Professional Documents
Culture Documents
حلالہ فقہ حنفیہ کی روشنی میں - آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا
حلالہ فقہ حنفیہ کی روشنی میں - آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا
حاللہ کرنے کی شرط پر نکاح کرنا تو مکروہ تحریمی ہے اگرچہ بعد عدت ثانی زوج اول کے لیے جائز ہو جائے گی اور اگر
شرط نہیں لگائی بس نکاح کر لیا تو چاہے دل میں ایسا ارادہ ہو تو بھی مکروہ نہیں ہے۔[
]1حاللہ کی شرط پر نکاح کہ میں
اس شرط پر تجھ سے نکاح کرتا ہوں کہ تجھے طالق دے کر حالل کردوں گا دوسرے شخص کا نکاح مکر وِہ تحریمہ ہے
لیکن دونوں نے اگر دل میں حاللہ کی نیت کی تو مکروہ نہیں،اس صورت میں دوسرا شخص اصالح کی غرض سے نکاح
مستحق ہوگا[]2
کرنے پر اجر کر
حاللہ کے بارے میں احناف کا مؤقف یہ ہے کہ ’’ِن َکاح ِب َش ْر ِط ا لَّت ْح ِل ْی ل(یعنی حاللہ کی شرط کے ساتھ نکاح کرنا)جس کے
بارے میں حدیث میں لعنت آئی ،وہ یہ ہے کہ عقد ِ نکاح یعنی ایجاب و قبول میں حاللہ کی شرط لگائی جائے اور یہ نکاح
مکر وِہ تحریمی ہے ،زوِج اول و ثانی(یعنی پہال شوہر جس نے طالق دی اور دوسرا جس سے نکاح کیا) اور عورت تینوں
گنہگار ہوں گے مگر عورت ِا س نکاح سے بھی بشرائط ِ حاللہ شوہِر ا ّو ل کے لیے حالل ہو جائے گی اور شرط باطل ہے اور
شوہِر ثانی طالق دینے پر مجبور نہیں اور اگر عقد میں شرط نہ ہو اگر چہ نیت میں ہو تو کراہت اصال ً نہیں بلکہ اگر نیت ِ
[]3 خیر ہو تو مستحِق اجر ہے۔‘‘
عقدنکاح سے پہلے ہی دوسرے شوہرکوسمجھادیاجائے کہ عورت اپنے پہلے شوہرکے پاس جاناچاہتی ہے اوراس کے ہاں
پہلے شوہرسے کچھ اوالدبھی ہے جن کی تربیت بخیروخوبی پہلے شوہر اوراس کے ذریعے ہی ہوسکےگی اورپہلے شوہرکے
نکاح میں جانے اوربچوں کی صحیح تربیت کرنے کاذریعہ ش وَہِرثانی سے نکاح اورہمبستری کے سواکچھ نہیں ہے،تواگر ان
حاالت میں ش وَہِرثانی اندونوں(ش وَہِر اول اور اس عورت)کی پریشانی کوحل کرنے کی نیت سے اس عورت سے نکاح کرلے
اوریہ نکاح حاللہ کی شرط پرنہ کیاجائے(یعنی ایجاب وقبول کے وقت حاللہ کی شرط نہ لگائی جائے بلکہ نارماللفاظ
میں ایجاب وقبول ہوں اگرچہ دل میں ارادہ حاللہ کاہو)اورنہ ہی اس پرش وَہِر َا َّو ل سے اجرت لی جائے
اورپھربعِد نکاح،ہمبستری کرکے اس کوطالق دے تاکہ وہ عورت عدت گزار کراپنے پہلے شوہرسے نکاح کرلے اوربچوں کی
صحیح طورپرپرورش کرسکے تویہ ش وَہِرثانی اس طرح کرکے ان دونوں(ش وَہِر َا ّو ل اورعورت)کی خیروبھالئی چاہنے کی
وجہ سے ثواب کامستحق قرار پائےگا۔
(داراالفتاء اہلسنت25،ذوالقعدۃ الحرام1433ھ13،اکتوبر2012ء)[]4
اگر ُد وسرے مرد سے نکاح کرتے وقت یہ نہیں کہا گیا کہ وہ صحبت کے بعد طالق دے دے گا ،لیکن اس شخص کا اپنا
خیال ہے کہ وہ اس عورت کو صحبت کے بعد فارغ کر دے گا تو یہ صورت موجِب لعنت نہیں۔ اسی طرح اگر عورت کی
نیت یہ ہو کہ وہ ُد وسرے شوہر سے طالق حاصل کرکے پہلے شوہر کے گھر میں آباد ہونے کے الئق ہو جائے گی ،تب بھی
[]7[]6[]5
گناہ نہیں۔
متعہ خاص مدت کے لیے تمتع حاصل کرنے کا معاملہ کیا جائے جو ناجائز وحرام ہے اور حاللہ میں نکاح کے وقت کی
تعیین نہیں ہوتی بلکہ نکاح کی دوامی خصوصیت موجود رہتی ہے ،کوئی جملہ اس کے منافی نہیں صادر کیا جاتا ہے جب
کہ متعہ میں نکاح کی دوامی کیفیت کے خالف مدت کی تعیین کی جاتی ہے کہ ہم مثًال ایک ہفتہ ایک ماہ کے لیے تم سے
کردیتے ہیں۔[]8 نکاح
حوالہ جات