You are on page 1of 17

‫ت‬ ‫ض‬ ‫غ‬ ‫ف‬ ‫غ‬ ‫ت‬ ‫ن‬

‫غ‬ ‫یک ئ ن‬ ‫ع‬


‫ے۔ ( ‪)20‬‬ ‫ے ی ز اس کی رض و ای ت ‪ ،‬اہ می ت‪ ،‬مو وع اور حکم حریر یکج ی‬ ‫م‬
‫لم ج وی د کا لوی و اصطالحی ہوم ب ی ان ج‬ ‫سوال مبر ‪1‬۔‬
‫علم تجوید‪ ‬یا تجوید‪ ‬قرآن مجید‪ ‬کی تالوت میں حروف کو ان کے درست مخرج سے اداء کرنے کے‪ ‬علم‪ ‬کو کہتے ہیں۔[‪]1‬۔ لوگوں میں عام ہے کہ‬
‫عربی عبارات (قرآن‪ ،‬احادیث‪ ،‬درود و سالم وغیرہ) پڑہتے وقت اکثر "ع" اور "ا" کو ایک ہی مخرج سے ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح "ط‪ ‬اور "ت‪ ‬؛‬
‫"ص"‪" ,‬س" اور "ث" ؛ "ح" اور "ھ" ؛ "خ" اور "کھ(جو دراصل عربی میں ہے ہی نہیں)" ؛ "ف" اور "پھ(عربی زبان میں موجود ہی نہیں)"‪,‬‬
‫"ک" اور "ق" ؛ "ذ‪"،‬ظ"‪"،‬ض" اور "ز" کو بھی ایک مخرج سے ہی ادا کیا جاتا ہے۔ جبکہ عربی زبان کے تمامی ‪ 28‬حروف کی الگ الگ ‪28‬‬
‫معنی و‬
‫ٰ‪U‬‬ ‫مخارخی آوازیں ہیں اور قرأت کے دوران ہر حرف کو اپنے ممتاز‪ U‬مخرج سے ہی ادا کیا جانا چاہیے (اس کو ہی تجوید کہا جاتا ہے) ورنہ‬
‫العلمین" (ترجمہ‪ :‬تمام کی تمام تعریفیں ہللا رب العالمین کے‬ ‫مفہوم میں زمین و آسمان کا فرق پیدا ہو جائے گا۔ مثالً‪ ،‬اگر کہیں؛ • "الحمد هّٰلِل رب ٰ‬
‫لیے ہیں) کی جگہ "الھمد هّٰلِل " پڑه ليا تو پھر ترجمہ ہو جائیگا‪ :‬تمام کا تمام "دُھواں" ہللا رب العالمین کے لیے ہے۔‬
‫صلِّ ِل َربِّكَ َوا ْن َحر" (ترجمہ‪ :‬پس اپنے رب کی خاطر نماز پڑہیے اور قربانی کیجیے)‪ U‬کی جگہ "فصل لربك َوا ْنھر" پڑه ليا تو پھر ترجمہ ہو‬ ‫• "فَ َ‬
‫جائیگا‪ :‬پس اپنے رب کی خاطر نماز پڑہیے اور "ڈانٹیے" اسے۔ • "قُل هو هّٰللا احد" (ترجمہ‪ :‬کہو کہ ہّٰللا ایک ہے) کی جگہ " ُکل هو هّٰللا احد" پڑه ليا‬
‫تو پھر ترجمہ ہو جائیگا‪" :‬کھائو" کہ ہّٰللا ایک ہے۔ • قَلب المؤمن بیت هّٰللا (ترجمہ‪ :‬مومن کا دل ہّٰللا کا گھر ہے) کی جگہ "کَلب المؤمن بیت هّٰللا " پڑه‬
‫ليا تو پھر ترجمہ ہو جائیگا‪ :‬مومن کا ُکتّا ہّٰللا کا گھر ہے۔ معاذہللا‬
‫ً‬
‫اب خود ہی دیکھ لیں کہ بغیر تجوید کے عربی عبارات کا مطلب کتنی حد تک بدل جاتا ہے کہ جان بوجھ کر پڑہنے‪ U‬واال گستاخ تو یقینا کافر ہو‬
‫جائے گا۔ پھر اس طرح بغیر تجوید پڑھی گئی نماز‪ ،‬مسنون دعائیں‪ ،‬صالة و سالم وغیرہ کیسے قبول ہو سکتے‪ U‬ہیں؟؟۔ الٹا یہ اعمال ہمارے گناہ‬
‫کبیرہ شمار ہوں گے۔ لہٰذا قرأت مین اتنی تجوید کہ ہر حرف دوسرے سے بالکل صحیح ممتاز ہو‪( ،‬سیکھنا‪ U‬اور عمل میں النا)‪ U‬فرض عین ہے اور‬
‫اس کے عالوہ نماز بھی قطعا ً باطل ہے۔‪ ‬‬
‫علم تجوید کی ضرورت‬
‫ض عین ہے۔ جو شخص باوجود" قدرت رکھنے کے نہ سیکھے وہ یقینا گناہ گار‬ ‫علم تجوید کا سیکھنا فرض کفایہ ہے اور اس پر عمل کرنا فر ِ‬
‫ہے‪ ،‬اور شدید عذاب کا مستحق ہے۔‬
‫ً‬ ‫اْل‬
‫ارشاد’’و َرت ِل القرْ آنَ تَرْ تِی ‘‘ (سورئہ مزمل پ ‪ )۲۹‬ترجمہ‪:‬‬‫ُ‬ ‫ْ‬ ‫ِّ‬ ‫َ‬ ‫تعالی کا‬ ‫ٰ‬ ‫اس علم کی فرضیت قرآن مجید اور احادیث شریفہ دونوں سے ثابت ہے۔ ہللا‬
‫ق تِاَل َوتِ ْہ‘‘ (سورۃ بقرہ)‪ ‬ترجمہ‪ :‬جن‬ ‫َاب یَ ْتلُوْ ن َٗہ َح َّ‬‫اور پڑھ قرآن کو صاف صاف روشن۔ اس آیت میں ترتیل سے تجوید مراد ہے۔‪’’ ‬اَلَّ ِذیْنَ ٰاتی ْٰنھُ ُم ْال ِکت َ‪U‬‬
‫لوگوں کو ہم نے قرآن دیا وہ اسکو پڑھتے رہتے ہیں جیسا کہ اسکو پڑھنے کا حق ہے۔ یعنی صاف صاف صحیح عبارت کے موافق تاکہ معنی‬
‫ٰ‬
‫القران وعلمہ‘‘ (بخاری‬ ‫ومطلب درست رہے۔ حضور اکرمﷺ کا ارشاد’’ عن عثمان رضی ہللا عنہ قال قال رسول ہللاﷺ خیرکم من تعلم‬
‫شریف)‪ ‬ترجمہ‪ :‬تم میں بہتر وہ شخص ہے جس نے قرآن سیکھا اور سکھایا۔ ونیز ترہیبا ارشاد فرمایا‪ ’’ :‬رب تالی القرآن یلعنہ‘‘‪ U‬ترجمہ‪ :‬یعنی بہت‬
‫سے قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں کہ قرآن مجید ان پر لعنت کرتا ہے۔ کیونکہ وہ اصول تالوت کے خالف پڑھتے ہیں۔‬
‫؎ امام جزری کا قول‬
‫ألنہ بہ اال لہ انزال‪                                                                       ‬وھکذا منہ إالینا وصال‬
‫تعالی نے قرآن مجید کو تجوید کے ساتھ نازل کیا اور ایسا ہی ہمارے پاس پہنچا۔‬ ‫ٰ‬ ‫حق‬
‫اسلئے اسکے خالف تالوت کرنا موجب غضب الہٰ ی ہے۔ انہیں اصول تالوت کا نام تجوید ہے۔‬
‫تجوید کی تعریف‪ :‬ہر حرف کو اسکے مخرج سے اس کی صفات الزمہ وعارضہ کے قواعد کی رعایت رکھتے‪ U‬ہوئے اچھے طریقہ سے پڑھنا۔‬
‫حکم‪ :‬ہر مسلمان عاقل وبالغ پر تجوید کے ساتھ قرآن مجید پڑھنا واجب الزم ہے۔ غرض‪ :‬علم تجوید کے سیکھنے کی غرض وغایت یہ ہے کہ‬
‫مومن قرآن پاک کی تالوت میں غلطی سے بچکر اسکو صحت درستی سے ادا کرکے سعادت دارین حاصل کرے۔‬
‫موضوع‪ :‬علم تجوید کا موضوع عربی کے حروف تہجی ہیں۔‬
‫علم تجوید عربی زبان میں اولین اہمیت کا علم ہے‪ ،‬اس کا تعلق صوتیات سے ہے‪ ،‬یہ علم ہجاء کی شاخ ہے‪ ،‬عربی زبان جملہ چھ (‪ )۶‬علوم پر‬
‫مشتمل ہے‬
‫علم ہجاء (‪)۲‬علم لغت (‪ )۳‬علم صرف (‪ )۴‬علم نحو (‪ )۵‬علم بال غت (‪ )۶‬علم عروض (شاعری)۔ )‪(۱‬‬
‫علم ہجاء میں عربی زبان کے حروف سے بحث کی جاتی ہے اور عربی زبان کے جملہ حروف (‪ )۲۹‬ہیں اسی کی ایک شاخ علم تجوید ہے اس‬
‫میں حروف کے نکلنے کے مقامات اور ان کی ادائی کی کیفیت‪ U‬سے بحث ہوتی ہے‪ ،‬حرف کے نکلنے کے مقام کو مخرج کہتے ہیں اور اسکی‬
‫جمع مخارج ہے‪ ،‬اور حرف کی ادائی کی کیفیت‪ U‬کو صفت کہتے ہیں صفت کی جمع صفات ہے‪ ،‬انتیس (‪ )۲۹‬حروف کے جملہ سترہ (‪ )۱۷‬مخارج‬
‫ہیں اور صفات بھی سترہ (‪ )۱۷‬ہیں۔‬
‫بعض دفعہ ایک مخرج سے دو دو تین تین حروف نکلتے ہیں۔ یہ سترہ (‪ )۱۷‬مخارج پانچ (‪ )۵‬حصوں میں تقسیم ہیں وہ حصہ جہاں مخارج بنتے‬
‫ہیںاسکو‪ U‬موضع کہتے ہیں ۔‬
‫۔ پہال موضع جوفی ہے‪ ،‬اس میں ایک مخرج بنتا ہے۔‪۱‬‬
‫۔ دوسرا موضع حلقی ہے اس میں تین(‪ )۳‬مخارج بنتے‪ U‬ہیں۔‪۲‬‬
‫۔ تیسرا موضع لسانی ہے اس میں دس (‪ )۱۰‬مخارج بنتے‪ U‬ہیں۔‪۳‬‬
‫۔ چوتھا موضع شفوی ہے اس میں دو (‪ )۲‬مخارج بنتے ہیں۔‪۴‬‬
‫۔ پانچواں موضع خیشومی ہے اس میں ایک (‪ )۱‬مخرج بنتا ہے۔‪۵‬‬
‫اور صفات بھی سترہ (‪ )۱۷‬ہیں اسکی دو قسمیں ہیں (‪ )۱‬صفات اضدادیہ‪ ،‬یہ دس ہیں ان میں پانچ پانچ کی ضد ہیں‪ ،‬اسکے عالوہ صفات غیر‬
‫الزمہ ہیں اور وہ صرف خاص مواقع پر ہی ادا ہوتے ہیں۔‬
‫صفات غیر الزمہ میں غنہ‪ ،‬ادغام‪ ،‬اخفاء‪ ،‬قلب‪ ،‬اور ترقیق وتفخیم ہیں۔ صفات الزمہ کی وجہ سے مشابہ آواز کے حروف میں فرق کیا جاتاہے‪ ،‬یہ‬
‫صفات ہر حالت میں حرف کے ساتھ الزم رہتے ہیں۔ صفات غیر الزمہ کی وجہ سے حسن وجمال پیدا ہوتا ہے جو کچھ بیان کیا گیا اسکا خالصہ‬
‫درج ذیل ہے۔‬
‫۔ عربی زبان کے جملہ حروف انتیس (‪ )۲۹‬ہیں۔‪۱‬‬
‫۔ حروف کے جملہ مواضع پانچ (‪ )۵‬ہیں۔‪۲‬‬
‫۔ حروف کے جملہ مخارج سترہ (‪ )۱۷‬ہیں۔‪۳‬‬
‫۔ حروف کے جملہ صفات اضدادیہ دس (‪ )۱۰‬ہیں پانچ پانچ کی ضد ہیں۔‪۴‬‬
‫۔ جملہ صفات غیر اضدادیہ سترہ (‪)۱۷‬ہیں۔‪۵‬‬
‫۔ صفات غیرالزمہ پانچ (‪ )۵‬ہیں۔‪۶‬‬
‫علم تجوید کی اہمیت‬
‫ٰ‬
‫اﷲ تعالی نے اپنے بندوں کی رشد وہدایت کے لئے قران مجید نازل فرمایا اور قران کریم کے پڑھنے ‘ سننے اور دیکھنے‪ U‬کو عبادت قراردیا۔‬ ‫ٰ‬
‫قران مجید کی تالوت کرتا‬‫قران کریم کی تالوت‪ U‬ایمان کی تازگی‘ دل کی پاکیزگی‪ U‬اور روح کی بالیدگی کا بہترین وسیلہ ہے ۔ جب کو ئی شخص ٰ‬ ‫ٰ‬
‫ٰ‬
‫ہے تو اسے معزز فرشتوں کا ساتھ نصیب ہوتا ہے گویا وہ ہللا تعالی سے ہمکالمی کا شرف حاصل کرتا ہے‪ ،‬قران پاک کا ایک ایک حرف‪  ‬تالوت‬
‫قران وحدیث میں جہاں تالوت کے فضائل مذکور ہیں وہیں تالوت کرتے وقت تالوت کے قواعد‬ ‫کرنے پردس دس نیکیوں کا ثواب لکھا جاتا ہے۔ ٰ‬
‫الو ِت ٖہ‘‘جن لوگوں کو ہم نے کتاب ٰ‬
‫(قران )‬ ‫ت‬ ‫َّ‬
‫ق‬ ‫ح‬
‫ُ ِ َ َ ٗ َ ِ َ‬ ‫َہ‬ ‫ن‬ ‫وْ‬ ‫ُ‬ ‫ل‬ ‫ْ‬
‫ت‬ ‫ی‬ ‫َاب‬ ‫ت‬ ‫ک‬ ‫ـ‬ ‫ْ‬
‫ال‬ ‫م‬ ‫ُ‬ ‫ہ‬‫َا‬ ‫ن‬‫ی‬‫ْ‬ ‫َ‬ ‫ت‬‫آ‬ ‫ی‬
‫ْنَ‬ ‫ذ‬
‫ِ‬ ‫َّ‬ ‫ل‬‫َ‬ ‫ا‬ ‫ہے‪’’:‬‬ ‫ارشاد‬ ‫کا‬ ‫تعالی‬ ‫وآداب کا لحاظ رکھنے کی بڑی تاکید آئی ہے اﷲ‬
‫عطاء کی ہے وہ اسکی ایسی تالوت کرتے ہیں جیسا اسکی‪  ‬تالوت کرنے کا حق ہے ۔’’‪َ  ‬و َرتِّ ِل ْالقُرْ آنَ تَرْ تِیْال ‘‘ ٰ‬
‫قران مجید کو ٹھیر ٹھیر کر (تجوید‬
‫‘‘قران کی تالوت کرنے والے بعض ایسے لوگ ہوتے‬ ‫ٰ‬ ‫آن َو ْالقُرْ آنُ یَ ْل َعنُ ٗہ‪ ‬‬ ‫کے ساتھ ) پڑھو۔‪   ‬حضور اکرم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں‪’’ :‬رُبَّ تَالِ ْي ْالقُرْ ِ‬
‫قران لعنت کرتا ہے ۔اسی لئے ارشاد ہے’’زَ یِّنُوْ ا‪ْ U‬القُرْ آنَ بَِأصْ َواتِ ُک ْم‪ ‘‘  ‬قر ٰان کی تالوت کو اپنی اچھی آوازوں سے زینت دو ۔ الغرض‬ ‫ہیں کہ ان پر‪ٰ  ‬‬
‫قران مجید کو تجوید کے ساتھ پڑھنا اور اسکے آداب کی رعایت کرنا ضروری ہے ‪ ،‬تجوید سے نا واقفیت کی صورت میں قاری بجائے ثواب کے‬ ‫ٰ‬
‫ق‬ ‫جاتا ہے ۔ ض‬
‫گناہ نکا مستحق ہو ت‬
‫یک ئ‬ ‫ض‬ ‫ع‬
‫(‪)20‬‬ ‫ے۔‬ ‫لم ج وی د کے من می ں و ف کے اصولوں کی و احت ج‬ ‫سوال مب ر ‪2‬۔‬
‫علم التجوید سیکھنے کا حکم‬
‫علم التجوید سیکھنا جس سے حروف کی درست ادائیگی ہو ۔ اور قرآن مجید کے معنی نہ بدلیں فرض عین ہے ۔ اور اس سے زیادہ‬
‫علم قراءت و تجوید فرض کفایہ ہے ۔ پس قرآن مجید کے حروف کا اس حد تک صحیح پڑھنا کہ اس سے حروف میں کمی زیادتی ‪،‬‬
‫تبدیلی اور اعراب کی غلطی پیدا نہ ہو اور قرآن مجید کے معنی نہ بگڑیں ۔ ہر حرف دوسرے سے الگ نمایاں ‪ ،‬مستقل معلوم ہو ہر‬
‫مسلمان پر فرض عین ہے ۔ مرد ہو خواہ عورت ہو ‪ ،‬عربی ہو یا عجمی ہو ۔ سفید ہو سرخ ہو یا گندمی ۔ نماز کے اندر ہو یا باہر ۔‬
‫حفظ پڑھے یا ناظرہ ۔ تھوڑا پڑھے یا زیادہ ۔ جلدی جلدی حدر سے پڑھے یا ٹہراؤ سےیا درمیانہ رفتار سے ۔ مجمع میں پڑھے یا‬
‫فرض عین ہے ۔ اور غیر‬
‫ِ‬ ‫اکیال ۔ بہر صورت ہر وقت ہر حال میں اس حد تک قرآن مجید کا صحیح پڑھنا ہر عاقل و بالغ کے لئے‬
‫ب حرام اور گناہ گار ہے ۔ اور اس کی ضرورت اور فرضیت کا انکار کرنے واال سخت‪U‬‬ ‫صحیح طریقہ پر تالوت کرنے واال مرتک ِ‬
‫فرض کفایہ ہے ۔ کہ اڑتالیس میل کی حد کے اندر ایک ماہر تجوید و فن‬ ‫ِ‬ ‫کرنا‬ ‫یاد‬ ‫کو‬ ‫قاعدوں‬ ‫گنہگار ہے ۔ اس سے زیادہ اس علم کے‬
‫و عالِم فن قارئ قرآن کا ہونا ضروری ہے ورنہ سب کے سب گنہگار ہوں گے ۔ علم التجوید در حقیقت قرآن مجید کو ترتیل سے‬
‫پڑھنے کا نام ہے اس لیے نزول قرآن سے قبل اس علم کا موجود ہونا ممکن نہیں فن تجوید قرآنی علوم کے بنیادی علوم میں سے‬
‫ایک ہے ۔ اس علم کی تدوین کا آغاز دوسری ہجری صدی کے نصف سے ہوا۔جس طرح حدیث وفقہ پر کام کیا گیا اسی طرح قرآن‬
‫مجید کے درست تلفظ وقراءت کی طرف توجہ کی گئی علم التجوید قرآن مجید کو درست طریقے سے پڑھنے کا علم ہے اور اجماع‬
‫صحابہ ؓ سے ثابت ہے۔اس علم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ ٓانحضرت ﷺ خود صحابہ کرام رضوان ہللا اجمعین کو‬
‫ِعمر سے معلوم ہوتا ہے۔‬ ‫وقف و ابتداء کی تعلیم دیتے تھے جیسا کہ حدیث ابن ؓ‬
‫ِعمر فرماتے ہیں کہ ہم اپنے زمانے میں ایک طویل مدت تک اسی طرح زندگی گزارتے رہے کہ ہم میں سے ہر ایک قرٓان‬ ‫ابن ؓ‬
‫حاصل کرنے سے پہلے ہی ایمان لے ٓاتااور نبی ﷺ پر کوئی سورت نازل ہوتی تو ہم سب ٓاپ ﷺسے اس کے حالل وحرام کی تعلیم‬
‫حاصل کرتے اور ان مقامات کو معلوم کرتے کہ جہاں وقف کرنا چاہیے ۔ جس طرح ٓاج کل تم قرٓان کی تعلیم حاصل کرتے ہو ۔بے‬
‫شک ٓاج ہم بہت سے ایسے لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ جو ایمان النے سے قبل قرٓان کی تالوت کرتے ہیں وہ سورۃالفاتحہ سے‬
‫سورۃالناس تک قرٓان پڑھ لیتے ہیں مگرانہیں اس چیز کا ادراک نہیں ہوتا کہ قرٓان کا امر کیا ہے اور زجر کیاہے اور نہ ہی معلوم‬
‫کرتے ہیں کہ قرٓان پڑھتے ہوئے کون کون سے مقامات پروقف کرنا چاہیے ۔ تجوید کا واجب ہونا علم التجوید کا سیکھنا واجب ہے ۔‬
‫اور اس کا وجوب قرآن مجید ۔ سنت رسول صلی هللا علیہ وسلم ۔ اجماع وقیاس ۔ فقہ و اقوال علماء سبھی سے ثابت ہے ۔ قرآن مجید‬
‫میں هللا کریم کا فرمان ہے ۔‬
‫خَاسرُونَ‬ ‫ْ‬ ‫ُ‬ ‫َ‬ ‫ُأ‬‫َ‬ ‫رْ‬‫ُ‬ ‫ْ‬ ‫ُ‬ ‫ْؤ‬
‫ك يُ ِمنونَ بِ ِه َو َمن يَكف بِ ِه ف ولِئكَ ه ُم ال ِ‬ ‫َ‬ ‫ُأ‬ ‫اَل‬ ‫َّ‬ ‫الَّ ِذينَ آتَ ْينَاهُ ُم ْال ِكت َ‬
‫َاب يَ ْتلُونَهُ َحق تِ َوتِ ِه ولِئ َ‬
‫سورہ بقرہ ۔ آیہ ‪۱۲۱‬‬
‫جن لوگوں کو ہم نے کتاب عنایت کی ہے وہ اس کو ایسا پڑھتے ہیں جیسا اس کے پڑھنے کا حق ہے۔ یہی لوگ اس پر ایمان رکھتے‬
‫ہیں اور جو اس کو نہیں مانتے وہی خسارہ پانے والے ہیں۔‬
‫حق تالوت یہ ہے کہ زبان و عقل اور دل تینوں شریک ہوں ۔ پس زبان کا حصہ حروف کی درست‬ ‫امام غزالی رحمہ هللا فرماتے ہیں ۔ ِ‬
‫اور عمدہ ادائیگی عقل کا حصہ معنی و مطالب کی تفسیر‬
‫اور دل کا حصہ اطاعت اور عمل کی کوشش ہے ۔ فرمان هللا جل جاللہ ہے ۔‬
‫َو َرتِّ ِل ْالقُرْ آنَ تَرْ تِياًل مزمل ۔ ‪ ۴‬اور قرآن کو اچھی طرح ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرو۔ بیضاوی رحمہ هللا فرماتے ہیں ۔اَیْ َج ِّو ِد ْالقُرْ آنَ تَجْ ِویْداً‬
‫یعنی قرآن مجید کو تجوید کی خوبصورتی کے ساتھ مزین کرنا ۔‬
‫ْرفَۃُ ْال ُوقُوْ ف یعنی ترتیل سے پڑھنا نام ہے حروف کو‬ ‫ع‬
‫َ ِ‬‫م‬ ‫و‬‫َ‬ ‫ف‬‫ِ‬ ‫ر‬
‫ُوْ‬ ‫ح‬
‫ُ‬ ‫ْ‬
‫ال‬ ‫ُ‬
‫د‬ ‫اور حضرت علی رضی هللا عنہ کا فرمان ہے ۔ اَلتَّرتِ ْی ُل ھ َُو تَجْ ِو ْی‬
‫تجوید کے ساتھ ادا کرنا اور وقف و ابتداء کی جگہ اور طریقہ پہچاننے کا‬
‫حدیث مبارکہ میں فرمان رسول هللا صلی هللا علیہ وسلم ہے ۔‬
‫تعالی عنہا نے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل فرمایا ‪ :‬قرآن کا ماہر ان مالئکہ کے ساتھ ہوگا‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت عائشہ رضی ہللا‬
‫جو فرشتوں کے سردارہیں اور جو شخص قرآن شریف کو اٹکتا ہوا پڑھتا ہے اور اس میں دقت اٹھاتا ہے اس کے لئے دوہر ا اجر‬
‫تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا‪’’ :‬قرآن‬ ‫ٰ‬ ‫ہے۔ بخاری ومسلم حضرت عبیدہ رضی ہللا‬
‫والو!قرآن سے تکیہ نہ لگاؤ اور شب وروز اس کی ویسے تالوت کرو جیسا کہ تالوت کرنے کا حق ہے ۔ قرآن کی اشاعت کرو اسے‬
‫اچھی آواز سے پڑھو ۔ اس کے معانی میں تدبرکرو تا کہ تم فالح پاجاؤ اور اس کا صلہ (دنیا ہی میں )طلب نہ کرو کیونکہ اس کا‬
‫(آخر ت میں) عظیم صلہ ملے گا (اور اعمال کا صلہ ملنے کی اصل جگہ تو آخرت ہی ہے‬
‫َ‬ ‫ُ‬ ‫ُ‬ ‫َ‬ ‫َّ‬ ‫َّ‬
‫بیھقی فی شعب االیمان ابن مسعود رضی هللا تعالی عنہ ایک شخص کو قرآن مجید پڑھا رہے تھے ۔ اس نے اِنما الص َدقات لِلفق َرٓا ِء کو‬
‫بغیر مد کے پڑھا ۔ آپ نے فرمایا مجھے تو رسول هللا صلی هللا علیہ وسلم نے اس طرح نہیں پڑھایا ۔ مال علی قاری شرح مقدمہ‬
‫جزریہ میں فرماتے ہیں ۔ کہ اس میں کسی کو اختالف نہیں کہ تجوید کے قواعد کا جاننافرض کفایہ ہے ۔ اور ان کے موافق عمل کرنا‬
‫ہر قراءت و روایت میں فرض عین ہے ۔ اگرچہ خود تالوت قرآن مجید مسنون و مستحب ہے ۔ نہ کہ فرض و واجب ۔ قرآن مجید لفظ‬
‫و معنی دونوں کا نام ہے ۔ چنانچہ معنی کی طرح الفاظ کی تصحیح بھی ضروری ہے ۔ فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ قرآن مجید کا‬
‫تجوید کے ساتھ پڑھنا واجب اور ضروری ہے ۔ کیونکہ غلط پڑھنے سے بعض اوقات معنی اس حد تک بدل جاتے ہیں کہ نماز فاسد‬
‫ہو جاتی ہے ۔ اور اس بارے میں خود اس کا اپنا خیال معتبر نہیں بلکہ محقق اور ماہر قاری کی گواہی ضروری ہوگی ۔ اور اگر‬
‫حروف کی درست ادائیگی کی کوشش نہ کرے تو نماز ادا نہ ہو گی ۔ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمہ هللا َو َرتِّ ِل ْالقُرآنَ‬
‫کی تفسیر میں فرماتے ہیں ۔لغت کی رو سے ترتیل " کے معنی واضح اور صاف پڑھنا ہے ۔ اور شریعت میں ان سات‪ U‬چیزوں کی‬
‫رعایت رکھنے کا نام ترتیل ہے‬
‫ہر حرف کو اسکی صحیح جگہ سے ادا کرنا ۔۔۔۔ وقف اور ابتداء کا لحاظ کرنا ۔۔۔ تینوں حرکتوں کو صاف ادا کرنا ۔۔۔ آواز کا قدرے‬
‫بلند کرنا ۔۔۔ آواز کا عمدہ بنانا ۔۔۔ تشدید اور م ّد کا خیال رکھنا ۔۔۔ ترہیب اور عذاب کی آیات پر دعا اور استغفار اور ترغیب و ثواب کی‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ش‬ ‫یک ئ ن‬ ‫ف‬
‫م‬ ‫آیات ن پر سوال جنت تکرنا ۔ غ‬ ‫مح ش‬
‫( ‪)20‬‬ ‫ے ی زآی ات م اب ہات کے حوالہ سے علماء کی آراء حریر کری ں۔‬ ‫کم و م اب ہ کا لوی و اصطالحی ہوم ب ی ان ج‬ ‫سوال مبر ‪3‬۔‬
‫اہلل تعالی نے قرآنی آیات کو عقیدہ وایمان کے اعتبار سے دو حصوں میں منقسم کیا ہے جنہیں محکم اور متشابہ کہتے ہیں۔ ان کا علم‪ ،‬علم محکم و‬
‫متشابہ کہالتا ہے۔‬
‫محکم‬
‫لغوی معنی‪:‬‬
‫ی‪َ :‬أیْ َأ ْتقَنَہُ۔‪ ‬اس نے رائے‬ ‫یہ لفظ‪ ،‬حکم سے نکال ہے جو مضبوط ‪ ،‬مستحکم‪ ،‬واضح اور قابل عمل ہونے‪ U‬کو کہتے ہیں۔عرب کہتے ہیں‪َ :‬أحْ َک َم ال َّرْأ َ‬
‫کو پختہ کیا۔ َح َک َمۃ‪ :‬گھوڑے کی لگام کو بھی کہتے ہیں تاکہ اسے ہلنے اور ٹاپنے‪ U‬سے روکا جائے۔حاکم ومحکوم جیسے الفاظ اسی سے ہیں۔اس‬
‫لغوی معنی میں سارا قرآن کریم محکم ہے۔یعنی اس میں کوئی نقص یا خرابی نہیں۔ نہ اس کے آگے سے باطل آسکتا ہے اور نہ پیچھے سے۔{کتب‬
‫أحکمت‪ U‬آیتہ ثم فصلت من لدن حکیم خبیر}۔‬
‫اصطالحی معنی‪:‬‬
‫محکم اسے کہتے ہیں جو واضح‪ ،‬مستحکم اور سمجھ میں ٓانے والی شے ہو کوئی ابہام نہ ہو۔اس میں کسی دوسرے معنی کا احتمال نہ ہو۔یا اس‬
‫کے معنی ومفہوم کی صرف ایک ہی صورت ہو یا جس کی داللت راجح ہو اسے ظاہر اور نص بھی کہتے ہیں۔ مثالً‪{:‬إ ْہ ِدنَا الصِّ َراطَ ْال ُم ْستَ ِق ْی َ‪U‬م ‪¢‬‬
‫ب َعلَی ِْہ ْم َواَل الضّ ٓالِیْنَ ‪ }¢‬ان آیات میں صراط مستقیم کی وضاحت خود قرآن مجید نے کردی ہے۔ ‪۱‬۔وہ‬ ‫ص َراطَ الَّ ِذیْنَ ٔا ْن َع ْمتَ َعلَی ِْہ ْم‪َ ،‬غی ِْر ْال َم ْغضُوْ ِ‬
‫ِ‬
‫ٓایات جن کی تاویل‪ ،‬ہللا کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ مثالً‪:‬‬
‫صفات ٰالہی ‪،‬حروف مقطعات‪ ،‬قیامت کے ٓانے کا وقت وغیرہ۔‬
‫‪۲‬۔وہ ٓایات جن کے جاننے کے لئے انسان کے پاس ذرائع ہوں۔ مثالً‪:‬‬
‫قوامیس‪ ،‬سائنس کی پیشین گوئیاں وغیرہ۔‬
‫‪۳‬۔وہ ٓایات جن کا علم انسان کو نہیں بلکہ صرف راسخ علماء ہی کو ہے۔ عام لوگ اس کی حقیقت یا معنی و مفہوم نہیں جان سکتے۔‬
‫ٓاپ نے ابن عباس ؓ کے حق میں دعا فرمائی‪:‬‬
‫ٓاپ ﷺ نے مندرجہ ذیل ارشاد میں اسی کی طرف اشارہ کیا تھا جب ؐ‬
‫ٰ‬
‫"اَللّھُ َّم فَقِ ْھہُ فِي ال ِدی ِْن َو َعلِّ ْمہُ التَّ ِ‬
‫ٔاوی َْل"۔‬
‫اے ہللا! اس کو دین کی سمجھ عطا کر اور تٔاویل سکھا دے۔‬
‫یہ نقطہ نگاہ بالشبہ معتدل ہے مگر جہاں تک ہللا کی ذات و صفات اور قیامت کے وقت کا علم ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ ہللا‬
‫کے سوا کوئی بھی اس سے ٓاگاہ و ٓاشنا نہیں۔ اسی لئے سرور کائنات دعا میں فرمایا کرتے تھے‪:‬‬
‫ص ْی ثَنَاًئ َعلَی َ‬
‫ْک"۔‬ ‫ک الَ ُٔاحْ ِ‬ ‫َٔا ْنتَ َک َما َٔا ْثنَیْتَ َعلَی نَ ْف ِس َ‬
‫تو ایسا ہی ہے جیسے تو نے خود اپنی مدح و ثناء بیان کی ہے۔ میں تیری تعریف کا حق ادا نہیں کر سکتا۔‬
‫وقت قیامت کے بارے میں ٓاپﷺ کا یہ فرمانا‪:‬‬
‫" َما ْال َمسُْٔوو ُل َع ْنہَا بَِٔا ْعلَ َم ِمنَ السَّاِئ ِل"۔‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ق‬ ‫ض‬ ‫ت‬ ‫سوال کردہ بھی زیادہ نہیں جانتا۔‬ ‫طرح ئ‬ ‫سوال کنندہ کیی ت‬ ‫ب‬
‫دوسریقآی وں کی‬ ‫ی ب‬ ‫ب‬ ‫ے هوے ای ک ب ات ج و ب قہت سے موارد می ںئپ یش آ یش هے عرض کردی ن اخ روری هشے اورض وہ ی ہ کہ‬ ‫ک‬
‫رآن کی شعض آ ینں عضب خ‬ ‫ظ‬ ‫ب‬ ‫ھ‬ ‫ک‬ ‫حث آی ت کو د ھ‬ ‫تزفیر ت‬
‫ک لی هو ی اور رو ن کت اب قهے۔ ود ھی رو ن و وا ح هے اور اہ ر و آ کار کر تے والی ھی‪ ،‬ود رآن کہت ا‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫رآن‬ ‫‪ ‬‬ ‫"‬ ‫ً‬ ‫ا‬ ‫بعض‬ ‫بعضہ‬ ‫ّر‬ ‫س‬ ‫یف‬ ‫"القرآن‬ ‫‪ ‬‬ ‫ں‪:‬‬ ‫ی‬‫ه‬ ‫ی‬ ‫سی ر کر‬
‫ن‬ ‫مت ش‬ ‫ت‬
‫ے‪  :‬ھو الذی انزل‬ ‫ه‬ ‫ر‬ ‫ع‬ ‫ب‬ ‫ج‬
‫ی ت عی‬‫ک‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ج‬ ‫ے۔‬ ‫ه‬ ‫ا‬ ‫ت‬ ‫ی‬‫د‬ ‫ام‬ ‫کا‬ ‫اب"‬ ‫ت‬‫ک‬ ‫ل‬ ‫ا‬ ‫"ام‬ ‫رآن‬ ‫کو‬ ‫حکمات‬ ‫م‬ ‫ت‬ ‫ا‬ ‫آ‬ ‫ہات۔‬ ‫اب‬ ‫اور‬ ‫حکمات‬ ‫م‬ ‫ں‪،‬‬ ‫ی‬ ‫ه‬ ‫ود‬ ‫ج‬‫و‬ ‫م‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫آ‬ ‫کی‬ ‫طرح‬ ‫دو‬ ‫ں‬ ‫هے جم ی‬
‫م‬ ‫ھ‬ ‫کہ‬
‫ت‬ ‫بنی ن ئ‬ ‫ئ‬ ‫ف‬ ‫ش‬ ‫ی ت‬ ‫ی‬
‫ے هی ت ں۔‬ ‫م‬
‫متشابھات"‪ U‬م اب ہ آی ت ا سی آی ت هے جس نکے م هوم کو تک ی اع ب ار سے ع ی پ ہ اے اس‬ ‫ی‬ ‫ھن ام الکتاب نواخر‬ ‫آیات محکمات‪ّ U‬‬
‫ج ک ش‬ ‫ق‬ ‫ن‬ ‫ف‬ ‫علیک الکتاب منہ ف ق‬
‫ے کہ شم اب ہ‬ ‫کے تام سے تی اد کر ا خهے‪ ،‬اس کا منطلب ی ہ هن‬ ‫رآن ج و آی ات محکمات کو "ام" ی ا ماں ن ن‬ ‫ے۔ ئ‬ ‫ق‬ ‫ئوم اور تمع ٰی کلت ا ه‬ ‫آی ت محکمہ سے صرف ط ای کنهی م ه‬
‫ہ‬ ‫ک‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫مح‬
‫اور رح‬ ‫م‬
‫ے هوں و می نں ود اس کے تع ی ب ی ان کرے ش ن‬ ‫ے هی ں۔ اگر رآن کی کو ی آی ت ای سی سهجمو جنس کےئچ ق د مع ی ل‬ ‫ات کی مدد سے مع ی پ ہ اے ج اسک‬ ‫ن‬ ‫ات کو ئکم آی‬ ‫آی ن‬
‫ے رآن فکی طرف تر وع کر ائهوگا اور اس کی مامنآی ات کی رو نیت می ں‬ ‫ج‬ ‫ل‬ ‫ے کے‬ ‫ھ‬ ‫کرے کا کو ی ق ف هی ں هے۔ اس کی تای ک هی صورت هے۔ وہ ی ہ کہ اس آی ت کو‬ ‫ح‬
‫مش‬
‫ے ب لکہ‬ ‫اس می ں جتو ل ظ ی ں اس عمال کی گ ی هی ں اس کے مع ی ہ م ن هی ں ج ا‬ ‫جمم‬
‫ے گا۔ اب ہ آی ت کا م لب ی ہ هیق ں هےمت شکہ وہ ئلمه نے ی ا ئ‬
‫ن‬ ‫ط‬ ‫هی اس آی ت کا م هوم سجم ھا ج اسک‬
‫ے هی ں۔‬ ‫ے ج اسک‬ ‫ای سی آی ت کا م طلب ی هی هے کہ اس کے ای ک دوسرے سے ری ب اور اب ہ ک ی ع ی ب ی ان ک‬
‫ئ‬ ‫ت‬ ‫ش‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ظ‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ش‬ ‫ًق‬
‫ق‬
‫سے م علق آی ی ں هی ں ج و اہ ر کر ی هی ں کہ مام چ یزی ں م ی ت الٰہی کے حت هی ں۔ اس می ں کو ی است ث ن اء ن هی ں‬ ‫مث ال رآننکری م می ں پروردگار عالم کی م ی ت م طل نہ شت‬
‫تشاءت و تذلّ‬ ‫تشاء وتعز منت ق‬
‫ّ‬ ‫الملک تؤتی الملک من تشاء و تنزع الملک م ّمن‬ ‫مالک ت ت‬ ‫هے۔ مج ملہ ان می ں سے ی ہ آی ت هے ج و اسی ب ا پر م اب ہ هے‪:‬قل اللّھم‬
‫ل‬ ‫م‬ ‫ت‬ ‫خ‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫ت‬ ‫س‬ ‫ن‬ ‫ح‬ ‫م‬
‫مام و وں تکا‬ ‫رے دا! مام کوںلاور ت‬ ‫‪U‬ی ق‪U‬دیر[‪ ]1‬ت‪( " ‬اب اس سے زی چادہ ن ن کم وب اال ر اک ی د ت چهی ں هو ک ی) ع ی کهو کہ اے متی ب خش‬ ‫‪U‬دک الخ‪U‬یر ان‪U‬ک علی ک‪U‬ل تش ٔ‬ ‫من تش‪U‬اء بی ت‬
‫ے ئو‬ ‫ه‬ ‫ا‬ ‫کر‬ ‫ل‬ ‫ی‬ ‫ذ‬ ‫ے‬
‫س‬ ‫اور‬ ‫ے‬ ‫ه‬ ‫ا‬ ‫ت‬ ‫و‬ ‫ے‬ ‫ه‬ ‫ا‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫د‬ ‫عزت‬ ‫ے‬
‫س‬ ‫ے‬ ‫ه‬ ‫ا‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫ھ‬ ‫و‬ ‫ے‬ ‫ه‬ ‫ا‬ ‫ت‬ ‫اہ‬ ‫ا‬
‫ت ش قچ‬ ‫ی‬ ‫ھ‬ ‫سے‬ ‫س‬ ‫ج‬ ‫اور‬ ‫ے‬ ‫ه‬ ‫ا‬ ‫کر‬
‫ت ع ت‬ ‫طا‬ ‫لک‬ ‫م‬ ‫و‬ ‫ے‬ ‫ه‬ ‫ا‬ ‫ت‬ ‫اہ‬ ‫ے‬
‫س‬ ‫ئ‬ ‫ج‬ ‫ے۔‬ ‫ه‬ ‫و‬ ‫اصل تمالک‬
‫من‬ ‫جئ‬ ‫مت ش‬ ‫ج ت‬ ‫ی چ‬ ‫خ‬ ‫ل‬
‫ے‬ ‫ے کہ اس کے ک یئ طرح سےش ٔع ی ک‬ ‫رے ٔ ہ ا شھ می ں هے اور و ہ ر ٔے پر ادر هے۔" ی ہ آی تمماس اع ب ار سے اب ہ ه ش‬ ‫صرفتاور صرف ی ش‬ ‫ل کر ا هے۔ ر و ب ھال ی‬
‫ے ه ں۔ ا ًماال ی ہ آی ت ات ن ا هی ک‬ ‫ذی ت‬
‫ک نی ہ کہ م ی ت ا ٰلهی می شں کوئ ی چ یز ک نسی ی کے‬ ‫شیئ ج‬ ‫ا‬ ‫ے‪،‬‬ ‫ه‬ ‫کن‬ ‫سے‬‫ت‬ ‫طرح‬ ‫دو‬ ‫ات‬ ‫ی ب‬‫ہ‬ ‫اور‬ ‫ے‬ ‫ه‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫م‬ ‫ی‬ ‫ه‬ ‫ل‬
‫ٰ‬ ‫ا‬ ‫ت‬ ‫ت‬
‫م‬
‫ہ غ ن ی‬ ‫ی‬ ‫ر‬ ‫کہ‬ ‫ے‬ ‫ه‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ج ی‬ ‫جئ شک نی‬ ‫اس‬
‫کےت ام سے ی اد‬ ‫کے را ط ن‬ ‫حاالت و را ط ھی شں ہئ م عزت‬ ‫ت‬ ‫ئ اورکہا هے کہ ممکن هے وہ مام‬ ‫ئ ی ج ہ اخ ذ ک ی ا تهے‬ ‫ں‪ ،‬ج یسا کہ ب ئعض لوگوں سے اسی طور پر لط‬ ‫ف‬ ‫ےت رط هی‬ ‫ل‬
‫ل‬
‫ذلت ہ ا ھ آ ئے‪ ،‬اور ی ہ ب ھی کن هے کہ ذلت کے مام حاالت و را ط پ ی دا هوں ی‬ ‫مم‬ ‫ب‬ ‫ئ ا ی ں‪ ،‬پ ھر ب‬ ‫کرے هی ں‪ ،‬راہ‬
‫عزت کی‬ ‫کن اس کا نی ت ج ہ ن‬ ‫ش‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ش‬ ‫ئ‬ ‫ش‬ ‫ت‬‫خ‬ ‫ب‬ ‫ے‬ ‫ا‬
‫ن‬ ‫ج‬ ‫کے‬ ‫عزت‬ ‫ھی‬ ‫خ‬ ‫ن‬ ‫ج‬ ‫و‬ ‫ه‬ ‫م‬ ‫ن‬
‫ئیز م ی ت الٰهی سے وابست ہ هے! ی ج ہ ی ہ کال کہ‬ ‫ےش رط هی ں هے کی و پ نکہ مام چ‬ ‫ے آے!ئد ی اشوخآ رت کی سعادت و ی غک ی قهی ں کو ی نٔے کسی چ یز کے ل‬ ‫سام ق‬ ‫صورت می ں ئ‬
‫ل و رسوا‬ ‫ل‬
‫ب کے اییکک دم ذ ی ج ن‬ ‫ے ی ا ب ال سی سب غ‬ ‫ک‬ ‫ئپر چ ج ا ق‬ ‫ہ‬ ‫دمہ کے د ی ا می ںععزت و رف کے کمال‬ ‫ش‬ ‫م‬‫ق‬ ‫سی‬ ‫ک‬ ‫ر‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫ا‬ ‫ی‬ ‫ب‬‫ق‬ ‫ب‬‫س‬ ‫سی‬ ‫ک‬ ‫ال‬ ‫ب‬ ‫ص‬ ‫خ‬ ‫ی‬ ‫کو‬ ‫ا‬ ‫ی‬ ‫وم‬ ‫ی‬ ‫ئے کو‬ ‫ممکن ه‬
‫کےج ان ٰلی ّی ی ن کا تمر ب ہ ع طا کردی ا ج اے اورکسی ن توم کو ب ال سب ب اور ب ی ر چک تھ د ھ‬ ‫ت‬ ‫ل‬ ‫ع‬ ‫مم‬
‫کے‬ ‫ے ب ھالے ہ م ئ‬ ‫رت می ں کسی وم کو ب ال کسی ی د ون رطن‬ ‫ےآ ف‬ ‫ے۔ یوں هی کن ه ئ‬ ‫هوج ا ف‬
‫ے هی ں کہ اس می ں کو ی‬ ‫ہ‬ ‫ے‪ ،‬اور ک‬ ‫ن‬ ‫ئہ اخ ذ ک ی ا ه‬ ‫سے ی هی ی ج‬ ‫ت‬ ‫آی‬ ‫اس‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫ه‬ ‫ے‬ ‫ہ‬ ‫ے۔ ا سوس ی ہ هے کہ ب عض مسلما وں ے ھی ں اش اعرہ ک‬ ‫غ‬ ‫ا‬ ‫ج‬ ‫ا‬ ‫ی‬ ‫د‬ ‫ڈال‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫م‬ ‫ل‬ ‫درک اس‬
‫ب‬ ‫ئ‬ ‫ن‬ ‫پ‬ ‫ئق‬
‫ے ج ا ی ں اور ابوج ہل ج ن ت می ں یھ ج دی ا ج اے یک ون کہ خ دا ے کہا هے کہ سب چک ھ خ دا ‪   ‬کی‬ ‫مض ا ہ ن هی ںت ‪   ‬اگر (معاذہللا) ی مب ر اسالم (صلی ہللا علی ہ وآلہ وسلم) ج ہ م می ں چ ل‬ ‫ش‬
‫م ی ت کے حت هے۔‬
‫ش‬ ‫ت‬ ‫ش‬ ‫ط ن ن‬
‫ے کہ سب چک ھ م ی ت اشلٰهی می ں هے۔ ی ہ ن تهی ں ب ی ان کر ی کہ م ی ت‬ ‫تن‬ ‫غ ن‬ ‫ف‬
‫ل ی کن ی ہ آی تفسے تم هوم و م‬
‫عم‬ ‫ے کا ایتک لط ا داز هے۔ آی ش قت صرف ا ا کہہ رهی ه غ‬ ‫لب کال‬ ‫ن‬
‫ذلت و ی رہت کے سلسلہ می ں م ی ت الٰهی ک ی ا ل کر ی هے۔ ل تہفٰذا استآی نت‬ ‫ت‬ ‫و‬ ‫عزت‬ ‫اور‬ ‫اوت‬ ‫و‬ ‫عادت‬ ‫س‬ ‫کہ‬ ‫ے‬ ‫ه‬ ‫ق‬‫ی‬ ‫کر‬ ‫ان‬ ‫ی بی‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫اور‬ ‫ے‪،‬‬ ‫ت‬ ‫ه‬ ‫ی‬ ‫کار رماهو ئ‬ ‫طرحم ن‬ ‫کسی ئ‬
‫ے هی ں ل ی کن ج ب ہ م فرآن کی دوسری آی ات کی طرف رج وع کرے هی ں و وہ محکم ی ا "ام الکت اب" کی ح ی ث ی ت سے اس آی ت کی سی ر کر ی ظ ر‬ ‫ک‬‫اس‬ ‫ج‬ ‫ے‬ ‫ل‬ ‫مراد‬ ‫ی‬ ‫ع‬ ‫ی‬ ‫تسے ک‬
‫ت‬
‫علی ق‪U‬وم حتّ ٰی یغیّروا مابانفس‪U‬ھم[‪    " ]2‬ی ا ی ہ‬ ‫‪U‬ان ہللا لم ی‪U‬ک مغیّراً نعمۃً نانعمھ‪U‬ا‪ٰ U‬‬ ‫آ ی هی ں۔ مث ال کے طور پ ر ی ہ آی ت ب الک ل صاف ل ظ وں می ں کہ ی هے‪“ :‬ذال‪U‬ک ب ّ‬
‫کت‬ ‫ت‬ ‫کت‬
‫ک ج و ب ات ر ھ ی هے‪ ،‬وہ‬ ‫سے ہ ر ای خ‬ ‫بانفس‪U‬ھم[‪ " ]3‬ان ئدو وں آی وں می ں‬ ‫‪U‬یروا م‪U‬ا ق‬ ‫ان ہللا ال یغیّر م‪U‬ابقوم حتّ ٰقی یغ‬ ‫سے عمومی ت ر ھ ی هے‪ّ :‬‬
‫ت‬ ‫ت ت‬ ‫آی ت ج و ای ک ح ی ث ی ئ‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫خ‬ ‫ک‬ ‫ن‬
‫سے اس بچ یخزتکو سلب ہ‬ ‫وم سے اس کی کو ی چئیز نهی ں لی ت ا ج ب ک وہت ود ن‬ ‫ق‬ ‫سی‬ ‫ک‬ ‫ک‬ ‫ت‬ ‫و‬ ‫اس‬ ‫ین‬ ‫عالم‬ ‫د‬ ‫داو‬ ‫ے‪:‬کہ‬
‫کت‬ ‫ه‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ت‬ ‫آی‬ ‫دوسری‬ ‫ی۔‬ ‫ا‬ ‫دوسری می ں هی ں پ ا ج‬
‫ی‬
‫ن‬ ‫س‬ ‫ب‬ ‫ن‬ ‫خ‬ ‫ج‬
‫سے اس کی کو ی خعمتن لب هی ں کر ا اور ا ھی ں ب د ی می ں فمب قت ال‬ ‫سی ھی وم ت‬ ‫ے ع ی داو د عالم کب خت‬ ‫کے درم ی خان مون ود هے۔ ی ہ آی ت مومی ت ر ھ ی خه ق‬ ‫ع‬ ‫کرل ں ج و ان‬
‫ے حاالت ن ہ ب دلی ں ج ب کہ پ ہلی آی ت می ں ط‬ ‫آپ کو ب دل ن ہ دی ں۔ اسی طرح ب دب ت وم سے اس کی ب د ی دور ن هی ں کر ا ج ب ت ک وہ تود پا‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫ود‬ ‫وہ‬ ‫ک‬ ‫نن ه یں کرت ا ب ت‬
‫ف‬ ‫ئ‬ ‫ب ختپ‬ ‫تج‬ ‫یت‬
‫بان ہللا لم یک قمغیراً "‪ ‬ی ہ‬ ‫عم وں کا ذکرہ هے‪ ،‬ب د ی کا کو ی ذکر ن هی ں هے‪ ،‬ہ اں اس می ں ای ک ن کت ہ کا اض ا ہ هے‪ ،‬اور وہ ی ہ هے کہ ارش اد هو ا هے‪"  :‬ذالک ّ‬
‫ن‬ ‫ف ت‬ ‫ق‬
‫سے بول ن هی ں‬ ‫اس کی الوهی ت ا ف‬ ‫ق‬ ‫ماکان ہللا‪ ،‬خ دا ایسا نشهی ں رہ ا هے۔ ی ع ی‬ ‫ف‬ ‫ے ی ا ن هی ں رہ ا هے‪ ،‬ج یساشکہ وہ رآن می ں رما ا هے‪   :‬‬ ‫سے کہ خ دا ایسا ن هی ں ه ئ ن‬ ‫اس سب ب ق‬ ‫ت‬
‫ش‬ ‫ئ‬
‫ندے ی ہ وہت ف کر هے ج و‬ ‫رط رار ن ہ‬ ‫ے جن‬ ‫کار رما هو اور کسی ٔے کو ک ئسی چ یز قکے لئ‬ ‫کر ی کہخ وہ کسی وم سے ب ال سب ب کو ی عمت سلب کرلے۔خ م ی ت پروردگار نب نال وج ہ اور عب نث ت‬
‫ےشمادر رار پ ا ی ں ھوں ے اس کی قسی نر کردی۔‬ ‫ں اس آیتت کے ل‬ ‫وں آی ی ت‬ ‫کی الوهی ت تکے سراسر الف هخے۔ چ ا چ ہ مذکورہ دو ن‬ ‫ذات دا کی حتکمت توکمال اور تاس ت‬ ‫ش‬
‫مام چ یزی ں خ دا کے ا ت ی ار می ں نهی ں۔ اور ی ہ دو وں آی ی ں ب ت ا ی هی ں کہ م ی تت دا د ی ا می ں اس طرح اور اس ا ون کے‬
‫ن‬ ‫خ‬
‫ق‬ ‫تم ی ت فسے م تعلق آی ی ں بس ا ن ا ب ت ا ی هی ں کہ‬
‫حت نکار رما هو شی هے۔ م لومنهوا کہ ی ہ م طلبف رآن کا ب ہت هی تم اسب ب ی تادی اور ا ئلی قم طلب هے اور ب ہت سی آین وں می ں اس ب ات کو ‪ ‬دہ رایف ا گ ی ا هنے کہ اگر‬ ‫ص‬ ‫ن‬ ‫ع‬
‫ے ب ا ی رکھی ں گے۔ اور اگر ہ ماری عمت سے کھ یلو گے اورک ران عمت کرو‬ ‫ص ئ ص‬ ‫ی‬ ‫ب‬
‫ماری عمت کات کر ج االؤ گے ع ی اس سے یح ح ا دہ حا ل کرو گے و ہ م اسے مہارے ل‬ ‫ہ ت‬
‫گے و ہ م اسے م سے سلب کرلی ں گے۔‬
‫ف ن‬ ‫ت‬ ‫ش‬ ‫ف‬ ‫ت‬
‫المی معا رہ سے ب اہ ر ( مہارے دی ن کو ن ا کرے‬ ‫ن‬
‫تخشوھم واخشون"‪ ‬کا م طلب ی ہ هے کہ اب ک ار‪ ،‬اس‬ ‫خ‬ ‫ئ‬ ‫الذین کفروا من دینکم فال‬ ‫ئ‬ ‫اس اع ب ار سے‪ ‬الیوم یئس‬
‫ن‬ ‫خ‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ئ‬
‫اب آج کے ب عد‬ ‫ڈرو۔ ن ت‬ ‫سے ن ٹ‬ ‫ے آپ‬ ‫اب جم ھ نسے ڈرو ی عنی اے مسلما و ! اب ود ا‬ ‫ے۔ تاب د ی اےتا الم نکو ان کی طرف سےسکو ی طرہ هی عمں هے۔ ف‬
‫س‬ ‫سے( ‪   ‬مای ئوسخ هوگ‬
‫ج ف ئپ ٹ ن ہ ئ‬ ‫ل‬ ‫ک‬ ‫س‬
‫ے ہ ا ھاؤ ی ج ہ می ں ہ مارا ی ہ‬ ‫خ‬ ‫ا‬ ‫چ‬ ‫ا‬ ‫ھا‬ ‫ا‬ ‫دہ‬‫ئ‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫سے‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫د‬ ‫اس‬ ‫گو‪،‬‬ ‫ے‬ ‫کر‬ ‫عمت‬ ‫ران‬ ‫اور‬ ‫اؤ‬ ‫ج‬ ‫و‬ ‫ه‬ ‫ل‬ ‫د‬ ‫ب‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫م‬ ‫سلہ‬ ‫ل‬ ‫کے‬ ‫الم‬ ‫ا‬ ‫عمت‬ ‫لوگ‬ ‫م‬ ‫کہ‬ ‫وگا‬ ‫ه‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫‪  ‬‬ ‫و‬ ‫وگا‬ ‫ه‬ ‫طرہ‬ ‫سے تاگر کو ی‬ ‫قن‬
‫ش‬
‫ون مہارے سل خسلہ میخ ں ب ھی ج اری هو‪ :‬ان ہللا ال یغیّر ما بقوم حتّ ٰی یغیروا مابانفسھم " ‪ ‬آج کے دن سے اسالمی معا رہ کو کو ی ب اہ ری طرہ ن هی ں رہ گ ی ا۔ اب ج و‬ ‫ا خ‬
‫ب ھی طرہ هے‪ ،‬دا لی طرہ هے۔‬

‫ئ‬ ‫سوال و ج واب ن‬


‫ے ف رما ا‪ ،‬ہ قمارا عق دہ هے کہ امام دی ن و دن ا دون وں کا پ یش وا هوت ا هے۔ اور ہ ن صب مذکورہ دال ل سے ض رت ام رالمومن ن ع‬
‫لی(علی ہ السالم) کی‬‫ت‬ ‫ئ‬ ‫ی‬ ‫یف‬ ‫ن تح‬ ‫ن ئ ت ی م‬ ‫ی‬ ‫ی ت یث‬ ‫سوال‪ :‬ج یساکہخ آپ‬
‫مانت کے ب عد ج ب لوگ آپ کی ب ی عت کرے آے و آپ صلی ہللا علی ہ وآلہ وسلم ے امل کی وں رمای ا؟ ی ہ کو ی امل کی ج گہ ن هی ں‬ ‫ل‬
‫ن عہ ئ‬ ‫ھر‬ ‫پ‬ ‫ق‬‫ے۔‬ ‫ه‬
‫خ بخ‬ ‫صوص‬ ‫تذات سے تم‬
‫ھی۔ اسے و آپ کو ود ود بول کر ا چ اے ھا۔‬
‫خ ض‬ ‫ٹ‬ ‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ف‬
‫ے فش ای ع هو ی هے ا ھای ا گ ی ا هے۔ اس کا ج واب ود ح رت علی (علی ہ السالم) کے‬ ‫ئو چکتھ عرصہ پنہل‬ ‫ج واب‪ :‬ج ن اب کا ی ہ سوال "خ ال ت و والی ت" ام کی کت اب می ں ب ھی ج‬
‫ج‬ ‫ئ‬ ‫ظ‬ ‫ش‬
‫ے چ ھوڑ‬ ‫والتم ئس‪U‬وا غ‪U‬یری فانّا مس‪U‬تقبلون ام‪U‬راً وج‪U‬وہ وال‪U‬وان[‪ "]4‬م ھ‬ ‫‪U‬ونی ف‬
‫ے آے و آپ ے رمای ا‪  :‬غدع ت‬ ‫ار اد سے اہ ر هے۔ ج نب لوگ آپ کے تپ اس ب ی عت کے ل‬
‫ین‬ ‫جس ئ‬ ‫ج‬
‫ے ک ی چہرے هی ں ع ی‬ ‫ےتایسا امر در پ یش هے ک‬ ‫(عی بنو ری ب عب یر رما ی هے)فم ھ‬ ‫دوکسی اور کے پ اس ج اؤ یک و کہ بڑے هی س ی اہ و اری ک حوادث ہ می خں در پ یش هی ں ج‬
‫ت خ‬ ‫ئ‬ ‫ا ک صورت سے ا ح ن‬
‫ان اآل فاق قد افامت والمحجّ ۃ قد‬
‫خ‬
‫ے م ت لف ضصور ی ں ا ت ی ار کر ی هتوں گی۔ اس کےنب عد رماے هی ں‪ّ ":‬‬
‫ف‬ ‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ف‬ ‫ش‬ ‫سے ل هی ں ک ی ا ج اسکت ا ب لکہ اس کے ل‬ ‫پ غ‬ ‫خت‬ ‫ی‬
‫ئ‬
‫ے وہ راہ اب ا ج ا ی ه توگ ی هے۔ ض ا اب ر آلود هوچ کی هے۔ "اور آ ر می ں‬ ‫ے ھ‬ ‫گ‬ ‫رت۔"‪ ‬م صر ی ہ کہ ت ی مب ر اکرم (صلی ہللا تعلی ہ وآلہ وسلم) ج و رو ن و وا ح راہ معی ن رما‬ ‫ف ت‬
‫تن ّ‬
‫ک‬
‫خ‬ ‫ن‬
‫رماے هی ں اگر می ں م پر حکومت کروں گا و‪ :‬رکبت بکم ما‪ ‬اعلم "‪ ‬اس روش پر حکومت کروں گا ج و می ں ج ا ت ا هوں مہاری دلواہ حکومت ن هی ں کروں گا۔‬
‫پ غ‬ ‫ت‬ ‫ق‬ ‫ن‬
‫طرح درک کر ‪ ‬لی ھی کہ ی مب ر‬ ‫ھی‬ ‫ے ہ ات ج و ت ا یر خی ح ی ت سے ب ھی ورے طور سے ط عی ومسلّم هے‪ ،‬اچ‬ ‫ن‬
‫اس ب ات سے پ ت ہ چ لت ا هے کہ امی رالموم ی ن(علی ہ السالم)‬
‫غ‬ ‫ن‬ ‫پ‬ ‫ف‬ ‫ی‬ ‫ث‬ ‫ب‬ ‫ی‬
‫ب حد ت ک ت ب دی ل اور‬ ‫اور فآسمان کا رق نهوچ کا هے ع ی حاالت بڑی هی جعی ب و رین‬
‫ی‬
‫اور آج کے تزما ہ می ں زمی ن ئ‬
‫ن‬ ‫خصلی ہللا علی ہ وآلہ وسلم کی رحلت کے ب عد کےنعہد‬
‫ط‬ ‫ب‬ ‫م‬
‫ئ کی و کہ ی عت کا م لب ان لوگوں سے پ یروی کرقے تکا عہد لی ت ا هے‪،‬‬ ‫ے رمای ا هے‪،‬‬ ‫کے ل‬ ‫مام جح ت خ ف‬ ‫ے هی ں‪ ،‬ناور ی ہ ج ملہ امام علیتہ السالم ے کا ل طور پر ا ت‬ ‫راب هوچ ک‬
‫ے هی ں کہ آپ ج و‬ ‫ے کہ اگر م لوگ ب ی عت ن هی ں کرو گے و می ری ال ت ب اطل هوج اے گی۔ ب لکہ ب ی عت ی ہ هے کہ لوگ اس ب ات کا ول ید‬ ‫لب ی ہ هی ں ه ت‬
‫عت کا م ط‬ ‫بی ن‬
‫عمل ا ج ام دی ں ہ م آپ کے سا ھ هی ں۔‬
‫ت‬ ‫ف‬ ‫ش‬ ‫قض‬ ‫ش‬ ‫خ ن‬ ‫ن‬ ‫ت ش‬
‫ے۔‬ ‫سے ای ک علی (علی ہ السالم)قب ھی ھ‬ ‫وری کے چ ھ ‪   ‬ا ئراد میطں ث‬ ‫مؤر ی ن ے لکھی هے کہ عمر کےئب عد وری کا ج و ی ہ پ یش آی ا‪ ،‬اس‬ ‫ی ہ ب ات تمام یف عہ اور اہ ل س تت ف‬
‫ے‪ ،‬لحہ ‪،‬ع مان کے حق می ں اور س شعد خو‬ ‫ٰ‬ ‫ع‬ ‫ٰ‬
‫اص‪ ،‬ع ب د‬
‫ق ب‬ ‫الگخهوگ‬ ‫ے۔ زبفیر‪ ،‬لی (علی ہ السالم) کے حق می ں ن‬ ‫دست بف ردار هوگ ت‬ ‫ں ت‬ ‫ئ قی ب‬
‫اس می ں ی ن ا راد دوسرے ی ن ا راد کے حق م‬
‫ے‬ ‫ن تا راد ان ی ن ا راد می ں سے ع ب دالرحمان ب ن عوف ے ود کو م ی دان تهی سے الگ کرل ی ا۔ دو ص ب ا ی چ‬
‫خ ف‬ ‫مخ‬ ‫ئ‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫ے‬ ‫چ‬ ‫ی‬ ‫ے۔ ب ا‬ ‫الرحمن ب ن عوف کے حثق می ں عالحدہ هوگ‬
‫ے‬ ‫ہ‬
‫ے ن ب کری ں وهی لی ن ہ هے۔ وہ پ ل‬ ‫الرحمان ب ن عوف کے ہ ا ھ می ں آگ ی کہ وہ جس‬ ‫کی ل ی د ع ب د ن‬ ‫ک‬ ‫ئار کے عوض(‪ ‬ا خ اب‬ ‫علی(عل نی ہ السالم) اورع مان (اور اس ای ث‬
‫ص‬ ‫خ‬ ‫ش‬ ‫ی‬ ‫ل‬ ‫ئ‬ ‫ب‬ ‫ت‬ ‫امی رالموم ی ن(علی ہ السالم) ش‬
‫ے آمادہ هوں کن ای ک رط نهے کہ آپ کت اب دا‪ ،‬س ت رسول ( لی‬
‫ے ف رما ا م ں ت ارلهوں ل ی کن صرف ت اب خ‬
‫عت کرے کے‬ ‫کے خپ اس آے اور کہاعممی ں آپ کے ہ ا ھ پر ین‬
‫رسول (صلی ہللا عنلی ہ وآلہ وسلم) پر عمل‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫س‬ ‫‪  ‬‬ ‫دا‬ ‫ک‬ ‫ش‬ ‫ئ‬ ‫ین یب ی‬ ‫آپ‬ ‫ی ن ث‬‫‪  ‬‬ ‫گے۔‬ ‫ں‬ ‫ر‬ ‫ک‬ ‫ل‬ ‫ق‬ ‫م ب‬ ‫طا‬ ‫کے‬ ‫ن‬ ‫ی‬
‫رت ی‬ ‫س ش‬
‫ہللا علی ہ وآلہ و لم)خ اور سی ش ن‬
‫ص‬ ‫خ‬ ‫ن‬ ‫ک‬‫ش‬ ‫ب‬ ‫ت‬ ‫ح‬ ‫ی‬
‫ت فرسول ( لی ہللا‬ ‫نی هی رط ر خھی۔ ا هوں ے کت تاب ت دا‪ ،‬س ت‬ ‫ے‬ ‫ھی ی تعت ثکے ل‬ ‫ے ش‬ ‫من ب ن عوف ے قع مان قکے سام ق‬ ‫دالر ق‬ ‫کروں گا۔ سی رت ی ن سے اخ کار کردی ا۔ ع ب ش‬
‫ان کی‬ ‫علی ہ وآلہ وسلم) اور سی رت ی ی ن پر عمل کی ئ رط بول کرل ی ا۔ ج تب کہ ب ول آ ای دمحم نی ری ع ی"ع مان ے سی رت ی پ ی غن پر عمل کا وعدہ و ک ی ا ھا ل ی کن ا اق سے ت‬
‫ق‬
‫تهیت ھی‬ ‫الم) اور سی رت ی مب ر اکرم (صلی ہللا علی ہ وآلہ وسلم) ای ک‬ ‫ن (علی ہ الس پ غ‬ ‫رت پر عمل هی ن هی ںشک یخ ا۔" اگر ہ م ی ہاں م ا سہ و موازن ہ کری ںت و چ ون تکہ تسی رت امی شرال خموم ی ف‬ ‫سی ئ‬
‫عم‬ ‫س‬ ‫ع‬ ‫ص‬ ‫ش‬ ‫ی‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫ن‬ ‫ج‬ ‫م‬ ‫ب‬ ‫ب‬ ‫ے آپ کی نسی رت ی‬
‫ے۔‬ ‫ی حد ک خمب ر اکرم( لی ہللا لی ہ وآلہ و ت لم) کی سی رت پرف ل تکرے ھ‬ ‫غ‬ ‫ہت چک ھ ق ل ی ل یت تھی کی و کہن ی ن کا‬ ‫ش‬ ‫ھی‬ ‫سے‬ ‫ق‬ ‫رت‬ ‫ی‬ ‫س‬ ‫کی‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫اس ل‬
‫ے اور پ ھر ان‬ ‫دورضمی ں پ ی داظ هئوچ کی ھی ت قں ان پر صادر رمادیت‬ ‫ف‬ ‫ت‬ ‫اور لط ی اں ج و ی ی ن کے‬ ‫ف‬ ‫ےش و گوی ا قوہ ا حراف‬ ‫ی‬‫بول کرل‬ ‫ن‬ ‫غل ی کن اگر امی ر اخلموم ی نق (علی ہ القسالم) اس و تتت اس رط کو‬
‫ی) کا مس ئ لہ‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫کے طور پر ا لن(و ا ف کی سی م می ں کمی ی ا زی اد ن‬ ‫آپ ے اس رط کوش بول هی ں خرمایت ا۔ مثنال ن‬ ‫ے لہٰذا ت‬ ‫ے ھ‬ ‫وں کے الف ا دام ی ام اب جلہ هی غں کرسک‬ ‫ی لنطی ن‬
‫ے ج ب کہ امی قرالموم ی نن(علی ہ‬ ‫ت‬ ‫ه‬ ‫ڑی‬ ‫ی‬
‫ی ن پ‬ ‫ه‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫ہ‬ ‫زما‬ ‫کے‬ ‫مر‬ ‫اد‬
‫ی تع‬ ‫ب‬ ‫کی‬ ‫ے‬ ‫کر‬ ‫م‬ ‫کو‬ ‫المی‬ ‫س‬ ‫ا‬ ‫ساوات‬
‫خ‬ ‫م‬ ‫کے‬ ‫ر‬‫ک‬ ‫دا‬ ‫پ‬ ‫از‬
‫ی ف یت ی‬ ‫ام‬ ‫ان‬ ‫درم‬ ‫کے‬ ‫رہ‬
‫ی نن‬ ‫و‬ ‫م‬ ‫ت‬ ‫ع‬ ‫و‬ ‫عرب‬ ‫اور‬ ‫خ‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫ر‬ ‫مہاج‬ ‫و‬ ‫صار‬ ‫ع یا‬
‫ک‬
‫ے پر جمبور‬ ‫کروں گا و ج و چک ھ عمر کے زما ہ می ںعمهوچ کا ھا اسے ب ا ی ر ھ‬ ‫ے کہ می ںت سی رت ی ٹ ی ن کے نم طابق عمنل ت ت‬ ‫رمادی ت‬
‫ہت‬ ‫آپ‬ ‫اگر‬ ‫ن‬ ‫ہ‬ ‫چ‬ ‫ا‬ ‫چ‬ ‫‪،‬‬ ‫ے‬‫ھ‬
‫پن ث‬ ‫الف‬ ‫خ‬
‫م‬ ‫ت‬ ‫س‬ ‫کے‬ ‫اس‬ ‫الم)‬ ‫الست‬
‫ے کہ آج کہدی ں کہ ہ اں می ں ل کروں گا اورکل اس سے مکر‬ ‫ے ھ‬ ‫ے ۔ سا ھ هی ج ھو ا وعدہ ب ھی هی ں کر ا چ اہ‬ ‫ے ھ‬ ‫ت کر ا ن هی ں چ ا‬ ‫ه ئوے ج ب کہ آپتاس ل پر انی مہر ب ن‬
‫عم‬
‫ج ا ی ں۔ ی هی وج ہ ھی کہ آپ ے صاف ا کار کردی ا ۔‬
‫ت‬ ‫پ غ‬ ‫ش‬
‫ن ف‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫خ‬
‫ے‬‫ے ج ب کہضسی رت ی مب ر صلی ہللا علی ہ قوآلہ وسلم سے نان کے ا محرا ت ق ات بئہت کم ھ‬ ‫ن‬
‫الم)‪ ،‬عمر کے ب عد سی رت ی ی ن پر ل کرخے کو آمادہ هتی ں ھخ‬
‫عم‬
‫ب اتب رظ ای ں ج ب لی(علی ہ الس ث‬
‫ع‬ ‫ن‬
‫س‬ ‫ن‬ ‫س‬ ‫ب‬ ‫س‬ ‫ع‬
‫سے‬ ‫ے اور ود ح رت ( لی ہ ال الم) کے ول ا الم کا ا دوھ اکن بل ک ی رخ ض‬ ‫ے ھ‬ ‫سی ب ات هے کہ ) ع مان کے ب عد تج تب حاالت ای ک دم تراب هوچ ک‬ ‫( و ن اہ ر ت‬
‫ے صاف طور پ فر وا ح‬ ‫صورت می ںتآپ‬ ‫الم) اس طرح حکومت کری ں‪ ،‬ای سی‬ ‫ے هی ں علی(علی ہ الس‬ ‫ے کہ وہ جس طرح چ تاہ‬ ‫ے ھ‬ ‫ے آرہ ا ھا۔ مزی د ی ہ کہ مسلمان ب ھی ی هی چ اہ‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫س‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫سام ض‬
‫ے هو۔ چ ن ا چ ہ آپ ان ل ظ وں‬ ‫اسب جم ھوں گا عمل کروں گا ن ہ ی ہ کہ جس طرح م چ اہ‬ ‫ن‬
‫ے ہ ا ھ می ں لوں گا و تجس طرح می ں م ت ت‬ ‫پ‬ ‫کردی ن ا روری سجم ھا نکہ اگر می ں فحکومت کی بتاگ ڈور ا‬
‫ے۔‬ ‫ے ھ‬ ‫ے ب لکہ آپ مکمل طور سے ا مام جح ت کردی ن ا چ اہ‬ ‫می ں حکومت سے ا کار ن هی ں رما رهے ھ‬
‫ن‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ش ن‬ ‫ئ‬ ‫ت‬
‫ے هی ں کہ خ ود رآن می ں ا فحاد کے س‬
‫ق‬ ‫ہ یک ت‬
‫ن(عتلی ہ الس قالم) کی اہ میضت کے پ یش ظ ر‬ ‫امامت اور ج ا ی ی امی رسالموم ین‬ ‫ے پلہ غٰذا مس ئ لہ و‬ ‫خ‬ ‫سلہ می ں ب ہت ت ٔاک ی د کی گ ی ه‬ ‫ق‬ ‫ل‬ ‫سوال‪ :‬مٹ د ھ‬
‫ص‬
‫سوال ا ھت ا هے کہ اس کا ذکر صاف ظ وں می ں رآن می ں کی وں ہ کردی ا گ ی ا اور ود مب ر اسالم ( لی ہللا علی ہ وآلہ و لم) ے م عدد موا ع پر اس مو وع کو کی وں ب ی ان‬ ‫ی‬ ‫ن‬ ‫ل‬
‫یہ ف‬
‫ن هی ں رمای ا؟‬
‫ن‬ ‫پ غ‬ ‫ض‬ ‫ق‬
‫صراحت سے ذکر یک وں ن ہ هوا۔ اور دوسرے ی ہ کہ ی مب ر اکرم (صلی ہللا علی ہ وآلہ وسلم) ے‬ ‫کا‬‫خ‬‫وع‬ ‫مو‬ ‫اس‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫رآن‬ ‫ج واب‪ :‬قہ دو الگ الگ سوال ه ں۔ ا ک ہ کہ‬
‫ں ہ م ی هی‬ ‫م‬ ‫واب‬ ‫سوال کے ج‬ ‫دوسرے‬ ‫ں؟‬ ‫ه‬ ‫ت عدد موای ع ر اس س ئ لہ کو ان ف یرما ا ا ن یه ں؟یاس طرح رآن کری م ے م ت لف م ق امات ر اس س ئ لہ کا ذکر ا هے ا ن‬
‫ن‬ ‫ی‬ ‫ق‬
‫ق‬ ‫ی‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫ک‬ ‫غ‬ ‫پ‬ ‫م‬ ‫ت‬
‫پ‬ ‫ق‬ ‫ن‬ ‫م ت خ ب یق ق ی ی ی ت‬ ‫پ‬ ‫کمت‬
‫ے هیفں ئکہ ی ہ ای ک ا یر ی ح ی ت هے حخ ٰی ب ہت سے اہ ل س ت ب ھی اسے بول کرےض هی ں کہ ی مب ر اکرم (تصلی ہللا علی ہ وآلہ وسلم) ے ی ہ ب ات م عدد م امات پر‬ ‫ہ‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫غ‬
‫ات مو وع امامت سے م علق فکت ابوں می ں موج ود هے‪ ،‬ج ملہ‪" :‬انت منّی بمنزلۃ‬ ‫ب‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫اور‬ ‫ے‬ ‫ه‬ ‫ی‬ ‫ه‬ ‫ر‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫ه‬ ‫حدود‬ ‫م‬ ‫ک‬ ‫ن‬ ‫م‬ ‫ر‬ ‫ی‬ ‫د‬ ‫صرف‬ ‫ات‬ ‫ب‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ے۔‬ ‫ه‬ ‫ی‬ ‫رما‬ ‫ان‬ ‫ی‬ ‫ب‬
‫ق‬ ‫س ن ت‬ ‫نبی بعدی "‪ ‬آ ض رت (ص‬
‫العطین الرّ ایۃ غداً رجالً کراراً‬ ‫ّ‬ ‫‪ ‬‬ ‫‪:‬‬ ‫ملہ‬ ‫ج‬ ‫ا‬ ‫ی‬ ‫ا۔‬ ‫ی‬ ‫رما‬ ‫دوران‬ ‫کے‬ ‫عہ‬ ‫وا‬ ‫کے‬ ‫بوک‬ ‫ے‬ ‫لم)‬ ‫و‬ ‫وآلہ‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ل‬ ‫ع‬ ‫ہللا‬ ‫لی‬ ‫ح‬ ‫ّ‬ ‫ال‬ ‫انہ‬ ‫اّل‬‫ا‬ ‫موسی‬
‫ٰ‬ ‫من‬ ‫ھارون‬
‫ف‬ ‫خ‬ ‫ن‬ ‫ض‬ ‫ت‬ ‫ث‬
‫زلت قکو اب ت کر ا خهے ح ورت(صلیئہللا فعلی ہ توآلہ توسلم) ے ج ن گ ی بر می ں ارش اد رمای ا‬ ‫ن‬
‫صسالم) کے مر ب ہسو م ن‬
‫ت‬ ‫ع‬
‫تیحب ہللا ورسولہ ویحبہ ہللا شورسولہ"‪ ‬ج و لی (علی ہ ال‬
‫روع می ں هی آپ خ( لی ہللا علی ہ وآلہ و ش خ‬ ‫ث‬ ‫ت‬
‫ے می ری‬ ‫لم) ے ریش سے طاب تکرے هوے رمای ا ھا‪ :‬م می ں سے ج و سب سے پہل‬ ‫ب ھا۔ ی ہاں ک کہ ب ع ت کے ت‬
‫س‬ ‫ع‬ ‫ع‬ ‫ف‬
‫ے)‬ ‫ی عت کرے گا وہ می را وصی‪ ،‬وزیر ‪(   ‬ح ٰی وصی و وزیر اور لی ہ ) هوگا۔ ( اور وہ ص لی ( لی ہ ال الم) هی ھ‬
‫تف‬ ‫نت‬ ‫ت‬ ‫ق‬ ‫ق‬
‫ے اور ا اق سے ی ہ‬ ‫سوال ا ا سا ه ق ئ‬ ‫صرف ق‬ ‫ے۔ ت‬ ‫اس مس ئ لہ کو ای ک‪ ،‬دو ن هی ں ب نلکہ م عدد ج گهوں پر ذکر ک ی ا گ ی ا ه‬ ‫ب‬
‫رآن جم ی د می ں هے۔ ٹرآن می ں ھی ق‬ ‫ف‬ ‫خ‬ ‫‪ ‬ی هی صورت حال‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ب‬
‫رآن می ں س ی دھے س ی دھے ام کا ذکر یک وں هی ں کردی ا گ ی ا ؟ چ و کہ ہ م حر نیف رآن کے ا لت هی ں هی ں اور‬ ‫ت" می ں ا ھای ا گ ی ا هے کہ ئ‬ ‫ق‬ ‫ھی کت اب " ال ت و ئوالی‬ ‫سوال ق‬
‫ن‬ ‫ع‬ ‫ب‬
‫ہ مارے ی دہ کے م طابق کو ی چ یز رآن می ں کم ی ا زی ادہ هی ں هو ی هے لہٰذا ی ہ طے هے کہ کهی ں ھی لی (علی ہ السالم) کا ام صراحت کے سا ھ ذکر هی ں هوا‬ ‫ن‬ ‫ع‬
‫هے۔‬
‫ن‬ ‫ق‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ت‬
‫ے ا داز می ں وض تاحت کی هے‬
‫چ ن‬
‫اس خکی بڑے ا ھ‬ ‫قی ہاں اس مس ئ خلہ کو دو ُرخ سے ب ی ان ک ی ا ج ا ا هے۔ ای ک و اسی کت اب "خ الف ت و والی ت" می ں ج ن اب دمحم ت ی ش ری عتنی ے ش‬
‫ن‬ ‫ف‬ ‫ص‬ ‫ش‬ ‫ض‬
‫ذات‬ ‫صوص طرز و روش رک ًھت ا هے اور وہ ی ہ کہ مو وعات کو ہ می ہ ای ک ا ف ل کے طور پر ب ی ان کر ا هے ا رادی و ئ صی صورت می ںتذکر ت هی ں کر ا اور ی ہ ب پ غ‬ ‫ت‬
‫رآن ای ک م‬
‫خ ق‬
‫ی‬
‫ے فکہ ج ب غ ک مب ر‬ ‫ت‬ ‫ئے ھ‬ ‫ے کہ وہ برابر کہا کر‬ ‫ئ‬
‫ود رآن کا ای ک ام ی از هے۔ مث ال‪" :‬الیوم اکملت لکم دینکم"‪ ‬کے مس لہ م‬
‫پ‬ ‫ت‬ ‫اس وج ہ سے مایوس هوگ‬ ‫ئ ن‬
‫ن سے‬ ‫ں‪ ،‬ک ار اس دی ئ‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫ٹ‬ ‫ن‬ ‫س‬
‫ے گا‪،‬نسب چک ھ مامق هوج ا تے گا۔ خم ال ی ن ی مب ر (صلی‬ ‫ے کے ب عد کو ی مس لہ هی ں ره ن‬ ‫(صلی ہللا علی ہ وآلہ و لم) موج خود هی ں چک تھ هی ں ک ی ا ج اسکت ا۔ ہ اں اننکے ا ھ ج ا پ غ‬
‫ہللا علی ہ فوآلہ وسلم) کی تگوی ا ی ہ آ ری ئام ی د ھی۔ ل ی کن ج ب ان هوں ے دی کھ ل ی ا کہ ی مب ر (صلی ہللا علی ہ وآلہ وسلم) ے اپ ی امت کی ب ا کی دبیر ب ھی کر ڈالی کہ می رے ب عد‬
‫ے۔‬ ‫ض‬
‫لوگوں کا ری ہ ک ی ا هے و مایوس هوگ‬
‫ق‬ ‫خ‬ ‫ن‬ ‫پ غ‬ ‫ن ن‬
‫ےف ب ھی لکھا هے‪ ،‬ی ہ هتے کہ ی خ مب ر اکرم(صلی تہللا علی ہ وآلہ وسلم) اقپ ی ح ی ات تطی ب ہ فکے آ تری ای ام می ں رآن کی آین قت می ں‬ ‫ے اہ ل ست ت ف‬ ‫فدوسری ب ات جس‬
‫ن‬ ‫ع‬ ‫مست‬ ‫ین‬ ‫ہت‬ ‫ش‬ ‫ن‬
‫ے۔ ی ہاںشمی ں ج وت حدی ث ل کرر اہ‬ ‫ھ‬ ‫د‬ ‫م‬ ‫کر‬ ‫ق‬ ‫ل‬ ‫م‬ ‫سے‬ ‫ل‬ ‫ب‬ ‫کے‬ ‫امت‬ ‫غ‬ ‫ھوں‬ ‫ا‬ ‫ہ‬ ‫کے‬ ‫امت‬ ‫ود‬ ‫ی‬ ‫ع‬ ‫ے۔‬ ‫ھ‬‫ئ‬ ‫ے‬ ‫ر‬ ‫ان‬ ‫ری‬ ‫پ‬ ‫اور‬ ‫د‬ ‫م‬ ‫کر‬ ‫ی‬ ‫ق‬ ‫ن‬‫کا‬ ‫ق‬ ‫ن عل‬ ‫ل ظ‪“    :‬واخشون "‪ ‬سے م‬
‫خ‬ ‫س ق ن‬ ‫پ‬ ‫غ‬ ‫ن‬
‫ک رات‬ ‫لم) کی ز دگی کی آ ری ب یئں ھی ں این‬ ‫ئکہ ی مبئ ر ش( خصلی ہللا علی ہتوآلہ و‬‫ے۔ ابو مذی ہب ہ‪،‬ن عا ش ہ کے ت الم کات بشی ان هے‬ ‫ن ل کی ا ه پ غ‬ ‫سے اہ ل س قت ے ب ھی‬ ‫نهوں ا ش‬
‫ن‬ ‫ب‬ ‫ن‬
‫سے ہا ب اہ ر ریف الے۔ کو ی ص ب ی دار ہ ھا۔ تآپ ی‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫ک‬ ‫ی‬
‫ے۔ می ں ے ج ب‬ ‫ض‬ ‫و‬‫ه‬ ‫ہ‬ ‫روا‬
‫خ‬ ‫طرف‬ ‫کی‬ ‫ع‬ ‫ض‬ ‫خ‬ ‫ت‬ ‫رہ‬ ‫ج‬
‫ح‬ ‫ے‬
‫پ‬ ‫)ا‬ ‫(ص‬ ‫ر‬ ‫ب‬ ‫م‬ ‫کہ‬ ‫ھا‬
‫ت‬
‫ن ش‬ ‫ت‬ ‫د‬ ‫ے‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫م‬ ‫ت‬ ‫و‬ ‫کے‬ ‫ب‬ ‫غ‬ ‫صف پ‬
‫ن‬
‫رت( غ فصلی ہللا‬
‫القسے ح ئ ت‬ ‫ی‬ ‫اس‬ ‫ن‬ ‫ن(صلی ہللا علی ہ وآلہ وسلم) کو ہا ن ہ چ ھوڑی ں۔‬ ‫دی کھا کہ ی مب ر صلی ہللا پعلی ہ پ وآلہ وسلم نھا ریف لے ج ناره ضے هی ں و نی ال ته توا کہ ح رت‬
‫ب‬ ‫ے وںے گا کہ دور سے آ رت کا هی وال ظ ر آ ا ھا۔ م ں ے دی کھا کہ آپ (صلی ہللا عل ہ وآلہ س‬ ‫علی ہ وآلہ وسلم) کے یچ ھ‬
‫ے اس ار ک ی ا۔‬ ‫ےن اہ ل ٹ ی ع کے ل‬ ‫ئو لم) ف‬ ‫ی‬ ‫ن‬ ‫ئ‬ ‫ئ خی‬ ‫ح ت‬ ‫ئ چل ل ض‬ ‫ے ف یچ ھ ی‬
‫ے سر ا ھارهے هی ں ‪" ‬کقطع‬ ‫ن‬
‫ے اور سعادت و کی سے ہ مک ار هوے۔ اب ت‬
‫ی‬
‫ے‪ ،‬ک ی ا وب گ‬‫ےگ‬‫ے ارش اد رماے جس کا م مون ی ہ هے ‪ " :‬م سب چ ل‬ ‫اس کے ب عد چک ھ ج مل‬
‫اللیل المظلم"‪ ‬یعنی اندھیری رات کے ٹکڑوں کی طرح۔ "اس سے پتہ چلتا هے کہ پیغمبر‪ U‬اسالم (صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم) اپ‪UU‬نے بع‪UU‬د کے فتن‪UU‬وں کی‬
‫پیشین گوئی فرمارهے تھے جن میں مسلم طور پر یہ مسئلہ بھی رہا هے۔‬

‫رهی یہ بات کہ ( قرآن نے صاف طور سے جانشین پیغمبر‪ U‬صلی ہللا علی ہ وآلہ وسلم‪ ‬کے نام کا ذکر کیوں نہ کردیا ) تو اس کے جواب میں پہلی بات یہ‬
‫کهی جاتی هے کہ قرآن کا اصول یہ هے کہ وہ مسائل کو ایک اصل کی ش‪UU‬کل میں بی‪UU‬ان کرت‪UU‬ا هے۔ دوس‪UU‬رے نہ پیغم‪UU‬بر اس‪UU‬الم (ص‪UU‬لی ہللا علیہ وآلہ‬
‫وسلم) اور نہ خداوند عالم کا منشاء یہ تھا کہ یہ مسئلہ جس میں آخرکار هوا وهوس کے دخ‪UU‬ل ک‪UU‬ا امک‪UU‬ان هے۔ اس ص‪UU‬ورت س‪UU‬ے س‪UU‬امنے آئے اگ‪UU‬ر‬
‫چہ‪(  ‬جو کچھ ذکر کیا گیا) اس میں بھی لوگوں نے اپنی طرف سے توجیہ و اجتہاد کرکے یہ کہنا شروع کردیا کہ نهیں پیغمبر اکرم (ص‪UU‬لی ہللا علیہ‬
‫وآلہ وسلم) کا مقصد اصل میں یہ تھا اور وہ تھا۔ یعنی اگر کوئی آیت بھی ( اس مسئلہ میں نام کی صراحت کے ساتھ ) ذکر هوئی هوتی ت‪UU‬و اس کی‬
‫"ھ‪ U‬ذا علی‬‫بھی‪  ‬توجیہ اپنے مطلب کے مطابق کردی جاتی۔ پیغمبر‪ U‬اکرم (صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ارش‪UU‬اد میں پ‪UU‬وری ص‪UU‬راحت کے س‪UU‬اتھ‪ٰ  ‬‬
‫موالہ"‪ ‬فرمایا‪ ،‬اب اس سے زیادہ صریح اور واضح با ت کیا هوسکتی هے؟! لیکن بہر حال پیغم‪UU‬بر اک‪UU‬رم (ص‪UU‬لی ہللا علیہ وآلہ وس‪UU‬لم) کے ص‪UU‬ریحی‬
‫ارشاد کو زمین پر دے مارنے اور قرآن کی ایک آیت س‪U‬ے ن‪U‬ام کی ص‪U‬راحت کے ب‪U‬اوجود پیغم‪UU‬بر اس‪U‬الم (ص‪U‬لی ہللا علیہ وآلہ وس‪U‬لم) کے دنی‪U‬ا س‪U‬ے‬
‫اٹھتے هی انکار کردینے اوراس کی غلط توجیہ کرنے میں بڑا فرق هے۔ چن‪UU‬انچہ میں اس جملہ ک‪UU‬و کت‪UU‬اب ( خالفت و والیت ) کے مق‪UU‬دمہ میں نق‪UU‬ل‬
‫کرچکا هوں کہ ایک یهودی نے حضرت امیر المومنین (علیہ السالم) کے زمانہ میں صدر اسالم کے ناخوش آئند ح‪UU‬االت کے ب‪UU‬ارے میں مس‪UU‬لمانوں‬
‫حتی اختلفتم فیہ"‪" ‬ابھی تم نے اپنے پیغمبر‪ ‬صلی‬ ‫پر طنز کرنا چاہا ( اور حقیقتا ً یہ‪  ‬طنز کی بات بھی هے ) اس نے حضرت سے کہا ‪ :‬مادفنتم نبیّکم‪ٰ U‬‬
‫ہللا علی ہ وآلہ وسلم‪ ‬کو دفن بھی نهیں کیا تھا کہ ان کے بارے میں جھگڑنے‪ U‬لگے۔ امیر المومنین‪( U‬علیہ السالم) نے عجیب جواب دیا۔ آپ علیہ السالم‬
‫ولکنّکم ما جفّت ارجلکم من البحر حتّ ٰی قلتم لنبیّکم اجعل لنا ٰالہً کما لھم الھۃً فقال انّکم قوم تجھل‪UU‬ون۔[‪]5‬ہم نے پیغم‪UU‬بر‪U‬‬
‫نے فرمایا‪ :‬انّما اختلفنا عنہ ال فیہ ٰ‬
‫کے بارے میں اختالف نهیں کیا بلکہ ہمارا اختالف اس دستور و حکم کے سلسلہ میں تھ‪UU‬ا ج‪UU‬و ان کے ذریعہ ہم ت‪UU‬ک پہنچ‪UU‬ا تھ‪UU‬ا‪ ،‬لیکن ابھی تمہ‪UU‬ارے‬
‫پاؤں دریا کے پانی سے خشک بھی نہ هوئے تھے کہ تم نے اپنے پیغمبر سے یہ تقاضہ کردیا کہ وہ دین کی پہلی اور بنیادی اصل یعنی توحی‪UU‬د ک‪UU‬و‬
‫هی غارت کردے‪ ،‬تم نے اپنے نبی س‪U‬ے یہ خ‪U‬واہش ظ‪U‬اہر کی کہ دوس‪U‬روں کے خ‪U‬داؤں کی ط‪U‬رح‪ ،‬ہم‪U‬ارے ل‪U‬ئے بھی ای‪UU‬ک بت بن‪U‬ادو۔ پس ج‪UU‬و کچھ‬
‫تمہارے یہاں گزرا اور جو ہمارے یہاں پیش آیا ان دونوں میں بہت فرق هے۔ دوسرے لفظوں میں ہم نے خود پیغمبر ‪ ‬صلی ہللا علی ہ وآلہ وسلم‪ ‬کے‬
‫بارے میں اختالف نهیں کیا بلکہ ہمارا اختالف یہ تھا کہ پیغمبر ‪ ‬صلی ہللا علی ہ وآلہ وسلم‪ ‬کے اس دستور کا مفهوم‪ U‬اور مطلب کیا هے۔ بڑا فرق هے ان‬
‫دونوں باتوں میں کہ جس کام کو انھیں بہر حال انجام دینا تھا۔ اس کی توجیہ ظاہر میں اس طرح هو (نہ یہ کہ حقیقتاً‪ U‬ایسا هی تھا ) کہ یہ کہ‪UU‬ا ج‪UU‬ائے‬
‫( جو لوگ اس خطا کے مرتکب‪ U‬هوئے ) ان کا خیال یہ تھا کہ اصل میں پیغمبر(ص) کا مقصود یهی تھ‪UU‬ا ن‪UU‬تیجہ میں انهوں نے آنحض‪UU‬رت کے ق‪UU‬ول‬
‫کی اس شکل میں توجیہ کر ڈالی یا یہ کہا جائے کہ اتنی صریح اور واضح قرآن کی نص کو ان لوگوں نے ٹھکرادیا یا قرآن کی تحریف کرڈالی۔‬

‫سوال‪:‬فالں ڈاکٹر صاحب نے جو سوال دریافت فرمایا هے اسے میں اس ص‪U‬ورت میں پیش کررہ‪U‬ا هوں کہ یہ ص‪U‬حیح هے کہ ق‪U‬رآن میں اص‪U‬ل اور‬
‫بنیادی قانون هی بیان هونا چاہئے لیکن جانشینی کی اصل اور اسالم میں حکومت‪ U‬کا مسئلہ ت‪UU‬و مس‪UU‬لم ط‪UU‬ور پ‪UU‬ر ب‪UU‬ڑی اہمیت ک‪UU‬ا حام‪UU‬ل هے۔ اس ل‪UU‬ئے‬
‫چاہئے یہ تھا کہ قرآن میں نام کا ذکر هونے کی حیثیت سے نهیں بلکہ ایک دستور العمل کی حیثیت سے اس مسئلہ کو واضح طور سے بیان کردیتا‬
‫هے۔ مثالً پیغمبر‪ U‬صلی ہللا علی ہ وآلہ وسلم‪ ‬کو یہ وحی هوجاتی کہ تمیہں اپنا جانشین معین کرنا هے۔ اور تمہارا نائب بھی اپنا جانشین خود معین کرے‬
‫ٰ‬
‫شوری ) سے هوگا یا انتخاب سے هوگ‪UU‬ا ۔ یع‪UU‬نی اس‪UU‬الم‬ ‫گا۔ اور یوں هی یہ سلسلہ آخر تک قائم رہتا۔ یا دستور یہ هوتا کہ جانشین کا انتخاب مشورہ (‬
‫جیسے دین کے لئے جس میں حکومت و حاکمیت‪ U‬الزم و ضروری هے جانشینی کا مسئلہ کوئی ایسی معمولی بات نهیں هے جس‪UU‬ے اپ‪UU‬نے ح‪UU‬ال پ‪UU‬ر‬
‫چھوڑدیا جائے اور اس کی وضاحت نہ کی جائے۔ کوئی نہ کوئی جانشینی‪ U‬کا دستور تو هون‪UU‬ا هی چ‪UU‬اہئے تھ‪UU‬ا۔ مس‪UU‬ئلہ یہ نهیں هے کہ حض‪UU‬رت علی‬
‫(علیہ السالم) کے نام کا ذکر کیا جاتا یا نہ کیا جاتا۔ بلکہ جانشینی و حکومت‪ U‬کے طریقہ کار سے متعلق اس قدر اختالفات کو دیکھ‪UU‬تے‪ U‬هوئے ای‪UU‬ک‬
‫مستقل دستور العمل کی ضرورت بہر حال محسوس هوتی هے کہ اے پیغمبر‪  U‬صلی ہللا علی ہ وآلہ وسلم! تمہارا فرض هے کہ اپنا جانشین مقرر کردو۔‬
‫اب یہ‪UU‬اں ممکن هے یہ اختالف هوت‪UU‬ا کہ ک‪UU‬ون جانش‪UU‬ین هے مختل‪UU‬ف تفس‪UU‬یریں کی ج‪UU‬اتیں۔ لیکن یہ ب‪UU‬ات ت‪UU‬و قطعی اور یقی‪UU‬نی هوتی کہ اپن‪UU‬ا جانش‪UU‬ین‬
‫شوری سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اسی طرح جانشین پیغمبر‪ U‬اپنے بعد اپنا‬ ‫ٰ‬ ‫پیغمبر‪ U‬صلی ہللا علی ہ وآلہ وسلم‪ ‬نے خود معین فرمایا تھا۔ اس کا مسلمانوں کی‬
‫جانشین یا امام مقرر کرتا۔ یا لوگوں کا گروہ اس کا انتخاب کرتا یا پھر لوگ اس سلسلہ میں مشورہ کرتے؟ بہر حال میری دانست میں یہ قضیہ قرآن‬
‫کی روشنی میں بھی مبہم رہ گیا هے۔ اور ہمارے پاس اس سلسلہ میں کوئی صریحی دستورالعمل موجود نهیں هے۔‬

‫دوسرے یہ کہ میں نے کچھ عرصہ پہلے اسالم میں حکومت"‪ U‬کے موضوع پ‪U‬ر ای‪U‬ک کت‪U‬اب دیکھی جس میں خ‪U‬ود حض‪U‬رت علی (علیہ الس‪U‬الم) اور‬
‫دیگر اشخاص کے بہت سے اقوال نقل هیں‪ ،‬جن سے پتہ چلتا هے کہ یہ امر (یعنی امر خالفت) عام مسلمانوں س‪U‬ے مرب‪UU‬وط هے اور مس‪U‬لمانوں ک‪UU‬و‬
‫اس میں فیصلہ کا حق هے۔ ارباب حل و عقد کو اپنی رائے دینا چاہئے۔ امر خالفت میرا مسئلہ نهیں هے۔ ان لوگوں کو مشورہ کرنا چاہئے اور اپنی‬
‫رائے پیش کرنی چاہئے‪ ،‬نیز مصنف نے ایسے بہت سے دالئل اکٹھ‪U‬ا ک‪U‬ئے هیں ج‪UU‬و ث‪UU‬ابت ک‪U‬رتے هیں کہ اس‪UU‬الم میں حک‪U‬ومت‪ U‬ک‪U‬ا مس‪U‬ئلہ ای‪UU‬ک ام‪UU‬ر‬
‫انتخابی هے۔ نہ کہ تعیینی‪ U‬کسی کو یہ حق نهیں هے کہ وہ اپنا جانشین خود مقرر کرے اس سلسلہ میں آپ کیافرماتے هیں؟‬

‫تیسرے یہ کہ اگر ہم فرض کرلیں کہ یہ بارہ امام جانشین کے عنوان سے یکے بعد دیگر معین هوئے هیں (اس س‪UU‬ے بحث نهیں کہ وحی کے ذریعہ‬
‫معین هوئے یا کسی اور ذریعہ سے) یہ بتائیں کہ اسالمی معاشرہ میں ہمیشہ کے لئے کلی و قطعی طور پ‪UU‬ر جانش‪UU‬ین کے تع‪UU‬یین ک‪UU‬ا ( نہ کہ انتخ‪UU‬اب‬
‫کا) کیا اصول یا قانون هے۔ یعنی‪ U‬کیا پہلے سے یہ کہا جاچکا تھا کہ وحی ٰالهی کے مطابق صرف یہ ب‪UU‬ارہ ائمہ (علیہم الس‪UU‬الم) ج‪UU‬و ان خصوص‪UU‬یات‬
‫کے حامل یعنی معص‪UU‬وم و……هیں یکے بع‪U‬د دیگ‪U‬ر ے تع‪UU‬یین هوں گے اورا س کے بع‪U‬د زم‪UU‬انٔہ غیبت میں مثالً یہ مس‪UU‬ئلہ انتخ‪UU‬اب کے ذریعہ ح‪U‬ل‬
‫هوگا؟ کیا اس کی وضاحت کی گئی هے ؟ یہ استنباط تو خ‪U‬ود ہم‪UU‬اری ط‪UU‬رف س‪U‬ے هے کہ چ‪U‬ونکہ اس وقت ب‪UU‬ارھویں ام‪UU‬ام (علی‪U‬ه الس‪U‬الم) حاض‪U‬ر و‬
‫موجود نهیں هیں لہٰ ذا حکومت‪ U‬کا سربراہ مجتہد جامع الشرائط هوگا یا نہ هوگا۔ لیکن قرآن کو ایک بنیادی دس‪UU‬تور العم‪UU‬ل مس‪UU‬لمانوں کے ح‪UU‬والہ کرن‪UU‬ا‬
‫چاہئے کہ (پیغمبر اکرم (صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم) کے بعد شروع میں) ہم چند معصوم اشخاص کو خصوصی ط‪UU‬ور س‪UU‬ے تم پ‪UU‬ر ح‪UU‬اکم مق‪UU‬رر ک‪UU‬ریں‬
‫گے۔ ان کے بعد تم خود اپنے باہمی مشوروں سے ( کسی کا انتخاب ک‪UU‬رو ) ی‪UU‬ا فقیہ ج‪UU‬امع الش‪UU‬رائط تم پ‪UU‬ر ح‪UU‬اکم هوگ‪UU‬ا۔ یہ مس‪UU‬ئلہ بھی گی‪UU‬ارھوں ام‪UU‬ام‬
‫کےبعد سے الجھ جاتا هے اور پھر اشکاالت و اختالفات اٹھ کھڑے هوتے هیں شیعی نقطٔہ نظر سے اس مسئلہ کا کیا حل هے؟‬

‫جواب‪ :‬ان سواالت کے جوابات ایک حد تک ھم گذشتہ جلسوں میں عرض کرچکے هیں۔آپ نے مسئلہ امامت کو دوبارہ اٹھای‪UU‬ا هے۔ وہ بھی ص‪UU‬رف‬
‫مسئلہ حکومت‪ U‬کی شکل میں۔ ہم گزشتہ ہفتوں میں عرض کرچکے هیں کہ مسئلہ حکومت‪ U‬مسئلٔہ امامت سے ال‪UU‬گ هے۔ اور ش‪UU‬یعی نقطٔہ نظ‪UU‬ر س‪UU‬ے‬
‫امام کی موجودگی میں حکومت‪ U‬کا مسئلہ ویسا هی هے جیسا پیغمبر اکرم (صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں تھ‪U‬ا۔ یہ‪U‬اں حک‪U‬ومت‪ U‬اس‪U‬تثنائی حکم‬
‫رکھتی هے۔ یعنی جس طرح پیغمبر‪ U‬صلی ہللا علی ہ وآلہ وسلم‪ ‬کے زمانہ میں یہ مسئلہ نهین اٹھتا کہ پیغمبر‪  U‬صلی ہللا علی ہ وآلہ وسلم‪ ‬کے هوتے هوئے‬
‫حکومت کس کی هوگی یوں هی امام‪(  ‬یعنی‪ U‬اس مرتبہ کا امام جس کے ش‪UU‬یعہ قائ‪UU‬ل هیں) کی موج‪UU‬ودگی اور اس کے حض‪UU‬ور میں بھی حک‪UU‬ومت ک‪UU‬ا‬
‫مسئلہ ایک فرعی اور طفیلی حیثیت سے زیادہ وقعت نهیں رکھتا۔ اگر ہم مسئلہ حکومت کو بالکل الگ کرکے پیش کریں تو یہ ای‪UU‬ک عالح‪UU‬دہ مس‪UU‬ئلہ‬
‫هے۔ یعنی ایسے زمانہ میں جس میں امام کا وجود هی نہ هو (اور ایسا کوئی زمانہ هے هی نهیں) یا پھر امام غیبت میں هو ت‪UU‬و ایس‪UU‬ی ص‪UU‬ورت میں‬
‫ٰ‬
‫شوری بینھم"‪ ‬کہاں عمل میں آئے گ‪UU‬ا؟‬ ‫ٰ‬
‫شوری بینھم"‪ ‬کے منکر نهیں هیں۔ لیکن یہ‪" ‬امرھم‬ ‫البتہ یہ ایک بنیادی مسئلہ بھی هے۔ اسی بناپر ہم ‪":‬امرھم‬
‫شوری‪  ‬اس مسئلہ میں بھی کار فرما هوگی جس میں قرآنی نصّ موج‪UU‬ود هے اور ف‪UU‬رائض و وظ‪UU‬ائف روش‪UU‬ن و واض‪UU‬ح هیں؟ ظ‪UU‬اہر هے کہ ایس‪UU‬ا‬ ‫ٰ‬ ‫کیا‬
‫شوری ان مراحل کے لئے هے جہاں نہ کوئی حکم ٰالهی موجود هو اور نہ کوئی دستور ہم تک پہنچا هو۔‬ ‫ٰ‬ ‫نهیں هے۔ بلکہ‬

‫رهی "حکومت‪ U‬در اسالم " نامی کتاب میں تحریر مسائل کی ب‪UU‬ات‪ ،‬البتہ میں نے اس پ‪UU‬ر کام‪UU‬ل تحقی‪UU‬ق نهیں کی هے افس‪UU‬وس کی ب‪UU‬ات یہ هے کہ اس‬
‫کتاب میں اول تو زیادہ تر مسائل یک طرفہ بیان هوئے هیں یعنی دالئل کے ایک رخ کو لکھا گیا هے اور ان کے مخ‪UU‬الف دالئ‪U‬ل ک‪UU‬ا ک‪UU‬وئی ذک‪U‬ر هی‬
‫نهیں هے اور یہ اس کتاب کا بہت بڑا عیب هے کیونکہ انسان اگر کچھ لکھتا هے تو اسے ہر پہل‪UU‬و ک‪UU‬و م‪UU‬د نظ‪UU‬ر رکھن‪UU‬ا چ‪UU‬اہئے اس کے بع‪UU‬د دیکھن‪U‬ا‪U‬‬
‫چاہئے کہ ان تمام دالئل میں کون سی دلیلیں وزنی اور معتبر‪ U‬هیں؟ کسے اپنانا چاہئے اور کسے چھوڑنا چاہئے۔؟‬

‫اس کتاب کا دوسرا عیب یہ هے کہ اس میں مطالب بیان کرنے کے سلسلہ میں قطع و برید سے کام لیا گیا هے (اگر چہ میں نے خ‪UU‬اص ط‪UU‬ور س‪UU‬ے‬
‫اس کتاب کا مطالعہ نهیں کیا هے‪ ،‬لیکن جن اہل نطر افراد نے اسے پڑھا هے۔ وہ یهی کہتے هیں کہ) اس نے جملوں کو ادھر اُدھ‪UU‬ر س‪UU‬ے ک‪UU‬اٹ ک‪UU‬ر‬
‫درمیان سے اپنے مطلب کی بات نقل کی هے۔ نتیجہ میں جملہ کا مفهوم هی بدل گیا هے۔ اگر پوری بات نقل کی جاتی ت‪UU‬و کبھی یہ مع‪UU‬نی و مقص‪UU‬ود‬
‫ظاہر نہ هوتے۔ اس کے عالوہ ان دالئل کا بڑا حصہ ان مسائل سے مربوط هے جو ام‪UU‬ام کی موج‪UU‬ودگی اور ان کے حض‪UU‬ور کے زم‪UU‬انہ س‪UU‬ے تعل‪UU‬ق‬
‫ٰ‬
‫شوری و انتخاب کی اہمیت سے کسی کو انکار نهیں هے۔‬ ‫نهیں رکھتے‪ ،‬اور امام کی عدم موجودگی یا غیبت میں‬
‫یک ئ‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫خ‬ ‫تق‬ ‫ع ق‬ ‫غ‬ ‫ن‬
‫ع‬
‫(‪)20‬‬ ‫ے۔‬ ‫برص ی ر می ں لوم ال رآن کے ار اء اور لماء کی دمات پر وٹ حریر ج‬ ‫سوال مب ر‪4‬۔‬
‫تعالی نے نبی ﷺ کی بعثت‪ U‬با سعادت کے جو مقاصد بیان فرمائے ہیں‪ ،‬ان میں امت کو آیات قرآنیہ کی تالوت کے ساتھ ساتھ ان‬ ‫ٰ‬ ‫قرآن حکیم میں ہللا‬
‫کے معانی کے بارے میں تعلیم دینا بھی شامل تھا۔ آج ہمارے پاس جس طرح قرآن صامت موجود ہے‪ ،‬اسی طرح قرآن ناطق یعنی آپ ﷺ کی‬
‫صحابہ نے اور پھر تابعین اور تبع‬
‫ؓ‬ ‫بتالئی ہوئی تشریحات بھی اسی طرح محفوظ ہیں جس طرح آپﷺامت کو دے کر گئے تھے۔ آپ ﷺ کے بعد‬
‫تابعین نے قرآن مجید اور اس کی تعلیمات‪ U‬کو دنیا کے کونے‪ U‬کونے میں اس طرح پھیالیا جس کی نظیر پیش کرنے سے تاریخ انسانی قاصر ہے۔‪ ‬‬

‫قرآن حکیم نے جہاں اہل عرب کو اپنے جیسا کالم پیش کرنے سے عاجز کر دیا‪ ،‬وہاں‪ ‬ما فرطنا فی الکتاب شئ‪( ‬االنعام ‪ )۳۸/‬اور‪ ‬ونزلنا علیک‬
‫الکتاب تبیانا‪ U‬لکل شئ و ھدی و رحمۃ و بشری للمسلمین‪( ‬النحل‪)۸۹/‬کہہ کر اقوا م عالم کو علوم و معارف کے ان پوشیدہ خزانوں سے روشناس‬
‫کرایا جس کے بعد کرہ ارض کی جاہل ترین قوم کا شمار مہذب ترین قوموں میں ہونے لگا اور وہ کرہ ارض کے تخت و تاج کے وارث بھی بنے۔‬

‫علوم و فنون اور معارف قرآنیہ کی نشرو اشاعت آپ ﷺ کے ارشادات مبارکہ کی بدولت ہوئی جن میں علم کے حصول اور نشرو اشاعت کو‬
‫فضیلت اور برتری کا معیار قرار دیا گیا ہے۔ آپ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے‪ :‬خیرکم من تعلم القرآن و علمہ‪( )۱( ‬تم میں سب سے بہتر وہ ہے جس‬
‫نے قرآن کو سیکھا اور دوسروں کو سکھایا)۔ آپ ﷺکا ارشاد گرامی ہے‪:‬‬
‫’’سیکھو قرآن اور اس کو پڑھو۔ قرآن پڑھنے اور سیکھنے والے کے لیے قرآن کی مثال ایسے ہے جیسے مشک بھری ہوئی تھیلی کہ اس کی‬
‫خوشبو تمام مکا ن میں پہنچتی ہے۔ اس شخص کی مثال جس نے قرآن سیکھا اور سکھایا اور وہ اس کے سینے میں محفوظ ہے‪ ،‬اس تھیلی کی‬
‫مانند ہے جو مشک پر باندھی گئی ہے‘‘ (‪)۲‬‬

‫آپ ﷺ کے ان ارشادات کی بدولت علمائے اسالم نے قرآن حکیم کو اپنی تحقیق کا مرکز و محور بنایا اور بہت سے علوم و فنون کی بنیادڈالی۔‬
‫قرآن حکیم اور اس سے متعلقہ علوم مثالً اسباب نزول آیات ‪،‬جمع قرآن ‪ ،‬ترتیب قرآن ‪ ،‬علم ترجمہ ‪ ،‬علم تفسیر‪ ،‬علم الخط والرسم‪،‬علم النحو‬
‫والصرف ‪ ،‬تالوت وتجوید‪،‬محکم و متشابہ ‪ ،‬ناسخ و منسوخ ‪ ،‬معرفت سور مکیہ و مدنیہ وغیرہ پر اس قدر لکھا گیا کہ کسی دوسری آسمانی کتاب‬
‫پر نہیں لکھا گیا۔‬

‫کرام تھے جو خالص عرب اور اہل زبان ہونے کی وجہ سے قرآن کے اسلوب اور اس کی دالالت کو اچھی‬ ‫آپ ﷺکے اولین مخاطب صحابہ ؓ‬
‫کرام موجود تھے اور قرآن ان کے سامنے نازل ہو رہا تھا‪ ،‬لہٰذا نزول قرآن کی‬
‫طرح جانتے تھے۔ مزید یہ کہ نزول قرآن کے وقت خود صحابہ ؓ‬
‫صحابہ واقف تھے‪ ،‬بعد کا کوئی شخص ان کی ہمسری کا‬ ‫ؓ‬ ‫کیفیت‪ U،‬آیات کے سبب نزول اور ناسخ و منسوخ وغیرہ امور سے جس درجے میں‬
‫صحابی پر اعتماد کیا جاتا ہے ۔عالمہ ابن‬
‫ؓ‬ ‫قول‬ ‫بعد‬ ‫کے‬ ‫احادیث‬ ‫کی‬ ‫ٰ‬
‫دعوی نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ تفسیر قرآن کے سلسلے میں نبی کریمﷺ‬
‫تیمیہ نے لکھا ہے ‪ :‬‬

‫’’و حینئذ اذا لم نجد التفسیر فی القرآن وال فی السنۃ رجعنا فی ذلک الی اقوال الصحابۃ فانھم ادری بذلک لما شاھدوہ من القران واالحوال التی اختصوا‬
‫بھا ولما لھم من الفھم التام والعلم الصحیح‘‘۔ (‪)۳‬‬

‫صحیح بخاری میں حضرت ابن مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں حضور ﷺ کے ساتھ مدینے‪ U‬کے ایک باغ میں تھا اور آپﷺ کھجور‬
‫کی ایک شاخ کا سہارا لیے کھڑے تھے۔ یہودیوں کا ایک گروہ اس طرف سے گزرا۔ ان میں سے کسی نے کہا کہ آپ سے روح کے متعلق‬
‫دریافت کیا جائے۔ بعض نے کہا کہ ان سے مت پوچھو۔ وہ کوئی ایسی بات فرمائیں گے جو تمھیں ناگوار گزرے گی‪ ،‬مگر وہ لوگ آپ کے سامنے‬
‫آگئے اور کہا‪ ،‬اے ابو القاسم! ہمیں روح کے بارے میں بتائیے۔‪ U‬آپ ﷺ نے سنا اور کچھ دیر خاموش دیکھتے رہے۔ میں سمجھ گیا کہ آپ ﷺ پر‬
‫وحی نازل ہو رہی ہے۔ پس میں پیچھے ہو گیا یہاں تک کہ وحی ختم ہوئی۔ پھر آپ نے یہ آیت تالوت فرمائی‪ :‬یسئلونک‪ U‬عن الروح قل ھو امر ربی‬
‫(االسرا‪( )۸۵/‬لوگ آپ سے روح سے متعلق پوچھتے ہیں۔ کہہ دیجئے کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے) (‪ )۴‬‬

‫اس سے معلوم ہو اکہ جب آپ ﷺ پر یہ آیت نازل ہوئی‪ ،‬اس وقت حضرت عبدہللا بن مسعودؓ بنفس‪ U‬نفیس موجود تھے اور ان سے بہتر اس آیت کے‬
‫ٰ‬
‫دعوی کیا۔ صحیح مسلم میں روایت ہے‪:‬‬ ‫سبب نزول کو کوئی نہیں جان سکتا۔ حضرت عبدہللا بن مسعود نے بھی بعد میں یہ‬

‫’’عن عبدہللا قال والذی ال الہ غیرہ ما من کتاب ہللا سورۃ اال انا اعلم حیث نزلت وما من آیۃ اال انا اعلم فیم انزلت و لو اعلم احدا ھو اعلم بکتاب‪ U‬ہللا‬
‫منی تبلغہ االبل لرکبت‪ U‬الیہ‘‘ (‪)۵‬‬

‫اس طرح جب بھی قرآنی آیات کو سمجھنے میں صحابہ کرام کو مشکل پیش آتی تو نبی ﷺ اس کی تبیین فرما دیتے‪ ،‬کیونکہ آپ پر ہللا کی طرف‬
‫تعالی ہے‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫سے تبیین کتاب کا فریضہ عائد کیا گیا تھا۔ ارشاد باری‬

‫وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیھم (النحل‪)۴۴/‬‬

‫مفسرین نے لتبین للناسکی تفسیر میں لکھا ہے کہ اس سے مراد آپﷺ کا قرآن میں مجمل مقامات کی وضاحت اور اس میں وارد ہونے والے‬
‫اشکاالت کو دور کرنا ہے۔ (‪)۶‬‬

‫خالصہ کالم یہ کہ عہد نبوی میں علوم القرآن کو نبیﷺ کے بنفس نفیس موجود ہونے کی وجہ سے تحریری صورت میں النے کی ضرورت‬
‫محسوس نہ ہوئی اور جہاں کہیں کوئی دشواری صحابہ کرام کوپیش آتی‪ ،‬نبی کریم ﷺ خود اس کا حل فرمادیتے۔‬

‫علوم قرآنیہ کے تدریجی ارتقا اور اس ضمن میں علمائے اسالم کی مساعی اور عرق ریزی کااگر سرسری جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ‬
‫عثمان کے زمانے میں قرآن با ضابطہ طور پر جمع ہوا اور جس خط میں وہ لکھا گیا‪ ،‬وہ رسم عثمانی کے نام سے مشہور ہوا۔ اس طرح‬ ‫ؓ‬ ‫حضرت‬
‫علی‬
‫خط کوفی ‪ ،‬خط نسخ ‪ ،‬خط ثلث‪ ،‬خط نستعلیق‪ U‬وغیرہ کی ترویج ہوئی اور کتابت نے ایک مستقل فن کی شکل اختیار کر لی (‪)۷‬۔ جب حضرت ؓ‬
‫کا دور آیا تو انہوں نے قرآن حکیم کو عجمی اثرات سے محفوظ رکھنے اور تالوت قرآن میں سہولت کے پیش نظر ابواالسوالدؤلی سے نحو کے‬
‫قواعد مرتب کروا کر اعراب القرآن کی بنیاد ڈالی۔ اس کو ابتدائے علم اعراب قرآنی کہہ سکتے ہیں۔(‪)۸‬‬

‫صحابہ ایک دوسرے سے معانی قرآن اور تفسیری مطالب دریافت کرتے تھے ۔ قرب رسول اور ذکاوت‬ ‫ؓ‬ ‫رسول ہللا ﷺ کے زمانہ مبارک میں ہی‬
‫کرام کو معانی و معارف میں دسترس حاصل تھی‪ ،‬وہ‬
‫طبعی کے تفاوت کی بنا پر فہم قرآن میں تمام صحابہ کرام برابر نہ تھے‪ ،‬لہٰذا جن صحابہ ؓ‬
‫االشعری ‪،‬‬
‫ؓ‬ ‫موسی‬
‫ٰ‬ ‫کعب ‪ ،‬ابو‬
‫عباس‪ ،‬ابی بن ؓ‬
‫ؓ‬ ‫دوسروں کو قرآن حکیم سمجھاتے تھے۔ ان میں خلفائے راشدین کے عالوہ عبدہللا بن مسعودؓ ‪ ،‬عبدہللا بن‬
‫زبیر شامل ہیں۔(‪)۹‬‬
‫ؓ‬ ‫اور عبدہللا‬
‫کرام سے قرآن اور اس کے علوم و معارف کو سیکھا۔ ان میں سعید بن جبیر (م‪۹۵‬‬
‫صحابہ کے بعد تا بعین کا طبقہ ہے جنھوں نے مشاہیر صحابہ ؓ‬
‫ؓ‬
‫مولی ابن عباس( م ‪۱۰۷‬ھ)‪ ،‬قتادہ بن دعامۃ السدوسی ( م‪۱۱۷‬ھ)‪ ،‬عبدہللا بن عامر الیحصبی (‪۱۱۸‬ھ‪ ،‬عطاء بن‬
‫ٰ‬ ‫ھ)‪،‬مجاہد بن جبر (م ‪۱۰۳‬ھ)‪ ،‬عکرمہ‬
‫ابی مسلم خراسانی (م‪۱۳۵‬ھ) نے علم تفسیر ‪ ،‬علم اسباب نزول ‪ ،‬علم مقطوع‪ U‬و موصول قرآن ‪ ،‬علم ناسخ و منسوخ‪ U‬اور علم غریب قرآن کی اساس‬
‫فراہم کی ۔(‪)۱۰‬‬

‫اس کے بعد علما نے باقاعدہ تفاسیر ترتیب دیں جن میں تفسیر ابن جریر طبری ‪ ،‬تفسیر زمخشری ‪ ،‬تفسیر فخرالدین رازی ‪ ،‬تفسیر نسفی ‪ ،‬تفسیر‬
‫الخازن ‪ ،‬تفسیر‪ U‬ابن حیان ‪ ،‬تفسیر بیضاوی ‪ ،‬تفسیر‪ U‬الجاللین ‪،‬تفسیر قرطبی‪ ،‬تفسیر آلوسی قابل ذکر ہیں۔(‪)۱۱‬‬

‫علوم القرآن کی مختلف انواع پر مستقل تالیفات کا سلسلہ دوسری صدی ہجری میں شروع ہو چکا تھا۔ ابو عبید قاسم بن سالم (م‪۲۲۴‬ھ)نے فضائل‬
‫قرآن ‪ ،‬ناسخ و منسوخ اور قراآت پر تالیفات رقم کیں ‪ ،‬علی بن مدینی ( م ‪۲۳۴‬ھ)‪،‬نے اسباب النزول پر کتاب لکھی ‪ ،‬ابن قتیبہ ( م ‪۲۷۶‬ھ)نے مشکل‬
‫القرآن پر کتاب تالیف کی ‪ ،‬محمدبن خلف بن المرزبان ( م ‪ )۳۰۹‬نے ’’الحاوی فی علوم القرآن ‘‘ستائیس اجزاء میں لکھی (‪)۱۲‬۔ غالبا ً یہ پہلی کتاب‬
‫ہے جس کے عنوان میں پہلی مرتبہ علوم القرآن کی اصطالح استعمال ہوئی لیکن اس میں علوم القرآن کی کون سی کون سی انواع تھیں‪ ،‬اس کے‬
‫بارے میں معلومات میسر نہیں‪ ،‬کیونکہ یہ کتاب مفقود ہے۔ اس کا تذکرہ کتابوں ہی میں ملتا ہے ۔ابو بکر محمد بن قاسم االنباری (م‪۳۲۸‬ھ)نے‬
‫’’عجائب علوم القرآن ‘‘کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ اس کتاب کا موضوع قرآن کے فضائل اور اس کا سات حروف پر نازل ہونا ہے۔ اس کے‬
‫عالوہ اس کتاب میں مصاحف کی کتابت‪ U‬اور آیات و کلمات اور سورتوں کی تعداد کا بھی ذکر ہے۔ اس کتاب کا ایک نسخہ اسکندریہ کے مکتبہ‬
‫البالدیہ میں موجود ہے (‪)۱۳‬۔ محمد بن عزیز ابو بکر سجستانی ( م‪۳۳۰‬ھ)نے ’’ غریب القران ‘‘کے عنوان سے ایک کتاب لکھی۔ یہ کتاب یوسف‬
‫مرعشلی کی تحقیق سے بیروت سے ‪ ۱۹۸۹‬میں شائع ہوئی ۔ اس دور میں احمد بن جعفر ابن المناری ( م ‪۳۳۶‬ھ)نے علوم القرآن پر بہت سی‬
‫کتابیں لکھیں۔ ابن الجوزی( م ‪۵۹۷‬ھ) نے ان کے متعلق لکھا ہے‪’’ :‬میں نے ابو یوسف قزوینی کی تحریر سے نقل کیا ہے‪ ،‬ان کا کہنا ہے کہ‬
‫ابوالحسین بن المناری جید قاریوں اور بڑے محدثین میں سے تھے۔ علوم القرآن پر ان کی ‪۴۰‬سے زائد کتب ہیں۔ ان میں سے تقریباً‪۲۱ U‬کتب سے تو‬
‫میں واقف ہوں اور باقی کتب کے متعلق‪ U‬میں نے سنا ہے۔‘‘ ابن الجوزی کا کہنا ہے کہ ان کی تصنیفات‪ U‬میں سے ان کے ہاتھ کے لکھے ہوئے چند‬
‫ٹکڑے میری نظر سے گزرے۔ ان میں مجھے ایسے فوائد ملے جو اس دور کی کسی دوسری کتاب میں نہیں پائے جاتے ۔(‪)۱۴‬‬

‫محمد بن علی اال دفوی ( م ‪۳۸۸‬ھ)نے ’’االستغناء فی علوم القرآن ‘‘ تالیف کی۔ ابو بکر باقالنی ( م ‪۴۰۳‬ھ)نے ’’اعجازالقرآن‘‘کے نام سے کتاب‬
‫لکھی جو کہ سید احمد صقر کی تحقیق سے ‪۱۹۶۴‬ء میں قاہرہ سے شائع ہوئی ہے۔ عبدالجبار ہمدانی (م ‪۴۱۵‬ھ) نے ’’المغنی فی اعجاز القرآن‘‘‬
‫تالیف کی۔ یہ کتاب قاہرہ سے ‪۱۹۷۶‬ء میں شائع ہوئی ۔ علی بن ابراہیم ابن سعید الحوفی ( ‪۴۳۰‬ھ) نے ’’اعراب القرآن‘‘تالیف کی۔ اس کے عالوہ‬
‫’’ البرہان فی علوم القرآن‘‘ کے نام سے قرآن کی ایک تفسیر بھی لکھی جو کہ تیس جلدوں میں تھی۔ ان میں سے ‪ ۱۵‬جلدیں غیر مرتب مخطوطے‬
‫کی شکل میں موجود ہیں۔ دراصل یہ قرآن کی تفسیر ہے‪ ،‬مگر اس میں مصنف نے ابتدائے قرآن سے آخر تک ایک ایک آیت پر علوم قرآن کی‬
‫روشنی میں بحث کی ہے۔ نحو ‪ ،‬لغت ‪ ،‬اعراب ‪ ،‬نزول ‪ ،‬ترتیب‪ ، U‬قراء ت ‪ ،‬معانی ‪،‬تفسیر‪ ،‬معقول ‪ ،‬غرض کوئی زاویہ تشنہ نہیں چھوڑا۔(‪ )۱۵‬ابن‬
‫الجوزی (م ‪۵۹۷‬ھ) نے علوم القرآن پر الحوفی کے انداز میں ’’فنون االفنان فی عجائب علوم القرآن ‘‘ لکھی۔ اس کی تحقیق ڈاکٹر حسن ضیاء الدین‬
‫تمر نے کی ہے اور یہ بیروت سے ‪۱۹۸۷‬ء میں شائع ہوئی ہے۔ عبدالعزیز بن عبدالسالم ( م ‪۶۶۰‬ھ)نے’’‪ U‬مجاز القرآن ‘‘تحریر کی۔ علم الدین‬
‫سخاوی (م‪۶۴۳‬ھ) نے ’’جمال القراء و کمال القراء‘‘ تالیف کی۔ اس کتاب میں قراء ت کے عالوہ علوم القرآن کے دیگر مباحث کو بھی شامل کیا‬
‫گیا ہے۔ یہ کتاب عبدالکریم زبیدی کی تحقیق‪ U‬سے بیروت سے ‪۱۹۹۳‬ء‪  ‬میں شائع ہوئی۔ ابو شامہ مقدسی کی تالیف ’’المرشد الوجیز الی علوم تتعلق‬
‫بالکتاب العزیز ‘‘ہے۔ اس میں نزول قرآن اور جمع قرآن کے عالوہ قرا ء ت سے متعلق جامع اور مفصل بحث ہے ۔ طیار آلتی فوالج کی تحقیق‬
‫سے ‪۱۹۷۵‬ء میں بیروت‪ U‬سے شائع ہوئی ہے۔ عالمہ بدرالدین زرکشی ( م ‪۷۹۴‬ھ)کی ’’البرہان فی علوم القرآن‘‘‪  ‬کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ‬
‫اپنے موضوع پر پہلی ایسی جامع کتاب ہے جس میں علوم القرآن کی سینتالیس‪ U‬انواع سے بحث کی گئی ہے۔ اس کتاب کی یہ خصوصیت اس کو‬
‫علوم القرآن پر لکھی گئی تمام کتابوں سے ممتاز کرتی ہے۔‬

‫بلقینی ( ‪۸۲۴‬ھ) کی کتاب ’’ مواقع العلوم من مواقع النجوم ‘‘ہے۔ اس کے چھ باب تھے جن میں علوم القرآن کی تقریبا ً ‪۱۵۰‬‬
‫ؓ‬ ‫عالمہ جالل الدین‬
‫انواع پر بحث کی گئی ہے۔ (‪ )۱۶‬عالمہ سیوطی نے اپنی کتاب االتقان کے مقدمہ میں اس کتاب کاذکر کیا ہے‪ ،‬لیکن یہ کتاب مفقود ہے۔ عالمہ‬
‫جالل الدین سیوطی کی کتاب’’ االتقان فی علوم القرآن‘‘ ہے۔ عالمہ سیوطی نے اتقان کے عالوہ بھی علوم القرآن کی مختلف انواع پر مستقل کتب‬
‫لکھی ہیں جن میں ’’تناسق الدرر فی تناسب السور‘‘‪’’ ،‬لباب النقول فی اسباب النزول‘‘ ‪ ’’ ،‬مفہمات االقران فی مبہما ت القرآن‘‘ وغیرہ شامل ہیں ۔‬
‫عالمہ کی تمام تالیفات میں سے ’االتقان‘ ایک نمایاں اور منفرد تالیف ہے۔ اس کتاب میں عالمہ سیوطی نے زرکشی کی ’البرہان‘ میں مذکور انواع‬
‫پر ‪ ۳۳‬انواع علوم کا اضافہ کیا اور علوم القرآن کی ‪ ۱ ۸۰‬نواع سے بڑی مفصل بحث کی ہے ۔ علوم القرآن کے موضوع پر اس کتاب کوایک اہم‬
‫ماخذ کی حیثیت‪ U‬حاصل ہے۔اس کے بعد علوم القرآن پر جتنا بھی کام ہوا‪ ،‬بیشتر اس کی شرح و اختصار کے زمرے میں آتا ہے ۔‬

‫’’اعجاز القرآن ‘‘از مصطفی الرافعی ‪ ’’،‬المعجزۃ الکبری ۔۔۔القرآن‘‘ از محمد ابو زہرہ ‪’’ ،‬التبیان فی علوم القرآن‘‘ از طاہر الجزائری‪ ’’،‬منہج‬
‫الفرقان فی علوم القرآن‘‘ از محمد علی سالمہ ‪’’ ،‬مناہل العرفان فی علوم القرآن‘‘ از محمد عبد العظیم زرقانی ‪’’ ،‬مباحث فی علوم القرآن‘‘ از‬
‫ڈاکٹر صبحی الصالح ‪’’ ،‬مباحث‪ U‬فی علوم القران‘‘ از مناع‪ U‬القطان ‪ ،‬علوم قرآن سے متعلق موجودہ دور کی مشہور کتب ہیں۔‪ ‬‬

‫کرہ ارض کا وہ حصہ جو آج ہندوستان پاکستان اور بنگلہ دیش پر مشتمل ہے‪ ،‬تاریخ میں برصغیر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ قدرتی وسائل سے‬
‫ماال مال ہونے کی وجہ سے اقوام عالم کی نظریں تاریخ کے ہر دور میں کسی نہ کسی شکل میں اس خطے پر مرکوز رہیں ۔ بالخصوص اہل‬
‫عرب جن کی معیشت کا انحصار زیادہ تر تجارت پر تھا‪ ،‬اسالم کی آمد سے بہت پہلے اس خطے کے ساتھ تجارتی روابط قائم کر چکے تھے ۔‬
‫اسالم کی آمد کے بعد بھی یہ تعلقات اسی طرح برقرا ررہے اور اس خطے میں اسالم کی ابتدائی اشاعت بھی انہیں عرب تاجروں کی بدولت ممکن‬
‫کرام برصغیر میں داخل ہو گئے۔‪ ‬‬
‫ہوئی ۔ عہد خالفت راشدہ میں اسالمی سلطنت کی حدود دور دور تک پھیل گئیں اور عہد فاروقی ہی میں صحابہ ؓ‬
‫محمد بن قاسم نے جب سندھ پر حملہ کیا تو یہ وہ زمانہ تھا جب اسالمی سلطنت کی حدود ایشیا‪ ،‬روس ‪ ،‬اور اسپین تک پہنچ چکی تھیں۔ لہٰ ذا فطری‬
‫طور پر ان عالقوں کے لوگ نہ صرف قرآن کی تعلیمات‪ U‬سے متاثر ہوئے بلکہ انہوں نے قرآن پاک کی تعلیم حاصل کرنے پر اپنی زندگیاں صرف‬
‫کر دیں ۔ کتب اسماء الرجال میں ہمیں بہت سے سندھی مسلمانوں کا تذکرہ ملتا ہے جنہوں نے تحصیل علم کی خاطر دور دراز کے سفر کیے اور‬
‫سندھ میں قال ہللا و قال الرسول کی صدائیں بلند کیں۔عبدالر حیم دیبلی سندھی کے متعلق حافظ ابن حجر لسان المیزان میں لکھتے‪ U‬ہیں‪ :‬‬

‫’’قال العقیلی قال لی جدی قدم علینا من السند شیخ کبیر کان یحدث عن االعمش ‘‘ (‪)۱۷‬‬

‫’’عقیلی کہتے ہیں کہ میرے دادا نے بیان کیا کہ ہمارے ہاں ( بصرہ میں ) سندھ سے ایک بہت بڑے شیخ آئے جو اعمش سے حدیث کی روایت‬
‫کرتے تھے ۔‘‘‬

‫سندھ کے علما کی علوم اسالمیہ میں خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر عبدہللا الطرازی لکھتے ہیں ‪:‬‬

‫’’و فی العصر العباسی نجد علماء الدیبل بالکثرۃ ومعظمھم ھاجروا الی البالد العربیۃ واالقلیۃ بقوا فی بالد السند وانشغلوا بنشرالعلوم االسالمیۃ‘‘‪( U‬‬
‫‪)۱۸‬‬

‫’’دور عباسی میں ہم کثرت سے ایسے علما پاتے ہیں جنہوں نے بالد عرب کی طرف ہجرت کی اور بہت کم ایسے تھے جو سندھ میں رہے اور‬
‫علوم اسالمیہ کی اشاعت میں مشغول ہوئے۔‘‘‬

‫عالمہ سمعانی ؒ چوتھی صدی ہجری کے ایک ہندی عالم کی تفسیر‪ U‬میں دلچسپی اور اخذ روایات میں ذوق و جستجو کے بارے میں لکھتے‪ U‬ہیں ‪:‬‬

‫’’ابو جعفر محمد بن ابراھیم الدیبلی (الھندی )المکی العالم المفسر یروی کتاب التفسیر عن ابی عبدہللا سعید بن عبدالرحمن المخزومی روی عنہ ابو‬
‫الحسن احمد ابن فراس المکی و ابو بکر بن محمد ابراھیم بن علی ‘‘ (‪)۱۹‬‬

‫’’ابو جعفر محمد بن ابراہیم الدیبلی ہندی مکی جو عالم و مفسر تھے انہوں نے ابو عبدہللا عبدالرحمن مخزومی سے کتاب التفسیر روایت کی ہے‬
‫اور ان سے ابو الحسن احمد بن ابراہیم بن فراس مکی اور ابوبکر محمد بن ابراہیم بن علی نے روایت کی ہے ۔‘‘‬

‫ڈاکٹر عبدہللا الطرازی نے سندھ اور پنجاب کی تاریخ پر مشتمل اپنی کتاب میں ایک عربی عالم ’’العراقی ‘‘(متوفی‪۲۷۰ U‬ھ)کے متعلق لکھا ہے کہ‬
‫ہ منصورہ کے شاندار عالم اور شاعر تھے ۔ جنہوں نے فن تفسیر میں دو شاندار کتابیں تصنیف کیں ۔ ایک ’’فی تفسیر القرآن‘‘ اور دوسری‬
‫’’ترجمۃ القرآن بالسندیہ‘‘۔(‪)۲۰‬‬

‫قاضی زاہد الحسینی اپنی کتاب ’’تذکرۃ المفرین ‘‘ میں برصغیر کے پہلے مفسر قرآن ’’الکشی ‘‘ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ آپ ’’گچھ ‘‘کے‪U‬‬
‫مقام پر دوسری صدی ہجری میں پیدا ہوئے۔ طلب علم کے لیے ارض عرب کا سفر کیا۔ حدیث میں دو مسندیں تالیف فرمائیں۔ اس کے عالوہ قرآن‬
‫مجید کی ایک تفسیر بھی لکھی جس کو ہر زمانے میں مقبولیت حاصل رہی ۔ (‪)۲۱‬‬

‫کچھ لوگوں نے ’’گچھ‪ ‘‘ U‬کو سمرقند کا عالقہ قرار دیا ہے‪ ،‬لیکن یاقوت الحموی اس کے متعلق لکھتے ہیں ‪:‬‬

‫’’کس ایضا مدینۃ بارض السند مشھورۃ ذکرت فی المغازی و ممن ینسب الیھا عبد بن حمید بن نصر واسمہ عبدالحمید الکسی صاحب المسند‘‘‪)۲۲( U‬‬

‫’’کس‪ U‬سندھ کاایک مشہور شہر ہے جس کا ذکر مغازی میں ملتاہے اور اس شہر کی طرف عبد بن حمید بن نصر منسوب‪ U‬ہیں جن کا اصل نام‬
‫عبدالحمید الکسی ہے جنہوں نے مسند تالیف کی ۔‘‘‬

‫جہاں تک برصغیر پاک و ہند کی مقامی زبانوں میں علوم قرآنیہ کی آبیاری کاتعلق ہے تو اس ضمن میں قاضی اطہر مبارکپوری نے اپنی کتاب’’‪U‬‬
‫رجال السند و الہند ‘‘ میں عجائب الہند مصنفہ بزرگ بن شہریار کے حوالہ سے ایک روایت تفصیالً بیان کی ہے۔‪ ‬‬

‫’’اکبر ملوک قشمر مھروک بن رایق (ملک الور)کتب‪ U‬فی سنۃ سبعین و مئتین الی صاحب المنصورۃ و ھو عبدہللا بن عمر بن عبدالعزیز لیسئلہ ان‬
‫یفسر لہ شریعۃ االسالم بالھندیۃ ۔۔۔وکا ن فیما حکا ہ عنہ انہ سالہ ان یفسر لہ القرآن بالھندیۃ ففسرلہ‘‘ (‪)۲۳‬‬

‫’’کشمیر کے راجہ مہروک نے ‪۲۷۰‬ھ میں منصورہ( سندھ) کے حاکم امیر عبدہللا بن عمر بن عبدالعزیزکو لکھاکہ میرے لئے( ایک آدمی بھیجا‬
‫جائے ) جو میرے لیے ہندی میں شریعت‪ U‬اسالمی کی و ضاحت کرے ۔ اس کے متعلق یہ بھی حکایت‪ U‬ہے کہ اس نے ہندی زبان میں قرآن مجید کی‬
‫تفسیر کرنے کے لیے کہا تو اس نے کر دی ۔‘‘‬
‫خلیق احمد نظامی نے اپنی کتاب ’’حیات شیخ عبدالحق محدث دہلوی ‘‘میں‪ ،‬جمیل نقوی نے ’’اردو تفاسیر‘‘ میں‪ ،‬ڈاکٹر صالحہ عبدالحکیم شرف‬
‫الدین نے ’’قرآن حکیم کے اردو تراجم ‘‘میں اور عبدالصمد صارم نے ’’تاریخ التفسیر‘‘میں‪ U‬مذکورہ باال روایت سے اسی بات کو ثابت کیا ہے کہ‬
‫علوم قرآنیہ کے حوالے سے برصغیر کی مقامی زبان میں لکھا جانے واال یہ اولین ترجمہ ہے ۔(‪)۲۴‬‬

‫الہور میں قرآن و حدیث کے علوم کی اشاعت کا سہرا شیخ اسماعیل الہوری کے سر ہے۔ تذکرہ علماء ہند میں ان کے متعلق‪ U‬لکھا ہے کہ شیخ‬
‫اسماعیل (م‪۴۴۸‬ھ)الہوری عالم محدث اور مفسر تھے۔ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے الہور میں علم تفسیر و حدیث کی اشاعت کی ۔(‪)۲۵‬‬

‫قاضی اطہر مبارکپوری ان کے بارے میں لکھتے ہیں ‪:‬‬

‫’’کان من اعاظم المحدثین و اکابر المفسرین و ھو اول من جاء بالحدیث والتفسیر الی الہور‘‘ (‪)۲۶‬‬

‫’’یہ عظیم محدثین اور اکابر مفسرین میں سے تھے۔ یہ پہلے آدمی ہیں جو الہور میں تفسیر‪ U‬و حدیث کو الئے۔‘‘‬

‫عہد تغلق میں علوم قرآنیہ کی نشرو اشاعت کے حوالے سے صاحب تفسیر ملتقط سید محمد حسن (‪۸۲۵‬ھ) کا نام‪ ،‬جو گیسو دراز کے لقب سے‬
‫مشہور ہیں‪ ،‬خاص اہمیت کا حامل ہے۔ ان کے بارے میں عالمہ شریف عبدالحئی فرماتے ہیں‪:‬‬

‫’’کان عالما کبیر ا ولہ مصنفات کثیرۃ منھا تفسیرالقرآن الکریم علی لسان المعرفۃ و تفسیر القرآن علی منوال الکشاف ‘‘ (‪)۲۷‬‬

‫’’یہ بہت بڑے عالم تھے جن کی تصانیف بے شمار ہیں جن میں سے ایک’’ تفسیر القرآن الکریم علی لسان المعرفۃ‘‘ اور دوسری ’’تفسیر‪ U‬القرآن‬
‫علی منوال الکشاف‘‘ ہے ۔‘‘‬

‫اس عہد کے نامور مفسر قرآن عالء الدین بن احمد المہائمی ہیں جن کی تفسیر‪’’ U‬تبصیر الرحمن و تیسیر‪ U‬المنان ‘‘ ہے۔ مولوی عبدالرحمن ان کے‬
‫متعلق لکھتے ہیں کہ ان کی تصانیف میں سے تفسیر رحمانی بھی ہے جس کو تفسیر مہائمی بھی کہتے ہیں۔ا نہوں نے آیت مبارکہ ’الم ذلک الکتاب‬
‫ال ریب فیہ ھدی للمتقین‘ میں بارہ کروڑ تراسی الکھ‪ U‬چوالیس ہزارپانچ سو چوبیس‪ U‬وجوہ اعراب بیان کی ہیں۔(‪)۲۸‬‬

‫ڈاکٹر زبیر احمد رقمطراز ہیں کہ اس میں قرآنی قصص اختصار کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں۔۔۔نیز یہ کہ ایک آیت سے پہلے اور اس کے بعد جو‬
‫آیتیں ہیں‪ ،‬ان میں باہمی ربط کی وضاحت بھی کی گئی ہے ۔(‪)۲۹‬‬

‫برصغیر میں علوم قرآنیہ کی فارسی اور اردو زبان میں نشرو اشاعت کا آغاز باقاعدہ طور پر بارھویں صدی ہجری میں ہوا۔ جہاں تک اردو زبان‬
‫کا تعلق ہے تو اس ضمن میں جمیل نقوی اپنی کتاب‪’’ U‬اردو تفاسیر‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’بہرحال شمالی ہند میں پہلی باقاعدہ اور معیاری اردو‬
‫تفسیرنگاری کی ابتداء بارھویں صدی ہجری کے اواخر سے ہوئی ۔ شمالی ہند کی مقبول عام تفسیر شاہ مراد ہللا انصاری سنبھلی کی تفسیر‪U‬‬
‫’’خدائی نعمت‪ U‬المعروف تفسیر مرادی ‘‘ہے (‪)۳۰‬۔شاہ مراد ہللا پہلے اردو مفسر ہیں جنھوں نے اپنی تفسیر ’’تفسیر مرادی ‘‘ میں روز مرہ زبان‬
‫اختیار کی ہے۔ (‪)۳۱‬‬

‫قلی بن پادشاہ قلی (م‪۱۱۱۱‬ھ)کی کتاب ’’مجمع الفوائد ‘‘ میں ضبط الفاظ قرآنی ‪ ،‬اعراب قرآت مشہورہ ‪ ،‬ائمہ سبع اور بیان معانی و تفسیر پر‬
‫مشتمل ہے اور متعلقات‪ U‬قرآن مجید پر اس انداز میں بحث کی گئی ہے کہ تمام ضروری باتیں سمجھ میں آجائیں۔ یہ کتاب‪۱۱۱۱ U‬ہجری میں اورنگ‬
‫زیب کے عہد میں تصنیف ہوئی ۔‬

‫’’انوار الفرقان و ازھار القرآن ‘‘‪ ،‬شیخ غالم نقشبندی لکھنوی (م‪۱۱۲۶‬ھ)کی تصنیف ہے۔ اس کے دو نسخے رام پور الئبریری میں موجو دہیں۔‬
‫اس کے مقدمے میں تفسیر کی ضرورت و اہمیت اور شان نزول پر بحث کی گئی ہے ۔‬

‫عالمہ احمد بن ابی سعید االمیٹھوی المعروف بہ مال جیون نے احکا م ا لقرآن کے موضوع پر ایک تصنیف’’‪ U‬تفسیرات احمدیہ‘‘ کے عنوان سے‬
‫لکھی جو کہ قرآنی احکام کے حوالے سے ایک مستند تفسیر ہے۔ اس میں قرآن حکیم سے ساڑھے چار سو آیتیں منتخب‪ U‬کر کے ان سے اخذ ہونے‬
‫والے احکام کو شرح و بسط کے ساتھ ذکر کیا گیاہے ۔اس تفسیر کو احکام القرآن کے موضوع پر برصغیرمیں لکھی جانے والی سب سے پہلی‬
‫تفسیر کا درجہ حاصل ہے۔‪ ‬‬

‫’’ نجوم الفرقان ‘‘‪ ،‬مصطفی بن محمد سعید جونپوری کی تصنیف ہے جو کہ قرآن مجید کی آیات کی تخریج کے لیے اورنگزیب‪ U‬عالمگیر کے عہد‬
‫میں لکھی گئی ۔اس کا قلمی نسخہ رام پور کی الئبریری‪ U‬میں موجود ہے ۔‬

‫ت یک ئ‬ ‫ن‬ ‫تق‬ ‫ن ف‬
‫م‬ ‫تش‬ ‫ن‬
‫(‪)20‬‬ ‫ے۔‬ ‫اس راق کا مع ی و ہوم اور ار اء پر وٹ حریر ج‬ ‫سوال مب ر ‪5‬۔‬
‫استشراق( ‪ )Orientalism‬اور مستشرق کا اصطالحی مفہوم‬
‫استشراق کا عام فہم اور سادہ مفہوم یہ ہے کہ جب بھی کوئی استشراق کا نام لیتا ہے تو اس سے مرادوہ یورپین علماء و مفکرین مراد ہ‪UU‬وتے‬
‫ہیں جن کو اہل یورپ”‪“Orientalist U‬کہتے ہیں۔‬
‫‪ ‬ماہرین لغات ومفکرین نے استشراق( ‪) Orientalism‬اور مستشرق(‪ )Orientalist U‬کا جو اصطالحی مفہوم بی‪U‬ان کی‪U‬ا ہے‪ ،‬ان میں س‪U‬ے کچھ‬
‫کا خالصہ حسب ذیل ہے‪:‬‬
‫‪” ‬مستشرق وہ شخص ہے جو خود مشرقی نہ ہو بلکہ بہ تکلف مش‪UU‬رقی بنت‪UU‬ا ہ‪UU‬و‪ ،‬مش‪UU‬رقی عل‪UU‬وم میں مہ‪UU‬ارت ت‪UU‬امہ حاص‪UU‬ل ک‪UU‬رنے کی کوش‪UU‬ش‬
‫کرے“(‪)۷‬‬
‫ایڈورڈ سید(‪ ) Edward Said‬تحریک استشراق اور مستشرق‪ U‬کے الفاظ کو وسعت‪ U‬دیتے ہوئے‪ U‬لکھتے ہیں۔‬
‫‪"Any one who teaches, writes about, or researches the orient and this applies whether the person is an‬‬
‫‪authropologist, socialogist, historian, or philologist either in its specific or its general aspects, is an orientalist, and‬‬
‫)‪what he or she does is Orientalism."(8‬‬
‫”جو کوئی بھی مشرق کے بارے میں پڑھتا‪،‬لکھتا‪ U‬یا اس پر تحقیق کرتا ہے ت‪U‬و یہ تحقیقی معی‪UU‬ار تم‪U‬ام ت‪U‬ر پڑھ‪UU‬نے لکھ‪U‬نے‪ U‬اور تحقی‪UU‬ق ک‪UU‬رنے‬
‫والے ماہر بشریات‪ ،‬ماہر عمرانیات‪،‬مورخین اور ماہر لسانیات پر منطبق ہوتا ہے۔خواہ یہ ل‪U‬وگ اپ‪U‬نے اپ‪U‬نے دائ‪U‬رہٴ شخص‪U‬ی میں خ‪U‬اص موض‪U‬وع ی‪U‬ا‬
‫اپنے کسی عمومی مضمون پر کام کررہے ہوں‪،‬مشرق شناس(مستشرق)‪ U‬کہالتے ہیں اور انکا کیا جانے واال کام شرق شناسی ہوگ‪UU‬ا“؛ لیکن موج‪UU‬ودہ‬
‫دور میں مستش‪UU‬رقین نے اپ‪U‬نے ل‪UU‬یے مختل‪U‬ف ن‪U‬ام تج‪UU‬ویز ک‪U‬یے ہیں جن ک‪UU‬و موالن‪UU‬ا اب‪UU‬و الحس‪UU‬ن علی ن‪U‬دوی نے ان الف‪U‬اظ میں واض‪U‬ح کی‪UU‬ا ہے کہ ” اب‬
‫مستشرقین ‪ ،‬مستشرق کہلوانا پسند نہیں کرتے دوسری عالمگیر جنگ کے بعد وہ ” ایڈوائزر“یا ایریا سٹڈی سپیشلسٹ‪ ،‬ایکسپرٹ کہلواناپس‪UU‬ند ک‪UU‬رتے‬
‫ہیں “(‪)۹‬‬
‫مجموعی طور پر تحریک استش‪U‬راق کے دائ‪U‬رہ میں ب‪U‬ڑی وس‪U‬عت ہے ج‪U‬و مش‪U‬رق میں موج‪UU‬ود تم‪UU‬ام ممال‪UU‬ک‪،‬م‪U‬ذاہب زب‪UU‬انوں ‪،‬تہ‪UU‬ذیب وتم‪U‬دن‪،‬‬
‫باشندوں‪ ،‬انکی رسوم و رواج اور عادات و اطوار کے متعلق تحقیق کر کے ان کے عالقوں پر قبضہ کرنے اور انھیں اپ‪UU‬نی دس‪UU‬ترس میں رکھ‪UU‬نے‪،‬‬
‫جیسے بہت سے شعبہ جات پر محیط ہے؛ لیکن اس تحریک کا سرگرم شعبہ‪،‬اسالم‪،‬اہل اسالم ان کے ممال‪UU‬ک وامالک پ‪UU‬ر قبض‪UU‬ہ ک‪UU‬رکے اس‪UU‬ے ق‪UU‬ائم‬
‫رکھنے پر بحث کرتا ہے۔ اور اکثر مسلمان محقق جب تحریک استشراق پر بحث کرتے ہیں تو ان کے پیش نظ‪UU‬ر استش‪UU‬راق ک‪UU‬ا یہی ش‪UU‬عبہ ہوت‪UU‬ا ہے۔‬
‫اس تصور کو سامنے رکھتے‪ U‬ہوئے اکثر مسلم اس‪UU‬کالرز ای‪U‬ک مستش‪UU‬رق کی درج ذی‪UU‬ل تعری‪U‬ف ک‪UU‬رتے ہیں” استش‪UU‬راق متض‪U‬اد افک‪U‬ار ونظری‪U‬ات‪ U‬کے‬
‫مجموعہ کا نام ہے‪ ،‬وقت اور ماحول کی مناسبت سے اس پر کبھی موضوعیت ‪ ،‬کبھی غیر جانبداری ‪ ،‬کبھی تحقیق اور صاف گوئی اور کبھی علم‬
‫کے ناموں کے خوبصورت غالف چڑھا دیے جاتے ہیں‪ ،‬ان پردوں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ قاری ک‪UU‬و حقیقت کے اص‪UU‬ل چہ‪UU‬رہ س‪UU‬ے بے خ‪UU‬بر رکھ‪UU‬ا‬
‫جائے “(‪)۱۰‬‬
‫عربی زب‪UU‬ان کی لغت المنج‪UU‬د ج‪UU‬و کہ کث‪UU‬یر‪ U‬االس‪UU‬تعمال ہے‪ ،‬اس میں مستش‪UU‬رق کی تعری‪UU‬ف ان الف‪UU‬اظ میں کی گ‪UU‬ئی ہے۔ ‪” ‬الع‪UU‬الم باللغ‪UU‬ات واالدب‬
‫والعلوم الشرقیة واالسم االستشراق“(‪ )۱۱‬مشرقی زبانوں‪ ،‬آداب اور علوم کے عالم کو مستشرق کہا جاتا ہے اور اس علم کا نام استشراق ہے ۔‬
‫چنانچہ مذکورہ باال تعریفات‪ U‬کو سامنے رکھتے‪ U‬ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان مستشرقین ک‪UU‬ا مقص‪ِ U‬د حی‪UU‬ات‪ ،‬مش‪UU‬رقی تہ‪UU‬ذیب وتم‪UU‬دن ‪،‬مش‪UU‬رقی‬
‫لٹریچر‪ ،‬مشرقی علوم وفنون جن میں مذہب ‪ ،‬تاریخ‪ ،‬ادب ‪ ،‬لسانیات ‪ ،‬بشریات ‪،‬معا شیات ‪،‬سیاسیات وغیرہ شامل ہیں اور مشرقی اقوام کو وقعت کی‬
‫نگاہ سے دیکھتے‪ U‬ہیں‪ ،‬ان مستشرقین نے مردہ اقوام کی گم شدہ تاریخوں کی جستجو کی ‪ ،‬ان کے ویران و بے نشان یادگاروں کا پتہ لگایا ‪ ،‬ان کے‬
‫منہدم اور بوسیدہ کھنڈروں کی ایک ایک اینٹ اور ایک ایک پتھر کی تاریخ کا ایک ایک صفحہ سمجھ ک‪UU‬ر مط‪UU‬العہ کی‪UU‬ا‪ ،‬ان کے مس‪UU‬کن اور ج‪UU‬ائے‬
‫اقامت کو کھود کھود کر اس میں سے ایک ایک ذرہ نکاال ‪ ،‬ان کی غیر مفہوم کتابوں کو بادقت تمام پڑھا ‪ ،‬ان کے قدیم رسوم ورواج ‪ ،‬ان کی زب‪UU‬ان‬
‫اور ان کی شاعری کا بغور مطالعہ کیا اور ان سے نتائج اخذ کیے ‪ ،‬اور اس طرح ان مردہ اور گم شدہ اقوام کی ایک مسلسل ت‪UU‬اریخ ک‪UU‬ا س‪UU‬رمایہ بہم‬
‫پہنچایا ‪ ،‬زندہ اقوام کی تاریخ کو پڑھا ‪ ،‬ان کی نادر تصنیفات کو بہم پہنچایا‪ ،‬ان کا مطالعہ کیا ‪ ،‬ان کی ایجادات واکتشافات سے واقفیت حاصل کی ‪،‬‬
‫ان کی تاریخی عظمت کو تسلیم کیا ‪ ،‬ان کے علوم وفنون کو ترقی دی ‪ ،‬ان کے تہذیب وتم‪UU‬دن کی ت‪UU‬اریخ م‪UU‬دون کی ‪ ،‬ان کے ل‪UU‬ٹریچر کی ت‪UU‬رقی اور‬
‫توسیع میں کوشش کی ‪ ،‬ان کی نایاب تصانیف کو مرتب کر کے ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا اور ان کو چھاپ کر ع‪UU‬ام لوگ‪UU‬وں کی رس‪UU‬ائی ک‪UU‬و ان‬
‫نایاب کتابوں تک ممکن بنایا ۔‬
‫تحریک استشراق کا تاریخی پس منظر‬
‫تاریخی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ تحریک استشراق کی روح ازل سے لے کر ابد تک موج‪UU‬ود رہے گی‪ ،‬اور اس‬
‫کی قدامت پر حضرت آدم علیہ السالم اور ابلیس کا واقعہ ‪ ،‬پھر حضرت آدم علیہ السالم اور شیطان کا ایک ساتھ اس دنی‪U‬ا میں بھیج‪U‬ا جان‪U‬ابھی داللت‬
‫کرتا ہے۔ اس کے عالوہ حق کے ساتھ باطل ‪ ،‬اسالم کے ساتھ کفر ‪ ،‬ایمان کے ساتھ الحاد کا ہونا استشراق کی ہی صورتیں ہیں ۔اس کے قدیم ہ‪UU‬ونے‬
‫کی طرف اس شعر میں بھی اشارہ موجود ہے‪:‬‬
‫شرار بو لہبی‬
‫ِ‬ ‫سے‬ ‫مصطفوی‬ ‫چراغ‬
‫ِ‬ ‫‪ ‬‬ ‫‪ ‬‬ ‫‪ ‬‬ ‫‪ ‬‬ ‫‪ ‬‬ ‫‪ ‬‬ ‫‪ ‬‬ ‫‪ ‬‬ ‫‪ ‬‬ ‫‪$‬‬ ‫‪ ‬‬ ‫‪ ‬‬ ‫‪ ‬‬ ‫‪ ‬‬ ‫‪ ‬‬ ‫‪ ‬‬ ‫‪ ‬‬ ‫‪ ‬‬ ‫امروز‬ ‫تا‬ ‫سے‬ ‫ازل‬ ‫ہے‬ ‫رہا‬ ‫ستیزہ کار‬
‫اس تحریک کا آغاز دراصل ظہور اسالم کے ساتھ ہی ہ‪U‬و گی‪U‬ا تھ‪U‬ا اور باقاع‪U‬دہ ای‪U‬ک تحری‪U‬ک کی ش‪U‬کل اختی‪U‬ار ک‪U‬رنے س‪U‬ے پہلے بھی ‪ ،‬اہ‪U‬ل‬
‫مغرب کی طرف سے ‪ ،‬اسالم کے خالف بالعموم اور پیغمبر ِ اسالم کے خالف بالخصوص ‪ ،‬بغض و عداوت کا اظہار موقع بہ موق‪UU‬ع مختل‪UU‬ف ادوار‬
‫میں ہوتا رہا ہے‪ ،‬اور وفور جذبات سے سرشار ‪ ،‬رومی ‪ ،‬بازنطینی ‪ ،‬الطینی ‪ ،‬مسیحی اور یہودی روایتیں صدیوں سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی رہیں ‪،‬‬
‫افواہوں کے دوش پر سفر کرتی رہیں‪ ،‬اور کبھی کبھار‪ U‬تحریر وتصنیف اور وقائع واسفار کے قالب میں ڈھلتی رہیں اور ان کی اپنی آئندہ نسلوں ک‪UU‬ا‬
‫سرمائیہ افتخار قرار پائیں ۔(‪)۱۲‬‬
‫مگر ان کے بغض وعداوت میں شدت اس وقت آئی جب دو قوتیں( ہالل ‪ ،‬صلیب )آ پس میں ٹکرائیں ہالل نے صلیب کو ہر مقام پ‪UU‬ر پس‪UU‬پا کی‪UU‬ا‬
‫اور اپنے لیے ترقی کی راہ ہموار کی ‪ ،‬اسی وقت سے باہم دشمنی اور چپقلش کا آغاز ہو ا۔اس کے بارے میں محمد حیاة ہیکل اپنی کتاب حیاة محمد‬
‫میں لکھتے ہیں ”پیروان مسیحیت پر اسالم اور مسلمانوں کی یہ ترقی شاق گزری نتیجہ یہ نکال کہ اسالم اور مسیحیت‪ U‬کے درمی‪U‬ان ش‪U‬دید اختالف‪U‬ات‬
‫کی خلیج حائل ہوگئی اور اس نے باقاعدہ ایک کشمکش‪ U‬کی صورت اختیار کرلی ۔(‪)۱۳‬‬
‫‪ ‬سب سے پہلے جس نے اسالم کے خالف ‪ ،‬اس تحریک کا آغاز کیا وہ ساتویں ص‪UU‬دی عیس‪UU‬وی ک‪UU‬ا ای‪UU‬ک پ‪UU‬ادری ج‪UU‬ان (‪ )John‬تھ‪UU‬ا‪ ،‬جس نے‬
‫آنحضور کے بارے میں طرح طرح کی جھوٹی باتیں گھڑیں اور لوگوں میں مشہور کر دیں؛ تا کہ آپ کی سیرت وشخصیت ایک دیو ماالئی کردار‬
‫سے زیادہ دکھائی نہ دے ۔ جان آف دمشق کی یہی خرافات مستقبل‪ U‬کے استشراقی علماء کا ماخذ ومصدر بن گئیں‪ ،‬جان آف دمشق کے بع‪UU‬د عیس‪UU‬ائی‬
‫دنیا کے بیسیوں عیسائی اور یہودی علماء نے قرآن کریم اور آنحضو ر کی ذات گرامی کو کئی سو سال تک موضوع بنائے رکھا اور ایسے ایس‪UU‬ے‬
‫حیرت انگیز افسانے تراشے جن کا حقیقت کے ساتھ دور کا بھی واسطہ نہ تھا‪ ،‬ان ادوار میں زیادہ زور اس بات پر صرف کیا گیا کہ آپ امی نہیں؛‬
‫بلکہ بہت پڑھے لکھے شخص تھے ‪ ،‬تورات اور انجیل سے اکتساب کر کے آپ نے قرآنی عبارتیں تیا ر کیں ‪ ،‬بہت بڑے جادوگر ہونے‪ U‬کے س‪UU‬اتھ‬
‫ساتھ آپ (العیاذ باہلل ) حد درجہ ظالم ‪ ،‬سفاک ‪ ،‬اور جنسی طور پر پراگندہ شخصیت کے حامل تھے ۔ فرانسیس‪UU‬ی مستش‪UU‬رق‪ U‬ک‪UU‬ا راڈی ف‪UU‬وکس( ‪Carra‬‬
‫‪ )de Vaux‬نے آنحضور کی ذات گرامی کے بارے میں لکھاہے کہ محمد ایک لمبے عرصے کے ل‪UU‬یے بالد مغ‪UU‬رب میں نہ‪UU‬ایت ب‪UU‬ری ش‪UU‬ہرت کے‬
‫حامل رہے اور شاید ہی کوئی اخالقی برائی اور خرافات ایسی ہو جو آپ کی جانب منسوب‪ U‬نہ کی گئی ہ‪UU‬و ۔تعجب کی ب‪UU‬ات یہ ہے کہ اس‪UU‬الم کی آم‪UU‬د‬
‫سے کم وبیش آٹھ سو سال بعد تک مغربی ممالک میں اسالم کے خالف نفرت نا کافی اور ادھوری معلومات کی بنی‪UU‬اد پ‪UU‬ر ہی پنپ‪UU‬تی رہیں‪ ،‬مث‪UU‬ال کے‬
‫طور پر گیارہویں صدی عیسوی کے آواخر میں(‪ )Song of Roland ‬جو پہلی صلیبی جنگوں کے دوران ہی وض‪UU‬ع کی‪UU‬ا گی‪UU‬ا ‪ ،‬بہت مش‪UU‬ہور ہ‪UU‬وا ‪،‬‬
‫اسی طرح کی بیہودہ باتوں پر مشتمل تھا۔(‪)۱۴‬‬
‫تحریک استشراق کے محرکات‬
‫تحریک ِ استشراق کے معرض ِ وجود میں آنے کا سب سے بنیادی محرک دینی تھا‪ ،‬لیکن اس کے س‪U‬اتھ س‪U‬اتھ سیاس‪U‬ی ‪،‬اقتص‪U‬ادی ‪،‬علمی اور‬
‫تحقیقی محرک بھی شامل تھے‪:‬‬
‫‪ -۱‬دینی محرک‪” :‬استشراق کا سب سے بڑ امقصد مذہب عیسوی کی اشاعت و تبلیغ اور اسالم کی ایسی تصویر پیش کر ن‪UU‬ا ہے کہ مس‪UU‬یحیت‪U‬‬
‫کی برتری اور ترجیح خو د بخود ثابت ہو اور نئے تعلیم یافتہ اصحاب اور نئی نسل کے لیے مسیحیت میں کشش پیدا ہو۔ چنانچہ اکثر استش‪UU‬راق اور‬
‫تبلیغ مسیحیت ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔“(‪)۱۵‬‬
‫ِ‬
‫‪ -۲‬سیاسی محرک‪” :‬سیاسی محرک میں یہ بات تسلیم کرنا پڑتی ہے کہ اہل مغرب کا رویہ اسالم کے متعل‪UU‬ق ش‪UU‬روع ہی س‪UU‬ے معان‪UU‬دانہ چال آ‬
‫رہا ہے صلیبی جنگوں کی تلخ یادیں ابھی تک ان کے ذہنوں سے محو نہیں ہوئی تھیں“ (‪)۱۶‬‬
‫”سیاسی محرک یہ ہے کہ مستشرقین عام طور پر مشرق میں مغربی حکومت‪U‬وں اور اقت‪U‬دا ر ک‪U‬ا ہ‪U‬راول دس‪UU‬تہ ( ‪ ) Pioneer‬رہے ہیں۔ مغ‪UU‬ربی‬
‫حکومتوں کو علمی کمک اور رسد پہنچانا ان کا کام ہے۔ وہ ان مشرقی اقوام و ممال‪UU‬ک کے رس‪UU‬م و رواج ‪،‬ط‪UU‬بیعت‪ U‬و م‪UU‬زاج‪ ،‬طری‪UU‬ق مان‪UU‬د وب‪UU‬ود اور‬
‫اہل مغ‪UU‬رب ک‪UU‬و حک‪UU‬ومت‪ U‬کرن‪UU‬ا آس‪UU‬ان ہ‪UU‬و۔“(‪U‬‬
‫زبان و ادب؛بلکہ جذبات و نفسیات کے متعلق صحیح اور تفصیلی معلومات‪ U‬بہم پہنچاتے ہیں؛ تاکہ ان پر ِ‬
‫‪)۱۷‬‬
‫‪ -۳‬اقتصادی محرک‪” :‬ان اہم مذہبی و سیاسی محرکات کے عالوہ قدرتی ط‪UU‬ور پ‪UU‬ر استش‪UU‬راق ک‪UU‬ا ای‪UU‬ک مح‪UU‬رک اقتص‪UU‬ادی بھی ہے‪ ،‬بہت س‪UU‬ے‬
‫فضالء اس کو ایک کامیاب‪ U‬پیشہ کے طور پر اختیار کرتے ہیں‪ ،‬بہت سے ناشرین اس بنا پر کہ ان کتابوں کی جو مشرقیات اور اسالمیات پر لکھی‬
‫جاتی ہیں‪ ،‬یورپ اور ایشیا میں بڑی منڈی ہے‪ ،‬اس کام کی ہمت افزائی اور سرپرستی کر تے ہیں‪ ،‬اور بڑی سرعت کے ساتھ یورپ و ام‪UU‬ریکہ میں‬
‫ان موضوعات پر کتابیں شائع ہوتی ہیں‪ ،‬جو بہت بڑی مالی منفعت اور کاروبار کی ترقی کا ذریعہ ہے۔“(‪)۱۸‬‬
‫‪ -۴‬علمی اور تحقیقی" محرک ‪” :‬بعض فضالء مشرقیات و اسالمیات‪ U‬کو اپنے علمی ذوق و شغف کے ماتحت بھی اختی‪UU‬ار ک‪UU‬رتے ہیں اور اس‬
‫کے لیے دیدہ ریزی ‪،‬دماغ سوزی اور جفاکشی سے کام لیتے ہیں جس کی داد نہ دینا ایک اخالقی کوتاہی اور علمی نا انص‪UU‬افی ہے‪ ،‬ان کی مس‪UU‬اعی‬
‫نوادرپردہ خفا سے نکل کر منظر عام پر آئے اور جاہل وارثوں اور ظالم لٹ‪UU‬یروں کی دس‪UU‬ت ب‪UU‬رد‬ ‫ٴ‬ ‫سے بہت سے مشرقی و اسالمی علمی جواہرات و‬
‫‪U‬ل علم‬ ‫اعلی اسالمی مآخذ اور تاریخی وثائق‪ U‬ہیں‪ ،‬جو ان کی محنت و ہمت سے پہلی مرتبہ شائع ہوئے اور مش‪UU‬رق کے اہ‪ِ U‬‬ ‫ٰ‬ ‫سے محفوظ ہوگئے۔ متعدد‬
‫نے اپنی آنکھوں کو ان سے روشن کیا۔“(‪)۱۹‬‬
‫تحریک استشراق کے مقاصد‬
‫تمام یہود ونصاری چونکہ اپنے آپ کو ہللا کی مقرب ترین قوم سمجھتے‪ U‬تھے اور آخری نبی کے متعلق‪ U‬وہ گم‪UU‬ان رکھ‪UU‬تے‪ U‬تھے کہ وہ ہم میں‬
‫سے ہو گا؛ مگر جب نبی کریم‪  ‬صلی ہللا علیہ وسلم بنو اسماعیل میں پیدا ہوئے‪ U‬تویہود و نصاری نے ص‪UU‬رف حس‪UU‬د اور بغض کی وجہ س‪UU‬ے آپ کی‬
‫نبوت کا انکار کر کے نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم اور اسالم کے دشمن ہوگئے‪ ،‬اس طرح حضور اور اسالم سے نفرت کا اظہار ‪ ،‬مس‪UU‬لمانوں ک‪UU‬و‬
‫یہودی اور عیسائی بنانے کی کوشش ‪ ،‬قرآن حکیم ‪ ،‬احادیث مبارکہ‪ ،‬عقائد وارک‪UU‬ان اس‪UU‬الم کی نفی وتض‪UU‬حیک اور من‪UU‬اظرانہ ومق‪UU‬ابالنہ کتب لکھ ک‪UU‬ر‬
‫مسلمانوں کے دین کو جھوٹا اور پیغمبر اسالم کو (نعوذ باہلل) نبی کاذب ثابت کرنا ان کامقصد بن گیا ۔(‪)۲۰‬‬
‫تحریک استشراق کے مقاصد کے متعلق تحریر کرتے ہیں ‪:‬‬ ‫ِ‬ ‫‪ ‬ڈاکٹر مصطفی سباعی‬
‫‪  -۱‬اسالم کے بارے میں بدگمانی پیدا کرنا۔‬
‫‪ -۲‬عام مسلمانوں کو مسلم علماء سے بدظن کرنا۔‬
‫‪ -۳‬ابتدائی مسلم معاشرے کی غلط تصویر کشی کر کے مسلمانوں کی تاریخ کو مسخ کر نا۔‬
‫‪ -۴‬اسالمی تہذیب کی تحقیر و تذلیل کرنا۔‬
‫‪ -۵‬کتاب و سنت میں تحریف کرنا‪ ،‬عبارتوں کو غلط مفہوم میں پیش کرنا اور حسب خواہش قبول یارد کرنا۔(‪)۲۱‬‬
‫‪ ‬مستشرقین کے حدیث اور سیرة النبی‪  ‬صلی ہللا علیہ وسلم سے متعلق اہم مقاصدیہ ہیں‪:‬‬
‫‪  -۱‬حدیث رسول‪  ‬صلی ہللا علیہ وسلم کو ناقابل اعتبار ٹھہرانامستشرقین کا خصوصی ہدف رہاہے۔ وہ جانتے تھے کہ حدیث نب‪UU‬وی ص‪UU‬لی ہللا‬
‫علیہ وسلم قرآن حکیم کی تفسیر اور وضاحت ہے۔ جب قرآن حکیم کو وضاحت نبوی سے الگ کردیا جائے تو مسلمان ان‪U‬دھیرے میں ٹام‪U‬ک ٹوئی‪U‬اں‬
‫مارتے رہیں گے اور اس طرح وہ مسلمانوں کو ان کے اصل دین سے دور کرنے میں کامیاب ہوسکیں گے۔‬
‫‪ -۲‬نبی‪  ‬صلی ہللا علیہ وسلم کی رسالت میں اس طرح تشکیک پیدا کرنا کہ آپ صلی ہللا علیہ وسلم صرف قرآن کے مبلغ ہیں۔ اور ان ک‪UU‬ا ک‪UU‬ام‬
‫قرآن کے مکمل نزول کے ساتھ ختم ہوگیا‪ U‬ہے۔‬
‫‪ -۳‬سادہ لوح مسلمانوں کو اس بات پر مطمئن کرنے کی کوشش کرنا کہ شریعت اسالمی یہودیت‪ U‬سے اخذ کردہ ہے‪ ،‬جیسا کہ گولڈ زیہ‪U‬ر اور‬
‫ٰ‬
‫دعوی ہے۔‬ ‫شاخت کا‬
‫‪ -۴‬فقہ اسالمی کی قدروقیمت میں تشکیک‪ U‬پیدا کرنا۔‬
‫‪ -۵‬اسالمی تہذیب وتمدن کے بارے میں مسلمانوں کے اندر شکوک پیدا کرنا۔‪     ‬‬
‫‪ -۶‬مسلمانوں میں اپنے علمی ورثے کے بارے میں یقین کو متزلز ل کرنا اور ان کے صحیح عقائد میں شک پیدا کرنا۔‬
‫‪ -۷‬حدیث نبوی‪  ‬صلی ہللا علیہ وسلم سے مسلمانوں کا رابطہ ختم کر کے اسالمی اخوت کا دائرہ اپنے اپنے ملکوں تک محدود کرنا۔(‪)۲۲‬‬
‫‪ ‬عبد القدوس ہاشمی مجموعی طور پر ان کے مقاصد کو مختصراًیوں بیان کرتے ہیں”مستشرقین‪ U‬کی اس‪UU‬المی تحقیق‪UU‬ات ک‪UU‬ا مقص‪UU‬د ج‪UU‬و ان کی‬
‫تحریروں سے صاف ظاہر ہے‪ ،‬وہ اسالم اور مسلمانوں کے خالف پروپیگن‪UU‬ڈہ ‪ ،‬اس‪UU‬تعمار کے ل‪UU‬یے راس‪UU‬تے کی ہم‪UU‬واری اور مس‪UU‬لمانوں میں تفری‪UU‬ق‬
‫پھیالنے‪ U‬کی جدوجہد کے سوا کچھ نہیں“۔(‪)۲۳‬‬
‫‪ ” ‬مستشرقین جنہوں نے سیرت نبوی صلی ہللا علیہ وسلم پر نقد وتنقید کی کوشش کی ہے‪ ،‬چوتھائی صدی ت‪UU‬ک اس فک‪UU‬ر میں رہے کہ کس‪UU‬ی‬
‫طریقہ سے جمہور مسلمانوں کے اعتماد کو جو سیرت نبوی‪  ‬صلی ہللا علیہ وسلم پر قائم ہے ٹھیس‪ U‬پہنچائی جائے“(‪)۲۴U‬‬
‫مستشرقین کا طریق تحقیق‬
‫پیغمبراس‪UU‬الم اور‬
‫ِ‬ ‫ابتداء میں مستشرقین کا طریقہٴ کار یہ تھا کہ کھلم کھال اسالم دشمنی کا اظہ‪UU‬ار ک‪UU‬رتے تھے‪ ،‬ان کی کتب و رس‪UU‬ائل‪ ،‬اس‪UU‬الم ‪،‬‬
‫طریق تحقیق ان کے خالف نفرت وعن‪UU‬اد‬ ‫ِ‬ ‫مسلمانوں کے خالف ان کے عناد کا واضح مظہر تھے؛ لیکن جلد ہی مستشرقین نے محسوس کیا کہ ان کا‬
‫کا باعث بن گیا ہے تو یہ لوگ تحقیق کا لبادہ اوڑھ کر میدان میں اترے اور مطلوبہ اہداف و مقاصد کو اس ذریعے سے حاصل کرنے لگے۔‬
‫رسول کریم کے محاسن کو بہت ہی خوبصورت انداز میں پیش کرتے ہیں؛ مگر جب تاریخی حقائق کی بات آتی ہے تو اس کو مس‪UU‬خ‬ ‫ِ‬ ‫یہ لوگ‬
‫کر کے پیش کرتے ہیں‪ ،‬اس طرح قاری کو تذبذب کا شکار کر دیتے ہیں اور ایسے نوجوان جو اپنی علمی ورثہ سے بالکل ہی نا واق‪UU‬ف ہیں‪ ،‬وہ ان‬
‫مستشرقین کی تحقیقات کو من و عن تسلیم کرنے لگے ہیں‪ ،‬اس کے عالوہ امت مس‪U‬لمہ ک‪U‬ا تعلیم ی‪U‬افتہ طبقہ اور ج‪U‬دت پس‪U‬ند اذہ‪U‬ان ک‪U‬و بہت ح‪U‬د ت‪U‬ک‬
‫تشکیک کا شکا ر کیا جا چکا ہے۔‬
‫مستشرقین کی تحقیقات کا بہ نظر غائر جائزہ لیا جائے تو یہ بات واض‪UU‬ح ہ‪UU‬وتی ہے کہ وہ خ‪UU‬ود ج‪UU‬و تحقی‪UU‬ق کے ل‪UU‬یے اص‪UU‬ول پیش ک‪UU‬رتے ہیں‬
‫(یعنی غیر جانبداری‪،‬اور حقائق کو بعینہ‪ U‬تسلیم کرنا)ان کی نفی بھی خود اپنے رویہ سے کر دیتے ہیں ‪ ،‬دوران تحقیق بارہا اپ‪UU‬نے مف‪UU‬اد کی خ‪UU‬اطر‬
‫اپنے ہی اصول کو توڑتے ہیں اس طرح ان کی تحقیق کا ایک مضحکہ خیز پہلو یہ ہے کہ پیغمبر‪ِ U‬اسالم ک‪U‬و جھٹالنے کے ل‪U‬یے خ‪U‬ود ہم‪U‬ارے علمی‬
‫ورثہ سے مواد اکٹھا کرتے ہیں‪ ،‬جو مواد ان کے خیال کے مطابق ان کے حق میں جاتا ہ‪UU‬و اس‪UU‬ے اس‪UU‬تدالل کے ط‪UU‬ور پ‪UU‬ر پیش ک‪UU‬رتے ہیں اور انھیں‬
‫کتب میں سے جو مواد ان کی اپنی آراء یا من چاہے نتائج کے خالف دلیل قطعی کی حیثیت‪ U‬رکھتا ہو‪ ،‬اسے یکلخت نظرانداز کر دیتے ہیں۔‬
‫‪ $‬اس کے عالوہ اکثر اوقات مستشرقین کسی واقعہ کے متعلق اپنے ذہن میں پہلے س‪UU‬ے ہی ای‪UU‬ک مفروض‪UU‬ہ ق‪U‬ائم ک‪UU‬ر لی‪U‬تے ہیں اور بع‪UU‬د ازاں‬
‫اپنے اس مذموم مفروضے کو ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی ک‪U‬ا زور لگ‪U‬اتے ہیں۔ اس سلس‪U‬لے میں انھیں موض‪U‬وع روایت بھی م‪U‬ل ج‪U‬ائے ت‪U‬و وہ‬
‫اسے استشہاد کے لیے غنیمت‪ U‬جانتے ہیں۔‬
‫‪ $‬حدیث اور سیرت النبی صلی ہللا علیہ وسلم کے موضوعات پ‪U‬ر ان اح‪U‬ادیث ک‪U‬ا س‪U‬ہارا لی‪U‬تے ہیں‪ ،‬ج‪U‬و اک‪U‬ثر مح‪U‬دثین اور فقہ‪U‬اء کے نزدی‪U‬ک‬
‫موضوع او ر ناقابل اعتبار ہیں‪،‬جیسے قصہٴ غرانیق اور فترت وحی کے حوالے سے کہ ان ایام میں (نعوذ باہلل ) آپ‪  ‬صلی ہللا علیہ وس‪UU‬لم نے خ‪UU‬ود‬
‫کشی کی بھی کوشش کی؛ بلکہ‪ William Muir‬نے "‪ "The Life of Muhammad‬میں "‪ "Seeks to commit suicide‬عنوان قائم کیا ہے۔‬
‫‪ $‬یہ مستشرقین بعض مرتبہ اپنے تعصب کی تسکین کے لیے تحقیق کے معیار سے اس قدر گر اوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں کہ اپ‪UU‬نے م‪UU‬ذموم‬
‫مقاصد کے لیے قرآن وحدیث میں لفظی تبدیلیاں بھی کر دیتے ہیں۔(‪)۲۵‬‬
‫مستشرقین مسلمانوں میں مختلف فیہ مسائل پر تحقیق نہیں کرتے جن کے حل ہونے سے مسلمانوں میں تفرقہ بازی کا خاتمہ ہو؛ کیونکہ ایسا‬
‫کر نا ان کے اصول” لڑاؤ اور حکومت‪ U‬کرو“ کے خالف ہے‪ ،‬مستشرقین بعض اوق‪UU‬ات خل‪UU‬وص س‪UU‬ے؛ لیکن اک‪UU‬ثر اوق‪UU‬ات ریاک‪UU‬اری س‪UU‬ے اس‪UU‬الم اور‬
‫پیغمبر‪ U‬اسالم کی حمایت کرتے ہیں؛ تاکہ وہ اس سے مسلمانوں کی ہمدردیاں حاصل کر کے ان کے نزدیک اپنی تحقیقات‪ U‬کو مس‪U‬تند‪ U‬ث‪U‬ابت کرس‪U‬کیں۔‬
‫” پیغمبر اسالم کے متعلق مغرب‪ U‬کی عیسائی دنیا(مستشرقین)‪ U‬کی بحث و تحقیق اور ان کی تحریروں کا نچوڑ سب و ش‪UU‬تم ک‪UU‬ا ای‪UU‬ک المتن‪UU‬اہی‪ U‬سلس‪UU‬لہ‬
‫ہے‪ ،‬جس میں کلیسائی دینی اور مذہبی شخصیات کے ساتھ غیر دی‪UU‬نی اور الم‪UU‬ذہبی اف‪UU‬راد بھی براب‪U‬ر حص‪U‬ہ لی‪UU‬تے رہے ہیں‪ ،‬اور یہ س‪UU‬یالب آج ت‪U‬ک‬
‫رواں ہے۔(‪)۲۷‬‬
‫استشراقی لٹریچر" کے اثرات‬
‫عصر حاضر میں مستشرقین نے اسالم کے خالف ایک اور محاذ کھول رکھا ہے اور ان کی کوشش ہے کہ کسی طرح اسالمی تعلیم‪UU‬ات ک‪UU‬و‬
‫غیر عقلی اور غیر فطری ثابت‪ U‬کیا جائے اور یہ باور کروایا جائے کہ اسالمی احکامات بنیادی انسانی حق‪UU‬وق س‪UU‬ے متص‪UU‬ادم اور عص‪UU‬ری تقاض‪UU‬وں‬
‫سے ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے ناقابل عمل ہیں اور خالف فطرت بھی ہیں ‪،‬جب کہ حقیقت‪ U‬سراسر اس کے برعکس ہے۔ (‪)۲۸‬‬
‫لشی من المصالح‪ ․․․․ ‬وھذا ظن فاس ٌد تکذبہ السنة واجم‪UU‬اع‬ ‫ان کے متعلق شاہ ولی ہللا فرماتے ہیں‪” ‬وقد یظن أن األحکام الشرعیة غیر متضمنة ٍ‬
‫القرون المشھود لھا بالخیر“‪ ‬بعض دفعہ یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ احکام شرعیہ کے اندر مصالح عباد کا لحاظ نہیں رکھ‪UU‬ا گی‪UU‬ا ․․․ جبکہ یہ خی‪UU‬ال‬
‫بالکل غلط ہے جس کی قرآن‪ ،‬سنت اور خیر القرون کے اہل علم کا اجماع تکذیب کرتا ہے ۔(‪)۲۹‬اس وقت یہ محاذ مسلمان اہل علم کی ف‪UU‬وری ت‪UU‬وجہ‬
‫کا متقاضی ہے ۔‬
‫مستشرقین کا سب سے اہم ہتھیار‪ U‬جس سے انھوں نے مسلمانوں کو متاثر کرنا چاہا اس کا تعلق سیرة سے ہے‪ ،‬انھوں نے واقع‪UU‬ات س‪UU‬یرت ک‪UU‬ا‬
‫صحیح طور پر تجزیہ نہیں کیا ‪ ،‬ان کی تحقیقات‪ U‬سے سیرت طیبہ کی اصلی روح مجروح ہوئی ہے اور دانستہ یا نادانس‪UU‬تہ انھ‪UU‬وں نے ص‪UU‬داقتوں ک‪UU‬ا‬
‫انکار کیا ہے اور سیرت نگاری کرتے ہوئے غلط فہمیوں کو جگہ دی اور لوگوں کو حضور ص‪U‬لی ہللا علیہ وس‪U‬لم کی زن‪UU‬دگی کے ب‪U‬ارے میں غل‪U‬ط‬
‫تاثر دینا چاہا‪،‬سیرت نگاری کے متعلق غلط تاثر اور واقعات کو غلط طور پر پیش کرنے کے کے لیے کمزور روایتوں سے مدد لی” س‪UU‬یرت نب‪UU‬وی‬
‫کی تدوین سے پہلے اس کے متعلق کچھ خیاالت قائم کر لیتے ہیں پھر جب سیرت سازی شروع کرتے ہیں تو رطب و یابس ہر قسم کی روایتوں پ‪UU‬ر‬
‫اعتماد کرتے ہیں جس سے ان کے موقف کی تائید ہوتی ہو‪ ،‬وہ ضعیف یا شاذ کی پ‪UU‬روہ نہیں ک‪UU‬رتے؛بلکہ‪ U‬انھیں ض‪UU‬عیف اور ش‪UU‬اذ اح‪U‬ادیث ک‪UU‬و اپ‪UU‬نے‬
‫استدالل کے طور پر پیش کرتے ہیں“(‪” )۳۰‬اس میں کو ئی شک نہیں کہ انصاف پسند مستشرقین بھی موجود ہیں؛ لیکن آٹے میں نم‪UU‬ک کے براب‪UU‬ر‬
‫یا پھر وہ جو حق کی روشنی کو دیکھ کر اسالم کے قریب آئے اور پھر انھوں نے اس‪UU‬الم قب‪UU‬ول ک‪UU‬ر لی‪UU‬ا؛ لیکن مستش‪UU‬رقین کی ای‪UU‬ک اک‪UU‬ثریت ان‪UU‬دھے‬
‫تعصب میں گرفتار ہے ‪ ،‬ان کا مقصد اسالم اور پیغمبر‪ U‬اسالم کی اہانت کے سوا کچھ نہیں“(‪)۳۱‬‬
‫مستشرقین نے اسالمی معاشرہ کی امتیازی خصوصیات کو ختم کر دیا ہے ‪ ،‬امتیازی خصوصیات میں اسالم کا تشریعی ‪ ،‬تعلیمی اور تربیتی‬
‫نظام ہے ‪ ،‬ان کی کوشش یہ رہی ہے کہ شریعت اسالمیہ کو ناکارہ اور بے فائدہ بیان کریں اور اس کے ق‪U‬دیم مص‪U‬ادر ومآخ‪U‬ذ میں ش‪UU‬کوک وش‪U‬بہات‬
‫پیدا کریں؛ تا کہ مسلمان ان کی طرف رج‪UU‬وع ہی نہ ک‪UU‬ریں‪،‬مستش‪UU‬رقین ک‪UU‬ا ای‪UU‬ک م‪UU‬ذموم رویہ یہ بھی ہے کہ وہ مس‪UU‬لمانوں کے مختل‪UU‬ف طبق‪UU‬وں‪ ،‬مثالً‬
‫قائدین ‪ ،‬فاتحین اور علماء وغیرہ کی شخصیتوں کو مجروع اور ان کا مقام ومرتبہ کم کرنے کے لیے فرضی واقعات گھڑ لیتے ہیں اور ان کی بنیاد‬
‫پر وہ ہر اس چیز کو بھی مورد الزام ٹھہراتے ہیں‪ ،‬جن کا کوئی تعلق اسالم یا مسلمانوں سے ہوتا ہے ۔‬
‫مستشرقین کے پیش نظر یہ بات بھی ہوتی ہے کہ جہاد کی تاویل وتوجیہہ کر کے مسلمانوں کو اس کی جانب سے غاف‪UU‬ل ک‪UU‬ر دی‪UU‬ا ج‪UU‬ائے اور‬
‫ت مقابلہ پاش پاش ہ‪UU‬و ج‪UU‬ائے اور اس کے ن‪UU‬تیجے میں مس‪UU‬لمانوں کی س‪UU‬لطنتوں کے‬ ‫انھیں عافیت وآرام پسندی کا درس دیا جائے؛ تا کہ اسالم کی قو ِ‬
‫ٹکڑے کر دیے جائیں ۔‬
‫حقیقت یہ ہے کہ ” مستشرقین کے نام سے ایک مستقل گروہ نے عربی علوم وادب کی حفاظت واشاعت کو اپنی زن‪U‬دگی ک‪U‬ا مقص‪U‬د بنای‪U‬ا ‪ ،‬ان‬
‫کی یہ قابل قدر سر گرمیاں ہمارے شکریہ کی مستحق ہیں؛ لیکن ظاہرہے کہ یہ علوم ان کے نہ تھے؛ اس لیے وہ ہمدردی اور محبت جو مسلمانوں‬
‫کو اپنی چیزوں سے ہو سکتی ہے ان کو نہیں ہے؛ اس لیے ان کی تحقیق وتدقیق سے جہاں فائدہ ہو رہا ہے‪ ،‬سخت نقصان بھی پہنچ رہ‪UU‬ا ہے ‪ ،‬جس‬
‫کی تالفی آج مسلمان اہل علم کا فرض ہے ‪ ،‬ان میں ایک ایسا گروہ بھی ہے جو اپنے مسیحی اور مغربی نقطئہ نظر سے اسالمی علوم اور اسالمی‬
‫تہذیب وتمدن پر بے بنیاد حملہ کر رہا ہے ‪ ،‬قرآن مجید‪ ،‬حدیث وتصوف ‪ ،‬سیرورجال ‪ ،‬کالم وعقائد سب ان کی زد میں ہیں‪ ،‬نہیں کہ‪UU‬ا ج‪UU‬ا س‪UU‬کتا ہے‬
‫کہ یورپ کے اس رنگ کے لٹریچر سے اسالم کو کس قدر نقصان پہنچا ہے اور پہنچے گا ‪ ،‬اگر یہ زہ‪UU‬ر اس‪U‬ی ط‪UU‬رح پھیلت‪UU‬ا رہ‪UU‬ا اور اس ک‪UU‬ا تری‪UU‬اق‬
‫نہیں کیا گیا تو معلوم نہیں کس حد تک مسلمانوں کے دماغوں میں سرایت کر جائے“(‪)۳۲U‬‬
‫شعبہ علم ہے‪ ،‬جس کی بنی‪UU‬اد پ‪UU‬ر مغ‪UU‬رب میں‬ ‫ٴ‬ ‫ایک‬ ‫شناسی‬ ‫ایڈ ورڈ سید ان مستشرقین کے منصوبوں کوان الفاظ میں واضح کرتے ہیں ” شرق‬
‫مشرق کے بارے میں ایک سوچی سمجھی اسکیم کے تحت ایک رویہ متعین کیا جاتا ہے اور ایک نقطئہ نظر قائم کی‪U‬ا جات‪U‬ا ہے گوی‪U‬ا حص‪U‬ول علم ‪،‬‬
‫اور ن‪UU‬ئی کت‪UU‬ابیں ( مش‪UU‬رق کے ب‪UU‬ارے میں ) دری‪UU‬افت ک‪UU‬رنے ک‪UU‬ا ذریعہ ہے ‪ ،‬پھ‪UU‬ر اس پ‪UU‬ر عملی ک‪UU‬ام بھی ہوت‪UU‬ا ہے‪ ،‬اس کے عالوہ میں اس لف‪UU‬ظ ک‪UU‬و‬
‫مجموعہ الفاظ جو ہر کسی کے لیے ہیں اور مشرق سے متعلق مواد کا حامل سمجھتا‪ U‬ہوں ۔(‪)۳۳‬‬ ‫ٴ‬ ‫خوابوں ‪ ،‬تصورات ‪ ،‬خاکوں اور‬
‫مستشرقین کے تالمذہ جو کہ اب ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں ‪ ،‬اور ان مستش‪U‬رقین ہی کے دم‪U‬اغ وعق‪U‬ل س‪U‬ے س‪U‬وچتے ہیں ‪ ،‬وہ اس لح‪U‬اظ س‪U‬ے‬
‫نسبة ً زیادہ خطرناک ہیں کہ وہ مس‪UU‬لمان ہ‪U‬وتے ہیں ‪ ،‬ان کی تحقیق‪UU‬ات وتالیف‪UU‬ات مس‪UU‬لمانوں کے حلق‪U‬وں میں بہت جل‪U‬د پہنچ ج‪U‬اتی ہیں اور وہ ج‪UU‬و کچھ‬
‫لکھتے ہیں ان پر اعتماد بھی کر لیا جاتا ہے ‪ ،‬ایسے افراد کی تحریروں کا احاطہ کر کے تدارک بھی ضروری ہے ۔‬
‫مستشرقین عام طور پر اپنی تحریروں میں یہ رویہ اپناتے ہیں کہ پہلے اسالم اور پیغمبر ِ اسالم کے متعلق بڑے فیاض‪UU‬انہ ان‪UU‬داز میں تع‪UU‬ریفی‬
‫کلمات کا ڈھیر لگا دیتے ہیں‪،‬جس سے اندازہ ہونے لگتا ہے کہ مصنف بڑے اچھے انداز میں اسالم کی تشریح پیش کر رہا ہے‪ ،‬اس کے بعد اس‪UU‬الم‬
‫کے خالف ایسی بات کرتے ہیں جو اسالم اور پیغمبر ِ اسالم کے خالف ہوتی ہے‪ ،‬سابقہ تعریفی کلمات کی بنیاد پرعام ق‪UU‬ارئین اس ب‪UU‬ات س‪UU‬ے مت‪UU‬اثر‬
‫ہو جاتے ہیں ۔‬
‫مستشرقین کی ان انتھک متحدہ کوششوں سے وہ علمی سرمایہ معرض وجود میں آیا ہے کہ آج مشرق ومغر ب کے ادنی طالب علم سے لے‬
‫کر بڑے مصنّفین تک جب بھی کوئی کسی موضوع پر کچھ لکھنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کوکسی حد تک ان مستشرقین کی تصنیف کردہ کتابوں‬
‫سے استفادہ کرنا پڑتا ہے ‪ ،‬اگرچہ وہ مسلم ہے اور اس کا ضمیر اس کی اجازت بھی نہیں دیتا؛ مگر اس کے پا س اس کے عالوہ کوئی چ‪UU‬ارہٴ ک‪UU‬ار‬
‫بھی نہیں ہے ۔‬
‫مستشرقین کا سب سے خطرناک ارادہ اور منصوبہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا دل ودماغ توحید ‪ ،‬اخالق ‪ ،‬روحانیت اور ایمان سے عاری ہو ک‪UU‬ر‬
‫اس تیز وتند ہوا کے سامنے آجائے جو تعلیم ‪ ،‬صحافت ‪ ،‬ادب ‪ ،‬فلم اور لباس وغیرہ کے راستہ سے عام ہو رہی ہے ‪ ،‬ان چیزوں کے مسموم اثرات‬
‫سے ایسی نسل تیار ہو رہی ہے ‪ ،‬جو تخریب‪ U‬اور بربادی کی طرف اس کو ترقی وتمدن کا نام دے کر چلی جار ہی ہے اور اس‪UU‬المی ت‪UU‬اریخ وتہ‪UU‬ذیب‬
‫اور اس کے اصول ومبادی کو مسخ کر کے مستشرقین ومبلغین کی پیروی کررہی ہے اور ان ہی کی طرح اس دور ک‪UU‬و حق‪UU‬یر اور کم‪UU‬تر خی‪UU‬ال ک‪UU‬ر‬
‫رہی ہے ‪ ،‬جو تاریخ عالم کی نمایاں اور مفید خ‪UU‬دمت انج‪UU‬ام دے چک‪UU‬ا ہے ‪ ،‬اور مس‪UU‬لمانوں کے دل‪UU‬وں میں بھی اس کے ن‪UU‬اقص اور فروت‪UU‬ر ہ‪UU‬ونے‪ U‬ک‪UU‬ا‬
‫احساس وشعور پیدا کر رہی ہے ۔‬
‫رہنماوں اور قائدین کو نمایاں اور ممتاز قرار دیتے ہیں جو رسو ہللا‪  ‬صلی ہللا علیہ وسلم کے قائدانہ اوصاف اختیار ک‪UU‬رنے‬ ‫ٴ‬ ‫مستشرقین ایسے‬
‫کے بجائے فکر ی ‪ ،‬اعتقادی اور اجتماعی حیثیت‪ U‬سے مغربی قائدین کے نقش قد م پر چلتے ہیں ۔‬
‫مستشرقین علماء عرب اور دنیائے اسالم کو پس ماندگی اور بدحالی سے ہمکنار کر کے اس پر اظہار ہمدردی کرتے ہیں اور پھر مسلمانوں‬
‫کو یہ باور کراتے ہیں کہ ان کی پس ماندگی کا س‪UU‬بب اس‪UU‬الم کی پ‪UU‬یروی اور محم‪UU‬د ص‪UU‬لی ہللا علیہ وس‪UU‬لم کی اقت‪UU‬داء ہے‪ ،‬اس کے ل‪UU‬یے وہ بے ش‪UU‬مار‬
‫الزامات گھڑتے‪ U‬ہیں ۔مستشرقین نے ایک منصوبے‪ U‬کے تحت حقائق کو اپنے زوایہ نگاہ سے دیکھا اور مختل‪UU‬ف جہت‪UU‬وں س‪UU‬ے ال‪UU‬زام تراش‪UU‬ی کی اور‬
‫انھوں نے جوخاص طرزو انداز اپناتے ہوئے‪ U‬غلط ‪ ،‬بے بنیاد قصے کہانیاں اور روایتیں نقل کی ہیں اس س‪UU‬ے ع‪UU‬وام کے س‪UU‬اتھ خ‪UU‬اص ل‪UU‬وگ جن ک‪UU‬ا‬
‫اسالم کے ساتھ گہر ا تعلق ہے‪ ،‬وہ بھی متاثر نظر آتے ہیں ‪ ،‬ہمارے علمی حلقوں کا اس طرح متاثر ہونا بڑے خطرے کی عالمت ہے‪ ،‬جو کہ آنے‬
‫والی نئی نسل پربدترین اثرات مرتب ہونے کا سبب بن سکتے‪ U‬ہیں۔‬
‫نو مسلم یورپی مفکرمحمد اسد نے مستشرقین کی پھیالئی ہوئی غلط فہمیوں کے اثرات و نتائج ک‪UU‬ا ج‪UU‬ائزہ لی‪UU‬ا ہے ان کی آراء میں مستش‪UU‬رقین‬
‫(قدیم و جدید کی کاوشوں اور ان کے خیاالت و تصورات نے عام مغربی ذہن‪U‬وں ک‪U‬و مس‪U‬موم ک‪U‬ر دی‪U‬ا ہے؛ چن‪U‬اچہ ان کی (ان کے عالوہ دیگ‪U‬ر مس‪U‬لم‬
‫مفکرین کی بھی) تحریریں مغرب میں اسالم کی دعوت و تبلیغ اور اس کی تفہیم کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن گئی ہیں‪ ،‬ان مستشرقین کی نگارش‪UU‬ات‬
‫کے زیر اثر عام یورپی و امریکی افراد اسالم کی کسی طور پر درخور اعتن‪UU‬اء نہیں گردان‪UU‬تے‪ ،‬وہ اس‪UU‬الم اور اس کی روح‪UU‬انی اخالقی تعلیم‪UU‬ات ک‪UU‬و‬
‫قابل اح‪U‬ترام نہیں س‪U‬مجھتے‪ ،‬نہ وہ اس‪U‬ے عیس‪U‬ائیت اور یہ‪U‬ودیت س‪U‬ے م‪U‬وازنہ کے قاب‪U‬ل خی‪U‬ال ک‪U‬رتے‬ ‫کسی بھی نقطئہ نگاہ سے کچھ زیادہ وقیع اور ِ‬
‫ہیں‪،‬جیسا کہ درج ذیل عبارت سے واضح ہوتا ہے۔‬
‫‪ ‬تحریک استشراق کا سب سے بڑا نقصان جو ملت اسالمیہ کو ہوا وہ یہ کہ مسلم امت میں ایک طبقہ ایسا پیدا ہو گی‪UU‬ا ج‪UU‬و مستش‪UU‬رقین ک‪UU‬و اپن‪UU‬ا‬
‫سب سے بڑا خیر خواہ سمجھتا ہے اور ہماری زبان ‪ ،‬تہذیب ‪ ،‬تاریخ اور جملہ مشرقی علوم ک‪UU‬و محف‪UU‬وظ رکھن‪UU‬ا مستش‪UU‬رقین کی علم دوس‪UU‬تی اور بے‬
‫قاب‪U‬ل اعتم‪U‬اد ب‪U‬ات وہ ہ‪U‬وتی ہے ج‪U‬و کس‪U‬ی‬ ‫ِ‬ ‫الگ تحقیق‪ U‬کی دلی‪U‬ل س‪U‬مجھنا‪ U‬ہے ‪،‬جس کی وجہ س‪U‬ے آج ق‪U‬ومی س‪U‬وچ یہ بن گ‪U‬ئی ہے کہ ہم‪U‬ارے نزدی‪U‬ک‬
‫مستشرق کے قلم سے نکلی ہو ‪ ،‬اس کی وجہ یہ ہے کہ جب آپ مستشرقین کواپنا مخلص قرار دیتے ہیں تو پھر ان کی کسی تحریر ک‪UU‬و ش‪UU‬ک وش‪UU‬بہ‬
‫کی نظر سے دیکھنا ممکن ہی نہیں رہتا ‪ ،‬ہماری اس سوچ کی وجہ سے ہمارے عوام وخواص کی اکثریت ان اص‪UU‬ل ع‪U‬زائم ومقاص‪UU‬د س‪UU‬ے بے خ‪UU‬بر‬
‫ہے جن کے تحت مستشرقین علوم اسالمیہ کی طرف متوجہ ہوئے تھے ‪ ،‬اس صورت حال س‪UU‬ے مستش‪UU‬رقین زب‪UU‬ر دس‪UU‬ت فائ‪UU‬دہ اٹھ‪UU‬ا رہے ہیں اور وہ‬
‫مسلمانوں کی طرف سے کسی قسم کے رد عمل کے خطرے کے بغیر ان کے دین ‪ ،‬ان کے معزز رسول ‪  ‬صلی ہللا علیہ وسلم اور ان کی ہر مقدس‬
‫شے پر مسلسل وار کر رہے ہیں ۔(‪)۳۵‬مستشرقین سے متاثر لوگوں کو یہ خیال رکھنا چاہیے کہ مستشرق خواہ کیسا ہی انصاف پسند ہ‪UU‬و اور اس‪UU‬الم‬
‫کی رفعت وعظمت کا دل وجان سے قائل ہو ‪ ،‬وہ بہرحال غیر مسلم ہے ‪ ،‬اس بنا پر وہ اسالم اور پیغمبر‪ U‬اسالم‪  ‬صلی ہللا علیہ وسلم ک‪UU‬ا مط‪UU‬العہ جس‬
‫نقطئہ نظر سے کرتا ہے ‪ ،‬وہ بال شبہ کسی مسلمان کا نقطئہ نظر نہیں ہو سکتا ؛ اس ل‪UU‬یے ان س‪UU‬ے خ‪UU‬یر کی توق‪UU‬ع کم ہی رکھ‪UU‬نی چ‪UU‬اہیے‪ ،‬اور نہ ہی‬
‫کسی ہمدردی کی ۔ مستشرقین کے مکرو فریب سے بچناخاصا مشکل ہے ‪ ،‬وہ علم کا لباس پہن کر اور تحقیق کا لب‪UU‬ادہ اوڑھ ک‪UU‬ر آتے ہیں ت‪UU‬و اچھے‬
‫خاصے پڑھے لکھے اور سمجھ دار مسلمان بھی دھوکہ کھا جاتے ہیں اور ان سے مت‪U‬اثر ہ‪UU‬و ک‪UU‬ر ان کی کاوش‪U‬وں اور تحقیقی ک‪U‬اموں کی داد دی‪UU‬نے‬
‫لگتے ہیں ۔اور اس تعداد میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہو رہا ہے کہ اب مستش‪U‬رقین کے بج‪UU‬ائے یہی ل‪U‬وگ اس ک‪UU‬ام ک‪UU‬و س‪UU‬ر انج‪U‬ام دے رہے ہیں ‪،‬‬
‫اسی کے متعلق اقبال نے کیا خوب کہا ہے ‪:‬‬
‫پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے‬
‫استشراق کے ان علم براداروں کی تعداد کو دیکھ‪U‬تے ہ‪U‬وئے‪ U‬بعض لوگ‪U‬وں نے ان ک‪U‬و” مس‪U‬تغربین“ ک‪U‬ا ن‪U‬ام دی‪U‬ا ہے ‪ ،‬مستش‪U‬رقین نے اس‪U‬المی‬
‫تعلیمات کے وقار کو مجروح کیا اور اسالم کے بارے میں شک وشبہ کی ایک ایسی فضا پیدا کر دی ‪ ،‬جس ک‪UU‬ا اث‪UU‬ر یہ ہ‪UU‬وا کہ اس کے ان‪UU‬در س‪UU‬انس‬
‫احساس کمتری کا شکار سمجھنے‪ U‬لگا ‪،‬اس‪UU‬المی ملک‪UU‬وں میں جہ‪UU‬اں کی م‪UU‬ادری زب‪UU‬ان ع‪UU‬ربی ہے‪،‬‬ ‫ِ‬ ‫لینے واالمسلمانوں‪ U‬کا تعلیم یافتہ طبقہ اپنے آپ کو‬
‫عربی کی اہمیت گھٹا کر وہاں کے باشندوں کو مقامی زبانوں کے زندہ کرنے کے دام میں پھنس‪U‬ایا جات‪U‬ا ہے؛ ت‪U‬ا کہ وہ ان کی ط‪U‬رف مت‪U‬وجہ ہ‪U‬و ک‪U‬ر‬
‫عربی زبان بھول جائیں اور قرآن کے سمجھنے والے باقی نہ رہیں ‪ ،‬اس وقت ان کے خیاالت اور رجحانات کو اپنے سانچے میں ڈھال لیا ج‪UU‬ائے ‪،‬‬
‫استشراق ایک بہت بڑا فتنہ ہے ‪ ،‬جس کے مضر اثرات سے ہر میدان میں نئی نسل کے مسلمان نوجوان کو بچان‪UU‬ا ض‪UU‬روری ہے ‪ ،‬مستش‪UU‬رقین س‪UU‬ے‬
‫بڑھ کر خطرہ ان کے شاگرد مستغربین ک‪UU‬ا خط‪UU‬رہ ہے ج‪U‬و مس‪UU‬لمانوں کے لب‪UU‬اس میں ملب‪UU‬وس ہ‪U‬و ک‪U‬ر ہم‪U‬ارے تعلیمی اداروں میں ان مستش‪U‬رقین کے‬
‫نظریات وخیاالت اور تحریفات وخرافات پھیالتے اور نوجوان طلبہ کے ذہن مسموم کرتے ہیں ۔‬
‫نتائج بحث‬
‫مستشرقین کا اصل مقصد تحقیق کے لبادے میں اسالمی تعلیمات‪ U‬کو مسخ کر کے اسالم اور مسلمانوں کوبدنام کرن‪UU‬ا ہے اس مقص‪UU‬د کے ل‪UU‬یے‬
‫انھوں نے ہر قسم کا حربہ استعمال کیا اور میکاؤلی کا یہ اصول ” کہ مقصد عظیم ہو تو اس کے حص‪UU‬ول کے ل‪UU‬یے ہ‪UU‬ر ذریعہ اس‪UU‬تعمال کرن‪UU‬ا ج‪UU‬ائز‬
‫ہے“ کا انھوں نے خوب استعمال کیا؛ حاالنکہ میکاؤلی نے یہ اصول سیاستدانوں کے لیے وضع کیا تھا؛ لیکن ی‪UU‬ورپ کے ارب‪UU‬اب قلم وقرط‪UU‬اس نے‬
‫اس اصول سے خوب فائدہ اٹھایا اور قرآن کریم اور احادیث نبوی صلی ہللا علیہ وسلم میں شک و شبہات پیدا کیے اور خیاالت ِفاسدہ و افکار ب‪UU‬اطلہ‬
‫کو تحقیق‪ U‬کی آڑ میں پھیالنا‪ U‬شروع کر دیا۔‬
‫مستشرقین کی اس ساری تحقیق‪ U‬کا مقصد اسالم کے پیروں کاروں میں تشکیک‪ U‬کے بیج بون‪UU‬ا تھ‪UU‬ا ت‪UU‬ا کہ قلم و قرط‪UU‬اس کے ذریعے مس‪UU‬لمانوں‬
‫کے دلوں کو فتح کر کے ان پر حکومت کی جائے اور اقتصادی و معاشی وسائل پر قابض ہو کر اہل اسالم کو ممکن حد تک کمزور کر دی‪UU‬ا ج‪UU‬ائے‬
‫جس میں وہ بہت حد تک کامیاب ہو رہے ہیں۔مسلمانوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کے لیے مستشرقین نے اہم ہتھیار کے طور پ‪UU‬ر س‪UU‬یرة طیبہ‬
‫کو استعمال کیا ہے ‪ ،‬دوران سیرت نگاری صرف تصویر کے اس رخ کو نمایاں طور پر پیش کیا جس میں ان کی نظر کے مطابق ک‪UU‬وئی خ‪UU‬امی ی‪UU‬ا‬
‫کمی تھی اور لوگوں کو غلط تاثر دینے کے لیے کمزور‪،‬موضوع اور رطب و یابس ہر قسم کی روایتوں سے مدد لی۔‬
‫‪ ‬مستشرقین نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت حقائق کو اپنے زاویہ نگا ہ سے دیکھا ‪ ،‬مختلف جہتوں سے ال‪U‬زام تراش‪U‬ی ک‪U‬ر کے‬
‫غلط ‪،‬بے بنیاد قصے کہانیاں اور روایتیں نقل کر دی ہیں جس کی وجہ سے عوام کے ساتھ خواص جن ک‪UU‬ا اس‪UU‬الم کے س‪UU‬اتھ گہ‪UU‬را تعل‪UU‬ق ہے وہ بھی‬
‫متاثر نظر آتے ہیں۔‬
‫سفارشات‬
‫تعالی کا آخری پیغام ہے اور ہللا کی طرف سے بھیجا ہوا دین ہے‪ ،‬جو ہ‪UU‬ر ط‪UU‬رح کے ح‪UU‬االت اور تب‪UU‬دیلیوں میں‬ ‫ٰ‬ ‫‪ $‬اسالم انسانیت‪ U‬کے لیے ہللا‬
‫اپنی افادیت اور ضرورت کو برقرار رکھے گ‪UU‬ا‪ ،‬یہ ای‪UU‬ک انقالبی دع‪UU‬وت ہے جس کے گہ‪UU‬رے اور دور رس اث‪UU‬رات م‪UU‬ادی ‪،‬اقتص‪UU‬ادی اور اجتم‪UU‬اعی‬
‫دور حاضر کی اہم ضرورت ہے۔‬ ‫زندگی پر ازل تک مرتب ہوتے‪ U‬رہیں گے‪ ،‬لہٰ ذا مدلل اور تقابلی انداز میں اس کی حقانیت‪ U‬کو واضح کرنا ِ‬
‫‪ $‬مستشرقین کا اہم ہتھیار س‪U‬یرة طیبہ ہے جس ک‪U‬و گ‪U‬دال ک‪U‬رنے کے س‪U‬اتھ مس‪U‬لمانوں میں تش‪U‬کیک‪ U‬پی‪U‬دا کی گ‪U‬ئی ہے؛ اس لییس‪U‬یرت طیبہ کے‬
‫ذخیرئہ کتب کو از سر نو مرتب کیا جائے اور مستشرقین کے اعتراضات کو نقل کرکے پڑھنے والوں کے لیے تشفی بخش سامان مہیا کیا جائے۔‬
‫‪ $‬مستشرقین کی وہ کتب جو تحقیق کے قواعد و ضوابط پر پورا نہیں اترتیں ‪،‬ان کی نشاندہی کی جائے اور ان کی نشر و اشاعت پ‪UU‬ر پابن‪UU‬دی‬
‫لگائی جائے۔‬
‫‪ $‬عام مسلمانوں کے لیے شریعت اسالمیہ کے تشریعی ‪ ،‬تعلیمی اور تربیتی پروگرامزکرا ئے جائیں‪،‬اور دین ِ اسالم کی تشریح عام فہم انداز‬
‫میں بیان کی جائے۔‬
‫‪U‬ایہ تکمی‪UU‬ل ت‪UU‬ک پہنچ‪UU‬ا رہے ہیں‪،‬‬
‫ٴ‬ ‫‪U‬‬‫پ‬ ‫کو‬ ‫مقاصد‬ ‫کے‬ ‫مستشرقین‬ ‫سے‬ ‫ذریعے‬ ‫کے‬ ‫قرطاس‬ ‫و‬ ‫قلم‬ ‫کر‬ ‫ہو‬ ‫متاثر‬ ‫سے‬ ‫مستشرقین‬ ‫جو‬ ‫اسکالرز‬ ‫‪ $‬مسلم‬
‫اہل علم سے تصدیق کے بعد ترویج و اشاعت کی اجازت دی جائے۔‬ ‫ان کی تحریرو تقریر کو مستند ِ‬
‫‪ $‬تعلیم‪ ،‬صحافت‪ ،‬ادب اور میڈیا کے تحت اسالم‪،‬پیغمبر ِ اسالم کے خالف ہونے‪ U‬والے پروپیگنڈا پر سختی سے پابندی لگائی جائے۔‬
‫‪U‬ل اس‪UU‬تفادہ‬
‫‪ $‬حکومتی سطح پر عربی زبان کی ترویج و ترقی ہو؛ تا کہ ہم اپنے حقیقی ورثہ کو آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ رکھ ک‪UU‬ر قاب‪ِ U‬‬
‫بنا سکیں۔‬
‫‪ $‬سیرة النبی کی اہم عربی و اردو کتب کا انگریزی زبان میں ترجمہ کروایا جائے؛ تا کہ انگریزی خواں جدید تعلیم یافتہ طبقہ بھی اس س‪UU‬ے‬
‫مستفید ہو سکے۔‬
‫‪ $‬مستشرقین سے متاثر لوگوں کو ہمیشہ یہ خیال رکھنا چاہیے کہ مستشرق خواہ کیسا ہی انصاف پسند ہ‪UU‬و اور اس‪UU‬الم کی رفعت و عظمت ک‪UU‬ا‬
‫دل و جان سے قائل ہو وہ بہرحال غیر مسلم ہے ‪ ،‬اس بنا پر وہ اسالم اور پیغمبر اسالم کا مطالعہ جس نقطہ سے کرتا ہے‪ ،‬وہ بال شبہ کسی مسلمان‬
‫کا نقطئہ نظر نہیں ہوسکتا؛‪ U‬اس لیے ان سے بھالئی و خیر کی امید کم ہی رکھنی چاہیے۔‬
‫‪ $‬عہ ِد حاضر کی اشد ضرورت ہے کہ پورے استشراقی لٹریچر کا تنقیدی جائزہ لیا جائے اور اس کو مکم‪U‬ل اور ب‪U‬ا ض‪U‬ابطہ ط‪U‬ور پ‪U‬ر علمی‬
‫اصولوں کی کسوٹی پر پرکھا جائے ‪،‬اور ان مس‪UU‬لمان مص‪UU‬نفین کی تحری‪UU‬روں ک‪UU‬و بھی ‪ ،‬جن کے ط‪UU‬رز فک‪UU‬ر میں مستش‪UU‬رقین کے خی‪UU‬االت ک‪UU‬ا عکس‬
‫جھلکتا ہے ‪،‬ان کی تحریروں کا جائزہ لے کر علمی تلبیسات وتدلیسات کو واضح کیا جائے۔‬
‫‪ $‬اسالم سے متعلق اسکول سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک طلبہ کے لیے دور جدید کے تقاضوں کے مطابق ایسی کتب تی‪UU‬ار ک‪UU‬روائی‬
‫جائیں جو تعلیمی‪ U‬نصاب کا حصہ بن سکیں۔‬
‫‪ $‬آج کے دور میں تحقیق سے آراستہ اور جدید اسلو ب اور موجودہ دو ر کے تقاضوں کے مطابق ہر زبان میں کت‪UU‬ابیں لکھیں ج‪UU‬ائیں؛ ت‪UU‬ا کہ‬
‫نئی نسل کو مستشرقین کے گمراہ کن نظریات سے محفوظ رکھا جا سکے ۔‬
‫‪ $‬تصنیف و تالیف کا تمام کام علمی معیار‪ ،‬موجودہ تحقیق‪ U‬اور جدید اصولوں کے عین مطابق‪ U‬ہ‪UU‬و؛ ت‪UU‬ا کہ ان کت‪UU‬ابوں ک‪UU‬ا مط‪UU‬العہ مس‪UU‬لم و غ‪UU‬یر‬
‫مسلم سب کے لیے یکساں طور پرمفید ہو۔‬
‫‪ $‬مستشرقین کے اعتراضات کا سد باب کرنے کے لیے مطالعہ میں وسعت‪ U‬وگہرائی اور استدالل کے ساتھ تحمل مزاجی بھی پیدا کی جائے۔‬
‫‪ $‬دور حاضر کی زبان اور محاورے میں دین کی تعبیر‪ U‬وتشریح عام فہم انداز میں بیان کی جائے اور اس میں ان لوگوں کی تشفی کا س‪UU‬امان‬
‫بھی موجود ہو جو استشراقی لٹریچر سے متاثر ہوچکے ہیں۔‬
‫‪ $‬اسالمی ممالک میں تحقیق کے جدید مراکزقائم کیے جائیں جس میں مستشرقین کے اعتراضات و اثرات ک‪UU‬ا ج‪UU‬واب کتب‪ ،‬مض‪UU‬مون نگ‪UU‬اری‬
‫اور انٹرنیٹ کو استعمال میں التے ہوئے دیا جائے۔‬
‫‪ $‬اسالمی ممالک میں جدیدخطوط پر استوار مراکز کے تحت مستشرقین کے عنوان پر سیمینارز کروائے جائیں۔‬
‫‪ $‬یونیورسٹیوں اور اسالمک سٹڈیز کے شعبوں کے سر براہ اور استاتذہ اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ ان کے طالب علم مستش‪UU‬رقین کے‬
‫مراجع پر اعتبار نہ کریں۔‬
‫مسلمان مترجمین جب مستشرقین کی کسی کتاب کا ترجمہ کریں تو اس میں قابل ِ اعتراض عبارتوں کے جوابات دینے میں تساہل کا مظ‪UU‬اہرہ‬
‫نہ کریں۔‬
‫دین اسالم کی بہت بڑی اور نہایت ضروری خدمت ہے ۔‬ ‫ِ‬ ‫اور‬ ‫دین‬ ‫علم‬
‫ِ‬ ‫وقت‬ ‫اس‬ ‫کرنا‪،‬‬ ‫مہیا‬ ‫تریاق‬ ‫کا‬ ‫قاتل‬ ‫ِ‬ ‫زہر‬ ‫اس‬ ‫‪ ‬‬ ‫‪$‬‬

You might also like