You are on page 1of 17

Lecture 8

‫روزہ‬/Fasting
‫روزہ‬
‫اسالم کی تیسری اہم عبادت روزہ ےہ ‪ ،‬روزہ کے لےی عربی میں "صوم "‬
‫یا"صیام" کا لفظ استعمال ہوتا ےہ‪ ،‬جس کے لفظی معنی ہیں رک جانا‪ ،‬چاےہ‬
‫کھانے‪،‬پیےن ‪،‬بات کرنے یا کسی اور عمل سے رک جانا۔ شرعی اصطالح میں روزہ‬
‫کھانے پیےن اور جنسی سے مراد ےہ ‪ ،‬صبح صادق سے لے کر غرو ِب افتاب تک‬
‫تعالی کی رضا حاصل کرنے کی نیت سے رک جانا۔‬‫تعلقات سے ہللا ٰ‬
‫روزے کی اہمیت‬
‫زکوۃ کی طرح ایک ایسی اہم عبادت ےہ جو نہ صرف اس امت پر فرض کی گ ئی ےہ‬ ‫روزہ بھی نماز اور ٰ‬
‫بلکہ سابقہ تمام امتوں پر بھی فرض رہی ےہ۔چنانچہ قران مجید میں ارشاد ےہ‪:‬‬
‫الص َي ُام َك َما ُك ِت َب َع َلى َّال ِذ َين ِم ْن َق ْب ِل ُك ْم َل َع َّل ُك ْم َت َّت ُق َ‬
‫ون‬ ‫م‬ ‫ُ‬ ‫َيا َا ُّي َها َّالذ َين ا َم ُنوا ُك ِت َب َع َل ْي ُ‬
‫ك‬
‫ِ‬ ‫ِ‬
‫"اے مومنو! تم پر روزے فرض کےی گ ےئ ہیں‪ ،‬جس طرح تم سے پہےل لوگوں پر فرض کےی گ ےئ تھے تاکہ تم‬
‫پرہیزگار بنو"‬
‫تعالی نے فرمایا‪:‬‬ ‫روزہ کی تاکید کرتے ہوئے ایک دوسری ایت میں ہللا ٰ‬
‫الش ْه َر َف ْل َي ُص ْمهُ‬
‫َف َم ْن َشه َد ِم ْن ُك ُم َّ‬
‫ِ‬
‫"سو جو کوئی تم میں سے اس مہیےن میں موجود ہو اسے چاہےی کہ پورے مہیےن کے روزے رکھے"‬
‫روزہ نہ رکھےن کی اجازت صرف بیماروں‪ ،‬مسافروں اور معذوروں کو دی گ ئی ‪،‬‬
‫لیکن وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ جیسے ہی بیماری ‪ ،‬سفر یا عذر ختم ہوگا تو‬
‫تعالی کا ارشاد ےہ‪:‬‬ ‫ان پر روزوں کی قضا الزم ہوگی‪ ،‬جیسا کہ ہللا ٰ‬
‫يضا َا ْو َع َل ٰى َس َفر َف ِع َّد ٌۃ ِم ْن َا َّي ٍام ُا َخرَ‬
‫َو َم ْن َك َان َمر ً‬
‫ٍ‬ ‫ِ‬
‫"تم میں سے جو بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں ( روزے رکھ‬
‫کر) ان کا شمار پورا کرلے "‬
‫روزے کے انسان کی زندگی پر اثرات‬
‫جس طرح دوسری عب ادات ک ا مقص د ف رد اور معاش رے ک ی اص الح اور انس ان ک و‬
‫پوری زندگی عبادت کے لےی تیار کرنا ےہ اسی طرح روزہ جیسی اہم عبادت کا مقص د‬
‫بھی فرد اور معاشرے کی اص الح اورانس ان ک و پ وری زن دگی ک ی عب ادت ک ے ل ےی تی ار‬
‫کرنا ےہ۔‬
‫روزہ کے انسان کی انفرادی اور اجتماعی زن دگی پ ر ک ت ےن گہ رے ا رات پ تتے ہ یں ‪،‬‬
‫انہیں ذیل میں ذکر کیا جاتا ےہ‪:‬‬
‫‪1‬۔ بندگی کا احساس‬
‫اس الم ک ا تربیت ی نظ ام کچ ھ ایس ا ےہ ج و بن دے م یں ہ ر وق ت ا ےن بن دے ہ ونے کاش عور‬
‫پی دا کرت ا رہت ا ےہ‪ ،‬اور ہللا تع ٰ‬
‫الی ک ے ح اکم اور خ ود مست ار ہ ونے ک ا اس ے احس اس دالت ا رہت ا‬
‫ےہ۔ نماز دن میں پانچ مرتبہ انس ان ک و ع اجز اور بن دہ ہ ونے ک ا احس اس دالت ی رہت ی ےہ ‪ ،‬ت و‬
‫روزہ سال میں پورا ای ک مہین ہ اس ے بن دگی ک ا احس اس دالت ا رہت ا ےہ۔ س ری ک ے وق ت کھ انے‬
‫پی ےن ک ا حک م دی ا گی ا ‪ ،‬چ اہ ہ وئے ی ا ن ہ چ اہ ہ وئے بن دہ ا ھ ک ر کھات ا پیت ا ےہ۔ ص بح‬
‫ص ادق س ے ہ ی کھ انے پی ےن س ے روک ا گی ا اور بن دہ رک جات ا ےہ‪ ،‬اور پھ ر س ورج ک ے غ روب ہ وتے‬
‫ہی کھانے پیےن کا حکم مال تو بن دہ چ اہ ہ وئے ی ا ن ہ چ اہ ہ وئے کھات ا پیت ا ےہ۔ ج س س ے‬
‫الی ک ی حاکمی ت ک ا واض ح ا ہ ار ہوت ا ےہ‪ ،‬اور بن دے م یں ی ہ‬ ‫بن دے ک ی بن دگی اور ہللا تع ٰ‬
‫تعالی کی مرضی کے سوا اپنی مرضی سے کھ ا ‪ ،‬پ ی بھ ی نہ یں‬ ‫احساس اجاگر ہوتا ےہ کہ وہ ہللا ٰ‬
‫سک تا۔‬
‫‪2‬۔ ٰ‬
‫تقوی اور پرہیز گاری‬
‫روزے کا دوسرا اہم ا ر جو انسان کی انفرادی زندگی پر پتتا ےہ ‪ ،‬وہ ٰ‬
‫تقوی اور پرہیز‬
‫گاری کا حصول ےہ‪ ،‬جیسا کہ قران مجید میں ارشاد ےہ‪:‬‬
‫َ‬ ‫ُ‬ ‫َّ‬
‫لعلكم تتقون "(روزے تم پر اس لےی فرض کےی گ ےئ ہیں )تا کہ تم پرہیز گار بن جاؤ"‬‫َ‬ ‫ۡ‬ ‫ُ‬ ‫َّ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫بندگی کا احساس انسان میں خدا کی اطاعت کا شعور بیدار کرتا ےہ‪،‬اور جب خدا کی‬
‫بندگی اور اطاعت کا شعور راسخ ہوجاتا ےہ تو پھر انسان صرف کھانا پینا نہیں چھوڑتا‬
‫بلکہ ہر اس چیز کو چھوڑ دیتا ےہ جس سے خدا نے روکا ےہ‪،‬کیونکہ اگر انسان صرف‬
‫حالل چیزیں چھوڑ دے اور حرام چیزوں سے نہ بچے تو پھر اس روزے کا کوئی فائدہ‬
‫نہیں جیسےحضور اکرم ﷺ نے فرمایا‪:‬‬
‫من لم یدع قول الزوروالعمل بہ فلیس ہلل حاجۃ فی ان یدع طعامہ وشرابہ‬
‫"جو شسص روزے کی حالت میں برا قول اور برا عمل نہ چھوڑے ‪ ،‬تو ہللا تعال ٰی کو اس‬
‫کے بھوکےاو ر پیاسے رہےن کی کوئی حاجت نہیں"‬
‫وی کس ی خ ا ص ورت‬ ‫وی ک ا حص ول ےہ۔ تق ٰ‬ ‫اس سے اہر ےہ کہ روزے ک ا اص ل مقص د تق ٰ‬
‫وی اس کیفی ت ک ے پی دا ہ ونے ک ا ن ام ےہ ج و‬ ‫یا شکل اختیار ک رنے ک ا ن ام نہ یں ےہ‪ ،‬بلک ہ تق ٰ‬
‫انسان کو نیکیوں پر امادہ کرتی ےہ ‪ ،‬اور برائیوں س ے روک ت ی ےہ۔ روزہ اس ط رح انس ان م یں‬
‫تق ٰ‬
‫وی پی دا کرت ا ےہ ک ہ روزہ دار ک و ص بح ص ادق س ے ل ے ک ر غ رو ِب افت اب ت ک کھ انے پی ےن س ے‬
‫روکا جاتا ےہ اور وہ رک جاتا ےہ ۔ نہ صرف لوگوں کے س امےن بلک ہ تنہ ائی م یں بھ ی۔ ی ہ ب ات‬
‫الی حاض ر و ن ا ر ےہ‪ ،‬اس ک ے ہ ر عم ل ک و‬ ‫بن دے م یں ی ہ یق ین پی دا کرت ی ےہ ک ہ ہللا تع ٰ‬
‫دیک ھ ر ا ےہ اور قیام ت ک ے دن حس اب ک ت اب لےگ ا۔ اگ ر کس ی ک و ی ہ احس اس و یق ین ن ہ‬
‫ہ و ت و وہ ‪ 12‬س ے ‪ 14‬گھن ب بھ وک پی اس نہ یں ک او س ک تا۔ روزہ س ے انس ان ک ے ان در اتن ی‬
‫اخالق ی ق وت پی دا ہوج اتی ےہ ک ہ م ادی اور دنی اوی فائ دے ک ے مق ا م یں وہ اخ رت اور‬
‫روحانی ت ک و ت رجیح دیت ا ےہ۔ اور ہ ر س ال لیات ار ای ک مہین ہ ت ک ی ہ مش ک رنے ک ی وج ہ‬
‫سے انسان میں اتنی زبردست قوت پیدا ہوجاتی ےہ جس کا ا ر پورا سال رہتا ےہ۔‬
‫ضبط نفس‬
‫‪3‬۔ ِ‬
‫جب تک انسان اپنی حیوانی خواہشات پر قابو نہ پالے اس وقت تک کوئی اہم‬
‫کارنامہ سرانجام نہیں دےسک تا۔ روزے میں کھانے ‪ ،‬پیےن اور جنسی مالپ سے روکا گیا‬
‫ےہ‪ ،‬اور کسی حد تک نیند بھی متا ر ہوتی ےہ‪ ،‬کیوں کہ نفلی عبادات اور س ری کے لےی‬
‫ا ھےن سے ارام بھی متا ر ہوتا ےہ ۔ اور یہ ہی حیوانی خواہشات ہیں جنہیں ازاد چھوڑ نے‬
‫سے انسان برائیوں میں مبتال ہوجاتا ےہ اور کوئی اہم کام سرانجام نہیں دے پاتا۔ روزے‬
‫کے ذریعے نفس کی ان خواہشات پر ضبط حاصل ہوتا ےہ‪ ،‬اور انسانی نفس انسان کے‬
‫ا ےن قابو میں ہوتا ےہ‪،‬اس لےی اسے اپنی مرضی سے استعمال کیا جاسک تا ےہ۔ اور روزے کا‬
‫بھی یہی مقصد ےہ کہ انسان ا ےن نفس کی خواہشات پر قابو پا کر اسے نفع بسش کاموں‬
‫میں لیادے‪ ،‬اسی لےی تو نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫وھو شھر الصبر "رمضان کا مہینہ ا ےن نفس پر قابو پانے کا مہینہ ےہ"‬
‫لیکن ج س ش سص ن ے زن دگی م یں کبھ ی بھ ی روزہ ن ہ رکھ ا ہ و اس ک ے ل ےی ا ےننفس پ ر ق ابو‬
‫پان ا بہ ت مش کل ہوگ ا۔ اس ی ط رح ای ک م ومن مجا د بھ ی ہوت ا ےہجس ے دی ن ک ی س ربلندی‬
‫ک ے ل ےی لتن ا بھ ی پتس ک تا ےہ۔ حال ِت جہ اد م یں کبھ ی بھ وک و پی اس بھ ی برداش ت کرن ی پتت ی‬
‫ےہ۔اگ ر کس ی ن ے بھ وک اور پی اس برداش ت ک رنے ک ی عمل ی مش نہ یں ک ی ہ وگی ت و اس ک ے‬
‫لےی بھوک و پیاس کا برداشت کرنا بہت مشکل ہوگا۔‬
‫سماجی اثرات‬
‫اگرچ ہ روزہ ای ک انف رادی عم ل ےہ‪ ،‬ل یکن ج س ط رح نم از باجماع ت پ تھےن‬
‫سے اجتماعی عمل بن جاتی ےہ اسی ط رح روزہ بھ ی ای ک متع ین مہی ےن م یں رکھ ےن‬
‫س ے اجتم اعی عم ل ک ی ش کل اختی ار ک ر لیت ا ےہ‪ ،‬اس ل ےی اس ک ے س ماج پ ر گہ رے‬
‫ا رات پتتے ہیں جن میں سے کچھ اہم ذیل میں ذکر کےی جاتے ہیں‪:‬‬
‫‪1‬۔ ٰ‬
‫تقوی او ر پاکیزگی کی فضا کا قائم ہونا‬
‫انفرادی طور پر اگر کوئی شسص ذاتی جذ ے کی بنیاد پر نیکی کا عمل کرےاور‬
‫دوسرے لوگ وہ عمل نہ کریں تو وہ خود کو تنہا اور اجنبی م سوس کرے گا اور اس‬
‫کے ارد گرد کا ماحول نیکی کو بتھانے میں اس کا مدد گار ابت نہیں ہوگا ‪ ،‬لیکن اگر‬
‫سب لوگ ایک ہی فکر کے ہوں اور سب ایک ہی کام کر رےہ ہوں ‪ ،‬تو وہ سب مل کر‬
‫نیکی کی ترقی اور اضافے میں ایک دوسرے کے لےی مدد گار ابت ہوں گے۔ روزے کے لےی‬
‫تعالی نے نیکیوں کی ایک ایسی اجتماعی فضا قائم کی ےہ‪ ،‬جو‬ ‫ایک مہینہ مقررکر کے ہللا ٰ‬
‫نیکیوں کے بتھےن میں ایسااہم کردار ادا کرتی ےہ جیسے اناج کے بتھےن میں موسم کردار‬
‫ادا کرتا ےہ‪ ،‬چوں کہ روزوں کے مہیےن میں ً‬
‫تقریبا ہر مسلمان روزہ رکھتا ےہ۔ اس لےی‬
‫نیکیوں کی ایسی فضا قائم ہوتی ےہ ‪ ،‬جس میں نیکیاں بتھتی رہتی ہیں اور برائیاں قابو‬
‫میں رہتی ہیں۔ یہی بات نبی کریم ؐ نے اس طرح ارشاد فرمائی‪" :‬جس وقت رمضان (کا‬
‫مہینہ) داخل ہوتا ےہ تو جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند‬
‫ہوجاتے ہیں"‬
‫‪2‬۔ہمدردی اور غمخواری کے جذبے کا پیدا ہونا‬
‫جب تک کوئی شسص کسی کیفیت سے نہیں گزرتا تو اسے اس کیفیت سے گزر نےوالے‬
‫شسص کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ جس شسص نے زندگی میں کبھی سفر نہ کیا ہو‪،‬‬
‫اسے مسافر کی قدر نہیں ہوگی‪ ،‬جو شسص زندگی میں بیمار نہ ہوا ہو‪ ،‬اسے بیمار کا‬
‫ص یح احساس نہیں ہوگا۔اسی طرح جس نے زندگی میں بھوک اور پیاس کا ذائ قہ نہ‬
‫چکھا ہو‪ ،‬اس کو بھوکے اور پیاسے کا احساس بھی مکمل طور پر نہیں ہوگا۔ کیونکہ‬
‫کسی کے سو ِز جیر کو سمجھےن کے لےی خود سو ِز جیر میں مبتال ہونا ضروری ےہ۔‬
‫رمضان کے مہیےن میں غریبوں کے ساتھ ساتھ امیر بھی بھوک وپیاس برداشت کرتے‬
‫ہیں۔ اس لےی انہیں بھوکوں اور پیاسوں کا احساس ہوتا ےہ اور ان میں ہمدردی اور‬
‫غمسواری کے جذبات پیدا ہوتے ہیں‪ ،‬اسی لےی تو حضور ؐ نے ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫وھو شھر المواساۃ "رمضان کا مہینہ ہمدردی اور غمسواری کا مہینہ ےہ "‬
‫حضرت عبد ہللا بن عباس رضی ہللا عنھما سے روایت ےہ‪ :‬اپ ﷺ کی سساوت‬
‫ہمیشہ عام ہوتی تھی لیکن رمضان کے مہیےن میں اپ ؐ کی سساوت تیز ہوا‬
‫سے بھی تیز تر ہوتی تھی ۔‬
‫یہی سبب ےہ کہ اج بھی مسلمانوں میں دوسرے مہینوں کی بنسبت رمضان‬
‫کے مہیےن میں زیادہ سساوت دیکھی جاتی ےہ۔‬
‫‪3‬۔انسانی مساوات کا عملی مظاہرہ‬
‫روزہ انسانی مساوات کے شعور کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بناتا ےہ۔ اس مہیےن میں‬
‫ً‬
‫امیر‪،‬و غریب‪ ،‬حاکم ‪،‬و م کوم‪ ،‬عام و خا تقریبا سب مسلمان ایک ہی حالت میں‬
‫گزارتے ہیں ۔ سب کے چہروں پر ہللا ٰ‬
‫تعالی کی حاکمیت اور اپنی م کومیت واضح نظر‬
‫اتی ےہ۔ یہ صورت حال اونچ نیچ کے تصور کو ختم کرنے میں مدد گار ابت ہوتی ےہ۔‬
‫اسی طرح یہ صورت حال ا ن میں یہ احساس پیدا کرتی ےہ کہ اگر تم سب کی بھوک دور‬
‫نہیں کرسک تو کم ازکم خود بھوکا رہ کر ان کے ساتھ یکجہتی تو اختیار کر سک ہو ۔‬
‫جیسے حضور اکرم ﷺعید الفطر پر کچھ کھا پ ی کر ِ‬
‫نماز عید کے لےی نکل تھے ‪ ،‬لیکن‬
‫عید االض ٰی پر بھوکے پیاسے جاتے تھے۔‬
‫اس کا سبب یہ تھا کہ عید الفطر پر لوگوں کو صدقہ فطر ملتا تھا‪ ،‬اس لےی وہ کھا پ ی کر‬
‫عید الفطر کی نماز کے لےی اتے تھے‪ ،‬لیکن چونکہ عید االض ٰی پر قربانی کے گوشت کے‬
‫عالوہ اور کچھ لوگوں کو نہیں ملتا تھا‪ ،‬اس لےی مدینہ کے کچھ مسکین لوگ بھوکے ہی‬
‫عید االض ی کی نماز کے لےی اتے تھے۔ جب انہیں عید نماز کے بعد قربانی کا گوشت ملتا‬
‫تھا تب کھاتے تھے۔ ا ؐپ نے دیکھا کہ اگر میں مدینہ کے سب مسکینوں کو کھال نہیں‬
‫سک تا تو کم از کم ان کے ساتھ بھوکا تو رہ سک تا ہوں ۔ " میں کیسے نمک چکھوں ‪ ،‬کہ‬
‫میرے ہم وطن روزانہ روزے سے رہ ہیں"‬
Q&As

You might also like