Professional Documents
Culture Documents
:لغوی معنی
تہذیب کے لغوی معنی چھانٹنے ،اصالح کرنے سنوارنے ،درست کرنے ،خالص کرنے
اور پاکیزہ کرنے کے ہیں۔ اس کا مادہ ہذب ہے۔ عرب بولتے ہیں ہذبۃ۔ ( اس کی تہذیب
کی یعنی اس کی اصالح كی۔ اسے درست کیا۔ سنوارا۔)( اسالم کا تہذیبی نظام از سید
یحی ندوی :ص )17 ٰ
:اصطالحی مفہوم
اصطالح میں تہذیب کا لفظ ہر چیز کی درستگی اصالح پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی
ارادہ اور نیت کی درستگی و اصالح ،خیاالت وجذبات عادات و اطوار ،رسم ورواج
نظام معاشرت ،سیاست مدن ،سیاست منزل ،علوم فنون ،تجارت وذراعت اور فکر وعمل
کی درستگی و اصالح۔ غرض سب پر تہذیب کا اطالق ہوتا ہے۔(اسالم کا تہذیبی نظام :
ص 17۔)18
محمد مار میڈیوک پکھتال کے خطبات مدارس میں تہذیب کی تعریف یوں کی گئی ہے۔
تہذیب سے مراد انسانی دماغ اور دل کی آراستگی ہے۔( محمد مارميڈ یوک پکھتال کے
خطبات مدراس کا اردو ترجمہ تہذیب اسالمی مترجم شیخ عطاء ہللا ایم۔ اے :ص )17
تہذیب کی تشریح کرتے ہوئے سرسید لکھتے ہیں کہ جب ایک گروہ انسانوں کا کسی
جگہ اکٹھا ہو کر بستا ہے۔ تو اکثر ان کی ضرورتیں اور ان کی حاجتیں ،ان کی غذائیں
اور ان کی پوشاکیں۔ ان کی معلومات اور ان کے خیاالت ان کی مسرت کی باتیں اور ان
کی نفرت کی چیزیں سب یکساں ہوتی ہیں۔ اور اس لیے برائی اور اچھائی کے خیاالت
بھی یکساں ہوتے ہیں۔ اور برائی کو اچھائی سے تبدیل کرنے کی خواہش سب میں ایک
سی ہوتی ہے۔ اور یہی مجموعی خواہش تبادلہ یا مجموعی خواہش سے وہ تبادلہ اس قوم
یا گروہ کی سولزیشن ہے۔(مقاالت سر سید از موالنا محمد اسماعیل پانی پتی )3 /4 :
:ايك اور مصنف سبط حسن نے تہذیب کی وضاحت اس طرح کی ہے
کہ کسی معاشرے کی با مقصد تخلیقات اور سماجی اقدار کے نظام کو تہذیب کہتے ’’
ہیں۔ تہذیب معاشرے کے طرز زندگی اور طرز فکر اور احساس کا جوہر ہوتی ہے۔
چنانچہ زبان ،آالت و آزار ،پیداوار کے طریقے اور سماجی رشتے رہن سہن فنون لطیفہ
علم و ادب فلسفہ حکمت ،عقائد و افسون ،اخالق و عادات ،رسوم ورواج ،عشق ومحبت
کےسلوک اور خاندانی تعلقات تہذیب کے مختلف مظاہر ہے۔ انگریزی زبان میں تہذیب
کے لئے کلچر کی اصطالح استعمال ہوتی ہے۔ کلچر ال طینی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے
لغوی معنی ہیں۔ زراعت ،شہد کی مکھیوں ،ریشم کے کیڑوں ،سیپیوں اور بکیٹیریا کی
پرورش یا افزائش کرنا۔ جسمانی یا ذہنی اصالح اور ترقی کھیتی باڑی کرنا۔‘‘( پاکستان
میں تہذیب کا ارتقاء از سبط حسن :ص 13۔)14
اردو فارسی اور عربی میں کلچر کے لئے تہذیب کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں
تہذیب کا لفظ عام طور سے شائستگی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ ڈاکٹر غالم جیالنی
برق لکھتے ہیں۔
تہذیب دل سے جنم لیتی ہے۔ دل کو ایک کھیت سمجھے۔ جسے نرم کرنا ،حسد ،نفرت او
بخل وغیرہ کے خار دار پودے اکھیڑنا اس میں انسانی محبت اور دیگر جذبات صالحہ
کابیج بونا قرآنی تعلیمات سے آبیاری کرنے اور شیطانی ترغیبات سے بچانا کلچر ہے۔
جو علم مطالعہ اور ایمان سے پیدا ہوتا ہے۔ اس کا عملی اظہار تہذیب ہے کلچر صرف
دین کا علم ہے۔ اور تہذیب ذہنی تصورات اور خارجی اعمال ہر دور کا مجموعہ ثقافت،
تمدن اور کلچر خاص ہیں۔ ثقافت کا تعلق علوم و فنون سےس ہے تمدن کا عمارات
وباغات سے۔ کلچر کا دانش ،ذہنی تصورات اور ایمانیات اور تہذیب ایک عام چیز ہے۔
جو ان تینوں پر حاوی ہے۔ اور مذہب تہذیب کو حسن عطا کرتا ہے لیکن یہ دونوں الگ
الگ چیزیں ہیں۔( ہماری عظیم تہذیب از غالم برق جیالنی :ص 19تا )20
:تمدن كى معنی ومفہوم
تمدن کا مادہ مدن ہے۔ جس کے لغوی معنی جگہ ،بستی اور شہر کے ہے۔
:اصطالحی معنی
شخصی اور جماعتی ٖآزادی ،شخصی اور اجتماعی حقوق کے قوانین آپس میں مل جل کر
رہنے کے وہ قواعد جو اخالقی اور روحانی اصولوں پر مستنبط ہوں اور جن میں اخالق
،فطری ،خوبیاں اور حقیقی شائستگیاں پائی جاتی ہیں۔
میں شمار ہوتی ہے۔ مثال Civilizationاصالح میں تمدن سے مراد وہ باتیں ہیں۔ جو
شائستہ ہونا بودوبدھ باش ۔ شہری زندگی اپنانا وغیرہ۔ تمدن حقیقت میں ضروریات زندگی
کی پیداوار ہے۔ انسان کی ضروریات رفتہ رفتہ تمدن کو جنم دیتی ہیں۔
تہذیب و تمدن کا تعلق
تہذیب کا تعلق نظریات سے ہوتا ہے۔ اور تمدن کا تعلق اعمال سے تمدن اصل میں کسی
خاص تہذیب کی عملی صورت کا نام ہے۔ مادی معاشرتی اور فنی ترقی کا نام تمدن ہے۔
اور روحانی و ذہنی ارتقاء کا نام تہذیب ہے۔ اس لحاظ سے تہذیب اور تمدن کا آپس میں
بڑا گہرا تعلق ہے۔ تہذیب اور تمدن کا تعلق روح اور جسم کاسا ہے۔ تہذیب روح ہے اور
تمدن اس کا جسم یا بیج اور درخت کا سا تعلق ہے۔ بیج تہذیب ہے اور تمدن اس سے پیدا
ہونا واال درخت ہے۔
ہندو مسلم تعلقات پس منظر
اصل موضوع پر لکھنے سے پہلے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہم مسلم دور حکومت
میں ہندو مسلم تعلقات کا تفصیلی جائز ہیں تاکہ اصل موضوع پر بحث کرنا آسان ہو
جائے۔
مسلمانوں کے آنےسے پہلے ہندوستان میں کئی مذاہب مثال جین دھرم ،بدھ دھرم اور
ویدک دھرم مروج تھے اور ان مذاہب کے علمبرداروں کی تعلیمات میں سخت اختالف
پائے جاتے تھے۔ مگر پھر بھی چونکہ وہ پیدائشی ہندوستانی ہے اس لیے ان میں ظاہری
تصادم تک نوبت نہ پہنچتی ہر شخص کو آزادی تھی کہ وہ جس مذہبی عقائد کو چاہیے
اپنا لے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کی مذہبی تاریخ میں بیان کے مختلف مذاہب کے
درمیان فرقہ وارانہ تصادم اور اشاعت مذاہب اور عقائد میں تشدد اور چیز کی مثالیں
دستیاب نہیں ہوتیں۔
مسلمانوں کے ہندوستان میں فاتح کی حیثیت سے آنے اور اکثر یہیں بس جانے سے ایک
نیا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا جس کے دو نازک پہلو تھے ایک تو یہ کہ مسلمان بیرونی ممالک
سے وارد ہوئے تھے اور ہندوستان پر حکومت کرنے کے مقصد سے آئے تھے۔ دوسرا
پہلو یہ تھا کہ وہ اپنےساتھ ایسا مذہب بھی الئے تھے جو مفتوح قوم کےمذاہب سے بالکل
متضاد تھا۔
ابتدائی زمانے میں یہ دونوں قومیں مذہبی اختالفات کی بناء پر ایک دوسرے کو نفرت،
حقارت اورمشتبہ نظر سے دیکھتی تھیں۔ ہندوں کا مقصد اجنبیوں کےساتھ ،اور اسی کی
وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے البیرونی نے لکھا ہے کہ پہال سبب تو زبان کا اختالف ہے
اور دوسرا دین کے متضاد ہونے کا۔
:دین کے بارے میں البیروانی رقمطراز ہیں
ہندو دین میں ہم سے کلی مغائرت رکھتے ہیں نہ ہم کسی ایسی چیز کا اقرار کرتے ’’
ہیں جو ان کے ہاں مانی جاتی ہے اور نہ وہ ہمارے ہاں کسی چیز کو تسلیم کرتے ہیں۔
غیروں کو یہ لوگ پلید یعنی ناپاک کہتے ہیں اور ان کو ناپاک سمجھنے کی وجہ سے ان
ملنا جلنا ،شادی بیاہ کرنا ،ان کےقریب جانا ،یا ساتھ اٹھنا بیٹھنا اور ساتھ کھانا جائز نہیں
سمجھتے۔ ان لوگوں کا اعتقاد ہے کہ ملک ہے تو ان کا ملک۔ انسان میں تو ان کی قوم
کے لوگ ،بادشاہ ہیں تو ان کے بادشاہ ،دین ہے تو وہی جو ان کا مذہب ہے۔ اور علم ہے
تو وہ جو ان کے پاس ہے۔(كتاب الہند از ابو ریحان البیرونی :ص 239۔ )243
مگر یہ صورت حال بہت دنوں تک قائم نہیں رہ سکتی تھی کیونکہ پھر ایک مذہب کے
پیروا اس ملک میں رہ سکتے تھے۔ مگر یہ ممکن نہیں تھا کہ ایک قوم دوسری قوم کو
مذہبی اختالفات کی بناء پر جڑ سے ختم کر دیتی ،ساتھ ساتھ مسلم عوام اور خصوصا
سالطین دہلی حقیقت شناس تھے۔ وہ لوگ یبہ بات بہت اچھی طرح سے جانتے تھے کہ
بغیر رعایا کے حکومت کس پر کی جائےگی۔ ل ٰہذا انہوں نے ہندوؤں کےساتھ نرمی اور
مذہبی راواداری کا رویہ اختیار کیا اور تبلیغ šاسالم کو اپنا فرض اولین نہ سمجھا۔ ان
لوگوں میں تبلیغ اور اشاعت اسالم کا وہ جوش وخروش اور جذبہ بھی نہیں تھا جو
خلفائے راشدین کے زمانے کے مسلمانوں میں پایا جاتا تھا۔
وقت کےساتھ ساتھ ہندوؤں مسلمانوں میں اتحاد و یگانگت او برادارانہ تعلقات بڑھنے
:لگے۔ چنانچہ ڈاکٹر تارا چند لکھتے ہیں
جب فتح پالی کا پہال طوفان تھم گیا اور ہندو اورمسلمان ایک پڑوسی کی طرح رہنے ’’
سہنے لگے تو بہت دنوں تک ساتھ ساتھ رہنے کی وجہ سے انہوں نے ایک دوسرے کے
خیاالت ،عادات و اطو ار ،رسم ورواج کے سمجھنے کی کوشش کی اور بہت جلد ہی ان
) ‘‘( Trachanal Dr. Islam Indian Culture P.137دونوں قوموں اتحاد پیدا ہو گیا۔
اس پس منظر میں ہمیں مسلمانوں پر ہندو تہذیب کے اثرات کا تفصیلی جائز ہ لینا ہے۔
تہššذیب کے لغššوی معššنی ہیں ـ :کššانٹ چھššانٹ کرنššا ،پššاک صššاف کرنššا
،سššنوارنا اور اصššال ح کرنššا ،آراسššتہ šوپššیر اسššتہ کرنššا،شائسššتہ بنانššا ،
عیوب کو دور کرنššا ۔اصššالح میں تہššذیب سššے مššراد ہے ۔ خšا ص ذہššنی
سššاخت جس سššے افššرا د ملت کے سššیرت و کššر دار کی تشššکیل ہššو تی
ہے ۔ آج کل لفظ تہذیب کسی قو م کی زندگی کے خدوخا ل رسم و رواج
اصول و ضوابط اور طرز بودوباش کے لئے استعمال ہššو تššا ہے ۔ گویššا
کہ ایک قوم کے وہ خدو خššا ل جššو اسššے دوسššری قومššو ں سššے ممتššاز
] [Cultureکریں تہذیب کہالتے ہیں۔تہذیب کو انگریššزی کے لفššظ کلچر
کے منظم معنی تسلیم کیا گیššا ہے ۔ کلچššر موجššودہ دور میں ایššک وسššیع
مفہو م کا حامل ہے جššو زنššدگی کے ہššر شššعبے پššر حššاوی ہے۔ اس میں
اخالق ،عššادات ،معاشššرت ،سššیا سššت ،مصššنوعات ،قššانون ،لبššاس،
خوراک ،آرٹ ،موسšیقی ،ادب ،فلسššفہ ،مšذہب اور سššائنس سšب کچھ
شامل ہے ۔ کلچر میں کسی قوم کے محاسن اور معائب سššب کچھ شššامل
ہیں ،تہذیب بھی اسššی وجہ سššے وسššیع مفہššوم اختیššار کššر گššئی ہے۔اور
اپنے لغوی معنی اور اصل مفہوم سے دور چلی گššئی ہے ۔ اور اس میں
ایک طرف عبادات شامل ہیں اور دوسری طرف لہوولعب او ر ناچ گانššا
تک اس کے جزو بن گئے ہیں ۔ تمدن کے معنی ہیں :شہر بسانا،شššہر ی
زنšššدگی اختیšššا ر کرنšššا وغšššیرہ۔ تمšššدن سšššے مšššراد وہ بšššاتیں ہیں ۔ جو
میں شمار ہو تی ہیں ۔ مثالً’’شائستہ ہو نššا ‘‘بودوبššاش) (Civilization
میں’’ شššہری زنššدگی گزارنššا‘‘ šیššا ’’اپنانššا‘‘ وغššیرہ ۔ تمššدن حقیقت میں
ضššروریات زنššدگی کی پیššداوار ہے۔ انسššان کی ضššروریات رفتہ رفتہ
تمدن کو جنم دیتی ہیں ۔ یہ بات نظر انداز نہیںکرنی چššاہیے کہ تمššدن کššا
تہذیب سے گہرا تعلšق ہے۔ تہšذیب کšاتعلق نظریšات سšے ہšو تšا ہے اور
تمššدن کššا اعمššال سššے ۔ تمššدن اصššل میں کسššی خššاص تہššذیب کی عملی
صورت کا نام ہے ۔ یہ کہا جا سکتاہے کہ تہذیب اصل ہے اور تمدن اس
سے پھوٹنے والی شššاخ ہے ۔ جššو کسššی مخصššوص جغرافیššائی مššاحو ل
میں پیدا ہو تی ہے۔ لیکن جب مختلف تمدنوں کا تجزیہ کیا جššائے تہššذیب
کی وحدت کی بنا پر ان میں کسی حد تššک یگššانگت ضššرور پššائی جššاتی
ہے اور یہ ثابت ہššو جššائے گššا کہ اختالف بالکššل معمššولی قسššم کššا تھššا ،
یگانگت کا سبب یہ ہے ،کہ اصل میں تمام شššاخیں ایššک ہی تہššذیب کے
اجššزاء ہیں ،تہššذیب اور تمššدن کššا آپس میں بššڑا گہššرا تعلššق ہے چššوں کہ
تہذیب نام ہے نظریا ت کا ،اور نظریا ت کے بغیر کو ئی تمššدن وجššو د
میں نہیں آسššکتا ۔ تہššذیب اور تمššدن کššا تعلššق جسššم اور روح جیسššا ہے۔
تہššذیب روح ہے اور تمššدن اس کššا جسššم یššا بیج اور درخت کššا سššا تعلššق
ہے ۔ بیج تہذیب ہے اور تمدن اس سے پیدا ہو نے واال درخت ۔جیسššا کہ
ہم جانتے ہیں تہذیب نظریات سے جنم لیتی ہے اور نظریا ت انسا ن کššو
دین عطا کرتا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ انسا ن کے تمššام اعمššال کššا سššر
چشمہ اور منبع اس کا دل ہے اور دل پر اس کے بنیššا دی نظریššا ت اور
اعتقادات کی حکمرانی ہو تی ہے ۔ گویا کہ یہ بنیššا دی افکššار انسššان کی
سیرت و کردار کو ایک خاص سانچے میں ڈھال دیتے ہیں۔
جس طرح پرانے زمانے کے بعض لوگوں پر جن آتے تھے اسی طرح ہمšارے زمšانے کے اکššثر لوگšوں پšر
الفاظ آتے ہیں۔ بالکل جنوں ہی کی طرح وہ ہمارے سروں پššر مسššلط ہššو جššاتے ہیں اور ان کے اثššر میں ہم نہ
جانے کیا کچھ کہتے رہتے ہیں جس کی ہمیں کچھ خبر نہیں ہوتی۔ تہذیب کا لفššظ بھی اسššی قسššم کššا ایššک جن
ہے جو ہمارے سروں پر مسلط ہوگیا ہے۔ اس لفظ کے پہلے معمول سر سید تھے۔ پھر جššوں جššوں علی گššڑھ
کی تعلیم اور ریل کی پٹریاں دور دور پھیلšتی گšئیں ،یہ لفšظ بھی عšام ہوتšا گیšا۔ اب تšو یہ عšالم ہے کہ جسšے
دیکھیے آنکھیں الل کیئے جھوم جھوم کر “تہذیب تہذیب” کہتا نظر آتا ہے۔تہššذیب نہ کہے گššا تššو ثقššافت کہے
گا۔ ثقافت نہ کہے گا تو کلچر کہے گا۔ میرے لššیے تššو یہ سššب آسššیبوں کے نššام ہیں۔ کššون کیššا ہے ،مššیری تššو
سمجھ میں نہیں آتا۔ ایک بات البتہ مجھے معلššوم ہے ،جب کššوئی لفššظ ہمššارے ذہنššوں پššر اس طššرح سššوار ہššو
جائےکہ ہم اس کے معنی کو سمجھے بغیر جا و بےجا طور پššر اسššے اسššتعمال کššرنے لگیں تššو وہ لفššظ نہیں
رہتا نفسیاتی عالمت بن جاتا ہے۔ تہذیب اور اسی قسم کے دوسššرے تمššام الفššاظ ہمššاری اس نفسššیات کššو ظššاہر
کرتے ہیں کہ ان الفاظ اور ان کے متعلقات کے بارے میں ہمارے انšدر کچھ نہ کچھ گڑبšڑ ضššرور ہے۔ ایššک
گڑبڑ تو اسی سے ظاہر ہے کہ تہذیب یا ثقافت یا کلچر کا دورہ سب سے زیادہ انھی لوگوں کو پڑتššا ہے ،جššو
کسی نہ کسی طرح اپنی روایت سے کٹ گššئے ہیں۔ دور کیššوں جššایئے ،ان لوگššوں کے لبššاس ،زبššان اور رہن
سہن پر ایک نظر ڈال لیجئے جواس قسم کی بحثوں میں بحثیت طبقہ پیش پیش رہššتے ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ
یہ وہی لوگ ہیں جن کی پرورش مغربی انداز میں ہوئی اور اپنی اصلی زندگی میں اپنی تہذیب سے الššگ ہššو
کر مغربی رنگ میں رنگ گئے ہیں۔ اس کا مطلب کہیں یہ تو نہیں ہے کہ اپنی تہššذیب ،ثقššافت ،کلچššر کššا اتنššا
چرچا کرنا بھی خود مغربیت ہی کا نتیجہ ہے؟ خیر وجہ بہرحال کچھ ہو ،یہ جن ہمارے سššروں پššر سššوار ہššو
گیšššššššššا ہے ،تšššššššššو آیšššššššššئے اس سšššššššššے کچھ بšššššššššات چیت کšššššššššرنے کی کوشšššššššššش کšššššššššریں۔
جنوں سے بات چیت کرنے سššے پہلے کچھ وظیفہ پڑھنššا ضššروری ہوتššا ہے۔ ہمššاری آیت الکرسššی۔ اس وقت
رینے گینوں کا یہ خیال ہےکہ تہذیب کا لفظ اٹھššارہویں صššدی کے نصššف آخššر میں دو اور لفظššوں کے سššاتھ
پھیلنا شروع ہوا۔ ان میں ایک لفظ “ترقی” تھššا دوسššرا “مššادیت”۔ بššاپ ،بیٹššا ،روح القššدس کی تثلیت کی طššرح
تہذیب ،ترقی اور مادیت کی تثلیت بھی تین میں ایک اور ایک میں تین کے فارمولے پر قائم تھی۔ مغššرب میں
اس تثلیت کے معنی یہ تھے کہ تہذیب اگر کوئی ہے تو وہ مغربی تہذیب ہے جواب تک کی انسššانی تššرقی کššا
حاصل ہے اور دوسری تہذیبوں سے اس بنا پر مختلف ہے کہ خالص سائنس کی ٹھوس بنیššادوں پššر قššائم ہے۔
اہل مغرب بندوقیں اور تšوپیں لے کšر سšاری دنیšا میں دوڑ پšڑے۔ یہی وہ تہذیب تھی جسے پھیالنے کے لیے ِ
چنا نچہ برصغیرمیں سر سید اور ان کے معاصرین ،تہذیب کا لفظ مغربی تہذیب ہی کے معنوں میں اسššتعمال
:کšššššššššššššššššرتے ہیں۔ اقبšššššššššššššššššال کے یہšššššššššššššššššاں بھی اس لفšššššššššššššššššظ کے یہی معšššššššššššššššššنی ہیں
نہ ابلئہ مسšššššššššššššššššššššššššššššجد ہšššššššššššššššššššššššššššššوں ،نہ تہšššššššššššššššššššššššššššššذیب کšššššššššššššššššššššššššššššا فرزند
اور
تہššššššššššššššššššššššššذیب کššššššššššššššššššššššššا کمššššššššššššššššššššššššال ،شššššššššššššššššššššššššرافت کššššššššššššššššššššššššا ہے زوال
سر سید اور اقبال میں فرق یہ ہے کہ سر سید اہšل مغšرب کےاس دعšوے کšو تسšلیم کšر لیšتے ہیں کہ مغšربی
تہذیب ہی اصل تہذیب ہے۔ اس لیے سر سید کو برصغیر کی قššومیں غššیر مہššذب نظššر آنے لگššتی ہیں ،اور وہ
انہیں بالخصوص مسلمانوں کو مغربی بنانے کی فکر میں پڑ جاتے ہیں۔ سر سید کے نزدیک مغربی ہونا مہššذ
ب اور ترقی یافتہ ہونے کی عالمات ہے اس حد تک کہ انھیں انگریزوں کے کتے بھی ہندوؤں اور مسلمانوں
سے بہتر معلوم ہوتے ہیں۔ رہی مادیت تو سر سید اس کے ابتدائی سبق “عقلیت” کššو قبššول کššر لیššتے ہیں۔ اس
کے مقابلے پر اقبال مغرب کے ر ِدعمل کی دوسری منزل کی نشššان دہی کššرتے ہیں۔ یعššنی وہ مغššربی تہššذیب
کے مقššابلے پššر اسššالمی تہššذیب کššو اس دعššوے کے سššاتھ پیش کššرتے ہیں کہ مغššربی تہššذیب در اصššل خššود
مسلمانوں کے اثر سے پیدا ہوئی ہے۔ مغرب کی سائینس ،جšو ان کی تšرقی کšا سšبب ہے ،خšود مسšلمانوں ہی
کی ایجاد تھی ،اور اگر وہ “خرافات” اور “روایات” میں مبتال ہو کر سو نہ جاتے تšو مغšرب کی طšرح خšود
ترقی کی اس منزل پر پہنچ جاتے۔ مادیت کو البتہ اقبال شدت کے ساتھ رد کššرتے نظššر آتے ہیں۔۔۔۔مššادیت کššو
بھی اور عقلیت پرستی کو بھی۔ مگر اقبال پر تھیوسوفی کا جو اثر پššڑا ہے اس کššا ذرا گہššرا مطššالعہ ہمیں بتššا
سکتا ہے کہ اقبال کا یہ ر ِدعمل مغربیت ہی کی ایک شکل ہے۔ سر سšید نے مسššلمانوں کšو مغšربی بنšانے کی
جو مہم شروع کی تھی ،اقبال اس کی اگلی منزل ہیں۔ اقبال پر نتشے اور برگسššاں کššا جššو اثššر ہے ہمیں اسššے
خالف واقعہ معلوم ہو ،کیوں ِ بھی اسی روشنی میں دیکھنا چاہیے۔ ممکن ہے کہ بعض لوگوں کو میرا یہ خیال
کہ اقبال شدت سے مغرب کی مخالفت کرتے نظر آتے ہیں۔ مگر ہمیں یاد رکھنا چاہیےکہ مغššرب کššا ر ِد عمššل
بھی مغربیت کی ہی ایک شکل ہے۔ مثالَ قوم پرستی کی تحریššک مغššربی اسššتعمار کے خالف تحریššک آزادی
بنتی ہے مگر قوم پرستی خود مغربیت ہی کا ایššک شاخسššانہ ہے۔ اقبššال کی مغššربیت یہ ہے کہ وہ مغššرب کی
سائینس کو قبššول کرلیššتے ہیں جس کی بنیššاد مššادیت ہے۔ البتہ وہ اسššالمی اخالق قššائم رکھنššا چššاہتے ہیں۔ بہت
زیادہ گہرائی میں جا کر دیکھا جائے تو اخالق ،وجدان اور جزبے پر اتنا زور جو اقبال کے ہاں نظر آتا ہے،
وہ بھی خالص مغربی تصورات کا نššتیجہ ہے۔ بہ ظššاہر یہ متضššاد بššات معلššوم ہššوتی ہے کہ وہ نššئی مشššرقیت
(یااسالمیت) جو ہمیں اقبال اور ان کے ساتھ دوسššرے بہت سššے لوگššوں میں ملššتی ہے ،خššود مغššربیت ہی کی
ایک قسم ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ قوم پرستی کی تحریک کی طرح ،مغرب کے تمام اثššرات اپššنی روح کššو
برقرار رکھتے ہوئے مظاہر میں مغššرب کی ضššد پیššدا کššرتے ہیں۔ اس طššرح مغššرب کی ظššاہراً مخššالفت بھی
مغربیت سے پیدا ہوتی ہے۔ ہم برصغیر میں پچھلے سو برس میں پیدا ہونے والے سیاسی ،اخالقی اور تہذیبی
اثرات کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت کھل کššر ہمššارے سššامنے آجššائے گی کہ مغššرب کے خالف یہ تمššام ر ِد عمššل
مغربی اثرات کا پیدا کیا ہوا تھا۔ اقبال مغربیت کی جس دوسری منزل کی نشان دہی کرتے ہیں ،وہاں پہنچ کššر
تہذیب کا جن مشرقی زبان بولنے لگتا ہے ،یعنی مغربی روح مشššرقی پیکššر میں حلššول کššر جššاتی ہے اور وہ
چیز جو اپنی اصل کے اعتبار سے قطعی”بیرونی” اور “اجنبی” تھی ،ہمارے اندر سرایت کššر کےیہ دھوکššا
دینے لگتی ہے کہ وہ ہماری اپنی ہے۔ اقبال کی نواسالمیت اور نو مشرقیت مغرب کے اسی عمل تناسخ سššے
پیššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššدا ہššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššوئی ہے۔
اقبال کی زندگی ہی میں مغربیت کا اثر اپنی تیسری منزل میں داخل ہوجاتا ہے۔ ترقی پسند تحریک اسی منزل
پر پیدا ہوتی ہے۔ اب تہذیب ،ترقی اور مادیت سر سید کی عقلیت اور اقبال کی وجدانیت سššے گššزر کššر اپššنے
سیدھے سادے روپ میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہ تحریک اس بات کی عالمت ہے کہ اب مغرب کا اثر ہمارے اندر
گہرا اثر کر گیا ہے کہ ہم اپنی مکمل šنفی کرنے کے باوجود اس دھوکے میں مبتال رہ سکتے ہیں کہ ہم اپššنے
آپ کو “ترقی” دے رہے ہیں۔ یہ تحریک اپنی روح کے اعتبار سےخالص مغربی ہونے کے بššاوجود ہمیں یہ
فریب دیتی ہے کہ ہم اپنی روایت سے نیا رشتہ جوڑ رہے ہیں اور اپنے ماضی کے بہترین عناصر کے امین
ہیں۔ سر سید کے یہاں تہذیب اور ترقی کے معنی مغربی معاشرت اور مغربی تعلیم کے تھے۔ اقبال کے یہššاں
تہذیب و ترقی کے معنی اسالمی اخالق کو برقرار رکھتےھوئےسائنس کو قبššول کššر لینššا ہے۔ تššرقی پسššندوں
کے یہاں تہذیب وترقی کے معنی اپنے تمدن کے سب سے رسمی اور ظاہری حصے کو قššائم رکھššتے ہššوئے
مادیت کو مان لینا ہے۔ مغربی اثر کی ان تینوں منزلوں کو نظر میں رکھا جائے تššو سššر سššید کے رد و قبššول
کی وہ تمام صورتیں جو شبلی ،اکبر ،اقبال اور ترقی پسندوں کے یہاں ملتی ہیں۔ ان کے معššنی روشššن ہššونے
لگتے ہیں ،اور پتہ چلتا ہے کہ مغرب کی روح کس طرح چولے بدل بدل کر ہمیں دھوکا دیššتی رہی ہے کہ ہم
تššššرقی کی مššššنزلوں میں مغššššرب کššššا سššššاتھ دیššššنے کے بššššاوجود مشššššرقیت کی طššššرف لššššوٹ رہے ہیں۔
آنندا کمار سوامی نے لکھا ہے کہ مغربی تہذیب نے ہر اس تہذیب کو جšو اس سšے مختلššف تھی اور صššدیوں
سے اپنے نام پر قائم تھی ،اپنے زہریلے اثر سے اسی طرح ہالک کردیššا ہے جس طššرح قابیššل نے ہابیššل کššو
ہالک کیا تھا۔ لیکن وہ قابیل ہی کی طرح اس خون ناحق کو چھپانا بھی چاہتی ہے ،اور اس کššا بہššترین طššریقہ
یہ ہےکہ مقتول کی ممی بنا کر اسے تماشاگاہوں میں چلتا پھرتا دکھایا جائے تاکہ کسššی کššو یہ احسššاس ہی نہ
ہونے پائے کہ وہ قتل ہو چکا ہے۔ چنا نچہ جوں جوں مغربی اثر ہماری تہذیبی روح کššو فنššا کššر رہššا ہے اور
مغربیت ہمارے اوپر مسلط ہوتی جšارہی ہے۔ ہم نیشšنل سšینٹروں اور کلچšرل تماشšوں میں اپšنی تہšذیبوں کے
خارجی مظاہر کی کٹھ پتلیاں نچاتے نظر آتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم اپنی جس تہذیب کو اپššنی زنššدگی
میں رد کر چکے ہیں اسے کھیل تماشا اور نمائش کے طور پššر قššائم رکھنššا چššاہتے ہیں۔ یہ اپššنی تہššذیب سššے
محبت نہیں ،اس سے ایک ایسا سفاکانہ مزاق ہے جو ہمššاری قššاتالنہ زہššنیت کی نمائنššدگی کرتššا ہے۔ چنššا نچہ
تہذیب ،ثقافت اور کلچر کا شور بڑھتا جاتا ہے کہ ہم اپنی تہذیب ،ثقافت اور کلچر سšےاتنے ہی دور جšاچکے
ہیں۔۔۔۔۔لیجیے ہماری ایšک آیت الکرسšی سšے تہšذیب کے جن نے اتšنی بšاتیں بتšادیں ،اب آگے کšا وظیفہ پھšر
کبھی۔
تحریšššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššر سšššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššلیم احمšššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššد ۔
سلیم احمد بیسویں صدی کے دیگر نصف حصہ کے سرکرده تنقید نگار اور شاعر تھے۔ وه خود نہššایت جیššد}
تنقیدی اسلوب و فکر کے مالک تھے ،اور بیسویں صدی میں اردو کے اہمترین جدت پسند تنقید نگššار ،محمššد
šرز فکššر کے وارث تھے ،جنہššوں نے اردو ادبیššات میں حسššن عسššکری ،کے منفššرد شššاعرانہ اور تنقیššدی طِ š
}کلیدی مابع ِدن َوآدادیاتی سواالت اُٹھائے۔