You are on page 1of 23

‫بسم اللہ الرحمن الرحیم‬

‫حج اور روزہ شرعی بنیاد پر یا‬


‫فرنگی و سیاسی حدود کے‬
‫تابع‬
‫‪1403‬ھ میسں سسعودیہ شام اور بعسض دوسسری حکومتوں کسی طرف سسے‬
‫شوال کا چاند نظر آنے کا اعلن ہوا کہ کل عید ہوگی ۔ اسی دوران اردن نے‬
‫اعلن کیا کہ چاند نہیں دیکھا گیا لہٰذا رمضان المبارک کی گنتی پوری کی جائے‬
‫گسی۔اس دن میسں اُردن میسں موجود تھھا۔ اور میسں نسے آنسے والے کسل کسو روزہ نسہ‬
‫رکھنے اور چاند دیکھنے والوں کے ساتھ عید کرنے کا فیصلہ کیا۔اس موضوع پر‬
‫مباحسث ہوئے اٹلس پسر نظسر دوڑاتسے ہوئے میسں نسے اختلف کرنسے والوں سسے کہا‬
‫‘کیسا اختلف مطالعسسائیکس بیکسو کسی مقرر کردہ حدود کسے عیسن مطابسق ہے‬
‫گویسا کسہ اﷲتعالیسٰ نسے اختلف مطالع کسا اندازہ اسسی طرح ٹھہرایسا ہے کسہ وہ اس‬
‫معاہدہ کے مطابق ہو؟‬
‫پھر اگر معاملہ یونہی ہو تو اس حال میں بستی تل شہاب کے رہنے والے‬
‫تسو افطار کریسں اور الطرة کسے رہنسے والے (عیسد کسے دن )روزہ رکھیسں گسے۔ جبکسہ‬
‫پہل قصسبہ شام میسں اور دوسسرا اردن میسں واقسع ہے اور ان دونوں کسے درمیان‬
‫صرف ‪ 500‬کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ سچی بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ سب من‬
‫مانیاں ‘گروہی تعصسبات ‘جاہلیست اور النسسیء جیسسی گمراہیوں کسا نتیجسہ ہے۔‬
‫جس (النسیءکے بارے میں مالک نے فرمایا ہے کہ النسیء تو صرف کفرمیں‬
‫بڑھ جانے کا نام ہے۔ انما النسی ء زیادة فی الکفر (التوبة‪)۷۳:‬‬

‫اس کے بعد میں پاکستان منتقل ہوگیا تومیں نے دیکھا کہ یہاں پر افغانی‬
‫چانسد دیکھنسے کسے بعسد عیسد کررہے ہیسں اور پاکسستانی روزہ سسے ہیسں ۔ اور روزہ‬
‫رکھنسے والے عیسد کرنسے والے کسے درمیان صسرف ‪1.5‬سسینٹی میٹسر قطسر کسا خطسہ‬
‫حائل ہے ۔ جسب میسں نسے ان سسے پوچھھا کسہ ماجرا کیسا ہے توجواب دینسے لگسے کسہ‬
‫اختلف مطالع ہے ۔ میسں نسے سسوچا کسہ یہاں تسو معاملہ اور ہی نازک ہے۔ کیونکسہ‬
‫تسل شہاب اور الطرہ میسں تسو پھھر بھھی ‪500‬میٹسر کسا فاصسلہ تھھا جبکسہ یہاں تسو‬
‫معاملہ صرف ملی میٹروں (‪15‬ملی میٹر)تک سمٹ آیا ہے۔‬
‫پاک ہے اﷲتعالیسٰ کسی ذات کسہ یہاں پسر اختلف مطالع کسو سسائیکس بیکسو‬
‫کے بجائے ڈیورنڈ لئن وہ انگریز جو پاکستان اور افغانستان کے درمیان حدبندی‬
‫کسے لیسے متعیسن وفسد کسا رئیسس تھھا) کسے تابسع کردیسا گیسا ہے ۔ کئی سسال بعسد میسں‬
‫پاکسستان کسی ایسک مسسجد میںنمازعشاءادا کررہا تھ ھا اورلوگوں نسے اسسی دن‬
‫ٹیلی ویژن پر حجاج کو جمع ہو کر وقوف کرتے دیکھھا تھھا۔نماز میدان عرفات‬
‫سے ٹی وی پر دکھلئی گئی ۔ پھر دعا‘صلة عید اور خطبہ ٹی وی کی نشریات‬
‫پر لوگوں نے خود دیک ھا ۔ عین اسی دن رات کو اس مسجد کے امام صاحب‬
‫کھڑے ہوئے اور لوگوں کسو تنبیسہ کرتسے ہوئے کہنسے لگسے کسہ کسل عرفسہ کسا دن ہے اور‬
‫اس کاروزہ رکھنسا سسنت ہے ۔ جسو کچسھ میسں سسن رہا تھھا اس نسے مجھھے پریشان‬
‫کردیسسا اور میسسں نسسے امام صسساحب سسسے کہا لوگ میدان عرفات میسسں وقوف‬
‫کرچکے‘ پ ھر منی میں ٹھہرنے کے بعد رجم‘قربانی‘طواف افاضہ اور حلل ہونا‬
‫سسب کچسھ ہوچکسا اور آپ فرماتسے ہیسں کسہ کسل یوم عرفسہ ہے‘ تسو امام صساحب نسے‬
‫جواب دیا کہ ہمارے لئے بھھی عرفات (یوم عرفہ)ہے‘جیسے آپ کے لئے ہے ۔میں‬
‫نے صبر سے کام لیتے ہوئے کہا الشیخ دنیا میں تو عرفات صرف ایک ہے جو کہ‬
‫ایک پہاڑ ہے‘ جس پر لوگ قربانی کے دن سے پہلے وقوف کرتے ہیں اور رسول‬
‫اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حج عرفات ہے ‘حج عرفات ہے‘حج عرفات‬
‫ہے(میدان عرفات میسں وقوف کرنسا )۔ تسو وہ کہنسے لگسے جھگڑا مست کیجئے میسں‬
‫نسے گفتگسو ختسم کردی ۔ اور اس معاملہ میسں مسسلمانوں کسے حال سسے غمناک‬
‫ہوکر دوراتیں کرب میں گزاردیں۔‬
‫تیسرے دن جماعت اہلحدیث کے ایک شیخ سے ملقات کرنے گیا تاکہ ان‬
‫سسے اپنسا دکھڑا بیان کروں اور عیسد کسی مبارک باد دوں ۔ جسب ہم ان کسے گھھر‬
‫گئے تو انہ یں قربانی میں مصروف پایا ۔ہم نے کچھ انتظار کیا تو الشیخ آگئے ۔‬
‫سلم و دعا کے بعد میں نے ان سے کہا معلوم ہوتا ہے آپ نے قربانی کا جانور‬
‫تیسسرے دن ذبسح کیسا ہے ۔انہوں نسے کہا نہیسں ! ہمارے یہاں تسو آج پہل دن ہے ۔ میسں‬
‫نسے کہا‘الشیسخ ! تیسن دن گزر گئے جسب لوگوں نسے عرفات میسں وقوف کیسا ۔ تسو‬
‫انہوں نسے جواب دیسسا ہمارا یوم عرفات تسسو کسسل تھ ھا ۔میسسں نسے کہا اللہ آپ رحسسم‬
‫فرمائے وہ کسس طرح ؟ انہوں نسے کہا ہمارے ہاں ہمارے اصسحاب کسی روئیست کسے‬
‫مطابسق عیسد کسے دن کسا معاملہ طسے پاتسا ہے ۔میسں نسے کہا الشیسخ وقوف عرفات‬
‫میں اور قربانی منی میں ہوتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہر شہر کے لئے اپنا مطلع‬
‫ہے تو میں نے کہا اچھا آپ بھی روزہ و حج ڈیورنڈلئن کے مطابق ادا کرتے ہیں ۔‬
‫میں گھر لوٹ آیا اور ابھی نماز پڑھنے نہ پایا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی‬
‫ایک دوست کا فون ت ھا جو برطانیہ سے مج ھے عید کی مبارک باد دے رہا ت ھا ۔‬
‫جسب میسں نسے اس سسے برطانیسہ میسں عیسد کسے بارے میسں پوچھھا تسو وہ کہنسے لگسا‬
‫ہمارے یہاں تین عیدیں ہوتی ہ یں ۔اول دن پہلی عید سعودیوں کی ہماری ہوئی‬
‫اور دوسسری کسل بعسض عربوں کسی اور تیسسری آج پاکسستانی ‘بنگالی اور بعسض‬
‫دوسسرے لوگوں کسی اس طرح ہر عیسد کسی نماز الگ الگ شہرمیسں پڑھھی گئی ۔‬
‫میں نے کہا یہاں تو لوگ اختلف مطالع کو عذر بناتے ہیں ۔مگر آپ کے یہاں کیا‬
‫عذر ہے؟وہ کہنسے لگسا ہر قوم اپنسی سسفار ت کسے سساتھ ہے ۔ اور ہر سسفارت اپنسی‬
‫حکومت کے تابع ہے اور ہر حکومت اپنے آقا کے تابع ہے ۔میںنے کہا لیکن آقا تو‬
‫ایسک ہے ۔ اس نسے جواب دیسا اس ایسک کسی خواہش تیسن عیدیسں ہیسں۔ میسں نسے‬
‫پوچھ ھا اور خروج دجال میسں کتنسا وقست ہے؟ اس نسے جواب دیسا بہت کسم ! اب‬
‫میسں نسے روئیست اور مطالع کسے موضوع پسر لکھنسے کسا فیصسلہ کرلیسا ۔تاکسہ یسہ بحسث‬
‫مسلمانوں کے سامنے پیش کروں ۔ممکن ہے فائدہ مند ثابت ہو۔‬
‫دن اور مہینے‪:‬‬
‫دنیسا کئی طبقات پسر مشتمسل ہے ۔ علماءو عوام ‘مسسلمین وکفار‘جنات‬
‫اور حیوانات۔ جسب سسورج طلوع ہوتسا ہے مثل ً جمعسہ کسے دن تسو پوری دنیسا میسں‬
‫جہاں دن ہوگسا وہاں ”یوم الجمعسہ “ہوگسا۔لہٰذا جسب سسورج کسسی ایسک ملک پسر‬
‫ضیاءپاشیاں کررہا ہوگسسا اگرچسسہ اس کسسا طلوع یہاں کسسسی دوسسسرے ملک کسسی‬
‫نسسبت مقدم ہو یسا مؤخسر ‘مگسر اس دن کسے یوم الجمعسہ ہونسے میسں کہیسں فرق‬
‫نہ یں ہوگا۔ جب سے اللہ پاک نے مخلوق کو پیدا فرمایا ہے آج تک کسی سے یہ‬
‫نہ یں سنا گیا کہ ایک ہی وقت میں کسی شہر میں یوم جمعہ ہو جبکہ دوسرے‬
‫میں یوم جمعرات اور تیسرے میں ہفتہ ۔ اسی طرح یہ دن بیک وقت جمعہ کی‬
‫نماز کو واجب کرنے کا باعث بھی ہے ۔کسی معاہدے کی مدت کسی مہلت کے‬
‫ختسم ہونسے اور اسسی طرح کسے کئی کام جسو اس دن سسے متعلق تھھھے ان میسں‬
‫حسساب و کتاب کسی بنیاد بھھی ہے ۔ دن مہینوں کسے تابسع ہیسں اب جبکسہ دن دنیسا‬
‫میں ایک ہیں تو اسی طرح مہینے اور سال بھی ایک ہونے چاہئیں ۔ اگر یہ جمعہ‬
‫کا دن کسی ایک جگہ ‪1420‬ھ کے ماہ محرم کا پہل دن ہے تو ایسا نہیں ہوسکتا‬
‫کسہ کسسی دوسسری جگسہ وہ جمعرات ‪30‬ذی الحجسہ ‪1419‬ھ ہواور تیسسری جگسہ‬
‫‪29‬ذی الحجسہ ‪1419‬ھ ہو۔ ( جارج سسائیکس بیکسو نمائندہ فرانسس اور مارکسس‬
‫سسایکس نمائندہ انگلینسڈ کسے اتفاق سسے سسلطنت عثمانیسہ کسی بندربانسٹ ہوئی‬
‫اورموجودہ عرب ریاستیں معرض وجود میں آئیں(‬
‫جسب چانسد حجاب سسے نکلتسا ہے یسا کہا جاتاہے کسہ چاندپیدا ہوگیسا اور یسہ دن‬
‫وہاں یوم محاق شمار کیا جاتاہے ۔ یوم محاق میں چاند اور سورج دونوں بیک‬
‫وقت افق پر موجود ہوتے ہیں ۔ پس اس کے بعداسی ماہ میں چاند اور سورج‬
‫کبھھی دوبارہ جمسع نہیسں ہوں گسے ۔ورنسہ چانسد دوسسری اور تیسسری بار پیداہوگسا ۔‬
‫گویا نہ تو وہ آگے جاسکتا ہے اور نہ ہی پیچھے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ‪:‬‬
‫‪ ‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪  ‬‬ ‫‪‬‬
‫‪ ‬‬ ‫‪ ‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪     ‬‬ ‫‪ ‬‬ ‫‪‬‬
‫ترجمہ۔ سورج کے لئے یہ لئق نہ یں کہ وہ چاند کو جالے اور نہ ہی رات کے لئے‬
‫ممکن ہے کہ‬
‫وہ دن س سے پہل کرنکلے اور ی سہ سسسب ک سے سسسب فلک میسسں سسسرگرداں ہیسسں ۔‬
‫(یٰسین(‬
‫اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے‪:‬‬
‫‪‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪ ‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪ ‬‬ ‫‪  ‬‬
‫قسم ہے سورج کی روشنی کی اور قسم ہے‬
‫چاند کی جب وہ اس کے پیچھے آئے۔ (الشمس‪(۲:‬‬
‫پس یہ ہوتا کہ چاند پیدا ہو کر کسی ملک میں ظاہر ہوجائے اور پھر چاند‬
‫نئے سسسرے سسسے سسسورج کسسو پالے اور محاق کسسی حالت میسسں چلجائے اور پھھھر‬
‫دوسسری مرتبسہ پیدا ہو اور سسورج کسے پیچھھھے پیچھھھے آئے اور ایسسا ہی تیسسری‬
‫مرتبسہ کرے ۔ یسہ سسب عبسث اورکھیسل تماشسہ ہے اور اللہ کسی ذات اس سسے بلنسد‬
‫وبال ہے ۔ پسس ہلل ایسک ہی بار پیدا ہوتسا ہے اور کچسھ لوگ اسسے دیکھتسے ہیسں اور‬
‫دوسسرے نہیسں دیکھتسے ۔ پسس جسو دیکھتسا ہے اس کسے پاس اس سسے زیادہ علم ہے‬
‫جسس نسے نہیسں دیکھھا ۔ اور اس کسا دیکھنسا نسہ دیکھنسے والے پسر دلیسل ہے نسہ کسہ نسہ‬
‫دیکھنے والے اس پر دلیل ہیں ۔ آپ کا کسی شئے کے بارے میں لعلم ہونا اس‬
‫بات پسر دلیسل نہیسں ہے کسہ وہ شئے سسرے سسے موجود ہی ن ہی ں ہے۔اگسر یسہ مان لیسا‬
‫جائے تو تمام معیار بدل جائیں گے۔ جہل علم ہوجائے گا اور علم جہل بن جائے‬
‫گا۔عقل والے اس بات پر متفق ہیں کہ حامل اپنے علم کی بناپر نہ جاننے والوں‬
‫کسسے لئے دلیسسل ہے ۔ اللہ تعالیسسٰ نسسے اس معاملے میسسں ہمارے لئے ضابطسسہ مقرر‬
‫فرمادیسسا ۔ اس نسے دن اور رات کسسو دنوں کسسی گنتسسی کسسا ضابطسہ اور چانسسد کسسو‬
‫مہینوں کسے حسساب کسا ضابطسہ قرار دیسا اور اس نسے ہمیسں شمسسی مہینوں کسی‬
‫پیروی کسا حکسم نہیسں دیسا اور نسہ ہی ہمیسں یہودی ‘مسسیحی اور صسابی ضوابسط کسا‬
‫پابند بنایا ہے۔‬
‫‪‬‬ ‫‪ ‬‬ ‫‪ ‬‬ ‫‪ ‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪ ‬‬
‫تج ھ س ے چاند ک ے بار ے‬ ‫‪‬‬
‫میں سوال کرت ے ہیں ک ہ ہ دو ی ہ حج اور اوقات حساب ک ے لئ ے ہے۔‬
‫(البقرﺓ(‬
‫نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‪ :‬زمانہ بالکل اسی حال پر لوٹ آیا‬
‫ہے جو حالت اس کی زمین و آسمان کی پیدائش کے وقست تھھی ۔ یہ کہ سال‬
‫بارہ ماہ کا ہے ۔ جس میں سے چار حرمت کے مہینے ہ یں ۔ تین ذی القعدہ ‘ ذی‬
‫الحجہ اور محرم مسلسل ہیں اور رجب جو جمادی اور شعبان کے درمیان ہے۔‬
‫(متفق علیہ ۔بخاری ومسلم(‬
‫شھود الشھھر میں شھود سے کیا مراد ہے اور اس سے کس مقصد کا حصول‬
‫مطلوب ہے‪:‬‬
‫اللہ تعالیٰ نے فرمایا ‪:‬‬
‫‪‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪ ‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪ ‬‬ ‫‪‬‬
‫‪‬‬ ‫‪ ‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪ ‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪ ‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪‬‬
‫‪‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪  ‬‬
‫‪ ‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪  ‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪‬‬
‫‪ ‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪ ‬‬ ‫‪ ‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪‬‬
‫‪ ‬‬ ‫‪ ‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪ ‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪ ‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪ ‬‬ ‫‪‬‬
‫ماہ رمضان کا وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل‬ ‫‪‬‬ ‫‪‬‬
‫کیا گیا‬
‫جسو لوگوں کسے لئے رہنمسا ہے اور رہنمائی پسر کھلے دلئل سسے پسر ہے۔پھھر (حسق و‬
‫باطل )میں فرق کردینے وال ہے ۔ پس تم میں سے جو کوئی رمضان کا شاہد‬
‫ہو تسو وہ اس ماہ کسے روزے رکھھھے اور جوکوئی مریسض ہو یسا سسفر پسر ہو تسو وہ‬
‫گنتی کو دوسرے ایام میں پورا کرلے۔ اللہ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے اور تنگی‬
‫کو پسند نہ یں کرتا ۔ اوریہ کہ تم گنتی پوری کرو اور اللہ کی بڑائی اس طرح‬
‫بیان کرو جس طرح اس نے تمہیں سکھائی اور یہ کہ تم اللہ کا شکر اداکرو۔‬
‫سسوال یسہ پیدا ہوتسا ہے کسہ شاہد کسے معنسی کیسا ہیسں؟ اور اس کسی شہادت‬
‫سے کس مقصد کا حصول مطلوب ہے ؟‬
‫اللسسسان المیزان میسسں کہا گیسسا ہے ۔ شاہد کسسسی چیسسز کسسو جانن سے وال وہ‬
‫شخص ہے جو اس چیز کو بیان کرے جسے وہ جانتا ہے ۔ اور الشہادة وہ قطعی‬
‫خبر ہے جس کے لئے کہا جاتا ہے فلں آدمی نے اس طرح گواہی دی اور ابوبکر‬
‫النباری نے مؤذن کے قول ”میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے“کے بارے میں‬
‫کہا کہ میں نے یہ جان لیا کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہ یں اور میں نے جان لیا کہ‬
‫محمسد صسلی اللہ علیسہ وسسلم اللہ کسے رسسول ہیسں۔ اور شہد اللہ کسا مطلب ہے کسہ‬
‫اللہ جانتسا ہے ۔ المشاہدہ کسا مطلب ہے کسسی چیسز کسو دیکسھ لینسا ۔ قوم شہود کسا‬
‫مطلب حاضسسر ہون سے والی قوم ۔ اور تاج العروس میسسں لکھھھا ہے ک سہ شھھھد کسسا‬
‫مطلب ہے اس نسے اسسے سسنا شھدت الرجسل علی اقرار الغریسم کسا مطلب ہے‬
‫میسں نسے فلں آدمسی کسے اقرار قرض پسر گواہی دی ۔ اور الشاہد کسا معنسی ہے ۔‬
‫العالم پس شھد لھا کے پانچ معنی ہوئے۔‬
‫‪۲‬۔وہ فلں چیسسز پسسر حاضسسر‬ ‫‪۱‬۔اس نے فلں چیز کی خبر دی ۔‬
‫۔اس نسسسے فلں بات‬ ‫‪۳‬۔اس نے فلں چیز کو دیکھا ۔‬ ‫ہوا۔‬
‫کو سنا‬
‫۔‪۵‬اسے فلں چیز کا علم ہوگیا۔‬
‫اوران پانچوں کا مل حظہ یہ ہے کہ صفت علم ان سب کو اپنے اندرجمع‬
‫کرنسے والی ہے۔پسس خسبر دینسا علم کسے بغیسر نہیسں ہوسسکتا اور خسبر علم ہی سسے‬
‫روشناس کرانسے کسا باعسث ہے اسسی طرح حاضسر ہونسا بھھی علم کسا حال بتاتسا ہے‬
‫اور گواہ ہونسا اور سسننا بھھی علم ہی سسے بہرہ ور کرتسا ہے ۔ اور علم کسا مطلب‬
‫جان لینسا ہی ہے۔ لہٰذا شھھد کسا دارومدار علم ہی پسر ہے اور کئی ایسک آیات اور‬
‫احادیث اس کی تائید میں وارد ہوئی ہ یں ۔ اگر اللہ تعالیٰ کے قول کا مطلب‬
‫یہ ہو کہ جسے رمضان کی خبر پہنچے وہی روزہ رکھے تو یہ بات انتہائی باطل ہے‬
‫کیونکہ اس پرخبردار ہونے والے چندسوہونگے یا دس بیس بلکہ دو اور تین جب‬
‫کہ اللہ تعالیٰ نے روزے سب مسلمانوں پر فرض کیے ہ یں نہ کہ صرف چاند کو‬
‫دیکھنے والوں پر جواس خبر کے حامل ہوں ۔ اگر ہم دوسرا معنی مراد لیں کہ‬
‫اس آیۃھ مبارکسہ سسے مراد صسرف وہ شخسص ہے جسو کسسی ریاسست یسا ملک میسں‬
‫اس وقت حاضر ہوجب چاند کے دیک ھے جانے کی خبر وہاں پھیلی تو بہت سے‬
‫ایسسے حاضسر بھھی ہیسں ‘ جسن پسر روزہ واجسب نہیسں ہوتامثل ً بچسے ‘مریسض ‘حائضسہ‬
‫عورتیسں اور مسسافر جسب تسک کسہ اپنسے گھھر واپسس نسہ آجائیسں جہاں روزہ ان پسر‬
‫فرض ہے اور بہت سسے وہ بھھی جسو ماہ کسے شروع میسں روئیست کسے وقست اپنسے‬
‫ملک میں حاضر نہ ت ھے اور دوران شہر گ ھر لوٹ آئے ۔ تو یوں تجزیہ کرنے سے‬
‫اس معنسی کسا بطلن بھھی واضسح ہوگیسا۔اور اگسر تیسسرا مفہوم مراد لیسں کسہ اس‬
‫آی ۃھ مبارکسہ سسے مراد وہی شخسص ہے جسو خودچانسد دیکھھھے تسو یسہ محال ہے کسہ‬
‫کیونکہ اندھے ‘ضعیف البصر‘قیدی اور وہ لوگ جو ایسے علقوں کے ساکن ہیں‬
‫جسو پہاڑوں سسے گھرا ہوا ہے ‘ وہ چانسد نہیسں دیکسھ سسکتے جبکسہ روزے سسب پسر‬
‫فرض ہیں ۔ تو یہ مفہوم بھی باطل ٹھہرا۔‬
‫چوتھے معنی شھد کے سننا ہیں ۔ یہ مفہوم اگرچہ زیادہ فہم اور محیط ہے‬
‫مگر یہ بھی ناقص ہے ۔ کیونکہ بہرا چاند کی خبر سننے سے قاصر ہے جبکہ روزہ‬
‫تو اس پر بھی فرض ہے ۔ جو مفہوم باقی رہ گیا وہ علم ہی ہے۔ لہٰذا اس بحث‬
‫سسے اس پانچویسں مفہوم علم کسو تعیسن ہوگیسا اور علم ہی اس مسسئلہ میسں بنیاد‬
‫ٹھہرا اور حکسم صسیام اسسی سسے متعلق ہے ۔ لہٰذا جسس کسو رمضان کسے داخسل‬
‫ہونے کا علم بذریعہ خبر یا دیکھے یا سننے سے ہوگیا ۔ اس پر اس علم کی وجہ‬
‫سے روزہ فرض ہوگیا۔‬
‫امام ابسن تیمیسہ رحمسہ اللہ نسے فرمایسا اس معاملے میسں (رویست ہلل اور‬
‫دخول رمضان )صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے اور اللہ ہی صحیح کا جاننے وال‬
‫ہے اور وہ جس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بھی دللت کررہی‬
‫ہے کسہ” ‪:‬تمہارا روزہ اس دن سسے ہے جسسس دن تسسم سسسب روزہ رکھھھو اور تمہارا‬
‫افطار اس دن سسے ہے جسس دن تسم سسب افطار کرو۔ اور تمہاری قربانسی اس‬
‫دن ہے جسس دن تسم سسب قربانیاں کرو۔“ یہی کسہ اگسر کوئی شخسص شعبان کی‬
‫تیسویں رات پر شاہد(عالم) ہوجائے کہ چاند کسی جگہ وہ قریب وہ یا دور دیکھ‬
‫لیسا گیسا ہے تسسو روزہ سسسب پسسر فرض ہوجاتسسا ہے۔ (الفتاویسٰ ابسسن تیمیسہ رحمسہ اللہ‬
‫‪(107/25‬‬
‫ضابطسہ اس معاملہ میسں یہی ہوگسا کسہ وجوب کسا دارومدار علم روئیست کسے‬
‫پہنچنے پر ہے ۔ اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کے مطابق ہے‬
‫کہ روزہ چاند دیکھ کر رک ھو ۔ پس جس کو یہ اطلع پہ نچ گئی کہ چاند دیکھ لیا‬
‫گیسا ہے ‘ تسو اس کسے حسق میسں بغیسر کسسی مسسافت کسی حسد بندی کسے روزے کسا‬
‫فرض ہوجانا ثابت ہوگیا۔ (الفتاویٰ ابن تیمیہ رحمہ اللہ ‪(111/25‬‬
‫پھھر فرمایسا کسہ اس بات کسا خلصسہ یسہ ہے کسہ جسس کسو روئیت ہلل کسا علم‬
‫ایسسے وقست پہنسچ گیسا جسس سسے اس پسر روزہ رکھنسا یسا چھوڑنسا یسا عیسد یسا قربانسی‬
‫فرض ہورہی ہے توبلشک اس کے حق میں یہ فرضیت ثابت ہوچکی اور قرآن‬
‫وسنت اور آثار سلف اس بات پر دللت کررہے ہ یں ۔ (الفتاویٰ ابن تیمیہ رحمہ‬
‫اللہ ‪(111/25‬‬
‫اس موضوع پننننننر وارد ہوننننننن ے والی‬
‫احادیث‬
‫ابوہریرہ رضسی اللہ عنسہ سسے روایست ہے کسہ رسسول صسلی اللہ‬ ‫‪۱‬۔‬
‫علیہ وسلم یا کہا ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‪:‬چاند دیکھ کر روزہ‬
‫رکھھھھو اور چانسسد دیکسسھ کسسر ہی روزہ چھوڑ دو (عیسسد کرو) اور اگرتسسم پسسر بادل‬
‫چھاجائے توشعبسسا ن کسسی گنتسسی ‪30‬روزے پوری کرو۔ (بخاری ‪1909‬و مسسسلم‬
‫‪(1080‬‬
‫ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی‬ ‫‪۲‬۔‬
‫اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‪ :‬مہینہ انتیس رات کا ہے پس مت روزہ رک ھو جب تک‬
‫کسہ تسم چانسد نسہ دیکسھ لو اور اگسر تسم پسر بادل چھاجائے تسو تیسس کسی گنتسی پوری‬
‫کرو۔ (بخاری ‪2116‬مسلم ‪(1081‬‬
‫ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی علیہ الصلة والسلم‬ ‫‪۳‬۔‬
‫نے فرمایا کہ جب تم چاند دیکھ لو تو روزے رک ھو اور جب تم اسے دیکھ لو تو‬
‫افطار (عیسد) کرو ۔ اور اگسر تسم پسر بادل ہوجائے تسو تیسس روزے رکھھو۔ (بخاری‬
‫‪1909‬مسلم ‪( 1081‬‬
‫عبدالرحمسن بسن زیسد بسن الخطاب نسے لوگوں کسو شسک کسے دن میسں‬ ‫‪۴‬۔‬
‫خطبسہ دیسا اور کہا کسہ میسں نسے نبسی علیسہ الصسلة والسسلم کسے اصسحاب رضسی اللہ‬
‫عنہم کسی صسحبت اٹھائی ہے اور ان سسے اس بارے میسں سسوال کیسا تسو انہوں نسے‬
‫مجسسھ سسسے حدیسسث بیان کسسی کسسہ روزہ چانسسد دیکسسھ کسسر رکھھھھو اور اسسسی طرح‬
‫افطار(عید)چاند دیکھ کر کرو۔ اور قربانی ب ھی چاند کے حساب سے کرو۔پ ھر‬
‫اگسر بادل ہوجائیسں توتیسس کسی گنتسی پوری کرو۔ پھھر اگسر دو گواہ چانسد دیکھنسے‬
‫کی گواہی دیں تو اس کے مطابق روزہ رک ھو اور افطار (عید)کرو ۔ (النسائی‬
‫‪2116‬احمد ‪(18416‬‬
‫قیس بن طلق اپنے والد سے روایت کرتے ہ یں کہ نبی اکرم صلی‬ ‫‪۵‬۔‬
‫اللہ علیسہ وسسلم نسے فرمایسا کسہ بسے شسک اللہ تعالیسٰ نسے اس چانسد کسو لوگوں کسے‬
‫حساب کے لئے دلیل بنایا ہے ‘پس اس کے نظر آنے پر روزہ رکھھو اور اس کے‬
‫نظر آنے پر روزہ چھوڑ دو (عید کرو) اور اگر تم پر بادل ہوجائے تو گنتی پوری‬
‫کرو۔ (احمد ‪( 15859‬‬
‫لہٰذا احادیث متواترہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو خطاب کرتے‬
‫ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا ہے کہ چاند نظر آنے پر روزہ‬
‫رکھیسں اور اس کسے نظسر آنسے پسر عیسد کریسں ۔ اب سسوال یسہ پیداہوتسا ہے کسہ آیسا یسہ‬
‫خطاب صسرف صسحابہ کرام رضسی اللہ عنہم اجمعیسن کسو ہے یسا اس خطاب کسا‬
‫مخاطسب صسرف وہ مسسلم ہے جسو خود چانسد کسو دیکسھ لے ۔ یسا یسہ خطاب پوری‬
‫امست مسسلمہ کسے لئے ہے یعنسی اس کسے ہر فرد کسو محیسط ہے ۔ پسس آپ کسا یسہ‬
‫خطاب ان تیسسن حالتوں سسسے خالی نہیسسں ہے ۔ اور یسسہ جسسو اختلف مطالع والے‬
‫اصحاب اس سے چوتھھا مفہوم اخذ کرنا چاہ تے ہ یں کہ ہر سلطنت صرف اپنی‬
‫حدود کسے اندر واقسع ہونسے والی روئیتن ہلل کسی پابنسد ہے اور دوسسری کسسی‬
‫سلطنت کی روئیت اور روزہ ان کے لئے دلیل نہ یں ہے ۔ تو یہ نہ تو رسول اللہ‬
‫صسلی اللہ علیسہ وسسلم نسے فرمایسا اور نسہ ہی ان کسے اصسحاب رضسی اللہ عنہم نسے‬
‫ایسسا کہا۔ نسہ ہی اللہ کسے رسسول صسلی اللہ علیسہ وسسلم کسے عہد میسں یسہ حکومتیسں‬
‫موجود تھیں اورنہ یہ حدود جن کو کفار نے ہم پر تھوپا ہے ۔ تو باقی صرف تین‬
‫صورتیں رہ گئیں ۔‬
‫یہ کہ خطاب صرف اصحاب رضوان اللہ علیہم‬ ‫پہل احتمال‪:‬‬
‫اجمعین کے لئے ہو تو قرآن وسنت اور اجماع اس کی نفی کرتے ہ یں۔ کیونکہ‬
‫اللہ تعالیٰ نے تمام بالغ مسلمانوں پر پوری دنیا میں روزے فرض کیے ہ یں اور‬
‫انہیں اصحاب رسول رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ خاص نہیں کیا۔‬
‫یہ کہ ہر فرد پرروئیت واجب ہو یہ بھی عقل ً و‬ ‫دوسرا احتمال‪:‬‬
‫نقل ً باطل ہے ۔ جہاں تک نقل کا تعلق ہے تو غور فرمائیے‪:‬‬
‫(‪ )۱‬اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قول کہ چاند دیکھ کر روزہ‬
‫رکھھو اور اسے دیکھ کر چھوڑ دو اور اگرتم شک میں پڑ جاؤاور بادل ہوجائیں‬
‫تو تیس کی گنتی پوری کرو اور اگر دومسلمان گواہی دیں تو اس کے مطابق‬
‫روزے رکھو اور چھوڑ دو ۔ (احمد ‪( 18416‬‬
‫(‪ )۲‬ابسن عباس رضسی اللہ عنہمسا سسے روایست ہے کسہ ایسک اعرابسی نبسی‬
‫اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ میں نے چاند دیکھ لیا ہے ۔ تو‬
‫نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تو گواہی دیتاہے کہ اللہ کے سوا‬
‫کوئی الٰہ نہیسں اورمحمسد صسلی اللہ علیسہ وسسلم اس کسے رسسول ہیسں ۔تسو اس نسے‬
‫کہا ہاں ۔فرمایسا بلل لوگوں میسں اعلن کردو کسہ کسل روزہ رکھیسں ۔ (الترمذی‪:‬‬
‫‪(691‬‬
‫لہٰذا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت نے ہم پر واضح کردیا ہے‬
‫کسہ صسوموا لرؤیتسہ کسا مطلب یسہ نہیسں ہے کسہ نبسی اکرم صسلی اللہ علیسہ وسسلم امست‬
‫کسے ہر فرد کسو علیحدہ علیحدہ چانسد دیکھنسے کسا حکسم دے رہے ہیسں بلکسہ یسہ خطاب‬
‫پوری امست کسو بیسک وقست ہے ۔ جبکسہ معصسوم نبسی ایسک اعرابسی کسی گواہی پسر‬
‫اکتفاءکرتے ہوئے پوری امت کو روزے کا حکم دے رہے ہیں ۔‬
‫تیسری توجیہ‪ :‬تسو بسس تیسسرا مفہوم ہی صسحیح تریسن ہے کسہ خطاب‬
‫رسول پوری امت کے لئے ہے یہ کہ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے‬
‫جسب کوئی ایسک بھھی چانسد دیکسھ لے اور اس کسی خسبر پہنچادے تسو ہر سسننے والے‬
‫اور اس خبر کو جاننے والے پر روزہ فرض ہوجاتا ہے۔‬
‫امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الشہادات میں لکھا ہے کہ رمضان کے لئے‬
‫اس شخسص کسی شہادت جسس پسر حسد جاری کسی گئی ہو ‘ غلم اور لونڈی کسی‬
‫شہادت سب جائز ہیں۔‬
‫رمضان کے مہینے شروع کرنا روئیت ہلل کے ساتھ متعلق ہے ۔لہٰذا جب‬
‫شاہد چاند دیکھ لے روزہ فرض ہوگیا اور اس کی مخالفت کرنے وال بے سوچے‬
‫سمجھے بغیر کسی دلیل کے ایسا کررہاہے اور شریعت میں افتراق کا باعث‬
‫ہے۔‬
‫اقوال العلماء‬
‫الحناف‪:‬‬ ‫‪۱‬۔‬
‫(‪ )۱‬جصاص نے کہا اللہ کا یہ فرمان کہ فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ‬
‫یوم شک کا روزہ رکھ نے کی ممانعت پر دللت کرتا ہے ۔کیونکہ شک کرنے وال‬
‫شاہد نہیں ہوسکتا۔ اس لئے کہ وہ رو¿یت ہلل کا علم نہیں رکھتا ۔ (تو انہوں نے‬
‫الشہود کا مفہوم علم لیا) احکام القرآن ‪205/1‬‬
‫(‪ )۲‬المرغنائی ن سے ھدای سہ میسسں کہا‪ :‬جسسب آسسسمان میسسں علت (بادل یسسا‬
‫دھنسسد) ہو تسسو امام ایسسک عادل کسسی شہادت کسسو قبول کرے۔ وہ مرد ہو یسسا عورت‬
‫‘آزاد ہو یا غلم اور اس معاملہ میں اس شہر کے رہ نے والوں اور باہر سے آکر‬
‫شہادت دینے والے میں فرق نہیں کیا جائے گا۔ (ال ہدای ۃ المحققہ ‪(540/2‬‬
‫(‪ )۳‬ابسن عابدیسن نسے کہا‪ :‬ظاہر طور پسر اختلف مطالع قابسل اعتبار ہے‬
‫اور اکثر بزرگ اسی بات کے قائل ہیں اور فتویٰ بھی اسی کے مطابق ہے۔لہٰذا‬
‫اہل مشرق پر اہل مغرب کی روئیت دلیل ہے جب کہ ثابت ہوجائے کہ ان کی‬
‫روئیتنن مقررہ اصسسسول کسسسے مطابسسسق ہے۔ (الدرالمختار شرح تنویسسسر البصسسسار‬
‫المعروف بحاشیہ ابن عابدین ‪(392/2‬‬
‫(‪ )4‬فتاوی عالمگیری میسسسں ہے‪ :‬روایات کسسسے ظاہر کسسسے اعتبار سسسسے‬
‫اختلف مطالع نہیسں مانسا جائے گسا۔ اسسی طرح قاضسی خان کسے فتاوی میسں ہے‬
‫اور فقیسہ ابسی اللیسث کسا فتوی بھھی اسسی طرح ہے اور اسسی کسے مطابسق شمسس‬
‫الئمسہ الحلوانسی فتوی دیتسے تھھے ۔ فرمایسا اگسر اہل مغرب رمضان کاچانسد دیکسھ‬
‫لیں تو اہل مشرق کا روزہ فرض ہوجاتا ہے۔ اور اسی طرح الخلصہ میں بھھی‬
‫ہے ۔ (الفتاوی عالمگیریہ المعروفہ بالفتاوی الہندیہ ‪(199/1-198‬‬
‫(‪ )۵‬اور ابن عابدین نے اپنے رسالہ تنبیہ الغافل والوسنان علی احکام‬
‫ھلل رمضان میسسں فرمایسسا‪ :‬قابسسل اعتماد اور راجسسح بات ہمارے یہاں یہی ہے ک سہ‬
‫اختلف مطالع کا کوئی اعتبار نہ یں کیا جائے گا ۔ روایت کا ظاہر اسی بات کا‬
‫تقاضاکرتاہے اور اسی کے مطابق متون ہ یں ´ جس طرح الکنز وغیرہ میں ہے‬
‫اور یہی حنابلہ کسے نزدیسسک صسسحیح ہے جسسس طرح النصسساف میسسں ہے اور مذہب‬
‫مالکیسہ میسں بھھی اسسی طرح ہے اور المختصسر اور اسسکی شرح میسں بھھی جسو‬
‫شیخ عبدالباقی نے کی ہے اسی طرح ہے روزہ کے سلسلے میں خطاب عام ہے‬
‫جو تمام ملکوں کے لئے ہے اگرچہ اس کا ثبوت کسی بھی ملک سے نقل کرلیا‬
‫جائے ۔کسہ دو عادل گواہ یسا روای ۃھ مسستفیضہ ہو للعلمسہ الشیسخ کمال الدیسن بسن‬
‫الہمام نے فتح القدیر میں فرمایا کہ جب روئیت ایک شہر میں ثابت ہوجائے تو‬
‫یہ تمام شہروں کے رہنے والوں کے لیے دلیل ہوگی ۔پس اہل مشر ق کو مغرب‬
‫والوں کسی روئی ت لزم ہوگسی ۔ اور اس کسی پہلی وجسہ تسو نبسی کریسم صسلی اللہ‬
‫علیہ وسلم کے خطاب کا عموم ہے ۔ آپ کے قول میں صوموا جو آپ کاحکم‬
‫ہے آپ نسے اسسے مطلق روایست کسے سساتھ معلق فرمایا ہے ۔لہٰذا جسب کسی قوم‬
‫کسسو روئیت حاصسسل ہوگئی ۔ تسسو وہ حکسسم جسسو روئیت سسسے متعلق تھھھا یعنسسی‬
‫(صسوموا لرویتسہ) عموم الحکسم کسے طور پسر ثابست ہوگیسا اور وجوب عام حاصسل‬
‫ہوا۔ (رسائل ابن عابدین ‪(251/1‬‬
‫المالکیہ‪:‬‬ ‫‪۲‬۔‬
‫(‪ )۱‬جہاں تک امام مالک کا تعلق ہے تو ابن القاسم نے ان سے روایت‬
‫کیا ہے کہ جب کوئی اہل بلد کے نزدیک یہ بات پایہ ثبوت کو پہ نچ جائے کہ ان کے‬
‫علوہ دوسرے ملک والوں نے ان سے پہلے چاند دیکھ لیا تو ان پر اس روزہ کی‬
‫قضاءواجسب ہے جسو انہوں نسے لعلمسی کسی وجسہ سسے افطارکیسا۔ (ھدایسة المجتہد‬
‫العلمیہ المحققہ ‪(535/1‬‬
‫(‪ )۲‬الشنقیطسی نسے مواھھب الجلیسل مسن ادلۃ الجلیسل میسں فرمایسا‪ :‬امام‬
‫مالک کایسہ قول کسہ اگسر دو عادل گواہوں سسے نقسل کیسا گیسا یسا ان سسے روایست‬
‫مسستفیضہ حاصسل ہوگئی تسو حکسم عام ہوگسا۔ اس کسے بارے میسں الوزیرنسے کہا کسہ‬
‫روزہ کسا وجوب تمام ملکوں پسر عام ہوگسا۔ قریسب اور دور دونوں شکلوں میسں‬
‫حکسم ایسک ہوگسا۔ اوراس میسں مسسافت قصسر ‘اتفاق یسا اختلف مطالع کسا کوئی‬
‫لحاظ نسہ رکھھا جائے گسا۔ اور یسہ ہر اس پسر واجسب ہوگسا جسس تسک دوعادل گواہوں‬
‫سسے ثبوت نقسل ہوجائے یسا ان دو سسے روای ۃھ مسستفیضہ کسے ذریعسے علم حاصسل‬
‫ہوجائے۔ (مواہب الجلیل ‪(9/2‬‬
‫(‪ )۳‬ابن العربی رحمہ اللہ نے احکام القرآن میں فرمایا‪ :‬چھ ٹا مسئلہ‪:‬‬
‫اس میں کوئی اختلف نہیں کہ جو چاند دیکھے گا وہ روزہ رکھے گا اور جس کو‬
‫خبر پہ نچ جائے گی تو اس پر ب ھی روزہ لزم ہوگا۔ (احکام القرآن لبن العربی‬
‫‪(83/1‬‬
‫(‪ )۴‬قاضسسی ابواسسسحاق نسسے ابسسن الماجشون سسسے روایسست کیسسا ہے کسسہ‬
‫اگرروئیت بصرہ میں امر شائع اور ذائع سے پایہ ثبوت کو پہنچ گئی یہاں تک کہ‬
‫شہرت اور تعدیسل کسی ضرورت باقسی نسہ رہی تسو اس خسبر سسے بصسرہ کسے علوہ‬
‫باقسسسی ممالک پسسسر بھھھھھھی روزہ لم ہوگسسسا۔(المنتقیسسسٰ شرح الموطسسسا‪)37/2:‬‬
‫اوجزالمسسالک میسں ہے کسہ ابسن المنذر نسے کہا کسہ اکثسر فقہاءفرماتسے ہیسں کسہ جسب‬
‫لوگوں کسے بتانسے سسے یسہ معلوم ہوجائے کسہ کسسی ملک والوں نسے ان سسے پہلے‬
‫چانسد دیکسھ لیسا ہے تسو ان پسر اس روزے کسی قضاءواجسب ہوجائے گسی جسو ان سسے‬
‫چھوٹ گیا ہے ۔ اور یہ قول اصحاب الرائے اور مالک کا بھھی ہے ۔ امام شافعی‬
‫اور امام احمسسد بھھھھی اسسسی طرف گئے ہیسسں ۔ القرطبسسی نسسے کہا ہمارے شیوخ‬
‫فرماتسے ہیسں کسہ جسب روئیتن ہلل کسسی موضسع میسں قطعسی طور پسر واقسع‬
‫ہوجائے پھھر دوگواہوں کسے ذریعسے دوسسروں تسک نقسل کردی جائے تسو ان پسر بھھی‬
‫روزہ لزم ہوگیسا۔اس سسے معلوم ہوا کسہ ائمسہ ثلثسہ سسے قابسل اعتماد طور پسر یہی‬
‫ملتسا ہے کسہ وہ اختلف مطالع کسا اعتبار نسہ کرنسے پسر متفسق ہیسں۔ (اوجسز المسسالک‬
‫‪(12/5-11‬‬
‫حنابلہ‪:‬‬ ‫‪۳‬۔‬
‫(‪ )۱‬ابن قدامہ المقدسی نے المغنی میں فرمایا‪ :‬جب ایک ملک والے‬
‫چانسد دیکھ لیں تو تمام ممالک کے مسلمانوں پر روزہ لزم ہوجاتا ہے ۔ اوریہی‬
‫اللیث اور امام شافعی کے بعض اصحاب کا قول ہے ۔پھھر اس وقول پر دلیل‬
‫لتسے ہوئے کہتسے ہیسں اور ہمارے لئے یعنسی حنابلہ کسی رائے کسی دلیسل کسے طور پسر‬
‫صم ُہ )کسہ جسو کوئی‬ ‫م ال َّ‬
‫شہَر فَلی َس ُ‬ ‫منک ُس ُ‬
‫ش ِہد َ ِ‬ ‫اللہ تعالیسٰ کسا یسہ قول موجود ہے‪(:‬فَس َ‬
‫من َ‬
‫تسم میسں سسے رمضان پسر شاہد ہوجائے پسس وہ اس کسے روزے رکھھھے۔ اور تمام‬
‫مسسلمین ماہ رمضان کسے روزے رکھنسے کسی فرضیست پسر جمسع ہیسں اور یسہ بات‬
‫ثابست شدہ ہے کسہ رمضان کسے داخسل ہونسے کسا یسہ دن ثقسہ راویوں کسی گواہی سسے‬
‫تمام مسسلمانوں پسر فرض کرنسے کسا باعسث ہے کیونکسہ رمضان کسا ماہ دوچانسد کسے‬
‫درمیان ہی تسو ہے ۔ اور یسہ ثابست ہوچکسا ہے کسہ شریعست مطہرہ کسے تمام احکامات‬
‫جیسے قرضہ کی ادائیگی کی مدت کا پورا ہونا ‘طلق کا مدت پوری ہونے پر‬
‫واقع ہوجانا‘غلم کے آزاد ہونے کا وقت پورا ہوجانا‘نذر کے پورے ہونے کا وقت‬
‫آنسا اور اسسی طرح کسے دوسسرے شرعسی احکام میسں سسے روزہ بھھی ہے جسو اپنسے‬
‫خاص وقست کسے داخسل ہونسے پسر ہی فرض ہوتسا ہے جسب کھلی دلیسل کسے طور پسر‬
‫سسچی روایست سسے چانسد دیکھنسے کسی تصسدیق ہوجائے تسو روزہ واجسب ہوگیسا اور‬
‫اس کی فرضیست نص اوراجماع سسے ثابست ہے خواہ ملک قریب قریسب ہوں اور‬
‫جہاں تک کریب والی حدیث کا تعلق ہے تو وہ اس بات پر دللت کررہی ہے کہ‬
‫وہ لوگ (ابسسن عباس رضسسی اللہ عنہمسسا اور ان ک سے سسساتھی ) اکیلے کریسسب کسسی‬
‫روایت پر عید کرنے کو درست نہ جانتے تھے۔)المغنی ‪(10/3‬‬
‫(‪ )۲‬النصسساف میسسں کہا کسسہ المام علءالدیسسن المرداوی اختلف کسسی‬
‫صسورت میسں راحسج معلوم کرنسا کسے عنوان کسے تحست رقمطراز ہیسں ‪:‬اگسر ایسک‬
‫علقسے والے چانسد دیکسھ لیسں تسو سسب لوگوں پسر روزہ رکھنسا فرض ہوجاتسا ہے ۔‬
‫یعنی اس پر جس نے دیکھا ہو اس پر بھی جس نے نہ دیکھا ہو۔ اور اگر مطالع‬
‫متفسق ہیسں تسو بھھی لزم ہوجاتسا ہے اور اگسر مطالع مختلف ہیسں تسو صسحیح مذہب‬
‫یہی ہے کہ روزہ واجب ہوجاتاہے۔ یونہی انہوں نے الفروع الفائق اور الرعای ۃ میں‬
‫کہا اور الفائق میسں فرمایسا کسہ ایسک ملک میسں چانسد نظسر آجانسا تمام مسسلمانوں‬
‫کے لئے جس پر روزہ رکھنا فرض ہے دلیل ہے۔ (النصاف ‪(372/3:‬‬
‫(‪ )۳‬اور حاشیہ الروض المربع شرح زاد المستنقع میں ہے کہ جب ایک‬
‫ملک میں روی ۃ ہلل ثابت ہوجائے تو تمام لوگوں پر روزہ فرض ہوجاتا ہے ۔ اور‬
‫یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے مطابق ہے کہ چاند دیکھ‬
‫کر روزہ رکھھو اور چاند دیکھ کر عید کرو جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ‬
‫وسسلم کسا خطاب پوری امست کسو ہے ۔ الوزیسر فرماتسے ہیسں کسہ فقہاءاس بات پسر‬
‫متفسق ہیسں کسہ جسب چانسد کھلم کھل دیکسھ لیسا جائے تسو تمام دنیسا والوں پسر روزہ‬
‫فرض ہوجاتا ہے ۔ (حاشیہ الروض المربع ‪(357/3‬‬
‫(‪ )۴‬اور المبدع شرح المقنسسع میسسں ہے‪ :‬جسسب چانسسد دیک سھ لیسسا جائے تسسو‬
‫عموم کسے طور پسر سسب لوگوں پسر روزہ فرض ہوجاتسا ہے ۔ اور امام احمسد نسے‬
‫فرمایا کہ زوال دنیا میں ایک ہی ہے ۔ (المبدع ‪(۳۷‬‬
‫(‪ )۵‬اور ابن القدامہ نے المقنع میں فرمایا‪ :‬جب کسی ملک والے چاند‬
‫دیکھ لیں تو تمام لوگوں پر روزہ رکھ نا لم ہوجاتا ہے اور رمضان کے چاند میں‬
‫ایک عادل گواہ کی شہادت قبول کی جائے گی ۔ (‪(۱۷۵۳‬‬
‫(‪ )۶‬اور شمسس الدیسن المقدسسی الفروع میسں فرماتسے ہیسں‪ :‬اگسر چانسد‬
‫کی روئیت قریب یا دور کسی ایک جگہ بھھی پایہ ثبوت کو پہ نچ جائے تو تمام‬
‫ممالک المسلمین کے لوگوں پر روزہ فرض ہوجاتا ہے ۔ اور جس نے چاند دیکھا‬
‫اور وہ جسس نسے چانسد نہیسں دیکھ ھا سسب کسا حکسم برابر ہے ۔ اگرچسہ مطالع کسا‬
‫اختلف کیوں ن سہ ہو ۔ اور اس کسسو اصسسل قرار دیسسا فقہاءکسسی ایسسک جماعسست ن سے‬
‫وجوب کسے عام ہونسے کسا ذکسر کیسا ہے اور القاضسی اور اصسحاب ‘صساحب المغنسی‬
‫اور صساحب المحررنسے روزہ کسو باقسی تمام احکام شریعسہ کسی طرح ایسک حکسم‬
‫ہونسے کسی وجسہ سسے (جسو وقست کسے تعیسن کسے سساتھ متعلق ہومثل طلق دینسا ‘دیسن‬
‫عتاق وغیرہ ) باقسسی تمام احکام کسسی طرح ثابسست کرنسسے اور حکسسم لگانسسے کسسو‬
‫درست قرار دیا ہے۔ (الفروع ‪(۳۲۱‬‬
‫دیگر فقہاءکی رائے‪:‬‬
‫ابن المنذر نے کہاکہ جب کسی ملک کے رہ نے والوں کے نزدیک یہ‬ ‫‪۱‬۔‬
‫خبر پایہ ثبوت کو پہ نچ جائے کہ کسی دوسرے ملک والوں نے ان سے پہلے چاند‬
‫دیکھ لیا تھا تو ان پر اس روزے کی قضاءواجب ہے جو انہوں نے چھوڑا اصحاب‬
‫الرائے اور امام مالک نسسے یونہی کہا ہے اور امام شافعسسی اور امام احمسسد بھھھی‬
‫اسی کے حق میں ہیں۔ (معالم السنن ‪(۲۴۸‬‬
‫بہاالدیسن ابسن شداد نسے کہا‪ :‬اکثسر فقہاءفرماتسے ہیسں جسب یسہ ثابست‬ ‫‪۲‬۔‬
‫ہوجائے کہ کسی ایک ملک کے لوگوں نے ان سے پہلے چاند دیکھ لیا ہے تو ان پر‬
‫اس روزے کی قضاءہے جو انہوں نے چھوڑا ہے یہی امام شافعی امام احمد بن‬
‫حنبل اور اصحاب کا قول ہے۔ (دلئل الحکام ‪(۱۹۹۵‬‬
‫حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ‪:‬جوکوئی کئی ایک مطالع کی بات کرتا‬ ‫‪۳‬۔‬
‫ہے تسو اسسے مناسسک میسں اس صسورت سسے پال پڑے گسا جسس کسا دیسن کسے خلف‬
‫ہونسا معلوم (واضسح )ہے۔ (الفتاویسٰ ‪ )۵۲۳۱۱‬اور فرمایسا فقہاءکسی غالب اکثریست‬
‫کا اس بات پر اجماع ہے کہ جب دوگواہ چاند دیکھ چکے ہوں پھر بھی نبی صلی‬
‫اللہ علیسسہ وسسسلم نسسے اس کسسے مطابسسق حکسسم نسسہ لگایسسا ہو۔ایسسسا موجود نہیسسں‬
‫ہے۔(الفتاویسٰ ‪)۵۲۴۸۱‬پھھر کہا کسہ کوئی شخسص کسسی حکسم کسے واجسب ہونسے کسا‬
‫علم پہنچنے کے بعد ہی اس حکم کا مکلف ٹھہرتا ہے۔(الفتاویٰ ‪(۲۵۹۰۱:‬‬
‫الشوکانسی ‪:‬یسہ بات نبسی صسلی اللہ علیسہ وسسلم کسے ہاں طسے شدہ ہے‬ ‫‪۴‬۔‬
‫اور بخاری و مسسلم میسں نقسل ہوچکسی کسہ تسم چانسد دیکھھے بغیسر نسہ تسو روزہ رکھھو‬
‫اور نسہ ہی عیسد کرو اور اگسر تسم پسر بادل ہوجائیسں تسو تیسس کسی گنتسی پوری کرو‬
‫اور یہ خطاب زمین کے کسی خاص حصہ میں رہنے والوں کے لئے نہیں بلکہ ہر ا‬
‫س مسلم کے لئے ہے جس پر روزہ فرض ہو ۔ تو اس ایک حکم سے ایک ملک‬
‫کے چاند دیکھ نے والوں کی وجہ سے دوسرے ملک کے رہ نے والوں پر روزہ کی‬
‫فرضیت پر استدلل کرنا کہ دوسروں پر بھھی فرض ہوگیا ہے بنسبت اس کے‬
‫کسہ دوسسروں کسے لئے یسہ گواہی غیسر مؤثسر ہے بہت واضسح ہے کیونکسہ جسب کسسی‬
‫ملک والوں نے چاند دیکھ لیا تو ان سب مسلمانوں نے دیکھ لیا سو جو دیکھنے‬
‫والوں پر لزم ہوا تھا وہ دوسروں پر بھی واجبب ہوگیا۔ (نیل الوطار‪4452:‬‬
‫اور کہا کہ ہم نے پہلے بیان کیا کہ ایک آدمی کے خبر دینے سے اس حکم‬
‫پسر عمسل واجسب ہوجاتسا ہے اور یسہ کسہ جسب یسہ خسبر دینسے وال عادل ہو جسس کسی‬
‫شہادت قبول کسی جاتسی ہے تسو حکسم تمام مسسلمین پسر فرض ہوجاتسا ہے ۔ ہاں یسہ‬
‫کسہ جسس نسے چانسد دیکھھا ہو اسسے دوسسروں کسی نسسبت انفرادی طورپسر اپنسی‬
‫آنکھوں سے دیکھ لینے کی وجہ سے علم یقین حاصل ہوگیا ہے۔ (السیل الجرار‪:‬‬
‫‪(۲۴۴۱‬‬
‫(‪ )۵‬نواب صسدیق حسسن خان نسے الروضسہ الندی ۃ میسں کہا‪:‬کسہ جسب ایسک‬
‫ملک والے چانسد دیکسھ لیسں تسو تمام ملکوں پسر ان کسی موافقست لزمسی ہے ۔ اس‬
‫حکم میں احادیث صراحت کے ساتھ روزہ اور عیدکو چاند دیکھ نے پر موقوف‬
‫کررہی ہیں اور یہ خطاب بھی پوری امت کو ہے اس امت میں سے جب کسی‬
‫ایسک نسے ایسک مقام پسر چانسد دیکسھ لیسا تسو گویسا سسب مسسلمانوں نسے دیکسھ لیسا۔‬
‫(الروضہ الندی ۃ شرح الدررالب ہی ۃ‪(۱۱۳۲:‬‬
‫(‪ )۴‬اور الدررالسسنیہ میسں ہے کسہ جسس کسسی گاؤں کسے رہنسے والوں کسو‬
‫چانسد نظسر آجائے خواہ صسرف ایسک آدمسی چانسد دیکھنسے وال ہویسا ایسک شہر والے‬
‫دیکسھ لیسں جسب کسہ دوسسرے شہر والوں کسو دکھائی نسہ دے تسو روزہ سسب پسر لزم‬
‫ہوگیسا اور جسس نسے روزہ نہیسں رکھھا اس پسر قضاءفرض ہے اور کہنسے والے کسی یسہ‬
‫بات کسہ ہر ملک والوں کسے لئے اپنسی روئیتن ہے صسحیح بات نہیسں ہے اور نسہ ہی‬
‫اس پر امت کا عمل رہا ہے اور نہ ہم نے اسے احادیث کی کتب میں دیکھا ہے ۔‬
‫تسو کیسا قول رسسول صسلی اللہ علیسہ وسسلم کسی مخالفست کرنسے والے کسے لئے اللہ‬
‫سے ڈر جانے کا موقع نہیں ہے۔ (الدررالسنیہ ‪(۵۷۰۳:‬‬
‫(‪ )۷‬الشیسخ المصسطفیٰ السسیوطی ‪ :‬فرمایسا رمضان کسے چانسد کسے بارے‬
‫میں ایک بالغ عادل کی گواہی قبول کی جانی چاہئے ‘خواہ غلم ہو یا عورت ہو‬
‫یا گواہی ان الفاظ سے ب ھی نہ ہو جو گواہی کے لئے مطلوب ہ یں اگرچہ دیکھ نے‬
‫والایسک جماعست کسے سساتھ ہو اور اس اکیلے نسے دیکھھا ہواور جماعست میسں سسے‬
‫کسسی اور کسو نظسر نسہ آیسا ہو۔ اور اس گواہی کسے ثابست ہونسے کسے لئے حاکسم کسے‬
‫اسے قبول کرنے کی شرط نہ یں ہے ۔ پس جس نے ایک عادل کے چاند دیکھ نے‬
‫کسی خسبر سسن لی اس پسر روزہ فرض ہوگیسا خواہ حاکسم نسے اس خسبر کسو رد ّ ہی‬
‫کردیا ہو ۔ (مطالب اولی النہی فی شرط غای ۃ المنتہی‪۲۳۷۱:‬۔‪(۴۷۱‬‬
‫(‪ )۸‬الشیسخ عبدالرحمسن السعدی‪ :‬پوچھھا گیا کیسا تار وغیرہ کی خسبر پسر‬
‫روزہ اور عیسد پسر عمسل کیسا جائے گا تسو جواب دیسا ‪ :‬اس میسں شسک کسی گنجائش‬
‫نہیسں کسہ ہر اہم معاملہ جسس کسے اعلن ‘شہرت اور خسبر دیئے جانسے کسی حاجست‬
‫عمومسی بھھی ہو اور فوری بھھی تسو اس کسے لئے ایسسے طریقسے اختیار کئے جاتسے‬
‫ہ یں تاکہ یہ مقصد حاصل ہوسکے ۔ اور لوگ ہمیشہ ان طریقوں سے جو جلدی‬
‫سے جلدی خبرکو پھیلنے اور عام کرنے والے ہوں دنیاوی امور میں اس قسم‬
‫کسے کاموں میسں جہاں ایسسی ضرورت ہو فائدہ حاصسل کرتسے آئے ہیسں ۔لہٰذا جسب‬
‫کبھھی بھھی لوگوں کسو پہلے کسی نسسبت اچھھا اور کسم وقست میسں مقصسد حاصسل‬
‫کرنسے والہ نیسا وسسیلہ میسسرآیا تسو وہ اس کسی طرف لپکسے اور اس قسسم کسے‬
‫کاموں میسں یوں تیزی سسے خبر کسا پھیلنا عمومسی فائدہ کاباعسث ہے ۔ بلکسہ ایسک‬
‫فرض سے لوگوں کے عہدہ براء ہونے کا ذریعہ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے‬
‫اپنسی اس امست کسو اس شعبسہ اور اس قسسم کسے کاموں میسں ایسسا ہی کرنسے پسر‬
‫اقرار کروایا ہے ۔ اور اس پر نصوص اور اصول الشریعہ دللت کرتے ہ یں ۔ کہ‬
‫ہر وہ کام جسسس میسسں لوگوں کسسے لئے ان کسسے دیسسن میسسں نفسسع ہو اور انصسساف‬
‫‘سچائی اور صحیح خبر اس پر دللت کرے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‬
‫ہر ایسے کام کا اقرار کرتے ہ یں ۔ اسے قبول کرتے ہ یں اور ا س مصلحت کے‬
‫پیسش نظسر جسو اس کام سسے حاصسل ہورہی ہو کبھھی اس کسا حکسم دیتسے ہیسں اور‬
‫کبھھی اسسے جائز قرار دیتسے ہیسں ۔پسس رسسول اللہ صسلی اللہ علیسہ وسسلم صسحیح‬
‫خبر کو کبھھی رد ّ نہ یں کرتے خواہ وہ کسی بھھی طریقے سے آپ صلی اللہ علیہ‬
‫وسسلم تسک پہنچسے اور نسہ ہی انصساف اور سسچائی کسی کبھھی بھھی نفسی کرتسے ہیسں‬
‫خواہ وہ کسی بھھی ذریعے اور دلیل کے ساتھ ان کے سامنے آئے ۔ اورخاص کر‬
‫جسب یسہ ایسک پھیلی ہوئی خسبر ہو اور مختلف قسسم کسے امور اس کسی تائیسد میسں‬
‫ہوں پس اس اصول عظیم کو لزم پکڑ کیوں کہ اس کا فائدہ بہت سے مسائل‬
‫میسں ہے اور اگسر تسو اس اصسول کسو سسمجھ گیسا تسو یسہ تجھھھے کئی ایسک جداجدا‬
‫معاملت اور کسی پیش آمد واقعہ کی جزئیات میں شریعت کے مطابق حکم‬
‫لگانے کا اہل بنادے گا۔اور یہ واقعات تو ہمیشہ یونہی پیش آتے ہی رہیں گے مگر‬
‫تیرا فہم دین ایسا قاصر نہ ہوگا کہ توبہت سی بھلئی کو کھو بیٹھے بلکہ ہوسکتا‬
‫ہے (اس اصسول کسو نسہ سسمجھنے کسی وجسہ سسے )تسو بہت سسی چیزوں کسو بدعست‬
‫خیال کسر بیٹھھے اور ایسسا نسہ ہو کسہ جسب کوئی حادثسہ پیسش آئے اور تسو رسسول اللہ‬
‫صسلی اللہ علیسہ وسسلم کسے کلم میسں اس کسی تصسریح موجود نسہ پاکسر شریعست‬
‫‘عقل و فطرت کی مخالفت کا مرتکب ہوجائے۔ (الفتاوی السعدیة‪(۳۳۲:‬‬

‫روئیتنن ہلل کسسے سسسلسلے میسسں دور حاضسسر میسسں منعقسسد ہونسسے والی فقہی‬
‫کانفرنسیں‬
‫قاہرہ میسں ‪1391‬ھ میسں منعقسد ہونسے والی پہلی کانفرنسس‬ ‫‪۱‬۔‬
‫لجمسع البحوث السسلمیہ نسے ایسک قرارداد پیسش کسی جسس کسی کئی ایسک شقوں‬
‫میں سے ایک یہ ہے‪ :‬کانفرنسسس ک سے شرکاءکسسی رائے میسسں اختلف مطالع قابسسل‬
‫اعتبار نہ یں اگر سلطنتیں ایک دوسرے سے دور بھھی ہوں مگر چاند کے اعتبار‬
‫سے وہ مشترک ہوں یعنی رات کے کسی نہ کسی حصہ میں ان کا علقہ شامل‬
‫ہو تسو حکسم ایسک ہی ہوگسا۔(مجلة الشریعسہ والدراسسات السسلمیہ السسنہ السسادسہ‬
‫العدد ‪13‬ص ‪(408‬‬
‫مجمسع الفقسہ السسلمی کسی پہلی کانفرنسس میسں جسس کسا انعقاد‬ ‫‪۲‬۔‬
‫‪1406‬ھ میسسں جدہ میسسں ہوا جبکسسہ اس کسسی فقہی بحثوں کسسی تکمیسسل اس کسسا‬
‫نفرنسس کسی دوسسری مجلس میسں ہوئی جسو ‪1407‬ھ میسں عمان میسں منعقسد‬
‫ہوئی ۔ کانفرنسسس نسسے اس میسسں شامسسل ارکان کسسے پیسسش کردہ مضامیسسن اور‬
‫روئیتن کسے معاملے میسں ماہریسن کسے خیالت غور سسے سسننے کسے مندرجسہ ذیسل‬
‫قراردات پیش کی ۔‬
‫جسب کسسی ملک میسں روئیتن ثابست ہوجائے تسو مسسلمانوں‬ ‫‪۱‬۔‬
‫پسسر اس کسے مطابسسق حکسسم فرض ہوجاتسسا ہے اوراختلف مطالع کسسا کوئی اعتبار‬
‫نہ یں کیا جائے گا۔ کیونکہ حکم رسول صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے لئے‬
‫روزے اور عیسسسد میسسسں حکسسسم عام ہے۔ (مجلہ مجمسسسع الفقسسسہ السسسسلمی العدد‬
‫الجزءالثانی ص ‪(1033‬‬
‫جہاں تک مخالفین کا تعلق ہے ان کے دوگروہ ہیں‪:‬‬
‫ایسک قسسم تسو بعسض شافعیوں کسی ہے جسو مندرجسہ ذیسل حدیسث کریسب کسا‬
‫سسہارا لئے ہوئے ہیسں۔ (کریسب رحمسہ اللہ سسے روایست ہے۔ مجھھے ام الفضسل بنست‬
‫حارث نسے معاویسہ رضسی اللہ عنسہ کسی طرف شام کسسی کام کسے لئے بھیجسا ۔شام‬
‫پہنسچ کسر میسں نسے ان کسا کام کردیسا اسسی دوران وہاں رمضان شروع ہوگیسا میسں‬
‫نسے وہاں چانسد جمعسہ کسی رات کسو دیکھھا تھھا جسب میسں مدینسہ واپسس آیسا تسو مہینسہ‬
‫اخیسر ہوچکسا تھھا ۔ عبداللہ بسن عباس رضسی اللہ عنہمسا مجسھ سسے ملے حال احوال‬
‫پوچھنے کے بعد چاند کا ذکر کیا اور پوچھا تم نے چاند کب دیکھا میں نے کہا ہم‬
‫نے جمعہ کی رات کو دیکھا تو فرمانے لگے کیا تم نے خود دیکھا میں نے جواب‬
‫دیسا میسں نسے خود دیکھھا اور لوگوں نسے اور معاویسہ رضسی اللہ عنسہ نسے روزہ رکھھا۔‬
‫فرمانے لگے ہم نے تو ہفتہ کی رات کو دیکھا اور ہم تو روزے رکھتے چلے جائیں‬
‫گے یہاں تک کہ ہم خود چاند(عید)دیکھ لیں یا پھھر ‪ 30‬کی گنتی پوری کرلیں ۔‬
‫میسں کہا کیسا آپ کسو معاویسہ رضسی اللہ عنسہ کسی روئیتن کافسی نہیسں ہے ۔ فرمانسے‬
‫لگے نہیں اور یونہی ہمیں اللہ کے رسول نے حکم دیا ہے) [مسلم‪[۷۸۰۱:‬‬
‫دوسسری قسسم مخالفیسن ان لوگوں سسے تعلق رکھتسی ہے جسو اپنسے ملک‬
‫کسی سسسیاسی فضاءکسسی موافقسست کرتسے ہیسسں ۔ اور ان کسے ملک کسسی سسسیاسی‬
‫فضاءان کسا اولیسن مسسئلہ ہے اور آج کسی سسیاست مسسلمانوں میسں تفریسق پیدا‬
‫کرنسے اور اسسلم سسے جنسگ کرنسے کسے سسوا اور ہے کیسا؟یسہ لوگ بہت بڑے خطرے‬
‫سسے دوچار ہیسں کیونکسہ یسہ اہل سسنت کسے خلف طریقسے پسر گامزن ہیسں اور اپنسی‬
‫خواہشات اور کفسر وضللت کسی وجسہ سسے مرتسد حکام کسی پیروی کررہے ہیسں ۔‬
‫جیسسے پہلے بھھی بیان کیسا جاچکسا ہے ۔یسہ لوگ انتہائی خطرناک حالت میسں ہیسں‬
‫اوران کا دین انتہائی غیر محفوظ ہے ۔‬
‫جہاں تسک مخالفیسن کسے پہلے گروہ کسا تعلق ہے تسو ہم اس کسی دلیسل کسا‬
‫ضعسف ‘اس کسی علمائے امست کسے فہم کسی مخالفست اور اس گروہ کسے موقسف‬
‫میں تناقض کا بیان کریں گے۔‬
‫تناقسض روضسة الطالبیسن میسں امام نووی رحمسہ اللہ نسے فرمایسا۔اگسر‬ ‫‪۱‬۔‬
‫چاند ایک ملک میں دیکھ لیا گیا ہے جب کہ دوسرے میں وہ نظر نہ یں آیا تو اگر‬
‫ملک باہم قریب ہیں تو حکم ایک ہی ہوگا اور اگر ایک دوسرے سے دور ہیں تو‬
‫حکسم کسی دوصسورتیں ہوں گسی ان دومیسں سسے صسحیح یہی ہے کسہ ایسک ملک کسے‬
‫دیکھنسے کسی وجسہ سسے دوسسرے پسر صسوم واجسب نسہ ہوگسا ۔ اور فاصسلے کسے معاملے‬
‫میسسسں تیسسسن ضابطسسسے شمار کئے گئے ہیسسسں ۔ پہل جسسسس کسسسے مطابسسسق عراقسسسی‬
‫فقہاءالصسیدلنی اور دوسسروں کسی رائے ہے وہ یسہ کسہ اگسر مطالع کسا اختلف مانسا‬
‫جائے تسو ملک الحجاز ‘عراق اور خراسسان ایسک دوسسرے سسے بعیسد میسں شمار‬
‫ہوں گسے ‘اور اگسر ایسک ہی المطلع قرار دینسا ہوتسو ملک بغداد ‘الکوفسہ ‘الری اور‬
‫قزویسن باہم قریسب شمار ہوں گسے۔ دوسسرا طریقسہ یسہ ہے کسہ مطلع سسلطنت کسی‬
‫بنیاد پر ہوگا ایک متحد سلطنت کے لئے ایک اور مختلف کے لئے اختلف مطالع‬
‫اور تیسسری بات یسہ ہے کسہ بعسد وہ فاصسلہ شمار ہوگسا جسس پسر قصسر نماز پڑھھی‬
‫جاسکتی ہے اور اسی کے مطابق امام الحرمین ‘الغزالی اور صاحب التہذیب‬
‫نسے کہا ہے اور المام نسے تسو اس پسر اتفاق کسا دعویسٰ کیسا ہے ۔ (رو ض ۃ الطالبیسن‬
‫‪)2348‬اور شرح المہذب میسں فرمایسا‪:‬تیسسری رائے یسہ ہے کسہ ب ُسعد وہ فاصسلہ ہے ۔‬
‫جس پر نماز قصر کی جائے اور اس سے کم قریب میں شمار ہوگا۔ اور اس‬
‫کسسی مطابقسست الفوارانسسی امام الحرمیسسن ‘الغزالی ‘والبغوی اور دوسسسرے کئی‬
‫خراسانی علماءنے کی ہے اور امام الحرمین نے اس پر اتفاق کا دعویٰ کیا ہے‬
‫کیونکہ اختلف مطالع ستاروں کے حساب کتاب کے جاننے والوں کی محتاجی‬
‫کسی طرف لے جاتسا ہے جبکسہ شریعست مطہرہ کسے قواعسد اس علم نجوم کسا انکار‬
‫کرتے ہ یں ۔ تو اس حال میں مساف ۃ قصرکو ضابطہ قرار دینا ضروری ہوجاتا‬
‫ہے ۔ (المجموع شرح المہذب ‪(26‬‬
‫ابسن حجسر عسسقلنی فرماتسے ہیسں ‪ :‬ب ُسعد کسا تعیسن کسے کسے لئے ضوابسط ہیسں‬
‫جسن میسں دوسسرا ضابطسہ یسہ ہے کسہ ب ُسعد مسئلۃھ قصسر (جسس فاصسلہ پسر نماز قصسر‬
‫کرنسا جائز ہے)شمار ہوگسی اس کسی مطابقست المام (امام حرمیسن) اور البغوی‬
‫نسے کسی ہے الرافسع نسے الصسغیر میسں اور امام نووی نسے شرح مسسلم میسں اسسے‬
‫صحیح کہا ہے ۔ اور تیسرا ضابطہ ایک سلطنت کو ایک المطلع ماننا ہے ۔ (فتح‬
‫الباری ‪ )4155‬لہٰذا اختلف کسا انحصسار ان کسے نزدیسک دوضابطوں پسر ہے ۔پہل‬
‫ضابطسہ سسلطنت کسی بنیاد پسر مطالع کسو جدا جدا سسمجھنا ہے۔تسو اس قول کسا‬
‫بودا پن واضح ہے کیونکہ حدود سلطنت کوئی ٹھوس چیز نہ یں ہے ۔ مثل ً الکوفہ‬
‫عہد اموی میں وہ نہ تھھا ۔ جو عہد عباسی میں تھھا۔ اور آج کا خراسان وہ نہ یں‬
‫جسو مامون کسے وقست میسں تھھا ۔ اسسی طرح سسجستان عہد اموی میسں وہ نسہ تھھا‬
‫جسو عہد عباسسی میسں تھ ھا اور آج نسہ دور اموی وال ہے اور نسہ عباسسی وال ہے ۔‬
‫ایسے ہی شام قدیم دور میں سوریا ‘الردن ‘فلسطین ‘لبنان ‘عراق کے کچھ‬
‫حصسے اور ترکسی کسے کچسھ حصسے پسر مشتمسل تھھا۔تسو جسو ملک اس وقست ایسک‬
‫مطلع تھھا آج چسھ مطالع بسن گیسا ۔ سسیاسی مدوجزر سسے سسلطنتوں کسی حدود‬
‫میسں تبدیلیاں واقسع ہوتسی رہتسی ہیسں پھرکئی ایسک نئی سسلطنتیں منصسہ شہود پسر‬
‫ابھرتسی ہیسں جبکسہ کئی ایسک کسا وجود اس دنیسا سسے مسٹ جاتسا ہے اور اسسی طرح‬
‫سسے جدیسد حدود کسا قیام وجود پذیسر ہوتسا ہے ۔اللہ کسی پناہ کسے احکام شریعست‬
‫کادارومدار سسیاسی خود سساختہ حدود اور ایسسی غیسر مسستقل بنیادوں پسر ہو۔‬
‫اگسر وہ اختلف مطالع کسی بنیاد طول بلد پسر رکھتسے تسو ان کسی بات غلط ہونسے‬
‫کسے باوجود قابسل بحسث وتکرار تسو تھھی مگسر یسہ حدود سسلطنت کسو بنیاد بنانسا تسو‬
‫بالکسل عقسل و شرع اور منطسق سسے خالی ہے ۔اور جہاں تسک اختلف مطالع کسو‬
‫مسسافہ قصسر کسا پابنسد کرنسا ہے تسو اس جیسسا بودا ناقابسل عمسل قول میسں نسے‬
‫فقہاءکسے یہاں نہیسں دیکھھا اّل یسہ کسہ شیعسہ کسی کتسب میسں ایسسی چیزیسں ہوں۔ اگسر‬
‫پہلی بنیاد سلطنت کو لیا جائے تو دوسرے اصول کے مطابق مسئل ۃ سفر کو‬
‫بُعد قرار دیتے ہوئے ایک سلطنت میں ساٹھ تک مطالع بھی ہوسکتے ہیں ۔مثال‬
‫کے طور ر پرانے زمانے میں خراسان کی سلطنت جن علقوں پر محیط ت ھی‬
‫آج وہ یسہ ہیسں (ایران ‘افغانسستان کسا شمالی حصسہ ‘پاکسستان کسے کچسھ شمالی‬
‫حصسے سسے لے کسر کشمیسر تسک)یسہ قریبا ً ‪3500‬کلومیٹسر ہوتسا ہے ۔اور اگسر مسئل ۃ‬
‫قصسر جسسے کہا جاتسا ہے وہ ‪ 4‬برد (‪70‬کلومیٹسر)ہو تسو خراسسان جیسسے قدیمسی‬
‫میسسں پچاس مطالع ہلل ہوں گ سے۔ اور آج ک سے جزیرة العرب کولے لیسسں تسسو یہی‬
‫حال اس کسا بھھی ہوگسا جسب ک مسسافت قصسر کوئی اتفاقسی چیسز نہیسں ہے بلکسہ‬
‫اس میسسں بہت اختلف ہے اور کوئی نسسص ایسسسی نہیسسں جسسو اسسسے کسسسی ایسسک‬
‫ضابطسے میسں جکڑدے ۔ ‪4‬فرسسخ سسے لے کسر ‪4‬برد تسک کہنسے والے علماءموجود‬
‫ہیسں یہاں تسک کسہ یسہ بھھی کہا گیسا ہے کسہ اپنسے علقسے کی حدود کسو چھوڑ جانسے سسے‬
‫آدمی مسافر ہوجاتا ہے ۔ یہ قول فقہاءکو چھوڑ کرایک عقل والے کو ب ھی زیب‬
‫نہیسں دیتسا ۔ یسہ قول تسو بالکسل اس کسے رسسول پسر باطسل بات لگانسا اور دلیسل سسے‬
‫ہٹ کسسر کلم کرنسسا ہے۔بلکسہ اس معاملے میسسں حکسسم کسسو جسسس بنیاد پسسر اللہ کسے‬
‫رسول نے قائم فرمایا وہ چاند دیکھنا ہے اور نہ یہ کہ ہر مسافت قصر والوں کے‬
‫لئے علیحدہ روئیت ہوگی اور نہ ہی یہ فرمایا کہ ہر سیاسی سلطنت و ادارہ کے‬
‫لئے اپنسی اپنسی روئی ت ہوگسی۔اللہ کارسسول صسلی اللہ علیسہ وسسلم اس سسے بری‬
‫ہے کہ وہ خواہشات کی پیروی کرے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی محمدصلی اللہ‬
‫علیہ وسلم سے فرمایا‪:‬‬
‫َ‬ ‫ّ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫ﷲ ہُوَ‬
‫ن ہُدَی ا ِ‬‫َ‬ ‫مل َہتُسم ط قُ سل ا ِ س ّ‬ ‫حت ی تَت ّب ِ سعَ ِ‬
‫الیُسود ُ وَ لالن ّ سصٰرٰ ی َّٰ‬ ‫وَ لَن تَرضٰ ی عَنک سَ َہ‬
‫َ‬
‫من‬ ‫م نَس اﷲِ ِس‬ ‫ما ل َسکَ ِ‬ ‫م نَس العِلمس ِ ل َس‬ ‫جآءَک َس ِ‬ ‫وس َآئہُسم بَعد َ ال ّذِی َ‬
‫ت َاہ َ‬‫ن اتَّبَع َس‬ ‫َ‬
‫الہ ُدی ط وَلئ ِس ِ‬
‫صیر۔‬ ‫ی َّو لَ ن َ ِ‬
‫وَّل ِ ٍ ّ‬
‫اورتسم سسے یسہ تسو یہودی خوش ہوں گسے نسہ تسو عیسسائی یہاں تسک کسہ ان کسے مذہب‬
‫کی پیروی اختیار کرلو (ان سے)کہہ دو کہ اللہ کی ہدایت (یعنی دین اسلم )ہی‬
‫ہدایت ہے اور (اے پیغمبر)اگر تم اپنے پاس علم(یعنی وحی الٰہی )کے آجانے پر‬
‫بھھی ان کسی خواہشوں پسر چلوگسے تسو تسم کواللہ (کسے عذاب)سسے (بچانسے وال)نسہ‬
‫کوئی دوست ہوگا نہ کوئی مددگار۔ (البقرہ‪(۰۲۱:‬‬
‫ض‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫ل ا َﷲ ُ وَ ل َ تَتَّب ِع َاہ َ‬ ‫مآ اَنَز َ‬ ‫ن احک ُم ب َ َہ‬ ‫وَ ا َ ِ‬
‫آءُسم وَاحذ َرہُم ان ی ّفتِنُو ک ع َنم بَع ِ‬ ‫وس َہ‬ ‫ینُسم ب ِ َ‬
‫وبِسمط‬ ‫ض ذ ُن ُ ِہ‬ ‫ما یُرِید ُ اﷲ ُ اَن ی ّسُ ِ َہ‬
‫صیب ُسم بِبَع ِس‬ ‫ﷲ اِلَیکسَ ط فَاِن تَوَل ّوا فَاعلَم اَن ّسَ َ‬ ‫لا ُ‬ ‫مآ اَنَز َ‬ ‫َس‬
‫ن۔‬
‫سقُو َ‬‫س لفٰ ِ‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫ن الن ّا ِ‬ ‫م َ‬ ‫ن کثِیًرا ِّ‬ ‫وَا ِ ّ‬
‫(ہم پ ھر تاکید کرتے ہ یں کہ) جو (حکم) اللہ نے نازل فرمایا ہے اسی کے مطابق‬
‫انمیں فیصلہ کرنااور ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کرنا اور ان سے بچے رہ نا‬
‫کہ کسی حکم سے جو اللہ نے تم پر نازل فرمایا ہے یہ کہیں تم کو بھٹکانہ دیں ۔‬
‫اگر یہ نہ مانیں تو جان لوکہ اللہ چاہتا ہے کہ ان کے بعض گناہوں کے سبب ان پر‬
‫مصیبت نازل کرے اور اکثر لوگ تو نافرمان ہیں۔ (المائدہ‪(۹۴ :‬‬
‫ما‬‫لم ل َ‬ ‫ن العِ ِ‬ ‫جآئ َکَ ِ‬
‫م َ‬ ‫ما َ‬ ‫ت َاہ َ‬
‫وس َآئہُسم بَعد َ َ‬ ‫ن اتَّبَع َ‬ ‫َ‬
‫ما عََربِی ًّسا ط وَ لئ ِ ِ‬ ‫حک ً‬ ‫وَکَذٰل ِکَ اَنَزلنہُا ُ‬
‫ی وَّ ل َ َوا ٍ‬
‫ق۔‬ ‫من َّول ِ ٍ ّ‬ ‫ﷲ ِ‬ ‫نا ِ‬ ‫م َ‬ ‫لَکَ ِ‬
‫اور اسسی طرح ہم نسے اس قرآن کسو عربسی زبان کسا فرمان نازل کیسا ہے ۔ اور‬
‫اگر تم علم آنے کے بعد ان لوگوں کی خواہشوں کے پیچھھے چلوگے تو اللہ کے‬
‫سامنے کوئی نہ تمہارامددگار ہوگا اور نہ کوئی بچانے وال۔ (الرعد‪(۷۳:‬‬
‫َ‬
‫َ‬
‫نس وَج َہہ سوَ ل تَعدُ‬ ‫ی یُرِیدُو َ‬‫ش ِ ّس‬‫ربُسم بِالغَداٰوةِ وَ العَ ِ‬ ‫نس َ َّہ‬ ‫مع َس ال ّذِی نَس یَدعُو َ‬ ‫سکَ َ‬ ‫وَاصسبِرنَف َ‬
‫َ‬
‫من اغفَلن َا قَ َلبہ سع َن ذِکرِن َا وَات ّب َعَ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫حیٰوةِ الد ّنی َا ج َو ل تُط ِع َ‬ ‫ُ‬ ‫عَینَ کَ عَنہُم ج تُرِید ُ ِ َ‬
‫زین ُۃنال َ‬
‫ن اَمُرہ فُُرطًا۔ (الکہف‪(۸۲:‬‬ ‫ہَوا ُہ َو کَا َ‬
‫جولوگ صسبح وشام اپنسے پروردگار کسو پکارتسے ہیسں اور اس کسی خوشنودی کسے‬
‫طالب ہیسں ان کسے سساتھ صسبر کررہو ۔ اور تمہاری نگاہیسں ان میسں سسے (گزر‬
‫کراور طرف )نسہ دوڑیسں ۔ کسہ تسم آرائش زندگانسی دنیسا کسے خواسستگار ہوجاؤ۔اور‬
‫جس شخص کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اور وہ اپنی خواہش‬
‫کی پیروی کرتا ہے اور اس کا کام حد سے بڑھ گیا ہے اس کا کہا نہ ماننا۔‬
‫حدیث ابن عباس ؓ س ے استدلل کی بنیاد میں‬
‫کمزوری‪:‬‬
‫بلشبہ وہ حدیث جس سے اختلف مطالع والے دلیل پکڑ رہے ہ یں حقیقتاً‬
‫اس میں ان کے لئے دلیل موجود ہی نہ یں کیونکہ اس حدیث سے دوسرے گروہ‬
‫نے روزہ اور عید کو چاند نظر آنے سے مشروط ہونے پر استدلل کیا ہے ۔لیکن‬
‫انہوں نے حدیث کو مختصر طور پر نقل کیا ہے ۔ اور جو ابن عباس رضی اللہ‬
‫عنہمسا والی روایست صسحیح مسسلم میسں ہے اسسی کسو بہیقسی نسے مکمسل نقسل کیسا‬
‫ہے ۔السنن الکبری میں فرمایا‪:‬کُریب فرماتے ہ یں ‪:‬ابن عباس رضی اللہ عنہ ما‬
‫نے فرمایا‪ :‬رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم چاند دیکھ‬
‫کر روزہ رکھ یں اور چاند دیکھ کر ہی عید کریں اور اگر ہم پر بادل ہوجائیں تو‬
‫تیس کی گنتی پوری کریں تو ابن عباس رضی اللہ عنہما کا کلم بالکل واضح‬
‫ہے کسہ رسسول اللہ صسلی اللہ علیسہ وسسلم نسے ہمیسں یسہ حکسم دیسا ۔ مگسر ابسن عباس‬
‫رضی اللہ عنہ ما نے اختلف مطالع کی بات تونہ یں کی اور نہ ہی یہ کہا کہ حجاز‬
‫کسسا مطلع جدا‘شام کسسا جدا ہے اس طرح خراسسسان کسسا اپنسسا مطلع وغیرہ ۔ لہٰذا‬
‫اختلف مطالع کو اس روایت سے ثابت کرنے والوں نے روایت کو اس مفہوم‬
‫پر محمول قراردیا جو کہ اس میں پایا ہی نہیں جاتا ۔ اور کسی کا حتمی طور‬
‫پرکہنا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا مطلب یہی تو ہے کہ ہر ملک کی رو¿یت‬
‫علیحدہ علیحدہ ہوگسی۔ ابن عباس رضسی اللہ عنہمسا پسر وہ بات تھوپنسا ہے جسس کا‬
‫کوئی علم اس کسسے پاس نہیسسں ہے۔ابسسن عباس رضسسی اللہ عنہمسسا کوئی ایسسسی‬
‫مرفوع حدیسث تسو نقسل نہیسں فرمارہے جسس سسے اختلف مطالع کسی تائیسد ہو یسا‬
‫جس سے معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ چاند روئیت کرنے والوں کی‬
‫خسبر کسو قابسل احتجاج نسہ سسمجھنے کسا کوئی جواز ہو جسو کلم انہوں نسے رسسول‬
‫اللہ صسلی اللہ علیسہ وسسلم کسی طرف منسسوب فرمایسا ہے وہ تسو روئی ت کسو بنیاد‬
‫قرار دینسے والی عام حدیسث (حکسم ) ہے ؟ ہاں یسہ ضرور ہے کسہ انہوں نسے معاویسہ‬
‫رضی اللہ عنہ کے عمل کو اس معاملے میں اختیارنہیں کیا تو کیا انہوں نے ایسا‬
‫اس لئے کیا کہ جیسے بعض لوگوں کو وہم ہوا ہے کہ وہ اختلف مطالع کے قائل‬
‫ہیسں یسا اس کسی کوئی اور وجسہ ہے ۔ کوئی ایسسانہیں کہہ سسکتا جسس سسے ان کسی‬
‫بات کی حد بندی ہوسکے ۔ ان میں سے بعض نے کہا کہ کُریب کی گواہی اس‬
‫امر میں کافی نہ ت ھی بلکہ دوگواہوں کی ضرورت ب ھی ۔ اور بعض نے کہا کہ یہ‬
‫خسبر ابسن عباس رضسی اللہ عنہمسا کسو اس وقست پہنچسی جسب اس کسے پہنچنسے کسا‬
‫فائدہ کوئی نسہ تھھا اور تمام فقہاءکسے نزدیسک اصسولی بنیادوں میسں یسہ بات متفقسہ‬
‫طور پسسر ط سے شدہ ہے ک سہ جہاں احتمال پیدا ہوجائے وہاں اسسستدلل کسسی قیمسست‬
‫باقسی نہیسں رہتسی ۔ اور یونہی خواہشات کسی پیروی کرنسے والے کیسا کرتسے ہیسں کسہ‬
‫احتمالت سسے بھرپور اور غیسر قطعسی الدلل ۃ دلیلوں کسو لے کسر آیات واحادیسث‬
‫صحیحہ کا رد ّ کیا جائے اورکبھی کسی صحابی یا تابعی کا قول انہیں اپنی رائے‬
‫کسسا موافسسق مسسل جائے وہ سسسنت کسسے مخالف کیوں نسسہ ہو اور اس میسسں کئی‬
‫احتمالت کیوں نسہ ہوں بسس اس سسے چمسٹ جائیسں گسے اور اس پسر ایسسے جسم‬
‫جائیسں گسے جسس کسی کوئی حسد نہیسں ۔ اس انداز کسے حاملیسن ہی وہ اہل بدعست‬
‫ہیسں جسن کسے سساتھ بیٹھنسے اور ان کسی باتیسں سسننے سسے ہمیسں منسع کیسا گیسا ہے ۔‬
‫حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول کی توجیہ کے‬
‫بارے میں فرمایا کسہ ہمارے اصسحاب نسے اس کا جواب یوں دیسا ہے کسہ ابن عباس‬
‫رضسی اللہ عنہمسا نسے روزہ اس لئے افطار نہیسں کیسا (عیسد روئیتن معاویسہ ؓ کسے‬
‫مطابق نہ کی) کہ ان کے نزدیک یہ روئیت صرف ایک راوی کے قول سے ثابت‬
‫ہورہی تھی جو کہ افطار کے لئے کافی نہ تھا۔(الفتاویٰ ‪(25108‬‬
‫اگر کہا جاتاکہ چونکہ چاند نظر آنے کی خبر انہ یں ماہ رمضان کے دوران‬
‫ملی اس لئے انہوں نسے اپنی روئی ت پر ہی رمضان کی بنیاد رکھھی خلف اس‬
‫کے اگر وہ اس خبر سے پہلے دن ہی آگاہ ہو جاتے تو اس میں بھی ایک پہلو سے‬
‫وزن ہوتسا۔ بلکسہ اگسر تھوڑے لوگوں کسی روئیتن انسسان کسو رمضان کسے دوران‬
‫پہنچسے تسو (روئیتن نسہ پہنچنسے کسی وجسہ سسے ) چھوڑے گئے روزے کسی قضاءمیسں‬
‫اختلف ہے ۔کیونکسہ شریعست میںمکلف وہی ہوگسا جسسے وقست پسر واجسب کسا علم‬
‫پہنسچ چکسا ہو۔ اور جسب علم نسہ پہنچسا اور نسہ کوئی واضسح دلیسل کسسی شئے کسے‬
‫وجوب پر قائم ہوئی تو پ ھر وجوب کس بات کا اور اس کو یہ کہہ کر رد ّ کردیا‬
‫گیسا ہے کسہ جسب روئیت ہلل کسی خسبر دن میسں (روزہ کسے دن )پایسہ ثبوت کسو پہنسچ‬
‫گئی خواہ کچھ کھانے سسے پہلے یسا کچسھ کھالینسے کے بعسد ہر حال میسں کھانے پینسے‬
‫سے رک جانا اور روزہ پورا کرنا فرض ہے اور اس روزے کی قضاءفرض نہیں ۔‬
‫(الفتاویٰ ‪(25109:‬‬
‫ُ‬
‫اور ابن قدامہ نے مغنی میں کہا ہے‪:‬جہاں تک حدیث کریب کا تعلق ہے تو‬
‫بات یہی ہے کہ انہوں نے اکیلے کُریب کے قول پر روزہ افطار نہ یں کیا۔ (المغنی‬
‫‪(312‬‬
‫اورامام شوکانی نے نیل الوطار میں کہا‪:‬کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ ما‬
‫کی روایت میں دلیل صرف اس کلم سے ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی‬
‫طرف منسسوب ہے نسہ کسہ اس میسں جسو لوگ ابسن عباس رضسی اللہ عنہمسا کسی‬
‫حدیث سے سمجھے ہیں ۔ (نیل الوطار‪(2254:‬‬
‫اوجزالمسسالک میسں فرمایسا‪:‬حدیسث کریسب سسے ایسک ملک کسی روئیت پسر‬
‫دوسسرے ملک والوں کسے اوپسر روزہ فرض ہونسے پسر دلیسل پکڑنسا اس کسے خلف‬
‫دلیسل پکڑنسے کسی نسسبت بہت واضسح ہے کیونکسہ جسب ایسک ملک کسے رہنسے والے‬
‫مسسلمانوں نسے چانسد دیکسھ لیسا تسو گویسا سسب مسسلمانوں نسے دیکسھ لیسا۔اس میسں‬
‫کسی قسم کے شک کی گنجائش نہ یں کہ دنیا کہ تمام کونوں میں بسنے والے‬
‫مسسلمان تمام شرعسی احکام میسں ایسک دوسسرے کسی گواہی اور خسبر پسر عمسل‬
‫کرتے ہیں تو چاند کا دیکھنا بھی باقی شرعی احکام میں سے ایک حکم ہی تو‬
‫ہے۔ (اوجزالمسالک ‪(513:‬‬
‫صدیق حسن قنوجی نے کہا‪:‬پس جس کسی نے بھھی ابن عباس رضی‬
‫اللہ عنہمسا والی روایست سسے دلیسل پکڑی تسو یسہ صسحیح نہیسں ہے کیونکسہ ابن عباس‬
‫رضی اللہ عنہ ما نے یہ ہرگز نہ یں کہا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے‬
‫انہیسں دنیسا کسے دوسسرے گوشوں میسں چانسد دیکھنسے کسی خسبر پسر عمسل کرنسے سسے‬
‫منع کیاہے بلکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ ما تو یہی بتانا چاہ تے ہ یں کہ رسول اللہ‬
‫نے انہ یں حکم دیا ہے کہ یا تو گنتی پوری کریں یا چاند دیکھ یں ۔ (الروضہ الندیہ‬
‫‪(133‬‬
‫الطحاوی نے مشکل الثار میں فرمایا‪ :‬حدیث کریب میں جو کریب نے‬
‫ابسن عباس رضسی اللہ عنہمسا سسے روایست کیسا ہے تسو اس کسی حقیقست یہی ہے کسہ‬
‫ابسسن عباس رضسسی اللہ عنہمسسا کسسو یسسہ خسسبر ملی ہی اس وقسست جبکسسہ اس کسسے‬
‫استعمال کا وقت گزرچکا تھا نہ کہ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر یہ خبر‬
‫ابسن عباس رضسی اللہ عنہمسا کسو مسل جاتسی جسب کسہ وہ اس کسے مطابسق روزہ رکسھ‬
‫سسکتے تھھے تسو بھھی وہ اس کسو رد ّ کردیتسے ۔ تسو جسب وہ اتنسی دیسر سسے پہنچسی تسو‬
‫انہوں نے انتظار ہی کا فیصلہ کیا تاکہ مہینے کا اخیر چاند نظر آنے سے اس کے‬
‫اول یوم کا فیصلہ کردے۔ (مشکل الثار ‪(1203‬‬
‫یسہ کسہ ابسن عباس رضسی اللہ عنہمسا کسے کلم سسے جسو یسہ سسمجھے ہیسں وہ‬
‫احادیث سے ٹکراتا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وارد ہ یں جس‬
‫پسر خلفائے راشدیسن کسا عمسل ہے۔ربعسی بسن حراش سسے روایست ہے کسہ نبسی صسلی‬
‫اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی فرماتے ہ یں کہ لوگ عید کے چاند میں اختلف‬
‫کرنے لگے کہ دو اعرابی آئے انہوں نے اللہ کے رسول کے روبرو اللہ کو گواہ بناتے‬
‫ہوئے کہا کہ کل رات کو انہوں نے چاند دیکھھا ۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے‬
‫لوگوں کو حکم دیا کہ وہ روزہ افطار کریں۔ خلف نے فرمایاکہ کل عید کے لئے‬
‫مصلی کی طرف نکلیں۔(ابوداوؤد ‪2329‬اور البانی نے اسے صحیح کہا ہے(‬
‫ابوعمیسر بسن انسس بسن مالک فرماتسے ہیسں مجھھے میرے پھوپھھی کسے رشتسے‬
‫سے انصار صحابہ ؓ میں سے ایک صحابی نے روایت کیاکہ لوگوں میں رمضان‬
‫کے آخری دن میسں اختلف ہوا اور ہم لوگ روزے سسے تھھے کسہ ایسک قافلہ دن کے‬
‫اخرمیسں آیسا اور انہوں نسے اللہ کسے رسسول صسلی اللہ علیسہ وسسلم کسے ہاں گزری‬
‫ہوئی شام کسو چانسد دیکھنسے کسی گواہی دی تسو رسسول اللہ صسلی اللہ علیسہ وسسلم‬
‫نے حکم دیا کہ ہم روزہ ختم کردیں اور اگلے دن عید کے لئے نکلیں۔ (ابوداوؤد‬
‫‪،157‬النسسسائی ‪،1231‬ابسسن ماجسہ ‪،1653‬ابسسن جارود فسسی المنتقیسٰ ‪،139‬احمسسد‬
‫‪(،558‬قال عنسسہ اللبانسسی فسسی ارواءالغلیسسل انسسہ صسسحیح ورواہ ابوداوؤد ‪، 1157‬‬
‫النسسائی ‪،1231‬ابسن ماجسہ ‪،1653‬ابسن جارود فسی المنتقیسٰ ‪،139‬احمسد ‪،558‬‬
‫وابسسن ابسسی شیبسسہ ‪،۲۹۶۱‬والطحاوی ‪،۱۱۳۲‬والدارقطنسسی ‪ ،۳۳۲‬والبہیقسسی ‪ ۳۶۱۳‬و‬
‫صححہ ابن المنذر وابن السکن وابن حزم کما قال الحافظ فی تلخیص الحبیر‬
‫‪ ۴۳۱‬وصححہ البہیقی والدارقطنی وابن حجر) ارواءالغلیل میں الشیخ اللبانی‬
‫نے اسے صحیح کہا ہے۔‬
‫خلفائے راشدین کا عمل‪:‬‬
‫ابوقلبہ سے روایت ہے کہ دوآدمیوں نے دوران سفر عید کا چاند دیک ھا ۔‬
‫وہ جلدی سے صسبح کے کے وقست مدینسہ پہنسچ گئے ان دونوں نسے خلیفہ ثانی عمر‬
‫فاروق رضی اللہ عنہ کو یہ خبر پہنچائی انہوں نے ایک سے پوچھھا کیا تم روزے‬
‫سے ہو اس نے جواب دیا ‪:‬جی ہاں فرمایا کیوں ؟ اس نے جواب دیا کہ میں نے‬
‫نسہ پسسند کیسا کسہ لوگ روزے سسے ہوں اورمیسں روزہ نسہ رکسھ کسر ان کسی مخالفست‬
‫کررہاہوں اب آپ نے دوسرے سے یہی سوال کیا ۔ اس نے کہا میں نے تو روزہ‬
‫نہیں رکھا فرمایا کیوں؟اس نے کہا چونکہ میں نے چاند دیکھ لیا تھا لہٰذا مجھے یہ‬
‫غلط معلوم ہوا کہ میں روزہ رکھوں ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے روزہ نہ رکھنے والے‬
‫سسے کہا اگسر یسہ دوسسرا شاہد نسہ ہوتسا تسو ہم تمہاری عقسل درسست کرتسے ۔(سسزا‬
‫دیتسسے)پھھھر لوگوں کسسو حکسسم دیسسا تسسو انہوں نسسے روزہ نسسہ رکھھھا ۔(عیسسد منائی) ۔‬
‫(موسوع ۃ فقہ عمر ابن الخطاب ‪‘،۰۱۲‬المحلیٰ بالثار ‪،۴۸۷۳‬المغنی ‪(۳۰۶۱‬‬
‫نبسی کریسم صسلی اللہ علیسہ وسسلم نسے روزہ کسو لوگوں کسے سساتھ رکھنسے کسا‬
‫حکم دیا ہے ۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا اللہ کے رسول صلی‬
‫اللہ علیسہ وسسلم نسے روزہ اس دن ہے جسس تسم (مسسلمین)روزہ رکھ ھو۔ اور عیسد‬
‫الفطسر اس دن ہے جسس دن تسم عیسد کرواور قربانسی اس دن ہے جسس دن تسم‬
‫قربانی کرو ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو چاند دیکھ‬
‫کسر روزہ رکھنسے کسا حکسم دیسا ہے اس لئے جسس دن لوگ روزہ رکھیسں وہ رمضان‬
‫کسی ابتداءہے۔جسب روزے چھوڑ دیسں وہ عیسد کادن ہے اور اسسی طرح جسب لوگ‬
‫عرفات میسں وقوف کریسں وہ یوم عرفسہ ہے ۔ اور جسب عرفات سسے منیسٰ لوٹیسں‬
‫اور قربانی کریں وہ عید کا دن ہے۔ حتیٰ کہ ان دنوں کے تعین میں اگر ان سے‬
‫غلطی بھی ہوگئی ہو تو حکم یہی ہوگا کہ اس میں ان کے ساتھ رہو اور جب وہ‬
‫چاند دیکھ چکے ہوں پھر تو حکم کی شدت مزید زیادہ ہوگی۔‬
‫حافسظ ابسن تیمیسہ رحمسہ اللہ فرماتسے ہیسں کسہ اگسر لوگ غلطسی سسے عرفات‬
‫میسں اس دن وقوف کررہے ہیسں جسو یوم عرفسہ نہیسں ہے ۔ تسو بھھی اسسی دن کسو‬
‫یوم عرفسہ ماناجائے گااور ان کسے وقوف کرنسے کسا علم پہنچنسے پسر دورو نزدیسک‬
‫ہرجگہ اسے یوم عرفات سمجھاجائے گا۔ (الفتاویٰ‪۵۲۷۰۱‬۔‪(۸۰۱‬‬
‫دوسسرے مقام پسر فرماتسے ہیںکسہ اگسر لوگ( مسسلمین )دسسویں دن عرفات‬
‫میں وقوف کرتے ہ یں (غلطی سے )تو صحیح بات یہی ہے کہ یہی یوم عرفہ ہے‬
‫ظاہر کسے اعتبار سسے بھھی اور حقیق ًة بھھی اس میسں کوئی غلطسی نہیسں کیونکسہ‬
‫عرفات کا تعین اسی بات پر ہے کہ لوگ (مسلمین) جسے یوم عرفہ کے طور‬
‫پر پہچان لیں۔ (الفتاویٰ ‪(۲۲۱۱۲‬‬
‫کیوں ک سہ احکام الشرعی سہ میسسں مسسسلمین ظاہر کسے پابنسسد بنائے گئے ہیسسں‬
‫اللٰہ سسنفسا ال وسعھا)لیل ۃ القدر آخری عشرہ کی طاق راتوں میں ہے‬ ‫(لیکلف ّ‬
‫۔ لیکسن اختلف مطالع اور اصسحاب النسسیء (سسیاسی حدود کسی پیروی کرنسے‬
‫والوں)کے نزدیک یہ تو جفت میں بھی ہوگی ۔ مگر لیل ۃ القدر تو ایک سے زیادہ‬
‫نہ یں ہوتسی اللہ عزوجل نے فرمایا ہے( لیل ۃ القدر) قدر کی رات نہ کہ یہ فرمایا‬
‫قدر کسی راتیسں یونہی فرمایسا کسہ عرفسہ کسا دن نسہ کسہ عرفسہ کسے دن اس طرح سسے‬
‫فرمایا کہ عاشوراءکا دن نہ عاشوراءکے دن کوئی ہے پس نصیحت پکڑنے وال؟‬
‫پسس ہم نسے جان لیسا کسہ نبسی کریسم صسلی اللہ علیسہ وسسلم کسا عمسل اور‬
‫خلفاءراشدین کاطریقہ اور وہ جس پر ہم نے علماءائمہ اور ائمہ اہل حدیث کو‬
‫پایسسا یہی ہے اس مسسسئلہ میسسں کئی ایسسک مطالع کسسی کوئی گنجائش نہیسسں ہے ۔‬
‫حقیقست یہی ہے کسہ کوئی چانسد دیکھتسا ہے جسب کسہ دوسسرا نہیسں دیکسھ سسکتا تسو‬
‫معتبر بات اسی کی ہوگی جس نے دیکھا نہ کہ جو نہیں دیکھ سکا کیونکہ اعتبار‬
‫علم کا کیا جاتا ہے نہ کہ جہالت کا اور علم میں دیکھنے وال نہ دیکھ نے والے سے‬
‫یقینسا زیادہ ہے ۔ ہم اللہ سسے جسو غالب ہے سسوال کرتسے ہیسں کسہ امست مسسلمہ کسو‬
‫اس راسستے کسی توفیسق عطسا فرمائے جسس میسں بھلئی ہو ۔ انہیسں ایسک بنیاد پسر‬
‫قائم کردے ۔ ان کسی حالت ابتسر کسو سسنوار دے اس کسے بکھرے ہوئے افراد کسو‬
‫جمع کردے ۔اور بے شک وہ ان سب امور پر قادر ہے۔‬

‫مسلم ورلڈ دیٹا پروسیسنگ پاکستان‬


‫‪http://www.muwahideen.tz4.com‬‬
‫‪info@muwahideen.tk‬‬

You might also like