You are on page 1of 25

‫شیخ السالما والمسلمین‘ مجدد اعظم دین وملت اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی

علیہ الرحمہ شیخ السالما والمسلمین‘ مجدد‬


‫اعظم دین وملت اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ اپنے وقت کے جید عالم فاضل تھے۔ اﷲ تعالیی نے آپ کی‬
‫ذات میں بیک وقت بہت سای خصوصیات کو جمع فرما دیا تھا۔ ایک طرف آپ ایک بہترین فقیہ تھے۔ آپ کی نظر علم تفسیر و تاویل‬
‫اور احادیث نبوی پر بہت گہری تھی اور آپ کی علمیت اور اصابت رائے کے اپنے ہی نہیں بلکہ بیگانے بھی قائل تھے۔ آپ کی ساب‬
‫ساے بڑی امتیازی خصوصیت ’’عشق رساولﷺ‘‘ ہے۔ سااری زندگی آپ نے مدح رساولﷺ میں صرف کی۔‬

‫اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کے بارے میں ایک عاما غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ ان کی وجہ ساے برصغیر پاک‬
‫وہند میں بدعات کو فروغ حاصل ہوا اور دین میں ایسی نئی نئی باتیں پیدا ہوئیں جن ساے شارع علیہ السلما کا دور کا بھی واساطہ نہیں‬
‫رہا۔۔۔ لیکن جب ہم اماما احمد رضا علیہ الرحمہ کی تحریروں اور خاص طور پر ان کے فتاویی کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے‬
‫کہ بدعات کو فروغ دینے کا الزاما نہ صرف یہ کہ غلط ہے بلکہ ساراسار ان ساے عدما واقفیت کا نتیجہ ہے۔‬

‫کھلے ذہن و دماغ کے سااتھ اماما اہلسنت علیہ الرحمہ کی تحریروں اور فتاویی کے مطالعہ ساے اماما اہلسنت کی جو تصویر ہمارے‬
‫ساامنے آتی ہے وہ ایک ایسے داعی اور دینی رہنماکی ہے جس نے اپنے زمانے میں شدت کے سااتھ اور باضابطہ طور پر بدعات و‬
‫منکرات کے خلف تحریک چل رکھی تھی اور اپنے مخصوص مزاج کے مطابق ان کے خلف بڑے ہی ساخت الفاظ اساتعمال کئے‬
‫ہیں۔‬

‫لہذا ہم اس کتاب میں ان تماما غیر شرعی رساومات اور وہ خرافات جن کی نسبت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کی‬
‫طرف جاتی ہے‘ آپ ہی کی کتب ساے اس کی مخالفت ثابت کریں گے تاکہ عاما مسلمانوں پر یہ واضح ہوجائے کہ ان تماما خرافات اور‬
‫بدعات کا اماما احمد رضا علیہ الرحمہ اور ان کے ساچے مسلک ساے کوئی تعلق نہیں۔‬

‫اس کتاب کو پڑھنے کے بعد اپنی غلط گمانی کا محاسابہ کریں نیز اندازہ لگائیں کہ انہوں نے بدعتوں کا سادباب کیا یا ان کو فروغ دیا۔‬
‫آج بھی ان کے بتائے ہوئے طریقوں پر چلنے کی کوشش کی جائے تو معاشرے میں نکھار آساکتا ہے۔ بدعات و منکرات کی بیخ کنی‬
‫کے لئے تصنیفات اماما احمد رضا علیہ الرحمہ ساے ہمیں بہت کچھ مل ساکتا ہے۔ آپ علیہ الرحمہ نے یہی پیغاما دیا اور ہر موڑ پر‬
‫اسالمی احکاما کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا سافر شوق آگے بڑھانے کی تلقین فرمائی۔‬

‫بدگمانی حراما ہے‬

‫القرآن‪ :‬یایھا الذین امنوا احتنبوا کثیرا من الظن ان بعض الظن اثم‬

‫ترجمہ‪ :‬اے ایمان والو! بہت ساے گمانوں ساے بچو بے شک بعض گمان گناہ ہیں‬
‫)ساورۂ حجرات آیت ‪ 12‬پارہ ‪(26‬‬

‫حدیث شریف‪) :‬برے( گمان ساے دور رہو کہ )برے( گمان ساب ساے بڑھ کر جھوٹی بات ہے۔‬

‫)صحیح بخاری‘ کتاب الدب‘ حدیث ‪ ‘6066‬جلد ‪3‬ص ‪(117‬‬

‫بعض گمان گناہ ہیں‬

‫ایک مرتبہ اماما جعفر صادق رضی اﷲ عنہ تنہا ایک گدڑی پہنے مدینہ طیبہ ساے کعبہ معظمہ کو تشریف لے جارہے تھے اور ہاتھ‬
‫میں صرف ایک تاملوٹ )یعنی ڈونگا( تھا۔ شفیق بلخی علیہ الرحمہ نے دیکھا )تو( دل میں خیال کیا کہ یہ فقیر اوروں پر اپنا بار )یعنی‬
‫بوجھ( ڈالنا چاہتا ہے۔ یہ وساوساہ شیطانی آنا تھا کہ اماما جعفر صادق رضی اﷲ عنہ نے فرمایا! شفیق۔۔۔ بچو گمانوں ساے )کہ( بعض‬
‫گمان گناہ ہوتے ہیں۔ ناما بتانے اور وساوساہ دلی پر آگاہی ساے نہایت عقیدت ہوگئی اور اماما کے سااتھ ہولئے۔ راساتے میں ایک ٹیلے پر‬
‫پہنچ کر اماما صاحب نے اس ساے تھوڑا ریت لے کرتا ملوٹ )یعنی ڈونگے( میں گھول کر پیا اور شفیق بلخی ساے بھی پینے کو فرمایا۔‬
‫انہیں انکار کا چارہ نہ ہوا جب پیا تو ایسے نفیس لذیذ اور خوشبودار ساتو تھے کہ عمر بھر نہ دیکھے نہ سانے )عیون الحکایات‘‬
‫حکایت نمبر ‪131‬ص ‪(150/149‬‬

‫شیخ السالما علمہ ساید محمد مدنی میاں کچھوچھوی فرماتے ہیں کہ محدث بریلی علیہ الرحمہ کسی نئے مذہب کے بانی نہ تھے از‬
‫اول تا آخر مقلد رہے۔ ان کی ہر تحریر کتاب و سانت اور اجماع و قیاس کی صحیح ترجمان رہی۔ نیز سالف صالحین و ائمہ مجتہدین کے‬
‫ارشادات اور مسلک اسالف کو واضح طور پر پیش کرتی رہی۔ وہ زندگی کے کسی گوشے میں ایک پل کے لئے بھی ’’سابیل مومنین‬
‫صالحین‘‘ ساے نہیں ہٹے۔ اب اگر ایسے کرنے والوں کو ’’بریلوی‘‘ کہہ دیا گیا تو کیا بریلویت و سانیت کو بالکل مترادف المعنی نہیں‬
‫قرار دیا گیا؟ اور بریلویت کے وجود کا آغاز محدث بریلی علیہ الرحمہ کے وجود ساے پہلے ہی تسلیم نہیں کرلیا گیا؟‬

‫مزارات اولیاء پر ہونے والے خرافات‬

‫اﷲ تعالیی کے نیک بندوں کے مزارات شعائر اﷲ ہیں‘ ان کا احتراما و ادب ہر مسلمان پر لزما ہے‘ خاصان خدا ہر دور میں مزارات‬
‫اولیاء پر حاضر ہوکر فیض حاصل کرتے ہیں۔ صحابہ کراما علیہم الرضوان اپنے مولییﷺ کے مزار پر حاضر ہوکر آپﷺ ساے فیض‬
‫حاصل کیا کرتے تھے۔۔۔ پھر تابعین کراما صحابہ کراما علیہم الرضوان کے مزارات پر حاضر ہوکر فیض حاصل کیا کرتے تھے‘ پھر‬
‫تبع تابعین‘ تابعین کراما کے مزارات پر حاضر ہوکر فیض حاصل کیا کرتے تھے‘ تبع تابعین اور اولیاء کراما کے مزارات پر آج تک‬
‫عواما وخواص حاضر ہوکر فیض حاصل کرتے ہیں اور انشاء اﷲ یہ سالسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔‬

‫لدینی قوتوں کا یہ ہمیشہ ساے وطیرہ رہا ہے کہ وہ مقدس مقامات کو بدناما کرنے کے لئے وہاں خرافات و منکرات کا بازار گرما‬
‫کرواتے ہیں تاکہ مسلمانوں کے دلوں ساے مقدس مقامات اور شعائر اﷲ کی تعظیم و ادب ختم کیا جاساکے۔ یہ سالسلہ ساب ساے پہلے بیت‬
‫المقدس ساے شروع کیا گیا۔ وہاں فحاشی و عریانی کے اڈے قائم کئے گئے‘ شرابیں فروخت کی جانے لگیں اور دنیا بھر ساے لوگ‬
‫صرف عیاشی کرنے کے لئے بیت المقدس آتے تھے )معاذ اﷲ(‬

‫اسای طرح آج بھی مزارات اولیاء پر خرافات‘ منکرات‘ چرس و بھنگ‘ ڈھول تماشے‘ ناچ گانے اور رقص و سارور کی محافلیں ساجائی‬
‫جاتی ہیں تاکہ مسلمان ان مقدس ہستیوں ساے بدظن ہوکر یہاں کا رخ نہ کریں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ بعض لوگ یہ تماما خرافات‬
‫اہلسنت اور اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کے کھاتے میں ڈالتے ہیں جوکہ بہت ساخت قسم کی خیانت ہے۔‬

‫اس بات کو بھی مشہور کیا جاتا ہے کہ یہ ساارے کاما جو غلط ہیں‘ یہ اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کی تعلیمات ہیں۔‬
‫پھر اس طرح عواما الناس کو اہلسنت اور اماما اہلسنت علیہ الرحمہ ساے برگشتہ کیا جاتا ہے۔ اگر ہم لوگ اماما اہلسنت اماما احمد رضا‬
‫خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کی کتابوں اور آپ کے فرامین کا مطالعہ کریں تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ اعلیی حضرت علیہ‬
‫الرحمہ بدعات و منکرات کے قاطع یعنی ختم کرنے والے تھے۔ اب مزارات پر ہونے والے خرافات کے متعلق آپ ہی کے فرامین اور‬
‫کتابوں ساے اصل حقیقت ملحظہ کریں اور اپنی بدگمانی کو دور کریں۔‬

‫مزار شریف کو بوساہ دینا اور طواف کرنا‬

‫اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ مزار کا طواف کہ محض بہ نیت تعظیم کیا جائے ناجائز ہے کہ تعظیم‬
‫بالطواف مخصوص خانہ کعبہ ہے۔ مزار شریف کو بوساہ نہیں دینا چاہئے۔ علماء کا اس مسئلے میں اختلف ہے مگر بوساہ دینے ساے‬
‫بچنا بہتر ہے اور اسای میں ادب زیادہ ہے۔ آساتانہ بوسای میں حرج نہیں اور آنکھوں ساے لگانا بھی جائز کہ اس ساے شرع میں ممانعت‬
‫نہ آئی اور جس چیز کو شرح نے منع نہ فرمایا وہ منع نہیں ہوساکتی۔ اﷲ تعالیی کا فرمان ’’ان الحکم ال اﷲ‘‘ ہاتھ باندھے الٹے پاؤں آنا‬
‫ایک طرز ادب ہے اور جس ادب ساے شرح نے منع نہ فرمایا اس میں حرج نہیں۔ ہاں اگر اس میں اپنی یا دوسارے کی ایذا کا اندیشہ ہو‬
‫تو اس ساے احتراز )بچا( کیا جائے‬

‫)فتاویی رضویہ جلد چہارما ص ‪ ‘8‬مطبوعہ رضا اکیڈمی ممبئی(‬

‫روضہ انور پر حاضری کا صحیح طریقہ‬

‫اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں کہ خبردار جالی شریف )حضورﷺ کے مزار شریف کی‬
‫ف ادب ہے بلکہ )جالی شریف( ساے چار ہاتھ فاصلہ ساے زیادہ قریب نہ‬‫سانہری جالیوں( کو بوساہ دینے یا ہاتھ لگانے ساے بچو کہ خل ف‬
‫جاؤ۔ یہ ان کی رحمت کیا کم ہے کہ تم کو اپنے حضور بلیا‘ اپنے مواجہ اقدس میں جگہ بخشی‘ ان کی نگاہ کرما اگرچہ ہر جگہ‬
‫تمہاری طرف تھی اب خصوصیت اور اس درجہ قرب کے سااتھ ہے )فتاویی رضویہ جدید جلد ‪ 10‬ص ‪ ‘765‬مطبوعہ جامعہ نظامیہ‬
‫لہور(‬
‫روضہ انور پر طواف و ساجدہ منع ہے‬

‫اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں روضہ انور کا طواف نہ کرو‘ نہ ساجدہ کرو‘ نہ اتنا جھکنا‬
‫کہ رکوع کے برابر ہو۔ حضور کریمﷺ کی تعظیم ان کی اطاعت میں ہے۔‬

‫)فتاویی رضویہ شریف جدید جلد ‪10‬ص ‪ 769‬مطبوعہ جامعہ نظامیہ لہور(‬

‫معلوما ہوا کہ مزارات پر ساجدہ کرنے والے لوگ جہل میں ساے ہیں اور جہلء کی حرکت کو تماما اہلسنت پر ڈالنا ساراسار خیانت ہے‘‬
‫اور اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کی تعلیمات کے خلف ہے۔‬

‫مزارات پر چادر چڑھانا‬

‫اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ساے مزارات پر چادر چڑھانے کے متعلق دریافت کیا تو جواب دیا جب‬
‫چادر موجود ہو اور ہنوز پرانی یا خراب نہ ہوئی کہ بدلنے کی حاجت ہو تو بیکار چادر چڑھانا فضول ہے بلکہ جو داما اس میں صرف‬
‫کریں اﷲ تعالیی کے ولی کی روح مبارک کو ایصال ثواب کے لئے محتاج کو دیں )احکاما شریعت حصہ اول ص ‪(42‬‬

‫عرس کا دن خاص کیوں کیا جاتا ہے‬

‫اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ساے پوچھا گیا کہ بزرگان دین کے اعراس کی تعین )یعنی عرس کا دن مقرر‬
‫کرنے( میں بھی کوئی مصلحت ہے؟‬

‫آپ ساے جوابا ا ارشاد فرمایا ہاں اولیائے کراما کی ارواح طیبہ کو ان کے وصال کے دن قبور کریمہ کی طرف توجہ زیادہ ہوتی ہے‬
‫چنانچہ وہ وقت جو خاص وصال کا ہے۔ اخذ برکات کے لئے زیادہ مناساب ہوتا ہے۔ )ملفوظات شریف ص ‪ ‘383‬مطبوعہ مکتبتہ المدینہ‬
‫کراچی(‬

‫عرس میں آتش بازی اور نیاز کا کھانا لٹانا حراما ہے‬

‫ساوال‪ :‬بزرگان دین کے عرس میں شب کو آتش بازی جلنا اور روشنی بکثرت کرنا بل حاجت اور جو کھانا بغرض ایصال ثواب پکایا‬
‫گیا ہو۔ اس کو لٹانا کہ جو لوٹنے والوں کے پیروں میں کئی من خراب ہوکر مٹی میں مل گیا ہو‘ اس فعل کو بانیان عرس موجب فخر‬
‫اور باعث برکت قیاس کرتے ہیں۔ شریعت عالی میں اس کا کیا حکم ہے؟‬
‫جواب‪ :‬آتش بازی اساراف ہے اور اساراف حراما ہے‘ کھانے کا ایسا لٹانا بے ادبی ہے اور بے ادبی محرومی ہے‘ تصنیع مال ہے اور‬
‫تصنیع حراما۔ روشنی اگر مصالح شرعیہ ساے خالی ہو تو وہ بھی اساراف ہے )فتاویی رضویہ جدید جلد ‪24‬ص ‪ ‘112‬مطبوعہ رضا‬
‫فاؤنڈیشن لہور(‬

‫عرس میں رنڈیوں کا ناچ حراما ہے‬

‫ساوال‪ :‬تقویۃ الیمان مولوی اسامعیل کی فخر المطابع لکھنؤ کی چھپی ہوئی کہ صفحہ ‪ 329‬پر جو عرس شریف کی تردید میں کچھ نظم‬
‫ہے اور رنڈی وغیرہ کا حوالہ دیا ہے‘ اساے جو پڑھا تو جہاں تک عقل نے کاما کیا ساچا معلوما ہوا کیونکہ اکثر عرس میں رنڈیاں ناچتی‬
‫ہیں اور بہت بہت گناہ ہوتے ہیں اور رنڈیوں کے سااتھ ان کے یار آشنا بھی نظر آتے ہیں اور آنکھوں ساے ساب آدمی دیکھے ہیں اور‬
‫طرح طرح کے خیال آتے ہیں۔ کیونکہ خیال بدونیک اپنے قبضہ میں نہیں‘ ایسی اور بہت سااری باتیں لکھی ہیں جن کو دیکھ کر تسلی‬
‫بخش جواب دیجئے؟‬

‫جواب‪ :‬رنڈیوں کا ناچ بے شک حراما ہے‘ اولیائے کراما کے عرساوں میں بے قید جاہلوں نے یہ معصیت پھیلئی ہے )فتاویی رضویہ‬
‫جدید جلد ‪29‬ص ‪ ‘92‬مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لہور(‬

‫وجد کا شرعی حکم‬

‫اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ساے ساوال کیا گیا کہ مجلس ساماع میں اگر مزامیر نہ ہوں )اور( ساماع جائز‬
‫ہو تو وجد والوں کا رقص جائز ہے یا نہیں؟‬

‫آپ نے جوابا ارشاد فرمایا کہ اگر وجد صادق )یعنی ساچا( ہے اور حال غالب اور عقل مستور )یعنی زائل اور اس عالم ساے دور تو اس‬
‫پر تو قلم ہی جاری نہیں۔‬

‫اور اگر بہ تکلف وجد کرتا ہے تو ’’تشنی اور تکسر‘‘ یعنی لچکے توڑنے کے سااتھ حراما ہے اور بغیر اس کے ریا و اظہار کے لئے‬
‫ہے تو جہنم کا مستحق ہے اور اگر صادقین کے سااتھ تشبہ بہ نیت خالصہ مقصود ہے کہ بنتے بنتے بھی حقیقت بن جاتی ہے تو حسن و‬
‫)محمود ہے حضور کریمﷺ فرماتے ہیں کہ جو کسی قوما ساے مشابہت اختیار کرے وہ انہی میں ساے ہے‬

‫)ملفوظات شریف ‘‪ ‘231‬مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ‘کراچی(‬


‫حرمت مزامیر‬

‫اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ مزامیر یعنی آلت لہو و لعب بروجہ لہو و لعب بلشبہ حراما‬
‫ہیں جن کی حرمت اولیاء و علماء دونوں فریق مقتداء کے کلمات عالیہ میں مصرح‘ ان کے ساننے سانانے کے گناہ ہونے میں شک نہیں‬
‫کہ بعد اصرار کبیرہ ہے اور حضرات علیہ ساادات بہثت کبرائے سالسلہ عالیہ چشت کی طرف اس کی نسبت محض باطل و افتراء ہے‬
‫)فتاویی رضویہ جلد دہم ص ‪(54‬‬

‫نشہ و بھنگ و چرس‬

‫اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ نشہ بذاتہ حراما ہے۔ نشہ کی چیزیں پینا جس ساے نشہ بازوں‬
‫کی مناسابت ہو اگرچہ حد نشہ تک نہ پہنچے یہ بھی گناہ ہے ہاں اگر دوا کے لئے کسی مرکب میں افیون یا بھنگ یا چرس کا اتنا جز‬
‫ڈال جائے جس کا عقل پر اصل اثر نہ ہو حرج نہیں۔ بلکہ افیون میں اس ساے بھی بچنا چاہئے کہ اس خبیث کا اثر ہے کہ معدے میں‬
‫ساوراخ کردیتی ہے۔ )احکاما شریعت جلد دوما(‬

‫تصاویر کی حرمت‬

‫اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ جاندار کی تصویریں بنانا ہاتھ ساے ہو خواہ عکسی حراما ہے‬
‫اور ان معبود ان کفار کی تصویریں بنانا اور ساخت تر حراما و اشد کبیرہ ہے‘ ان ساب لوگوں کو اماما بنانا گناہ ہے اور ان کے پیچھے‬
‫نماز مکروہ تحریمی قریب الحراما ہے۔ )فتاویی رضویہ جلد ساوما ص ‪(190‬‬

‫غیر اﷲ کو ساجدہ تعظیمی حراما اور ساجدہ عبادت کفر ہے‬

‫اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ مسلمان اے مسلمان! اے شریعت مصطفوی کے تابع فرمان!‬
‫جان اور یقین جان کہ ساجدہ حضرت عزت عز جللہ )رب تعالیی( کے ساوا کسی کے لئے نہیں غیر اﷲ کو ساجدہ عبادت تو یقیناااجماعا ا‬
‫شرک مہین و کفر مبین اور ساجدہ تحیت )تعظیمی( حراما و گناہ کبیرہ بالیقین۔ )الزبدۃ الزکیہ لتحریم ساجود التحیہ‘ ص ‪ 5‬مطبوعہ بریلی‬
‫ہندوساتان(‬

‫چراغ جلنا‬
‫اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ساے قبروں پر چراغ جلنے کے بارے میں ساوال کیا گیا تو شیخ عبدالغنی‬
‫نابلسی علیہ الرحمہ کی تصنیف حدیقہ ندیہ کے حوالے ساے تحریر فرمایا کہ قبروں کی طرف شمع لے جانا بدعت اور مال کا ضائع‬
‫کرنا ہے )اگرچہ قبر کے قریب تلوت قرآن کے لئے موما بتی جلنے میں حرج نہیں مگر قبر ساے ہٹ کر ہو(‬

‫)البریق المنار بشموع المزار ص ‪ 9‬مطبوعہ لہور(‬

‫اس کے بعد محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں یہ ساب اس صورت میں ہے کہ بالکل فائدے ساے خالی ہو اور اگر شمع روشن‬
‫کرنے میں فائدہ ہو کہ موقع قبور میں مسجد ہے یا قبور سار راہ ہیں‘ وہاں کوئی شخص بیٹھا ہے تو یہ امر جائز ہے )البریق المنار‬
‫بشموع المزار ص ‪ 9‬مطبوعہ لہور(‬

‫ایک اور جگہ اسای قسم کے ایک ساوال کے جواب میں فرماتے ہیں اصل یہ کہ اعمال کا مدار نیت پر ہے۔ حضورﷺ فرماتے ہیں عمل‬
‫کا دارومدار نیت پر ہے اور جو کاما دینی فائدے اور دنیوی نفع جائز دونوں ساے خالی ہو عبث ہے اور عبث خود مکروہ ہے اور اس‬
‫میں مال صرف کرنا اساراف ہے اور اساراف حراما ہے۔‬

‫قال اﷲ تعالیی ول تسرفوا ان اﷲ ل یحب المسرفین اور مسلمانوں کو نفع پہنچانا بلشبہ محبوب شارع ہے۔‬

‫حضورﷺ فرماتے ہیں کہ تم میں جس ساے ہوساکے کہ اپنے بھائی کو نفع پہنچائے تو پہنچائے )احکاما شریعت حصہ اول ص ‪38‬‬
‫مطبوعہ آگرہ ہندوساتان(‬

‫اگر اور لوبان جلنا‬

‫اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ساے قبر پر لوبان وغیرہ جلنے کے متعلق دریافت کیا گیا تو جواب دیا گیا‬
‫عود‘ لوبان وغیرہ کوئی چیز نفس قبر پر رکھ کر جلنے ساے احتراز کرنا چاہئے )بچنا چاہئے( اگرچہ کسی برتن میں ہو اور قبر کے‬
‫قریب سالگانا )اگر نہ کسی تالی یا ذاکر یا زائر حاضر خواہ عنقریب آنے والے کے واساطے ہو( بلکہ یوں کہ صرف قبر کے لئے جل‬
‫کر چل آئے تو ظاہر منع ہے اساراف )حراما( اور اضاعیت مال )مال کو ضائع کرنا ہے( میت صالح اس عرضے کے سابب جو اس قبر‬
‫میں جنت ساے کھول جاتا ہے اور بہشتی نسیمیں )جنتی ہوائیں( بہشتی پھولوں کی خوشبوئیں لتی ہیں۔ دنیا کے اگر اور لوبان ساے غنی‬
‫ہے )السنیۃ النیقہ ص ‪ 70‬مطبوعہ بریلی ہندوساتان(‬

‫فرضی مزار بنانا اور اس پر چادر چڑھانا‬

‫‪:‬اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں ساوال کیاگیا‬
‫مسئلہ‪ :‬کسی ولی کا مزار شریف فرضی بنانا اور اس پر چادر وغیرہ چڑھانا اور اس پر فاتحہ پڑھنا اور اصل مزار کا ساا ادب و لحاظ‬
‫کرنا جائز ہے یا نہیں؟ اور اگر کوئی مرشد اپنے مریدوں کے واساطے بنانے اپنے فرضی مزار کے خواب میں اجازت دے تو وہ قول‬
‫مقبول ہوگا یا نہیں؟‬

‫الجواب‪ :‬فرضی مزار بنانا اور اس کے سااتھ اصل کا ساا معاملہ کرنا ناجائز و بدعت ہے اور خواب کی باتیں خلف شرع امور میں‬
‫مسموع نہیں ہوساکتی )فتاویی رضویہ جدید جلد ‪9‬ص ‪ ‘425‬مطبوعہ جامعہ نظامیہ لہور(‬

‫عورتوں کا مزارات پر جانا ناجائز ہے‬

‫اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ’’غنیہ میں ہے یہ نہ پوچھو کہ عورتوں کا مزاروں پر جانا جائز‬
‫ہے یا نہیں؟ بلکہ یہ پوچھو کہ اس عورت پر کس قدر لعنت ہوتی ہے اﷲ تعالیی کی طرف ساے اور کس قدر صاحب قبر کی جانب ساے۔‬
‫جس وقت وہ گھر ساے ارادہ کرتی ہے لعنت شروع ہوجاتی ہے اور جب تک واپسی آتی ہے ملئکہ لعنت کرتے رہتے ہیں۔ ساوائے‬
‫روضہ رساولﷺ کے کسی مزار پر جانے کی اجازت نہیں۔ وہاں کی حاضری البتہ سانت جلیلہ عظیمہ قریب بواجبات ہے اور قرآن‬
‫کریم نے اساے مغفرت کا ذریعہ بتایا )ملفوظات شریف ص ‪ ‘240‬ملخصا ا رضوی کتاب گھر دہلی(‬

‫مزارات اولیاء پر خرافات‬

‫اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ اولیاء کراما کے مزارات پر ہر ساال مسلمانوں کا جمع ہوکر‬
‫قرآن مجید کی تلوت اور مجالس کرنا اور اس کا ثواب ارواح طیبہ کو پہنچانا جائز ہے کہ منکرات شرعیہ مثل رقص و مزامیر‬
‫وغیرھا ساے خالی ہو‘ عورتوں کو قبور پر ویسے جانا چاہئے نہ کہ مجمع میں بے حجانہ اور تماشے کا میلد کرنا اور فوٹو وغیرہ‬
‫کھنچوانا یہ ساب گناہ و ناجائز ہیں جو شخص ایسی باتوں کا مرتکب ہو‘ اساے اماما نہ بنایا جائے )فتاویی رضویہ جلد چہارما ص ‪‘216‬‬
‫مطبوعہ رضا اکیڈمی ممبئی(‬

‫مزارات پر حاضری کا طریقہ‬

‫‪:‬اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کی کتاب فتاویی رضویہ ساے ملحظہ ہو‬

‫مسئلہ‪ :‬حضرت کی خدمت میں عرض یہ ہے کہ بزرگوں کے مزار پر جائیں تو فاتحہ کس طرح ساے پڑھا کریں اور فاتحہ میں کون‬
‫کون سای چیز پڑھا کریں؟‬
‫الجواب‪ :‬مزارات شریفہ پر حاضر ہونے میں پائنتی قدموں کی طرف ساے جائے اور کم از کم چار ہاتھ کے فاصلے پر مواجہہ میں‬
‫کھڑا ہو اور متوساط آواز باادب سالما عرض کرے السلما علیک یا سایدی و رحمتہ اﷲ و برکاتہ‘ پھر درود غوثیہ‘ تین بار‘ الحمد شریف‬
‫ایک‘ آیتہ الکرسای ایک بار‘ ساورہ اخلص ساات بار‘ پھر درود غوثیہ ساات بار اور وقت فرصت دے تو ساورہ ییس اور ساورہ ملک بھی‬
‫پڑھ کر اﷲ تعالیی ساے دعا کرے کہ ایلہی! اس قرات پر مجھے اتنا ثواب دے جو تیرے کرما کے قابل ہے‘ نہ اتنا جو میرے عمل کے‬
‫قابل ہے اور اساے میری طرف ساے اس بندہ مقبول کی نذر پہنچا۔۔۔ پھر اپنا جو مطلب جائز شرعی ہو‘ اس کے لئے دعا کرے اور‬
‫صاحب مزار کی روح کو اﷲ تعالیی کی بارگاہ میں اپنا وسایلہ قرار دے‘ پھر اسای طرح سالما کرکے واپس آئے۔ مزار کو نہ ہاتھ لگائے‬
‫نہ بوساہ دے )ادب اسای میں ہے( اور طواف بالتفاق ناجائز ہے اور ساجدہ حراما۔ واﷲ تعالی اعلم‬

‫)فتاویی رضویہ جدید جلد ‪9‬ص ‪ ‘522‬مطبوعہ جامعہ نظامیہ لہور پنجاب(‬

‫مردے سانتے ہیں‬

‫‪:‬اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ یہ حدیث پیش کرتے ہیں‬

‫حدیث شریف‪ :‬غزوہ بدر شریف میں مسلمانوں نے کفار کی نعشیں جمع کرکے ایک کنویں میں پاٹ دیں حضورﷺ کی عادت کریمہ‬
‫تھی جب کسی مقاما کو فتح فرماتے تو وہاں تین دن قیاما فرماتے تھے‘ یہاں ساے تشریف لے جاتے وقت اس کنویں پر تشریف لے گئے‬
‫جس میں کافروں کی لشیں پڑی تھیں اور انہیں ناما بناما آواز دے کر فرمایا ’’ہم نے تو پالیا جو ہم ساے ہمارے رب تعالیی نے ساچا وعدہ‬
‫)یعنی نصرت کا( فرمایا تھا کیوں تم نے بھی پایا جو ساچا وعدہ )یعنی نار کا( تم ساے تمہارے رب تعالیی نے کیا تھا؟ امیر المومنین‬
‫حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے عرض کی یارساول اﷲﷺ! بے جان ساے کلما فرماتے ہیں؟ فرمایا جو کچھ میں کہہ رہا ہوں‘‬
‫اساے تم کچھ ان ساے زیادہ نہیں سانتے مگر انہیں طاقت نہیں کہ مجھے لوٹ کر جواب دیں )صحیح بخاری ‘ کتاب المغازی‘ حدیث‬
‫‪3976‬جلد ‪ ‘3‬ص ‪(11‬‬

‫تو جب کافر تک سانتے ہیں‘ )تو پھر( مومن تو مومن ہے اور پھر اولیاء کی شان تو ارفع اعلیی ہے )یعنی اولیاء اﷲ کتنا سانتے ہوں‬
‫گے(‬

‫روح ایک پرند ہے اور جسم پنجرہ۔۔۔ پرند جس وقت تک پنجرے میں ہے اور اس کی پرواز اسای قدر ہے‘ جب پنجرے )پھر فرمایا(‬
‫ساے نکل جائے اس وقت اس کی قوت پرواز دیکھئے )ملفوظات شریف ص ‪ ‘270‬مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی(‬

‫ایک اہم فتویی‬

‫ساوال‪ :‬کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص نے یہ نیت کی کہ اگر میری نوکری ہوجائے تو پہلی تنخواہ زیارت‬
‫پیران کلیر شریف کی نذر کروں گا‘ وہ شخص تیرہ تاریخ ساے نوکر ہوا اور تنخواہ اس کی ایک مہینہ ساترہ دن بعد ملی۔ اب یہ ایک ماہ‬
‫کی تنخواہ صرف کرے یا ساترہ دن کی؟ اور اس تنخواہ کا صرف کس طرح پر کرے یعنی زیارت شریف کی سافیدی و تعمیر وغیرہ‬
‫میں لگائے یا حضرت صابر پیا صاحب علیہ الرحمہ کی روح پاک کو فاتحہ ثواب بخشے یا دونوں طرف صرف کرساکتا ہے؟‬

‫الجواب‪ :‬اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں صرف نیت ساے تو کچھ لزما نہیں ہوتا جب تک زبان‬
‫ساے الفاظ نذر ایجاب کہے اور اگر زبان ساے الفاظ مذکور کہے اور ان ساے معنی صحیح مراد لئے یعنی پہلی تنخواہ اﷲ تعالیی کے ناما‬
‫پر صدقہ کروں گا اور اس کا ثواب حضرت مخدوما صاحب علیہ الرحمہ کی نذر کروں گا یا پہلی تنخواہ اﷲ تعالیی کے لئے مخدوما‬
‫صاحب علیہ الرحمہ کے آساتانہ پاک کے فقیروں کو دوں گا‘ یہ نذر صحیح شرعی ہے اور اساتحسانا ا وجوب ہوگیا۔ پہلی تنخواہ اساے‬
‫فقیروں پر صدقہ کرنی لزما ہوگئی مگر یہ اختیار ہے کہ آساتانہ پاک کے فقیروں کو دے اور جہاں کے فقیروں محتاجوں کو چاہے اور‬
‫اگر یہ معنی صحیح مراد نہ تھے بلکہ بعض بے عقل جاہلوں کی طرح بے ارادہ صدقہ وغیرہ قربات شرعیہ صرف یہی مقصود تھا کہ‬
‫پہلی تنخواہ خود حضرت مخدوما صاحب کو دوں گا تو یہ نذر باطل محض و گناہ عظیم ہوگی۔‬

‫مگر مسلمان پر ایسے معنی مراد لینے کی بدگمانی جائز نہیں جب تک وہ اپنی نیت ساے صراحتا ا اطلع نہ دے۔ اسای طرح اگر‬
‫نذرزیارت کرنے ساے اس کی یہ مراد تھی کہ اﷲ تعالیی کے واساطے عمارت زیارت شریف کی سافیدی کرادوں گا یا احاطہ مزار‬
‫پرانوار میں روشنی کروں گا۔ جب بھی یہ نذر غیر لزما و نامعتبر ہے کہ ان افعال کی جنس ساے کوئی واجب شرعی نہیں۔ رہا یہ کہ‬
‫جس حالت میں نذر صحیح ہوجائے۔‬

‫پہلی تنخواہ ساے کیا مراد ہوگی یہ ظاہر ہے کہ عرف میں مطلق تنخواہ خصوصا پہلی تنخواہ ایک مہینہ کی اجرت کو کہتے ہیں۔‬
‫اگرچہ اس کا ایک جز بھی تنخواہ ہے اور عمر بھر کا واجب بھی تنخواہ ہے تو پہلی تنخواہ کہنے ساے اول تنخواہ ایک ماہ ہی عرفا‬
‫لزما آئے گی۔‬

‫کیونکہ کسے عقد والے‘ قسم والے‘ نذر والے اور وقف کرنے والے کے کلما کو متعارف معنی پر محمول کیا جائے گا جیسا کہ اس‬
‫پر نص کی گئی ہے )رد المحتار‘ باب التعلیق‘ داراحیاء التراث العربی بیروت جلد ‪2‬ص ‪(533,499‬‬

‫)فتاویی رضویہ جدید جلد ‪ 13‬ص ‪ ‘591‬مطبوعہ جامعہ نظامیہ لہور(‬

‫وفات کے موقع پر بے ہودہ رساومات‬

‫اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں کہ باقی جو بے ہودہ باتیں لوگوں نے نکالی ہیں مثل اس‬
‫میں شادی کے ساے تکلف کرنا‘ عمدہ عمدہ فرش بچھانا‘ یہ باتیں بے جا ہیں اور اگر یہ سامجھتا ہے کہ ثواب تیسرے دن پہنچتا ہے‘ یا‬
‫اس دن زیادہ پہنچے گا اور روز کم‘ تو یہ عقیدہ بھی اس کا غلط ہے۔ اسای طرح چنوں کی کوئی ضرورت نہیں۔ نہ چنے بانٹنے کے‬
‫سابب کوئی برائی پیدا ہو )الحجتہ الفاتحہ لطیب التعین والفاتحہ‘ ص ‪ 14‬مطبوعہ لہور(‬
‫میت کے گھر مہمان داری‬

‫اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں کہ میت کے گھر انتقال کے دن یا بعد عورتوں اور‬
‫مردوں کا جمع ہوکر کھانا پینا اور میت کے گھر والوں کو زیر بار کرنا ساخت منع ہے )جلی الصوت لنہی الدعوت اماما الموت‘ مطبوعہ‬
‫بریلی شریف ہندوساتان(‬

‫اعلیی حضرت علیہ الرحمہ ساے ساوال کیا گیا‬

‫ساوال‪ :‬کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ہندہ نے اپنی موت اپنی حیات میں کردی ہے تو اس صورت میں ہندہ کو کب تک‬
‫دوسارے کے یہاں کی میت کا کھانا نہیں چاہئے اور اگر ہندہ کے گھر میں کوئی مرجائے تو اس کا بھی کھانا جائز ہے اور کب تک‬
‫یعنی برس تک یا چالیس دن تک۔ اور اگر ہندہ نے شروع ساے جمعرات کی فاتحہ نہ دلئی ہو تو چالیس دن کے بعد ساات جمعرات کی‬
‫فاتحہ دلنا چاہے‘ ہوساکتی ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا‬

‫الجواب‪ :‬میت کے یہاں جو لوگ جمع ہوتے ہیں اور ان کی دعوت کی جاتی ہے‘ اس کھانے کی تو ہر طرح ممانعت ہے‘ اور بغیر‬
‫دعوت کے جمعراتوں‘ چالیسویں‘ چھ ماہی ‘ برسای میں جو بھاجی کی طرح اغنیاء کو بانٹا جاتا ہے‘ وہ بھی اگرچہ بے معنی ہے مگر‬
‫اس کا کھانا منع ہے۔ بہتر یہ ہے کہ غنی نہ کھائے اور فقیر کو تو کچھ مضائقہ نہیں کہ وہی اس کے مستحق ہیں اور ان ساب احکاما میں‬
‫وہ جس نے اپنی موت اپنی حیات میں کردی اور جس نے نہ کی ساب کے ساب برابر ہیں اور اپنی یہاں موت ہوجائے تو اپنا کھانا‬
‫کھانے کی کسی کو ممانعت نہیں اور چالیس دن کے بعد بھی جمعراتیں ہوساکتی ہیں۔ اﷲ تعالیی کے فقیروں کو جب اور جو کچھ دے‬
‫ثواب ہے )واﷲ تعالیی اعلم(‬

‫)فتاویی رضویہ جدید جلد ‪9‬ص ‪ ‘673‬مطبوعہ جامعہ نظامیہ لہور پنجاب(‬

‫ایصال ثواب سانت ہے اور موت میں ضیافت ممنوع‬

‫فتح القدیر وغیرہ میں ہے اہل میت کی طرف ساے کھانے کی ضیافت تیار کرنی منع ہے کہ شرع نے ضیافت خوشی میں رکھی ہے نہ‬
‫کہ غمی میں اور یہ بدعت شنیعہ ہے۔ اماما احمد اور ابن ماجہ بسند صحیح حضرت جرید بن عبداﷲ بجلی رضی اﷲ عنہ ساے راوی ہیں‬
‫ہم گروہ صحابہ اہل میت کے یہاں جمع ہونے اور ان کے لئے کھانا تیار کرنے کو مردے کی نیاحت ساے شمار کرتے تھے )فتح القدیر‘‬
‫فصل فی الدفن مکتبہ نوریہ رضویہ‘ ساکھر ‪(103/2‬‬

‫)فتاویی رضویہ جدید جلد ‪9‬ص ‪ ‘604‬مطبوعہ جامعہ نظامیہ لہور پنجاب(‬
‫ساوئم کے چنے کون تناول کرساکتا ہے؟‬

‫اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ نے ساوئم کے چنوں اور طعاما میت ساے متعلق ایک ساوال کے جواب میں‬
‫ارشاد فرمایا کہ یہ چیزیں غنی نہ لے‘ فقیر لے اور وہ جو‘ان کامنتظر رہتا ہے‘ ان کے نہ ملنے ساے نا خوش ہوتا ہے اس کا قلب سایاہ‬
‫ہوتا ہے‘ مشرک یا چمار کو اس کا دینا گناہ گناہ گناہ ہے جبکہ فقیر لے کر خود کھائے اور غنی لے ہی نہیں اور لے لئے ہوں تو‬
‫مسلمان فقیر کو دے دے۔ یہ حکم عاما فاتحہ کا ہے نیاز اولیاء کراما طعاما موت نہیں وہ تبرک ہے فقیر وغنی ساب لیں جبکہ مانی ہوئی‬
‫نذر بطور نذر شرعی نہ ہو۔ شرعی نذر پھر غیر فقیر کو جائز نہیں )فتاویی رضویہ جلد چہارما(‬

‫ایک اور جگہ یوں فرمایا میت کے یہاں جو لوگ جمع ہوتے ہیں اور ان کی دعوت کی جاتی ہے اس کھانے کی تو ہر طرح ممانعت‬
‫ہے اور بغیر دعوت کے جمعراتوں‘ چالیسویں ‘ چھ ماہی‘ برسای میں جو بھاجی کی طرح اغنیاء کو بانٹا جاتا ہے وہ بھی اگرچہ بے‬
‫معنی ہے مگر اس کا کھانا منع نہیں بہتر ہے کہ غنی نہ کھائے )فتاویی رضویہ(‬

‫اماما احمد رضا خان علیہ الرحمہ کی وصیت‬

‫اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ نے یہ وصیت فرمائی کہ ہماری فاتحہ کا کھانا صرف فقراء کو کھلیا جائے‬
‫)وصایا شریف(‬

‫میت پرپھولوں کی چادر ڈالنا کیسا؟‬

‫ساوال‪ :‬ہمارے یہاں میت ہوگئی تھی تو اس کے کفنانے کے بعد پھولوں کی چادر ڈالی گئی اس کو ایک پیش اماما افغانی نے اتار ڈال‬
‫اور کہا یہ بدعت ہے‘ ہم نہ ڈالنے دیں گے؟‬

‫الجواب‪ :‬پھولوں کی چادر بالئے کفن ڈالنے میں شرعا ا اصلا حرج نہیں بلکہ نیت حسن ساے حسن ہے جیسے قبورپر پھول ڈالنا کہ وہ‬
‫جب تک تر رہیں گے تسبیح کرتے ہیں اس ساے میت کا دل بہلتا ہے اور رحمت اترتی ہے۔ فتاویی عالمگیری میں ہے قبروں پر گلب‬
‫اور پھولوں کا رکھنا اچھا ہے )فتاویی ہندیہ‘ الباب السادس عشر فی زیارۃ القبور‘ جلد ‪5‬ص ‪ ‘351‬مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور(‬

‫فتاویی اماما قاضی خان و امداد الفتاح شرح المصنف لمراقی الفلح و رد المحتار علی الدر المختار میں ہے‪ :‬پھول جب تک تر رہے‬
‫تسبیح کرتا رہتا ہے جس ساے میت کو انس حاصل ہوتا ہے اور اس کے ذکر ساے رحمت نازل ہوتی ہے )رد المحتار‘ مطلب فی وضع‬
‫الجدید و نحو الس علی القبور‘ جلد اول ص ‪ 606‬مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المصریہ مصر(‬

‫)فتاویی رضویہ جدید جلد ‪ 9‬ص ‪ ‘105‬مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن جامعہ نظامیہ لہور(‬
‫جنازہ پر چادر ڈالنا کیسا؟‬

‫ساوال‪ :‬جنازہ کے اوپر جو چادر نئی ڈالی جاتی ہے اگر پرانی ڈالی جائے تو جائز ہے یا نہیں؟ اگر کل برادری کے مردوں کے اوپر‬
‫ایک ہی چادر بنا کر ڈالتے رہا کریں تو جائز ہے یا نہیں؟ اس کی قیمت مردہ کے گھر ساے یعنی قلیل قیمت لے کر مقبرہ قبرساتان یا‬
‫مدرساہ میں لگانی جائز ہے یا نہیں؟ اور چادر مذکور اونی یا ساوتی بیش قیمت جائز ہے یا نہیں؟‬

‫الجواب‪ :‬اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ چادر نئی ہو یاپرانی‘یکساں ہے ہاں مسکین پر‬
‫تصدق )صدقے( کی نیت ہو تو نئی اولیی‘ اور اگر ایک ہی چادر معین رکھیں کہ ہر جنازے پر وہی ڈالی جائے پھر رکھ چھوڑی جائے‬
‫اس میں بھی کوئی حرج نہیں بلکہ اس کے لئے کپڑا وقف کرساکتے ہیں۔ در مختار میں ہے۔‬

‫ہنڈیا‘ جنازہ اور اس کے کپڑے کا وقف صحیح ہے )درمختار‘ کتاب الوقف‘ جلد اول ص ‪ ‘380‬مطبوعہ دہلی(‬

‫طحطاوی و ردالمحتار میں ہے‪ :‬جنازہ کسرہ کے سااتھ چارپائی اور اس کے کپڑے جن ساے میت کو ڈھانپا جائے )ردالمحتار کتاب‬
‫الوقف‘ جلد ‪ 3‬ص ‪ 375‬مطبوعہ بیروت(‬

‫اور بیش قیمت بنظر زینت مکروہ ہے کہ میت محل تزئین نہیں اور خالص بہ نیت تصدق )صدقہ( میں حرج نہیں جیسا کہ ہدی )قربانی(‬
‫کے جانور کے جھل )فتاویی رضویہ جدید جلد ‪16‬ص ‪ ‘123‬مطبوعہ جامعہ نظامیہ لہور(‬

‫گیارہویں شریف کا انعقاد‬

‫ساوال‪ :‬گیارہویں شریف کے لئے آپ کیا فرماتے ہیں۔ گیارہویں شریف کے روز فاتحہ دلنے ساے ثواب زیادہ ہوتا ہے یا آڑے دن فاتحہ‬
‫دلنے ساے‘ بزرگوں کے دن کی یادگاری کیلئے دن مقرر کرنا کیسا ہے؟‬

‫جواب‪ :‬محبوبان خدا کی یادگاری کے لئے دن مقرر کرنا بے شک جائز ہے۔ حدیث شریف میں ہے حضور کریمﷺ ہر ساال کے اختتاما‬
‫پر شہدائے احد کی قبروں پر تشریف لتے تھے )جامع البیان )تفسیر ابن جریر( تحت آیۃ ‪ ‘24/13‬داراحیاء التراث العربی بیروت‬
‫‪(170/13‬‬
‫شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے ایسی حدیث کو اعراس اولیائے کراما کے لئے مستند مانا اور شاہ ولی اﷲ صاحب علیہ‬
‫الرحمہ نے کہا‪ :‬مشائخ کے عرس منانا اس حدیث ساے ثابت ہے )ہمعات ‘ ہمعہ ‪ 11‬مطبوعہ شاہ ولی اﷲ اکیڈمی‘ حیدرآباد ساندھ ص‬
‫‪(58‬‬

‫وقت دفن اذان کہنا کیسا؟‬

‫اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ساے پوچھا گیا کہ وقت دفن اذان کیوں کہی جاتی ہے؟‬

‫آپ نے ارشاد فرمایا کہ شیطان کو دور کرنے کے لئے کیونکہ حدیث شریف میں ہے اذان جب ہوتی ہے تو شیطان ‪ 36‬میل دور بھاگ‬
‫جاتا ہے۔ الفاظ حدیث میں یہ ہیں کہ ’’روحا‘‘ تک بھاگتا ہے اور روحا مدینہ منورہ ساے ‪ 36‬میل دور ہے )صحیح مسلم شریف‘ کتاب‬
‫الصلیوۃ حدیث ‪ ‘389-388‬ص ‪(204‬‬

‫)ملفوظات شریف ص ‪ ‘526‬مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی(‬

‫ساوال‪ :‬قبر پر اذان کہنا جائز ہے یا نہیں؟‬

‫جواب‪ :‬اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں قبر پر اذان کہنے میں میت کا دل بہلتا اور اس پر رحمت‬
‫ایلہی کا اترنا اور ساوال جواب کے وقت شیطان کا دور ہونا‘ اور ان کے ساوا اور بہت فائدے ہیں جن کی تفصیل ہمارے رساالے ’’ایذان‬
‫)لجرفی اذان القبر‘‘ میں ہے‬

‫)فتاویی رضویہ جدید جلد ‪ ‘23‬ص ‪ ‘374‬مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لہور(‬

‫ایصال ثواب‬

‫اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں کہ بات یہ ہے کہ فاتحہ‘ ایصال ثواب کا ناما ہے اور مومن‬
‫عمل نیک کا ایک ثواب اس کی نیت کرتے ہی حاصل اور کئے پر دس ہوجاتا ہے )الحجۃ الفاتحہ لطیب التعین والفاتحہ ص ‪‘14‬‬
‫مطبوعہ لہور(‬
‫رہا کھانا دینے کا ثواب وہ اگرچہ اس وقت موجود نہیں تو کیا ثواب پہنچانا شاید ڈاک یا پارسال میں کسی چیز کا بھیجنا سامجھا ہوگا کہ‬
‫جب تک وہ شے موجود نہ ہو‘ کیا بھیجی جائے؟‬

‫حالنکہ اس کا طریقہ صرف جناب باری میں دعا کرنا ہے کہ وہ ثواب میت کو پہنچائے۔ اگر کسی کا یہ اعتقاد ہے کہ جب تک کھانا‬
‫ساامنے نہ کیا جائے گا ثواب نہ پہنچے گا تو یہ گمان اس کا محض غلط ہے )الحجۃ الفاتحہ لطیب التعین والفاتحہ ص ‪ ‘14‬مطبوعہ‬
‫لہور(‬

‫ایک ساوال کے جواب میں کہ زید اپنی زندگی میں خود اپنے لئے ایصال ثواب کرساکتا ہے یا نہیں؟‬

‫ارشاد فرماتے ہیں ہاں کرساکتا ہے‘ محتاجوں کو چھپا کر دے یہ جو عاما رواج ہے کہ کھانا پکایا جاتا ہے اور تماما اغنیاء و برادری کی‬
‫دعوت ہوتی ہے‘ ایسا نہ کرنا چاہئے )ملفوظات شریف ص ‪ ‘48‬حصہ ساوما ‘ مطبوعہ مسلم یونیورساٹی پریس علی گڑھ ہندوساتان(‬

‫قرآن خوانی کی اجرت‬

‫اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ نے قرآن خوانی کے لئے اجرت لینے اور دینے کو ناجائز قرار دیا ہے‬
‫)فتاویی رضویہ جلد چہارما میں ‪ 318‬مطبوعہ مبارکپور ہندوساتان(‬

‫شب برأت اور شادی میں آتش بازی‬

‫‪:‬اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں‬

‫آتش بازی جس طرح شادیوں اور شب برأت میں رائج ہے‘ بے شک حراما اور پورا حراما ہے۔ اسای طرح یہ گانے باجے کہ ان بلد میں‬
‫معمول و رائج ہیں بلشبہ ممنوع و ناجائز ہیں۔ جس شادی میں اس طرح کی حرکتیں ہوں مسلمانوں پر لزما ہے کہ اس میں ہرگز‬
‫شریک نہ ہوں۔ اگر نادانستہ شریک ہوگئے تو جس وقت اس قسم کی باتیں شروع ہوں یا ان لوگوں کا ارادہ معلوما ہو‘ ساب مسلمان مرد‘‬
‫عورتوں پر لزما ہے فورا اسای وقت )محفل ساے( اٹھ جائیں )ہادی الناس ص ‪(3‬‬

‫نسب پر فخر کرنا جائز نہیں ہے‬

‫‪:‬اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ‬
‫۔ نسب پر فخرکرنا جائز نہیں ہے‪1‬‬

‫۔ نسب کے سابب اپنے آپ کو بڑا جاننا تکبر کرنا جائز نہیں‪2‬‬

‫۔ دوساروں کے نسب پر طعن جائز نہیں‪3‬‬

‫۔ انہیں کم نسبی کے سابب حقیر جاننا جائز نہیں‪4‬‬

‫۔ نسب کو کسی کے حق عار یا گالی سامجھنا جائز نہیں‪5‬‬

‫۔ اس کے سابب کسی مسلمان کادل دکھانا جائز نہیں‪6‬‬

‫۔ احادیث جو اس بارے میں آئیں‘ انہیں معافی کی طرف ناظر ہیں کسی مسلمان بلکہ کافر ذمی کو بھی بل حاجت شرعی ایسے الفاظ ‪7‬‬
‫ساے پکارنا یا تعبیر کرنا جس ساے اس کی دل شکنی ہو‘ اساے ایذا پہنچے‘ شرعا ا ناجائز و حراما ہے اگرچہ بات فی نفسہ ساچی ہو )ارادۃ‬
‫الدب لفاضل النسب ص ‪(3‬‬

‫پیرومرشد اور مریدہ کے درمیان پردہ‬

‫بعض خانقاہوں میں پیر صاحب اپنے مرید اور مریدنیوں کو بے پردہ اپنے ساامنے بٹھاتے ہیں۔ بے تکلفی کے سااتھ گفتگو‘ ہنسی مذاق‬
‫کرتے ہیں اور بعض تو معاذ اﷲ اپنی مریدنیوں ساے ہاتھ بھی ملتے ہیں اور مریدنیوں کی پیٹھ پر ہاتھ بھی مارتے ہیں مگر اس ناجائز‬
‫فعل کے متعلق سانیوں کے اماما‘ اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں کہ بے شک ہر غیر‬
‫محرما ساے پردہ فرض ہے جس کا اﷲ تعالیی اور اس کے رساولﷺ نے حکم دیا ہے بے شک پیر مریدہ کا محرما نہیں ہوجاتا۔ حضورﷺ‬
‫ساے بڑھ کر اام ت‬
‫ت کا پیر کون ہوگا؟ وہ یقینااابو الروح ہوتا ہے اگر پیر ہونے ساے آدمی محرما ہوجایا کرتا تو چاہئے تھا کہ نبی ساے اس‬
‫ت ساے کسی عورت کا نکاح نہ ہوساکتا )مسائل ساماع‘ مطبوعہ لہور ص ‪(32‬‬ ‫کی اام ت‬

‫جعلی عاملوں کا فال کھولنا‬


‫جگہ جگہ ساڑکوں اور فٹ پاتھوں پر جعلی عاملوں کا ایک گروہ سارگرما عمل ہے‘ جوالٹے سایدھے فال نامے نکال کر عواما کے عقائد‬
‫کو متزلزل کرتے ہیں‘ ساادہ لوح مسلمانوں کی جیبیں خالی کروائی جاتی ہیں پھر یہ ساب اہلسنت کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے مگر‬
‫اہلسنت کے اماما اپنی کتاب میں مسلمانوں کی اصلح اس طرح فرماتے ہیں۔‬

‫ساوال‪ :‬فال کیا ہے؟ جائز ہے یا نہیں؟ساعدی و حافظ وغیرہ کے فالنامے صحیح ہیں یا نہیں؟‬

‫جواب‪ :‬اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں فال ایک قسم کا اساتخارہ ہے‘ اساتخارہ کی اصل کتب‬
‫احادیث میں بکثرت موجود ہے‘ مگر یہ فالنامے جو عواما میں مشہور اور اکابر کی طرف منسوب ہیں بے اصل و باطل ہیں اور قرآن‬
‫عظیم ساے فال کھولنا منع ہے اور دیوان حافظ وغیرہ ساے بطور تفاؤل جائز ہے )فتاویی رضویہ جدید جلد ‪23‬ص ‪ ‘327‬مطبوعہ رضا‬
‫فاؤنڈیشن لہور(‬

‫ﷲ تعالیی کا علفم غیب ذاتی اور حضورﷺ کا علفم غیب عطائی ہے‬

‫پہل فتویی‬

‫کیا اﷲ تعالیی اور اس کے محبوبﷺ کا علم برابر ہے؟ اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ہم‬
‫‪:‬اہلسنت کا مسئلہ علم غیب میں یہ عقیدہ ہے کہ اﷲ تعالیی نے حضورﷺ کو علم غیب عنایت فرمایا خود رب جل جللہ فرماتا ہے‬

‫ضنفایمن‬ ‫القرآن‪ :‬مومماا ہامو معلمای االمغای ف‬


‫ب بف م‬

‫ترجمہ‪ :‬یہ نبی غیب کے بتانے میں بخیل نہیں )ساورہ تکویر آیت ‪ 24‬پارہ ‪(30‬‬

‫تفسیر معالم التنزیل اور تفسیر خازن میں ہے یعنی حضورﷺ کو علم غیب آتا ہے وہ تمہیں بھی تعلیم فرماتے ہیں )تفسیر خازن‘ ساورہ‬
‫تکویر تحت الیۃ ‪ ‘24‬جلد ‪4‬ص ‪(357‬‬

‫اﷲ تعالیی اور حضورﷺ کا علم برابر تو درکنار‘ میں نے اپنی کتابوں میں تصریح کردی ہے کہ اگر تماما اولین و آخرین کا علم جمع کیا‬
‫جائے تو اس علم کو علم ایلہی جل جللہ ساے وہ نسبت ہرگز نہیں ہوساکتی جو ایک قطرے کے کروڑہویں حصے کو کروڑ سامندر ساے‬
‫ہے کہ یہ نسبت متناہی کی متناہی )یعنی محدود( کے سااتھ ہے اور وہ غیر متناہی )یعنی لمحدود( متناہی کو غیر متناہی ساے کیا نسبت‬
‫ہے۔‬
‫)ملفوظات شریف‘ ص ‪ ‘93‬تخریج شدہ مطبوعہ مکتبۃ المدینہ‘ کراچی(‬

‫دوسارا فتویی‬

‫اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ علم غیب ذاتی کہ اپنی ذات ساے ہیبے کسی کے دیئے ہوئے‬
‫اﷲ تعالیی کے لئے خاص ہے۔ ان آیتوں میں یہی معنی مراد ہیں کہ بے خدا کے دیئے کوئی نہیں جان ساکتا اور اﷲ تعالیی کے بتائے‬
‫ساے انبیاء کراما کو معلوما ہونا ضروریات دین ساے ہے۔ قرآن مجید کی بہت آیتیں اس کے ثبوت میں ہیں )فتاویی رضویہ(‬

‫تیسرا فتویی‬

‫اعلیی حضرت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ غیب کا علم اﷲ تعالیی کو ہے‘ پھر اس کی عطا ساے اس‬
‫کے حبیبﷺ کو ہے )فتاویی رضویہ جدید جلد ‪ 27‬میں ‪ ‘233‬مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لہور(‬

‫جاہل پیر کا مرید ہونا‬

‫موجودہ دور میں ہر جانب جاہل پیروں اور جعلی صوفیوں کا ڈیرہ ہے‘ نادان لوگ ان کے پاس جاتے ہیں اور اپنا مال ان پر لٹاتے ہیں‬
‫پھر جب ہوش آتا ہے تو چیخ اٹھتے ہیں کہ پیر صاحب نے ہمیں لوٹ لیا۔ ہمارا مال کھالیا۔ ہماری عزت پامال کردی۔ اسای لئے اماما‬
‫اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ نے جاہل فقیر و پیر ساے بیعت کرنے کی ممانعت فرمائی ہے۔ ہمیشہ سانی صحیح‬
‫العقیدہ عالم اور پابند شریعت پیر ساے بیعت کی جائے چنانچہ ‪:‬اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ساے پوچھا‬
‫گیا کہ جاہل فقیر کا مرید ہونا شیطان کا مرید ہونا ہے؟‬

‫آپ نے جوابا ا ارشاد فرمایا کہ بلشبہ جاہل فقیر کا مرید ہونا شیطان کا مرید ہونا ہے )ملفوظات شریف ص ‪ ‘297‬مطبوعہ مکتبۃ المدینہ‬
‫کراچی(‬

‫بیعت کے چار شرائط ہیں‬

‫بیعت اس شخص ساے کرنا چاہئے جس میں چار باتیں ہوں ورنہ بیعت جائز نہ ہوگی۔‬

‫۔ سانی صحیح العقیدہ ہو‪1‬‬


‫۔ کم از کم اتنا علم ضروری ہے کہ بل کسی کی امداد کے اپنی ضرورت کے مسائل کتاب ساے خود نکال ساکے‪2‬‬

‫۔ اس کا سالسلہ حضورﷺ تک متصل )یعنی مل ہوا( ہو‘ منقطع )یعنی ٹوٹا ہوا( نہ ہو‪3‬‬

‫۔ فاساق معلن نہ ہو‪4‬‬

‫تانبے اور پیتل کے تعویذ‬

‫اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ساے پوچھا گیا کہ تانبے‘ پیتل کے تعویذوں کا کیا حکم ہے؟‬

‫آپ نے جوابا ا ارشاد فرمایا کہ تانبے اور پیتل کے تعویذ مرد و عورت دونوں کو مکروہ اور ساونے چاندی تعویذ کے مرد کو حراما‘‬
‫عورت کو جائز ہیں )ملفوظات شریف ص ‪ ‘328‬مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی(‬

‫اماما ضامن کا پیسہ‬

‫آج کل ایک رواج چل پڑا ہے کہ جب بھی کوئی شخص سافر میں جاتاہے یا کسی کی جان کی حفاظت مقصود ہوتی ہے‘ تو عورتیں اس‬
‫کے بازو پر ایک ساکہ کپڑے میں لپیٹ کر باندھ دیتی ہیں اور اس کا ناما ’’اماما ضامن‘‘ رکھا گیا ہے جوکہ بالکل خود سااختہ کاما ہے نہ‬
‫اس کی کوئی اصل ہے نہ کہیں اس کا حکم دیا گیاہے۔ بعض بدلگاما لوگ اس کو بھی اہلسنت کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں اور کہتے‬
‫ہیں یہ بریلویوں کے اماما کا کاما ہے حالنکہ اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کا اس کاما ساے کوئی واساطہ‬
‫نہیں بلکہ اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ساے پوچھا گیا کہ کیا اماما ضامن کا جو پیسہ باندھا جاتا ہے‘ اس‬
‫کی کوئی اصل ہے؟‬

‫آپ نے ارشاد فرمایا کہ کچھ نہیں )ملفوظات شریف ص ‪ ‘328‬مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی(‬

‫غیر اﷲ ساے اساتغاثہ اور مدد کے متعلق عقیدہ‬

‫غیر اﷲ ساے اساتغاثہ اور مدد کے متعلق مسلمانوں پر یہ الزاما لگایا جاتا ہے کہ وہ حضورﷺ اور اولیاء کراما رحمہم اﷲ کو معبود مان‬
‫کر ان ساے مدد مانگتے ہیں جوکہ کھل بہتان ہے۔ مسلمانان اہلسنت بزرگان دین کو اﷲ تعالیی کی صفات کا مظہر جان کر ان ساے مدد‬
‫مانگتے ہیں۔ اس معاملے میں اعلیی حضرت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کو خوب بدناما کیا جاتا ہے اور معاذ اﷲ‬
‫مشرک اور بدعتی تک کہا اور مشہور کیا جاتا ہے۔ اے کاش! ایسے لوگ اعلیی حضرت اماما احمد رضا علیہ الرحمہ کی کتابوں کا‬
‫مطالعہ کرتے تو ایسی بدگمانی نہ پھیلتے۔ اب اعلیی حضرت علیہ الرحمہ کا عقیدہ ملحظہ فرمائیں۔‬

‫‪:‬چنانچہ اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ایک اساتفتاء کے جواب میں لکھتے ہیں‬

‫حضورﷺ اور اولیاء کراما ساے اساتغاثہ اور اساتعانت مشروط طور پر جائز ہے جبکہ انہیں اﷲ تعالیی کا بندہ اور اس کی بارگاہ میں‬
‫وسایلہ جانے اور انہیں ’’باذن ایلہی والمدبرات امراء‘‘ ساے مانے اور اعتماد کرلے کہ بے حکم خدا تعالیی ذرہ نہیں ہل ساکتا اور اﷲ‬
‫تعالیی کے دیئے بغیر کوئی ایک حصہ نہیں دے ساکتا۔ ایک حرف نہیں سان ساکتا۔ پلک نہیں ہل ساکتا اور بے شک ساب مسلمانوں کا‬
‫یہی اعتقاد ہے )احکاما شریعت حصہ اول ص ‪ ‘4‬مطبوعہ آگرہ ہندوساتان(‬

‫فرائض کو چھوڑ کر نفل بجالنا‬

‫ت کو مستحبات اور نوافل میں لگادیا۔ فرائض کی اہمیت کو‬ ‫وقت کے اماما پر ایک الزاما یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے اس اام ت‬
‫فراموش کیا گیا حالنکہ اعلیی حضرت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کے فتاوے اور ان کی کتابوں کا اگر کوئی‬
‫تعصب کی عینک اتار کر مطالعہ کرے تو وہ بے سااختہ بول اٹھے گا کہ اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ‬
‫‪:‬اسالمی عقائد کے ترجمان تھے چنانچہ‬

‫اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ ابو محمد عبدالقادر جیلنی رضی اﷲ عنہ نے اپنی کتاب‬
‫مستطاب فتوح الغیب میں کیا کیاجگر شگاف مثالیں ایسے شخص کے لئے ارشاد فرمائی ہیں جو فرض چھوڑ کر نفل بجالئے۔ اس‬
‫کتاب میں فرمایا کہ اگر فرائض کی ادائیگی ساے قبل سانن و نوافل میں مشغول ہو تو سانن و نوافل قبول نہیں ہوتیں بلکہ موجب اہانت‬
‫ہوتی ہیں )اعزا ل کتناہ فی صدقۃ مانع الزکیوۃ مطبوعہ بریلی ص ‪(10-11‬‬

‫طریقت کی اصل تعریف‬

‫جاہل لوگوں نے مسلک اہلسنت کو بدناما کرنے کے لئے جہالت کا ناما طریقت رکھ دیا‘ چرس‘ بھنگ‘ ناچ گانے‘ ساٹے کے نمبر بتانے‬
‫والوں اور جعلی عاملوں کا ناما طریقت رکھ دیا اور معاذ اﷲ یہ بہتان اعلیی حضرت اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ‬
‫‪:‬الرحمہ پر لگایا جاتا ہے کہ یہ انہوں نے ساکھایا ہے۔ اماما اہلسنت کی تعلیمات کا مطالعہ کیا جائے تو حقیقت ساامنے آجاتی ہے چنانچہ‬

‫اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں کہ طریقت ناما ہے ’’وصول الی اﷲ کا‘‘ محض جنون و‬
‫جہالت ہے دو حرف پڑھا ہوا جانتا ہے طریق طریقہ طریقت راہ کو کہتے ہیں نہ کہ پہنچ جانے کو۔ تو یقینااطریقت بھی راہ ہی کا ناما‬
‫ہے۔ اب اگر وہ شریعت ساے جدا ہو تو بشارت قرآن عظیم خدا تعالیی تک نہ پہنچائے گی بلکہ شیطان تک لے جائے گی‘ جنت میں نہ‬
‫لے جائے گی بلکہ جہنم میں کہ شریعت کے ساوا ساب راہوں کو قرآن عظیم باطل و مردود فرماچکا )مقال العفاء باعزاز شرع و علماء‬
‫مطبوعہ کراچی ص ‪(7‬‬

‫جشن ولدت کا چراغاں‬

‫اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ساے پوچھا گیا کہ میلد شریف میں جھاڑ )یعنی پنج شاخہ مشعل( فانوس‘‬
‫فروش وغیرہ ساے زیب و زینت اساراف ہے یا نہیں؟‬

‫آپ نے جوابا ا ارشاد فرمایا کہ علماء فرماتے ہیں یعنی اساراف میں کوئی بھلئی نہیں اور بھلئی کے کاموں میں خرچ کرنے میں کوئی‬
‫اساراف نہیں )ملخصا‘ تفسیر کشاف‘ ساوؤ فرقان تحت الیۃ ‪ 67‬جلد ساوما ص ‪(293‬‬

‫جس شے ساے تعظیم ذکر شریف مقصود ہو ہرگز ممنوع نہیں ہوساکتی‬

‫)ملفوظات شریف ص ‪ 174‬مطبوعہ مجلس المدینۃ العلمیہ مکتبۃ المدینہ ‘کراچی(‬

‫اماما غزالی علیہ الرحمہ نے احیاء العلوما میں حضرت ساید ابو علی رودباری علیہ الرحمہ ساے نقل کیا کہ ایک بندہ صالح نے مجلس‬
‫ذکر شریف ترتیب دی ہے اور اس میں ایک ہزار شمعیں روشن کیں۔ ایک شخص ظاہر بین پہنچے اور یہ کیفیت دیکھ کر واپس جانے‬
‫لگے۔ بانی مجلس نے ہاتھ پکڑا اور اندر لے جاکر فرمایا کہ جو شمع میں نے غیر خدا کے لئے روشن کی وہ بجھا دیجئے۔ کوشش کی‬
‫جاتی تھیں اور کوئی شمع ٹھنڈی نہ ہوتی )احیاء علوما الدین‘ الجز الثانی‘ کتاب آداب الکل ص ‪(26‬‬

‫جناب رساالت مآبﷺ کو ادب کے سااتھ پکارنا‬

‫ادب اور تعظیم کا تقاضا یہ ہے کہ جناب رساالت مآبﷺ کو آپ کے ذاتی ناما محمدﷺ ساے نہ پکارا جائے اور نہ ہی نعت شریف میں‬
‫پڑھا جائے بلکہ یا رساول اﷲ‘ یا حبیب اﷲ‘ یا نبی اﷲ اور یا رحمتہ للعالمینﷺ کہہ کر ندا دی جائے۔‬

‫جہاں کہیں مساجد میں‘ محرابوں میں‘ پوساٹروں اور بینروں میں بھی ’’یامحمدﷺ‘ کی جگہ یارساول اﷲ‘ یا حبیب اﷲ یا نبی اﷲ اور‬
‫یارحمتہ للعالمینﷺ ہی تحریر کیا جائے تاکہ حضورﷺ کا ادب و احتراما ملحوظ رہے۔‬

‫‪:‬چنانچہ اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ایک ساوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں‬
‫قرآن مجید کی آیت ہے کہ رساول کا پکارنا اپنے میں ایسا نہ ٹہرالو جیسے ایک دوسارے کو پکارتے ہو‘ اب ایک دوسارے میں باپ اور‬
‫مول اور بادشاہ ساب آگئے۔ اسای لئے علماء فرماتے ہیں ناما پاک لے کر ندا کرنا حراما ہے۔ اگر روایت میں مثل یا محمدﷺ آیا ہو تو اس‬
‫کی جگہ بھی یارساول اﷲﷺ کہے۔ اس مسئلہ کا بیان اماما اہلسنت علیہ الرحمہ کا رساالہ ’’تجلی الیقین بان نبینا ساید المرسالین‘‘ میں‬
‫دیکھئے‬

‫)فتاویی رضویہ جدید جلد ‪ 15‬ص ‪ ‘ 171‬مطبوعہ جامعہ نظامیہ لہور(‬

‫مرد کا بال بڑھانا‬

‫اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ساے پوچھا گیا کہ اکثر بال بڑھانے والے لوگ حضرت گیسو دراز کو دلیل‬
‫لتے ہیں۔‬

‫آپ نے جوابا ا ارشاد فرمایا کہ جہالت ہے۔ حضورﷺ نے بکثرت احادیث صحیحہ میں ان مردوں پر لعنت فرمائی ہے جو عورتوں ساے‬
‫مشابہت پیدا کریں اور عورتوں پر جو مردوں ساے )صحیح بخاری‘ کتاب اللباس حدیث ‪ 5885‬ص ‪(4‬‬

‫اور تشبہ کے لئے ہر بات میں پوری وضع بنانا ضروری نہیں )صرف( ایک ہی بات میں مشابہت کافی ہے )ملفوظات شریف ص‬
‫‪ ‘297‬مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی(‬

‫مرد کو چوٹی رکھنا حراما ہے‬

‫اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ساے پوچھا گیا کہ مرد کو چوٹی رکھنا جائز ہے یا نہیں؟ بعض فقیر رکھتے‬
‫ہیں۔‬

‫آپ نے جوابا ا ارشاد فرمایا کہ حراما ہے۔ حدیث شریف میں فرمایا۔ اﷲ تعالیی کی لعنت ہے ایسے مردوں پر جو عورتوں ساے مشابہت‬
‫رکھیں اور ایسی عورتوں پر جو مردوں ساے مشابہت پیدا کریں )مسند احمد بن حنبل‘ حدیث ‪ ‘3151‬جلد اول ص ‪(727‬‬

‫)ملفوظات شریف ص ‪ ‘281‬مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ‘کراچی(‬


‫اﷲ تعالیی کو عاشق اور حضورﷺ کو معشوق کہنا ناجائز ہے؟‬

‫ساوال‪ :‬اﷲ تعالیی کو عاشق اور حضورﷺ کو اس کا معشوق کہنا جائز ہے یا نہیں؟‬

‫جواب‪ :‬اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ناجائز ہے کہ معنی عشق اﷲ تعالیی کے حق میں محال‬
‫قطعی ہیں اور ایسا لفظ بے ورود ثبوت شرعی اﷲ تعالیی کی شان میں بولنا ممنوع قطعی )فتاویی رضویہ جدید جلد ‪ 21‬ص ‪114‬‬
‫مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لہور(‬

‫مدینہ طیبہ کو یثرب کہنا ناجائز و گناہ ہے‬

‫ساوال‪ :‬کیا حکم شرع شریف کا اس بارے میں کہ مدینہ شریف کو ’’یثرب‘‘ کہنا جائز ہے یا نہیں؟ جو شخص یہ لفظ کہے اس کی نسبت‬
‫کیا حکم ہے؟‬

‫جواب‪ :‬اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں مدینہ طیبہ کو یثرب کہنا ناجائز و ممنوع و گناہ ہے اور‬
‫کہنے وال گنہ گار‬

‫حضورﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ جو مدینہ کو یثرب کہے اس پر توبہ واجب ہے‘ مدینہ طابہ ہے مدینہ طابہ ہے )اساے اماما احمد نے‬
‫بسند صحیح براء بن عازب رضی اﷲ عنہ ساے روایت کیا(‬

‫)مسند اماما احمد بن حنبل‘ المکتب السالمی بیروت ‪(285/4‬‬

‫)فتاویی رضویہ جدید جلد ‪ 21‬ص ‪ ‘116‬مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لہور(‬

‫مدینہ منورہ ‘ مکتہ المکرمہ ساے بھی افضل ہے‬

‫ساوال‪ :‬حضورﷺ کا مزار اقدس بلکہ مدینہ طیبہ عرش وکرسای و کعبہ شریف ساے افضل ہے یا نہیں؟‬
‫الجواب‪ :‬اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں تربت اطہر یعنی وہ زمین کہ جسم انور ساے متصل ہے‬
‫کعبہ معظمہ بلکہ عرش ساے بھی افضل ہے )مسلک متقسط مع ارشاد الساری‘ باب زیارۃ ساید المرسالینﷺ‘ ص ‪ ‘336‬مطبوعہ‬
‫دارالکتاب العربی بیروت(‬

‫باقی مزار شریف کا بالئی حصہ اس میں داخل نہیں کہ کعبہ معظمہ مدینہ طیبہ ساے افضل ہے ہاں اس میں اختلف ہے کہ مدینہ طیبہ‬
‫ساوائے موضع تربت اطہر اور مکہ معظمہ ساوائے کعبہ مکرمہ ان دونوں میں کون افضل ہے‘ اکثر جانب ثانی ہیں اور اپنا مسلک اول‬
‫اور یہی مذہب فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ ہے۔‬

‫طبرانی شریف کی حدیث شریف میں تصریح ہے کہ مدینہ منورہ مکہ مکرمہ ساے افضل ہے )المعجم الکبیر للطبرانی‘ حدیث ‪‘4450‬‬
‫جلد ‪4‬ص ‪ ‘288‬مطبوعہ المکتبہ الفیصلیہ بیروت(‬

‫)فتاویی رضویہ جدید جلد ‪ 10‬ص ‪ ‘711‬مطبوعہ جامعہ نظامیہ لہور پنجاب(‬

‫حراما مال پر نیاز دینا نرا وبال ہے‬

‫اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ جو شخص حراما مال پر نیاز دیتا ہے اور کہتا ہے کہ‬
‫حضورﷺ قبول فرمالیتے ہیں اس شخص کا یہ قول غلط صریح و باطل قبیح اور حضورﷺ پر افترائے فضیح ہے۔‬

‫زنہار مال حراما قابل قبول نہیں‘ نہ اساے راہ خدا میں صرف کرنا روا‘ نہ اس پر ثواب ہے بلکہ نرا وبال ہے )فتاویی رضویہ جدید جلد‬
‫‪ 21‬مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لہور ص ‪(105‬‬

‫جاہلنہ رسام‬

‫ساوال‪ :‬یہ جو بعض جہلء غرض ڈورے کیا کرتے ہیں اور حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کی طرف منسوب کرتے ہیں کہ خاتون‬
‫جنت ہر کسی گھر ماہ سااون بھادوں میں جایا کرتی اور ایک ایک ڈورا ان کے کان میں باندھ کر یہ کہا کرتیں کہ پوریاں پکا کر فاتحہ‬
‫دل کر لنا ‘ اس کی کچھ ساند ہے یا واہیات ہے؟‬

‫جواب‪ :‬اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں یہ ڈوروں کی رسام محض بے اصل و مردود ہے اور‬
‫حضرت خاتون جنت کی طرف اس کی نسبت محض جھوٹ برا افتراء ہے )فتاویی رضویہ جدید جلد ‪23‬ص ‪ 272‬مطبوعہ رضا‬
‫فاؤنڈیشن لہور(‬
‫ماہ صفر المظفر منحوس نہیں‬

‫عواما میں بیماری پھیلی ہوئی ہے کہ ماہ صفر المظفر منحوس ہے اس میں بلئیں اترتی ہیں‘ اس ماہ میں کوئی خوشی کی تقریب منعقد‬
‫نہ کی جائے خصوصا شروع ماہ کی تیرہ تاریخوں میں اور آخری تاریخوں میں۔۔۔‬

‫ساوال‪ :‬اکثر لوگ ‪ 13 ‘3‬یا ‪ 28 ‘18 ‘8 ‘23‬وغیرہ تواریخ اور پنج شنبہ و یکشنبہ و چہارشنبہ وغیرہ ایاما کو شادی وغیرہ نہیں کرتے۔‬
‫اعتقاد یہ ہے کہ ساخت نقصان پہنچے گا ان کا کیا حکم ہے؟‬

‫جواب‪ :‬اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ یہ ساب باطل و بے اصل ہے )فتاویی رضویہ جدید‬
‫جلد ‪23‬ص ‪ ‘272‬مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لہور(‬

‫آخری بدھ کی شرعی حیثیت‬

‫اماما اہلسنت اماما احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ماہ صفر المظفر کی آخری بدھ کی کوئی اصل نہیں۔ نہ اس‬
‫دن حضورﷺ کی صحت یابی کا کوئی ثبوت ہے بلکہ مرض اقدس جس میں وصال شریف ہوا‘ اس کی ابتداء اسای دن ساے بتائی جاتی‬
‫ہے اور ایک حدیث مرفوع میں آیا ہے ابتلئے ایوب علیہ السلما اسای دن تھی )فتاویی رضویہ جلد ‪10‬ص ‪(117‬‬

‫یزید کیلئے مغفرت والی نماز کی روایت بے اصل ہے‬

‫ساوال‪ :‬بعد سالما مسنون معروض خدمت ہوں کہ نماز غفیرا کی بابت میں ذکر الشہادتیں دیکھا ہے کہ حضرت اماما زین العابدین رضی‬
‫اﷲ عنہ نے یزید کو واساطے مغفرت کی بتائی تھی مجھے اس نماز کی تلش ہے‘ میں پڑھنا چاہتی ہوں براہ مہربانی اس مسئلہ پر‬
‫التفات مبذول فرما کر ترتیب نماز ساے اطلع دیجئے؟‬

‫جواب‪ :‬وعلیکم السلما ورحمتہ اﷲ و برکاتہ۔ یہ روایت محض بے اصل ہے۔ حضرت اماما زین العابدین رضی اﷲ عنہ ساے کوئی نماز‬
‫یزید پلید کی مغفرت کے لئے اس کو تعلیم نہ فرمائی۔ )فتاویی رضویہ جدید جلد ‪‘28‬ص ‪ ‘52‬مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لہورا‬

You might also like