You are on page 1of 4

‫رمضان اور پاکستانی عوام‬

‫رمضان کریم کا با برکت مہینہ اپنی تمام تر رحمتوں اور برکتوں کے ساتھ وارد ہوا چاہتا ہے۔اس‬
‫کی تیاری کا اہتمام تو ما ِہ رجب سے ہی شروع ہو جاتا ہے لیکن اس کے اصل رنگ تو ماہ ِرمضان‬
‫میں ہی نظر آتے ہیں ‪،‬جب اشیائے خور دو نوش سے لیکر کپڑوں ‪،‬جوتوں‪،‬چوڑیوں اور زیورات‬
‫تک اور گھر کے ضروری سامان سے لے کر آرائش و زیبائش کی تمام اشیاء آسمان سے باتیں‬
‫کرتی ہیں اور صارفین مہنگائی کا گلہ شکوہ کر نے کے باوجود خریدتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ‬
‫کیا کریں مجبوری ہے !ہمارے اسالف تو روزے اور زہد و تقو ٰی کی تیاری کرتے تھے کہ رب کو‬
‫راضی کر کے زیادہ سے زیادہ رحمتیں اور برکتیں سمیٹ سکیں۔‬
‫یوں تو ہمیشہ ہی ٹی وی پر رمضان کے حوالے سے پروگرام نشر ہوتے رہے تھے مگر زیادہ تر‬
‫تراویح‪،‬تہجد‪،‬ختم قرآن اور عبادات کی طرف رہتاتھا ۔لیکن ‪ 2012‬میں پہچان‬
‫ِ‬ ‫لوگوں کا رجحان‬
‫رمضان کے نام سے سحر اور افطار کا انتہائی منفرد پروگرام کا آغاز ہوا اور لوگوں کو کوئز کے‬
‫انتہائی غیر معیاری اور بچکانہ سواالت پر بیشمار قیمتی انعام و اکرام سے نوازا گیا۔اس پروگرام‬
‫کو بہت پذیرائی ملی چنانچہ دیگر چینلز نے بھی اسی ٹکر کے پروگرام بنانے کے لئے اپنی کاوشیں‬
‫شروع کردیں۔ پھر یہی ریت ‪ 2013‬اور ‪ 2014‬میں بھی چلتی رہی۔ نت نئے تراش خراش کے‬
‫ملبوسات میں سجے سنورے ‪،‬ڈراموں اور فلموں کے اداکار اور اداکاراو ں کی معارفت سے انعامی‬
‫سواالت کا نہ ختم ہونے واال سلسلہ شروع کیا گیا تاہم سواالت کا معیار پست سے پست تر ہوتا چال‬
‫گیا۔‬
‫اس طرح‪ 2012،‬سے رمضان ٹرا نسمشن میں انعامی پروگراموں کی جو داغ بیل ڈالی گئی تھی وہ‬
‫اب کسی متعدی مرض کی طرح ہماری عوام میں پھیل چکی ہے جس کی روک تھام اب ناممکن سی‬
‫ہو گئی ہے۔اب چاند رات سے آخری روزے تک لوگوں کی لمبی قطاریں سحری کے داخلہ ٹکٹ‬
‫لینے کے لئے رات دو بجے سے اور افطار کے ٹکٹ حاصل کرنے کے لئے دوپہر تین بجے سے‬
‫ب خواہش یا‬ ‫سڑکوں پر ایستادہ نظر آتے ہیں۔ٹکٹ حاصل کرنے والے خوش نصیب افراد اپنے حس ِ‬
‫شرف نگاہ پاتے ہی گاڑی ‪ ،‬بائیک اور خاندان بھر کے‬ ‫ِ‬ ‫ب ضرورت ‪،‬مہربان میزبان کی‬ ‫پھر حس ِ‬
‫لئے موبائل مانگنے میں کو ئی عار محسوس نہیں کرتے حاالنکہ زیادہ تر کا تعلق متمول خاندا‬
‫نوں سے ہوتا ہے۔وہاں مرد و عورت کا باہمی اختالط‪ ،‬نماز کے لئے مناسب جگہ کی عدم فراہمی‬
‫ت افطار انتہائی‬ ‫اور نماز کے لئے باہر جانے پہ پابندی نماز قضاء کرنے کا موجب بنتی ہے لیکن بوق ِ‬
‫خشوع و خضوع اور رقت انگیز دعا ئیں گویا نمازوں کی قضاء کا کفارہ بن جاتی ہے ۔ پھر وقفے‬
‫کے دوران حاضرین مفت شربت کی بوتلیں اور افطاری کے لوازمات سمیٹنے کے بعد انتہائی ہتک‬
‫آمیز قسم کے انعامی مقابلوں میں شامل ہوتے ہیں جس کا پوری زندگی تصور تک نہیں کیا ہوتا مثال‬
‫گانے کی دھ ن پہ ناچنا‪ ،‬بغیر ہاتھ استعمال کئے کیک کھانا‪ ،‬منہ سے گیند پکڑ کر باسکٹ میں ڈالنا‬
‫‪،‬آنکھوں پہ کپڑا باندھ کے انعامی کارڈ تالش کرنا اور اسی طرح کے بیہودہ کھیل وغیرہ۔پھر میزبان‬
‫اداکار کے اشارے کنائے‪،‬طنزآمیز اور تحقیر آمیز جملے اور بھونڈا مذاق اچھے بھلے آدمی کی‬
‫عزت کا جنارہ نکال دیتے ہیں۔‬
‫ان میں جیتنے والے افراد تو انعامی رقوم‪ ،‬بائیک‪ ،‬کار یا دیگر الیکٹرونک اشیاء کے حقدار قرار پاتے‬
‫ہیں اور ٹی وی دیکھنے والی عوام کا دل بھی للچاتے ہیں مگر مزے کی بات یہ ہے کہ آن دا‬
‫ریکارڈ تو انعام مل جاتا ہے مگر آف دا ریکارڈ انعامی رقوم پہ بھاری ٹیکس لگتا ہے اور بائیک‬
‫اور کار کے لئے کئی ماہ چکر لگانے کے بعد بھی انکا ملنا تو درکنار چند ہزار روپے تک نہیں‬
‫ملتے!‬
‫ان پروگراموں کے توسط سے ایک اور منفی رویہ جو عوام الناس میں رواج پا رہا ہے وہ اللچ اور‬
‫ہللا کی بے حد نا شکری ہے۔ہر پروگرام کا میزبان ایک گرام سونے سے دس تولے سونا ‪،‬عمرے کا‬
‫ٹکٹ اور بعض پروگراموں میں تو ڈائمنڈ جولری ایسے دیتا ہے جیسے ریوڑریاں بانٹ رہا ہو۔اب‬
‫جس کے انعام میں ایک تولہ سونا نکال ‪،‬اس کا منہ بن جاتا ہے کہ دس تولہ نکلنا چاہیے تھا‪ ،‬اسی‬
‫طرح ایک عمرے کا ٹکٹ ناکافی ہوتا ہے ۔جنکا فریج‪،‬فریزر‪،‬ایل۔ای۔ڈی‪ ،‬جنریٹر ‪ ،‬یاکراکری کا آئیٹم‬
‫کف‬
‫نکلتا ہے وہ بائیک نہ ملنے پہ منہ بسورتے ہیں اور جن کو بائیک ملتی ہے وہ کار نہ ملنے پہ ِ‬
‫افسوس مل رہے ہوتے ہیں۔ کوئی انعام حاصل نہ کرنے والے بد نصیب لوگ دوبارہ چانس ملنے کے‬
‫طالب ہو تے ہیں۔ تقسیم انعامات کے وقت لوگ ایک دوسرے سے چھینا چھپٹی کرتے ہیں‪،‬شور و‬
‫ہنگامہ کرتے ہیں حاالنکہ روزہ دار کو ان سارے خرافات ‪،‬لہو ولہب ‪،‬شور اور ہنگامے سے منع کیا‬
‫گیا۔‬
‫حضرت ابوہریرہ نبی کریمﷺکایہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں کہ‪:‬‬
‫"جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو اُسے چاہیئے کہ کوئی فحش بات نہ کرے اور نہ شور مچائے‪،‬‬
‫اگر کوئی شخص اُسے گالی دے یا جھگڑا کرے تو کہہ دے کہ میں روزہ دار آدمی ہوں۔"(بخاری)۔‬
‫حضرت ابوہریرہ سے َمروی ہے کہ نبی کریمﷺ اِرشاد فرماتے ہیں‪:‬‬
‫"بیشک میری ا ّمت ہر گز ذلیل نہیں ہوگی جب تک وہ رمضان المبارک کے روزوں کو قائم رکھے گی‬
‫۔کسی نے دریافت کیا یا رسول ہللا!رمضان کے مہینے کو ضائع کرنے میں لوگوں کی ذلّت کیا ہے؟آپﷺ‬
‫نےاِرشادفرمایا رمضان کے مہینے میں حرام کاموں کا ارتکاب کرنا۔"‬
‫اب اگر کوئی روزے کی حالت میں جائز لذتوں کوتو ترک کردے اورجھوٹ ‪،‬غیبت‪ ،‬بدنظری ‪،‬فحش‬
‫گوئی‪،‬لہوولعب جیسی حرام لذتوں کوحاصل کرنے میں لگارہے تو ظاہر ہے کہ اُسے روزے کی حقیقت اور‬
‫کیسےرسائی ہوسکتی ہے ‪ ،‬اِسی لئے تو نبی کریمﷺنے ایسے لوگوں کے بارے میں اِرشاد فرمایا‬
‫َ‬ ‫مقصد تک‬
‫ہے؛‬
‫"کتنے ہی روزہ رکھنے والے ایسے ہیں جنہیں اُن کے روزے سے سوائےبھوک کے کچھ بھی حاصل نہیں‬
‫ہوتا۔"(سنن ابن ماجہ)‬
‫قاب ِل افسوس بات تو یہ ہے کہ ان پروگراموں نے عوام الناس کو بھکاری بنا دیا ہے۔ ہر روز کسی‬
‫بےکس اور مجبور کا انٹرویو اور اس کے عالج اور امداد کے لئے زکوۃ کے نام پہ بولیاں لگانا ‪،‬‬
‫مخیر حضرات سے زیادہ سے زیادہ رقم حاصل کرنا اور آن ا یئر ان کی تعریف میں میزبان کا‬
‫رطب اللسان ہونا ریا کاری اور منافقت کا عملی اظہار ہے ۔ حاالنکہ کسی کی مدد کرنے کے لئے‬
‫یہ حکم دیا گیا ہے کہ دوسرے ہاتھ کو بھی پتہ نہ چلے۔پورے سال میں ایک ما ِہ صیام ہی تو تھا‬
‫جس میں ہللا سے لو لگانے کی توفیق ملتی تھی وہ اب ان پروگراموں کے ٹکٹ حاصل کرنے کی‬
‫با جماعت نوافل کا اہتمام اور‬ ‫ب قدر میں تمام رات‬‫تگ و دو میں گزر جاتی ہے۔پھر ش ِ‬
‫میالد النبی ﷺ کا انعقاد عوام کو بدعت میں مبتال کر رہا ہے جس کے بارے میں قو ِل رسول ﷺ ہے‬
‫کہ ‪:‬‬
‫"سب سے اچھی بات کتاب ہللا اور سب سے اچھا طریقہ رسولﷺ کا طریقہ ہے ۔اور سب سے بری‬
‫بات (دین میں) نئی بات (بدعت) پیدا کرنا ہے۔"(صحیح بخاری)‬
‫سرکار دو عالم نے ارشاد فرمایا‬
‫ِ‬ ‫حضرت عائشہ صدیقہ رضی ہللا تعال ٰی عنہا روایت کرتی ہیں کہ‬
‫‪":‬جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی نئی بات نکالی جو اس میں نہیں ہے تو وہ مردود ہے‬
‫"۔(مشکوۃ )‬
‫اس کے بعد اندہیرے ہال میں ‪،‬ایکو سسٹم پر آوازیں بنا کر رونے کی نقل کرتا ہوا رقت کی وجہ‬
‫سے ہچکیاں لیتا ہوا میزبان تمام شرکاء محفل کو رال کر بعد میں ان سے داد و تحسین وصول‬
‫کرتا ہے۔یعنی اب لوگ دعا کے لئے بھی کسی ٹی وی اداکار کے محتاج ہوگئے ہیں اور ان کے پاس‬
‫دعا کے لئے نہ اپنے الفاظ بچے ہی‪،‬نہ جذبات‪،‬اور نہ ہی آنسو!‬
‫المناک بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں پروان چڑھتی یہ بھیڑ چال عوام کو دیمک کی طرح چاٹ‬
‫رہی ہے اور ہماری دینی اقدار کو کھوکھال کر رہی ہے۔‬
‫طرزعمل ہونا چاہیے؟‬
‫ِ‬ ‫سوال صرف اتنا سا ہے کہ کیا یہ ایک مسلمان کا‬
‫روزے کی فضیلت و اہمیت کے باب میں احادیث و سنن میں بیشمار مرویات موجود ہیں۔‬
‫ث قدسی میں ہے ‪،‬ہللا تعال ٰی اِرشاد فرماتے ہیں‪،‬‬ ‫ایک حدی ِ‬
‫ابن آدم کا ہر عمل اُس کیلئے ہے (یعنی اُس میں اُس کی ذاتی کوئی غرض شامل‬ ‫"روزہ کے عالوہ ِ‬
‫ہوسکتی ہے)لیکن روزہ میرے لئے ہی ہے اور میں خود اس کا بدلہ دوں گا۔"(بخاری)‬
‫ایک روایت میں ہے آپﷺنے اِرشاد فرمایا ‪،‬‬
‫"بیشک تمہارا پروردگار فرماتا ہے کہ ہر نیکی کا اجر دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک ملتا ہے‬
‫اور روزہ میرے لئے ہے میں خود اِس کا اجر دوں گا"۔(ترمذی)‬
‫وہ تو بہانے بہانے سے عطا کر نے کو تیار ہے اور بدلے میں کچھ چاہتا بھی نہیں۔کیا اس کے بندے‬
‫ایسے گئے گزرے ہو گئے کہ اس کے بدلے میں اخالص کے ساتھ اس کے آگے ہاتھ بھی نہ‬
‫پھیالئیں؟کسی اور سے آس لگا کر شرک کے مرتکب نہ ہوں؟ وہ تو اس قدر مہربان ہے کہ اسے روزہ‬
‫دار کے منہ کی بدبو مشک و عنبر سے زیادہ پیاری ہے ۔روزہ کی مشقت اٹھانے والوں کے لیے اس‬
‫نے کتنے انعام رکھے ہیں۔‬
‫نبی کریمﷺاِرشاد فرماتے ہیں"اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (ﷺ ) کی جان ہے!روزہ دار‬
‫کے منہ کی بد بو ہللا کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ بہتر ہے۔ روزہ دار کو دو خوشیاں‬
‫حاصل ہوں گی ۔(ایک تو جب) وہ افطار کرتا ہے تو خوش ہوتا ہے اور( دوسرے ) جب وہ اپنے رب‬
‫سے مالقات کرے گا تو اپنے روزے کا ثواب پا کر خوش ہو گا۔"(صحیح بخاری)‬
‫ضعف ایمان کا یہ عالم ہے کہ زرا زیادہ گرمی پڑی نہیں اور ہیٹ اسٹروک کے‬ ‫ِ‬ ‫اور بندوں کے‬
‫بہانے روزے چھوڑ د یئے۔یہ علت تو انتہائی صورت میں لگائی گئی تھی اور صرف کمزوروں یا‬
‫بیماروں کے لئے تھی مگر اس کا فائدہ انہوں نے بھی اٹھایا جو اس کے قطعامکلف نہ تھے۔‬
‫ارشاد رسولﷺ ہے؛"جس نے رمضان کا ایک روزہ بھی بغیر کسی رخصت اور بیماری کے ترک‬
‫کردیا تو ساری زندگی بھی وہ روزہ رکھے تو اُس کو پورا نہیں کرسکتا"۔(ترمذی)‬
‫چاند رات کا اعالن ہوتے ہی عام خلقت کا وطیرہ بال مقصد بازاروں کے دھکے کھانا ہے۔حاالنکہ‬
‫چاند رات کی بھی بڑی فضیلت ہے ۔‬
‫تعالی فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺنے اِرشاد فرمایا ‪" :‬جس نےعیدین (عید الفطر‬
‫ٰ‬ ‫حضرت ابوامامہ رضی ہللا‬
‫تعالی سے اجر و ثواب کی امید رکھتے ہوئے عبادت میں قیام کیا‬
‫ٰ‬ ‫اور عید االضحی)کی دونوں راتوں میں ہللا‬
‫اُس کا دل اُس دن مردہ نہیں ہوگا جس دن سب کے دل ُمردہ ہوجائیں گے"‬
‫چاند رات جس کو لیلۃالجائزہ کہا جاتا ہے ‪،‬کو عبادت نہ کر نے والوں کی مثال اس مزدور جیسی ہے‬
‫جس نے تمام ماہ مزدوری کی لیکن جب اجرت ملنے کا وقت آیا تو وہ اجرت لینے ہی نہیں آیا‬
‫۔مالک تو دینے پر راضی ہے پر لینے واال ہی تیار نہیں!یہ کیسی عجیب روش ہم نے اختیا ر کر لی‬
‫ہے کہ ہللا کی رضا کے حصول کے بجائے اور آخرت میں کامیابی کی کو شش کے بجائے یہ فانی‬
‫دنیا ہی ہماری متاعِ کل بن گئی ہے!افسوس صد افسوس!‬
‫بحیثیت مسلمان ہمارا کردار تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ اس ماہ تمام انواع و اقسام کی اشیاء کم سے‬
‫کم قیمت میں مختض کر دی جاتیں تاکہ نادار افراد کا طبقہ بھی طمانیت کی سانس لیتا‪ ،‬رحم ‪،‬عفو‬
‫درگزر ‪،‬ہمدردی‪ ،‬حقوق ہللا کا ہر سو چرچا ہوتا ‪،‬حقوق العباد کا چہار دانگ ڈنکا بجتا‪،‬اور ہمارا‬
‫معاشرہ رسول ہللا ﷺ کی قائم کردہ معاشرتی صفات کا حامل ہوتا مگر یہ سب باتیں تو کسی دیوانے‬
‫کا خواب معلوم ہوتی ہیں جس کی تعبیر نہیں ملتی!‬
‫ایک طرف تو یہ مایوس کن دل گیر صورتِحال ہے لیکن دوسری طرف ہمیں سب سے زیادہ‬
‫رمضان کا اہتمام بھی پاکستان میں نظر آتا ہے۔ ایسا طبقہ بھی یہاں موجود ہے جو سحر اور افطار‬
‫کا اہتمام کرتا ہے اور بےدریغ ہللا کی رضا اور خوشنودی کے لئے خرچ کرتا ہے۔عالمگیر ٹرسٹ ‪،‬‬
‫ایدھی اور چھیپا ‪ ،‬پاکستان ویلفیئر ایسو سیئیشن اور دیگر اداروں کے ذریعے کتنے لوگوں کے‬
‫لئے روز دسترخوان سجایا جاتا ہے‪،‬مساجد میں بھی افطار کا بندوبست کیا جاتا ہے‪ ،‬ضرورت مندوں‬
‫زکوۃ اور خیرات کی کثیر رقم خرچ کی جاتی ہے ۔‬ ‫اور بیماروں کے لئے عالج اور دواوں کے لئے ٰ‬
‫ٹریفک جام کے دوران اگر افطار کا وقت ہو جائے تو جگہ جگہ لوگ کھڑے ہو جاتے ہیں اور‬
‫پانی‪،‬شربت اور کھجور تقسیم کرتے ہیں۔مساجد اور پارکوں میں تراویح کا اہتمام اور بہترین قرات‬
‫کی آوازیں تمام شہر کی فضا نورانی تجلیات سے بھر دیتی ہیں اور رب کی رحمتیں چہارسو‬
‫مح ِورقص نظر آتی ہیں ۔روزہ داروں کے لئے یہ انتظام اور عبادتوں کا اہتمام اس بات کا اعالن کرتا‬
‫ت ویراں سے مایوس نہیں ہوا ہے!‬ ‫ہے کہ ابھی اقبال اس کش ِ‬
‫نوٹ؛یہ ایک عمومی تجزیہ ہے اور مختلف پروگراموں میں شریک لوگوں کے تجربات پر مبنی ہے‬
‫۔اسکا مقصد عوام میں آگاہی اور شعور بیدار کرنا ہے کہ اگر وہ ایسا کر رہے ہیں تو خود بھی بچیں‬
‫اوروں کو بھی روکیں کیونکہ رمضان کا احترام اس بات کا متقاضی ہے کہ فضول اور بیہودہ‬
‫کاموں سے بچا جائے اور دنیا کے بجائے ہللا سے لو لگائی جائے۔‬
‫وجیہہ بصیر‬

You might also like