You are on page 1of 17

‫مستشرقین اور اسالم بیزار لوگوں کی جانب سے کیا جانے واال ایک منطقی اعتراض اور اس جواب‬

‫ڈاکٹر حسیب احمد حسیب صاحب کی وال سے‬

‫"مردوں کیلئے ستر حوریں عورتوں کیلئے کیا ‪...‬؟"‬

‫اکثر یہ سوال جدید طبقے کی جانب سے اٹھایا جاتا ہے کہ مردوں کیلئے تو جنت میں حوریں ہونگی خواتین کیلئے کیا معاملہ‬
‫ہوگا گزشتہ دنوں جب ہمارے ایک صوفی مزاج اسالم پسند دوست کی جانب سے یہ سوال آیا تو خادم نے لکھنے کی ٹھانی وہ‬
‫قارئین کہ جو اس موضوع میں دلچسپی رکھتے ہیں انکی معلومات کیلئے چند سطور پیش خدمت ہیں ‪..‬‬
‫پہلے تو وہ بنیادی سوال کہ جو اٹھایا گیا ہے ;‬

‫" میں نے محض ایک واقعہ بتالیا تھا کہ ایک خاتون نے مجھے بتالیا ہے کہ جنت میں جس طرح مردوں کو حوریں ملیں گی‬
‫ویسے ہی خواتین کو غلمان ملیں گے۔ میں نے اسے محض ایک مذاق کے طور پر پیش کیا تھا مگر دوستوں نے اتنی سنجیدہ‬
‫باتیں کیں کہ میں نے اسی خاتون سے دوبارہ رابطہ کیا کہ یہ معامالت ہیں‪ ،‬خاتون نے بڑی تفصیل اور مدلل طریقے سے‬
‫سمجھایا کہ جب نزول قرن ہو رہا تھا تو مردوں کی باالدستی کا دور تھا اس لئے خواتین کے بارے بہت سی باتیں اشاروں اور‬
‫کنایوں میں ہیں چند باتیں پہلے سمجھ لیں ہللا تعالی کسی صنف کے حق میں جانبدار نہیں‪ ،‬جنت میں صنف کی بنیاد پر تفریق‬
‫نہیں ہوگی غلمان کا ذکر حوروں کی طرح قرآن مجید میں موجود ہے اس زمانے کے مزاج کی وجہ سے اس کی ایسی تشریح‬
‫ممکن نہیں تھی اگر شوہر کو بیوی کے عالوہ حوریں ملیں گی تو خواتین کو بھی اسی درجے پر سلوک ملے گا ان کو بھی‬
‫شوہر کے عالوہ غلمان ملیں گے اگر کوئی خاتون اپنے زمینی شوہر کو نہیں لینا چاہے گی تو چاہے شوہر جنت میں ہی ہو‬
‫اسے اپنے کو اپنانے کی کوئی مجبوری نہیں ہوگی جنت میں جب زمینی نقائص اور اس طرح جنسی طلب نہیں ہوگی تو پھر‬
‫کیا مسئلہ ہے مردوں اور عورتوں کو ایک طرح انعام نہ دیئے جائیں غیرت اور شرم اور اس طرح کے مسائل اس زمین کا‬
‫خاصا ہے وہاں ہر انسان مکمل انسان اور خود مختار ہوگا عورتوں اور مردوں میں باال دستی کا تصور اس دنیا میں ہے وہاں‬
‫مکمل مساوات ہوگی "‪.‬‬

‫سب سے پہلے تو "حور" کچھ حوالے سے کچھ وضاحت‬

‫حُور {حُور} (عربی) ح و ر‪ ،‬حُور‬

‫عربی زبان میں اسم حورا کی جمع حور ہے۔ اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اصل معنی اور اصل صورت میں ہی بطور اسم‬
‫مستعمل ہے۔‬

‫گوری چٹی عورتیں جن کی آنکھوں کی پتلیاں اور بال بہت سیاہ ہوں‪ ،‬بہشتی عورتیں‪( ،‬اردو میں بطور واحد مستعمل) بہشتی‬
‫عورت۔‬

‫تنہا لفظ ?حور? کے معنی ہالکت‪ ،‬گمراہی اور کمی کے بھی ہیں‪ ،‬ان معانی کے اعتبار سے یہ اچھا نام نہیں‪ ،‬لیکن ح ُْو ٌر یہ‬
‫َح ْو َراء کی جمع بھی ہے‪ ،‬اور َح ْوراء کے معنی لغت میں گوری عورت کے ہیں‪.‬‬

‫اب کچھ وضاحت "غلمان" کے حوالے سے‬

‫غلمان۔ غالم کی جمع ہے۔ (‪ )boys‬الغالم اس لڑکے کو کہتے ہیں جس کی مسیں بھیگ چکی ہوں۔ لڑکا جو بھرپور جوانی میں‬
‫ہو۔‬

‫انوار البیان فی حل لغات القرآن جلد‪ 4‬صفحہ‪، 28‬علی محمد‪ ،‬سورۃ الطور‪،‬آیت‪،24‬مکتبہ سید احمد شہید الہور‬

‫مترادف ؛ ’’ ولدان‘‘‬

‫’’ ولدان‘‘ ’’ ولید‘‘ کی جمع ہے‘ بچے‪ ،‬جنت کے غلمان جو نہ کبھی مریں گے‪ ،‬نہ بوڑھے ہوں گے‪ ،‬نہ ان میں کوئی تغیّر آئے‬
‫گا‪ ،‬نہ خدمت سے اکتائیں گے‪ ،‬ان کے حسن کا یہ عالم ہوگا کہ جس طرح فرش مص ٰ ّفی پر گوہر آبدار غلطاں ہو اس حسن و‬
‫صفا کے ساتھ ج ّنتی غلمان مشغول خدمت ہوں گے۔‬

‫تبیان القرآن غالم رسول سعیدی‪،‬سورۃ الواقعہ‪،‬آیت‪13‬‬


‫تفسیر خزائن العرفان ‪ ،‬نعیم الدین مراد آبادی‪،‬سورۃ الدھر‪،‬آیت‪19‬‬

‫َعنْ َأ ِبي َمالِكٍ َقا َل‪ :‬سُِئ َل ال َّن ِبيُّ ﷺ َعنْ َأ ْط َف ِ‬


‫ال ْال ُم ْش ِر َكيْن‪َ :‬قا َل‪ُ :‬ه ْم َخدَ ُم َأ َهل ْال َج َّنة‬

‫ابومالك كہتےہیں كہ نبیﷺسےمشركین(فوت ہوجانے والے نابالغ) بچوں كےبارے میں سوال كیا گیا‪ٓ،‬اپﷺنےفرمایا‪ :‬وہ‬
‫جنتیوں‪ /‬اہل جنت كے خادم ہوں گے۔‬

‫عن أنس عن النبي صلى هللا عليه وسلم ‪ :‬سألت ربي االهين من ذرية البشر أن ال يعذبهم فاعطانيهم فهم خدم أهل الجنة ‪.‬‬

‫رواه أبو يعلى في مسنده (‪. )4102 ، 4101‬‬


‫قال الحافظ في الفتح(‪ : )3/290‬إسناده حسن ‪.‬‬
‫وحسنه العالمة األلباني هذا الحديث في الصحيحة (‪. )1881‬‬
‫والحديث جميع طرقه ضعيفة معلولة ‪.‬‬
‫ـن َكـث ٍ‬
‫ِـيـر‬ ‫َف َـواِئـ ُد مُـ ْنـ َتـ َقـاةٌ مِـن َتـ ْفـسِ ِ‬
‫ـيـر ِاب ِ‬
‫ـركِـيـن‬‫ِ‬ ‫ْ‬
‫ش‬ ‫ُـ‬
‫م‬ ‫الـ‬‫و‬‫ِـيـن َ‬ ‫ُـكـ ُم َأ ْطـ َف ِ‬
‫ـال الـمُـسْ ـلِـم َ‬ ‫ح ْ‬
‫اب کچھ بنیادی مباحث وضاحت کے ساتھ ‪.‬‬

‫اب کچھ دالئل پیش خدمت ہیں ؛‬

‫‪ .١‬اگر یہ بات تسلیم کر لی جائے کہ وہ مردانہ باالدستی واال معاشرہ تھا اور اس سے خوف زدہ ہوکر احکامات کا ذکر مزکر‬
‫کے صیغوں کے ساتھ کیا گیا تو وہ مشرکانہ باالدستی واال معاشرہ بھی تھا تو پھر کھلی توحید کی تعلیم تو حکمت کے صریح‬
‫خالف ہوئی یہاں تک کہ جان کے اللے پڑے قتل کی سازشیں ہوئیں جنگیں لڑنا پڑیں احکامات اسالمی میں اگر مداہنت کی‬
‫گنجائش ہوتی تو پھر دین بازیچئہ اطفال بن کر رہ جاتا قرآن قیامت تک رہنے والی کتاب ہے اس میں ابہام کی کوئی گنجائش‬
‫نہیں ‪.‬‬

‫‪ .٢‬دوسری جانب فطرت انسانی اپنی اصل میں تبدیل نہ ہوگی جیسے یہاں ایک مرد کو چار عورتوں اور لونڈیوں کی اجازت‬
‫ہے عورت کو نہیں تو پھر یہاں یہ آزادی سلب کرنے کا مقصود‪..‬؟‬

‫حوروں کو لونڈیوں پر قیاس کیا جا سکتا ہے اگر اس دنیا میں ایک مرد عورت کی جنسی ضرورت کیلئے کافی ہے تو اس دنیا‬
‫میں کیوں نہیں کیا کسی بھی آزاد معاشرے میں ایسی کوئی مثال ہے کہ عورتوں نے بیک وقت متعد شوہر رکھے ہوں مزید‬
‫تفصیل میں جائیے جنت میں انبیاء بھی ہونگے اصول یہ ہے کہ نبی کی بیوی دوسرے مردوں پر حرام ہوتی ہے کیا کوئی یہ‬
‫تصور بھی کر سکتا ہے کہ ان پاکیزہ خواتین کو انبیاء کے عالوہ کسی اور مرد کی حاجت ہوگی ‪.‬‬

‫‪ .٣‬احادیث مبارکہ میں تو غلمان کے حوالے سے کوئی ابہام نہیں ایک حدیث میں آتا ہے کہ یہ وہ معصوم بچے ہونگے کہ‬
‫جو غیر مسلم گھرانوں میں پیدا ہوئے مگر بلوغت سے پہلے انتقال کر گئے زیادہ تر ایسے اشکاالت قول رسول صل ہللا کو‬
‫حجت شرعی نہ ماننے والوں کے ہاں پیدا ہوتے ہیں دراصل مسلہ دین اسالم پر مطمئن نہ ہونے کا ہے یہی خبط تھا کہ جس‬
‫نے سرسید احمد خان سے معجزات تک کا انکار کروا دیا کہ موصوف نیچریت کی طرف مائل تھے ‪.‬‬

‫‪ .٤‬پہلے تو بنیادی مقدمے کو ہی صاف کرلیجئے کیا جنت میں سب کچھ کی اجازت ہوگی مجھے نہیں معلوم کہ یہ تصور کہاں‬
‫سے درآیا اس پر مزید بات کرتے ہیں ‪ ..‬مگر کیا آپ یہ بھی کہینگے کہ جنت میں مکمل جنسی آزادی ہوگی اگر اس بات کو‬
‫تسلیم کرلیں تو کیا وہاں ہم جنس پرستی کی آزادی بھی ہوگی ‪...‬؟‬

‫اگر بنیاد کسی کی عقل ہی ہو تو کیا ایک وہ عمل کہ جسکی وجہ سے قوم لوط علیہ السالم عذاب کا شکار ہوکر معدوم ہو گئی‬
‫تو کیا وہ جنت میں جائز ہوگا ‪...‬؟‬

‫وہ کون سی دلیل ہے کہ جس سے آپ غلمان کو عورتوں تک محدود کرینگے ‪...‬؟‬

‫‪ .٥‬اگر یہ اشکال اٹھایا جاوے کہ ہ شراب جس کی دنیا میں ممانعت ہے‪ ,‬وہ جنت میں اس لیے حرام تو نہ ہوئی کہ دنیا میں‬
‫حرام ٹھیری ‪...‬؟‬
‫بالکل نہیں دنیا میں بھی علت ہے نشے کی وگرنہ نبیذ حالل تھی یہاں تک کہ اس میں نشہ نہ آ جاوے اسکی مثال بیر کی ہے‬
‫نشہ آور حرام اور غیر نشہ آور حالل جنت میں بھی یہی علت موجود ہوگی ‪.‬‬

‫صحيح مسلم‪ِ :‬ك َتابُ اَأْل ْش ِر َب ِة‬

‫اح ِة ال َّن ِبي ِذ الَّذِي َل ْم َي ْش َت َّد َو َل ْم يَصِ رْ مُسْ كِرً ا)‬


‫( َبابُ ِإ َب َ‬
‫صحیح مسلم‪ :‬کتاب‪ :‬مشروبات کا بیان‬

‫(باب‪ :‬جو نبیذ تیز اور نشہ آور نہ ہو گئی ہو۔جائز ہے)‬

‫ب َقا َل ِإسْ َح ُق َأ ْخ َب َر َنا و َقا َل‬ ‫ظ َأِل ِبي َب ْك ٍر َوَأ ِبي ُك َر ْي ٍ‬ ‫ب َوِإسْ َح ُق بْنُ ِإب َْراهِي َم َواللَّ ْف ُ‬ ‫‪ . 5228‬و َح َّد َث َنا َأبُو َب ْك ِر بْنُ َأ ِبي َش ْي َب َة َوَأبُو ُك َر ْي ٍ‬
‫َأْل‬
‫صلَّى هَّللا ُ َع َل ْي ِه َو َسلَّ َم ُي ْن َق ُع َل ُه َّ‬
‫الز ِبيبُ َف َي ْش َر ُب ُه‬ ‫ان َرسُو ُل هَّللا ِ َ‬ ‫َّاس َقا َل َك َ‬
‫ْن َعب ٍ‬ ‫ش َعنْ َأ ِبي ُع َم َر َعنْ اب ِ‬ ‫او َي َة َعنْ ا عْ َم ِ‬ ‫ان َح َّد َث َنا َأبُو م َُع ِ‬ ‫اآْل َخ َر ِ‬
‫الثالِ َث ِة ُث َّم َيْأ ُم ُر ِب ِه َفيُسْ َقى َأ ْو ُي َه َراقُ‬
‫ْال َي ْو َم َو ْال َغدَ َو َبعْ دَ ْال َغ ِد ِإ َلى َم َسا ِء َّ‬

‫ٰ‬
‫تعالی عنہ سے‬ ‫حکم ‪ :‬صحیح ‪ . 5228‬ابو معاویہ نے اعمش سے انھوں نے ابو عمر سے‪ ،‬انھوں نے حضرت عباس رضی ہللا‬
‫روایت کی‪ ،‬کہا ‪ :‬رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے لیے کشمش کو پانی میں ڈال دیا جا تا آپ اس نبیذ کو اس دن اور اس سے‬
‫اگلے دن اور اس کے بعد والے تیسرے دن کی شام تک نوش فرما تے ‪،‬پھر آپ حکم دیتے تو وہ دوسروں کو پال دی جا تی‬
‫تھی یا گرا دی جا تی تھی ۔‬
‫یہاں تین دن کی تصریح ہے کہ اسکے بعد وہ خمر بن جاتی ہوگی‪.‬‬

‫جنت میں چادر اور چاردیواری کا تصور؛‬

‫‪ .٦‬میں آپکے سامنے مسند احمد کی ایک صحیح حدیث رکھتا ہوں‬

‫صلَّى هَّللا ُ َع َل ْي ِه َو َسلَّ َم‬ ‫ت َأ ْد ُخ ُل َب ْيتِي الَّذِي ُدف َِن فِي ِه َرسُو ُل ِ‬
‫هللا َ‬ ‫ت ُك ْن ُ‬ ‫َح َّد َث َنا َحمَّا ُد بْنُ ُأ َسا َم َة ‪َ ،‬قا َل ‪َ :‬أ ْخ َب َر َنا ِه َشا ٌم ‪َ ،‬عنْ َأ ِبي ِه ‪َ ،‬عنْ َعاِئ َش َة َقا َل ْ‬
‫ض ُع َث ْو ِبي ‪َ ،‬وَأقُو ُل ِإ َّن َما ه َُو َز ْو ِجي َوَأ ِبي ‪َ ،‬ف َلمَّا ُدف َِن ُع َم ُر َم َع ُه ْم َف َوهَّللا ِ َما دَ َخ ْل ُت ُه ِإالَّ َوَأ َنا َم ْش ُدودَ ةٌ َع َليَّ ِث َي ِابي ‪َ ،‬ح َيا ًء مِنْ ُع َم َر‪.‬‬
‫‪َ ،‬وَأ ِبي َفَأ َ‬

‫[مسند أحمد ط الميمنية‪]202 /6 :‬‬

‫حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب امی عائشہ صدیقہ رض حضرت عمر فاروق رض کی قبر کی زیارت کو جاتیں تو پردہ کر لیا‬
‫کرتی تھیں اب مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ وہ خواتین کہ جو قبور کے حوالے سے اتنی حساس ہوں جنت میں کیسے حیاء‬
‫سے عاری ہوجائینگی‪.‬‬

‫ایک اور صحیح حدیث آپ کے سامنے رکھتا ہوں‬

‫رأيت قصرا بفنائه جارية فقلت ‪ :‬لمن هذا ؟ فقالوا ‪ :‬لعمر بن الخطاب فأردت أن أدخله فأنظر إليه فذكرت غيرتك " فقال عمر ‪ :‬بأبي‬
‫أنت وأمي يا رسول هللا أعليك أغار ؟ ‪ .‬متفق عليه‬

‫ٰ‬
‫تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا‬ ‫اور حضرت جابر رضی ہللا‬

‫(معراج کی رات میں ) جب میں جنت میں داخل ہوا تو اچانک دیکھا کہ میرے سامنے رمیصا زوجہ ابوطلحہ موجود ہیں ۔ پھر‬
‫میں نے قدموں کی چاپ سنی اور پوچھا کہ یہ کون شخص ہے (جس کے چلنے پھرنے کی آواز آرہی ہے) مجھے (جبرائیل یا‬
‫کسی اور فرشتہ نے یا دورغہ جنت نے ) بتایا کہ یہ بالل ہیں اس کے بعد (ایک جگہ پہنچ کر ) میں نے ایک عالیشان محل‬
‫دیکھا ‪ ،‬جس کے ایک گوشہ میں (یاصحن میں) ایک نوجوان عورت (یعنی حور جنت ) بیٹھی ہوئی تھی ‪ ،‬میں نے پوچھا !یہ‬
‫کس کا ہے ؟ (اور ہمہ انواع کی یہ نعمتیں جو اس محل میں اور اس محل کے اردگرد ہیں کس کے لئے ہیں ) مجھ کو جنتیوں‬
‫نے (یا اس محل پر متعین فرشتوں نے ) بتایا کہ یہ (محل اپنے تمام سازوسامان اور نعمتوں سمیت ) عمر ابن خطاب کا ہے (یہ‬
‫سن کر ) میں نے چاہا کہ محل میں جاؤں اور اس کو اندر سے بھی دیکھوں لیکن پھر ( اے عمر ) مجھے غیرت کا خیال آگیا‬
‫(کہ تمہارے محل کے اندر داخل ہونا تمہاری غیرت وحمیت کے منافی ہوگا اس لئے میں اندر جانے سے اجتناب کیا ) حضرت‬
‫عمر نے (یہ سنا تو ) عرض کیا ‪ :‬یا رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ‪ ،‬کیا میں نے آپ صلی ہللا‬
‫علیہ وسلم (کے داخل ہونے ) سے غیرت کروں گا ۔"‬
‫(بخاری ومسلم )‬

‫اوپر پیش کی گئی حدیث سے ایک بات کی تو صراحت ہوجاتی ہے کہ ہللا کے رسول صل ہللا علیہ وسلم کا عمل یہ بتالتا ہے‬
‫کہ جنت میں بھی چادر و چاردیواری کی اہمیت ہوگی میری آزادی کی حد وہاں ختم ہو جاوے گی کہ جہاں سے آپکی‬
‫چاردیواری شروع ہوگی‪.‬‬

‫‪ .٧‬پھر ایک بات اور کہ اگر خواتین کو مکمل آزادی ہوئی تو وہ کون سی عورت ہوگی کہ جو بہترین لوگوں خاص کر انبیاء‬
‫کے عقد میں آنا پسند نہ کرے‪.‬‬

‫اب وہ لوگ کہ جو حدیث کو حجت تسلیم نہیں کرتے انکے لیے کچھ دالئل قرآن مجید فرقان حمید سے ‪.‬‬

‫دالئل قرآنی؛‬

‫سورة الصافات ( ‪) 37‬‬

‫الطرْ فِ عِ ينٌ {‪َ }48‬كَأ َّنهُنَّ َبيْضٌ م َّْك ُنونٌ {‪}49‬‬


‫ات َّ‬
‫َوعِ ْندَ ُه ْم َقاصِ َر ُ‬

‫اوران کے پاس نگاہیں بچانے والی ‪ ،‬خوبصورت آنکھوں والی عورتیں ہوں گی‪ ،‬ایسی نازک جیسے انڈے کے چھلکے کے‬
‫نیچے چھپی ہوئی ِجھلّی۔‬

‫یہاں َقاصِ َر ُ‬
‫ات کا لفظ استعمال کیا ہے یعنی چھپنے والی یا چھپانے والی آگے عِ ينٌ سے صراحت کر دی یعنی وہ عورتیں کہ‬
‫جو دوسروں کی نگاہوں سے خود کو چھپاتی ہوں‬

‫آگے مزید صراحت کر دی‬

‫سورة الرحمن ( ‪) 55‬‬

‫وت َو ْال َمرْ َجانُ {‪}58‬‬ ‫الطرْ فِ َل ْم َي ْطم ِْثهُنَّ ِإنسٌ َق ْب َل ُه ْم َواَل َجانٌّ {‪َ }56‬ف ِبَأيِّ آاَل ء َر ِّب ُك َما ُت َك ِّذ َب ِ‬
‫ان {‪َ }57‬كَأ َّنهُنَّ ْال َياقُ ُ‬ ‫ات َّ‬
‫ِيهنَّ َقاصِ َر ُ‬
‫ف ِ‬

‫ان نعمتوں کے درمیان شرمیلی نگاہوں والیاں ہوں گی جنہیں ان جنتیوں سے پہلےکبھی کسی انسان یا جن نے نہ چھوا ہو گا۔ ا‬
‫پنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹالؤ گے؟ ایسی خوبصورت جیسے ہیرے اور موتی۔‬

‫یہاں َل ْم َي ْطم ِْثهُنَّ ِإنسٌ َق ْب َل ُه ْم َواَل َجانٌّ پر غور کیجئے صراحت ہے کہ انہیں کسی اور نے چھوا تک نہ ہوگا‬

‫ات فِي ْال ِخ َي ِام ‪ :‬خیموں میں ٹھیرائی ہوئی ‪.‬‬ ‫پھر ایک اور جگہ فرمایا َّم ْقص َ‬
‫ُور ٌ‬
‫یہاں سے یہ معاملہ تو بالکل صاف ہو جاتا ہے کہ جنت میں بھی پردہ ‪ ،‬چادر اور چاردیواری کا معاملہ ہوگا ‪.‬‬

‫اب اسکو مزید دیکھئے تو حدیث سے وضاحت ہوتی ہے‬

‫رسولﷺ نے ارشاد فرمایا"وما فی الجنۃ اعزب۔۔"‬

‫اور جنت میں کوئي بغیر جوڑے کے نہ ہوگا۔‬

‫صحیح مسلم‪ ،‬کتاب الجنۃ‪ ،‬باب ‪٦‬‬

‫اگر خواتین کے متعدد شوہر ہوۓ تو جوڑا کہاں باقی رہا پھر تو ایسا آزاد نظام ہونا چاہئیے کہ جہاں ہر کوئی کسی سے بھی‬
‫جنسی تعلق قائم رکھ سکتا ہو‪.‬‬
‫پھر جنت میں مردوں کی ایک سے زیادہ بیویاں ہونے کی قرآن کریم میں صراحت ہے‬

‫سورة الزخرف ( ‪)43‬‬


‫ِين {‪ْ }69‬اد ُخلُوا ْال َج َّن َة َأن ُت ْم َوَأ ْز َوا ُج ُك ْم ُتحْ َبر َ‬
‫ُون‬ ‫ِين آ َم ُنوا ِبآ َيا ِت َنا َو َكا ُنوا مُسْ لِم َ‬ ‫ون {‪ }68‬الَّذ َ‬ ‫َيا عِ َبا ِد اَل َخ ْوفٌ َع َل ْي ُك ُم ْال َي ْو َم َواَل َأن ُت ْم َتحْ َز ُن َ‬
‫ون {‪َ }71‬وت ِْل َ‬
‫ك ْال َج َّن ُة الَّتِي‬ ‫ب َوفِي َها َما َت ْش َت ِهي ِه اَأْلنفُسُ َو َت َل ُّذ اَأْلعْ يُنُ َوَأن ُت ْم فِي َها َخالِ ُد َ‬
‫ب َوَأ ْك َوا ٍ‬
‫ف مِّن َذ َه ٍ‬ ‫ُطافُ َع َلي ِْهم ِبصِ َحا ٍ‬ ‫{‪ }70‬ي َ‬
‫ون {‪}72‬‬ ‫ور ْث ُتمُو َها ِب َما كنت ْم َتعْ َمل َ‬
‫ُ‬ ‫ُ‬ ‫ُ‬ ‫ُأ‬
‫ِ‬

‫مطیع فرمان بن کر رہے تھے کہا جائےگا کہ“اے میرے بندو‪،‬‬


‫ِ‬ ‫اُس روز اُن لوگوں سے جو ہماری آیات پر ایمان الئے تھے اور‬
‫آج تمہارے لیے کوئی خوف نہیں اور نہ تمہیں کوئی غم الحق ہوگا۔ داخل ہو جاؤجنت میں تم اور تمہاری بیویاں‪ ،‬تمہیں خوش‬
‫کردیا جائے گا۔“اُن کے آگے سونے کے تھال اور ساغر گردش کرائے جائیں گے اور ہر َمن بھاتی اور نگاہوں کو لذت دینے‬
‫والی چیز وہاں موجود ہو گی۔ ان سے کہا جائے گا‪“،‬تم اب یہاں ہمیشہ رہو گے۔ تم اِس جنت کے وارث اپنے اُن اعمال کی وجہ‬
‫سے ہوئے ہو جو تم دنیا میں کرتے رہے‪-‬‬

‫پہلے َيا عِ َبا ِد اے میرے بندوں سے تصریح کر دی پھر آگے کہا جا رہا ہے ن ُت ْم َوَأ ْز َوا ُج ُك ْم تم اور تمہاری بیویاں جہاں تک دالئل‬
‫اخذ کرتے جائیے صراحت ہوتی جاتی ہے‪.‬‬

‫مزید آگے بڑھتے ہیں‬

‫سورة الرعد ( ‪) 13‬‬

‫اِئه ْم َوَأ ْز َوا ِج ِه ْم َو ُذرِّ يَّات ِِه ْم {‪}23‬‬ ‫ات َع ْد ٍن َي ْد ُخلُو َن َها َو َمنْ َ‬
‫ص َل َح مِنْ آ َب ِ‬ ‫َج َّن ُ‬

‫یعنی ایسے باغ جو اُن کی ابدی قیامگاہ ہوں گے۔ وہ خود بھی ان میں داخل ہوں گے اور اُن کے آباؤ اجداد اور‪ ‎‬اُن کی بیویوں‬
‫اور اُن کی اوالد میں سے جو جو صالح ہیں وہ بھی اُن کے ساتھ وہاں جائیں گے۔‬

‫اِئه ْم َوَأ ْز َوا ِج ِه ْم َو ُذرِّ يَّات ِِه ْم یہاں تصریح ہے انکے باپ دادا انکے شوہر یا بیویاں اور انکی اوالد ساتھ ہونگی ‪.‬‬
‫مِنْ آ َب ِ‬

‫اب ہر غور کرنے والے پر یہ بات واضح ہوگی کہ اس خاندانی نظام میں کیا کوئی‬
‫گنجائش خواتین کے متعدد شوہر ہونے کی نکل سکتی ہے ‪.‬‬

‫اسی موضوع کی شرح میں مزید ایک حدیث پیش کرکے اپنی بات مکمل کرتا ہوں‬
‫زید بن ارقم رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ رسول ہللا ﷺکے پاس یہودی آئے اور پوچھا "اے ابا القاسم آپ کا یہ گمان‬
‫ہے کہ جنت میں لوگ کھائیں پیئیں گے اور ان کی بیویاں ہوں گی ؟ " تو رسول ہللا ﷺ نے ارشاد فرمایا‬

‫"نعم والذي نفس محمد بيده إن أحدهم ليعطى قوة مائة رجل في األكل والشرب والجماع "‬

‫ہاں اس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے جنتی مردوں میں سے ہر ایک کو کھانے پینے اور ہم بستری کرنے میں‬
‫ایک سو آدمیوں کے برابر قوت دی جائے گی۔‬

‫یہودی نے کہا "جو کھاتا پیتا ہے اسے (پیشاب پاخانے کی) حاجت ہوتی ہے اور جنت میں تو کوئی تکلیف (دہ معاملہ ) نہیں‬
‫ہے "‬

‫تو رسول ہللاﷺنے ارشاد فرمایا‬

‫"تكون حاجة أحدهم رشحا يفيض من جلودهم كرشح المسك فيضمر بطنه"‬

‫جنتی کی حاجت اس کی جلد سے بہنے واال مسک جیسا(خوشبودار) پسینہ ہو گا (جب وہ پسینہ نکلے گا ) تو اس کا پیٹ فارغ‬
‫ہو جائے گا‬

‫المعجم الکبیر ‪ ،‬المعجم االوسط ‪ ،‬صحیح ابن حبان ‪،‬حدیث ‪ ،‬مسند احمد ‪ ،‬امام الھیثمی‬

‫نے مجمع الزوائد میں اسے صحیح قرار دیا ۔‬


‫حیاء عورت کا بنیادی وصف ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ عورت جنت کے پاکیزہ ماحول میں جاتے ہی اپنے اس بنیادی جوہر‬
‫سے محروم ہو جاوے اور متعدد مردوں سے مبتال ہوتی پھرے اس پر تو بس اتنا ہی کہا جا سکتاہے ‪.‬‬

‫َو َل ۡو اَل ۤ ا ِۡذ َسم ِۡع ُتم ُۡوہُ قُ ۡل ُتمۡ مَّا َیک ُۡونُ َل َن ۤا اَ ۡن َّن َتکَلَّ َم ِب ٰہ َذا ٭ۖ س ُۡب ٰح َنکَ ٰہ َذا ب ُۡہ َتانٌ َعظِ ۡی ٌم ﴿‪﴾۱۶‬‬

‫تم نے ایسی بات کو سنتے ہی کیوں نہ کہہ دیا کہ ہمیں ایسی بات منہ سے نکالنی بھی الئق نہیں ۔ یا ہللا ! تو پاک ہے ‪ ،‬یہ تو‬
‫بہت بڑا بہتان ہے اور تہمت ہے ۔‬

‫اس پوری بحث سے ایک بات کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ ایسے تمام سواالت کہ جنکا سلف میں کوئی تذکرہ نہیں ملتا‬
‫ٰ‬
‫تعالی ہمیں دین کا قرآن کریم و سنت رسول صل هللا علیہ وسلم کا‬ ‫دراصل امت کی سیدھی راہ سے ہٹانے دینے والے ہیں هللا‬
‫درست فہم عطا فرماویں آمین‪.‬‬

‫ملحدوں کےساتھ مکالمے کے اہم اصول‪:‬‬

‫‪.1‬ملحدوں سے مکالمہ کرتے ہوئےآپ کو اپنی اور ملحدکی سٹینڈنگ پوزیشن بالکل واضح ہونی چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے‬
‫کہ آپ کے پاس ضروری علم ہونا الزم ہے‪ ،‬اگرآپ اپنے اور ملحدین کے افکار و نظریات اور ان کے دالئل سے پوری طرح‬
‫آگاہ نہیں تو پھر میرا نہیں خیال کہ آپ کو ایسی کسی بحث میں شریک ہونا چاہیے۔‬

‫‪.2‬ضروری علم سے مراد یہ ہے کہ اوالً تو آپ کو اپنے دین اسالم کے اہم علوم مثالً اصول تفسیر‪ ،‬اصول حدیث‪ ،‬اصول فقہ‪،‬‬
‫تاریخ‪ ،‬عربی زبان و ادب کی مبادیات و اہم معلومات پر کافی حد تک عبور حاصل ہونا چاہیے۔‬

‫‪.3‬اور دوم یہ کہ آپ کو ملحدین‪ ،‬ان کے افکار ونظریات‪ ،‬ان کے مختلف گروہوں اور ان کی تاریخ کا علم ہونا ضروری ہے۔‬

‫‪.4‬الزم ہے کہ آپ کو ہیومن ازم‪ ،‬سیکولرازم‪ ،‬لبرل ازم‪ ،‬کیپٹل ازم‪ ،‬سوشل ازم اورتاریخ فلسفہ مغرب کے ساتھ ساتھ دنیا بھر‬
‫میں ان نظریات سے متاثرہ ممالک کے بارے میں تقریبا تمام اہم معلومات حاصل ہو۔‬

‫‪.5‬فلسفے کے عالوہ علم الکالم اور مسلمان متکلمین اور فالسفہ کے افکار سے آگاہی بھی ضروری ہے۔‬

‫‪.6‬ضروری ہے کہ آپ کے پاس سائنس اور فلسفہ سائنس کا علم بھی ہو۔ خصوصا تمام مشہور سائنٹیفک تھیوریز مثالً ِبگ‬
‫بینگ تھیوری اور نظریہ ارتقاء کے اچھا خاصا علم ہو۔‬

‫‪.7‬ان علوم کے بعد آپ کو اسالم اور الحاد کا مزاج شناس بھی ہونا چاہیے تاکہ آپ معامالت کو سمجھنے میں مشکالت کا‬
‫شکار نہ ہوں۔‬

‫‪.8‬منطق کی مبادیات کا علم اور اطالق کا آنا بھی الزم ہے تاکہ آپ ملحدوں کے منطقی مغالطوں کے تار و پود بکھیر سکیں۔‬
‫یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ بیشتر اوقات ملحدین کے اعتراضات منطقی مغالطوں پر مشتمل ہوتے ہیں جنہیں عام آدمی‬
‫سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے۔‬
‫‪.9‬ان تمام علوم کے بعد آپ جب بھی ملحدوں سے مکالمہ شروع کریں تو بالجھجھک سب سے پہلے ملحد سے اس کے‬
‫نظریات کے بارے میں سوال کریں اور ایک اچھے ماحول میں گفتگو آگے بڑھائیں۔‬

‫‪.10‬ملحد سے اس کی تعلیم کا سوال بھی الزمی کریں کیونکہ‬


‫دور حاضر میں زیادہ تر مذہب بیزار لوگوں نے محض فیشن کے طور پر اسالم پر اعتراضات کرنا اپنا شعار بنا رکھا ہے۔ ان‬
‫لوگوں کے پاس بنیادی باتوں کا علم بھی نہیں ہوتا اور اپنے زعم میں یہ لوگ مفکر اعظم بننے کی کوشش کرتے ہیں۔‬
‫‪.11‬گفتگو ہمیشہ کسی ایک موضوع پر کریں‪ ،‬نہ تو خود موضوع بدلیں اور نہ ملحد کو موضوع سے فرار کا موقع دیں۔ اگر‬
‫ملحد گفتگو کارخ موڑنا چاہے تو اسے فوراً ٹوک دیں اور اسے پابند کریں کہ وہ موضوع کے اندر رہتے ہوئے اپنا نکتہ نظر‬
‫بیان کرے۔‬

‫‪.12‬اگر بحث کے دوران کسی نکتے پر آپ کے پاس علم نہ ہو تو بحث بالجھجک کسی اہل علم کو اپنے وکیل کے طور پر‬
‫پیش کریں‪ ،‬ضروری نہیں ہوتا کہ آپ ہر اس سوال کا جواب دینے کی کوشش بھی کریں جو آپ کو معلوم نہ ہو۔ اس کا فائدہ تو‬
‫شائد کچھ نہ ہو مگر اس کے نقصانات متعدد ہیں۔‬

‫‪.13‬اور اگر آپ یہ محسوس کریں کہ ملحد دوران بحث فرار چاہ رہا ہے یا اس سے جواب نہیں بن رہا تو بجائے اس پر طنز و‬
‫تضحیک کرنے کے‪ ،‬ایک اچھے داعی کی طرح اسے پیار سےسمجھائیں۔‬

‫‪.14‬آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ملحدین عام طور پر اسالم سے متعلق کم علمی اور مغالطوں کا شکار ہوتے ہیں‪ ،‬نہ تو ان کے‬
‫پاس اسالم کا زیادہ علم ہوتا ہے نہ اسالم سے کوئی لگاؤ‪ ،‬بلکہ انہیں تو بس برین واش کیا گیا ہوتا ہے‪ ،‬طوطے کی طرح رٹی‬
‫رٹائی باتیں دہرانا ہی ان کا شیوہ ہے۔‬

‫‪.15‬ملحدین کے بیشتر اعتراضات وہ ہیں جو مستشرقین نے اسالم پر داغے ہیں‪ ،‬ملحد کوئی نئے قسم کے اعتراضات نہیں‬
‫کرتے بلکہ انہی اعتراضات کو بار بار دہرا کر عوام الناس کو بہکانے کی کوشش کرتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ آپ کو‬
‫تحریک استشراق‪ ،‬مستشرقین کے اعتراضات اور ان کے جوابات معلوم ہوں تاکہ آپ کو پہلے سے معلوم کہ ملحد فالں بات‬
‫کے بعد کیا بات کر ے گا اور تب اسے کیا جواب دیا جائے گا۔‬

‫‪.16‬اگر ہم ملحدین کے اعتراضات کی تقسیم کرنا چاہیں تو عقائد‪ ،‬قرآنیات‪ ،‬احادیث‪ ،‬تفاسیر‪ ،‬سیرۃ الرسول ﷺ‪ ،‬سیر‬
‫الصحابہ‪ ،‬ازواج مطہرات‪،‬عبادات‪ ،‬مالیات‪ ،‬تعلیمات‪ ،‬سماجیات‪ ،‬تاریخ‪ ،‬اخالقیات اور زندگی کے تقریبا تمام شعبوں میں تقسیم‬
‫کر سکتے ہیں اور ہمیں اپنے علمائے کرام کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انہوں نے ان تمام اعتراضات کا جواب پہلے ہی دے‬
‫دیا ہے۔ ہمیں نئے جوابات پیدا کرنے کی بجائے اپنے علمائے کرام کے پیش کردہ جوابات کو ہی نئے اسلوب میں پیش کرنا‬
‫چاہیے۔ ہاں البتہ اگر کہیں نئے جوابات کی ضرورت پیش آئے تو علمائے کرام کے پیش کردہ جوابات کےنکات کے ضمن‬
‫میں ضرور پیش کرنے چاہئیں۔ ہمارا مقصد اسالم کو درست طور پر ریپریزینٹ اور انٹرپریٹ کرنا ہونا چاہیے اور یہ جبھی‬
‫ممکن ہے جب ایک مسلمان گزشتہ چودہ سو سال کے آئمہ کرام کے علوم پر اکتفاء کرے۔‬

‫‪.17‬ملحدوں کے ساتھ تقریبا ہر دوسری بحث میں جو بات میں نے دیکھی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے مسلمان بھائی اور ملحدین‬
‫دونوں ہی اسالم اور الحاد کے اصولی اختالف سے ناواقف ہوتے ہیں اور ایسے نکات پر بحث کر رہے ہوتے ہیں جن کی‬
‫حیثیت ثانوی ہوتی ہے۔‬

‫‪.18‬بحث ہمیشہ اصولی اختالف میں کرنی چاہیے اور اگر اصول اور اصولی اختالفات طے ہو پائیں تو پھر ضمنی اور ثانوی‬
‫اختالفات از خود رفع ہو جاتے ہیں۔‬

‫‪.19‬ذہن نشین رکھیں کہ اہل مذہب کا اہل الحاد کے ساتھ بنیادی اور اصولی اختالف محض چند باتوں میں ہے‪ ،‬بقیہ اختالفات‬
‫انہیں کا شاخسانہ ہیں۔ وہ بنیادی اختالف مندرجہ ذیل سواالت میں ہیں‪:‬‬

‫(ا) علم کیا ہے؟‬

‫(ب) ذرائع علم کتنے اور کون کون سے ہیں اور ان کی حدود کیا ہیں؟‬

‫(ج) وحی ذریعہ علم ہے یا نہیں؟‬

‫(د) عقل کیا ہے‪ ،‬اس کی حدود کیا ہیں؟‬


‫(ہ) مابعد طبیعات ممکن ہے یا نہیں؟‬

‫(و) نظریات کے قابل قبول اور نامقبول ہونے کی بنیادی شرائط کا مآخذ کیا ہے؟‬

‫(ز) غرض ایسے چند ایک فلسفیانہ سواالت ہیں‪ ،‬اگر ان کے جوابات پر اتفاق رائے ہو جائے تو اہل مذہب اور اہل الحاد کے‬
‫اختالف کا علمی حل نکل سکتا ہے‪ ،‬اگر آپ مذکورہ ٰ‬
‫اولی علوم پر گرفت حاصل کر لیں تو ایسے مزیدفلسفیانہ سواالت اور ان‬
‫کے جوابات آپ ازخود سمجھ جائیں گے۔‬

‫تعالی‪ ،‬نبوت و رسالت‪ ،‬یوم آخرت‪ ،‬غیر مادی نوری و ناری مخلوقات‪ ،‬تقدیر وغیرہ جیسے موضوعات پر‬ ‫ٰ‬ ‫‪.20‬وجود باری‬
‫بحث صحیح صورت میں تب ہی آگے بڑھ سکتی ہے جب مذکورہ باال سواالت کی بنیاد پر بات آگے بڑھائی جائے‪ ،‬بصورت‬
‫دیگر دونوں فریقین وقت برباد کرنے کے سوا کچھ نہیں کریں گے۔‬

‫الحاصل یہ کہ نہ تو اہل مذہب اور اہل الحاد کے درمیان جنگ کوئی نئی جنگ ہے اور نہ ملحدین کے اعتراضات نئے ہیں۔ یہ‬
‫تمام باتیں فلسفے اور کالم کی کتب میں پہلے سے موجود ہیں‪ ،‬ضرورت بس اس امر کی ہے کہ ان کتب کا مطالعہ کیا جائے‬
‫تعالی سے ہدایت مانگ کر ان پر غور و فکر کیا جائے۔ ر ّد الحاد کے دوستوں سے خاص گزارش یہی ہے کہ اس‬ ‫ٰ‬ ‫اور ہللا‬
‫محاز پر کام کرنے کے لیے ہللا رب العزت کی مدد کا شامل حال ہونا الزمی ہے‪ ،‬ہللا سے خاص لو لگا کر رکھیں تاکہ‬
‫تشکیک سے بچ سکیں اور اپنے ایمان کو مضبوط رکھیں۔ اہل ہللا کی محافل میں شریک ہونا معمول بنائیں اور دین کو اس کے‬
‫مزاج کے مطابق سمجھنے اور عمل پیرا ہونے کی کوشش میں لگے رہیں‪ ،‬ان شاء ہللا ہللا پاک کی مدد شامل حال ہو گی۔‬

‫الجواب‪:‬‬
‫تعدد الزوجات شيء شرعه هللا لعباده مع القدرة‪ ،‬وفيه مصالح كثيرة للزوجين للرجال والنساء جميعا‪:‬‬
‫منها‪ :‬أن الرجل قد ال تعفه المرأة الواحدة‪ ،‬قد يكون كثير الشهوة شديد الشهوة فال تعفه الواحدة وال تعفه االثنتان وال تعفه الثالث‪،‬‬
‫فجعل هللا له طريقا إلى إعفاف نفسه بالطريق الحالل‪ ،‬من طريق أربع من النساء‪.‬‬
‫ومن ذلك أيضا‪ :‬ما في التمتع باألربع من قضاء الوطر وطيب النفس والبعد عن الفواحش‪ ،‬فإن هذا يعينه على غض بصره‪ ،‬وبعده‬
‫عما حرم هللا ‪.‬‬
‫ومن ذلك أيضا‪ :‬إعفاف الناس؛ فإنه ليس كل امرأة تجد رجال وحده قد يكون الرجال أقل من النساء وال سيما عند الحروب‪ ،‬والسيما‬
‫في آخر الزمان كما أخبر به النبي عليه الصالة والسالم‪ ،‬فمن رحمة هللا أن يكون للرجل أربع حتى يعف أربعا وينفق على أربع‪ ،‬ففي‬
‫هذا مصالح لجنس النساء أيضا‪ ،‬فإن وجود ربع زوج خير لها من عدم زوج بالكلية‪ ،‬يكون لها الربع أو الثلث أو النصف يكون خيرا‬
‫لها من العدم‪ ،‬ففي ذلك إعفافها‪ ،‬وفي ذلك أيضا اإلنفاق عليها وصيانتها والحياطة دونها‪.‬‬
‫ومن المصالح أيضا الكثيرة‪ :‬األوالد‪ ،‬وجود األوالد وكثرة النسل وتكثير األمة؛ ألن الرسول ﷺ قال‪ :‬تزوجوا الودود الولود فإني‬
‫مكاثر بكم األمم يوم القيامة وفي لفظ األنبياء يوم القيامة فوجود النسل وكثرة األوالد في هذه األمة أمر مطلوب مقصود‪.‬‬
‫وفي ذلك أيضا من المصالح األخرى أن في تزوج اإلنسان من هنا‪ ،‬ومن هنا‪ ،‬ومن هنا‪ ،‬وجود الترابط بين األسر والتعاون والتحاب‬
‫والتآلف؛ فيكثر الترابط بين المجتمع‪ ،‬والتعاون بين اإلنسان مع أنسابه وأصهاره في الغالب يتعاون معهم ويكون بينهم صلة مودة‬
‫وترابط يعين على أمور الدين والدنيا جميعا‪.‬‬
‫وقد بينا إن هذا من الحكمة تزوج النبي ﷺ من عدة قبائل حتى يكون يقصد بذلك انتشار اإلسالم بينهم وتعاونهم مع المسلمين‬
‫اب َل ُك ْم م َِن ال ِّن َسا ِء َم ْث َنى‬
‫وتأليف قلوبهم على اإلسالم بسبب مصاهرته للنبي عليه الصالة والسالم‪ ،‬وهللا جل وعال قال‪َ :‬فا ْن ِكحُوا َما َط َ‬
‫اع [النساء‪ ]3:‬فهذا كله فيه مصالح للجميع‪ ،‬مصالح للجنسين للرجال والنساء وتكثير األمة وعفة الفروج وغض األبصار‬ ‫ث َو ُر َب َ‬‫َو ُثاَل َ‬
‫واإلعانة على اإلنفاق على النساء المحتاجات‪ ،‬إلى النفقة والتقارب بين األسر‪ ،‬والترابط بين األسر والتحاب بين الجميع‪ ،‬فالمصالح‬
‫كثيرة كما سمعتم بعضها‪.‬‬
‫والواجب على النساء الصبر على الجارة والضرة‪ ،‬يجب على المرأة التي تؤمن باهلل واليوم اآلخر أن تصبر وأن تعلم أن هذا حق‬
‫للزوج‪ ،‬وأنه ال يجوز لها فعل ما ال ينبغي عند وجود زوجة ثانية ‪-‬ما دام يعدل ويؤدي الحق‪ -‬فعليها أن تصبر‪ ،‬وال يجوز لها أن تنفر‬
‫أو تطالب بالطالق‪ ،‬هذا ال يجوز لها ما دام الزوج قد أدى الحق الذي عليه‪ ،‬قد قسم بعدل‪ ،‬وأنفق بعدل‪ ،‬فليس لها حق أن تنازع أو‬
‫تطالب بالفراق أو تؤذيه حتى يفارق‪ ،‬ينبغي أن توجه وتعلم وترشد وتتزود بما ينبغي حتى تكون على بصيرة بشرع هللا في هذا‬
‫األمر‪.‬‬

‫ایک الحادی ریاست کی اصلیت۔۔۔۔‬

‫شمالی کوریا ٹوٹل ایک ملحد ملک ہے۔‬


‫جس میں لوگ اپنی مرضی کے کپڑے نہیں پہن سکتے۔‬
‫اپنی مرضی کے بال نہیں کٹوا سکتے۔‬
‫اپنی مرضی کا لٹریچر نہیں پڑھ سکتے۔‬
‫اپنی مرضی سے انٹرنیٹ استعمال نہیں کر سکتے۔‬
‫اپنی مرضی سے کسی ملک میں سفر نہیں کر سکتے۔‬
‫اپنی مرضی سے اپنی سواری نہیں خرید سکتے۔‬
‫اپنی مرضی کا ٹی وی چینل نہ بنا سکتے ہیں نہ دیکھ سکتے ہیں۔‬
‫اپنی مرضی سے غیر ملکی موویز نہیں دیکھ سکتے اور موسیقی نہیں سُن سکتے۔‬
‫اپنی مرضی سے پراپرٹی نہیں خرید سکتے۔‬
‫اپنی مرضی سے کوئی بھی مذہب اختیار نہیں کر سکتے۔‬
‫گورنمنٹ کے خالف احتجاج نہیں کر سکتے۔‬
‫موجودہ صدر کے مقابل الیکشن نہیں لڑ سکتے۔‬
‫غرض یہ کہ المحدود پابندیاں ہیں۔‬

‫اب دوٹکے کے مغربی غالظت ذدہ فارمی لبرل اور ملحدین ہمیں یہ کہہ کر طعنہ دیتے ہیں کہ اسالم (‪)Stick and carrot‬‬
‫سے لوگوں کو غالم بناتا ہے۔‬
‫‪#‬ڈنڈا‬

‫انسانیت آٹے کے ایک تھیلے کے لیے کیوں دربدر بھٹک رہی ہے؟‬

‫اگر ہللا تعالی ایک الکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کو نہ بھیجتا تو عبدالستار ایدھی بھی نہ ہوتا‬
‫عبدالستار ایدھی کو عبدالستار ایدھی ملحدین کے افکار نے نہیں بنایا بلکہ ایک الکھ چوبیس ہزار پیغمبروں پر کامل ایمان‬
‫رکھنے والی اس قوم نے بنایا ہے جس نے آخری نبی کی مقدس تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے اپنی زکوۃ‪ ،‬صدقات‪ ،‬عطیات‪،‬‬
‫خیرات‪ ،‬اور قربانی کی کھالیں اس کی رفاہی خدمات کے لیے وقف کر کے اسے "موالنا" عبدالستار ایدھی کے نام سے‬
‫شناخت عطا کی۔‬
‫لیکن اکیسویں صدی میں آٹے کے ایک تھیلے کے لیے دربدر بھٹکتی انسانیت کا سب سے بڑا سوال یہ نہیں ہے کہ اس کے‬
‫پاس دو چار عبدالستار ایدھی اور کیوں نہیں ہیں؟‬
‫*بھوکی انسانیت کا سب سے بڑا سوال یہ ہے* کہ دنیا کی سترہ تہذیبوں میں انسان کبھی روٹی سے محروم نہیں رہا‪ ،‬لیکن‬
‫عہد حاضر میں آخرکیوں انسانیت روٹی سے محروم ہے؟‬
‫ورلڈ فوڈ آرگنائزیشن کے مطابق ‪ 2008‬میں دنیا کی تاریخ میں سب سے زیادہ غلہ پیدا ہوا لیکن تاریخ انسانی میں کبھی غلہ‬
‫اس قدر مہنگا نہیں فروخت کیا گیا جس قدر آج ہے۔ اس دور میں انسانی ضرورت سے بہت زیادہ غلہ پیدا ہونے کے باوجود‬
‫انسانیت آٹے کے ایک تھیلے کے لیے صرف اس لئے دربدر بھٹک رہی ہے کہ غذائی اجناس کی قیمتوں میں بالوجہ اور بے‬
‫دریغ اضافے کے باعث لوگوں کی قوت خرید ختم ہوگئی ہے۔‬
‫‪#‬گیارہ برس پہلے ‪19‬جون ‪2009‬ء ‪ DAWN‬کی رپورٹ کے مطابق صورتحال یہ تھی کہ ترقی یافتہ ممالک میں ‪ 15‬ملین‬
‫افراد بھوک کا شکار تھے اور اس کی وجہ پیغمبروں کی تعلیمات نہیں ہیں بلکہ الحادی ذہنیت سے جنم لینے والی وہ مادہ‬
‫پرست فکر ہے جس کے نتیجے میں زیادہ سے زیادہ نفع کمانے کے لئے دنیا کے چھ ہزار ارب پتی خاندان غلے کا مصنوعی‬
‫بحران پیدا کرتے ہیں اور بھوکے لوگوں کی قطاریں دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کہ اب ان کے غلے کی قیمتیں بڑھ جائیں گی‪،‬‬
‫چاہے قیمتوں میں اضافے کی خاطر انہیں اگلے ایک دو سال کے لیے کافی ہو جانے والی وافر گندم کے ذخائر کو ہی سمندر‬
‫برد کیوں نہ کرنا پڑے۔‬
‫اب ‪#‬سوال یہ ہے کہ بھوکی انسانیت کو دربدر پھرانے والی اس عالمی حرص و حوس کا دنیا سے خاتمہ کیسے ہوگا؟‬
‫ملحدین کے افکار سے یا انبیاء کی تعلیمات سے؟‬

‫ندیم الرشید‬ ‫🏻✍‬

‫پروفیسر ڈاکٹر مشتاق‬


‫علماے کرام اور سماجی تبدیلی‬
‫‪----------------‬‬
‫وہ پوچھ رہے ہیں کہ علماے کرام کیوں سماجی تبدیلی کو بہت مشکل سے قبول کرتے ہیں اور پھر آخر میں مان ہی جاتے ہیں‬
‫تو شروع میں کیوں نہیں مانتے؟ وہ اس ضمن میں الؤڈ سپیکر‪ ،‬تصویر اور اسی نوعیت کی دوسری مثالیں پیش کرتے ہیں۔‬
‫جنھوں نے سوال کیا ہے‪ ،‬انھوں نے تو نہیں ماننا لیکن عام لوگوں کو چونکہ اس پروپیگنڈے سے غلط فہمی کا امکان ہے‪ ،‬اس‬
‫پیش خدمت ہیں‪:‬‬
‫لیے ان کی آسانی کی خاطر چند نکات ِ‬
‫ٰ‬
‫‪1‬۔ سب سے پہلی بات جو سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ علماے کرام کو ہللا تعالی نے بہت بھاری ذمہ داری دی ہے اور وہ یہ‬
‫تعالی کی شریعت کو اس کی اصل صورت میں محفوظ رکھ کر اگلی نسل تک پہنچائیں۔ اس لیے وہ ایک دوسرے کی‬ ‫ٰ‬ ‫کہ ہللا‬
‫گرفت بھی کرتے رہتے ہیں‪ ،‬اپنے اساتذہ سے بھی اختالف کرتے ہیں جہاں ضرورت پڑے‪ ،‬اور شریعت کے نام پر پیش کی‬
‫جانے والی کسی بھی نئی راے کو تنقیدی نظر سے دیکھتے ہیں۔ کسی بھی نئی راے کےلیے ان کا پہال مفروضہ انکار کا ہی‬
‫ہوتا ہے اور یہ ہر قانونی نظام میں ان افراد ‪ ،‬یا اداروں ‪ ،‬کا ہوتا ہے جن کا کام قانون اور نظام کی حفاظت ہوتی ہے۔ ذرا‬
‫معلوم کیجیے نا کہ امریکی سپریم کورٹ کے سامنے جب یہ سوال آیا‪ ،‬جی ہاں سپریم کورٹ کے سامنے‪ ،‬کہ کیا نوٹ سے‬
‫قرض کی ادائیگی ہوجاتی ہے تو اس نے کیا فیصلہ دیا؟ اس کا پہال فیصلہ یہی تھا کہ امریکی دستور میں قرض کی ادائیگی‬
‫کی جو ذمہ داری عائد کی گئی ہے وہ سونے کی صورت میں ادائیگی سے تو پوری ہوجاتی ہے لیکن نوٹ سے وہ ادائیگی‬
‫نہیں ہوتی۔ پھر یہ بھی معلوم کیجیے کہ اس فیصلے کی تبدیلی کےلیے بینکاروں نے کس بڑے پیمانے پر تحریک چالئی (میں‬
‫سازش کا لفظ استعمال نہیں کروں گا) اور امریکی صدر کو کتنے پاپڑ بیلنے پڑے (یہاں تک کہ سپریم کورٹ میں ججز کی‬
‫تعداد میں بھی اس نے تبدیل کرلی)‪ ،‬تب کہیں جاکر امریکی سپریم کورٹ نے مان لیا کہ نوٹ سے بھی ادائیگی ہوجاتی ہے۔‬
‫یہاں لوگ کہتے ہیں کہ علماے کرام پہلے یہ فتوی دیتے تھے کہ روپوں سے زکاۃ ادا نہیں ہوتی اور بعد میں انھوں نے مان‬
‫لیا! بھئی‪ ،‬بعد میں اس لیے مانا کہ ریاست نے جبر کے ذریعے سونے کے سکے ختم کردیے اور جبر ہی کے ذریعے روپے‬
‫نافذ کردیے۔ جب حالت تبدیل ہوگئی تو حکم بھی تبدیل ہوگیا۔‬
‫‪2‬۔ علماے کرام جانتے ہیں کہ مجبوری کی حالت میں ‪ ،‬یا حاالت تبدیل ہونے کے نتیجے میں‪ ،‬حکم تبدیل ہوسکتا ہے لیکن اس‬
‫کےلیے پہلے یہ تو ثابت کرنا پڑے گا نا کہ واقعی مجبوری کی وہ صورت پیدا ہوگئی ہے ‪ ،‬یا حاالت میں تبدیلی کی وہ قسم‬
‫وجود میں آگئی ہے‪ ،‬جس کے بعد حکم تبدیل ہوجاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہاں بھی پہال مفروضہ انکار کا ہی ہوتا ہے۔ پھر علماے‬
‫کرام اس کے عالوہ یہ بھی جانتے ہیں کہ مجبوری میں ہر حکم معطل نہیں ہوسکتا بلکہ بعض احکام مجبوری میں بھی برقرار‬
‫رہتے ہیں۔ کیا آپ نے کبھی اپنی عدالتوں سے اس قسم کا اعالن نہیں سنا کہ عدل کے تقاضے پورے کیے جائیں گے ‪ ،‬خواہ‬
‫آسمان گرے! (‪)Let justice be done though the heavens fall‬‬
‫‪3‬۔ علماے کرام اپنی اصل ذمہ داری کے شعور اور اضطرار میں حکم کی تبدیلی کا فہم رکھنے کے باوجود یہ بھی جانتے ہیں‬
‫کہ جب کوئی ناپسندیدہ کام بہت زیادہ پھیل جائے اور اس کی ممانعت میں اس سے بڑے شر کے وجود کا قوی اندیشہ ہو‪ ،‬تو‬
‫زیادہ بڑے شر سے بچنے کےلیے اس چھوٹے شر کو برداشت کیا جاسکتا ہے کیونکہ جب ضرر پھیل جائے تو ہلکا ہوجاتا‬
‫عموم بلوی کا تصور یہی ہے۔‬
‫ِ‬ ‫ہے۔‬
‫‪4‬۔ یہ تین باتیں واضح ہوں تو الؤڈ سپیکر‪ ،‬تصویر وغیرہ کسی مسئلے میں علماے کرام کے رویے کا فہم مشکل نہیں رہتا۔‬
‫الؤڈ سپیکر کو ہی لے لیجیے۔ جب تک یہ واضح نہیں ہوا تھا کہ الؤڈ سپیکر سے نکلنے والی آواز مشین کی آواز نہیں بلکہ‬
‫امام ہی کی آواز ہے جسے یہ مشین بلند کرکے دور تک پہنچا رہی ہے‪ ،‬تب تک کیسے الؤڈ سپیکر پر امام کی امامت کو جائز‬
‫مانا جاسکتا تھا؟ پھر جب یہ بات واضح ہوگئی تو کسی کو اعتراض بھی نہیں رہا۔ اسی طرح علماے کرام کے نزدیک تصویر‬
‫کےلیے اصل حکم حرمت کا ہے اور اسی کے وہ آج بھی قائل ہیں۔ البتہ جب شناخت کےلیے مجبوری کی بات کی گئی تو‬
‫مجبوری کی حد تک اسے برداشت کیا گیا۔ اس کے بعد جب ڈیجیٹل تصویر کا مسئلہ آیا تو کچھ تو اس کے جواز کے قائل اس‬
‫بنا پر ہوئے کہ ان کے نزدیک اس پر حرمت کا حکم الگو ہی نہیں ہوتا لیکن اس کے باوجود وہ آج تک اس سے گریز کرتے‬
‫عموم‬
‫ِ‬ ‫آئے ہیں اور اسے ناپسند کرتے ہیں۔ فیس بک پر فتنۂ تصویر میں مبتال دوسرے اور تیسرے درجے کے علما نے اسے‬
‫بلوی کے اصول کے تحت برداشت کیا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض مولوی ایسے بھی ہیں جو اس فتنے میں کچھ زیادہ ہی‬
‫مبتال ہوگئے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ ان کا عمل کوئی سند نہیں رکھتا۔‬
‫‪5‬۔ آخری بات یہ ہے کہ اگر علماے کرام بھی شاعروں اور ادیبوں کی طرح انفعالی مزاج رکھتے ہوتے تو موسم کی تبدیلی‬
‫کے ساتھ ہی شریعت کا حکم تبدیل ہوتا رہتا‪ ،‬اور پھر پاکستان میں کیا حشر ہوتا جہاں بقول وزیر اعظم کے‪ ،‬موسم بھی بارہ‬
‫ہیں! (جنرل ضیاء کے دور میں بعض امور پر کسی کی کیا راے تھی اور پھر ان تمام امور میں جنرل مشرف کے دور میں‬
‫وہ راے کیوں تبدیل ہوئی‪ ،‬اس پر کسی اور وقت گفتگو کریں گے‪ ،‬ان شاء ہللا۔) علماے کرام کا کام سیالبی ریلے کی رو میں‬
‫بہنا نہیں بلکہ اس ریلے کا رخ موڑنا ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ انھوں نے ہر موڑ پر یہ کام احسن طریقے سے سرانجام دیا‬
‫ہے۔ آج بھی اس وطن میں دین جس شکل میں بھی‪ ،‬جتنا بھی‪ ،‬باقی ہے‪ ،‬انھی درویش صفت علماے کرام کے دم سے ہے‬
‫جنھوں نے ہر طعنہ سہہ کر‪ ،‬ہر خوف پر حاوی ہو کر اور ہر اللچ کو ٹھکرا کر ہمیشہ وہی کہا ہے‪ ،‬اور ڈنکے کی چوٹ پر‬
‫کہا ہے‪ ،‬جسے انھوں نے شریعت کا حکم سمجھا ہے۔‬

‫"دنیا چاند پر پہنچ گئی اور مولوی کو وضو کے مسائل سے فرصت نہیں"‬

‫یہ فراڈ نما طنز آپ اکثر سنتے ہوں گے۔ دنیا تو واقعی چاند پر پہنچ گئی جب کہ ہم جھگ مارتے رہ گئے‬

‫پر قصور کس کا ہے؟‬

‫مولوی کا؟‬

‫یہ فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں۔۔۔‬


‫زیر نظر ان دو تصاویر کو غور سے دیکھیے۔ ایک تصویر میں‪ ،‬پاکستان کے مایہ ناز ڈیٹا سائنٹسٹ‪ ،‬ذیشان الحسن عثمانی‬
‫صاحب‪ ،‬برطانیہ کے سابق وزیراعظم گارڈن براؤن کے ساتھ میٹنگ میں مصروف نظر آرہے ہیں۔ ذیشان الحسن عثمانی‬
‫صاحب باریش اور ‪ practicing‬مسلمان ہیں۔ جناب اس وقت ایک بڑے آن الئن پلیٹ فارم‪ ،‬جسکا نام ‪ Al-Nafi‬ہے‪ ،‬پر کام‬
‫کررہے ہیں جو دور جدید کے سب سے ایڈوانسڈ موضوعات جیسے کہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس‪ ،‬بالک چین ٹیکنالوجی‪ ،‬مشین‬
‫لرننگ وغیرہ پر انتہائی کم فیس میں کورسز کروارہا ہے۔ حال ہی میں‪ ،‬ذیشان صاحب نے ڈیجیٹل پاکستان ‪ initiative‬کے‬
‫حوالے سے کچھ تجاویز دی تھیں جو انتہائی وائرل ہوتے ہوئے مس تانیہ ایدروس تک پہنچ گئیں تھیں۔ انھوں نے ذیشان‬
‫صاحب کو مالقات کے لیے دعوت بھی دی اور انکی تجاویز پر مفصل گفتگو بھی کی گئی۔‬

‫یہ ایک "مولوی ٹائپ" مسلمان کے تھوڑے بہت ‪ contributions‬تھے جن کا یہاں ذکر کیا۔‬

‫دوسری تصویر میں‪ ،‬ایک لبرل و دین بیزار فزکس پروفیسر‪ ،‬ہود بھائی موجود ہیں جو عورت مارچ میں پشتون فیمینزم کے‬
‫حق میں پلے کارڈ اٹھائے‪ ،‬فزکس کی تعلیم کو عام کرنے اور چاند و مریخ پر پہنچنے کی عمدہ کوششوں میں مشغول ہیں۔ یہ‬
‫شخص آپکو اسالم کے خالف کیے جانے والے ہر مارچ‪ ،‬ہر مباحثے میں‪ ،‬صف اول میں نظر آئے گا۔‬

‫مجھے اسکی چوائس کی قطعی پرواہ نہیں۔ پر بات یہ ہے کہ اسکا کام فزکس ہے‪ ،‬سائنس ہے‪ ،‬نہ کہ سماجی مسائل۔‬

‫اگر ہمارا سائنسدان‪ ،‬اپنا کام چھوڑ کر‪ ،‬سڑکوں اور مباحثوں میں اسالم کے خالف اپنا بغض نکالتا رہے گا‪ ،‬تو سائنس کون‬
‫پڑھائے گا؟‬

‫ایک طرف باریش‪ ،‬مولوی ٹائپ سائنٹسٹ ہے‪ ،‬دوسری طرف کلین شیو‪ ،‬دین بیزار فزکس کا پروفیسر ہے‬

‫چاند پر جانے میں رکاوٹ کون ہے؟‬

‫فیصلہ آپ خود کرلیجیے۔۔۔!!!‬

‫‪.‬‬

‫*مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ االقدس کی سوشل میڈیا کے بارے میں اہم تحریر ۔*‬

‫سوشل میڈیا‪ ،‬فتنہ الحاد‪ ،‬اور ہماری زمہ داری‬

‫ایک طویل مگر نہایت اہم تحریر جسے خود بھی پڑھیں اور شئیر بھی کری‬

‫ایک مسلمان کیلئے اوالد صرف ایک دنیوی نعمت ہی نہیں بلکہ آخرت کا سرمایہ اور بہترین صدقہ جاریہ ہے۔‬

‫ب ایمان ہو۔‬
‫بشرطیکہ کہ وہ صاح ِ‬

‫سوشل میڈیا کے اس دور میں ایمان کے ڈاکو کس طرح خاموشی سے ہماری آئندہ نسلوں کو الحاد یا ‪( Athiesm‬خدا کے‬
‫وجود سے انکار) کی طرف دھکیل رہے ہیں‪ ،‬اس کی تفصیل اس تحریر میں پیش کی جائیگی۔‬

‫بظاہر پڑھائی اور اینٹرٹینمنٹ کیلئے اپنی ناسمجھ اوالدوں کو اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ تک غیر محدود رسائی دینے والے‬
‫والدین بالخصوص اس تحریر کو پڑھیں‬

‫ممکن ہے کہ خدا ناخواستہ آپکی اوالد اس فتنے کی زد میں آکر ایمان سے ہاتھ دھونے کے قریب ہو اور آپ بالکل العلم ہوں۔‬
‫کراچی‪ ،‬الہور‪ ،‬اسالم آباد اور پاکستان کے دیگر شہروں میں اس وقت ملحدین (خدا کے وجود سے انکاری) کی تعداد سوشل‬
‫میڈیا کے ذریعے تیزی سے بڑھ رہی ہے‬

‫اور اسکا شکار عام مسلمان گھرانوں کے ‪ 20-15‬سال کے بچے بچیاں ہو رہے ہیں‪.‬‬

‫اسکی ایک دو نہیں سینکڑوں مثالیں ہیں اور علماء کرام دن رات اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں‬

‫معاملہ یہ ہے کہ۔۔۔۔۔‬

‫سوشل میڈیا‪ ،‬بالخصوص فیس بک‪ ،‬انسٹاگرام‪ ،‬اور ٹویٹر پر ایسے سینکڑوں اکاؤنٹس ہیں جنکا کام دن رات سائنسی بنیادوں پر‬
‫خدا کے وجود سے انکار‪ ،‬دین اسالم کے مختلف احکام کا مذاق اڑانا‪ ،‬حضور اقدسﷺ کی حیات طیبہ کے مختلف پہلوؤں‬
‫پر اعتراض‪ ،‬اور علماء کی تضحیک ہے۔‬

‫ان میں سے اکثر کا تعلق یورپ اور امریکہ میں قائم مختلف این جی اوز سے ہے جنکا مقصد ہی یہ ہے۔‬

‫عام طور سے انکے نام اس انداز کے ہوتے ہیں‬

‫‪Ex-Muslims Together‬‬
‫‪Atheist Muslims‬‬
‫‪Muslims Liberated‬‬
‫‪Muslim Awakening‬‬
‫‪Islam Exposed‬‬

‫ان کے کارکنان اور انکی تعلیمات سے اتفاق رکھنے والے سینکڑوں لڑکے اور لڑکیاں (جو انہی ممالک میں مقیم اور جن میں‬
‫سے اکثر دین سے مکمل ناآشنا اور مغربی تعلیمی نظام کی پیداوار ہیں) پاکستان‪ ،‬بنگلہ دیش‪ ،‬متحدہ عرب امارات‪ ،‬سعودی‬
‫عرب اور دیگر مسلمان ممالک کے نوجوانوں راغب کرنے میں مصروف رہتے ہیں‬

‫یہ بظاہر مسلمانوں کے نام سے اکاؤنٹس رکھتے ہیں مگر فکری طور پر ملحدین ہوتے ہیں‬

‫طریقہ واردات کچھ یوں ہوتا ہے کہ۔۔۔۔‬

‫‪ -‬ابتداء اسالم پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاتا بلکہ مختلف اسالمی احکام کو سائنس اور الجک کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے۔‬
‫جان بوجھ کر ایسے دینی موضوعات پر بات کی جاتی ہے جو سائنس سے بھی ثابت شدہ ہیں‪.‬‬

‫اس طرح یہ ذہن سازی کی جاتی ہے کہ احکام دین سب کے سب سائنس سے مطابقت رکھتے ہیں اور جس چیز کی تصدیق‬
‫سائنس کردے وہ یقینا ً حق ہے‬

‫‪ -‬اسکے بعد ایسے موضوعات کو کریدا جاتا ہے جو سائنس سے باالتر ہیں‪ ،‬مثآل وجود خدا‪ ،‬وحی کا علم‪ ،‬واقعہ معراج‪ ،‬وغیرہ‬
‫جنکا تعلق خالصتا ً ایمان بالغیب سے ہے‪ ،‬جو یقینا ً حق ہیں مگر سائنس کی دسترس سے باہر ہیں‬

‫مگر چونکہ ذہن سازی یہ کی گئی ہے کہ معیار حق سائنس ہے‪ ،‬چنانچہ ان کلیدی عقائد کو مشکوک کیا جاتا ہے‬

‫‪ -‬اسکے بعد معاملہ آگے بڑھتا ہے۔۔۔۔‬


‫‪-‬‬
‫اور بات حضور اقدسﷺ کی ذاتی زندگی پر آتی ہے‬

‫ان معامالت کو غلط انداز میں پیش کیا جاتا ہے جنکی وضاحت عام ذہنی سطح سے نسبتا ً بلند ہو‬

‫مثالً‪ ،‬غالمی کا فلسفہ‪ ،‬مرد عورت میں مساوات‪ ،‬حضور اقدسﷺ کی شادیاں اور باندیاں‪ ،‬تعدد ازدواج‪ ،‬سیدہ عائشہ صدیقہ‬
‫رض کی بوقت نکاح عمر وغیرہ‬
‫ایک راسخ العقیدہ مسلمان کیلئے یہ معامالت واضح ہیں لیکن کچے ذہن کے مسلمان بچے بچیاں جو دین سے العلم اور مغربی‬
‫طرز زندگی سے مرعوب ہیں انکے لئے یہ باتیں نہایت پریشان کن اور ناقابل فہم ہیں‬

‫اور چونکہ دین اور علمائے دین سے تعلق ہے نہیں اسلئے قابل تشفی جواب کا کوئی راستہ نہیں‬

‫نتیجتا ً وہ گوگل اور انٹرنیٹ سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں جہاں انہی ملحدین کی مختلف ویب سائٹس انکے شکوک کو یقین‬
‫میں بدل دیتی ہیں‬

‫اس کے بعد ایمان تیزی سے رخصت ہوتا ہے‬

‫حج اور قربانی سے لیکر نکاح اور وراثت کے احکام تک اسالم کے ہر ہر حکم کو مغرب کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے اور‬
‫باآلخر اسے ایک من گھڑت مذہب قرار دیکر خاموشی سے ترک کردیا جاتا ہے (العیاذ باہلل)‬

‫حضور اقدسﷺ کی شان میں گستاخی اور خدا کے وجود سے انکار کا مرحلہ اسکے بعد‬
‫ِ‬ ‫‪ -‬کھلم کھال اسالم کا مذاق اڑانا‪،‬‬
‫آتا ہے‬

‫پھر یہ بچے بچیاں بھی خاموشی سے ایسی تنظیموں کے آالئے کار بن جاتے ہیں اور اپنے دوست احباب کو دین سے متنفر‬
‫کرتے ہیں‬

‫یہ سب کچھ خاموشی سے ہمارے گرد بیٹھے ‪ 25-15‬سال کے نوجوان ‪ ،Twitter‬فیس بک وغیرہ پر کررہے ہیں‬

‫لیکن ہم بے خبر ہیں‬

‫سوال یہ ہے کہ اپنی اوالد کو اس سے کیسے بچایا جائے‬

‫اس سلسلے میں مندرجہ زیل امور کا خیال رکھیں‬

‫ٰ‬
‫تعالی سے اپنے اور اپنی اوالد کیلئے سالمتی ایمان اور استقامت کی دعا کا اہتمام کریں‬ ‫‪ -‬ہللا‬

‫بزرگان دین کی صحبت میں لے جاتے رہیں تاکہ وہ ان سے‬


‫ِ‬ ‫‪ -‬خود بھی اور اوالد کو بھی وقتا ً فوقتا ً علماء کرام کی مجالس اور‬
‫مانوس ہوں اور اپنے معامالت میں ان سے رہنمائی حاصل کریں‬

‫‪ -‬اوالد کو خود سے قریب کریں ‪،‬پیار دیں‪ ،‬انکے مسائل کو سنیں‪ ،‬سمجھیں اور حل کریں۔ ان سے اپنے معامالت میں مشورہ‬
‫کریں‪ ،‬انکو اپنا رازدار بنائیں‬

‫اگر آپ انہیں دور رکھیں گے تو گمراہکن گروہ ان کو آسانی سے اپنے قریب کرلیں گے‬

‫‪ -‬اپنے دین کو آہستہ آہستہ سیکھیں اور گھر میں اسکا تذکرہ رکھیں‬

‫‪ -‬اگر بچے چھوٹے ہیں تو دنیوی تعلیم کے ساتھ انکی دینی تعلیم و تربیت کی بھی فکر کریں‬

‫‪ -‬بغیر ضرورت شدیدہ بچوں کو اسمارٹ فون نہ دیں اور نہ خود رکھیں‬

‫‪ -‬اگر دینا پڑے‪ ،‬تو شرائط کے ساتھ دیں‪ ،‬بے وقت استعمال پر پابندی رکھیں‪ ،‬رات کو تمام گھر کے فون اپنے کمرے میں‬
‫جمع کوائیں‪ ،‬انکو اسکے صحیح استعمال کا طریقہ بتائیں‬

‫‪ -‬بے وجہ سوشل میڈیا پر وقت گزارنے خود بھی بچیں اور اوالد کو بھی بچائیں‬

‫‪ -‬بچوں کے سامنے ہر وقت فون استعمال کرنے سے گریز کریں‬


‫‪ -‬کسی بھی شک یا وضاحت طلب معاملے میں انٹرنیٹ کی بجائے مستند علماء دین سے رہنمائی حاصل کریں‬

‫ایمان کو سالمتی کے ساتھ قبر میں لے جانا ایک مسلمان کی سب سے بڑی کامیابی ہے‬

‫اپنی اوالد کو ایمان کے ڈاکوؤں سے بچائیں تاکہ ہماری آئیندہ نسلوں میں بھی دین باقی رہے‬
‫ٰ‬
‫تعالی حفاظت فرمائے‪ ،‬آمین۔‬ ‫ہللا‬

‫قانون وراثت اور مغربی توہمات‬ ‫ِ‬ ‫اسالم کا‬


‫مغربی دنیا کا مشہور انقالب (انقالب فرانس‪ ) French revolution/‬کا اصل مقصد یہ تین نمائشی اصول ہیں‬
‫‪)1‬مساوات(‪)equality‬‬
‫‪)2‬آزادی (‪)freedom‬‬
‫‪)3‬ترقی (‪)development‬‬
‫مغرب اور مغرب کی مقلدین ان اصول میں پہال اصل "مساوات" کو بنیاد بنا کر دین اسالم پر بے جاہ متعصبانہ وار کرنے‬
‫لگتے ہیں کہ اسالم کا یہ فیصلہ "ل َِّلذ َکر م ِۡث ُل َح ِّظ ااۡل ُ ۡن َث َی ۡی ِن" مساوات کے خالف ہے اور اور عورت کے ساتھ ُ‬
‫ظلم اور نا انصافی‬ ‫ِ‬
‫ہے(معاذہللا)‬
‫چنانچہ تونس میں‪ 2017‬کی قانون سازی کرتے ہوئے مرد و عورت کو برابر حصہ ملنے کا بل بھی پیش کیا جا چکا ہے‬

‫لہذا اس موضوع پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں تاکہ مغربی دانستہ توہمات اور ہمارے مسلمانوں کا کم فہمی و غلط فہمی کا‬
‫تدارک ممکن ہو سکے اور واضح ہوجائے کہ کیا واقعی ہر حال میں مرد عورت سے دوگنا حصہ لیتا ہے؟‬
‫ترجیح زیادت و کمی "ذکورۃ" اور "انوثت" ( مرد اور عورت ہونا) ہرگز نہیں ہے‬
‫ِ‬ ‫ت حصص اور وجوہ‬ ‫اسالم میں تفاو ِ‬
‫اسالم میں صرف تین وجوہ اور معیارات پر زیادہ اور کم میراث دینے کا فیصلہ ہوتا ہے اور وہ معیارات اور وجوہ یہ ہیں ‪:‬‬
‫‪)1‬قرابت (رشتہ داری ‪ /‬جو زیادہ قریب ہو وہ زیادہ لے گا)‬
‫‪)2‬جس وارث کو زندگی کا سامنا ہو یعنی زمانی طبقے میں جو کم زمانے واال ہو اس کو زیادہ ملے گا‬
‫‪)3‬یہ وہ معیار ہے جس میں پہلے دونوں معیارات برابر ہو یعنی میت(فوت شدہ) کے ورثاء قرابت میں بھی برابر ہو اور‬
‫زمانی طبقہ بھی ایک ہو‬
‫مذکورہ تین معیارات سے عورت کی ‪ 34‬حاالت نکل آتی ہیں‬
‫‪ 10‬احوال میں عورت مرد کی برابر حصہ لے گی‬
‫‪ 10‬احوال میں عورت مرد سے زیادہ حصہ لے گی‬
‫‪ 10‬احوال میں عورت حصہ لے گی اور مرد کو بلکل نہیں ملے گا‬
‫‪ 4‬احوال میں عورت بنسبت مرد آدھا حصہ لے گی‬
‫آیۃ کریمہ "للذکر مثل حظ االنثیین" کا مصداق صرف تیسرا معیار ہے اور ان ‪ 34‬حاالت میں صرف چار حالتیں ہیں جس میں‬
‫مرد کو بنسبت عورت دوگنا حصہ ملتا ہے‬

‫امثلہ برائے تفہیم ‪:‬‬


‫وہ حالت جس میں برابر حصہ ملتا ہے‪:‬‬
‫میت نے ایک بیٹی اور باپ چھوڑا اور ‪100‬روپے ترکہ ہے‬
‫بیٹی(عورت) کو نصف ‪ 50‬ملیں گے اور باپ (مرد) کو سدس اور تعصیب کے ساتھ ‪ 50‬ملیں گے ۔‬
‫وہ حالت جس میں عورت کا حصہ مرد سے زیادہ ہے ‪:‬‬
‫میت( فوت شدہ) نے ایک بیٹی اور ماں باپ چھوڑا اور ترکہ ‪ 100‬روپے ہے بیٹی(عورت) کو ‪ 50‬روپے ملیں گے باپ‬
‫(مرد) کو ‪ 33.33‬ملیں گے اور ماں کو ‪ 16.67‬ملیں گے‬
‫وہ حالت جس میں عورت حصہ لے گی مگر مرد بلکل نہیں لے سکتا ‪:‬‬
‫میت (فوت شده ) نے ایک بیٹی اور ایک بہن چھوڑا اور ایک باپ شریک بھائی ترکہ ‪ 100‬روپے ہیں‬
‫تو ‪ 50‬بیٹی (عورت) کو اور باقی ‪ 50‬بہن (عورت) کو اور باپ شریک بھائی(مرد) کو کچھ نہیں ملے گا۔‬
‫وہ حالت جس میں عورت کو بنست مرد آدھا حصہ ملتا ہے‪:‬‬
‫میت(فوت شدہ) نے ایک بیٹی اور ایک بیٹا چھوڑا اور ‪ 100‬روپے ترکہ ہے تو بیٹے کو ‪ 66.67‬روپے ملیں گے اور بیٹی کو‬
‫‪ 33.33‬ملیں گے‬

‫اب چونکہ یہ چار حالتیں عامۃ الوقوع اور اور اکثر سامنے آتی ہیں تو اسکی وضاحت بھی کر لیتے ہیں تاکہ آیۃ کریمہ کا‬
‫صحیح فہم اور ادراک ممکن ہو‬
‫دین اسالم نے عورت کو دیگر اعزازات کے ساتھ یہ اعزاز بھی دیا ہے کہ مرد پر عورت کا نفقہ الزم قرار دیا ہے (خواہ‬ ‫ِ‬
‫عورت مرد سے زیادہ صاحبہ استطاعت کیوں نہ ہو)‬
‫اب آیۃ کریمہ"حظ االنثیین" کا مفہوم بلکل واضح طور پر سامنے آتا ہے کہ کہ مرد کو دو عورتوں کا سامنا پڑتا ہے "بہن" اور‬
‫"بیوی"‪ ،‬شادی سے پہلے "بہن" کا اور شادی کے بعد "بیوی" کا اور عورت دو مردوں سے نفقہ لیتی ہے وہ یہ کہ شادی سے‬
‫پہلے بھائی اور شادی کے بعد شوہر سے‬
‫اب بآسانی معلوم ہوا کہ مرد دو عورتوں( بہن اور بیوی) پر خرچ کرتا ہے اور اور عورت دو دو مردوں(بھائی اور شوہر )‬
‫سے خرچ لیتی ہے‬
‫ان چار حالتوں میں ظاہری تو مرد کا حصہ دوگنا لگتا ہے لیکن حقیقت میں یہ حصہ بھی عورت ہی کا ہے "للذکر مثل حظ‬
‫ٰ‬
‫تعالی نے عورتوں کی حقوق کیلئے نازل فرمایا ہے ۔۔۔‬ ‫االنثیین" کو ہللا‬

‫مغرب کی کوششیں چند سال پہلے صرف مساوات تک آ پہنچی مگر اسالم نے چودہ سو سال پہلے مساوات سے بڑھ کر‬
‫برتری دی ہے ۔‬

‫مساوات کا غیر معقول اور غیر فطری نعرہ لگانے والے کبھی سوچ لیا کرے کہ جب سے دنیا بنی ہے اور نوع انسانی تشکیل‬
‫پا چکی ہے تب سے عورتیں ہی بچے پیدا کر رہی ہیں کبھی اس نعرے کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش تو کیا کریں اور یہ‬
‫ذمہ داری اپنے کندھوں پر لے لیں تب نفس االمری مساوات(‪ )on tha ground equality‬دیکھ پا سکیں گے ۔‬

‫نوٹ‪ 34 :‬احوال میں ‪ 10/10/10/4‬کا صرف ایک ایک مثال لکھا ہے تحریر میں تمام تر احوال لکھنا ممکن نہیں ہے‬
‫نوجوان فاضل علی محمد شوقی نے اپنی کتاب "اتحاف الکرام" میں ‪ 140‬حالتیں اور ‪ 586‬صورتیں بیان کیے ہیں ۔‬

‫(بشکریہ موالنا حبیب ہللا حقانی دامت برکاتہم العالیہ۔)‬

‫ٰ‬
‫مقتدی و رہنما کو " موالنا " کہنے کا حکم*‬ ‫*علمائے کرام اور دینی‬

‫الجواب حامدا و مصلیا۔۔۔۔‬

‫واضح رہے بھیجی گئی تحقیق نامکمل اور ناقص ہے‪ ،‬اس میں ایک پہلو کو زیادہ نمایاں کیا گیا ہے دوسرے پہلو کو بیان نہیں‬
‫کیا گیا‪ ،‬لہذا ذیل میں اس لفظ کی مکمل تحقیق اور اس کا حکم ذکر کیا جاتا ہے۔‬
‫ٰ‬
‫مولی " عربی زبان کا لفظ ہے‪ ،‬اس کا مفہوم وسیع ہے اور یہ لفظ‬ ‫"‬
‫عربی زبان میں متعدد معنوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔‬
‫مثالً‪:‬آزاد کردہ غالم۔‬
‫دوست۔‬
‫ٰ‬
‫مقتدی و رہنما‬
‫مددگار اور‬
‫سردار وغیرہ‬
‫لہذا موقع محل کے اعتبار سے ان معنوں کی تعیین کی جائے گی۔‬
‫تعالی کی طرف ہوگی تو اُس سے مراد مددگار کے معنی ہوں گے‪ ،‬جب اس کی نسبت‬
‫ُ‬ ‫ٰ‬ ‫ٰ‬
‫مولی " کی نسبت ہللا تبارک و‬ ‫جب"‬
‫اپنے کسی قریبی عزیز کی طرف ہوگی‪ ،‬تو دوست کے معنی میں استعمال ہوگا۔‬
‫مولی سے مراد رہنما اور سردار ہوتا ہے‪ ،‬اس لفظ کے‬ ‫ٰ‬ ‫مقتدی کی طرف نسبت ہوگی ‪،‬تو‬‫ٰ‬ ‫اور جب کسی رہنما‪ ،‬بڑے بزرگ یا‬
‫آخر میں جو " نا " کا اضافہ کر کے " موالنا " کہا جاتا ہے‪ ،‬اس کا معنی ہے ہمارے بڑے۔ چنانچہ علماء کو جو موالنا کہا‬
‫ٰ‬
‫مقتدی و پیشوا؛ ٰلہذا اِس معنی کی رو‬ ‫مقتدی کے معنی مد نظر ہوتے ہیں اور اس کا معنی ہوتا ہے " ہمارے‬ ‫ٰ‬ ‫جاتا ہے اُس میں‬
‫ً‬
‫سے کسی عالم یا بزرگ کو موالنا کہنے میں شرعا کوئی حرج نہیں ہے‪ ،‬اِس میں شرک وغیرہ کا کوئی شائبہ نہیں پایا‬
‫جاتا؛کیونکہ " مولی " جب مخلوق کے لئے استعمال ہو‪ ،‬تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو خالق کے لئے استعما ل‬
‫کرتے وقت سمجھے جاتے ہیں‪ ،‬مزید یہ کہ صدیوں سے علماء کے طبقہ میں اِس لفظ کا استعمال بال روک ٹوک کے جاری‬
‫ہے۔‬
‫نیز احادیث میں بھی غیرہللا کے لیے لفظ ”موالنا“ کا استعمال ہوا ہے ۔‬

‫*لما فی سنن الترمذی‪*:‬‬


‫" عن أبی سریحة‪ ،‬أو زید بن أرقم ‪ -‬شک شعبة ‪ -‬عن النبی صلی ہللا علیہ وسلم قال‪ :‬من کنت موالہ فعلی موالہ ‪ :‬ہذا حدیث حسن‬
‫غریب‪".‬‬
‫(سنن الترمذی ‪ ، ۲۱۲/ ۲ :‬أبواب المناقب ‪ /‬مناقب علی بن أبی طالب )‬

‫*وفی مسند اإلمام أحمد بن حنبل‪*:‬‬


‫" عن ریاح بن الحارث‪ ،‬قال‪ :‬جاء رہط إلی علی بالرحبة فقالوا‪ :‬السالم علیک یا موالنا قال‪ :‬کیف أکون موالکم وأنتم قوم عرب؟‬
‫قالوا‪ :‬سمعنا رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم یوم غدیر خم یقول‪ " :‬من کنت موالہ‪ ،‬فإن ہذا موالہ " قال ریاح‪ :‬فلما مضوا تبعتہم‪،‬‬
‫فسألت من ہؤالء؟ قالوا‪ :‬نفر من األنصار فیہم أبو أیوب األنصاری ‪".‬‬
‫( مسند اإلمام أحمد بن حنبل‪ ، ۵۴١ / ٣٨ :‬الناشر‪ :‬مؤسسة الرسالة)‬

‫*وفی روح المعانی ‪*:‬‬


‫" َأ ْن َ‬
‫ت َم ْوالنا أی مالکنا وسیدنا‪ ،‬وجوز أن یکون بمعنی متولی األمر وأصلہ مصدر أرید بہ الفاعل‪.‬‬
‫(روح المعانی ‪ ۶٨ /٢:‬الناشر‪ :‬دار الکتب العلمیة ‪ -‬بیروت)‬

‫*وفی مرقاۃ المفاتیح ‪*:‬‬


‫" وفی الریاض عن رباح بن الحارث قال‪ :‬جاء رہط إلی علی بالرحبة فقالوا‪ :‬السالم علیک یا موالنا‪ ،‬فقال کیف أکون موالکم وأنتم‬
‫عرب؟ قالوا‪ :‬سمعنا رسول ہللا ‪ -‬صلی ہللا علیہ وسلم ‪ -‬یقول یوم غدیر خم‪ " :‬من کنت موالہ فعلی موالہ " قال رباح بن الحارث‪:‬‬
‫فلما مضوا تبعتہم فسألت من ہؤالء؟ قالوا‪ :‬نفر من األنصار فیہم أبو أیوب األنصاری؟ أخرجہ أحمد‪".‬‬
‫مشکوۃ المصابیح ‪ ،۹۴۱۱/ ۳ :‬ط‪:‬دار الکتب العلمیة بیروت)‬ ‫ٰ‬ ‫( مرقاة المفاتیح شرح‬

‫*وفی المرقاۃ ایضا ‪*:‬‬


‫وفی النہایة‪ :‬المولی یقع علی جماعة کثیرة فہو الرب والمالک والسید والمنعم والمعتق والناصر والمحب والتابع والخال وابن العم‬
‫والحلیف والعقید والصہر والعبد والمعتق والمنعم علیہ‪ ،‬وأکثرہا قد جاء ت فی الحدیث فیضاف کل واحد إلی ما یقتضیہ‪.‬الحدیث‬
‫الوارد فیہ"‪.‬‬
‫(مرقاة المفاتیح‪ ، ۷۴۱۱/ ۲ :‬ط‪:‬دار الکتب العلمیة بیروت)‬

‫*وفی الفتاوی الہندیۃ ‪*:‬‬


‫" ولو قال ألستاذہ موالنا ال بأس بہ وقد قال علی ‪ -‬رضی ہللا عنہ ‪ -‬البنہ الحسن ‪ -‬رضی ہللا عنہ ‪ -‬قم بین یدی موالک عنی أستاذہ‪.‬‬
‫وکذا ال بأس بہ إذا قال لمن ہو أفضل منہ‪".‬‬
‫(الفتاوی الہندیة‪) ٣٧٨ /۵ :‬‬

‫ٰ‬
‫تعالی اعلم بالصواب‬ ‫وہللا‬
‫داراالفتاء و التحقیق‪ ،‬کراچی‬

You might also like