You are on page 1of 9

‫‪:‬تہذیب کے معنی ومفہوم‬

‫‪:‬لغوی معنی‬
‫تہذیب کے لغوی معنی چھانٹنے‪ ،‬اصالح کرنے سنوارنے ‪ ،‬درست کرنے‪ ،‬خالص کرنے‬
‫اور پاکیزہ کرنے کے ہیں۔ اس کا مادہ ہذب ہے۔ عرب بولتے ہیں ہذبۃ۔ ( اس کی تہذیب‬
‫کی یعنی اس کی اصالح كی۔ اسے درست کیا۔ سنوارا۔)( اسالم کا تہذیبی نظام از سید‬
‫یحی ندوی ‪ :‬ص ‪)17‬‬ ‫ٰ‬
‫‪:‬اصطالحی مفہوم‬
‫اصطالح میں تہذیب کا لفظ ہر چیز کی درستگی اصالح پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی‬
‫ارادہ اور نیت کی درستگی و اصالح‪ ،‬خیاالت وجذبات عادات و اطوار ‪ ،‬رسم ورواج‬
‫نظام معاشرت‪ ،‬سیاست مدن‪ ،‬سیاست منزل‪ ،‬علوم فنون‪ ،‬تجارت وذراعت اور فکر وعمل‬
‫کی درستگی و اصالح۔ غرض سب پر تہذیب کا اطالق ہوتا ہے۔(اسالم کا تہذیبی نظام ‪:‬‬
‫ص ‪17‬۔‪)18‬‬
‫محمد مار میڈیوک پکھتال کے خطبات مدارس میں تہذیب کی تعریف یوں کی گئی ہے۔‬
‫تہذیب سے مراد انسانی دماغ اور دل کی آراستگی ہے۔( محمد مارميڈ یوک پکھتال کے‬
‫خطبات مدراس کا اردو ترجمہ تہذیب اسالمی مترجم شیخ عطاء ہللا ایم۔ اے‪ :‬ص ‪)17‬‬
‫تہذیب کی تشریح کرتے ہوئے سرسید لکھتے ہیں کہ جب ایک گروہ انسانوں کا کسی‬
‫جگہ اکٹھا ہو کر بستا ہے۔ تو اکثر ان کی ضرورتیں اور ان کی حاجتیں‪ ،‬ان کی غذائیں‬
‫اور ان کی پوشاکیں۔ ان کی معلومات اور ان کے خیاالت ان کی مسرت کی باتیں اور ان‬
‫کی نفرت کی چیزیں سب یکساں ہوتی ہیں۔ اور اس لیے برائی اور اچھائی کے خیاالت‬
‫بھی یکساں ہوتے ہیں۔ اور برائی کو اچھائی سے تبدیل کرنے کی خواہش سب میں ایک‬
‫سی ہوتی ہے۔ اور یہی مجموعی خواہش تبادلہ یا مجموعی خواہش سے وہ تبادلہ اس قوم‬
‫یا گروہ کی سولزیشن ہے۔(مقاالت سر سید از موالنا محمد اسماعیل پانی پتی ‪)3 /4 :‬‬
‫‪:‬ايك اور مصنف سبط حسن نے تہذیب کی وضاحت اس طرح کی ہے‬
‫کہ کسی معاشرے کی با مقصد تخلیقات اور سماجی اقدار کے نظام کو تہذیب کہتے ’’‬
‫ہیں۔ تہذیب معاشرے کے طرز زندگی اور طرز فکر اور احساس کا جوہر ہوتی ہے۔‬
‫چنانچہ زبان‪ ،‬آالت و آزار‪ ،‬پیداوار کے طریقے اور سماجی رشتے رہن سہن فنون لطیفہ‬
‫علم و ادب فلسفہ حکمت‪ ،‬عقائد و افسون‪ ،‬اخالق و عادات‪ ،‬رسوم ورواج‪ ،‬عشق ومحبت‬
‫کےسلوک اور خاندانی تعلقات تہذیب کے مختلف مظاہر ہے۔ انگریزی زبان میں تہذیب‬
‫کے لئے کلچر کی اصطالح استعمال ہوتی ہے۔ کلچر ال طینی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے‬
‫لغوی معنی ہیں۔ زراعت‪ ،‬شہد کی مکھیوں‪ ،‬ریشم کے کیڑوں‪ ،‬سیپیوں اور بکیٹیریا کی‬
‫پرورش یا افزائش کرنا۔ جسمانی یا ذہنی اصالح اور ترقی کھیتی باڑی کرنا۔‘‘( پاکستان‬
‫میں تہذیب کا ارتقاء از سبط حسن ‪ :‬ص ‪ 13‬۔‪)14‬‬
‫اردو فارسی اور عربی میں کلچر کے لئے تہذیب کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں‬
‫تہذیب کا لفظ عام طور سے شائستگی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ ڈاکٹر غالم جیالنی‬
‫برق لکھتے ہیں۔‬
‫تہذیب دل سے جنم لیتی ہے۔ دل کو ایک کھیت سمجھے۔ جسے نرم کرنا‪ ،‬حسد‪ ،‬نفرت او‬
‫بخل وغیرہ کے خار دار پودے اکھیڑنا اس میں انسانی محبت اور دیگر جذبات صالحہ‬
‫کابیج بونا قرآنی تعلیمات سے آبیاری کرنے اور شیطانی ترغیبات سے بچانا کلچر ہے۔‬
‫جو علم مطالعہ اور ایمان سے پیدا ہوتا ہے۔ اس کا عملی اظہار تہذیب ہے کلچر صرف‬
‫دین کا علم ہے۔ اور تہذیب ذہنی تصورات اور خارجی اعمال ہر دور کا مجموعہ ثقافت‪،‬‬
‫تمدن اور کلچر خاص ہیں۔ ثقافت کا تعلق علوم و فنون سےس ہے تمدن کا عمارات‬
‫وباغات سے۔ کلچر کا دانش‪ ،‬ذہنی تصورات اور ایمانیات اور تہذیب ایک عام چیز ہے۔‬
‫جو ان تینوں پر حاوی ہے۔ اور مذہب تہذیب کو حسن عطا کرتا ہے لیکن یہ دونوں الگ‬
‫الگ چیزیں ہیں۔( ہماری عظیم تہذیب از غالم برق جیالنی ‪ :‬ص ‪ 19‬تا ‪)20‬‬
‫‪:‬تمدن كى معنی ومفہوم‬
‫تمدن کا مادہ مدن ہے۔ جس کے لغوی معنی جگہ ‪ ،‬بستی اور شہر کے ہے۔‬
‫‪:‬اصطالحی معنی‬
‫شخصی اور جماعتی ٖآزادی‪ ،‬شخصی اور اجتماعی حقوق کے قوانین آپس میں مل جل کر‬
‫رہنے کے وہ قواعد جو اخالقی اور روحانی اصولوں پر مستنبط ہوں اور جن میں اخالق‬
‫‪ ،‬فطری‪ ،‬خوبیاں اور حقیقی شائستگیاں پائی جاتی ہیں۔‬
‫میں شمار ہوتی ہے۔ مثال ‪ Civilization‬اصالح میں تمدن سے مراد وہ باتیں ہیں۔ جو‬
‫شائستہ ہونا بودوبدھ باش ۔ شہری زندگی اپنانا وغیرہ۔ تمدن حقیقت میں ضروریات زندگی‬
‫کی پیداوار ہے۔ انسان کی ضروریات رفتہ رفتہ تمدن کو جنم دیتی ہیں۔‬
‫تہذیب و تمدن کا تعلق‬
‫تہذیب کا تعلق نظریات سے ہوتا ہے۔ اور تمدن کا تعلق اعمال سے تمدن اصل میں کسی‬
‫خاص تہذیب کی عملی صورت کا نام ہے۔ مادی معاشرتی اور فنی ترقی کا نام تمدن ہے۔‬
‫اور روحانی و ذہنی ارتقاء کا نام تہذیب ہے۔ اس لحاظ سے تہذیب اور تمدن کا آپس میں‬
‫بڑا گہرا تعلق ہے۔ تہذیب اور تمدن کا تعلق روح اور جسم کاسا ہے۔ تہذیب روح ہے اور‬
‫تمدن اس کا جسم یا بیج اور درخت کا سا تعلق ہے۔ بیج تہذیب ہے اور تمدن اس سے پیدا‬
‫ہونا واال درخت ہے۔‬
‫ہندو مسلم تعلقات پس منظر‬
‫اصل موضوع پر لکھنے سے پہلے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہم مسلم دور حکومت‬
‫میں ہندو مسلم تعلقات کا تفصیلی جائز ہیں تاکہ اصل موضوع پر بحث کرنا آسان ہو‬
‫جائے۔‬
‫مسلمانوں کے آنےسے پہلے ہندوستان میں کئی مذاہب مثال جین دھرم‪ ،‬بدھ دھرم اور‬
‫ویدک دھرم مروج تھے اور ان مذاہب کے علمبرداروں کی تعلیمات میں سخت اختالف‬
‫پائے جاتے تھے۔ مگر پھر بھی چونکہ وہ پیدائشی ہندوستانی ہے اس لیے ان میں ظاہری‬
‫تصادم تک نوبت نہ پہنچتی ہر شخص کو آزادی تھی کہ وہ جس مذہبی عقائد کو چاہیے‬
‫اپنا لے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کی مذہبی تاریخ میں بیان کے مختلف مذاہب کے‬
‫درمیان فرقہ وارانہ تصادم اور اشاعت مذاہب اور عقائد میں تشدد اور چیز کی مثالیں‬
‫دستیاب نہیں ہوتیں۔‬
‫مسلمانوں کے ہندوستان میں فاتح کی حیثیت سے آنے اور اکثر یہیں بس جانے سے ایک‬
‫نیا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا جس کے دو نازک پہلو تھے ایک تو یہ کہ مسلمان بیرونی ممالک‬
‫سے وارد ہوئے تھے اور ہندوستان پر حکومت کرنے کے مقصد سے آئے تھے۔ دوسرا‬
‫پہلو یہ تھا کہ وہ اپنےساتھ ایسا مذہب بھی الئے تھے جو مفتوح قوم کےمذاہب سے بالکل‬
‫متضاد تھا۔‬
‫ابتدائی زمانے میں یہ دونوں قومیں مذہبی اختالفات کی بناء پر ایک دوسرے کو نفرت‪،‬‬
‫حقارت اورمشتبہ نظر سے دیکھتی تھیں۔ ہندوں کا مقصد اجنبیوں کےساتھ‪ ،‬اور اسی کی‬
‫وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے البیرونی نے لکھا ہے کہ پہال سبب تو زبان کا اختالف ہے‬
‫اور دوسرا دین کے متضاد ہونے کا۔‬
‫‪:‬دین کے بارے میں البیروانی رقمطراز ہیں‬
‫ہندو دین میں ہم سے کلی مغائرت رکھتے ہیں نہ ہم کسی ایسی چیز کا اقرار کرتے ’’‬
‫ہیں جو ان کے ہاں مانی جاتی ہے اور نہ وہ ہمارے ہاں کسی چیز کو تسلیم کرتے ہیں۔‬
‫غیروں کو یہ لوگ پلید یعنی ناپاک کہتے ہیں اور ان کو ناپاک سمجھنے کی وجہ سے ان‬
‫ملنا جلنا‪ ،‬شادی بیاہ کرنا‪ ،‬ان کےقریب جانا‪ ،‬یا ساتھ اٹھنا بیٹھنا اور ساتھ کھانا جائز نہیں‬
‫سمجھتے۔ ان لوگوں کا اعتقاد ہے کہ ملک ہے تو ان کا ملک۔ انسان میں تو ان کی قوم‬
‫کے لوگ‪ ،‬بادشاہ ہیں تو ان کے بادشاہ‪ ،‬دین ہے تو وہی جو ان کا مذہب ہے۔ اور علم ہے‬
‫تو وہ جو ان کے پاس ہے۔(كتاب الہند از ابو ریحان البیرونی ‪ :‬ص ‪239‬۔ ‪)243‬‬
‫مگر یہ صورت حال بہت دنوں تک قائم نہیں رہ سکتی تھی کیونکہ پھر ایک مذہب کے‬
‫پیروا اس ملک میں رہ سکتے تھے۔ مگر یہ ممکن نہیں تھا کہ ایک قوم دوسری قوم کو‬
‫مذہبی اختالفات کی بناء پر جڑ سے ختم کر دیتی ‪ ،‬ساتھ ساتھ مسلم عوام اور خصوصا‬
‫سالطین دہلی حقیقت شناس تھے۔ وہ لوگ یبہ بات بہت اچھی طرح سے جانتے تھے کہ‬
‫بغیر رعایا کے حکومت کس پر کی جائےگی۔ ل ٰہذا انہوں نے ہندوؤں کےساتھ نرمی اور‬
‫مذہبی راواداری کا رویہ اختیار کیا اور تبلیغ‪ š‬اسالم کو اپنا فرض اولین نہ سمجھا۔ ان‬
‫لوگوں میں تبلیغ اور اشاعت اسالم کا وہ جوش وخروش اور جذبہ بھی نہیں تھا جو‬
‫خلفائے راشدین کے زمانے کے مسلمانوں میں پایا جاتا تھا۔‬
‫وقت کےساتھ ساتھ ہندوؤں مسلمانوں میں اتحاد و یگانگت او برادارانہ تعلقات بڑھنے‬
‫‪:‬لگے۔ چنانچہ ڈاکٹر تارا چند لکھتے ہیں‬
‫جب فتح پالی کا پہال طوفان تھم گیا اور ہندو اورمسلمان ایک پڑوسی کی طرح رہنے ’’‬
‫سہنے لگے تو بہت دنوں تک ساتھ ساتھ رہنے کی وجہ سے انہوں نے ایک دوسرے کے‬
‫خیاالت‪ ،‬عادات و اطو ار‪ ،‬رسم ورواج کے سمجھنے کی کوشش کی اور بہت جلد ہی ان‬
‫) ‪‘‘( Trachanal Dr. Islam Indian Culture P.137‬دونوں قوموں اتحاد پیدا ہو گیا۔‬
‫اس پس منظر میں ہمیں مسلمانوں پر ہندو تہذیب کے اثرات کا تفصیلی جائز ہ لینا ہے۔‬

‫تہ‪šš‬ذیب کے لغ‪šš‬وی مع‪šš‬نی ہیں ـ‪ :‬ک‪šš‬انٹ چھ‪šš‬انٹ کرن‪šš‬ا ‪ ،‬پ‪šš‬اک ص‪šš‬اف کرن‪šš‬ا‬
‫‪،‬س‪šš‬نوارنا اور اص‪šš‬ال ح کرن‪šš‬ا ‪ ،‬آراس‪šš‬تہ‪ š‬وپ‪šš‬یر اس‪šš‬تہ کرن‪šš‬ا‪،‬شائس‪šš‬تہ بنان‪šš‬ا ‪،‬‬
‫عیوب کو دور کرن‪šš‬ا ۔اص‪šš‬الح میں تہ‪šš‬ذیب س‪šš‬ے م‪šš‬راد ہے ۔ خ‪š‬ا ص ذہ‪šš‬نی‬
‫س‪šš‬اخت جس س‪šš‬ے اف‪šš‬را د ملت کے س‪šš‬یرت و ک‪šš‬ر دار کی تش‪šš‬کیل ہ‪šš‬و تی‬
‫ہے ۔ آج کل لفظ تہذیب کسی قو م کی زندگی کے خدوخا ل رسم و رواج‬
‫اصول و ضوابط اور طرز بودوباش کے لئے استعمال ہ‪šš‬و ت‪šš‬ا ہے ۔ گوی‪šš‬ا‬
‫کہ ایک قوم کے وہ خدو خ‪šš‬ا ل ج‪šš‬و اس‪šš‬ے دوس‪šš‬ری قوم‪šš‬و ں س‪šš‬ے ممت‪šš‬از‬
‫]‪ [Culture‬کریں تہذیب کہالتے ہیں۔تہذیب کو انگری‪šš‬زی کے لف‪šš‬ظ کلچر‬
‫کے منظم معنی تسلیم کیا گی‪šš‬ا ہے ۔ کلچ‪šš‬ر موج‪šš‬ودہ دور میں ای‪šš‬ک وس‪šš‬یع‬
‫مفہو م کا حامل ہے ج‪šš‬و زن‪šš‬دگی کے ہ‪šš‬ر ش‪šš‬عبے پ‪šš‬ر ح‪šš‬اوی ہے۔ اس میں‬
‫اخالق ‪ ،‬ع‪šš‬ادات ‪ ،‬معاش‪šš‬رت ‪ ،‬س‪šš‬یا س‪šš‬ت ‪ ،‬مص‪šš‬نوعات‪ ،‬ق‪šš‬انون‪ ،‬لب‪šš‬اس‪،‬‬
‫خوراک ‪ ،‬آرٹ ‪ ،‬موس‪š‬یقی ‪ ،‬ادب ‪ ،‬فلس‪šš‬فہ ‪ ،‬م‪š‬ذہب اور س‪šš‬ائنس س‪š‬ب کچھ‬
‫شامل ہے ۔ کلچر میں کسی قوم کے محاسن اور معائب س‪šš‬ب کچھ ش‪šš‬امل‬
‫ہیں ‪ ،‬تہذیب بھی اس‪šš‬ی وجہ س‪šš‬ے وس‪šš‬یع مفہ‪šš‬وم اختی‪šš‬ار ک‪šš‬ر گ‪šš‬ئی ہے۔اور‬
‫اپنے لغوی معنی اور اصل مفہوم سے دور چلی گ‪šš‬ئی ہے ۔ اور اس میں‬
‫ایک طرف عبادات شامل ہیں اور دوسری طرف لہوولعب او ر ناچ گان‪šš‬ا‬
‫تک اس کے جزو بن گئے ہیں ۔ تمدن کے معنی ہیں ‪:‬شہر بسانا‪،‬ش‪šš‬ہر ی‬
‫زن‪ššš‬دگی اختی‪ššš‬ا ر کرن‪ššš‬ا وغ‪ššš‬یرہ۔ تم‪ššš‬دن س‪ššš‬ے م‪ššš‬راد وہ ب‪ššš‬اتیں ہیں ۔ جو‬
‫میں شمار ہو تی ہیں ۔ مثالً’’شائستہ ہو ن‪šš‬ا ‘‘بودوب‪šš‬اش) ‪(Civilization‬‬
‫میں’’ ش‪šš‬ہری زن‪šš‬دگی گزارن‪šš‬ا‘‘‪ š‬ی‪šš‬ا ’’اپنان‪šš‬ا‘‘ وغ‪šš‬یرہ ۔ تم‪šš‬دن حقیقت میں‬
‫ض‪šš‬روریات زن‪šš‬دگی کی پی‪šš‬داوار ہے۔ انس‪šš‬ان کی ض‪šš‬روریات رفتہ رفتہ‬
‫تمدن کو جنم دیتی ہیں ۔ یہ بات نظر انداز نہیںکرنی چ‪šš‬اہیے کہ تم‪šš‬دن ک‪šš‬ا‬
‫تہذیب سے گہرا تعل‪š‬ق ہے۔ تہ‪š‬ذیب ک‪š‬اتعلق نظری‪š‬ات س‪š‬ے ہ‪š‬و ت‪š‬ا ہے اور‬
‫تم‪šš‬دن ک‪šš‬ا اعم‪šš‬ال س‪šš‬ے ۔ تم‪šš‬دن اص‪šš‬ل میں کس‪šš‬ی خ‪šš‬اص تہ‪šš‬ذیب کی عملی‬
‫صورت کا نام ہے ۔ یہ کہا جا سکتاہے کہ تہذیب اصل ہے اور تمدن اس‬
‫سے پھوٹنے والی ش‪šš‬اخ ہے ۔ ج‪šš‬و کس‪šš‬ی مخص‪šš‬وص جغرافی‪šš‬ائی م‪šš‬احو ل‬
‫میں پیدا ہو تی ہے۔ لیکن جب مختلف تمدنوں کا تجزیہ کیا ج‪šš‬ائے تہ‪šš‬ذیب‬
‫کی وحدت کی بنا پر ان میں کسی حد ت‪šš‬ک یگ‪šš‬انگت ض‪šš‬رور پ‪šš‬ائی ج‪šš‬اتی‬
‫ہے اور یہ ثابت ہ‪šš‬و ج‪šš‬ائے گ‪šš‬ا کہ اختالف بالک‪šš‬ل معم‪šš‬ولی قس‪šš‬م ک‪šš‬ا تھ‪šš‬ا ‪،‬‬
‫یگانگت کا سبب یہ ہے ‪ ،‬کہ اصل میں تمام ش‪šš‬اخیں ای‪šš‬ک ہی تہ‪šš‬ذیب کے‬
‫اج‪šš‬زاء ہیں ‪،‬تہ‪šš‬ذیب اور تم‪šš‬دن ک‪šš‬ا آپس میں ب‪šš‬ڑا گہ‪šš‬را تعل‪šš‬ق ہے چ‪šš‬وں کہ‬
‫تہذیب نام ہے نظریا ت کا ‪ ،‬اور نظریا ت کے بغیر کو ئی تم‪šš‬دن وج‪šš‬و د‬
‫میں نہیں آس‪šš‬کتا ۔ تہ‪šš‬ذیب اور تم‪šš‬دن ک‪šš‬ا تعل‪šš‬ق جس‪šš‬م اور روح جیس‪šš‬ا ہے۔‬
‫تہ‪šš‬ذیب روح ہے اور تم‪šš‬دن اس ک‪šš‬ا جس‪šš‬م ی‪šš‬ا بیج اور درخت ک‪šš‬ا س‪šš‬ا تعل‪šš‬ق‬
‫ہے ۔ بیج تہذیب ہے اور تمدن اس سے پیدا ہو نے واال درخت ۔جیس‪šš‬ا کہ‬
‫ہم جانتے ہیں تہذیب نظریات سے جنم لیتی ہے اور نظریا ت انسا ن ک‪šš‬و‬
‫دین عطا کرتا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ انسا ن کے تم‪šš‬ام اعم‪šš‬ال ک‪šš‬ا س‪šš‬ر‬
‫چشمہ اور منبع اس کا دل ہے اور دل پر اس کے بنی‪šš‬ا دی نظری‪šš‬ا ت اور‬
‫اعتقادات کی حکمرانی ہو تی ہے ۔ گویا کہ یہ بنی‪šš‬ا دی افک‪šš‬ار انس‪šš‬ان کی‬
‫سیرت و کردار کو ایک خاص سانچے میں ڈھال دیتے ہیں۔‬

‫جس طرح پرانے زمانے کے بعض لوگوں پر جن آتے تھے اسی طرح ہم‪š‬ارے زم‪š‬انے کے اک‪šš‬ثر لوگ‪š‬وں پ‪š‬ر‬
‫الفاظ آتے ہیں۔ بالکل جنوں ہی کی طرح وہ ہمارے سروں پ‪šš‬ر مس‪šš‬لط ہ‪šš‬و ج‪šš‬اتے ہیں اور ان کے اث‪šš‬ر میں ہم نہ‬
‫جانے کیا کچھ کہتے رہتے ہیں جس کی ہمیں کچھ خبر نہیں ہوتی۔ تہذیب کا لف‪šš‬ظ بھی اس‪šš‬ی قس‪šš‬م ک‪šš‬ا ای‪šš‬ک جن‬
‫ہے جو ہمارے سروں پر مسلط ہوگیا ہے۔ اس لفظ کے پہلے معمول سر سید تھے۔ پھر ج‪šš‬وں ج‪šš‬وں علی گ‪šš‬ڑھ‬
‫کی تعلیم اور ریل کی پٹریاں دور دور پھیل‪š‬تی گ‪š‬ئیں‪ ،‬یہ لف‪š‬ظ بھی ع‪š‬ام ہوت‪š‬ا گی‪š‬ا۔ اب ت‪š‬و یہ ع‪š‬الم ہے کہ جس‪š‬ے‬
‫دیکھیے آنکھیں الل کیئے جھوم جھوم کر “تہذیب تہذیب” کہتا نظر آتا ہے۔تہ‪šš‬ذیب نہ کہے گ‪šš‬ا ت‪šš‬و ثق‪šš‬افت کہے‬
‫گا۔ ثقافت نہ کہے گا تو کلچر کہے گا۔ میرے ل‪šš‬یے ت‪šš‬و یہ س‪šš‬ب آس‪šš‬یبوں کے ن‪šš‬ام ہیں۔ ک‪šš‬ون کی‪šš‬ا ہے‪ ،‬م‪šš‬یری ت‪šš‬و‬
‫سمجھ میں نہیں آتا۔ ایک بات البتہ مجھے معل‪šš‬وم ہے‪ ،‬جب ک‪šš‬وئی لف‪šš‬ظ ہم‪šš‬ارے ذہن‪šš‬وں پ‪šš‬ر اس ط‪šš‬رح س‪šš‬وار ہ‪šš‬و‬
‫جائےکہ ہم اس کے معنی کو سمجھے بغیر جا و بےجا طور پ‪šš‬ر اس‪šš‬ے اس‪šš‬تعمال ک‪šš‬رنے لگیں ت‪šš‬و وہ لف‪šš‬ظ نہیں‬
‫رہتا نفسیاتی عالمت بن جاتا ہے۔ تہذیب اور اسی قسم کے دوس‪šš‬رے تم‪šš‬ام الف‪šš‬اظ ہم‪šš‬اری اس نفس‪šš‬یات ک‪šš‬و ظ‪šš‬اہر‬
‫کرتے ہیں کہ ان الفاظ اور ان کے متعلقات کے بارے میں ہمارے ان‪š‬در کچھ نہ کچھ گڑب‪š‬ڑ ض‪šš‬رور ہے۔ ای‪šš‬ک‬
‫گڑبڑ تو اسی سے ظاہر ہے کہ تہذیب یا ثقافت یا کلچر کا دورہ سب سے زیادہ انھی لوگوں کو پڑت‪šš‬ا ہے‪ ،‬ج‪šš‬و‬
‫کسی نہ کسی طرح اپنی روایت سے کٹ گ‪šš‬ئے ہیں۔ دور کی‪šš‬وں ج‪šš‬ایئے‪ ،‬ان لوگ‪šš‬وں کے لب‪šš‬اس‪ ،‬زب‪šš‬ان اور رہن‬
‫سہن پر ایک نظر ڈال لیجئے جواس قسم کی بحثوں میں بحثیت طبقہ پیش پیش رہ‪šš‬تے ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ‬
‫یہ وہی لوگ ہیں جن کی پرورش مغربی انداز میں ہوئی اور اپنی اصلی زندگی میں اپنی تہذیب سے ال‪šš‬گ ہ‪šš‬و‬
‫کر مغربی رنگ میں رنگ گئے ہیں۔ اس کا مطلب کہیں یہ تو نہیں ہے کہ اپنی تہ‪šš‬ذیب‪ ،‬ثق‪šš‬افت‪ ،‬کلچ‪šš‬ر ک‪šš‬ا اتن‪šš‬ا‬
‫چرچا کرنا بھی خود مغربیت ہی کا نتیجہ ہے؟ خیر وجہ بہرحال کچھ ہو‪ ،‬یہ جن ہمارے س‪šš‬روں پ‪šš‬ر س‪šš‬وار ہ‪šš‬و‬
‫گی‪ššššššššš‬ا ہے‪ ،‬ت‪ššššššššš‬و آی‪ššššššššš‬ئے اس س‪ššššššššš‬ے کچھ ب‪ššššššššš‬ات چیت ک‪ššššššššš‬رنے کی کوش‪ššššššššš‬ش ک‪ššššššššš‬ریں۔‬
‫جنوں سے بات چیت کرنے س‪šš‬ے پہلے کچھ وظیفہ پڑھن‪šš‬ا ض‪šš‬روری ہوت‪šš‬ا ہے۔ ہم‪šš‬اری آیت الکرس‪šš‬ی۔ اس وقت‬
‫رینے گینوں کا یہ خیال ہےکہ تہذیب کا لفظ اٹھ‪šš‬ارہویں ص‪šš‬دی کے نص‪šš‬ف آخ‪šš‬ر میں دو اور لفظ‪šš‬وں کے س‪šš‬اتھ‬
‫پھیلنا شروع ہوا۔ ان میں ایک لفظ “ترقی” تھ‪šš‬ا دوس‪šš‬را “م‪šš‬ادیت”۔ ب‪šš‬اپ‪ ،‬بیٹ‪šš‬ا‪ ،‬روح الق‪šš‬دس کی تثلیت کی ط‪šš‬رح‬
‫تہذیب‪ ،‬ترقی اور مادیت کی تثلیت بھی تین میں ایک اور ایک میں تین کے فارمولے پر قائم تھی۔ مغ‪šš‬رب میں‬
‫اس تثلیت کے معنی یہ تھے کہ تہذیب اگر کوئی ہے تو وہ مغربی تہذیب ہے جواب تک کی انس‪šš‬انی ت‪šš‬رقی ک‪šš‬ا‬
‫حاصل ہے اور دوسری تہذیبوں سے اس بنا پر مختلف ہے کہ خالص سائنس کی ٹھوس بنی‪šš‬ادوں پ‪šš‬ر ق‪šš‬ائم ہے۔‬
‫اہل مغرب بندوقیں اور ت‪š‬وپیں لے ک‪š‬ر س‪š‬اری دنی‪š‬ا میں دوڑ پ‪š‬ڑے۔‬ ‫یہی وہ تہذیب تھی جسے پھیالنے کے لیے ِ‬
‫چنا نچہ برصغیرمیں سر سید اور ان کے معاصرین‪ ،‬تہذیب کا لفظ مغربی تہذیب ہی کے معنوں میں اس‪šš‬تعمال‬
‫‪:‬ک‪ššššššššššššššššš‬رتے ہیں۔ اقب‪ššššššššššššššššš‬ال کے یہ‪ššššššššššššššššš‬اں بھی اس لف‪ššššššššššššššššš‬ظ کے یہی مع‪ššššššššššššššššš‬نی ہیں‬
‫نہ ابلئہ مس‪ššššššššššššššššššššššššššššš‬جد ہ‪ššššššššššššššššššššššššššššš‬وں‪ ،‬نہ تہ‪ššššššššššššššššššššššššššššš‬ذیب ک‪ššššššššššššššššššššššššššššš‬ا فرزند‬
‫اور‬
‫تہ‪šššššššššššššššššššššššš‬ذیب ک‪šššššššššššššššššššššššš‬ا کم‪šššššššššššššššššššššššš‬ال‪ ،‬ش‪šššššššššššššššššššššššš‬رافت ک‪šššššššššššššššššššššššš‬ا ہے زوال‬
‫سر سید اور اقبال میں فرق یہ ہے کہ سر سید اہ‪š‬ل مغ‪š‬رب کےاس دع‪š‬وے ک‪š‬و تس‪š‬لیم ک‪š‬ر لی‪š‬تے ہیں کہ مغ‪š‬ربی‬
‫تہذیب ہی اصل تہذیب ہے۔ اس لیے سر سید کو برصغیر کی ق‪šš‬ومیں غ‪šš‬یر مہ‪šš‬ذب نظ‪šš‬ر آنے لگ‪šš‬تی ہیں‪ ،‬اور وہ‬
‫انہیں بالخصوص مسلمانوں کو مغربی بنانے کی فکر میں پڑ جاتے ہیں۔ سر سید کے نزدیک مغربی ہونا مہ‪šš‬ذ‬
‫ب اور ترقی یافتہ ہونے کی عالمات ہے اس حد تک کہ انھیں انگریزوں کے کتے بھی ہندوؤں اور مسلمانوں‬
‫سے بہتر معلوم ہوتے ہیں۔ رہی مادیت تو سر سید اس کے ابتدائی سبق “عقلیت” ک‪šš‬و قب‪šš‬ول ک‪šš‬ر لی‪šš‬تے ہیں۔ اس‬
‫کے مقابلے پر اقبال مغرب کے ر ِدعمل کی دوسری منزل کی نش‪šš‬ان دہی ک‪šš‬رتے ہیں۔ یع‪šš‬نی وہ مغ‪šš‬ربی تہ‪šš‬ذیب‬
‫کے مق‪šš‬ابلے پ‪šš‬ر اس‪šš‬المی تہ‪šš‬ذیب ک‪šš‬و اس دع‪šš‬وے کے س‪šš‬اتھ پیش ک‪šš‬رتے ہیں کہ مغ‪šš‬ربی تہ‪šš‬ذیب در اص‪šš‬ل خ‪šš‬ود‬
‫مسلمانوں کے اثر سے پیدا ہوئی ہے۔ مغرب کی سائینس‪ ،‬ج‪š‬و ان کی ت‪š‬رقی ک‪š‬ا س‪š‬بب ہے‪ ،‬خ‪š‬ود مس‪š‬لمانوں ہی‬
‫کی ایجاد تھی‪ ،‬اور اگر وہ “خرافات” اور “روایات” میں مبتال ہو کر سو نہ جاتے ت‪š‬و مغ‪š‬رب کی ط‪š‬رح خ‪š‬ود‬
‫ترقی کی اس منزل پر پہنچ جاتے۔ مادیت کو البتہ اقبال شدت کے ساتھ رد ک‪šš‬رتے نظ‪šš‬ر آتے ہیں۔۔۔۔م‪šš‬ادیت ک‪šš‬و‬
‫بھی اور عقلیت پرستی کو بھی۔ مگر اقبال پر تھیوسوفی کا جو اثر پ‪šš‬ڑا ہے اس ک‪šš‬ا ذرا گہ‪šš‬را مط‪šš‬العہ ہمیں بت‪šš‬ا‬
‫سکتا ہے کہ اقبال کا یہ ر ِدعمل مغربیت ہی کی ایک شکل ہے۔ سر س‪š‬ید نے مس‪šš‬لمانوں ک‪š‬و مغ‪š‬ربی بن‪š‬انے کی‬
‫جو مہم شروع کی تھی‪ ،‬اقبال اس کی اگلی منزل ہیں۔ اقبال پر نتشے اور برگس‪šš‬اں ک‪šš‬ا ج‪šš‬و اث‪šš‬ر ہے ہمیں اس‪šš‬ے‬
‫خالف واقعہ معلوم ہو‪ ،‬کیوں‬ ‫ِ‬ ‫بھی اسی روشنی میں دیکھنا چاہیے۔ ممکن ہے کہ بعض لوگوں کو میرا یہ خیال‬
‫کہ اقبال شدت سے مغرب کی مخالفت کرتے نظر آتے ہیں۔ مگر ہمیں یاد رکھنا چاہیےکہ مغ‪šš‬رب ک‪šš‬ا ر ِد عم‪šš‬ل‬
‫بھی مغربیت کی ہی ایک شکل ہے۔ مثالَ قوم پرستی کی تحری‪šš‬ک مغ‪šš‬ربی اس‪šš‬تعمار کے خالف تحری‪šš‬ک آزادی‬
‫بنتی ہے مگر قوم پرستی خود مغربیت ہی کا ای‪šš‬ک شاخس‪šš‬انہ ہے۔ اقب‪šš‬ال کی مغ‪šš‬ربیت یہ ہے کہ وہ مغ‪šš‬رب کی‬
‫سائینس کو قب‪šš‬ول کرلی‪šš‬تے ہیں جس کی بنی‪šš‬اد م‪šš‬ادیت ہے۔ البتہ وہ اس‪šš‬المی اخالق ق‪šš‬ائم رکھن‪šš‬ا چ‪šš‬اہتے ہیں۔ بہت‬
‫زیادہ گہرائی میں جا کر دیکھا جائے تو اخالق‪ ،‬وجدان اور جزبے پر اتنا زور جو اقبال کے ہاں نظر آتا ہے‪،‬‬
‫وہ بھی خالص مغربی تصورات کا ن‪šš‬تیجہ ہے۔ بہ ظ‪šš‬اہر یہ متض‪šš‬اد ب‪šš‬ات معل‪šš‬وم ہ‪šš‬وتی ہے کہ وہ ن‪šš‬ئی مش‪šš‬رقیت‬
‫(یااسالمیت) جو ہمیں اقبال اور ان کے ساتھ دوس‪šš‬رے بہت س‪šš‬ے لوگ‪šš‬وں میں مل‪šš‬تی ہے‪ ،‬خ‪šš‬ود مغ‪šš‬ربیت ہی کی‬
‫ایک قسم ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ قوم پرستی کی تحریک کی طرح‪ ،‬مغرب کے تمام اث‪šš‬رات اپ‪šš‬نی روح ک‪šš‬و‬
‫برقرار رکھتے ہوئے مظاہر میں مغ‪šš‬رب کی ض‪šš‬د پی‪šš‬دا ک‪šš‬رتے ہیں۔ اس ط‪šš‬رح مغ‪šš‬رب کی ظ‪šš‬اہراً مخ‪šš‬الفت بھی‬
‫مغربیت سے پیدا ہوتی ہے۔ ہم برصغیر میں پچھلے سو برس میں پیدا ہونے والے سیاسی‪ ،‬اخالقی اور تہذیبی‬
‫اثرات کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت کھل ک‪šš‬ر ہم‪šš‬ارے س‪šš‬امنے آج‪šš‬ائے گی کہ مغ‪šš‬رب کے خالف یہ تم‪šš‬ام ر ِد عم‪šš‬ل‬
‫مغربی اثرات کا پیدا کیا ہوا تھا۔ اقبال مغربیت کی جس دوسری منزل کی نشان دہی کرتے ہیں‪ ،‬وہاں پہنچ ک‪šš‬ر‬
‫تہذیب کا جن مشرقی زبان بولنے لگتا ہے‪ ،‬یعنی مغربی روح مش‪šš‬رقی پیک‪šš‬ر میں حل‪šš‬ول ک‪šš‬ر ج‪šš‬اتی ہے اور وہ‬
‫چیز جو اپنی اصل کے اعتبار سے قطعی”بیرونی” اور “اجنبی” تھی‪ ،‬ہمارے اندر سرایت ک‪šš‬ر کےیہ دھوک‪šš‬ا‬
‫دینے لگتی ہے کہ وہ ہماری اپنی ہے۔ اقبال کی نواسالمیت اور نو مشرقیت مغرب کے اسی عمل تناسخ س‪šš‬ے‬
‫پی‪šššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššš‬دا ہ‪šššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššš‬وئی ہے۔‬
‫اقبال کی زندگی ہی میں مغربیت کا اثر اپنی تیسری منزل میں داخل ہوجاتا ہے۔ ترقی پسند تحریک اسی منزل‬
‫پر پیدا ہوتی ہے۔ اب تہذیب‪ ،‬ترقی اور مادیت سر سید کی عقلیت اور اقبال کی وجدانیت س‪šš‬ے گ‪šš‬زر ک‪šš‬ر اپ‪šš‬نے‬
‫سیدھے سادے روپ میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہ تحریک اس بات کی عالمت ہے کہ اب مغرب کا اثر ہمارے اندر‬
‫گہرا اثر کر گیا ہے کہ ہم اپنی مکمل‪ š‬نفی کرنے کے باوجود اس دھوکے میں مبتال رہ سکتے ہیں کہ ہم اپ‪šš‬نے‬
‫آپ کو “ترقی” دے رہے ہیں۔ یہ تحریک اپنی روح کے اعتبار سےخالص مغربی ہونے کے ب‪šš‬اوجود ہمیں یہ‬
‫فریب دیتی ہے کہ ہم اپنی روایت سے نیا رشتہ جوڑ رہے ہیں اور اپنے ماضی کے بہترین عناصر کے امین‬
‫ہیں۔ سر سید کے یہاں تہذیب اور ترقی کے معنی مغربی معاشرت اور مغربی تعلیم کے تھے۔ اقبال کے یہ‪šš‬اں‬
‫تہذیب و ترقی کے معنی اسالمی اخالق کو برقرار رکھتےھوئےسائنس کو قب‪šš‬ول ک‪šš‬ر لین‪šš‬ا ہے۔ ت‪šš‬رقی پس‪šš‬ندوں‬
‫کے یہاں تہذیب وترقی کے معنی اپنے تمدن کے سب سے رسمی اور ظاہری حصے کو ق‪šš‬ائم رکھ‪šš‬تے ہ‪šš‬وئے‬
‫مادیت کو مان لینا ہے۔ مغربی اثر کی ان تینوں منزلوں کو نظر میں رکھا جائے ت‪šš‬و س‪šš‬ر س‪šš‬ید کے رد و قب‪šš‬ول‬
‫کی وہ تمام صورتیں جو شبلی‪ ،‬اکبر‪ ،‬اقبال اور ترقی پسندوں کے یہاں ملتی ہیں۔ ان کے مع‪šš‬نی روش‪šš‬ن ہ‪šš‬ونے‬
‫لگتے ہیں‪ ،‬اور پتہ چلتا ہے کہ مغرب کی روح کس طرح چولے بدل بدل کر ہمیں دھوکا دی‪šš‬تی رہی ہے کہ ہم‬
‫ت‪šššš‬رقی کی م‪šššš‬نزلوں میں مغ‪šššš‬رب ک‪šššš‬ا س‪šššš‬اتھ دی‪šššš‬نے کے ب‪šššš‬اوجود مش‪šššš‬رقیت کی ط‪šššš‬رف ل‪šššš‬وٹ رہے ہیں۔‬
‫آنندا کمار سوامی نے لکھا ہے کہ مغربی تہذیب نے ہر اس تہذیب کو ج‪š‬و اس س‪š‬ے مختل‪šš‬ف تھی اور ص‪šš‬دیوں‬
‫سے اپنے نام پر قائم تھی‪ ،‬اپنے زہریلے اثر سے اسی طرح ہالک کردی‪šš‬ا ہے جس ط‪šš‬رح قابی‪šš‬ل نے ہابی‪šš‬ل ک‪šš‬و‬
‫ہالک کیا تھا۔ لیکن وہ قابیل ہی کی طرح اس خون ناحق کو چھپانا بھی چاہتی ہے‪ ،‬اور اس ک‪šš‬ا بہ‪šš‬ترین ط‪šš‬ریقہ‬
‫یہ ہےکہ مقتول کی ممی بنا کر اسے تماشاگاہوں میں چلتا پھرتا دکھایا جائے تاکہ کس‪šš‬ی ک‪šš‬و یہ احس‪šš‬اس ہی نہ‬
‫ہونے پائے کہ وہ قتل ہو چکا ہے۔ چنا نچہ جوں جوں مغربی اثر ہماری تہذیبی روح ک‪šš‬و فن‪šš‬ا ک‪šš‬ر رہ‪šš‬ا ہے اور‬
‫مغربیت ہمارے اوپر مسلط ہوتی ج‪š‬ارہی ہے۔ ہم نیش‪š‬نل س‪š‬ینٹروں اور کلچ‪š‬رل تماش‪š‬وں میں اپ‪š‬نی تہ‪š‬ذیبوں کے‬
‫خارجی مظاہر کی کٹھ پتلیاں نچاتے نظر آتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم اپنی جس تہذیب کو اپ‪šš‬نی زن‪šš‬دگی‬
‫میں رد کر چکے ہیں اسے کھیل تماشا اور نمائش کے طور پ‪šš‬ر ق‪šš‬ائم رکھن‪šš‬ا چ‪šš‬اہتے ہیں۔ یہ اپ‪šš‬نی تہ‪šš‬ذیب س‪šš‬ے‬
‫محبت نہیں‪ ،‬اس سے ایک ایسا سفاکانہ مزاق ہے جو ہم‪šš‬اری ق‪šš‬اتالنہ زہ‪šš‬نیت کی نمائن‪šš‬دگی کرت‪šš‬ا ہے۔ چن‪šš‬ا نچہ‬
‫تہذیب‪ ،‬ثقافت اور کلچر کا شور بڑھتا جاتا ہے کہ ہم اپنی تہذیب‪ ،‬ثقافت اور کلچر س‪š‬ےاتنے ہی دور ج‪š‬اچکے‬
‫ہیں۔۔۔۔۔لیجیے ہماری ای‪š‬ک آیت الکرس‪š‬ی س‪š‬ے تہ‪š‬ذیب کے جن نے ات‪š‬نی ب‪š‬اتیں بت‪š‬ادیں‪ ،‬اب آگے ک‪š‬ا وظیفہ پھ‪š‬ر‬
‫کبھی۔‬
‫تحری‪ššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššš‬ر س‪ššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššš‬لیم احم‪ššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššššš‬د ۔‬
‫سلیم احمد بیسویں صدی کے دیگر نصف حصہ کے سرکرده تنقید نگار اور شاعر تھے۔ وه خود نہ‪šš‬ایت جی‪šš‬د}‬
‫تنقیدی اسلوب و فکر کے مالک تھے‪ ،‬اور بیسویں صدی میں اردو کے اہمترین جدت پسند تنقید نگ‪šš‬ار‪ ،‬محم‪šš‬د‬
‫‪š‬رز فک‪šš‬ر کے وارث تھے‪ ،‬جنہ‪šš‬وں نے اردو ادبی‪šš‬ات میں‬ ‫حس‪šš‬ن عس‪šš‬کری‪ ،‬کے منف‪šš‬رد ش‪šš‬اعرانہ اور تنقی‪šš‬دی ط‪ِ š‬‬
‫}کلیدی مابع ِدن َوآدادیاتی سواالت اُٹھائے۔‬

You might also like