Professional Documents
Culture Documents
اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کے بارے میں ایک عاما غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ ان کی وجہ ساے برصغیر پاک
وہند میں بدعات کو فروغ حاصل ہوا اور دین میں ایسی نئی نئی باتیں پیدا ہوئیں جن ساے شارع علیہ السلما کا دور کا بھی واساطہ نہیں
رہا۔۔۔ لیکن جب ہم اماما احمد رضا علیہ الرحمہ کی تحریروں اور خاص طور پر ان کے فتاویی کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے
کہ بدعات کو فروغ دینے کا الزاما نہ صرف یہ کہ غلط ہے بلکہ ساراسار ان ساے عدما واقفیت کا نتیجہ ہے۔
کھلے ذہن و دماغ کے سااتھ اماما اہلسنت علیہ الرحمہ کی تحریروں اور فتاویی کے مطالعہ ساے اماما اہلسنت کی جو تصویر ہمارے
ساامنے آتی ہے وہ ایک ایسے داعی اور دینی رہنماکی ہے جس نے اپنے زمانے میں شدت کے سااتھ اور باضابطہ طور پر بدعات و
منکرات کے خلف تحریک چل رکھی تھی اور اپنے مخصوص مزاج کے مطابق ان کے خلف بڑے ہی ساخت الفاظ اساتعمال کئے
ہیں۔
لہذا ہم اس کتاب میں ان تماما غیر شرعی رساومات اور وہ خرافات جن کی نسبت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کی
طرف جاتی ہے‘ آپ ہی کی کتب ساے اس کی مخالفت ثابت کریں گے تاکہ عاما مسلمانوں پر یہ واضح ہوجائے کہ ان تماما خرافات اور
بدعات کا اماما احمد رضا علیہ الرحمہ اور ان کے ساچے مسلک ساے کوئی تعلق نہیں۔
اس کتاب کو پڑھنے کے بعد اپنی غلط گمانی کا محاسابہ کریں نیز اندازہ لگائیں کہ انہوں نے بدعتوں کا سادباب کیا یا ان کو فروغ دیا۔
آج بھی ان کے بتائے ہوئے طریقوں پر چلنے کی کوشش کی جائے تو معاشرے میں نکھار آساکتا ہے۔ بدعات و منکرات کی بیخ کنی
کے لئے تصنیفات اماما احمد رضا علیہ الرحمہ ساے ہمیں بہت کچھ مل ساکتا ہے۔ آپ علیہ الرحمہ نے یہی پیغاما دیا اور ہر موڑ پر
اسالمی احکاما کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا سافر شوق آگے بڑھانے کی تلقین فرمائی۔
القرآن :یایھا الذین امنوا احتنبوا کثیرا من الظن ان بعض الظن اثم
ترجمہ :اے ایمان والو! بہت ساے گمانوں ساے بچو بے شک بعض گمان گناہ ہیں
)ساورۂ حجرات آیت 12پارہ (26
حدیث شریف) :برے( گمان ساے دور رہو کہ )برے( گمان ساب ساے بڑھ کر جھوٹی بات ہے۔
ایک مرتبہ اماما جعفر صادق رضی اﷲ عنہ تنہا ایک گدڑی پہنے مدینہ طیبہ ساے کعبہ معظمہ کو تشریف لے جارہے تھے اور ہاتھ
میں صرف ایک تاملوٹ )یعنی ڈونگا( تھا۔ شفیق بلخی علیہ الرحمہ نے دیکھا )تو( دل میں خیال کیا کہ یہ فقیر اوروں پر اپنا بار )یعنی
بوجھ( ڈالنا چاہتا ہے۔ یہ وساوساہ شیطانی آنا تھا کہ اماما جعفر صادق رضی اﷲ عنہ نے فرمایا! شفیق۔۔۔ بچو گمانوں ساے )کہ( بعض
گمان گناہ ہوتے ہیں۔ ناما بتانے اور وساوساہ دلی پر آگاہی ساے نہایت عقیدت ہوگئی اور اماما کے سااتھ ہولئے۔ راساتے میں ایک ٹیلے پر
پہنچ کر اماما صاحب نے اس ساے تھوڑا ریت لے کرتا ملوٹ )یعنی ڈونگے( میں گھول کر پیا اور شفیق بلخی ساے بھی پینے کو فرمایا۔
انہیں انکار کا چارہ نہ ہوا جب پیا تو ایسے نفیس لذیذ اور خوشبودار ساتو تھے کہ عمر بھر نہ دیکھے نہ سانے )عیون الحکایات‘
حکایت نمبر 131ص (150/149
شیخ السالما علمہ ساید محمد مدنی میاں کچھوچھوی فرماتے ہیں کہ محدث بریلی علیہ الرحمہ کسی نئے مذہب کے بانی نہ تھے از
اول تا آخر مقلد رہے۔ ان کی ہر تحریر کتاب و سانت اور اجماع و قیاس کی صحیح ترجمان رہی۔ نیز سالف صالحین و ائمہ مجتہدین کے
ارشادات اور مسلک اسالف کو واضح طور پر پیش کرتی رہی۔ وہ زندگی کے کسی گوشے میں ایک پل کے لئے بھی ’’سابیل مومنین
صالحین‘‘ ساے نہیں ہٹے۔ اب اگر ایسے کرنے والوں کو ’’بریلوی‘‘ کہہ دیا گیا تو کیا بریلویت و سانیت کو بالکل مترادف المعنی نہیں
قرار دیا گیا؟ اور بریلویت کے وجود کا آغاز محدث بریلی علیہ الرحمہ کے وجود ساے پہلے ہی تسلیم نہیں کرلیا گیا؟
اﷲ تعالیی کے نیک بندوں کے مزارات شعائر اﷲ ہیں‘ ان کا احتراما و ادب ہر مسلمان پر لزما ہے‘ خاصان خدا ہر دور میں مزارات
اولیاء پر حاضر ہوکر فیض حاصل کرتے ہیں۔ صحابہ کراما علیہم الرضوان اپنے مولییﷺ کے مزار پر حاضر ہوکر آپﷺ ساے فیض
حاصل کیا کرتے تھے۔۔۔ پھر تابعین کراما صحابہ کراما علیہم الرضوان کے مزارات پر حاضر ہوکر فیض حاصل کیا کرتے تھے‘ پھر
تبع تابعین‘ تابعین کراما کے مزارات پر حاضر ہوکر فیض حاصل کیا کرتے تھے‘ تبع تابعین اور اولیاء کراما کے مزارات پر آج تک
عواما وخواص حاضر ہوکر فیض حاصل کرتے ہیں اور انشاء اﷲ یہ سالسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔
لدینی قوتوں کا یہ ہمیشہ ساے وطیرہ رہا ہے کہ وہ مقدس مقامات کو بدناما کرنے کے لئے وہاں خرافات و منکرات کا بازار گرما
کرواتے ہیں تاکہ مسلمانوں کے دلوں ساے مقدس مقامات اور شعائر اﷲ کی تعظیم و ادب ختم کیا جاساکے۔ یہ سالسلہ ساب ساے پہلے بیت
المقدس ساے شروع کیا گیا۔ وہاں فحاشی و عریانی کے اڈے قائم کئے گئے‘ شرابیں فروخت کی جانے لگیں اور دنیا بھر ساے لوگ
صرف عیاشی کرنے کے لئے بیت المقدس آتے تھے )معاذ اﷲ(
اسای طرح آج بھی مزارات اولیاء پر خرافات‘ منکرات‘ چرس و بھنگ‘ ڈھول تماشے‘ ناچ گانے اور رقص و سارور کی محافلیں ساجائی
جاتی ہیں تاکہ مسلمان ان مقدس ہستیوں ساے بدظن ہوکر یہاں کا رخ نہ کریں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ بعض لوگ یہ تماما خرافات
اہلسنت اور اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کے کھاتے میں ڈالتے ہیں جوکہ بہت ساخت قسم کی خیانت ہے۔
اس بات کو بھی مشہور کیا جاتا ہے کہ یہ ساارے کاما جو غلط ہیں‘ یہ اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کی تعلیمات ہیں۔
پھر اس طرح عواما الناس کو اہلسنت اور اماما اہلسنت علیہ الرحمہ ساے برگشتہ کیا جاتا ہے۔ اگر ہم لوگ اماما اہلسنت اماما احمد رضا
خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کی کتابوں اور آپ کے فرامین کا مطالعہ کریں تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ اعلیی حضرت علیہ
الرحمہ بدعات و منکرات کے قاطع یعنی ختم کرنے والے تھے۔ اب مزارات پر ہونے والے خرافات کے متعلق آپ ہی کے فرامین اور
کتابوں ساے اصل حقیقت ملحظہ کریں اور اپنی بدگمانی کو دور کریں۔
اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ مزار کا طواف کہ محض بہ نیت تعظیم کیا جائے ناجائز ہے کہ تعظیم
بالطواف مخصوص خانہ کعبہ ہے۔ مزار شریف کو بوساہ نہیں دینا چاہئے۔ علماء کا اس مسئلے میں اختلف ہے مگر بوساہ دینے ساے
بچنا بہتر ہے اور اسای میں ادب زیادہ ہے۔ آساتانہ بوسای میں حرج نہیں اور آنکھوں ساے لگانا بھی جائز کہ اس ساے شرع میں ممانعت
نہ آئی اور جس چیز کو شرح نے منع نہ فرمایا وہ منع نہیں ہوساکتی۔ اﷲ تعالیی کا فرمان ’’ان الحکم ال اﷲ‘‘ ہاتھ باندھے الٹے پاؤں آنا
ایک طرز ادب ہے اور جس ادب ساے شرح نے منع نہ فرمایا اس میں حرج نہیں۔ ہاں اگر اس میں اپنی یا دوسارے کی ایذا کا اندیشہ ہو
تو اس ساے احتراز )بچا( کیا جائے
اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں کہ خبردار جالی شریف )حضورﷺ کے مزار شریف کی
ف ادب ہے بلکہ )جالی شریف( ساے چار ہاتھ فاصلہ ساے زیادہ قریب نہسانہری جالیوں( کو بوساہ دینے یا ہاتھ لگانے ساے بچو کہ خل ف
جاؤ۔ یہ ان کی رحمت کیا کم ہے کہ تم کو اپنے حضور بلیا‘ اپنے مواجہ اقدس میں جگہ بخشی‘ ان کی نگاہ کرما اگرچہ ہر جگہ
تمہاری طرف تھی اب خصوصیت اور اس درجہ قرب کے سااتھ ہے )فتاویی رضویہ جدید جلد 10ص ‘765مطبوعہ جامعہ نظامیہ
لہور(
روضہ انور پر طواف و ساجدہ منع ہے
اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں روضہ انور کا طواف نہ کرو‘ نہ ساجدہ کرو‘ نہ اتنا جھکنا
کہ رکوع کے برابر ہو۔ حضور کریمﷺ کی تعظیم ان کی اطاعت میں ہے۔
)فتاویی رضویہ شریف جدید جلد 10ص 769مطبوعہ جامعہ نظامیہ لہور(
معلوما ہوا کہ مزارات پر ساجدہ کرنے والے لوگ جہل میں ساے ہیں اور جہلء کی حرکت کو تماما اہلسنت پر ڈالنا ساراسار خیانت ہے‘
اور اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کی تعلیمات کے خلف ہے۔
اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ساے مزارات پر چادر چڑھانے کے متعلق دریافت کیا تو جواب دیا جب
چادر موجود ہو اور ہنوز پرانی یا خراب نہ ہوئی کہ بدلنے کی حاجت ہو تو بیکار چادر چڑھانا فضول ہے بلکہ جو داما اس میں صرف
کریں اﷲ تعالیی کے ولی کی روح مبارک کو ایصال ثواب کے لئے محتاج کو دیں )احکاما شریعت حصہ اول ص (42
اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ساے پوچھا گیا کہ بزرگان دین کے اعراس کی تعین )یعنی عرس کا دن مقرر
کرنے( میں بھی کوئی مصلحت ہے؟
آپ ساے جوابا ا ارشاد فرمایا ہاں اولیائے کراما کی ارواح طیبہ کو ان کے وصال کے دن قبور کریمہ کی طرف توجہ زیادہ ہوتی ہے
چنانچہ وہ وقت جو خاص وصال کا ہے۔ اخذ برکات کے لئے زیادہ مناساب ہوتا ہے۔ )ملفوظات شریف ص ‘383مطبوعہ مکتبتہ المدینہ
کراچی(
عرس میں آتش بازی اور نیاز کا کھانا لٹانا حراما ہے
ساوال :بزرگان دین کے عرس میں شب کو آتش بازی جلنا اور روشنی بکثرت کرنا بل حاجت اور جو کھانا بغرض ایصال ثواب پکایا
گیا ہو۔ اس کو لٹانا کہ جو لوٹنے والوں کے پیروں میں کئی من خراب ہوکر مٹی میں مل گیا ہو‘ اس فعل کو بانیان عرس موجب فخر
اور باعث برکت قیاس کرتے ہیں۔ شریعت عالی میں اس کا کیا حکم ہے؟
جواب :آتش بازی اساراف ہے اور اساراف حراما ہے‘ کھانے کا ایسا لٹانا بے ادبی ہے اور بے ادبی محرومی ہے‘ تصنیع مال ہے اور
تصنیع حراما۔ روشنی اگر مصالح شرعیہ ساے خالی ہو تو وہ بھی اساراف ہے )فتاویی رضویہ جدید جلد 24ص ‘112مطبوعہ رضا
فاؤنڈیشن لہور(
ساوال :تقویۃ الیمان مولوی اسامعیل کی فخر المطابع لکھنؤ کی چھپی ہوئی کہ صفحہ 329پر جو عرس شریف کی تردید میں کچھ نظم
ہے اور رنڈی وغیرہ کا حوالہ دیا ہے‘ اساے جو پڑھا تو جہاں تک عقل نے کاما کیا ساچا معلوما ہوا کیونکہ اکثر عرس میں رنڈیاں ناچتی
ہیں اور بہت بہت گناہ ہوتے ہیں اور رنڈیوں کے سااتھ ان کے یار آشنا بھی نظر آتے ہیں اور آنکھوں ساے ساب آدمی دیکھے ہیں اور
طرح طرح کے خیال آتے ہیں۔ کیونکہ خیال بدونیک اپنے قبضہ میں نہیں‘ ایسی اور بہت سااری باتیں لکھی ہیں جن کو دیکھ کر تسلی
بخش جواب دیجئے؟
جواب :رنڈیوں کا ناچ بے شک حراما ہے‘ اولیائے کراما کے عرساوں میں بے قید جاہلوں نے یہ معصیت پھیلئی ہے )فتاویی رضویہ
جدید جلد 29ص ‘92مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لہور(
اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ساے ساوال کیا گیا کہ مجلس ساماع میں اگر مزامیر نہ ہوں )اور( ساماع جائز
ہو تو وجد والوں کا رقص جائز ہے یا نہیں؟
آپ نے جوابا ارشاد فرمایا کہ اگر وجد صادق )یعنی ساچا( ہے اور حال غالب اور عقل مستور )یعنی زائل اور اس عالم ساے دور تو اس
پر تو قلم ہی جاری نہیں۔
اور اگر بہ تکلف وجد کرتا ہے تو ’’تشنی اور تکسر‘‘ یعنی لچکے توڑنے کے سااتھ حراما ہے اور بغیر اس کے ریا و اظہار کے لئے
ہے تو جہنم کا مستحق ہے اور اگر صادقین کے سااتھ تشبہ بہ نیت خالصہ مقصود ہے کہ بنتے بنتے بھی حقیقت بن جاتی ہے تو حسن و
)محمود ہے حضور کریمﷺ فرماتے ہیں کہ جو کسی قوما ساے مشابہت اختیار کرے وہ انہی میں ساے ہے
اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ مزامیر یعنی آلت لہو و لعب بروجہ لہو و لعب بلشبہ حراما
ہیں جن کی حرمت اولیاء و علماء دونوں فریق مقتداء کے کلمات عالیہ میں مصرح‘ ان کے ساننے سانانے کے گناہ ہونے میں شک نہیں
کہ بعد اصرار کبیرہ ہے اور حضرات علیہ ساادات بہثت کبرائے سالسلہ عالیہ چشت کی طرف اس کی نسبت محض باطل و افتراء ہے
)فتاویی رضویہ جلد دہم ص (54
اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ نشہ بذاتہ حراما ہے۔ نشہ کی چیزیں پینا جس ساے نشہ بازوں
کی مناسابت ہو اگرچہ حد نشہ تک نہ پہنچے یہ بھی گناہ ہے ہاں اگر دوا کے لئے کسی مرکب میں افیون یا بھنگ یا چرس کا اتنا جز
ڈال جائے جس کا عقل پر اصل اثر نہ ہو حرج نہیں۔ بلکہ افیون میں اس ساے بھی بچنا چاہئے کہ اس خبیث کا اثر ہے کہ معدے میں
ساوراخ کردیتی ہے۔ )احکاما شریعت جلد دوما(
تصاویر کی حرمت
اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ جاندار کی تصویریں بنانا ہاتھ ساے ہو خواہ عکسی حراما ہے
اور ان معبود ان کفار کی تصویریں بنانا اور ساخت تر حراما و اشد کبیرہ ہے‘ ان ساب لوگوں کو اماما بنانا گناہ ہے اور ان کے پیچھے
نماز مکروہ تحریمی قریب الحراما ہے۔ )فتاویی رضویہ جلد ساوما ص (190
اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ مسلمان اے مسلمان! اے شریعت مصطفوی کے تابع فرمان!
جان اور یقین جان کہ ساجدہ حضرت عزت عز جللہ )رب تعالیی( کے ساوا کسی کے لئے نہیں غیر اﷲ کو ساجدہ عبادت تو یقیناااجماعا ا
شرک مہین و کفر مبین اور ساجدہ تحیت )تعظیمی( حراما و گناہ کبیرہ بالیقین۔ )الزبدۃ الزکیہ لتحریم ساجود التحیہ‘ ص 5مطبوعہ بریلی
ہندوساتان(
چراغ جلنا
اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ساے قبروں پر چراغ جلنے کے بارے میں ساوال کیا گیا تو شیخ عبدالغنی
نابلسی علیہ الرحمہ کی تصنیف حدیقہ ندیہ کے حوالے ساے تحریر فرمایا کہ قبروں کی طرف شمع لے جانا بدعت اور مال کا ضائع
کرنا ہے )اگرچہ قبر کے قریب تلوت قرآن کے لئے موما بتی جلنے میں حرج نہیں مگر قبر ساے ہٹ کر ہو(
اس کے بعد محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں یہ ساب اس صورت میں ہے کہ بالکل فائدے ساے خالی ہو اور اگر شمع روشن
کرنے میں فائدہ ہو کہ موقع قبور میں مسجد ہے یا قبور سار راہ ہیں‘ وہاں کوئی شخص بیٹھا ہے تو یہ امر جائز ہے )البریق المنار
بشموع المزار ص 9مطبوعہ لہور(
ایک اور جگہ اسای قسم کے ایک ساوال کے جواب میں فرماتے ہیں اصل یہ کہ اعمال کا مدار نیت پر ہے۔ حضورﷺ فرماتے ہیں عمل
کا دارومدار نیت پر ہے اور جو کاما دینی فائدے اور دنیوی نفع جائز دونوں ساے خالی ہو عبث ہے اور عبث خود مکروہ ہے اور اس
میں مال صرف کرنا اساراف ہے اور اساراف حراما ہے۔
قال اﷲ تعالیی ول تسرفوا ان اﷲ ل یحب المسرفین اور مسلمانوں کو نفع پہنچانا بلشبہ محبوب شارع ہے۔
حضورﷺ فرماتے ہیں کہ تم میں جس ساے ہوساکے کہ اپنے بھائی کو نفع پہنچائے تو پہنچائے )احکاما شریعت حصہ اول ص 38
مطبوعہ آگرہ ہندوساتان(
اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ساے قبر پر لوبان وغیرہ جلنے کے متعلق دریافت کیا گیا تو جواب دیا گیا
عود‘ لوبان وغیرہ کوئی چیز نفس قبر پر رکھ کر جلنے ساے احتراز کرنا چاہئے )بچنا چاہئے( اگرچہ کسی برتن میں ہو اور قبر کے
قریب سالگانا )اگر نہ کسی تالی یا ذاکر یا زائر حاضر خواہ عنقریب آنے والے کے واساطے ہو( بلکہ یوں کہ صرف قبر کے لئے جل
کر چل آئے تو ظاہر منع ہے اساراف )حراما( اور اضاعیت مال )مال کو ضائع کرنا ہے( میت صالح اس عرضے کے سابب جو اس قبر
میں جنت ساے کھول جاتا ہے اور بہشتی نسیمیں )جنتی ہوائیں( بہشتی پھولوں کی خوشبوئیں لتی ہیں۔ دنیا کے اگر اور لوبان ساے غنی
ہے )السنیۃ النیقہ ص 70مطبوعہ بریلی ہندوساتان(
:اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں ساوال کیاگیا
مسئلہ :کسی ولی کا مزار شریف فرضی بنانا اور اس پر چادر وغیرہ چڑھانا اور اس پر فاتحہ پڑھنا اور اصل مزار کا ساا ادب و لحاظ
کرنا جائز ہے یا نہیں؟ اور اگر کوئی مرشد اپنے مریدوں کے واساطے بنانے اپنے فرضی مزار کے خواب میں اجازت دے تو وہ قول
مقبول ہوگا یا نہیں؟
الجواب :فرضی مزار بنانا اور اس کے سااتھ اصل کا ساا معاملہ کرنا ناجائز و بدعت ہے اور خواب کی باتیں خلف شرع امور میں
مسموع نہیں ہوساکتی )فتاویی رضویہ جدید جلد 9ص ‘425مطبوعہ جامعہ نظامیہ لہور(
اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ’’غنیہ میں ہے یہ نہ پوچھو کہ عورتوں کا مزاروں پر جانا جائز
ہے یا نہیں؟ بلکہ یہ پوچھو کہ اس عورت پر کس قدر لعنت ہوتی ہے اﷲ تعالیی کی طرف ساے اور کس قدر صاحب قبر کی جانب ساے۔
جس وقت وہ گھر ساے ارادہ کرتی ہے لعنت شروع ہوجاتی ہے اور جب تک واپسی آتی ہے ملئکہ لعنت کرتے رہتے ہیں۔ ساوائے
روضہ رساولﷺ کے کسی مزار پر جانے کی اجازت نہیں۔ وہاں کی حاضری البتہ سانت جلیلہ عظیمہ قریب بواجبات ہے اور قرآن
کریم نے اساے مغفرت کا ذریعہ بتایا )ملفوظات شریف ص ‘240ملخصا ا رضوی کتاب گھر دہلی(
اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ اولیاء کراما کے مزارات پر ہر ساال مسلمانوں کا جمع ہوکر
قرآن مجید کی تلوت اور مجالس کرنا اور اس کا ثواب ارواح طیبہ کو پہنچانا جائز ہے کہ منکرات شرعیہ مثل رقص و مزامیر
وغیرھا ساے خالی ہو‘ عورتوں کو قبور پر ویسے جانا چاہئے نہ کہ مجمع میں بے حجانہ اور تماشے کا میلد کرنا اور فوٹو وغیرہ
کھنچوانا یہ ساب گناہ و ناجائز ہیں جو شخص ایسی باتوں کا مرتکب ہو‘ اساے اماما نہ بنایا جائے )فتاویی رضویہ جلد چہارما ص ‘216
مطبوعہ رضا اکیڈمی ممبئی(
:اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کی کتاب فتاویی رضویہ ساے ملحظہ ہو
مسئلہ :حضرت کی خدمت میں عرض یہ ہے کہ بزرگوں کے مزار پر جائیں تو فاتحہ کس طرح ساے پڑھا کریں اور فاتحہ میں کون
کون سای چیز پڑھا کریں؟
الجواب :مزارات شریفہ پر حاضر ہونے میں پائنتی قدموں کی طرف ساے جائے اور کم از کم چار ہاتھ کے فاصلے پر مواجہہ میں
کھڑا ہو اور متوساط آواز باادب سالما عرض کرے السلما علیک یا سایدی و رحمتہ اﷲ و برکاتہ‘ پھر درود غوثیہ‘ تین بار‘ الحمد شریف
ایک‘ آیتہ الکرسای ایک بار‘ ساورہ اخلص ساات بار‘ پھر درود غوثیہ ساات بار اور وقت فرصت دے تو ساورہ ییس اور ساورہ ملک بھی
پڑھ کر اﷲ تعالیی ساے دعا کرے کہ ایلہی! اس قرات پر مجھے اتنا ثواب دے جو تیرے کرما کے قابل ہے‘ نہ اتنا جو میرے عمل کے
قابل ہے اور اساے میری طرف ساے اس بندہ مقبول کی نذر پہنچا۔۔۔ پھر اپنا جو مطلب جائز شرعی ہو‘ اس کے لئے دعا کرے اور
صاحب مزار کی روح کو اﷲ تعالیی کی بارگاہ میں اپنا وسایلہ قرار دے‘ پھر اسای طرح سالما کرکے واپس آئے۔ مزار کو نہ ہاتھ لگائے
نہ بوساہ دے )ادب اسای میں ہے( اور طواف بالتفاق ناجائز ہے اور ساجدہ حراما۔ واﷲ تعالی اعلم
)فتاویی رضویہ جدید جلد 9ص ‘522مطبوعہ جامعہ نظامیہ لہور پنجاب(
:اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ یہ حدیث پیش کرتے ہیں
حدیث شریف :غزوہ بدر شریف میں مسلمانوں نے کفار کی نعشیں جمع کرکے ایک کنویں میں پاٹ دیں حضورﷺ کی عادت کریمہ
تھی جب کسی مقاما کو فتح فرماتے تو وہاں تین دن قیاما فرماتے تھے‘ یہاں ساے تشریف لے جاتے وقت اس کنویں پر تشریف لے گئے
جس میں کافروں کی لشیں پڑی تھیں اور انہیں ناما بناما آواز دے کر فرمایا ’’ہم نے تو پالیا جو ہم ساے ہمارے رب تعالیی نے ساچا وعدہ
)یعنی نصرت کا( فرمایا تھا کیوں تم نے بھی پایا جو ساچا وعدہ )یعنی نار کا( تم ساے تمہارے رب تعالیی نے کیا تھا؟ امیر المومنین
حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے عرض کی یارساول اﷲﷺ! بے جان ساے کلما فرماتے ہیں؟ فرمایا جو کچھ میں کہہ رہا ہوں‘
اساے تم کچھ ان ساے زیادہ نہیں سانتے مگر انہیں طاقت نہیں کہ مجھے لوٹ کر جواب دیں )صحیح بخاری ‘ کتاب المغازی‘ حدیث
3976جلد ‘3ص (11
تو جب کافر تک سانتے ہیں‘ )تو پھر( مومن تو مومن ہے اور پھر اولیاء کی شان تو ارفع اعلیی ہے )یعنی اولیاء اﷲ کتنا سانتے ہوں
گے(
روح ایک پرند ہے اور جسم پنجرہ۔۔۔ پرند جس وقت تک پنجرے میں ہے اور اس کی پرواز اسای قدر ہے‘ جب پنجرے )پھر فرمایا(
ساے نکل جائے اس وقت اس کی قوت پرواز دیکھئے )ملفوظات شریف ص ‘270مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی(
ساوال :کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص نے یہ نیت کی کہ اگر میری نوکری ہوجائے تو پہلی تنخواہ زیارت
پیران کلیر شریف کی نذر کروں گا‘ وہ شخص تیرہ تاریخ ساے نوکر ہوا اور تنخواہ اس کی ایک مہینہ ساترہ دن بعد ملی۔ اب یہ ایک ماہ
کی تنخواہ صرف کرے یا ساترہ دن کی؟ اور اس تنخواہ کا صرف کس طرح پر کرے یعنی زیارت شریف کی سافیدی و تعمیر وغیرہ
میں لگائے یا حضرت صابر پیا صاحب علیہ الرحمہ کی روح پاک کو فاتحہ ثواب بخشے یا دونوں طرف صرف کرساکتا ہے؟
الجواب :اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں صرف نیت ساے تو کچھ لزما نہیں ہوتا جب تک زبان
ساے الفاظ نذر ایجاب کہے اور اگر زبان ساے الفاظ مذکور کہے اور ان ساے معنی صحیح مراد لئے یعنی پہلی تنخواہ اﷲ تعالیی کے ناما
پر صدقہ کروں گا اور اس کا ثواب حضرت مخدوما صاحب علیہ الرحمہ کی نذر کروں گا یا پہلی تنخواہ اﷲ تعالیی کے لئے مخدوما
صاحب علیہ الرحمہ کے آساتانہ پاک کے فقیروں کو دوں گا‘ یہ نذر صحیح شرعی ہے اور اساتحسانا ا وجوب ہوگیا۔ پہلی تنخواہ اساے
فقیروں پر صدقہ کرنی لزما ہوگئی مگر یہ اختیار ہے کہ آساتانہ پاک کے فقیروں کو دے اور جہاں کے فقیروں محتاجوں کو چاہے اور
اگر یہ معنی صحیح مراد نہ تھے بلکہ بعض بے عقل جاہلوں کی طرح بے ارادہ صدقہ وغیرہ قربات شرعیہ صرف یہی مقصود تھا کہ
پہلی تنخواہ خود حضرت مخدوما صاحب کو دوں گا تو یہ نذر باطل محض و گناہ عظیم ہوگی۔
مگر مسلمان پر ایسے معنی مراد لینے کی بدگمانی جائز نہیں جب تک وہ اپنی نیت ساے صراحتا ا اطلع نہ دے۔ اسای طرح اگر
نذرزیارت کرنے ساے اس کی یہ مراد تھی کہ اﷲ تعالیی کے واساطے عمارت زیارت شریف کی سافیدی کرادوں گا یا احاطہ مزار
پرانوار میں روشنی کروں گا۔ جب بھی یہ نذر غیر لزما و نامعتبر ہے کہ ان افعال کی جنس ساے کوئی واجب شرعی نہیں۔ رہا یہ کہ
جس حالت میں نذر صحیح ہوجائے۔
پہلی تنخواہ ساے کیا مراد ہوگی یہ ظاہر ہے کہ عرف میں مطلق تنخواہ خصوصا پہلی تنخواہ ایک مہینہ کی اجرت کو کہتے ہیں۔
اگرچہ اس کا ایک جز بھی تنخواہ ہے اور عمر بھر کا واجب بھی تنخواہ ہے تو پہلی تنخواہ کہنے ساے اول تنخواہ ایک ماہ ہی عرفا
لزما آئے گی۔
کیونکہ کسے عقد والے‘ قسم والے‘ نذر والے اور وقف کرنے والے کے کلما کو متعارف معنی پر محمول کیا جائے گا جیسا کہ اس
پر نص کی گئی ہے )رد المحتار‘ باب التعلیق‘ داراحیاء التراث العربی بیروت جلد 2ص (533,499
اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں کہ باقی جو بے ہودہ باتیں لوگوں نے نکالی ہیں مثل اس
میں شادی کے ساے تکلف کرنا‘ عمدہ عمدہ فرش بچھانا‘ یہ باتیں بے جا ہیں اور اگر یہ سامجھتا ہے کہ ثواب تیسرے دن پہنچتا ہے‘ یا
اس دن زیادہ پہنچے گا اور روز کم‘ تو یہ عقیدہ بھی اس کا غلط ہے۔ اسای طرح چنوں کی کوئی ضرورت نہیں۔ نہ چنے بانٹنے کے
سابب کوئی برائی پیدا ہو )الحجتہ الفاتحہ لطیب التعین والفاتحہ‘ ص 14مطبوعہ لہور(
میت کے گھر مہمان داری
اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں کہ میت کے گھر انتقال کے دن یا بعد عورتوں اور
مردوں کا جمع ہوکر کھانا پینا اور میت کے گھر والوں کو زیر بار کرنا ساخت منع ہے )جلی الصوت لنہی الدعوت اماما الموت‘ مطبوعہ
بریلی شریف ہندوساتان(
ساوال :کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ہندہ نے اپنی موت اپنی حیات میں کردی ہے تو اس صورت میں ہندہ کو کب تک
دوسارے کے یہاں کی میت کا کھانا نہیں چاہئے اور اگر ہندہ کے گھر میں کوئی مرجائے تو اس کا بھی کھانا جائز ہے اور کب تک
یعنی برس تک یا چالیس دن تک۔ اور اگر ہندہ نے شروع ساے جمعرات کی فاتحہ نہ دلئی ہو تو چالیس دن کے بعد ساات جمعرات کی
فاتحہ دلنا چاہے‘ ہوساکتی ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا
الجواب :میت کے یہاں جو لوگ جمع ہوتے ہیں اور ان کی دعوت کی جاتی ہے‘ اس کھانے کی تو ہر طرح ممانعت ہے‘ اور بغیر
دعوت کے جمعراتوں‘ چالیسویں‘ چھ ماہی ‘ برسای میں جو بھاجی کی طرح اغنیاء کو بانٹا جاتا ہے‘ وہ بھی اگرچہ بے معنی ہے مگر
اس کا کھانا منع ہے۔ بہتر یہ ہے کہ غنی نہ کھائے اور فقیر کو تو کچھ مضائقہ نہیں کہ وہی اس کے مستحق ہیں اور ان ساب احکاما میں
وہ جس نے اپنی موت اپنی حیات میں کردی اور جس نے نہ کی ساب کے ساب برابر ہیں اور اپنی یہاں موت ہوجائے تو اپنا کھانا
کھانے کی کسی کو ممانعت نہیں اور چالیس دن کے بعد بھی جمعراتیں ہوساکتی ہیں۔ اﷲ تعالیی کے فقیروں کو جب اور جو کچھ دے
ثواب ہے )واﷲ تعالیی اعلم(
)فتاویی رضویہ جدید جلد 9ص ‘673مطبوعہ جامعہ نظامیہ لہور پنجاب(
فتح القدیر وغیرہ میں ہے اہل میت کی طرف ساے کھانے کی ضیافت تیار کرنی منع ہے کہ شرع نے ضیافت خوشی میں رکھی ہے نہ
کہ غمی میں اور یہ بدعت شنیعہ ہے۔ اماما احمد اور ابن ماجہ بسند صحیح حضرت جرید بن عبداﷲ بجلی رضی اﷲ عنہ ساے راوی ہیں
ہم گروہ صحابہ اہل میت کے یہاں جمع ہونے اور ان کے لئے کھانا تیار کرنے کو مردے کی نیاحت ساے شمار کرتے تھے )فتح القدیر‘
فصل فی الدفن مکتبہ نوریہ رضویہ‘ ساکھر (103/2
)فتاویی رضویہ جدید جلد 9ص ‘604مطبوعہ جامعہ نظامیہ لہور پنجاب(
ساوئم کے چنے کون تناول کرساکتا ہے؟
اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ نے ساوئم کے چنوں اور طعاما میت ساے متعلق ایک ساوال کے جواب میں
ارشاد فرمایا کہ یہ چیزیں غنی نہ لے‘ فقیر لے اور وہ جو‘ان کامنتظر رہتا ہے‘ ان کے نہ ملنے ساے نا خوش ہوتا ہے اس کا قلب سایاہ
ہوتا ہے‘ مشرک یا چمار کو اس کا دینا گناہ گناہ گناہ ہے جبکہ فقیر لے کر خود کھائے اور غنی لے ہی نہیں اور لے لئے ہوں تو
مسلمان فقیر کو دے دے۔ یہ حکم عاما فاتحہ کا ہے نیاز اولیاء کراما طعاما موت نہیں وہ تبرک ہے فقیر وغنی ساب لیں جبکہ مانی ہوئی
نذر بطور نذر شرعی نہ ہو۔ شرعی نذر پھر غیر فقیر کو جائز نہیں )فتاویی رضویہ جلد چہارما(
ایک اور جگہ یوں فرمایا میت کے یہاں جو لوگ جمع ہوتے ہیں اور ان کی دعوت کی جاتی ہے اس کھانے کی تو ہر طرح ممانعت
ہے اور بغیر دعوت کے جمعراتوں‘ چالیسویں ‘ چھ ماہی‘ برسای میں جو بھاجی کی طرح اغنیاء کو بانٹا جاتا ہے وہ بھی اگرچہ بے
معنی ہے مگر اس کا کھانا منع نہیں بہتر ہے کہ غنی نہ کھائے )فتاویی رضویہ(
اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ نے یہ وصیت فرمائی کہ ہماری فاتحہ کا کھانا صرف فقراء کو کھلیا جائے
)وصایا شریف(
ساوال :ہمارے یہاں میت ہوگئی تھی تو اس کے کفنانے کے بعد پھولوں کی چادر ڈالی گئی اس کو ایک پیش اماما افغانی نے اتار ڈال
اور کہا یہ بدعت ہے‘ ہم نہ ڈالنے دیں گے؟
الجواب :پھولوں کی چادر بالئے کفن ڈالنے میں شرعا ا اصلا حرج نہیں بلکہ نیت حسن ساے حسن ہے جیسے قبورپر پھول ڈالنا کہ وہ
جب تک تر رہیں گے تسبیح کرتے ہیں اس ساے میت کا دل بہلتا ہے اور رحمت اترتی ہے۔ فتاویی عالمگیری میں ہے قبروں پر گلب
اور پھولوں کا رکھنا اچھا ہے )فتاویی ہندیہ‘ الباب السادس عشر فی زیارۃ القبور‘ جلد 5ص ‘351مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور(
فتاویی اماما قاضی خان و امداد الفتاح شرح المصنف لمراقی الفلح و رد المحتار علی الدر المختار میں ہے :پھول جب تک تر رہے
تسبیح کرتا رہتا ہے جس ساے میت کو انس حاصل ہوتا ہے اور اس کے ذکر ساے رحمت نازل ہوتی ہے )رد المحتار‘ مطلب فی وضع
الجدید و نحو الس علی القبور‘ جلد اول ص 606مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المصریہ مصر(
)فتاویی رضویہ جدید جلد 9ص ‘105مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن جامعہ نظامیہ لہور(
جنازہ پر چادر ڈالنا کیسا؟
ساوال :جنازہ کے اوپر جو چادر نئی ڈالی جاتی ہے اگر پرانی ڈالی جائے تو جائز ہے یا نہیں؟ اگر کل برادری کے مردوں کے اوپر
ایک ہی چادر بنا کر ڈالتے رہا کریں تو جائز ہے یا نہیں؟ اس کی قیمت مردہ کے گھر ساے یعنی قلیل قیمت لے کر مقبرہ قبرساتان یا
مدرساہ میں لگانی جائز ہے یا نہیں؟ اور چادر مذکور اونی یا ساوتی بیش قیمت جائز ہے یا نہیں؟
الجواب :اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ چادر نئی ہو یاپرانی‘یکساں ہے ہاں مسکین پر
تصدق )صدقے( کی نیت ہو تو نئی اولیی‘ اور اگر ایک ہی چادر معین رکھیں کہ ہر جنازے پر وہی ڈالی جائے پھر رکھ چھوڑی جائے
اس میں بھی کوئی حرج نہیں بلکہ اس کے لئے کپڑا وقف کرساکتے ہیں۔ در مختار میں ہے۔
ہنڈیا‘ جنازہ اور اس کے کپڑے کا وقف صحیح ہے )درمختار‘ کتاب الوقف‘ جلد اول ص ‘380مطبوعہ دہلی(
طحطاوی و ردالمحتار میں ہے :جنازہ کسرہ کے سااتھ چارپائی اور اس کے کپڑے جن ساے میت کو ڈھانپا جائے )ردالمحتار کتاب
الوقف‘ جلد 3ص 375مطبوعہ بیروت(
اور بیش قیمت بنظر زینت مکروہ ہے کہ میت محل تزئین نہیں اور خالص بہ نیت تصدق )صدقہ( میں حرج نہیں جیسا کہ ہدی )قربانی(
کے جانور کے جھل )فتاویی رضویہ جدید جلد 16ص ‘123مطبوعہ جامعہ نظامیہ لہور(
ساوال :گیارہویں شریف کے لئے آپ کیا فرماتے ہیں۔ گیارہویں شریف کے روز فاتحہ دلنے ساے ثواب زیادہ ہوتا ہے یا آڑے دن فاتحہ
دلنے ساے‘ بزرگوں کے دن کی یادگاری کیلئے دن مقرر کرنا کیسا ہے؟
جواب :محبوبان خدا کی یادگاری کے لئے دن مقرر کرنا بے شک جائز ہے۔ حدیث شریف میں ہے حضور کریمﷺ ہر ساال کے اختتاما
پر شہدائے احد کی قبروں پر تشریف لتے تھے )جامع البیان )تفسیر ابن جریر( تحت آیۃ ‘24/13داراحیاء التراث العربی بیروت
(170/13
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے ایسی حدیث کو اعراس اولیائے کراما کے لئے مستند مانا اور شاہ ولی اﷲ صاحب علیہ
الرحمہ نے کہا :مشائخ کے عرس منانا اس حدیث ساے ثابت ہے )ہمعات ‘ ہمعہ 11مطبوعہ شاہ ولی اﷲ اکیڈمی‘ حیدرآباد ساندھ ص
(58
اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ساے پوچھا گیا کہ وقت دفن اذان کیوں کہی جاتی ہے؟
آپ نے ارشاد فرمایا کہ شیطان کو دور کرنے کے لئے کیونکہ حدیث شریف میں ہے اذان جب ہوتی ہے تو شیطان 36میل دور بھاگ
جاتا ہے۔ الفاظ حدیث میں یہ ہیں کہ ’’روحا‘‘ تک بھاگتا ہے اور روحا مدینہ منورہ ساے 36میل دور ہے )صحیح مسلم شریف‘ کتاب
الصلیوۃ حدیث ‘389-388ص (204
جواب :اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں قبر پر اذان کہنے میں میت کا دل بہلتا اور اس پر رحمت
ایلہی کا اترنا اور ساوال جواب کے وقت شیطان کا دور ہونا‘ اور ان کے ساوا اور بہت فائدے ہیں جن کی تفصیل ہمارے رساالے ’’ایذان
)لجرفی اذان القبر‘‘ میں ہے
ایصال ثواب
اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں کہ بات یہ ہے کہ فاتحہ‘ ایصال ثواب کا ناما ہے اور مومن
عمل نیک کا ایک ثواب اس کی نیت کرتے ہی حاصل اور کئے پر دس ہوجاتا ہے )الحجۃ الفاتحہ لطیب التعین والفاتحہ ص ‘14
مطبوعہ لہور(
رہا کھانا دینے کا ثواب وہ اگرچہ اس وقت موجود نہیں تو کیا ثواب پہنچانا شاید ڈاک یا پارسال میں کسی چیز کا بھیجنا سامجھا ہوگا کہ
جب تک وہ شے موجود نہ ہو‘ کیا بھیجی جائے؟
حالنکہ اس کا طریقہ صرف جناب باری میں دعا کرنا ہے کہ وہ ثواب میت کو پہنچائے۔ اگر کسی کا یہ اعتقاد ہے کہ جب تک کھانا
ساامنے نہ کیا جائے گا ثواب نہ پہنچے گا تو یہ گمان اس کا محض غلط ہے )الحجۃ الفاتحہ لطیب التعین والفاتحہ ص ‘14مطبوعہ
لہور(
ایک ساوال کے جواب میں کہ زید اپنی زندگی میں خود اپنے لئے ایصال ثواب کرساکتا ہے یا نہیں؟
ارشاد فرماتے ہیں ہاں کرساکتا ہے‘ محتاجوں کو چھپا کر دے یہ جو عاما رواج ہے کہ کھانا پکایا جاتا ہے اور تماما اغنیاء و برادری کی
دعوت ہوتی ہے‘ ایسا نہ کرنا چاہئے )ملفوظات شریف ص ‘48حصہ ساوما ‘ مطبوعہ مسلم یونیورساٹی پریس علی گڑھ ہندوساتان(
اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ نے قرآن خوانی کے لئے اجرت لینے اور دینے کو ناجائز قرار دیا ہے
)فتاویی رضویہ جلد چہارما میں 318مطبوعہ مبارکپور ہندوساتان(
:اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں
آتش بازی جس طرح شادیوں اور شب برأت میں رائج ہے‘ بے شک حراما اور پورا حراما ہے۔ اسای طرح یہ گانے باجے کہ ان بلد میں
معمول و رائج ہیں بلشبہ ممنوع و ناجائز ہیں۔ جس شادی میں اس طرح کی حرکتیں ہوں مسلمانوں پر لزما ہے کہ اس میں ہرگز
شریک نہ ہوں۔ اگر نادانستہ شریک ہوگئے تو جس وقت اس قسم کی باتیں شروع ہوں یا ان لوگوں کا ارادہ معلوما ہو‘ ساب مسلمان مرد‘
عورتوں پر لزما ہے فورا اسای وقت )محفل ساے( اٹھ جائیں )ہادی الناس ص (3
:اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ
۔ نسب پر فخرکرنا جائز نہیں ہے1
۔ احادیث جو اس بارے میں آئیں‘ انہیں معافی کی طرف ناظر ہیں کسی مسلمان بلکہ کافر ذمی کو بھی بل حاجت شرعی ایسے الفاظ 7
ساے پکارنا یا تعبیر کرنا جس ساے اس کی دل شکنی ہو‘ اساے ایذا پہنچے‘ شرعا ا ناجائز و حراما ہے اگرچہ بات فی نفسہ ساچی ہو )ارادۃ
الدب لفاضل النسب ص (3
بعض خانقاہوں میں پیر صاحب اپنے مرید اور مریدنیوں کو بے پردہ اپنے ساامنے بٹھاتے ہیں۔ بے تکلفی کے سااتھ گفتگو‘ ہنسی مذاق
کرتے ہیں اور بعض تو معاذ اﷲ اپنی مریدنیوں ساے ہاتھ بھی ملتے ہیں اور مریدنیوں کی پیٹھ پر ہاتھ بھی مارتے ہیں مگر اس ناجائز
فعل کے متعلق سانیوں کے اماما‘ اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں کہ بے شک ہر غیر
محرما ساے پردہ فرض ہے جس کا اﷲ تعالیی اور اس کے رساولﷺ نے حکم دیا ہے بے شک پیر مریدہ کا محرما نہیں ہوجاتا۔ حضورﷺ
ساے بڑھ کر اام ت
ت کا پیر کون ہوگا؟ وہ یقینااابو الروح ہوتا ہے اگر پیر ہونے ساے آدمی محرما ہوجایا کرتا تو چاہئے تھا کہ نبی ساے اس
ت ساے کسی عورت کا نکاح نہ ہوساکتا )مسائل ساماع‘ مطبوعہ لہور ص (32 کی اام ت
ساوال :فال کیا ہے؟ جائز ہے یا نہیں؟ساعدی و حافظ وغیرہ کے فالنامے صحیح ہیں یا نہیں؟
جواب :اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں فال ایک قسم کا اساتخارہ ہے‘ اساتخارہ کی اصل کتب
احادیث میں بکثرت موجود ہے‘ مگر یہ فالنامے جو عواما میں مشہور اور اکابر کی طرف منسوب ہیں بے اصل و باطل ہیں اور قرآن
عظیم ساے فال کھولنا منع ہے اور دیوان حافظ وغیرہ ساے بطور تفاؤل جائز ہے )فتاویی رضویہ جدید جلد 23ص ‘327مطبوعہ رضا
فاؤنڈیشن لہور(
ﷲ تعالیی کا علفم غیب ذاتی اور حضورﷺ کا علفم غیب عطائی ہے
پہل فتویی
کیا اﷲ تعالیی اور اس کے محبوبﷺ کا علم برابر ہے؟ اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ہم
:اہلسنت کا مسئلہ علم غیب میں یہ عقیدہ ہے کہ اﷲ تعالیی نے حضورﷺ کو علم غیب عنایت فرمایا خود رب جل جللہ فرماتا ہے
ترجمہ :یہ نبی غیب کے بتانے میں بخیل نہیں )ساورہ تکویر آیت 24پارہ (30
تفسیر معالم التنزیل اور تفسیر خازن میں ہے یعنی حضورﷺ کو علم غیب آتا ہے وہ تمہیں بھی تعلیم فرماتے ہیں )تفسیر خازن‘ ساورہ
تکویر تحت الیۃ ‘24جلد 4ص (357
اﷲ تعالیی اور حضورﷺ کا علم برابر تو درکنار‘ میں نے اپنی کتابوں میں تصریح کردی ہے کہ اگر تماما اولین و آخرین کا علم جمع کیا
جائے تو اس علم کو علم ایلہی جل جللہ ساے وہ نسبت ہرگز نہیں ہوساکتی جو ایک قطرے کے کروڑہویں حصے کو کروڑ سامندر ساے
ہے کہ یہ نسبت متناہی کی متناہی )یعنی محدود( کے سااتھ ہے اور وہ غیر متناہی )یعنی لمحدود( متناہی کو غیر متناہی ساے کیا نسبت
ہے۔
)ملفوظات شریف‘ ص ‘93تخریج شدہ مطبوعہ مکتبۃ المدینہ‘ کراچی(
دوسارا فتویی
اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ علم غیب ذاتی کہ اپنی ذات ساے ہیبے کسی کے دیئے ہوئے
اﷲ تعالیی کے لئے خاص ہے۔ ان آیتوں میں یہی معنی مراد ہیں کہ بے خدا کے دیئے کوئی نہیں جان ساکتا اور اﷲ تعالیی کے بتائے
ساے انبیاء کراما کو معلوما ہونا ضروریات دین ساے ہے۔ قرآن مجید کی بہت آیتیں اس کے ثبوت میں ہیں )فتاویی رضویہ(
تیسرا فتویی
اعلیی حضرت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ غیب کا علم اﷲ تعالیی کو ہے‘ پھر اس کی عطا ساے اس
کے حبیبﷺ کو ہے )فتاویی رضویہ جدید جلد 27میں ‘233مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لہور(
موجودہ دور میں ہر جانب جاہل پیروں اور جعلی صوفیوں کا ڈیرہ ہے‘ نادان لوگ ان کے پاس جاتے ہیں اور اپنا مال ان پر لٹاتے ہیں
پھر جب ہوش آتا ہے تو چیخ اٹھتے ہیں کہ پیر صاحب نے ہمیں لوٹ لیا۔ ہمارا مال کھالیا۔ ہماری عزت پامال کردی۔ اسای لئے اماما
اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ نے جاہل فقیر و پیر ساے بیعت کرنے کی ممانعت فرمائی ہے۔ ہمیشہ سانی صحیح
العقیدہ عالم اور پابند شریعت پیر ساے بیعت کی جائے چنانچہ :اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ساے پوچھا
گیا کہ جاہل فقیر کا مرید ہونا شیطان کا مرید ہونا ہے؟
آپ نے جوابا ا ارشاد فرمایا کہ بلشبہ جاہل فقیر کا مرید ہونا شیطان کا مرید ہونا ہے )ملفوظات شریف ص ‘297مطبوعہ مکتبۃ المدینہ
کراچی(
بیعت اس شخص ساے کرنا چاہئے جس میں چار باتیں ہوں ورنہ بیعت جائز نہ ہوگی۔
۔ اس کا سالسلہ حضورﷺ تک متصل )یعنی مل ہوا( ہو‘ منقطع )یعنی ٹوٹا ہوا( نہ ہو3
اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ساے پوچھا گیا کہ تانبے‘ پیتل کے تعویذوں کا کیا حکم ہے؟
آپ نے جوابا ا ارشاد فرمایا کہ تانبے اور پیتل کے تعویذ مرد و عورت دونوں کو مکروہ اور ساونے چاندی تعویذ کے مرد کو حراما‘
عورت کو جائز ہیں )ملفوظات شریف ص ‘328مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی(
آج کل ایک رواج چل پڑا ہے کہ جب بھی کوئی شخص سافر میں جاتاہے یا کسی کی جان کی حفاظت مقصود ہوتی ہے‘ تو عورتیں اس
کے بازو پر ایک ساکہ کپڑے میں لپیٹ کر باندھ دیتی ہیں اور اس کا ناما ’’اماما ضامن‘‘ رکھا گیا ہے جوکہ بالکل خود سااختہ کاما ہے نہ
اس کی کوئی اصل ہے نہ کہیں اس کا حکم دیا گیاہے۔ بعض بدلگاما لوگ اس کو بھی اہلسنت کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں اور کہتے
ہیں یہ بریلویوں کے اماما کا کاما ہے حالنکہ اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کا اس کاما ساے کوئی واساطہ
نہیں بلکہ اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ساے پوچھا گیا کہ کیا اماما ضامن کا جو پیسہ باندھا جاتا ہے‘ اس
کی کوئی اصل ہے؟
آپ نے ارشاد فرمایا کہ کچھ نہیں )ملفوظات شریف ص ‘328مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی(
غیر اﷲ ساے اساتغاثہ اور مدد کے متعلق مسلمانوں پر یہ الزاما لگایا جاتا ہے کہ وہ حضورﷺ اور اولیاء کراما رحمہم اﷲ کو معبود مان
کر ان ساے مدد مانگتے ہیں جوکہ کھل بہتان ہے۔ مسلمانان اہلسنت بزرگان دین کو اﷲ تعالیی کی صفات کا مظہر جان کر ان ساے مدد
مانگتے ہیں۔ اس معاملے میں اعلیی حضرت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کو خوب بدناما کیا جاتا ہے اور معاذ اﷲ
مشرک اور بدعتی تک کہا اور مشہور کیا جاتا ہے۔ اے کاش! ایسے لوگ اعلیی حضرت اماما احمد رضا علیہ الرحمہ کی کتابوں کا
مطالعہ کرتے تو ایسی بدگمانی نہ پھیلتے۔ اب اعلیی حضرت علیہ الرحمہ کا عقیدہ ملحظہ فرمائیں۔
:چنانچہ اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ایک اساتفتاء کے جواب میں لکھتے ہیں
حضورﷺ اور اولیاء کراما ساے اساتغاثہ اور اساتعانت مشروط طور پر جائز ہے جبکہ انہیں اﷲ تعالیی کا بندہ اور اس کی بارگاہ میں
وسایلہ جانے اور انہیں ’’باذن ایلہی والمدبرات امراء‘‘ ساے مانے اور اعتماد کرلے کہ بے حکم خدا تعالیی ذرہ نہیں ہل ساکتا اور اﷲ
تعالیی کے دیئے بغیر کوئی ایک حصہ نہیں دے ساکتا۔ ایک حرف نہیں سان ساکتا۔ پلک نہیں ہل ساکتا اور بے شک ساب مسلمانوں کا
یہی اعتقاد ہے )احکاما شریعت حصہ اول ص ‘4مطبوعہ آگرہ ہندوساتان(
ت کو مستحبات اور نوافل میں لگادیا۔ فرائض کی اہمیت کو وقت کے اماما پر ایک الزاما یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے اس اام ت
فراموش کیا گیا حالنکہ اعلیی حضرت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کے فتاوے اور ان کی کتابوں کا اگر کوئی
تعصب کی عینک اتار کر مطالعہ کرے تو وہ بے سااختہ بول اٹھے گا کہ اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ
:اسالمی عقائد کے ترجمان تھے چنانچہ
اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ ابو محمد عبدالقادر جیلنی رضی اﷲ عنہ نے اپنی کتاب
مستطاب فتوح الغیب میں کیا کیاجگر شگاف مثالیں ایسے شخص کے لئے ارشاد فرمائی ہیں جو فرض چھوڑ کر نفل بجالئے۔ اس
کتاب میں فرمایا کہ اگر فرائض کی ادائیگی ساے قبل سانن و نوافل میں مشغول ہو تو سانن و نوافل قبول نہیں ہوتیں بلکہ موجب اہانت
ہوتی ہیں )اعزا ل کتناہ فی صدقۃ مانع الزکیوۃ مطبوعہ بریلی ص (10-11
جاہل لوگوں نے مسلک اہلسنت کو بدناما کرنے کے لئے جہالت کا ناما طریقت رکھ دیا‘ چرس‘ بھنگ‘ ناچ گانے‘ ساٹے کے نمبر بتانے
والوں اور جعلی عاملوں کا ناما طریقت رکھ دیا اور معاذ اﷲ یہ بہتان اعلیی حضرت اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ
:الرحمہ پر لگایا جاتا ہے کہ یہ انہوں نے ساکھایا ہے۔ اماما اہلسنت کی تعلیمات کا مطالعہ کیا جائے تو حقیقت ساامنے آجاتی ہے چنانچہ
اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں کہ طریقت ناما ہے ’’وصول الی اﷲ کا‘‘ محض جنون و
جہالت ہے دو حرف پڑھا ہوا جانتا ہے طریق طریقہ طریقت راہ کو کہتے ہیں نہ کہ پہنچ جانے کو۔ تو یقینااطریقت بھی راہ ہی کا ناما
ہے۔ اب اگر وہ شریعت ساے جدا ہو تو بشارت قرآن عظیم خدا تعالیی تک نہ پہنچائے گی بلکہ شیطان تک لے جائے گی‘ جنت میں نہ
لے جائے گی بلکہ جہنم میں کہ شریعت کے ساوا ساب راہوں کو قرآن عظیم باطل و مردود فرماچکا )مقال العفاء باعزاز شرع و علماء
مطبوعہ کراچی ص (7
اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ساے پوچھا گیا کہ میلد شریف میں جھاڑ )یعنی پنج شاخہ مشعل( فانوس‘
فروش وغیرہ ساے زیب و زینت اساراف ہے یا نہیں؟
آپ نے جوابا ا ارشاد فرمایا کہ علماء فرماتے ہیں یعنی اساراف میں کوئی بھلئی نہیں اور بھلئی کے کاموں میں خرچ کرنے میں کوئی
اساراف نہیں )ملخصا‘ تفسیر کشاف‘ ساوؤ فرقان تحت الیۃ 67جلد ساوما ص (293
جس شے ساے تعظیم ذکر شریف مقصود ہو ہرگز ممنوع نہیں ہوساکتی
اماما غزالی علیہ الرحمہ نے احیاء العلوما میں حضرت ساید ابو علی رودباری علیہ الرحمہ ساے نقل کیا کہ ایک بندہ صالح نے مجلس
ذکر شریف ترتیب دی ہے اور اس میں ایک ہزار شمعیں روشن کیں۔ ایک شخص ظاہر بین پہنچے اور یہ کیفیت دیکھ کر واپس جانے
لگے۔ بانی مجلس نے ہاتھ پکڑا اور اندر لے جاکر فرمایا کہ جو شمع میں نے غیر خدا کے لئے روشن کی وہ بجھا دیجئے۔ کوشش کی
جاتی تھیں اور کوئی شمع ٹھنڈی نہ ہوتی )احیاء علوما الدین‘ الجز الثانی‘ کتاب آداب الکل ص (26
ادب اور تعظیم کا تقاضا یہ ہے کہ جناب رساالت مآبﷺ کو آپ کے ذاتی ناما محمدﷺ ساے نہ پکارا جائے اور نہ ہی نعت شریف میں
پڑھا جائے بلکہ یا رساول اﷲ‘ یا حبیب اﷲ‘ یا نبی اﷲ اور یا رحمتہ للعالمینﷺ کہہ کر ندا دی جائے۔
جہاں کہیں مساجد میں‘ محرابوں میں‘ پوساٹروں اور بینروں میں بھی ’’یامحمدﷺ‘ کی جگہ یارساول اﷲ‘ یا حبیب اﷲ یا نبی اﷲ اور
یارحمتہ للعالمینﷺ ہی تحریر کیا جائے تاکہ حضورﷺ کا ادب و احتراما ملحوظ رہے۔
:چنانچہ اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ایک ساوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں
قرآن مجید کی آیت ہے کہ رساول کا پکارنا اپنے میں ایسا نہ ٹہرالو جیسے ایک دوسارے کو پکارتے ہو‘ اب ایک دوسارے میں باپ اور
مول اور بادشاہ ساب آگئے۔ اسای لئے علماء فرماتے ہیں ناما پاک لے کر ندا کرنا حراما ہے۔ اگر روایت میں مثل یا محمدﷺ آیا ہو تو اس
کی جگہ بھی یارساول اﷲﷺ کہے۔ اس مسئلہ کا بیان اماما اہلسنت علیہ الرحمہ کا رساالہ ’’تجلی الیقین بان نبینا ساید المرسالین‘‘ میں
دیکھئے
اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ساے پوچھا گیا کہ اکثر بال بڑھانے والے لوگ حضرت گیسو دراز کو دلیل
لتے ہیں۔
آپ نے جوابا ا ارشاد فرمایا کہ جہالت ہے۔ حضورﷺ نے بکثرت احادیث صحیحہ میں ان مردوں پر لعنت فرمائی ہے جو عورتوں ساے
مشابہت پیدا کریں اور عورتوں پر جو مردوں ساے )صحیح بخاری‘ کتاب اللباس حدیث 5885ص (4
اور تشبہ کے لئے ہر بات میں پوری وضع بنانا ضروری نہیں )صرف( ایک ہی بات میں مشابہت کافی ہے )ملفوظات شریف ص
‘297مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی(
اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ساے پوچھا گیا کہ مرد کو چوٹی رکھنا جائز ہے یا نہیں؟ بعض فقیر رکھتے
ہیں۔
آپ نے جوابا ا ارشاد فرمایا کہ حراما ہے۔ حدیث شریف میں فرمایا۔ اﷲ تعالیی کی لعنت ہے ایسے مردوں پر جو عورتوں ساے مشابہت
رکھیں اور ایسی عورتوں پر جو مردوں ساے مشابہت پیدا کریں )مسند احمد بن حنبل‘ حدیث ‘3151جلد اول ص (727
ساوال :اﷲ تعالیی کو عاشق اور حضورﷺ کو اس کا معشوق کہنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب :اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ناجائز ہے کہ معنی عشق اﷲ تعالیی کے حق میں محال
قطعی ہیں اور ایسا لفظ بے ورود ثبوت شرعی اﷲ تعالیی کی شان میں بولنا ممنوع قطعی )فتاویی رضویہ جدید جلد 21ص 114
مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لہور(
ساوال :کیا حکم شرع شریف کا اس بارے میں کہ مدینہ شریف کو ’’یثرب‘‘ کہنا جائز ہے یا نہیں؟ جو شخص یہ لفظ کہے اس کی نسبت
کیا حکم ہے؟
جواب :اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں مدینہ طیبہ کو یثرب کہنا ناجائز و ممنوع و گناہ ہے اور
کہنے وال گنہ گار
حضورﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ جو مدینہ کو یثرب کہے اس پر توبہ واجب ہے‘ مدینہ طابہ ہے مدینہ طابہ ہے )اساے اماما احمد نے
بسند صحیح براء بن عازب رضی اﷲ عنہ ساے روایت کیا(
ساوال :حضورﷺ کا مزار اقدس بلکہ مدینہ طیبہ عرش وکرسای و کعبہ شریف ساے افضل ہے یا نہیں؟
الجواب :اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں تربت اطہر یعنی وہ زمین کہ جسم انور ساے متصل ہے
کعبہ معظمہ بلکہ عرش ساے بھی افضل ہے )مسلک متقسط مع ارشاد الساری‘ باب زیارۃ ساید المرسالینﷺ‘ ص ‘336مطبوعہ
دارالکتاب العربی بیروت(
باقی مزار شریف کا بالئی حصہ اس میں داخل نہیں کہ کعبہ معظمہ مدینہ طیبہ ساے افضل ہے ہاں اس میں اختلف ہے کہ مدینہ طیبہ
ساوائے موضع تربت اطہر اور مکہ معظمہ ساوائے کعبہ مکرمہ ان دونوں میں کون افضل ہے‘ اکثر جانب ثانی ہیں اور اپنا مسلک اول
اور یہی مذہب فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ ہے۔
طبرانی شریف کی حدیث شریف میں تصریح ہے کہ مدینہ منورہ مکہ مکرمہ ساے افضل ہے )المعجم الکبیر للطبرانی‘ حدیث ‘4450
جلد 4ص ‘288مطبوعہ المکتبہ الفیصلیہ بیروت(
)فتاویی رضویہ جدید جلد 10ص ‘711مطبوعہ جامعہ نظامیہ لہور پنجاب(
اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ جو شخص حراما مال پر نیاز دیتا ہے اور کہتا ہے کہ
حضورﷺ قبول فرمالیتے ہیں اس شخص کا یہ قول غلط صریح و باطل قبیح اور حضورﷺ پر افترائے فضیح ہے۔
زنہار مال حراما قابل قبول نہیں‘ نہ اساے راہ خدا میں صرف کرنا روا‘ نہ اس پر ثواب ہے بلکہ نرا وبال ہے )فتاویی رضویہ جدید جلد
21مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لہور ص (105
جاہلنہ رسام
ساوال :یہ جو بعض جہلء غرض ڈورے کیا کرتے ہیں اور حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کی طرف منسوب کرتے ہیں کہ خاتون
جنت ہر کسی گھر ماہ سااون بھادوں میں جایا کرتی اور ایک ایک ڈورا ان کے کان میں باندھ کر یہ کہا کرتیں کہ پوریاں پکا کر فاتحہ
دل کر لنا ‘ اس کی کچھ ساند ہے یا واہیات ہے؟
جواب :اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں یہ ڈوروں کی رسام محض بے اصل و مردود ہے اور
حضرت خاتون جنت کی طرف اس کی نسبت محض جھوٹ برا افتراء ہے )فتاویی رضویہ جدید جلد 23ص 272مطبوعہ رضا
فاؤنڈیشن لہور(
ماہ صفر المظفر منحوس نہیں
عواما میں بیماری پھیلی ہوئی ہے کہ ماہ صفر المظفر منحوس ہے اس میں بلئیں اترتی ہیں‘ اس ماہ میں کوئی خوشی کی تقریب منعقد
نہ کی جائے خصوصا شروع ماہ کی تیرہ تاریخوں میں اور آخری تاریخوں میں۔۔۔
ساوال :اکثر لوگ 13 ‘3یا 28 ‘18 ‘8 ‘23وغیرہ تواریخ اور پنج شنبہ و یکشنبہ و چہارشنبہ وغیرہ ایاما کو شادی وغیرہ نہیں کرتے۔
اعتقاد یہ ہے کہ ساخت نقصان پہنچے گا ان کا کیا حکم ہے؟
جواب :اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ یہ ساب باطل و بے اصل ہے )فتاویی رضویہ جدید
جلد 23ص ‘272مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لہور(
اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ماہ صفر المظفر کی آخری بدھ کی کوئی اصل نہیں۔ نہ اس
دن حضورﷺ کی صحت یابی کا کوئی ثبوت ہے بلکہ مرض اقدس جس میں وصال شریف ہوا‘ اس کی ابتداء اسای دن ساے بتائی جاتی
ہے اور ایک حدیث مرفوع میں آیا ہے ابتلئے ایوب علیہ السلما اسای دن تھی )فتاویی رضویہ جلد 10ص (117
ساوال :بعد سالما مسنون معروض خدمت ہوں کہ نماز غفیرا کی بابت میں ذکر الشہادتیں دیکھا ہے کہ حضرت اماما زین العابدین رضی
اﷲ عنہ نے یزید کو واساطے مغفرت کی بتائی تھی مجھے اس نماز کی تلش ہے‘ میں پڑھنا چاہتی ہوں براہ مہربانی اس مسئلہ پر
التفات مبذول فرما کر ترتیب نماز ساے اطلع دیجئے؟
جواب :وعلیکم السلما ورحمتہ اﷲ و برکاتہ۔ یہ روایت محض بے اصل ہے۔ حضرت اماما زین العابدین رضی اﷲ عنہ ساے کوئی نماز
یزید پلید کی مغفرت کے لئے اس کو تعلیم نہ فرمائی۔ )فتاویی رضویہ جدید جلد ‘28ص ‘52مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لہورا