You are on page 1of 4

‫کورٹ میرج کی شرعی حیثیت‬

‫جواب‬

‫ت مطہرہ نے لڑکی اور لڑکے دونوں اورخصوصا ً لڑکی کی حیاء ‪،‬اخالق ‪،‬معاشرت کا خیال‬ ‫صورت مسئولہ میں شریع ِ‬
‫رکھتے ہوئے ولی کے ذریعے نکاح کا نظام رکھا ہے کہ نکاح ولی کے ذریعے کیا جائے ‪،‬یہی شرعا ً ‪،‬اخالقاًاور معاشر ً)ۃ‬
‫پسندیدہ طریقہ ہے ‪،‬اسی میں دینی ‪،‬دنیوی اور معاشرتی فوائد ہیں لیکن اگر ایک نادان لڑکی یا لڑکا جو کہ عاقل بالغ ہیں‬
‫ان فوائد اور پسندیدہ عمل کو ٹھکراکر خود ہی عدالت جاکر یا عدالت سے ہٹ کر نکاح کریں تو نکاح ہوجائے گا دونوں‬
‫میاں بیوی بن جائینگے ‪،‬لیکن یہ نکاح پسندیدہ طریقہ پر نہیں ہوگا‪ ،‬اس کے بعد طالق دینے سے طالق واقع ہوجائے گی ۔‬
‫ٰلہ ذا سائل کا نکا ح منعقد ہوچکا ہے ‪،‬اس کے بعد طالق دیدی توواقع ہوچکی ہے‪،‬مہر جو نکاح میں طے ہوا تھا سائل‬
‫دینے کاپابند ہے ۔ رہا دوبارہ نکاح کا معاملہ تواگر پہلے نکاح کے بعد ازدواجی تعلق یاخلوت نہ ہوئی ہو اور طالق‬
‫متفرق طور پر دی ہو مثالً طالق دی‪،‬وغیرہ تو ایک ہی طالق سے نکاح ختم ہوا‪،‬دوبارہ نئے مہر کے ساتھ نکاح جائز‬
‫ہے ‪،‬آئندہ کے لیے شوہر کو دوطالقوں کا حق رہےگا۔ اگر نکاح کے بعد ازدواجی تعلق قائم ہوا ہویا خلوت ہوئی ہو اور‬
‫طالق ایک یا دو‪،‬دی ہوں تو عدت میں رجوع اور رجوع نہ ہونے کی صورت میں عدت کے بعد دوبارہ نکاح کرنا جائز‬
‫ہے۔ اگر طالق تین دی ہوں تو ایسی صورت میں رجوع یا حاللہ شرعیہ کے بغیر دوبارہ نکاح کرنا جائز نہیں ۔‬

‫سوال‪:‬‬

‫کورٹ میرج کے بارے میں کیا حکم ہے جب کہ لڑکا اور لڑکی میں سے کسی کی فیملی اس میں شامل نہیں ہوئی اوران‬
‫میں سے کسی کو نکاح سے پہلے اس کا علم نہیں تھا؟‬

‫جواب نمبر‪:‬‬

‫کورٹ میرج میں آپ کا نکاح اگر شرعی گواہوں کی موجودگی کے بغیر ہوا تھا‪ ،‬تو وہ نکاح شرعا ً منعقد نہیں ہوا تھا‪،‬‬
‫اور یہ دوسرا نکاح جس کو جامع مسجد کے حافظ صاحب نے دادا اور بھائی کو گواہ بناکر‪ ،‬اور لڑکی سے اجازت لے‬
‫کر پڑھایا‪ ،‬وہ نکاح صحیح ہوگیا‪ ،‬اب اگر آپ اس لڑکی کے کفوء ہیں تو وہ نکاح الزم بھی ہوگیا‪ ،‬اور اگر کفوء نہیں ہیں‪،‬‬
‫تو لڑکی کے اولیاء کو نکاح کا علم ہونے پر یہ حق حاصل ہے کہ وہ شرعی پنچایت کے ذریعہ اس نکاح کو ختم کرادیں۔‬
‫وتعتبر الکفاء ة للزوم النکاح خالفا لمالک رحمہ ہللا (الدر المختار ‪ )۲۰۹ /۴‬قال النبي صلی ہللا علیہ وسلم أال ال یزوج‬
‫الناسء أال األولیاء وال یزوجن إال من األکفاء․ حاشیة (رد المحتار‪)۴/۲۰۴ :‬‬

‫سوال نمبر‪4072:‬‬

‫مفتی صاحب عدالتی نکاح (‪ )court marriage‬کی شرعی حیثیت کیا ہے؟جواب‪:‬‬

‫بالغ لڑکا‪ ،‬لڑکی اپنی پسند اور مرضی سے دستور کے مطابق نکاح کر سکتے ہیں۔ یہ حق ان کو قرآن وحدیث اور تقریبا ً‬
‫فرمان باری‬
‫ِ‬ ‫ہر ملکی قانون نے دیا ہے مگرہمارے سماج نے نہ دیا یہی وجہ کورٹ میرج میں اضافے کا سبب بھی ہے۔‬
‫ٰ‬
‫تعالی ہے‪:‬‬

‫اب لَکُ ْم م َِّن ال ِّن َسآ ِء‪.‬‬ ‫َفا ْنکِح ُْوا َم َ‬


‫اط َ‬

‫اپنی پسند کی عورتوں سے نکاح کرو۔‬


‫النساء‪3 :4 ،‬‬

‫یہ پسند دو طرفہ ہو گی‪ ،‬لڑکے کی طرف سے بھی اور لڑکی کی طرف سے بھی‪ ،‬کسی پر اس کی مرضی کے خالف‬
‫ٰ‬
‫تعالی نے ایک اور مقام پر شادی کا مقصد بیان فرمایا‪:‬‬ ‫کوئی فیصلہ ٹھونسا نہیں جا سکتا۔ اﷲ تبارک و‬

‫َومِنْ ٰا ٰيـ ِت ٓ ِه اَنْ َخلَقَ لَکُ ْم مِّنْ اَ ْنفُسِ کُ ْم اَ ْز َواجً ا لِّ َتسْ کُ ُن ْٓوا ِالَ ْي َها َو َج َع َل َب ْي َنکُ ْم م ََّو َّد ًة وَّ َرحْ َم ًة ط اِنَّ فِیْ ٰذلِکَ اَل ٰ ٰي ٍ‬
‫ت لِّ َق ْو ٍم َّي َت َفکَّر ُْو َن‪o‬‬

‫اور یہ (بھی) اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے پیدا کیے تاکہ تم ان‬
‫(نظام تخلیق) میں ان‬
‫ِ‬ ‫کی طرف سکون پاؤ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی‪ ،‬بے شک اس‬
‫لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں۔‬

‫الروم‪21 :30 ،‬‬

‫اس ضمن میں چند احادیث درج ذیل ہیں‪:‬‬

‫اع َٔانْ‬
‫ب َٔا َح ُد ُک ْم ْال َمرْ َٔا َة َفِإنْ اسْ َت َط َ‬
‫ﷲ صلی هللا عليه وآله وسلم ‪ِ :‬إ َذا َخ َط َ‬ ‫ﷲ رضی هللا عنهما َقا َل‪َ ،‬قا َل‪َ :‬رسُو ُل ا ِ‬ ‫ْن َع ْب ِد ا ِ‬‫َعنْ َج ِاب ِر ب ِ‬
‫ْت ِم ْن َها َما َد َعانِي ِإلَی ِنکَا ِح َها َف َت َز َّوجْ ُت َها‪.‬‬ ‫َٔا‬ ‫ُٔا‬ ‫َٔا‬
‫ت َت َخ َّب َل َها َح َّتی َر ي ُ‬ ‫ار َي ًة َفکُ ْن ُ‬ ‫ظ َر ِإلَی َما َي ْدعُوهُ ِإلَی ِنکَا ِح َها َف ْل َي ْف َعلْ‪َ .‬قا َل َف َخ َطب ُ‬‫َي ْن ُ‬
‫ْت َج ِ‬

‫حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی ہللا عنہما سے روایت کی ہے کہ رسول اﷲ صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا‪ :‬جب تم‬
‫میں سے کوئی کسی عورت کو پیغام نکاح دے اگر اس کی ان خوبیوں کو دیکھ سکتا ہو جو اسے نکاح پر مائل کریں‪ ،‬تو‬
‫ضرور ایسا کرے۔ حضرت جابر کا بیان ہے کہ میں نے ایک لڑکی کو پیغام دیا اور چھپ کر اسے دیکھ لیا یہاں تک کہ‬
‫میں نے اس کی وہ خوبی بھی دیکھی جس نے مجھے نکاح کی جانب راغب کیا ٰلہذا میں نے اس کے ساتھ نکاح کر لیا۔‬

‫ٔاحمد بن حنبل‪ ،‬المسند‪ ،334 :3 ،‬رقم‪ ،14626 :‬مصر‪ :‬مٔوسسة قرطبة‬

‫ٔابو دأود‪ ،‬السنن‪ ،228 :2 ،‬رقم‪ ،2082 :‬بيروت‪ :‬دار الفکر‬

‫حاکم‪ ،‬المستدرک علی الصحيحين‪ ،179 :2 ،‬رقم‪ ،2696 :‬بيروت‪ :‬دار الکتب العلمية‬

‫امْرَٔا ًة َف َقا َل َل ُه ال َّن ِبيُّ صلی هللا عليه وآله وسلم ْاذ َهبْ‬
‫شعْ َب َة َٔا َرادَ َٔانْ َي َت َز َّو َج َ‬‫ِير َة ب َْن ُ‬ ‫ْن َمالِکٍ رضی هللا عنه َٔانَّ ْال ُمغ َ‬ ‫سب ِ‬ ‫َعنْ َٔا َن ِ‬
‫َ‬ ‫َٔا‬ ‫َٔا‬
‫ظرْ ِإلَ ْي َها َفِإ َّن ُه حْ َری نْ ُئْو دَ َم َب ْي َنکُ َما َف َف َع َل َف َت َز َّو َج َها َفذ َک َر مِنْ م َُوا َف َق ِت َها‪.‬‬ ‫َفا ْن ُ‬
‫حضرت انس رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں مغیرہ بن شعبہ رضی ہللا عنہ نے ایک عورت سے نکاح کرنے کا ارادہ کیا۔‬
‫ٰ‬
‫تعالی تمہارے‬ ‫حضور نبی اکرم صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا‪ :‬جائو اسے دیکھ لو کیونکہ اس سے شاید ہللا‬
‫دلوں میں محبت پیدا کر دے۔ انہوں نے ایسا ہی کیا‪ ،‬پھر اس سے نکاح کر لیا‪ ،‬بعد میں حضور نبی اکرم صلی ہللا علیہ‬
‫وآلہ وسلم سے اس نے اپنی بیوی کی موافقت اور عمدہ تعلق کا ذکر کیا۔‬

‫ٔاحمد بن حنبل‪ ،‬المسند‪ ،246 :4 ،‬رقم‪18179 :‬‬

‫نسائی‪ ،‬السنن الکبری‪ ،272 :3 ،‬رقم‪ ،1865 :‬بيروت‪ :‬دار الکتب العلمية‬

‫ابن ماجه‪ ،‬السنن‪ ،599 :1 ،‬رقم‪ ،1865 :‬بيروت‪ :‬دار الفکر‬

‫َعنْ َٔا ِبي َسلَ َم َة َٔانَّ َٔا َبا ه َُري َْر َة رضی هللا عنه َح َّد َث ُه ْم َٔانَّ ال َّن ِبيَّ صلی هللا عليه وآله وسلم َقا َل اَل ُت ْنکَ ُح أَاْل ِّي ُم َح َّتی ُتسْ َتْٔا َم َر َواَل ُت ْنکَ ُح‬
‫ْف ِإ ْذ ُن َها َقا َل َٔانْ َتسْ کُتَ ‪.‬‬ ‫ْال ِبکْ ُر َح َّتی ُتسْ َتْٔا َذ َن َقالُوا َيا َرسُو َل ا ِ‬
‫ﷲ َو َکي َ‬

‫حضرت ابو ہریرہ رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا‪ :‬بیوہ کا نکاح‬
‫اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری لڑکی کا نکاح بھی اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے۔ لوگوں نے‬
‫عرض کی‪ :‬یاسول اﷲ! کنواری کی اجازت کیسے معلو م ہوتی ہے؟ فرمایا‪ :‬اگر پوچھنے پر وہ خاموش ہوجائے تو یہ‬
‫بھی اجازت ہے۔‬

‫فقہائے کرام فرماتے ہیں‪:‬‬

‫ينعقد نکاح الحرة العاقلة البالغة برضاها وان لم يعقد عليها ولی بکرا کانت ٔاو ثيبا‪ ...‬وال يجوز للولی اجبار البکر البالغة علی‬
‫النکاح‪.‬‬

‫آزاد‪ ،‬عقل مند بالغ لڑکی کا نکاح اس کی رضا مندی سے ہو جاتا ہے‪ ،‬خواہ اس کا ولی نہ کرے‪ ،‬کنواری ہو یا ثیبہ۔۔۔ ولی‬
‫کو اس بات کی اجازت نہیں کہ کنواری بالغ لڑکی کو نکاح پر مجبور کرے۔‬

‫مرغيناني‪ ،‬الهداية شرح البداية‪ ،196 :1 ،‬المکتبة االسالمية‬

‫ولی یعنی باپ یا دادا کے کیے ہوئے نکاح کے بارے میں بیان کرتے ہیں‪:‬‬
‫واذا ٔادرکت بالحيض ال بٔاس بٔان تختار نفسها مع رٔوية الدم‪.‬‬

‫اگر لڑکی حیض کے ذریعے بالغ ہوئی تو خون دیکھتے ہی اسے اختیار حاصل ہو گیا خواہ بچپن کے نکاح کو برقرار‬
‫رکھے یا رد کر دے۔‬

‫عدالت میں نکاح کرنا بنیادی طور پر کوئی بری بات نہیں ہے۔ اصل خرابی کی جڑ والدین کا لڑکے اور لڑکی کی پسند‬
‫وناپسند کو نظر انداز کرنا ہے۔ اکثر والدین مال ودولت اور جائیداد کے اللچ میں شرعی کفو کا خیال نہیں رکھتے بغیر‬
‫سوچے سمجھے) بچوں کی زندگی کا سودا کر دیتے ہیں۔ ا ُن کا یہ فیصلہ بعد میں ناخوشگوار زندگی کا باعث بنتا ہے۔ اگر‬
‫کوئی جوڑا اپنی پسند اور رضامندی سے بذریعہ عدالت نکاح کر کے جائز وحالل تعلقات قائم کرتا ہے تو اُس کو اپنی‬
‫مرضی سے زندگی گزارنے کا حق ملنا چاہیے۔ اگر یہ راستہ بھی بند کر دیا جائے تو اس کا مطلب ہے ہم اُن کو غلط‬
‫کاری پر مجبور کرنے جا رہے ہیں۔ ٰلہ ذا ہمیں اپنی سوچیں اسالمی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے تاکہ‬
‫شادی بیاہ کے معامالت) میں بھی والدین اور بچے اپنی اپنی حدود میں رہ کر اچھا فیصلہ کر سکیں اور طے پانے واال‬
‫رشتہ دنیا وآخرت میں راحت وسکون کا باعث بنے۔ جبکہ عدالتی نکاح پر پابندی لگانا اس مسئلہ کا حل نہیں ہے۔‬

You might also like