح کے مسائل اس زمین کا
خاصا ہے وہاں ہر انسان مکمل انسان اور خود مختار ہوگا عورتوں اور مردوں میں باال دستی کا تصور اس دنیا میں ہے وہاں
مکمل مساوات ہوگی ".
عربی زبان میں اسم حورا کی جمع حور ہے۔ اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اصل معنی اور اصل صورت میں ہی بطور اسم
مستعمل ہے۔
گوری چٹی عورتیں جن کی آنکھوں کی پتلیاں اور بال بہت سیاہ ہوں ،بہشتی عورتیں( ،اردو میں بطور واحد مستعمل) بہشتی
عورت۔
تنہا لفظ ?حور? کے معنی ہالکت ،گمراہی اور کمی کے بھی ہیں ،ان معانی کے اعتبار سے یہ اچھا نام نہیں ،لیکن ح ُْو ٌر یہ
َح ْو َراء کی جمع بھی ہے ،اور َح ْوراء کے معنی لغت میں گوری عورت کے ہیں.
غلمان۔ غالم کی جمع ہے۔ ( )boysالغالم اس لڑکے کو کہتے ہیں جس کی مسیں بھیگ چکی ہوں۔ لڑکا جو بھرپور جوانی میں
ہو۔
انوار البیان فی حل لغات القرآن جلد 4صفحہ، 28علی محمد ،سورۃ الطور،آیت،24مکتبہ سید احمد شہید الہور
مترادف ؛ ’’ ولدان‘‘
’’ ولدان‘‘ ’’ ولید‘‘ کی جمع ہے‘ بچے ،جنت کے غلمان جو نہ کبھی مریں گے ،نہ بوڑھے ہوں گے ،نہ ان میں کوئی تغیّر آئے
گا ،نہ خدمت سے اکتائیں گے ،ان کے حسن کا یہ عالم ہوگا کہ جس طرح فرش مص ٰ ّفی پر گوہر آبدار غلطاں ہو اس حسن و
صفا کے ساتھ ج ّنتی غلمان مشغول خدمت ہوں گے۔
ابومالك كہتےہیں كہ نبیﷺسےمشركین(فوت ہوجانے والے نابالغ) بچوں كےبارے میں سوال كیا گیآ،اپﷺنےفرمایا :وہ
جنتیوں /اہل جنت كے خادم ہوں گے۔
عن أنس عن النبي صلى هللا عليه وسلم :سألت ربي االهين من ذرية البشر أن ال يعذبهم فاعطانيهم فهم خدم أهل الجنة .
.١اگر یہ بات تسلیم کر لی جائے کہ وہ مردانہ باالدستی واال معاشرہ تھا اور اس سے خوف زدہ ہوکر احکامات کا ذکر مزکر
کے صیغوں کے ساتھ کیا گیا تو وہ مشرکانہ باالدستی واال معاشرہ بھی تھا تو پھر کھلی توحید کی تعلیم تو حکمت کے صریح
خالف ہوئی یہاں تک کہ جان کے اللے پڑے قتل کی سازشیں ہوئیں جنگیں لڑنا پڑیں احکامات اسالمی میں اگر مداہنت کی
گنجائش ہوتی تو پھر دین بازیچئہ اطفال بن کر رہ جاتا قرآن قیامت تک رہنے والی کتاب ہے اس میں ابہام کی کوئی گنجائش
نہیں .
.٢دوسری جانب فطرت انسانی اپنی اصل میں تبدیل نہ ہوگی جیسے یہاں ایک مرد کو چار عورتوں اور لونڈیوں کی اجازت
ہے عورت کو نہیں تو پھر یہاں یہ آزادی سلب کرنے کا مقصود..؟
حوروں کو لونڈیوں پر قیاس کیا جا سکتا ہے اگر اس دنیا میں ایک مرد عورت کی جنسی ضرورت کیلئے کافی ہے تو اس دنیا
میں کیوں نہیں کیا کسی بھی آزاد معاشرے میں ایسی کوئی مثال ہے کہ عورتوں نے بیک وقت متعد شوہر رکھے ہوں مزید
تفصیل میں جائیے جنت میں انبیاء بھی ہونگے اصول یہ ہے کہ نبی کی بیوی دوسرے مردوں پر حرام ہوتی ہے کیا کوئی یہ
تصور بھی کر سکتا ہے کہ ان پاکیزہ خواتین کو انبیاء کے عالوہ کسی اور مرد کی حاجت ہوگی .
.٣احادیث مبارکہ میں تو غلمان کے حوالے سے کوئی ابہام نہیں ایک حدیث میں آتا ہے کہ یہ وہ معصوم بچے ہونگے کہ
جو غیر مسلم گھرانوں میں پیدا ہوئے مگر بلوغت سے پہلے انتقال کر گئے زیادہ تر ایسے اشکاالت قول رسول صل ہللا کو
حجت شرعی نہ ماننے والوں کے ہاں پیدا ہوتے ہیں دراصل مسلہ دین اسالم پر مطمئن نہ ہونے کا ہے یہی خبط تھا کہ جس
نے سرسید احمد خان سے معجزات تک کا انکار کروا دیا کہ موصوف نیچریت کی طرف مائل تھے .
.٤پہلے تو بنیادی مقدمے کو ہی صاف کرلیجئے کیا جنت میں سب کچھ کی اجازت ہوگی مجھے نہیں معلوم کہ یہ تصور کہاں
سے درآیا اس پر مزید بات کرتے ہیں ..مگر کیا آپ یہ بھی کہینگے کہ جنت میں مکمل جنسی آزادی ہوگی اگر اس بات کو
تسلیم کرلیں تو کیا وہاں ہم جنس پرستی کی آزادی بھی ہوگی ...؟
اگر بنیاد کسی کی عقل ہی ہو تو کیا ایک وہ عمل کہ جسکی وجہ سے قوم لوط علیہ السالم عذاب کا شکار ہوکر معدوم ہو گئی
تو کیا وہ جنت میں جائز ہوگا ...؟
.٥اگر یہ اشکال اٹھایا جاوے کہ ہ شراب جس کی دنیا میں ممانعت ہے ,وہ جنت میں اس لیے حرام تو نہ ہوئی کہ دنیا میں
حرام ٹھیری ...؟
بالکل نہیں دنیا میں بھی علت ہے نشے کی وگرنہ نبیذ حالل تھی یہاں تک کہ اس میں نشہ نہ آ جاوے اسکی مثال بیر کی ہے
نشہ آور حرام اور غیر نشہ آور حالل جنت میں بھی یہی علت موجود ہوگی .
(باب :جو نبیذ تیز اور نشہ آور نہ ہو گئی ہو۔جائز ہے)
ب َقا َل ِإسْ َح ُق َأ ْخ َب َر َنا و َقا َل ظ َأِل ِبي َب ْك ٍر َوَأ ِبي ُك َر ْي ٍ ب َوِإسْ َح ُق بْنُ ِإب َْراهِي َم َواللَّ ْف ُ . 5228و َح َّد َث َنا َأبُو َب ْك ِر بْنُ َأ ِبي َش ْي َب َة َوَأبُو ُك َر ْي ٍ
َأْل
صلَّى هَّللا ُ َع َل ْي ِه َو َسلَّ َم ُي ْن َق ُع َل ُه َّ
الز ِبيبُ َف َي ْش َر ُب ُه ان َرسُو ُل هَّللا ِ َ َّاس َقا َل َك َ
ْن َعب ٍ ش َعنْ َأ ِبي ُع َم َر َعنْ اب ِ او َي َة َعنْ ا عْ َم ِ ان َح َّد َث َنا َأبُو م َُع ِ اآْل َخ َر ِ
الثالِ َث ِة ُث َّم َيْأ ُم ُر ِب ِه َفيُسْ َقى َأ ْو ُي َه َراقُ
ْال َي ْو َم َو ْال َغدَ َو َبعْ دَ ْال َغ ِد ِإ َلى َم َسا ِء َّ
ٰ
تعالی عنہ سے حکم :صحیح . 5228ابو معاویہ نے اعمش سے انھوں نے ابو عمر سے ،انھوں نے حضرت عباس رضی ہللا
روایت کی ،کہا :رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے لیے کشمش کو پانی میں ڈال دیا جا تا آپ اس نبیذ کو اس دن اور اس سے
اگلے دن اور اس کے بعد والے تیسرے دن کی شام تک نوش فرما تے ،پھر آپ حکم دیتے تو وہ دوسروں کو پال دی جا تی
تھی یا گرا دی جا تی تھی ۔
یہاں تین دن کی تصریح ہے کہ اسکے بعد وہ خمر بن جاتی ہوگی.
.٦میں آپکے سامنے مسند احمد کی ایک صحیح حدیث رکھتا ہوں
صلَّى هَّللا ُ َع َل ْي ِه َو َسلَّ َم ت َأ ْد ُخ ُل َب ْيتِي الَّذِي ُدف َِن فِي ِه َرسُو ُل ِ
هللا َ ت ُك ْن ُ َح َّد َث َنا َحمَّا ُد بْنُ ُأ َسا َم َة َ ،قا َل َ :أ ْخ َب َر َنا ِه َشا ٌم َ ،عنْ َأ ِبي ِه َ ،عنْ َعاِئ َش َة َقا َل ْ
ض ُع َث ْو ِبي َ ،وَأقُو ُل ِإ َّن َما ه َُو َز ْو ِجي َوَأ ِبي َ ،ف َلمَّا ُدف َِن ُع َم ُر َم َع ُه ْم َف َوهَّللا ِ َما دَ َخ ْل ُت ُه ِإالَّ َوَأ َنا َم ْش ُدودَ ةٌ َع َليَّ ِث َي ِابي َ ،ح َيا ًء مِنْ ُع َم َر.
َ ،وَأ ِبي َفَأ َ
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب امی عائشہ صدیقہ رض حضرت عمر فاروق رض کی قبر کی زیارت کو جاتیں تو پردہ کر لیا
کرتی تھیں اب مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ وہ خواتین کہ جو قبور کے حوالے سے اتنی حساس ہوں جنت میں کیسے حیاء
سے عاری ہوجائینگی.
رأيت قصرا بفنائه جارية فقلت :لمن هذا ؟ فقالوا :لعمر بن الخطاب فأردت أن أدخله فأنظر إليه فذكرت غيرتك " فقال عمر :بأبي
أنت وأمي يا رسول هللا أعليك أغار ؟ .متفق عليه
ٰ
تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا اور حضرت جابر رضی ہللا
(معراج کی رات میں ) جب میں جنت میں داخل ہوا تو اچانک دیکھا کہ میرے سامنے رمیصا زوجہ ابوطلحہ موجود ہیں ۔ پھر
میں نے قدموں کی چاپ سنی اور پوچھا کہ یہ کون شخص ہے (جس کے چلنے پھرنے کی آواز آرہی ہے) مجھے (جبرائیل یا
کسی اور فرشتہ نے یا دورغہ جنت نے ) بتایا کہ یہ بالل ہیں اس کے بعد (ایک جگہ پہنچ کر ) میں نے ایک عالیشان محل
دیکھا ،جس کے ایک گوشہ میں (یاصحن میں) ایک نوجوان عورت (یعنی حور جنت ) بیٹھی ہوئی تھی ،میں نے پوچھا !یہ
کس کا ہے ؟ (اور ہمہ انواع کی یہ نعمتیں جو اس محل میں اور اس محل کے اردگرد ہیں کس کے لئے ہیں ) مجھ کو جنتیوں
نے (یا اس محل پر متعین فرشتوں نے ) بتایا کہ یہ (محل اپنے تمام سازوسامان اور نعمتوں سمیت ) عمر ابن خطاب کا ہے (یہ
سن کر ) میں نے چاہا کہ محل میں جاؤں اور اس کو اندر سے بھی دیکھوں لیکن پھر ( اے عمر ) مجھے غیرت کا خیال آگیا
(کہ تمہارے محل کے اندر داخل ہونا تمہاری غیرت وحمیت کے منافی ہوگا اس لئے میں اندر جانے سے اجتناب کیا ) حضرت
عمر نے (یہ سنا تو ) عرض کیا :یا رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ،کیا میں نے آپ صلی ہللا
علیہ وسلم (کے داخل ہونے ) سے غیرت کروں گا ۔"
(بخاری ومسلم )
اوپر پیش کی گئی حدیث سے ایک بات کی تو صراحت ہوجاتی ہے کہ ہللا کے رسول صل ہللا علیہ وسلم کا عمل یہ بتالتا ہے
کہ جنت میں بھی چادر و چاردیواری کی اہمیت ہوگی میری آزادی کی حد وہاں ختم ہو جاوے گی کہ جہاں سے آپکی
چاردیواری شروع ہوگی.
.٧پھر ایک بات اور کہ اگر خواتین کو مکمل آزادی ہوئی تو وہ کون سی عورت ہوگی کہ جو بہترین لوگوں خاص کر انبیاء
کے عقد میں آنا پسند نہ کرے.
اب وہ لوگ کہ جو حدیث کو حجت تسلیم نہیں کرتے انکے لیے کچھ دالئل قرآن مجید فرقان حمید سے .
دالئل قرآنی؛
اوران کے پاس نگاہیں بچانے والی ،خوبصورت آنکھوں والی عورتیں ہوں گی ،ایسی نازک جیسے انڈے کے چھلکے کے
نیچے چھپی ہوئی ِجھلّی۔
یہاں َقاصِ َر ُ
ات کا لفظ استعمال کیا ہے یعنی چھپنے والی یا چھپانے والی آگے عِ ينٌ سے صراحت کر دی یعنی وہ عورتیں کہ
جو دوسروں کی نگاہوں سے خود کو چھپاتی ہوں
وت َو ْال َمرْ َجانُ {}58 الطرْ فِ َل ْم َي ْطم ِْثهُنَّ ِإنسٌ َق ْب َل ُه ْم َواَل َجانٌّ {َ }56ف ِبَأيِّ آاَل ء َر ِّب ُك َما ُت َك ِّذ َب ِ
ان {َ }57كَأ َّنهُنَّ ْال َياقُ ُ ات َّ
ِيهنَّ َقاصِ َر ُ
ف ِ
ان نعمتوں کے درمیان شرمیلی نگاہوں والیاں ہوں گی جنہیں ان جنتیوں سے پہلےکبھی کسی انسان یا جن نے نہ چھوا ہو گا۔ ا
پنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹالؤ گے؟ ایسی خوبصورت جیسے ہیرے اور موتی۔
یہاں َل ْم َي ْطم ِْثهُنَّ ِإنسٌ َق ْب َل ُه ْم َواَل َجانٌّ پر غور کیجئے صراحت ہے کہ انہیں کسی اور نے چھوا تک نہ ہوگا
ات فِي ْال ِخ َي ِام :خیموں میں ٹھیرائی ہوئی . پھر ایک اور جگہ فرمایا َّم ْقص َ
ُور ٌ
یہاں سے یہ معاملہ تو بالکل صاف ہو جاتا ہے کہ جنت میں بھی پردہ ،چادر اور چاردیواری کا معاملہ ہوگا .
اگر خواتین کے متعدد شوہر ہوۓ تو جوڑا کہاں باقی رہا پھر تو ایسا آزاد نظام ہونا چاہئیے کہ جہاں ہر کوئی کسی سے بھی
جنسی تعلق قائم رکھ سکتا ہو.
پھر جنت میں مردوں کی ایک سے زیادہ بیویاں ہونے کی قرآن کریم میں صراحت ہے
پہلے َيا عِ َبا ِد اے میرے بندوں سے تصریح کر دی پھر آگے کہا جا رہا ہے ن ُت ْم َوَأ ْز َوا ُج ُك ْم تم اور تمہاری بیویاں جہاں تک دالئل
اخذ کرتے جائیے صراحت ہوتی جاتی ہے.
اِئه ْم َوَأ ْز َوا ِج ِه ْم َو ُذرِّ يَّات ِِه ْم {}23 ات َع ْد ٍن َي ْد ُخلُو َن َها َو َمنْ َ
ص َل َح مِنْ آ َب ِ َج َّن ُ
یعنی ایسے باغ جو اُن کی ابدی قیامگاہ ہوں گے۔ وہ خود بھی ان میں داخل ہوں گے اور اُن کے آباؤ اجداد اور اُن کی بیویوں
اور اُن کی اوالد میں سے جو جو صالح ہیں وہ بھی اُن کے ساتھ وہاں جائیں گے۔
اِئه ْم َوَأ ْز َوا ِج ِه ْم َو ُذرِّ يَّات ِِه ْم یہاں تصریح ہے انکے باپ دادا انکے شوہر یا بیویاں اور انکی اوالد ساتھ ہونگی .
مِنْ آ َب ِ
اب ہر غور کرنے والے پر یہ بات واضح ہوگی کہ اس خاندانی نظام میں کیا کوئی
گنجائش خواتین کے متعدد شوہر ہونے کی نکل سکتی ہے .
اسی موضوع کی شرح میں مزید ایک حدیث پیش کرکے اپنی بات مکمل کرتا ہوں
زید بن ارقم رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ رسول ہللا ﷺکے پاس یہودی آئے اور پوچھا "اے ابا القاسم آپ کا یہ گمان
ہے کہ جنت میں لوگ کھائیں پیئیں گے اور ان کی بیویاں ہوں گی ؟ " تو رسول ہللا ﷺ نے ارشاد فرمایا
"نعم والذي نفس محمد بيده إن أحدهم ليعطى قوة مائة رجل في األكل والشرب والجماع "
ہاں اس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے جنتی مردوں میں سے ہر ایک کو کھانے پینے اور ہم بستری کرنے میں
ایک سو آدمیوں کے برابر قوت دی جائے گی۔
یہودی نے کہا "جو کھاتا پیتا ہے اسے (پیشاب پاخانے کی) حاجت ہوتی ہے اور جنت میں تو کوئی تکلیف (دہ معاملہ ) نہیں
ہے "
"تكون حاجة أحدهم رشحا يفيض من جلودهم كرشح المسك فيضمر بطنه"
جنتی کی حاجت اس کی جلد سے بہنے واال مسک جیسا(خوشبودار) پسینہ ہو گا (جب وہ پسینہ نکلے گا ) تو اس کا پیٹ فارغ
ہو جائے گا
المعجم الکبیر ،المعجم االوسط ،صحیح ابن حبان ،حدیث ،مسند احمد ،امام الھیثمی
َو َل ۡو اَل ۤ ا ِۡذ َسم ِۡع ُتم ُۡوہُ قُ ۡل ُتمۡ مَّا َیک ُۡونُ َل َن ۤا اَ ۡن َّن َتکَلَّ َم ِب ٰہ َذا ٭ۖ س ُۡب ٰح َنکَ ٰہ َذا ب ُۡہ َتانٌ َعظِ ۡی ٌم ﴿﴾۱۶
تم نے ایسی بات کو سنتے ہی کیوں نہ کہہ دیا کہ ہمیں ایسی بات منہ سے نکالنی بھی الئق نہیں ۔ یا ہللا ! تو پاک ہے ،یہ تو
بہت بڑا بہتان ہے اور تہمت ہے ۔
اس پوری بحث سے ایک بات کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ ایسے تمام سواالت کہ جنکا سلف میں کوئی تذکرہ نہیں ملتا
ٰ
تعالی ہمیں دین کا قرآن کریم و سنت رسول صل هللا علیہ وسلم کا دراصل امت کی سیدھی راہ سے ہٹانے دینے والے ہیں هللا
درست فہم عطا فرماویں آمین.
.1ملحدوں سے مکالمہ کرتے ہوئےآپ کو اپنی اور ملحدکی سٹینڈنگ پوزیشن بالکل واضح ہونی چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے
کہ آپ کے پاس ضروری علم ہونا الزم ہے ،اگرآپ اپنے اور ملحدین کے افکار و نظریات اور ان کے دالئل سے پوری طرح
آگاہ نہیں تو پھر میرا نہیں خیال کہ آپ کو ایسی کسی بحث میں شریک ہونا چاہیے۔
.2ضروری علم سے مراد یہ ہے کہ اوالً تو آپ کو اپنے دین اسالم کے اہم علوم مثالً اصول تفسیر ،اصول حدیث ،اصول فقہ،
تاریخ ،عربی زبان و ادب کی مبادیات و اہم معلومات پر کافی حد تک عبور حاصل ہونا چاہیے۔
.3اور دوم یہ کہ آپ کو ملحدین ،ان کے افکار ونظریات ،ان کے مختلف گروہوں اور ان کی تاریخ کا علم ہونا ضروری ہے۔
.4الزم ہے کہ آپ کو ہیومن ازم ،سیکولرازم ،لبرل ازم ،کیپٹل ازم ،سوشل ازم اورتاریخ فلسفہ مغرب کے ساتھ ساتھ دنیا بھر
میں ان نظریات سے متاثرہ ممالک کے بارے میں تقریبا تمام اہم معلومات حاصل ہو۔
.5فلسفے کے عالوہ علم الکالم اور مسلمان متکلمین اور فالسفہ کے افکار سے آگاہی بھی ضروری ہے۔
.6ضروری ہے کہ آپ کے پاس سائنس اور فلسفہ سائنس کا علم بھی ہو۔ خصوصا تمام مشہور سائنٹیفک تھیوریز مثالً ِبگ
بینگ تھیوری اور نظریہ ارتقاء کے اچھا خاصا علم ہو۔
.7ان علوم کے بعد آپ کو اسالم اور الحاد کا مزاج شناس بھی ہونا چاہیے تاکہ آپ معامالت کو سمجھنے میں مشکالت کا
شکار نہ ہوں۔
.8منطق کی مبادیات کا علم اور اطالق کا آنا بھی الزم ہے تاکہ آپ ملحدوں کے منطقی مغالطوں کے تار و پود بکھیر سکیں۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ بیشتر اوقات ملحدین کے اعتراضات منطقی مغالطوں پر مشتمل ہوتے ہیں جنہیں عام آدمی
سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے۔
.9ان تمام علوم کے بعد آپ جب بھی ملحدوں سے مکالمہ شروع کریں تو بالجھجھک سب سے پہلے ملحد سے اس کے
نظریات کے بارے میں سوال کریں اور ایک اچھے ماحول میں گفتگو آگے بڑھائیں۔
.12اگر بحث کے دوران کسی نکتے پر آپ کے پاس علم نہ ہو تو بحث بالجھجک کسی اہل علم کو اپنے وکیل کے طور پر
پیش کریں ،ضروری نہیں ہوتا کہ آپ ہر اس سوال کا جواب دینے کی کوشش بھی کریں جو آپ کو معلوم نہ ہو۔ اس کا فائدہ تو
شائد کچھ نہ ہو مگر اس کے نقصانات متعدد ہیں۔
.13اور اگر آپ یہ محسوس کریں کہ ملحد دوران بحث فرار چاہ رہا ہے یا اس سے جواب نہیں بن رہا تو بجائے اس پر طنز و
تضحیک کرنے کے ،ایک اچھے داعی کی طرح اسے پیار سےسمجھائیں۔
.14آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ملحدین عام طور پر اسالم سے متعلق کم علمی اور مغالطوں کا شکار ہوتے ہیں ،نہ تو ان کے
پاس اسالم کا زیادہ علم ہوتا ہے نہ اسالم سے کوئی لگاؤ ،بلکہ انہیں تو بس برین واش کیا گیا ہوتا ہے ،طوطے کی طرح رٹی
رٹائی باتیں دہرانا ہی ان کا شیوہ ہے۔
.15ملحدین کے بیشتر اعتراضات وہ ہیں جو مستشرقین نے اسالم پر داغے ہیں ،ملحد کوئی نئے قسم کے اعتراضات نہیں
کرتے بلکہ انہی اعتراضات کو بار بار دہرا کر عوام الناس کو بہکانے کی کوشش کرتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ آپ کو
تحریک استشراق ،مستشرقین کے اعتراضات اور ان کے جوابات معلوم ہوں تاکہ آپ کو پہلے سے معلوم کہ ملحد فالں بات
کے بعد کیا بات کر ے گا اور تب اسے کیا جواب دیا جائے گا۔
.16اگر ہم ملحدین کے اعتراضات کی تقسیم کرنا چاہیں تو عقائد ،قرآنیات ،احادیث ،تفاسیر ،سیرۃ الرسول ﷺ ،سیر
الصحابہ ،ازواج مطہرات،عبادات ،مالیات ،تعلیمات ،سماجیات ،تاریخ ،اخالقیات اور زندگی کے تقریبا تمام شعبوں میں تقسیم
کر سکتے ہیں اور ہمیں اپنے علمائے کرام کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انہوں نے ان تمام اعتراضات کا جواب پہلے ہی دے
دیا ہے۔ ہمیں نئے جوابات پیدا کرنے کی بجائے اپنے علمائے کرام کے پیش کردہ جوابات کو ہی نئے اسلوب میں پیش کرنا
چاہیے۔ ہاں البتہ اگر کہیں نئے جوابات کی ضرورت پیش آئے تو علمائے کرام کے پیش کردہ جوابات کےنکات کے ضمن
میں ضرور پیش کرنے چاہئیں۔ ہمارا مقصد اسالم کو درست طور پر ریپریزینٹ اور انٹرپریٹ کرنا ہونا چاہیے اور یہ جبھی
ممکن ہے جب ایک مسلمان گزشتہ چودہ سو سال کے آئمہ کرام کے علوم پر اکتفاء کرے۔
.17ملحدوں کے ساتھ تقریبا ہر دوسری بحث میں جو بات میں نے دیکھی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے مسلمان بھائی اور ملحدین
دونوں ہی اسالم اور الحاد کے اصولی اختالف سے ناواقف ہوتے ہیں اور ایسے نکات پر بحث کر رہے ہوتے ہیں جن کی
حیثیت ثانوی ہوتی ہے۔
.18بحث ہمیشہ اصولی اختالف میں کرنی چاہیے اور اگر اصول اور اصولی اختالفات طے ہو پائیں تو پھر ضمنی اور ثانوی
اختالفات از خود رفع ہو جاتے ہیں۔
.19ذہن نشین رکھیں کہ اہل مذہب کا اہل الحاد کے ساتھ بنیادی اور اصولی اختالف محض چند باتوں میں ہے ،بقیہ اختالفات
انہیں کا شاخسانہ ہیں۔ وہ بنیادی اختالف مندرجہ ذیل سواالت میں ہیں:
(ب) ذرائع علم کتنے اور کون کون سے ہیں اور ان کی حدود کیا ہیں؟
(و) نظریات کے قابل قبول اور نامقبول ہونے کی بنیادی شرائط کا مآخذ کیا ہے؟
(ز) غرض ایسے چند ایک فلسفیانہ سواالت ہیں ،اگر ان کے جوابات پر اتفاق رائے ہو جائے تو اہل مذہب اور اہل الحاد کے
اختالف کا علمی حل نکل سکتا ہے ،اگر آپ مذکورہ ٰ
اولی علوم پر گرفت حاصل کر لیں تو ایسے مزیدفلسفیانہ سواالت اور ان
کے جوابات آپ ازخود سمجھ جائیں گے۔
تعالی ،نبوت و رسالت ،یوم آخرت ،غیر مادی نوری و ناری مخلوقات ،تقدیر وغیرہ جیسے موضوعات پر ٰ .20وجود باری
بحث صحیح صورت میں تب ہی آگے بڑھ سکتی ہے جب مذکورہ باال سواالت کی بنیاد پر بات آگے بڑھائی جائے ،بصورت
دیگر دونوں فریقین وقت برباد کرنے کے سوا کچھ نہیں کریں گے۔
الحاصل یہ کہ نہ تو اہل مذہب اور اہل الحاد کے درمیان جنگ کوئی نئی جنگ ہے اور نہ ملحدین کے اعتراضات نئے ہیں۔ یہ
تمام باتیں فلسفے اور کالم کی کتب میں پہلے سے موجود ہیں ،ضرورت بس اس امر کی ہے کہ ان کتب کا مطالعہ کیا جائے
تعالی سے ہدایت مانگ کر ان پر غور و فکر کیا جائے۔ ر ّد الحاد کے دوستوں سے خاص گزارش یہی ہے کہ اس ٰ اور ہللا
محاز پر کام کرنے کے لیے ہللا رب العزت کی مدد کا شامل حال ہونا الزمی ہے ،ہللا سے خاص لو لگا کر رکھیں تاکہ
تشکیک سے بچ سکیں اور اپنے ایمان کو مضبوط رکھیں۔ اہل ہللا کی محافل میں شریک ہونا معمول بنائیں اور دین کو اس کے
مزاج کے مطابق سمجھنے اور عمل پیرا ہونے کی کوشش میں لگے رہیں ،ان شاء ہللا ہللا پاک کی مدد شامل حال ہو گی۔
الجواب:
تعدد الزوجات شيء شرعه هللا لعباده مع القدرة ،وفيه مصالح كثيرة للزوجين للرجال والنساء جميعا:
منها :أن الرجل قد ال تعفه المرأة الواحدة ،قد يكون كثير الشهوة شديد الشهوة فال تعفه الواحدة وال تعفه االثنتان وال تعفه الثالث،
فجعل هللا له طريقا إلى إعفاف نفسه بالطريق الحالل ،من طريق أربع من النساء.
ومن ذلك أيضا :ما في التمتع باألربع من قضاء الوطر وطيب النفس والبعد عن الفواحش ،فإن هذا يعينه على غض بصره ،وبعده
عما حرم هللا .
ومن ذلك أيضا :إعفاف الناس؛ فإنه ليس كل امرأة تجد رجال وحده قد يكون الرجال أقل من النساء وال سيما عند الحروب ،والسيما
في آخر الزمان كما أخبر به النبي عليه الصالة والسالم ،فمن رحمة هللا أن يكون للرجل أربع حتى يعف أربعا وينفق على أربع ،ففي
هذا مصالح لجنس النساء أيضا ،فإن وجود ربع زوج خير لها من عدم زوج بالكلية ،يكون لها الربع أو الثلث أو النصف يكون خيرا
لها من العدم ،ففي ذلك إعفافها ،وفي ذلك أيضا اإلنفاق عليها وصيانتها والحياطة دونها.
ومن المصالح أيضا الكثيرة :األوالد ،وجود األوالد وكثرة النسل وتكثير األمة؛ ألن الرسول ﷺ قال :تزوجوا الودود الولود فإني
مكاثر بكم األمم يوم القيامة وفي لفظ األنبياء يوم القيامة فوجود النسل وكثرة األوالد في هذه األمة أمر مطلوب مقصود.
وفي ذلك أيضا من المصالح األخرى أن في تزوج اإلنسان من هنا ،ومن هنا ،ومن هنا ،وجود الترابط بين األسر والتعاون والتحاب
والتآلف؛ فيكثر الترابط بين المجتمع ،والتعاون بين اإلنسان مع أنسابه وأصهاره في الغالب يتعاون معهم ويكون بينهم صلة مودة
وترابط يعين على أمور الدين والدنيا جميعا.
وقد بينا إن هذا من الحكمة تزوج النبي ﷺ من عدة قبائل حتى يكون يقصد بذلك انتشار اإلسالم بينهم وتعاونهم مع المسلمين
اب َل ُك ْم م َِن ال ِّن َسا ِء َم ْث َنى
وتأليف قلوبهم على اإلسالم بسبب مصاهرته للنبي عليه الصالة والسالم ،وهللا جل وعال قالَ :فا ْن ِكحُوا َما َط َ
اع [النساء ]3:فهذا كله فيه مصالح للجميع ،مصالح للجنسين للرجال والنساء وتكثير األمة وعفة الفروج وغض األبصار ث َو ُر َب ََو ُثاَل َ
واإلعانة على اإلنفاق على النساء المحتاجات ،إلى النفقة والتقارب بين األسر ،والترابط بين األسر والتحاب بين الجميع ،فالمصالح
كثيرة كما سمعتم بعضها.
والواجب على النساء الصبر على الجارة والضرة ،يجب على المرأة التي تؤمن باهلل واليوم اآلخر أن تصبر وأن تعلم أن هذا حق
للزوج ،وأنه ال يجوز لها فعل ما ال ينبغي عند وجود زوجة ثانية -ما دام يعدل ويؤدي الحق -فعليها أن تصبر ،وال يجوز لها أن تنفر
أو تطالب بالطالق ،هذا ال يجوز لها ما دام الزوج قد أدى الحق الذي عليه ،قد قسم بعدل ،وأنفق بعدل ،فليس لها حق أن تنازع أو
تطالب بالفراق أو تؤذيه حتى يفارق ،ينبغي أن توجه وتعلم وترشد وتتزود بما ينبغي حتى تكون على بصيرة بشرع هللا في هذا
األمر.
اب دوٹکے کے مغربی غالظت ذدہ فارمی لبرل اور ملحدین ہمیں یہ کہہ کر طعنہ دیتے ہیں کہ اسالم ()Stick and carrot
سے لوگوں کو غالم بناتا ہے۔
#ڈنڈا
انسانیت آٹے کے ایک تھیلے کے لیے کیوں دربدر بھٹک رہی ہے؟
اگر ہللا تعالی ایک الکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کو نہ بھیجتا تو عبدالستار ایدھی بھی نہ ہوتا
عبدالستار ایدھی کو عبدالستار ایدھی ملحدین کے افکار نے نہیں بنایا بلکہ ایک الکھ چوبیس ہزار پیغمبروں پر کامل ایمان
رکھنے والی اس قوم نے بنایا ہے جس نے آخری نبی کی مقدس تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے اپنی زکوۃ ،صدقات ،عطیات،
خیرات ،اور قربانی کی کھالیں اس کی رفاہی خدمات کے لیے وقف کر کے اسے "موالنا" عبدالستار ایدھی کے نام سے
شناخت عطا کی۔
لیکن اکیسویں صدی میں آٹے کے ایک تھیلے کے لیے دربدر بھٹکتی انسانیت کا سب سے بڑا سوال یہ نہیں ہے کہ اس کے
پاس دو چار عبدالستار ایدھی اور کیوں نہیں ہیں؟
*بھوکی انسانیت کا سب سے بڑا سوال یہ ہے* کہ دنیا کی سترہ تہذیبوں میں انسان کبھی روٹی سے محروم نہیں رہا ،لیکن
عہد حاضر میں آخرکیوں انسانیت روٹی سے محروم ہے؟
ورلڈ فوڈ آرگنائزیشن کے مطابق 2008میں دنیا کی تاریخ میں سب سے زیادہ غلہ پیدا ہوا لیکن تاریخ انسانی میں کبھی غلہ
اس قدر مہنگا نہیں فروخت کیا گیا جس قدر آج ہے۔ اس دور میں انسانی ضرورت سے بہت زیادہ غلہ پیدا ہونے کے باوجود
انسانیت آٹے کے ایک تھیلے کے لیے صرف اس لئے دربدر بھٹک رہی ہے کہ غذائی اجناس کی قیمتوں میں بالوجہ اور بے
دریغ اضافے کے باعث لوگوں کی قوت خرید ختم ہوگئی ہے۔
#گیارہ برس پہلے 19جون 2009ء DAWNکی رپورٹ کے مطابق صورتحال یہ تھی کہ ترقی یافتہ ممالک میں 15ملین
افراد بھوک کا شکار تھے اور اس کی وجہ پیغمبروں کی تعلیمات نہیں ہیں بلکہ الحادی ذہنیت سے جنم لینے والی وہ مادہ
پرست فکر ہے جس کے نتیجے میں زیادہ سے زیادہ نفع کمانے کے لئے دنیا کے چھ ہزار ارب پتی خاندان غلے کا مصنوعی
بحران پیدا کرتے ہیں اور بھوکے لوگوں کی قطاریں دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کہ اب ان کے غلے کی قیمتیں بڑھ جائیں گی،
چاہے قیمتوں میں اضافے کی خاطر انہیں اگلے ایک دو سال کے لیے کافی ہو جانے والی وافر گندم کے ذخائر کو ہی سمندر
برد کیوں نہ کرنا پڑے۔
اب #سوال یہ ہے کہ بھوکی انسانیت کو دربدر پھرانے والی اس عالمی حرص و حوس کا دنیا سے خاتمہ کیسے ہوگا؟
ملحدین کے افکار سے یا انبیاء کی تعلیمات سے؟
"دنیا چاند پر پہنچ گئی اور مولوی کو وضو کے مسائل سے فرصت نہیں"
یہ فراڈ نما طنز آپ اکثر سنتے ہوں گے۔ دنیا تو واقعی چاند پر پہنچ گئی جب کہ ہم جھگ مارتے رہ گئے
مولوی کا؟
یہ ایک "مولوی ٹائپ" مسلمان کے تھوڑے بہت contributionsتھے جن کا یہاں ذکر کیا۔
دوسری تصویر میں ،ایک لبرل و دین بیزار فزکس پروفیسر ،ہود بھائی موجود ہیں جو عورت مارچ میں پشتون فیمینزم کے
حق میں پلے کارڈ اٹھائے ،فزکس کی تعلیم کو عام کرنے اور چاند و مریخ پر پہنچنے کی عمدہ کوششوں میں مشغول ہیں۔ یہ
شخص آپکو اسالم کے خالف کیے جانے والے ہر مارچ ،ہر مباحثے میں ،صف اول میں نظر آئے گا۔
مجھے اسکی چوائس کی قطعی پرواہ نہیں۔ پر بات یہ ہے کہ اسکا کام فزکس ہے ،سائنس ہے ،نہ کہ سماجی مسائل۔
اگر ہمارا سائنسدان ،اپنا کام چھوڑ کر ،سڑکوں اور مباحثوں میں اسالم کے خالف اپنا بغض نکالتا رہے گا ،تو سائنس کون
پڑھائے گا؟
ایک طرف باریش ،مولوی ٹائپ سائنٹسٹ ہے ،دوسری طرف کلین شیو ،دین بیزار فزکس کا پروفیسر ہے
.
*مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ االقدس کی سوشل میڈیا کے بارے میں اہم تحریر ۔*
ایک طویل مگر نہایت اہم تحریر جسے خود بھی پڑھیں اور شئیر بھی کری
ایک مسلمان کیلئے اوالد صرف ایک دنیوی نعمت ہی نہیں بلکہ آخرت کا سرمایہ اور بہترین صدقہ جاریہ ہے۔
ب ایمان ہو۔
بشرطیکہ کہ وہ صاح ِ
سوشل میڈیا کے اس دور میں ایمان کے ڈاکو کس طرح خاموشی سے ہماری آئندہ نسلوں کو الحاد یا ( Athiesmخدا کے
وجود سے انکار) کی طرف دھکیل رہے ہیں ،اس کی تفصیل اس تحریر میں پیش کی جائیگی۔
بظاہر پڑھائی اور اینٹرٹینمنٹ کیلئے اپنی ناسمجھ اوالدوں کو اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ تک غیر محدود رسائی دینے والے
والدین بالخصوص اس تحریر کو پڑھیں
ممکن ہے کہ خدا ناخواستہ آپکی اوالد اس فتنے کی زد میں آکر ایمان سے ہاتھ دھونے کے قریب ہو اور آپ بالکل العلم ہوں۔
کراچی ،الہور ،اسالم آباد اور پاکستان کے دیگر شہروں میں اس وقت ملحدین (خدا کے وجود سے انکاری) کی تعداد سوشل
میڈیا کے ذریعے تیزی سے بڑھ رہی ہے
اور اسکا شکار عام مسلمان گھرانوں کے 20-15سال کے بچے بچیاں ہو رہے ہیں.
اسکی ایک دو نہیں سینکڑوں مثالیں ہیں اور علماء کرام دن رات اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں
معاملہ یہ ہے کہ۔۔۔۔۔
سوشل میڈیا ،بالخصوص فیس بک ،انسٹاگرام ،اور ٹویٹر پر ایسے سینکڑوں اکاؤنٹس ہیں جنکا کام دن رات سائنسی بنیادوں پر
خدا کے وجود سے انکار ،دین اسالم کے مختلف احکام کا مذاق اڑانا ،حضور اقدسﷺ کی حیات طیبہ کے مختلف پہلوؤں
پر اعتراض ،اور علماء کی تضحیک ہے۔
ان میں سے اکثر کا تعلق یورپ اور امریکہ میں قائم مختلف این جی اوز سے ہے جنکا مقصد ہی یہ ہے۔
Ex-Muslims Together
Atheist Muslims
Muslims Liberated
Muslim Awakening
Islam Exposed
ان کے کارکنان اور انکی تعلیمات سے اتفاق رکھنے والے سینکڑوں لڑکے اور لڑکیاں (جو انہی ممالک میں مقیم اور جن میں
سے اکثر دین سے مکمل ناآشنا اور مغربی تعلیمی نظام کی پیداوار ہیں) پاکستان ،بنگلہ دیش ،متحدہ عرب امارات ،سعودی
عرب اور دیگر مسلمان ممالک کے نوجوانوں راغب کرنے میں مصروف رہتے ہیں
یہ بظاہر مسلمانوں کے نام سے اکاؤنٹس رکھتے ہیں مگر فکری طور پر ملحدین ہوتے ہیں
-ابتداء اسالم پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاتا بلکہ مختلف اسالمی احکام کو سائنس اور الجک کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے۔
جان بوجھ کر ایسے دینی موضوعات پر بات کی جاتی ہے جو سائنس سے بھی ثابت شدہ ہیں.
اس طرح یہ ذہن سازی کی جاتی ہے کہ احکام دین سب کے سب سائنس سے مطابقت رکھتے ہیں اور جس چیز کی تصدیق
سائنس کردے وہ یقینا ً حق ہے
-اسکے بعد ایسے موضوعات کو کریدا جاتا ہے جو سائنس سے باالتر ہیں ،مثآل وجود خدا ،وحی کا علم ،واقعہ معراج ،وغیرہ
جنکا تعلق خالصتا ً ایمان بالغیب سے ہے ،جو یقینا ً حق ہیں مگر سائنس کی دسترس سے باہر ہیں
مگر چونکہ ذہن سازی یہ کی گئی ہے کہ معیار حق سائنس ہے ،چنانچہ ان کلیدی عقائد کو مشکوک کیا جاتا ہے
ان معامالت کو غلط انداز میں پیش کیا جاتا ہے جنکی وضاحت عام ذہنی سطح سے نسبتا ً بلند ہو
مثالً ،غالمی کا فلسفہ ،مرد عورت میں مساوات ،حضور اقدسﷺ کی شادیاں اور باندیاں ،تعدد ازدواج ،سیدہ عائشہ صدیقہ
رض کی بوقت نکاح عمر وغیرہ
ایک راسخ العقیدہ مسلمان کیلئے یہ معامالت واضح ہیں لیکن کچے ذہن کے مسلمان بچے بچیاں جو دین سے العلم اور مغربی
طرز زندگی سے مرعوب ہیں انکے لئے یہ باتیں نہایت پریشان کن اور ناقابل فہم ہیں
اور چونکہ دین اور علمائے دین سے تعلق ہے نہیں اسلئے قابل تشفی جواب کا کوئی راستہ نہیں
نتیجتا ً وہ گوگل اور انٹرنیٹ سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں جہاں انہی ملحدین کی مختلف ویب سائٹس انکے شکوک کو یقین
میں بدل دیتی ہیں
حج اور قربانی سے لیکر نکاح اور وراثت کے احکام تک اسالم کے ہر ہر حکم کو مغرب کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے اور
باآلخر اسے ایک من گھڑت مذہب قرار دیکر خاموشی سے ترک کردیا جاتا ہے (العیاذ باہلل)
حضور اقدسﷺ کی شان میں گستاخی اور خدا کے وجود سے انکار کا مرحلہ اسکے بعد
ِ -کھلم کھال اسالم کا مذاق اڑانا،
آتا ہے
پھر یہ بچے بچیاں بھی خاموشی سے ایسی تنظیموں کے آالئے کار بن جاتے ہیں اور اپنے دوست احباب کو دین سے متنفر
کرتے ہیں
یہ سب کچھ خاموشی سے ہمارے گرد بیٹھے 25-15سال کے نوجوان ،Twitterفیس بک وغیرہ پر کررہے ہیں
ٰ
تعالی سے اپنے اور اپنی اوالد کیلئے سالمتی ایمان اور استقامت کی دعا کا اہتمام کریں -ہللا
-اوالد کو خود سے قریب کریں ،پیار دیں ،انکے مسائل کو سنیں ،سمجھیں اور حل کریں۔ ان سے اپنے معامالت میں مشورہ
کریں ،انکو اپنا رازدار بنائیں
اگر آپ انہیں دور رکھیں گے تو گمراہکن گروہ ان کو آسانی سے اپنے قریب کرلیں گے
-اپنے دین کو آہستہ آہستہ سیکھیں اور گھر میں اسکا تذکرہ رکھیں
-اگر بچے چھوٹے ہیں تو دنیوی تعلیم کے ساتھ انکی دینی تعلیم و تربیت کی بھی فکر کریں
-بغیر ضرورت شدیدہ بچوں کو اسمارٹ فون نہ دیں اور نہ خود رکھیں
-اگر دینا پڑے ،تو شرائط کے ساتھ دیں ،بے وقت استعمال پر پابندی رکھیں ،رات کو تمام گھر کے فون اپنے کمرے میں
جمع کوائیں ،انکو اسکے صحیح استعمال کا طریقہ بتائیں
-بے وجہ سوشل میڈیا پر وقت گزارنے خود بھی بچیں اور اوالد کو بھی بچائیں
ایمان کو سالمتی کے ساتھ قبر میں لے جانا ایک مسلمان کی سب سے بڑی کامیابی ہے
اپنی اوالد کو ایمان کے ڈاکوؤں سے بچائیں تاکہ ہماری آئیندہ نسلوں میں بھی دین باقی رہے
ٰ
تعالی حفاظت فرمائے ،آمین۔ ہللا
لہذا اس موضوع پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں تاکہ مغربی دانستہ توہمات اور ہمارے مسلمانوں کا کم فہمی و غلط فہمی کا
تدارک ممکن ہو سکے اور واضح ہوجائے کہ کیا واقعی ہر حال میں مرد عورت سے دوگنا حصہ لیتا ہے؟
ترجیح زیادت و کمی "ذکورۃ" اور "انوثت" ( مرد اور عورت ہونا) ہرگز نہیں ہے
ِ ت حصص اور وجوہ اسالم میں تفاو ِ
اسالم میں صرف تین وجوہ اور معیارات پر زیادہ اور کم میراث دینے کا فیصلہ ہوتا ہے اور وہ معیارات اور وجوہ یہ ہیں :
)1قرابت (رشتہ داری /جو زیادہ قریب ہو وہ زیادہ لے گا)
)2جس وارث کو زندگی کا سامنا ہو یعنی زمانی طبقے میں جو کم زمانے واال ہو اس کو زیادہ ملے گا
)3یہ وہ معیار ہے جس میں پہلے دونوں معیارات برابر ہو یعنی میت(فوت شدہ) کے ورثاء قرابت میں بھی برابر ہو اور
زمانی طبقہ بھی ایک ہو
مذکورہ تین معیارات سے عورت کی 34حاالت نکل آتی ہیں
10احوال میں عورت مرد کی برابر حصہ لے گی
10احوال میں عورت مرد سے زیادہ حصہ لے گی
10احوال میں عورت حصہ لے گی اور مرد کو بلکل نہیں ملے گا
4احوال میں عورت بنسبت مرد آدھا حصہ لے گی
آیۃ کریمہ "للذکر مثل حظ االنثیین" کا مصداق صرف تیسرا معیار ہے اور ان 34حاالت میں صرف چار حالتیں ہیں جس میں
مرد کو بنسبت عورت دوگنا حصہ ملتا ہے
اب چونکہ یہ چار حالتیں عامۃ الوقوع اور اور اکثر سامنے آتی ہیں تو اسکی وضاحت بھی کر لیتے ہیں تاکہ آیۃ کریمہ کا
صحیح فہم اور ادراک ممکن ہو
دین اسالم نے عورت کو دیگر اعزازات کے ساتھ یہ اعزاز بھی دیا ہے کہ مرد پر عورت کا نفقہ الزم قرار دیا ہے (خواہ ِ
عورت مرد سے زیادہ صاحبہ استطاعت کیوں نہ ہو)
اب آیۃ کریمہ"حظ االنثیین" کا مفہوم بلکل واضح طور پر سامنے آتا ہے کہ کہ مرد کو دو عورتوں کا سامنا پڑتا ہے "بہن" اور
"بیوی" ،شادی سے پہلے "بہن" کا اور شادی کے بعد "بیوی" کا اور عورت دو مردوں سے نفقہ لیتی ہے وہ یہ کہ شادی سے
پہلے بھائی اور شادی کے بعد شوہر سے
اب بآسانی معلوم ہوا کہ مرد دو عورتوں( بہن اور بیوی) پر خرچ کرتا ہے اور اور عورت دو دو مردوں(بھائی اور شوہر )
سے خرچ لیتی ہے
ان چار حالتوں میں ظاہری تو مرد کا حصہ دوگنا لگتا ہے لیکن حقیقت میں یہ حصہ بھی عورت ہی کا ہے "للذکر مثل حظ
ٰ
تعالی نے عورتوں کی حقوق کیلئے نازل فرمایا ہے ۔۔۔ االنثیین" کو ہللا
مغرب کی کوششیں چند سال پہلے صرف مساوات تک آ پہنچی مگر اسالم نے چودہ سو سال پہلے مساوات سے بڑھ کر
برتری دی ہے ۔
مساوات کا غیر معقول اور غیر فطری نعرہ لگانے والے کبھی سوچ لیا کرے کہ جب سے دنیا بنی ہے اور نوع انسانی تشکیل
پا چکی ہے تب سے عورتیں ہی بچے پیدا کر رہی ہیں کبھی اس نعرے کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش تو کیا کریں اور یہ
ذمہ داری اپنے کندھوں پر لے لیں تب نفس االمری مساوات( )on tha ground equalityدیکھ پا سکیں گے ۔
نوٹ 34 :احوال میں 10/10/10/4کا صرف ایک ایک مثال لکھا ہے تحریر میں تمام تر احوال لکھنا ممکن نہیں ہے
نوجوان فاضل علی محمد شوقی نے اپنی کتاب "اتحاف الکرام" میں 140حالتیں اور 586صورتیں بیان کیے ہیں ۔
ٰ
مقتدی و رہنما کو " موالنا " کہنے کا حکم* *علمائے کرام اور دینی
واضح رہے بھیجی گئی تحقیق نامکمل اور ناقص ہے ،اس میں ایک پہلو کو زیادہ نمایاں کیا گیا ہے دوسرے پہلو کو بیان نہیں
کیا گیا ،لہذا ذیل میں اس لفظ کی مکمل تحقیق اور اس کا حکم ذکر کیا جاتا ہے۔
ٰ
مولی " عربی زبان کا لفظ ہے ،اس کا مفہوم وسیع ہے اور یہ لفظ "
عربی زبان میں متعدد معنوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
مثالً:آزاد کردہ غالم۔
دوست۔
ٰ
مقتدی و رہنما
مددگار اور
سردار وغیرہ
لہذا موقع محل کے اعتبار سے ان معنوں کی تعیین کی جائے گی۔
تعالی کی طرف ہوگی تو اُس سے مراد مددگار کے معنی ہوں گے ،جب اس کی نسبت
ُ ٰ ٰ
مولی " کی نسبت ہللا تبارک و جب"
اپنے کسی قریبی عزیز کی طرف ہوگی ،تو دوست کے معنی میں استعمال ہوگا۔
مولی سے مراد رہنما اور سردار ہوتا ہے ،اس لفظ کے ٰ مقتدی کی طرف نسبت ہوگی ،توٰ اور جب کسی رہنما ،بڑے بزرگ یا
آخر میں جو " نا " کا اضافہ کر کے " موالنا " کہا جاتا ہے ،اس کا معنی ہے ہمارے بڑے۔ چنانچہ علماء کو جو موالنا کہا
ٰ
مقتدی و پیشوا؛ ٰلہذا اِس معنی کی رو مقتدی کے معنی مد نظر ہوتے ہیں اور اس کا معنی ہوتا ہے " ہمارے ٰ جاتا ہے اُس میں
ً
سے کسی عالم یا بزرگ کو موالنا کہنے میں شرعا کوئی حرج نہیں ہے ،اِس میں شرک وغیرہ کا کوئی شائبہ نہیں پایا
جاتا؛کیونکہ " مولی " جب مخلوق کے لئے استعمال ہو ،تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو خالق کے لئے استعما ل
کرتے وقت سمجھے جاتے ہیں ،مزید یہ کہ صدیوں سے علماء کے طبقہ میں اِس لفظ کا استعمال بال روک ٹوک کے جاری
ہے۔
نیز احادیث میں بھی غیرہللا کے لیے لفظ ”موالنا“ کا استعمال ہوا ہے ۔
ٰ
تعالی اعلم بالصواب وہللا
داراالفتاء و التحقیق ،کراچی