You are on page 1of 7

‫سال نو اور ہماری ذمہ داریاں‬

‫مولنا مفتي سيد ضياء الين نقشبندي قادري‬


‫حيات انسانی ميں وقت ایک عظيم دولت اوربيش قيمت نعمت‬
‫ہے اور دین اسلم ميں عبادات کا نظام وقت کے ساتھ مربوط ہے ‪،‬‬
‫نمازپنجگانہ کی ادائيگی ‪،‬وقت ہی سے متعلق ہے ‪،‬اسی لئے کتب‬
‫حدیث وفقہ ميں اوقات نماز سے متعلق ایک مستقل بيان رکھا گيا‬
‫ہے ‪،‬سحروافطار کے لئے باریک بينی کے ساتھ وقت کا لحاظ رکھنا‬
‫ضروری ہے ‪،‬اس ميں کمی بيشی ہوجائے توروزہ رائےگاں ہوجاتا‬
‫ہے ‪،‬زکوۃ کی فرضيت کےلئے سال گزرنا شرط ہے‪ ،‬حج مخصوص‬
‫ںںںںںںںںں‪ ،‬ان تمام عبادات‬
‫ایام ميں ادا کياجاتاہے‪ ،‬قربانی کےلئے ایام مقرر ہي‬
‫ںںںںںںںں‬
‫ميں وقت اس درجہ اہميت رکھتا ہے کہ اگر عبادات کی ادائيگی مي‬
‫ان کے مقررہ اوقات کالحاظ نہ رکھاجائے تونوبت اساء ت وکراہت‬
‫ںںںںںںں‬
‫تک ہی نہيں ں بلکہ فساد و بطلن تک آجاتی ہے ‪،‬عبادات کے نظام مي‬
‫وقت کا ارتباط وتعلق ‪،‬احکام اسلم ميں اس کی اثرانگيزی امت‬
‫مسلمہ کے ہرہرفرد سے وقت کی قدردانی وقدر افزائی کا مطالبہ‬
‫کررہی ہے۔‬
‫حضور رحمۃ للعالمين صلی اللہ عليہ وسلم نے امت کےلئے اپنے‬
‫مبارک ارشاد ات ومقدس فرمودات ميں وقت کی اہميت بيان فرمائی‬
‫ہے‪،‬عن ابن عباس رضی اللہ عنہما قال قال رسول اللہ صلی اللہ عليہ‬
‫وسلم نعمتان مغبون فيہماکثيرمن الناس الصحۃ والفراغ رواہ‬
‫البخاری۔‬
‫ترجمہ‪:‬سيدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے‬
‫ںںںں‬ ‫حضرت رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا‪ :‬ںں‬
‫دونعمتي‬
‫ںںںںں؛ تندرسی اور‬‫ںںںں رہتے ہي‬
‫ایسی ہيںں کہ اکثر لوگ اس سے غفلت مي‬
‫فرصت۔ (زجاجۃ المصابيح ‪،‬ج ‪،4‬کتاب الرقاق ‪،‬ص ‪)148‬‬
‫جن دونعمتوں کی جانب حضرت نبی اکرم صلی اللہ عليہ وسلم‬
‫نے امت کومتوجہ فرمایا ہے وہ اوقات زندگی سے عبارت ہيں۔‬
‫نيزایک روایت کے مطابق حضورپاک صلی اللہ عليہ وسلم نے‬
‫پانچ حالت کوغنيمت جاننے اور انکی قدردانی کرنے کی‬
‫تاکيدفرمائی ہے‪ ،‬عن عمرو بن ميمون الودی قال قال رسول اللہ‬
‫صلی اللہ عليہ وسلم اغتنم خمساقبل خمس شبابک قبل ھرمک‬
‫وصحتک قبل سقمک وغناک قبل فقرک وفراغک قبل شغلک‬
‫وحيوتک قبل موتک۔‬
‫ترجمہ‪:‬حضرت عمرو بن ميمون اودی رضی اللہ عنہ سے‬
‫روایت ہے حضرت رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے ایک شخص‬
‫سے نصيحت کرتے ہوئے فرمایا‪ :‬تم پانچ چيزوں کو پانچ چيزوں سے‬
‫پہلے غنيمت جانو؛ اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے ‪،‬تندرستی کو‬
‫بيماری سے پہلے ‪،‬تونگری کو محتاجی سے پہلے ‪،‬فرصت کو‬
‫مصروفيت سے پہلے اور زندگی کو موت سے پہلے۔ (مشکوۃ‬
‫المصابيح ص ‪)443‬‬
‫ںںںںںںںں‬
‫سال ‪2008‬کے آغاز کے وقت کتنے لوگ ہماری معيت مي‬
‫ںںںںںںں آد‬
‫ںںںںںںںںںں ہيںں‪،‬موت کے پنجہ نے انہي‬
‫تھے جو‪،‬اب ہمارے ساتھ موجود نہي‬
‫بوچا‪ ،‬اللہ تعالی کا صد شکرہے کہ اس نے ہميں مہلت عطافرمائی ‪،‬‬
‫ہميں چاہئے کہ اس فرصت کوغنيمت جانيں ‪،‬زندگی کے ان لمحات‬
‫ںںں‪ ،‬عالم شباب کواطاعت الہی ميںں صرف کریں اس‬ ‫کے قدرشناس بني‬
‫سے پہلے کہ ضعف وکمزوری لحق ہوجائے ‪،‬حالت صحت‬
‫ںںںں جومرض وبيماری کی کيفيت‬ ‫وتندرستی ميں دین کے وہ کام کرلي‬
‫ميں صحيح طورپرانجام نہيں دئے جاسکتے۔‬
‫زندگی کا ایک ایک لمحہ اس قدر بيش بہا‪،‬گراں ں قيمت اور قابل‬
‫قدر ہے کہ اہل جنت کوجنت ميں داخل ہونے کے بعد بھی لمحات‬
‫حيات کے بے فائد ہ گزرجانے پرحسرت ہوگی ‪،‬کنزالعمال شریف ‪،‬‬
‫کتاب السلم وفضائلہ‪،‬حق المجالس والجلوس ميںں حدیث پاک‬
‫ہے(حدیث نمبر‪ )25454:‬ماقعد قوم مقعدا لیذکرون اللہ فيہ ویصلون‬
‫علی النبی صلی اللہ عليہ وسلم الکان عليہم حسرۃ یوم القيامۃ وان‬
‫دخلوا الجنۃ للثواب۔ حب عن ابی ہریرۃ۔‬
‫ترجمہ‪:‬کوئی قوم ایسی محفل نہيں سجاتی جس ميں وہ اللہ کا ذ‬
‫کر نہيں کرتی اور حضرت نبی پاک صلی اللہ عليہ وسلم کی خدمت‬
‫اقد س ميں درود شریف نہيں پڑھتی مگر وہ محفل ‘قيامت کے دن‬
‫ثواب کی وجہ سے ان کےلئے حسرت کاسبب ہوتی ہے اگرچہ وہ‬
‫جنت ميں داخل ہوجائيں۔‬
‫اعمال کے حساب وکتاب کا معاملہ وقت ہی سے متعلق ہے ‪،‬‬
‫عمر کے اوقات کے بارے ميں بروزقيامت سوال کيا جائے گا۔‬
‫کنزالعمال شریف ميں حدیث پاک ہے‪ :‬لتزول قد ما عبد حتی‬
‫یسأل عن اربع‪:‬عن عمرہ فيماافناہ‪،‬وعن علمہ مافعل فيہ ‪،‬وعن مالہ من‬
‫این اکتسبہ وفيماانفقہ ‪،‬وعن جسمہ فےماابلہ۔ ت عن ابی ہریرۃ۔‬
‫ترجمہ‪ :‬انسان کے قدم اس وقت تک نہيں ہٹيں گے جب تک کہ‬
‫چار چيزوں کے بارے ميں سوال نہ کيا جائے‪:‬اس کی عمر کے بارے‬
‫ںںںںںںںںں کہ اس پر کہاں ں‬
‫ںںںںں لگایا ہے‪،‬اس کے علم کےںں‬
‫بارے مي‬ ‫ميں کہ اسے کہا‬
‫تک عمل کيا‪،‬اس کے مال کے بارے ميں کہ اسے کہاں سے کمایا ہے‬
‫اور کہاں خرچ کيا ہے‪،‬اس کے جسم کے بارے ميں کہ اس کی‬
‫توانائيوں کو کہاں خرچ کيا ہے۔‬
‫(کنزالعمال شریف ‪،‬کتاب القيامۃ من قسم القوال‪،‬الباب الول فی‬
‫امورتقع قبلہا‪،‬الحساب ‪،‬حدیث نمبر‪)38982:‬‬
‫حبيب پاک صلی اللہ عليہ وسلم کے یہ راہنما مقد س ارشادات‬
‫وقت کی قدردانی کرنے کی ترغيب دے رہے ہيں‪،‬غفلت وکوتاہی‬
‫اورتضييع اوقات سے منع کررہے ہيں۔‬
‫وقت اپنی رفتا رکے ساتھ گزررہا ہے‪ ،‬ہم نے سال ‪ 2008‬کے‬
‫بارہ مہےنے بسر کئے ‪ 52،‬ہفتے گزارے‪ 366،‬دن دیکھے‪،‬کامل ایک‬
‫سال کا سفر طئے کيا‪ ،‬سال ‪ 2008‬کا اختتام ہم سے سوال کررہا ہے‬
‫کہ جس سال کوتم رخصت کررہے ہواس کے لمحات وساعات کی تم‬
‫نے کيا قدردانی کی؟ ليل ونہار کی رفتاراستفسار کررہی ہيکہ گذشتہ‬
‫سال کے صبح وشام تم کس حدتک احکام اسلم پرعمل‬
‫پيرارہے؟آخری دن کا آفتاب ڈوبتے ڈوبتے دریافت کررہا ہے کہ تم نے‬
‫حدودشریعت کی کس حدتک پاسداری وپاسبانی کی؟‬
‫اس موقع پر ہم اپنے اعمال کا محاسبہ کریں‪ ،‬جيسا کہ حضرت‬
‫عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایاہے ‪:‬عن عمرانہ قال فی‬
‫خطبتہ‪:‬حاسبواانفسکم قبل ان تحاسبوا‪،‬فانہ اہون لحسابکم ‪،‬وزنوا‬
‫انفسکم قبل ان توزنوا‪،‬وتزینواللعرض الکبریوم (تعرضون لتخفی‬
‫منکم خافيۃ)۔‬
‫ںںںںںںں فرمایا‪ :‬تم‬‫ترجمہ‪ :‬سيدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے ںں‬
‫خطبہ مي‬
‫اپنے آپ کا محاسبہ کرواس سے پہلے کہ تم سے محاسبہ کيا جائے‬
‫کيونکہ وہ تمہارے حساب کے لئے آسانی کا باعث ہے اور تم اپنے‬
‫نفسوں کا جائزہ لو اس سے پہلے کہ تمہارا جائزہ ليا جائے اور بڑی‬
‫ںںںںںںں بارگاہ رب العزت ميیںںپيش کيا‬
‫پيشی کے لئے تيار رہوجس دن تمہي‬
‫جائے گا تمہاری کوئی پوشيدہ چيزچھپی نہيں رہے گی۔‬
‫(کنزالعمال‪،‬کتاب المواعظ والرقائق والخطب والحکم من قسم‬
‫الفعال‪،‬خطب عمرومواعظہ رضی اللہ عنہ‪،‬حدیث نمبر‪) 444203:‬‬

‫حدیث پاک پرعمل کرتے ہوئے ہم رخصت ہورہے سال کے‬


‫شب وروزپر نظردوڑائيں‪،‬ہم نے حقوق اللہ کس حدتک‬
‫ںںںںںںںں‬
‫ںںں کی ادائےگی کا کيا معاملہ رہا‪،‬کيا ہم نے نمازی‬
‫اداکئے‪،‬نمازو‬
‫برغبت وشوق باجماعت اداکی ہيں یا آخری وقت تک ٹالتے‬
‫اورمؤخر کرتے رہے؟ کياہم نے فریضہ زکوۃ کےلئے صحيح طور‬
‫پراموال کا حساب کيا یا تنگد ستوں اورناداروں کا حق لے ليا؟ کيا ہم‬
‫نے رمضان المبارک کے روزوں کا تقوی وپرہيزگاری کے ساتھ‬
‫ںںںںںںںںںںں‬
‫ںںسلسلہ مي‬‫اہتمام کيا ‪،‬ماہ رمضان کے ذریعہ ہم نے پرہيزگاری کے‬
‫کتنی ترقی کی۔‬
‫ہم اپنے رات ودن کودیکھيں کہ حقوق العباد کی ادائيگی کس‬
‫طور پرہوئی ‪،‬ہم نے والدین کی اطاعت وفرمانبداری کی یا ان کی‬
‫خدمت ميں تساہل برتا؟ اولد کی تربيت کاحق اداکيا یاکوئی‬
‫کسرباقی رہ گئی؟ رشتہ داروں سے حسن سلوک اور پڑوسيوں سے‬
‫اچھابرتاؤقائم رکھا یا بے تعلقی وبدسلوکی نے سلسلہ منقطع کردیا؟‬
‫ملنے جلنے والوں کے ساتھ محبت ومودت کے ساتھ پيش آئے یانفرت‬
‫وعداوت کی آگ بھڑکائی؟ قرابتداروں ‪،‬ہمسایوں اوردیگراحباب کے‬
‫ساتھ نشست وبرخاست ‪،‬مجالست ومخالطت ميں ہمارا اخلقی معيار‬
‫کتنابلندرہا؟‬
‫ہمارا محاسبہ زندگی کے ہرشعبہ اور ہرگوشہ سے متعلق ہو‪،‬نہ‬
‫صرف محاسبہ بلکہ آئندہ کےلئے منصوبہ بندی کی جائے کہ سال‬
‫ںںںںںںں‬
‫گذشتہ جوکوتاہی اور سہل انگاری ہوئی وہ دہرائی نہي‬
‫جائےگی‪،‬حصول تعليم کی بات ہویاکاروباروتجارت کامعاملہ ‪،‬احکام‬
‫شریعت کے مطابق مکمل نظم ونسق‪،‬انتظام وانصرام کے ساتھ‬
‫کياجائےگا۔ شخصی وانفرادی ‪،‬ملی واجتماعی‪،‬سماجی ومعاشرتی ‪،‬‬
‫ںںںں‬
‫معاشی واقتصادی ‪،‬سياسی ومذہبی ‪،‬ملکی وبين القوامی ہرجہت مي‬
‫اور ہرسطح پرہميں غورکرناچاہئے کہ ہم نے ترقی کے کتنے زینے‬
‫ںںںںںںںںںںں‬
‫طے کئے‪،‬پستی وزوال سے کتنا دوچار ہوئے‪ ،‬ترقی کی راہي‬
‫کےارہيں‪،‬پستی وزوال کے وجوہ واسباب کياتھے۔‬
‫ہم اس سال کوخيرآباد کہتے ہوئے غورکرليں جس شخص نے یہ‬
‫بارہ مہينے اسلمی احکام پرعمل پيرارہ کرگزارے‪،‬شریعت اسلميہ‬
‫پرکاربندرہ کربسرکيا ‪،‬حدودشریعت پھلنگنے اورقانون الہی کوپائے‬
‫مال کرنے کی جرأت وجسارت نہيں کی تو وہ خوش نصيب بارگاہ‬
‫الہی ميں شکرگزاررہے خود اپنے لئے اور تمام عالم اسلم کےلئے‬
‫ںںںںںںںںںں محبت رسول‬
‫اطاعت واتباع کاجذبہ لئے ہوئے ‪،‬دل کے آشيانہ مي‬
‫صلی اللہ عليہ وسلم کی شمع جلتے ہوئے استقامت واستقلل کے‬
‫ساتھ آئندہ برس وتمام عمر گزارنے کی دعاکرے۔‬
‫اور جس شخص کی حالت اس سے جداگانہ ہو‪،‬جس کا سالِ‬
‫گذشتہ اللہ اور اسکے حبيب صلی اللہ عليہ وسلم کی مرضی کے‬
‫خلف گزراہو‪،‬اس سے کوتاہياں سرزدہوگئی ہوں اسے چاہئے کہ‬
‫اپنے اعمال سيئہ پرکف افسوس ملے ‪،‬ندامت کے آنسو بہائے اوریہ‬
‫گزاروںںں‬
‫ںںںںں آئند ہ زندگی کا ہرلمحہ اس طرح ں‬ ‫محکم اراد ہ کرلے کہ مي‬
‫گا جس طرح زندگی بخشنے والے کا حکم ہے ‪،‬ہرساعت حبيب پاک‬
‫صلی اللہ عليہ وسلم کی اطاعت شعاری ووفاداری کے جذبہ سے‬
‫سرشار رہونگا‪ ،‬ہرگھڑی د ل آپ صلی اللہ عليہ وسلم کی محبت سے‬
‫شادوآبادرہے گا۔‬
‫سال نو کاآغاز یقينا اللہ کی نعمت ہے ‪،‬ایک مد ت کا اختتام اور‬
‫دوسری مدت کا آغاز عطاء الہی ہے ‪،‬اس انعام خداوندی اور عطاء‬
‫الہی پر پيش گاہ ذ والجلل ميں نذرانہ شکر پيش کرنا چاہئے ليکن‬
‫اس موقع پرباہم مبارکبادی دینا‪ ،‬تہنيت پيش کرنا سلف صالحين‬
‫وبزرگان دین کاطریقہ نہيں رہا‪ ،‬ان نفوس قدسيہ نے ہميشہ ماحول‬
‫اوررسم ورواج سے بالتر ہوکر مقاصد کوپيش نظر رکھا‪ ،‬دینی‬
‫اغراض کو اپنا مطمح نظربنایا۔‬
‫اسلمی سال کا آغاز توخليفہ دوم فاروق اعظم رضی اللہ عنہ‬
‫کی شہادت سے اوراختتام حج اورقربانی کے مہينہ پرہوتا ہے ‪،‬سال کا‬
‫آغاز واختتام اس جانب اشارہ کررہاہے کہ اہل اسلم کے شب‬
‫وروز‪،‬ماہ وسال خالص اللہ تعالی کے لئے ہونے چاہئے ‪،‬ليکن وائے‬
‫برحال مسلماناں کہ مقاصد سے دور رسم ورواج ميں مبتلٰی ہوچکے‬
‫ہيں اور رسم ورواج بھی ایساکہ ہماری مسلمانی کوداغدارکررہا ہے‪،‬‬
‫سڑکوں پر ‪ happy new year‬کے الفاظ لکھنا‪ ،‬رقص وسرود‬
‫اورشراب نوشی کرنا وغيرہ وغيرہ۔‬
‫کيا انگلش زبان اللہ تعالی کی آیات ونشانيوں سے نہيں ہے؟‬
‫ومن ٰایاتہ اختلف السنتکم والوانکم۔ کيا انگریزی الفاظ وکلمات‬
‫ذریعہ تعليم نہيں ہيں؟ کياشریعت نے حروف کا اہتمام کرنے کی‬
‫ںںںںںں رقص وسرود کاکوئی جواز‬ ‫ہدایت نہيں ں دی ہے؟ کےا دین اسلم مي‬
‫نکالجاسکتا ہے؟ کيا شراب ميں‪،‬جوام الخبائث ہے‪ ،‬مدھوش ومجنون‬
‫کردینے کااثرباقی نہں رہا؟‬
‫پھرکيا وجہ ہيکہ مسلمان اپنے تقدس کوخود پائے مال کرکے اِن‬
‫ںںںں‪،‬ان‬
‫اخلقی رذائل کواختيارکرچکے ہي‬
‫افعال کے کرگزرنے سے ان کے لئے نہ شریعت مانع رہی اور نہ‬
‫ںںںںںںں ميں‬
‫صدیو‬ ‫اخلق‪،‬جب کہ قوم مسلم تووہ قوم ہے جس نے گذ شتہںں‬
‫تجارت وکاروبار‪ ،‬سياست وحکومت ‪،‬اخلق وکردار‪ ،‬امانت‬
‫وصداقت ‪،‬تہذیب وتمدن ہر گوشٔںںںہ عمل ميں دنيا کی امامت کی اور‬
‫آج ہرپستی وزوال اس کے دامن سے وابستہ ہے‪ ،‬اس کسمپرسی کے‬
‫ںںںں‬
‫ںںہي‬
‫عالم ميں ہم مسلمان اگر عزت ووقار اورترقی وعروج چاہتے‬
‫تواسلمی تعليمات پرپھرسے عمل کرنے لگيں ‪،‬قرآن کریم کودوبارہ‬
‫مضبوطی سے تھام ليں‪،‬سنت نبوی علی صاحبہ الصلوۃ والسلم‬
‫کواپنا دستور عمل بناليں‪ ،‬صحابہ کرام عليہم الرحمۃ والرضوان‬
‫ںںںں ‪،‬سلف‬‫ںںھي‬
‫کاطریقہ اختيارکریںں ‪،‬اہل بيت نبوت سے وابستگی رک‬
‫ںںںںںںںںںںںںںں‪ ،‬کاميابی‬
‫صالحين واہل اللہ کے بتلئے ہوئے راستہ پر چلتے رہي‬
‫وکامرانی ہمارے قدم چومے گی‪،‬فتح ونصرت ہمارا مقدرہوگی‪-‬‬

You might also like