Professional Documents
Culture Documents
4614 2
4614 2
رهی یہ بات کہ ( قرآن نے صاف طور سے جانشین پیغمبر Uصلی ہللا علی ہ وآلہ وسلم کے نام کا ذکر کیوں نہ کردیا ) تو اس کے جواب میں پہلی بات یہ
کهی جاتی هے کہ قرآن کا اصول یہ هے کہ وہ مسائل کو ایک اصل کی شUUکل میں بیUUان کرتUUا هے۔ دوسUUرے نہ پیغمUUبر اسUUالم (صUUلی ہللا علیہ وآلہ
وسلم) اور نہ خداوند عالم کا منشاء یہ تھا کہ یہ مسئلہ جس میں آخرکار هوا وهوس کے دخUUل کUUا امکUUان هے۔ اس صUUورت سUUے سUUامنے آئے اگUUر
چہ( جو کچھ ذکر کیا گیا) اس میں بھی لوگوں نے اپنی طرف سے توجیہ و اجتہاد کرکے یہ کہنا شروع کردیا کہ نهیں پیغمبر اکرم (صUUلی ہللا علیہ
وآلہ وسلم) کا مقصد اصل میں یہ تھا اور وہ تھا۔ یعنی اگر کوئی آیت بھی ( اس مسئلہ میں نام کی صراحت کے ساتھ ) ذکر هوئی هوتی تUUو اس کی
"ھ Uذا علیبھی توجیہ اپنے مطلب کے مطابق کردی جاتی۔ پیغمبر Uاکرم (صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ارشUUاد میں پUUوری صUUراحت کے سUUاتھٰ
موالہ" فرمایا ،اب اس سے زیادہ صریح اور واضح با ت کیا هوسکتی هے؟! لیکن بہر حال پیغمUUبر اکUUرم (صUUلی ہللا علیہ وآلہ وسUUلم) کے صUUریحی
ارشاد کو زمین پر دے مارنے اور قرآن کی ایک آیت سUے نUام کی صUراحت کے بUاوجود پیغمUUبر اسUالم (صUلی ہللا علیہ وآلہ وسUلم) کے دنیUا سUے
اٹھتے هی انکار کردینے اوراس کی غلط توجیہ کرنے میں بڑا فرق هے۔ چنUUانچہ میں اس جملہ کUUو کتUUاب ( خالفت و والیت ) کے مقUUدمہ میں نقUUل
کرچکا هوں کہ ایک یهودی نے حضرت امیر المومنین (علیہ السالم) کے زمانہ میں صدر اسالم کے ناخوش آئند حUUاالت کے بUUارے میں مسUUلمانوں
حتی اختلفتم فیہ"" ابھی تم نے اپنے پیغمبر صلی پر طنز کرنا چاہا ( اور حقیقتا ً یہ طنز کی بات بھی هے ) اس نے حضرت سے کہا :مادفنتم نبیّکمٰ U
ہللا علی ہ وآلہ وسلم کو دفن بھی نهیں کیا تھا کہ ان کے بارے میں جھگڑنے Uلگے۔ امیر المومنین( Uعلیہ السالم) نے عجیب جواب دیا۔ آپ علیہ السالم
ولکنّکم ما جفّت ارجلکم من البحر حتّ ٰی قلتم لنبیّکم اجعل لنا ٰالہً کما لھم الھۃً فقال انّکم قوم تجھلUUون۔[]5ہم نے پیغمUUبرU
نے فرمایا :انّما اختلفنا عنہ ال فیہ ٰ
کے بارے میں اختالف نهیں کیا بلکہ ہمارا اختالف اس دستور و حکم کے سلسلہ میں تھUUا جUUو ان کے ذریعہ ہم تUUک پہنچUUا تھUUا ،لیکن ابھی تمہUUارے
پاؤں دریا کے پانی سے خشک بھی نہ هوئے تھے کہ تم نے اپنے پیغمبر سے یہ تقاضہ کردیا کہ وہ دین کی پہلی اور بنیادی اصل یعنی توحیUUد کUUو
هی غارت کردے ،تم نے اپنے نبی سUے یہ خUواہش ظUاہر کی کہ دوسUروں کے خUداؤں کی طUرح ،ہمUارے لUئے بھی ایUUک بت بنUادو۔ پس جUUو کچھ
تمہارے یہاں گزرا اور جو ہمارے یہاں پیش آیا ان دونوں میں بہت فرق هے۔ دوسرے لفظوں میں ہم نے خود پیغمبر صلی ہللا علی ہ وآلہ وسلم کے
بارے میں اختالف نهیں کیا بلکہ ہمارا اختالف یہ تھا کہ پیغمبر صلی ہللا علی ہ وآلہ وسلم کے اس دستور کا مفهوم Uاور مطلب کیا هے۔ بڑا فرق هے ان
دونوں باتوں میں کہ جس کام کو انھیں بہر حال انجام دینا تھا۔ اس کی توجیہ ظاہر میں اس طرح هو (نہ یہ کہ حقیقتاً Uایسا هی تھا ) کہ یہ کہUUا جUUائے
( جو لوگ اس خطا کے مرتکب Uهوئے ) ان کا خیال یہ تھا کہ اصل میں پیغمبر(ص) کا مقصود یهی تھUUا نUUتیجہ میں انهوں نے آنحضUUرت کے قUUول
کی اس شکل میں توجیہ کر ڈالی یا یہ کہا جائے کہ اتنی صریح اور واضح قرآن کی نص کو ان لوگوں نے ٹھکرادیا یا قرآن کی تحریف کرڈالی۔
سوال:فالں ڈاکٹر صاحب نے جو سوال دریافت فرمایا هے اسے میں اس صUورت میں پیش کررہUا هوں کہ یہ صUحیح هے کہ قUرآن میں اصUل اور
بنیادی قانون هی بیان هونا چاہئے لیکن جانشینی کی اصل اور اسالم میں حکومت Uکا مسئلہ تUUو مسUUلم طUUور پUUر بUUڑی اہمیت کUUا حامUUل هے۔ اس لUUئے
چاہئے یہ تھا کہ قرآن میں نام کا ذکر هونے کی حیثیت سے نهیں بلکہ ایک دستور العمل کی حیثیت سے اس مسئلہ کو واضح طور سے بیان کردیتا
هے۔ مثالً پیغمبر Uصلی ہللا علی ہ وآلہ وسلم کو یہ وحی هوجاتی کہ تمیہں اپنا جانشین معین کرنا هے۔ اور تمہارا نائب بھی اپنا جانشین خود معین کرے
ٰ
شوری ) سے هوگا یا انتخاب سے هوگUUا ۔ یعUUنی اسUUالم گا۔ اور یوں هی یہ سلسلہ آخر تک قائم رہتا۔ یا دستور یہ هوتا کہ جانشین کا انتخاب مشورہ (
جیسے دین کے لئے جس میں حکومت و حاکمیت Uالزم و ضروری هے جانشینی کا مسئلہ کوئی ایسی معمولی بات نهیں هے جسUUے اپUUنے حUUال پUUر
چھوڑدیا جائے اور اس کی وضاحت نہ کی جائے۔ کوئی نہ کوئی جانشینی Uکا دستور تو هونUUا هی چUUاہئے تھUUا۔ مسUUئلہ یہ نهیں هے کہ حضUUرت علی
(علیہ السالم) کے نام کا ذکر کیا جاتا یا نہ کیا جاتا۔ بلکہ جانشینی و حکومت Uکے طریقہ کار سے متعلق اس قدر اختالفات کو دیکھUUتے Uهوئے ایUUک
مستقل دستور العمل کی ضرورت بہر حال محسوس هوتی هے کہ اے پیغمبر Uصلی ہللا علی ہ وآلہ وسلم! تمہارا فرض هے کہ اپنا جانشین مقرر کردو۔
اب یہUUاں ممکن هے یہ اختالف هوتUUا کہ کUUون جانشUUین هے مختلUUف تفسUUیریں کی جUUاتیں۔ لیکن یہ بUUات تUUو قطعی اور یقیUUنی هوتی کہ اپنUUا جانشUUین
شوری سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اسی طرح جانشین پیغمبر Uاپنے بعد اپنا ٰ پیغمبر Uصلی ہللا علی ہ وآلہ وسلم نے خود معین فرمایا تھا۔ اس کا مسلمانوں کی
جانشین یا امام مقرر کرتا۔ یا لوگوں کا گروہ اس کا انتخاب کرتا یا پھر لوگ اس سلسلہ میں مشورہ کرتے؟ بہر حال میری دانست میں یہ قضیہ قرآن
کی روشنی میں بھی مبہم رہ گیا هے۔ اور ہمارے پاس اس سلسلہ میں کوئی صریحی دستورالعمل موجود نهیں هے۔
دوسرے یہ کہ میں نے کچھ عرصہ پہلے اسالم میں حکومت" Uکے موضوع پUر ایUک کتUاب دیکھی جس میں خUود حضUرت علی (علیہ السUالم) اور
دیگر اشخاص کے بہت سے اقوال نقل هیں ،جن سے پتہ چلتا هے کہ یہ امر (یعنی امر خالفت) عام مسلمانوں سUے مربUUوط هے اور مسUلمانوں کUUو
اس میں فیصلہ کا حق هے۔ ارباب حل و عقد کو اپنی رائے دینا چاہئے۔ امر خالفت میرا مسئلہ نهیں هے۔ ان لوگوں کو مشورہ کرنا چاہئے اور اپنی
رائے پیش کرنی چاہئے ،نیز مصنف نے ایسے بہت سے دالئل اکٹھUا کUئے هیں جUUو ثUUابت کUرتے هیں کہ اسUUالم میں حکUومت UکUا مسUئلہ ایUUک امUUر
انتخابی هے۔ نہ کہ تعیینی Uکسی کو یہ حق نهیں هے کہ وہ اپنا جانشین خود مقرر کرے اس سلسلہ میں آپ کیافرماتے هیں؟
تیسرے یہ کہ اگر ہم فرض کرلیں کہ یہ بارہ امام جانشین کے عنوان سے یکے بعد دیگر معین هوئے هیں (اس سUUے بحث نهیں کہ وحی کے ذریعہ
معین هوئے یا کسی اور ذریعہ سے) یہ بتائیں کہ اسالمی معاشرہ میں ہمیشہ کے لئے کلی و قطعی طور پUUر جانشUUین کے تعUUیین کUUا ( نہ کہ انتخUUاب
کا) کیا اصول یا قانون هے۔ یعنی Uکیا پہلے سے یہ کہا جاچکا تھا کہ وحی ٰالهی کے مطابق صرف یہ بUUارہ ائمہ (علیہم السUUالم) جUUو ان خصوصUUیات
کے حامل یعنی معصUUوم و……هیں یکے بعUد دیگUر ے تعUUیین هوں گے اورا س کے بعUد زمUUانٔہ غیبت میں مثالً یہ مسUUئلہ انتخUUاب کے ذریعہ حUل
هوگا؟ کیا اس کی وضاحت کی گئی هے ؟ یہ استنباط تو خUود ہمUUاری طUUرف سUے هے کہ چUونکہ اس وقت بUUارھویں امUUام (علیUه السUالم) حاضUر و
موجود نهیں هیں لہٰ ذا حکومت Uکا سربراہ مجتہد جامع الشرائط هوگا یا نہ هوگا۔ لیکن قرآن کو ایک بنیادی دسUUتور العمUUل مسUUلمانوں کے حUUوالہ کرنUUا
چاہئے کہ (پیغمبر اکرم (صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم) کے بعد شروع میں) ہم چند معصوم اشخاص کو خصوصی طUUور سUUے تم پUUر حUUاکم مقUUرر کUUریں
گے۔ ان کے بعد تم خود اپنے باہمی مشوروں سے ( کسی کا انتخاب کUUرو ) یUUا فقیہ جUUامع الشUUرائط تم پUUر حUUاکم هوگUUا۔ یہ مسUUئلہ بھی گیUUارھوں امUUام
کےبعد سے الجھ جاتا هے اور پھر اشکاالت و اختالفات اٹھ کھڑے هوتے هیں شیعی نقطٔہ نظر سے اس مسئلہ کا کیا حل هے؟
جواب :ان سواالت کے جوابات ایک حد تک ھم گذشتہ جلسوں میں عرض کرچکے هیں۔آپ نے مسئلہ امامت کو دوبارہ اٹھایUUا هے۔ وہ بھی صUUرف
مسئلہ حکومت Uکی شکل میں۔ ہم گزشتہ ہفتوں میں عرض کرچکے هیں کہ مسئلہ حکومت Uمسئلٔہ امامت سے الUUگ هے۔ اور شUUیعی نقطٔہ نظUUر سUUے
امام کی موجودگی میں حکومت Uکا مسئلہ ویسا هی هے جیسا پیغمبر اکرم (صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں تھUا۔ یہUاں حکUومت UاسUتثنائی حکم
رکھتی هے۔ یعنی جس طرح پیغمبر Uصلی ہللا علی ہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں یہ مسئلہ نهین اٹھتا کہ پیغمبر Uصلی ہللا علی ہ وآلہ وسلم کے هوتے هوئے
حکومت کس کی هوگی یوں هی امام( یعنی Uاس مرتبہ کا امام جس کے شUUیعہ قائUUل هیں) کی موجUUودگی اور اس کے حضUUور میں بھی حکUUومت کUUا
مسئلہ ایک فرعی اور طفیلی حیثیت سے زیادہ وقعت نهیں رکھتا۔ اگر ہم مسئلہ حکومت کو بالکل الگ کرکے پیش کریں تو یہ ایUUک عالحUUدہ مسUUئلہ
هے۔ یعنی ایسے زمانہ میں جس میں امام کا وجود هی نہ هو (اور ایسا کوئی زمانہ هے هی نهیں) یا پھر امام غیبت میں هو تUUو ایسUUی صUUورت میں
ٰ
شوری بینھم" کہاں عمل میں آئے گUUا؟ ٰ
شوری بینھم" کے منکر نهیں هیں۔ لیکن یہ" امرھم البتہ یہ ایک بنیادی مسئلہ بھی هے۔ اسی بناپر ہم ":امرھم
شوری اس مسئلہ میں بھی کار فرما هوگی جس میں قرآنی نصّ موجUUود هے اور فUUرائض و وظUUائف روشUUن و واضUUح هیں؟ ظUUاہر هے کہ ایسUUا ٰ کیا
شوری ان مراحل کے لئے هے جہاں نہ کوئی حکم ٰالهی موجود هو اور نہ کوئی دستور ہم تک پہنچا هو۔ ٰ نهیں هے۔ بلکہ
رهی "حکومت Uدر اسالم " نامی کتاب میں تحریر مسائل کی بUUات ،البتہ میں نے اس پUUر کامUUل تحقیUUق نهیں کی هے افسUUوس کی بUUات یہ هے کہ اس
کتاب میں اول تو زیادہ تر مسائل یک طرفہ بیان هوئے هیں یعنی دالئل کے ایک رخ کو لکھا گیا هے اور ان کے مخUUالف دالئUل کUUا کUUوئی ذکUر هی
نهیں هے اور یہ اس کتاب کا بہت بڑا عیب هے کیونکہ انسان اگر کچھ لکھتا هے تو اسے ہر پہلUUو کUUو مUUد نظUUر رکھنUUا چUUاہئے اس کے بعUUد دیکھنUاU
چاہئے کہ ان تمام دالئل میں کون سی دلیلیں وزنی اور معتبر Uهیں؟ کسے اپنانا چاہئے اور کسے چھوڑنا چاہئے۔؟
اس کتاب کا دوسرا عیب یہ هے کہ اس میں مطالب بیان کرنے کے سلسلہ میں قطع و برید سے کام لیا گیا هے (اگر چہ میں نے خUUاص طUUور سUUے
اس کتاب کا مطالعہ نهیں کیا هے ،لیکن جن اہل نطر افراد نے اسے پڑھا هے۔ وہ یهی کہتے هیں کہ) اس نے جملوں کو ادھر اُدھUUر سUUے کUUاٹ کUUر
درمیان سے اپنے مطلب کی بات نقل کی هے۔ نتیجہ میں جملہ کا مفهوم هی بدل گیا هے۔ اگر پوری بات نقل کی جاتی تUUو کبھی یہ معUUنی و مقصUUود
ظاہر نہ هوتے۔ اس کے عالوہ ان دالئل کا بڑا حصہ ان مسائل سے مربوط هے جو امUUام کی موجUUودگی اور ان کے حضUUور کے زمUUانہ سUUے تعلUUق
ٰ
شوری و انتخاب کی اہمیت سے کسی کو انکار نهیں هے۔ نهیں رکھتے ،اور امام کی عدم موجودگی یا غیبت میں
یک ئ ت ن خ تق ع ق غ ن
ع
()20 ے۔ برص ی ر می ں لوم ال رآن کے ار اء اور لماء کی دمات پر وٹ حریر ج سوال مب ر4۔
تعالی نے نبی ﷺ کی بعثت Uبا سعادت کے جو مقاصد بیان فرمائے ہیں ،ان میں امت کو آیات قرآنیہ کی تالوت کے ساتھ ساتھ ان ٰ قرآن حکیم میں ہللا
کے معانی کے بارے میں تعلیم دینا بھی شامل تھا۔ آج ہمارے پاس جس طرح قرآن صامت موجود ہے ،اسی طرح قرآن ناطق یعنی آپ ﷺ کی
صحابہ نے اور پھر تابعین اور تبع
ؓ بتالئی ہوئی تشریحات بھی اسی طرح محفوظ ہیں جس طرح آپﷺامت کو دے کر گئے تھے۔ آپ ﷺ کے بعد
تابعین نے قرآن مجید اور اس کی تعلیمات Uکو دنیا کے کونے Uکونے میں اس طرح پھیالیا جس کی نظیر پیش کرنے سے تاریخ انسانی قاصر ہے۔
قرآن حکیم نے جہاں اہل عرب کو اپنے جیسا کالم پیش کرنے سے عاجز کر دیا ،وہاں ما فرطنا فی الکتاب شئ( االنعام )۳۸/اور ونزلنا علیک
الکتاب تبیانا Uلکل شئ و ھدی و رحمۃ و بشری للمسلمین( النحل)۸۹/کہہ کر اقوا م عالم کو علوم و معارف کے ان پوشیدہ خزانوں سے روشناس
کرایا جس کے بعد کرہ ارض کی جاہل ترین قوم کا شمار مہذب ترین قوموں میں ہونے لگا اور وہ کرہ ارض کے تخت و تاج کے وارث بھی بنے۔
علوم و فنون اور معارف قرآنیہ کی نشرو اشاعت آپ ﷺ کے ارشادات مبارکہ کی بدولت ہوئی جن میں علم کے حصول اور نشرو اشاعت کو
فضیلت اور برتری کا معیار قرار دیا گیا ہے۔ آپ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے :خیرکم من تعلم القرآن و علمہ( )۱( تم میں سب سے بہتر وہ ہے جس
نے قرآن کو سیکھا اور دوسروں کو سکھایا)۔ آپ ﷺکا ارشاد گرامی ہے:
’’سیکھو قرآن اور اس کو پڑھو۔ قرآن پڑھنے اور سیکھنے والے کے لیے قرآن کی مثال ایسے ہے جیسے مشک بھری ہوئی تھیلی کہ اس کی
خوشبو تمام مکا ن میں پہنچتی ہے۔ اس شخص کی مثال جس نے قرآن سیکھا اور سکھایا اور وہ اس کے سینے میں محفوظ ہے ،اس تھیلی کی
مانند ہے جو مشک پر باندھی گئی ہے‘‘ ()۲
آپ ﷺ کے ان ارشادات کی بدولت علمائے اسالم نے قرآن حکیم کو اپنی تحقیق کا مرکز و محور بنایا اور بہت سے علوم و فنون کی بنیادڈالی۔
قرآن حکیم اور اس سے متعلقہ علوم مثالً اسباب نزول آیات ،جمع قرآن ،ترتیب قرآن ،علم ترجمہ ،علم تفسیر ،علم الخط والرسم،علم النحو
والصرف ،تالوت وتجوید،محکم و متشابہ ،ناسخ و منسوخ ،معرفت سور مکیہ و مدنیہ وغیرہ پر اس قدر لکھا گیا کہ کسی دوسری آسمانی کتاب
پر نہیں لکھا گیا۔
کرام تھے جو خالص عرب اور اہل زبان ہونے کی وجہ سے قرآن کے اسلوب اور اس کی دالالت کو اچھی آپ ﷺکے اولین مخاطب صحابہ ؓ
کرام موجود تھے اور قرآن ان کے سامنے نازل ہو رہا تھا ،لہٰذا نزول قرآن کی
طرح جانتے تھے۔ مزید یہ کہ نزول قرآن کے وقت خود صحابہ ؓ
صحابہ واقف تھے ،بعد کا کوئی شخص ان کی ہمسری کا ؓ کیفیت U،آیات کے سبب نزول اور ناسخ و منسوخ وغیرہ امور سے جس درجے میں
صحابی پر اعتماد کیا جاتا ہے ۔عالمہ ابن
ؓ قول بعد کے احادیث کی ٰ
دعوی نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ تفسیر قرآن کے سلسلے میں نبی کریمﷺ
تیمیہ نے لکھا ہے :
’’و حینئذ اذا لم نجد التفسیر فی القرآن وال فی السنۃ رجعنا فی ذلک الی اقوال الصحابۃ فانھم ادری بذلک لما شاھدوہ من القران واالحوال التی اختصوا
بھا ولما لھم من الفھم التام والعلم الصحیح‘‘۔ ()۳
صحیح بخاری میں حضرت ابن مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں حضور ﷺ کے ساتھ مدینے Uکے ایک باغ میں تھا اور آپﷺ کھجور
کی ایک شاخ کا سہارا لیے کھڑے تھے۔ یہودیوں کا ایک گروہ اس طرف سے گزرا۔ ان میں سے کسی نے کہا کہ آپ سے روح کے متعلق
دریافت کیا جائے۔ بعض نے کہا کہ ان سے مت پوچھو۔ وہ کوئی ایسی بات فرمائیں گے جو تمھیں ناگوار گزرے گی ،مگر وہ لوگ آپ کے سامنے
آگئے اور کہا ،اے ابو القاسم! ہمیں روح کے بارے میں بتائیے۔ Uآپ ﷺ نے سنا اور کچھ دیر خاموش دیکھتے رہے۔ میں سمجھ گیا کہ آپ ﷺ پر
وحی نازل ہو رہی ہے۔ پس میں پیچھے ہو گیا یہاں تک کہ وحی ختم ہوئی۔ پھر آپ نے یہ آیت تالوت فرمائی :یسئلونک Uعن الروح قل ھو امر ربی
(االسرا( )۸۵/لوگ آپ سے روح سے متعلق پوچھتے ہیں۔ کہہ دیجئے کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے) ( )۴
اس سے معلوم ہو اکہ جب آپ ﷺ پر یہ آیت نازل ہوئی ،اس وقت حضرت عبدہللا بن مسعودؓ بنفس Uنفیس موجود تھے اور ان سے بہتر اس آیت کے
ٰ
دعوی کیا۔ صحیح مسلم میں روایت ہے: سبب نزول کو کوئی نہیں جان سکتا۔ حضرت عبدہللا بن مسعود نے بھی بعد میں یہ
’’عن عبدہللا قال والذی ال الہ غیرہ ما من کتاب ہللا سورۃ اال انا اعلم حیث نزلت وما من آیۃ اال انا اعلم فیم انزلت و لو اعلم احدا ھو اعلم بکتاب Uہللا
منی تبلغہ االبل لرکبت Uالیہ‘‘ ()۵
اس طرح جب بھی قرآنی آیات کو سمجھنے میں صحابہ کرام کو مشکل پیش آتی تو نبی ﷺ اس کی تبیین فرما دیتے ،کیونکہ آپ پر ہللا کی طرف
تعالی ہے:
ٰ سے تبیین کتاب کا فریضہ عائد کیا گیا تھا۔ ارشاد باری
مفسرین نے لتبین للناسکی تفسیر میں لکھا ہے کہ اس سے مراد آپﷺ کا قرآن میں مجمل مقامات کی وضاحت اور اس میں وارد ہونے والے
اشکاالت کو دور کرنا ہے۔ ()۶
خالصہ کالم یہ کہ عہد نبوی میں علوم القرآن کو نبیﷺ کے بنفس نفیس موجود ہونے کی وجہ سے تحریری صورت میں النے کی ضرورت
محسوس نہ ہوئی اور جہاں کہیں کوئی دشواری صحابہ کرام کوپیش آتی ،نبی کریم ﷺ خود اس کا حل فرمادیتے۔
علوم قرآنیہ کے تدریجی ارتقا اور اس ضمن میں علمائے اسالم کی مساعی اور عرق ریزی کااگر سرسری جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ
عثمان کے زمانے میں قرآن با ضابطہ طور پر جمع ہوا اور جس خط میں وہ لکھا گیا ،وہ رسم عثمانی کے نام سے مشہور ہوا۔ اس طرح ؓ حضرت
علی
خط کوفی ،خط نسخ ،خط ثلث ،خط نستعلیق Uوغیرہ کی ترویج ہوئی اور کتابت نے ایک مستقل فن کی شکل اختیار کر لی ()۷۔ جب حضرت ؓ
کا دور آیا تو انہوں نے قرآن حکیم کو عجمی اثرات سے محفوظ رکھنے اور تالوت قرآن میں سہولت کے پیش نظر ابواالسوالدؤلی سے نحو کے
قواعد مرتب کروا کر اعراب القرآن کی بنیاد ڈالی۔ اس کو ابتدائے علم اعراب قرآنی کہہ سکتے ہیں۔()۸
صحابہ ایک دوسرے سے معانی قرآن اور تفسیری مطالب دریافت کرتے تھے ۔ قرب رسول اور ذکاوت ؓ رسول ہللا ﷺ کے زمانہ مبارک میں ہی
کرام کو معانی و معارف میں دسترس حاصل تھی ،وہ
طبعی کے تفاوت کی بنا پر فہم قرآن میں تمام صحابہ کرام برابر نہ تھے ،لہٰذا جن صحابہ ؓ
االشعری ،
ؓ موسی
ٰ کعب ،ابو
عباس ،ابی بن ؓ
ؓ دوسروں کو قرآن حکیم سمجھاتے تھے۔ ان میں خلفائے راشدین کے عالوہ عبدہللا بن مسعودؓ ،عبدہللا بن
زبیر شامل ہیں۔()۹
ؓ اور عبدہللا
کرام سے قرآن اور اس کے علوم و معارف کو سیکھا۔ ان میں سعید بن جبیر (م۹۵
صحابہ کے بعد تا بعین کا طبقہ ہے جنھوں نے مشاہیر صحابہ ؓ
ؓ
مولی ابن عباس( م ۱۰۷ھ) ،قتادہ بن دعامۃ السدوسی ( م۱۱۷ھ) ،عبدہللا بن عامر الیحصبی (۱۱۸ھ ،عطاء بن
ٰ ھ)،مجاہد بن جبر (م ۱۰۳ھ) ،عکرمہ
ابی مسلم خراسانی (م۱۳۵ھ) نے علم تفسیر ،علم اسباب نزول ،علم مقطوع Uو موصول قرآن ،علم ناسخ و منسوخ Uاور علم غریب قرآن کی اساس
فراہم کی ۔()۱۰
اس کے بعد علما نے باقاعدہ تفاسیر ترتیب دیں جن میں تفسیر ابن جریر طبری ،تفسیر زمخشری ،تفسیر فخرالدین رازی ،تفسیر نسفی ،تفسیر
الخازن ،تفسیر Uابن حیان ،تفسیر بیضاوی ،تفسیر Uالجاللین ،تفسیر قرطبی ،تفسیر آلوسی قابل ذکر ہیں۔()۱۱
علوم القرآن کی مختلف انواع پر مستقل تالیفات کا سلسلہ دوسری صدی ہجری میں شروع ہو چکا تھا۔ ابو عبید قاسم بن سالم (م۲۲۴ھ)نے فضائل
قرآن ،ناسخ و منسوخ اور قراآت پر تالیفات رقم کیں ،علی بن مدینی ( م ۲۳۴ھ)،نے اسباب النزول پر کتاب لکھی ،ابن قتیبہ ( م ۲۷۶ھ)نے مشکل
القرآن پر کتاب تالیف کی ،محمدبن خلف بن المرزبان ( م )۳۰۹نے ’’الحاوی فی علوم القرآن ‘‘ستائیس اجزاء میں لکھی ()۱۲۔ غالبا ً یہ پہلی کتاب
ہے جس کے عنوان میں پہلی مرتبہ علوم القرآن کی اصطالح استعمال ہوئی لیکن اس میں علوم القرآن کی کون سی کون سی انواع تھیں ،اس کے
بارے میں معلومات میسر نہیں ،کیونکہ یہ کتاب مفقود ہے۔ اس کا تذکرہ کتابوں ہی میں ملتا ہے ۔ابو بکر محمد بن قاسم االنباری (م۳۲۸ھ)نے
’’عجائب علوم القرآن ‘‘کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ اس کتاب کا موضوع قرآن کے فضائل اور اس کا سات حروف پر نازل ہونا ہے۔ اس کے
عالوہ اس کتاب میں مصاحف کی کتابت Uاور آیات و کلمات اور سورتوں کی تعداد کا بھی ذکر ہے۔ اس کتاب کا ایک نسخہ اسکندریہ کے مکتبہ
البالدیہ میں موجود ہے ()۱۳۔ محمد بن عزیز ابو بکر سجستانی ( م۳۳۰ھ)نے ’’ غریب القران ‘‘کے عنوان سے ایک کتاب لکھی۔ یہ کتاب یوسف
مرعشلی کی تحقیق سے بیروت سے ۱۹۸۹میں شائع ہوئی ۔ اس دور میں احمد بن جعفر ابن المناری ( م ۳۳۶ھ)نے علوم القرآن پر بہت سی
کتابیں لکھیں۔ ابن الجوزی( م ۵۹۷ھ) نے ان کے متعلق لکھا ہے’’ :میں نے ابو یوسف قزوینی کی تحریر سے نقل کیا ہے ،ان کا کہنا ہے کہ
ابوالحسین بن المناری جید قاریوں اور بڑے محدثین میں سے تھے۔ علوم القرآن پر ان کی ۴۰سے زائد کتب ہیں۔ ان میں سے تقریباً۲۱ Uکتب سے تو
میں واقف ہوں اور باقی کتب کے متعلق Uمیں نے سنا ہے۔‘‘ ابن الجوزی کا کہنا ہے کہ ان کی تصنیفات Uمیں سے ان کے ہاتھ کے لکھے ہوئے چند
ٹکڑے میری نظر سے گزرے۔ ان میں مجھے ایسے فوائد ملے جو اس دور کی کسی دوسری کتاب میں نہیں پائے جاتے ۔()۱۴
محمد بن علی اال دفوی ( م ۳۸۸ھ)نے ’’االستغناء فی علوم القرآن ‘‘ تالیف کی۔ ابو بکر باقالنی ( م ۴۰۳ھ)نے ’’اعجازالقرآن‘‘کے نام سے کتاب
لکھی جو کہ سید احمد صقر کی تحقیق سے ۱۹۶۴ء میں قاہرہ سے شائع ہوئی ہے۔ عبدالجبار ہمدانی (م ۴۱۵ھ) نے ’’المغنی فی اعجاز القرآن‘‘
تالیف کی۔ یہ کتاب قاہرہ سے ۱۹۷۶ء میں شائع ہوئی ۔ علی بن ابراہیم ابن سعید الحوفی ( ۴۳۰ھ) نے ’’اعراب القرآن‘‘تالیف کی۔ اس کے عالوہ
’’ البرہان فی علوم القرآن‘‘ کے نام سے قرآن کی ایک تفسیر بھی لکھی جو کہ تیس جلدوں میں تھی۔ ان میں سے ۱۵جلدیں غیر مرتب مخطوطے
کی شکل میں موجود ہیں۔ دراصل یہ قرآن کی تفسیر ہے ،مگر اس میں مصنف نے ابتدائے قرآن سے آخر تک ایک ایک آیت پر علوم قرآن کی
روشنی میں بحث کی ہے۔ نحو ،لغت ،اعراب ،نزول ،ترتیب ، Uقراء ت ،معانی ،تفسیر ،معقول ،غرض کوئی زاویہ تشنہ نہیں چھوڑا۔( )۱۵ابن
الجوزی (م ۵۹۷ھ) نے علوم القرآن پر الحوفی کے انداز میں ’’فنون االفنان فی عجائب علوم القرآن ‘‘ لکھی۔ اس کی تحقیق ڈاکٹر حسن ضیاء الدین
تمر نے کی ہے اور یہ بیروت سے ۱۹۸۷ء میں شائع ہوئی ہے۔ عبدالعزیز بن عبدالسالم ( م ۶۶۰ھ)نے’’ Uمجاز القرآن ‘‘تحریر کی۔ علم الدین
سخاوی (م۶۴۳ھ) نے ’’جمال القراء و کمال القراء‘‘ تالیف کی۔ اس کتاب میں قراء ت کے عالوہ علوم القرآن کے دیگر مباحث کو بھی شامل کیا
گیا ہے۔ یہ کتاب عبدالکریم زبیدی کی تحقیق Uسے بیروت سے ۱۹۹۳ء میں شائع ہوئی۔ ابو شامہ مقدسی کی تالیف ’’المرشد الوجیز الی علوم تتعلق
بالکتاب العزیز ‘‘ہے۔ اس میں نزول قرآن اور جمع قرآن کے عالوہ قرا ء ت سے متعلق جامع اور مفصل بحث ہے ۔ طیار آلتی فوالج کی تحقیق
سے ۱۹۷۵ء میں بیروت Uسے شائع ہوئی ہے۔ عالمہ بدرالدین زرکشی ( م ۷۹۴ھ)کی ’’البرہان فی علوم القرآن‘‘ کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ
اپنے موضوع پر پہلی ایسی جامع کتاب ہے جس میں علوم القرآن کی سینتالیس Uانواع سے بحث کی گئی ہے۔ اس کتاب کی یہ خصوصیت اس کو
علوم القرآن پر لکھی گئی تمام کتابوں سے ممتاز کرتی ہے۔
بلقینی ( ۸۲۴ھ) کی کتاب ’’ مواقع العلوم من مواقع النجوم ‘‘ہے۔ اس کے چھ باب تھے جن میں علوم القرآن کی تقریبا ً ۱۵۰
ؓ عالمہ جالل الدین
انواع پر بحث کی گئی ہے۔ ( )۱۶عالمہ سیوطی نے اپنی کتاب االتقان کے مقدمہ میں اس کتاب کاذکر کیا ہے ،لیکن یہ کتاب مفقود ہے۔ عالمہ
جالل الدین سیوطی کی کتاب’’ االتقان فی علوم القرآن‘‘ ہے۔ عالمہ سیوطی نے اتقان کے عالوہ بھی علوم القرآن کی مختلف انواع پر مستقل کتب
لکھی ہیں جن میں ’’تناسق الدرر فی تناسب السور‘‘’’ ،لباب النقول فی اسباب النزول‘‘ ’’ ،مفہمات االقران فی مبہما ت القرآن‘‘ وغیرہ شامل ہیں ۔
عالمہ کی تمام تالیفات میں سے ’االتقان‘ ایک نمایاں اور منفرد تالیف ہے۔ اس کتاب میں عالمہ سیوطی نے زرکشی کی ’البرہان‘ میں مذکور انواع
پر ۳۳انواع علوم کا اضافہ کیا اور علوم القرآن کی ۱ ۸۰نواع سے بڑی مفصل بحث کی ہے ۔ علوم القرآن کے موضوع پر اس کتاب کوایک اہم
ماخذ کی حیثیت Uحاصل ہے۔اس کے بعد علوم القرآن پر جتنا بھی کام ہوا ،بیشتر اس کی شرح و اختصار کے زمرے میں آتا ہے ۔
’’اعجاز القرآن ‘‘از مصطفی الرافعی ’’،المعجزۃ الکبری ۔۔۔القرآن‘‘ از محمد ابو زہرہ ’’ ،التبیان فی علوم القرآن‘‘ از طاہر الجزائری ’’،منہج
الفرقان فی علوم القرآن‘‘ از محمد علی سالمہ ’’ ،مناہل العرفان فی علوم القرآن‘‘ از محمد عبد العظیم زرقانی ’’ ،مباحث فی علوم القرآن‘‘ از
ڈاکٹر صبحی الصالح ’’ ،مباحث Uفی علوم القران‘‘ از مناع Uالقطان ،علوم قرآن سے متعلق موجودہ دور کی مشہور کتب ہیں۔
کرہ ارض کا وہ حصہ جو آج ہندوستان پاکستان اور بنگلہ دیش پر مشتمل ہے ،تاریخ میں برصغیر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ قدرتی وسائل سے
ماال مال ہونے کی وجہ سے اقوام عالم کی نظریں تاریخ کے ہر دور میں کسی نہ کسی شکل میں اس خطے پر مرکوز رہیں ۔ بالخصوص اہل
عرب جن کی معیشت کا انحصار زیادہ تر تجارت پر تھا ،اسالم کی آمد سے بہت پہلے اس خطے کے ساتھ تجارتی روابط قائم کر چکے تھے ۔
اسالم کی آمد کے بعد بھی یہ تعلقات اسی طرح برقرا ررہے اور اس خطے میں اسالم کی ابتدائی اشاعت بھی انہیں عرب تاجروں کی بدولت ممکن
کرام برصغیر میں داخل ہو گئے۔
ہوئی ۔ عہد خالفت راشدہ میں اسالمی سلطنت کی حدود دور دور تک پھیل گئیں اور عہد فاروقی ہی میں صحابہ ؓ
محمد بن قاسم نے جب سندھ پر حملہ کیا تو یہ وہ زمانہ تھا جب اسالمی سلطنت کی حدود ایشیا ،روس ،اور اسپین تک پہنچ چکی تھیں۔ لہٰ ذا فطری
طور پر ان عالقوں کے لوگ نہ صرف قرآن کی تعلیمات Uسے متاثر ہوئے بلکہ انہوں نے قرآن پاک کی تعلیم حاصل کرنے پر اپنی زندگیاں صرف
کر دیں ۔ کتب اسماء الرجال میں ہمیں بہت سے سندھی مسلمانوں کا تذکرہ ملتا ہے جنہوں نے تحصیل علم کی خاطر دور دراز کے سفر کیے اور
سندھ میں قال ہللا و قال الرسول کی صدائیں بلند کیں۔عبدالر حیم دیبلی سندھی کے متعلق حافظ ابن حجر لسان المیزان میں لکھتے Uہیں :
’’قال العقیلی قال لی جدی قدم علینا من السند شیخ کبیر کان یحدث عن االعمش ‘‘ ()۱۷
’’عقیلی کہتے ہیں کہ میرے دادا نے بیان کیا کہ ہمارے ہاں ( بصرہ میں ) سندھ سے ایک بہت بڑے شیخ آئے جو اعمش سے حدیث کی روایت
کرتے تھے ۔‘‘
سندھ کے علما کی علوم اسالمیہ میں خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر عبدہللا الطرازی لکھتے ہیں :
’’و فی العصر العباسی نجد علماء الدیبل بالکثرۃ ومعظمھم ھاجروا الی البالد العربیۃ واالقلیۃ بقوا فی بالد السند وانشغلوا بنشرالعلوم االسالمیۃ‘‘( U
)۱۸
’’دور عباسی میں ہم کثرت سے ایسے علما پاتے ہیں جنہوں نے بالد عرب کی طرف ہجرت کی اور بہت کم ایسے تھے جو سندھ میں رہے اور
علوم اسالمیہ کی اشاعت میں مشغول ہوئے۔‘‘
عالمہ سمعانی ؒ چوتھی صدی ہجری کے ایک ہندی عالم کی تفسیر Uمیں دلچسپی اور اخذ روایات میں ذوق و جستجو کے بارے میں لکھتے Uہیں :
’’ابو جعفر محمد بن ابراھیم الدیبلی (الھندی )المکی العالم المفسر یروی کتاب التفسیر عن ابی عبدہللا سعید بن عبدالرحمن المخزومی روی عنہ ابو
الحسن احمد ابن فراس المکی و ابو بکر بن محمد ابراھیم بن علی ‘‘ ()۱۹
’’ابو جعفر محمد بن ابراہیم الدیبلی ہندی مکی جو عالم و مفسر تھے انہوں نے ابو عبدہللا عبدالرحمن مخزومی سے کتاب التفسیر روایت کی ہے
اور ان سے ابو الحسن احمد بن ابراہیم بن فراس مکی اور ابوبکر محمد بن ابراہیم بن علی نے روایت کی ہے ۔‘‘
ڈاکٹر عبدہللا الطرازی نے سندھ اور پنجاب کی تاریخ پر مشتمل اپنی کتاب میں ایک عربی عالم ’’العراقی ‘‘(متوفی۲۷۰ Uھ)کے متعلق لکھا ہے کہ
ہ منصورہ کے شاندار عالم اور شاعر تھے ۔ جنہوں نے فن تفسیر میں دو شاندار کتابیں تصنیف کیں ۔ ایک ’’فی تفسیر القرآن‘‘ اور دوسری
’’ترجمۃ القرآن بالسندیہ‘‘۔()۲۰
قاضی زاہد الحسینی اپنی کتاب ’’تذکرۃ المفرین ‘‘ میں برصغیر کے پہلے مفسر قرآن ’’الکشی ‘‘ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ آپ ’’گچھ ‘‘کےU
مقام پر دوسری صدی ہجری میں پیدا ہوئے۔ طلب علم کے لیے ارض عرب کا سفر کیا۔ حدیث میں دو مسندیں تالیف فرمائیں۔ اس کے عالوہ قرآن
مجید کی ایک تفسیر بھی لکھی جس کو ہر زمانے میں مقبولیت حاصل رہی ۔ ()۲۱
کچھ لوگوں نے ’’گچھ ‘‘ Uکو سمرقند کا عالقہ قرار دیا ہے ،لیکن یاقوت الحموی اس کے متعلق لکھتے ہیں :
’’کس ایضا مدینۃ بارض السند مشھورۃ ذکرت فی المغازی و ممن ینسب الیھا عبد بن حمید بن نصر واسمہ عبدالحمید الکسی صاحب المسند‘‘)۲۲( U
’’کس Uسندھ کاایک مشہور شہر ہے جس کا ذکر مغازی میں ملتاہے اور اس شہر کی طرف عبد بن حمید بن نصر منسوب Uہیں جن کا اصل نام
عبدالحمید الکسی ہے جنہوں نے مسند تالیف کی ۔‘‘
جہاں تک برصغیر پاک و ہند کی مقامی زبانوں میں علوم قرآنیہ کی آبیاری کاتعلق ہے تو اس ضمن میں قاضی اطہر مبارکپوری نے اپنی کتاب’’U
رجال السند و الہند ‘‘ میں عجائب الہند مصنفہ بزرگ بن شہریار کے حوالہ سے ایک روایت تفصیالً بیان کی ہے۔
’’اکبر ملوک قشمر مھروک بن رایق (ملک الور)کتب Uفی سنۃ سبعین و مئتین الی صاحب المنصورۃ و ھو عبدہللا بن عمر بن عبدالعزیز لیسئلہ ان
یفسر لہ شریعۃ االسالم بالھندیۃ ۔۔۔وکا ن فیما حکا ہ عنہ انہ سالہ ان یفسر لہ القرآن بالھندیۃ ففسرلہ‘‘ ()۲۳
’’کشمیر کے راجہ مہروک نے ۲۷۰ھ میں منصورہ( سندھ) کے حاکم امیر عبدہللا بن عمر بن عبدالعزیزکو لکھاکہ میرے لئے( ایک آدمی بھیجا
جائے ) جو میرے لیے ہندی میں شریعت Uاسالمی کی و ضاحت کرے ۔ اس کے متعلق یہ بھی حکایت Uہے کہ اس نے ہندی زبان میں قرآن مجید کی
تفسیر کرنے کے لیے کہا تو اس نے کر دی ۔‘‘
خلیق احمد نظامی نے اپنی کتاب ’’حیات شیخ عبدالحق محدث دہلوی ‘‘میں ،جمیل نقوی نے ’’اردو تفاسیر‘‘ میں ،ڈاکٹر صالحہ عبدالحکیم شرف
الدین نے ’’قرآن حکیم کے اردو تراجم ‘‘میں اور عبدالصمد صارم نے ’’تاریخ التفسیر‘‘میں Uمذکورہ باال روایت سے اسی بات کو ثابت کیا ہے کہ
علوم قرآنیہ کے حوالے سے برصغیر کی مقامی زبان میں لکھا جانے واال یہ اولین ترجمہ ہے ۔()۲۴
الہور میں قرآن و حدیث کے علوم کی اشاعت کا سہرا شیخ اسماعیل الہوری کے سر ہے۔ تذکرہ علماء ہند میں ان کے متعلق Uلکھا ہے کہ شیخ
اسماعیل (م۴۴۸ھ)الہوری عالم محدث اور مفسر تھے۔ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے الہور میں علم تفسیر و حدیث کی اشاعت کی ۔()۲۵
’’کان من اعاظم المحدثین و اکابر المفسرین و ھو اول من جاء بالحدیث والتفسیر الی الہور‘‘ ()۲۶
’’یہ عظیم محدثین اور اکابر مفسرین میں سے تھے۔ یہ پہلے آدمی ہیں جو الہور میں تفسیر Uو حدیث کو الئے۔‘‘
عہد تغلق میں علوم قرآنیہ کی نشرو اشاعت کے حوالے سے صاحب تفسیر ملتقط سید محمد حسن (۸۲۵ھ) کا نام ،جو گیسو دراز کے لقب سے
مشہور ہیں ،خاص اہمیت کا حامل ہے۔ ان کے بارے میں عالمہ شریف عبدالحئی فرماتے ہیں:
’’کان عالما کبیر ا ولہ مصنفات کثیرۃ منھا تفسیرالقرآن الکریم علی لسان المعرفۃ و تفسیر القرآن علی منوال الکشاف ‘‘ ()۲۷
’’یہ بہت بڑے عالم تھے جن کی تصانیف بے شمار ہیں جن میں سے ایک’’ تفسیر القرآن الکریم علی لسان المعرفۃ‘‘ اور دوسری ’’تفسیر Uالقرآن
علی منوال الکشاف‘‘ ہے ۔‘‘
اس عہد کے نامور مفسر قرآن عالء الدین بن احمد المہائمی ہیں جن کی تفسیر’’ Uتبصیر الرحمن و تیسیر Uالمنان ‘‘ ہے۔ مولوی عبدالرحمن ان کے
متعلق لکھتے ہیں کہ ان کی تصانیف میں سے تفسیر رحمانی بھی ہے جس کو تفسیر مہائمی بھی کہتے ہیں۔ا نہوں نے آیت مبارکہ ’الم ذلک الکتاب
ال ریب فیہ ھدی للمتقین‘ میں بارہ کروڑ تراسی الکھ Uچوالیس ہزارپانچ سو چوبیس Uوجوہ اعراب بیان کی ہیں۔()۲۸
ڈاکٹر زبیر احمد رقمطراز ہیں کہ اس میں قرآنی قصص اختصار کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں۔۔۔نیز یہ کہ ایک آیت سے پہلے اور اس کے بعد جو
آیتیں ہیں ،ان میں باہمی ربط کی وضاحت بھی کی گئی ہے ۔()۲۹
برصغیر میں علوم قرآنیہ کی فارسی اور اردو زبان میں نشرو اشاعت کا آغاز باقاعدہ طور پر بارھویں صدی ہجری میں ہوا۔ جہاں تک اردو زبان
کا تعلق ہے تو اس ضمن میں جمیل نقوی اپنی کتاب’’ Uاردو تفاسیر‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’بہرحال شمالی ہند میں پہلی باقاعدہ اور معیاری اردو
تفسیرنگاری کی ابتداء بارھویں صدی ہجری کے اواخر سے ہوئی ۔ شمالی ہند کی مقبول عام تفسیر شاہ مراد ہللا انصاری سنبھلی کی تفسیرU
’’خدائی نعمت Uالمعروف تفسیر مرادی ‘‘ہے ()۳۰۔شاہ مراد ہللا پہلے اردو مفسر ہیں جنھوں نے اپنی تفسیر ’’تفسیر مرادی ‘‘ میں روز مرہ زبان
اختیار کی ہے۔ ()۳۱
قلی بن پادشاہ قلی (م۱۱۱۱ھ)کی کتاب ’’مجمع الفوائد ‘‘ میں ضبط الفاظ قرآنی ،اعراب قرآت مشہورہ ،ائمہ سبع اور بیان معانی و تفسیر پر
مشتمل ہے اور متعلقات Uقرآن مجید پر اس انداز میں بحث کی گئی ہے کہ تمام ضروری باتیں سمجھ میں آجائیں۔ یہ کتاب۱۱۱۱ Uہجری میں اورنگ
زیب کے عہد میں تصنیف ہوئی ۔
’’انوار الفرقان و ازھار القرآن ‘‘ ،شیخ غالم نقشبندی لکھنوی (م۱۱۲۶ھ)کی تصنیف ہے۔ اس کے دو نسخے رام پور الئبریری میں موجو دہیں۔
اس کے مقدمے میں تفسیر کی ضرورت و اہمیت اور شان نزول پر بحث کی گئی ہے ۔
عالمہ احمد بن ابی سعید االمیٹھوی المعروف بہ مال جیون نے احکا م ا لقرآن کے موضوع پر ایک تصنیف’’ Uتفسیرات احمدیہ‘‘ کے عنوان سے
لکھی جو کہ قرآنی احکام کے حوالے سے ایک مستند تفسیر ہے۔ اس میں قرآن حکیم سے ساڑھے چار سو آیتیں منتخب Uکر کے ان سے اخذ ہونے
والے احکام کو شرح و بسط کے ساتھ ذکر کیا گیاہے ۔اس تفسیر کو احکام القرآن کے موضوع پر برصغیرمیں لکھی جانے والی سب سے پہلی
تفسیر کا درجہ حاصل ہے۔
’’ نجوم الفرقان ‘‘ ،مصطفی بن محمد سعید جونپوری کی تصنیف ہے جو کہ قرآن مجید کی آیات کی تخریج کے لیے اورنگزیب Uعالمگیر کے عہد
میں لکھی گئی ۔اس کا قلمی نسخہ رام پور کی الئبریری Uمیں موجود ہے ۔
ت یک ئ ن تق ن ف
م تش ن
()20 ے۔ اس راق کا مع ی و ہوم اور ار اء پر وٹ حریر ج سوال مب ر 5۔
استشراق( )Orientalismاور مستشرق کا اصطالحی مفہوم
استشراق کا عام فہم اور سادہ مفہوم یہ ہے کہ جب بھی کوئی استشراق کا نام لیتا ہے تو اس سے مرادوہ یورپین علماء و مفکرین مراد ہUUوتے
ہیں جن کو اہل یورپ”“Orientalist Uکہتے ہیں۔
ماہرین لغات ومفکرین نے استشراق( ) Orientalismاور مستشرق( )Orientalist Uکا جو اصطالحی مفہوم بیUان کیUا ہے ،ان میں سUے کچھ
کا خالصہ حسب ذیل ہے:
” مستشرق وہ شخص ہے جو خود مشرقی نہ ہو بلکہ بہ تکلف مشUUرقی بنتUUا ہUUو ،مشUUرقی علUUوم میں مہUUارت تUUامہ حاصUUل کUUرنے کی کوشUUش
کرے“()۷
ایڈورڈ سید( ) Edward Saidتحریک استشراق اور مستشرق Uکے الفاظ کو وسعت Uدیتے ہوئے Uلکھتے ہیں۔
"Any one who teaches, writes about, or researches the orient and this applies whether the person is an
authropologist, socialogist, historian, or philologist either in its specific or its general aspects, is an orientalist, and
)what he or she does is Orientalism."(8
”جو کوئی بھی مشرق کے بارے میں پڑھتا،لکھتا Uیا اس پر تحقیق کرتا ہے تUو یہ تحقیقی معیUUار تمUام تUر پڑھUUنے لکھUنے Uاور تحقیUUق کUUرنے
والے ماہر بشریات ،ماہر عمرانیات،مورخین اور ماہر لسانیات پر منطبق ہوتا ہے۔خواہ یہ لUوگ اپUنے اپUنے دائUرہٴ شخصUی میں خUاص موضUوع یUا
اپنے کسی عمومی مضمون پر کام کررہے ہوں،مشرق شناس(مستشرق) Uکہالتے ہیں اور انکا کیا جانے واال کام شرق شناسی ہوگUUا“؛ لیکن موجUUودہ
دور میں مستشUUرقین نے اپUنے لUUیے مختلUف نUام تجUUویز کUیے ہیں جن کUUو موالنUUا ابUUو الحسUUن علی نUدوی نے ان الفUاظ میں واضUح کیUUا ہے کہ ” اب
مستشرقین ،مستشرق کہلوانا پسند نہیں کرتے دوسری عالمگیر جنگ کے بعد وہ ” ایڈوائزر“یا ایریا سٹڈی سپیشلسٹ ،ایکسپرٹ کہلواناپسUUند کUUرتے
ہیں “()۹
مجموعی طور پر تحریک استشUراق کے دائUرہ میں بUڑی وسUعت ہے جUو مشUرق میں موجUUود تمUUام ممالUUک،مUذاہب زبUUانوں ،تہUUذیب وتمUدن،
باشندوں ،انکی رسوم و رواج اور عادات و اطوار کے متعلق تحقیق کر کے ان کے عالقوں پر قبضہ کرنے اور انھیں اپUUنی دسUUترس میں رکھUUنے،
جیسے بہت سے شعبہ جات پر محیط ہے؛ لیکن اس تحریک کا سرگرم شعبہ،اسالم،اہل اسالم ان کے ممالUUک وامالک پUUر قبضUUہ کUUرکے اسUUے قUUائم
رکھنے پر بحث کرتا ہے۔ اور اکثر مسلمان محقق جب تحریک استشراق پر بحث کرتے ہیں تو ان کے پیش نظUUر استشUUراق کUUا یہی شUUعبہ ہوتUUا ہے۔
اس تصور کو سامنے رکھتے Uہوئے اکثر مسلم اسUUکالرز ایUک مستشUUرق کی درج ذیUUل تعریUف کUUرتے ہیں” استشUUراق متضUاد افکUار ونظریUات Uکے
مجموعہ کا نام ہے ،وقت اور ماحول کی مناسبت سے اس پر کبھی موضوعیت ،کبھی غیر جانبداری ،کبھی تحقیق اور صاف گوئی اور کبھی علم
کے ناموں کے خوبصورت غالف چڑھا دیے جاتے ہیں ،ان پردوں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ قاری کUUو حقیقت کے اصUUل چہUUرہ سUUے بے خUUبر رکھUUا
جائے “()۱۰
عربی زبUUان کی لغت المنجUUد جUUو کہ کثUUیر UاالسUUتعمال ہے ،اس میں مستشUUرق کی تعریUUف ان الفUUاظ میں کی گUUئی ہے۔ ” العUUالم باللغUUات واالدب
والعلوم الشرقیة واالسم االستشراق“( )۱۱مشرقی زبانوں ،آداب اور علوم کے عالم کو مستشرق کہا جاتا ہے اور اس علم کا نام استشراق ہے ۔
چنانچہ مذکورہ باال تعریفات Uکو سامنے رکھتے Uہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان مستشرقین کUUا مقصِ Uد حیUUات ،مشUUرقی تہUUذیب وتمUUدن ،مشUUرقی
لٹریچر ،مشرقی علوم وفنون جن میں مذہب ،تاریخ ،ادب ،لسانیات ،بشریات ،معا شیات ،سیاسیات وغیرہ شامل ہیں اور مشرقی اقوام کو وقعت کی
نگاہ سے دیکھتے Uہیں ،ان مستشرقین نے مردہ اقوام کی گم شدہ تاریخوں کی جستجو کی ،ان کے ویران و بے نشان یادگاروں کا پتہ لگایا ،ان کے
منہدم اور بوسیدہ کھنڈروں کی ایک ایک اینٹ اور ایک ایک پتھر کی تاریخ کا ایک ایک صفحہ سمجھ کUUر مطUUالعہ کیUUا ،ان کے مسUUکن اور جUUائے
اقامت کو کھود کھود کر اس میں سے ایک ایک ذرہ نکاال ،ان کی غیر مفہوم کتابوں کو بادقت تمام پڑھا ،ان کے قدیم رسوم ورواج ،ان کی زبUUان
اور ان کی شاعری کا بغور مطالعہ کیا اور ان سے نتائج اخذ کیے ،اور اس طرح ان مردہ اور گم شدہ اقوام کی ایک مسلسل تUUاریخ کUUا سUUرمایہ بہم
پہنچایا ،زندہ اقوام کی تاریخ کو پڑھا ،ان کی نادر تصنیفات کو بہم پہنچایا ،ان کا مطالعہ کیا ،ان کی ایجادات واکتشافات سے واقفیت حاصل کی ،
ان کی تاریخی عظمت کو تسلیم کیا ،ان کے علوم وفنون کو ترقی دی ،ان کے تہذیب وتمUUدن کی تUUاریخ مUUدون کی ،ان کے لUUٹریچر کی تUUرقی اور
توسیع میں کوشش کی ،ان کی نایاب تصانیف کو مرتب کر کے ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا اور ان کو چھاپ کر عUUام لوگUUوں کی رسUUائی کUUو ان
نایاب کتابوں تک ممکن بنایا ۔
تحریک استشراق کا تاریخی پس منظر
تاریخی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ تحریک استشراق کی روح ازل سے لے کر ابد تک موجUUود رہے گی ،اور اس
کی قدامت پر حضرت آدم علیہ السالم اور ابلیس کا واقعہ ،پھر حضرت آدم علیہ السالم اور شیطان کا ایک ساتھ اس دنیUا میں بھیجUا جانUابھی داللت
کرتا ہے۔ اس کے عالوہ حق کے ساتھ باطل ،اسالم کے ساتھ کفر ،ایمان کے ساتھ الحاد کا ہونا استشراق کی ہی صورتیں ہیں ۔اس کے قدیم ہUUونے
کی طرف اس شعر میں بھی اشارہ موجود ہے:
شرار بو لہبی
ِ سے مصطفوی چراغ
ِ $ امروز تا سے ازل ہے رہا ستیزہ کار
اس تحریک کا آغاز دراصل ظہور اسالم کے ساتھ ہی ہUو گیUا تھUا اور باقاعUدہ ایUک تحریUک کی شUکل اختیUار کUرنے سUے پہلے بھی ،اہUل
مغرب کی طرف سے ،اسالم کے خالف بالعموم اور پیغمبر ِ اسالم کے خالف بالخصوص ،بغض و عداوت کا اظہار موقع بہ موقUUع مختلUUف ادوار
میں ہوتا رہا ہے ،اور وفور جذبات سے سرشار ،رومی ،بازنطینی ،الطینی ،مسیحی اور یہودی روایتیں صدیوں سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی رہیں ،
افواہوں کے دوش پر سفر کرتی رہیں ،اور کبھی کبھار Uتحریر وتصنیف اور وقائع واسفار کے قالب میں ڈھلتی رہیں اور ان کی اپنی آئندہ نسلوں کUUا
سرمائیہ افتخار قرار پائیں ۔()۱۲
مگر ان کے بغض وعداوت میں شدت اس وقت آئی جب دو قوتیں( ہالل ،صلیب )آ پس میں ٹکرائیں ہالل نے صلیب کو ہر مقام پUUر پسUUپا کیUUا
اور اپنے لیے ترقی کی راہ ہموار کی ،اسی وقت سے باہم دشمنی اور چپقلش کا آغاز ہو ا۔اس کے بارے میں محمد حیاة ہیکل اپنی کتاب حیاة محمد
میں لکھتے ہیں ”پیروان مسیحیت پر اسالم اور مسلمانوں کی یہ ترقی شاق گزری نتیجہ یہ نکال کہ اسالم اور مسیحیت Uکے درمیUان شUدید اختالفUات
کی خلیج حائل ہوگئی اور اس نے باقاعدہ ایک کشمکش Uکی صورت اختیار کرلی ۔()۱۳
سب سے پہلے جس نے اسالم کے خالف ،اس تحریک کا آغاز کیا وہ ساتویں صUUدی عیسUUوی کUUا ایUUک پUUادری جUUان ( )JohnتھUUا ،جس نے
آنحضور کے بارے میں طرح طرح کی جھوٹی باتیں گھڑیں اور لوگوں میں مشہور کر دیں؛ تا کہ آپ کی سیرت وشخصیت ایک دیو ماالئی کردار
سے زیادہ دکھائی نہ دے ۔ جان آف دمشق کی یہی خرافات مستقبل Uکے استشراقی علماء کا ماخذ ومصدر بن گئیں ،جان آف دمشق کے بعUUد عیسUUائی
دنیا کے بیسیوں عیسائی اور یہودی علماء نے قرآن کریم اور آنحضو ر کی ذات گرامی کو کئی سو سال تک موضوع بنائے رکھا اور ایسے ایسUUے
حیرت انگیز افسانے تراشے جن کا حقیقت کے ساتھ دور کا بھی واسطہ نہ تھا ،ان ادوار میں زیادہ زور اس بات پر صرف کیا گیا کہ آپ امی نہیں؛
بلکہ بہت پڑھے لکھے شخص تھے ،تورات اور انجیل سے اکتساب کر کے آپ نے قرآنی عبارتیں تیا ر کیں ،بہت بڑے جادوگر ہونے Uکے سUUاتھ
ساتھ آپ (العیاذ باہلل ) حد درجہ ظالم ،سفاک ،اور جنسی طور پر پراگندہ شخصیت کے حامل تھے ۔ فرانسیسUUی مستشUUرق UکUUا راڈی فUUوکس( Carra
)de Vauxنے آنحضور کی ذات گرامی کے بارے میں لکھاہے کہ محمد ایک لمبے عرصے کے لUUیے بالد مغUUرب میں نہUUایت بUUری شUUہرت کے
حامل رہے اور شاید ہی کوئی اخالقی برائی اور خرافات ایسی ہو جو آپ کی جانب منسوب Uنہ کی گئی ہUUو ۔تعجب کی بUUات یہ ہے کہ اسUUالم کی آمUUد
سے کم وبیش آٹھ سو سال بعد تک مغربی ممالک میں اسالم کے خالف نفرت نا کافی اور ادھوری معلومات کی بنیUUاد پUUر ہی پنپUUتی رہیں ،مثUUال کے
طور پر گیارہویں صدی عیسوی کے آواخر میں( )Song of Roland جو پہلی صلیبی جنگوں کے دوران ہی وضUUع کیUUا گیUUا ،بہت مشUUہور ہUUوا ،
اسی طرح کی بیہودہ باتوں پر مشتمل تھا۔()۱۴
تحریک استشراق کے محرکات
تحریک ِ استشراق کے معرض ِ وجود میں آنے کا سب سے بنیادی محرک دینی تھا ،لیکن اس کے سUاتھ سUاتھ سیاسUی ،اقتصUادی ،علمی اور
تحقیقی محرک بھی شامل تھے:
-۱دینی محرک” :استشراق کا سب سے بڑ امقصد مذہب عیسوی کی اشاعت و تبلیغ اور اسالم کی ایسی تصویر پیش کر نUUا ہے کہ مسUUیحیتU
کی برتری اور ترجیح خو د بخود ثابت ہو اور نئے تعلیم یافتہ اصحاب اور نئی نسل کے لیے مسیحیت میں کشش پیدا ہو۔ چنانچہ اکثر استشUUراق اور
تبلیغ مسیحیت ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔“()۱۵
ِ
-۲سیاسی محرک” :سیاسی محرک میں یہ بات تسلیم کرنا پڑتی ہے کہ اہل مغرب کا رویہ اسالم کے متعلUUق شUUروع ہی سUUے معانUUدانہ چال آ
رہا ہے صلیبی جنگوں کی تلخ یادیں ابھی تک ان کے ذہنوں سے محو نہیں ہوئی تھیں“ ()۱۶
”سیاسی محرک یہ ہے کہ مستشرقین عام طور پر مشرق میں مغربی حکومتUوں اور اقتUدا ر کUا ہUراول دسUUتہ ( ) Pioneerرہے ہیں۔ مغUUربی
حکومتوں کو علمی کمک اور رسد پہنچانا ان کا کام ہے۔ وہ ان مشرقی اقوام و ممالUUک کے رسUUم و رواج ،طUUبیعت Uو مUUزاج ،طریUUق مانUUد وبUUود اور
اہل مغUUرب کUUو حکUUومت UکرنUUا آسUUان ہUUو۔“(U
زبان و ادب؛بلکہ جذبات و نفسیات کے متعلق صحیح اور تفصیلی معلومات Uبہم پہنچاتے ہیں؛ تاکہ ان پر ِ
)۱۷
-۳اقتصادی محرک” :ان اہم مذہبی و سیاسی محرکات کے عالوہ قدرتی طUUور پUUر استشUUراق کUUا ایUUک محUUرک اقتصUUادی بھی ہے ،بہت سUUے
فضالء اس کو ایک کامیاب Uپیشہ کے طور پر اختیار کرتے ہیں ،بہت سے ناشرین اس بنا پر کہ ان کتابوں کی جو مشرقیات اور اسالمیات پر لکھی
جاتی ہیں ،یورپ اور ایشیا میں بڑی منڈی ہے ،اس کام کی ہمت افزائی اور سرپرستی کر تے ہیں ،اور بڑی سرعت کے ساتھ یورپ و امUUریکہ میں
ان موضوعات پر کتابیں شائع ہوتی ہیں ،جو بہت بڑی مالی منفعت اور کاروبار کی ترقی کا ذریعہ ہے۔“()۱۸
-۴علمی اور تحقیقی" محرک ” :بعض فضالء مشرقیات و اسالمیات Uکو اپنے علمی ذوق و شغف کے ماتحت بھی اختیUUار کUUرتے ہیں اور اس
کے لیے دیدہ ریزی ،دماغ سوزی اور جفاکشی سے کام لیتے ہیں جس کی داد نہ دینا ایک اخالقی کوتاہی اور علمی نا انصUUافی ہے ،ان کی مسUUاعی
نوادرپردہ خفا سے نکل کر منظر عام پر آئے اور جاہل وارثوں اور ظالم لٹUUیروں کی دسUUت بUUرد ٴ سے بہت سے مشرقی و اسالمی علمی جواہرات و
Uل علم اعلی اسالمی مآخذ اور تاریخی وثائق Uہیں ،جو ان کی محنت و ہمت سے پہلی مرتبہ شائع ہوئے اور مشUUرق کے اہِ U ٰ سے محفوظ ہوگئے۔ متعدد
نے اپنی آنکھوں کو ان سے روشن کیا۔“()۱۹
تحریک استشراق کے مقاصد
تمام یہود ونصاری چونکہ اپنے آپ کو ہللا کی مقرب ترین قوم سمجھتے Uتھے اور آخری نبی کے متعلق Uوہ گمUUان رکھUUتے Uتھے کہ وہ ہم میں
سے ہو گا؛ مگر جب نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم بنو اسماعیل میں پیدا ہوئے Uتویہود و نصاری نے صUUرف حسUUد اور بغض کی وجہ سUUے آپ کی
نبوت کا انکار کر کے نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم اور اسالم کے دشمن ہوگئے ،اس طرح حضور اور اسالم سے نفرت کا اظہار ،مسUUلمانوں کUUو
یہودی اور عیسائی بنانے کی کوشش ،قرآن حکیم ،احادیث مبارکہ ،عقائد وارکUUان اسUUالم کی نفی وتضUUحیک اور منUUاظرانہ ومقUUابالنہ کتب لکھ کUUر
مسلمانوں کے دین کو جھوٹا اور پیغمبر اسالم کو (نعوذ باہلل) نبی کاذب ثابت کرنا ان کامقصد بن گیا ۔()۲۰
تحریک استشراق کے مقاصد کے متعلق تحریر کرتے ہیں : ِ ڈاکٹر مصطفی سباعی
-۱اسالم کے بارے میں بدگمانی پیدا کرنا۔
-۲عام مسلمانوں کو مسلم علماء سے بدظن کرنا۔
-۳ابتدائی مسلم معاشرے کی غلط تصویر کشی کر کے مسلمانوں کی تاریخ کو مسخ کر نا۔
-۴اسالمی تہذیب کی تحقیر و تذلیل کرنا۔
-۵کتاب و سنت میں تحریف کرنا ،عبارتوں کو غلط مفہوم میں پیش کرنا اور حسب خواہش قبول یارد کرنا۔()۲۱
مستشرقین کے حدیث اور سیرة النبی صلی ہللا علیہ وسلم سے متعلق اہم مقاصدیہ ہیں:
-۱حدیث رسول صلی ہللا علیہ وسلم کو ناقابل اعتبار ٹھہرانامستشرقین کا خصوصی ہدف رہاہے۔ وہ جانتے تھے کہ حدیث نبUUوی صUUلی ہللا
علیہ وسلم قرآن حکیم کی تفسیر اور وضاحت ہے۔ جب قرآن حکیم کو وضاحت نبوی سے الگ کردیا جائے تو مسلمان انUدھیرے میں ٹامUک ٹوئیUاں
مارتے رہیں گے اور اس طرح وہ مسلمانوں کو ان کے اصل دین سے دور کرنے میں کامیاب ہوسکیں گے۔
-۲نبی صلی ہللا علیہ وسلم کی رسالت میں اس طرح تشکیک پیدا کرنا کہ آپ صلی ہللا علیہ وسلم صرف قرآن کے مبلغ ہیں۔ اور ان کUUا کUUام
قرآن کے مکمل نزول کے ساتھ ختم ہوگیا Uہے۔
-۳سادہ لوح مسلمانوں کو اس بات پر مطمئن کرنے کی کوشش کرنا کہ شریعت اسالمی یہودیت Uسے اخذ کردہ ہے ،جیسا کہ گولڈ زیہUر اور
ٰ
دعوی ہے۔ شاخت کا
-۴فقہ اسالمی کی قدروقیمت میں تشکیک Uپیدا کرنا۔
-۵اسالمی تہذیب وتمدن کے بارے میں مسلمانوں کے اندر شکوک پیدا کرنا۔
-۶مسلمانوں میں اپنے علمی ورثے کے بارے میں یقین کو متزلز ل کرنا اور ان کے صحیح عقائد میں شک پیدا کرنا۔
-۷حدیث نبوی صلی ہللا علیہ وسلم سے مسلمانوں کا رابطہ ختم کر کے اسالمی اخوت کا دائرہ اپنے اپنے ملکوں تک محدود کرنا۔()۲۲
عبد القدوس ہاشمی مجموعی طور پر ان کے مقاصد کو مختصراًیوں بیان کرتے ہیں”مستشرقین Uکی اسUUالمی تحقیقUUات کUUا مقصUUد جUUو ان کی
تحریروں سے صاف ظاہر ہے ،وہ اسالم اور مسلمانوں کے خالف پروپیگنUUڈہ ،اسUUتعمار کے لUUیے راسUUتے کی ہمUUواری اور مسUUلمانوں میں تفریUUق
پھیالنے Uکی جدوجہد کے سوا کچھ نہیں“۔()۲۳
” مستشرقین جنہوں نے سیرت نبوی صلی ہللا علیہ وسلم پر نقد وتنقید کی کوشش کی ہے ،چوتھائی صدی تUUک اس فکUUر میں رہے کہ کسUUی
طریقہ سے جمہور مسلمانوں کے اعتماد کو جو سیرت نبوی صلی ہللا علیہ وسلم پر قائم ہے ٹھیس Uپہنچائی جائے“()۲۴U
مستشرقین کا طریق تحقیق
پیغمبراسUUالم اور
ِ ابتداء میں مستشرقین کا طریقہٴ کار یہ تھا کہ کھلم کھال اسالم دشمنی کا اظہUUار کUUرتے تھے ،ان کی کتب و رسUUائل ،اسUUالم ،
طریق تحقیق ان کے خالف نفرت وعنUUاد ِ مسلمانوں کے خالف ان کے عناد کا واضح مظہر تھے؛ لیکن جلد ہی مستشرقین نے محسوس کیا کہ ان کا
کا باعث بن گیا ہے تو یہ لوگ تحقیق کا لبادہ اوڑھ کر میدان میں اترے اور مطلوبہ اہداف و مقاصد کو اس ذریعے سے حاصل کرنے لگے۔
رسول کریم کے محاسن کو بہت ہی خوبصورت انداز میں پیش کرتے ہیں؛ مگر جب تاریخی حقائق کی بات آتی ہے تو اس کو مسUUخ ِ یہ لوگ
کر کے پیش کرتے ہیں ،اس طرح قاری کو تذبذب کا شکار کر دیتے ہیں اور ایسے نوجوان جو اپنی علمی ورثہ سے بالکل ہی نا واقUUف ہیں ،وہ ان
مستشرقین کی تحقیقات کو من و عن تسلیم کرنے لگے ہیں ،اس کے عالوہ امت مسUلمہ کUا تعلیم یUافتہ طبقہ اور جUدت پسUند اذہUان کUو بہت حUد تUک
تشکیک کا شکا ر کیا جا چکا ہے۔
مستشرقین کی تحقیقات کا بہ نظر غائر جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضUUح ہUUوتی ہے کہ وہ خUUود جUUو تحقیUUق کے لUUیے اصUUول پیش کUUرتے ہیں
(یعنی غیر جانبداری،اور حقائق کو بعینہ Uتسلیم کرنا)ان کی نفی بھی خود اپنے رویہ سے کر دیتے ہیں ،دوران تحقیق بارہا اپUUنے مفUUاد کی خUUاطر
اپنے ہی اصول کو توڑتے ہیں اس طرح ان کی تحقیق کا ایک مضحکہ خیز پہلو یہ ہے کہ پیغمبرِ Uاسالم کUو جھٹالنے کے لUیے خUود ہمUارے علمی
ورثہ سے مواد اکٹھا کرتے ہیں ،جو مواد ان کے خیال کے مطابق ان کے حق میں جاتا ہUUو اسUUے اسUUتدالل کے طUUور پUUر پیش کUUرتے ہیں اور انھیں
کتب میں سے جو مواد ان کی اپنی آراء یا من چاہے نتائج کے خالف دلیل قطعی کی حیثیت Uرکھتا ہو ،اسے یکلخت نظرانداز کر دیتے ہیں۔
$اس کے عالوہ اکثر اوقات مستشرقین کسی واقعہ کے متعلق اپنے ذہن میں پہلے سUUے ہی ایUUک مفروضUUہ قUائم کUUر لیUتے ہیں اور بعUUد ازاں
اپنے اس مذموم مفروضے کو ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کUا زور لگUاتے ہیں۔ اس سلسUلے میں انھیں موضUوع روایت بھی مUل جUائے تUو وہ
اسے استشہاد کے لیے غنیمت Uجانتے ہیں۔
$حدیث اور سیرت النبی صلی ہللا علیہ وسلم کے موضوعات پUر ان احUادیث کUا سUہارا لیUتے ہیں ،جUو اکUثر محUدثین اور فقہUاء کے نزدیUک
موضوع او ر ناقابل اعتبار ہیں،جیسے قصہٴ غرانیق اور فترت وحی کے حوالے سے کہ ان ایام میں (نعوذ باہلل ) آپ صلی ہللا علیہ وسUUلم نے خUUود
کشی کی بھی کوشش کی؛ بلکہ William Muirنے " "The Life of Muhammadمیں " "Seeks to commit suicideعنوان قائم کیا ہے۔
$یہ مستشرقین بعض مرتبہ اپنے تعصب کی تسکین کے لیے تحقیق کے معیار سے اس قدر گر اوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں کہ اپUUنے مUUذموم
مقاصد کے لیے قرآن وحدیث میں لفظی تبدیلیاں بھی کر دیتے ہیں۔()۲۵
مستشرقین مسلمانوں میں مختلف فیہ مسائل پر تحقیق نہیں کرتے جن کے حل ہونے سے مسلمانوں میں تفرقہ بازی کا خاتمہ ہو؛ کیونکہ ایسا
کر نا ان کے اصول” لڑاؤ اور حکومت Uکرو“ کے خالف ہے ،مستشرقین بعض اوقUUات خلUUوص سUUے؛ لیکن اکUUثر اوقUUات ریاکUUاری سUUے اسUUالم اور
پیغمبر Uاسالم کی حمایت کرتے ہیں؛ تاکہ وہ اس سے مسلمانوں کی ہمدردیاں حاصل کر کے ان کے نزدیک اپنی تحقیقات Uکو مسUتند UثUابت کرسUکیں۔
” پیغمبر اسالم کے متعلق مغرب Uکی عیسائی دنیا(مستشرقین) Uکی بحث و تحقیق اور ان کی تحریروں کا نچوڑ سب و شUUتم کUUا ایUUک المتنUUاہی UسلسUUلہ
ہے ،جس میں کلیسائی دینی اور مذہبی شخصیات کے ساتھ غیر دیUUنی اور المUUذہبی افUUراد بھی برابUر حصUہ لیUUتے رہے ہیں ،اور یہ سUUیالب آج تUک
رواں ہے۔()۲۷
استشراقی لٹریچر" کے اثرات
عصر حاضر میں مستشرقین نے اسالم کے خالف ایک اور محاذ کھول رکھا ہے اور ان کی کوشش ہے کہ کسی طرح اسالمی تعلیمUUات کUUو
غیر عقلی اور غیر فطری ثابت Uکیا جائے اور یہ باور کروایا جائے کہ اسالمی احکامات بنیادی انسانی حقUUوق سUUے متصUUادم اور عصUUری تقاضUUوں
سے ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے ناقابل عمل ہیں اور خالف فطرت بھی ہیں ،جب کہ حقیقت Uسراسر اس کے برعکس ہے۔ ()۲۸
لشی من المصالح ․․․․ وھذا ظن فاس ٌد تکذبہ السنة واجمUUاع ان کے متعلق شاہ ولی ہللا فرماتے ہیں” وقد یظن أن األحکام الشرعیة غیر متضمنة ٍ
القرون المشھود لھا بالخیر“ بعض دفعہ یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ احکام شرعیہ کے اندر مصالح عباد کا لحاظ نہیں رکھUUا گیUUا ․․․ جبکہ یہ خیUUال
بالکل غلط ہے جس کی قرآن ،سنت اور خیر القرون کے اہل علم کا اجماع تکذیب کرتا ہے ۔()۲۹اس وقت یہ محاذ مسلمان اہل علم کی فUUوری تUUوجہ
کا متقاضی ہے ۔
مستشرقین کا سب سے اہم ہتھیار Uجس سے انھوں نے مسلمانوں کو متاثر کرنا چاہا اس کا تعلق سیرة سے ہے ،انھوں نے واقعUUات سUUیرت کUUا
صحیح طور پر تجزیہ نہیں کیا ،ان کی تحقیقات Uسے سیرت طیبہ کی اصلی روح مجروح ہوئی ہے اور دانستہ یا نادانسUUتہ انھUUوں نے صUUداقتوں کUUا
انکار کیا ہے اور سیرت نگاری کرتے ہوئے غلط فہمیوں کو جگہ دی اور لوگوں کو حضور صUلی ہللا علیہ وسUلم کی زنUUدگی کے بUارے میں غلUط
تاثر دینا چاہا،سیرت نگاری کے متعلق غلط تاثر اور واقعات کو غلط طور پر پیش کرنے کے کے لیے کمزور روایتوں سے مدد لی” سUUیرت نبUUوی
کی تدوین سے پہلے اس کے متعلق کچھ خیاالت قائم کر لیتے ہیں پھر جب سیرت سازی شروع کرتے ہیں تو رطب و یابس ہر قسم کی روایتوں پUUر
اعتماد کرتے ہیں جس سے ان کے موقف کی تائید ہوتی ہو ،وہ ضعیف یا شاذ کی پUUروہ نہیں کUUرتے؛بلکہ Uانھیں ضUUعیف اور شUUاذ احUادیث کUUو اپUUنے
استدالل کے طور پر پیش کرتے ہیں“(” )۳۰اس میں کو ئی شک نہیں کہ انصاف پسند مستشرقین بھی موجود ہیں؛ لیکن آٹے میں نمUUک کے برابUUر
یا پھر وہ جو حق کی روشنی کو دیکھ کر اسالم کے قریب آئے اور پھر انھوں نے اسUUالم قبUUول کUUر لیUUا؛ لیکن مستشUUرقین کی ایUUک اکUUثریت انUUدھے
تعصب میں گرفتار ہے ،ان کا مقصد اسالم اور پیغمبر Uاسالم کی اہانت کے سوا کچھ نہیں“()۳۱
مستشرقین نے اسالمی معاشرہ کی امتیازی خصوصیات کو ختم کر دیا ہے ،امتیازی خصوصیات میں اسالم کا تشریعی ،تعلیمی اور تربیتی
نظام ہے ،ان کی کوشش یہ رہی ہے کہ شریعت اسالمیہ کو ناکارہ اور بے فائدہ بیان کریں اور اس کے قUدیم مصUادر ومآخUذ میں شUUکوک وشUبہات
پیدا کریں؛ تا کہ مسلمان ان کی طرف رجUUوع ہی نہ کUUریں،مستشUUرقین کUUا ایUUک مUUذموم رویہ یہ بھی ہے کہ وہ مسUUلمانوں کے مختلUUف طبقUUوں ،مثالً
قائدین ،فاتحین اور علماء وغیرہ کی شخصیتوں کو مجروع اور ان کا مقام ومرتبہ کم کرنے کے لیے فرضی واقعات گھڑ لیتے ہیں اور ان کی بنیاد
پر وہ ہر اس چیز کو بھی مورد الزام ٹھہراتے ہیں ،جن کا کوئی تعلق اسالم یا مسلمانوں سے ہوتا ہے ۔
مستشرقین کے پیش نظر یہ بات بھی ہوتی ہے کہ جہاد کی تاویل وتوجیہہ کر کے مسلمانوں کو اس کی جانب سے غافUUل کUUر دیUUا جUUائے اور
ت مقابلہ پاش پاش ہUUو جUUائے اور اس کے نUUتیجے میں مسUUلمانوں کی سUUلطنتوں کے انھیں عافیت وآرام پسندی کا درس دیا جائے؛ تا کہ اسالم کی قو ِ
ٹکڑے کر دیے جائیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ ” مستشرقین کے نام سے ایک مستقل گروہ نے عربی علوم وادب کی حفاظت واشاعت کو اپنی زنUدگی کUا مقصUد بنایUا ،ان
کی یہ قابل قدر سر گرمیاں ہمارے شکریہ کی مستحق ہیں؛ لیکن ظاہرہے کہ یہ علوم ان کے نہ تھے؛ اس لیے وہ ہمدردی اور محبت جو مسلمانوں
کو اپنی چیزوں سے ہو سکتی ہے ان کو نہیں ہے؛ اس لیے ان کی تحقیق وتدقیق سے جہاں فائدہ ہو رہا ہے ،سخت نقصان بھی پہنچ رہUUا ہے ،جس
کی تالفی آج مسلمان اہل علم کا فرض ہے ،ان میں ایک ایسا گروہ بھی ہے جو اپنے مسیحی اور مغربی نقطئہ نظر سے اسالمی علوم اور اسالمی
تہذیب وتمدن پر بے بنیاد حملہ کر رہا ہے ،قرآن مجید ،حدیث وتصوف ،سیرورجال ،کالم وعقائد سب ان کی زد میں ہیں ،نہیں کہUUا جUUا سUUکتا ہے
کہ یورپ کے اس رنگ کے لٹریچر سے اسالم کو کس قدر نقصان پہنچا ہے اور پہنچے گا ،اگر یہ زہUUر اسUی طUUرح پھیلتUUا رہUUا اور اس کUUا تریUUاق
نہیں کیا گیا تو معلوم نہیں کس حد تک مسلمانوں کے دماغوں میں سرایت کر جائے“()۳۲U
شعبہ علم ہے ،جس کی بنیUUاد پUUر مغUUرب میں ٴ ایک شناسی ایڈ ورڈ سید ان مستشرقین کے منصوبوں کوان الفاظ میں واضح کرتے ہیں ” شرق
مشرق کے بارے میں ایک سوچی سمجھی اسکیم کے تحت ایک رویہ متعین کیا جاتا ہے اور ایک نقطئہ نظر قائم کیUا جاتUا ہے گویUا حصUول علم ،
اور نUUئی کتUUابیں ( مشUUرق کے بUUارے میں ) دریUUافت کUUرنے کUUا ذریعہ ہے ،پھUUر اس پUUر عملی کUUام بھی ہوتUUا ہے ،اس کے عالوہ میں اس لفUUظ کUUو
مجموعہ الفاظ جو ہر کسی کے لیے ہیں اور مشرق سے متعلق مواد کا حامل سمجھتا Uہوں ۔()۳۳ ٴ خوابوں ،تصورات ،خاکوں اور
مستشرقین کے تالمذہ جو کہ اب ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں ،اور ان مستشUرقین ہی کے دمUاغ وعقUل سUے سUوچتے ہیں ،وہ اس لحUاظ سUے
نسبة ً زیادہ خطرناک ہیں کہ وہ مسUUلمان ہUوتے ہیں ،ان کی تحقیقUUات وتالیفUUات مسUUلمانوں کے حلقUوں میں بہت جلUد پہنچ جUاتی ہیں اور وہ جUUو کچھ
لکھتے ہیں ان پر اعتماد بھی کر لیا جاتا ہے ،ایسے افراد کی تحریروں کا احاطہ کر کے تدارک بھی ضروری ہے ۔
مستشرقین عام طور پر اپنی تحریروں میں یہ رویہ اپناتے ہیں کہ پہلے اسالم اور پیغمبر ِ اسالم کے متعلق بڑے فیاضUUانہ انUUداز میں تعUUریفی
کلمات کا ڈھیر لگا دیتے ہیں،جس سے اندازہ ہونے لگتا ہے کہ مصنف بڑے اچھے انداز میں اسالم کی تشریح پیش کر رہا ہے ،اس کے بعد اسUUالم
کے خالف ایسی بات کرتے ہیں جو اسالم اور پیغمبر ِ اسالم کے خالف ہوتی ہے ،سابقہ تعریفی کلمات کی بنیاد پرعام قUUارئین اس بUUات سUUے متUUاثر
ہو جاتے ہیں ۔
مستشرقین کی ان انتھک متحدہ کوششوں سے وہ علمی سرمایہ معرض وجود میں آیا ہے کہ آج مشرق ومغر ب کے ادنی طالب علم سے لے
کر بڑے مصنّفین تک جب بھی کوئی کسی موضوع پر کچھ لکھنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کوکسی حد تک ان مستشرقین کی تصنیف کردہ کتابوں
سے استفادہ کرنا پڑتا ہے ،اگرچہ وہ مسلم ہے اور اس کا ضمیر اس کی اجازت بھی نہیں دیتا؛ مگر اس کے پا س اس کے عالوہ کوئی چUUارہٴ کUUار
بھی نہیں ہے ۔
مستشرقین کا سب سے خطرناک ارادہ اور منصوبہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا دل ودماغ توحید ،اخالق ،روحانیت اور ایمان سے عاری ہو کUUر
اس تیز وتند ہوا کے سامنے آجائے جو تعلیم ،صحافت ،ادب ،فلم اور لباس وغیرہ کے راستہ سے عام ہو رہی ہے ،ان چیزوں کے مسموم اثرات
سے ایسی نسل تیار ہو رہی ہے ،جو تخریب Uاور بربادی کی طرف اس کو ترقی وتمدن کا نام دے کر چلی جار ہی ہے اور اسUUالمی تUUاریخ وتہUUذیب
اور اس کے اصول ومبادی کو مسخ کر کے مستشرقین ومبلغین کی پیروی کررہی ہے اور ان ہی کی طرح اس دور کUUو حقUUیر اور کمUUتر خیUUال کUUر
رہی ہے ،جو تاریخ عالم کی نمایاں اور مفید خUUدمت انجUUام دے چکUUا ہے ،اور مسUUلمانوں کے دلUUوں میں بھی اس کے نUUاقص اور فروتUUر ہUUونے UکUUا
احساس وشعور پیدا کر رہی ہے ۔
رہنماوں اور قائدین کو نمایاں اور ممتاز قرار دیتے ہیں جو رسو ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے قائدانہ اوصاف اختیار کUUرنے ٴ مستشرقین ایسے
کے بجائے فکر ی ،اعتقادی اور اجتماعی حیثیت Uسے مغربی قائدین کے نقش قد م پر چلتے ہیں ۔
مستشرقین علماء عرب اور دنیائے اسالم کو پس ماندگی اور بدحالی سے ہمکنار کر کے اس پر اظہار ہمدردی کرتے ہیں اور پھر مسلمانوں
کو یہ باور کراتے ہیں کہ ان کی پس ماندگی کا سUUبب اسUUالم کی پUUیروی اور محمUUد صUUلی ہللا علیہ وسUUلم کی اقتUUداء ہے ،اس کے لUUیے وہ بے شUUمار
الزامات گھڑتے Uہیں ۔مستشرقین نے ایک منصوبے Uکے تحت حقائق کو اپنے زوایہ نگاہ سے دیکھا اور مختلUUف جہتUUوں سUUے الUUزام تراشUUی کی اور
انھوں نے جوخاص طرزو انداز اپناتے ہوئے Uغلط ،بے بنیاد قصے کہانیاں اور روایتیں نقل کی ہیں اس سUUے عUUوام کے سUUاتھ خUUاص لUUوگ جن کUUا
اسالم کے ساتھ گہر ا تعلق ہے ،وہ بھی متاثر نظر آتے ہیں ،ہمارے علمی حلقوں کا اس طرح متاثر ہونا بڑے خطرے کی عالمت ہے ،جو کہ آنے
والی نئی نسل پربدترین اثرات مرتب ہونے کا سبب بن سکتے Uہیں۔
نو مسلم یورپی مفکرمحمد اسد نے مستشرقین کی پھیالئی ہوئی غلط فہمیوں کے اثرات و نتائج کUUا جUUائزہ لیUUا ہے ان کی آراء میں مستشUUرقین
(قدیم و جدید کی کاوشوں اور ان کے خیاالت و تصورات نے عام مغربی ذہنUوں کUو مسUموم کUر دیUا ہے؛ چنUاچہ ان کی (ان کے عالوہ دیگUر مسUلم
مفکرین کی بھی) تحریریں مغرب میں اسالم کی دعوت و تبلیغ اور اس کی تفہیم کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن گئی ہیں ،ان مستشرقین کی نگارشUUات
کے زیر اثر عام یورپی و امریکی افراد اسالم کی کسی طور پر درخور اعتنUUاء نہیں گردانUUتے ،وہ اسUUالم اور اس کی روحUUانی اخالقی تعلیمUUات کUUو
قابل احUترام نہیں سUمجھتے ،نہ وہ اسUے عیسUائیت اور یہUودیت سUے مUوازنہ کے قابUل خیUال کUرتے کسی بھی نقطئہ نگاہ سے کچھ زیادہ وقیع اور ِ
ہیں،جیسا کہ درج ذیل عبارت سے واضح ہوتا ہے۔
تحریک استشراق کا سب سے بڑا نقصان جو ملت اسالمیہ کو ہوا وہ یہ کہ مسلم امت میں ایک طبقہ ایسا پیدا ہو گیUUا جUUو مستشUUرقین کUUو اپنUUا
سب سے بڑا خیر خواہ سمجھتا ہے اور ہماری زبان ،تہذیب ،تاریخ اور جملہ مشرقی علوم کUUو محفUUوظ رکھنUUا مستشUUرقین کی علم دوسUUتی اور بے
قابUل اعتمUاد بUات وہ ہUوتی ہے جUو کسUی ِ الگ تحقیق Uکی دلیUل سUمجھنا Uہے ،جس کی وجہ سUے آج قUومی سUوچ یہ بن گUئی ہے کہ ہمUارے نزدیUک
مستشرق کے قلم سے نکلی ہو ،اس کی وجہ یہ ہے کہ جب آپ مستشرقین کواپنا مخلص قرار دیتے ہیں تو پھر ان کی کسی تحریر کUUو شUUک وشUUبہ
کی نظر سے دیکھنا ممکن ہی نہیں رہتا ،ہماری اس سوچ کی وجہ سے ہمارے عوام وخواص کی اکثریت ان اصUUل عUزائم ومقاصUUد سUUے بے خUUبر
ہے جن کے تحت مستشرقین علوم اسالمیہ کی طرف متوجہ ہوئے تھے ،اس صورت حال سUUے مستشUUرقین زبUUر دسUUت فائUUدہ اٹھUUا رہے ہیں اور وہ
مسلمانوں کی طرف سے کسی قسم کے رد عمل کے خطرے کے بغیر ان کے دین ،ان کے معزز رسول صلی ہللا علیہ وسلم اور ان کی ہر مقدس
شے پر مسلسل وار کر رہے ہیں ۔()۳۵مستشرقین سے متاثر لوگوں کو یہ خیال رکھنا چاہیے کہ مستشرق خواہ کیسا ہی انصاف پسند ہUUو اور اسUUالم
کی رفعت وعظمت کا دل وجان سے قائل ہو ،وہ بہرحال غیر مسلم ہے ،اس بنا پر وہ اسالم اور پیغمبر Uاسالم صلی ہللا علیہ وسلم کUUا مطUUالعہ جس
نقطئہ نظر سے کرتا ہے ،وہ بال شبہ کسی مسلمان کا نقطئہ نظر نہیں ہو سکتا ؛ اس لUUیے ان سUUے خUUیر کی توقUUع کم ہی رکھUUنی چUUاہیے ،اور نہ ہی
کسی ہمدردی کی ۔ مستشرقین کے مکرو فریب سے بچناخاصا مشکل ہے ،وہ علم کا لباس پہن کر اور تحقیق کا لبUUادہ اوڑھ کUUر آتے ہیں تUUو اچھے
خاصے پڑھے لکھے اور سمجھ دار مسلمان بھی دھوکہ کھا جاتے ہیں اور ان سے متUاثر ہUUو کUUر ان کی کاوشUوں اور تحقیقی کUاموں کی داد دیUUنے
لگتے ہیں ۔اور اس تعداد میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہو رہا ہے کہ اب مستشUرقین کے بجUUائے یہی لUوگ اس کUUام کUUو سUUر انجUام دے رہے ہیں ،
اسی کے متعلق اقبال نے کیا خوب کہا ہے :
پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے
استشراق کے ان علم براداروں کی تعداد کو دیکھUتے ہUوئے Uبعض لوگUوں نے ان کUو” مسUتغربین“ کUا نUام دیUا ہے ،مستشUرقین نے اسUالمی
تعلیمات کے وقار کو مجروح کیا اور اسالم کے بارے میں شک وشبہ کی ایک ایسی فضا پیدا کر دی ،جس کUUا اثUUر یہ ہUUوا کہ اس کے انUUدر سUUانس
احساس کمتری کا شکار سمجھنے Uلگا ،اسUUالمی ملکUUوں میں جہUUاں کی مUUادری زبUUان عUUربی ہے، ِ لینے واالمسلمانوں Uکا تعلیم یافتہ طبقہ اپنے آپ کو
عربی کی اہمیت گھٹا کر وہاں کے باشندوں کو مقامی زبانوں کے زندہ کرنے کے دام میں پھنسUایا جاتUا ہے؛ تUا کہ وہ ان کی طUرف متUوجہ ہUو کUر
عربی زبان بھول جائیں اور قرآن کے سمجھنے والے باقی نہ رہیں ،اس وقت ان کے خیاالت اور رجحانات کو اپنے سانچے میں ڈھال لیا جUUائے ،
استشراق ایک بہت بڑا فتنہ ہے ،جس کے مضر اثرات سے ہر میدان میں نئی نسل کے مسلمان نوجوان کو بچانUUا ضUUروری ہے ،مستشUUرقین سUUے
بڑھ کر خطرہ ان کے شاگرد مستغربین کUUا خطUUرہ ہے جUو مسUUلمانوں کے لبUUاس میں ملبUUوس ہUو کUر ہمUارے تعلیمی اداروں میں ان مستشUرقین کے
نظریات وخیاالت اور تحریفات وخرافات پھیالتے اور نوجوان طلبہ کے ذہن مسموم کرتے ہیں ۔
نتائج بحث
مستشرقین کا اصل مقصد تحقیق کے لبادے میں اسالمی تعلیمات Uکو مسخ کر کے اسالم اور مسلمانوں کوبدنام کرنUUا ہے اس مقصUUد کے لUUیے
انھوں نے ہر قسم کا حربہ استعمال کیا اور میکاؤلی کا یہ اصول ” کہ مقصد عظیم ہو تو اس کے حصUUول کے لUUیے ہUUر ذریعہ اسUUتعمال کرنUUا جUUائز
ہے“ کا انھوں نے خوب استعمال کیا؛ حاالنکہ میکاؤلی نے یہ اصول سیاستدانوں کے لیے وضع کیا تھا؛ لیکن یUUورپ کے اربUUاب قلم وقرطUUاس نے
اس اصول سے خوب فائدہ اٹھایا اور قرآن کریم اور احادیث نبوی صلی ہللا علیہ وسلم میں شک و شبہات پیدا کیے اور خیاالت ِفاسدہ و افکار بUUاطلہ
کو تحقیق Uکی آڑ میں پھیالنا Uشروع کر دیا۔
مستشرقین کی اس ساری تحقیق Uکا مقصد اسالم کے پیروں کاروں میں تشکیک Uکے بیج بونUUا تھUUا تUUا کہ قلم و قرطUUاس کے ذریعے مسUUلمانوں
کے دلوں کو فتح کر کے ان پر حکومت کی جائے اور اقتصادی و معاشی وسائل پر قابض ہو کر اہل اسالم کو ممکن حد تک کمزور کر دیUUا جUUائے
جس میں وہ بہت حد تک کامیاب ہو رہے ہیں۔مسلمانوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کے لیے مستشرقین نے اہم ہتھیار کے طور پUUر سUUیرة طیبہ
کو استعمال کیا ہے ،دوران سیرت نگاری صرف تصویر کے اس رخ کو نمایاں طور پر پیش کیا جس میں ان کی نظر کے مطابق کUUوئی خUUامی یUUا
کمی تھی اور لوگوں کو غلط تاثر دینے کے لیے کمزور،موضوع اور رطب و یابس ہر قسم کی روایتوں سے مدد لی۔
مستشرقین نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت حقائق کو اپنے زاویہ نگا ہ سے دیکھا ،مختلف جہتوں سے الUزام تراشUی کUر کے
غلط ،بے بنیاد قصے کہانیاں اور روایتیں نقل کر دی ہیں جس کی وجہ سے عوام کے ساتھ خواص جن کUUا اسUUالم کے سUUاتھ گہUUرا تعلUUق ہے وہ بھی
متاثر نظر آتے ہیں۔
سفارشات
تعالی کا آخری پیغام ہے اور ہللا کی طرف سے بھیجا ہوا دین ہے ،جو ہUUر طUUرح کے حUUاالت اور تبUUدیلیوں میں ٰ $اسالم انسانیت Uکے لیے ہللا
اپنی افادیت اور ضرورت کو برقرار رکھے گUUا ،یہ ایUUک انقالبی دعUUوت ہے جس کے گہUUرے اور دور رس اثUUرات مUUادی ،اقتصUUادی اور اجتمUUاعی
دور حاضر کی اہم ضرورت ہے۔ زندگی پر ازل تک مرتب ہوتے Uرہیں گے ،لہٰ ذا مدلل اور تقابلی انداز میں اس کی حقانیت Uکو واضح کرنا ِ
$مستشرقین کا اہم ہتھیار سUیرة طیبہ ہے جس کUو گUدال کUرنے کے سUاتھ مسUلمانوں میں تشUکیک UپیUدا کی گUئی ہے؛ اس لییسUیرت طیبہ کے
ذخیرئہ کتب کو از سر نو مرتب کیا جائے اور مستشرقین کے اعتراضات کو نقل کرکے پڑھنے والوں کے لیے تشفی بخش سامان مہیا کیا جائے۔
$مستشرقین کی وہ کتب جو تحقیق کے قواعد و ضوابط پر پورا نہیں اترتیں ،ان کی نشاندہی کی جائے اور ان کی نشر و اشاعت پUUر پابنUUدی
لگائی جائے۔
$عام مسلمانوں کے لیے شریعت اسالمیہ کے تشریعی ،تعلیمی اور تربیتی پروگرامزکرا ئے جائیں،اور دین ِ اسالم کی تشریح عام فہم انداز
میں بیان کی جائے۔
Uایہ تکمیUUل تUUک پہنچUUا رہے ہیں،
ٴ Uپ کو مقاصد کے مستشرقین سے ذریعے کے قرطاس و قلم کر ہو متاثر سے مستشرقین جو اسکالرز $مسلم
اہل علم سے تصدیق کے بعد ترویج و اشاعت کی اجازت دی جائے۔ ان کی تحریرو تقریر کو مستند ِ
$تعلیم ،صحافت ،ادب اور میڈیا کے تحت اسالم،پیغمبر ِ اسالم کے خالف ہونے Uوالے پروپیگنڈا پر سختی سے پابندی لگائی جائے۔
Uل اسUUتفادہ
$حکومتی سطح پر عربی زبان کی ترویج و ترقی ہو؛ تا کہ ہم اپنے حقیقی ورثہ کو آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ رکھ کUUر قابِ U
بنا سکیں۔
$سیرة النبی کی اہم عربی و اردو کتب کا انگریزی زبان میں ترجمہ کروایا جائے؛ تا کہ انگریزی خواں جدید تعلیم یافتہ طبقہ بھی اس سUUے
مستفید ہو سکے۔
$مستشرقین سے متاثر لوگوں کو ہمیشہ یہ خیال رکھنا چاہیے کہ مستشرق خواہ کیسا ہی انصاف پسند ہUUو اور اسUUالم کی رفعت و عظمت کUUا
دل و جان سے قائل ہو وہ بہرحال غیر مسلم ہے ،اس بنا پر وہ اسالم اور پیغمبر اسالم کا مطالعہ جس نقطہ سے کرتا ہے ،وہ بال شبہ کسی مسلمان
کا نقطئہ نظر نہیں ہوسکتا؛ Uاس لیے ان سے بھالئی و خیر کی امید کم ہی رکھنی چاہیے۔
$عہ ِد حاضر کی اشد ضرورت ہے کہ پورے استشراقی لٹریچر کا تنقیدی جائزہ لیا جائے اور اس کو مکمUل اور بUا ضUابطہ طUور پUر علمی
اصولوں کی کسوٹی پر پرکھا جائے ،اور ان مسUUلمان مصUUنفین کی تحریUUروں کUUو بھی ،جن کے طUUرز فکUUر میں مستشUUرقین کے خیUUاالت کUUا عکس
جھلکتا ہے ،ان کی تحریروں کا جائزہ لے کر علمی تلبیسات وتدلیسات کو واضح کیا جائے۔
$اسالم سے متعلق اسکول سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک طلبہ کے لیے دور جدید کے تقاضوں کے مطابق ایسی کتب تیUUار کUUروائی
جائیں جو تعلیمی Uنصاب کا حصہ بن سکیں۔
$آج کے دور میں تحقیق سے آراستہ اور جدید اسلو ب اور موجودہ دو ر کے تقاضوں کے مطابق ہر زبان میں کتUUابیں لکھیں جUUائیں؛ تUUا کہ
نئی نسل کو مستشرقین کے گمراہ کن نظریات سے محفوظ رکھا جا سکے ۔
$تصنیف و تالیف کا تمام کام علمی معیار ،موجودہ تحقیق Uاور جدید اصولوں کے عین مطابق UہUUو؛ تUUا کہ ان کتUUابوں کUUا مطUUالعہ مسUUلم و غUUیر
مسلم سب کے لیے یکساں طور پرمفید ہو۔
$مستشرقین کے اعتراضات کا سد باب کرنے کے لیے مطالعہ میں وسعت Uوگہرائی اور استدالل کے ساتھ تحمل مزاجی بھی پیدا کی جائے۔
$دور حاضر کی زبان اور محاورے میں دین کی تعبیر Uوتشریح عام فہم انداز میں بیان کی جائے اور اس میں ان لوگوں کی تشفی کا سUUامان
بھی موجود ہو جو استشراقی لٹریچر سے متاثر ہوچکے ہیں۔
$اسالمی ممالک میں تحقیق کے جدید مراکزقائم کیے جائیں جس میں مستشرقین کے اعتراضات و اثرات کUUا جUUواب کتب ،مضUUمون نگUUاری
اور انٹرنیٹ کو استعمال میں التے ہوئے دیا جائے۔
$اسالمی ممالک میں جدیدخطوط پر استوار مراکز کے تحت مستشرقین کے عنوان پر سیمینارز کروائے جائیں۔
$یونیورسٹیوں اور اسالمک سٹڈیز کے شعبوں کے سر براہ اور استاتذہ اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ ان کے طالب علم مستشUUرقین کے
مراجع پر اعتبار نہ کریں۔
مسلمان مترجمین جب مستشرقین کی کسی کتاب کا ترجمہ کریں تو اس میں قابل ِ اعتراض عبارتوں کے جوابات دینے میں تساہل کا مظUUاہرہ
نہ کریں۔
دین اسالم کی بہت بڑی اور نہایت ضروری خدمت ہے ۔ ِ اور دین علم
ِ وقت اس کرنا، مہیا تریاق کا قاتل ِ زہر اس $