Professional Documents
Culture Documents
(شعر کا ترجمہ)
''دوستو! زمانہ کے مصائب کثیر ہیں ،ان میں سے سخت ترین
بیوقوف لوگوں کا اقتدا :ر ہے ،تو کب زمانے کا نشہ ختم ہوگا جبکہ
ملک یہودی بن کر فقہاء کی ذلت گاہ بن چکا ہے''۔
اور جیسا کہ بعض ظالم حکمرانوں نے کافر لیڈروں کی جاری کردہ
کئی بدعات کو پسند کرتے ہوئے اپنے ملکوں میں جاری کردیا مثال ً
گواہوں سے حلف لینا ،اور ٹیکس ،چونگیاں اور لوگوں کے اموال اور
نفوس پر باطل قسم کے محصوالت الگو کردئے ،یہ پریشان کن برے
معامالت مسلمان ملکوں میں ماننے پڑیں گے لہذا ضروری ہے کہ پہلے
مقام یعنی دارالحرب میں خالص مکمل احکام کفر ہوں اور دوسرے
یعنی داراالسالم میں ایسا نہ ہو جبکہ یہی مدع ٰی ہے،
)۲۷۵ /۳ داراحیاء التراث العربی بیروت کتاب الجہاد ( ؎۱ردالمحتا ر
ٰ
وبھذا تبین ان الدارالتی تجری فیھا الحکمان شیئ من ھذاوشیئ من ھذاکدارنا ھذہ
التکون دارحرب علی مذھب الصاحبین ایضا لعدم تمحض احکام الشرک فمن الظن
ماعرض لبعض المعاصرین من بناء نفی الحربیۃ علی الھند علی مذھب االمام فقط
فتوھم انہ الیستقیم علی مذھب الصاحبین واخطر الی تطویل الکالم بماکان فی غنی
ٰ
عنہ واشد سخافۃ واعظم شناعۃ مااعتری بعض اجلۃ المشاھیر من الذین
ادرکناعصرھم۔ اذحاولو انفی الحربیۃ عن بالدنا بناء علی عدم تحقق الشرط الثانی اعنی
ً
االتصال بدارالحرب ایضا فقالوامعنی االتصال ان تکون محاطۃ بدارالحرب من کل جھۃ
والتکون فی جانب بلدۃ اسالمیۃ وھو غیر واقع فی بالد الھند اذجانبھا الغربی متصل
بملک االفاغنۃ کفشاور وکابل وغیرھما من بالد داراالسالم ،تو اس سے واضح
ہوگیا کہ وہ دار جس میں دونوں قسم کے احکام کچھ کفر کے اور
کچھ اسالم کے پائے جائیں جیسا کہ ہمارا یہ ملک ہے ،صاحبین کے
مذہب پر بھی دارالحرب نہ ہوگا کیونکہ یہاں خالص محض احکام کفر
نہیں ہیں تو ہمارے بعض معاصرین کا یہ گمان کہ ہندوستان سے
دارالحرب کی نفی کی بنیاد صرف امام صاحب کامذہب ہے ،اس کا
وہم ہے کہ صاحبین کے مذہب پر درست نہیں ہے اس نے طویل کالم
کیا جبکہ اس کی ضرورت نہیں تھی ،کمزور ترین اور سب سے خطر
ناک موقف وہ ہے جو ہمارے زمانہ کے مشہور اجلہ حضرات کو الحق
ہوا ہے کہ انہوں نے ہمارے اس ملک سے دارالحرب کی نفی کی بنیاد
شرط ثانی یعنی کسی دارالحرب سے اتصال کے نہ پائے جانے کو
قرار دیا ہے اور انھوں نے اتصال کا معنی لیا ہے کہ چاروں طرف سے
دارالحرب میں گھرا ہوا ہو اور کسی طرف سے داراالسالم :سے نہ مال
ہوا ہو چونکہ اتصال کا معنٰی ہندوستان میں نہیں پایا جاتا لہذا یہ
دارالحرب نہ ہوگا کیونکہ ہندوستان غربی جانب سے افغانوں کے ملک
پشاور اور کابل وغیرہ داراالسالم :سے مال ہوا ہے،
اقول یالیتہ تفکر فی معنی الثغور اونظر الی فضائل المرابطین فتأمل فی معنی الرباط
اوعلم ان مکۃ والشام والطائف وارض حنین وبنی المصطلق وغیرھا کانت دارحرب
ً ٰ
علی عھد النبی صلی اﷲتعال علیہ وسلم مع اتصالھا بداراالسالم قطعا اوفھم ان
االمام کلما فتح بلدۃ من بالد الکفار واجری فیھا احکام االسالم صارت داراالسالم
والتی تلیہا من البالد تحت حکم الکفار دارحرب کما کانت اوتفطن ان لوصح ماقالہ
الستحال ان یکون شیئ من دیارالکفر دارحرب االان یفصل بینھا وبین الحدود االسالمیۃ
البحاروالمفاوزولم یقل بہ احد ،وذلک النہ کلما حکمت علی بلدۃ بانھا دارحرب سألنا
عما یحیطھا من البالد فان کان فیھا من بالد االسالم کانت االولی ایضا داراالسالم
لعدم االتصال بالمعنی المذکور واالنقلنا۔ الکالم الی مایالصقھا حتی ینتہی الی بلدۃ
من بالد االسالم فتصیر کلھا داراالسالم لتالزق بعضھا ببعض اوالتکون فی تلک الجھۃ
بلدۃ اسالمیۃ الی منقطع االرض ،وبالجملۃ ففساد ھذاالقول اظھر من ان یخفی وانما
ٰ
منشؤہ القیاس الفاسد وذلک ان الشرط عنداالمام فی صیرورۃ بلدۃ من داراالسالم
ٰ
دارالحرب ان التکون محاطۃ بدار االسالم من الجہات االربع وذلک الن غلبۃ الکفار اذن
علی شرف الزوال فالتخرج بہ البلدۃ عن داراالسالم فزعم ان شرط الحربیۃ ان تکون
ٰ
محاطۃ بدارالحرب من جمیع الجوانب وما افسدہ من قیاس کما الیخفی عماافادالناس۔
اقول (میں کہتا ہوں کہ)کاش وہ سرحدوں کے معنٰی پر غور کرلیتے،
یااسالمی سرحدوں کی نگرانی کی فضیلت کو دیکھتے ہوئے رباط کے
معنی پر غور کرلیتے یا یہ معلوم کرلیتے کہ مکہ ،شام ،طائف ،حنین،
اور بنی مصطق کے عالقے وغیرہا حضور علیہ الصلوٰۃ والسالم کے ایک
زمانہ میں دارالحرب :تھے حاالنکہ ان سب کا داراالسالم :سے اتصال
تھا ،یا یہی سمجھ لیتے کہ مسلمان امام جب کفار کے کسی عالقہ کو
فتح کرکے وہاں اسالمی احکام جاری کردیتا تو وہ عالقہ داراالسالم بن
جاتا ہے جبکہ اس سے متصل باقی عالقے جو کفار کے قبضہ میں
بدستور ابھی تک موجود ہیں وہ پہلے کی طرح دارالحرب ہیں ،یاان کو
سمجھ آتی کہ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں اگر صحیح ہوتو پھر دنیا بھر میں
کوئی بھی دارکفر اس وقت تک دارالحرب نہ کہالئے جب تک ان میں
اور داراالسالم :میں سمندروں اور بیابانوں کا فاصلہ نہ ہو ،حاالنکہ
کوئی بھی دارالحرب کے اس معنٰی کا قائل نہیں ہے،یہ اس لئے کہ
جب آپ کسی ملک کو دارالحرب کہیں گے تو ہم استفسار کریں گے
کہ اس کے ارگرد :کن ملکوں کا احاطہ ہے اگر کوئی بھی ان میں سے
داراالسالم ہوتو پہالملک (دارالحرب) :بھی داراالسالم قرار پائے کیونکہ
وہ اتصال جودارالحرب کا معیار ہے وہ نہ پایاگیا ،ورنہ اگر ارد گرد
اسالمی ملک نہ ہوتو پھر ہم اس سے ملنے والے دوسرے ملک کی
بابت معلوم کریں گے حتی کہ ملتے مالتے کوئی داراالسالم :پایاگیا تو
یہ درمیان والے تمام ملک داراالسالم ہوجائیں گے کیونکہ ان ملکوں کا
آپس میں ایک دوسرے سے اتصال ہوگیا ہے،یاپھر یہ تسلیم کیاجائے کہ
اس جہت میں کرہ ارض :میں کوئی بھی داراالسالم نہیں۔ خالصہ یہ ہے
کہ دارالحرب کے اس میعاد والے قول کا فساد واضح ہے جس میں
کچھ بھی خفاء نہیں ہے ،اس کی بنیاد یہ فاسد قیاس ہے کہ امام
صاحب کے نزدیک کسی داراالسالم :کے دارالحرب بننے کے لئے یہ
شرط ہے کہ چاروں اطراف :سے وہ ملک داراالسالم میں گھراہوانہ ہو
کیونکہ اگر وہ گھراہوا ہوتو اس دارالحرب :میں کفار کا غلبہ معرض
سقوط میں رہے گا تو یوں وہ داراالسالم :سے خارج نہ رہے گا ،لہذا
انہوں نے خیال کرلیا کہ کسی ملک کے حربی ہونے کے لئے ضروری
ہے کہ وہ چاروں طرف سے حربی ملکوں میں گھراہواہو ،یہ قیاس
نہایت ہی فاسد ہے جو عوام الناس کے لئے بھی مخفی نہیں۔(ت)
الحاصل ہندوستان کے داراالسالم :ہونے میں شک نہیں عجب ان سے
جو تحلیل ربٰو کے لئے (جس کی حرمت نصوص قاطعہ قرآنیہ سے
ثابت اور کیسی کیسی سخت وعیدیں اس پروارد) اس ملک کو
دارالحرب ٹھہرائیں اور باوجود قدرت واستطاعت ہجرت کا خیال بھی
دل میں نہ الئیں گویا یہ بالد اسی دن کے لئے دارالحرب ہوئے تھے کہ
مزے سے سود کے لطف اڑائیے اور بآرام تمام وطن مالوف میں بسر
فرمائیے
استغفراﷲ،
افتؤمنون ببعض الکتاب وتکفرون ببعض( ؎۱میں اﷲ تعالٰی
سے مغفرت چاہتا ہوں ،تو کیا بعض کتاب پر ایمان التے ہو اور بعض کا
حنہ وتعالٰی فرماتا ہے سود کھانیوالے قیامت
انکار کرتے ہو۔ت) اﷲ سب ٰ
کو آسیب زدہ کی طرح اٹھیں گے ؎۲یعنی مجنونانہ گرتے پڑتے
بدحواس۔
/۲ ؎۲() ۸۵ /۲القرآن الکریم ( ؎۱القرآن الکریم
)۲۷۵
اور حضور پر نور سرور عالم صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم فرماتے
ہیں :میں نے کچھ لوگ مالحظہ فرمائے کہ پیٹ ان کے پھول کر
مکانوں کے برابر ہوگئے ہیں اور مثل شیشہ کے ہیں کہ اندر کی چیز
نظر آتی ہے سانپ بچھو ان میں بھرے ہیں ،میں نے دریافت کیا یہ
کون لوگ ہیں؟جبریل نے عرض کیا :سود کھانے والے؎۳۔
ایچ ایم سعید کمپنی کراچی باب التغلیظ فی الربا ( ؎۳سنن ابن ماجہ
ص)۱۶۵
جب تحریم ربٰو کی آیت نازل ہوئی بعض مسلمانوں نے کہا :جو
مارانزول آیت سے پہلے کا رہ گیا ہے وہ لے لیں آئندہ باز رہیں گے۔
ِ سودہ
حکم آیا اگر نہیں مانتے تو اعالن کردو اﷲ اور اﷲ کے رسول سے
لڑائی کا۔؎۴
( ؎۴القرآن الکریم )۲۷۹ /۲
سیدنا جابر بن عبداﷲ انصاری رضی اﷲ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں
رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے سود خور پر لعنت کی۔؎۵
)۲۷ /۲ قدیمی کتب خانہ کراچی باب الربا ( ؎۵صحیح مسلم
مولٰی علی کرم اﷲ وجہہ فرماتے ہیں :میں نے رسول اﷲ صلی
اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو سود خور پر لعنت فرماتے سنا،؎۶رسول
اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :سود کے ستر ٹکڑے
ہیں سب سے ہلکا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا کرے؎۷۔
)۱۵۸ /۱ دارالفکر بیروت ( ؎۶مسند احمد بن حنبل
ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص باب التغلیظ فی الربا ( ؎۷سنن ابن ماجہ
۱۶۵و مشکوٰۃ المصابیح ،باب الربا ،مطبع مجتبائی دہلی ص)۲۴۶
دیکھو اول ان کے اقوال خبیثہ یاد فرماکر آخر ان کے شرک سے اپنی
نزاہت وتبری بیان فرمائی تو معلوم ہوا کہ قائلین بنوت مشرکین ہیں
مگر ظاہرالروایۃ میں ان پر علی االطالق :حکم کتابیت دیا اور ان کے
ذبائح ونساء کو حالل ٹھہرایا،
درمختار میں ہے :صح نکاح کتابیۃ وان کرہ تنزیھا مؤمنۃ بنبی مرسل مقرۃ بکتاب
ٰ
منزل وان اعتقدوا المسیح الھا وکذاحل ذبیحتھم علی المذھب بحرانتہی؎۱۔ کتابیہ
عورت سے نکاح صحیح ہے اگرچہ مکروہ تنزیہی ہے بشرطیکہ وہ
عورت کسی مرسل نبی پر ایمان رکھتی ہو اور کسی منزل من اﷲ
سی علیہ کتاب کا اقرار کرتی ہواگرچہ عمومی طور پر وہ نصاری عی ٰ
السالم کو ال ٰہ مانتے ہوں یونہی ان کا ذبیحہ بھی مذہب میں حالل ہے،
بحر ،اھ۔(ت)
مطبع مجتبائی کتاب النکاح فصل فی المحرمات ( ؎۱درمختار
)۱۸۹ /۱ دہلی
ردالمحتار میں بحرالرائق سے منقول ہے :وحاصلہ ان المذھب االطالق لما
ً
ذکرہ شمس االئمۃ فی المبسوط من ان ذبیحۃ النصرانی حالل مطلقا،۔ سواء قال بثالث
ثلثۃ اوال ،الطالق الکتاب ھنا وھو الدلیل ورجحہ فی فتح القدیرالخ؎۲۔ حاصل یہ ہے
کہ مذہب میں اطالق ہے کیونکہ شمس االئمہ سرخسی نے مبسوط
سی علیہ
میں یہ ذکر کیا ہے کہ نصرانی کا ذبیحہ مطلقًا حالل ہے وہ عی ٰ
السالم کے متعلق ثالث ثلٰثہ کا قول کریں یا نہ کریں کیونکہ کتاب اﷲ
کا یہاں ا طالق ہے اور یہی دلیل ہے ،اس کو فتح القدیر میں ترجیح دی
ہے الخ(ت)
داراحیاء التراث کتاب النکاح فصل فی المحرمات ( ؎۲ردالمحتار
)۲۸۹ /۲ العربی بیروت
مستصفٰی میں عبارت مذکورہ کے بعد مبسوط سے ہے :لکن بالنظر الی
الدالئل ینبغی ان یجوز االکل والتزوج انتہی؎۳۔ لیکن دالئل کو دیکھتے ہوئے یہی
مناسب قول ہے کہ ان کا ذبیحہ کھانا اور ان کی عورتوں سے نکاح
جائز ہے انتہی۔(ت)
( ؎۳فتح القدیر بحوالہ المستصفٰی کتاب النکاح فصل فی بیان المحرمات
مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر )۱۳۵ /۳
فتاوٰی حامدیہ میں ہے :مقتضی الدالئل الجواز کما ذکرہ التمر تاشی فی فتاواہ،الخ
ضی یہی ہے کہ جائز ہے جیسا کہ اسے تمرتاشی نے ؎۴۔ دالئل کا مقت ٰ
اپنے فتاوٰی میں ذکر کیا ہے الخ(ت)
ارگ بازار ( ؎۴العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوٰی الحامدیۃ کتاب الذبائح
)۲۳۲ /۲ قندھار افغانستان
اور ایک حدیث میں آیا :سود کا ایک درم دانستہ کھانا ایسا ہے جیسا
چھتیس بار اپنی ماں سے زنا کرنا؎۱۔
ٰ
اعوذ باﷲ من الشیطن الرجیم والحول والقوۃ االباﷲ العلی العظیم۔
مجتبائی دہلی ص ۲۴۶ومسند احمد بن حنبل ( ؎۱مشکوٰۃ المصابیح
دارالفکر بیروت ۲۲۵ /۵والترغیب :والترہیب ،مصر)۷ /۳
جواب سوال دوم
نصاری باعتبار حقیقت لغویہ انجاکہ قیام مبدء مستلزم صدق مشتق ٰ
ہے بال شبہہ مشرکین ہیں کہ وہ بالقطع قائل بہ تثلیث وبنوت ہیں اسی
طرح وہ یہودجو الوہیت وابنیت عزیرعلیہ الصلوٰۃ والسالم کے قائل
تھے ،مگر کالم اس میں ہے کہ حق تبارک وتعالٰی نے کتب آسمانی کا
نصاری کے احکام کو احکام ِ مشرکین سے جدا ٰ اجالل فرماکر یہود و
کیا اور ان کا نام اہل کتاب رکھا اور ان کے نساء و ذبائح کو حالل و
یت عبداﷲ مسیح بن مریم نصاری زمانہ بھی کہ الوہ ِ
ٰ مباح ٹھہرایا آیا
علیہما الصلوٰۃ والسالم کی علی االعالن تصریح اور وہ یہود جو مثل
بعض طوائف ماضیہ الوہیت بندہ خدا عزیر علیہ الصلوٰۃوالسالم کے
قائل ہوں انہیں میں داخل اور اس تفرقہ کے مستحق ہیں یا ان پر
شرعا ً یہ ہی احکام مشرکین جاری ہوں گے اور ان کی نساء سے تزوّج
کلمات علماءِ کرام رحمۃ اﷲ تعالٰی
ِ اور ذبائح کا تناول ناروا ہوگا۔
قول اخیر کیِ علیہم اجمعین اس بارے میں مختلف ،بہت مشائخ نے
طرف میل فرمایا ،بعض علماء نے تصریح کی کہ اسی پر فتوی ہے،
ٰ
مستصفی میں ہے :قالواھذایعنی الحل اذالم یعتقد واالمسیح الھا امااذااعتقدوہ
فالوفی مبسوط شیخ االسالم ویجب ان الیأکلوا ذبائح اھل الکتاب اذا اعتقد وان
ّ ٰ ٰ
المسیح الہ وان عزیر الہ وال یتزوجو انساء ھم وقیل علیہ الفتوی؎۲۔ علماء نے فرمایا
سی علیہ السالم کو ال ٰہ نہ مانتے
کہ ان کا ذبیحہ تب حالل ہوگا کہ وہ عی ٰ
ہوں ،لیکن اگر وہ ان کو ال ٰہ مانتے ہوں تو پھر حالل نہ ہوگا ،اور شیخ
ل کتاب کااالسالم کی مبسوط میں ہے کہ مسلمانوں پر الزم ہے کہ اہ ِ
ذبیحہ اس صورت میں نہ کھائیں جب وہ مسیح علیہ السالم اور عزیر
علیہ السالم کو ال ٰہ مانتے ہوں اور اندریں صورت ان کی عورتوں سے
نکاح بھی نہ کریں ،اسی پر فتوٰی کہا گیا ہے۔(ت)
فصل فی بیان المحرمات ( ؎۲فتح القدیر بحوالہ المستصفٰی کتاب النکاح
مکتبۃ نوریہ رضویہ سکھر )۱۳۵ /۳
ان علماء کا استدالل آیہ کریمہ "قالت الیھود عزیر :ابن اﷲ وقالت
نصاری
ٰ ری المسیح ابن اﷲ (یہود نے کہا عزیر ابن اﷲ اور ص ٰ
الن ٰ
نے کہا مسیح ابن اﷲ۔ت) سے ہے کہ اس کے آخرمیں ارشاد پایا
مایشرکون( ؎۳وہ پاک ذات ہے اور جو انہوں نے حنہ وتعالٰی ع ّسب ٰ
اس کا شریک بنایا اﷲ تعالٰی اس سے بلند وباال ہے۔ت)
)۳۱ /۹ ( ؎۳القرآن الکریم
ردالمحتار میں ہے :فی المعراج ان اشتراط ماذکر فی النصاری مخالف لعامۃ
نصاری کے مذکورہ شرائط عام روایات ٰ الروایات؎۱۔ معراج میں ہے کہ
کے مخالف ہیں ۔(ت)
)۱۸۸ /۵ داراحیاء التراث العربی بیروت کتاب الذبائح ( ؎۱ردالمحتار
امام محقق علی االطالق :مولٰنا کمال الملۃ والدین محمد بن الہمام
رحمۃ اﷲ علیہ فتح القدیر میں اس مذہب کی ترجیح اور دلیل مذکور
مذہب اول کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں :مطلق لفظ المشرک اذاذکر
فی لسان الشارع الینصرف الی اھل الکتاب وان صح لغۃ فی طائفۃ بل طوائف واطلق
لفظ الفعل اعنی یشرکون علی فعلھم کما ان من رأی بعلمہ من المسلمین فلم یعمل
االالجل زید یصح فی حقہ انہ مشرک لغۃ والیتبادر عند اطالق الشارع لفظ المشرک
ارادتہ لما عھد من ارادتہ بہ من عبد مع اﷲ غیرہ ممن الیدعی اتباع نبی وکتاب
ٰ ٰ
ولذلک عطفھم علیہ فی قولہ تعالی لم یکن الذین کفر وامن اھل الکتب والمشرکین
ٰ ٰ ٰ
منفکین ونص علی حلھم بقولہ تعالی والمحصنت من الذین اوتوالکتب من قبلکم ای
ٰ ٰ
العفائف منھم؎۲الی اخرما اطال واطاب کما ھودابہ رحمہ اﷲ تعالی۔ لفظ مشرک
جب مطلق ذکر کیا جائے تو شرعی اصطالح میں اہل کتاب کو شامل
نہ ہوگا اگرچہ لغت کے لحاظ سے اہل کتاب کے کسی گروہ یا کئی
گروہوں پر اس کا اطالق :صحیح ہے ،اہل کتاب کے فعل پر صیغہ
"یشرکون" کا اطالق :ایسے ہے جیسے کسی مسلمان ریاکار کے اس
عمل پر جس کو مثال ً زید کی خوشنودی کےلئے کررہا ہوتو کہا جاسکتا
ہے کہ یہ لغت کے لحاظ سے مشرک ہے ،شرعی اصطالح :میں مطلقًا
لفظ مشرک کا استعمال صرف اس شخص کے لئے متبادر ہوتا ہے،
جو کسی نبی اور کتاب کی اتباع کے دعوٰی کے بغیر اﷲ تعالٰی کی
عبادت میں غیر کو شریک کرے اسی لئے اہل کتاب پر مشرکین کا
عطف اﷲ تعالٰی کے اس قول ''لم یکن الذین کفروا من اھل
الکتٰب والمشرکین منفکین'':
میں کیا گیا ہے اور اﷲتعالٰی کے اس قول ''والمحصنٰت من الذین
اوتوالکتٰب''
میں کتابیہ عورتوں کے حالل ہونے پر صراحتا ً نص فرمائی گئی ہے
یعنی اہل کتاب کی عفیف عورتیں حالل ہیں ،ابن ہمام کے طویل اور
طیب قول کے آخر تک ،جیسا کہ ان کی عادت ہے ،اﷲ تعالٰی ان پر
رحمت فرمائے۔(ت)
مکتبہ نوریہ فصل فی بیان المحرمات کتاب النکاح ( ؎۲فتح القدیر
)۱۳۵ /۳ رضویہ سکھر
ً ٰ
بالجملہ محققین کے نزدیک راجح یہی ہے کہ یہود ونصاری مطلقا اہل کتاب ہیں اور
ان پر احکام مشرکین جاری نہیں
ٰ ٰ ٰ ٰ
اقول وکیف الوقد علم اﷲ سبحنہ وتعالی انھم یقولون بثالث ثلثۃ حتی نھاھم عن ذلک
ٰ
وقال انتھوا خیرالکم؎۱وان ھم یقولون ان المسیح الہ حتی قال لقد کفر الذین قالواان اﷲ
ٰ ٰ
ھوالمسیح ابن مریم ؎۲بل بالوھیۃ امہ ایضاحتی یسألہ علیہ الصلوۃ والسالم یوم القیمۃ
ٰ ٰ
ٰیعیسی ء انت قلت للناس اتخذونی وامی الھین من دون اﷲ؎۳،وانھم مصرحون بالبنوۃ
ٰ ٰ
حتی نقل عنھم''قالت الیھود عزیر ابن اﷲ وقالت النصری المسیح ابن اﷲ ؎۴ومع ذلک
ٰ ٰ
فرق بینھم وبین المشرکین فقال والمحصنت من الذین اوتواالکتب من قبلکم ،؎۵وقال
ٰ ٰ
طعام الذین اوتوا الکتب حل لکم ؎۶وقال لم یکن الذین کفروا من اھل الکتب
والمشرکین منفکین حتی تاتیھم البینۃ ؎۷فارشد بالعطف الی التغایر اقول(میں کہتا
نصاری ثالث ثلثہ
ٰ ہوں) یہ کیسے مرادنہ ہو جبکہ اﷲ تعالٰی علیم ہے کہ
کہتے ہیں حتی کہ ان کو اس سے منع بھی فرمایا اور فرمایا اس سے
نصاری کہتے ہیں مسیح
ٰ باز آؤ تمہارے لئے بہتر ہے اور وہ علیم :ہے کہ
ال ٰہ ہے ،حتی کہ اﷲ تعالٰی نے فرمایا
"لقد کفر الذین قالواان اﷲ ھو المسیح ابن مریم"
بلکہ وہ ان کی والدہ کو بھی ال ٰہ کہتے ہیں ،حتی کہ قیامت کے روز اﷲ
تعالٰی عیسی علیہ السالم سے سوال فرمائے گا
سی ءانت قلت للناس اتخذونی وامی الٰھین من دون
"یاعی ٰ
اﷲ"
سی علیہ السالم کے بیٹا ہونے کی تصریحاور وہ علیم ہے کہ یہ لوگ عی ٰ
کرتے ہیں حتی کہ ان سے نقل فرمایا
ٰ
"قالت الیھود عزیر ابن اﷲ وقالت النصاری المسیح ابن اﷲ" اس کے باوجود اﷲ
ل کتاب اور مشرکین میں فرق بیان فرمایا ،اور ارشاد تعالٰی نے اہ ِ
فرمایا :تمہارے لئے حالل ہیں پار ساعورتیں ان میں سے جن کو تم
ل کتاب) ان
سے پہلے کتاب ملی ،اور فرمایا جن کو کتاب دی گئی(اہ ِ
کا طعام تمہارے لئے حالل ہے جس کو یوں فرمایا
"طعام الذین اوتواالکتٰب حل لکم"
اورفرمایا" لم یکن الذین کفروا من اھل الکتٰب والمشرکین
منفکین حتی تاتیھم البینۃ" واضح دلیل آنے تک کافر لوگوں میں
سے اہل کتاب اور مشرک جدانہ ہوں گے ،تو اس آیۃ کریمہ میں دونوں
میں عطف کے ذریعہ تغایر کی رہنمائی فرمائی،
( ؎۱القرآن الکریم ؎۲() ۱۷۱ /۴القرآن الکریم ۱۷ /۵و ؎۳()۷۲القرآن
الکریم ؎۴() ۱۱۶ /۵القرآن الکریم )۳۰ /۹
( ؎۵القرآن الکریم ؎۶() ۵/۵القرآن الکریم ؎۷()۵/۵القرآن الکریم /۹۸
)۱
ٰ ٰ ٰ
فالمولی سبحنہ وتعالی اعلم بمذاھبھم واعلم بما یشرع من االحکام فلہ الحکم ولہ
ٰ ٰ ٰ
الحجۃ السامیۃ الالہ االھو سبحنہ وتعالی عما یشرکون؎۱حتی ترقتی بعض المشائخ
ً
فجوز نکاح الصائبات ایضا ان کن یدن بکتاب منزل ویؤمن بنبی مرسل وان عبدن۔
الکواکب وصرح انھا التخرجھم عن الکتابیۃ وھو الذی یعطیہ ظاہرکالم االمام المحقق
برھان الملۃ والدین المرغینانی فی الھدایۃ حیث رتب عدم حل النکاح علی امرین
عبادۃ الکواکب وعدم الکتاب وتبعہ العالمۃ ابوعبداﷲ محمد بن عبداﷲ الغزی فی
التنویر فقال العبادۃ کوکب الکتاب لھا ؎۲فاشار بمفھوم المخالف الی انھا ان کان لھا
کتاب حل نکاحھا مع عبادتھا الکواکب ،تو اﷲ سبحانہ وتعالٰی ان کے مذاہب
کو بہتر جانتا ہے اور احکام کی مشروعیت :کو بہتر جانتا ہے ،تو حکم
اسی کا ہے اوربلند وباال حجت اسی کی ہے ،اس کے سوا کوئی معبود
نہیں اور جس کو انہوں نے شریک بنایا اﷲ تعالٰی اس سے بلند وباال
ہے اور بعض مشائخ نے اسی پر ترقی کرتے ہوئے صابی عورتوں سے
نکاح کو بھی جائز قرار دیا بشرطیکہ وہ کسی دین کی آسمانی کتاب
اور کسی نبی پر ایمان رکھتی ہوں اگرچہ وہ ستاروں کی پجاری ہوں
اور انہوں نے یہ تصریح کی ہے کہ ستاروں کی پوجا ان کو کتابیہ ہونے
سے خارج نہیں کرتی ،یہ وہ نظریہ ہے جو امام محقق برہان الملت
والدین مرغینانی کی کتاب ہدایہ کے ظاہر کال م سے ملتا ہے ،جہاں
انہوں نے نکاح کے عدم ِ جواز کو دوچیزوں پر مرتب کیا ایک ستاروں
کی پوجا اور دوسری کتاب کا نہ ہونا ،اور اس کی عالمہ ابوعبداﷲ
محمد بن عبداﷲ غزی نے تنویر میں اتباع کرتے ہوئے فرمایا کہ
ستاروں کی پوجا نہ کرتی ہو اور اس کی کتاب بھی نہ ہو۔ تو اس
عبارت کے مفہوم مخالف سے یہ اشارہ دیا کہ اگر اس کی کتاب ہو تو
نکاح جائز ہے اگرچہ وہ ستاروں کی پوجا کرتی ہو۔
)۳۱ /۹ ( ؎۱القرآن الکریم
/۱ مطبع مجتبائی دہلی کتاب النکاح ( ؎۲درمختار شرح تنویر االبصار
)۱۸۹
ٰ
فان قلت الیس قد تکلم فیہ المولی زین بن نجیم فی البحر فقال الصحیح انھم ان کانوا
یعبد ونھا یعنی الکواکب حقیقۃ فلیسوا اھل الکتاب وان کانوایعظمونھا کتعظیم
ٰ
المسلمین للکعبۃ فھم اھل الکتاب کذافی المجتبی؎۱انتہی فیستفاد منہ ان
ٰ
ابداوح یتجہ مامال فالیجتمعان ی وتعال الصحیح مباینۃ الکتابیۃ لعبادۃ غیراﷲ سبحانہ
ِ ٰ ٰ
الیہ کثیر من المشائخ فی حق اولئک الیھود والنصاری انھم مشرکون حقاحتی قیل ان
ٰ
علیہ الفتوی قلت وباﷲ التوفیق ھھنا فرق دقیق ھوان قضیۃالعقل ھی المباینۃ
ٰ
القطعیۃ بین الکتابیۃ وعبادۃ غیراﷲ سبحانہ وتعالی فانھا ھی الشرک حقا والکتابی غیر
مشرک عند الشرع فکل من رأیناہ یعبد غیرالحق جل وعال حکمنا علیہ انہ مشرک
ٰ
قطعا وان کان یقر بکتب وانبیاء علیھم الصلوۃ والسالم ولکنا خالفناہ ھذہ القضیۃ فی
ٰ ٰ
الیھود والنصاری بحکم النص فانا وجدنا القران العظیم یحکی عنھم مایحکی من العقائد
الخبیثۃ ثم یحکم علیھم بان ھم اھل الکتاب ویمیزھم عن المشرکین فوجب التسلیم
ٰ ٰ ٰ
لورودالنص بخالف الصابئۃ اذ لم یرد فیھم مثل ذلک فلم یجز قیاسھم علی ھؤالء
والالخروج عن قضیۃ العقل فی بابھم ،اگر تیرا اعتراض :ہو کہ اس مسئلہ میں
موالنا زین نجیم نے کیا گفتگو کرتے ہوئے یہ نہیں فرمایا کہ صحیح بات
یہ ہے
کہ اگر یہ لوگ حقیق ًۃ ستاروں کی عبادت کرتے ہوں تو یہ اہل کتاب نہ
ہوں گے اور اگر وہ صرف ستاروں کی تعظیم کرتے ہیں جیسا کہ
مسلمان کعبہ کی تعظیم کرتے ہیں تو پھر یہ اہل کتاب ہیں ،مجتبٰی
میں یونہی ہے اھ ،تو اس بیان کا مفادیہ ہے کہ کتابیہ اورغیراﷲ کی
عبادت والی ،ایک دوسرے سے الگ ہیں دونوں کا اجتماع نہیں ہوسکتا
نصاری کے متعلق یہ
ٰ تو اب اس سے بہت سے مشائخ کا ان یہود و
نظریہ قابل توجہ قرار پایا کہ یہ لوگ حقیقی مشرک ہیں حتی کہ بعض
نے اسی پر فتوٰی کا قول کیا ہے۔قلت (میں کہتا ہوں) اﷲ تعالٰی کی
توفیق سے ،کہ یہاں ایک باریک فرق ہے وہ یہ کہ عقل کا تقاضا یہی ہے
کہ کتابیہ اورغیراﷲ کی عبادت کرنے والی عورت ایک دوسرے سے
قطعًا جدا ہیں ،کیونکہ غیراﷲ کی عبادت قطعا ً شرک ہے جبکہ شرعا ً
کتابیہ غیرمشرک ہے لہذا جس کو بھی غیراﷲ کی عبادت کرنے واال
پائیں گے اس کو قطعا ً مشرک کہیں گے اگرچہ وہ کتب اور انبیاء علیہم:
الصلوٰۃ والسالم کا اقرار :کرے لیکن ہم نے اس عقلی کلیہ کا خالف
ونصاری میں نص کے حکم پر مانا ہے کہ ہم نے قرآن کو ان کے ٰ یہود
عقائد خبیثہ کی حکایت کرنے کے باوجود یہ حکم کرتے ہوئے پایا کہ یہ
اہل کتاب ہیں ،اور یہ کہ قرآن ان میں اور مشرکین میں امتیاز بھی
کرتا ہے لہذا نص کے وارد ہونے پر اسکو تسلیم کرنا واجب ہے بخالف
صابیہ عورت کے کہ اس کے متعلق ایسی کوئی نص نہیں ہے اس لئے
ونصاری پر قیاس نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی
ٰ صابی لوگوں کو ان یہود
ان کے بارے میں عقلی کلیہ کو ترک کیا جائے گا،
ایچ ایم سعید کمپنی فصل فی المحرمات کتاب النکاح ( ؎۱بحرالرائق
)۱۰۴ /۳ کراچی
والحاصل ان کتابیۃ القائلین۔ بالبنوۃ والوھیۃ الغیر من الیھود والنصاری واردۃ
ٰ
فیمااحسب علی خالف القیاس فیقصر علی المورد ،وبھذاتبین ان ماقالہ ذلک
البعض من المشایخ ان عبادۃ الکواکب التخرج الصابئۃ عن الکتابیۃ قول مھجور وان
کالم الھدایۃ والتنویر غیرمحمول علی ظاھرہ وان الحق مع العالمۃ صاحب البحر فی
ً
تصحیحہ اشراکھم ان کانوا یعبدون الکواکب وانہ التنا فی بین تصیحیحۃ ھذا وقولہ سابقا
ٰ
فی اولئک الیھود والنصاری ان المذھب االطالق وان قالوا بثالث ثلثۃ وبہ ظھران
ٰ
انتصار العالمۃ عمر بن نجیم فی النھر والمولی محمد بن عابدین فی ردالمحتار لذلک
ٰ
البعض من المشایخ بان مامرمن حل النصرانیۃ وان اعتقدت المسیح الھا یؤید قول
بعض المشایخ ؎۱انتہی مبنی علی الذھول عن ھذاالفرق فاغتنم تحریر ھذاالمقام فقد
ونصاری کتابی لوگ ٰ زلت فیہ اقدام والحمد ہلل ولی االنعام۔ خالصہ یہ کہ یہود
جو بنوت کے قائل ہونے کے باوجود غیراﷲ کی الوہیت کے قائل ہیں
خالف قیاس ہے لہذا یہ حکم اپنے
ِ کو اہل کتاب ماننا میرے خیال میں
مورد میں ہی محفوظ رہے گا جس پر کسی اور کو قیاس نہیں کیا
جاسکتا ،اس سے ان بعض مشائخ کا یہ نظریہ کہ ستاروں کی پوجا
صابیہ عورت کو کتابیہ سے جدا نہیں کرتی ،واضح طور پر متروک قرار:
پاتا ہے اور یہ بھی واضح ہوگیا کہ ہدایہ اور تنویر کا کالم ظاہری معنٰی
پر محمول نہیں ہے ،اور صاحب بحر کا کالم حق ہے کہ صابی لوگ اگر
ستاروں کی پوجا کرتے ہیں تو وہ مشرک ہیں جس کی انہوں نے
تصحیح کی ہے ،اس سے یہ بھی واضح ہوا کہ بحر کی اس تصحیح اور
اسکے پہلے قول کہ یہود ونصاری کا اہل کتاب ہونا علی االطالق مذہب
ہے اگرچہ وہ ثالث ثلٰثہ کے قائل ہیں میں منافات نہیں ہے او ر اسی
سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ عالمہ عمر ابن نجیم کا نہر میں اور
عالمہ محمد بن عابدین کا ردالمحتار میں مذکور بیان کہ نصرانی
عورت اگرچہ مسیح علیہ السالم کوال ٰہ ہونے کا عقیدہ رکھے تب بھی
اس سے نکاح حالل ہے کو ان بعض مشائخ کی تائید ماننا الخ اس
فرق سے ذہول پر مبنی ہے ،اس تحریر کو غنیمت سمجھو ،کیونکہ
اس میں بہت سے قدم پھسلے ہیں ،نعمتوں کے مالک اﷲ تعالٰی کے
لئے ہی حمد ہے۔(ت)
/۲ داراحیاء التراث العربی بیروت فصل فی المحرمات ( ؎۱ردالمحتار
)۲۹۰
مگر تاہم جبکہ علماء کا اختالف ہے اوراس :قول پر فتوٰی بھی منقول
نصاری کی نساء وذبائح سے احتراز
ٰ ہوچکا تو احتیاط اسی میں ہے کہ
کرے ،اور آج کل بعض یہود بھی ایسے پائے جاتے ہوں جو عزیر علیہ
الصلوٰۃ والسالم کی ابنیت مانیں تو ان کے زن وذبیحہ سے بھی بچنا
الزم جانیں کہ ایسی جگہ اختالف ائمہ میں پڑنا محتاط آدمی کا کام
نصاری عنداﷲ کتابی ہوئے تاہم ان کی
ٰ نہیں ،اگر فی الواقع یہ یہود و
عورتوں سے نکاح اور ان کے ذبیحہ کے تناول میں ہمارے لئے کوئی
نفع نہیں ،نہ شرعا ً ہم پر الزم کیاگیا ،نہ بحمد اﷲ ہمیں اس کی
ضرورت بلکہ برتقدیر کتابیت بھی علماء تصریح فرماتے ہیں کہ بے
ضرورت احتراز چاہئے،
ٰ
فی الفتح القدیر یجوز تزوج الکتابیات واالولی ان الیفعل والیأکل ذبیحتھم االللضرورۃ الخ
؎۱فتح القدیر میں ہے کتابیات سے نکاح جائز ہے،اور اولٰی یہ ہے کہ نہ
کیا جائے اور نہ ہی ان کاذبیحہ بغیر ضرورت کھایا جائے الخ(ت)
مکتبہ نوریہ فصل فی بیان المحرمات کتاب النکاح ( ؎۱فتح القدیر
)۱۳۵ /۳ رضویہ سکھر
اور اگر انہیں علماء کا مذہب حق ہو ااوریہ لوگ بوجہ اعتقادوں کے
عنداﷲ مشرک ٹھہرے تو پھر زنائے محض ہوگا اور ذبیحہ حرام مطلق
والعیاذ باﷲ تعالٰی ،توعاقل کاکام نہیں کہ ایسا فعل اختیار کرے جس
کی ایک جانب نامحمود ہو اور دوسری جانب حرام قطعی ،فقیر
غفراﷲ تعالٰی لہ ایسا ہی گمان کرتا تھا یہاں تک کہ بتوفیق ال ٰہی
مجمع االنہر میں اسی مضمون کی تصریح دیکھی،
ٰ
حیث قال فعلی ھذایلزم علی الحکام فی دیارنا ان یمنعوھم من الذبح الن النصاری فی
ٰ
زماننا یصرحون باالبنیۃ قبحھم اﷲ تعالی وعدم الضرورۃ متحقق واالحتیاط واجب الن
فی حل ذبیحتھم اختالف العلماء کما بیناہ فاالخذبجانب الحرمۃ اولی عندعدم
ٰ ٰ ٰ
الضرورۃ ؎۲انتہی ،واﷲ تعالی سبحنہ وتعالی اعلم۔ جہاں انہو ں نے فرمایا کہ اس
نصاری کے ٰ بناء پر ہمارے ملک کے حکام پر الزم ہے کہ وہ لوگوں کو
سی علیہ نصاری عی ٰ
ٰ ذبیحہ سے منع کریں کیونکہ ہمارے زمانہ کے
السالم کے ابن اﷲ ہونے کی تصریح کرتے ہیں ،جبکہ ضرورت بھی
متحقق نہیں ہے تو احتیاط واجب ہے کیونکہ ان کے ذبیحہ میں علماء کا
اختالف ہے جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے تو حرمت والی جانب اپنانا بہتر
حنہ وتعالٰی اعلم(ت):
ہے جبکہ ضرورت نہیں ہے اھ ،واﷲ سب ٰ
فصل فی بیان کتاب النکاح ( ؎۲مجمع االنہر شرح ملتقی االبحر
)۳۲۸ /۱ المحرمات داراحیاء التراث العربی بیروت
جواب سوال سوم
ضروریات دین میں سے کسی شیئ کا منکر ِ فی الواقع جو بدعتی
وباجماع مسلمین یقینا قطعا ً کافر ہے اگرچہ کروڑبار کلمہ پڑھے،
ِ ہ
پیشانی اس کی سجدے میں ایک ورق ہوجائے ،بدن اس کا روزوں
میں ایک خاکہ رہ جائے ،عمر میں ہزار حج کرے،الکھ پہاڑ سونے کے
را ِہ خدا پر دے ،واﷲ ہرگزہرگز :کچھ مقبول نہیں تک حضور پر
نورصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی ان تمام ضروری باتوں میں جو وہ
اپنے رب کے پاس سے الئے تصدیق نہ کرے ،ضروریات اسالم اگر مثال ً
ہزار ہیں تو ان میں سے ایک کا بھی انکار ایسا ہے جیسا نوسو ننانوے
۹۹۹کا ،آج کل جس طرح بعض بددینوں نے یہ روش نکالی ہے کہ بات
بات پر کفر وشرک کا اطالق کرتے ہیں اور مسلمان کو دائرہ اسالم
سے خارج کہتے ہوئے مطلق نہیں ڈرتے حاالنکہ مصطفی علیہ افضل
الصلوٰۃ والثناء ارشاد فرماتے ہیں :فقد باء بہ احدھما( ؎۱ان دونوں میں
سے ایک نے یہ حکم اپنے اوپر الگو کیا۔ت)
قدیمی باب من اکفر اخاہ بغیر تاویل الخ کتاب االدب ( ؎۱صحیح بخاری
۹۰۱ /۲ کتب خانہ کراچی
قدیمی کتب خانہ کراچی کتاب االیمان صحیح مسلم
)۵۷ /۱
یونہی بعض مداہنوں پر یہ بالٹوٹی ہے کہ ایک دشمن خدا سے صریح
کلمات توہین آقائے عالمیان حضور پر نور سیدالمرسلین الکرام صلی
ضروریات دین کا انکا ر سنتے جائیں اور
ِ اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یا اور
اسے سچا پکا مسلمان بلکہ ان میں کسی کوافضل العلماء کسی کو
امام االولیاء مانتے جائیں یہ نہیں جانتے یا جانتے ہیں اور نہیں مانتے کہ
اگر انکارِ ضروریات بھی کفر نہیں ،تو عزیزو! بت پرستی میں کیا زہر
ضروریات دین
ِ گھل گیا ہے ،وہ بھی آخر اسی لئے کفر ٹھہری کہ اول
یعنی توحید ِ ال ٰہی جل وعال کے خالف ہے ،کہتے ہیں وہ کلمہ گو ہے نماز
پڑھتا ہے روزے رکھتا ہے ایسے ایسے مجاہد ے کرتا ہے ہم کیونکر
افعال
ِ اسے کافر کہیں ان لوگوں کے سامنے اگر کوئی کلمہ پڑھے
اسالم ادا کرے بااینہمہ دو خدا مانے شاید جب بھی کافر نہ کہیں گے
مگر اس قدر نہیں جانتے کہ اعلمال تو تابع ایمان ہیں پہلے ایمان تو
ثابت کرلو تو اعمال سے احتجاج کرو۔ ابلیس کے برابر تو یہ مجاہدے
کا ہے کو ہوئے پھر اس کے کیا کام آئے جوان کے کام آئیں گے ،آخر
حضور اقدس اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ایک قوم کی کثرت اعمال
اس درجہ بیان فرمائی کہ:
ٰ ٰ ٰ
تحقرون صلوتکم مع صلوتھم وصیامکم مع صیامھم؎۲اوکما قال صلی اﷲ تعالی
علیہ وسلم۔ ان کی نماز وں کے مقابلے میں تم اپنی نمازوں کو اور ان
کے روزوں کے مقابلے میں اپنے روزوں کو حقیر سمجھو گے،جیسا کہ
یہ حضور علیہ والسالم نے فرمایا ہے(ت)
باب من رایابقرأۃ القرآن الخ کتاب فضائل القرآن ( ؎۲صحیح بخاری
قدیمی کتب خانہ کراچی )۲/۷۵۶
پھر ان کے دین کا بیان فرمایا کہ :یمرقون من الدین کما یمرق السھم من
الرمیۃ؎۱۔ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار
نکل جاتا ہے۔(ت)
قدیمی باب من رایاالقرآن الخ کتاب فضائل القرآن ( ؎۱صحیح بخاری
)۷۵۶ /۲ کتب خانہ کراچی
رہی کلمہ گوئی تو مجرد زبان سے کہنا ایمان کے لئے کافی نہیں،
منافقین تو خوب زور و شور سے کلمہ پڑھتے ہیں حاالنکہ ان کےلئے
فی الدرک االسفل من النار( ؎۲جہنم کی نچلی تہہ میں۔
ت)کافرمان ہے والعیاذباﷲ ۔
)۱۴۵ /۴ ( ؎۲القرآن الکریم
الحاصل ایمان تصدیق قلبی کا نام ہے اور وہ بعد انکار ضروریات کہاں،
مثالً:
بفضل ال ٰہی ہمارے ہاتھوں میں
ِ ( )۱جورافضی اس قرآن مجید کو جو
بیاض عثمانی بتائے
ِ موجود ہمارے دلوں میں محفوظ ہے ،عیاذ ًا باﷲ
اس کے ایک حرف یا ایک نقطہ کی نسبت صحابہ اہلسنت یا کسی
شخص کے گھٹانے یا بڑھانے کا دعوٰی کرے۔
()۲یااحتماال ً کہے شاید ایسا ہواہو۔
( )۳یا کہے مولٰی علی یا باقی ائمہ یا کوئی غیرنبی انبیاء سابقین علیہم:
الصلوٰۃ والسالم سے افضل ہیں۔
( )۴یا مسئلہ خبیثہ ملعونہ بدل کا قائل ہویعنی کہے باری تعالٰی کبھی
ایک حکم سے پشیمان ہوکر اسے بدل دیتا ہے۔
( )۵یا کہے ایک وقت تک مصلحت پر اطالع :نہ تھی جب اسے اطالع
ہوئی حکم بدل دیا "تعالی اﷲ عما یقول الظّٰلمون علواکبیرا"۔
( )۶یادامن عفت مأمن طیب اعطر :اطہر کنیز ان بارگاہ طہارت پناہ
حضرت ام المومنین صدیقہ بنت الصدیق صلی اﷲ علٰی زوجہا الکریم
وابیہا وعلیہا وبارک وسلم کے بارے میں اس افک مبغوض مغضوب
ملعون کے ساتھ اپنی ناپاک زبان آلودہ کرے۔
( )۷یاکہے احکام ِ شریعت حضرات ائمہ طاہرین کوسپرد تھے جو چاہتے
راہ نکالتے جو چاہتے بدل ڈالتے۔
( )۸یاکہے مصطفٰی صلی اﷲ تعالٰی وسلم کے بعد ائمہ طاہرین پر
ی شریعت آتی رہی۔وح ِ
( )۹یاکہے ائمہ سے کوئی شخص حضور پر نور مصطفی صلی اﷲ
تعالٰی علیہ وسلم کا ہم پلہ تھا۔
( )۱۰یا کہے حضرات کریمین امامین شہیدین رضی اﷲ تعالٰی عنہما
حضور پر نور علیہ الصالۃ والسالم سے افضل ہیں کہ ان کی سی ماں
حضور کی والدہ کب تھیں اور ان کے سے باپ حضور کے والد کہاں
تھے اور ان کے سے
نانا حضور کے نانا کب تھے۔
( )۱۱یاکہے حضرت جناب شیر خدا کرم اﷲ وجہہ الکریم نے نوح کی
کشتی بچائی ،ابراہیم پر آگ بجھائی،یوسف کو بادشاہی دی ،سلیمان
کو عالم پناہی دی علیہم الصلوٰۃ والسالم اجمعین۔
کسی
ٰ ( )۱۲یا کہے مصطفی صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم نے کبھی
وقت کسی جگہ حکم ِ ال ٰہی کی تبلیغ میں معاذاﷲ تقیہ فرمایا الی غیر
ٰ
ذلک من االقوال الخبیثۃ۔
( )۱یا جو نجدی وہابی حضور پر نور سیداالولین واآلخرین صلی اﷲ
تعالٰی علیہ وسلم کے لئے کوئی مثل آسمان میں یا زمین ،طبقات باال
میں یا زیریں میں موجود مانے یاکہے کبھی ہوگا یا شاید ہویا ہے تو
نہیں مگر ہوجائے تو کچھ حرج بھی نہیں۔
ٰ
( )۲یا حضور خاتم النبیین صلی اﷲ تعالی علیہ وسلم کی ختم ِ نبوت
کا انکار کرے۔
( )۳یا کہے آج تک جو صحابہ تابعین خاتم النبیین کے معنے آخر النبیین
سمجھتے رہے خطا پر تھے نہ پچھال نبی ہونا حضور کے لئے کوئی
کمال بلکہ اس کے معنے یہ ہیں جو میں سمجھا۔
ٰ
( )۴یا کہے میں ذمہ کرتا ہوں اگر حضور اقدس صلی اﷲ تعالی علیہ
وسلم کے بعد کوئی نبوت پائے تو کچھ مضائقہ نہیں۔
( )۵یا دو ایک برے نام ذکر کرکے کہے نما ز میں جناب رسالتمآب
صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف خیال لے جانا فالں فالں کے
تصور میں ڈوب جانے سے بدتر ہے لعنۃ اﷲ علی مقالتہ الخبیثۃ۔
( )۶یابوجہ تبلیغ رسالت حضور پر نور محبوب رب العٰلمین ملک
االولین واآلخرین صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو اس چپراسی سے
تشبیہ دے جوفرمان شاہی رعایا کے پاس الیا۔
( )۷یا حضور اقدس مالک و معطی جنت علیہ افضل الصلوٰۃ والتحیۃ
غوث
ِ اور حضرت وموالنا علی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ وحضرت سیدنا
اعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے اسمائے کریمہ طیبہ لکھ کرکہے(خاک
ان گستاخاں) یہ سب جہنم کی راہیں ہیں۔ بدہ ِ
( )۸یا حضور فریاد رس بیکساں حاجت روائے دو جہاں صلوات اﷲ
وسالمہ علیہ سے استعانت کو برا کہہ کریوں ملعون مثال دے کہ جو
غالم ایک بادشاہ کا ہو رہا اسے دوسرے بادشاہ سے بھی کام نہیں رہتا
پھر کیسے ۔۔۔۔۔۔کا کیا ذکر ہے اور یہاں دوناپاک قوموں کے نام لکھے۔
( )۹یا ان کے مزار پر انوار کو فائدہ زیارت میں کسی پادری کافر کی
گور سے برابر ٹھہرائے ،اشد مقت اﷲ علی قومہ۔
( )۱۰یا اس کی خباثت قلبی توہین شان رفیع المکان واجب االعظام
حضور سیداالنام علیہ افضل الصلوٰۃ والسالم پر
باعث ہو کہ حضور کو اپنا بڑابھائی بتائے،
( )۱۱یا کہے (انکے بدگو) مرکر مٹی میں مل گئے۔
کرو جیس ٰے آپس میں ایک دوسرے ٰ ( )۱۲یا ان کی تعریف ایسی ہی
کی کرتے ہو بلکہ اس سے بھی کم الی غیر ذلک من الخرافات الملعونۃ۔
( )۱یا کوئی نیچری نئی روشنی :کا مدعی کہے باندی غالم بنانا ظلم
صریح اور بہائم کاساکام ہے جس شریعت میں کبھی یہ فعل جائز رہا
ہو وہ شریعت منجانب اﷲ نہیں۔
( )۲یا معجزات انبیاء علیہم :الصلوٰۃو السالم سے انکار کرے ،نیل کے
شق ہونے کو جوار بھاٹا بتائے ،عصا کے اژدہا بن کر حرکت کرنے کو
سیماب وغیرہ کا شعبدہ ٹھہرائے۔
( )۳یا مسلمانوں کی جنت کو معاذاﷲ رنڈیوں کا چکلہ کہے۔
( )۴یا نارِ جہنم کو الم نفسانی سے تاویل کرے،
( )۵یا وجود مالئکہ علیہم :السالم کا منکر ہو،
( )۶یا کہے آسمان ہر بلندی کانام ہے وہ جسم جسے مسلمان آسمان
کہتے ہیں محض باطل ہے،
( )۷یا کہے شیطان (کہ اس کامعلم شفیق ہے) کوئی چیز نہیں فقط
قوت بدی کا نام ہے اورقرآن عظیم :میں جوقصے آدم وحواوغیرہما کے
موجود ہیں جن سے شیطان کا وجود جسمانی سمجھا جاتا ہے تمثیلی
کہانیاں ہیں۔
( )۸یاکہے ہم بانی اسالم کو برا کہے بغیر نہیں رہ سکتے،
( )۹یا نصوص قرآنیہ کو عقل کا تابع بتائے کہ جو بات قرآن عظیم کی
قانون نیچری کے مطابق ہوگی مانی جائے ورنہ کفر جلی کے روئے
زشت پر پردہ ڈھکنے کو ناپاک تاویلیں کی جائیں گی،
( )۱۰یا کہے نماز میں استقبال قبلہ ضرور نہیں جدھر منہ کرو اسی
طرف خدا ہے۔
ونصاری کافر نہیں کہ انہوں نے نبی صلی
ٰ ( )۱۱یا کہے آجکل کے یہود
اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا زمانہ نہ پایا نہ حضور کے معجزات دیکھے۔
نصاری
ٰ ( )۱۲یاہاتھ سے کھاناکھانے وغیرہ سنن کے ذکر پر کہے تہذیب
نے ایجاد کی ،نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے زمانہ میں بعض
افعال نامہذب تھے۔ اور یہ دونوں کلمے بعض اشقیاء سے فقیر نے خود
سنے،
ٰ ٰ
الی غیر ذلک من االباطیل الشیطانیۃ۔
()۱یا کوئی جھوٹا صوفی کہے جب بندہ عارف باﷲ ہوجاتا ہے تکالیف
شرعیہ اس سے ساقط ہوجاتی ہیں یہ باتیں تو خدا تک پہنچنے کی راہ
ہیں جو مقصود تک واصل ہوگیا اسے راستہ سے کیا کام۔
( )۲یا کہے یہ رکوع وسجدہ تو محجوبوں کی نما زہے محبوبوں کو اس
نماز کی کیا ضرورت ،ہماری نماز ترک وجود ہے۔
( )۳یا یہ نماز روزہ تو عالموں نے انتظام کےلئے بنالیا ہے،
( )۴یا جتنے عالم ہیں سب پنڈت ہیں عالم وہی ہے جو انبیاء بنی
اسرائیل کی مثل معجزے دکھائے ،یہ بات حسنین رضی اﷲ تعالٰی
عنہما کو حاصل ہوئی وہ بھی ایک مدت کے بعد مولٰی علی کے
سکھانے سے کما سمعتہ من بعض المتھورین علی اﷲ (جیسا کہ میں نے
خود ایسے لوگوں سے سنا ہے جو اﷲ تعالٰی پر جرأت کرتے ہیں۔ت)
( )۵یا خدا تک پہنچنے کے لئے اسالم شرط نہیں ،بیعت بک جانے کا نام
ہے اگر کافر ہمارے ہاتھ پر بک جائے ہم اسے بھی خدا تک پہنچادیں گو
وہ اپنے دین خبیث پر رہے۔
( )۶یا رنڈیوں کا ناچ عالنیہ دیکھے جب اس پر اعتراض ہوتو کہے یہ تو
نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی سنت ہے۔
کما بلغنی عن بعضھم واعترف بہ بعض خلص مریدیہ (جیسا کہ ان کے بعض
سے مجھے اطالع :ملی اور اس کے مخلص مرید نے اس کا اعتراف
کیا۔ت)
( )۷یا شبانہ روز طبلہ سارنگی میں مشغول رہے جب تحریم مزامیر
کی احادیث سنائیں توکہے یہ مذمتیں تو ان کثیف بے مزہ باجوں کے
لئے وارد ہوئیں جو اس وقت عرب میں رائج تھے یہ لطیف نفیس لذیذ
باجے جواب ایجاد ہوئے اس زمانے میں ہوتے تو نبی صلی اﷲ تعالٰی
علیہ وسلم اور صحابہ کرام سوا ان کے سننے کے ہرگز کوئی کام نہ
کرتے۔
( )۸یا کہے:
بمعنے خدا ہے سراہا گیا ہے محمد خدا ہے خدا ہے محمد
خداباطن وظاہرہے محمد یہ دونوں ہیں ایک ان کو دومت سمجھنا
( )۹یا کہے:
مسیحا سے تری آنکھوں کی سب بیماراچھے ہیں اشاروں میں
جالدیتے ہیں مردہ یا رسول اﷲ
()۱۰یاکہے:
دوش
ِ راکب
ِ علی مشکلکشاشیر خدا تھا اور حیدرتھا دوباال مرتبہ تھا
پیمبر تھا
برب کعبہ کب خیبر شکن فرزند ِ آزر تھا بتوں کے توڑنے میں اس ِ
سے ابراہیم ہمسر تھا