Professional Documents
Culture Documents
میں حلفیہ اقرار کرتی ہوں کہ یہ مقالہ بعنوان ’’ادبیات عربی کے دو
محقق اور نقاد :محمد کاظم اور خورشید رضوی (تقابلی مطالعہ) ‘‘
میری ذاتی کاوش اور محنت کاثمر ہے۔ نیز یہ مقالہ اس سے پہلے کسی
بھی یونیورسٹی میں کسی ڈگری کے حصول کے لئے پیش نہیں کیا گیا۔
یہ مقالہ اپنےموضوع سے متعلق اساسی اور اولین مصادر ماخذ پر
مشتمل ہے۔
نازیہ راحت
مقالہ نگار
انتساب
محبتوں سے ُگندھی دو شخصیات
اپنے شریک حیات’’خان شوکت حسین
کھچی‘‘
اور
راحت کے نام اپنی بہن راحیلہ
کہی ان کہی
پی ایچ ڈی کے مقالے کی تکمیل میرے لئے انتہائی مسرت آمیز ہے۔
کیونکہ جب خواب حقیقت بن کر سامنے آجائیں تو زندگی اپنے ہونے کا
احساس دالتی ہے۔
مقالے کی بر وقت تکمیل میرے محترم اساتذہ ڈاکٹر انوار احمداور
ڈاکٹر روبینہ ترین کی مرہون منت ہے ان کی ہر لمحہ حوصلہ افزائی
صمم نے مجھے وہ حرارت نےمجھے ہمیشہ تحریک دی۔ ان کے عزم م ّ
بخشی جو اس مقالے کی صورت میں کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ میں
اپنے محترم استاد ڈاکٹر قاضی عابد کی شکر گزار ہوں جنہوں نے
مجھے بارہا کہا کہ پی۔ ایچ ۔ ڈی کے بغیر ایم فل کا کوئی فائدہ نہیں لہذا
آپ پی ۔ ایچ۔ڈی ضرور کریں اور اس دوران انہوں نے میری بہت
رہنمائی کی۔ ڈاکٹر عقیلہ جاوید ،ڈاکٹر شازیہ عنبرین ،ڈاکٹر حماد رسول
،ڈاکٹر سجاد نعیم اور دوسرے تمام اساتذہ کی حوصلہ افزائی پر تہہ دل
سے اُن کی شکر گزار ہوں۔
میں اپنے بہت قابل احترام بھائی عامر اقبال بھٹی ایڈووکیٹ (الہور) کی
انتہائی شکر گزار ہوں جنہوں نے اس مقالے کے متعلق کتب اور دیگر
مواد بروقت فراہم کرنے میں میری بہت مدد کی۔ اس بے لوث خلوص کا
شکریہ الفاظ سے ادا کرنا میرے لئے نا ممکن ہے۔
ڈاکٹر زاہد منیر عامر ،علی تنہا ،سید ریاض حسین زیدی اور ڈاکٹر خالد
سنجرانی کی تہہ دل سے شکر گزار ہوں کہ انہوں نے کتب کی فراہمی
میں ہر ممکن میری مدد کی۔
اپنی بہن راحیلہ راحت اور ان کے بچوں سرخرو عارف علوی ،
مریم عارف اور ثانیہ عارف کی محبتوں کا قرض شاید کبھی نہ اُتار
سکوں۔ اُنھوں نے مجھے اتنا پُر سکون ماحول دیا کہ جس کی وجہ سے
میں اپنا کام انہماک سے مکمل کر سکی۔ اس مقالے کے دوران اپنے
بھانجے اور بھانجیوں کی وجہ سے مجھے کہیں آنے جانے میں دقت
محسوس نہیں ہوئی کیونکہ وہ بہت محبت سے ہر وقت میرے ساتھ
جانے کے لئے تیار رہتے تھے۔ اپنے بھائی افتخار احمدعلوی اور
دعاوں کۓ بہنوں غزالہ راحت اور ثمینہ راحت کی محبتوں اور اور
لئے ان کی شکر گزار ہوں۔
اپنی بہت ہی پیاری بیٹی علیزے خان کی بے مثال محبت میرے
لئے زندگی کی سب سے بڑی خوشی ہے جو رات کو گرمی کے
باوجود تین بجے تک میرے ساتھ جاگتی تھی،میری صحت کے متعلق
انتہائی فکر مند رہتی اور ہر لمحہ میرا ساتھ دیا تاکہ میرا مقالہ بروقت
مکمل ہو جائے۔
میرے شریک حیات خان شوکت حسین کھچی مجھے یہاں تک النے
والی وہ شخصیت ہیں کہ جن کے تعاون کے بغیر میں کبھی کامیاب نہ
ہوتی۔ اس مقالے کے دوران انہوں نے ہر ممکن میری زندگی میں
آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کی اپنی ضرورتوں کو پس پشت ڈال کر
میری خواہشات کاہمیشہ احترام کیا۔ شاید یہ چند سطور اُن کی محبتوں
کا احاطہ نہ کر سکیں۔ مزید برآں اپنے گھر میں موجود بھتیجے علی
اکبر کھچی اور بھتیجیوں ،بھانجیوں کی تہہ دل سے شکر گزار ہوں کہ
اُنہوں نے مقالے کی تکمیل دوران گھر کے دیگر امور میں میری بہت
مدد کی۔
سکول میں اپنی دوست اور کولیگ مس گلناز زیدی کی بہت شکر گزار
ہوں کہ انہوں نے اس دوران مجھے سکول کی غیرتدریسی ذمہ
داریوں سے د ُور رکھا اور مجھے بہت حوصلہ دیا کہ میں اپنی توجہ
صرف کام پر مبذول رکھوں اور کتب کی فراہمی میں بھی میری مدد کی
بشری تبسم،
ٰ اور دیگر سٹاف ممبران میں شگفتہ ڈوگر ،بتول فاطمہ،
سفینہ یاسمین اور منزہ علی کی تہہ دل سے شکر گزار ہوں ۔ آخر میں
کمپوزرشیخ محمد سہیل صیّاد ،شکیل احمد اور وسیم کی بہت بہت شکر
گزار ہوں کہ انہوں نے دن رات ایک کر کے میرا مقالہ بر وقت مکمل
کیا۔
نازیہ راحت
فہرست ابواب
کہی اَن کہی
باب اول:
باب دوم:
باب سوم
باب چہارم:
باب پنجم
باب ششم
کتابیات
۴۱۸ -۴۱۱
باب اول:
عربی اد ب اور ہمارا معاشرہ
اگرچہ ہندوستان کی سر زمین جہاں مختلف نسلوں ،ذاتوں،طبقوں اورمذہبوں
کے بارے میں اسرار کے بہت سے پردے چھٹ چکے ہیں پھر بھی ہندوستان کے
جنوب میں آبادغیر آریائی نسلوں (کول ،منڈا،بھیل اور دراوڈ)جہاں کے قدیم ترین
باشندوں کی نشانیاں ہیں ،کالے ،پست قد مگر ذہین اور محنتی اور اپنے وجود کے
بارے حساس کم وبیش ماہرین کا اتفاق ہے کہ آریا مختلف وقفوں میں،مختلف ٹولیوں
میں اور مختلف راستوں سے ہندوستان میں اس طرح داخل ہوئے کہ وہ
نسبتا َ ََدرازقدتھے ۔ اُن میں سے زیادہ تر لوگ گھوڑسوار تھے اور اُن کے ہتھیارترقی
یافتہ تھے اس لیے انھوں نے ہندوستان کے قدیم باشندوں کو شکست دی ،مغلوب کیا
۔چراگاہوں سے تجارتی گزرگاہوں اور خوش حالی کے مراکز سے دور دھکیل دیا۔پھر
انہی فاتحین نے ایک ایسا مذہب ہندو مت تخلیق کیا جو نئے آقاؤں کو ہمیشہ کے لیے
انسانوں کے بہترین ُزمرے پر فائز کر دے۔اُن کے مطابق خدا تین تھے لیکن سب سے
بڑے بر ھما نے انہیں پیدا کیا تھا اور یہ برھما کے سر سے پیدا ہوئے یوں برھما کی
عقل اور ذہانت کے بھی وارث تھے اور اس عقیدے کے تحت تمام انسانوں پر حکومت
کرنے کا حق رکھ تے تھے ۔البتہ اس سر زمین کے جن بہادر لوگوں نے مزاحمت کی
اور وہ پہلے سے موجود راجاؤں اور رجواڑوں کے بازؤے شمشیرزن تھے مذہب کی
تائید سے انھیں کھشتری قرار دے کر ہندوستان کا سر بکف طبقہ بنا دیا اور پھر
زمینوں پر کام کرنے والے صابروشاکر سر جھکائے گائے بھینسوں ،بکریوں اور
بیلوں جیسے محنتی کسانوں کوویش کا درجہ دیاکہ یہ برھما کے پیٹ سے پیدا ہوئے
اور ان کا مقدر ہے کہ ان کو محنت کا اجر ملے یا نہ ملے یہ انسانوں کے لیے اناج
اُگاتے رہیں،موسموں کی سختیاں برداشت کرتے رہیں پھر جو لوگ کاشت کارتھے
،ہنر مندتھے ،جوتے بناتے تھے ،کپڑابُنتے تھے ،لوہار تھے اور معاشرے کے لیے
اور آقاؤں کے لیے مفید کا م کرسکتے تھے اور اپنی اوقات سے باہر نہیں آسکتے
تھے اپنے آقاؤں کے مندروں میں داخل نہیں ہو سکتے تھے اُن کے کنوؤں سے پانی
نہیں نکال سکتے تھے۔ ان کی رسوئی میں قدم نہیں دھر سکتے تھے وہ شودر کہالئے
،ملیچھ اور دَلت بنے ظاہر ہے کہ اس عقیدے کو طاقت اور مذہب کے خوف سے
داخلی تضادات پر پھیال کر سماج کو ایک خاص طرح سے تشکیل دینے کی کوشش
کی گئی مگر اسی سما ج میں نیپال کی ریاست ’’کاپل وستو‘‘ میں ایک شہزادہ ایسا
پیدا ہو گیا جس نے دکھوں اور بے وفائیوں کے درد کو انسانیت کا درد بنا دیا اور اس
کے ماننے والوں کی ایک بڑی جماعت پیدا ہوگئی مگر اس بڑی جماعت کے بُدھ مت
کو اور بعد میں جین مت کو یا تو ہندومت نے اپنی ہی ترمیم شدہ شکلیں قرار دیا یا ان
مذاہب کوہی نگلنے کی کوشش کی یا انہیں ہندوستان کی سرحدوں سے با ہردھکیلنے
کی کو شش کی۔ اپنے عقیدے کے اعتبار سے بُدھ مت کے ماننے والے صلح کل تھے
وہ ہندوؤں کی ایسی کو ششوں سے آزردہ یا دل برداشتہ تو ہوئے ہوں گے مگر ان کے
مقابل صف آراء نہ ہوئے اُن کی اس آزردگی نے کہیں کہیں ابتدائی مسلمان فاتحین کی
فتوحات کا وسیلہ بننے میں مددکی ۔
اس حوالے سے فتح محمد ملک لکھتے ہیں ۔
ہندومت نے اپنے ماننے والوں کو سمندر یا ترا سے منع کیا تھا اس لیے
اعلی تعلیم کے لیے گئے توٰ انیسویں صدی میں برہمن زادے انگلستان یا پیرس میں
مختلف خاندانوں کی طرف سے پرائچشت یاکفارے کی رسمیں ادا ہوئیں اور ان کی
واپسی پر پھر انہیں واوتر بنا کر دھرم میں داخلے کا تاوان وصول کیا گیا اس تناظر
میں صرف یہ عرض کرنا چاہتی ہوں کہ ہندوستان اتناوسیع خطہ تھااور یہاں سب سے
بڑے مذہب کے ماننے والے لوگوں نے بڑے بڑے حکمران پیدا کیے جیسے اشوک
،چندرگپت،موریا مگر اپنے عقیدے کے اعتبار سے انہوں نے اپنی سرحدوں سے باہر
نکل کر دوسرے ممالک پر حملہ نہ کیا یا حملے کا خطرہ مول نہ لیا البتہ اندرونی
طور پر اپنی خوشحالی اور استحکام کی خاطر تجارت پیداوار راستوں اور امن وامان
پر توجہ دیتے رہے عرب بے شک خود کو بولنے واالاور باقی دُنیاکو گونگا یاعجم
کہیں تا ہم اسالم سے پہلے اُن کی شہرت قبائلی معاشرے میں مرکزیت سے محروم
ایسے افراد کی تھی جو تجارت کے لیے ،مہم جوئی کے لیے ،لوٹ مار کے لیے ،
گرم مصالحے اور عورتوں کی اشتہا میں دنیا میں اور خاص طورہندوستان جیسے
پُراسرار خطے تک پہنچ جاتے تھے۔
قبل از اسالم عہد دور جاہلیت کہالتا ہے اس عہد کا ادب اس تہذیب کا عکا س
ہے ۔ عربی ادب کی ت خلیق قبائلی سما ج سے ہو چکی تھی اور اس کا معتدبہ حصہ
شاعری پر مشتمل تھا ۔چونکہ اس دور کو جاہلیت کا دور کہا جا تا ہے اس لیے ازخود
یہ فرض کر لیا گیا کہ اس وقت قتل وغارت اور اخالقی برائیوں کے سوا کچھ نہ تھا
بعض احباب کی رائے ہے کہ اس عہد میں جو ادب تخلیق ہوا وہ بھی بعیداز حقیقت ہے
اور بعدازاں اس عہد سے موسوم کیا گیا ہے ۔اس کی وجہ غالبا َ ََ یہ ہے کہ اتنی
صدیاں گزرنے کے بعد کسی ادب کا اپنی حقیقی صورت میں بر قرار رہنا کسی
معجزے سے کم نہیں اس بناء پر اس کے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں ہوتی رہیں
طہ حسین کیونکہ عقل ان قیاس آرائیوں کو کسی حد تک تسلیم کرتی ہے ۔ڈاکٹر ٰ
(م ۱۸۹۳ء)مشہور ادیب نقاد اور انشا پر داز جس نے عربی ادب کی تحقیق و تنقید کے
حوالے سے بہت کام کیا ۔اس نے بھی کچھ اسی قسم کی رائے کا اظہار کیا لیکن اس
پر اس شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا اس لیے اُسے اپنی رائے میں ترمیم کرنا پڑی۔
زمانہ جاہلیت میں تخلیق ہونے والی شاعری تا ثیر سے بھر پور تھی اپنے
اشعار سے شعراء اس دور کے لوگوں کی بہت سی پریشانیاں دور کر دیتے تھے
مبالغہ آرائی کے ساتھ ساتھ اشعار میں پیش کیا جانے واال پیغام مبنی بر حقیقت ہوتا تھا
۔موالنا حالی مقدمہ شعر و شاعری میں ان اشعار کی تاثیر کے حوالے سے لکھتے
ہیں
زمانہ جاہلیت میں اشعار کی تاثیرمیں وہ جادو تھا کہ ناممکن ممکن ہو جا تا تھا
۔شعراء اپنے اشعار میں جس کی تعریف کرتے اس کی اتنی شہر ت ہو جاتی کہ اس
کے تمام مسائل دنوں میں حل ہو جاتے ۔
’’عرب کا مشہور شاعر میمون بن قیس جس کو نا بینا
اعشی کہتے تھے اس کے کالم میں یہ ٰ ہونے کے سبب
تاثیر ضرب المثل تھی کہ جس کی مدح کرتا ہے وہ
عزیز و نیک نا م اور جس کی ہجو کر تا ہے وہ ذلیل
ورسوا ہو جاتا ہے ایک بار ایک عورت اس کے پاس
آئی اور یہ کہا کہ میری لڑکیاں بہت ہیں اور کہیں ان کو
بَر نہیں ملتا اگر تو چاہے تو لوگوں کو شعر کے ذریعہ
اعشی
ٰ سے ہمارے خاندان کی طرف متوجہ کر سکتا ہے
نے اس کی لڑکیوں کے حسن و جمال اور خصائل
پسندیدہ کی تعریف میں ایک قصیدہ لکھا جس کی بدولت
ان لڑکیوں کی صورت اور سیر ت کا چرچا تمام ملک
میں پھیل گیا اور چاروں طرف سے ان کے پیغام آنے
لگے یہاں تک کہ امراء نے بھاری بھاری مہر مقرر کر
کے ان سے شادیاں کرلیں لڑکیوں کی ماں جب کوئی
لڑکی بیاہی جا تی تھی ایک اونٹ بطور شکریہ کے
اعشی کے واسطے ہدیہ بھیج دیتی تھی‘‘۔()۴
ٰ
زمانہ جاہلیت میں شعرا کی بہت عزت افزائی کی جاتی تھی شاعر کو اپنے
قبیلہ کے لیے باعث فخر سمجھا جاتا تھا اور اس قبیلہ کو مبارک باد دی جاتی جس کا
کوئی فر د شاعری میں ممتاز ہوتا کیونکہ اسے اپنے نسب کی حفاظت کرنے واال
سمجھا جاتا تھا۔
زمانہ جاہلیت میں کافی زیادہ تعدا د میں شعراء موجود تھے اور ان کا کالم بھی
اپنے عہد میں ایک خاص مقام رکھتا تھا۔زمانہ جاہلیت کی شاعری سے متعلق کچھ
شکوک اس بنا ء پر پائے جاتے ہیں کہ شاعری کی تدوین دوسری صدی ہجری سے
قبل تک نہیں ہوئی تھی ۔
بہر حال زمانہ جاہلیت کی شاعری کا سب سے زیادہ مستند اور معتمد نمونہ وہ
’’معلقات ‘‘ہیں جس کے متعلق تما م مور خین متفق ہیں کہ یہ اہل عرب کے منتخب و
پسندیدہ قصائد تھے جنہیں آب زر سے لکھوا کر خانہ کعبہ پر لٹکا دیا جاتا تھا اس دور
میں مکہ مکرمہ کے قریب ایک جگہ تھی عکاظ ،جہاں ایک میلہ لگتا تھا اوراسواق
العرب کے نام سے تجارتی منڈیاں لگتی تھیں ۔
ان معلقات میں سات شعراء کا کالم تھا جو خانہ کعبہ پر آویزاں کیا گیا تھا س
سلمی ،طرفہ
ٰ لیے اسے سبع معلقات کہا جاتا ہے ان شعراء میں امرؤالقیس ْ
،زہیربن ابی
بن العبد ،لبیدبن ربیعہ ،عنترہ بن شداد ،عمر و بن کلثوم اور حارث بن حلزہ ہیں ان کے
متعلق لوگوں کی مختلف آراء ہیں لیکن یہ شعری تراکیب اور تخیل و بند ش کے لحاظ
سے اپنی مثال آپ ہیں گوکہ موضوعات میں عامیانہ پن اور ابتذال نمایا ں ہے لیکن
پھر بھی زمانہ جاہلیت کی شاعری کی پہچان ہیں ۔
کسی زبان کے شعراء و مصنفین کا وہ نادر مجموعہ کالم جس میں اْن کے
جذبات واحساسات کی عکاسی دل نشیں انداز میں کی گئی ہو وہ اس زبان کا ادب
کہالتا ہے ۔ ادب کسی بھی معاشرے کا آئینہ ہو تاہے جس میں اْس دور کی تہذیب
سانس لیتی ہوئی دکھائی دیتی ہے ۔
اس تناظر سے دیکھا جائے توعربی زبان کا ادب دْنیا کی تمام زبانوں کے ادب
سے زیادہ ماال مال ہے کیونکہ اس کا آغاز اس دْنیا میں تمدن انسان کی پیدائش سے ہو
تا ہے اور مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق انتہاء عربی تہذیب و تمدن کے مٹنے پر
ہو گی۔ کیونکہ قرآ ن مجید تاقیامت اس کائنات میں بحفاظت رہے گا ۔زمانے کے
سردوگرم کے باوجود یہ زبان اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہے ۔ گویا یہ
ایک سمند ر ہے جو تمام زبانوں کو اپنے اندرجذب کرنے کی صالحیت رکھتی ہے ۔
سر زمین عرب اہل اسالم کے لیے ابتدا ہی سے الئق تعظیم رہی ہے اور رہے
گی کیونکہ یہ انبیاء کی سر زمین ہے جو انسانیت کو راہ ہدایت دکھانے کے لیے
آئے۔اُن کے فیوض و بر کا ت کی بدولت اس خطے کے حدود اربعہ اور خصوصا ً سر
سلم ہے ۔
زمین حجاز کی اہمیت اپنی جگہ ُم ّ
رشتے ناتے ،تعلقات سب باہمی میل جول کی بدولت پروان چڑھتے ہیں اگر
روابط ٹوٹ جائیں تو رشتوں کی ڈور بھی ٹوٹ جاتی ہے ۔ کہنے سننے کو کچھ باقی
نہیں رہتا ۔انسان عرب ی زبان کا لفظ ہے جس کے معانی ہیں محبت رکھنے واال انسا ن
کبھی اکیال نہیں رہتا ۔ وہ محبت کا پْتال ہو تاہے ،وہ کاروبار لین دین اور سیرو سیاحت
غرض کہ ہر کام میں باہمی تعاون کا خواہاں ہو تا ہے ۔یہ باتیں انسان خود نہیں سیکھتا
بلکہ معاشرہ اْسے یہ آداب سکھاتا ہے ۔
َََ اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ وہ زمانہ جسے ہم دور جاہلیت کہتے ہیں اس
میں انسانی تہذیب کس دور ا ہے پر تھی ؟دنیا کی دیگر اقوام کے ساتھ اس کے تعلقات
کس نوعیت کے تھے ؟کیا اْن تعلقات کی اساس سیاحت تجارت یا مذہب تھی ؟
عموما َ ََتاریخ کا سرسری مطالعہ کرنے والوں نے یہ نتیجہ اخذکیا ہے کہ سر زمین
حجاز سے اہل ہند کا رشتہ دین اسالم کی مرہون منت ہے ۔
دعوی ہے کہ ہند وستان سے اْن کا تعلق ہزاروں برس پْرانا ہےآریا قوم کا ٰ
ْ لیکن اہل عرب کا ٰ
دعوی ہے کہ ان کا تعلق ہندوستان سے چند ہزار برس پْرانا نہیں
بلکہ ہندوستان ان کا پدری وطن ہے ۔
میر آزاد بلگر امی نے ’’سحبۃ المرجان فی آثار ہندوستان ‘‘ میں کئی صفحے
ہندوستان کے فضائل کے بیان کے نذر کیے ہیں اور اس میں یہاں تک کہاہے کہ جب
آدم ؑ سب سے پہلے ہندوستان اْترے اور یہاں ان پر وحی آئی تو یہ سمجھنا چاہیے کہ
یہی وہ ملک ہے جہاں خدا کی پہلی وحی نازل ہوئی اور چونکہ نور محمدی حضرت
آدم ؑ کی پیشانی میں امانت تھا اس سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ محمد رسول ﷺ کا ابتدائی
ظہور اسی سرزمین میں ہوا ۔اسی لیے آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے ہندوستان کی طرف
سے ر بانی خوشبو آتی ہے۔()۸
حضرت آدم ؑ کے ورود ارض کے واقعے کو مختلف مفسرین نے بیان کیا ہے
چنانچہ عالمہ ابن کثیر دمشقی کا بیان بھی اس حوالے سے ہے۔
’’اور ابن آدم ہند میں اُترے ان کے ساتھ سنگ اسود اور
ایک ُمٹھاجنت کے پتوں کا پھر پھیالدیااس کو ہندو ستان
میں ‘‘۔ ()۱۰
ابو القاسم فرشتہ نے حضرت آدم ؑ کے ساتھ آدم ثانی حضرت نوح ؑ کی نسل کا
بھی ورود ہندوستان کا واقعہ مختلف انداز میں بیان کیا ہے اس سے یہ بھی ثابت ہوتا
ہے کہ ہندوستان کو ہند کا نام بھی اہل عرب نے دیا تھا اور ہند کا لفظ عربوں میں بہت
پہلے مستعمل تھا ۔
ابو القاسم فرشتہ نے ہند وستان کے بارے میں تفصیالت بیان کرتے ہوئے
لکھاہے ۔
اس سے یہ اہم بات سامنے آتی ہے کہ سندھ اور ہند دو الگ الگ ملک تھے جو
بتدریج ایک ہو گئے دوسری اہم بات کہ عرب وہند کے تعلقات اتنے قدیم اور گہرے
تھے جتنی یہ ُکرہ ارض۔
عموما َ ََیہ خیال کیا جاتا ہے کہ دریائے سند ھ کی وجہ سے اس عالقے کو
سندھ کہاگیالیکن یہ سوال اپنی جگہ بر قرارہے کہ دریا کا یہ نا م کس وجہ سے رکھا
گیا اس سب کے باوجود تاریخی کتب سے یہ با ت ظاہر ہے ۔
عرب سیاحوں اور تاجروں کی ہندوستان آمد سب سے پہلے مختلف سواحل پر
ہوئی کیونکہ بری راستے نہ ہونے کے برابر تھے ٰلہذ اآمدورفت بحری ر استوں سے
ہوتی تھی ۔
متمدن قوموں کا یہ ازل سے دستور رہا ہے کہ وہ کسی ایک خطے میں قلعہ
بند ہو کر نہیں رہ سکتیں ۔وہ اپنے اردگردکے عالقوں اور ممالک سے کسی نہ کسی
طور رابطے میں رہتی ہیں ،یہ روابط تجارت کی بدولت مزید پروان چڑھے اوریہ
تاجرہندوستان کے مشرقی سواحل تک پہنچ گئے ۔
زبان کے حوالے سے ایک اہم بات یہ ہے کہ کوئی بھی انسان اپنی زبان سے
ہٹ کر دوسری زبان اسی وقت سیکھتا ہے جب اْسے ضرورت پیش آتی ہے کیونکہ
بنیادی حیثیت تو مادری زبا ن اور قومی زبان کی ہوتی ہے لیکن عربی زبان اس لحاظ
مستثنی ہے کیونکہ مذہبی نقطہ نظر سے یہ ہمارے لیے ٰ سے اس صورتحال سے
ہمیشہ سے قابل احترام رہی ہے ۔عربی زبان کی قدامت کا حتمی اندازہ لگانا شاید محقق
کے لیے ممکن نہیں بہر حال یہ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ جاہلی شاعری کاخاتمہ
۱۱۰ء میں آنحضرت ﷺ کی بعثت اور ظہورا سالم کے ساتھ ہو جاتا ہے عربی زبان
ایک مدت تک تو جزیر ہ عرب تک ہی محدود رہی لیکن اس کو ہمہ گیریت اس وقت
حاصل ہوئی جب اسالم کا ظہور ہوا اور قرآن پاک کا نزول عربی زبان میں ہونے لگا
ابتدا میں اسالم جزیر ہ عرب تک ہی رہا لیکن جب فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا
توعرب مسلمان مختلف ممالک میں گئے اور ان کے ساتھ ان کی عربی زبان بھی گئی
۔بعض ممالک ایسے بھی تھے جہاں عربوں کاتسلط قائم ہوا اس طر ح وہاں عربی
زبان رواج پاگئی اور بہت سے ممالک میں عربی بولی اور سمجھی جانے لگی اور
یوں یہ ان ممالک کی زبان قرار پائی ۔
عربی زبان کی ساخت اور طرح کی ہے اور ہندی زبانوں کی اور طرح ہے
پھر کیا وجہ ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کا رشتہ عربی زبان سے جْ ڑا رہا ؟
اْردو اور عربی میں کیا باہمی مناسبت ہے اس میں کسی کو کالم نہیں ہو سکتا
کہ اْردوآریائی زبان ہے اور عربی سامی زبان یہ صر فی زبان ہے اور وہ غیر صرفی
زبان ۔دونوں میں نہ صرفی یگانگی اور ہم آہنگی ہے نہ نحوی اور لسانیاتی ۔اْردوکی
طبعی ساخت عربی کی ساخت سے مختلف ہے نواب حیدر یار جنگ کی رائے تسلیم
کی مستحق ہے ۔انہوں نے فرمایا:
انسان فطرتا َ ََ اختراع پسنداور حریص ثابت ہوا ہے کہ نئی دنیا کی تالش اور
اس پر اپنا قبضہ مسلط کرنا در ہ خیبر سے آنے والے مسلمان ترکوں اور افغانوں کی
سر شت میں شامل تھا محمود غزنوی نے الہور ۴۱۱ھ میں فتح کر لیا لیکن سینکڑوں
سال گزرنے کے بعد بھی جنوبی ہندوستان مسلمانوں کے قبضے میں نہ آسکا ۔
محمد بن قاسم کی آمد (۹۱۱ء)سے بہت پہلے عرب سیاح ہندوستا ن آتے تھے
کیونکہ وہ اس خطے سے ایک خاص اْنسیت محسوس کرتے تھے ۔
اہل عرب اور اہل ہند کے درمیان تعلقات کا ایک اور ذریعہ بھی تھا۔ ’’اس کی
صورت یہ تھی کہ شہنشاہ ایران کا قبضہ بلوچستا ن اور سندھ پر اکثر رہا اس قبضہ
کے تعلق سے سندھ کے بعض جنگجوقبیلوں میں سے دوکا ذکر عربوں نے کیا اور وہ
سید ہیں ۔یہ دونوں سندھ کی مشہور قومیں تھیں ۔
جات (زط)اور ّ
ہندوستان کو ہند کا نام بھی اہل عرب اور اہل فارس نے دیا ۔اس سے پہلے اس
پور ے ملک کا کوئی نام نہ تھا ہر صوبہ کا الگ الگ نا م تھا۔
اسالم کے بعد پہلی بڑی یلغار محمد بن قاسم کی سندھ میں آمد تھی اس سے ۱۔
عرب وہند کے تعلقات کو بہت فروغ مال محمد بن قاسم کی ہندوستان آمد کا خاص
مقصد تھا ۔
محمد بن قاسم کے بعد مختلف عرب گورنر سندھ آتے رہے اور فتوحات کا
سلسلہ جا ری رکھا ۔ جب عراق عرب سلطنت کا صوبہ قرار پایا تو حکومت کا مرکز
دمشق کی بجائے بغداد چالگیا ۔اس انقالب نے ہندوستان اور عرب کے فاصلوں کو
مزید کم کر دیا ۔
"سنہ ۹۶۸ء میں ہشام سندھ کا گورنر ہوکر آیا ۔اس نے
عمر بن جمل نام ایک افسر کو جہازوں کا ایک بیڑا دے
کر گجرات بھیجا ۔وہ لوٹ مار کر چند روز میں ناکام
واپس آگیا اور آخر ہشام نے خود ایک بیڑا لے کر
بھروچ کے قریب گندھار پر قبضہ کیا ۔اور یہاں اس نے
اپنی فتح کی یادگا ر میں ایک مسجد بنوائی یہ اس ملک
گجرات میں اسالم کا پہال قدم تھا اور سندھ کے عالوہ
ہندوستان میں یہ پہلی مسجد تھی " ()۱۶
اسالم کے بعد عرب وہند کے تعلقات میں ایک خاص گہرائی پیدا ہوگئی جوان
کو ایک دوسرے کے قریب الئی ۔اس کی وجہ ان کا مرکز ایک تھا ۔سر زمین حجاز
سے اہل ہند کے عشق کی وجہ روضہ رسول ﷺاور خانہ خدا تھا جو کہ تا قیامت رہے
گا ۔اہل عرب کی زبان عربی کو سب سے اہم سمجھنے کی وجہ قرآن پاک کا عربی
زبان میں نزول ہے ۔
سیاحت بھی در حقیقت ایک طرح سے سفار ت کاری تھی ۔عرب سیاح قافلوں
کی صورت میں جاتے تھے اور اپنے ممالک کو تجارت کے بارے میں معلومات
دیتے تھے ۔
۹،۱اور ۸صدی عیسوی میں بہت سے عرب سیاحوں نے ہندوستان کا سفر کیا
اور اپنے سفر ناموں میں ان کا ذکر بہت تفصیل سے کیا ہے ان سفر ناموں سے عرب
وہند کے تعلقات کی گہرائی کا اندازہ ہوتا ہے ۔ یہ سیاح جغرافیہ نویس اور مورخ بھی
تھے ۔سیاحوں نے عرب و ہند کے تعلقات کو فروغ دینے میں ایک پل کا کردار ادا کیا
۔
’’ ابن خردار بہ نوی صدی کا ایک ایسا ہی عرب سیاح اور جغرافیہ نویس ہے
جس نے عربی زبان میں سب سے پہلی کتاب لکھی جس میں ہندوستان کا ذکر بھی ملتا
ہے ۔
ہندوستان کے لیے اہل عرب ایک خاص کشش محسوس کرتے تھے اسی
تجسس کی بنا پر وہ وقتا َ ََ فوقتا َ ََ ہندوستانی ساحل کا چکر لگاتے رہتے تھے ۔
ہندوستان کی تہذیب و ثقافت اور ماحول اہل عرب کے لیے مقناطیسیت رکھتا
تھا ۔لہذا وہ ہندوستانی سواحل کی طرف کھنچے چلے آتے تھے حاالنکہ اْن کے پیش
نظر جو مقصد ہو تا تھا وہ محض سیاحت ہی تھا لیکن ان کے سفر ناموں میں اہل
عرب جب ہندوستان کی معاشرت کو دیکھتے ہیں تو وہ بالکل ایک الگ تہذیب سے
شناسا ہوتے ہیں جو اْن کیلئے انوکھی ہونے کے ساتھ ساتھ دلچسپ بھی ہے اور وہ
اپنی اس دریافت پر فخر محسوس کرتے ہیں ۔
"سیراف خلیج فارس کی مشہور بندرگاہ تھی ابو زید یہیں کارہنے واال تھا ۔
۱۱۴ھ کا سنہ اس کی کتاب میں ملتا ہے اور مسعودی سیاح سنہ ۳۰۰ھ میں سیراف
میں اس سے مال تھا ۔یہ بھی ایک عرب تاجر تھا ۔اس نے سلیمان تاجر کے سفرنامہ کو
پڑھ کر اس کے ۱۶،۳۰برس کے بعد اس کا تکملہ لکھا ہے ۔وہ بھی سیراف اور
ہندوستان اور چین کے درمیان دریائی تجارتی سفر کیا کرتا تھا۔اس نے دعو ٰ ی کیا ہے
کہ
اس سیاح کو یہ دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ یہاں دو آدمی بھی ایک ساتھ مل کر
نہیں کھاتے اور نہ ایک دستر خوان پر کھاتے ہیں اور اس کو برا عیب سمجھتے ہیں
۔راجاؤں اور امیروں کے یہاں یہ دستور ہے کہ ناریل کی چھا ل کا تھالی سا کوئی
برتن روز بنتا ہے اور وہ ہر ایک کے سامنے رکھا جاتا ہے ۔کھانے کے بعد جھوٹا کھا
نا مع اس چھال کی تھالی کے پھینک دیا جا تا ہے۔()۱۱
ابتداء میں تمام عرب سیاح سمندر کے راستے ہندوستان ساحل تک کا سفر کرتے تھے
کیونکہ خشکی کے راستے سفر خاصا دشوار اور طویل ہوتا تھا لیکن ایک عرب سیاح
ایسا ہے جو خشکی کے راستے ہندوستان میں داخل ہوا
بعض عرب جہازراں ایسے بھی تھے جو جہاز رانی کے ساتھ ساتھ سیاحت کا
شوق بھی رکھتے تھے ۔ ایسا ہی ایک سیاح ہندوستان کے ساحلوں اور جزیروں پر
اپنے جہاز لے کر آتا تھا ۔
یہ کتاب ۱۱۱۱ء میں لندن میں چھپی ہے اس کا فرنچ ترجمہ تو اسی کے ساتھ
شائع ہوا ہے ۔مگر انگریزی فروری 6791ء میں چھپ کر نکال ہے ۔
مسعودی نے اپنی کتاب’’مروج الذھب ‘‘سنہ ۳۳۱ھ میں سیرو سیاحت ختم
کرنے کے بعد لکھی ہے یہ گویا اسالم کی تاریخ ہے مگر اس کے مقدمہ میں تمام دْنیا
کی قوموں کی اجمالی تاریخ ہے منجملہ اس کے ہندستان بھی ہے اس نے دریاؤں کے
حاالت بہت مفصل لکھے ہیں ۔ملتان سنہ ۳۰۰ھ کے بعد اپنا پہنچنا وہ ظاہر کر تا ہے
اوروہاں کے مسلمان عرب بادشاہ اور وزراء کے نام بتاتا ہے ۔
بعض سیاح ایسے بھی تھے جنہوں نے سیاحت کے ساتھ ساتھ دْنیا کے نقشے
بھی تیار کیے تاکہ کسی بھی ملک میں جانا مشکل نہ ہو ایسے ہی ایک سیاح کا نام
اصطخری ہے۔
بعض تاجر ایسے بھی تھے جو تجارت کے ساتھ ساتھ سیاحت میں بھی دلچسپی
رکھتے تھے اورمختلف ممالک کے جغرافیائی حاالت سے باخبر رہنے کے لیے نقشہ
نویسی میں بھی دلچسپی رکھتے تھے ۔ ابن حوقل ایسا ہی ایک تاجر تھا ۔
’’یہ بغداد کا ایک تاجر تھا ۔سنہ ۳۳۱ھ مطابق سنہ
۸۴۳ء کو اس نے بغداد چھوڑا اور یورپ ،افریقہ اور
ایشیا کے ملکوں کا سفر کیا اسپین اورسسلی سے لے کر
ہندوستان تک کی زمین اس نے چھان ماری ۔اس نے
بھی ملکوں کے نقشے تیار کئے مگر افسوس ہے کہ اس
کے مطبوعہ نسخہ میں یہ نقشے نہیں دیئے ہیں ۔یہ پہال
عرب سیاح اور جغرافیہ نویس ہے جس کی کتاب میں
ہندوستان کی پوری لمبائی چوڑائی بتانے کی کوشش کی
گئی ہے‘‘۔
سیاحت کے ساتھ ساتھ ایک خاص لسانی اور تہذیبی شعور کا ہونا بہت
ضروری ہے ۔ یہ شعور ہی کچھ خاص قسم کی تخلیق کا باعث بنتا ہے
ہندوستان میں جن دو عرب سیاحوں کو بے مثال شہر ت ملی اور انہوں نے
اپنے مشاہدات کو بال امتیاز جس انداز سے قلمبند کیا وہ قابل تحسین ہے ۔البیرونی
۴۰۰ھ اور ابن بطوطہ ۹۹۸ھ کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔
’’البیرونی جو اصل میں خوارزم کا رہنے وال تھا وہ
جب ہندوستان آیا تو محمود غزنوی کے حملے غالبا َ ََ
شروع نہیں ہوئے تھے۔ مگر اس نے اپنی کتاب محمود
کے دو برس بعد لکھی ہے اس نے کتا ب الہند کے
عالوہ اور بہت سی کتابیں لکھی ہیں ۔ جن میں سے
قانون مسعودی خاص ذکر کے قابل ہے جواب تک چھپی
نہیں ۔اس میں ہندوستان کے بہت سے شہروں کے نام
لکھے ہیں اور ان کا طول بلد اور عرض بلد مقرر کیا
ہے‘‘۔
ابن ندیم کا اصلی نام محمد بن اسحاق بن ابی یعقوب الندیم تھا لیکن ابن ندیم کے
نام سے مشہور ہے وطن بغداد تھا یہ کتابوں کی نقل و ترتیب و تصحیح اورفروخت
کاکام کرتاتھااس نے اپنی مشہور تصنیف "الفہرست ۳۹۹ھ مطابق ۸۱۹ء میں
لکھی ۔ہندوستانی علوم و فنون کی کتابوں اور یہاں کے مذاہب کا بھی اس میں تذکرہ
ہے بلکہ یہ ہندوستانی مذاہب کے بارے میں نہایت قدیم اور مستند ماخذ ہے۔وفات۸۸۶ء
کے بعد ہوئی ۔
نام عبدالقاہر (وفات ۱۰۳۹ء)کنیت ابو منصور ،باپ کا نام طاہراور وطن بغداد
تھا ،مختلف علوم وفنون خصوصا َ ََ حساب وفرائض میں پوری مہارت تھی ،تصنیف
وتالیف کی طرح درس و تدریس میں بھی منہمک رہتے ۔مالدار اور ذی ثروت بھی
تھے لیکن سارا مال و دولت علم اور علماء کے لیے وقف رہتا ،اسالمی فرقوں کی
تاریخ کے متعلق اْن کی ایک کتاب ’’الفرق بین الفرق‘‘موجود ہے ۔ اس میں اسالم کے
ایک عقل پر ست فرقہ معتز لہ کا تذکرہ کرتے ہوئے ضمنا َ ََ چند سطریں ہندوستان
کے سمنی فرقہ کے متعلق بھی تحریر کی گئی ہیں ۔
تحائف دینے اور لینے سے محبت بڑھتی ہے اور رشتوں میں قربت کا احساس
فروغ پاتا ہے ۔عرب حکمران ہندوستان کے حکمرانوں سے دوستی استوار کرنے کے
لیے ان کے ساتھ تحائف کا تبادلہ کرتے تھے حاالنکہ اس زمانے میں ذرائع آمدورفت
بھی سْست تھے دنوں کا سفر مہینوں میں طے ہوتا تھا لیکن پھر بھی رابطے بحال
رہے ۔
شریف االدر یسی ۴۸۳ھ میں صقلیہ میں پیدا ہوا ۔علم جغرافیہ کی تاریخ میں
اس کا نام ہمیشہ زریں حروف سے لکھا جائے گا۔افریقہ کے شاہی خاندان ادریسی کا
علی سےچشم و چراغ تھا ۔ جس کا سلسلہء نسب تیرہویں چودہویں پشت میں حضرت ؓ
مل جاتا ہے ۔بچپن ہی میں حصول تعلیم کے لیے ْقرطبہ چال گیا ۔جہاں اْس نے علم و
فن کی تکمیل کی ۔کچھ دنوں کے بعد جب اْس کے علم و فضل کا چرچا ہوا تو صقلیہ
کے عیسائی حکمران راجر دوم نے اسے صقلیہ طلب کیا ۔راجر نے اس کے علم فضل
سے فائدہ اْٹھانے کے لیے اْس سے زمین کاایک مکمل کرہّ تیار کرنے کی فرمائش کی
اور اس کام کے لیے اس نے چار الکھ درہم کی نقرئی اینٹ اس کے حوالے کر دی
۔ادریسی نے چاندی پگھال کر اس سے زمین کا ایک عظیم الشان ُک ّرہ تیا ر کیا ۔ وہ چند
صاحب علم جغرافیہ دان اور با کمال مصوروں کی جماعت کے ساتھ دْنیا کی سیاحت
کے لیے روانہ ہوا ،یہ سفراس نے تقریبا َ ََ پندرہ برس میں ختم کیا ۔واپسی کے بعداس
نے انہی معلومات کی بنیاد پر اپنی شہر ہ آفاق کتاب "نزہتہ المشتاق فی اختراق اآلفاق
لکھی ۔
اس کتاب میں وہ ہندوستان کے حوالے سے لکھتا ہے ۔
ابو العباس شہاب الدین احمد بن علی قلقشندی آٹھویں صدی ہجری کا مشہور
مصنف اور فاضل ادیب ۹۶۱ھ میں مصر کے ایک گاؤں قلقشندہ میں پیدا ہوا اور اسی
نسبت سے وہ قلقشندی کہالتا ہے ۔اس کی کئی مفید اور بلندپایہ تصنیفات ہیں لیکن ان
االعشی"
ٰ سب میں اہم اور عربی زبان و ادب میں الزوال شہر ت رکھنے والی" صبح
ہے ۔اس کتاب کی پانچویں جلد میں آٹھویں صدی ہجری کے ہندوستان کی حکومت
تہذیب وتمدن اور معاشرت کے عالوہ اس کا مفصل جغرافیہ مختلف شہروں
خصوصا َ ََ دارالسلطنت دہلی اور ہندوستان کی پیداوار ،صنعت ،زراعت ،تجارت کا
جامع تذکرہ ہ ے ۔مصنف کے دو ماخذ ہیں ایک عرب سیاحوں او ر جغرافیہ نویسوں
کی کتابیں ۔دوسرے ہندوستان کے بعض اہل علم جوان ممالک تک پہنچے ان کے
بیانات ۔
میں یہاں کے متعلق نہایت حیرت انگیز خبریں سنتا اور کتابوں میں پڑھتاتھا
۔مگر چونکہ یہ ملک ہم سے بہت دورہے اس لیے اس کی اصل حقیقت نہیں معلوم
ہوتی تھی مگر جب راویوں سے اس کی تحقیقات کی تو اس کو اپنے وہم و گمان اور
تصور وخیال سے کہیں زیادہ پایا اس کے متعلق اس قدر ذکر کر دینا کافی ہے کہ یہاں
کے سمند ر سے موتی ،خشک زمینوں سے سونا ،پہاڑوں سے یا قوت والماس اور
گھاٹیوں اور وادیوں سے عود و کافور دستیاب ہوتے ہیں ۔
شہروں میں شاہی تخت و تاج ہیں اس کے جنگلی جانوروں میں ہاتھی اور
گینڈے ہیں اور اس کے لوہے میں ہندی تلواریں ہیں ۔یہاں کے لوگ حکمت ودانائی میں
مشہور اور نفسانی خواہشات پر تمام قوموں سے زیادہ قابو رکھنے والے اور اپنی
عبادتوں اور تقرب کے کاموں میں سب سے زیادہ نفس کی قربانی کرنے والے
ہیں۔()۴۱
عرب وہند کے تعلقات کو فروغ دینے میں سب سے اہم کردار سیاحوں نے
اداکیا ۔اْنہوں نے ہی داخلی و خارجی معامالت کا جائزہ لے کر سفیر کا کردار اداکرتے
ہوئے عر ب تاجروں کو اہل ہند کے ساتھ تجارت کا مشورہ دیا کیونکہ وہ اہل ہند کے
اخالق سے بہت متاثر تھے ۔
تجارتی تعلقات:
جو ممالک صحرا پر مشتمل ہوں اور سر سبزی و شادابی سے محروم ہوں تو
وہاں کے باسیوں نے ذریعہ معاش کے لیے آخر کوئی توسود مند پیشہ اختیار کرنا ہوتا
۔لہذا اہل عرب نے اپنے محل وقوع اور وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے جس پیشے ہے ٰ
کا انتخاب کیا وہ تجارت تھا
عربوں نے یہ فیصلہ بہت پہلے کر لیاتھا کہ تجارت کے لیے کون سا ملک اْن
کے لیے سب سے زیادہ منافع بخش ہے بہت سے ممالک کے ساتھ اہل عرب کے براہ
راست تعلقات تھے انہی ممالک میں سے ’’ہندوستان ‘‘بھی ایک ایسا ہی ملک ہے جس
کے ساتھ اہل عرب نے تجارتی تعلقات کا آغاز کیا ۔جب سے دْنیا میں تجارتی تعلقات کا
آغاز ہوا اہل عرب بھی اسی کاروبار میں مصروف رہے ۔
اہل عرب ہندوستان کے ساتھ تجارت کو بہت اہمیت دیتے تھے کیونکہ وہ
تھے
ْ ہندوستان کو تجارتی لحاظ سے ایک مکمل ملک سمجھتے
نویں صدی عیسوی میں ایک عرب اس کا سبب بیان کرتا ہے کہ سیراف کے
جہاز بحرا حمرہو کر مصر کیوں نہیں جاتے اور جدہ سے لوٹ کر ہندوستان کیو ں
چلے جاتے ہیں ؟
ہندوستان اہل عرب کے لیے صدیوں پہلے سے ہی ایک خاص کشش رکھتا تھا
۔وہ ہندوستان کے ساحلی مقامات اور بحر ہند کے ایک ایک جزیرہ کا جائزہ لیتے تھے
۔یورپ اور ہندوستان کا راستہ بہت اہم تھا اسی کے ذریعہ سے تاریخ میں بڑے بڑے
انقالبات ہوئے ہیں ۔
’’حضرت مسیح کے ۱سو بر س بعد جب اسالم آیا اور
عربوں نے عروج پایا تو چھٹی صدی مسیحی میں وہ
مصر سے لے کر سپین تک چھا گئے اور بحر روم کے
اہم جزیروں کو بھی انہوں نے اپنے مقبوضات میں داخل
کر لیا ۔اس کانتیجہ یہ ہوا کہ دْنیا میں تجارت اور
سوداگری کی یہ سب سے بڑی سڑک عربوں کے ہاتھ
میں آگئی اور صدیوں تک وہ اس پر قابض رہے
‘‘۔()۴۹
اہل یورپ کے لیے یہ برداشت کرنا بہت مشکل تھا کہ تمام راستوں پر اہل
عرب قابض ہو چکے تھے وہ کسی طرح ان کو یہاں سے بے دخل کرنا چاہتے تھے
ٰلہذا اس کے متبادل کوئی دوسرا راستہ پیدا کرنے کے لیے کوشاں تھے ۔
مختلف جزائر جو تجارت کا گڑھ تھے اور اہم تجارتی منڈی سمجھے جاتے
تھے انہی میں سے ایک قیس ہے ۔
ہندوستان میں بندرگاہوں کا سلسلہ بہت قدیم ہے انہی کے ذریعے اہل ہند کے
دوسرے ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات مضبوط ہوئے اور اہل عرب ہندوستان کے
ساتھ تعلقات بڑھانے میں سبقت لینا چاہتے تھے ۔
تجارتی تعلقات ایک طرح سے باہمی میل جول کی راہ بھی ہموار کر رہے
تھے اس دوران دریائی تجارتی راستے استعمال ہوتے تھے مسلمان تاجر چونکہ خود
یورپ نہیں جاتے تھے اس لیے یہودی اہل کتاب ہونے کے ناطے ان دونوں قوموں
کے درمیان اہم کر دار ادا کرتے تھے کیونکہ وہ یورپ سے یونانیوں کے زمانہ سے
واقف تھے ۔
عربوں کے اہل ہند کے ساتھ تجارتی تعلقات کا علم ہمیں عرب سیاحوں کے
ذریعے ہوتا ہے کیونکہ انہوں نے اپنے مشاہدات کو مختلف انداز سے قلمبند کیا ہے ۔
’’مسعودی جو ہندستان ۳۰۶ھ کے قریب آیا تھا اور بلخ و بخارا سے بھی
گزرا تھا ۔اس نے بحر ہند کے اْتارچڑھا ؤاور تالطم اور سکون کے زمانے مقرر کیے
ہیں اور اس حساب سے جہازات کی روانگی کے مہینے قرار دیئے ہیں ۔لکھا ہے کہ
ہمارے یہاں اور ہندوستان میں موسموں کا فرق ہے ۔ہمارے یہاں سے گرمی میں لوگ
ہندوستان سردی گزار نے جاتے ہیں کہ جون کے مہینے میں ہندوستان جہاز کم جاتے
ہیں اور جوجاتے ہیں وہ بہت ہلکے ہوتے ہیں اور ان میں زیادہ سامان نہیں الدا جاتا
‘‘۔
تعالی نے
ٰ ہندوستان قدرتی طورپر ایک زرخیز ملک واقع ہوا ہے کیونکہ اللہ
اس خطے کو ہر طرح کے موسموں سے نوازا ہے جس کی وجہ سے اہل عرب اور
اہل یورپ اس پر رشک کرتے تھے ۔اورہندکے لیے وہ ایک خاص قسم کی جاذبیت
محسوس کرتے تھے اس خطے کے موسموں اور آب و ہوا کے عالوہ وہ یہاں کی
پیداواری اشیاء سے بہت متاثر تھے اور بطور تاجران اشیاء کو اپنے ممالک میں لے
کر جاتے تھے ۔
’’مسعر بن مہلہل جو ۳۳۱ھ میں ہندوستان آیا تھا ۔وہ مدراس کے حوالے سے
لکھتا ہے ’’یہیں وہ مٹی کے برتن تیا ر ہوتے ہیں جو ہمارے ملک میں چینی کر کے
بکتے ہیں‘‘۔
’’ ہند وستان سے ایک قسم کا زہر بھی باہر جاتا تھا جس
کا نام قزوینی نے ’’بیش لکھا ہے‘‘ ابن الفقیہ ہمدانی
(۳۳۰ھ )میں لکھتا ہے کہ ہندوستان اور سندھ کو اللہ
تعالی نے یہ خصوصیت دی ہے کہ وہاں ہر قسم کی
ٰ
خوشبو ،جواہرات ،گینڈا اور ہاتھی ،ساگوان کی لکڑی
اور سیاہ مرچ پیدا ہوتی ہے ‘‘۔()۶۳
عرب میں ہندوستان کی تلواریں مشہور تھیں ہندوستان سے جانے والی خوشبو
ئیں اہل عرب میں مقبول تھیں وہ انہیں اپنے لیے خاص سوغات سمجھتے ہیں ،اہل ہند
کو اس بات پر فخر ہے کہ اْن کی خوشبو ؤں کا ذکر قرآن پاک میں ہے ۔
اس حقیقت سے مفر نہیں کہ اہل عرب اور اہل ہند کے تجارتی تعلقات بہت قدیم
۔ ہیں کے پہلے بہت سے اسالم اور
اس حوالے سے سید سلیمان ندوی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں۔
اہل عرب ہندوستان میں کاشت ہونے والے پھلوں کو بہت پسند کرتے تھے
کیونکہ یہ پھل پہلی بار ہندوستا ن سے ہی عرب میں لے جائے گئے۔
ہندوستان سے پرندے بھی عرب ممالک میں لے کر جاتے تھے جو اپنی نسل
میں نایاب تھے۔ مسعودی نے ہندوستان کے مور کی تعریف کی ہے اور لکھا ہے کہ
زندگی کچھ لینے اور کچھ دینے کا نام ہے پھر تجارت تو اسی اْصول کے تحت
کی جاتی ہے کہ اگر کسی ملک کو کچھ برآمد کیا جاتا ہے تو اس کے بدلے اس سے
درآمد بھی کیا جاتا ہے کیونکہ یک طرفہ تعلقات باآلخر جلد ہی اختتام پذیر ہو جاتے
ہیں۔ہمیشہ دوطرفہ تعلقات ہی کامیاب ہوتے ہیں ۔
اہل ہند بھی عربوں کے آنے سے خوش تھے کیونکہ اْن کی آمد اہل ہند کے
لیے بہت بڑا ذریعہ آمد ن تھی ۔اس لیے وہ ان عرب تاجروں کو ہر طرح سے خوش
کر تے تھے پر تگالی جہازران جو بسلسلہ تجارت بحر ہند میں داخل ہوئے لیکن انہیں
ہندوستان کا راستہ نہ مال یہ عرب جہازران ہی تھے جنہوں نے پرتگالیوں کو ہندوستان
تک پہنچایا ۔
عرب وہند کے علمی تعلقات میں کن شخصیات نے اہم کردار ادا کیا اس کی
تشریح مستند کتابوں سے ملتی ہے ۔ ان شخصیات میں فالسفر ،انشاپر داز ،متکلم
،مورخ اور حکیم و طبیب شامل ہیں ۔
جس تعلق کا سلسلہ علم کی لڑی میں پر وکر پروان چڑھایا جائے وہ دلوں پر
انمٹ نقوش چھوڑتا ہے اور تعلق کو لگاؤ میں بدل دیتا ہے ایسا ہی لگاؤ علم نے عرب
وہند کے درمیان پیدا گیا ۔خاندان برامکہ جوکہ عباسی دو ر خالفت میں وزارت کے اہم
فرائض سر انجام دیتا تھا اسی کی بدولت عرب وہند کے درمیان علمی تعلقات وجود
میں آئے اور انہوں نے اہل عرب کے اندر فلسفہ ،طب اور دوسری قوموں کے علوم
سیکھنے کا جذبہ پیدا کیا۔عرب وہند کے درمیان تعلقات کا آغاز تجارت کے عالوہ
دوسرے مقاصد کے لیے بھی تھا اس آمد ورفت کا سلسلہ پہلی صدی ہجری کے آخر
سے شروع ہو چکا تھا ۔
چونکہ عرب ہندوستان کی زبانوں سے نا آشنا تھے اس لیے وہ چاہتے تھے کہ
کسی طرح وہ ہندوستان کی تہذیب و ثقافت اور علم وفن کو جان لیں اس کے لیے انہوں
نے مختلف علمی کتابوں سے تراجم کرانے کا فیصلہ کیا اور اس کا آغا ز پہلی صدی
ہجری سے کیا۔ہندوستان کے ریاضی کے ماہر پنڈت نے سنسکر ت کی سدھانت کا
ترجمہ عرب ریاضی دان کی مدد سے عربی زبان میں کیا اور اس طرح عربوں پر
ہندوستان کی بیدار مغزی اور قابلیت کی دھاک بٹھا دی ۔
تراجم کے ذریعے اہل عرب کے دلوں میں ہندوستان کی جو قدر و منزلت پیدا
ہوئی اس کی نظیر ملنا مشکل ہے ۔مشہور عرب مصنف جاحظ جو کہ انشاپردا
ز،فالسفر اور متکلم تھا اس کے ہندوستان سے اچھے تعلقات تھے ۔
یعقوبی جو سیاح ،مورخ اور فاضل بھی تھا ۔وہ اہل ہند کے بارے میں اس طرح
اظہا رخیال کر تا ہے ۔
ابو زید سیرافی تیسری صدی کے آخر میں تھا ۔وہ ہندوستان کے اہل علم کے
حوالے سے کہتا ہے ۔
اہل عرب بہت فخر سے بتاتے ہیں کہ انہوں نے اسے ۸تک حسابی ہند سے
لکھنے کا طریقہ اہل ہند سے سیکھا ۔
بالغت کے اصولوں کے بارے میں اہل عرب نے ہندی کتابوں کے تراجم سے
مددلی کہ ایک مقرر کو کیسا ہونا چاہئے اور کس وقت اس کے لیے کیسی تقریر
مناسب ہے ۔ہم جو اہل عرب کی فصاحت و بالغت کے شیدائی ہیں کہ ان کے اند ر اس
خوبی کوعرب خطے کی آب وہوا کا اثر سمجھتے ہیں لیکن اگربنظر غائر دیکھا جائے
ہے۔ ہاتھ کا ہند اہل بھی میں اس تو
ہندوستان کی بہت سی کتب کا عربی میں ترجمہ کیا گیا ہے کیونکہ اہل عرب
ہندوستانی ادب سے بہت متاثر تھے ۔کتب کے تراجم ایک لحاظ سے علمی تعلقات کی
پائیداری ثابت ہوئے ۔
افسانوں اور قصوں کے متعلق ہندوستانی کتابیں یہ ہیں ۔’’کتاب کلیلہ و دمنہ
‘‘ اس کے متعلق اختالف ہے کہا جاتا ہے کہ وہ اہل ہند کی تصنیف ہے اور اس کا ذکر
دیباچہ کتاب میں بھی ہے لیکن دوسرا قول یہ ہے کہ وہ اسکا نی بادشاہوں کی تصنیف
ہے اور اہل ہند نے اسے اپنی طرف منسوب کر لیا ہے ۔
ایک روایت کے مطابق وہ اہل فارس کی تصنیف ہے اور ہندوستان والوں نے
ہے لیا کر منسوب طرف اپنی اسے
’’سند باد حکیم‘‘کی کتاب کے دونسخے ہیں ایک بڑا اور دوسرا چھوٹا اس کے بارے
میں بھی کلیلہ ودمنہ کی طرح اختالف ہے لیکن زیادہ صحیح اور قرین قیاس بات یہ
ہے کہ وہ اہل ہند کی تصنیف ہے ۔ ()۱۶
ان دونوں کتب کے عربی میں تراجم ہوئے اور انہیں بے پناہ شہر ت ملی ۔
اگر مختلف زبانوں میں ترجمے کے اعتبار سے دیکھا جائے تو پنچ تنترد ُنیا کی
مقبول ترین افسانوی کتب میں سے ہے ۔کلیلہ ود منہ کی اصل یہی کتاب ہے۔ یہ ۳۰۰
ق م سے پہلے کی تصنیف ہے۔
کلیلہ ودمنہ کے دو کردار راجادابشلیم اور بیدپا برہمن تھے ۔بیدپا ۳۰۰ق م کے
قریب ہوا ہے ۔پورس کو شکست دے کر سکندر ایک یونانی گورنر چھوڑتا گیا۔ سکندر
کے جاتے ہی رعایا نے بغاوت کر کے یونانی کو ہٹاکر دا بشلیم کو راجا بنا دیا ۔ اس
کے راج میں ایک بید پابرہمن تھا۔()۱۱
وہ مسلمان عرب فاضل جوسیاحت کے لیے نہیں درحقیقت ہندوستان کے علم و
فن کواپنے اند ر جذب کرنے آئے تھے او ر حقیقتا َ ََ وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب
بھی ہو گئے تھے ۔ان میں دونام زیادہ اہمیت کے حامل ہیں ۔
ذو ق تحسین ہی کچھ کر گزرنے کا جذبہ ابھارتا ہے اور ایسے انسا ن کے اند
ر دوسروں کے خیاالت اور مسائل جاننے کا خاص شوق ہوتا ہے اسکے اس ذوق کا
اظہار اس کی تحریروں سے بھی ہوتا ہے ۔
وہ ہندوستان کب آیااورکب تک قیام کیا اس بارے میں کوئی واضح بیان سامنے
نہیں آتا۔
اس نے کتاب الہند لکھی اہل ہند کو زیر بار کر دیاکہ اس میں ان کے پْرانے
تمدن ،خیاالت اور علوم کو پوری دنیا میں قائم رکھا ۔اس نے مسلمانوں اور ہندوؤں کے
درمیان ایک علمی سفیر کا کردار اداکیا ۔
تیسری ہندی علوم اور مسئلو ں کی چھا ن بین اور جانچ پڑتال میں ۳۔
‘‘۔()۹۰
البیرونی کسی بھی قوم کے حاالت و واقعات کو جاننے کے لیے اس قوم کی
زبان جاننا بہت ضروری سمجھتا ہے کیونکہ اس کے بغیر اس کی تاریخ کو سمجھنا نا
ممکن ہے وہ ہندوستان کے متعلق لکھتا ہے ۔
مذہبی تعلقات:
جس رشتے نے عرب وہند کو ایک لڑ ی میں سدا پروئے رکھا وہ مذہب کا
رشتہ ہے ۔
اسالم سے قبل دو رجاہلیت میں بھی دیکھیں تو بھی عرب و ہند مذہبا ً ایک
دوسرے سے قریب تر تھے اور دونوں ہی بت پرست تھے اگرچہ ان کے عقائد الگ
الگ تھے اور تہذیب و ثقافت کے مطابق ان کے بتوں میں بھی فرق تھا ۔لیکن بنیادی
مقصد ایک ہی تھا ۔یعنی ان کی پوجا کر نا اور ان کے سامنے خود کو حقیر سمجھنا
اوراپنی تمام حاجتوں کا درماں انہی کوسمجھنا ۔
’’ عرب اور ہندوالوں کے سات مشہور بت خانے ہیں جو سات ستاروں کے نام
پر بنائے گئے ہیں اْن میں سے بعض میں بْت تھے مگر انہیں آتشکدوں میں تبدیل کردیا
گیا ۔اور بعض اپنی حالت پرباقی ہیں ۔آگ اوربُت کے ماننے والوں میں بڑی کشمکش
اوراختالف رہتاہے اور کبھی یہ جماعت اورکبھی وہ جماعت غالب ہو جاتی ہے ۔
جس جماعت کو غلبہ و اقتدار حاصل ہوتا ہے وہ اپنے دین و مذہب کے طریقہ
اور رواج کے مطابق عبادت خانے میں تغیّر کر دیتی ہے‘‘ ۔ ()۹۱
دنیامیں مختلف اقوام آباد تھیں لیکن ان میں خصوصی اہمیت کی حامل اقوام چار
تھیں۔
عرب وہند کے مذہبی تعلقات کے حوالے سے ایک اہم نکتہ بہت اہمیت کا حامل
ہے کہ ہندوستان آنے والے ترک،مغل اور افغان فاتحین کی تمام کارروائیوں کو اسالم
کے مطابق سمجھا جاتاہے کہ وہ یہ سب کچھ دین اسالم کے سچے ہیرو ہونے کے
ناطے کر رہے ہیں حاالنکہ حقیقت اس کے برعکس ہے کیونکہ وہ اسالم کے نمائندے
نہ تھے اور نہ انکے طرز حکومت کی بنیاد اسالمی قوانین پر مبنی تھی ۔ان میں شامل
زیادہ تر ترک افسر تومسلم غالم تھے ۔غزنوی سلطنت جس ملک میں قائم ہوئی تھی
وہاں اسالم کے قدم ابھی پوری طرح جمے نہیں تھے مغل ساتویں صدی تک کافر
سمجھے جاتے تھے کیونکہ اس دورمیں نہ اسالمی تعلیمات عام تھیں اور نہ ہی مسلم
علماء ہر گوشے میں پھیلے تھے اس لیے ان کے جنگی اصول اسالم کے منافی تھے ۔
یہ وضاحت اس لیے ضروری ہے تاکہ یہ حقیقت سامنے آسکے کہ مغل ،ترک
اور افغان فاتحین کوعرب فاتحین کے مثل نہ سمجھا جائے کیونکہ غوری قبائل تو
چوتھی صدی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے جو اصول جنگ اسالم نے سکھائے تھے
وہ اس سے کوسوں دور تھے ٰلہذا جب انہوں نے ہندوستان پر حملے کیے تو لوٹ مار
کا بازار گرم کر دیا اور اہل ہند نے کبھی انہیں دل سے قبول نہ کیا۔ عربوں نے دوران
جنگ کسی عبادت گاہ کو نقصان نہیں پہنچایا ۔کیونکہ اسالم نے دنیا کی تمام قوموں کو
چار حصوں میں تقسیم کیا تھا ۔’’()۱مسلمان )۱(،اہل کتاب)۳(،مشابہ اہل کتاب یعنی وہ
قومیں جو کسی آسمانی تعلیم کی پیروی کی مدعی تو ہیں مگر قرآن میں ان کا نام نہیں
آیاہے اس لیے ان کے اہل کتاب ہونے کا یقین نہیں مگر گمان ضرور ہے )۴(،کفار یہ
وہ قومیں ہیں جو کسی آسمانی تعلیم کی پیرو نہیں ‘‘۔()۹۶
اسالم میں ان تمام اقوام کے لیے الگ الگ قوانین ہیں لیکن یہ قوانین ایسے ہیں
کہ ان میں کسی کے ساتھ استحصال کی اجازت نہیں ۔اہم بات یہ ہے کہ جب کسی غیر
قوم میں اسالمی سلطنت قائم ہو تو یہ دیکھنا بہت ضروری ہے کہ وہ قوم ان چاروں
اقوام میں سے کس میں آتی ہے ؟اس کے مطابق اس کے ساتھ حسن سلوک کر نا
چاہیے جبر نہیں کر نا چاہئے ۔
اعلی
ٰ عرب فاتح محمد بن قاسم ۸۳ھ میں سندھ آیا تو اس نے رواداری کی
مثالیں قائم کیں ۔ہندوستان میں کثیر تعداد میں مختلف اقوام آبادتھیں اور ایک انداز ے
کے مطابق ۴۱مذہبی فرقے تھے ۔محمد بن قاسم نے کسی بھی فرقے پر مذہبی تسلط
قائم نہیں کیا ان کو ہر طرح سے مذہبی آزادی دی کیونکہ جبر کسی بھی رشتے کی
موت ہے ۔اس کے سہارے قائم ہونے والے تعلقات بہت جلد کھوکھلے ہو جاتے ہیں ۔
محمد ب ن قاسم نے اسالمی اصول جنگ کے مطابق سندھ پر حملے کیے اور
اس دوران وہاں کے بت خانوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا ۔مفتوحہ عالقے میں اپنی
الگ مسجد بنائی جب ملتان پر حملہ کیا تو وہاں کے بت خانہ کوکوئی نقصان نہیں
پہنچایا بلکہ عربوں کی تین سوسال کی حکومت میں بھی وہ صحیح سالمت رہا ۔اسی
دوران عرب سیاحوں نے پجاریوں کے اللچ اور منافقت کا عجیب قصہ سنایا ہے کہ
لوگ اپنی عقیدت میں جو کچھ چڑھا وے کے طور پر ان بتوں کی نذر کرتے ان کو
پجاری عرب تاجروں کے ہاتھ بیچ ڈالتے یہ بت خانہ تقریبا ً ۳۱۶ھ تک عرب امیروں
کے زیر حکومت اپنی اصل حالت میں برقرار رہا ۔اس میں تبدیلی اس وقت آئی جب
یہاں پر حکمران تبدیل ہو گئے اور یہ جامع مسجد میں تبدیل ہو گیا ۔
محمد بن قاسم نے قبول اسالم کے معاملے میں کسی پر کوئی جبر نہ کیا اور
باقاعدہ اعالن کر دیا جو چاہے اسالم قبول کر لے اورجو چاہے اپنے پہلے مذہب پر
ہی قائم رہے ۔ اسالمی قوانین کے مطابق جو ضروری ٹیکس تھے وہی عائد کیے ان
کے عالوہ کوئی ٹیکس نہ تھا اور ہر طرح کی مکمل مذہبی آزادی حاصل تھی ۔
عربوں کی اس رواداری سے ہندو بہت متاثر ہوئے دوسری صدی ہجری میں
جب ایک عالقے میں عرب حکومت ختم ہو گئی اور ہندو وہاں قابض ہو گئے تو انہوں
نے مسلمانوں کی مسجد کو کوئی نقصان نہ پہنچایا اور مسلمان وہاں نماز پڑھتے رہے
اور جمعہ میں حسب دستور اپنے خلیفہ کا نام لیتے رہے ۔
اہل عرب اور اہل ہند کے باہمی میل جول کی وجہ سے عربوں میں یہ تجسس
پیدا ہو اکہ وہ ہندؤوں کے مختلف مذاہب کے بارے میں واقفیت حاصل کریں اور انہوں
نے تحقیقات کا آغاز کر دیا ۔اس کے لیے انہوں نے مختلف اشخاص کو ہندوستان بھیجا
تاکہ وہ وہاں کے مذاہب کے بارے میں معلومات حاصل کریں ۔
ایک اہم چیز جس کا ذکر عرب سیاحوں نے کیا ہے وہ اپنی جان بلی دان کرنے
کا ہے کیونکہ وہ تناسخ اور آواگون پر اتنا پختہ یقین رکھتے تھے کہ آگ میں خود کو
زندہ جال دینا ان کے لیے بہت معمولی بات تھی ۔
دونوں قومیں یعنی ہندو اور مسلم شدید مذہب پرست تھے لیکن پھر بھی مذہبی
معامالت میں ایک دوسرے سے سمجھوتہ کرنے میں کس نے زیادہ قربانی دی ؟مذہب
میں اس قدر اختالف کے باوجود ان کے تعلقات میں رواداری یقینا َ ََ اس میں دونوں
کے عظمت کر دار کا دخل ہے ۔اس کا آغاز محمد بن قاسم نے کیا ۔
ہندو مذہب مختلف فرقوں میں بٹا ہوا تھا ۔ اس لیے ہر فرقہ کے عقائد میں بھی
کسی حد تک اختالف تھا ایک عرب مصنف نے تمام ہندو فرقوں کو دوحصوں میں
تقسیم کیا ہے ۔
مشہور عرب مورخ اور سیاح مسعودی (۳۳۳ھ )چین کے حال میں لکھتا ہے ۔
یہی صورتحال سندھ میں نظر آتی ہے ۔پہلی صدی ہجری (ساتویں صدی
عیسوی )کے خاتمہ پر یعنی سندھ کی فتح کے چند ہی سال کے بعد جب بنو امیہ کے
دیندار اور برگزیدہ خلیفہ عمر بن عبد العزیز نے سندھ کے لوگوں کو اسالم کا دعوت
نامہ بھیجا تو بہت سے راجاؤں نے اسالم قبول کر لیا ۔ ()۱۹
لفظ بت کو عام طور پر ایک فارسی لفظ سمجھا جاتا ہے لیکن حقیقت میں یہ
لفظ ’’بدھ ‘‘سے ’’بد‘‘اور ’’بد‘‘ سے ’’بْت ‘‘بنا ہے چونکہ بدھ کی مورتی کی پوجا
ہوتی تھی اس لیے ’’بد‘‘کے معنی ہی فارسی میں بت ہو گئے اسی لیے عربی میں اس
بت کو ’’بد ‘‘کہتے ہیں اور اس کی جمع ’’بدوہ‘‘آتی ہے۔()۱۸
عربوں کو یہ بات معلوم تھی کہ بتوں کے گاہک زیادہ تر ہندوستان میں ہیں اس
لیے اٹلی پر حملہ کے وقت وہاں سے ملنے والے مجسمے ہندوستان بھیجے گئے اور
یہاں پر فروخت ہوئے ۔
بہر حال تجارتی ،معاشرتی اور سیاسی تعلقات کی وجہ سے بغیر کسی جنگ
وجدل کے امن وسکون سے ہندوستان میں اسالم پھیلتا گیا ۔اسی دوران عربوں اور
ہندوؤں کے تعلقات اس حد تک بڑھ چکے تھے کہ وہ آپس میں مذہبی مناظر ے کرنے
لگے بلکہ بعض اوقات ہندوؤں ،بودھوں اور مسلمانوں میں دوستانہ مذہبی مناظر ے
بھی ہوتے تھے قرآن مجید جو کہ حکمت و دانش کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے جس میں
غوطہ زن ہو کر زندگی کے بہت سے رازوں سے پردے اْٹھتے چلے جاتے ہیں اور
جہالت کے بادل چھٹ کر روشنی کی قوس قز ح بکھیر دیتے ہیں۔قرآن پاک جو کہ
ہمارے لیے ضابطہ حیات ہے اس نے ہندوؤں کے دلوں میں اس چیز کی تڑپ پیدا کی
ٰلہذا وہ بھی یہ چاہنے لگے کہ اس کے ذریعے وہ دین اسالم کو سمجھیں ۔
اسالم اور عربوں کی پہلی نو آبادی سراندیپ میں قائم ہوئی اس کی تائید اس
واقعہ سے ہوتی ہے ۔
عرب تاجر اس وقت تک سے آنے جانے لگے اور یہاں رہنے لگے یہی
مسلمان عرب تاجر اور سوداگر ہیں جو موپال اور نائت کے ناموں سے ہندوستان میں
مشہور ہیں اور پر تگیزوں سے پہلے سمندر کی باگ انہی کے ہاتھوں میں تھی ۔
کولم ،کارومندل اور مختلف مراکز سے ہوتے ہوئے عربوں نے سندھ کی طرف رخ
کیاا ورپہلی صدی ہجری کے آخر میں دیبل سے ملتان تک کا عالقہ فتح کیا لیکن
حقیقت یہ ہے مسلمان اس حملے سے پہلے ہی سندھ میں آباد ہو چکے تھے ۔ محمد بن
قاسم کی فتح کے بعد تقریبا َ ََ سوا سو برس تک یہ ملک پہلے دمشق پھر بغداد کی
حکومت کا جز رہا ۔تیسری صدی ہجری (نویں صدی عیسوی )میں صورتحال مختلف
ہوگئی اور عرب گورنر وں نے کسی حد تک خود مختاری حاصل کر لی اس لیے
کہیں ہندو راجاؤں نے قبضہ کر لیا اور کہیں مسلمانوں نے اپنی ریاستیں قائم کر لیں
،محمود غزنوی کے حملہ تک سندھ میں کئی ریاستوں پر مسلمانوں کی حکومت تھی
اور یہاں بہت سے مسلمان عالم اور محدث پیدا ہوئے ۔منصورہ اور ملتان دو اہم مرکز
تھے یہاں پر مختلف عرب قبائل مختلف شہروں میں آکر آباد ہوئے ۔ملتان وہ شہر ہے
جہاں پر عربوں نے پہلی صدی ہجر ی میں قبضہ کیا اور محمود غزنوی کے حملے
تک برابر یہاں قابض رہے اس کا ذکر تیسری اور چوتھی صدی ہجر ی کے ہر عرب
سیاح نے کیا ہے سندھ کے دوسرے شہروں کے ساتھ ملتان پر بھی دمشق کے اموی
خاندان قابض رہے بعد میں جب بنوامیہ کی جگہ بنو عباس مسند خالفت پر بیٹھے تو
حکومت کا مرکز بغداد آگیا۔ شروع میں ملتان سندھ اور منصور ہ کے سا تھ تھا لیکن
بعد میں الگ ہو کر ایک خود مختار حکومت بن گیا۔ تیسری صدی ہجری میں ملتان
شیعوں کے ایک فرقہ اسماعیلیہ کا مرکز بن گیا اور بعد میں انہوں نے وہاں اپنی
حکومت قائم کر لی یہ عربی نسل کے لوگ تھے اور سامہ بن لوئی کی اوالد کہالتے
تھے ۔
’’ ۱۰ہجری کو یزید تخت خالفت پر متمکن ہوا جسے قیصری حکومت میں
حسین سے بیعت لوؓ بدل دیا گیا تھا ۔اس نے ولید بن عتبہ بن ابی سفیان کو لکھا امام
۔خط کے ملتے ہی ولید نے فورا َ ََ مروان بن حکم کومشورہ دیا کہ بیعت نہ کرنے کی
حسین کو شہید کر دیا جائے لیکن ولیدنے اس مشورے کوٹھکرا دیا ؓ صورت میں امام
ؓ
حسین ؓ
حسین رات کی تنہائی میں اپنے اہل و عیال کولے کر مکہ روانہ ہوئے امام ۔امام
حسین نے چچازاد بھائی حضرت ؓ کی مکہ آمد پر کوفیوں کے خطوط آنے لگے۔امام
مسلم بن عقیل کو دورہبروں کے ساتھ کو فہ روانہ کیا ۔ ۱۱ہزار کوفہ والوں نے امام
حسین کی بیعت کی ۔اس صورتحال کا علم ہونے پر یزید نے ؓ مسلم کے ہاتھ پر امام
رسول کو سر جون مسیحی کے مشورے پر ؓ گورنر کوفہ نعمان بن بشیر صحابی
معزول کر کے عبیداللہ بن زیاد کو گورنر کوفہ نامزد کیا ۔زیاد منہ چھپائے کوفہ میں
داخل ہوا اور نعمان بن بشیر کو معزولی اور اپنی نامزدگی کا حکم نامہ سنایا اور ساتھ
ہی امام مسلم کی گرفتاری کا حکم دیا ۔مختصر سی لڑائی کے بعد امام مسلم کو امان
ؓ
حسین مسلم چونکہ امام
ؓ کے دھوکے پر گرفتار کر لیا گیااور انہیں شہید کر دیا گیا ۔امام
کو خط تحریر کر چکے کہ کوفہ والوں نے بیعت کر لی ہے اس لیے آپ کو فہ آجائیں
حسین ؓکو فہ کی طرف روانہ ہوئے اس پر آپ کو روکا بھی گیا اور ؓ اس طرح امام
عباس لیکن آپ ؑ نے فرمایا
ؓ بعض مخلصین نے یمن جانے کا بھی مشورہ دیا مثالَ ََ ابن
کہ میں نے رسول اللہﷺکو خواب میں دیکھا ہے کہ انہوں نے مجھے ایک کام کرنے
کا حکم دیا ہے اور میں وہ قیامت تک بتا نہیں سکتا ۔آپ ؑ جب تنعیم پہنچے تو فرزدق
شاعر مال اس نے کہا کہ کوفہ والوں کے دل تو آپ کے ساتھ ہیں لیکن تلواریں یزید
کے ساتھ ہیں راستے میں حضرت مسلم کی شہادت کی اطالع ملی تو آپ ؑ نے برادران
مسلم کو خبردار کیا اور ساتھ ہی راستہ بدلنے کا ارادہ کیا لیکن برادران مسلم نے
قصاص کے لیے اصرار کیا راستے میں عبداللہ بن مطیع ُزہیربن قین وغیرہ اصحاب
ملتے گئے ،مختلف مقامات سے ہوتے ہوئے کربال کے نزدیک ایک آبادی کا نام
نینوی ہے جہاں آپ بُدھ ۱محرم الحرام۱۱ھ کو پہنچے ۔ ُحر بن یزید ریاحی جو ایک ’’ ٰ
ہزار فوج کے دستے کے ساتھ آپ ؑ کو روکنے کے لیے آیا تھا بھی کربال میں اُتر
پڑا۔دوسرے دن عمر ابن سعد چار ہزار کی سپاہ لیے ہوئے کربال میں وارد ہوا ۔سات
محرم الح رام تک گفت وشنید ہوتی رہی اور بیعت یزید پر اصرار ہوتا رہا اور نیاحکم
نامہ ملنے پر پانی بند کر دیا گیا ،حضرت عباس ؑ نے تھوڑی سی جھڑپ کے بعد پانی
حاصل کرلیا باالآخر دسویں محرم الحرام کو ابن سعد نے حملہ کردیا ۔اما ؑم نے ایک
رات کی مہلت مانگی اور دسویں کی دن جنگ برسر پیکا ر ہوئے چونکہ رات عبادت
اور دوستوں کو رخصت دینے کے لیے مانگی تھی لیکن کوئی بھی جانے کو تیا ر نہ
ہوا توبا قاعدہ جنگ فرمائی پہلے حضرت عبداللہ بن عوسجہ اسدی سمسلم بن عوسجہ
اسدی ،حبیب بن مظاہر اسدی زبیر بن قین بجلی ودیگر جرات اور بہادری کا مظاہرہ
کرتے ہوئے شہادت پاتے رہے اور تاریخ پر اپنے انمٹ نقوش ثبت کرتے رہے اس
کے بعدخاندان اہل بیت کے ۱۱۳فراد ،حضرت عباس ،قاسم ،علی اکبر ،علی اصغر
،عون ومحمد،عبداللہ وابوبکر نے جام شہادت نوش فرمایا۔ اور پھرتاجدار کربال
حسین نے جام شہادت نوش فرمایا آ ؑپ کے اصحاب ؑ جگرگوشہ بتول نواسہ رسول امام
میں ۹۱شہید ہوئے اور دشمن کے ۱۱آدمی واصل جہنم ہوئے ‘‘۔()۸۶
عرب ا شا عت اسالم کے لیے مختلف ممالک اورمقبوضہ عال قوں میں جا تے
رہتے تھے ۔فتو حا ت کی صو رت میں ما ل غنیمت کے ساتھ خواتین بھی ال ئی جا تی
تھیں لیکن اُن کے سا تھ کسی قسم کی زبر دستی نہیں کی جا تی تھی اُنہیں فیصلے کا
پو را اختیا ر دیا جا تا تھا اور اُن کے انتخاب کو تر جیح دی جا تی تھی۔ایسے ہی ایک
موقع پر شا ہ ایران کی دختر بھی مدینہ آئی۔یہ صورت حال اس کے لیے انتہائی تکلیف
دہ تھی لیکن آنے والے وقت نے ثابت کر دیا کہ اس کا مد ینے میں آنااس کے لیے سعد
ثابت ہوا اور تا ریخ کے اوراق میں اس کا نا م ہمیشہ کے لیے سنہری حروف میں ثبت
ہو گیا۔شاہ ایران کی اس دختر کا نام شہر بانو ہے جو امام حسین ؑ کے نکاح میں آئیں
اور ان کی کو کھ سے علی ابن حسین امام زین العابدین نے جنم لیا ۔واقعہ کر بال اور
ما بعد پیش آمدہ حا ال ت کا انہوں نے بلند ہمتی سے سامنا کیا ۔ان کی مد ینہ آمد کے
حوالے سے روایت ہے ۔
اس الم ناک واقعہ کے بعد امام حسین کو ماننے والے مختلف گروہوں میں بٹ
گئے ہر گروہ خود کو امام حسین کا سچا عاشق ثابت کرنے کی کو شش کرتا ۔ ان میں
دو گروہ ایک حسینی برہمن اور دوسرا قرامطہ زیادہ مشہور ہوئے ،حسینی برہمن تو
حکمرانی کاشوق نہیں رکھتے تھے لیکن قرامطہ نے تقریبا ً دو ڈھائی سو سال حکومت
کی اور دوسرے عالقوں کے حکمرانوں سے براہ راست ٹکر بھی لیتے رہے ۔حسینی
برہمن کون ہیں ،یہ نا م سن کر تعجب ہوتا ہے کہ یہ حسینی کیسے بنے ؟ میدان کربال
میں جنگ کے دور ان ہندوستان کے ایک قبیلہ کے افراد جو اپنے آپ کو حسینی برہمن
کہتے ہیں ۔جناب امام حسین ؑ کی امدادکے لیے کربال کی طرف روانہ ہوئے لیکن
سدافسوس !جب یہ لوگ مسافت طے کرکے کربال پہنچے تو جناب امام حسین ؑ کی
شہادت ہو چکی تھی ٰلہذاان جانثاروں نے خود کو ختم کرنے کے لیے اپنی تلواریں
اپنی گردنوں پررکھ دیں تاکہ خود کو امام حسین ؑ کی محبت میں مٹادیں۔ لیکن جنا ب
مختار ثقفی کے سمجھانے پر انہوں نے تلواریں نیاموں میں ڈال لیں ۔ایک روایت
مطابق ان کی نسل میں پیدا ہونے والوں بچوں کی گردنوں پر تلوار کے نشان دیکھے
گئے ہیں۔
’’ ریت کے سینے کو چیرتا ہوا بجلی کی رفتا ر سے کچھ ہندوستانی سپوتو ں
پنوں میں اپنی جگہ بنانے آنکھوں میں ایک عظیم کا ایک چھوٹا سا کارواں تاریخ کے ّ
حسین نے
ؑ مقصد عرب کی زمین کربال کی طرف رواں۔نبی محمدﷺ کے نواسے امام
جب کربال میں انسانیت سے سوال کیا ؟ہے کوئی جو میری مدد کو آئے تا ریخ گواہ
ہے کہ انسانیت سے کیے گئے اس سوال کے جواب میں امام کی مدد کے لیے اپنے
گھرو ں سے جو حق پرست نکلے وہ رسول کا کلمہ پڑھنے والے مسلمانوں کے ساتھ
ساتھ کا ندھے پہ چنے ڈالے ماتھے پر تلک لگائے کچھ ہندوستانی برہمن بھی تھے یہ
وہی ویر سپوت ہیں جو مدد کی شکل میں ہندو اور مسلمانوں کے بیچ پریم کی ایک
سنہری عبارت لکھنے کربال جا رہے ہیں ظالم بادشا ہ یزیداپنی حکومت کے نشے میں
چورہو کہ انسانیت کا چہرہ بگاڑدینا چاہتا ہے لیکن اُسے یہ پتہ تھا کہ جب تک نبی
محمد ﷺصاحب کے نواسے امام حسین ؑ زندہ ہیں تب تک وہ اپنی مرضی نہیں کر سکتا
۔اُس کے اسی ڈرنے امام ُحسین کو اُن کے پر ی وار کے ساتھ کربال میں گھیر کے اُن
سے اپنی حکومت کے سامنے سر جھکانے کو کہا ۔جیو اور جینے دو زندہ مثال پیش
کرتے ہوئے امام حسین نے یزید کے سامنے ایک پیش کش رکھی کہ اگر تُم کو مجھ
سے کوئی خطرہ ہو تو ُمجھے راستہ دے دو تاکہ میں ہندوستان چال جاؤ ں امام کو
دریائے فرات کے کنارے گھیر لیا گیا اُن کے بچوں اور عورتوں پر پانی بند کر دیا گیا
یہ سب ظلم یزید کے خط ملنے کے بعد ابن زیاد نے امام حسین ؑ پہ کیے امام کی طرف
سے جو خط لکھے گئے کہتے ہیں کہ لوگ مصیبت میں اپنوں کو یاد کر تے ہیں یا
پھر مصیبت میں جوساتھ دے وہ ہی اپنا ہوتا ہے امام نے اپنے بچپن کے دوست حبیب
کو خط لکھ کر مدد کے لیے بالیا اور دوسرا خط کربال سے دُور بہت دُور ہندوستان
حسین کے بیٹے علی ابن حسین نے اپنے بھا ئی ؑ کے ایک ہندو راجا کے نام لکھا۔امام
کے نام ہندوستان کے راجہ سمڈرا ُگپت کے نام لکھا ۔ سننے میں اٹپٹا لگنے والے اس
رشتے کی تاریخ گواہ ہے لگ بھگ چودہ سو سال پہلے ایران کے بادشاہ جو پارسی
مذہب سے تھے ان کی دو بیٹیاں تھیں ۔مہر بانو اور شہر بانو ۔مہر بانو کابیاہ ہندوستان
کے راجہ چندرگپت سے ہوارانی کا نام مہر بانو سے بدل کر چندر ریکھا رکھا گیا
کچھ ورشوں بعد چند ریکھاکی چھوٹی بہن شہر بانو کی شادی امام حسین سے ہوئی
۔چندر ُگپت اور چندر ریکھاکے بیٹے سمڈرا ُگپت اس وقت ہندوستان کے راجہ تھے
جب انہیں اپنے موسیر ے بھائی علی ابن حسین کا خط مال۔ راجا سمڈرا ُگپت نے جلد ہی
سینکوں کی ایک ٹکڑی تیار کر کے اسے کربال کی طرف روانہ کیا ۔ان ویر سینکوں
کے سردار کا نام رہب دت تھا ۔جو ایک موہیال بر ہمن تھے افسوس کہ جب رہب دت
کربال پہنچے تو امام حسین کو شہید کیا جا چکا تھا ۔یہ جان کر بر ہمنوں کا دل ٹوٹ گیا
اور جوش میں اپنی تلواروں کو اپنے گلوں پر رکھ لیا کر جن کی جان بچانے آئے
تھے جب وہی نہ ہے تو ہم جی کر کیا کریں گے لیکن امام کے چاہنے والے ایک
عرب ُمختار کے منع کرنے پر اپنی تلواروں کو اپنے گلوں سے ہٹایااور ُمختار کے
ساتھ مل کر دشمنوں سے سے بدلہ لینے کے لیے ایک یاد گار جنگ کی اور اُنھیں
ہندوستانی تلوار کے جو ہر دکھائے ان ویر سینکوں نے کربال میں جہاں پڑاؤڈاالتھا
اس جگہ کو ہند یا کہتے ہیں یہ جگہ آج بھی وہاں موجود ہے۔ان پرہمنوں میں سے کچھ
کربال میں شہید ہو گئے ان ویر برہمنوں میں سے کچھ کربال بس گئے اور اپنے کچھ
اپنے دیش بھارت چلے آئے تاریخ ان ویر برہمنوں کو ُحسینی برہمن کے نام سے
جانتی ہے‘‘ ۔ ()۸۹
یہ حسینی برہمن ہندوستان اورکشمیر کے مختلف عالقوں میں آباد ہیں اور آج
بھی ہندومذہب کے باوجود امام حسین ؑ سے عقیدت اسی طرح برقرار ہے کیونکہ
حسین خود تو ہندوستان نہ آسکے لیکن ان کی یا دیں لے کر دت برہمن ؑ حضرت امام
ہند وستان واپس آئے اور انہوں نے پہلی با رمجلس اعزاء منعقد کی ۔
مش ہور افسانہ نگا ر اور ناول نگا ر منشی پریم چند نے اپنا مشہور ڈراما
’’کربال‘‘۱۸۱۴ء میں لکھا۔جس میں انہوں ان حسینی برہمنوں کے کردار کو لوگوں پر
واضح کیا ہے ۔
’’قرمطیوں کا قلع قلمع کرنے میں سلطان محمود غزنوی نے ملتان پر پے در
پے حملے کیے اور وہاں قرمطی امیرکو گرفتار کر کے غزنین لے گیا اور غور کے
قلعہ میں قید کر دیا جہا ں وہ مرگیا ۔
’’منبہ بن اسد جو اسامہ بن لوی کے خاندان قریش میں سے تھا اورجس کے
خاندان کو بنو منبہ کہتے ہیں اورجس کا پتہ ۱۸۰ھ سے ۳۴۰ھ تک یقینی طور
سے لگتا ہے ۔ح لم بن شیبان جو بیرونی کے بیان کے مطابق وہ شخص ہے جو پہال
قرمطی یا اسماعیلی تھا جس نے ملتان پر قبضہ کیا تھا اس کا زمانہ ۳۱۹ء ۳۱۶کے
درمیان ہے ۔شیخ حمید اور اس کا بیٹا نصراور اس کا بیٹاابو الفتوح داؤد قرمطی ،شیخ
حمید الپتگین اورسبکتگین کامعاصر تھا یعنی ۳۶۱ھ سے ۳ ۸۰ھ شیخ حمید اور اس
کے بیٹے نصر کا زمانہ قرار دیا جا سکتا ہے ۔سلطان محمود کا معاصر ابو الفتوح
داؤد تھا اس لیے اس کی فرماں روائی کاعہد ۳۸۰ھ سے ۴۰۱ھ (ملتان کی دوسری
فتح اور داؤد کی گرفتاری)تک ہو گا‘‘۔()۱۰۰
ملتان میں عربوں کی حکومت کی وجہ سے عربی وہندی تمدن کی خوش گوار
آمیزش تھی ۔شہر کے چاروں طرف فصیل ہونے کی وجہ سے بحیثیت مجموعی امن
وامان تھا ۔
ابن حوقل ( ۳۱ ۹ھ )یہاں کے طرز لباس اور زبان کے متعلق کہتا ہے ۔
بشاری ۳۹۶ھ میں آیا ۔اس نے یہاں کے اخالق اور تمدن کا بہت اچھا نقشہ
کھینچا ہے ۔کہتا ہے:
محمد بن قاسم نے پہلی صدی ہجری کے آخر میں سندھ اور ملتان کو فتح کیا
۔سندھ کا اہم شہر منصورہ جسے محمد بن قاسم کے بیٹے عمر و نے آباد کیا ۔
بنو اْمیہ نے عرب ممالک کے ساتھ ساتھ غیر عربوں پر بھی تادیر شاندار
ح کومت کی جب عربوں نے سندھ پر قبضہ کیا تو وہاں کچھ شہر تو پہلے سے ہی آباد
اور مشہور تھے لیکن بعد میں فوجی اور سیاسی ضرورتوں کی وجہ سے عربوں کو
خود اپنے شہر بسانے پڑے جس میں محفوظہ ،بیضاء اور منصورہ بہت مشہور ہوئے
۔
اْموی حکومت کا دائرہ کار بہت وسیع تھا لیکن وقت کے ساتھ ہرکما ل زوال
پذیر ہوتا ہے اسی طرح بنو امیہ کے اخیر زمانے میں عربوں کی قوت کمزور ہوئی تو
سند ھیوں نے ان کو سواحل کی طرف دھکیلنا شروع کر دیا ۔
منصورہ اپنے محل وقوع کی وجہ سے بہت جلد مرکز نگا ہ بن گیا کیونکہ یہ
ساحل دریا پر واقع ہونے کی وجہ سے سمندر کے بھی قریب تھا اس لیے عراق اور
ملک عرب سے آمد ورفت اوربوقت ضرورت یہاں سے نکل جانے کے لیے بھی
انتہائی مناسب تھا س لیے تیسری صدی میں سندھ میں یہ عربوں کا پایہ تخت بن گیا
۔تما م عرب سیاح بھی اس کا نام اسی حوالے سے لیتے ہیں ۔تیسری صدی ہجر ی میں
اہل عرب اور اہل سندھ کے درمیان تعلقات کا سلسلہ بہت وسعت اختیار کر چکا تھا
اور بہت سے عرب خاندا ن یہاں رہائش پذیر تھے ۔
’’منصورہ ایک میل لمبا اور ایک ہی میل چوڑا تھا اور
چاروں طرف دریا سے گھرا ہواتھا۔یہاں کے باشندے
مسلمان تھے‘‘۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ منصورہ اور ملتان کے روابط آپس میں کتنے گہر
ے تھے کیونکہ کسی نام پہ نا م رکھنا ہی تعلق کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے ۔منصورہ
علمی اور مذہبی لحاظ سے بھی بہت بہتر تھا ۔
منصورہ میں بسنے والوں کی زبان خاص تھی اور ہندوستان سے الگ
۔منصورہ کی بندرگاہ دیبل میں اکثریت تاجروں کی تھی اور ان کی زبان سندھی اور
عربی تھی ،اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں کی زبان پر عربی کا اثر کتنا گہرا ہے
سندھی اور عربی الفاظ اس طرح ملے ہوئے ہیں کہ انہیں الگ کرنا نا ممکن ہے اور
سندھی رسم الخط آج بھی بعینہ عربی ہے منصورہ کی عربی حکومت کا خاتمہ کب
اور کیوں ہوا اس حوالے سے کوئی حتمی بات سامنے نہیں آتی کیونکہ بشاری کے
زمانہ ۳۹۶ھ تک وہ یقینا َ ََ قائم تھی ۔جب سلطان محمود نے ۴۱۱ھ میں سومنات پر
اپنا مشہور حملہ کیا تو واپسی پر اس نے سندھ کا راستہ اختیار کیا بعض مورخین کے
مطابق وہ اس دوران منصورہ سے ہوکر گزرا۔
یہ حقیقت تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ عربی زبان سے ہمارا رشتہ
کیسے استوار ہوا اور اس میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پائیداری کیسے آئی ؟لیکن
اس کے باجود بر عظیم پاک وہند میں عربی کی حیثیت ہمیشہ ایک غیر ملکی زبان کی
رہی ہے ۔ اس لیے قدرتی طورپر یہاں کے مسلمانوں نے عربی ادبیات کے حوالے
سے ان ممالک کے لوگوں سے زیادہ توجہ کی جہاں عربی بولی جاتی ہے ۔مقابلتا َ ََ
دیکھا جائے تو ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ بر صغیر پاک وہند میں
فارسی کو عربی پر کئی اعتبار سے فوقیت حاصل رہی کیونکہ فارسی ایک آسان زبان
ہے اور تقریبا َ ََ نو سو برس تک یہاں کے حکمرانوں کی زبان رہی ہے اس کے عالوہ
پاک وہند ایران کے درمیان آمدورفت کے براہ راست بّری وسائل موجود ہیں لیکن اس
علیحدہ کر رکھا ہے جہاں عربی زبان کے برعکس سمندر نے ہند کو ان ممالک سے ٰ
بولی جاتی ہے اس لیے برصغیر پاک وہند میں فارسی ادبیات کے حوالے سے زیادہ
کام ہوا ہے تاہم مذہب سائنس اور فلسفہ میں یہاں زیادہ کتابیں نہیں لکھی گئیں کیونکہ
یہاں کے مذہبی علماء اس کو خالف دین سمجھتے تھے یہاں تک کہ جب شاہ ولی اللہ
نے قرآن پاک کا فارسی میں ترجمہ کیا تو ان کے خالف ہو گئے ۔عربی ادبیا ت میں
ہند میں اس طرح کام نہیں ہوا جتنا کہ ان ممالک میں ہوا جہاں عربی بولی جاتی ہے یا
جو عرب سے قریب واقع ہیں اور ان کے لیے عربی علوم کے مراکز سے رابطہ کرنا
آس ان ہے لیکن پھر بھی ہمارا معاشرہ عربی ادب سے اثرپذیر ہو اہے کیونکہ یہ ممکن
ہو ہی نہیں سکتا کہ جب عربوں نے سندھ اور ملتان کے عالقے فتح کیے وہاں کوئی
عاَلم نہ ہوا ہو۔
لفظ ہند ی عربوں میں بہت مقبول ہوا اور انہوں نے اس کو اپنی عورتوں کے
لیے ایک خوبصورت نام کے طور پر بھی اختیار کر لیا ۔
گو عربوں میں علم ہیئت بہت پہلے سے موجود تھا لیکن انہوں نے اہل ہند کے
علم ہئیت میں بھی گہر ی دلچسپی لی یہ ایک طرح اہل ہند کی طرف عربی ادبیات میں
اہم اضافہ تھا ۔
علم الطب سے متعلق ہند نے عربی ادب میں ایک اہم اضافہ کیا ہے ۔
عربی زبان میں بھی حکایات پر مبنی بہت سی کتب ہیں لیکن اس کے باوجود
انہیں تفریحی ادب کے لیے کتب کی تالش تھی اس کی کمی انہوں نے تراجم کی مدد
سے پوری کی ۔ اسی طرح شطرنج کا تعلق بھی ہند سے ہے لیکن عربی ادب میں اس
کی اہمیت سے مفرنہیں ۔
’’حکایات کی دو کتابوں کلیلہ و دمنہ اور الف لیلہ کو تفریحی ادب میں جو
مقبولیت اور اہمیت حاصل ہے اس کی مثال مشکل سے ملے گی ۔ان میں کلیلہ ودمنہ
ایک ہندی تصنیف ہے جس کو ابن المقفع نے آٹھویں صدی عیسوی میں فارسی سے
صے کاعربی میں منتقل کیا ۔الف لیلہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کے ایک بڑے ح ّ
مواد ہندی ہے ‘‘۔
صہ میں لوگ جب ’’بہترین محقق اس پر متفق ہیں کہ دْنیا کے کسی اور ح ّ
شطرنج سے و اقف تک نہ تھے تو یہ کھیل ہند میں رائج تھا لفظ شطرنج فارسی یا
عربی کے لیے ایک اجنبی لفظ ہے یہ لفظ سنسکرت کے لفظ چترنگا یا چترنگ سے
اخذ کیا گیا ہے ۔عربی اور فارسی دونوں زبانوں میں کئی تشبیہیں اور استعار ے
شطرنج سے لیے گئے ہیں ‘‘۔()۱۱۱
کچھ کتابیں اس نوعیت کی ہیں کہ اْن کی اہمیت عرب وہند میں یکساں ہے لیکن
در حقیقت ان کا مواد ہند سے اخذ کیا گیا ہے ٰلہذا وہ عربی ادب میں اہل ہند کی طرف
سے ایک اہم اضافہ ہیں ۔
نقل مکانی کا سلسلہ ازل سے جاری ہے اور تاابدجاری رہے گا از منہ قدیم میں
ذرائع نقل و حمل سست روی کا شکار تھے اور آمدورفت جان جو کھم سے کم نہ تھی
چونکہ ہجری سن کی پہلی تین صدیوں میں سندھ عربوں کی نو آبادی بن گیا تھا ٰلہذا
جس طرح عرب سند ھ میں آباد ہو گئے تھے اسی طرح بہت سے سندھیوں نے بھی
عرب میں سکونت اختیار کرلی تھی ۔
عربی ادبیات میں ہند کے مصنفین نے گراں قدر اضافہ کیا ۔مذہبی نقطہ نظر
سے طویل مدّت تک تفسیر قرآن کے حوالے سے مختلف کتب عربی میں لکھیں عالوہ
،تصوف اور اخالقیات ،علم الکالم ،فلسفہ ،حساب ،ہئیت ،طب
ّ ازیں علوم حدیث ،فقہ
،تاریخ وسوانح جغرافیہ ،علم اللسان ،خطبات ،مرصع نثر اور ادب لطیف ،قصص
وحکایات اور شاعری پر بر عظیم پاک وہند کے عالمین ،محدثیں ،مفسرین ،مصنفین
اور شعراء نے عربی میں الزوال ادب تخلیق کیا جس کا ایک زمانہ معترف ہے اگرچہ
سمے کی بے رحم لہر وں نے ان کا مکمل نمونہ کالم ادبی سمندر کے کوزے میں
محفوظ نہ رکھا لیکن پھر بھی جو کسی حد محفوظ ہے وہ گویا گا گر میں ساگر ہے ۔
اس طرح برعظیم پاک وہند میں انگریزوں کی آمد ہوئی ۔وقت کے ساتھ جب ان
کے قدم مضبوط ہوتے ہو گئے تو انہوں نے کاروبار حکومت میں مداخلت شروع
کردی ۔انہوں نے سلطنت کو کمزور کرنے کے لیے سب سے پہلے مسلمانوں کا لسانی
رشتہ عربی اور فارسی سے منقطع کیا اور انگریزی کو اُن پر مسلط کیا جو آج تک
ہے اور ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے حاالنکہ عربی زبان اْردو زبان کا
دامن آج بھی ماال مال کر رہی ہے کیونکہ عربی زبان سے ہمارا مذہبی رشتہ کبھی ختم
نہیں ہو سکتا بے شک تہذیب و تمدن میں بہت فرق ہے اسی لیے تحریک پاکستان کے
دوران مسلمانوں کی اجتماعی شناخت کا سوال پیدا ہوا کہ ان کی وفاداری اپنی سر
زمین سے ہے یا اس سے باہر ہے کیونکہ تحریک آزادی کے جیالوں اور رہنماؤں کا
رجحان مذہبی نقطہ نظر کی وجہ سے عربی کی طرف تھا ۔عالمہ اقبال ،ابو الکالم
االعلی مودودی اور دیگر رہنما
ٰ آزاد ،موالنا شوکت علی ،موالنا محمد علی جوہر ،ابو
عربی کے خواہاں تھے ۔
عالمہ اقبال کو احساس تھا کہ شعر و ادب میں فارسی نے مبالغے کی الگ
رنگ آمیزی کی ہے خیاالت معصومانہ سادگی کے ساتھ براہ راست نہیں آتے بلکہ
تشبیہ ،استعارے اور تمثیل کے پیرا ئے میں بیان ہوتے ہیں پھر شاہی درباروں میں
زرطلبی کی تمنا نے بھی شعر کو اس کی فطری تاثیر سے محروم کر دیا تھا اس لیے
وہ اپنے معاصراور بعد کے شاعروں کو تلقین کر تے ہیں کہ وہ اپنی ذہنی اور
روحانی تربیت کے لیے فارسی کی بجائے عربی ادبیات کی دنیا کو منتخب کریں تاکہ
معامالت ومحبت بھی غیر فطری نہ ہوجائیں ۔
عالمہ اقبال شاعر سے مخاطب ہیں کہ اے شاعر !تیری جیب میں شعر کی جو
متاع موجود ہے اسے زندگی کی کسوٹی پر لگا۔اس کی اصل شان یہی ہے کہ قوم میں
زندگی کی روح پیدا کرے ۔
شاعر کی فکر روشن قوم کے لیے عمل کی رہنما بن جاتی ہے ۔اْسے بجلی کی
چمک قرار دینا چاہیے جو کڑک اور گرج سے پہلے نمودار ہوتی ہے مراد بظاہر یہ
ہے کہ شاعر کی فکر روشن بجلی کی طرح چمکتی ہے اس سے قوم میں عمل کی
روح بیدار ہو تی ہے عمل کو بجلی کی کڑک اور گرج سمجھنا چاہیے۔
الزم یہی ہے کہ دل عرب کی محبوبہ کے حوالے کیا جائے تاکہ کرد کی شام
سے حجاز کی صبح نمودار ہو یعنی تمام غیر اسالمی خصوصیات مٹ جائیں اور
اسالمی اوصاف جالپائیں۔
اے شاعر !تو نے عجم کے باغ سے پھول چنے ۔ہندوستان اورا یران کی نوبہار
دیکھی اب تھوڑ ی دیر کے لیے صحرا کی گرمی کا لطف بھی اْٹھا اور کھجور کی
مے کہنہ نو ش کر ۔ تو اپنا سر صحرا کی گرم بغل میں دے دے اور جسم کو تھوڑی
دیر کے لیے وہاں کی َجال دینے والی ہوا کے حوالے کر دے ۔تو مدّت تک ریشمی
لباس کی لذت میں مست رہا ۔اب کپاس کے موٹے جھوٹے کپڑے کا بھی عادی ہو جا ۔
تو صدیوں تک گل اللہ کے فرش پر رقص کر تا رہا اور پھول کی طرح شبنم
سے منہ دھوتا رہا اب ُجھلس دینے والی ریت پر بھی گرم رفتار ہو اور زمزم کے
چشمے میں غوطہ لگا ۔()۱۱۶
ان تمام اشعار میں عجمیت کو چھوڑ کر عربیت کا انداز اختیار کر لینے کی
دعوت دی گئی ہے ۔
در حقیقت عالمہ اقبال شاعر کے ساتھ مسلم ا ُ ّمہ کو دعوت فکر وعمل دیتے ہیں
کہ زندگی میں کچھ حاصل کر نے کے لیے مشققت کی چکی میں خود کو پیسنا پڑتا
ہے ۔کیونکہ جو لو گ مشققت کی ذلت اْٹھاتے ہیں وہی دنیا میں ناموری پاتے ہیں ۔
سر زمین حجاز سے قلبی لگاؤ کی وجہ سے ہمارے شعراء کرام عربی دانی
کی طرف متوجہ تھے کیونکہ اس وقت ماحول ہی ایسا تھا کہ عربی کو ایک الزمی
مضمون کے طور پر چْ نا جاتا تھا لیکن یہ صورتحال بطور مضمون کی حد تک نہ
تھی بلکہ عرب معاشرے کے ادب ،تہذیب و ثقافت سے آگاہی کو ایک فرض خیال کیا
جاتا تھا ۔
اْردوکے مشہور رومانوی شاعر اختر شیرانی (۱۸۰۶ء تا )۱۸۴۱کو بچپن میں
ایسا ماحول مال جہاں اردو اور فارسی کے ساتھ عربی کی تعلیم بھی دی جاتی تھی یہی
چیز جوان ہونے پر بھی ان کے دماغ میں چھائی رہی سرزمین حجاز سے اپنے عشق
کا اظہار یوں کرتے ہیں ۔
اختر شیرانی عرب شعراء اور خصوصا َ ََ امراء القیس سے کافی متاثر نظر
آتے ہیں وہ صحرا ئیت اور سادگی کے اسی طرح شیدا
ہیں جس طرح قیس ۔انہیں صحرائی ٹیلوں ،چشموں ،بیابانوں میں چرائے جانے والے
گلوں ،گاؤں کی الٹھر دوشیزاؤں سے محبت ہے ۔
’’ذہنی اعتبار سے اختر عرب کے شعرائے جاہلیت کا
ہمنوا تھا جو اپنے عہد سے سالہا سال بعد ایک اور ہی
ملک میں پیدا ہوا اس کے مزاج پرو ہی آزاد منشی
چھائی ہوئی تھی اور یہ آزاد منشی بڑی تندرست تھی
جو قدیم شعرائے عرب کی امتیازی خصوصیت اور مایہ
نا ز تھی اگر قسم کے شعور کو احساس بدویت قرار دیا
جائے تو بے جانہ ہو گا‘‘۔
اختر نے خود بھی اپنے اس ذہنی رجحان کا اعتراف کیا ہے اور اس شعور کو
بدویت ہی قرار دیا ہے ۔
چونکہ عام طالب علموں کو عربی زبان کی سوجھ بوجھ نہ تھی اس لیے
مورخین نے عربی ادب کی تواریخ اُردو زبان میں لکھیں تاکہ یہ ادب پڑھ کر ان کے
اند رعربی ادبیا ت کی لگن اور عربی سیکھنے کا شوق پیدا ہو اْردو زبان کے طالبعلم
کے نصاب میں عربی زبان شامل ہے اور اْردو کے طالبعلموں کی زیادہ غلطیاں ہی
عربی میں ہوتی ہیں اس لیے ضرورت تھی کہ کوئی لو گ ایسے ہوں جو اْن کو عربی
زبان کے بڑے شاعروں سے متعارف کروائیں ۹۴۔۱۸۹۳ء میں ذو الفقار علی بھٹو
سے درخواست کی گئی کہ نیشنل سنٹر ز میں ایسے لوگوں کو مالزمتیں دیں جو عربی
بول چال سکھائیں ٰلہذا اس تجویز پر عمل در آمد کیا گیا ۔ اب کئی ملین مسلمان عرب
ممالک میں آباد ہیں ۔عبادت ،تجارت ،روزگار کا رشتہ عربی سے وابستہ ہے ۔
عربی زبان و ادب سے ہمارے ان تمام رشتوں کے باوجود موجودہ صدی کے
حوالے سے دیکھا جائے تو وہ خلوص نظر نہیں آتا بلکہ عربی زبان وادب اور اس
کے اثرات ہمارے ہاں اُردو دُنیا میں دُور کی آواز دکھائی دے رہے ہیں نزدیک کی
نہیں۔اس میں شایدہماری اس سوچ کو دخل ہے کہ اس حقیقت سے واقف ہوتے ہوئے
بھی کہ جاہلی دورمیں شاندار ادب تخلیق ہوا ہے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت
میں لڑائی جھگڑوں اور قتل غارت کے سوا کچھ نہیں اس ضمن میں ہم اس دور کی
خصوصیات کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں۔نتیجتا ًعربی زبان سیکھنے کے رحجان
میں کمی ہوتی جا رہی ہے حاالنکہ یہی زبان فارسی کے بعد برعظیم پاک وہند کی
نمائندہ زبان رہی ہے ۔
اس تمام صورتحا ل کے با وجود پاکستان میں عربی ادب کے حوالے سے دو
نام انتہائی معتبر سمجھے جاتے ہیں۔ جنہوں نے اپنے ذاتی شوق اورلگن سے عربی
ادبیات میں جو کار ہائے نمایاں سر انجام دیے ہیں انہیں ملکی وغیر ملکی سطح پر بے
انتہا پذیر ائی ملی ہے۔یہ دو نمایا ں ادبی شخصیات محمد کا ظم اور خورشید رضوی
ہیں۔یہ دونوں ہمہ جہت شخصیات ہیں جنہوں نے عربی ادبیات کے عالوہ اردو ادب
میں بے شمار کا م کیا ہے لیکن یہاں ہمیں ان کے عربی ادب کے حوالے سے کیے
گئے کام سے بحث ہے کہ زندگی میں متنوع پہلوہوتے ہوئے کیوں کہ ان دونوں نے
اپنے لیے یہ میدان مختص کیا ۔
ا س ضمن میں میرے ذہن میں یہ چند سواالت ہیں جن پر آئندہ ابواب میں بحث
ہو گی ۔
محمد کاظم اور خورشید رضوی نے عربی ادب کو ہی کیوں فوقیت دی ۱۔
؟کیا اس میں تربیت کا کو ئی دخل ہے؟
محمد کاظم اور خورشید رضوی نے جس عربی ادب پر کام کیا۔کیا وہ ۱۔
ادب اپنے زمانے میں قابل قدر تھا؟
جاہلی ادب کے اس دور کے معا شرے پر کیا اثرات مرتب ہوئے؟ ۳۔
کیاعربی ادب کو اردو اورفارسی ادب کا پیش رو کہا جاسکتا ہے؟ ۶۔
محمد کاظم اورخورشید رضوی نے عربی ادب پر جو کام کیا ہے آیا وہ ۹۔
ادب میں کوئی اہم اضافہ ثابت ہو سکتا ہے؟
حوالہ جا ت
فتح محمد ،ملک ،انتظار حسین کا خواب نا مہ ،سنگ میل پبلی کیشنز ۱۔
،الہور ۱۰۱۱،ء ،ص۶۳،۶۴
محمد کا ظم ،عربی ادب کی تاریخ ،سنگ میل پبلی کیشنز ،الہور ۱۔
۱۰۰۴،ء ص ۴۰۸
حالی ،الطاف حسین ،مقدمہ شعروشاعری ،ال ہور ۱۰۰۱ء ص۱۱ ۳۔
سید امیر علی ،تا ریخ اسالم ،مترجم ،باری علیگ،الہو ر، ۹۔
۱۸۸۹ء،ص۸،۱۰
۱۰۔ محمد انصار اللہ ،تا ریخ ار تقا ء زبان و ادب ،مغربی پاکستان اردو
اکیڈمی ،ال ہو ر ص ۴۱
۱۱۔ محمد کا ظم ،عربی ادب کی تاریخ ،سنگ میل پبلی کیشنز ،الہور
۱۰۰۴،ء ص۱۶
۱۹۔ محی الدین قا دری ،ہندو ستا نی لسا نیا ت ،فضلی بک سپر ما رکیٹ،
کرا چی ۱۰۱۱ء ص ۶۴
۱۱۔ پنڈت بر ج ،مو ہن ،تا تریہ کیفی ،کیفیہ ،،فضلی بک سپر ما رکیٹ،
کرا چی ۱۰۱۱ء ص ۱۶۸
زبید احمد ،ڈاکٹر،عربی ادبیات میں پاک و ہند کا حصہ ،ص ۸ ۱۰۔
ما خذ ،کامران اعظم سو ہدروی ،تذکرہ شہدائے کر بال ،اسالم آباد، ۸۶۔
اشاعت دوم ۱۰۱۰ ،ء ،کا روان شہادت مدینہ تا مدینہ ،منزل بہ منزل
،تالیف ،عال مہ محمد علی فا ضل ،مکتبہ ہا دی ،ال ہو ر ۱۰۱۰،ء
محمد یعقوب کلینی’’ ،الشافی‘‘ مترجم ،سید ظفر حسن’’ ،اصول ۸۱۔
کافی‘‘( ،جلد سوم) ظفر شمیم پبلی کیشنز ،گلستان جوہر ،کراچی،
۱۰۱۱ء ،ص ۶۱،۶۸
۸۸۔ انتظار حسین ،جستجو کیا ہے ،سنگ میل پبلی کیشنز ،ال ہو ر ۱۰۱۱،
ء ص ۱۹۱ ،۱۹۰
۱۰۹۔ زبید احمد ،ڈاکٹر،عربی ادبیات میں پاک و ہند کا حصہ ،ص۳۶
۱۰۱۔ زبید احمد ،ڈاکٹر،عربی ادبیات میں پاک و ہند کا حصہ ،ص۳۱
۱۰۸۔ زبید احمد ،ڈاکٹر،عربی ادبیات میں پاک و ہند کا حصہ ،ص۳۱
۱۱۰۔ زبید احمد ،ڈاکٹر،عربی ادبیات میں پاک و ہند کا حصہ ،ص۳۹
۱۱۱۔ زبید احمد ،ڈاکٹر،عربی ادبیات میں پاک و ہند کا حصہ ،ص۳۱،۳۸
۱۱۱۔ زبید احمد ،ڈاکٹر،عربی ادبیات میں پاک و ہند کا حصہ ،ص۳۸
۱۱۳۔ زبید احمد ،ڈاکٹر،عربی ادبیات میں پاک و ہند کا حصہ ،ص۴۰،۴۱
۱۱۴۔ جمیل جا لبی ،ڈاکٹر ،تا ریخ ادب اردو ،جلد دوم ،مجلس ترقی ادب
،الہو ر ۱۰۰۸ء ص۱
۱۱۶۔ موال نا غالم رسول ،مہر ،مطالب اسرار و رموز،شیخ غالم علی اینڈ
سنز پبلشرز ،ال ہو ر ۱۸۱۰،ء ص ۱۱۶،۱۱۱
۱۱۱۔ اختر شیرانی اور جدید اُردو ادب ،انجمن ترقی اُردو پا کستا ن ،کرا
چی ،ص ۶۰۱
۱۱۹۔ اختر شیرانی اور جدید اُردو ادب ،انجمن ترقی اُردو پا کستا ن ،کرا
چی ،ص ۱۱۰
باب دوم:
کسی بھی انسان کی شخصیت کو سنوارنے میں جو عوامل محرک ثابت ہوتے
ہیں ان میں والدین اور ما حول کی اہمیت مسلم ہے جس سے مفر ممکن نہیں۔عالوہ
ازیں کچھ خ ّ
ط وں میں بھی خاص تاثیر ہوتی ہے جو علم و ادب کی ترویج میں غیر
محسوس انداز میں معاونت کرتی ہے اور ایک ایسی فضا تخلیق کرتی ہے جو وہاں
کے مکینوں میں تخلیقی شعور بیدار کرکے ان کی خوابیدہ صالحیتوں کو اجاگر کرتی
ہے۔ ایسا ہی خطہ جو ریاست بہاولپور کے نام سے معروف ہے زبان وادب کی آبیاری
میں اس کا کردار ابتداء سے غیر معمولی رہا ہے۔یہی بات یہاں کے باشندوں کے
الشعور میں کارفرمارہی ہے اسی لیے انہوں نے بھی بساط بھر علمی وادبی ،تحقیقی و
تنقیدی شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دیے۔
ریاست بہاول پور اردو زبان وادب کے حوالے سے خصوصی اہمیت کی حامل
ہے اس کی اڑھائی سو سالہ تاریخ شاہد ہے کہ دکنی ریاستوں کی طرح یہاں کے
حکمرانوں نے خود اردو زبان کی ترویج و اشاعت میں بڑی دلچسپی لی ۔حتی کہ یہاں
کی دفتری زبان بھی اردو ہی قرار دی گئی یہاں اردو کے روشن مستقبل کے حوالے
سے مولوی عبدالحق کہتے ہیں۔
ریاست بہاول پور کی ایک نابغہ شخصیت سید محمد کاظم جس نے علی گڑھ
سے انجینئرنگ کی اور محکمہ واپڈا سے اپنی مالزمت کا آغاز کیا اور انتہائی ذمہ
داری سے اپنے پیشہ ورانہ فرائض سر انجام دیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ جو تعارف
اس کا حوالہ بنا وہ اس کی تحقیق ،تنقیدی شعور ،خاکہ نگاری ،ترجمہ نگاری اور
عربی زبان و ادب میں کامل دستگاہ ہے ۔بطور سفر نامہ نگار اس نے دلچسپ اور
نایاب ادب تخلیق کیا اور بطور ادیب معروضی انداز میں اپنی یاداشتوں کو قلم بند
کرنے میں اس نے جس بے ساختگی اور سالست بیان سے لفظوں کی بنت کاری کر
کے جاذبیت پیدا کی ہے وہ اسے اپنے ہم عصر ادبا سے ممتاز کرتی ہے۔
کچھ خصوصیات ایسی ہوتی ہیں جو نسل درنسل منتقل ہوتی رہتی ہیں کیونکہ
۔لہذامحمد کا ظم
وہ خون میں سرایت کی جاتی ہیں اور اس طرح سلسلہ چلتا رہتا ہے ٰ
کے والد میں بھی اپنے والد کی خصوصیات موجود تھیں ۔
وہ خاندان جو نسلوں سے دینی علوم کا شائق تھااوراس علم کوبطوروراثت آنے
والی نسلوں تک منتقل کر رہا تھااور معاشرے میں اپنے رکھ رکھاؤ کی وجہ سے قابل
احترام سمجھا جاتا تھااسی خاندان میں ایک ایسے بچے نے آنکھ کھولی جو مستقبل
میں علم وادب کے افق پر ایک درخشاں ستارے کی مانند چمکنے واال تھااور تحقیق
کی پُرخار اور سنگالخ چٹانوں سے ٹکرانے کا حوصلہ رکھنے واال پُرعزم عبقری
تھاجس کا نام اس کے والدنے محمد کاظم رکھااور جو آنے والے وقت میں با مسمٰ ی
ثابت ہوا۔
’’میرا بچپن احمد پور شرقیہ میں گزرا احمد پور شرقیہ
میں تقریبا َ ََ پچیس فی صد ہندو آبادی تھی ۔ اس وقت
احمد پور شرقیہ کا سارا بازار اور اس کا کاروبار
ہندوؤں کے ہاتھوں میں تھا اور مسلمانوں کی صر ف
چند دوکانیں گوشت ،دہی دودھ ،جوتے اور ْکھسے اور
شربت وغیر ہ کی تھیں‘‘ ۔ ()۱
اس بیان سے اُس عہد کے معاشرتی و ثقافتی حاالت کا پتہ چلتا ہے کہ اس وقت
لوگوں کے نمایاں رجحانات کیا تھے؟ زیست کو بسر کرنے کے لیے گزر اوقات کا
ذریعہ کار کیا تھا اور وہ ذہنی طور پر کتنے پختہ تھے۔محمد کاظم نے عہد طفولیت
میں ہی ان حاالت کو اپنے غائر مشاہدے کے ترازو میں توال اورپرکھا۔
چونکہ محمد کاظم کا ننھیال ایک کھاتا پیتا گھرانہ تھا اس لیے اس کی تعلیم و
گئی۔ دی توجہ خصوصی پر تربیت
سیّد ہاشم بتاتے ہیں ۔
’’ہمارا ننھیال احمد پور (ضلع بہاول پور) میں مقیم تھا
۔ہمارے نانا سیّد ذوالفقار شاہ صاحب گر داور تھے ۔ان
کی زمینیں بھی تھیں تقریبا َ ََ (دس بار مربعے )‘‘۔ ()۸
اُن کی والدہ کو مذہب کی طرف خاص رغبت تھی۔نماز اور روزے کی پابند
تھیں اور تالوت قرآن کا خصوصی اہتمام کرتی تھیں۔وہ اپنے بیٹوں کی پڑھائی میں
خصوصی دلچسپی لیتی تھیں۔انہوں نے بیٹوں کی تربیت اس مقولے کے مصداق کی کہ
کھالؤ سونے کا نوالہ اور دیکھو شیر کی آنکھ سے۔
’’ہمارے ماحول میں رنگین مزاجی ناپید تھی والدہ
صاحبہ اور ماموں صاحبان کی ہم پر بہت نگرانی اور
کنٹرول تھا ‘‘۔()۱۰
عالوہ ازیں اس نے بچپن میں اپنے والد کو بھی نماز پڑھتے اور قرآن مجید مع
ترجمہ پڑھتے دیکھا۔
محمد کاظم نے دینی تعلیم کا آغازاس زمانے کے مطابق بہت چھوٹی عمرسے
کر دیا تھا۔اسنے نا ظرہ قرآن پاک چار سال کی عمر میں پڑھنا شروع کر دیا تھا چونکہ
محنت اورتوجہ اس کی گھٹی میں شامل تھی اس لیے اڑھائی سال میں قرآن پاک بھی
ختم بھی کر لیا۔بچپن سے ہی پڑھائی میں خاص دلچسپی تھی اور اس میں والدہ کا بھی
ہاتھ تھا۔
چونکہ بچپن میں محمد کاظم اپنی والدہ کے زیادہ قریب تھا اس لیے ابتدائی
جماعتیں اس نے گھر میں پڑھیں اور تیسری جماعت میں سکول داخل کروایا اس لیے
اس سال تھوڑی مشکل پیش آئی لیکن پھر آہستہ آہستہ اس کے اندر مقابلے کی فضا پیدا
ہونا شروع ہوگئی اور اس چیز نے اسے محنت کا عادی بنا دیا۔اس نے مڈل کے
امتحان میں اچھی پوزیشن حاصل کی۔اس دور میں صورت حال آج سے مختلف تھی
مضامین کے انتخاب میں بچوں کی رائے نہیں لی جاتی تھی۔محمد کاظم کو سائنس کا
مضمون پسند نہ تھا لیکن بڑوں کی رائے کا احترام کرنا پڑا اس لیے اس کا اثر میٹرک
کے نتائج پر پڑا۔ حساب کے مضمون میں خصوصی دلچسپی تھی اس لیے انجنیئرنگ
میں کامیابی حاصل کی۔
’’محمد کاظم میٹرک کے بعد کالج میں داخل ہوئے۔داخلے کے لیے بہاول پور
اپنے بڑے ماموں کے پاس آگئے یہاں صادق ایجرٹن کالج میں ایف ایس سی میں داخلہ
لیا۔محمد کاظم نے ۱۸۴۳ء ایف ایس سی کا امتحان سیکنڈڈویژن میں پاس کیا۔اس کی
غالب ََا یہ کہ سائنس کے دو ایسے مضمون شامل نصاب تھے جو انہیں نا پسند
َ وجہ
تھے فز کس اور کیمسٹری کی وجہ سے کوئی پوزیشن حاصل نہ کر سکے۔ایف ایس
سی کے بعد بہاول پور ہی میں بی ایس سی (ریاضی) میں داخلہ لیا لیکن ابھی پہلے
سال کا امتحان نہ دیا تھا کہ انجینئرنگ کے لیے ۱۸۴۴ء میں علی گڑھ چلے
گئے۔‘‘()۱۴
عربی ،اردو اور انگریزی ان کے پسندیدہ مضامین تھے لیکن خاندانی دباؤ کے
آگے ہتھیار ڈال دیے اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل
کی۔ انجینئرنگ کے ساتھ ساتھ عربی کا شوق کیسے پروان چڑھا کیونکہ دونوں ایک
دوسرے سے یکسر مختلف ہیں۔لیکن یہ اس بناء ممکن ہوسکا کہ انجینئرنگ میں
داخلے کے وقت محمدکاظم کی عمر مقررہ حد سے کچھ ماہ کم تھی اس لیے داخلے
کے لیے کچھ ماہ انتظار کرنا پڑا۔اس دوران اس کے پاس کافی فارغ اوقات تھے اور
ان اوقات کا بہترین مصرف اس نے مختلف کتب کے مطالعہ میں تالش کیا۔
محمد کاظم طب َع ََا شرمیال ،کم آمیز اور کم گو تھا۔کتب بینی کا شوق اس کے
ماحول کا اثر تھا۔علی گڑھ جانے سے پہلے بہاول پور کالج میں تعلیم کے دوران اس
کی شخصیت میں خود اعتمادی کا فقدان تھا وہ کسی اور سے پہلے ہی اپنی ذات کی
نفی کر دیتا تھا۔کالج کے تعلیمی دور میں وہ داخلی طورپر اپنی شخصیت کا تجزیہ
کرتا رہتا تھا جب اس نے اچھی طرح اس حقیقت کو محسوس کر لیا کہ وہ عملی طور
پر کچھ کر گزرنے کی صالحیت سے محروم ہے اور ایک غیر متحرک قسم کا طالب
علم ہے تو اس نے کتابوں کو بہترین پناہ گاہ تسلیم کرکے اپنی تمام کوفتوں کا درماں
کیا کیونکہ ان دنوں وہ اپنے نقطہ نظر کو ٹھوس انداز میں واضح کرنے کی صالحیت
سے بے بہرہ تھا۔
اعلی
ٰ زندگی میں کچھ پانے کیلئے تعلیم اور بلند مراتب حاصل کرنے کےلیے
تعلیم بہت ضروری ہے۔ جب شہر میں یہ مواقع محدود ہو جائیں اور دل میں آگے
بڑھنے کی لگن بھی اوج کمال کوپہنچ جائے اور کسی پل چین نہ لینے دے تو نقل
مکانی اس کے لیے الزم ٹھہر جاتی ہے اور وہ حصول منزل کے لیے سوئے منزل
روانہ ہو جاتا ہے۔ بحیثیت انسان محمد کاظم نے بھی یہی کیا۔
محمد کاظم کی شخصیت میں یہ احساس شدّت پکڑ چکا تھا کہ وہ روبروکسی
سے بات نہیں کر سکتا اس کی وجہ جسمانی طور پر دُبال پتال اور کوتاہ قامت ہونا بھی
تھا اس لئے وہ کالج کی نشاط انگیز فضا سے ثروت مند نہ ہو سکا اور یہ احساس علی
گڑھ یونیورس ٹی جا کر بھی معدوم نہ ہوا ،پری انجینئرنگ کالسز میں بھی وہ اسی
احساس کے حصار میں قلعہ بند رہا اور زیادہ وقت یونیورسٹی کی الئبریری میں
مختلف ُکتب کے مطالعہ میں صرف کرتا ۔
پری انجینئرنگ کالسز میں صرف دو کالسز ہوتی تھیں اس لئے وہ زیادہ وقت
الئبریری میں مختلف کتب کے مطالعہ میں گزارتا۔جب اس کی عمر مطلوبہ حد کے
مطابق (یعنی سترہ سال )پوری ہوگئی تو اس نے انجینئرنگ کی باقاعدہ کالسز پڑھنا
شروع کر دیں ۔ علی گڑھ میں دو سال قیام کے دوران اس کی شخصیت پر مثبت اثرات
مرتب ہوئے اور خود اعتمادی پیدا ہوئی ۔ یہ تعلیمی ادارہ برصغیر میں نمایاں حیثیت کا
حامل تھا ۔ یہا ں ہندوستان کے دیگر خطوں پنجاب ،دہلی ،مدراس ،بہار ،بنگال وغیرہ
سے طالبعلم آئے ہوئے تھے ۔
اپنی زبان کے عالوہ کسی دوسری زبان میں دلچسپی لینا اور پھر اس میں ید
طولی حاصل ہونا گویا کارہائے نمایاں ہے ۔ محمد کاظم کے گھر میں تو کوئی بھی
ٰ
فردماہر عربی نہ تھا ۔جماعت اسالمی سے تعلق کسی حد تک اس شوق کا محرک ہو
سکتا ہے ۔ دوسری صورت میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس کا طبعی رجحان عربی
کی طرف تھا ۔دوران تعلیم علی گڑھ یونیورسٹی میں موسم گرما کی تعطیالت نہیں
ہوتی تھیں صرف دس بارہ روز کے لئے یونیورسٹی بند ہوتی تھی ۔دوردراز کے زیادہ
تر طالب علم ہاسٹل میں ہی ٹھہر جاتے تھے ٰلہذا محمد کاظم نے بھی یہیں ٹھہرنا
مناسب سمجھااور اس دوران اپنا مطالعہ وسیع کیا ۔
عربی زبان و ادب سے محمد کاظم کو خصوصی لگاؤ ہو گیا تھا جو کہ اس
کے ذاتی شوق اور لگن کا نتیجہ تھا ۔عربی سے اپنی دلچسپی اور محبت کا ذکر اس
انداز سے کیا ہے۔
محمد کاظم نے عربی زبان میں خصوصی مہارت حاصل کر لی تھی یہ
استعداد کسی ڈگری کی محتاج نہ تھی لیکن یہ نیت کا خلوص تھا کہ اس نے اپنی
مصروف ترین زندگی میں عربی کے لئے وقت نکاال۔
جب جذبہ کامل سے کوئی کام کیا جائے تو نشان منزل خود بخود مل جاتا ہے ۔
سب سے اہم بات ہمت کی ہے لیکن اس دوران جو لوگ سہارا دیتے ہیں اور قدم قدم پر
حوصلہ بڑھاتے ہیں وہ ذہن کے دریچوں میں محفوظ ہو جاتے ہیں اور اپنی کامیابیاں
اُن کے نام منسوب کرنے کو دل چاہتا ہے ۔ ایسی ہی ایک شخصیت محمد کاظم کی
رہنما ثابت ہوئی ۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعداگال مرحلہ عملی طور پر زندگی کے کسی شعبے
میں اپنی صالحیتوں کو بروئے کا ر النا ہوتا ہے ورنہ حاصل شدہ تعلیم کار مصرف
ثابت نہیں ہوتی اور جملہ ذہنی صالحیتیں زنگ آلود ہو جاتی ہیں ۔تعلیم کا بروقت اور
برمحل استعمال ہی مالزمت کہالتا ہے ۔محمد کاظم نے بھی جب تعلیم سے فراغت پائی
تو مالزمت کے لئے تگ ودو شروع کر دی ،ان دنوں ملک کی سیاسی فضا بھی آئے
دن فسادات کی وجہ سے بہت پریشان کن صورتحال اختیار کر رہی تھی لیکن وہ پھر
بھی مصروف عمل رہا۔
’’۱۸۴۱ء میں انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد
محمد کاظم نے ڈیڑھ سال کا عرصہ الہور کی ایک
ریلوے ورکشاپ میں انجینئرنگ کی ڈگری کے حصول
کے لئے عملی تربیت میں گزارا اور ۱۸۴۱ء میں
انجینئرنگ کی ڈگری مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے
حاصل کی ۔۱۸۴۸ء میں ریاست بہاولپور کے محکمہ
انہار کے ایک ذیلی ادارے ورکشاپ ڈویژن میں بطور
سب ڈویژنل آفیسر تعینات ہوئے اور ۱۸۶۸ء میں جب
واپڈا کا قیام عمل میں آیا تو اسسٹنٹ ایگزیکٹو انجینئر
کے عہدے سے مالزمت کا آغاز کیا ۔یہاں تک کہ ترقی
کرتے کرتے جنرل منیجر کے عہدے پر پہنچ کر
۱۸۱۹ء میں ریٹائرڈ ہوئے‘‘۔()۱۳
عموما ً خوشیاں ادھوری ہی رہ جاتی ہیں کیونکہ بسا اوقات دوران تکمیل یا
بعداز تکمیل کوئی ایسا حادثہ رونما ہو جاتا ہے جو انسان کو انتہائی دکھی کر جاتا ہے
اور اس کا اظہار لفظوں میں کرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ محمد کاظم بھی مالزمت ملنے
کے بعد کچھ ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہوا جب نئی نئی مالزمت ملی تھی کہ اس
کی والدہ زندگی کی جنگ لڑتے لڑتے ہار گئیں اور موت ہمیشہ کی طرح بازی لے
گئی ۔ اس حوالے سے بڑے بھائی محمد ہاشم شاہ بتاتے ہیں ۔
’’والدہ صاحبہ کی وفات سے ہم دونوں بھائیوں کو بہت
صدمہ ہوا ۔ہم نے اپنی والدہ کی طویل بیماری میں اُن کی
تیمار داری اور عالج میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہم
دونوں بھائیوں نے ان کے آپریشن کی خاطر اپنا اپنا
خون دیا ،الہور آپریشن ہوا ،کراچی میں عالج ہوا،
بہاولپور میں عالج ہوا ،لیکن وہ جانبر نہ ہو سکیں اور
۱۸۴۸ء ماہ ستمبر میں فوت ہو گئیں ‘‘۔()۱۶
دوران مالزمت اپنے ماتحتوں کے ساتھ رویہ ہمدردانہ تھا اور وہ بے جا سختی
کا قائل نہیں تھا۔
کسی بھی شعبے میں مالزمت ملنے کے بعد ساری مالزمت ایک ہی جگہ یا
ایک شہر میں کرنا ممکن نہیں ہوتا ٰلہذا تبدیلی عمل میں آتی رہتی ہے ۔محمد کاظم بھی
دوران مالزمت مختلف شہروں میں تعینات رہا ۔
بسلسلہ مالزمت وہ مختلف شہروں میں رہا ۔ پہلے بہاولپور اور پھر بہاولنگر،
راجڑ ،جوہر آباداور الہور میں قیام رہا سب سے پہلے بہاولپور میں ۱۸۴۸ء سے
۱۸۶۶ء تک رہا یہاں اس کے دو دوست تھے ایک سیّد رحمت اللہ شاہ اور دوسرا نذیر
حسین غوری ۔ اول الذکر اس کا دوست ہونے کے ساتھ ساتھ پھوپھی زاد بھی تھا ۔یہ
عربی زبان کے لیکچرار تھا ۔مؤخرالذکر نذیر حسین غوری ایس ڈی او تھا ۔محمد کاظم
ان کے بارے میں یوں رقم طراز ہے ۔
محمد کاظم کا ایک بہت ہی قریبی دوست جس سے وجہ دوستی دونوں کی ایک
ہی محکمہ اور ایک ہی دفتر میں مالزمت تھی جو بعد میں انتہائی قربت میں بدل گئی
اس کی وجہ دونوں کی دلچسپی کا مشترکہ میدان ادب تھا ۔ یہ دوست محمد خالد اختر
تھا۔
اس کے حوالے سے محمد کاظم اپنے ایک مضمون میں لکھتا ہے ۔
زندگی کا ایک خوبصورت بندھن جسے قید آزادی کے نا م سے بھی تعبیر کیا
جاتا ہے جو ہمارے معاشرتی اور اخالقی تحفظ کا ضامن اور ذہنی یکسوئی میں معاون
ثابت ہوتا ہے وہ ’شادی‘ ہے جو دوافراد کی دوئی کے ساتھ ساتھ دو خاندانوں کو اکائی
کی لڑی میں پروتا ہے ۔محمد کاظم بھی ایسے ہی خوشگوار رشتے میں منسلک ہوا ۔
اس زمانے میں عورتوں کی تعلیم کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی
تھی ۔ابتدائی چند جماعتوں کے بعد سلسلہ تعلیم موقوف کر دیا جاتا تھا ۔چونکہ محمد
کاظم سیّد خاندان سے تھا اس لئے اس گھرانے کی عورتوں کے لئے پردے کی پابندی
الزمی تھی اس دور میں مردوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی لیکن
عورتوں کے امورخانہ کے معامالت میں تعلیم و تربیت کی جاتی تھی تا کہ وہ گھر
دار ی کے معامالت کو بطریق احسن سرانجام دے سکیں ۔
محمد کاظم کی اہلیہ کی صورت حال بھی ایسی تھی ۔وہ زیادہ پڑھی لکھی نہیں
تھیں اور نہ اُنہیں مزید تعلیم حاصل کرنے کا کوئی شوق تھا لیکن گھریلو معامالت میں
وہ پوری طرح دلچسپی لیتی تھیں ۔ ُحسن صورت اور سیرت کی یکجائی ہر کسی میں
ممکن نہیں ہوتی لیکن خوش قسمتی سے وہ ان دونوں خوبیوں سے آراستہ تھیں ۔ابتداء
میں محمد کاظم کی خواہش تھی کہ وہ مزید پڑھیں لیکن پھر رجحان دیکھ کر انہوں
نے ارادہ تبدیل کر دیا اور ایک خوشگوار گھریلو زندگی گزاری ۔
اہلیہ کی وفات کو اس نے اپنے لئے بہت بڑا سانحہ قرار دیا وہ فروری ۱۸۸۱ء
گئیں دے مفارقت داغ میں
اس سانحے کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتا ہے ۔
دونوں کا ۴۱سال پرانا ساتھ تھا ٰلہذا یہ صدمہ بہت گہرا تھا اور اس کے اثرات
شخصیت پر مرتب ہونے ہی تھے۔
اس کے دونوں بیٹے گزشتہ کئی سالوں سے امریکی ریاست کیلیفورنیا میں
مقیم ہیں لیکن اس کے باوجود وہ والد سے بہت محبت کرتے ہیں ۔
محمد کاظم کے بڑے بھائی محمد ہاشم تو جماعت اسالمی میں باقاعدہ طور پر
شامل ہو چکے تھے۔اس وجہ سے انہوں نے سرکاری مالزمت سے اجتناب کیا ۔کچھ
عر صہ تجارت کے بعد زراعت کا پیشہ اختیار کیا ۔انہی کے زیر اثر محمد کاظم بھی
ذہنی طور پر جماعت اسالمی سے متاثر ہو چکا تھا ۔چونکہ وہ سرکاری مالزم تھا اس
لئے باقاعدہ رکنیت اختیا ر نہ کی لیکن وہ موالنا مودودی کی شخصیت سے بہت متاثر
تھا اور ان سے ایک خاص محبت اور عقیدت تھی اسی وجہ سے عربی زبان سیکھی
اور موالنا مودودی کوعرب دنیا میں متعارف کروانے کے لئے ان کی کتب کے عربی
میں تراجم کئے ۔ اس طرح عربی سیکھنے کا جذبہ بڑھتا گیا۔
عربی تعلیم کے سلسلہ میں کچھ عرصہ بعدان کا رابطہ جماعت اسالمی کے
عربی ترجمہ شعبہ دارالعروبہ سے ہو گیا اور۔ اس کے سربراہ مسعود عالم ندوی سے
عربی میں سلسلہ خط وکتابت شروع کر دیا اس طرح عربی میں استعداد بڑھتی گئی
۔مسعود عالم ندوی عربی کے عالم تھے اور محمد کاظم انہیں اپنے استاد کا درجہ دیتا
تھا اور ا ن سے کسب فیض کیا۔
اپنے بھائی کی وجہ سے محمد کاظم کا تعلق مسعود عالم ندوی سے بنا۔ وہ
بھائی کے دوست تھے اور ان کے ذریعے محمد کاظم کا غائبانہ تعارف ہوا ۔
محمد کاظم بلند پایہ محقق و نقاد ،خاکہ نگار اور مترجم تھا
تحقیق کی پرخار وادی میں کسی سندی ضرورت اور مالی منفعت کے بغیر
اُترنا معددوے چندادیبوں کا شیوہ ہے ۔جب شعبہ حیات کے ڈانڈے بھی ادب سے متصل
نہ ہوں تو پھر بھی تحقیقی شاہکار تخلیق کر کے قارئین کو گذشتہ صدیوں کے ادب
اور تہذیب سے روشناس کرانا جو اُن کے لئے مانوس ہونے کے باوجود اجنبی ہوتی
جا رہی تھی بالشبہ ایسی گراں مایہ کاوش ہے جو عبادت کا درجہ رکھتی ہے اور
جس کا صلہ یہی ہے کہ ان تحریروں کی موضوعیت کو پرکھ کر اس عہد کے
تقاضوں کو سمجھا جائے ۔محمد کاظم کی تحقیقی کاوشیں اسی بات کی متقاضی ہیں کہ
انہیں سمجھا جائے اور مزید پیش رفت کے لئے کوشش کی جائے ۔
محمد کاظم نے ما قبل اور مابعد اسالم شعراء کے حاالت زندگی اور نمونہ کالم
کا جائزہ فکری گہرائیوں کے ساتھ لیا ہے اور بغیر لگی لپٹی انہیں سادہ اسلوب اور دل
نشین انداز میں پیش کیا ہے ۔
بطور محقق ’’عربی ادب میں مطالعے اور ’’عربی ادب کی تاریخ ‘‘ اس کے
تحقیقی جنون کا شاہکار ہیں کیونکہ اہل علم کا جنون عام مجنونوں سے مختلف ہوتا
االول ان تحقیقی مضامین کا مجموعہ ہے جو عربی ادب کے چیدہ چیدہ
ہے ۔مذکورہ ّ
حصوں کا احاطہ کرتا ہے اور مذکوراآلخر میں عربی ادب کی تاریخ ،زمانہ جاہلیت
سے موجودہ دور تک سموئی گئی ہے ۔یہ دونوں کتب نثرنگاری کا شاہکار ہیں ۔ اس
میں لفظوں کی ایسی ماالئیں پروئی ہیں کہ کوئی لفظ بھی اپنی جگہ سے د ستبردار
نہیں ہو سکتا ۔
اصناف ادب میں ترجمہ نگاری کی اہمیت سے انکار ناممکن ہے کیونکہ ہر
زبان کا ادب اپنے عہد کا نباض اور ترجمان ہوتا ہے کیونکہ اس میں اس عہد کی
تہذیب سانس لیتی دکھائی دیتی ہے اس لئے وہ کسی بھی تہذیب کے لیے اچھے
اورمثبت پہلو ضرور رکھتا ہے کسی بھی معاشرے کی تہذیب و ثقافت اور ادب سے
آگاہی اسی صورت میں ممکن ہے جب اس ادب کا مطالعہ کیا جائے اوریہ اسی
صورت میں ممکن ہے کہ اس زبان کی سوجھ بوجھ ہو لیکن یہ کام کوئی فاضل ادیب
ہی کر سکتا ہے کہ وہ سوجھ بوجھ حاصل کر کے زبان سیکھے اور بذریعہ ترجمہ
اس ادب کو اپنی زبان میں انتہائی دیانتداری سے منتقل کرے کیونکہ ایک زبان کی
معنوی لطافتوں اور ادبی محاسن کو دوسری زبان کے ادبی اور لسانی پیرایوں میں
منتقل کرنا بظاہر آسان نظر آنے واال کام حقیقت میں زیادہ مشکل ہے کیونکہ یہ
سرحدوں کوباہم مالتا ہے ۔
محمد کاظم کی ادبی شخصیت کی پرتیں تہہ در تہہ کھلتی ہیں اور قارئین کے
گرد ایک حصار باندھ لیتی ہیں جن کے سحر سے نکلنا مشکل ہو جاتا ہے بلکہ اس کی
فکر کے پہلو بہ پہلو چل کر ہی اس کی حقیقت کو سمجھا جا سکتا ہے جو وہ ہمیں
سمجھانا چاہتا ہے۔ وہ اس صورتحال کو بھانپ چکا تھا کہ ہم دوسری اقوام کی تہذیب و
ثقافت سے آہستہ آہستہ دور ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ ان کی زبان ہمارے لئے اجنبی
تھی اس لئے اس عہد اور اس کے تقاضوں کو سمجھنے کے لئے اس نے تراجم
جیسے کوہ گراں کو سر کرنے کا فیصلہ کیا اور ترجمہ نگاری کا آغاز کر دیا ۔محمد
کاظم کے تراجم اسلوب بیان کی سادگی اور لفظوں کی بُنت کاری میں اپنی مثال آپ
ہیں ۔اس نے اس مقصد کیلئے جن کتب اور شخصیات کا انتخاب کیا ہے وہ عہد حاضر
کے تقاضوں کو پورا کرتی ہیں اور آنے والی نسلوں کے لئے تحقیقی و ادبی جستجو
کا پیش خیمہ ثابت ہوں گی ۔ فن ترجمہ نگاری کے اصولوں کے اندررہتے ہوئے تراجم
اس انداز سے کئے ہیں کہ وہ طبع زاد معلوم ہوتے ہیں ۔
’’اسالم اور جدیدیت ‘‘’’ ،جنید بغداد‘‘مزید برآں موالنا مودودی کی کتب کے
عربی میں تراجم کر کے الزوال مثال قائم کر دی ۔ایسی رواں اور شستہ عربی کہ جس
نے اہل عرب کو متحیر کر دیا ۔یہ اس کی تحقیقی لگن کا ثبوت ہے کہ اس نے ان تھک
محنت کی اور عالم اسالم کی ہم آہنگی کے لئے بھرپورسعی کی ۔یہ ذمہ داری اس نے
بغیر کسی دباؤ کے احسن انداز میں نبھائی ۔ان تراجم کی بدولت ایک خاص لسانی ،
جغرافیائی اور تہذیبی شعور بیدار ہوتا ہے اور اہل عرب پر اس کی عربی دانی کی
۔ گئی بیٹھ دھاک
محبت اور عقیدت میں فرق ہے ۔ محبت میں انسان خوبیاں اورخامیوں دونوں پر نظر
رکھتا ہے یہ الگ بات ہے کہ وہ دانستہ خامیوں سے صرف نظر کر لے لیکن عقیدت
میں دائیں بائیں دیکھنے کی اجازت نہیں ہو تی صرف نقش قدم پر چلتے ہیں اور وہ
بھی ہر طرح کی خامیوں پر آنکھیں بند کر کے اور سر جھکا کر چلتے ہیں ۔
خاکہ نگاری ایسی صنف ہے جس کی صالحیت ہر شخص میں فطری طور پر
ہوتی ہے لیکن اسے لفظوں میں ڈھالنا ہر انسان کے بس کی بات نہیں کیونکہ لفظ خود
کو منواتے ہیں اور اس کے لئے ایک خاص ذہنی اُپج درکار ہوتی ہے ۔خاکہ نگار
شخصیت کے چند خاص پہلوؤں کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ سوانح نگاری کے بغیر
۔ ہے جاتا آ سامنے عکس کا پہلوؤں جملہ کے شخصیت
بطورخاکہ نگار محمد کاظم نے اپنے قریبی دوستوں کو موضوع بنایا ہے جن میں اہل
قلم شخصیات بھی شامل ہیں ۔ اس نے روایتی خاکہ نگاری سے قطع نظر اپنے
مخصوص اور بے الگ انداز میں ان افراد کی مجموعی شخصیت کا بھر پور تاثر
دینے کی کوشش کی ہے ۔کیونکہ ذاتی یادیں بیانیے سے مختلف ہوتی ہیں اور ذاتی
حوالہ انہیں بے حد دلچسپ بنا دیتا ہے ۔محمد کاظم نے اپنی یادوں سے انہیں بازیافت
پرخلوص انداز میں تنقید کی ہے جس سے قارئین کے علم میں
کیا ہے اور ان پر ُ
وسعت پیدا ہوئی ہے ۔خاکہ نگاری کیساتھ ساتھ حلیہ نگاری اس اندا زسے کی ہے کہ
یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم براہ راست ان لوگوں کو دیکھ رہے ہیں اور اسی عہد
میں جی رہے ہیں ۔محمد کاظم طبعاًصلح جو انسان تھا اس لئے اس نے منفی پہلوؤں پر
کم اور مثبت پہلوؤں کوزیادہ موضوع بنایا ہے ۔یہ انداز معروضیت سے تھوڑا دور ہو
جاتا ہے لیکن اسلوب بیان کی سادگی اور چاشنی آخر تک برقرار رہتی ہے۔ جن
شخصیات پر خاکہ نگاری کی ان میں مختار مفتی ،علی عباس جالل پوری ،محمد
خالد اختر ،احمد ندیم قاسمی ،اختر حسین جعفری شامل ہیں ۔ جو اسلوب اپنایا اس سے
متعلقہ فرد سے اس کے تعلق کی نوعیت واضح ہو جاتی ہے۔
ت نقید ہماری حیات کا الزمی جزوہے جو اس شاہراہ میں قدم قدم پر ہماری
رہنمائی کرتا ہے اس کے بغیر کوئی منزل سر نہیں ہو سکتی ۔ادب میں تخلیق اور
تحقیق ایک ہی زاویے کے دو ُرخ ہیں ۔دونوں ہی تنقید کے بغیر سادہ کاغذ کی مانند
ہیں۔تنقید کے بغیر کسی بھی تخلیق کا وجود میں آنا ناممکن ہے لیکن اس کے لئے جو
بات زیادہ اہم ہے وہ تنقیدی شعور ہے کیونکہ اس کی عدم موجودگی سے کوئی
شاہکار وجود میں نہیں آتا ۔تخلیقی عمل میں یہ وجدان کی حیثیت رکھتا ہے ۔کوئی بھی
ادیب یا فنکارفن پارے کی تخلیق کے دوران کانٹ چھانٹ اس لئے کرتا ہے کہ اس کا
تنق یدی شعور ا سے ترک و انتخاب کی ترغیب دیتا ہے ۔کوئی تخلیقی ادیب اگر نقاد
نہیں ہے تو یہ اتنا اہم نہیں لیکن اس میں تنقیدی بصیر ت ضروری ہے ۔کسی بھی ادیب
کے ادبی مقام کا تعین بھی اسی شعور کی بناء پر کیا جاتا ہے کیونکہ بوقت تخلیق اس
صالحیت کی کمی بیشی اُسے چھوٹا یا بڑا ادیب بناتی ہے ۔
محمد کاظم کی نپی تُلی ادبی تحریریں اس کے تنقیدی شعور کی ضامن ہیں
مزید برآں مختلف کتب پر اس کے تبصرے اور جائزے فنون میں شائع ہوتے تھے جو
اس کی ناقدانہ بصیرت کا ثبوت ہیں اور اسے ایک معروضی نقاد ثابت کرتے ہیں ۔ اس
نے بالتعصب مختلف شخصیات پر مضمون نگاری کی ۔اس کی مثال ’’اخوان
۔ ہیں مضامین دیگر جبران‘‘اور خلیل ’’جبران الصفاء‘‘،
سفرنامہ نگاری کی صنف ادب میں قدیم روایات کی حامل ہے دوران سفرپیش آنے
والے حاالت و واقعات اور تاثرات کومخصوص انداز میں قلمبند کرنا سفر نامہ کہالتا
ہے ۔اسے آپ بیتی کی ایک شکل کہا جا سکتا ہے ۔اگر سفر نامے میں اسلوب بیان اور
معیار کاخیال رکھا جائے تو یہ کسی ناول اور افسانے سے کم نہیں ۔ اس کے لئے سفر
نامہ نگار کا مشاہدہ ،مطالعہ اور اسلوب بنیادی اہمیت کے حامل ہیں ۔سفرسیاحت کے
طور پر کیا جائے اور قاری کو شریک سفر بنایاجائے اور ذہن ہر قسم کے تعصب
سے باالتر ہونا چاہئے ۔زمانہ قدیم کے سفر اور موجودہ دور کے ذرائع سفر میں بہت
فرق ہے ۔اس لئے ضروری ہے کہ مبالغہ آرائی سے اجتناب کرتے ہوئے ایمانداری
سے تمام واقعات و تاثرات سامنے الئے اور جان بوجھ کر عالمانہ انداز اختیار نہ
کرے ۔کیونکہ اسلوب کی سادگی ہی لفظوں میں چاشنی پیدا کرتی ہے ۔
محمد کاظم دوران مالزمت ایک سال کے تربیتی پروگرام کے لئے مغربی
جرمنی گیا ۔لیکن یہ سفر نامہ صرف دو ماہ کا احاطہ کرتا ہے جو اس نے جرمن زبان
سیکھنے کے لئے ایک گاؤں آخن میوہلے میں گزارے ۔ باقی دس ماہ کی سرگزشت
ا بھی اس نے کہنی تھی لیکن کاروبار حیات نے مہلت نہ دی اور پیغام اجل آپہنچا ۔اس
سفر نامے میں اس نے کرداروں کو مرکزی حیثیت دی ہے اور ایک منفرد اسلوب
اختیار کیا ہے ۔
محمد کاظم بلحا ظ مالزمت ایک ایسے پیشے سے منسلک تھے جس کا ادب
سے کوئی ربط نہ تھا لیکن اس کے باوجود وہ اپنے ذوق کی آبیاری کرتے رہے اور
جس صنف کے لئے بھی لکھا منفرداور اچھوتے انداز میں ایک تاثر قلمبند کر کے
قاری کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ اس نے اپنے معموالت حیات بھی اس کے مطابق
ترتیب دے لئے تھے ۔روز مرہ زندگی میں وہ سنجیدہ رہنے واال کم گو انسان تھا لیکن
اس کی شوخ طبعی اس کے سفرنامے ’’مغربی جرمنی میں ایک برس ‘‘میں لفظوں
کی ردا اوڑھے سامنے آتی ہے کیونکہ وہ خشک طبیعت کا انسان نہیں تھا بلکہ دوران
مالزمت وہ ادبی لحاظ سے زیادہ متحرک تھا ۔
مکتوب نگاری ابتدائے آفرینش سے مختلف ادباء کا خاصہ رہا ہے ۔ انسان کی
شخصیت ایک ایسا گورکھ دھندہ ہے جس کو سمجھنا بہت مشکل ہے ۔ شخصیت کی
داخلی کیفیات تہہ در تہہ پرتوں میں چھپی ہوئی ہیں جنہیں بے نقاب کرنا کسی دوسرے
انسان کے بس کی بات نہیں ہے یہ تو خود مکتوب نگار کی ذات ہے جو کسی خاص
کیفیت کے زیر اثر اپنی ذات کے راز کھول دیتی ہے اور مکتوب الیہ کے ساتھ ساتھ
عام قاری کو بھی جہان حیرت کی سیرکرا دیتی ہے ۔مکتوب نگار کے جذبات و
احساسات لفظ بن کر سامنے اُبھرتے ہیں اور مکتوب الیہ کے ساتھ اس کے دلی جذبات
کو ظاہر کرتے ہیں ۔
ہر نارمل انسان کی طرح محمد کاظم کی شخصیت میں یہ عنصر شامل تھا کہ
زیادہ سے زیادہ لو گ انہیں ادبی تحریر وں کی وجہ سے پہچانیں ۔ اس مقصد کو پانے
کے لئے وہ قصدا ً ایسے خطوط تحریر کرتا تا کہ مدیر فنون احمد ندیم قاسمی انہیں
اپنے رسالے میں شائع کریں جو ادبی دنیا میں اس کا حوالہ بن سکیں ۔
د راصل احمد ندیم قاسمی اپنی ذات میں انجمن تھے ۔وہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ
خط کوئی اور پڑھے اور ان کے اندرونی معامالت سے باخبر ہو ۔اس لئے انہوں نے
یہ خطوط شائع نہیں کئے ۔وہ خطوط کو ادب کی ایک صنف سمجھتے تھے ۔
اس حوالے سے وہ کہتے ہیں ۔
محمد کاظم کے زیادہ خطوط احمد ندیم قاسمی اور محمد خالد اختر کے نام تھے
اس کے عالوہ مغربی جرمنی میں قیام کے دوران انہوں نے اپنی بیگم کے نام خطوط
لکھے جس کا سلسلہ اس کی مراجعت وطن تک رہا۔چونکہ وہ جامع الحیثیت شخص
تھا اس لئے اس نے اپنی ہر حیثیت کو منوایا ۔ اس کی ادبی تحریروں اور بعض خطوط
میں مماثلت ہے اور وہ اس لئے ہے کہ کچھ خطوط وہ شعوری طور پر تنقیدی
بصیرت کے ساتھ لکھتا تھا ۔ ورنہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کچھ ادباء کی
شخصیت خطوط کے آئینے میں ان کی تحریروں کے مقابلے میں مختلف ہوتی ہے ۔
اس میں ادبی چاشنی مفقود ہوتی ہے۔
محمد کاظم کے عربی زبان سے لگاؤ نے مسعود عالم ندوی کو بھی حد درجہ
متاثر کیا۔
اس کے بعد محمد کاظم کے موالنا مودودی سے براہ راست علمی و ادبی
تعلقات ہوگئے اورا نہوں نے عربی میں ترقی کرنا شروع کی ۔مسعود عالم سے اصالح
کا سلسلہ کچھ عرصہ رہا ۔آخر ۱۸۶۱ء میں انہیں دارالعروبہ سے موالنا مودودی کے
پمفلٹ ’’اسالم کا اخالقی نقطہ نظر ‘‘کا عربی میں ترجمہ کرنے کے لیے کہا گیا جو
بہاولپور میں جامعہ عباسیہ کے پرنسپل محمد ناظم ندوی کی زیر نگرانی کیا گیا ۔محمد
کاظم نے جب یہ ترجمہ مکمل کیا تو انہیں اور بھی کام ملنے لگا ۔اس کام کا نقطہ
عروج موالنا مودودی کی کتابیں ’’پردہ ،تنقیحات ‘‘تھیں جو انہوں نے بہت جان مار
کر عربی میں منتقل کیں اور جو عرب ملکوں میں شائع ہو کر بہت مقبول ہوئیں جن
کتابوں کا محمد کاظم نے عربی میں ترجمہ کیا ان کی تفصیل یہ ہے ۔
الجزائر سے ایک عربی ادبی رسالہ ’’البصائر ‘‘نکلتا تھا ۔اس میں اس نے
موالنا مودودی کی شخصیت کے بارے میں مضمون ۴اقساط میں لکھا اس میں محمد
کاظم نے اپنے نا م کی جگہ اپنے بیٹے کا نام استعمال کیا ۔
من ھوالمودودی تعلیق علی مقال االستاد الرئیس بقلم ابی طیب سباق (۱ ۱۔
اکتوبر ۱۸۶۳ء)
من ھوالمودودی تعلیق علی مقال االستاد الرئیس بقلم ابی طیب سباق ۱۔
(۸اکتوبر ۱۸۶۳ء)
من ھوالمودودی تعلیق علی مقال االستاد الرئیس بقلم ابی طیب سباق ۳۔
(۱۳اکتوبر ۱۸۶۳ء)
من ھوالمودودی تعلیق علی مقال االستاد الرئیس بقلم ابی طیب سباق ۴۔
(۳۰اکتوبر ۱۸۶۳ء)()۴۰
اپنا نام نہ لکھنے کی کوئی خاص وجہ نہ تھی غالبا ًاپنی فطری کم آمیزی کی
وجہ سے ابھی وہ پس منظر رہنا چاہتے تھے تاکہ پُرسکون ہو کراپنا کام کر سکیں
کیونکہ وہ خود کو اس قابل نہیں سمجھتے تھے کہ کسی بڑے ادبی رسالے میں اردو
میں لکھ سکیں اس کا ذکر انہوں نے فنون میں اپنی پہلی شائع ہونے والی تحریر کے
حوالے سے بھی کیا ہے۔
محمد کاظم کے ہم عصر ادباء میں مسعود اشعر ،علی عباس جالل پوری ،سبط
حسن ،صالح الدین محمود ،اکرام اللہ محمود الحسن اور احمد ندیم قاسمی نمایاں ہیں
محمد کاظم نے ان قد آور معاصرین کے درمیان جس طرح اپنی منفر د پہچان بنائی وہ
اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اپنے کام کے حوالے وہ بے حد حساس تھا ۔
محمد کاظم ایک مختلف اور غیر روایتی قسم کے ادیب ہے اس کی بعض
خصوصیات ایسی ہیں جن میں وہ اپنے معاصرین سے الگ دکھائی دیتا ہے اس کے
اسلوب میں سادگی اور نیاپن ہے اس نے شہرت اور نام و نمود کو کبھی اپنا مقصد
نہیں بنا یا ۔
آج سے بہت عرصہ پہلے عربی میں مضامین لکھتا تھا اور عربی میں تراجم
کرتا تھا تو محمد کاظم سباق لکھتا تھا ۔ اپنے نام سبا ق کی وضاحت اس طرح کرتا ہے
۔
۱۸۴۱ء میں اس کا ایک خط اور پہلی تحریر موالنا چراغ حسن حسر ت کے
روزنامہ ’’امروز ‘‘میں ادارتی صفحے پر شائع ہوئی اس کاعنوان تھا ۔
یہ ان کی پہلی تحریر تھی ۔جس سے ان میں خود اعتمادی پید ا ہوگئی پھر ان
کی دلچسپی عربی ادب سے ہوگئی اس کے ساتھ ساتھ انگریزی ادب کا گہرا مطالعہ
کیا ۔انگریزی ادب پڑھنے کا مشورہ ان کے دوست محمد خالد اختر نے دیا اور
انگریزی مصنفین کے بارے ان کی رہنمائی کی ۔اس کے بعد ان کی دلچسپی اْردو و
ادب سے پیدا ہوگئی ۔
وہ نہ صرف تراجم کرتا تھا بلکہ طبع زاد عربی مضامین ،خطوط اور ادبی
مضامین مختلف رسائل کے لیے لکھتا رہتا تھا۔
محمد کاظم نے باقاعدہ اردو میں لکھنے کی ابتداء کب کی اس سلسلے میں یہ
حوالہ دیکھیں :
اس دوران چند ایک دوسرے ادبی رسائل کے لیے بھی لکھا ۔ان میں ’’*افکار
*‘‘’’،صحیفہ *‘‘*’’،ماہ نو‘‘*’’،سرچشمہ‘‘ ،اور’’ *سوغات ‘‘(بنگلور انڈیا )قابل
ذکر ہیں ۔رسائل میں لکھنے کے ساتھ ساتھ اسالمی موضوعات پر چار علمی کتابوں
کے انگریزی سے اْردو زبان میں ترجمے بھی کیے ۔‘‘()۴۶
فنون میں اپنے فنی سفر کے آغاز کے متعلق محمد کاظم یوں رقم طراز ہے ۔
احمد ندیم قاسمی سے میرے تعلق کا زمانہ چالیس برس سے زیادہ پر پھیال ہوا
ہے ۔ ۱۸۱۱ء کا سال تھا ۔محمد خالد اختر اور میں اس زمانے میں بجلی کے بڑے دفتر
بھارت بلڈنگ میں کام کرتے تھے ۔ میرا دفتر دوسری منزل پر تھا اور خالد کا تیسری
منزل پر کبھی کبھی ہم اپنے کا م سے ذرا فارغ ہوتے تو ایک دوسرے کے پاس چلے
جاتے ۔چائے پیتے اور کچھ گپ شپ کرتے ایک دن اسی طرح میں اوپر خالد کے
کمرے میں جانے لگا تو کیا دیکھتا ہوں کہ احمد ندیم قاسمی خالد سے ملنے آئے ہوئے
ہیں پہلے تو میں جھجکا اور اْلٹے پاؤں واپس جانے کا سوچا لیکن پھر ہمت کر کے
میں بھی وہاں جاکر خالد کی جہازی میز کے ایک طرف ندیم صاحب سے کچھ فاصلہ
رکھ کر بیٹھ گیا ۔
محمد خالد اختر نے ندیم صاحب سے میرا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ میرے
یہ بہاولپوری دوست بھی ادب کا ذوق رکھتے ہیں اور کچھ لکھتے بھی رہتے ہیں اس
پر ندیم صاحب نے ازراہ مروت مجھے بھی ’’فنون ‘‘کے لیے کوئی چیز دینے کو کہا
جسے میں نے بالکل سنجیدگی سے نہ لیا ۔کہاں احمد ندیم قاسمی جیسے ادیب شہیر کا
ادبی رسالہ اور کہاں میں جس نے اردو زبان میں ابھی حال ہی میں لکھنا شروع کیا
تھا ۔
اس بات کوکئی ماہ گزر گئے آخر اپریل 6711ء میں ’’فنون ‘‘کا پہال شمارہ
منظر عام پر آیا ۔اس میں ہندوپاکستان کے چوٹی کے افسانہ نگاروں ،شاعروں اور
مضمون نگاروں کی محفل سجی تھی ۔
ندیم صاحب کی اس پہلی مالقات والی فرمائش کے باوجود میں اپنے اندر
’’فنون ‘‘میں کچھ لکھنے کا حوصلہ پیدا نہ کرسکا۔’’فنون ‘‘کا دفتران دنوں انار کلی
کو جانے والی سٹرک پر بائبل بک سوسائٹی کے سامنے ایک سٹیشنر کی دکان کی
دوسری منزل پر تھا ۔دفتر میں دو چھوٹے چھوٹے کمرے تھے پہلے کمرے میں مدیر
فنون بیٹھتے تھے اور دوسرے کمرے میں حکیم حبیب اشعر دہلوی،جو رسالے کے
جائنٹ ایڈیٹر تھے اپنا مطب کرتے تھے ایک دن میں بائبل بک سوسائٹی کے فٹ پاتھ
پر کھڑا تھا کہ حبیب اشعر سیڑھیاں اْتر کر تیز تیزقدموں سے چلتے ہوئے میرے پاس
آئے اور کہنے لگے کہ ’’فنون ‘‘میں اپنا کوئی مضمون یا عربی سے کوئی ترجمہ کر
کے دو ۔یہ بہت ضروری ہے ۔اس لیے کہ مجھ سے آج کل لکھا نہیں جا تا اور میں
ندیم بھائی کے سامنے شرمندہ ہوں۔اس فرمائش پر میں نے کچھ لیت و لعل کی لیکن
حبیب اشعر کا تقاضااتنا پُراصرار تھا کہ مجھے ہاں کرتے ہی بنی ۔مجھے یاد ہے میں
نے پور ا ایک ماہ دن رات ایک کرکے فنون کے لیے اپنا پہال مضمون ’’الف لیلہ
عربی ادب میں ‘‘لکھا اور اسے جاکر حبیب اشعر کے حوالے کر دیا ۔اس لیے ندیم
صاحب کو پیش کرنے کا مجھ میں حوصلہ نہیں تھا ۔اس بات کو جب ایک ہفتہ گزر گیا
تو میں ایک مدیر ’’فنون ‘‘کی نظر بچا کر حبیب اشعر کے پاس ان کے مطب میں گیا
اور ان سے گزارش کی کہ ندیم صاحب سے پوچھ دیں کہ میرا مضمون ’’فنون ‘‘کے
معیار پر پورا اترا ہے یا نہیں ؟حبیب اشعر نے بیچ کی کھڑکی میں سے جھانک کر
ندیم صاحب سے دریافت کیا تو جواب مال کہ ان کا مضمون ’’فنون ‘‘کے معیار سے
کچھ اْونچا ہی ہے اور بہت اچھا ہے ۔
’’فنون ‘‘جیسے چوٹی کے ادبی رسالے کے مدیر کا ایک نئے لکھنے والے
کے پہلے مضمون پر اپنی رائے کا اس طرح بر مال اور بے تحفظ
) (Unreservedاظہار !یہی وہ چیز تھی جس نے ندیم کو ایک کامیاب اور ہر دلعزیز
مدیر بنایا اور جس کی بدولت انہوں نے اْبھرتے ہوئے ادیبوں اور شاعروں کو ایک ان
دیکھی قوت کے ساتھ اپنی طرف کھینچا اور ان کی مناسب تربیت اور حوصلہ افزائی
سے ادب میں ان کی ترقی کی راہیں کھول دیں ۔
محمد کاظم جون 6791ء کے آخر میں اپنے محکمے کی طرف سے ایک سال
کی ٹریننگ کے لیے مغربی جرمنی گیا ۔تو اس کے ساتھ دو اور ساتھی شیخ اور
شہزادہ بھی تھے ۔خیاالت تو پہلے ہی تبدیل ہو چکے تھے اور جرمنی جاکر جو مزید
سنیے۔
تبدیلی آئی وہ اس کی زبانی ُ
’’ باہر یورپ کے موسم گرما کی شام کا طویل جھٹپٹا ابھی باقی تھا ۔میں پچھلی
کئی راتوں کا جاگا ہوا اور تھکن سے چور اب اس نرم اور بے داغ بستر کی آسائش
میں دبکنا چاہتا تھا ۔لیکن اس سے پہلے مجھے ایک ایسے کام سے نمٹنا تھا جسے میں
کئی برسوں سے کچھ اپنی کاہلی اور کچھ بزدلی کے سبب ٹالتا چال آرہا تھا ۔آج اس
معاملے میں پس و پیش کرنے اور اسے آئندہ پرٹالنے کی کوئی گنجائش نہ تھی اس
لیے کہ میں نے اس سفر پر آتے ہوئے اپنے پیچھے کشتیاں جال ڈالی تھیں اور اپنی
ٹھوڑی کے بالوں کی تراش خراش کا سامان گھر چھوڑ آیاتھا میری مختصر سی
خشخشی ڈاڑھی تین چار روز میں کافی بڑھ چلی تھی چنانچہ میں نے اْٹھ کر اپنے
تھیلے سے شیو کا نیا خرید کردہ سامان نکاال اور ہوٹل مک کی تیسر ی منزل پر واقع
اس کمرے میں شیشے کے سامنے کھڑے ہوئے اپنے چہرے پر سے وہ نقاب اْتارنے
لگا جو ایک عرصہ سے اپنا جواز کھو چکا تھا اور جس نے بال وجہ میرے اصل
چہرے کو مستور کر رکھا تھا ۔عجیب بات ہے کہ ایسا کرتے ہوئے میرے ہاتھ ایک
ل محے کے لیے بھی ٹھٹکے اور نہ میں نے دل کے کسی نہاں گوشے میں افسوس اور
ندامت کی کوئی کھٹک محسوس کی ۔
مذہب کے نام پر تنگ نظری ،کھوکھلی پارسائی ،تعصب اور پست خیالی کے
ایسے ایسے نظائر دیکھنے میں آئے تھے کہ مذہب کی اس روایتی صورت سے جی
بر گشتہ ہو گیا تھا ۔اور انسان یہ چاہنے لگا تھا کہ اپنی شخصیت سے ہر وہ اثر اور ہر
وہ عالمت محو کر دے جو اسے کسی طورپر مذہبی ٹولے سے وابستہ کرتی ہو!
آئینے میں اب میرا چہر ہ صاف اور روشن نکل آیاتھا ۔میں نے محسوس کیا کہ
اپنی داڑھی کے کھچڑی بالوں کے ساتھ میں نے اپنی عمر کے چند ایک سال بھی پانی
کی راہ بہاد یئے تھے ۔مجھے شیشے میں اپنے اس جواں تر روپ سے مالقات کر کے
بہت مسرت ہوئی اور میں اس ہیجان مسرت میں اپنا یہ حلیہ دکھانے کیلیے ’’شیخ
‘‘کے کمرے کی طرف چال گیا ۔
آ۔۔۔ہا ۔۔۔۔اے کی دیکھ رہے ہیں ہم ’’شیخ مجھے دیکھتے ہی کرسی سے اْچھل
پڑا میں تو اس چہرے کا پیار لے کر رہوں گا‘‘۔ و ہ وفور مسرت میں مجھ سے لپٹ
گیا ۔
’’ کیا خیال ہے ،اچھا نہیں کیا میں نے ؟میں نے جھینپتے ہوئے اس سے پوچھا
’’بہت اچھا کیا ہے ‘‘شیخ نے قطعیت کے ساتھ جواب دیا ’’سچ !یہ کام تو آپ کو بہت
پہلے کر لینا چاہیے تھا ۔خواہ مخواہ اتنا عرصہ اپنی شکل کچھ سے کچھ بنائے رکھی
۔بہت اچھے !بات ہوئی نا!
اور اس رات میں زندگی میں شاید ایک بار پھر اس تجربے کی لذت سے آشنا
ہوا جو انسان کو اپنے ماضی کے کچھ نا پسند یدہ عالئق سے دامن چھڑا کر ہوتا
ہے۔وہ ایک نیا ملک تھا ۔اس میں انسانوں کے اطواراور اخالق کے ضابطے بھی نئے
تھے ۔اور اْس کے ایک شہر میں ایک نئی چھت کے نیچے ایک نئی شخصیت کے
ساتھ لیٹا ہوا میں اپنے اندر ایک عجیب آزادی اور ہلکا پن محسوس کر رہا تھا ۔میرے
سامنے اب ایک ایسا مستقبل تھا جس کے امکانات المحدود تھے اور ماضی فی الحال
پہاڑ ی کی اوٹ میں چال گیا تھا‘‘۔()۶۱
اس کے بعد محمد کاظم نے عربی ادب کے حوالے سے بہت کام کیا لیکن ذہنی
ْرجحان تبدیل ہو گیا اور نقطہ نظر میں واضح تبدیلی دیکھنے میں آئی ۔وہ ادب میں
نظریہ فن کے قائل نہیں اس کا کہنا یہ ہے کہ فن تو فن ہوتا ہے ۔جس کی بنیا د ذوق
جمال ہے اور فن کا مقصد پڑھنے والوں کو مسرت پہنچانا ہوتا ہے اور وہ خود کو
کسی نظریاتی تحریک سے ْکلی طور پر متفق و متاثر نہیں سمجھتا بلکہ اس کا کہنا یہ
ہے کہ:
محمد کاظم اور مودودی کے درمیان اختالف کی وجہ شاکر حسین شاکر اس
طرح لکھتے ہیں۔
آخری ایام:
لکھنے کے کام سے مختلف بیماریوں کے باعث محمد کاظم آخری ایام میں
عملی طور کنار ہ کش ہو گیا تا ہم وہ چڑ چڑ ے پن کا شکار نہیں ہوا تھا ۔خندہ پیشانی
تادم آخر مزاج کا خاصہ رہی ۔
ڈاکٹر انوار احمد نے سہ ماہی پیلھوں کا چوتھا شمارہ انہیں ارسال کیا تو جواب
میں محمد کاظم کا اْداس کردینے واال خط پیلھوں کے شمارہ ۶میں کچھ اس طرح ہے
۔
’’آپ کا بھیجا ہوا ارسالہ ’’پیلھوں ‘‘کا چوتھا شمارہ موصول ہوا ،اس عنایت
کے لیے بے حد شکر گزار ہوں ،رسالے کو میں نے سر سری طور پر دیکھا اور
اسے دل چسپ پایا ہے ا س کے مطالعے میں میں کچھ دن اچھے گزر جائیں گے لیکن
مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہو رہا ہے کہ رسالے کے ضمن میں آپ نے جو کام
میرے ذمے لگائے ہیں ان میں سے کوئی بھی انجام نہیں دے سکوں گا۔وجہ اس کی
بڑھاپا ہے ۔(میر عمر ستاسی ۱۹برس سے اْوپر ہو چکی ہے )اور بڑھاپے کی الئی
ہوئی نا توانی اور بے کاری اور بے دلی ہے ۔اب کوئی محنت طلب کام کرنے کی
طاقت اور ہمت نہیں رہی ۔لکھنے کا کام عرصہ دوسال سے بالکل بند ہے۔پڑھنے کا
کام البتہ کر لیتا ہوں ۔وہ بھی ہلکی پْھلکی چیزیں مثالَ ََ افسانے ،سفر نامے ،یا د
داشتیں وغیر ہ پڑھنے کا ۔ٹھوس علمی اور تنقیدی مقاالت بھی نہیں پڑھے جا سکتے
۔ان حاالت میں مجبور ہوں کہ آپ کے پیلھوں کے لیے کچھ نہیں لکھ کے بھیج سکتا
۔رہے میرے با ذوق اور صاحب دل احباب تو افسوس ہے کہ وہ بھی اب زیادہ نہیں
رہے ۔ان میں سے اکثر ایک ایک کر کیاللہ کو پیار ے ہوچکے ہیں اور مجھے اکیال
چھوڑ دیا ہے۔
میں مختلف عوارض کا شکار ہوں ،دْعا کریں کر جتنے دن بھی میری زندگی
کے باقی ہیں وہ چلتے پھرتے گزر جائیں اور اللہ کسی کا محتاج نہ کرے اْمید ہے کہ
آپ میری معذرت ْکھلے دل سے قبول فرمائیں گے‘‘ ۔()۶۴
محمد کاظم
۱۳۳سی ،ٹیک سوسائٹی نیو کیمپس الہور
۱۱فروری ۱۰۱۴ء
انتظار حسین محمد کاظم کے آخری ایام کی مصروفیت کے بارے میں لکھتے
ہیں
’’ اب وہ اپنی آپ بیتی لکھ رہے تھے اس دور کے بارے میں جو انہوں نے
علی گڑھ یونیورسٹی میں گزارا وہ بہت کچھ لکھ بھی چکے تھے ۔مگر یہ ان کی
تحریر ادھوری ہی رہ گئی ۔اس کی تکمیل سے پہلے پیغام اجل آگیا‘‘ ۔()۶۱
سید کاظم نے فالج نمونیہ اور برین ہیمرج کے جان لیوا حملے کی وجہ سے
مختصرعاللت کے بعد تقریبا َ ََ اٹھاسی برس کی عمر ۱۱اپریل بروز منگل ۱۰۱۴ء
کو اس جہاں فانی سے رخصت ہو گئے۔ جہاں سینکڑوں مداحوں کی موجودگی میں
۔ گیا کیا ک خا د سپْر انہیں
ہم عصر قلم کا روں کا خراج عقیدت اور تعزیتی اداریے:
ملک اور بیرون ملک ادیبوں ،اخبارات ورسائل اور نشریاتی اداروں نے اْن کی
وفات پر تعزیت کا اظہار کیا اور اس سانحے کو علم وادب کی دْنیا کے لیے عظیم
نقصان قرار دیا ۔
عطاالحق قاسمی محمد کاظم کی وفات پر اس طرح اظہار تعزیت کرتے ہیں ۔
انتظارحسین محمد کاظم کے حوالے سے اپنے تعزیتی کالم میں لکھتے ہیں ۔
مسعود اشعر محمد کاظم کی وفات پر اپنے تعزیتی کالم میں لکھتے ہیں ۔
علی تنہا محمد کاظم کی وفات پر اپنے تعزیتی کالم میں یوں رقمطراز ہیں۔
ڈاکٹر خورشید رضوی محمد کاظم کی وفات پر اپنے تعزیت نامے میں یوں رقم
طرا ز ہیں ۔
’’ میں صبح گیار ہ بجے کاظم صاحب کے گھر گیا ۔وہی دروبام ،وہی کمرہ
وہی نشست گاہ مگر آج کاظم صاحب درون خا نہ کہیں محواستراحت رہے کسی سے
ملنے نہیں آئے ۔طیب بعض احباب کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے میں سوگوار دل کے
ساتھ کافی دیر بیٹھا رہا ۔
شام کو جنازہ اْٹھنے سے قبل میں پھر اْن کے دروازے پہ پہنچا ۔یہاں آج عجیب
نا مانوس منظر پایا ۔احباب اْترے ہوئے چہروں کے ساتھ کھڑے تھے پانچ بجے سے
پہلے جنازہ باہر آیا تودل پر رقت طاری ہو گئی ۔آنکھیں بھر آئیں ۔کاظم صاحب کا
چہرے سے کفن سرکایا گیا ۔ان کی ستواں ناک اور تیکھے خدوخال ہمیشہ کی طرح
باوقا ر اور ان کے پتلے ہونٹ اْسی طرح پْر عزم تھے۔خاموش پلکوں میں ایک ہلکی
سی در ز کھلی ہوئی تھی ۔مگر اس سے جھانکتی آنکھیں آج بے نور تھیں ۔
اب ہم اْسی مسجد میں پہنچے جہاں اب سے بیس برس پہلے نماز جمعہ کے
ناتے سے کاظم صاحب سے میری مالقاتوں کا آغا ز ہوا ۔عصر کے بعد سامنے والے
سبزہ زار میں نمازجنازہ ادا کی گئی اور پھر ہم ٹیک سوسائٹی کے مخصوص قبر
ستان کی طرف روانہ ہو گئے جہاں قبر تیا ر کی جا چکی تھی ‘‘۔()۱۱
سید کا ظم کی وفات سے ادبی دُنیا میں جو خال پیدا ہوا اس کی قدر وقیمت سے
اہل ادب ہی شناسا ہیں کیو نکہ اہل ثروت کو تو شاید کو ئی فرق نہ پڑے ۔ وہ اتنے کم
گو اور طبعا َ ََشرمیلے انسان تھے اس لیے اُنہوں نے کبھی خود سے اپنے آپ کو
متعارف کروانا ضروری نہیں سمجھا تھا ۔ اُن کا تعلق ایک مخصوص طبقہ فکر سے
تھا زیادہ میل جول انہیں پسند نہیں تھا ۔ان کی عربی دانی کے معترف نامور اہل علم
تھے۔انہوں امجد اسالم امجد کی فلسطینی شاعری کے منظوم تراجم پر مبنی کتاب
’’عکس‘‘کا مفصل دیباچہ لکھا جو ان کی وسعت مطالعہ کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔
محمد کاظم کی رحلت پر امجد اسالم امجد اپنے تعزیتی کا لم میں لکھتے ہیں ۔
محمد کاظم کی انسان دوستی ہی کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے زندگی بھر اپنے
احباب اور دیگر ملنے والوں پر اپنے عہدے و مرتبے کا رعب جمایا اور نہ ہی اس کا
احساس دالیا ۔وہ ہمیشہ خلوص کی سطح پر ملتے تھے ۔
محمد کاظم کے بارے میں یوں تو بے شمار باتیں ہیں لیکن ایک واقعہ پڑھ لیں
اعلی
ٰ ۔ یہ واقعہ پڑھتے ہوئے یہ بھی ضرور سوچیے گا کہ جو شخص واپڈا میں
عہدے پر فائز رہا ہو اور اس کے مالی معامالت اس طرح کے ہوں تو پھر جی چاہتا
ہے کہ سید محمد کاظم کی جی بھر تحسین کی جائے ۔وہ ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’جن دنوں میں اور خالد اختر واپڈا ہاؤس الہور میں
نوکری کرتے تھے ان دنوں ہمارا ایک دل پسند مشغلہ
کتابوں کی دکانوں میں جا کر کتب بینی کرنا ہوتا تھا
۔مال پر فیروز سنز اور کو آپرا میں ہم اکثر کتابوں کی
سیر کے لیے جاتے ،ایک گھنٹہ وہاں چل پھر کر
دیکھتے کہ انگریزی اْردو میں کونسی نئی کتابیں آئی
ہیں کونسی ان میں سے خریدنے کے الئق ہیں او ر
کونسی صرف دیکھ لینے کے الئق ۔نئی کتابوں کی خرید
کے لیے ہمارے پاس زیادہ مالی گنجائش نہیں ہوتی تھی
۔کتابوں کی خرید کے لیے ہم اکثر اتوار کو انار کلی کی
فٹ پاتھو ں کا پھیرا لگاتے تھے میرے پاس انگریزی
فکشن اور شاعری کا اچھا خاصا مجمو عہ ایسا ہے جو
میں نے فٹ پاتھ سے خریدا تھا ۔اور ان میں سے اکثر
کتابوں کی قیمت میں نے ایک روپیہ یا ڈیڑھ روپیہ ادا
کی کچھ زیادہ پْرانی کتابیں آٹھ آنے میں بھی مل جاتی
تھیں‘‘۔()۱۱
عربی ادب میں مطالعے : 1978ء میں مقاالت کا یہ مجموعہ نقش ّاو ل کتا ب ۱۔
گھر الہور سے ’’مضامین ‘‘کے نام سے شائع ہوا۔1990ء میں اس مجموعے
کا نیا ایڈیشن سنگ میل پبلی کیشنز الہور نے ’’عربی ادب میں مطالعے ‘‘کے
اصل نام اور موزوں نام سے شائع کیا ۔2012ء میں اس کا دوسرا ایدیشن سنگ
میل پبلی کیشنز الہور کی طرف سے شائع ہوا ۱۰۱صفحات پر مشتمل اس
کتاب کی قیمت 291روپے ہے۔
مغربی جرمنی میں ایک برس( :سفر نامہ ) ۳۱۰صفحات پر مشتمل اس ۱۔
سفرنامے کا دوسرا ایڈیشن ۱۰۰۱ء میں سنگ میل پبلی کیشنز الہور سے شائع
ہوا ۔اس کا انتساب بھائی اور دوست ’’احمد ندیم قاسمی ‘‘کے نام ہے ۔اس کی
قیمت ۳۰۰روپے ہے ۔اس کا پہال ایڈیشن سنگ میل پبلی کیشنز الہور نے
۱۸۱۱ء میں ’’دامن کو ہ میں ایک موسم ‘‘کے عنوان سے شائع کیا ۔
مسلم فکر و فلسفہ عہد بعہد :مسلمانوں کی فکری تاریخ کاایک جائزہ صفحات ۳۔
پر مشتمل یہ کتاب مشعل الہور نے ۱۰۰۱ء میں شائع کی ۔
عربی ادب کی تاریخ( :دور جاہلیت سے موجودہ دور تک )اشاعت ّاول ،قیمت ۴۔
-/711روپے 966صفحات پر مشتمل پر یہ کتاب ۱۰۰۴ء میں سنگ پبلی
کیشنز الہور نے شائع کی ۔اس کا انتساب االستاد مسعود الندوی کے نام ہے ۔
اخوان الصفا اور دوسرے مضامین ۱۹۶:صفحات پر مشتمل یہ کتاب پہلی بار ۶۔
۱۰۰۳ء میں سنگ میل پبلی کیشنز الہور کی طرف سے شائع ہوئی اس کی
قیمت ۱۶۰روپے ہے ۔
عربی سیکھئے ۱۱۱ :صفحات پر مشتمل یہ کتاب ۱۰۰۱ء میں پہلی بار سنگ ۱۔
میل پبلی کیشنز الہور سے شائع ہوئی اس کی قیمت ۳۰۰روپے ہے ۔
یادیں اور باتیں ( :خاکے اور مختلف مضامین ) 199صفحات پر مشتمل یہ ۹۔
کتاب ۱۰۱۰ء میں پہلی بار سنگ میل پبلی کیشنز الہور سے شائع ہوئی ۔اس
کی قیمت ۴۰۰روپے ہے ۔
کل کی بات( :جائز ے اور تبصرے ) ۱۱۹صفحات پر مشتمل اس کتاب کی ۱۔
اشاعت ّاول ۱۰۱۰ء میں القاء پبلی کیشنز کی طرف سے ہوئی ۔اس کی قیمت
۴۸۶روپے ہے ۔
جنیدبغداد( :سوانح ،نظریات ،رسائل ) ڈاکٹر علی حسن عبدالقادر( صدر شعبہ ۸۔
دینیات ،االزھر یونیورسٹی قاہرہ )نے ۱۸۱۹ء میں انگریزی میں لکھی اور
انگلستان میں علوم مشرقی کی نادر کتابیں چھاپنے والے ادارے گنبر میموریل
نے شائع کی ۔۳۰۴صفحات پر مشتمل یہ کتاب محمد کاظم کے اْردو ترجمہ کے
ساتھ ۱۰۰۹ء میں پہلی بار سنگ میل پبلی کیشنز الہور سے شائع ہوئی ۔
اسالم اور جدید یت :مصنف :ڈاکٹر فضل الرحمن (پروفیسر شکا گو یونیورسٹی ۱۰۔
امریکہ ) ۱۸۱۱ء میں یونیورسٹی آف شکاگو پریس سے شائع
ہوئی۔۱۶۴صفحات پر مشتمل یہ کتاب محمد کاظم کے اردو ترجمہ کے ساتھ
مشعل الہور کی طرف سے ۱۸۸۱ء میں شائع ہوئی اس کی قیمت ۱۱۰روپے
ہے ،دوسراایڈیشن ۱۰۰۸ء میں مشعل بکس ال ہو ر سے شا ئع ہوا ۔قیمت ۳۱۰
روپے صفحات ۱۶۴
اسالم :مصنف ڈاکٹر فضل الرحمن مترجم :محمد کاظم ۳۳۱صفحات پر مشتمل ۱۱۔
یہ کتاب ۱۰۰۱ء میں مشعل الہور سے شائع ہوئی
قرآن کریم کا سلیس اور رواں اُردو ترجمہ ،سنگ میل پبلی کیشنز الہور ۔سن ۱۳۔
اشاعت ۱۰۱۱ء
مسلم فکر و فلسفہ عہد بعہد :مصنف:محمد کاظم قیمت ۳۰۰روپے ،صفحات ۱۴۔
۳۱۱اشاعت ّاول ۱۰۰۱ء مشعل بکس الہور۔
حوالہ جا ت
محمد کاظم کی علمی اور ادبی خد مات ،مقالہ نگار ،شا زیہ جبیں ۳۔
،اورئنیٹل کا لج پنجاب یو نیورسٹی ،ال ہور،سیشن ۱۸۸۸ء تا ۱۸۸۱ء
مقالہ برائے ایم اے ،ص۱
محمد کاظم ،سید’،یادیں اور باتیں ‘سنگ میل پبلی کیشنز الہور ۱۰۱۰، ۱۶۔
ء ص۱۱۱،۱۱۱
’دن جو علی گڑھ میں گزارے‘،مشمولہ ،ما ہنا مہ الحمرا ،جنوری ۱۹۔
۱۰۱۱ء جلد ،۱۱شمارہ،۱ص۱۹۱
محمد کاظم ،سید ’ ،مغربی جر منی میں ایک برس‘،سنگ میل پبلی ۱۰۔
کیشنز الہور۱۰۰۱،ء ص۱۱۱
رابعہ سر فراز ،ڈاکٹر’،ترجمہ ،فن اور اہمیت‘،ہائر ایجو کیشن کمیشن ۳۶۔
اسالم آباد۱۰۱۱،ء ،ص۱۴
پیلھوں،شمارہ،۶ص۱۶،۱۱ ۶۹۔
چند ادیبوں کے خوابیدہ خطوط ’،محمد خالداختر بنام ڈاکٹر انور محمو د ۱۸۔
‘،فنون اپریل ۱۰۱۴ء جلد ،۱۴شمارہ ۴۱ص۱۸،۳۰،
انور سدید ڈاکٹر ،پاکستان میں ادبی رسائل کی تاریخ (ابتداء تا ۱۸۱۱ء)
سال اشاعت ،۱۸۴۶مدیر ،صہبا لکھنؤی ،رشدی بھوپالی ،ص ۱۱۱
سال اشاعت ،۱۸۶۹مدیر ،سید عابد علی عابد ،سجاد رضوی ،ص۱۹۸
سال اشاعت ،۱۸۴۱مدیر ،سید وقار عظیم ،ص۱۳۳
سال اشاعت ،۱۸۱۶مدیر ،محمد اجمل خان نیازی ،ص ۱۶۰
سال اشاعت ،۱۸۱۱مدیر ،محمود ایاز ،غالم محمد ،ص ۱۶۴
باب سوم
انسان کی جنم بھومی اس کی زندگی میں نما یاں حیثیت رکھتی ہے کیو نکہ جو
مقام دل میں سما جا ئے وہ وقت کے سا تھ دھندال تو جا تا ہے لیکن کبھی مٹتا نہیں اور
ان مٹ نقوش ثبت کر جا تا ہے پھر جیسے ہی انسان زندگی کی گو نا گوں مصروفیات
سے تھو ڑی دیر کے لیے دم لیتا ہے تو عہد رفتہ کی یادیں مجسم ہو کر اس کے تخیل
میں ایک میال سا لگا دیتی ہیں اوروہ ان میں کھو کر بہت راحت محسوس کرتا ہے ۔
خورشید رضوی امروہہ میں پیدا ہوئے اسے آج بھی اپنے شہر سے بے پناہ
محبت ہے اور شاید وہ وہاں سے کبھی نہ آتا لیکن مقسوم ازل کے سامنے انسان بے
بس ہے۔تقسیم ملک کے وقت جب فسادات کی آندھی چلی تو اس نے ہر چیز کو اپنی
لپیٹ میں لے لیا اور صدیوں سے مقیم لوگ دکھوں کی چادر اوڑھے نقل مکانی پر
مجبور ہو گئے لیکن وہ آج تک اس زمین سے اپنا قلبی رشتہ نہ توڑ سکا۔ خورشید
رضوی بھی ایسی ہی صورت حال سے دو چار ہے گو وہ کم عمری ہی میں اپنی جنم
بھومی کی سکونت ترک کر کے اپنی والدہ اور دیگر قریبی اقرباء کے ہمراہ منٹ
گمری (ساہیوال)آگیا تھا لیکن امروہہ کی یاد آج تک اس کے دل سے محو نہ ہوسکی
اور اس کا ایک ایک نقش اس کی روح میں سمایا ہوا ہے ۔
کچھ رشتے ایسے ہوتے ہیں جو واقعی زندگی کی کڑی دھوپ میں گھنا سایہ
ہوتے ہیں اور اْن کی کمی اْس وقت زیادہ محسوس ہوتی ہے۔جب وہ ہمارے درمیان
سے آنا َ ََ فانا َ ََکہیں بہت دور ایسی جگہ چلے جائیں جہاں سے واپسی ناممکن ہو تو اْن
کو یاد کر کے ایک افسردہ آہ بھرنے کے سوا کچھ نہیں کیا جا سکتا کہ ازل سے یہی
دستور رہا ہے لیکن اْنھیں بْھال دینا نا ممکن ہے کیونکہ وہ ہماری ذات میں سرایت کر
جاتے ہ یں ۔خورشید رضوی بھی بچپن ہی میں کچھ ایسے رشتوں سے محروم ہو گیا
تھا کہ جن کی کمی زندگی میں بہت کچھ پالینے کے بعد بھی اْس کے اند ر نظر نہ
آنے والی اداسی کی صورت میں ڈھل گئی ۔قدرت کا بھی یہ اْصول ہے کہ جب وہ
کسی سے کوئی بڑا کام لینا چاہتی ہو تو اْسے بچپن ہی میں آزمائشوں میں مبتال کر
دیتی ہے یا یتیم کر دیتی ہے تاکہ وہ دُکھوں کی بھٹی سے گزر کر ْکندن بن سکے ۔
اتنی کم عمر ی کے باوجود والد اور بہن کی یاد اُس کے دل میں آج تک ایک
کسک کی صورت میں موجود ہے کیونکہ اس کے بعد گھر کا ماحول بد ل جا تا ہے
اور اپنی والدہ کے ساتھ ننہیال آجاتا ہے۔پھر تقسیم ملک کے ہنگامے شروع ہو جاتے
ہیں اور وہ اپنے قریبی عزیزوں کے ہمراہ ۱۸۴۸ء میں چھ سات برس کی عمر میں
ساہیوال آگیا کیونکہ اُس کے ماموں جو محکمہ ریلوے میں مالزم تھے فسادات میں
جان بچاتے ہوئے پہلے ہی یہاں آگئے تھے اور ریلوے کو ارٹر میں مقیم ہوگئے ۔
خورشید رضوی کا بچپن تنگی حاالت کا غماز ہے ویسے تو اس وقت اُس کے
اردگر د سب لوگوں کے مالی حاالت کچھ زیادہ اچھے نہ تھے ضروریات زندگی کی
دستیابی میں مشکالت در پیش تھیں لیکن اس نے بہت حوصلے سے حاالت کا مقابلہ
کیا اور زندگی کی دوڑ میں کسی لمحہ کو تاہی نہ برتی۔
غلیل سے پرندوں کا شکار ،درختوں پر چڑھنا اور گلی ڈنڈا کھیلنا اُس کے
بچپن کے پسندیدہ مشاغل تھے ۔بہن کی وفات کے بعد خورشید رضوی اپنی والدہ کی
اکلوتی اوالد تھا لیکن اس کے باوجود اس کی والدہ نے اس کی تعلیم و تربیت میں کسی
قسم کی کوتاہی نہیں کی ۔بے جا الڈ پیار سے گریز کیا تاکہ وہ ایک باعمل انسان بن
سکے ۔بچپن میں اس کو جو ماحول مال وہ بھی مذہبی قسم تھا ۔اْن کی والدہ دیندار اور
وصلوۃ کی پابند تھیں ۔وہ اپنی والدہ کا بے حد احترام کرتا تھا ۔
ٰ صو م
صلوۃ کی بے
ٰ ’’میری والدہ صاحبہ دیندار اور صوم و
حد پابند تھیں ۔بچپن میں جب صبح میری آنکھ کھلتی تو
ان کی تالوت اور پھر منظوم مناجات کی آواز میرے
کانوں میں پڑتی یہ آواز زندگی بھر میرے ساتھ رہی تا
آنکہ ۱۰۰۸ء میں یہ بہت دور کی آواز بن گئی‘‘۔((۴
بچپن میں خورشید رضوی نے اپنے خالو سے اپنی تعلیم کا آغاز کیا جو
مزاجا َ ََ بہت سخت تھے لیکن اس کی والدہ نے اس کے آنے والے اچھے کل کی
خاطر کبھی کوئی تعرض نہ کیا ۔اس نے اپنی والدہ کی خواہش پر چھٹی جماعت میں
عربی بطور مضمون اختیار کی حاالنکہ انہیں عربی کی کوئی خاص ُ
شد بُدنہ تھی
محض رٹا لگا کر پاس ہو جاتا تھا ۔
’’میری عمر اور مرحلہ تعلیم میں بہت کم فرق تھا جس
وقت میں گورنمنٹ کالج منٹگمری میں داخل ہوا ۔وہاں کا
سب سے کم عمر طالب علم تھا ۔عمر تیرہ برس تھی اس
وقت طالب علم مجھے حیرت سے دیکھتے کہ یہ کہاں
کالج میں آگیا ‘‘۔
گورنمن ٹ کالج منٹ گمری میں زمانہ طالبعلمی کے دوران وہ انتہائی فعال
طالب علم تھا ۔ابتداء میں تو اس کے دونوں ماموں جو کالج میں نمایاں حیثیت کے
حامل تھے اُن کی وجہ سے کا لج میں اسے ایک مؤثر حوالہ مل گیا کیونکہ اْس کے
ماموں شمیم احمد مجلہ ساہیوال کے مدیر تھے۔ بی اے کے بعد اور ینٹل کالج الہور
سے ایم اے (عربی )میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔
کالج کی فضا اس کے لیے بہت سود مندثابت ہوئی کیونکہ وہاں پر پڑھانے
والے تمام اساتذہ بہت قابل تھے اور انہوں نے اس کے علمی شو ق کی آبیاری میں
نمایاں کردار ادا کیا ۔کالج کے پرنسپل وسیع علمی نقطہ نظر رکھتے تھے اور اس کے
ساتھ ساتھ بہترین انتظامی صالحیتوں کے مالک تھے و ہ فردا ً فردا ًہر طالبعلم کے
مسائل کے بارے میں جاننے کے لیے کوشاں رہتے اور ان کے حل کے لیے اپنی
طرف سے پوری کوشش کرتے تاکہ کسی بھی طالب علم کے ساتھ زیادتی نہ ہو ۔
محنت اور لگن خورشید رضوی کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی اس لیے روشن
مستقبل کی ضامن منزل گویا اُسے اپنی طرف کھینچ رہی تھی ۔اسی لیے اس کے
تعلیمی مراحل بہت جلد طے ہو گئے ۔
کالج میں اپنے وقت کے نامور اور قابل ترین استاد صوفی ضیاالحق کا
تلمذحاصل ہونا بھی اُس کے لیے کسی سعادت سے کم نہیں ۔انہوں نے اس کے اندر
علم کی ایسی جوت جگائی کہ جس نے آگے جاکر ان گنت چراغ جالئے اور ایسے
قابل فخر شاگرد رشید سامنے آئے جن کے بارے خورشید رضوی کا شعر ہے ۔
وہ خود کو بہت خوش قسمت سمجھتا ہے کہ اسے صوفی ضیاء الحق کی
شاگردی میسر آئی اور عربی میں تخصص حاصل ہو ا کیونکہ وہ سبق رٹوانے کی
بجائے خوابیدہ صالحتیں بیدار کرتے تھے ۔خورشید رضوی کو صوفی ضیاء الحق
سے مسلسل چھ برس تک باقاعدہ عربی پڑھنے کا موقع مال ۔
صوفی ضیاالحق نے اسے عربی میں اتنارواں کر دیا تھا اس نے ایم اے کے
مقالے میں بھی عربی قصیدے کی شرح لکھی۔
خورشید رضوی کو جو ادبی مقام حاصل ہوا اس میں اُس کی ذاتی لگن اور
کاوش کو بہت دخل ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ اسے تعلیمی ماحول بھی طبیعت کے
مطابق ملتا گیا ۔حصول تعلیم کے بعد جب انسان عملی زندگی کا آغاز کرتا ہے تو در
حقیقت ایک طرح کی پختگی دل ودماغ پر طاری ہو جاتی ہے اور انسان خود کو
میچور سمجھنے لگتا ہے لیکن جب کم عمری کا احساس ذہن میں ہو تو ہر نگاہ خود پر
مرکوز محسوس ہو تی ہے۔
’’۱۸۱۱ء میں ایم اے کے بعد جنوری ۱۸۱۱ء میں محکمہ تعلیم کی طرف
سے لیکچرر کی حیثیت سے مجھے گورنمنٹ انٹر کالج بہاول پور میں تعینات کر دیا
گیا ۔اس وقت میرے اکثر شاگرد عمر میں مجھ سے بڑے تھے پہلے پہل جب میں
کالس میں لیکچر دیا کرتا تو باہر برآمدے میں محض مجھے دیکھنے کے لیے لڑکوں
کے ٹھٹھ لگ جا تے مگر میں نے اس پر قا بو پا یا اور نکل کر برآمدے میں ان
تماشائیوں کے پاس گیا کہ آپ کو میرے با رے میں کچھ تجسس ہے ؟
بہاولپور میں ایک سال قیام کے بعد پبلک سروس کمیشن سے لیکچرر منتخب
ہو کر سرگودھا کالج میں تعینا ت ہونے کے بعد اور وہاں بائیس برس وہیں گزارے۔
اس کائنات میں کچھ رشتے تو پیدائش کے ساتھ ہی انسان سے یوں جڑے ہوتے
ہیں کہ وہ تادم حیات برقرار رہتے ہیں ۔وقت کے ساتھ ساتھ ان کی نوعیت ضرور بدل
جاتی ہے ۔ترجیح میں فرق آجاتا ہے ۔مگر ختم نہیں ہوتے یہی رشتے خون کے رشتے
کہالتے ہیں لیکن ایک ایسا رشتہ جو ان سب رشتوں کے بعد وقوع پذیر ہوتا ہے ۔لیکن
اہمیت کے اعتبار سے ذہنی اختالف کے باوجود سب رشتوں پر حاوی ہو تا ہے ۔یہ
رشتہ ازدواج کے مقدس بندھن میں منسلک ہونے کے بعد وجود مینآتا ہے اس رشتے
سے جو رشتے جنم لیتے ہیں وہ اتنے پائیدارا ور عزیز ہوتے ہیں کہ اْن کا تعارف
زندگی کا حاصل سمجھا جاتا ہے ۔
خورشید رضوی کا بڑا بیٹا عامر خورشید (پ )۱۸۱۸سعودی عرب میں ایک
پرائیویٹ کمپنی کے جنرل منیجر ہے۔دوسرا بیٹا عاصم خورشید (پ)۱۸۹۳میڈیکل
ڈاکٹر کی حیثیت سے برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس سے منسلک ہے اور شاعری
ہے۔ کرتا بھی
خورشید رضوی انتظامی عہدوں سے دُور کہ کسی ایسی جگہ جانا چاہتا تھا جہاں وہ
تدریس سے اپنا رشتہ برقرا ر رکھ سکے یہ بات نہیں کہ ان میں انتظامی صالحیت
مفقو د تھی لیکن اس سے ا ُن کا پسندیدہ سلسلہ تدریس متاثر ہوتا تھا جس سے وہ ذہنی
طور بہت متاثر ہوتا تھا باآلخر چھ سال بعد ۱۸۸۱ء میں صدر شعبہ عربی کی حیثیت
سے گورنمنٹ کالج الہورآگیا ۔اس کے لیے اسے بہت تگ ودو کرنی پڑی لیکن صدر
شعبہ کی حیثیت سے بھی انتظامی ذمہ داریوں کا بوجھ تدریس پر اثر انداز ہوتا ہے
۔توجہ ایک جگہ پر مرکوز نہیں رہتی اس لیے اس نے قبل از وقت ہی ریٹائر منٹ کا
فیصلہ کر لیا ۔
خورشید رضوی اپنے نقطہ نظر کو نپے تُلے انداز میں پیش کرنے والے محقق
اور نقادہے لیکن اس سب کے ساتھ ساتھ اس کی پہلی حیثیت ایک شاعرکی ہے اور
دوسری حیثیت ایک عربی داں کی ۔ہر انسان کے اندر مختلف صالحتیں پوشیدہ ہو تی
ہیں اور شعور ذات اسی کا نا م ہے کہ ان صالحیتوں کا کھوج لگا کر انہیں مناسب
انداز میں لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے ۔شاعری ایک ودیعت کردہ الہامی
صالحیت ہے اس کا اصل جو ہر انداز میں فطری پن اور سادگی ہے کیونکہ یہ ابالغ
ہے۔ ذریعہ ترین موثر کا
خورشید رضوی نے اپنی شاعر انہ زندگی کا آغاز گویا لڑکپن سے ہی کر دیا تھا بلکہ
خود بخود ہی آغاز ہو گیا تھا ۔
’’میری شاعرا نہ زندگی کا آغاز دس بارہ برس کی عمر میں ایک شعر سے ہوا
۔ریلوے اسٹیشن منٹ گمر ی کے چھوٹے سے کوارٹر میں ایک کھڑکی کے پا س
کھڑے ہو کر ایک شعر کا نوٹ بُک میں لکھنا مجھے اب تک یا دہے ‘‘۔ شعریوں تھا:
ہر شب کو فلک پر ہیں چمکتے ہوئے
تارے
خورشید نکلتا ہے تو چھپ جا تے ہیں
سارے
اس وقت اس نے ایک شعر ہی کہا یا گھر یلو تقریبات کی مناسبت سے تہنیتی
اشعار ،سہرے ،سہاگ لکھے ،لیکن انہیں محفوظ نہ رکھ سکے ۔
جب وہ گورنمنٹ کالج ساہیوال زیر تعلیم تھا تو اس کی پہلی غزل شائع ہوئی
اور یہ خوشی دیدنی تھی کیونکہ ایک تو یہ ولولے سے بھر پور دور تھا اور دوسری
خوشی اس بات کی کہ پہلی شائع ہونے والی غزل تھی ۔
یہ غزل غالب کی زمین میں کہی تھی ۔اس کے اساتذہ نے بہت حوصلہ افزائی
کی ۔اس غزل کا ایک شعر یہ ہے ۔
نو جوانی میں ہر انسان کے اندر آگے بڑھنے اور کچھ خاص کر لینے کا جذبہ
پنہاں ہو تا ہے اس لیے اپنے ہم مزاج حلقوں میں جانے کے بہانے ڈھونڈتا ہے لیکن
ناموری ملنے کے بعد وہ اپنے آپ کو محدود کر لیتا ہے شاید ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ
وقت کے ساتھ اس کی فکر میں گہرائی آجاتی ہے اور اپنے ان احساسات کو صفحہ
قرطاس پر منتقل کرنے کے لیے ذہنی یکسوئی درکار ہوتی ہے جو کہ تنہائی کے بغیر
ممکن نہیں اور یوں وہ آہستہ آہستہ محفلوں سے کنا رہ کشی اختیار کر لیتا ہے اور
خود کو با مقصد تخلیقی تنہائی کا پابند کر لیتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اُس
میں اپنی ذات کے حوالے سے کوئی بڑاپن آجاتا ہے ۔خورشید رضوی بہت مجلسی
آدمی کبھی نہیں رہااسے نامور لوگوں سے زیادہ ملنے کا شوق نہیں لیکن اُس میں
انکسار اس حد تک ہے کہ اس نے اپنے نام کے ساتھ کبھی ’’ڈاکٹر‘‘نہیں لکھا تاہم
ادبی محفلوں میں وہ کبھی کبھار چال جاتا ہے زمانہ طالب علمی کی محفلوں کے
حوالے سے کہتاہے۔
بلند پایہ استاد ہونے کے ساتھ ساتھ اسے لفظوں کو ایک خوبصورت لڑی میں
پرو کر شاعری کے صحن گلشن کی آبیاری کرنی بھی بخوبی آتی ہے ایک زمانہ اُس
کے ا س ہنر بے مثال کا معترف ہے ۔اس نے اْردو داں طبقے کو یادگار شعری
مجموعے دیے ہیں جس کی لفاظی اور قابل فہم اسلوب قاری کے دل میں اْتر کر روح
میں سما جاتا ہے ۔
چھ شعری مجموعے اور ایک کلیات یکجا کے نام سے شائع ہو چکی ہے ۔
خورشید رضوی کا حلقہ فکر بہت وسیع ہے کیونکہ بنیادی طور پر وہ شاعر
ہیں اس لیے اْردو ادب میں اس کا خصوصی مقام ہے جو اُس کو ہم عصر شعراء سے
ممتاز کر تا ہے ۔اس نے اپنی شاعری میں رومانی اورکال سیکی رویوں کو بخوبی
نبھایا ہے۔
لبوں پہ آج سر بزم آ گئی بات
مگر وہ تیری نگاہوں کی التجا کہ نہیں
اس نے اپنے شعری مجموعوں کے نام اپنے تخیل میں رونما ہونے والی فکر
انگیزی کے مطابق ترتیب دیئے ۔اس نے ادب کی ہر صنف میں طبع آزمائی کی اور
بے مثال انداز میں جو اہر پارے تخلیق کیے ۔جدیدیت اور وقت کی بے ثباتی نے جہاں
اس معاشرے کو تہ وباال کر دیا وہیں تخلیق کا ر بھی اس کا اثر قبول کیے بنا نہ رہ
سکا ۔خورشید رضوی جو بظاہر بہت سادہ نظر آتا ہے لیکن اپنے داخلی رویوں میں وہ
بہت پیچیدہ ہیں وہ اپنی تحریروں میں بھی نظر نہیں آتا ۔بدلتے ہوئے حاالت نے اُس کو
بھی متردد کر دیا۔اسی لیے وہ کہتا ہے ۔
خورشید رضوی کا شمار جدید شعراء میں ہوتا ہے ۔اس نے غزل کے ساتھ
نظمیں بھی لکھیں اور نظم گوئی میں ن م راشد اور مجید امجد کی شاعری سے متاثر
ہے ۔
اْردو ادب میں فارسی اور عربی کے اثرات وقت کے ساتھ ساتھ معدوم ہوتے
جار ہے ہیں ٰلہذا اس صورتحال میں ہم اپنی زریں روایات سے دور ہوتے جا رہے ہیں
بلکہ رفتہ رفتہ ا ن سے کٹ چکے ہیں آج ہماری نئی نسل غالب اور اقبال کے فارسی
کالم سے بالکل نا بلد ہے ۔حاالنکہ کال سیکی ادب کا اپنا ایک خاص مقام ہے اور اسے
برقرار رہنا چاہیے ۔انہی مسائل اور روایات سے بے گانگی نے شاعر خورشید
رضوی کو اندرونی طور پر کشمکش میں مبتال کر دیا ہے ۔اسی لیے وہ کہتا ہے ۔
مصالحت بھی نہیں ہے سرشت میں اپنی
مگر کسی سے تصادم کا حوصلہ بھی
نہیں
وہ آنے والی تبدیلیوں سے خوفزدہ یا دلبرداشتہ نہیں ہے لیکن وہ پْرانی روایات
کو بھی ساتھ لیکر چلنے کا عادی ہے الیکڑونک میڈیا کا اس سلسلے میں بہت عمل
دخل ہے آج کا طالبعلم کتابوں سے دور ہو تا جارہا ہے اس لیے ادب میں سطحیت رہ
گئی ہے اور فکری گہرائی ختم ہوتی جارہی ہے ۔اور میڈیا اپنے من چاہے ادیب کو
بہت آگے لے جاتا ہے اس ضمن میں وہ لوگ جو اس طریقہ کار سے گریزاں ہیں وہ
۔لہذا اس غیر صحت مندرو یے کی حوصلہ شکنی ازحد
بہت پیچھے رہ جاتے ہیں ٰ
ضروری ہے تاکہ ادب پھر سے اپنا مقام حاصل کر سکے۔ خورشید رضوی شاعری
کے فروغ کے ل یے مشاعروں سے قطع نظر ادبی نشست کے حق ہے تاکہ اس سے
نئے آنے والے شاعر کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے ۔
وہ اْردو شعراء میں اقبال سے بھی بہت متاثر ہے اس نے اس موضوع پر کہ
اقبال نے موت کا سامنا کیسے کیا ہو گا کے حوالے سے ’’اکیس اپریل ‘‘کے عنوان
سے نظم لکھی ۔
’’میری ایک نظم‘‘ ’’اکیس اپریل ‘‘عالمہ اقبال کی
وفات کے حوالے سے ہے آزاد نظم ہے۔پوری نظم کہنے
میں پانچ سات منٹ لگے ہوں گے ‘‘۔()۱۸
وہ شاعری میں نئے نئے تجربات کرنے والوں کے خالف نہیں ہے کیونکہ وہ
اصل چیز ’’خیال ‘‘کو سمجھتا ہے کہ شاعر آپ سے کیا کہنا چاہتا ہے ۔چاہے وہ بات
ایک ہی مصرعے میں کیوں نہ ہو کچھ غلط نہیں ۔وہ نظم اور غزل دونوں کو ہی
ذریعہ اظہار سمجھتا ہے اس لیے اس نے ان دونوں کو موضوع سخن بنایا ہے ۔وہ
نثری اور آزاد نظم کو بھی مخصوص زاویہ نظر سے دیکھتا ہے کیونکہ وہ زندگی
میں ہر چیز کا روشن پہلو دیکھتا ہے اس نے خود تو ایسی نظمیں نہیں لکھیں لیکن وہ
۔ ہے سمجھتا توجہ قابل کو نظموں ایسی
خورشید رضوی ذرائع ابالغ کی اثر پذیری کے قائل ہونے کے باوجود انسان میں
موجود غیر معمولی صالحیت کو بھی بہت اہمیت دیتا ہے کہ جو وقت کے ساتھ ساتھ
اپنا راستہ خود بخود بنا لیتی ہے اس ضمن میں مجید امجد کی مثال ہمارے سامنے
موجود ہے و ہ زمان و مکاں کی حدود سے بے نیا ز درویش انسان تھے۔اگر مصنف یا
شاعرکی تخلیقی قوت مضبوط ہے۔اور وہ کسی بڑی تحریک سے وابستہ بھی نہیں ہے
تو پھر بھی اس کی عظمت پر کوئی آنچ نہیں آئے گی۔ شاعری میں مقدار نہیں معیار
ہونا چاہیے۔وہ مجید امجد کو اس عہد کا بڑا شاعر قرار دیتا ہے ۔
عوام الناس میں خوبیاں تالش کرناخورشید رضوی کی سرشت میں شامل ہے
۔ادبی لحاظ سے بھی وہ اسی نقطہ نظر کا قائل ہے ۔اپنے ہم عصر شعراء کے حوالے
سے اپنی پسند یدگی کا اظہار ان لفظوں میں کرتا ہے ۔
خورشید رضوی نے شاعری کے ساتھ جو تراجم کیے اور تحقیقی کام کیے وہ
ادب میں ایسا گراں قدر اضافہ ہیں جو مابعد آنے والے محققین کے لیے مشعل راہ ہیں
جس پر چل کر وہ تحقیق کی پْرخار وادی میں اپنی منزل کا نشان پاسکتے ہیں ۔
اس نے شاعری میں بھی جن موضوعات کا احاطہ کیا ہے اس میں ادبی پہلوؤں
کی نزاکتوں کو بھی مجروح نہ ہونے دیا۔اس نے موجودہ معاشرے میں رونما
ہونیوالے حاالت و واقعات کا ژرف نگاہی سے جائزہ لیا ہے اور زندگی کی تلخیوں کو
حقیقت پسندی کے آئینے میں دیکھا ہے ۔
خورشید رضوی کی شعری کائنات میں ذات سے فرار نہیں بلکہ شعور ذات کا
احساس جا بجا ملتا ہے اس لیے وہ خود کو اذیت دینا چاہتا ہے ۔
اس ضمن میں ایک اہم سوال یہ اْٹھتا ہے کہ خورشید رضوی نے عربی ادب
کو ہی کیوں فوقیت دی ؟حاالنکہ اُس کی پہلی حیثیت اُردو شاعر کی ہے اور اپنی
شاعری میں اس نے زندگی کے تمام موضوعات کا احاطہ کیا ہے ۔پھر عربی ادب میں
اُس کی اُپج کیسے اور کیوں کر ہوئی کیونکہ زمانہ طالبعلمی میں تو بہت سے طلباء
بطور مضمون عربی پڑھ لیتے ہیں لیکن جو تخصص خورشید رضوی نے حاصل کیا
اس پر اہل عرب کو بھی فخر ہے قابل غور بات یہ ہے کہ کیا اس میں تربیت کا کوئی
دخل ہے ؟
اگر تربیت کے حوالے سے دیکھیں تو تمام مسلمان گھرانوں میں قرآن پاک تو
بچپن میں سب بچوں کو پڑھایا جاتا ہے لیکن اس کے بعد اُردو زبان پر زیادہ توجہ دی
جاتی ہے اور گھر میں مادری زبان بولی جاتی ہے اس لیے عربی زبان جو ہمارے
حروف تہجی میں بھی شامل ہیں اس پر معمول سے زیادہ توجہ نہیں دی جاتی کیونکہ
زبان تہذیب کی پروردہ ہوتی ہے۔قرآن مجید اور احادیث عربی زبان میں ہیں اس لیے
عربی زبان کو دیگر زبانوں پر فضیلت تو حاصل ہے ۔
خورشید رضوی کے عہد میں دیکھیں تو اس دور میں عربی پڑھانے والے
اساتذہ موجود تھے لیکن اس کے باوجود عربی پڑھنے کا رجحان کچھ زیادہ نہ تھا
۔اس نے خود بھی اپنی والدہ کی ہدایت پر چھٹی جماعت میں عربی مضمون رکھا
حاالنکہ عربی کی کوئی خاص سوجھ بوجھ نہ تھی ۔ جب وہ کالج میں داخل ہوا تو وہاں
پراپنے ماموں جو( اس وقت کالج میں چوتھے سال میں پڑھتے تھے) کی وجہ سے
کافی تحفظ مال اور ماموں جو کالج میگزین کے ایڈیٹر تھے ان کی وساطت سے ڈاکٹر
اعلی پائے کے استاد کی شاگردی نصیب ہوئی انہی کی وجہ
ٰ صوفی ضیاء الحق جیسے
سے خورشید رضوی کے رجحان میں تبدیلی آئی اورعربی میں دلچسپی ہوگئی کیونکہ
اْن کا طریقہ تدریس بہت منفر د اور موثر تھا اور طالب علم کو ازخود دلچسپی پیدا ہو
جاتی تھی ۔
صوفی ضیاء الحق نے خورشید رضوی میں عربی کا اتنا شوق پیدا کر دیا کہ
اس نے ایم اے عربی کیا اور پھر عربی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لی ۔پی ایچ ڈی کے
لیے اسے جو موضوع مال وہ اس کی مشکل پسند طبیعت سے مناسبت رکھتا تھا۔اس
نے تیرھویں صدی عیسوی کے مورخ ،ادیب اور شاعر ابن الشعار (۱۱۸۱ء
تا۱۱۶۱ء)کے تذکرہ شعراء ’’قالئدالجمان ‘‘کی پہلی جلد کے مخطوطے کے ساٹھ
اوراق کی تدوین کی ۔اس مخطوطے کی کل دس جلدیں تھیں ۔ان میں سے دوسری اور
آٹھویں جلد بغداد پر تا تاریوں کے حملے کے دوران ضائع ہوگئی ۔خورشید رضوی کا
پی ایچ ڈی کے حوالے سے کیا جانے واال کام انتہائی محنت طلب اور دقیق تھا۔
خورشید رضوی عربی دانی کے حوالے سے اپنے محترم استاد ڈاکٹر صوفی
ضیاء الحق کا نام انتہائی عقیدت مندی سے لیتا ہے کہ عربی اس کی موروثی زبان
نہیں تھی بلکہ یہ سب اْس کے استاد کے طفیل ہے کیونکہ گھر یلو ماحول میں بھی
اسے عربی زبان اس طرح نہیں سکھائی گئی تھی کہ بڑے ہو کر وہ اس میں کوئی
کارہائے نمایاں سر انجام دے سکے لیکن یہ اْس کے استاد کی تربیت ہے کہ بطور
عربی داں انہوں نے جو نام کمایا اس میں بعض اوقات اْن کی شاعر انہ حیثیت دبتی
ہوئی محسوس ہوتی ہے کیونکہ بطور عربی داں محقق اس نے جو کام کیا وہ انتہائی
ژرف نگاہی سے کیا اور آنے والے ناقدین اور طالب علموں کے لیے بہت سے سوال
چھوڑ دیے تاکہ ان کے اندر مادہ تجسس بیدار ہو اور وہ کچھ کر گزرنے کی ٹھان لیں۔
’’تالیف ‘‘نثر نگاری کے ساتھ ساتھ خاکہ نگاری کا عمدہ نمونہ ہے اس میں
فاضل مصنف کی خاکہ نگاری عظمت کی بلندیوں کو چھوتی ہوئی نظر آتی ہے
کیونکہ اس میں اس نے نپے تلے انداز میں ان شخصیات کا علمی مرتبہ بھی اُجاگر کیا
۔ ہے
شاہراہ حیا ت گو نا گوں مسائل اور تلخیوں کا مجموعہ ہے اگر تما م افراد ان کو اپنی
ذات پر طاری کر لیں تو زندگی دکھوں کی آمادگاہ بن جا ئے لیکن اس کائنات میں تمام
افراد فطرتا َ ََایک دوسرے سے مختلف ہیں اسی لیے اس چمن میں جشن بہاراں کا
سماں رہتا ہے اور زندگی اپنے ہو نے کا احساس دال تی رہتی ہے ۔
وہ لوگ جو دوسروں کوانبساط و راحت دیں اور انہیں دوبارہ صحت مند
ان گویا وہ دیں د مد میں لوٹنے جانب کی رو یوں
کے لیے رہنماہیں ۔یہ صالحیت بہت کم افراد میں ہو تی ہے جو اپنی تکلیفوں اور
تلخیوں کو اپنے نہاں خانوں میں چھپا کر دوسروں کے لیے مزاح کا سا ما ن پیدا کریں
۔
پروفیسر غالم جیالنی اصغر (پرنسپل گورنمنٹ کالج سرگودھا)ایسی ہی ایک با
غ و بہار شخصیت تھے جو ہر دم اپنی بر جستہ گفتگو اور مزاح سے ہر محفل کو
کشت زعفران بنائے رکھتے تھے اور اس میں نا گواری کا احساس قطعی نہیں ہوتا تھا
چونکہ وہ بہت اچھے مقرر تھے ۔ ان کی اس با کمال خوبی کی وجہ سے انہیں اکثر
محافل اور تقریبات میں سٹیج پر آنے کی دعوت دی جا تی تھی ۔بعض اوقات
مصروفیات کی بنا پروہ جھنجھال بھی جا تے تھے۔
ان کے بارے میں خورشید رضوی رقم طراز ہے ۔
خاکہ نگاری ادب میں ایک اہم صنف گردانی جا تی ہے اس میں شخصیت کے
جملہ پہلوؤں کو اس طرح سامنے ال یا جا تا ہے کہ وہ شخصیت مجسم ہو کر سامنے
آجا تی ہے خلوص نیت پر مبنی خاکے اپنائیت کا احساس دال تے ہیں اور مصنف کی
فکری و فنی بصیرت کا عملی ثبوت فراہم کرتے ہیں ۔
وہ کا لج کے زما نے میں خورشید رضوی سے ایک سال جونئیر تھے لیکن
جلد ہی الفت باہمی اور بے تکلفی کی فضاپیدا ہو گئی اور خورشید رضوی ان کی
شخصیت کے سحر سے خود کو نہ بچا سکے اور دونوں آج تک دوستی کے اٹوٹ
میں بندھے ہوئے ہیں اور حق دوستی اداکرتے ہوئے خورشید رضوی نے انور مسعود
کا جو خاکہ تحریر کیا ہے وہ ہمیں ایک ایسی شخصیت سے متعارف کرواتا ہے جو
زندگی کے گھمبیرمسائل کو ہوا کے دوش پر رکھتا ہے نہ کہ خود پر حاوی کر تا ہے
۔شخصیتوں میں تضاد کے باوجود فریقین میں مزاج کی ہم آہنگی بر قرار ہے۔
ادب کی دیگر اصناف میں ایک اہم صنف ترجمہ نگاری ہے ۔ادب زندگی کا
آئین ہ ہے اور اسی کے وسیلے سے ہم کسی بھی عہد کے رجحانات اور ذہنی کیفیات
کو جانچ سکتے ہیں کیونکہ اس عہد میں جانا تو ہمارے لیے نا ممکن ہے ادب کی
نمواُسی صورت میں ممکن ہے اگر اسے وسعت دی جائے کیونکہ اسے کواڑوں میں
بند کر نے سے تو یہ جلد ہی اپنی موت مر جائے گا ۔ادب کی عالمگیریت کے لیے
ضروری ہے کہ اسے ترجمے کا جامہ پہنایا جائے لیکن اس ضمن بہت محتاط رویے
کی ضرورت ہے سب سے اہم چیز مترجم کی دونوں زبانوں پر گرفت ہے اس کے بعد
اْس فن پارے سے جذباتی وابستگی ہو نا بہت ضروری ہے کیونکہ یہ بھی تخلیقی عمل
سے کم نہیں ۔شاعری میں تراجم کے حوالے سے کچھ پیچیدگیا ں سامنے آتی ہیں
کیونکہ اس میں قافیہ ،ردیف اور آہنگ کی منتقلی بآسانی نہیں ہوتی ۔جبکہ فن پارے
میں صورت حال اس سے مختلف ہو تی ہے ۔
غیر ملکی ادب تک ہماری رسائی تراجم کی بدولت ممکن ہو سکی ہے کیونکہ
ترجمہ دوزبانوں اور تہذیبوں کے درمیان پل کا کام دیتا ہے ۔جب تخلیقی عمل
موضوعاتی لحاظ سے سست روی اور جمود کا شکار ہوجائے اور مصنف خود کو بار
بار دہرانے کی بجائے اگر اپنی توجہ عالمی ادب کی طرف مرکوز کر لے تو ایک
طرح سے اْسے تازگی کا احساس ہو گا اور فکری جمود کا قفل بھی کھل جائے گا۔غیر
ملکی ا دب کو سمجھنے کے لیے تراجم سے بہتر رفیق کوئی نہیں مل سکتا ۔کیونکہ
اس سے ذہنی کشادگی پیدا ہو تی ہے۔دیگر اقوام کے ساتھ جذبات واحساسا ت شریک
کر نے کا وسیلہ ترجمہ ہی ہے جس کے فروغ کے لیے ہر دور میں عملی کو ششیں
ہیں رہی جاری
اعلی درجے کا مترجم بھی ہے
ٰ خورشید رضوی تخلیق کا رہونے کے ساتھ ساتھ
کیونکہ اسے اْردو کے ساتھ ساتھ پنجابی ،فارسی ،انگریزی اور عربی زبان پر کامل
دستگاہ حاصل ہے۔ اس کا عملی ثبوت اس نے ان تراجم میں پیش کیا ہے جو انہوں نے
نہایت سلیس انداز میں کیے کیونکہ وہ ان اصولوں سے واقف ہے جوفن ترجمہ نگاری
کے لیے ال زم ہیں ۔
ڈاکٹر خورشید رضوی نے نامور ترک سکالر ڈاکٹر فواد سیز گین کے خطبات
کا اردو ترجمہ اس انداز سے کیا جو مطالعہ کرنے والے افراد کے اندر تنقیدی شعور
پیدا کر تا ہے ۔ عربی میں تخصص اس کا بین ثبوت اس نے ان تیرہ خطبات کے تراجم
کے دوران دیا ہے ۔یہ خطبات ڈاکٹر فواد کی طویل تحقیقی جدوجہد کا نچوڑ ہیں جو
تاریخ التراث العربی ‘‘کے زیر عنوان شائع ہو چکے ہیں ۔
ان خطبات کا موضوع اس متعصب رویے کے خالف احتجاج ہے جو اہل عرب
مسلمانوں کے خالف ایک سازش ہے کہ سائنسی علوم کی تاریخ میں پہلے یونان قدیم
کے دور اور اس کے فورا َ ََ بعد یورپ کی تحریک احیائے علوم کو جگہ دی ہے
حاالنکہ ان ادوار کے درمیانی عرصے میں عربوں کی بیش قیمت علمی خدمات ہیں
۔جن سے دانستہ چشم پوشی کی گئی ہے اور ان کے بغیر تاریخ علوم کا تسلسل برقرار
رہنا بہت مشکل ہے اور وہ عمومی طورپر رواج پا نے والے اس رویے کی تردید
کرتا ہے کہ اہل عرب میں نئے علوم کو سمجھنے کی اہلیت نہ تھی یہ الگ بات ہے کہ
تنقید کے حوالے سے جانچ پڑتال کی سمجھ بوجھ رکھنے کے باوجوداس نے رواداری
کا مظاہرہ کیا ۔
ڈاکٹر خورشید رضوی کی وسیع النظری اور مثبت انداز فکر ہے کہ اس نے
ڈاکٹر فواد سیز گین کے خطبات کا مطالعہ ذاتی طور پر محدود رکھنے کی بجائے
ترجمے کے ذریعے تمام عالم اسالم کو اس کے تحقیقی نقطۂ نظر سے متعارف کروایا
۔بطور مترجم وہ خود بھی مصنف جیسے تخلیقی عمل سے گزراہے کیونکہ ترجمہ
نگاری آسان نہیں ہے۔ اس حوالے سے محمد کاظم کہتا ہے۔
وہ دینی مدارس میں پڑھائے جانے والے جاہلی ادب کی اس لیے حمایت کرتا
ہے کہ یہ عربی ادب میں کالسیک کا درجہ رکھتا ہے اور آئندہ نسلوں کا رشتہ اپنے
ماضی سے جوڑتا ہے جاہلی شاعری اس عہدکی عکاسی کرتی ہے جس میں یہ تخلیق
ہوئی تھی عربی ادب شاعری کی صورت میں اسالم سے ۱۶۰سال پہلے تک کا ملتا
ہے اس سے پہلے جوادب تخلیق ہوا وہ ضائع ہو چکا ہے ۔غالبا َ ََ اس دور میں تحریر
کار واج بہت کم تھا ۔
کوئی بھی تحریر جس میں ادبی چاشنی ہو وہ اپنے تخلیق کار کے ذہنی رجحان
اور اْس کے عہد کی عکاس ہوتی ہے کیونکہ کوئی بھی تخلیق کار اپنے عصری
حاالت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔
انسان طبعا َ ََ اختراع پسند واقع ہوا ہے اور اپنے اس شوق کی تکمیل کے لیے
وہ زندگی میں نت نئے کاموں میں مصروف عمل رہتا ہے کیو نکہ کچھ مواقع تو اُسے
سردست مل جاتے ہیں اور وہ سفر کی صعوبتوں سے بچ جاتا ہے لیکن زندگی میں
کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو سفر کو اپنے لیے سعادت سمجھتے ہیں ۔
خیاالت اور جذبات واحسا سات کا اختالف ہی شخصی رویوں کو جنم دیتا ہے
اور ان رویوں سے ایک نیا ادب تخلیق ہو کر مختلف اصناف میں متشکل ہو تا ہے اور
اپنی نوعیت کے اعتبار سے مخصوص نا م سے مو سوم ہو جا تا ہے۔
اس کائنات کی بو قلمونیاں ہی انسان کو اپنی طرف کھینچتی ہیں اور ان کا
نظارہ کر نے کے لیے سفر سے بڑھ کر رفیق کوئی نہیں ہو سکتا ۔ دوران سفر اپنے
خیاالت و تا ثرات کو صفحہ قرطاس پر اس طرح النا کہ قارئین بھی خود کو ذہنی
طور پر وہیں محسوس کریں اور فنّی لوازم بھی ملحوظ خاطر رہیں تو یہ صنف ادبی
دنیا میں سفر نا مہ کہالتی ہے۔
وہ سفر نامے اَمروہ ہو تے ہیں جو اسلوب بیان ،ادبی چاشنی اور تخیل کی
فراوانی سے ثروت مند ہوں ۔ وہ لوگ خوش قسمت ہیں جنہیں زندگی میں مواقع ملیں
اور وہ ان سے بھر پور طریقے سے فائدہ اُٹھائیں۔آج کے جدید دور میں ایک جگہ سے
دوسری جگہ سفر کرناکو ئی بڑی بات نہیں رہی ہے لیکن اس سفر کو لفظوں میں
ڈھالنااور ہر جگہ اپنے مشاہدات وتجربات کو مخصوص زوایہ نگاہ سے دیکھنا اور
صفحہ قرطاس پر اُتارنا مر صع سازی سے کم نہیں ۔
ایسے ہی ایک صاحب اسلوب ادیب خورشید رضوی ہیں جہان ان کی شخصیت
کی بے شمارجہتں ہیں وہیں ایک جہت سفر نا مہ نگا ر کی ہے ۔ گوانہوں نے باقاعدہ
سفر نامے نہیں لکھے تاہم اپنے سفر(سعودی عرب )کا احوال جو وہ ہر سال کرتے ہیں
انھوں نے ایک سفر نامے کی صورت میں تحریر کیا ہے ۔سفر نامہ ادب کی ایک ایسی
صنف ہے جو مختلف ادوار میں ادب کا مو ضوع بنتا رہا ہے وقت کے ساتھ ساتھ اُتار
چڑھاؤ کا شکار بھی رہا ہے ۔تاہم اردو ادب میں اس کی مصمم حیثیت سے انکار
ممکن نہیں ۔ خورشید رضوی نے اپنے سفر کا احوال ’’مدینہ ،خیبر اور مدائن صالح
‘‘ کے نا م سے لکھا اگرچہ اس میں طوالت نہیں لیکن سفر نامہ نگاری کے معیار پر
پو را اترتا ہے ۔ماہ نامہ الحمرا کے دو شماروں (فروری ،مارچ ۱۰۱۴ء)میں شائع
ہوا۔مدائن صالح کی حدود میں داخلہ عام انسان کی رسائی میں نہیں لیکن اس نے اس
کے لیے خصوصی اجازت نامہ حاصل کر لیا ۔مدائن میں مختلف عہد میں ہو نے والے
واقعات تسلسل سے بیان کر کے ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے جو اس کے تبحر
علمی ،عربی ادب اور اہل عرب سے قلبی لگاؤ کا ثبوت ہے۔اس میں اس نے وہاں کے
لو گوں کے طرزبودوباش اور عربی زبان سے ان کی محبت کو بڑے دل نشیں انداز
میں قلم بند کر کے گویا لفظوں کی ما ال ئیں پرودی ہیں ۔وہاں کی مساجد اور عما رات
کی تاریخ کا بڑی ژرف نگاہی سے جائزہ لیا ہے ۔
نثرکے اظہار کی بہت سی اصناف ہیں ۔ہر صنف اپنے اند رمکمل اکائی رکھتی
ہے ۔مکتوب نگاری بھی نثر ہی کی صنف ہے۔اس میں مکتوب نگار ہر طرح کی
احتیاط کو پیش نظر رکھنے کے باوجود بھی کوئی نہ کوئی روزن کھال رکھ چھوڑ تا
ہے جو حاال ت حاضرہ کا نقیب ثابت ہوتا ہے ۔
خورشید رضوی نے نثر کی جس صنف میں بھی لکھا گویا حق ادا کر دیا ۔اس
نے افسانے بھی لکھے ہیں ۔اُس کا افسانہ ’’سائن بورڈ‘‘فنون ۱۸۱۹ء کے شما رہ
۱۱میں (ص۳۶۹تا)۳۱۳شائع ہوا ۔اورفنون ۱۸۸۸ء کے شما رہ ۱۱۰میں افسانہ
’’کبھی کبھی ‘‘شا ئع ہوا۔جو افسانے کی فنی و فکری جہتوں کا عکا س ہے ۔اُس کی
پہلی ادبی تحریر جوکسی رسالے میں شائع ہوئی وہ ’’جسے تا ریخ نے فرا موش کر
دیا ‘‘ کے نا م سے اسنے عر بی سے ترجمہ کیا تھا ۔اگست ۱۸۱۱ء میں اُردو ڈائجسٹ
ال ہو ر میں شائع ہوئی۔()۳۱
خطوط کے آئینے میں اْس کی شخصیت کا جو عکس ابھرتا ہے وہ انتہائی ذمہ
دار ،نرم خو،ملنسا ر،چھوٹی چھوٹی خوشیوں پر راحت محسوس کرنے واال اور
مسائل حیات کے حل نہ ہونے تک تشویش میں مبتال رہنے والے انسان کا ہے ۔وہ ذمہ
داریوں کو خوش اسلوبی سے نبھانے واال شخص ہے لیکن جو ذمہ داری اْس کی
طبیعت سے میل نہ کھاتی ہو اْسے پورا کرتے رہنے کے باوجود بھی وہ اندرونی
طورپر اذیت محسوس کرتا ہے ۔اس لیے اس سے کنارہ کشی کو ہی آسودگی ذہن اور
سکون قلب کا باعث سمجھتا ہے اس کی مثال دوران مالزمت انتظامی عہدوں پر
تعیناتی اور اس کی وجہ سے دل گرفتگی کی کیفیت اُس کی شخصیت کو ریزہ ریزہ
کرنے کے لیے کافی تھی اوراُس کے اندر کی اکائی کو جْ ڑنے نہیں دیتی تھی اسی
لیے اس نے کہا:
وہ بنیادی طورپر مدرس تھا اس لیے اسی میں راحت محسوس کرتا تھا ۔اس
کے عالوہ جو اہم فرائض اس نے خود ہی اپنی ذات پر عائد کر لیے تھے اُن کی یک
جائی اس بات کی متقاضی تھی کہ وہ قبل ازوقت مالزمت سے سبک دوش
ہوجائے۔لہذا اس کو ہ گراں کو سر کرنے کے بعد تکمیل ذات کے لیے وہ پورے
ٰ
انہماک کے ساتھ اپنے تحقیقی مشاغل کی بجا آوری میں مصروف ہے۔بطور محقق
مترجم اور شاعرجوشاہکار تخلیق کیے وہ اس کی طبع اختراعی کا خاصہ ہے ۔اس
مشکل ترین گھاٹی کو سر کرنے کے ساتھ ساتھ اس نے اپنے شوق اور ذاتی دلچسپی
کی بنا ء پر اور کچھ قریبی دوستوں کی خواہش پر سلسلہ تدریس بھی جاری رکھا اور
تاحال مختلف درس گاہوں میں لیکچر ز کا سلسلہ جاری ہے۔
ہر تخلیقی فرد کی طرح مختلف محافل کا حصہ بننے کے باوجود وہ تنہائی میں
راحت محسوس کرتا ہے وہ اکثروبیشتر ذہنی دباؤ کا شکار ہوجاتا ہے جس کا اظہار وہ
شاعری میں کرتا ہے ۔یا پھر قریبی دوستوں کو خطوط میں کرتا نظر آتا ہے ۔
بظاہر عام انسانوں کی طرح نظر آنے واال تخلیق کار داخلی کیفیات میں ان سے
بہت مختلف ہوتا ہے کیونکہ شاعری اورنثر میں طبیعت میں قبض وبسط کی
صورتحال پیدا ہوتی رہتی ہے بعض اوقات سالوں میں کوئی ایک تخلیقی کاوش سامنے
آتی ہے اس دوران کوئی شعوری کوشش بھی اثرپذیر ثابت نہیں ہو تی لیکن کبھی کبھی
طبیعت میں بسط کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور وہ زود نویسی پر مائل ہو جاتی ہے
۔
اُس کی شاعری اور نثر کا موازنہ کرنا کہ ان میں سے کس صنف میں اس نے
زیادہ بہتر ادب تخلیق کیا ہے دقت طلب امر ہے کیونکہ دونوں ہی فکر اور موضوعات
کے لحاظ سے ادب عالیہ کی مثال ہیں شاعری نثر اور تحقیق میں اس کا نقطہ نظر
انتہائی معروضی ہے اس کی رومانویت میں بھی حقیقت اپنی جھلک دکھا جاتی ہے
جس سے قاری محظوظ ہونے کے ساتھ مصنف کی فکر سے بھی براہ راست متاثر
ہوتا ہے ۔
خورشید رضوی کی شاعری مختلف مراحل طے کرتے ہوئے اپنی اصل کی
جانب لوٹ رہی ہے جہاں باآلخر اسے لوٹنا ہی تھا۔علم وفن کی یکجائی سے لفظو ں
کے موتی پرونا اس کی شاعری کا وصف خاص ہے اپنے حالیہ مجموعہ کالم
’’نسبتیں ‘‘ میں اس نے ذات خداوندی کی بڑائی بیان کرتے ہوئے اس کا شکر ادا کیا
ہے اور نعت میں نبی آخر الزماں کی ذات اقدس کے فیوض و برکات کو موضوع
سخن بنایا ہے۔
کو ئی بھی ذی شعور انسان اپنے معا شرے سے کٹ کر مثبت زندگی نہیں
گزار سکتا ۔ جو شخص زندگی میں کچھ خاص کر نے کا خواہاں ہو وہ ربط با ہمی کا
داعی ہو تا ہے ۔ کیو نکہ اس کے بغیر وہ اپنے مقاصد کے حصول میں کامیا ب نہیں
تا۔ ہو
خورشید رضوی کی شخصیت پر بلواسطہ اور بال واسطہ بہت سی شخصیات اثر انداز
رہی ہیں اور وہ بھی ان کی ا ثر پذیری سے منکر نہیں ہے۔ کسی بھی انسان کی یہ
بڑی خوش بختی ہے کہ اسے زندگی میں خرا ج تحسین پیش کیا جا ئے اور اس کی
اعلی صالحیتوں کا جائزہ اس کے ہم عصراور ما بعد شعراء ادباء نے معروضی انداز
ٰ
میں لیا ہے جو مبا لغہ آرائی سے کوسوں دور ہے ۔
خورشید رضوی کی گوشہ نشینی اور کم آمیزی کی گواہی بہت سے لوگوں نے
دی ہے۔ محمد کاظم اس حوالے سے لکھتے ہیں۔
’’شہرت اور خود نمائی سے انھیں کبھی غرض نہیں
رہی وہ خاموشی سے ٹھوس کام کرنے کے عادی ہیں
اور اپنے کام کا ڈھنڈورا انہوں نے کبھی نہیں پیٹا۔انھوں
نے ایک عربی تذکرہ شعراء قالئد الجمان کی تدوین
وتسوید ،ترجمے اورحواشی کے پُر مشققت کام کی
تکمیل میں اپنی زندگی کے دس برس لگادئیے اور ان
کے اس کام کی کسی کو خبر تک نہ ہوئی‘‘۔ ()۳۱
بطور محقق خورشید رضوی نے ’’عربی ادب قبل از اسالم‘‘ کے نام سے جو
تاریخ مرتّب کی ہے وہ ان کی محنت اور اپنے کام سے لگن کا عملی ثبوت ہے۔اس
حوالے سے محمد جاوید سیّد رقم طراز ہیں۔
بطور نثر نگار اور مترجم خورشید رضوی نے ایسی شاندار کتب تخلیق کی
ہیں جو اس کی علمی وسعت اوربین االقوامی ادب سے لگاؤ کا بیّن ثبو ت ہیں
۔نثرنگاری کے ساتھ ساتھ اس کی بے ال گ خاکہ نگا ری اردوادب میں اسے صف ّاول
کے خاکہ نگار وں کی صف میں ال کھڑا کر تی ہے ۔
شخصیت کا بے الگ اظہار خاکہ نگاری کا نمایاں وصف ہے ۔کسی شخص کی
زندگی کے پہلوؤں کو اس طرح نما یاں کر نا کہ اس کا تعارف بھی ہو جا ئے مگر وہ
اس کی سوانح نہ ہو۔ اس شخص کے افکاروکردار ،خوبیوں اور خامیوں پر روشنی
ڈالی جا تی ہے ۔خورشید کی خاکہ نگا ری کا اعتراف اس کے معاصرین نے خلوص
دل سے کیا ہے کیونکہ اس نے خاکہ نگاری کے اصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے
تمام خاکے تحریر کیے۔
خورشید رضوی کی خاکہ نگا ری کے بارے میں نسیم عباس احمد یوں رقم
طراز ہیں ۔
تالیف (مجموعہ مضامین ):مصنف ڈاکٹر خورشید رضوی ،ناشر :پروفیسر ۱۔
محمد شریف اصالحی ۱۱۴صفحات پر مشتمل یہ کتاب اکتوبر ۱۸۸۶ء
شرکت پرنٹنگ پریس ۴۳نسبت روڈ الہور سے ایک ہزار تعداد میں شائع ہوئی
۔اس کی قیمت ۱۰۰روپے ہے انتساب والد مرحوم کے نام ہے ۔
اطراف (مجموعہ مضامین ):مصنف :ڈاکٹر خورشید رضوی ،اشاعت اول ۳۔
۱۰۰۳ء اشاعت دوم ۱۰۱۱ء ۱۴۱،صفحات پر مشتمل یہ کتاب ۶۰۰کی تعداد
میں مغربی پاکستان اردو اکیڈمی الہور سے شائع ہوئی اس کی قیمت ۳۰۰
روپے ہیں انتساب استاد گرامی ڈاکٹر ایس ایم زمان صاحب کے نام ہے ۔
تاریخ علوم میں تہذیب اسالمی کا مقام :خطبات :ڈاکٹر فواد سیز گین ،ترجمہ ۴۔
:ڈاکٹر خورشید رضوی ۱۴۱،صفحات پر مشتمل کتاب ادارہ تحقیقات اسالمی
الجامعہ االسالمیہ العالمیہ اسالم آباد سے شائع ہوئی ۔انتساب استاد گرامی ڈاکٹر
صوفی محمد ضیا ء الحق کے نام ہے ۔
عربی ادب قبل از اسالم (جلد ّاول ):ڈاکٹر خورشید رضوی اشاعت ّاول جون ۶۔
۱۰۱۰ء ۹۰۳،صفحات پر مشتمل یہ کتاب ادارہ اسالمیات پبلیشرز ،بْک
سیلرز الہور سے شائع ہوئی ۔انتساب والدہ مرحومہ کے نام ہے ۔
قالئد الجمان (تحقیق متن عربی ،حصہ ششم )تحقیق :خورشید رضوی ۱۔
۱۱۴صفحات پر مشتمل یہ کتاب شیخ زید اسالمک سنٹر،پنجاب یونیورسٹی
الہور سے شائع کی گئی ۔اس کی قیمت ۱۰۰روپے ہے۔انتساب استاد محترم
ڈاکٹر صوفی ضیاء الحق کے نام ہے ۔
حکم المحکمۃ الشرعیۃ (:انگریزی سے عربی ترجمہ ):رباپر وفاقی شرعی ۹۔
عدالت کے انگریزی فیصلے کا عربی ترجمہ،زیر اہتمام،اسالمی ترقیاتی بنک
جد ہ ۱۸۸۶،ء ۔
یکجا (کلیات ):خورشید رضوی ،اشاعت اول ۱۰۰۹:ء میں ہوئی ۱۱۰، ۱۔
صفحات پر مشتمل یہ کتاب الحمد پبلی کیشنز الہور سے شائعہوئی ۔اس کی
قیمت ۱۰۰روپے ہے ۔اس مجموعے میں شاخ تنہا،م سرابوں کے صدف،
رائگاں ،امکان) شامل ہیں۔
دیریاب :خورشید رضوی ،اشاعت ّاو ل ۱۰۱۳ء (،حمد ونعت ،غزلیں ،نظمیں ۸۔
) ۱۱۸صفحات پر مشتمل یہ مجموعہ کالم القا پبلی کیشنز الہور سے شائع ہوئی
انتساب ڈاکٹر توصیف تبسم کے نام ہے اس کی قیمت ۳۸۶روپے ہے۔
شاخ تنہا :خورشید رضوی ۱۱،مئی ۱۸۹۴ء ،انتساب مجید امجد کے نام ہے ۱۰۔
۔ ۱۱۰صفحات پر مشتمل یہ مجموعہ کالم ہے ۔ یکجا (کلیات) اشاعت دوم
،۱۸۹۴اشاعت سوم ۱۰۰۹اور چوتھی اشاعت یکجا (کلیات) کی صورت
۱۰۰۹ء اور پانچویں ۱۰۱۱ء میں ہوئی۔
سرابوں کے صدف :خورشید رضوی ،انتساب والدہ صاحبہ کے نام ہے۔اشاعت ۱۱۔
ّاول ۱۸۱۱ء اشاعت دوم ۱۸۸۶ء ۱۴۴ ،صفحات پر مشتمل اس مجموعہ کالم
کی اشاعت سوم ۱۰۰۹اور اشاعت چہارم ۱۰۱۱ء میں ہوئی۔ انتساب والدہ
صاحبہ کے نام ہے۔
رائگاں :خورشید رضوی ،انتساب ثریا کے نام ہے۔اشاعت ّاول ۱۸۸۱ء ۱۱۔
۱۱۱صفحات ہیں۔
امکان :خورشید رضوی ،انتساب عابد صدیق کے نام ہے ۔اشاعت اول ۱۰۰۴ء ۱۳۔
۱۱۰صفحات ہیں۔
نسبتیں (:حمد ،نعت ،منقبت ،سالم )اشاعت ّاول ۱۰۱۶ء انتساب ترتیب ارسالن ۱۴۔
احمد ارسل شاعر خورشید رضوی ،قیمت ۱۱۰روپے ،انٹرنیشنل نعت مرکز
الہور۔
حوالہ جا ت
خو رشید رضوی ،ڈاکٹر ’،تا لیف‘،ال ہور ،شہ تا ج مطبو عات ۱۳۔
۱۸۸۶،ء ،ص۱۹
خو رشید رضوی ،ڈاکٹر ’ ،چند روز اُردن میں ‘،مشمو لہ ، ۱۸۔
الحمرا،شمارہ ،۳جلد ،۱۳ال ہور ،مارچ ۱۰۱۳ء،ص۳۶۔
محمد کاظم کا ادبی حلقوں میں تعارف ’’فنون‘‘ کے ذریعے ہوا اس لیے طالبعلموں
کے جس گروہ کو فنون۔ کی فکر اور مزاج کا آئینہ دارسمجھا جاتا تھا ۔ اُن پر محمد
کاظم جب قلم اُٹھاتے ہیں تو دراصل وہ اپنی اجتماعی شناخت کی دریافت کی سرشاری
کے مرحلے سے گزرتے ہیں ۔ وہ جب احمد ندیم کاقسمی محمد خالد اختر یا علمی
عباس جالل پوری پر قلم اٹھائیں تو دراصل یہ اُن کی بالواسطہ آپ بیتی کا معنی خیز
حصہ بن جاتا ہے۔ میں ہر شخص اپنی انا رکھتا تھا لیکن احمد ندیم قاسمی اور فنون
نے اُنہیں ایک خاص گروہ میں ڈھال دیا تھا۔
یادیں اور باتیں (خاکے اور منتخب مضامین )پر ۱۸۸صفحات پر مشتمل یہ کتاب
۱۰۱۰ء میں سنگ میل پبلی کیشنز ال ہور سے شائع ہوئی۔یہ محمد کا ظم کی ان
‘‘’’سوغات ’’فنون رسائل مختلف جو ہے مجموعہ کا تحریروں
‘‘’’(بنگلور)‘‘’’الحمرا‘‘’’،مونتاج‘‘میں شائع ہوئیں۔اس کتاب کے پانچ بڑے حصے
ہیں ۔
پہال خاکہ ‘‘ماڈرن قلندر’’ فنون کے شمارہ جوالئی اگست ۱۸۱۱ء میں شائع ہوا اور یہ
محمد کا ظم کی پہلی تخلیقی کاوش ہے ۸تا ۱۶صفحا ت پر اس کتاب میں مشمولہ یہ
خاکہ فکرونظر کے کئی دروا کرتا ہے ۔ اس خاکے کی شخصیت ’’مختاراحمد مفتی
‘‘ہیں۔ جو محمد کا ظم کے کالج فیلو ،دوست اور درجہ ّاول کے مجسٹریٹ تھے ۔
فنون میں شائع ہونے والی محمد کاظم کی ہر تحریر خاص مقصد کی حامل ہے ایسا
محسوس ہو تا ہے کہ وہ اپنے قارئین کی خصوصی ذہنی تربیت کرنا چاہتے ہیں
عموما َ ََخاکے صاحب حیات شخصیات کے لکھے جا تے ہیں لیکن محمد کاظم کا
معاملہ اس کے برعکس ہے اُس نے زیادہ تر وفیات کے بعد خاکے تحریر کیے۔
مختارمفتی خاکہ نگار کا کالج فیلوتھا اس لیے اُس کے ساتھ عقیدت کا نہیں بلکہ دوستی
کا رشتہ تھا جو بہت لمبے عرصے پر محیط تھا ۔ پہال دَورکالج دوران تعلیم اور دوسرا
مال زمت کے دوران اچانک مالقات اور پھر پُرانی دوستی کا والہانہ انداز سے عود
آنا۔ کر
سن کر عہد رفتہ کو یاد کرتے ہوئے محمد کا ظم
مختارمفتی کی اچانک وفات کی خبر ُ
ا ُس کی شخصیت کے جملہ پہلوؤں کا معروضی انداز میں جائزہ لیتا ہے۔ خاکہ نگار
کا اسلوب انتہائی دلچسپ بر محل اور بر حستہ ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ صاحب
خاکہ مجسم ہو کر ہمارے سامنے کھڑا ہے۔ محمد کا ظم نے روایت دوستی نبھا تے ہو
ئے غیر جانبدرانہ انداز میں من حیث االنسان اس کی شخصی خوبیوں اور خامیوں
کابے الگ جائزہ لیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ صاحب خاکہ کا اہل قلم نہیں بلکہ اہل
دل ہو نا ضروری ہے ۔
مختار مفتی کی شخصیت بظاہر سید ھی سادی ہے لیکن کبھی کبھی وہ فلسفیانہ
گفتگوشروع کر دیتا ہے جس سے محسوس ہوتا ہے کہ اس کی شخصیت میں بہت پیچ
وخم ہیں۔اس کے اندر خواہشات کا ایک ال متناہی سلسلہ ہے جو کبھی پوری ہو تی دکھا
دیں۔ نہیں ئی
محمد کا ظم اس کے علم وادب ،فن مو سیقی سے لگاؤ کا معترف ہے لیکن اس کے
باوجود اس کی شخصیت کے جذباتی پن اور تضاد کو واضح کیا ہے کہ کامیاب از
دواجی زندگی کے با وجود وہ عورت اور مرد کے رشتے کو مضحکہ خیز سمجھتا
ہے ،تنہائیوں اور ویرانیوں کا ذکر کرتا ہے حاالنکہ وہ خود محفل کا آدمی ہے۔
محمد کا ظم نے خاکہ نگاری کی معروف قوت حلیہ نگاری سے بھی کام لیا ہے ۔
محمد کاظم نے مختار مفتی کی حس مزاح کو بہت دلچسپ انداز میں بیا ن کیا ہے کہ
کہیں بھی یکسانیت کا احساس نہیں ہو تا ۔مختار مفتی خلیل جبران خلیل کا مداح تھا اس
لیے اُس کے خطوط جبران کے اسلوب کے نمائندہ تھے چونکہ محمد کاظم شبلی
نعمانی اور سید سلیمان ندوی کے طرزنگارش کا زبر دست مداح تھا اس لیے اس کے
اسلوب میں بھی وہی محققانہ انداز ہے اس لیے اُس کی تحریریں خواہ کوئی موضوع
ہو ہمیشہ قارئین پر اَن مٹ نقوش ثبت کریں گی ۔
’’شاہ جالل پور‘‘فنون شمارہ ۱۰۸مارچ ۱۸۸۸ء ص ۱۶تا ۱۴میں شائع ہو نے واال
یہ خاکہ فکروفلسفہ اور علم و دانش سے بھر پور شخصیت سید علی عباس جالل
پوری کا ہے جنہوں نے برسوں فکروفلسفہ کے چمن کی آبیاری کی ۔
عقیدت اور تنقید چند قدم تو ساتھ چل سکتی ہیں لیکن طویل مسافت ایک ساتھ طے کر
نا ان کے لیے ناممکن ہے۔ تنقید ایک پُر خار وادی کا نا م ہے جس کے لیے دامن خار
دار کانٹوں سے بھی اُلجھتا ہے لیکن استقامت ضروری ہے جس طرح ایک باغبان بے
دردی سے پودوں کی کا نٹ چھانٹ کرتا ہے صرف ان کی بہتری اور بڑھوتری کے
لیے اسی طرح ایک نقاد کا منصب بھی یہی ہے کہ وہ فن پا رے کو ہر پہلو سے
جانچے ۔
زیر موضوع خاکہ بھی اسی حقیقت کا متقاضی ہے کہ اس کا معروضی انداز میں جا
ئزہ لیا جا ئے ۔محمد کا ظم کا علی عباس جالل پوری سے دوستی اور بے تکلفی کا
رشتہ استوار تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ عقیدت مندی اپنی جگہ بر قرار تھی جو انہیں
کسی بھی حد سے تجاوز کر نے سے ما نع تھی ۔ اس لیے اس خاکے میں کچھ فنی
معائب ایسے بھی ہیں جن سے خاکہ نگار نے دانستہ طور پر پہلوتہی کی ہے۔
فنون میں شائع ہو نے والی محمد کا ظم کی تمام تحریریں متوازن اور سچ پر مبنی تھی
یہ خاکہ بھی سچائی کا دامن تھامے ہوئے ہے چونکہ یہ خاکہ سید صاحب کی وفات
کے بعد لکھا گیا ہے اس لیے اس روایت کو نبھانے کی کو شش کی گئی ہے کہ جانے
والے کی خامیوں سے صرف نظر کرتے ہو ئے اسے بڑی عقیدت کے ساتھ طاق
نسیان پر سجا نا ہے ۔
’’ایک بات میرے لیے بھی ناقابل فہم ہے سید محمد کاظم
جو دوسروں کو تختہ دار پر لٹکتے ہوئے دیکھنے کے اس
قدر مشتاق ہیں ،خود گوشہ عافیت میں بیٹھ کر اور اپنی ہی
ذات کے خول میں محصور ہو کرابتدائی قسم کے حظوظ
سے بہرہ یاب ہو نے کو زندگی کا حاصل کیوں سمجھتے
ہیں‘‘؟(( )۱محمد کاظم ،یادیں اور باتیں،سنگ میل پبلی
کیشنز ،الہور ۱۰۱۰،ء ص)۳۱
یہ محمد کاظم کی شرافت طبع ہے کہ اُنہوں نے اسے انتہائی صبر سے برداشت کیا
اور ان کے بارے میں مثبت رویہ رکھا ۔ علمیت اور تعصب ایک دوسرے کے منافی
ہیں ۔ تعصب کسی بھی شکل میں علمی صالحیتوں کے لیے دیمک ہے ۔علی عباس
جالل پوری سخت قسم کے پنجابی اور عالقائی تعصب رکھتے تھے اس سلسلے میں
وہ کچھ سننے کے روادار نہ تھے۔اپنی ذات کے با رے میں سچ بولنا ہر کسی کے بس
کی با ت نہیں اسی لیے سید صاحب نے بھی اپنی یاد ایام کی چند جھلکیاں دکھا کر یہ
ادھورا سلسلہ جلد ہی موقوف کر دیا ۔
محمد کا ظم کا تحریر کردہ یہ خاکہ انتہائی دلچسپ اور بھر پور تا ثر لیے ہو ئے ہے
اس میں سید صاحب کی شخصیت کے مخصوص پہلواس طرح سموئے ہوئے ہیں کہ
خاکے کے اختتام پذیر ہو نے کاپتہ ہی نہیں چلتا یوں محسوس ہو تا ہے کہ ہم برا ہ
راست سید صاحب سے محوم القات ہیں اور یہ اشتیاق بڑھتا ہی جا تا ہے ۔ محمدکا ظم
نے اُن کی شخصی کمزوریوں سے پردہ تو اُٹھایا ہے مگر اس طرح سے سید صاحب
پر بجائے غصے کے پیار آنے لگتا ہے دل واقعتا َ ََبر ضا و تسلیم ہو جا تا ہے کہ وہ
بلند فشار خون کی وجہ سے ہی اتنے جذباتی ہو جا تے تھے لیکن بعد میں اپنی غلطی
کا احساس بھی ہو جا تا تھا لیکن رسما َ ََمعافی کے خواستگار کم ہی ہو تے تھے ۔محمد
کاظم نے اُن کے علمی کارناموں کا اس انداز سے جا ئزہ لیا ہے کہ ان کی و سعت
اعلی
ٰ علمی اور فلسفیانہ ژرف نگا ہی بھر پور انداز سے سامنے آتی ہے اور نہایت
ظرفی سے سید ص احب کی علمیت کا تہہ دل سے اعتراف کیا ہے اس طرح ان کے
۔ ہے آتی نظر متانت کی طرح خاص میں انداز
زیر موضوع کتاب کا تیسرا خاکہ ’’محمد خالد اختر‘‘:ایک تعارف ہے جو ’’سو غات
ہوا۔ شائع میں ۱۸۸۴ء مارچ ‘‘بنگلور
یہ خاکہ مذکورہ با ال خاکوں سے اس لیے مختلف ہے کہ یہ محمد خالد اختر کی زندگی
میں لکھا گیا ۔اس کا آغاز ڈرامائی انداز سے حلیہ نگاری سے کیا ہے جو قاری کی
توجہ فورا َ ََاپنی جا نب مبذول کر لیتا ہے ۔
یہ خاکہ تعارفی انداز میں لکھا گیا ہے اس لیے اس میں شخصی تعارف زیادہ ہے۔
آباؤاجداد کے مسکن کا ذکر ہے۔محمد خالد اخترکی تعلیم ،مالزمت ،افتادطبع اور
لکھنے کی ابتداء کے حوالے سے تفصیل ہے ۔ ان کے حلقہ احباب میں احمد ندیم
قاسمی سے تعلق اور دوستی کا ذکر ہے ۔ محمد خالداختر کی سیمابی فطرت کا ذکر
کرتے ہو ئے کہ ایک جگہ اطمینان سے نہیں ٹھہرتے تھے اور سیاحت کا شوق
رکھتے تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنی یادداشتوں کو سفر نامے کی صورت میں
قلمبند کرتے جاتے تھے ۔
محمد کاظم نے ممکن حد محمد خالد اختر کی کتب کا جائزہ بھی لیا ہے۔محمد خالد
اعلی تعلیم یافتہ اورہمہ جہت ادیب تھے ۔انہوں نے سفر نامے ناول اور مختلف تنقیدی
ٰ
مضامین کے ساتھ ساتھ انگریزی سے اردو میں تراجم کیے انھیں پڑھنےوالے اور ان
اعلی تعلیم یافتہ تھا کیو نکہ عام قاری
ٰ کی فکر کو سمجھنے والے قارئین کا حلقہ بھی
انہیں سمجھنے سے قاصر تھا ۔ ان کے دو کر دار ’’چچا عبدالباقی ‘‘اور ’’بھتیجے
بختیار خلجی ‘‘نے طنز و مزاح کی دُنیا میں غیر فانی کردار ادا کیا ۔
محمد خا لد آزاد طبیعت کے آدمی تھے لیکن مالزمت نے ایک طرح سے پابند کر دیا
تھے تعینات پر عہدے اعلی
ٰ میں واپڈا وہ اور
اور لکھنے لکھانے کا سلسلہ بھی قریبا َ ََ موقوف ہو گیا تھا لیکن ان کے ادبی قالب میں
احمد ندیم قاسمی نے نئی روح پھونکی جبکہ ’’فنون‘‘کا اجراء ہوا تو محمد خالد کے
لیے طے پایا کہ اس کے لیے با قا عدگی سے لکھیں گے ۔ محمد خالد کے لیے یہ پیغام
ایک نئی نوید ثابت ہوا کہاں ہر وقت واپڈا کی خشک فائلوں میں سر کھپانا اور اب ان
کو اپنے مزاج کو جال دینے کا موقع مال۔ ’ ’ٖفنون‘‘ کے پہلے شمارے سے ہی محمد
خالد نے د وبارہ سے لکھنے کا آغاز کیا وہ سلسلہ جو کسی حد تک موقوف ہو گیا تھا
دوبارہ سے جڑ گیا۔ اس طرح اس کے مختلف شماروں میں اس کی رنگا رنگ
تحریریں شائع ہو نا شروع ہو گئیں اور یہ سلسلہ طویل عرصے پر محیط ہے۔
محمد کا ظم نے اپنے اس تعارفی خاکے میں محمد خالد اختر کی شخصیت کے اس
پہلو کا خصو صا َ ََ ذکر کیا ہے کہ وہ کسی کردار کو تخلیق کرنے سے پہلے اس کو
خود پر طاری کر لیتے تھے انہوں نے ان عالقوں میں رہائش اختیار کی جن کے
متعلق ناول یا کوئی مضمون لکھا ۔ہر دور میں ان کی تر جیحات بدلتی رہی ہیں ۔انہوں
نے غالب کو بالکل ایک اچھوتے انداز میں اس کے خطوط میں دریافت کیااور اسی
انداز میں اپنے رفقاء ے کار کو خطوط لکھے ۔
محمد کاظم نے محمد خالد اختر کے اسلوب کی ندرت اور لطافت کو بہت سراہاہے ان
کی شخصیت وفن کے معائب نہیں بلکہ محاسن ہی بیاں کیے ہیں اور ان کے ساتھ
معاصرین کی بے مہری کی تالفی کرنے کی کوشش کی ہے ۔اور ان کے طرز اظہار
کی مثبت انداز سے وضاحت کی ہے ۔ان کی کتب کو ما سوائے مخصوص طبقے کے
پزیرائی نہ ملنے کی وجہ ان کی عزلت پسندی اور کمزور تعلقات عامہ ہے۔ محمد کا
ظم نے ان کی کتب کا فردا َ ََفردا َ ََتعارف کرایا ہے اور ان کا جائزہ لیا ہے ۔محمد خالد
زمانہ طالب علمی سے ہی منفرد مزاج کا حامل تھا۔کچھ نیا کرنے کی دھن اس پر
سوار رہتی تھی ان لیے اس کی سوچ اور خیا ال ت عام قاری کی سمجھ سے باال تر
ہیں۔
بحیثیت مجموعی یہ خاکہ بہت دلچسپ بیانیہ انداز میں لکھا گیا ہے لیکن ابتدائی سطور
میں محسوس ہو تا ہے کہ ہم براہ راست محمد خالد اختر سے مالقات کر رہے ہیں یہ
مصنف کے قلم کا اعجاز ہے جس نے تحریر کو زندگی بخشی ہے ۔
زیر نظر ک تاب میں شامل چوتھا خاکہ جس شخص پر لکھا گیا ہے وہ ادبی دنیا میں
ایک قد آور شخصیت اور کسی تعارف کی محتاج نہیں محمد کاظم سے پہلے ان پر بے
شمار لوگوں نے لکھا ۔ ان کی زندگی میں ہی بہت سے معاصرین نے انہیں خراج
تحسین پیش کیا ۔ ان کی شخصیت اتنی پہلو دار ہے کہ جتنی بھی پرتیں کھولتے جائیں
ہر پرت میں ایک منفرد شخصیت ہمارے سامنے آئے گی ۔ شاعر ،افسانہ نگار ،مدیر
یہ ہر دل عزیز شخصیت احمد ندیم قاسمی ہیں ۔
احمد ندیم قاسمی پر تحریر کردہ یہ خاکہ فنون میں شائع ہوا ۔ یہ احمد ندیم قاسمی کی
وفات کے بعدان سے حق رفاقت ادا کرتے ہوئے لکھا ملنا ،بچھڑنا ،جینا ،مرنا یہ سب
زندگی کی ریت ہیں لیکن ان احساسات کو صفحۂ قرطاس پر النا ہر کسی کے لیے
ممکن نہیں ۔
وہ لوگ جو دوسروں کی زندگیوں کے لیے چراغ رہ ثابت ہوں اور انہیں زندگی کے
معانی سمجھادیں تو انہیں بھالنا واقعتا ناممکن ہے ۔ جینے کے لیے زندگی کو معمول
کی ڈگر پر تولے آتے ہیں لیکن وہ لوگ جن کے ساتھ زندگی کے یاد گار لمحے
گزرے ہوں انہیں چاہ کر بھی نہیں بھال یا جا سکتا ۔
یہ خاکہ تاثر سے بھرپور انداز میں یادوں کے سلسلے کو جوڑتے ہوئے سلیس اسلوب
میں لکھا گیا ہے ۔پیشہ وارانہ زندگی میں محمد کاظم اور احمد ندیم قاسمی دو مختلف
دنیاؤں کے لوگ تھے لیکن جو چیز انہیں ایک مرکز پر الئی وہ ’’فنون‘‘کا اجراتھا
جس کے مدیر احمد ندیم قاسمی تھے محمد کاظم کی ان سے پہلی مالقات محمد
خالداختر کی وساطت سے ہوئی اور بعد میں یہ گہری دوستی میں بدل گئی محمد کاظم
طبعا ً کم گو اور کم آمیز انسان تھا اس لیے ابتدائی تعلقات میں وہ دوسروں سے کچھ
فاصلہ ہی رکھتا تھا ۔ احمد ندیم قاسمی سے وہ ذہنی طور مرعوب تھا اور باوجود ان
کی فرمائش کے ’’فنون‘‘ کے لیے کچھ لکھنے سے گریزاں تھا حاالنکہ اس سے
پہلے وہ عربی ادب کے حوالے سے دیگر رسائل میں مضامین لکھ چکا تھا ۔
فنون میں لکھنے کے لیے حکیم حبیب الشعر نے بے انتہا اصرار کیا ل ٰہذا انہیں لکھتے
ہی بنی ۔ ایک ماہ کی مسلسل محنت سے انہوں نے فنون کے لیے ’’الف لیلہ عربی
ادب میں ‘‘ لکھا جسے مدیر فنون نے بہت سراہا اور چوتھے شمارے میں شائع کیا ۔
اس سے محمد کاظم کے اندر بطور ادیب اعتماد پیدا ہوا اور وہ احمد ندیم قاسمی کی ہر
فکر ی جہت کے دل سے معترف تھے ۔
محمد کاظم ان کی ادبی صالحیتوں سے قطع نظر ان کی حس مزاح اور دوستوں سے
محبت اور بے تکلفی کے انداز کو بہت پسند کرتے تھے۔ اس خاکے میں احمد ندیم
قاسمی کے ساتھ ساتھ الہور کی تہذیب و ثقافت اور ادبی ماحول کے بارے میں بھی
جانکاری ملتی ہے ۔ وقت کے س اتھ ساتھ احمد ندیم قاسمی اور محمد کاظم کی شناسائی
قربت میں بدلتی گئی اور گھریلو تعلقات بھی پروان چڑھنے لگے ۔
محمد کاظم کا اسلوب جاندار اور تحریریں نپی تلی ہوئی ہیں اس لیے وقت اور حاالت
کے ساتھ اس کی تحریریں بھی اسی رخ پر ڈھلتی جاتی ہیں یہاں ۔ پر محمد کاظم اپنے
سفر جرمنی (جون 6791ء) جو کہ اس کی زندگی کا اہم واقعہ ہے یہاں دو دوست دور
ہو کر بھی پہلے سے زیادہ ایک دوسرے کے قریب آگئے اور طویل خطوط کا تبادلہ
شروع ہو گیا محمد کاظم دانستہ خطوط کی نوک پلک سنوار کر لکھتا تاکہ وہ فنون میں
شائع ہو جائیں لیکن مدیر فنون جو ایک صاحب دانش ادیب تھے ان میں پرکھ پڑچول
کی حس بہت زیادہ تھی انہوں نے ارادتا ً ان خطوط کوشائع نہ کیا کیونکہ وہ چاہتے
تھے کہ محمد کاظم ان سارے واقعات کو ایک سفر نامے کی صورت میں مرتب کرے
۔تاکہ قارئین ادب کے سامنے اس کا ایک نیا جوہر سامنے آئے ۔ محمد کاظم نے اس
خاکے میں احمد ندیم قاسمی کی دو شخصی خوبیوں کا ذکر انتہائی عقیدت سے کیا ہے
۔ ایک وہ تعلق نباہنے میں بے مثال تھے اور دوسرے احساس ذمہ داری ان میں بدرجۂ
اتم موجود تھا ۔ا حمد ندیم قاسمی کے حوالے سے لکھتے ہوئے محمد کاظم اپنے اور
ان کے مشترکہ دوست محمد خالد اختر سے اُن کی دوستی اور بے تکلفی کا ذکر کرتا
ہے۔
جب فنون کا دفتر دوسری جگہ منتقل ہوا اور ندیم مجلس ترقی ادب کے دفتر میں بطور
ناظم تعینات ہوئے تو ان کی زندگی میں بہت بڑی تبدیلی آئی جو نشیب و فراز سے بھر
پور ہے ۔
آخر میں محمد کاظم ان کی وفات پر اپنے منفرد اور دلکش اسلوب میں اظہار غم کرتا
ہے کہ ان کے بعد پیدا ہونے واال خال کبھی بھی پرنہیں ہوگا وہ اپنی ذات میں ایک
تھے اس لیے دو ئی ناممکن ہے ۔ وہ اردو ادب والوں کے لیے بمثال شجر سایہ دار
تھے کیونکہ وہ ہر صنف میں با کمال تھے اور نئے آنے والوں کی بہت حوصلہ
افزائی کرتے تھے ۔
محمد کاظم اپنی ذات کے حوالے سے احمد ندیم قاسمی سے جدائی کو اپنی زندگی کا
بہت بڑا سانحہ قرار دیتا ہے ایسا سانحہ جس نے اس سے لکھنے کی صالحیت سلب
کرلی اور اب اس کے پاس کہنے سننے کو کچھ بچا ہی نہیں کیونکہ وہ جس شخصیت
کے لیے لکھتا تھا وہ اب ان سے بہت دور منوں مٹی کے نیچے جا سوئی ۔
محمد کاظم کی یہ تحریر اپنے آغاز سے لے کر اختتام تک قاری کو اپنی گرفت میں
یوں جکڑے رکھتی ہے کہ وہ اسے پڑھے بغیر دم نہیں لیتا اور آخر میں ایک افسردہ
تاثر کے ساتھ محمد کاظم کے لیے دعا کرتا ہے کہ انہیں لکھنے کے لیے کوئی ایسا
محرک مل جائے کہ جس کی پناہ میں وہ خود کو آسودہ سمجھیں ۔
شامل کتاب پانچواں خاکہ ‘‘اختر حسین جعفری :دل سے کب اس کی یاد جاتی ہے ’’
کے عنوان سے یہ خاکہ اختر حسین جعفری کی وفات کے بعد احاطہ تحریر میں الیا
گیا۔ جس میں خاکہ نگار نے ان بیتی ہوئی یادوں کو مجتمع کیا ہے ۔ جو ایک دوسرے
کی سنگت میں وقتا ً فوقتا ً گزری ہیں ۔ ( ۱۱فنون مئی ،اگست ۱۸۸۱ء ،ص ۶۱تا ۶۶
میں شائع ہوا)۔
اعلی تعلیم یافتہ اور محکمہ کسٹمز میں افسر تھا ۔ بے حد حساس
ٰ اختر حسین جعفری
انسان اور خوش فکر شاعر تھا لیکن نمود و نمائش سے ہمیشہ گریزاں رہا ۔ جس فکر
سے وہ اپنی پہچان بنانا چاہتا تھا وہ عوام کی سمجھ سے باال تر تھی اوروہ اس کی
۔ تھے چاہتے نہیں ہی سمجھنا کو گہرائی
زیر موضوع خاکہ انہی موضوعات کو لیے ڈرامائی انداز سے شروع ہوتا ہے اور
قاری کی توجہ فورا ً اپنی جانب مبذول کر لیتا ہے ۔ جو اختر حسین جعفری سے شناسا
بھی نہیں ہیں وہ بھی اسلوب کی دلکشی میں گم ہو کر دم سادھے اس خاکہ نما مضمون
کو پڑھ کرہی دم لیتے ہیں ۔ محمد کاظم کی نثر سادگی اور سالست کا مجموعہ ہے
صاحب خاکہ سے اس کی طویل مالقاتیں تو محض چند تھیں لیکن یادیں بے شمار ہیں
اس کے باوجود ان یادوں میں بے تکلفی کی وہ فضا نہیں جو دوسرے خاکوں میں ہے
۔ اختر جعفری کابے ربط سا تعارف ہے جس سے قاری اس کی شخصیت کے بارے
میں کوئی واضع رائے نہیں پیش کر سکتا ۔ محمد کاظم نے اس کی شاعری ،شاعرانہ
بصیرت اور وسیع نقطہ نظر کا اعتراف کیا ہے۔ اور اس کی شاعری کے بارے میں
اپنا نقطہ نظر پیش کیا ہے۔
اختر حسین جعفری جدید نظر کا شاعر تھا اس کی نظم کا ہر مصرع ایک علیحد ہ
خیال پیش کرتا ہے اور اس میں باہمی ربط کا فقدان ہے لیکن مصرعوں کی بنت
باکمال اور آہنگ شاندار ہے اس لیے قار ی ان کی گرفت میں آجاتا ہے جبکہ اختر
حسین جعفری اس بارے میں جذباتی ہو جاتا تھا اور اس کا کہنا تھا کہ اس کا ہر
مصرع الگ الگ صورتحال کے لیے خاص تاثر دیتا ہے اور اس کو نا سمجھنا گویا
جدید نظم کے تقاضوں سے بے خبری کے مترادف ہے ۔ ایسا ہی ایک سوال علی
عباس جالل پوری (جو حددرجہ جذباتی انسان تھے )نے کیا اس قسم کی شاعری کی
قدروقیمت کیا ہے ؟ اختر حسین جعفری اس غیر متوقع سوال کو حفظ مراتب کے
تقاضے کے تحت برداشت کر گیا لیکن اندر سے وہ انتہائی مضمحل ہو گیا اور یہ بے
چینی ایک غزل کی صورت میں سامنے آئی اس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس کی
فکر اس کے مزاج کی تابع تھی کیونکہ یہ غزل اس کی ذہنی کیفیت کی عکاس
تھی اختر حسین جعفری کے نام سے زیادہ لوگ غیر شناسا ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ
اس نے غالبا ً خود اس کی غفلت ہے محمد کاظم نے یہاں انتہائی دکھ کا اظہار کیا ہے
کہ وہ زمانے کی بے اعتنائی کا شکار ہو گیا اور یوں اچانک وقت سے پہلے ہی اس
دنیا سے رخصت ہوگیا۔ وہ اپنی شخصیت کا اظہار اس طرح سے نہ کر سکا جس
طرح چاہتا تھا اس لیے اس نے اظہار کا دوسرا راستہ یہ نکاال کہ ’’فروا‘‘ کے نام
سے کتابی سلسلے کی اشاعت کا آغاز کیا۔ پہال شمارہ ہی شائع ہوا اور دوسرا بھی
تیاری کے مراحل میں تھا کہ پیغام اجل آپہنچا اور یوں اپنے ادھورے منصوبوں کے
ساتھ وہ ہم سے جدا ہوگیا محمد کاظم جو خود ایک مرنجاں مرنج شخصیت تھے انہیں
بعد میں اس بات کا شدید قلق رہا کہ انہیں طے شدہ منصوبے کے تحت ایک جگہ جمع
ہو کر اپنے خیاالت کو عملی جامہ پہنانا تھا لیکن مصروفیت حیات نے فرصیت نہ دی
اور یوں یہ خواہش ایک کسک بن کر رہ گئی۔
محمد کاظم اس خاکے کا اختتام انتہائی کرب کے ساتھ شعر کے اس مصرعے سے
کرتے ہیں ۔
ملیں گے اب بھی ،مگر آہ! کب ؟ کہاں ؟ کیوں کرزیر موضوع کتاب کا دوسرا حصہ
’’عربی اور اسالمی ادب ‘‘کے عنوان سے ہے ۔ اس میں مختلف موضوعات پر
مشتمل چار مضامین ہیں جو محمد کاظم کی زیر کی اور تنقیدی بصیرت کی روشن
مثال ہیں ۔ وہ عربی ادب پر گہری نظر رکھتا تھا ۔ زیر موضوع مضامین اسی کی
حقیقت پر داللت کرتے ہیں ۔ یہ مضامین اس سے پہلے فنون کے مختلف شماروں میں
شائع ہوتے رہے ہیں اور اب اس کتاب میں شائع کیے گئے ہیں تاکہ جو قارئین بوجوہ
نہیں پڑھ سکے وہ اب ان کا مطالعہ کر سکیں ’’فنون ‘‘ میں شائع ہونے والے اور اب
کتاب میں شائع ہونے والے ان مضامین اور ان کے موضوعات میں کوئی تبدیلی نہیں
گئی۔ کی
پہال مضمون ’’ موالنا محمد علی جوہر اور ان کے انتقال پر کہے گئے دو مرثیے‘‘
ہے اس میں ان مرثیوں کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ یہ مضمون ’’روزن در‘‘کے عنوان کے
تحت فنون کے شمارہ ،۴۰جوالئی تا دسمبر ۱۸۸۳ء میں ص ۱۱تا ۱۱پر شائع ہوا ۔
اس سلسلے میں تین مضامین ہیں ۔ جس میں مذکورہ مضمون پہلے نمبرپر ہے اس کے
بعد دوسرا مضمون سیننکا کا ایک خط (کتابوں کے مطالعے کے بارے میں ) اور
تیسرا مضمون شام کے شاعر ’’نزار قبانی ‘‘ کی ایک چھوٹی سی نظم کا جائزہ ہے ۔
زیر نظر کتاب کے دوسرے حصے میں شامل پہال مضمون میرا موضوع بحث ہے ۔
اس میں محمد کاظم نے موالنا محمد علی جوہر کے انتقال پر کہے گئے مرثیوں کا
تحقیقی و تنقیدی جائزہ لیا ہے موالنا محمد علی جوہر تحریک پاکستان کے سر کردہ
رہنما اور اپنے ارادوں میں چٹان کی مانند شخصیت تھے ،دیار غیر میں ان کی
اچانک وفات پر بے شمار مرثیے کہے گئے لیکن محمد کاظم نے جن مرثیوں کو
موضوع بنایا ہے ان کی خاصیت یہ ہے کہ یہ دو عظیم شعراء شاعر مشرق عالمہ
محمد اقبال (6899ء تا )6718اور مصر کے امیر الشعراء احمد شوقی (م۱۸۳۱ء) کا
ان کی شان میں نذرانہ عقیدت ہے ۔
یہ مرثیے دو مختلف زبانوں میں کہے گئے ۔ عالمہ اقبال نے جو مرثیہ کہا وہ فارسی
زبان میں ہے اور احمد شوقی کا مرثیہ عربی زبان میں ہے موالنا محمد علی جوہر کی
وفات ایک عالم کی وفات تھی اس لیے ان کی یاد میں بہت سے شعراء نے مرثیے
کہے ۔ محمد کاظم نے ان مرثیوں کو آخر میں اردو ترجمے کے ساتھ پیش کیا ہے
لیکن اس سے پہلے انہوں موضوع مرثیہ شخصیت موالنا محمد علی جوہر کی
شخصیت کے چند پہلوؤں کا اجمالی جائزہ لیا ہے تاکہ ان مرثیوں کی ادبی اہمیت
واضح ہو سکے ۔ انہوں نے موالنا محمد علی جوہر کی جذباتیت کا خصوصا ً ذکر کیا
ہے لیکن ساتھ ہی یہ واضح کیا ہے کہ یہ جذباتیت کسی مثبت پہلو کی ہی آئینہ دار
ہوتی تھی ۔ یہاں پر موالنا کی سیاسی جدو جہد اور اس کے نتیجے میں پیش آمدہ
مشکالت ک ا ذکر کیا ہے کہ کس طرح اس بطل حریت نے اپنی زندگی داؤ پر لگا دی
ان کے انگریزی اخبار’’کامریڈ ‘‘ نے آزادی صحافت میں نمایاں ترین کردار ادا کیا۔
موالنا کی شخصیت اور جدوجہد آزادی کے بارے میں یہ واقعات تاریخ کے صفحات
میں ہمیں جا بجا ملتے ہیں کہ کسی جابر حکمران کے سامنے گردن جھکانا انہوں نے
سیکھا ہی نہیں تھا وہ سب مصلحتوں کو باال ئے طاق رکھ کرسامنے کھڑے ہوجاتے
نتائج کی پرواہ انہوں نے کبھی نہیں کی تھی ۔ اس میں ان کی ان دوتقاریر کا حوالہ ہے
جو انہوں دو مختلف مواقع پر کیں ایک لندن میں گول کانفرنس میں شرکت کے دوران
اور دوسری ابن سعود کی بدعہدی کے موقع پر ان کے منہ پر اسے للکارا۔
’’اے زمین قدس ! اپنے سبزہ زار کا ایک قطعہ سجا ،اس
کے لیے جو تیری مٹی کا مہمان ہوا ہے اور اس کی آمد کا
جشن منا۔ وہ اللہ کی تلوار وں میں سے ایک تلوار ہے یا یوں
سمجھو کہ اپنی کاٹ میں وہ ایک سیف ہندی ہے بستیوں کی
سر دار اس بستی میں تمہاری تدفین کا اذن ایک ایسے مفتی
نے دیا جس نے اپنے اس فتوے میں اللہ کی رضا چاہی تھی
‘‘(ص )۹۱
عالمہ اقبال کا مرثیہ پانچ اشعار پر مشتمل ایک مختصر نظم ہے لیکن یہ ان کے
فارسی کلیات میں شامل نہیں ہے ۔ یہ پہلی بار کسی اخبار میں شائع ہوئی تھی ۔ اس
میں شاعر سرزمیں بیت المقدس کے لیے یہ سعادت سمجھتا ہے کہ یہ وفا کے پتلے
کے لیے آخری آرام گاہ بنی ۔ وہ اس کی عظمت کردار کو خراج تحسین پیش کرتا ہے
۔
دونوں شعراء نے اپنے اپنے انداز میں موالنا کو خراج عقیدت پیش کیا ہے موضوع
دونوں کا مشترک ہے لیکن اسلوب بیان اور جذبے کے گداز میں فرق ہے لیکن دونوں
کے خلوص کی سچائی قاری کے جذبات کو گرماتی ہے اور وہ موالنا کے جذبہ
حریت سے متاثر ہوتا ہے ۔
مضمون کے آخر میں محمد کاظم ان مرثیوں میں شامل جذبات نگاری سے بہت متاثر
ہوتے ہیں کہ اگر موالنا محمد علی جوہر نے یہ مرثیے سنے ہوتے تو وہ ان مضامین
کے انتخاب پر ان شاعروں کو بہت داد دیتے ۔ دوسرا مضمون ’’عربی کی ایک
الوارث نظم ‘‘ کے نام سے شامل ہے ۔
محمد کاظم نے اس نظم کاتحقیقی و تنقیدی جائزہ لیا ہے لیکن یہاں پر یہ تفصیل بتانے
سے گریز کیا ہے کہ انہوں نے یہ نظم کب اور کہاں پڑھی بس اتنا بتانے پر اکتفاکیا
ہے کہ یہ قریبی زمانے کے لوگوں نے شائع کی ۔ اس نظم کا نام الیتیمتہ ہے اس کی
دو وجوہات بیان کی ہیں ۔ ایک تویہ کہ عربی میں الدرۃ الیتیمۃ اس کو موتی کہتے ہیں
جو بے مثال ہو یہ نظم خوبصورتی میں بے مثال ہے ۔ دوسری وجہ یہ کہ اس کا خالق
اس نظم کے دنیا کے سامنے آنے سے پہلے ہی قتل ہوگیا تھا اور یہ بن باپ کے بچے
کی طرح رہ گئی اور یتیمہ کہالئی ۔ اس نظم کا خالق شاعر کون تھا یہ بات آج تک
صیغۂ راز میں ہے ۔ اس نظم کے مضامین اور اسلوب کے پیش نظر اسے جاہلی نظم
قرار دیا گیا ہے ۔ یہاں پر مصنف نے ایک اہم نقطہ اٹھایا ہے کہ آخر وہ کون سا جاہلی
شاعر ہے کہ صدیاں گزرنے کے باوجود اس کی نظم مورخین کی نگاہوں سے اوجھل
رہی ؟
یہاں مصنف ایک اور خیال سامنے التا ہے کہ بعض اصحاب کی رائے میں اس نظم کا
شاعر عباسی دور کا ہے کیونکہ اس دور کے ادبا ء نے اس نظم میں ایسے اشعار کا
تذکرہ کیا ہے جو اس دور میں مستعمل تھے اس حوالے سے ناقدین کی مختلف آراء
۔ ہیں
ایک نقاد عکبری نے بحوالہ ابوالفتح بن فوزجہ ا سے ایک شاعر منجبی کی نظم قرار
دیا ہے لیکن اس شاعر منبجی کے بارے میں کوئی تفصیل نہیں بتائی ۔ فی الوقت اگر
اس پر یقین کر لیا جائے تو اس نظم سے وابستہ داستان کا خاتمہ ہو جاتا ہے ۔ ذاتی
طور اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتا کہ یہ نظم منبجی نام کے کسی شاعر کی ہوگی
کیونکہ اس کا تو نام ہی غیر شاعرانہ لگتا ہے ۔
اس نظم سے وابستہ داستان سے مصنف کو جو مسرت ملی اسے وہ قارئین ادب کے
ساتھ شریک کرنا چاہتا ہے اس نظم کا تخیل اسلوب اور تاثر باکمال اور منفرد ہے ۔
مصنف اس نظم کے موضوع کا خالصہ یوں بیان کرتا ہے ۔
’’ نجد کے عالقے میں وعد نام کی ایک شہزادی تھی جسے اللہ نے عزت وقار کے
ساتھ حسن و جمال بھی عطا کیا تھا اور شعر کہنے کی بھی اچھی صالحیت بخشی تھی
۔ اس کو قریب و دور سے شادی کے پیغام آئے لیکن اس نے سب کو رد کر دیا ۔ اس
نے یہ تہیہ کیا ہوا تھاکہ وہ اس شخص سے شادی کرے گی جو اس سے بہتر شاعر
ہوگا اور اس کا سراپا بڑی خوبصورتی سے بیان کرے گا۔ شہزادی کی اس شرط کی
خبر جب پورے جزیرہ عرب میں پھیلی تو عالقہ تہامہ کے رہنے والے ایک شاعر
نے شہزادی کے سامنے پیش ہونے کا ارادہ باندھا۔ اس مقصد سے اس نے ایک نظم
کہی اور اونٹنی پر سوار ہو کر نجد کی طرف چل دیا راستے میں اسے ایک اور شاعر
مال جو اسی ارادے سے نجد کی طرف جا رہا تھا ۔ دونوں نے اپنے سفر کا مقصد بیان
کیا اور ایک دوسرے کو اپنی نظم سنائی ۔ دو سرے شاعر نے جب اس شاعر کی نظم
اعلی معیار کی ہے ۔ اس
ٰ سنی تو اس پر عیاں ہوا کہ اس کی نظم زیادہ خوبصورت اور
کے دل میں حسد پیدا ہوا اور اس نے تہامہ کے اس شاعر کو قتل کر دیا اور اس کی
نظم لے کر نجد کی شہزادی کے سامنے پیش ہوا۔
شہزادی پردے کے پیچھے آکر بیٹھ گئی اور شاعر نے وہ نظم سنانی شروع کی جب
وہ ایک خاص شعر پر پہنچا تو پتہ چال کہ شاعر تہامہ کا رہنے واال ہے لیکن نظم
پڑھنے والے شاعر کا لہجہ تہامی نہیں تھا ۔ شہزادی فورا ً معاملے کی تہہ تک پہنچ
گئی اور چال کر اپنے آدمیوں سے کہنے لگی کہ اس شاعر کو پکڑ لو یہ میرے شوہر
کا قاتل ہے انہوں نے اسے پکڑ لیا اور جب سختی کی تو اس نے اپنے جرم کا اقرار
کر لیا اس پر اسے قتل کردیا گیا ۔
مصنف کا اس نظم کے حوالے سے جائز ہ لینا اور اسے شامل کتاب کرنا اس کاعربی
ادب کے حوالے سے لگاؤ ظاہر کرتا ہے کہ اس بات کا شدت سے خواہاں تھا کہ کسی
طرح عربی شاعری کے یہ الزوال نمونے قارئین کی تحسین آمیز نظروں سے اوجھل
نہ ہو جائیں ۔ اب اس نظم کے خالق کے حوالے بات شک و شبے میں ہے لیکن
شاعری کا ایک الزوال شاہ کار پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ افروز ہے۔
اس حصے کا تیسرا مضمون’’بشار بن وبرد اس کی زیر کی اور اور حس مزاح ‘‘
ہے ۔ یہ مضمون فنون کے شمارہ ،۱۱۱نومبر ،دسمبر ۱۰۰۳ء میں ص ۴۱تا ۶۴پر
شائع ہوا۔ ’’فنون ‘‘ اور زیر موضوع کتاب میں شائع شدہ اس مضمون کے موضوع
مواد اور لفاظی میں کوئی ردو بدل نہیں ۔
محمد کاظم جو کہ اپنی انجینئرنگ کی تعلیم اور پیشے کے لحاظ سے ایک الگ دنیا
کے باسی تھا اس کا مقصد محض قارئین کو عربی ادب سے متعارف کروانا تھا یہ کام
وہ ادبی خدمت او ر ذہنی آسودگی کے لیے انجام دیتا تھا یہ اس کی وسعت قلب اور
وسیع النظر ی تھی کہ جو خوشی اسے حاصل ہو رہی تھی وہ اسے دوسروں کے ساتھ
شریک کرنا چاہتا تھا ۔
مذکورہ باال مضمون ان کی اسی لگن کا جامع ثبوت ہے کہ وہ ایک ایسے شاعر سے
مالقات کرواتا ہے جس نے اموی اور عباسی دونوں دور حکومت دیکھے لیکن وہ
عباسی دور کا شاعر کہالتا ہے کیونکہ اس نے اپنی باشعور زندگی اور فکر و احساس
کی شاعری کا آغاز اسی دور سے کیا ۔
محمد کاظم نے زیر موضوع شاعر پر تبصرے سے پہلے اس عہد کی ادبی فضا
مختصرا ً بیان کی ہے کہ کس طرح عربی شاعر ی عہد جاہلیت کی فضا سے نکل کر
شہری فضا اور محالت میں آئی تو اسلوب بدل گیا ۔ موضوعات میں ایک طرح سے
نفاست آئی لیکن فصاحت کالم جو عربی شاعری کا ہر دور میں خاصہ رہا وہ من وعن
برقرار رہا ۔ عربی شاعری نے امرؤ القیس سے لے کر آگے دو بار حیات نو پائی ایک
عباسی دور میں بشاربن برد اور دوسرے انیسویں صدی کے او اخر میں محمود سامی
البارودی مصری شاعر کی بدولت ۔ عربی شاعری کے طویل سفر میں امرؤ القیس،
بشار بن برد اور بارودی مسلمہ حیثیت کے حامل ہیں ۔
محمد کاظم نے اس مضمون میں بشار بن برد کی شخصیت اور فن کے حوالے سے
بحث کی ہے بشار جو مادر زاد نابینا تھا اس نے اس کائنات کی رنگینیوں کو کبھی
دیکھا ہی نہیں تھا لیکن قانون قدرت ہے کہ جب کسی انسان میں کسی ایک صالحیت
کی کمی ہوتی ہے تو دوسری صال حیتیں زیادہ بہتر انداز میں کام کرتی ہیں۔
بشا ر بن برد نے نابینا ہونے کے باوجود اپنی شاعری میں رمز و ایما ،معنی و
موضوعات ،اظہار و بیان کے ایسے کماالت دکھائے کہ وہ بینا افراد کے لیے ایک
ضرب المثل بن گیا اسے اپنی فصاحت و بالغت اور اپنے کالم کے مستند ہونے کا
پورا احساس تھا ۔ وہ بصرہ میں پیدا ہوا اور وہاں قریب کے صحرائی عالقے میں جو
عرب بدو خیمہ نشین تھے وہ ان کے ہاں آتا جاتا تھا اس لیے وہ بادیہ عرب کی خالص
زبان اور اس کے محاورے سے مکمل طور پر واقف ہو چکا تھا ۔
بشار کی شخصیت میں کچھ ایسے منفی عناصر بھی تھے جن کی وجہ سے اس کے
قرب جوار کے لوگ اس سے بہت تنگ تھے کیونکہ اس نے لڑکپن سے ہی ہجو کہنی
شروع کر دی تھی ۔ اس لیے وہ اس سے کنارہ کشی میں عافیت سمجھتے تھے ۔ بشا ر
کی شخصیت میں یہ خوبی بدر جہ اتم تھی کہ وہ بلند حوصلہ تھا اس نے اپنی محرومی
کو روگ نہیں بنایا وہ روز مرہ زندگی میں انتہائی خوش مزاج ظرافت طبع تھا ۔ وہ
قنوطی لوگوں اور قنوطیت سے کوسوں دُور بھاگتا تھا اسے یہ رویہ پسند نہ تھا کہ
لوگ نابینا ہونے کی وجہ سے اسے ترحم آمیز نظروں سے دیکھیں ۔
’’ ایک دن بشار مہدی کی اجاز ت کے انتظار میں باہر بیٹھا تھا اس لیے کہ وہ خالفت
ک ے امور سلجھانے میں مصروف تھا بشار کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی بیٹھے تھے
جن میں مہدی کا ایک غالم تھا جو بہت خوشامدی تھا اس نے حاضرین سے سورۃ
النحل کی ان آیات کی تفسیر پوچھی ’’۔
الخل کیا ہے اور شراب کیا ہے ؟ دوسرے لوگ تو خاموش رہے بشار نے کہا النحل
شہد کی مکھی تو معروف چیز ہے اور شراب پینے کی چیز ظاہر ہے شہد ہے وہ
کہنے لگا نہیں بالکل نہیں اس آیت میں النحل بنو ہاشم ہیں اور شراب وہ چیز ہے جو
ان کے پیٹ سے نکلتی ہے اور وہ علم ہے علم اس پربشار صبر نہ کر سکا اور اس
آدمی سے کہنے لگا :اللہ تمہارا کھانا اور پینا اس چیز میں رکھ دے جو بنو ہاشم کے
پیٹ سے خارج ہو جاتی ہے۔ یہ سن کر اس شخص کو بہت غصہ چڑھا اور حاضرین
بھی اس پر احتجاج کرنے لگے ۔اس واقعے کی خبر جب خلیفہ مہدی تک پہنچی تو ا
س نے دونو ں کو بال کر سارا ماجرا سنا اور ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوگیا پھر اس آدمی
سے مخاطب ہو کر کہنے لگا :اس میں کوئی شک نہیں کہ تم بہت ہی کوڑھ مغز اور
گنوار انسان ہوآخر چاپلوسی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ۔ (ص )۸۳
بشار کو اس بات کی ہرگز پروا نہ تھی کہ لوگ اس کے بارے میں کیا رائے رکھتے
ہیں اس لیے اپنی شاعری میں بھی وہ خیالی قافیے لگا دیتا تھا اور ان کی وضاحت دینا
ضروری نہیں سمجھتا تھا۔ اس کا فلسفیانہ نظریہ یہ تھا کہ وہ ان چیزوں کا قائل تھا جن
کا وہ عینی شاہد تھا ۔ اس سلسلے میں وہ دین کے بنیادی عقائد کے بارے میں اپنی
رائے کا بے الگ اظہار کرتا تھا ۔
بشار نابینا ہونے کے ساتھ ساتھ کافی بد صورت تھا اس کا چہرہ چیچک زدہ اور
آنکھوں کے ڈھیلے باہر کو نکلے ہوئے تھے اس کی وجہ سے اسے لوگوں کی طرف
سے بری طرح تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔
زیر کی اور حسں مزاح کے باوجود اس کے عقائد اور نظریہ اشعار میں اخیر دم تک
کسی قسم کی تبدیلی نہ آئی۔ اس نے پوری زندگی اپنے اشعار میں لوگوں کی ہجویں
لکھیں اور عورتوں سے چھیڑ چھاڑ کا مشغلہ جاری رکھا ۔ خلیفہ وقت بھی اس سے
مستثنی نہ تھا لیکن وہ اس کے خالف کوئی قدم اُٹھانے سے اس لیے گریزاں تھا کہ یہ
ٰ
انتقامی کاروائی سمجھی جائے گی ۔
جب اخیر عمر میں اس نے شراب پی کر چاشت کی اذان دی تو خلیفہ وقت (مہدی)
کے حکم سے اسے ستر کوڑے لگا ئے گئے اس کے کچھ عرصہ بعد وہ بصرہ میں
فوت ہوگیا چونکہ اس نے اپنی صالحیتوں کا استعمال منفی طریقے سے کیا اس لیے
اس کے مرنے کے بعد بالعموم اطمینان کا سانس لیا گیا اور ا للہ کا شکر ادا کیاگیا کہ
سب اس کے شر سے بچ گئے آخر میں یہ صورتحال انتہائی کرب ناک دکھائی دیتی
ہے کہ جب اس کے جنازے کے پیچھے سوائے اس کی مالزمہ کے کوئی نہ تھا۔
یہ بات قابل غو ر ہے کہ آیا وہ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے ایسی
حرکتیں کرتا تھا اور اپنے اندھے پن کے غم کو اپنے اندر ہی چھپا نا چاہتا تھا کہ لوگ
اس پر ترس نہ کھائیں اور وہ اپنا شمار ان امراء میں کرتا تھا جنہیں لوگ جانتے ہیں
لیکن وہ لوگوں کو بہت کم جانتے ہیں ۔ اس عہد کے لوگ اس کے نظریہ شعر سے
متاثر تھے لیکن وہ اس کی اوچھی حرکتوں سے تنگ تھے ۔ بشا ر کو اس بات کا شدت
سے احساس تھا کہ اس کے والدین بنی عقیل کے غالم تھے اور نچلے طبقے کے
لوگ تھے لیکن اپنے آباؤ اجداد کے حوا لے سے وہ کہتا تھا کہ ان کامرتبہ اہل فارس
میں وہی تھا جو عربوں میں قریش کا تھا ۔ اچھا شاعر ہونے کے باوجود یہ خاندانی
نسب کا اثر تھا کہ لوگوں کو زک پہنچانے سے ساری عمر باز نہ آیا کیونکہ اخالقی
اعتبار سے اس کی تعلیم و تربیت اس انداز سے نہیں ہوئی جیسا کی عموما شرفاء کے
گھرانوں میں ہوتی ہے۔
اس مضمون میں محمد کاظم نے ان شاعروں اور شخصیات کا خصوصی حوالہ دیا
ہے جو کسی جسمانی محر و می کا شکار تھے لیکن انہوں نے اپنی صالحیتوں کا لوہا
اعلی ذہنی
ٰ اس طرح منوایا کہ جسمانی محرومی پس پشت چلی گئی اور دنیا ان
صالحیتوں کی معترف ہو گئی اسی طرح بشا ر بن برد کی شخصی خامیوں سے قطع
نظر اس کی شاعرانہ صالحیتوں اور حس مزاح سے انکار ممکن نہیں۔
حضور کی ذات اقدس تمام کائنات کے لیے مکمل نمونہ ہے ۔ آپ ؐ کے تشریف النے
ؐ
سے اور تبلیغ و ہدایت سے ہر طرف بھائی چارے اور اسالم کا غلبہ ہوگیا ا س لیے یہ
آپ سے عقیدت و محبت کا اظہار اشعار میں نہ کرتے
کیسے ممکن نہ ہوتا کہ لوگ ؐ
آپ کی مدح کی ان میں حضرت حمزہ ،حضرت ابو
۔ابتدائی ایام میں جن اصحاب نے ؐ
آپ کے چچا جناب ابو
فاطمہ کے نام شامل ہیں ۔ ؐ
ؓ بکر ،حضرت عاتکہ اور حضرت
آپ کی مدح میں جو اشعار کہے وہ اس طرح ہیں ۔
طالب نے ؐ
حسان بن ثابت نے اپنے مدحیہ قصائد میں آنحضرت کے خالف ہجو گوئی کرنے
،والوں کو ایسا جواب دیا کہ سب کو خاموش کر دیا ان کے بعد مدح نبوی کی روایت
کا آغاز ہوگیا اور ہر دور کے شعر ٗا نے اس سلسلے میں اپنا اپنا کردار ادا کیا ۔ مقالہ
نگار نے یہاں پر چیدہ چیدہ شعراء کا ذکر کیا ہے ان میں جاہلی دور کے وہ شعراء
آپ کا مکمل بھی شامل ہیں جنہوں نے قبول اسالم کے بعد مدحیہ اشعار لکھے اور ؐ
دفاع کیا۔ مقالے کی طوالت کے پیش نظر انہوں نے زیادہ تفصیل سے قصدا ً گریز کیا
ہے جس سے یک گونہ تشنگی کا احساس ہوتا ہے ۔ مزید برآں حواشی اور حوالوں کی
کمی بھی کھٹکتی ہے ۔
اس کے بعد مصنف تیرہویں صدی عیسویں کا ذکر کرتا ہے جب مصر میں شرف
الدین محمد بن سعید البوصیری پیدا ہوئے جنہوں نے اپنی شاعری میں نعتیہ کالم کے
نادر نمونے پیش کیے اور نبی کریم ؐکی شان مبارک میں متعدد قصائد لکھے ،
بوصیری کا قصیدہ بردہ تاریخ میں خصوصی اہمیت کا حامل ہے ۔ اس نظم کا نام
’’قصیدہ بردہ‘‘ کیوں رکھا ؟ اس کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی ہے کہ شاعر بوصیری پر
فالج کا حملہ ہوا جس سے اس کے جسم کا نصف حصہ بیکار ہوگیا انتہائی پریشانی
میں انہوں نے یہ قصیدہ نظم کرنا شروع کیا جب یہ مکمل ہوا تو وہ اسے پڑھ کر خدا
سے گڑ گڑا ک ر دعا کرتے ۔ ایک رات اسی حالت میں سو گئے تو خواب میں دیکھا کہ
حضورﷺ تشریف الئے انہوں نے اپنا دست مبارک ان کے جسم پر پھیرا اور اس پر
ایک چادر ڈال دی صبح جب وہ بیدار ہوئے تو خود کو بالکل تندرست پایا اسی مناسبت
سے انہوں نے اس نظم کا عنوان ’’قصیدہ بردہ‘‘ رکھا کیونکہ بردہ عربی زبان میں
ہیں۔ کہتے کو چادر دار دھاری کی اوڑھنے
قصیدہ بردہ ایک سو پینسٹھ اشعار کی دس ابواب پر مشتمل طویل نظم ہے ۔ پہال باب
تشبیب پر مشتمل ہے جس میں عربی روایت کے مطابق واردات عشق کا اظہار ہے
دوسرا باب نفس اور شہوات نفس سے متعلق ہے تیسرا باب اکتیس اشعار پر مشتمل
حضور کی پیدائش سے متعلق ہے ۔ پانچویں
ؐ رسول میں ہے ۔ چوتھے باب میں
ؐ مدح
آپ کے معجزات کا بیان ہے ،چھٹا باب قرآن کی فضیلت پر ہے ساتویں باب
باب میں ؐ
میں واقعہ معراج کا ذکر ہے ۔ آٹھویں باب میں حضور ؐ کے جہاد اور غزوات کا تذکرہ
حضور کی ذات کو
ؐ ہے نویں باب میں شاعر نے اپنی نجات اور مغفرت کے لیے
۔ ہیں مناجات کی شاعر میں باب آخری اور ہے بنایا وسیلہ
محمد کاظم نے اس مقالے میں ابواب کے فردا ً فرداًتعارف کے بعد اس نظم کی شاعری
پر بحث کی ہے کہ شاعر نے الفاظ کے انتخاب اور تراکیب کے چناؤ میں کما ل فن کا
مظاہرہ کیا ہے الفاظ کے چناؤ میں ایک نغمگی کا احساس ہوتا ہے اور جادوئی کیفیت
پیدا ہوتی ہے یہ کیفیت اسی صورت میں برقرار رہ سکتی ہے اگر اسے اس کی اصل
زبان میں پڑھا جائے ۔ ترجمے سے معنی میں تو کوئی تبدیلی نہیں آتی بہر حال نظم کا
حسن بعینہ منتقل نہیں ہو سکتا ۔ مصنف نے اس مقالے میں چند اشعار کا سلیس اور
بامحاورہ ترجمہ پیش کیا ہے ۔ بوصیری کے بعد بھی شعرا نے عربی زبان میں نعتیں
لکھیں اردو زبان میں نعت نگاری کی تاریخ اردو شاعری جتنی قدیم ہے آج سے تین
سو سال پہلے ،ولی دکنی نے نعتیہ اشعار کہے ۔ حضور ؐ کی مدح کے حوالے سے
اعلی معیار کی
ٰ پچھلے دو سو سال سے مختلف شعراء نے طبع آزمائی کی ہے ان میں
شاعری بے شک محدود ہے لیکن شعراء کا جذبہ عقیدت قابل تعریف ہے ۔
اردو نعت گوئی کے حوالے سے مقالہ نگاری کے تین ادوار مقرر کیے ہیں ۔
دوسرا دور عالمہ اقبال ،موالنا ظفر علی خاں اور حفیظ جالندھری کا ہے ۔
تیسرا اور موجودہ دور جس کی ابتداء 6711ء سے ہوئی اور تاحال جاری ہے ۔
محسن کا کوروی نے اپناسارا شعری ملکہ اس صنف کے لیے وقف کر دیا ۔
امیرمینائی نعتیہ کالم میں کامل دسترس رکھتے تھے موالنا حالی نے ’’مسدس
حضور کے بارے میں اپنی دلی
ؐ مدوجزر اسالم ‘‘میں دیگر موضوعات کے ساتھ
۔ ہے کیا اظہار کا عقیدت
اقبال کی شاعر ی میں نعتیہ کالم روایتی صورت میں نہیں ہے ۔ لیکن ان کے اردو اور
فارسی کالم میں مدح رسول کے حوالے سے جا بجا مضامین ہیں موالنا ظفر علی خان
کو مدح رسول میں جو قدرت کالم حاصل تھی وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ حفیظ جالندھری’’
کا شاہنامہ اسالم ‘‘حضورﷺ سے محبت اور عقیدت کے جذبات سے معمور ہے ۔ ان
کے عالوہ اس دور میں مزید اور بھی قادر الکالم شعراء تھے جنہوں نے ا چھی نعت
نگاری کی ان میں ہندومہاراجہ کشن پرشاد کا نام قابل ذکر ہے ۔
مقالہ نگار نعت کے تازہ دور کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ادبی
رسائل میں گزشتہ چالیس برس سے ایک نئی روایت کا آغاز ہوا ہے کہ ابتدائی چند
صفحات کا آغاز حمد و نعت سے ہوتا ہے ۔ موجودہ دور میں اس صنف کو رواج دینے
میں دو ا ہم شخصیات احمد ندیم قاسمی اور حفیظ تائب کا نمایاں کردار ہے ۔ انہوں نے
نبی ؐ کی مدحت میں بے مثال نعتوں کا ذخیرہ مہیا کر دیا ۔ ان شعراء کے عالوہ
شاعری کرنے والے شاعر بے شمار ہیں اس سلسلے میں پی ایچ ڈی کے مقالے کے
حوالے سے بھی پیش رفت ہو رہی ہے ۔
عالقائی زبا نوں میں بھی مدحت نبوی کے حوالے سے شاعری ہوتی رہی ہے جس میں
حضور کی ذات اقدس کو خراج تحسین پیش کیا ہے ۔
ؐ شعراء نے اپنے اپنے انداز میں
پنجابی نعت نگاری میں مصنف چند شعراء کا ذکرتا ہے۔ اگر ہم ماضی میں جھانکیں
تو جن شعراء نے اپنے احساسات کو زبان دے کر مدح نبوی کی ہے ان میں سلطان
باہو ،سچل سرمت ،میاں محمد بخش ،خواجہ غالم فرید ،پیر مہر علی گولڑوی ،کے
نعتیہ اشعار کالسیک کا درجہ حاصل کر چکے ہیں ۔
مدحت نبوی ایک ایسا موضوع ہے جس پر مختلف ادوار میں لکھا جاتا رہا ہے اور یہ
سلسلہ تا ابد جاری رہے گا کیونکہ یہ موضوع بحر بیکراں کی مانند ہے ۔ اس میں
مقالہ نگار نے مختصرا ً چندا دوار کو احاطہ تحریر میں النے کی کوشش کی ہے
۔ تیسرے حصے میں ’’ مغربی ادب ‘‘ کے نام سے دو عنوانات پر مشتمل مضامین
’’سولثریےنتسن اور اس کی سات مختصر کہانیاں‘‘(ص 669تا )619اور پابلو نیرو
داسے ایک گفتگو ‘‘ ص 619تا 691پر شامل کتاب ہیں ۔
مذکورہ باال پہال مضمون اس سے پیشتر ’’فنون‘‘ شمارہ ۱ ،۳جنوری فروری 6792ء
جلد ۱۱ص ۱۴تا ۱۱پر شائع ہو چکا ہے ۔ انہیں دوبارہ کتابی صورت میں اس لیے
شائع کرایا ہے کہ جو قارئین بوجوہ ان سے استفادہ نہیں کر سکے وہ ان سے فیض
سکیں۔ ہو یاب
مذکورہ باال پہال مضمون نوبل انعام یافتہ روسی ادیب اکساندرے سولثرے نتسن اور
اس کی سات کہانیوں کے حوالے سے ہے پہلے اس ادیب کے حوالے سے اپنے ذاتی
تاثرات بیان کیے ہیں کہ کس طرح اس نے اس ادیب کی تحریروں کو شروع میں
دانستہ نظر انداز کیا لیکن آخر وہ اس کے اثر میں آگیا جب ۱۸۹۰ء میں وہ جرمنی
ایک سال کے تربیتی کورس کےلیے گیا وہاں اس نے سولثرے نتسن کی سات کہانیاں
انگریزی زبان میں پڑھیں ۔جو اتنی سحرانگیز تھیں کہ آخر اس نے ان سات کہانیوں
کو اردو ترجمہ کے ساتھ بطور خاص’’فنون ‘‘ کے لیے پیش کیا تاکہ قارئین بھی اس
سر شاری کی کیفیت سے نہال ہوں جو اسے ان کہانیوں کو پڑھتے وقت محسوس ہوئی
۔
ابتداء میں مصنف نے اس روسی ادیب کے حاالت زندگی بیان کیے ہیں کہ کس طرح
وہ زندگی کے کٹھن حاالت سے گزرتا ہوا کندن بنا ۔ پیشے کے لحاظ سے حساب داں
عالم طبیعیات تھا ۔ اس نے چار برس جنگ کے محاذ پر آٹھ بر س ایک مشقتی کیمپ
میں اور پھر چار برس ایک جبری جال وطنی میں گزار ے۔
سولثر ے نتسن نے مختصر افسانوں کے عالوہ چار ناول لکھے اس نے سوویت لیبر
کیمپوں کے نظام کی ایک مفصل تاریخ اپنی کتاب گالگ آرا کی پالگو میں لکھی ۔
جسے لندن اور امریکہ کے اخبارات و رسائل نے متعدد اقساط میں شائع کیا اس جرم
میں اسے گرفتا ر کر کے ملک بدر کر دیا گیا ۔ اس کے نام کو جتنا مٹانے کی کوشش
کی گئی وہ اتنا ہی نمایاں ہو کر سامنے آیا ۔ وقت کی گرد اسے کبھی دُھندال نہیں سکے
گی۔
اس کے بعد مصنف نے اس کی سات کہانیوں کو اردو ترجمے کے ساتھ پیش کیا ہے ۔
ترجمہ نگاری بھی ایک فن کی حیثیت اختیار کر چکی ہے ۔ اس کے لیے اس کے
اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اس صنف میں قدم رکھنا چاہیئے ۔
محمد کاظم نے ان کہانیوں کا ترجمہ کسی خاص مقصد کو ذہن میں رکھے بغیر خالص
فنی نقطہ نظر سے کیا ہے وہ ایک ایسے شخص کو بطور کردارہمارے سامنے پیش
کرتا ہے جس نے مشکالت بلکہ زندگی کے طوفانوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا لیکن
اعلی مثال قائم کی اور یہ ثابت
ٰ ہمت نہیں ہاری اور دوسرے سب انسانوں کے لیے ایک
کیا کہ خون دل سے لکھنے والے ایسے ادیب نازونعم کے پروردہ نہیں ہوسکتے ۔
ان سات کہانیوں میں پہلی کہانی ’’بوسیدہ بالٹی‘‘ سے متعلق ہے چونکہ وہ زندگی میں
مختلف جنگی محاذوں پر مامور رہا ہے اس لیے یہ کہانی بھی ایک ایسے ہی پس
منظر کی عکاسی کرتی ہے کہ نچلے طبقے کا ازل سے استحصال کیا گیا ہے اور
ہمیشہ ان کے حقوق پامال کیے گئے ہیں ۔ یہاں بوسیدہ بالٹی ‘‘کو عالمتی انداز میں
پیش کیا گیا ہے کہ کس طرح وقت کی بے رحم لہروں نے اسے پچھاڑ دیا ۔ جس طرح
وقت کی دھند میں قریبی تعلقات اور قریبی رشتے دھندال جاتے ہیں اور نظر ہی نہیں
آتے اسی طرح جب یہ بالٹی کسی کام کی نہ رہی اور زنگ آلودہ ہوگئی تو اسے بھی
فالتو سمجھ کر خندق میں اترنے والے راستے میں پھینک دیا گیا۔
دوسری کہانی ’’ سیگدن کی جھیل ‘‘ ہے اس میں جھیل کو حوالہ بنا کر بورژوا اور
پرلتاری طبقے کی باہمی چپقلش اور استحصالی نظام کی عکاسی کی گئی ہے کہ کس
طرح بورژو اطبقہ پورے نظام پر قابض ہو کر محنت کش طبقے کا استحصال کرتا
ہے اور ہر قسم کے عیش و آرام پر اپنا صرف حق سمجھتا ہے اگر کبھی کسی نے
دخل در معقوالت کرنے کی کوشش بھی کی تویہاں سے بھگا دیا گیا کیوں کہ یہاں
ملکیتی نظام حاوی ہے اور باقی عوام کے لیے ترقی کے تمام راستے مسدود ہیں ۔
محمد کاظم نے فن ترجمہ نگاری کا حق ادا کرتے وقت سلیس اور بامحاورہ زبان
استعمال کی ہے اور اپنی طرف سے کسی قسم کا کوئی نظریہ پیش کرنے سے قصدا ً
گریز کیاہے تاکہ کہانی کی موضوعیت مجروح نہ ہونے پائے ۔
تیسری کہانی ’’ایک شاعر کی راکھ‘‘ ہے جس میں مصنف دور ماضی کے جھروکوں
میں جھانکتے ہوئے اس گاؤں کو یاد کرتا ہے جس کی جگہ اب ایک نیا گاؤں آباد تھا ۔
وہ اندرونی خانہ جنگیوں کے ساتھ ساتھ اقتدار کے حصول کے لیے خونی رشتوں کو
ہے۔ دیکھتا بدلتے
وہ شاعر یا کوف پژووچ پولونسکی کو یاد کرتا ہے کہ اس نے مرنے کے بعد مقدس
سینٹ جان کی خانقاہ میں دفن ہونے کی وصیت کی تھی ۔ جب مصنف اس شاعر کی
قبر پر جاتا ہے تو اسے وہ قبر نہیں ملتی کیونکہ اسے وہاں سے نکال کر ریا زان لے
جایا جاچکاتھا اس پر وہ انتہائی دکھ کا اظہار کرتا ہے ۔
یہاں کے گرد جاگھروں کو مسمار کر کے ان اینٹوں سے گائیوں کے لیے چھپر بنا دیا
گیا تھا اور اس تاریخی روایت کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے جب پادریوں کی میت کو
گرجا گھر کے اندر ہی دفن کر دیا جاتا تھا ۔
چوتھی کہانی ’’ یسنینوں کے دیس میں‘‘ چار یکساں شکل کی بستیوں کے حوالے
سے ہے ۔ جن میں کوئی سر سبزی و شادابی نہیں ہے اس میں منظر نگاری جنرئیات
سے کی گئی ہے اور ان کے مکینوں کی روز مرہ مشکالت کو بیان کیا ہے ۔ اسلوب
اتنا سادہ اور جاندار ہے کہ قاری خود کو انہی مناظر کے درمیان محسوس کرتا ہے ۔
یہاں مصنف شاعر سرگئی کا ذکر کرتا ہے جو اسی بستی کی جھونپڑی میں اپنی
بہترین شاعری تخلیق کرتا تھا۔
مصنف ان بستیوں کے تنگ اور چھوٹے صحن کا ذکر کرتا ہے کہ دیہاتیوں کے لیے
سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ وہ اپنی فصلوں کے ڈھیر کیسے لگائیں اور پھر ارد
گرد کے تعلقات کیسے نبھائیں ۔ وہ دیہاتی مناظر کی خوبصورتی کو جزئیات کے ساتھ
ساتھ بیان کرتا جاتا ہے وہ دیہاتیوں کو اس خوبصورتی کا احساس دالنا چاہتا ہے اس
کہ انی میں اس کے عالوہ کوئی خاص پہلو اجاگر نہیں کیا گیا۔
پانچویں کہانی ’’کو لخو ز عالقے کی پشت ٹوکری‘‘ اس میں مصنف سولثر ے نتسن
ایک ٹوکری کے بارے میں بتا رہا ہے کہ ایک دیہاتی عورت جو بہت جفا کش ہے وہ
چٹائی سے بنی ہوئی اس ٹوکری میں اپنا اور اپنے دو پڑوسیوں کا دودھ ،پنیر اور
ٹماٹر شہر میں بیچتی ہے اور واپسی پر نان لے کر آتی ہے ۔ یہاں وہ یہ بتانا چاہتا ہے
کہ وہ عورت کتنی باہمت ہے کہ اس ٹوکری کو کوئی کسان بھی بآسانی نہیں اٹھا سکتا
لیکن کولخوز کے عالقے کی عورتیں اس ٹوکری کو ایک خاص انداز سے اٹھاتی ہیں
کہ وزن زیادہ محسوس نہیں ہوتا ۔
چھٹی کہانی ’’دریائے نیوا پر واقع شہر ‘‘ اس میں مصنف دریائے نیوا کے کنارے
واقع شہروں کے بارے میں بتاتا ہے کہ یہاں افراتفری کا جو عالم ہے اس لیے اب یہاں
کسی نئے شہر کی تعمیر کی اجازت نہیں وہ ان شہروں کی عظمت اور شان و شوکت
کو اتنے کرب سے بیان کرتا ہے انہیں بنانے والے روسی نثراد تھے لیکن یہ غریب
اور مزدور عوام کا استحصال کر کے ان کے خون سے سینچے گئے تھے ۔
وہ دکھ کا اظہار کرتا ہے کہ ہماری نسلوں کی زندگیاں تباہ ہوگئیں احتجاج کے جواب
میں انہیں گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا تھا ۔ ان کی عورتوں کی جدوجہد اور آنسو
سب مٹی میں مل گئے ۔ اس کے بدلے انہیں کیا مال؟ آخر میں وہ سوال کرتا ہے کہ
اتنی اذیتوں کے بعد اب نیوا کے کنارے آباد شہر کی طرح اور کوئی شہر وجود آسکتا
ہے ؟
ساتویں کہانی ’’ روشن آگ اور چیونٹیاں ‘‘ اس مختصر کہانی میں چیونٹیوں کو مثال
بنا کر م ادر وطن سے محبت کے جذبے کو تقویت دی گئی ہے کہ جن لوگوں کو وطن
سے محبت ہوتی ہے کہ وہ اس کی خاطر کٹ مرنے کو تیار رہتے ہیں لیکن اسے
چھوڑ کر کہیں اور جانا گوارہ نہیں کرتے ۔
مصنف کہتا ہے کہ اس نے لکڑی کا چیونٹیوں بھرا دیمک خوردہ کندا انجانے میں آگ
میں پھینک دی ا اس میں موجود چیونٹیاں جل جل کر مرنے لگیں لیکن بعد میں اس نے
لکڑی ایک طرف پھینک دی تاکہ وہ بچ جائیں لیکن چیونٹیاں پھر اس جلتی ہوئی لکڑی
کے سرے پراپنے گھر کی محبت میں گئیں تپش سے گھبرا کر دوڑیں اور پھر وہیں
جل کر راکھ ہوگئیں ۔
یہاں پر وہ اس حقیقت کو واضح کرنا چاہتا ہے کہ وطن کی محبت ہرذی روح میں
سمائی ہوئی پھر انسان اس جذبے سے کیسے خالی ہو سکتا ہے ؟
’’مغربی ادب‘‘ میں شامل دوسرا مضمون ’’پابلونیر و دا سے ایک گفتگو‘‘ ص 619تا
691ہے ۔ بیروت کے عربی رسالے ’’اآلداب‘‘ میں نیروداکا یہ انٹرویو شائع ہوا محمد
کاظم نے اس گفتگو کا ترجمہ عربی سے اردو میں ’’فنون ‘‘ شمارہ ۱ ،۱اپریل مئی2
679ء ص ۸تا ۱۶اور جوالئی 6792ء میں قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش کیا۔
اس طویل گفتگو میں اس کے بچپن سے لیکر تمام ادوار کے حاالت کو موضوع بحث
بنایا گیا ہے ۔
نیرودا نے سیدھے سادھے فطری انداز میں اپنے خیاالت کا اظہار کیا جو عام قارئین
کے لیے بھی دلچسپی کا باعث ہے ۔
نیرودا کا اصل نام ریکاردو ایلیسیر نفتالی ریس ای باسو آلتو تھا ۔ چونکی اس کا والد
سخت مزاج تھا اور اس کی شاعری کے خالف تھا اس لیے اس نے اپنا قلمی نام پا
بل ونیرودا رکھا جو بعد میں وجہ شہرت بنا اور اصل نام بہت پیچھے چال گیا ۔ چلی میں
زیادہ تر لوگوں کا طبعی رجحان شاعری اور سیاحت کی طرف تھاا س لئے وہ بھی
شاعری کیسا تھ قنصل بن گیا۔ وہ آمریت کے مخالف تھا اس لیے اس نے کیمونسٹ
پارٹی میں شمولیت اختیار کی طویل عرصہ قنصل خانے میں مالزمت سے آخر کار
وہ تنگ آگیا اور پھر ایک دن اپنے وطن واپس آگیا۔
نیرودا نے شاعری میں بنیادی اہمیت اس بات کو دی کہ اپنے وجود کے ہر لمحے میں
جو کچھ بھی محسوس کرو اسے اپنے اسلو ب میں فنکارانہ اظہار دو ۔ وہ کسی
شاعرانہ نظام یا دبستان کا قائل نہیں تھا ۔
مصنف نیرودا کے نظریات سے حددرجہ متاثر ہوا اس کی شاعری پڑھنے کے بعد وہ
اسے ایک ناقابل فہم شخصیت سمجھتا تھا لیکن اس کا انٹر ویو پڑھنے کے بعد وہ
انہیں بے حد سادہ اور فطر ی انسان محسوس ہوا اس لیے وہ اس کے اشتراکی نظریات
کو دوسروں کے ساتھ شریک کرنا چاہتا تھا تاکہ دیگر شعراء اور ادباء اس سے
استفادہ کر سکیں ۔
کتاب کے چوتھے حصے میں ’’مغربی موسیقی ‘‘ کے نام سے جرمن زبان سے
ترجمہ شدہ ایک مضمون جرمن موسیقار’’ہینڈل کا’’مسایا‘‘ کے عنوان سے
(ص697تا691شامل ہے ۔ یہ تاریخی کہانی مشہور جرمن ادیب شٹیفن سویگ نے اپنے
بے مثال اسلوب میں قدر ے طویل لکھی ۔ محمد کاظم نے اسے سادہ اور سلیس
ترجمے کے ساتھ تلخیص میں قارئین کے لیے پیش کیا جو یقیناًان کے لیے دلچسپی کا
باعث ہے ۔
تمہید میں محمد کاظم نے جرمنی کی کالسیکی موسیقی کی روایت مختصرا ً بیان کی
ہے ۔ اس میں دو بڑے نام سامنے آتے ہیں ۔ ایک یوہن سبطین باخ(۱۱۱۶ء۔۱۹۶۰ء)
اور دوسرا جارج فریڈرک ہینڈل (۱۱۱۶ء۔۱۹۶۸ء) ۔ ہینڈل چھبیس سال کی عمرمیں
جر منی چھوڑ کر لندن آ گیا یہاں آ کر ہینڈل نے بیس برس تک موسیقی کی دنیا میں نام
کمایا لیکن اس کے بعد وقت کے ساتھ ساتھ زوال پذیر ہونا شروع ہوگیا۔ پھر بالئے
ناگہانی کی طرح ہینڈل ایک ایسی جسمانی بیماری میں مبتال ہوا کہ وہ اپنا تخلیقی کام
سر انجام دینے کے قابل نہ رہا۔ اس نے ان آنے والی مشکالت کا سامنا کیسے کیا؟
اپنی کھوئی ہوئی توانائی کو کیسے یکجا کیا ؟
اس کہانی کا آغاز ڈرامائی انداز سے ہوتا ہے جس میں ہینڈل کو ایک ایسے کردار میں
پیش کیا گیا ہے جو کبھی بہت باہمت تھا اور اسے اپنے اوپر اسے عشق کی حد تک
لگاؤ تھا۔ چونکہ قسمت سدا ایک جیسی نہیں رہتی ایسی صورتحال کا سامنا ہینڈل کو
بھی کرنا پڑا کہ رفتہ رفتہ لوگ اس کے اوپر اسے بیزار ہونے لگے اور ہینڈل اس
صورتحال کے ل یے ذہنی طور پر تیار نہ تھا اور اس صدمے کی تاب نہ التے ہوئے
ذہنی و جسمانی طور پر مفلوج ہو کر رہ گیا ۔ اس آڑے وقت میں اس کا مالزم اور
سیکرٹری دونوں نے بھرپورساتھ دیا ۔ فالج سے اس کے جسم کا دایاں حصہ بالکل ختم
ہوگیا لیکن انسان مکمل طور پر اس وقت ختم ہوتا ہے جب اس کے ارادے پست ہو
جائیں ہینڈل کے مفلوج جسم میں ابھی پر اسرار قوت موجود تھی جو اسے جینے پر
آمادہ کر رہی تھی ۔ اپنی مضبوط قوت ارادای کے بل بوتے پر اس نے ڈاکٹر کے
خدشوں کو مات دے دی اور نئے سرے سے ایک صحت مندوجود کے ساتھ اپنے
ادھورے کاموں کو مکمل کرنے کا آغاز کر دیا ۔
بعض معامالت انسان کے اختیار میں نہیں ہوتے ان کا فیصلہ وقت ہی کرتا ہے ۔ تمام
جوش و جذبے کے باوجود اچانک قسمت ہینڈل سے روٹھ گئی اس کی سر پر ست
ملکہ وفات پا گئی اور اس کی پنشن بند ہوگئی ۔ حاالت یکلخت بدل گئے اور ایک ان
تھک انسان نے زندگی میں پہلی بار تھکن محسوس کی اور خدا سے گلہ مند ہوا۔ وہ ان
شکست خوردہ حاالت میں لندن چھوڑ کر کہیں نہیں جانا چاہتا تھا ۔ وہ روحانی تخلیق
کے نشے سے آشنا ہو چکا تھا اس لیے اس پر کوئی نشہ اثر انداز نہیں ہو رہا تھا ۔ یہ
احساس اسے دیمک کی طرح چاٹ رہا تھا کہ خدا اور اس کے بندوں نے منہ موڑ لیا
ہے ۔
عروج وزوال کے پر پیچ راستوں سے گزر تی ہوئی یہ داستان گھپ اندھیروں سے
نکل کر ایک بار پھر روشنی کی طرف بڑھتی ہے اور اس عظیم موسیقار کی زندگی
میں ایک نیا موڑ آتا ہے اس کے لیے شاعر چارلس جنینز محرک ثابت ہوا جس نے
اس کے مردہ قالب میں روح پھونکی اور اس کی کھوئی ہوئی قوت کو مجتمع کیا۔ اس
نے اسے مذہبی او پیرا پر مشتمل ایک متن بھیجا کہ وہ اسے اپنی جاوداں موسیقی کے
سروں میں ڈھال دے ۔ ہینڈل نے ان لفظوں کو سروں سے مزین کرنے کے لیے اپنے
خون سے آب کاری کی تین ہفتوں کی لگاتار محنت سے موسیقی کی دنیا میں ایک بے
نظیر عجوبہ سر انجام پایا جو ایک دفعہ پھر ہینڈل کو شہرت کی بلندیوں پر لے گئی
ہینڈل نے اس اوپیرا’’مسایا ‘‘ سے پہلے بہت مشکل حاالت کا سامنا کیا۔ ذہنی کوفت
کے ساتھ ساتھ قرض خواہوں سے منہ چھپاتا پھرتا تھا ۔ یہ اس کے کردار کی عظمت
ہے کہ اس نے ’’مسایا‘‘ سے حاصل ہونے والی آمدنی قیدیوں ،بیماروں اور یتیموں
کو یہ کہتے ہوئے دے دی کہ میں خود بھی کبھی ایک بہت بیمار آدمی اور اب افاقہ پا
چکا ہوں ۔ میں قیدی تھا اور اب آزاد ہوں ‘‘۔ وہ اس نغمے کی تخلیق پر خدا کا بہت
شکر گزار تھا۔
اس کے بعد کچھ عرصہ تک حاالت سازگار رہے لیکن زیادہ دیر تک نہ رہ سکے آخر
کار بڑھتی ہوئی عمر نے اس کی توانائی اور اعصاب کو مضحل کر دیا لیکن پھر بھی
وہ مسلسل برسرپیکار رہا اور نئی نئی دھنیں ترتیب دیتا رہا ۔ اسی دوران وہ بالکل
اندھا ہوگیا۔ ہنڈل اپنے کاموں کا بہت سخت نقاد تھا لیکن اسے اپنا ’’مسایا‘‘ اس لیے
پسند تھا کہ وہ اسے پاتال سے اٹھا کر ایک بار پھر دنیا کے سامنے لے آیا تھا ۔ اپنے
آخری شاہکار کے انعقاد کے دوران وہ بہت کمزور ہوچکا تھا اور بمشکل بگھی میں
بیٹھ کر وہاں پہنچا تھا لیکن جب اوپیرا شروع ہوا تو اس کے مردہ تن میں جان اور بے
نور آنکھوں میں چمک آگئی ۔ پھر وہ لڑکھڑا یا اور آہستہ آہستہ اپنے قدموں پر گرگیا
اس کے دوست اسے بہت احتیاط سے گھر الئے اور بستر پر لٹا دیا وہ بڑ بڑا یا میں
Good fridayکو مرنا چاہوں گا۔ اس کا ڈاکٹر اور احباب الجھن میں تھے کہ یہ کیا
معمہ ہے کیونکہ ابھی اس میں ایک ہفتہ باقی تھا۔
ہینڈل کی زندگی کے اہم کام ۱۳اپریل کو ہی ہوئے تھے اس لیے وہ چاہتا تھا کہ اس
کی زندگی کا چراغ بھی اسی تاریخ کو بجھے ۔ جب اسے فالج ہوا اور پھر اس کا
حیات افروز ’’مسایا‘‘ مکمل ہوا تو یہی تاریخ تھی ۔ایسا شخص جو کبھی وقتی طور
پر تو مایوس ہو ا لیک ن اس نے زندگی میں کبھی ہار نہیں مانی آخر موت کے سامنے
ہار مان گیا لیکن اس کا پختہ ارادہ موت پر بھی اثر انداز ہوکے رہا اور ۱۳اپریل کو
ہی اس نے زندگی کو خیر باد کہا ۔
’’آج سے کئی سال پہلے ۱۳اپریل کو ہی قسمت نے فالج
کے حملے میں اسے گرا کر بستر سے لگا دیا تھا۔یہی دن
تھا جب مسایا کو مکمل کر کے حیات نو پائی تھی اور پھر
اسی دن ۱۳اپریل کو اس کا یہ حیرت انگیز کام پہلی دفعہ
ڈبلن کے لوگوں کے سامنے پیش ہوا تھا۔ اب اسی تاریخ کو
وہ اس زندگی کو خیر باد کہہ کر ابدی حیات نو کی طرف
جانا چاہتا تھا‘‘ (ص )۱۹۱
یہ عظیم موسیقار ز ند گی کے محاذ پر ان گنت مشکالت کا سامنا کرتا رہا لیکن اس
کے اندر اپنے کام سے جو سچی لگن تھی وہ کبھی مانند نہ پڑی اور وہ آنے والی
نسلوں کے لیے عمل پیہم کی الزوال مثال چھوڑ گیا ۔ کتاب کا پانچواں حصہ ’’ یاد
ایام‘‘ تین عنوانات پر مشتمل ہے ۔پہال ’’کچھ دوسری طرح کی یادیں ‘‘(ص697تا
)684دوسرا ’’محمد خالد اختر کی یاد میں ‘‘(ص681تا )687تیسرا’’چار خط(محمد
خالد اختر بنام محمد کاظم )‘‘ص671تا 677یاد ایام کے نام سے یہ حصہ ماضی کی
۔ ہے مبنی پر یادوں
مذکورہ باال پہال مضمون ’’کچھ دوسری طرح کی یادیں ‘‘ اس سے پہلے فنون کے
شمارے ، ۱۱۴جنوری تا جون ۱۰۰۱ء میں ص۱۶۶تا ۱۶۹پر شائع ہوا۔
اس کا موضوع محمد کاظم کا وہ زمانہ طالب علمی ہے جو انہوں نے اڑھائی تین برس
صا د ق ایجرٹن کالج بہاول پور میں گزارا یہاں اسلوب سادہ اور بیانیہ انداز لیے ہوئے
ہے لیکن منظر نگاری جزئیات کے ساتھ اتنی جاندار ہے کہ قاری خود کو اسی منظر
نامے میں محسوس کرتا ہے ۔ فکر میں عمل پیہم کا جذبہ ابتد ٗا سے اختتام تک موجود
رہتا ہے لیکن طبعی جھجک آڑے آئی جو اس تمام عرصے کچھ کر گزرنے اور آگے
بڑھنے میں ہمیشہ مانع رہی ۔
خود پر تنقید کرنا اور اپنی شخصی خامیوں کا برمال اظہار ایک حقیقت پسند ادیب کا
ہی خاصہ ہے ۔ جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں ۔ ان یادوں کو قارئین کے ساتھ
شریک کرنے کا مقصد یہی ہے کہ وہ مصنف کی شخصیت کے مخفی گوشوں کو جان
سکیں کہ کس طرح اس نے اپنی ذات سے جنگ لڑی ،اپنی تنہائی اور بے چارگی پر
کیسے قابو پایا ؟یہاں پر جو چیز بطور خاص نظر آتی ہے وہ یہ کہ متانت ہمیشہ
مصنف کی شخصیت کا الزمہ رہی ۔
کالج کا زمانہ طالبعلمی ایک نشاط انگیز اور پر کیف دور ہوتا ہے جب امنگیں جوان
ہوتی ہیں اور کچھ نیا کر گزرنے کا جذبہ ہر لمحہ موجود ہوتا ہے تو ایسے میں محمد
کاظم کے اندر تنہائی ،محرومی و نارسائی کا یہ احساس کہاں سے در آیا کہ وہ اپنی
ذات میں ہی سمٹ کر رہ گیا ۔ کیا اسے زندگی میں ایسے حاالت پیش آئے جن کے زیر
اثر دنیا کے معامالت سے کٹ کر اس نے اپنی ذات میں جھانکنا ،تنہا رہنا اور کتابوں
کے ساتھ وقت گزارنا سیکھنا۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ اس نے وقت کا مصرف مثبت
انداز میں کیا۔
ان یادوں کے بین السطور ایک دروں بین شخصیت سامنے آتی ہے جو اپنے اندر
چاہے جانے کا احساس چھپائے ہوئے ہے کیونکہ یہ احساس ہر نارمل انسان کے اندر
ہوتا ہے کالج کی بے کیف اور عام روش سے ہٹی ہوئی زندگی کا احساس ان کے اندر
خلش بن کر رہ گیااپنی ڈری ڈری اور سہمی ہوئی شخصیت کا ذمہ دار وہ اپنے فطری
حجاب اور زمانہ سکول کی نادرست تربیت کو قرار دیتا ہے ۔ ماسوائے پڑھائی کے وہ
کالج کی کسی بھی سرگرم ی میں حصہ نہ لے سکا۔ ان کا بڑا بھائی جو اسی کالج میں
زیر تعلیم تھا اس نے اس سلسلے میں رہنمائی کی کوشش کی لیکن مصنف نے کوئی
پیش رفت نہ کی ٰلہذا یہ کوشش بے سود ثابت ہوئی آخر میں مصنف کی سچائی اور
حقیقت پسندی متاثر کن ہے ۔ وہ کسی لگن اور جذبے کی وجہ سے مذہب کی طرف
متوجہ نہیں ہوا تھا بلکہ اپنی تنہائی اور بے چارگی سے جنگ لڑتے لڑتے جب وہ
تھک گیا تو مجبورا ً مذہب کا اور کتابوں کا سہارا لیا تھا ۔اسی دوران نماز کی پابندی
شروع کی چونکہ کالج کی فٹ بال میں اسے کوتاہ قامتی کی وجہ سے شامل نہیں کیا
گیا تھا اس لیے اس نے کھیل کے میدان میں جانے کی بجائے شام کو ممتاز عالم دین
کا درس حدیث سننا اور عالمہ شبلی اور سید سلیمان کی کتابوں کے مطالعہ میں خود
کو گم کر کے ساری پریشانیوں کو بھالنے کی سعی مسلسل کو اپنا معمول بنا لیا ۔ اس
تمام عرصے میں اپنے محاسبے کے دوران اس نے صرف اپنی منفی صالحیتوں سے
آگا ہی حاصل کی کیونکہ ابھی اس کا مثبت شعور بیدار نہیں ہوا تھا۔
دوسرا ’’محمد خالد اختر کی یاد میں‘‘
محبت سے گندھی ہوئی اس تحریر میں مصنف نے اپنے جگر ی دوست کی وفات کے
بعد اس کے ساتھ گزارے ہوئے وقت کی یادوں کو تازہ کیا ہے ۔ اسلوب بیانیہ اور ادبی
چاشنی سے بھرپور ہے ۔ آغاز ڈرامائی انداز سے ہوتا ہے اور قاری کو فورا ً اپنی
جانب متوجہ کر لیتا ہے یہاں محبت اور عقیدت پہلو بہ پہلو چلتی ہیں ۔ مصنف کی فکر
حقیقت پسندی پر مبنی ہے ۔ مصنف ماضی کو کھنگالتے ہوئے دلچسپ انداز میں اپنے
دوست سے پہلی مالقات کا حال بیان کرتا ہے جو اپنی ذات میں غیر معمولی انسان اور
ایک بڑا ادیب تھا اس پہلی مالقات میں مصنف کو اس کی ظاہری شخصیت میں کوئی
خاص کشش محسوس نہ ہوئی کیونکہ دونوں کے مزاج میں بھی اختالف تھا ۔ محمد کا
ظم کا تعلق جماعت اسالمی سے تھا جبکہ محمد خالد اخترانگلش لٹریچر کی باتیں کرتا
تھا اور آزاد خیال انسان تھا مضمون نگار اس کے فن پر بات کرتے ہوئے کہتا ہے کہ
اسے انگریزی میں مہارت تھی لیکن وہ اردو میں لکھتا تھااس کی وجہ غالبا َ یہ تھی
انگریزی ادیبوں کے مقابلے میں وہ نمایاں نہیں ہوسکتا تھا ۔ اس کے برعکس اردو
میں اسے قارئین کا وسیع حلقہ میسر تھا کیونکہ انگریزی سوچ اور طرز اظہار نے
اسے منفرد بنا دیا تھا ۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دونوں میں دوستی کا مضبوط رشتہ استوار ہوگیا اور خط
و کتابت شروع ہو گئی جس سے شخصیت کی تہہ در تہہ پرتیں کھلتی گئیں۔ محمد خالد
اختر مذہبی معامالت کی پیر وی میں اتنا پابند نہیں تھا جتنا کہ ایک عام مسلمان کو ہونا
چاہئے لیکن اس نے کبھی جھوٹ کا لبادہ اوڑھ کر خود کو اچھا ثابت کرنے کی
کوشش نہیں کی تھی۔ وہ اپنی کوتاہیوں کا دل سے معترف تھا ۔اسے اس بات کا شدید
قلق تھا کہ اس کی اردو لغت بے حدمحدود ہے ۔
محمد کاظم خود ایک مرنجاں مرنج شخصیت تھے اس لیے وہ دوسروں کی خوبیوں پر
زیادہ اور خامیوں پر کم نظر رکھتے تھے اس مضمون میں بھی یہی صورتحال ہے وہ
اس بات کے معترف تھے کہ خالد نے ان کا نقطہ نظر وسیع کیا اور انہیں انگریزی
ادب سے روشناس کیا۔ چونکہ یہ مضمون محمد خالد اختر کی وفات کے بعد لکھا گیا
اس لیے آخر میں مصنف انتہائی رنجیدہ ہے اور اپنے دوست سے جو مالزمت سے
سبکدوشی کے بعد کراچی منتقل ہوگیا تھا بذریعہ خطوط مسلسل رابطے میں تھا لیکن
اب یہ سلسلہ بھی منقطع ہوچکا تھا ۔ اسے رہ رہ کر اس کے خطوط کی یاد آتی تھی
جو اسے حیات نو بخشتے تھے کیونکہ وہ اس کی تحریروں کا نقاد بھی تھا ۔ اپنے
دوست کے بغیر اسے زندگی خالی اور بے معنی لگنے لگی ہے ۔
تیسرا اور آخری مضمون ’’چارخط‘‘ ہیں جو محمد خالد اختر نے کاظم کے نام لکھے
تھے ۔
محمد کاظم کو خالد سے ایک خاص لگاؤ اور عقیدت تھی اس لیے انہوں نے اس کے
خطوط کو بے حد احتیاط کے ساتھ رکھا چونکہ کاظم اس کی تحریروں کا مداح تھا اس
لیے وہ اس کی خطوط نویسی کے اسلوب کا بھی پرستار تھا حاالنکہ ان خطوط میں
کوئی قابل ذکر موضوع نہیں ہے محض نجی نوعیت کے خطوط ہیں لیکن محمد کاظم
ان خطوط سے حاصل ہونے والی مسرت میں کو دیگر قارئین کو شریک کرنا چاہتا
ہے اس لیے اس نے انہیں اس کتاب میں شامل کردیا تاکہ جو لوگ انہیں نہ پڑھ سکے
سکیں۔ کر مطالعہ کا ان بھی وہ ہوں
پہال خط کراچی سے 6776ء میں لکھا ہے جس میں سفر بہاول پور کا تذکرہ ہے اور
وہاں کے مرحوم دوستوں کو شدت سے یاد کیا ہے اس کی وجہ سے واپس آکر بھی
بے کلی کی کیفیت طاری ہے اور دل ہر چیز سے اچاٹ اور مائل بہ اداسی ہے ۔ محمد
کاظم کی چوری شدہ کار پر اظہار افسوس ان کے علمی معامالت پر استفسار کیاہے ۔
دوستوں کی جدائی پر یوں نوحہ کناں ہیں کہ خود بھی اس زندگی سے بیزار ہیں ۔
تیسراخط کراچی سے 6774ء میں لکھا گیا جو قدرے طویل ہے اس میں مختلف
۔ ہیں گئے الئے بحث زیر موضوعات
محمد کاظم طبعا ً تساہل پسند تھا اس لیے خط کا جواب لمبے وقفے سے دیتا تھا ۔ خالد
اخترکو وقت کی تیز رفتاری کا احساس شدت سے ہورہا تھا۔ اس وجہ سے کبھی کبھی
وہ اضمحالل کا شکار ہوجاتا تھا ۔ یہاں اس کی فکر کھل کر سامنے آتی ہے کہ وہ کن
نظریات کا حامل ہے کیونکہ وہ حیات بعد ازموت کاقائل نہ تھا ۔
اس خط میں مکتوب نگار ایک حوصلہ مند انسان کے طور پر سامنے آتا ہے جو شدید
آشوب چشم کے باوجود لکھنے کا کام جاری رکھے ہوئے ہے ۔ آپریشن ملتوی ہونے
کی وجہ مالی مشکالت ہیں کیونکہ اس کے عالوہ دیگر امراض کا عالج بھی چل رہا
۔ تھا
لکھنے میں پہلے والی باقاعدگی اور شدت برقرار نہیں رہی تھی لیکن اس کے لیے
بھی وہ ایک نظریہ پیش کرتے ہیں کہ ہنر) (Talentبھی ایک حد ہوتی ہے جو صرف
ہوجائے تو دوبارہ بحال نہیں ہوتا اور اخراج کے لیے نیا راستہ تالش کرتا ہے جس
طرح غالب کی تخلیق کاری ایک عرصے کے بعد شاعری کی بجائے خطوط میں در
آئی ۔ زندگی میں بے پناہ مصروفیت یابعض اوقات مالی مسائل کی وجہ سے اپنی
تحریروں کو یکجا کرنے کا موقع نہیں ملتا لیکن یہ خلش رہتی ہے کہ کاش یہ
تحریریں کتابی شکل میں آجائیں ایسی ہی ایک خواہش کا اظہار خالد اخترنے اپنے خط
میں کیا ہے کہ محمد کاظم ان کی تحریروں کو کتابی شکل میں لے آئیں ۔وہ ’’آج‘‘ میں
شائع ہونے والی اپنی نئی کہانی ’’عبدالباقی‘‘ محمد کاظم کو پڑھنے کے لیے کہہ
رہے ہیں جو مستقل عاللت کے دوران لکھی تھی ۔
احمد ندیم قاسمی اور وزیر آغا کی ادبی چیقلش پر دکھ کا اظہار کیا ہے ۔ بہاول پور
سے تعلق رکھنے والے ’’فنون‘‘ کے مستقل لیکھک رشید ملک کی ہونہار بیٹی کی
موت کو ایک بہت بڑا المیہ قرار دیا ہے اس کے عالوہ چھوٹے چھوٹے گھریلو مسائل
کو احاطہ تحریر میں الیا گیا ہے ۔
چوتھا اور آخری خط کراچی سے 6771ء میں لکھا گیا ۔ اس میں مختلف موضوعات
پر اظہار خیال کیا گیا ہے ۔ اہم موضوع ادبی مجلے’’سوغات ‘‘ کا محمد خالد اختر
نمبر کی اشاعت ہے ۔ اس میں مکتوب نگار کی متضاد رائے سامنے آتی ہے ۔ ایک
طرف تو وہ شہرت اور نام و نمود بیگانگی کا اظہار کر رہے ہیں لیکن دوسری طرف
محمد کاظم سے درخواست کررہے ہیں کہ اس نمبر کے لیے ان کی شخصیت پر بہت
اچھا تعارفی مضمون لکھ دے تاکہ اہل ہند ان سے متعارف ہو جائیں کیونکہ اس کے
بغیر محمد خالد اختر نمبر کا چھپنابے مقصد ہوگا۔ اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا
ہے کہ وہ بیرون ملک ناموری کے شدت سے خواہاں ہیں ۔
’’فنون‘‘ کا شمارہ نہ ملنے کا گلہ کیا ہے۔ تمام خطوط میں انہوں نے اپنی عاللت کے
ساتھ ساتھ وقت کی برق رفتاری کا شدت سے ذکر کیا ہے ۔ آخر میں احمد ندیم قاسمی
کی عافیت پوچھنے کے بعد رشید ملک کے المیے پر اظہار تاسف کیا ہے اور پھر
محمد کاظم کی بیوی کی خیریت دریافت کی ہے ۔
یہ بات قابل غور ہے کہ خطوط میں زمانی ترتیب سے نہیں ہے ۔ محمد کاظم نے ان
کے آخری زمانے کے خطوط ایک طالبعلم کو دیئے تھے جو ان پر پی ایچ ڈی کر رہا
تھا ۔ یہ خطوط محمد خالد اختر کی وفات سے دس سال پہلے کے ہیں۔
کتاب کے مندرجات میں پیش لفظ اور سات ابواب شامل ہیں ۔ عربی زبان و ادب
ابتدائے آفرنیش سے ہمارےلیے خصوصی اہمیت کا حامل رہا ہے لیکن یہ صورت
حال تشویش ناک ہے کہ عربی کی تدریس کے حوالے سے ہمارے معاشرے کوئی
ٹھوس اقدامات نہیں کیے جا رہے سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اسے دین کے ساتھ
جوڑ دیا جاتا ہے حاالنکہ ادب اور دین کے تقاضے مختلف ہیں۔ ۔
دین کی اصالح کے لیے قرآن و حدیث دو مستند واسطے ہمارے لیے مشعل راہ ہیں
لیکن ادب تو ان احساسات و جذبات کے اظہار کا نام ہے جو ازل سے انسان کی روح
کو بیدار کر کے اسے خود سے شناسا کرتا ہے ادب اظہار ذات کا دوسرا نام ہے ۔ یہ
الگ بات ہے بعض خواہشات کے تشنہ رہ جانے سے انسان متوازی راہوں پر چل پڑتا
ہے یہ فرار ذات ہے ۔ ادب کی تشکیل ان دوراہوں کے بین بین ہوتی ہے ۔
ہمارے ہاں یہی رویہ پایا جاتا ہے کہ عربی ادب کو قرآنی آیات کے ساتھ خلط ملط کر
دیا جاتا ہے ۔ اس لیے ہم لوگ ابھی تک عربی ادب کے بنیادی مزاج کے حوالے سے
ناخواندہ ہیں ۔ کسی بھی زبان کے ادب کو سمجھنے کے لیے تراجم نے یقیناًکلیدی
کردار ادا کیا ہے ۔ اس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں تاریخ ادب ایک ایسا موضوع
ہے کہ اس کا مطالعہ اصل زبان میں ہی کیا جائے تو اس عہد کو بہتر طور پر سمجھا
جا سکتا ہے ۔
مذکورہ باال کتاب کی تصنیف کے دوران مصنف نے مآخذات میں عربی اور اردو کی
کتب و تواریخ سے استفادہ شامل کیاہے لیکن حوالے حواشی سے صرف نظر کیا ہے ۔
کتابیات کی فہرست اور اشاریہ اسماء و کتب اور مقامات ص ۴۱۸تا ۶۱۱پر موجود
ہے ۔ زیر نظر کتاب میں اگر کہیں کوئی کمی بیشی ہے یا مصنف نے جن کتب سے
استفادہ کیا ہے اس کااعتراف ا س نے واضح لفظوں میں کیا ہے ۔ کتاب کی ضخامت
کے پیش نظر مصنف نے دانستہ طور پر اختصار سے کام لیا ہے ۔ موضوع کی
وسعت کے باوجود تمام اصناف کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے اپنی اس جدوجہد کو
اس نے محض ایک کوشش پر محمول کیا ہے ۔ اس پر تصدیق کی کوئی مہر ثبت
کرنے کی سعی نہیں کی لیکن بال دلیل کوئی رائے مسلط نہیں کی ۔
عربی زبان کے حوالے سے مصنف زبانو ں کے خاندانوں کے بارے میں بتاتا ہے۔
’’ دنیا کی سب سے بڑی اور قدیم زبانیں تین ہیں۔ سامی ،آریائی اور حامی ،سامی
عربی اور کنعانی ، آرامی ۔ ہیں یہ شاخیں کی زبان
َٓ آرامی زبان کی شاخیں ہیں ،عبرانی ،فینیقی عربی ایک سامی زبان ہے یعنی ان
قوموں کی زبان جو حضرت نوح کی بیٹے سام کی نسل سے تھیں ۔ سامی اقوام کا
وطن اول وادئ فرات یا دجلہ اور فرات کے درمیان کا عالقہ تھا جب یہ تعداد میں
زیادہ ہوگئے تو اس پاس کے عالقوں میں پھیل گئے ۔ بابلی اور شوری عراق میں
آگئے آرامی شام میں ،عبرانی فلسطین میں ،فنینیقی ساحل شام اوار لبنان میں عرب
جزیرہ نمائے عرب میں اور کچھ دوسرے لوگ حبشہ چلے گئے‘‘ (عربی ادب کی
تاریخ ،ص)۱۶
یہ کہا جا سکتا ہے کہ سامی زبانوں میں عربی زبان ہی اپنی اصل سے زیادہ قریب
ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ الگ تھلگ رہنے کی وجہ سے یہ تغیرات زمانہ سے
محفوظ رہی ہے ۔ دیگر زبانیں اپنے باشندوں کے ساتھ ہجرت کرنے کی وجہ سے
اختالط کا شکار ہو گئیں اور یوں اپنی اصل سے دور ہوتی گئیں۔ عربی زبان کی
قدامت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ۱۱۰ء میں ظہور اسالم سے
پہلے یہ جزیرہ نمائے عرب میں مکمل طور پر موجود تھی ۔ اس کا ثبوت زمانہ
علی شاہ کار ہیں ۔
جاہلیت کی شاعری اور خطبات کے نمونے ہیں جو کہ فکر و فن کا ٰ
عربی زبان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس کا محاورہ اور روزمرہ آج
بھی وہی ہے جو ساڑھے پندرہ سو برس پہلے تھا۔ ایک وقت تھا جب پورے برصغیر
میں فارسی زبان کا شہرہ تھا اور اب انگریزی زبان کا لیکن قدامت کے لحاظ سے
دیکھیں تو فارسی زبان کی عمر گیارہ سو برس سے تجاوز ہے اور انگریزی زبان کی
عمر چھ سو سال ہے ۔ عربی زبان عالم گیر سطح پر اپنا وجود کیوں نہ منوا سکی اور
بتدریج دور کی آواز ہی بنتی گئی اس میں قصور وار تو اہل زبان ہیں کہ انہوں نے
اسے اپنی حد تک ہی محدود رکھا اور عالمی سطح پر اس کی پذیرائی کے لیے کچھ
نہ کیا۔
مصنف عرب قوم کی تاریخ ،عالقے اور مشہور قبائل کے حوالے سے بتاتا ہے ۔
’’ عرب قوم تاریخی زمانوں سے تین طبقوں میں تقسیم کی جاتی ہے ۔ عرب بائدہ :یہ
بہت قدیم لوگ ہیں جن کا کوئی مستند حال معلوم نہیں ہے سوائے ان بیانات کے جو
قرآن یا حدیث میں ان کے بارے میں آئے ہیں ۔ ان کے قدیم قبائل میں طسم ،جدیس اور
ہود کو پیغمبر بنا کر بھیجا گیا جنوب کی
عاد اور ثمود تھے عاد کی طرف حضرت ؑ
طرف احقاف میں رہتے تھے ۔ ثمود حجاز میں آباد تھے ان کی طرف حضرت صالح
کو پیغمبر بنا کر بھیجا گیا ۔
عرب عاربہ :یہ وہ لوگ تھے جو فرات کے عالقے سے آکر یمن میں بس گئے تھے
ان کا تعلق یعرب بن قحطان سے تھا ۔ جس کے متعلق یہ خیال کیا جاتا ہے کہ عربی
زبان کی ابتداء اسی سے ہوئی ۔
ہر قوم کا ادب اس کی سیاسی اور معاشرتی تاریخ وحاالت سے جڑا ہوتا ہے دونوں
میں تبدیلی ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتی ہے ۔ فکری انقالب حاالت پر سب سے
گہرے اثرات مرتب کرتا ہے ۔ عربی ادب کے مورخین اس کی تاریخ کو پانچ ادوار
میں تقسیم کرتے ہیں ۔ اس دوران جو ادب تخلیق ہوا اس کے اثرات آج تک موجود ہیں
اور ان کے بغیر عربی ادب کی تاریخ نامکمل ہے جاہلی دور ،صدر اسالم اور اموی
حکومت کا دور ،عباسی دور ،اندلسی دور،فاطمی اور ترکی دور جدید دور۔
مصنف نے زیر نظر باب میں قبل از اسالم عربوں کی معاشرتی ،سیاسی ،مذہبی اور
فکری زندگی کا مختصرا ً جائزہ لیا ہے اُن کی طرز بود وباش اور آب وہوا کا ان کے
مزاج پر ا ثر کا جائزہ لیتے ہوئے یہ اہم نکتہ اٹھایا کہ قبل از اسالم عربوں کا مذہب
بہت سادہ تھا ۔ ان کے دین ابراہیمی کی کچھ باقیات تھیں جو ایک طویل زمانہ گزرنے
کی وجہ سے جہالت وخانہ بدوشی کی وجہ سے اپنی اصل صورت کھو چکی تھیں ۔
مصنف ان ادوار کا ادبی جا ئزہ لیتا ہے۔ سب سے پہلے جا ہلی دور کو دیکھتے ہیں ۔
اس دور کی نوعیت کیا تھی ؟ اس نام کی وجہ کیا تھی ؟آج تک اس نام سے کیوں مو
سوم چالآتا ہے عربی زبان کے ارتقا کی کیا صور تحا ل تھی ؟
وہ دور جہالت کا نہیں بلکہ جا ہلیت کا تھا ۔ جس میں معاشرتی ناہمواری ،نامعقو لیت ،
بے انصافی اور بت پرستی ،شامل تھی۔ عدم توازن کی وجہ سے جہالت اور جاہلیت کو
خلط ملط کر دیا گیا اور یہی تصور عوام الناس میں راسخ ہوگیا۔
ہر معاشرے میں زبان کی مختلف شکلیں رہی ہیں اسی طرح عربی زبان بھی دو طرح
کی ہے ۔ ایک فصیح عربی جو قرآن پاک اور لکھنے پڑھنے کی زبان ہے۔ دوسری
عامی عربی جسے عالقائی زبان کہتے ہیں۔
دنیا کی کوئی بھی زبان ایک ہی مرحلے میں بلندی کے تمام مراحل طے نہیں کرتی
بلکہ اسے تہذیب یافتہ شکل اختیار کرنے میں مدتیں درکار ہوتی ہیں۔ عربی زبان بھی
کچھ ایسی ہی صورتحال سے دو چاررہی ہے۔
جاہلی دور
جاہلی دور کے حوالے سے چند اہم سواالت سامنے آتے ہیں اس دور میں
تخلیق ہونے والی شاعری اور نثر کی زبان کیا تھی؟
اس زبان نے ترویج کیسے پائی؟
جاہلی شاعری کا اس دور کے معاشرے میں کیا مقام تھا ؟
شاعری کس قسم کی تھی اور اس کا مقصد کیا تھا اور کیا یہ مکمل طور پر
محفوظ رہ سکی تھی ؟
شاعری کی خصوصیات اور اہم مجموعے کو ن سے تھے؟
دور جاہلیت کے اہم نثر نگار ،شعر اء اور ان کے نمونہ کالم کے موضوعات
کیا تھے؟
جب ہم عربی ادب کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد یقیناًفصیح عربی ہے کیونکہ یہ
زبان بین االقوامی حیثیت کی حامل ہے اور تمام عرب ممالک میں بولی اور سمجھی
جاتی ہے ۔ جاہلی دور میں جوادب تخلیق ہوا وہ اسی زبان میں ہے ۔ لہجوں کا فرق بھی
بتدریج معدوم ہو تا گیا یہاں جس عربی ادب سے ہمیں کالم ہے ان شعراء کا تعلق شمال
کے ربیعہ اور مضر قبائل سے تھا جو بوجوہ یہاں قیام پذیر نہیں تھے وہ بھی ہجرت
کر کے یہیں آکر آباد ہو گئے تھے۔
یہ حقیقت ہمارے مشاہدۂ عام میں ہے کہ ادب میں پہلے نثروجود میں آتی ہے پھر
شاعری اس کی وجہ غالبا یہ ہے کہ نثر اظہار کا آسان اور قدرتی ذریعہ ہے اپنا مدعا
بیان کرنا مشکل نہیں ہے۔
دور جاہلیت کی نثر کے حوالے سے دیکھیں تو اس دور میں نثر دوطرح کی تھی
کسی بھی ادب کے لیے اس دور کے معاشرتی ،سیاسی اور تجارتی حاالت ذرائع
مواصالت کا کردار ادا کرتے ہیں۔ انہی کی وجہ سے زبان ترویج کے مراحل طے
کرتی ہے زمانہ جاہلیت میں تفریح اور کاروباری نقطۂ نظر سے وسیع پیمانے پر ساال
نہ میلے منعقد ہوتے تھے مختلف مقابلہ جات کے دوران شعروشاعری کامقابلہ بھی
ہوتا تھا اور اس کے لیے یہ طے تھا کہ شعراء اپنا بہتریں کالم پیش کریں۔ زبان اور
محاور ے عام فہم ہوں ۔ اس طرح عربی زبان رفتہ رفتہ مہذب اور عام فہم ہوتی گئی۔
شاعری نرم و نازک احساسات کو لفظوں میں ڈھالنے کا نام ہے اور یہ صالحیت عطیہ
خاص ہے اکتساب سے تو محض لفظوں کی کانٹ چھانٹ کی جاتی ہے ۔ دومصرعوں
میں زندگی کے بڑے بڑے حقائق کا خالصہ بیان کر دیا جاتا ہے۔ جاہلی شاعری کے
نمون ہ کالم سے اندازہ ہو تا ہے کہ یہ اسالم سے ڈیڑھ سو برس پہلے کی ہے اپنے
ہے۔ پر بلندیوں اعلی
ٰ کی فن اور پختہ میں مزاج
عرب معاشرے میں شاعر کو جو مقام حاصل تھا اس کی مثال دوسر ی اقوام اور
معاشرے میں نہیں ملتی۔ کیونکہ وہاں شاعری محض تفریح کے سوا کچھ نہ تھی۔
اب ہم جاہلی شاعری کے حوالے سے دیکھتے ہیں تو شاعر کو یہ پورا اختیار حاصل
تھا کہ وہ اپن ے کالم کے ذریعے کسی بھی قبیلے کو سر بلند کر سکتا تھا اور اگر چاہتا
تو ہجو کہ کر ذلیل خوار کر دیتا تھا ۔ جاہلی معاشرے میں جس قبیلے میں کسی بڑے
شاعر کا ظہور ہو تا تو اس کی قسمت پر رشک کیا جاتا تھا۔ شاعر معاشرے کے لیے
چلتا پھرتا ذریعہ ابالغ تھا ۔ اس کے کالم پر تصدیق کی مہر ثبت کر دی جاتی تھی۔
عموما شاعری تین طرح کی ہوتی ہے ایک جذبہ و احساس کی دوسری رزمیہ اور
تیسری تمثیلی شاعری ۔شاعری کی اول الذکر قسم سب سے پہلے وجود میں آئی ۔ اسی
سے د یگر اقسام وجود میں آئیں۔
اب سوال یہ ہے کہ اس دور کی جاہلی شاعری کیا تھی اور اس کا مقصد کیا تھا ؟
عربوں کے خاص ماحول ،محدود تصور کی وجہ سے اساطیر وہاں رواج نہ پاسکیں ۔
عرب شعراء فطرت نگاری کے زیادہ قریب تھے ۔ عکاظ کے میلے میں جو شاعری
کا مقابلہ ہوتا تھا اس کی کشش دور دور کے قبائل کو شاعری کی طرف التی تھی ۔ وہ
اپنے اندر فصیح عربی لہجہ پیدا کرنے کے لیے کوشاں رہتے تھے۔ اس طرح جاہلی
شا عری مکہ کے قرب وجوار کے درمیان تجارت کا وسیلہ ثابت ہوئی۔
عرب شاعر کو اپنے سوا کوئی اور دکھائی نہیں دیتا تھا لیکن اس کے باوجود اس کی
شاعری موضوعاتی لحاظ سے خصوصیات کی حامل تھی سب سے بڑی خصوصیات
،سچائی ،واقفیت اور بے ساختگی ہے موضوع چاہے کوئی بھی ہو لیکن جھوٹ اور
مبالغے کی آمیز ش سے خالی ہوگا ۔
یہ شاعری اس عہد کے جغرافیائی ،معاشرتی اور اخالقی حاالت کا مکمل نمونہ پیش
کرتی ہے۔ دوسری اہم خصوصیت جو خامی کے ُزمرے میں بھی آسکتی ہے۔ وہ
مضامین کی محدود یت اور یک رنگی ہے ۔ کیونکہ اس میں مضامین غیر مربوط انداز
میں ہیں۔ ترتیب میں تبدیلی سے یا کوئی شعر حذف کرنے سے بیا ینے پر کوئی اثر
نہیں پڑتا ۔ عرب مزاجا ً فلسفی یا مفکر نہیں تھے اس لیے وہ ایک روایت کی پاسداری
کرتے چلے آرہے تھے۔ جاہلی شاعری میں تنوع کا فقدان ہے۔ اگر بنطر غائر دیکھا
جائے تو اس کا زمانہ بھی زیادہ طویل نہیں تھا۔
یہ حقیقت اپنی جگہ درست ہوگی لیکن جاہلی شاعری کا جو ذخیرہ دستیاب ہو ا ہے
اسے اہل نقد و نظر ممیز کر سکتے ہیں کہ یہ جاہلی شاعری میں اصل اور بنیاد کی
حیثیت رکھتا ہے ۔ ہر دور میں ادب کے حوالے سے قیاس آرائیاں ہوتی رہی ہیں اور
اسی سے تنقید کے دَروا رہتے ہیں ورنہ جمود کی فضا طاری ہو جائے۔ جاہلی شاعری
کے مستند اور نمائندہ مجموعوں کے حوالے سے مصنف بتاتا ہے۔
معلقات ،یہ سات چوٹی کے جاہلی شعرا کے سات طویل قصید ے ہیں جن کو عکاظ
کے میلے کے ساالنہ مقابلوں میں بہترین قرار دیا گیا اور مقبول عام روایت کے
مطابق سونے کے پانی سے لکھ کر درکعبہ پر لٹکا ئے گئے تھے۔ کوئی شک نہیں کہ
جاہلی شاعری کے بہترین نمونے ان سات قصائد میں ملتے ہیں جن کے شعراء میں
سلمی ،لبید بن ربیعہ ،عمرو بن کلثوم ،
ٰ امرؤ القیس ،طرفہ بن العبد ،زہیر بن ابی
عنترہ بن شداد اور حارث بن حلزہ ،چونکہ یہ قصائد سونے کے پانی سے لکھے
جاتے تھے اس لیے ان کو مذ ّھبات بھی کہا گیا۔مفضّلیات ،یہ جاہلی شاعری کا وہ
انتخاب ہے جو آٹھویں صدی عیسوی میں ایک عالم اور ادیب مفضل الضبی نے خلیفہ
ابو جعفر منصور کے کہنے پر اس کے بیٹے اور ولی عہد مہدی کے لیے کیا تھا جو
اس کا شاگرد تھا۔
اصمعیات :اسی طرح کا ایک اور انتخاب مشہور راوی اصمعی نے آٹھویں صدی
عیسوی ہی میں ہارون الرشید کے کہنے پر اس کے بیٹے امین کے لیے کیا۔
ان مذکورہ مجموعوں میں معلقات کے شعراء کے عالوہ دور جاہلیت کے دوسرے
بڑے شعراء کا کالم ہے۔
دیوان الحماستہ :یہ جاہلی اور اسالمی دور کی شاعری کا وہ مشہور اور قابل قدر
انتخاب ہے جو دور عباسی کے نامور شاعر ابو تمام (م )۶۴۱نے نوی صدی عیسوی
میں کیا اور اس میں عربی شاعری کے بہترین نمونوں کو جگہ دی۔
جمہرۃ اشعار العرب :بارہویں صدی عیسوی کے اوائل میں عربی کے ایک بڑے عالم
اور ادیب ابوزید قرشی نے جاہلی اور ابتدائی اسالمی دور کی بہترین شاعری کا
انتخاب سات سات نظموں پر مشتمل سات عنوانات کے تحت کیا۔ یہ سب اپنے زمانے
کی چیدہ اور منتخب نظمیں تھیں۔ مراثی ،مشوبات ،ملحمات۔ مراثی میں سات مرثیے
ہیں اور مشوبات میں ایسی نظمیں ہیں جن کے شاعروں میں اہل کفر بھی اور اہل اسالم
بھی ہیں ان منتخب مجموعوں کے عالوہ جاہلی شاعری کے نمونے ابن قتیبہ
(۱۱۸ء)کی کتاب " الشعرو الشعراء " جو جاہلی اور اس کے بعد اسالمی ،امومی او
رعباسی ادوار سے متعلق ایک مستند تذکرۂ شعراہے۔ اسی طرح جاہلی شاعری کے
اعلی نمونے عباسی دور کے ابو الفروج اصفہانی (م )۸۱۹کی شہرہ آفاق تاریخی
ٰ بہت
کتاب " کتاب االغانی" میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔(ص ۳۱،۳۹،۳۱ایضا ً)
سبع معلقات جاہلی شعراء کا نمونہ کالم ہے لیکن زمانے کے اعتبار سے اسے طبقات
میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
جاہلی شعراء :یہ وہ شاعر ہیں جو اسالم سے پہلے ہوئے اور ان میں سے بعض نے
اسالم کا زمانہ پایا لیکن اس زمانے میں انہوں نے کوئی خاص شاعری نہیں کی۔
مخضرم شعراء :وہ شعرا ء جن کی زندگی کا کچھ حصہ جاہلیت میں گزرا ا ور کچھ
کہے۔ شعر میں زمانوں دونوں نے انہوں اور میں اسالم
زمانہ جاہلیت کی نثر نگاری کے نمونے اور اہم نثر نگار:
عربی نثر کے نمونے لوگوں کی گفتگو ،خطبوں اور تقریروں میں ملتے تھے۔ راویوں
نے صرف اسی حصے پر توجہ کی جو اپنی خوبصورتی ،بالغت اور اختصار کی
وجہ سے ذہنوں میں محفوظ رہ گیا۔
الخطاء زاد العجول (غلطی عجلت پسندی کا زادراہ ہوتی ہے) یامن اسلک الجددامن
العثار (جو سیدھے اور پختہ راستے پر چلے گا پھسلنے سے بچا رہے گا۔
مصنف بتاتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں اچھی اور مؤثر تقریر وہ سمجھی جاتی تھی جو
اعلی نمونہ ہو اس زمانے کے مشہور خطیبوں میں دو نام اہم
ٰ بالغت اور فصاحت کا
ہیں۔
’’قس بن ساعدہ نجران کاالٹ پادری تھا اور اکثر زمین پر
تلوار ٹیک کر اس کے سہارے کھڑے ہو کے تقریر کیا کرتا
تھا ۔ آنحضرت ﷺ نے قس بن ساعدہ کو عکاظ کے میلے میں
سنا تو اس کی تعریف کی ۔ عکاظ میں اسکی ایک تقریر
مختصرا ً یو ں ہے۔"لوگو سنو اور سمجھو جو بھی یہاں زندہ
ہے وہ ایک دن مر جائے گا اور جو مر جائے گا وہ اوجھل
ہوجائے گا اور جو کچھ آنے واال ہے وہ آ کر رہے گا
آسمانوں میں یقیناًکوئی خبر ہے اور زمین میں عبرت ناک
واقعات ہیں لوگو ں کو کیا ہو گیا ہے کہ جاتے ہیں اور واپس
نہیں آتے‘‘۔(ص ) ۱۱،۱۸
اس دور کا دوسرا اہم خطیب عمروبن معد یکرب زبیدی تھا۔
ضرب االمثال ،حکیمانہ اقوال اور تقریروں کے عالوہ وعظ و نصیحت کے باب میں
ہیں۔ ملتے نمونے عمدہ میں نثر جاہلی بھی
زبیر بن جناب الکلبی اپنے بیٹو ں کو نصیحت کرتا ہے۔
جاہلی شعراء میں سرفہرست وہ شعراء رہیں جو سبع معلقات میں شامل ہیں ۔ان کی
شاعرانہ عظمت کو ہر دور میں خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔ ان شعراء کا سال
پیدائش شاید بوجوہ نہ مال ہو لیکن سال وفات مصنف نے ہر شاعر کا درج کیا ہے تاکہ
اس عہد کی معاشرتی اور سیاسی زندگی کی تصحیح ممکن ہو سکے۔ان شعراء کے
حوالے سے مصنف کا نقطہ نظر مختصراًدرج کیا جاتاہے۔
معلقات کے شعراء میں دوسرے نمبر ہے۔ اپنے شعری معیار کی وجہ سے وہ
امرؤالقیس کے طبقے کا شاعر سمجھا جاتاہے ۔ زمانہ جاہلیت میں شاعری تو بہت
زیادہ ہوئی لیکن فکر کی بلندی ہر شاعر کے حصے میں نہیں آئی ۔ مصنف فکر
گہرائی کے حوالے سے معلقات کے دوشعراء کے نام لیتا ہے۔ ایک طرفہ بن العبد اور
سلمی ۔انسان کوپیش آمدہ حاالت بھی اس کی شخصیت پر بُری
ٰ دوسرا زہیر بن ابی
طرح اثر انداز ہوتے ہیں طرفہ بھی کچھ ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہوا۔
ان حاالت کے ردعمل کے طور پر طرفہ باغی ہو گیا ور لہو ولعب اور شراب سے
شغل کرنے لگا۔ دوست تو ہمیشہ اچھے وقتوں کے ساتھی ہوتے ہیں ٰلہذا جب تک اس
کے پاس پیسہ ہو تا دوست ساتھ دیتے اور بعد میں ساتھ چھوڑ جاتے ۔ اب یہی اس کی
زندگی کا چلن تھا کچھ عرصہ تک اس کی اہل خاندان کے ساتھ تعلقات میں بہتری
آگئی لیکن یہ زیادہ عرصہ برقرار نہ رہی۔ اسی دوران اس نے اپنا معلقہ کہا ۔
اس کے بعد طرفہ کی زندگی اپنے اختتام کی طرف بڑھتی ہے۔ اس نے حیرہ کے
بادشاہ عمر و بن ہند کے دربار کا رخ کیا ۔ اس نے طرفہ اور اس کے ماموں متلمس
کی قدرافزائی کی لیکن پھر انہیں اپنے ولی عہد کے حوالے کر دیا اس نے ان کی قدر
نہ کی جس پر ان دونوں نے بادشاہ کی ہجوکہہ ڈالی۔ بادشاہ نے یہ بات دل میں رکھتے
ہوئے انہیں گورنر بحر ین کے نام دو الگ الگ خط دئیے ۔ متلمس صورتحال بھانپ
گیا اور راستے میں الگ ہو گیا لیکن طرفہ نہ مانا۔ خط کھولنے پر پتہ چال کہ اس میں
ہے۔ گیا دیا حکم کا قتل کے طرفہ
طرفہ کی خواہش پر اسے خوب شراب پال کر اکحل نامی شریان کا منہ کھول دیا خون
بہہ جانے سے وہ مر گیا قتل کے وقت اس کی عمر چھبیس سال تھی۔
’’ طرفہ کا معلقہ بحر طویل میں ایک سو چار اشعار پر
مشتمل ایک دالیہ قصیدہ ہے لیکن دوسرے معلقات کی طرح
اس میں بھی ایک مکمل ادبی وحدت نظر نہیں آتی چنانچہ
موضوعات پر اس کے متعدد ٹکڑے ہیں جو لگتا ہے شاعر
نے مختلف اوقات میں نظم کیے ہیں جن کا زمانہ اور ماحول
مختلف ہو سکتا ہے‘‘۔(ص )۴۱
بعض اشعار میں اس کی فکر الگ ہے لیکن اسلوب جاہلی دستور کے مطابق ہے ۔
تشبیب کے بعد اونٹنی کے وصف میں پینتیس اشعار ہیں پھر اپنی ذات پر فخر کا اظہار
کرتے ہوئے اپنا فلسفہ زندگی بیان کرتا ہے۔ اس کے بعد عزیز و اقارب کے دیے
ہوئے دکھوں کا شکوہ کرتا ہے اور معلقے کا اختتام حکمت و فلسفے کی باتوں پر کرتا
ہے۔
نمونہ کالم:
" میری شراب نوشی اور لطف واندوزی کاعالم وہی رہا ہے اسی طرح میں اپنی نئی
اور موروثی جائیداد کو خریدتا اور بیچتا رہا ہوں یہاں تک کہ میرے اہل خاندان نے
مجھ سے کنارہ کشی کر لی اور مجھے ایک ایسے اونٹ کی طرح الگ کر دیا جسے
خارپشت کا روگ لگ گیا ہو۔اور ایک شعر میں کہتا ہے۔
’’زمانہ تمہیں وہ کچھ دکھائے گا جس کا تم نے سو چا بھی
نہ تھا اور تمہارے پا س ایسے لوگ خبریں لے کر آئیں گے
جن کو تم نے یہ خبریں النے کے لیے زاد راہ دے کر نہیں
بھیجا تھا‘‘۔(ص )۴۹،۴۱
سلمی (م ۱۶۶ء)
ٰ 3۔ ُزہیر بن ابی
زہیر مضر کی شاخ قبیلہ مزینہ سے تھا ۔ یہ اپنے خاندان کے ساتھ نجد میں غطفان
کے عالقے میں رہتا تھا۔
زہیر بہت حوصلہ مند ،صائب رائے ،اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے واال شخص
تھا۔
جاہلی دور میں شاعری کا آغاز ایک خاص روایت سے ہوتا ہے جس کا آغاز محبوبہ
کے چھوڑے ہوئے کھنڈرات سے ہوتا ہے لیکن یہاں شاعر معلّقے کا آغاز اپنی مطلّقہ
بیوی ا ُ ّم اوفی کے چھوڑے ہوئے کھنڈرات سے کرتا ہے جب وہ اس کے ساتھ رہتی
تھی۔ معلّقے کے آخر میں وہ انسان دوستی کے جذبے کے تحت زندگی کے تجربوں
ہے۔ لگتا کرنے باتیں کی حکمت کردہ اخذ سے
زہیر کے معلقے کا موضوع قبیلہ عبس اور زیبان کے درمیان صلح کروانے والے دو
سرداروں حارث بن عوف اور ہرم بن سنان کی مدح ہے۔
نمونہ کالم:
مصنف زہیر کی خصوصیات کالم سے بحث کرتے ہوئے کہتا ہے کہ دور جاہلیت کے
دوسرے شعراء کے ہاں ان کا شدیدفقدان ہے۔ اس کا کالم گھٹیا اور فحش مضامین سے
پاک ہے۔ حکمت اور دانائی کی باتیں بعض دوسرے شعرا ء نے بھی کی ہیں لیکن
زندگی کے جن حقائق کا اظہار اس نے کیا ہے وہ دوسرے شعراء کے ہاں اس انداز
سے نہیں ملتا۔
چھٹی صدی عیسوی کے آخر میں پیدا ہوا اور معاویہ کی خالفت کے آغاز میں فوت ہو
۔ بلحاظ عمر یہ معلقات کے تمام شعراء میں سب سے چھوٹا تھا۔ اس کا تعلق بنو عامر
قبیلہ سے تھا۔مصنف نے غیر ضروری تفصیل میں جائے بغیر اس کے کالم کی
خصوصیات اور اس کے معلقے کے موضوعات کا ذکر کیا ہے۔
لبید کی شاعری کا آغاز نوعمری سے ہی ہو گیا تھا اس نے قبیلہ عبس کی ایسی ہجو
کہی کہ بادشاہ ان سے بددل ہوگیا اور اس نے لبید کے قبیلہ بنو عامر کو اپنے قریب
کر لیا اور یوں وہ بطور شاعر ہر طرف مشہور ہوگیا۔
نمونہ کالم:
مصنف عمر و بن کلثوم کے معلقے کے حوالے سے ایک روایت بیان کرتا ہے جسے
یہاں مختصرا ً بیان کیا جاتا ہے۔جنگ بسوس کی وجہ سے تغلب اور بکر بن وائل کے
قبائل میں چپقلشیں جاری رہتی تھیں ایک موضوع پر حیرہ کے بادشاہ عمر و بن ہند
کی موجودگی میں مخاصمت کی صورت پیدا ہو گئی اس موقع پر قبیلہ بنی بکر کے
شاعر حارث بن حلزہ نے اپنا مشہور قصیدہ پڑھا تو بادشاہ اس قبیلے کی طرف ہو گیا
اس پر عمرو بن کلثوم بادشاہ سے ناراض ہو کر چال گیا۔ بادشاہ نے عمرو بن کلثوم کو
ذلیل کرنے کا منصوبہ بنایا اس نے اپنے مصاحبوں سے پوچھا کہ تم کسی ایسے
عرب کو جانتے ہو جس کی ماں کو میری ماں کی خدمت کرنے میں عار محسوس ہو ۔
انہوں نے کہا عمر و بن کلثوم کی ماں۔ اس پر بادشاہ نے عمر و بن کلثوم کو مع اس
کی ماں کے بال بھیجا تا کہ اس کی ماں بادشاہ کی ماں کے ساتھ کچھ وقت گزارے۔
عمر و بن کلثوم اپنی ماں اور تغلب کی ایک جماعت سمیت آیا جب اس کی ماں خیمے
لیلی
میں آئی تو بادشاہ کی ماں نے اشارے سے خدام کو باہر بھیج دیا ۔ اور اس کی ماں ٰ
سے کہا کہ ذرا اُٹھ کر مجھے وہ طبق تو ال دو اس پر ٰ
لیلی نے کہا جن کو ضرور ت
لیلی پکار اُٹھی
ہووہ یہ کام خودہی کر لے جب بادشاہ کی ماں نے اصرار کیا تو اس پر ٰ
ہائے یہ ذلت ! ہائے کہاں ہو تغلب والو! دوسرے خیمے سے عمروبن کلثوم نے جب
اپنی ماں کا یہ واویال سنا تو اٹھا اور خیمے میں آویزاں بادشاہ کی تلوار ہاتھ میں لے
کر عمر و بن ہند کی گردن اُڑادی اور پھر تغلبیوں کو حکم دیا کہ وہ سب کچھ لوٹ لیں
اور واپس چلیں۔
مصنف بتاتا ہے کہ اس واقعے کے بعد عمروبن کلثوم اپنے عالقے میں واپس آگیا اور
آتے ہی اس نے اپنا وہ معلقہ کہا جس کا مطلع ہے
" اے ساقی ! اپنا پیالہ شراب کالے کر اٹھ اور صبح سویرے
ہی ہمیں پالدے اور اندریں کی بہترین شراب کو بچا کر مت
رکھ"۔(ص )۶۸،۱۰
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس معلقے کا آغاز ذکر محبوب کی بجائے ساغرو ساقی
کے ذکر سے ہوتا ہے اس کے بعد چند شعر محبوبہ کے ُحسن اور جدائی کے دکھ سے
متعلق ہیں ۔ پھر وہ براہ راست بادشاہ حیرہ سے مخاطب ہو کر اپنی قوم کی معرکہ
آرائیوں کا ذکر کر تا ہے۔عمر و بن کلثوم نے جب یہ قصیدہ عکاظ کے میلے میں سنایا
تو اسے اس سال کی بہترین نظم قرار دیاگیا۔
نمونہ کالم:
مصنف اس قصیدے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس نے ایک ہی معلقہ کہا ہے
لیکن اس کی وجہ سے وہ بہت مشہور ہو گیا۔ اس کے الفاظ میں حسن ،عبارت میں
موزونیت ،جذبہ فخر کی شدت اور مقصد کی بلندی ہے اس کی شاعری سے اس دور
کے عرب معاشرے کے متعلق بہت قیمتی معلومات ملتی ہیں۔
اس کے معلقے میں بہت سی باتیں ایسی ہیں جو اس کے ساتھ خاص ہیں اس معلقے
میں امرؤ القیس ،طرفہ یالبید جیسے فنی محاسن نہیں ملتے لیکن اس کی زبان دوسرے
معلقات کے مقابلے میں آسان ہے اور اس میں قدرتی روانی ہے۔
قبیلہ بنو بکر کا شاعر تھا ۔عمر و بن کلثوم کی طر ح صرف ایک قصیدے کی بدولت
شہرت دوام حاصل کی۔مصنف اس معلقے کا سیاق و سباق اس طرح بیان کرتا ہے "
بنو بکر اور بنو تغلب میں ایک عرصے سے دشمنی چلی آتی تھی جس کی وجہ سے
ان قبیلوں کے درمیان لڑائی کاوہ طویل سلسلہ جاری تھا جسے حرب البسوس کہتے
ہیں۔ حیرہ کے بادشاہ منذر نے ان دونوں میں صلح کروائی اور ہر قبیلے سے سوسو
غالم بطور ضمانت لیے کہ اگر کسی قبیلے نے زیادتی کی تو اس کے غالم دوسرے
قبیلے کو دے دیے جائیں گے۔
یقیناًہمارے بھائی بنو تغلب ہم پر زیادتی کرتے ہیں اور ان کی بات میں ایک طرح کا
اصرار بے جا ہے۔ وہ ہم میں سے بے قصور کو قصور وار سے مال دیتے ہیں اور
بے گنا ہ کو اس کی بے گناہی کچھ فائدہ نہیں دیتی ۔ اے ہمارے بارے میں عمر وبن
ہندکے ہاں باتیں بنانے اور لگائی بجھائی کرنے والے ! کیا تمہاری ان باتوں کا کوئی
اثر باقی رہنے واال ہے؟ بادشاہ کو اکسانے کے باوجود ہمیں دبنے واال خیال نہ کر
کیونکہ اس سے پہلے بھی ہمارے بارے میں دشمن چغلیاں کھا چکے ہیں۔ (ص ،۱۶
ایضا)
اس کا تعلق بنو عبس سے تھا ۔عنترہ کی ماں ایک حبشی کنیز تھی ۔ عربوں کا قاعدہ
تھا کہ لونڈی کے پیٹ سے پیدا ہونے والی اوالد کو غالم بنا لیتے تھے جب تک وہ
اپنے کارہائے نمایاں سے اپنی نجابت کا کوئی ثبوت مہیا نہ کردے اسے باپ کا نام نہ
ملتا تھا ۔عنترہ بھی انہی حاالت سے دو چار تھا۔اس حوالے سے مصنف ایک واقعہ
بیان کرتا ہے۔
اسکے بعد بھی کنیز ک زادگی کی وجہ سے عنترہ کی زندگی مشکالت سے دوچار
رہی۔ نوجوانی میں اس وجہ سے محبت میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن وہ بہت
باہمت انسان تھا۔
عنترہ کا معلقہ بحر کامل میں ایک میمیہ ہے اشعار کی تعداد ۹۶سے ۱۶تک ہے
آغاز تشیب سے ہوتا ہے۔
نمونہ کالم:
کیاشاعروں نے بخیہ گری کے لیے کوئی جگہ چھوڑ ی بھی ہے اور کیا تو نے
ہے۔ پہچانا بعد کے غور بہت گھر کا محبوبہ
جواء کے مقام پر اے عبلہ کی حویلی ! تو کچھ تو بول تو ہر صبح خوش و خرم رہ
اور تم پر سالمتی سایہ فگن ہو۔ اور جب مجھ پر ظلم کیا جائے تو پھر جواب میں برا
ظلم بہت برا اور اندرائن کی طرح کڑوا ہو تاہے۔(ص )۱۱،۹۰
اس کا نام ابو امامہ زیاد بن معاویہ تھا وہ نابغہ اس لیے کہالیا کہ اچھی خاصی عمر کا
ہو جانے کے باوجود کوئی شعر نہ کہہ سکا تھا ۔ ادھیڑ عمر میں اس پر آمد ہونے لگی
تو شعر اس کی زبان سے چشمے کی طرح پھوٹ نکلے۔ اس مناسبت سے اس کا نام
گیا۔ واال)پڑ نکلنے (پھوٹ نابغہ
نمونہ کالم:
’’انسان اس امید میں رہتا ہے کہ زندہ رہے گا لیکن لمبی زندگی بعض دفعہ اس کے
لیے مضرثابت ہوتی ہے۔اس کی ساری شگفتگی اور تروتازگی جاتی رہتی ہے اور
زندگی کی حالوت کے بعد اس کی کڑو ا ہٹ باقی رہ جاتی ہے۔زمانہ اس سے منہ
پھیر لیتا ہے یہاں تک کہ کوئی چیز ایسی نہیں رہتی جسے دیکھ کر اس کے دل کی
کلی کھل اٹھے‘‘۔(ص)۹۱
لوگوں کی نظروں میں جس چیز نے اس کا رتبہ کم دیا وہ یہ کہ اپنے کالم میں اپنی
ضرورتوں کا اظہار کر کے مالی معاونت کا طلب گار ہوا۔ اس سے پہلے شعراء
صرف مدح کرتے تھے لیکن سوال نہیں کرتے تھے ۔ اس کے اندر کا یہ اللچ کبھی
ختم نہ ہوا۔ اس کی اخیر عمر کا واقعہ ہے۔
اعشی کے اشعار کی تاثیر پورے عرب میں مشہور تھی ۔ ایک شخص محلّق کے
ٰ
حوالے سے اس کی شاعری کا قصہ بہت مشہورہے۔ جن کی آٹھ کنواری بیٹیاں تھیں
اور غربت کی وجہ سے رشتہ نہیں ہوتا تھا۔ اس نے عکاظ کے میلے میں محلّق کی
اس انداز سے اپنی شاعری میں تعریف کی تو اس کی ساری بیٹیوں کی شادی ایک
سال کے اندر ہوگئی۔
نمونہ کالم :
جاہلی روایت کے مطابق وہ آغاز محبوبہ کی تعریف اور بے توجہی سے کرتا ہے۔ہر
یرہ کو اب رخصت کرو کہ قافلہ اب کوچ کرنیواال ہے لیکن ذر ا سوچو جو تو کیا تم
اسے وداع کر بھی سکو گے؟ (ص )۹۹
آنحضرت کی مدح میں اس کی نظم کے چند اشعار میں نے قسم کھائی کہ اس اونٹنی
کی تھک ن پر آزردہ نہیں ہوں گا اور نہ اس کے پیروں کی تکلیف کا خیال کروں گا جب
تک وہ محمد ﷺتک نہ پہنچ جائے (ص )۹۱
تاب ّ
ط شرا (م ۰۳۱ء)
ّ
تابط شرا عرف تھا مفضلیات میں قدیم شاعری کا انتخاب نام ثابت بن جابر تھا لیکن
تابط شرا کے قصیدے سے شروع ہو تا ہے۔
نمونہ کالم:
شنفری:
ٰ
شنفری اس کے
ٰ یہ تابط شرا کا بھانجا تھا۔ نام ثابت بن اوس االزدی تھا اس کا عرف
موٹے ہونٹوں کی وجہ سے پڑا ۔ وہ زندگی بھر انتہائی مشکالت سے دوچار رہا۔ اس
کی شاعری کا بہترین نمونہ اس کا وہ قصیدہ ہے جو ال میتہ العرب کے نام سے
مشہور ہے جن کا یورپ کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکاہے۔
نمونہ کالم:
وہ کہتا ہے کہ انسان پر جیسے بھی حاالت گزریں خدا کی زمین اس کے لیے تنگ
نہیں۔اس زمین میں ایک باعزت انسان کے لیے پناہ کی کمی نہیں اور جس کو خدشہ ہو
کہ لو گ اسے پسند نہیں کرتے وہ اس دنیا میں الگ تھلگ رہ سکتا ہے‘‘۔(ص،۱۱
)۱۴ ،۱۳
جاہلیت کے آخری دور میں عرب قوم تہذیب سے دور تھی ظہور اسالم سے ان کی
زندگی کے تمام پہلوؤں میں یکلخت انقالب آگیا۔ اسالم کی ہمہ گیر یت کے اثرات
عربی ادب پر بھی مرتب ہوئے۔سب سے گہرا اثر قرآن پاک کی وجہ سے ہوا۔ یہ اثر
دو طرح سے مرتب ہوا۔جاہلی دور کے جو شعراء اسالم لے آئے وہ قرآن کی فصاحت
سے اس قدر مرعوب ہوئے کہ شعرگوئی ترک کر دی یا کم کردی دوسرے شعراء نے
رسول ﷺ کی مدح اورا سالم پھیالنے کی غرض سے شعر کہنے شروع کیے۔
کرام کی
ؓ اب شاعری کے موضوعات بھی بدل گئے تھے۔ خلفاء راشد ین اور صحابہ
توجہ قرآنی آیات کی طرف زیادہ مبذول ہو گئی تھی ۔ حضورﷺ کے وصال کے بعد
قرآن کی تدوین اور کتابت کا سلسلہ شروع کیا گیا یہ کام زیدبن ثابت کے سپر د کیا گیا۔
فتوحات کا سلسلہ وسیع ہوا تو تالوت قرآن کے حوالے سے لہجوں کا اختالف سامنے
کرام کی ایک کمیٹی
ؓ ؓ
عثمان نے صحابہ آیا اس صورت حال کے پیش نظر حضر ت
ترتیب دی جنہوں نے تمام لہجوں کو چھوڑ کر قریش کی زبان اور لہجہ باقی رکھا
کیونکہ قرآن اسی میں نازل ہواتھا۔ گردونواح تمام عرب ممالک میں ان مستند مصحف
کی نقول بھیجی گئیں اور ایک مد ینے میں رکھی گئی۔
اس کے بعد احادیث کی تدوین کی طرف توجہ دی گئی قرآن کے بعد یہ شریعت کا
دوسراماخذہے۔ حضرت عمر اور دوسرے صحابہ حدیث کی روایت کو اس لیے اچھا
نہیں سمجھتے تھے کہ لوگ کہیں قرآن کو چھوڑ کر حدیث کی طرف زیادہ مصروف
نہ ہو جائیں۔ بعض لوگ اپنی خواہش کے پیچھے آنحضر ت ﷺ سے من گھڑت باتیں
روایت کرنے لگے اس طرح حدیث کا بے بہا ذخیرہ جمع ہو گیا۔
احادیث کی بدولت عربی نثر میں فصیح و بلیغ اور خوبصورت انداز بیان سامنے
آیا۔صدر اسالم کے مختصر تعار ف کے بعد مخضرم شعراء کا تعار ف پیش نظر ہے۔
کعب بن زبیر:
کعب کی شاعری کا یہ عمدہ نمونہ ہے۔ بحر بسیط میں ۶۸اشعار کا ایک المیہ قصیدہ
ہے بلحاظ اسلوب یہ جاہلی شاعری کا کامل نمونہ ہے ۔ آغاز محبوبہ کی جدائی کے
حوالے سے تشبیب کے اشعار سے ہوتا ہے آگے حضور ﷺ کے عفودرگزر کی مدح
ہے۔ تا کر
میرے ہر دوست نے جس سے مجھے کچھ امید تھی مجھ سے کہہ دیا کہ میرے
سکتا۔ کر نہیں توجہ طرف تمہاری میں رہنا نہ پر بھروسے
رسول خداﷺ ایسی تلوار ہیں جس کی چمک سے روشنی حاصل کی جاتی ہے اللہ کی
تلواروں میں ایک تیز اوربے نیام تلوار۔ (ص )۸۹ ،۸۱
خنساء (م ۱۱۲ء):
تماضر بنت عمر و نام تھا ۔ مضر کے قبیلہ بنو سلیم سے تھیں۔ عربی ادب میں ان سے
بڑی شاعرہ نہیں گزری ۔ مرثیہ ان کا خاص موضوع تھا۔ شاعری کی کچھ رمق ان
کے اندر موجود تھی لیکن یکے بعد دیگرے دونوں بھائیوں کی ناگہانی اموات نے ان
کے اندر شاعری کا بند باب کھول دیا۔ ظہور اسالم کے بعد اسالم قبول کر کے
صحابیت کا شرف حاصل کیا آنحضرت ﷺ کو خنساء کی شاعری بہت پسند تھی۔راقمہ
نے خنساء کے حوالے سے عربی ادب میں مطالعے میں ایک جاہلی مرثیہ پڑھ کرکے
عنوان سے تفصیلی جائزہ لیا ہے۔
حسان بن ؓ
ثابت (م :)۱۷۲
ابوالولید حسان بن ؓ
ثابت دربار رسالت کے شاعر تھے۔ مخضرم شعراء ،میں انہیں بلند
ترین مقام حاصل تھا۔ انہوں نے تقریبا ً ایک سو بیس برس عمر پائی جو آدھی زمانہ
جاہلیت اورآدھی اسالم میں بسر ہوئی ۔ وہ رسول خدا کی مدد تلوار سے تو نہیں کر
سکتے تھے لیکن اپنے اشعار سے آپﷺ کی تائید و حمایت کی۔
ہجو اگر سچی ہو تو بھی تکلیف دیتی ہے لیکن اگر بالکل ہی من گھڑت ہو تو تکلیف
انتہا کو پہنچ جاتی ہے ۔ اسالم کے بعد جب اہل قریش حضورﷺ کی ہجو کرتے تو آپ
کو بہت تکلیف ہوتی۔
نمونہ کالم:
ؓ
حسان کے یہ شعر بہت مشہور ہیں۔ حضور کی مدح میں حضرت
ؐ
ؓ
حسان بھی فکر کالم شیریں بڑے سے بڑا مسئلہ حل کر دیتا ہے اسی لیے حضرت
معاش سے آزاد ہو گئے ۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں اور بعد میں بھی ان کی تمام
حضور نے انہیں ام المومنین ماریہ قبطیہ
ؐ ضرورتیں بیت المال سے پوری ہوتی رہیں۔
کی بہن سیرین عنایت کی۔ چنانچہ سیرین سے حسان بن ؓ
ثابت کا بیٹا عبدالرحمان پیدا
ہوا۔ (ص )۱۰۱
حطئیہ (م :)۱۷۸
وہ بنی عبس میں پیدا تو ضرور ہوا لیکن اس کے باپ اور حسب نسب کا کچھ پتہ نہ
تھا۔ وہ خاندانی شرف سے محروم رہا۔ وہ ایک دھتکارا ہو ا شخص تھا ۔مصنف
اصمعی کے حوالے سے بتاتا ہے۔
وہ کافی بد اخالق ،کمینہ صفت ،بے عقیدہ ،اچھی صفات سے عاری ،بدصورت ،
کوتاہ قد ،پھٹے کپڑوں میں پھرنے واال۔ اس کی بے شرمی اس حد تک پہنچی کہ اس
اورحتی کہ اپنی بھی ہجوکہہ ڈالی۔ (ص )۱۰۶
ٰ نے اپنی ماں ،بیوی ،بیٹوں
اسالم النے کے بعد مرتد ہو گیا ور اہل ارتداد سے جامال۔ پھر معافی مانگ لی لیکن وہ
اپنے عقیدے میں مترلزل ہی رہا۔
اس نے بنی انف الناقہ کی مدح میں جو شعر کہا اس سے اب وہ فخر کے ساتھ سر اٹھا
کر چلنے لگے۔یہ لوگ بنی انف الناقہ تو ناک ہیں اور دوسرے لوگ دُم کی جگہ ہیں
بھال دُم کو کوئی ناک کے برابر سمجھ سکتا ہے۔ (ص)۱۰۴
ظہور اسالم کے بعد عموما ً لوگوں کی توجہ شاعری سے ہٹ گئی تھی کیونکہ قرآن
پاک میں بھی اس حوالے سے حوصلہ افزاء تاثرات نہ تھے اور پھر فتوحات کا سلسلہ
شروع ہو گیا۔ قرآن کی فصاحت و بالغت نے لوگوں کے دلوں کو مسحور کر دیا۔
فتوحات کے نتیجے میں مال غنیمت سے خوش حالی کا دور شروع ہو گیا۔ اس طرح
عربی شاعری جو عرصے تک پس منظر میں رہی دوبارہ سامنے آگئی اور اسلوب
کے لحاظ سے جاہلی شاعری سے زیادہ مختلف نہ تھی۔ موضوعات بدل گئے غزل
اور مناسباتی شاعری ہونے لگی۔ اس دور کے اہم شعراء میں جمیل بن معمر،عمر بن
ربیعہ ،اخطل ،فرزدق اور جریر تھے۔
جمیل جو اپنی محبوبہ کے حوالے سے جمیل بثنیہ کے نام سے مشہور ہوا اس کی
غزل کا موضوع پاکیزہ محبت کے جذبات تھے۔ جو افالطونی محبت کہالتی تھی ۔
جنسیت سے دور روح اور شخصیت کی گہر ی وابستگی ۔ قیس بن الملوح اس کی
لیلی یہ بھی اسی دور کے حقیقی کردار تھے عمر بن ابی ربیعہ (۹۱۰ء) نے
محبوبہ ٰ
غزل کے موضوع پر نہایت لطیف شاعری کی اس کی شاعری کو لوگوں نے بہت
گایا۔ اس کی شاعری کی ناپسند یدگی کی وجہ مصنف بیان کرتا ہے۔
قبیلہ قریش کافر د ہونے کی وجہ سے لوگ اس سے صرف نظر کرتے رہے جب وہ
باز نہ آیا تو خلیفہ عمر بن عبدالعزیز نے اسے جالوطن کر دیا۔ پھر وہ توبہ کر کے
واپس آیا۔ وہ معامالت حسن و عشق کا ذکر کر تا تھا لیکن غلط کاموں میں ملوث نہیں
ہوتا تھا۔
نمونہ کالم:
وہ اپنی محبوبہ ہند کے بارے میں ایک نظم میں کہتا ہے۔
اخطل (م ۷۶۲ء):
نام غیاث بن غوث اخطل ،بنو تغلب کے نصرانی خاندان سے تھا شراب کے موضوع
اس کے شعروں کی گہرائی کو زمانہ اسالم کا کوئی شاعر نہ پہنچ سکا۔ اخطل کی
اعلی نمونہ پیش کر تے تھے ۔
ٰ خاص بات یہ تھی کہ اس کے مدحیہ قصائد فن کا بہت
اس نے لمبی لمبی نظمیں کہیں لیکن معیار سے گری ہوئی بات نہیں کی وہ مدحیہ
قصائد پر سال سال بھر غور کرتا تھا اگر نوے شعر ہو جاتے تو کاٹ چھانٹ کر کے
صرف تیس اشعار باقی رہنے دیتا۔(ص )۱۱۶،۱۱۹
نمونہ کالم:
عبدالملک بن مروان کی مدح میں قصیدے کا یہ شعر دیکھیں ’’میری جان امیر
المومنین پر فدا ہو ۔ جب ایک برا اور سخت دن آنکھیں دکھانے لگے وہ کسی جنگ
میں شامل ہو تو اچھی قسمت اس کے ساتھ ہوتی ہے۔ اللہ کا خلیفہ ہے جس کے وسیلے
سے بارش مانگی جاتی ہے۔(ص )۱۱۱
نمونہ کالم:
ؓ
الحسین کی تعریف میں یہ اشعار مدح میں جو سب سے عمدہ چیز کہی وہ امام علی بن
ہیں۔یہ وہ شخص ہے کہ مکہ وادی اسکے قدم پہچانتی ہے اور بیت اللہ اور حدود حرم
کے باہر کا عالقہ سب اس سے آشنا ہیں۔وہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کی محبت دین
ہے جن سے بغض رکھنا کفر ہے اور جن کا قرب نجات اور پناہ کی جگہ ہے۔(ص
)۱۳۱
جریر (م ۷۹۸ء)
جریر کا تعلق بنو تمیم کی شاخ بنو کلیب سے تھا۔ صحرائی ماحول میں نشوونما پائی۔
ذاتی زندگی میں جریر دیندار اور پاکباز انسان تھا لیکن جب وہ ہجو کہنے پہ آتا تو اس
میں فحش گوئی سے بھی پرہیز نہ کر تا تھا۔ اس کے باوجود وہ نماز ،دعا اور تسبیح
کا پابند تھا۔
نمونہ کالم:
خلیفہ عبدالملک بن مردان کی مدح میں یہ قصیدہ کیا آپ لوگ ان سب لوگوں سے بہتر
نہیں ہو جو کبھی سواریوں پر بیٹھے اور تمہاری ہتھیلیاں کل عالم سے بڑھ کر سخی
نہیں ہیں۔ (ص )۱۴۱
اعلی
ٰ اس دور میں نثر لکھنے کا رواج زیادہ نہیں ہوا تھا شاعری کے بعد ادب کے
نمونے خطابت میں ملتے ہیں ۔دعوت اسالم کے لیے خطابت کی ضرورت تھی۔اس
دور میں سب سے بلیغ خطیب حضرت محمد ﷺ تھے ان کے عالوہ حضرت
اعلی نمونے پیش کیے ۔ اسی
ٰ ابوبکر،حضر ت عمر ،حضرت علی نے خطابت کے
زمانے میں سحبان بن وائل زیاد بن ابیہ اورحجاج بن یوسف کے خطبے مشہور ہوئے
۔آپ کے خط بات کی تعداد زیادہ ہونی چاہیے تھی تاہم وہ پوری طرح محفوظ اور مدون
ؐ
آپ کی گفتگو جامع اور مختصر ہوتی تھی۔ چند لفظوں میں پورا
نہ کیے جا سکے ؐ
مضمون ادا ہو جاتا تھا ۔
حضور کے وصال
ؐ ’’حضرت ابوبکر فصیح و بلیغ تھے ۔
کے بعد خالفت کے مسئلے پر صحابہ کرام کے درمیان
آپ نے اس موقع پر یادگار تقریر
اختالف پیدا ہو گیا تو ؓ
کی۔’’لوگو ہم مہاجرین ہیں ہم سب سے پہلے اسالم الئے اور
سب سے معزز نسب والے ہیں۔ ان میں سب سے خوش شکل
ہیں اور آنحضرت ؐکے ساتھ سب سے قریبی تعلق والے ہیں ۔
پس تم اپنے مہاجر بھائیوں سے اُس بات پر حسد نہ کرو جو
اللہ نے انہیں مرحمت فرمائی ہے‘‘۔ (ص)۱۶۱
الخطاب (م :)۱۲۲
ؓ عمربن
آپ کے خطبوں میں وہ خطبہ اہم ہے جو خالفت سنبھالنے کے وقت دیا تھا۔
طالب (م ۱۱۶ء):
ؓ علی بن ابی
آپ کا کالم
’’انہیں مسلم خطیبوں کا امام تسلیم کیا جاتا ہے ؓ
تین صورتوں میں ملتا ہے ۔ 6۔ خطبات 4۔ احکام ،خطوط
،رسائل 1۔ وعظ و حکمت کی باتیں ان سب کو آپ کی اوالد
میں سے ایک شاعر الشریف الرضی نے ایک کتاب میں
جمع کردیا جس کا نام " نہج البالغہ" رکھا یہ صحیح ہے کہ
علی کا
اس مجموعے میں بہت سا کالم ایسا ہے جو حضرت ؓ
نہیں سمجھا جاتا اور اہل نظر کا خیال ہے کہ یہ باہرسے ال
کر اس میں داخل کیا گیا ہے ۔ تاہم کتاب کا خاصاحصہ حضر
علی کے خطبات رسائل اور مواعظ پر مشتمل ہے اور یہ
ت ؓ
آسانی سے پہچانا جا سکتا ہے‘‘۔(ص)۱۶۴
زمانہ جاہلیت میں پیدا ہوا ا ور جب اسالم نے ظہور کیا تو مسلمان ہو گیا ۔ وہ ایک آتش
بیاں خطیب تھا۔ امیر معاویہ نے اس کی کافی عزت افزائی کی۔ اس کے خطبے کا
نمونہ
زیاد بہت حاضر دماغ اور فصیح اللسان تھا۔ وہ بنو امیہ کی حکومت کا سب سے طاقت
ہے۔ یہ کااقتباس خطبے مشہور کے اس تھا ستون ور
"تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جس کی آنکھ کو دنیانے پھیر نہ دیا ہو اور جس کے
کان خواہشات نے بند نہ کردیے ہوں اور جس نے باقی رہنے والی زندگی پر فانی
زندگی کوترجیح نہ دی ہو۔(ص)۱۱۰
وہ ایک فصیح و بلیغ مقررتھا۔ بطور گورنر عراق اس کے اولین خطبے کا نمونہ
دیکھیں۔
’’اے اہل کوفہ میں کچھ سروں کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ پک
گئے ہیں اور ان کے کاٹنے کا وقت آگیا ہے اور یہ کام میں
کرنے واال ہوں ۔ اے اہل عراق مجھے کسی حربے سے
چونکا یا نہیں جا سکتا اور نہ انجیر کی طرح مجھے
کچوکادے کے پر کھا جا سکتا ہے‘‘۔(ص)۱۱۳
عربی زبان میں انشاپردازی کے ارتقا میں عبدلحمید الکاتب(م ۹۴۸ء) نے مزید
اصالحات کیں اور اسے شاعرانہ اسالیب بیان سے بے حد موثر بنا دیا ۔ وہ اہل قلم اور
انشاپرداز لوگو ں کو نصیحت کر تے ہوئے کہتا ہے۔
مختصر یہ کہ عربی ادب کے لیے یہ دور ہر پہلو سے انقالبی اور ارتقا ء پذیر ثابت
ہوا۔
عباسی دور:
یہ اسالم کا سنہری دور تھا ۔ اس دور میں اسالمی فنون کوبہت فروغ حاصل ہوا۔
عباسیوں نے اہل فارس کی مدد سے امویوں سے حکومت چھینی تھی اس لیے ان کی
خالفت کا مزاج ایرانی رہا اور بغداد ان کا پایۂ تخت بنا اسی دور میں شعو بیت کی
آواز بلند ہوئی جس کا مقصد یہ ثابت کر نا تھا کہ عرب قوم کسی لحاظ سے عجمیوں
سے بہتر نہیں ہے۔
عباسی خالفت میں ایرانی تہذیب و ثقافت کے اثرات کی وجہ سے معقوالت کے
دروازے بھی کھل گئے۔یونان سے فکرو فلسفہ ،ایران سے مذہبی عقائد ،ادب و
حکایات ،ہندوستان سے ٰالہیات ،حساب اور علم نجوم نے اسالمی ثقافت میں رواج پایا۔
اب لوگوں کو فکری آزادی میسر آگئی۔ مسلمانوں کے اندر متعدد فرقے وجود میں آ
مرجیہ۔ اور شیعہ، اشعریہ، جبریہ، ،قدریہ، معتزلہ گئے
عباسی دور میں عربی نثر:
اس دور کے اہم نثر نگاروں میں ابن لمقفع (م ۹۶۸ء) نسالفارسی تھا اور عرب میں
تھا۔ مجوسی والد کا اس پائی۔ پرورش
اولی سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کی
ٰ ’’ ابن المقفع عربی زبان کے نثر نگاروں کے طبقہ
کتاب " کلیلہ و دمنہ‘‘ جس کے متعلق کہاجاتا ہے کہ اس نے اسے ایک سنہری دانش
وربید پائے کی کہانیوں کی کتاب کے فارسی ترجمے سے عربی میں منتقل کیا تھا
اعلی درجے کی ادبی کال سیک کا درجہ رکھتی ہے‘‘۔(ص )۱۹۱
ٰ عربی میں ایک
جاحظ (م۸۱۸ء):
اعلی پایے کا نثر نگار ،متعدد کتابوں کا مصنف ،مذہبی اور سیاسی مباحث اور
ٰ
معتزلی ٰالہیات پر دلچسپ رسائل کا خالق بصرے میں پیدا ہوا۔ "ابوعثمان عمر واصل
نام تھا بدصورت اور افسردہ ُرو شخص تھا۔ اس کی آنکھوں کے بڑے بڑے ڈھیلے
باہر کو ابلے پڑتے تھے اسی لیے اسے جاحظ کا نام دیا گیا۔ (ص )۱۱۰ ،۱۹۸ ،۱۹۱
جاحظ کی تصانیف میں دوسو کے نام گنے جاتے ہیں۔ لیکن ان میں سے صرف تیس
بچی ہ یں۔ ۔ باقی تصانیف کا کوئی نشان نہیں ملتا ۔ اپنے ایک دوست سے شکوہ کرتے
ہوئے جاحظ کہتا ہے۔
’’ قلیب ! خدا کی قسم اگر میر ا جگر تمہاری محبت میں
زخم خوردہ نہ ہو تا اور میری روح تمہاری وجہ سے گھائل
نہ ہو تی تو میں اس قطع تعلق میں تم سے بڑھ جاتا اور
تمہارے ساتھ رشتہ توڑنے کے اس سلسلے کو بڑھاتا۔ لیکن
میں امید کر تا ہوں کہ اللہ تمہاری بے وفائی کے بدلے
مجھے صبر دے‘‘۔(ص )۱۱۶
نمونہ تحریر:
ایک شخص کو رکن الددلہ کے خالف عصیان کا رویہ اختیار کرنے کو کہتا ہے "
تمہارا خیال ہے کہ تم اطاعت کے کنارے پرہو حاالنکہ پہلے تم اطاعت کے اندر اور
اس کے وسط میں تھے۔ اگریہی بات ہے تو تم نے دونوں حالتوں جوجان لیا ہو گا اور
ان کا تجربہ کر لیا ہو گا۔ میں خدا کا واسطہ دے کر تم سے پوچھتا ہوں اور تم مجھے
سچ سچ بتاؤ کہ تم جس حالت سے پلٹے ہو اسے تم نے کیسا پایا؟ اور جس حالت میں
آگئے ہو اسے کیسا پایا؟ کیا تم پہلی حالت میں ایک گھنے سائے تلے نہیں تھے اور اب
تم پر کس چیز نے سایہ کیا ہے کیا جہنم کے دھوئیں نے جو نہ سایا مہیا کر تا ہے اور
نہ آگ سے بچاتا ہے۔ (ص )۱۱۹،۱۱۱
اس نے عربی نثر میں سجع بندی اور رعایت لفظی کو فروغ دیا اس کو انشا پر دازی
میں عبدالحمید الکاتب کا ثانی کہا جاتا ہے ۔ اس نے ادباء کی بہت حو صلہ افزائی کی
اور ادب کی شمع کو روشن رکھا۔
نثر کا نمونہ:
انشا پرداز ،شاعر عالم لغت ،ادیب ،سیاح متعدد رسائل لکھے جو بہت مشہور ہیں۔
نمونہ نثر:
وہ اپنے ایک شاگر د کو مختصر مکتوب میں لکھتا ہے ۔ " اللہ تمہیں عزت دے اگر
تمہارا خیال ہے کہ ہم مالقات کے قابل نہیں ہیں توہم تو مالقات کے لیے خواہاں ہیں
اور اگر تم سمجھتے ہو کہ تم نے ہمارے پاس جو کچھ تھا وہ سب لے لیا چنانچہ ہمارا
حق تم پر سے ساقط ہو گیا لیکن تمہارا حق ہم پر باقی رہا توبات یہ ہے کہ ایک صحت
مند آدمی اپنی بیماری سے شفا پا کر اور دوائی سے بے نیاز ہو کر بھی طبیب سے
ملنے چال جا یا کر تاہے۔(ص )۱۸۱ ،۱۸۰
عباسی دور میں عربی نثر میں ایک نئی صنف " مقامہ" ایجاد کی۔ اس میں دو ادباء کا
نام بطور خاص ہے۔
یہ صنف حکایت یا ڈرامائی واقعہ ہو تاہے جس میں ایک کردار اپنے وقت کی ادبی ،
معاشرتی اور اخالقی صورتحال پر لوگوں کے سامنے ادبی زبان میں اظہار خیال کر
تا ہے جو خوبصورت ،مسجع اور موزوں ہو تی ہے ۔ ہمذانی مقامہ کا موجد ہے اس
اعلی درجے کے ہیں۔ (ص)۱۸۱
ٰ کے مقامات ادب اور فن کے اعتبار سے بہت
حریری ( م ۶۶۹۹ء)
اس کے مقامات بھی کافی مقبول اور متداول ہیں اور عربی ادب کے نصاب کی کتابوں
میں شامل ہیں۔ لیکن ہمذ انی کے مقابلے میں دوسرے درجے کی چیزہیں بعد میں متعدد
لوگو ں نے کوشش کی لیکن بات نہ بن سکی۔ (ص )۱۸۱
اس نے اموی اور عباسی دونوں حکومتوں کا زمانہ پایا۔ بشار نابینا پیدا ہو ا تھا اس
لیے اس دنیا میں کچھ نہ دیکھ سکا لیکن اپنے اشعار میں وہ بعض مناظر کی ایسی
تشبیہہ الیا جو آنکھوں والوں سے نہ بن پڑی۔
ابوالعتاہیہ حجاز کے ایک گاؤں میں پیدا ہوا اور کوفہ میں پروان چڑھا۔ اپنے وقت کا
سب سے زیادہ موزوں طبع اور پرگو شاعر تھا۔
نمونہ کالم:
ہم سب غافل ہیں اور موت ہمارے درمیان چلتی پھرتی ہے۔اے کم نصیب! اگر تجھے
تو حہ کرنا ہی ہے تو اپنے آپ کا کرکہ چاہے تمہیں عمر نو ح بھی عطا ہو جائے ایک
دن پھر بھی مر جانا ہے۔(ص )۱۱۱
ابو نواس اہواز کے ایک گاؤں میں پیدا ہوا وہاں سے یہ بصرہ آگیا اور یہیں پروان
چڑھا ۔ پھر بغدادچال گیا اور آخر وقت تک وہیں رہا۔مذکورہ شاعر کے حوالے سے
’’عربی ادب میں مطالعے" میں بعنوان " ابو نواس" کے تحت راقمہ نے تفصیالً جائزہ
لیا ہے۔
الرومی ( م ۸۲۱ء):
ابن ُّ
نام ابوالحسن علی بن العباس اور کنیت ابن الرومی بغداد میں پیدا ہوا اور وہیں پال بڑھا
او رعلم و ادب میں ترقی کی۔ اس نے اپنے ہم عصر خلفاء کے ساتھ کوئی زیادہ تعلق
قائم نہ کیا ۔ اس کی تو ہم پرستی کے قصے بہت مشہو ر ہیں اسکی وجہ اس کی
اعصابی کمزوری بتائی جاتی ہے۔ وہ بڑا قادر الکالم اور پر گو شاعر تھا ۔
نمونہ کالم:
امیرالمومنین ابوالعباس عبداللہ جو خلیفہ معتز با للہ کا بیٹا تھا اس کی پرورش عزت
وشان کے ماحول میں ہوئی لیکن انجام بالخیر نہ ہوا۔ اس کے ماحول کا اثرشاعری پر
نمایاں ہے۔
نمونہ کالم:
ایک نظم میں شاعر اپنے دوست کے لیے اپنی وفا کا اظہارکرتا ہے۔میرے کتنے
دوست ہیں جن کے وعدوں سے میں فائدہ نہ اٹھاسکا میں نے اپنی محبت کیساتھ اس
سے وفا کی لیکن اس پر کوئی بہانہ نہ غالب آگیا ۔
نمونہ کالم:
اس نے عشقیہ شاعری بھی کی اور اس کے عالوہ قصیدے اور مرثیے لکھے۔امام
حسین کا مرثیہ ان اشعار سے شروع ہو تا ہے۔
طغرائی (م ۶۶۹۶ء):
اصفہان میں پیدا ہوا ۔ انشا ء پردازی اور شاعری میں ایسی مہارت پیدا کی کہ بے مثل
گیا۔ دیا کر قتل کر لگا الزام کا ہونے ملحد پر اس کہالیا۔
نمونہ کالم:
شام کے لیے یہ بات بڑے فخر کی تھی کہ اس نے عربوں کو ابو تمام ،بحتری،
متبنی ،ابوفراس حمدانی ابوالعالء معری کی صور ت میں شاعری کی سبقت لوٹا دی
جو اس سے پہلے ایران چلی گئی تھی۔()۱۴۴
اصل نام حبیب بن ادس کنیت ابوتمام تھی ۔ اس کا باپ شام کے عجمی نصرانیوں میں
سے تھا ۔ اسالم النے کے بعد اپنا نام اوس رکھ لیا۔ ابو تمام بے حد ذکی الحسن اور
حاضر جواب تھا۔ فی البدیہہ شعر کہنے میں ملکہ حاصل تھا اس نے بہت سے قصائد
کہے۔ قطعات اور
نمونہ کالم:
بحتری (م ۸۲۷ء):
ابو عباد ۃ الولید خالص عرب تھا اور قبیلہ طی سے تھا ۔ بحتر اس کے کسی جدا مجد
کا نام تھا اس لیے بحتری اس کالقب پڑا ۔ عربی فصاحت اس کی رگ رگ میں سما
گئی۔
نمونہ کالم:
بحتری جلب کی عورت علوہ کے عشق میں مبتال ہو گیا اس کے لیے اس نے غزل کی
شاعری کی۔
متبنی (م ۲۱۰ء)
ابو الطیب احمد بن الحسین المتبنی کو فہ میں غریب ماں باپ کے گھر پیدا ہوا ۔ وہ
شروع ہی سے اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھتا تھا۔ ابھی تو نوعمر ہی تھا کہ اس نے
لوگو ں سے اپنی خالفت کے لیے بیعت لینی شروع کردی۔ اس حرکت پر اسے گرفتار
کر کے قید خانے میں ڈال دیا بعد میں رہا کر دیا۔ جب وہ شام گیا تو پھر وہاں نبوت کا
دعوی کر دیا۔ اس کو گرفتار کر کے اس وقت تک باندھ کے رکھا گیا جب تک اس نے
ٰ
دعوی سے توبہ نہ کر لی ۔ اس طر ح متبنی کا لقب اس کے ساتھ چپک گیا۔
اس ٰ
اس کی شاعری معانی آفرینی ،حسن ادا ،جدت اسلوب ،تشبیہات و استعارت کی وجہ
سے امتیازی حیثیت رکھتی ہے۔
نمونہ کالم:
اگر تم کسی بھلے آدمی کی عزت کر و گے تو اسے اپنا لو گے اور اگر کسی رذیل
گا۔ جائے ہو سرکش وہ تو وگے کر تکریم کی آدمی
جو ذلیل ہو اس کو ذلت محسوس نہیں ہوتی جس طرح ایک مرد ے کو زخم کی تکلیف
نہیں ہوتی۔ (ص )۱۹۳ ،۱۹۱
موصل میں پیدا ہوا تین برس کا تھا تو اس کا باپ مارا گیا ۔ اپنے چچازاد بھائی امیر
سیف الدولہ کی نگرانی میں پروان چڑھا۔ اس کی شاعری کا بہترین حصہ وہ قصائد
ہیں جنہیں رومیات کا نام دیا جاتا ہے ۔
نمونہ کالم:
عباسی دور کے اس آخری بڑے شاعر کے فکر و فن کاجائزہ بعنوان " اخوان الصفا
اور دوسرے مضامین" کے تحت لیا جاچکا ہے ۔
اندلس میں شاعری اور ادب کیسے پروان چڑھا ؟ اس کے لیے اندلس کے سیاسی پس
ہے ضروری لینا جائزہ کامختصر منظر
" اموی دور میں عرب شمالی افریقہ کے ساحلی عالقوں تک پہنچ گئے ولید بن
موسی بن نصیر کو تعینات کیا۔ ۹۱۱ء میں طارق بن
ٰ عبدالملک نے شمالی افریقہ پر
زیاد نے عرب اور بر بر قبائل کی فوج کی مدد سے گو تھ قوم کو شکست دے کر
اندلس کے بہت سے عالقے پر قبضہ کر لیا۔ اندلس کے بہت سے عالقے عربوں کے
زیر تسلط آتے چلے گئے ۔ مسلمان فاتحوں نے مقامی لوگوں کو ملکی امور میں اپنے
ساتھ شامل کیا اس طرح عربوں نے ان کی بہت سی باتیں اپنا لیں ان کے اندر اہل بادیہ
والی خشونت جاتی رہی۔خوبصورت وادیوں نے ان کے تصور و خیال کو وسعت دی
۹۱۱ء سے ۹۶۱ء تک یہاں اموی والی یکے بعد دیگرے آتے رہے۔(ص )۱۸۰
اندلسی شعراء نے مختلف اصناف میں اچھے نمونے پیش کیے۔
قرطبہ میں پیدا ہوا اور وہیں پروان چڑھا۔ اندلس کے علماء اور ادباء سے فیض حاصل
کیا۔ اس کی شاعری کا موضوع وصف نگاری اور غزلیات ہے۔
نمونہ کالم:
غزل کے موضوع پر " میں نے اس جیسا گو ہر نہ دیکھا نہ سنا جو مارے حیا کے
سرخ عقیق ہو جاتا ہو‘‘۔ جب تو اس کے چہرے کے حسن و جمال پر نظر کر ے گا تو
تمہارا چہرہ اس کی چمک دمک میں کہیں گم ہو جائے گا۔ابن ہائی االندلسی ( م۸۹۳ء)
ابن ہا نی اشبیلیہ میں پیدا ہوا ۔ وہ اپنی زندگی میں کافی اوباش ،بدکردار اور ناؤنوش
کار رسیا تھا۔ قول و فعل کا ایسا سچا اورکھرا تھا کہ اسے اس کی پرواہ نہیں تھی کہ
لوگ اس کے متعلق کیا کہیں گے اس نے صنف مدح میں بے حد مبالغے سے کام لیا۔
نمونہ کالم:
’’ہم لوگ ہماری امیدیں بہت زیادہ ہیں اور عمر یں مختصر
اپنی آنکھوں کے سامنے اموات دیکھتے ہیں کاش کہ ذہن
اس سے عبرت حاصل کرتے‘‘۔ (ص )۳۰۱
ابن زیدون( م :)۶۱۷۶
قرطبہ میں پیدا ہو ا۔ بچپن ہی میں ماں باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا تھا لیکن سر پر
ستوں نے تعلیم کے لیے بہترین اساتذہ کا انتظام کر دیا۔ جلد ہی اس نے ہم سبقوں میں
ممتاز حیثیت حاصل کر لی۔ بعد میں اس کی زندگی مشکالت سے دوچار رہی۔ اس کی
شاعری اندلس کی شاعری کا بہت صحیح اور عمدہ نمونہ ہے۔
نمونہ کالم:
قرطبہ کی خالفت کے آخری برسوں میں جو ادباء شعراء موجود تھے ان میں ابن حزم
ایک ایسا عالم شاعر تھا جس کے ساتھ عرب ہسپانو ی تجدید یت کا دور شرع ہوا۔
وصل میں مرگ آرزو کے تصور کو صحیح نہیں سمجھتا بلکہ کہتا ہے کہ وصل سے
تو آتش شوق اور تیز ہوتی ہے اس ضمن میں اپنے اشعار پیش کرتا ہے۔
ابو القاسم اپنے باپ المعتمد کے بعد اشبیلیہ و قرطبہ کا فرماں روا ہوا شاعری اس کے
مزاج میں تھی۔ شاہان اندلس میں اس سے بڑا شاعر پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ وہ ایک
باہمت اور سخی حکمران تھا۔ مراکش کے حکمران یوسف بن تا شفین نے اندلس پر
حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا۔اور معتمد کو قید کر کے طنجہ لے گیا۔ جہاں سے وہ
کبھی نہ نکل سکا۔
نمونہ کالم:
وہ ماضی کی عزت و شان اور حال کی ذلت اور بے بسی کا موازنہ کرتے ہوئے کہتا
ہے۔
پرچموں کے سائے کی عزت کے بدلے فوالد کی ذلت اور بیٹریوں کا بوجھ میرے
نصیب میں آیا ۔ لوہا میرے لیے نیز ے کی انی ہو تا تھا اور باریک صیقل کی ہوئی
دھار والی تلوار۔اب وہ اور یہ دونوں ایک بیٹری میں ڈھل گئی ہیں جو میری پنڈلیوں
کو کوڑھ بن کے کاٹے جاتی ہیں۔(ص )۳۱۴،۳۱۶ ،۳۱۳
مصنف بناتا ہے کہ انہی اشعار کی ترجمانی اقبال نے" قید خانے میں معتمد کی فریاد"
کے عنوان سے بال جبریل میں کی ہے۔
جزیرہ سیلی میں پیدا ہوا بعد میں سپین چال گیا ۔ وہ ہسپانوی مناظر قدرت کا شاعر ہے۔
آخری عمر میں عاجز اور نابینا ہو کر فوت ہو ا اس نے عشقیہ نظمیں بھی کہیں۔
نمونہ کالم:
مشرقی اندلس کا یہ شاعر جزیرہ شقر میں پیدا ہوا ۔ اس نے باقاعدہ تعلیم پائی ہے۔ ادب
سے متعارف ہو اور شعر کہنے لگا اس نے فنکاروں کی سی زندگی گزاری جس میں
کوئی فکر اور کوئی پابندی نہیں تھی۔
نمونہ کالم:
وہ ایک پھول کی تعریف میں کہتا ہے۔وہ شوخ اور مغرور جس کو بارش نے سرخ
زیور اور سبز ردا پہنا دی ہے۔اس کے لیے گھٹاؤں کاپانی چاندی بن کر بہتا ہے اور
اس کے پہلوؤں میں چمکدار سونا بن کر جم جاتا ہے۔(ص)۳۱۳ ،۳۱۱
اندلس کا آخری بڑا ادیب اور شاعر غر ناطہ میں پیدا ہوا اس کے خاندان میں علم تھا ،
تھی۔ سرداری اور تھی عزت
اس کی شاعری نفیس الفاظ ،پسندیدہ معانی سے عبارت ہے اس کی شاعری
قادرالکالمی اور پختہ گورئی کا اچھا نمونہ ہے اس کے فلسفیانہ خیاالت کی وجہ سے
اس پر الحاد کا الزام لگایا اور قید خانے میں ہی گال گھونٹ کر ماردیا۔
نمونہ کالم :
وسطی کی عرب ثقافت میں اندلس کا عربی ادب ایک روشن مثال ہے یہ بات
ٰ قرون
اپنی جگہ ان شعراء کی فکر میں ابو تمام ،متبنی اور معری کے کالم جیسی گہرائی
اورفکر نہیں ملتی لیکن ان کے اظہار خیال اور شاعرانہ تخیل اور ادائیگی حسن سے
مفر نہیں۔اندلس کے واسطے سے قدیم تہذیبیں اپنی روایات کے ساتھ یورپ تک
پہنچیں۔
اس دور میں مصر میں بہت سے شعراء ہوئے ۔ لیکن چارنام خاص ذکر کے قابل
ہیں۔کمال الدین ابن البنیہہ ( م ۱۱۱۱ء)
اس کی شاعری میں برجستگی ،نکتہ طرازی اور اسلوب میں نظم و ترتیب ہے۔ اس
کی شاعری میں تین موضوع اہم ہیں۔ ایک مدح ،دوسرا تغزل ،تیسر ا وصف نگاری۔
نمونہ کالم:
قاہرہ میں پیدا ہوا ۔ ایک ایسا شاعر ہے جس نے اپنی شاعری میں عشق و محبت کے
مضامین بیان کیے اور ایک ایسے محبوب کی بات کی جسے آپ چاہیں تو خدا قرار
دے سکتے ہیں اور چاہیں تو کوئی خوبصورت انسانی وجود سمجھ سکتے ہیں۔
نمونہ کالم:
’’تمہارے بارے میں میں حسد سے کبھی خالی نہیں ہوا پس
ایک غلط خیال اڑا کرمیرے جگراتے کو خراب نہ کرو۔رات
کے ستاروں سے پوچھو کیا نیند نے میری پلکوں کو چھوا
بھی ہے؟ اور وہ آئے بھی کیسے جو میری نگاہوں کے لیے
اجنبی ہے‘‘۔(ص)۳۳۴ ،۳۳۱
محی الدین العربی اندلس کے شہر مرسیہ میں پیدا ہوا۔ آٹھ برس کی عمر میں وہ اشبیلیہ
چال آیا۔ آخر کار دمشق میں آکر رہنے لگا اور یہیں وفات پائی ۔ وہ بنیادی طور پر ایک
صوفی تھا اس کیساتھ ساتھ وہ شاعر بھی تھا۔ شاعری میں اس نے جاہلی اور عباسی
دور کے شعراء کا طرز اپنایا ۔ ایک طرف وہ لوگ جو اسے ولی کامل سمجھتے ہیں
اور دوسرے طرف وہ گروہ جس کے نزدیک وہ بدترین قسم کا ملحد
تھا۔(ص)۳۳۱،۳۳۹
ابن العربی کی وحدت الوجود ایک ایسا مذہب ہے جس نے تمام مذاہب کا احاطہ کر لیا
ہے اور تمام اعتقادات کو اس طرح متحد کر دیا ہے جس طرح کہ واحد حقیقت مطلق
تمام اشیاء کا احاطہ کر کے انہیں متحد کرتی ہے یہ خیال حسب ذیل شعر سے ظاہر
ہے۔
’’یہ بات کہ میں عشق میں مبتال ہوں لوگو ں پر ظاہر ہے
لیکن وہ اس ذات سے بے خبر ہیں جس سے مجھے عشق
ہے‘‘()۳۳۹،۳۳۱
متنبی کی زمین میں ابن العربی کا ایک بہت عمدہ قصیدہ ہے۔
مکہ کے قریب وادئ نخلہ میں پیدا ہوا پھر مصر چال آیا۔ وہ وزیر بھی تھا اور ایک
انشا پرداز اور شاعر بھی۔()۳۴۰
نمونہ کالم:
اس کی شاعری میں مضامین عام نوعیت کے ہیں لیکن نرم حالوت پائی گئی ہے۔
ترکی دور:
سقوط بغداد کے بعد قاہرہ نے بغداد اور قرطبہ کی جگہ کیسے سنبھالی خلیفہ متوکل
کے بغداد میں عباسیوں کو زوال آگیا۔ اس کی وجہ مصنف یہ بتاتا ہے کہ ترک اور
ایرانی مدمقابل آگئے شیعہ اور اہل سنت کے درمیان اختالفات کی خلیج حائل ہوتی
گئی۔ اس اقتدار کا خاتمہ ۱۱۶۱ء میں ہال کو کے بڑے حملے سے ہوا۔ اندلس میں بر
بر اور موالیوں کی وجہ سے اموی حکومت کمزور پڑ گئی اور کئی صدیوں تک عالم
سالم میں کہیں کوئی عرب حکمران نہیں تھے۔
تہذیب سے عاری لوگوں نے کتب خانوں کو جالدیا مدارس بند کر دیے علماء کو تہ
تیغ کر دیا۔ ان حاالت کے باوجود عربی زبان مصر ،شام ،عراق اور جزیرہ نمائے
عرب میں نہ صرف دینی علوم کی زبان رہی بلکہ حکومتو ں کے درمیان رابطے کا
رہی۔ بنی بھی وسیلہ
اگر ترکوں کو غرور اور ایرانیوں کا تعصب نہ ہو تا تو عربی آج سارے عالم اسالمی
کی زبان ہوتی ۔ اس زوال کے باجود اس کی بقا کا وسیلہ قرآن پاک اور جامع االزہر
ہیں۔
جب حکومت اور اقتدار بنو عثمان کے ہاتھ آیا تو خالفت عباسی نہ رہی بلکہ عثمانی ہو
گئی اور دارالحکومت قاہرہ کی جگہ قسطنطنیہ ہو گیا۔ سرکاری زبان ترکی ہوگئی۔
عربی کے نثری اور شعری اسلوب کو زوال آگیا۔ ہر طرف تاریکی چھائی رہی اور
جب قاہرہ کے دروازوں پر نپولین کی توپیں گرجنے لگیں تو لوگ اس وقت نیند کے
غلبے سے جاگے۔
شرف الدین محمد بن سعید بن حماد البوصیری پورا نام ہے دالص میں پیدا ہوئے ۔
بوصیر میں پروان چڑھے اور پھر قاہر چلے آئے۔ قصیدہ بردہ دس ابواب پر مشتمل
ایک خوبصورت طویل نظم ہے۔ (ص)۳۴۴،۳۴۶
اس کا شعری معیار وہ نہیں ہے جو جاہلی دور یا اموی او ر عباسی دور کے شعرا
کے ہاں ملتا ہے۔
نمونہ کالم:
محمد دو جہانوں کے اور جن و انس کے سردار ہیں وہ عرب اور عجم دونوں فریقوں
کے سردار ہیں۔
’’وہ ہمارے بنی ہیں،حکم دینے والے اور منع کرنے والے ،
پس امرونہی کے بیان کرنے میں ،کو ئی بھی ان سے زیادہ
راست گو نہیں ہے‘‘۔ (ص )۳۴۹
جزیرہ نمائے عرب کا شاعر تھا ۔ فرات پر واقع ایک شہر حلہ میں پیدا ہوا اور وہیں
پروان چڑھا اور ادب کی تحصیل کی ۔ جب شعر کہنے شروع کیے تو اپنے وقت کا
سب سے بڑا شاعر قرار پایا۔
نمونہ کالم:
’’ ہم ایسے لوگ ہیں کہ اگر ہماری دشمنی مول لی جائے تو
ہم فرعون ہیں اور اگر ہمیں حکم بنایا جائے تو ہم انصاف
کے میزان بن جاتے ہیں۔ "آرزوؤں کے حصول کے راستے
میں ہمارے اندر کوئی کمزوری نہیں ہوتی اگرچہ ہمیں اپنی
آرزوؤں کے راستے میں موت کے سائے دکھائی دیتے
ہی‘‘۔()۳۴۸
اس کی پیدائش مصر میں فسطاط کے مقام پر ہوئی اور وہ قاہرہ میں پروان چڑھا۔ اس
کا زمانہ حوادث اور اضطراب کا تھا تار تاری حملوں کا خوف اور مصر میں ایسا
قحط پڑا کہ بھوک کے مارے لوگ حرام جانور کھانے پر مجبور ہو گئے۔ نبا تہ ان
حاالت سے بہت متاثر ہوا اس کے اندر خوف بیٹھ گیا۔ اس کا اثر اس کی شاعری میں
بھی دکھائی دیتا ہے۔ اورآ خر عمر میں وہ ذہنی انتشار کا شکار ہو کر ہسپتال میں داخل
ہوا اور وہیں وفا ت پائی۔
نمونہ کالم:
اس کی شاعری جرات و شجاعت اور ہجو گوئی سے خالی ہے وہ عتاب بھی نرم
لہجے میں کرتا ہے۔
عربی زبان میں علوم و فنون نے عہد بہ عہد کیسے ترقی کی منازل طے کیں یہ کام
اتنا آسان تھا ۔ اس کی ترویج میں کئی نسلوں نے مسلسل سعی کی کیونکہ خطۂ عرب
کی سر زمین مسلسل اندرونی و بیرونی سازشوں سے دو چاررہی۔
ظہور اسالم کے بعد بنو امیہ کے دور میں ادب و شاعری کی ترویج تو ہوتی رہی
لیکن علوم کی طرف زیادہ توجہ نہ ہونے کی وجہ ایک تو فتوحات کا سلسلہ تھا اور
دوسرا مذہبی اور سیاسی گروہوں کی شر پسند کاروائیوں نے علوم و فنون کے لیے
انہیں پر سکون نہ رہنے دیا۔ بہر حال علوم میں انہوں نے صرف نحو ،تفسیر ،فقہ اور
تدوین حدیث میں ابتدائی کام کیا ۔ دوسری اقوام کے علوم کا عربی میں تراجم کا آغاز
کیا۔
اس کام کے صحیح نتائج و ثمرات عباسی دور میں حاصل ہوئے ۔ عباسی دور میں
تراجم کے لیے خلیفہ ابو جعفر المنصور نے آغاز کیا ۔ ہارون الرشید نے مزید وسعت
دی ۔ مامون الرشید کے دور میں یہ علمی بیداری نقطہ عروج پر پہنچ گئی ۔اس وقت
ک ے تمام علوم و فنون کا عربی میں ترجمہ کیا گیا۔ ان تراجم کے عالوہ وہ اپنے ہاں
رہا۔ تا ہو م کا مسلسل بھی پر فنون و علوم کے
اس دور میں حرکت کے قونین مرتب کیے ۔ وقت بتانے کی گھڑی ایجاد کی جو ہارون
الرشید نے فرانس کے بادشاہ کو تحفے میں بھیجی۔ پنڈولم اور قطب نما کو متعارف
کروایا۔ الجبرا کے علم میں اضافہ کیا ۔ عباسی دور میں ہی مدرسے اور کتب خانے
قائم کئے گئے ۔ ہر جامع مسجد کے ساتھ مدرسہ قائم کیا گیا۔
علم و فنون کا ارتقا عباسی دور میں کسی نہ کسی شکل میں جاری رہا لیکن تارتاریوں
کے حملے اور اس کے بعد ترکی اقتدار کی وجہ سے علم کی ساری ترقی بہت حد
تک رک گئی ۔ لوگوں کا کام صرف اسالف کی کتابوں کی شر حیں لکھنا اور ان کے
تھا۔ گیا رہ پڑھنا خالصے
عربوں کے ہاں مختلف علوم و فنون میں جو نشوونما ہوئی اور جن اساتذہ اور مشاہیر
نے اس سلسلے میں اہم کردار کیا ذیل میں ان کامختصر جائزہ لیا جائے گا۔
زمانہ قدیم میں لکھنے کا رواج نہیں تھا اس لیے جاہلی زمانے سے آگے تک شاعری
اور ادب ،خطبات و اقوال کو محفوظ کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کا ذریعہ
روایت ہی تھا ۔ یہ راوی لوگ اگر اس ادب کو اپنے ذہنوں میں محفوظ نہ کرتے تو آج
علمی اس ہم
خزانے سے محروم رہتے اور آنے والی نسلوں کو کچھ بھی نہ دے پاتے جاہلی ادب
اور اس کے بعد صدر اسالم اور بنو اُمیہ کی شاعری کے جو سب سے بڑے راوی
ہوئے۔
اس حوالے سے مصنف درج ذیل پانچ راویوں کا ذکر کر تا ہے حماد الراویہ ( م
۹۹۱ء) خلف االحمر (م ۹۸۱ء) اصمعی ( م ۱۳۱ء)
ابو عبیدہ معمر بن المثنی ( م ۱۱۶ء) ابو زید االنصاری ( م ۱۳۱ء) (ص )۳۶۶
علم نحو اور اس کے رجال:
فتوحات کے نتیجے میں اقتدار کا دائرہ وسیع ہونے کی صورت میں عجمیوں کی آبادی
زیادہ ہونے لگی تو یہ عربی زبان بادیہ عرب کے لہجے سے ہٹ کر بولتے تھے اور
یہ معاملہ قرآن حکیم کی صور ت میں بھی سرزد ہونے لگا تو صورت حال سنجیدہ ہو
گئی ۔ اس ضرورت کے تحت عربی زبان کے بنیادی قواعد اور اصول مقرر کئے
گئے۔ اس طرح نحو اور صرف نے باقاعدہ علم کی صورت اختیار کی۔
عربی نحو کے تعلق سے جو بڑے نام ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں۔ سیبویہ (م ۹۸۱ء)
کسائی (م ۱۰۶ء) فراء (م ۱۱۱ء) ابن الحاجب (م ۱۱۴۱ء) ابن مالک ( م ۱۱۹۴ء) ابن
ہشام (م۱۳۱۰ء) (ص )۳۶۱
عربی زبان کے الفاظ کی حرکات کے معاملے میں جب لوگوں کا ملکہ بگڑنے لگا تو
علمائے لغت نے اصالح کے لیے ضابطے اور قواعد بنائے لیکن اس سے کوئی
اصالح نہ ہوئی۔ اس کے لیے الخلیل بن احمد نے کتاب العین لکھ کر عربی لغت کی
تدوین کے کام کا آغاز کیا۔ وہ الفاظ جو حلق سے نکلتے ہیں پھر وہ الفاظ جو زبان سے
ہیں۔ ہوتے ادا سے دانتوں جو وہ میں آخر اور ہیں نکلتے
ائمہ لغت اور علماء کے نام درج ذیل ہیں۔
الخلیل بن احمد ( م ۹۱۱ء) ابن درید (م ۸۳۳ء) ابو علی القالی (م ۸۱۹ء) ازہری ( م
۸۱۰ء) جوہری (م ۱۰۰۶ء) ابن سیدہ ( م ۱۰۱۱ء) زمخشری ( م ۱۱۴۴ء) ابن منظور
مرتضی الزبیدی ( م ) (۱۹۸۰ص ۳۱۳تا
ٰ ( م ۱۳۱۱ء) فیروز آبادی ( م ۱۴۱۴ء)
)۳۱۱
عربی زبان میں ادب و شعر کے مجموعے اور مختارات:
بعض دانش مند ادیبوں کو خیال آ یا کہ اگر زبانی روایتوں کا ذخیرہ لوگوں کے ذہنوں
سے محو ہو گیا تو عربی ادب کو اس سے بہت بڑا نقصان ہو گا۔ اس لیے انہوں نے ان
کو مجموعوں کی صورت میں ترتیب دینے کا بیڑہ اٹھایا ۔ یہ کام عباسی دور کے اوائل
سے شروع ہو ا تو آگے تک چلتا گیا۔
البیان و التبیین ،للجاظ (م ۱۱۱ء )ادب الکاتب ،البن قتبیہ ( ۱۱۸ء) الکامل فی الغتہ
واال دب ،للبر د ( ،۱۸۱العقد االقرید ،البن عبدریہ ( م ۸۰۴ء) کتاب ،االمالی ،تالیف
ابی علی القالی (م ۸۱۹ء) کتاب االغانی ،البی الفرج صفہانی ( م ۸۱۹ء)
نھایتہ االرب فی فنون االدب ،لنویری ( م ۱۳۳۱ء)
اس کے بعد مورخین نے اس کام کو آگے بڑھایا ان میں سعودی ( م ۸۶۹ء) مروج
الذھب ،ابن مسکویہ (م ۱۰۳۰ء) تجارب االمم و تعاقب الھمم ،ابن االشیر (م ۱۱۳۴ء)
الکامل فی تاریخ ابو الغداء ( م ۱۳۳۱ء)المختصر فی تاریخ ابشر ابن خلدون (م
۱۴۰۱ء)کتاب العبر ،دیوان المبتداء واالخبر ۔
عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے تدوین احادیث کا بیڑا اٹھایا ۔ صحیح احادیث کا پہال
مجموعہ " موطا" کے نام سے امام مالک بن انس نے مدون کیا۔ بعض ائمہ نے احادیث
کی تدوین کا ذمہ لیا اور چھ مختلف مجموعے انتہائی جانچ پرکھ کے بعد مرتب کیے۔
صحیح بخاری :امام محمد بن اسماعیل بخاری ( م ۱۹۰ء)
علم فقہ ،مالکی ،حنفی ،شافعی اور حنبلی مسلم امت میں آج تک رائج ہیں۔
’’الف لیلہ‘‘اس ضمن میں مصنف کی کتاب عربی ادب میں مطالعے میں تفصیلی
جائزہ لیا جا چکا ہے۔
انیسویں صدی سے عربی ادب کے حوالے سے جو تبدیلیاں عمل میں الئی گئیں اور
زوال و انحطاط کا شکار ادبی جمود کو توڑ نے میں جن اکا برین نے کار ہائے نمایاں
انجام دیے ان کا مختصرا ً جائزہ مصنف اس طرح پیش کرتا ہے۔
عربی زبان کونئی زندگی مصر سے ملی،نپولین نے مصر پر حملہ کر کے غلبہ پا لیا
اس کے ساتھ اہل علم کے گروہ نے حربی ہنگاموں سے قطع نظر مصر میں تہذیب کا
بیج بونے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس تبدیلی کے پیش نظرخدیوی خانوادے کے سربراہ
محمد علی الکبیر نے مصر میں تعلیم کو عام کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس نے مدارس
پھراعلی تعلیم کے لیے فرانس بھیجا
ٰ قائم کیے اور لوگوں کو زبردستی تعلیم دالئی اور
پڑھ کر آنے والوں نے سارے علوم و فنون میں ترجمہ و تالیف کا کام اپنے ذمے لے
لیا۔ مزید وفد تعلیم کے لیے یورپ جاتے رہے جو جامع ازہر سے ہوتے تھے۔
جب مصر انگریزی استعمار کے زیر تسلط آگیا تو ترقی کی رفتار انہوں نے روک دی
لیکن مصری قوم نے پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا۔ ان کے زعماء عربی کی باال
دستی کے لیے اٹھ کھڑ ے ہوئے اور نئی نسلوں کا ذمہ خود لے لیا۔ اس طرح عربی
زبان کے حقوق دوبارہ سے بحال ہو گئے سلسلہ پھر وہیں سے جاری ہوگیا۔
فرانسیسی تسلط کے نتیجے میں محمد علی کے جذبہ آزادی کااثر یہ ہوا کہ مصر اور
لبنان میں مغرب سے آنے والے علم کی روشنی پھیل گئی چنانچہ اس روشنی کے
پیچھے وہ وسائل علمی بیداری اورثقافتی نشوونما کے لیے بہت مفید ثابت ہوئے۔ان
میں اہم وسائل یہ تھے۔
مدارس ،مغرب کو وفود کی ترسیل اور مغربی زبانوں کی تعلیم ،جامع ازہر (۸۱۸ء)
میں قائم کی ،جامعہ مصریہ ( ۱۸۰۱ء) چھاپے خانے ،صحافت ،ادبی اکیڈمیاں یہاں
انگریزی اور فرانسیسی زبان ذریعہ تعلیم کے طور پر رائج نہ ہو سکی اس لیے ذریعہ
تعلیم عربی ہی رہا۔ عربی نے ہر طرح کے علم و فنون کو اپنے اند رسمیٹا۔اب عربی
ادب کے اس نئے دور اور ترقی پسند دور کے حوالے سے بات کی جائے گی۔
اہل قلم اور ادباء:
جمال الدین افغانی ( م ۱۱۸۹ء)جمال الدین عرب نہیں تھے اور عربی زبان و ادب میں
بھی انہوں نے کوئی خصوصی تعلیم حاصل نہیں کی تھی ۔اس لیے جو زبان وہ لکھتے
تھے اس میں فصاحت کا کوئی بلند معیار نہیں پایا جا تا تھا۔ انہوں نے خود تو ادب
تخلیق نہ کیا ۔ وہ اد یب نہیں البتہ ادیب گر تھے ۔عربی تقاریر دآل ویز عربی لہجے میں
کرتے تھے۔ ان کی تصنیف صرف ایک عربی رسالہ ہے۔ وہ ایک ملک میں جاتے اور
کچھ عرصہ بعد وہاں سے نکال دیے جاتے ۔ آخر کار استنبول واپس آگئے اور یہیں
سرطان کی وجہ سے وفات پائی۔
مصر کے مشہو ر مفکر ،عالم ،ادیب ،انشاپرداز اور جدیدادبی بیداری کے بانیوں میں
سے ایک تھے۔ انہوں نے قرآن کی تفسیر کا ایک نیا طرز نکاال جس سے آیات کے
مطالب کو عقل و فلسفے کے تقاضوں کےقریب النے کی کوشش کی گئی۔
عربی ادب میں ان کا مقام یہ تھا کہ وہ صحیح اور بلیغ عربی نثر لکھتے تھے مضامین
چاہے دینی ہو ں یا اصالحی ان کی عربی نثر میں ادبی چاشنی پائی جاتی تھی۔
وہ ایک انقالبی تھا جس نے مسلم عورت کی آزادی کے حق میں آواز اٹھائی اس
صورت حال کی اصالح کے لیے ’’ تحریر المراۃ‘‘ (عورت کی آزادی) کے عنوان
سے کتاب لکھی ۔ عورت کی تعلیم اور پردے سے نجات پر زور دیا۔ اس کے لیے
شریعت سے دالئل پیش کیے۔ اس کتا ب کی تائید کم لوگوں نے کی لیکن مخالفت زیادہ
لوگوں نے کی ۔ اس نے اس کے جواب میں دوسری کتاب المرأۃ الجدیدہ (جدید عورت)
لکھ دی اور اپنے مخالفین کے اعتراضات کا جواب دیا۔
جرجی زیدان ( م ۶۲۶۲ء):
وہ کوئی محقق نہ تھا اور نہ عربی کا کوئی بڑا ادیب تھا اس نے متعدد اور مختلف قسم
کے مباحث کو لوگوں تک پہنچایا اور عربوں کو تلقین کی کہ یورپ کے ارتقا یافتہ
طریق کار ،تاریخ اور ادب پر بھی توجہ کریں۔
مصطفی لطفی المنفلوطی ( م ۶۲۹۲ء):
بہت عمدہ نثر نگار اور اچھا شاعر تھا۔ پاکستان میں اس کی کتابیں ایم اے عربی کے
نصاب میں شامل رہی ہیں۔ منفلوطی کی ادبی حیثیت کے قائم رہنے کی راہ میں دو
رکاوٹیں حائل ہوئیں اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کے لیے اس میں طاقت ور اظہار
کی کمی تھی اور دوسرے اس کی تعلیم بہت محدود تھی۔(ص ۳۸۶تا )۴۰۱
بیسویں صدی کے درمیانی عرصے میں مصر کے ادبی افق پر علم اور ادب اور تنقید
میں بہت قابل قدر اور باقی رہ جانے واال کام کیا ان میں چار نام خصوصیت کے ساتھ
قابل ذکر ہیں۔
مصری فاضل اور مصنف قاہرہ میں پیدا ہوا ۔ اس کی اہم تصنیف دسویں صدی عیسوی
کے تمدن اسالمی کی تاریخ ہے جوتین حصوں میں ہے اس میں پہلی مرتبہ بڑے
پیمانے پر تنقید و تحقیق کا طریقہ استعمال کیا گیا ہے۔
عالم عرب کا نہایت ممتا ز ،مشہور و معروف ادیب ،نقاد اور انشاء پرداز اس نے اس
دور کی کئی نسلوں کو اپنے علم ،افکار ،تنقید اور نثری اسلوب سے متاثر کیا ۔ چھ
سال کی عمر میں نور بصارت سے محروم ہو گیا اس نے جاہلی شاعری کے حوالے
سے جورائے پیش کی اس سے اس کے خالف تشنیع و مذمت کا طوفان کھڑا ہو گیا۔
وہ ذہنی طور پر معتزلہ کے افکار سے بھی متاثر تھا۔اس کی رہنمائی میں قاضی
عبدالجبار المعتزلی ( م ۱۰۱۴ء)کی گراں قدر تصنیف المغنی معتزلی افکار کی دائرہ
ہوئی۔ شائع میں جلدوں بیس ہے۔ معارف
احمد حسن زیات ( م ۱۸۱۱ء)
جامع ازہر میں تعلیم پائی اپنے ہفتہ وار ادبی مجلے الرسالہ سے اس نے جدید عربی
ادب کی بہت خدمات انجام دیں ’’،تاریخ االدب العربی‘‘ جیسی گراں قدر کتاب تصنیف
کی۔ ادب ،تنقید ،تاریخ پر قابل قدر کتب تصانیف کیں۔
ادیب ،شاعر ،نقاد ،مترجم اور سیاسی مقالہ نگار اس نے کوئی باقاعدہ تعلیم حاصل نہ
کی۔ اپنے شوق اور محنت سے علم حاصل کیا ۔ اس کی سیاست کسی خاص اصول یا
نظریے کی پابند نہ تھی جہاں فائدہ دکھائی دیتا وہیں شامل ہوجاتا اپنے قلم کی طاقت
سے بہت فائدہ اٹھاتا ۔ ( ۴۰۹تا )۴۱۱
بارودی قاہرہ میں پیداہوا ۔اسے کم عمری سے شاعری اور ادب پڑھنے کا شوق رہا
ہے۔ اس کا کالم قدماء کی طرح بدیع کے تکلفات سے پاک ہے۔
نمونہ کالم:
میرے گزرے ہوئے زمانے سے مجھے بچپن لوٹا دو اور کیا اجڑے ہوئے بالوں کی
سیاہی لوٹ کے آسکتی ہے۔اگر انسان کو اپنے انجام کی فکر ہوتی تو اس کے اخالق
حرص اور طمع سے کبھی ملوث نہ ہوتے۔ اسماعیل صبری ( م ۱۸۱۳ء)
مصر میں پیداہوا فرانس سے قانون کی تعلیم مکمل کی۔ واپس آ کر محکمہ انصاف میں
مالزمت کی۔ مالزمت سے فارغ ہونے کے بعد گھر میں مقیم ہو گیا آنے والوں کے
ساتھ ادب اور شاعری کے موضو ع پر گفتگو کرتا۔
نمونہ کالم:
اے رازوں کے جاننے والے میرے لیے یہ جاننا ہی بڑی آزمائش ہے کہ تو سب
رازوں کا جاننے واال ہے۔ (ص)۴۱۸
ان شعراء کے عالوہ احمد شوقی ( م ۱۸۳۱ء) حافظ ابراہیم ( م ۱۸۳۱ء) جمیل صدقی
الزہاوی (م )۱۸۳۱معروف الرصافی (م )۱۸۴۶خلیل مطران ( م )۱۸۴۸کا ذکر
مصنف کی کتاب عربی ادب میں مطالعے میں بعنوان عربی شاعری نئے دور میں ہو
چکا ہے۔ان سب نے اپنی شاعری کو ذریعہ ابالغ بنا کر اپنے نظریات و خیاال ت کو
عام لوگوں تک پہنچا نے کی ہر ممکن سعی کی جس کی پاداش میں انہیں بہت کچھ
برداشت کرنا پڑا جالوطن ہونا پڑا ۔
عربی ادب میں فکشن (افسانہ ،ناول ،ڈرامے) کا روج انیسویں صدی میں عرب ادباء
یورپ کے وسیلے سے افسانے کی اس صورت سے آشنا ہوئے اور انہیں یہ بہت
اچھی لگی۔
عربی زبان میں سب سے پہلے کسی حد تک کامیاب افسانہ محمود تیمور نے ۱۸۱۹
میں فی القطار کے نام سے لکھا ۔ و ہ فرانس کے موپاساں سے متاثر تھا۔ دوسرے
افسانہ نگار محمود طاہر الشین نے اپنے متعدد افسانوں کا خیال روس کے چیخوف
سے لیا۔
عربی افسانے کے حوالے سے عربی ادب میں مطالعے میں بھی بحث کی گئی ہے۔
عربی زبان میں حرجی زید ان ( م )۱۸۱۴کے تاریخی ناول ابتدائی ناول ہیں اس کے
بعد محمد المویلحی (م )۱۸۳۰نے ناول کی طرز حکایات کا سلسلہ شروع کیا۔
عربی زبان میں پہال ناول محمد حسین ہیکل کا " زینب" ہے جو مصر میں ۱۸۱۳ء
میں شائع ہوا۔عربی میں درج ذیل اصناف میں ناول لکھے گئے
اس میں عیسٰ ی عبید کا " ثریا" محمود تیمور کا " رجب آفند ی اور االطالل‘‘ ٰ
طہ
حسین کا " ادیب" شامل ہیں۔
ان میں ابراہیم عبدالقادر مازنی کا " ابراہیم لکاتب" عباسی محمود العقاد کا " سارہ" اور
دیگر شامل ہیں
یہ ناول کی خاص قسم ہے توفیق الحکیم کا ناول " عودۃ الروح" اس کی صحیح نمائند
گی کر تاہے۔
۱۸۴۰ء کی دہائی کے آخری برسوں سے عربی شاعری میں چار بڑے رجحانات
غالب رہے۔
زمانہ حال کی شاعری میں انقالبی فکر ہے غصہ اور برہمی مزاحمتی رویہ جو
فلسطین کے المیے سے پیدا ہواْ
نزار قباتی
فدوی طوفان
ٰ
نازک المالئکہ
صالح عبدالصبور
عبدالوہاب البیاتی
سمیح القاسم
محمود درویش
آخر میں کہنا چاہوں گی کہ کوئی بھی صنف ایک ہی جگہ پر رک نہیں سکتی ۔ وقت
اور حاالت کے ساتھ ہر چیز تغیر پذیر ہوتی ہے۔ جمود سے مراد تو زندگی کاخاتمہ
ہے اگر انقالب بھی زندگی میں مثبت تبدیلی الئے تو زندگی تھکتی نہیں بلکہ شاداں و
خراماں آگے بڑھتی ہے لیکن جب انقالب اپنے ساتھ دکھوں کی چادر اوڑھ کر آئے
اور خون ریزی کا پیغام الئے تو یاس و برہمی کا رویہ خود بخود زندگی کے ہر پہلو
میں در آتا ہے۔
عربی شاعری جس کا آغاز قبل از اسالم محض تفریح اور طرب و نشاط سے ہوا لیکن
ارتقائی منزل کرتے ہوئے یاس والم کی آوازبن گئی۔بہت سے مدرس اور معلم تو
موجود ہیں جو اپنے شاگردوں کے لیے کسی بھی زبان کی شعرو ادب کی تنقید کی
تاریخ لکھ دیتے ہیں مگر محمد کاظم جیسے ادیب بہت کم ہیں جو اپنے شوق سے ایک
زبان سیکھیں اور پھر اس کی ادبی تاریخ اس زبان کے طالب علموں کے لیے نہیں
بلکہ اردو ادب کے با ذوق لوگو ں کے لیے لکھ ڈالیں۔
بہت سے معلم اور مدرس تو موجود ہیں جو اپنے شاگردوں کے لئے کسی بھی زبان
کی شعر و ادب کی تن قید کی تاریخ لکھ دیتے ہیں مگر محمد کاظم جیسے ادیب بہت کم
ہیں جو اپنے شوق سے ایک زبان سیکھیں اور پھر اس کی ادبی تاریخ اس زبان کے
طالب علموں کے لئے نہیں بلکہ اُردو ادب کے باذوق لوگوں کے لئے لکھ ڈالیں۔
1۔ یہ تبصرے فنون الہور میں شائع ہوئے اور احمد ندیم قاسمی کی ادارت میں شائع
ہونے والے اس جریدے کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں خطوط اور تبصرے بھی
خانہ پُری کے لیےنہیں ہوتے تھے بلکہ علمی نکات موجود ہوتے تھے ۔
2۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ محمد کاظم کی وسعت مطالعہ ،عالمانہ سنجیدگی اور
علمی وقار ہے کہ وہ کسی کتاب کو سرسری مطالعے یا رائے کے لیے منتخب نہیں
کرتے۔
3۔ تیسری بات یہ ہے کہ وہ رائے دیتے ہوئے کسی بھی اپنے قریبی دوست یا کسی
بڑے عالم سے مرعوب نہیں ہوتے تھے ۔ یہ اور بات کہ وہ ایسے موقعے پر ایک
لطیف پیرایہ طنز کا اختیار کرتے ہیں ۔ یہ محمد کاظم کا وہ انداز ہے کہ جس کی
خاطر انہوں نے اس کتاب میں شامل دو مضامین میں سے آخری دو کے لیے عنوان
ہی ظریفانہ تبصرے تجویز کیا ہے۔
محمد کاظم طبعا ً جو شیلے آدمی نہیں تھے اس لیے ان کے تبصروں میں بھی عموما ً
دھیما پن اورٹھہراؤ ہے ۔ان کا مقصد خالصتا ً قاری کے علم میں اضافہ اور سوچ میں
وسعت پیدا کرنا ہے۔
یہ کتاب تیس تبصروں پر مشتمل ہے ۔ زیر تبصرہ کتب مختلف موضوعات کا مجموعہ
ہیں۔
شامل کتاب پہالتبصرہ مسعود حسن شہاب کی کتاب "خواجہ غالم فرید"پر ہے ۔
148صفحات پر مشتمل یہ کتاب اُردو اکادمی بہاولپور سے شائع ہوئی اس کی قیمت
1روپے ہے۔ یہ تبصرہ فنون کے شمارہ اپریل ،مئی ۱۸۱۴ء ،ص ۴۹۰تا ۴۹۳میں
شائع ہوا۔ کتاب پر تبصرہ سے پیشتر تبصرہ نگار نے عالقائی ادب کے پس منظر ،
روایت اور مقتدر عالقائی شخصیات کے فن پر مختصرا ً بات کی ہے ۔ اس کے بعد
خواجہ غالم فرید پر تحریر کردہ کتب کا ذکر ہے ۔" مناقب فریدی"
یہ کتاب بہادرشاہ ظفر کے پوتے مرزا احمد اختر نے تصنیف کی ۔ دوسری کتاب
"گوہر شب چراغ"ان کی وفات کے بعد شائع ہوئی جو ان پر اُردو میں اولین کتاب
سمجھی جاتی ہے ۔ اس کے بعد "دیوان فرید"شائع ہوا جس میں خواجہ صاحب کا
مفصل سوانحی خاکہ بھی شامل ہے ۔ اس کے عالوہ " ہفت انقالب"اور "فقر فرید"بھی
حوالے کی کتابیں ہیں۔
زیرتبصرہ کتاب 6711ء میں شائع ہوئی ۔بیس ابواب پر مشتمل اس کتاب کے تمام
ہے۔ گیا لیا سے نگاہی ژرف جائزہ کا عنوانات
تبصرہ نگار نے مصنف کتاب کی شخصیت و فن پر مختصرا ً بات کی ہے ۔ صاحب
تبصرہ نے خواجہ صاحب کی شخصیت کے مخفی گوشوں کو اُجاگر کرنے کے لیے
اُن کے اشعار بھی بطور حوالہ پیش کیے ہیں۔ خواجہ صاحب کی شخصیات کے اہم
پہلو فقر ،درویشی اور تصوف ہیں۔ تبصرہ نگار نے مصنف کی اس اخالقی جرات کو
متصوف شخصیت کی
ّ خراج تحسین پیش کیا ہے کہ اس نے خواجہ صاحب جیسی
زندگی کے رومان کے حوالے سے ایک باب تحریر کیا ہے کہ انہیں فی الحقیقت روہی
کی دوشیزہ سے عشق ہوا جس کی خاطر وہ اٹھارہ سال ریگستان میں ڈیرے ڈالے
رہے۔
مبصر نے مصنف کے خیاالت سے اختالف کرتے ہوئے انہیں عام فہم انداز میں پیش
کیا ہے اور خواجہ صاحب کی شاعری میں حسن پرستی ،دردمندی اور موسیقیت کے
پہلو کو اُجاگر کیا ہے۔
آخر میں تبصرہ نگار نے اُردواکادمی بہاولپورکو اس کتاب کی اشاعت پر مبارک باد
دی ہے کہ اس سے خواجہ صاحب کی شخصیت کے گمنام گوشے منظر عام پر
آگئے۔
کتاب میں زبان و بیان کی چھوٹی چھوٹی فروگزاشتوں کی طرف قاری اور مصنف کو
متوجہ کیا ہے ۔ آخر میں تبصرہ نگار امید کرتا ہے کہ اگال ایڈیشن ان اغالط سے پاک
ہو گا ۔ وہ کتاب کو ایسے نوٹس کا مجموعہ قرار دیتا ہے جو بلحاظ موضوع انتہائی
ہیں۔ قیمتی
زیر موضوع کتاب میں شامل تیسرا تبصرہ "دبستان غالب"پر ہے ۔ مصنف ناصرالدین
اعلی ایڈیشن کی قیمت
ٰ ناصر۔ 211صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت 69روپے اور
49روپے ہے ۔ مکتبہ الفتح شارع عالمہ اقبال الہور سے شائع ہونے والی کتاب کے
سن اش اعت کا ذکر بین السطور کیا گیا ہے ۔ یہ فنون کے شمارہ ۱،۱نومبر ،
ہوا۔ شائع میں ۶۱۶ تا ۶۱۳ میں دسمبر۱۸۱۸ء
زیر نظرکتاب پر تبصرہ سے پہلے مبصر نے غالب کی برسی کے حوالے سے ہونے
والی تقریبات اور تحقیق و تصنیف کا مختصرا ً جائزہ لیا ہے ۔ صدسالہ برسی کے
سلسلے میں غالب پر ہونے والے تصنیفی کام کی ایک کڑی یہ کتاب "دبستان
غالب"ہے اس کے مندرجات پر بحث کرتے ہوئے تبصرہ نگارکہتا ہے کہ کتاب تین
حصوں پر مشتمل ہے۔
دوسرا حصہ کالم غالب پر مشتمل ہے جس میں موضوعاتی لحاظ سے دوسرے بڑے
ہے۔ گیا لیا جائزہ تقابلی کا کالم کے شعرا
تیسرا حصہ "عقدہ ہائے مشکل"کے عنوان سے شامل ہے اس میں کالم غالب کے
پیچیدہ اشعار کی شرح پچھلی شرحوں کے پس منظر میں کی گئی ہے۔
موضوعات کے بعد مبصر مصنف کی فکر اور اسلوب کا جائزہ لیتا ہے کہ اس میں
تحقیقی لب و لہجے کا فقدان ہے اور عقیدت مندانہ نقطہ نظر حاوی نظر آتا ہے اس
سے کتاب کا اسلوب دلچسپ ہو گیا ہے اور یہ قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے
اور وہ اسے پڑھے بغیر نہیں چھوڑتا۔
تبصرہ نگار اس پر مزید روشنی ڈالتا ہے کہ جب تک انسان کا ذہن ایک خاص سطح
تک رہتا ہے وہ کسی ایک مذہب پر کاربند رہتا ہے لیکن جب فکری سطح بلند ہو جاتی
ہے تو وہ ان پابندیوں سے آزاد ہو جاتا ہے۔
ابتدائی دور میں مرزا کا کالم مشکل پسندی کی طرف مائل تھا لیکن بعد میں انہیں خود
ہی احساس ہو گیا اس لیے انہوں نے وہ اشعار حذف کر دیے اور نمونے کے طور پر
دس پندرہ اشعار دیوان میں رہنے دیے لیکن تبصرہ نگارکہتا ہے کہ نیازفتح پوری نے
مشکالت غالب میں چارسواشعار اُن کے دیوان سے نکالے اور زیر نظر کتاب میں
دوسوکے قریب اشعار مشکل پسندی کے زمرے میں آتے ہیں۔
اس حصے میں ان مشکل اشعار کی تشریح کا جائزہ تقابلی انداز سے لیا گیا ہے تبصرہ
نگار کتاب کی ترتیب و اشاعت کے حوالے سے معترض ہے کہ ناشر اور سن اشاعت
کا کہیں اندراج نہیں ہے ۔ ترتیب ادبی سلیقے سے خالی ہے فہرست پہلے آتی ہے اور
انتساب بعد میں ۔انتساب قاری کے اندر ایک خاص طرح کا تجسس پیدا کرتا
ہے۔ ‘‘انسان کی زندگی میں ایسا وقت بھی آتا ہے کہ وہ ُحسن کی بارگاہ میں کوئی
شایان شان تحفہ پیش کرنا چاہتا ہے’’۔ تبصرہ نگار اس حوالے سے ظریفانہ انداز میں
کہتا ہے۔
زیر موضوع کتاب میں چوتھا تبصرہ "بنگال میں اُردو" پر ہے ۔ مصنف وفاراشدی،
9روپے قیمت ،471 صفحات
مکتبہ اشاعت اُردو ،حیدر آباد پاکستان ۔ سن اشاعت نہیں ہے۔
بین السطور یہ تذکرہ کیا ہے کہ اس کتاب کو شائع ہوئے کافی عرصہ ہو چکا ہے ۔
تبصرہ نگار مصنف وفاراشدی کا مختصرا ً تعارف کرواتا ہے کہ وہ بنگالی نژاد ادیب
اور شاعر ہیں جو طویل عرصے سے مغربی پاکستان میں مقیم ہیں ۔ تبصرہ نگار کا
تعلق ایک صاحب فکر ادبی گروہ سے تھا اس لیے ان کی فکر میں ایک خاص طرح
کی وسعت ہے اور ان کی حس مزاح بھی باکمال ہے جو اس تبصرے کے دوران
مختلف مواقع پر ملتی ہے۔
زیر تبصرہ کتاب کا مصنف اور ناشر ایک ہی وجود کے دونام ہیں اس لیے کتاب کا
آغاز معمول سے ہٹ کر ہوتا ہے ۔ مصنف کے ادیب قلم کار دوست اور مختلف اخبار
و رسائل کے حوالوں سے تعارف کرواتے ہیں ۔
اس کے بعد تعارف میں بھی تعریف مبالغہ آرائی کی حدوں کو چھوتی نظر آتی ہے ۔
مبصر صرف اس بات پر معترض ہے کہ اتنی تعریفات کے بعد تصنیف زیر نظر کا
مواد اس معیار کا حامل نہیں جتنی اس سے توقع کی جاتی ہے ۔ کتاب کا عنوان "بنگال
میں اُردو"اندرونی مواد کے منافی ہے۔ تبصرہ نگار اس کا نیا نام "بنگال میں اُردو کے
شعراء و ادباء"تجویز کرتا ہے کیونکہ اس میں نصف سے زائد حصے میں تقریباًدو
سو شعراء ادباء کا تذکرہ مع نمونہ کالم شامل ہے ۔
آغا حشر کا شمیری بنگال کی نامور ادبی شخصیت کا تعارف بطور نمونہ پیش ہے۔
اس تذکرے سے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ آغا صاحب کے ڈراموں میں اسالمی
جوش و خروش کی وجہ ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت ہے جو اسالمی رسم و رواج کے
مطابق ہوئی ۔ شائد اسی لیے وہ ہندو سکول میں آٹھویں جماعت سے آگے تعلیم سے
آراستہ ہونا گوارا نہ کر سکے۔
کتاب میں ایک اور تذکرہ بنگال کے مشہور قلم کار مزاح نگار سیّد محمد آزاد کا ہے
جن کا شمار اُردو ادب کے چند اچھے مزاح نگاروں میں ہوتا ہے ۔ کتاب میں شامل
پانچواں تبصرہ "امانت"(چارایکٹ میں اسٹیج ڈرامہ) پر ہے اس کے لیکھک اصغر بٹ
624،صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت 9روپے ہے ۔ ریلیکا پبلی کیشنز صدر
کراچی سے شائع ہوئی لیکن سن اشاعت ندارد! یہ فنون کے شمارہ اکتوبر ،نومبر
ص ۶۳۹تا ۶۴۴میں شائع ہوا۔
زیر نظر کتاب پر تبصرہ سے پہلے تبصرہ نگار اسٹیج ڈرامہ کی اہمیت و پس منظر
کے حوالے سے اپنے خیاالت کا اظہار کرتا ہے۔ اس کے مطابق وہ وقت آگیا ہے جس
کے انتظار میں ہمارا ڈرامہ نگار اصغر بٹ تھا کیونکہ اس نے اپنی کتاب کے پیش
لفظ میں تھیٹر کے احیاء کا وقت کہا ہے ۔ انہوں نے اس وقت کا خیرمقدم یہ طویل
ڈرامہ لکھ کر کیا ہے۔ اس طویل ڈرامے کا جائزہ لیتے ہوئے تبصرہ نگار سب سے
دورخاپن اس
پہلے اس کے موضوع کے حوالے سے بات کرتا ہے کہ کیمو فالج اور ُ
کا موضوع ہے جس کی وجہ سے انسانی شخصیتوں میں اتنی پیچیدگی درآئی ہے کہ
انہیں سمجھنا مشکل ہو گیا ہے۔
یہ سنجیدہ نوعیت کا ڈرامہ ہے اور اس میں قارئین اور ناظرین کے لیے ایک پیغام
پوشیدہ ہے ۔ نوجوان نسل بے راہ روی کا شکار کیوں ہو جاتی ہے ؟ اس پر اثرانداز
ہونے والے عوامل میں والدین کا رویہ اور ماحول دونوں شامل ہیں۔ ڈرامے کے
مرکزی کردار چارہیں۔ میمونہ ،ہاشم ،شیریں گل اور مرزاصاحب۔
موضوع بالکل سادہ اور عمومی نوعیت کا ہے۔ معنوی گہرائی سے قطع نظر اس میں
کوئی انوکھا پن نہیں ہے۔
اٹھارہ سالہ خوبصورت میمونہ انشورنس کمپنی کے ایجنٹ ہاشم کی ظاہر ی چمک
دمک سے متاثر ہو کر سوتیلی والدہ سے اپنی مرحومہ ماں کے زیورات لے کر گھر
سے بھاگ جاتی ہے ۔ میمونہ کا والد پولیس لے کر پہنچ جاتا ہے اور ہاشم کو پکڑ لیتا
ہے جبکہ میمونہ موقع پا کر فرار ہو جاتی ہے اور ہاشم کے دوست شیریں گل کی
طرف روا نہ ہو جاتی ہے جہاں اس نے اور ہاشم نے جاکر نکاح کرنا تھا ۔
اس کے بعد شیریں گل کے جنگالت کے ریسٹ ہاؤس میں ٹھہر جاتی ہے اور وہ اسے
اپنے دوست کی امانت سمجھ کر اس کی حفاظت کرتا ہے ۔ شیریں گل ایک کم گو اور
شریف انسان تھا ۔ اسی دوران ایک مزاحیہ کردار مرزا صاحب جو محکمہ جنگالت
میں افسر ہے نمودار ہوتا ہے ۔ شیریں اس کو ناپسند کرتا ہے کیونکہ شیریں کی
محبوبہ کی شادی اس سے خالف مرضی ہوئی تھی اور وہ یہاں اس کے پاس جلد ہی
وفات پاگئی۔ مرزا صاحب میمونہ سے بہت جلد بے تکلف ہوجاتے ہیں لیکن شیریں گل
سے جھڑپ کے دوران وہ میمونہ پر بھی بے ہودہ الزام لگانے سے گریز نہیں کرتے
ہے۔ لگتی کرنے نفرت سے ان میمونہ بعد کے اس
ایکٹ کے آخری حصے میں ہاشم ایک دفعہ پھر نظرآتا ہے وہ میمونہ سے کہتا ہے کہ
وہ جس طرح گھر سے آئی تھی اسی طرح زیورات لے کر واپس چلی جائے تاکہ اس
طرح ہاشم کے کردار کی بے گناہ ی ثابت ہو جائے ۔ میمونہ یہ سن کر بہت ناراض ہو
تی ہے کیونکہ اب اس پر ہاشم کی خودغرضی اور مکاری واضح ہو تی ہے اب وہ
اس کا موازنہ شیریں سے کرتی ہے اور تلخ کالمی کے بعد شیریں سے محبت کا
اقرار کر لیتی ہے ۔ شیریں اس انکشاف سے حیران بھی ہوتا ہے اور خوش بھی ! یہاں
ہے۔ جاتا ہو پذیر اختتام ڈرامہ
تبصرہ نگار کی توجہ جو چیز اپنی جانب مبذول کرتی ہے وہ کرداروں کی نفسیاتی
کشمکش اور جذباتی اتارچڑھاؤ ہے ۔ پالٹ کی گرفت اتنی مضبوط ہے کہ تماشائی کی
توجہ ایک لمحہ بھی ادھر اُدھر نہیں بٹتی ۔
شامل کتاب چھٹا تبصرہ "اقبال کا علم کالم"۔ ایک جائزہ ہے ۔ مصنف سیّد علی عباس
جالل پوری ۔ آئینہ ادب چوک مینار ،انارکلی الہور سے شائع ہونے والی اس کتاب
کے صفحات کی تعداد اور قیمت ندارد ہے ۔ یہ فنون کے شمارہ ۳ ،۱جنوری ،
فروری ۱۸۹۳ء ص ۱۸تا ۱۶میں شائع ہوا۔
اقبال کے علم کالم پر بات کرنے سے پہلے تبصرہ نگار اس حوالے سے اپنے
نظریات پیش کرتا ہے جو اس کی علمی و فکری اٹھان اور فلسفہ پر منطقی گرفت کا
ثبوت ہیں ۔ وہ علم کالم کی مختصرا ً تعریف اس طرح کرتا ہے۔
یہاں تبصرہ نگار نے قرآن کی بعض آیات کا لفظ استعمال کیا ہے لیکن جب اپنی رائے
کا اظہار منطقی انداز میں کیا جائے تو آیات کو بطور حوالہ پیش کرنا چاہیے تھا۔
ان کالمی مسائل کے نتیجے میں دوگروہ وجود میں آئے ۔ ایک گروہ جو غوروفکر کو
الزم سمجھتا تھ ا اور عقل کو نقل پر ترجیح دیتا تھا وہ معتزلہ کہالیا اور دوسرا گروہ
تو عقائد پر آنکھ بند کر کے یقین کرنے واال اور نقل کو عقل پر فضیلت دینے کا قائل
تھا۔ یہ گروہ اشاعرہ کہالیا اس کی بنیاد امام شعری نے رکھی۔
سیّد علی عباس جالل پوری معروف محقق و مفکر ہیں ۔ اقبال کے علم کالم پر انہوں
نے ماہنامہ" ادبی دنیا "میں ایک سلسلہ مضامین لکھاتھا ۔ زیر نظر کتاب میں ان
مضامین کو یکجاکر دیا گیا ہے ۔ تبصرہ نگار کہتا ہے کہ سیّد علی عباس کا اسلوب
خالصتا ً علمی ،سنجیدہ اور دیانت داری سے بھرپورہے ۔ وہ جو بات صحیح سمجھتے
ہیں اس کا اظہار برمال کرتے ہیں ۔ وہ یہ بھی پیش نظرنہیں رکھتے کہ مدمقابل
شخصیت کون ہے اس لیے ان کی زد میں بڑی بڑی شخصیات آتی رہی ہیں ۔ان کا
اسلوب منطقی ہے اس لیے اُن کے دالئل کا جواب کسی سے کم ہی بن پڑا ۔مبصر خود
بھی اس زد میں آچکا ہے اس لیے وہ یہ بات ذاتی تجربے کی بناء پر کہہ رہا ہے۔
" اقبال کا علم کالم" اس کتاب میں علی عباس جالل پوری کا اسلوب منطقیت سے بھر
پور ہے ۔ انہوں نے بال خوف اقبال کے علم کالم کے ایسے پہلو بے نقاب کیے ہیں جو
قرآن اور اسالم سے مطابقت نہیں رکھتے اور بعض پہلو ایسے بھی ہیں جن میں
مغربی فالسفہ کی تقلید کی ہے ۔ یہ چیز اقبال کے عقیدت مندوں پر گراں گزرے گی ۔
سید علی عباس کی شخصیت کا یہ خاصہ تھا کہ خوبیوں کے ساتھ خامیوں پر بھی
عمیق نگاہ رکھتے تھے اس لیے زیر نظر کتاب بھی اسی زاویہ نگاہ کا پرتو ہے۔ علی
عباس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے تبصرہ نگار نے اندھا دھند مشاہیر پرستی پر
جابجا اپنے خیاالت کا اظہار کیا ہے۔ اقبال کو ہم عظیم فلسفی مانتے ہیں لیکن علی
عباس نے اس کی تردید کی ہے ۔ وہ اپنی کتاب میں فلسفی اور متکلم کا فرق واضح
کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اقبال اصل میں متکلم تھے فلسفی نہیں تھے۔
اس کتاب میں علم کالم کی مختصر تاریخ بیان کرنے کے بعد مختلف کالمی مسائل پر
الگ الگ باب میں اقبال کے علم کالم کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ تبصرہ نگار نے
موضوع کے ساتھ ساتھ مصنف کے اسلوب اور فکر کو پیش نظر رکھا۔
صور ذات
زیر موضوع کتاب کے پہلے دوابواب میں سیّد علی عباس نے اقبال کے ت ّ
باری اور نظریہ وحدت الوجود پر بحث کی ہے۔انہوں نے عالمہ اقبال کی تحریروں
،اشعار اور خطبات کو سامنے رکھ کر یہ ثابت کیا ہے کہ اُن کا تصور ذات باری
مختلف زمانوں میں مختلف رہا ہے ۔ "وہ اپنی شاعری کے پہلے دور میں وحدت
الوجود کے شارح اور نوفالطونی صوفی تھے "۔ عالمہ جب انگلستان مقیم تھے تو
اکثر مجالس میں حافظ شیرازی کے شعر پڑھتے تھے لیکن ان کے نظریات میں تبدیلی
اس وقت آتی ہے جب وہ ملت اسالمیہ کے احیاء کے داعی بنے تو وہ ہمہ اوست کی
مخالفت کرنے لگے اور ابن عربی کی تعلیمات کو کفر کے مترادف قرار دیا ۔ سیّد
علی عباس کہتے ہیں کہ اس عجیب صورتحال کی طرف سرسیّد نے توجہ دالئی کہ
عالمہ ایک طرف ابن عربی کی تعلیمات کو گمراہ کن قرار دیتے ہیں لیکن دوسری
طرف موالنا جالل الدین رومی کو جو ابن عربی کے ایک شاگرد کے شاگرد اور
وحدت الوجود کے اہم ترجمان کو اپنا پیرومرشد سمجھتے ہیں۔
عالمہ کا یہ شخصی تضاد ایک عام قاری کی سمجھ سے باال تر ہے اسے محقق
ومفکر اور فلسفے سے سوجھ بوجھ رکھنے واال ہی سمجھ سکتا ہے۔
سیّد علی عباس اس اہم نکتے کو پھر ایک بار سامنے التے ہیں کہ عالمہ نے اپنا نقطہ
نظر اس وقت پھر تبدیل کر لیا جب وہ اپنے خطبات رقم کرنے لگے تو انہوں نے
الہیات کو قبول کر لیا بلکہ وہ مغربی فلسفی برگساں سے متاثر ہو
وجود ی صوفیا کی ٰ
کر ذات خداوندی کے ارتقائی سریان کے قائل ہوئے جس کا مطلب خداوندی ارتقاء کی
منازل طے کرنے کے ساتھ تخلیق مسلسل کے عمل میں سرگرم ہے۔
اگالباب" اقبال اور تقابل عقل وجدان "ہے ۔ وہ اقبال کو برگساں کی طرح عقل و خرد
کی تنقیص کرتے ہوئے دیکھتے ہیں ۔ یہاں پر سیّد علی عباس اقبال سے اختالف کرتے
ہوئے عقل و خرد کی اور وجدان و جذبے پر اس کی برتری کے حق میں ٹھوس دالئل
دیتے ہیں ۔ اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو بھی یہی حقیقت سامنے آتی ہے کہ جذبہ و
وجدان بغیر عقل وفکر کی رہنمائی کے ہمیں کسی منزل پر نہیں پہنچائیں گے ۔ اگلے
دو باب"اقبال کے رومانی افکار"اور تاویالت اقبال ہیں ۔ موخرالذکر میں تبصرہ نگار
سیّد صاحب کے حوالے سے بات کرتا ہے کہ انہوں نے اقبال کے نظریہ خودی ،
نظریہ زمان اور حیات بعد ممات کے متعلق ان کے خیاالت کا تجزیہ کیا ہے ۔اقبال کے
ان خیاالت کے ڈانڈے مغربی فالسفر سے ملتے ہیں۔ سیّد صاحب نے انتہائی جانچ
پڑتال سے یہ ماخذ تالش کیے۔ اقبال کا نظریہ خودی فشٹے اور نظریہ زمان برگساں
سے ماخوذ ہے۔ حیات بعدممات کے حوالے سے بھی وہ جرمنی فلسفی فشٹے سے
متاثر ہیں ۔ ایک طرف ان کا خیال ہے کہ جن اشخاص کی خودیاں مضبوط ہوں گی
وہی بقائے دوام کے حق دار ہوں گے باقی سب جسم کی موت کے ساتھ فنا ہوجائیں
گے۔
سیّد صاحب اس نظریے سے حیرت زدہ ہیں کیونکہ اس کی زد براہ راست اسالم کے
نظریہ معاد و بقا پر پڑتی ہے۔ اقبال اس حوالے سے واشگاف الفاظ میں کہتے ہیں
الہی پر منحصر ہے اور
"میرے نزدیک حیات بعد ممات انسانی کوشش اور فضل ٰ
میرے نزدیک کوئی شخص ابدی موت کا خواہش مند ہو تو وہ اسے حاصل کر سکتا
ہے‘‘۔ (ص ،22کل کی بات)
تبصرہ نگار اس پر اقبال کا شکر گزارہے کہ انہوں نے ہمیں جنت اور جہنم کی ایک
اکتا دینے والی المتناہیت کے عالوہ ایک تیسرے امکان سے بھی آگاہ کیا ہے جس میں
ہم مٹی میں مل کر مٹی ہو جائیں گے اور جینے کی مصیبت سے ہمیشہ کے لیے نجات
گے۔ پاجائیں
زیر نظر کتاب کے اگلے دوباب علم کالم کے اثرات و نتائج اور دنیائے اسالم میں
خرد افروزی کی ضرورت’’ان ابواب میں سیّد صاحب کا لہجہ کچھ زیادہ بے باک
اورتُند ہے وہ ماضی کے ان علماء سے ناالں ہیں جنہوں نے مذہب کے نام پر خرد
شمنی کی روایت کو پروان چڑھایا ۔ یہاں وہ امام غزالی ،موالنا رومی اور موالنا
مودودی کے افکار کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں۔ چونکہ سیّد صاحب بغیر لگی لپٹی کہنے
کے عادی ہیں اس لیے وہ مودودی سے بھی بے باکی سے مخاطب ہیں۔ وہ فلسفے اور
سائنس کو بھی علم کالم کی کنیز بناناچاہتے ہیں اور پھر سے مذہب پر علوم کی بنیاد
رکھنے کا وہ تجربہ کرناچاہتے ہیں جو اس سے پہلے بھی ہو چکا ہے اور ناکام رہا
ہے‘‘۔ (ص 22کل کی بات)
وہ موالنا مودودی کے اپنے مقاالت میں سے ایک اقتباس درج کرتے ہیں جو مودودی
کے ذہن کا عکاس ہے۔
سیّد علی عباس اس اقتباس کے بعد مودودی سے بے باکی سے پوچھتے ہیں کہ پھر وہ
بسم اللہ کیوں نہیں کرتے اور کس کے لیے انہوں نے اس کام کو ملتوی کر رکھا ہے۔
اس حوالے سے تبصرہ نگار کہتا ہے کہ یہ باب پوری کتاب کا لُب لباب ہے اور وہ
خود بھی اس سے حرف بحرف متفق ہے کیونکہ سیّد علی عباس محض دوسروں
کوشعور دے کر خود ایک طرف نہیں بیٹھ گئے ۔ اس ضمن میں اُن کی تحریریں
دوسروں کے لیے بھی باعث مشارکت ہیں۔ وہ سیّد صاحب کو مشورہ دیتا ہے کہ خرد
افروزی کے سلسلے میں انہوں نے اپنے وسیع مطالعے اور تجربات کی روشنی میں
اس زندگی اور کائنات کے بارے میں جو کچھ سوچ رکھاہے وہ سامنے لے آئیں اور
اپنے گرد ہم جیسے حقائق کے متالشیوں کا مجمع لگائیں ۔اب وہ ہمیں دوسروں کی
باتیں سنانے کی بجائے اپنی باتیں سنائیں۔
سیّد علی عباس کی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے بین السطور ہم تبصرہ نگار کے زاویہ
ہیں۔ سکتے کر حاصل آشنائی بھی سے نگاہ
کہ وہ حقیقت کا متالشی اور خرد افروزی کا خواہاں ہے وہ ہر جگہ مسلمانوں کی ذلت
خواری سے ناالں ہے اس لیے وہ چاہتا ہے کہ ان تمام سواالت کا جواب بالتعصب علم
و سائنس کی روشنی میں تالش کرنا ہی اس دورکا علم کالم ہو گا ۔
زیر موضوع کتاب میں شامل ساتواں تبصرہ "بروہی لوک کہانیاں"مصنف انور رومان
79 ،صفحات پر مشتمل یہ کتاب قالت پبلشرز،مستونگ قالت سے شائع ہوئی ۔ سن
اشاعت درج نہیں ہے ۔قیمت 1799روپے ہے۔
تبصرہ نگار کتاب کے پس منظر اور انتساب پر مختصراًاظہار خیال کرنے کے بعد
بروہی لوگوں کے بارے میں دیباچے میں مختلف آراء کے حوالے سے بات کرتا ہے
کہ بروہی پاکستان کے قدیم ترین قبائل میں سے ہیں۔
لو ک کہانیاں نسل د رنسل سینہ بہ سینہ چلتی ہیں ۔ ان کا تعلق پڑھنے سے زبانی سننے
سے ہوتاہے ۔ ان کا کوئی مخصوص مصنف نہیں ہوتا بلکہ وہ سب افراد ہوتے ہیں جن
کی زبانوں سے ہوتی ہوئی یہ ارتقاء کی جانب اپنا سفر جاری رکھتی ہیں۔ یہ کہانیاں
واقعیت سے بہت دورلیکن لوگوں کی جذباتی زندگی کے بہت قریب ہوتی ہیں۔
تبصرہ نگار نے یہاں اس مجموعے میں شامل سب سے پہلی کہانی "جگ بیتی "کا
جائزہ ہے ۔ اس کا موضوع عورت کے معاملے میں مرد کی فطری کمزوری ہے ۔
تہذیب و ثقافت اور شرافت و اخالق کے باوجود وہ اپنی اس کمزوری پر غلبہ نہ پاسکا
۔ اس کہانی کا اسلوب سادہ اور دل نشین ہے ۔ کہانی کا عنوان اس کے موضوع کی
عکاسی کرتا ہے۔
چار مزدو رنجار ،صراف ،خیاط اور درویش جو تالش روزگار کے لیے گھر سے
نکلتے ہیں ۔رات کو وہ سنسان صحرا میں پہنچتے ہیں ۔ صحرائی ڈاکو ؤں کے ڈرسے
وہ باری باری پہرہ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں ۔ پہلے نجار کی باری آتی ہے وہ خود
کو مصروف رکھنے کے لیے ایک حسین دوشیزہ کی تصویر بناتا ہے پھر صراف اس
کو زیورات سے آراستہ کرتا ہے ،خیاط خوبصورت لباس پہنا کر ظاہری شخصیت
تعالی سے دُعا
ٰ کی تکمیل کرتا ہے آخر میں درویش اس کے حسن سے متاثر ہو کر اللہ
کرتا ہے کہ اس میں جان ڈال دے ۔ اس کی دعا قبول ہوتی ہے اور وہ سانس لینے
اورچلنے پھرنے لگتی ہے ۔ اب ہر کوئی اس کا دعوے دار بن گیا ۔ وہ کوتوال کے
پاس گئے وہ کہنے لگا یہ میرے مرحوم بھائی کی بیوی ہے اس لیے یہ میرے پاس
رہے گی ۔ وہ ان سب کو بادشاہ کے پاس لے جاتا ہے ۔ بادشاہ دیکھتے ہی کہتا ہے کہ
یہ تو ہماری خادمہ ہے ۔
بعض اوقات حقیقت میں ایسا ہوتا ہے کہ ایک ہی دوشیزہ کے بیک وقت کئی پرستار
نکل آتے ہیں اور صورتحال خاصی گھمبیر ہو جاتی ہے لیکن عین موقع پر پردہ غیب
سے کوئی نیاآدمی آکر اسے اُڑا لے جاتا ہے ۔
تبصرہ نگار کہتا ہے کہ بروہی کہانیوں کے حوالے سے ایک چیز گراں گزرتی ہے
کہ اُردو ترجمے کے دوران تکلف سے کام لیا جاتا ہے اس وجہ سے ان کی سادگی
اور بھول پن ختم ہو جاتا ہے ۔ اس لیے ضروری ہے کہ دوران ترجمہ ان کے قدرتی
اسلوب میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے۔ اس کہانی میں وہ چوتھے آدمی درویش کی
فاضالنہ خو دکالمی پر کڑی تنقید کرتا ہے کیونکہ لوک کہانیوں میں خود کالمی نہیں
ہوتی اگر کبھی ہو بھی تو سادہ اور بے تکلف انداز میں ہوتی ہیں۔وہ اس کوشش کو
خوش آئند قراردیتا ہے اور چاہتا ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہے۔ آخر میں وہ پروفیسر
انور رومان ان کہانیوں کے مولّف کا مختصرا ً تعارف کرواتا ہے اور بتاتا ہے کہ یہ
کہانیاں روزنامہ "امروز"میں شائع ہوئی تھیں ۔اب یہ کتابی صورت میں شائع ہوئی
ہیں۔
زیر نظر کتاب میں شامل آٹھواں تبصرہ "بلوچی گیت"پر ہے ۔مصنف عطاشاد اور عین
سالم ہیں۔ 624صفحات پر مشتمل یہ کتاب قالت پبلشرز مستونگ سے شائع ہوئی ۔
قیمت 2791روپے ہے ۔
تبصرہ نگار عالقائی زبانوں کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ بلوچی زبان کا ایک اپنا
ادب اور لوک گیت ہیں جن سے ہمیں اس سے پہلے کوئی خاص واقفیت نہ تھی لیکن
اس کتاب کی وجہ سے اس زبان کے ادب اور اس کے موضوعات کو سمجھنے میں
ملی۔ مدد
مبصر کچھ مشہور بلوچی گیتوں کا ذکر کرتا ہے جن میں سوت ،الڑوگ ،ہالو،
سرپت ،لولی ،تک ،ڈیہی ،لیلی مور شامل ہیں۔ لولی ایک لوری ہے جس سے بلوچی
ماں کے جذبات کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے بیٹے کی تربیت کس انداز سے کرتی ہے
۔ سوت شادی بیاہ کے مواقع پر گائے جانے والے گیتوں کی مقبول صنف ہے جو لڑکا
ہے۔ مکالمہ منظوم دلچسپ ایک درمیان کے لڑکی اور
تبصرہ نگار کہتا ہے کہ اس کتاب کا اسلوب بہت اچھوتا ہے اس کے ایک صفحہ پر
بلوچی متن ہے اور دوسرے صفحہ پر اُردو میں اس کا منظوم ترجمہ بحیثیت مجموعی
زیر نظر ترجمہ اچھا اور شعری خوبیوں سے آراستہ ہے کہیں کہیں پرتکلف اسلوب
ہے۔ کھٹکتا
آخر میں وہ عالقائی زبانوں میں لوک گیتوں کے سلسلے میں ہونے والے کام کو قابل
ستائش قرار دیتا ہے اور اسے جاری رہنے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے وہ چاہتا ہے
سروں میں ڈھاالجائے۔
کہ انہیں موسیقی کے ُ
شامل کتاب نواں تبصرہ رض یہ فصیح احمد کے افسانوی مجموعے دوپاٹن کے بیچ پر
ہے ۔ یہ تبصرہ اس سے فنون کے شمارہ ،۱،۱مئی ۱۸۱۹ء ،ص ۳۴۰تا ۳۴۶
215صفحات پر مشتمل یہ کتاب مکتبہ ادب جدید الہور سے شائع ہوئی۔ اس کی قیمت
9روپے ہے لیکن سن اشاعت درج نہیں ہے۔ ابتداء میں تبصرہ نگار تعارف کرواتے
ہو ئے کہتا ہے کہ یہ سولہ افسانوں کا مجموعہ ہے۔ ان میں دو افسانے "فنون"کے
شماروں میں شائع ہو چکے ہیں۔
" دوپاٹن کے بیچ "افسانوی مجموعے میں وہ مجموعی طور پر افسانوں کے
موضوعات کا جائزہ لیتا ہے اور چیدہ چیدہ افسانوں کا مجموعی جائزہ لیتے ہوئے آخر
میں افسانہ نگار کا تعارف کرواتا ہے۔
وہ کہتا ہے ان افسانوں کے موضوعات میں تنوع ہے ان میں تازگی اور نیاپن ہے ۔
عورت ہو کر اس نے موضوعات کو چاردیواری تک محدود نہیں رکھا ۔ دوسری اہم
بات فنی پختگی اور اسلوب ہے جو شروع سے آخر تک برقرار رہتا ہے ۔ افسانوں کو
خواہ مخواہ پُراسرار نہیں بنایا ۔ پالٹ زندگی کے بہت قریب ہیں۔
اس کتاب کے بعض افسانوں کا شمار منتخب افسانوں میں ہوتا ہے ۔ ان میں چوہا،
رکھی مائی ،گم نصیب ،ماموں شامل ہیں۔ "چوہا"یہ کہانی شاہ دولہ کے چوہے سے
متعلق ہے ۔ افسانہ نگار نے اس کردار کا مطالعہ بڑی ہمدردی اور حقیقت پسندی سے
کیا ہے ۔ اس کہانی کی شہال کو خاندانی تعلقات کی وجہ سے اس چوہے اجی کے ساتھ
ہمدردی ہوجاتی ہے لیکن وہ اس ہمدردی کو کچھ اور رنگ دیتا ہے اور شائد اسی لیے
اس کا جنسی شعور بیدار ہو جاتا ہے ۔ ایک دن ایک سادہ لوح ہمسائی نے شہال کی
موجودگی میں اجی کی شادی کا ذکر چھیڑا تو وہ خوشی سے بے قابو ہو گیا ۔
’’وہ خوشی کے جنون میں اس کی طرف اشارہ کر کے
پاگلوں کی طرح ہنس رہا تھا ۔اس کا چہرہ اور پنکھے کی
طرح کھڑے ہوئے کان مارے خوشی کے سرخ ہو گئے
تھے اور وہ مارے شرم کے گلنار ہو گئی تھی ۔سب کے
ہنس پڑنے پر وہ کیسی بے تحاشا اُٹھ کر وہاں سے بھاگی
تھی‘‘!۔ (ص ،19کل کی بات)
کہانی کے اختتام پر شہال کو اس ہمدردی کی بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے کیونکہ جب
اس چوہے کا ناآسودہ جنسی جذبہ مرض کے دوروں کی خطرناک صورت اختیار کر
جاتا ہے تو شہال مالی قربانی دے کر اور اپنے خاندان کی عزت کو خطرے میں ڈال
کر اس کے لیے ایک کرائے کی عورت کا بندوبست کرتی ہے اور اسے بے موت
مرنے سے بچاتی ہے۔
عمومی مشاہدہ ہے کہ ایسے لوگوں سے بالوجہ ہمدردی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ان
کے اندر کا شیطان کسی وقت بھی باہر آسکتا ہے اور مرد کے جنسی جذبے کے لیے
ہلکی سے آنچ ہی کافی ہے شائد افسانہ نگار کا بھی کوئی ایسامشاہدہ ہو۔
" رکھی مائی"ایک کرداری افسانہ ہے جس میں تبصرہ نگار اس کے موضوع کے
حوالے سے کہتا ہے کہ یہ ظاہر و باطن کے تضاد کی کہانی ہے ۔ظاہری پرہیزگاری
کے پیچھے مکروہات کے طوفان چھپے ہیں۔
رکھی مائی ایک ادھیڑعمربیوہ عورت بظاہر شرافت کا لبادہ اوڑھے ہوئے تھی اور
اہل محلہ اس پر آنکھ بند کر کے اعتماد کرتے تھے اور اپنی بیٹیوں کو اس کے ساتھ
بال جھجک باہر بھیج دیتے تھے لیکن اچانک وہ کچھ عرصے کے لیے غائب ہو گئی
اور پھر ایک دن یہ خبر ملی کہ مائی رکھی کے ہاں لڑکا پیدا ہواہے۔
"گم نصیب"بھی ایک کرداری کہانی ہے کہ اس میں ایک ہوٹل کے بیرے کے کردار
کی تصویر کشی موثر انداز میں کی گئی ہے اور یہ کردار اصلیت کے ساتھ ہمارے
سامنے آتا ہے۔
"ماموں"اس میں ایک بخیل بزرگ کی داستان ہے جن پر سوروپے کی رقم جمع کرنے
کی دُھن سوار تھی اس کے لیے انہیں بہت جتن کرنے پڑے لیکن جب وہ نوٹ ان کے
ہاتھ آیا تو زیادہ دن کے لیے نہیں اور انہیں اپنی جدائی کا ایسا داغ دے گیا کہ اس سے
وہ جان برنہ ہو سکے۔
زیر موضوع کتاب میں شامل دسواں تبصرہ "جرمنی نامہ"پر ہے ۔ جو فنون کے
شمارے ۱،۱مئی ،جون ۱۸۱۹ء ،ص ۳۴۱تا ۳۶۰میں شائع ہوا۔ مصنف حکیم محمد
سعید دہلوی 982 ،صفحات پر مشتمل یہ کتاب مکتبہ جدید الہور سے شائع ہوئی قیمت
69روپے ،سال اشاعت درج نہیں ہے۔
تبصرہ نگار کے اسلوب میں ادبی چاشنی ہے ۔ تبصرے کا آغاز وہ براہ راست زیر
نظر سفرنامے سے نہیں کرتا بلکہ تبصرہ نگاری کی ایک منفرد روایت رقم کرتے
ہوئے ڈرامائی انداز سے کرتا ہے۔
یہ سفر نامہ اپنے انداز اور موضوع کے لحاظ سے منفرد ہے ۔ یہ محض تفریح کا
ذریعہ نہیں ہے بلکہ بڑے بھائی اپنے پیش لفظ میں لکھتے ہیں۔
اس کے بعد تبصرہ نگار سفرنامہ کی صنف کے حوالے مغربی سفر نگاروں کے
تاثرات بیان کرتا ہے ۔اُردو سفر نگاروں میں وہ محمد خالد اختر کے دوچھوٹے
سفرناموں "کاغانی مہم اور سواتی مہم "کو سفرنامے کے اسلوب پر صحیح پورا
اترنے والے سفرنامے قراردیتا ہے وہ محمود نظامی کے سفرنامہ "نظرنامہ"کو بہتر
قرار دیتا ہے لیکن زبان اور اسلوب اظہار سے مطمئن نہیں ہے۔ سفر نامہ "جرمنی
نامہ "کے حوالے سے وہ قریبا ً چار صفحات میں اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے ۔ زیر
موضوع سفر نامہ اس کے خیال میں بیکن کے انداز میں لکھا گیا ہے ۔ برطانوی مفکر
فرانسس بیکن سفرنامہ کے متعلق اپنے خیاالت کا اظہار اس طرح کرتا ہے۔" سفر میں
جن چیزوں کا مشاہدہ کرناالزم ہے وہ یہ ہیں ۔ شہروں کی دیواریں ،قلعے ،فصیلیں ،
گودیاں ،ساحل ،آثار قدیمہ ،کھنڈرات ،کتب خانے ،درس گاہیں ،مکانات ،باغات ،
بارودخانے وغیرہ باقی رہیں دعوتیں ،شادی بیاہ کی رسوم ،ماتم کی تقریبات اور اس
طرح کے دوسرے تماشے تو سیاحوں کو ان کی طرف زیادہ دھیان نہیں دینا چاہیے"۔
(ص ،96کل کی بات)
زیر تبصرہ سفرنامہ عالمانہ اور سنجیدہ انداز میں لکھا گیا ہے اس میں قاری کو اپنے
ذہن میں اٹھنے والے تمام سواالت کے جواب مل جاتے ہیں ۔ جرمنی کے تمام بڑے
شہروں اور ان میں موجود عمارات کے حاالت تفصیل سے بیان ہوئے ہیں ۔ وہ جرمنی
کے ان ہفتہ واراور ماہانہ ریل کے ٹکٹوں کا ذکر کرتا ہے کہ ایک ٹکٹ خریدنے سے
وہ پورا ہفتہ یا مہینہ کسی بھی گاڑی میں سفر کر سکتے ہیں۔
تبصرہ نگار اس سفر نامہ کے اسلوب کا جائزہ لیتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ موضوعی
انداز میں نہیں لکھا لیکن پھر بھی کہیں کہیں حکیم سعید کی شخصیت کی کچھ
جھلکیاں دکھائی دے جاتی ہیں۔یہ عالمانہ کتابوں کی طرح خشک اور غیر دلچسپ ہے
لیکن ان کے اسلوب بیان میں چاشنی اور لطافت ہے اس لیے دوران مطالعہ اکتاہٹ
نہیں ہوتی کیونکہ اس میں طنزوظرافت کا مال جال تاثر موجود ہے۔
جرمنی میں ایک جگہ کا نام "باڈن باڈن"ہے ۔ حکیم صاحب لکھتے ہیں "کسی طرح یہ
معلوم نہ ہو سکا کہ اس چھوٹے سے شہر کے نام میں ایک ہی لفظ دوبار کیوں
استعمال ہوا ہے ۔ بہت ممکن ہے کہ شہر کی داغ بیل ڈالے جانے کے وقت یہ نام کسی
ہکلے شخص نے تجویز کیا ہو۔ وہ صرف باڈن کہناچاہتا تھا لیکن معذوری کے باعث
وہ اس ے دوبارکہہ گیا اور لوگوں نے جس طرح سنا اختیار کرلیا"۔ (ص ،91کل کی
بات)
آخرمیں تبصرہ نگار اس سفر نامے سے بہت متاثر ہو کر کہتا ہے کہ اگر کبھی خود
جرمنی گیا تو یہ سفر نامہ ضرور ساتھ رکھے گا کیونکہ یہ اسے ایک گائیڈ کا کام دے
گا۔
تبصرہ نگار زیر موضوع کتاب پر تبصرے سے پہلے اس زبان کی تہذیب و ثقافت
اور پس منظر کے حوالے سے بات کرتا ہے کہ مہر عبدالحق کی مرتبہ یہ کتاب
دریائے سندھ کی لہروں کے نام معنون ہے۔ انہوں نے اس زبان کے عوامی گیت بڑی
تگ و دو سے اکٹھے کیے اور روزنامہ "امروز "میں ایک سلسلہ مضامین شائع کیا۔
وہ مہر عبدالحق کی اس کوشش کو خراج تحسین پیش کرتا ہے کہ انہوں نے لوگوں
کے ذہنوں سے لوک گیتوں کے مٹتے ہوئے نقوش کو دوبارہ سے اُجاگر کرنے کی
کوشش کی ہے ۔ عوامی ادب کی مثال نامیاتی وجود کی سی ہے جس کی بڑھوتری
کے لیے خاص ماحول اور گردوپیش کا ہونا ضروری ہے ۔ اسے کتابوں میں محفوظ
کر نا ایک خوش آئند قدم ہے لیکن یہ اس کی نشوونما کی ضمانت نہیں ہے اس کے
لیے ضروری ہے کہ عوام میں اس کے حوالے سے شعور پیدا کیا جائے۔
سرائیکی لوک گیت ہر عمر کے لوگوں کے لیے ایک خاص کشش رکھتے ہیں ۔ بچپن
میں لڑکی کی محبت کا مرکز اس کا بھائی ہوتا ہے اس لیے وہ یہ گیت گاتی ہے۔
ایہوں چیکوں تاں ملّن امیر سیّو میرے ویر کوں مل گئی ہیر سیّو
ترجمہ :یہ اُبٹنا وہ ہے جسے امیر لوگ استعمال کرتے ہیں میرے بھائی کو دلہن بھی
ہیر جیسی ملی ہے۔
چونکہ تبصرہ نگار کا تعلق ایک سرائیکی خطے سے ہے اس لیے اُسے اس عوامی
ہے۔ لگاؤ والہانہ سے منظر پس کے اس اور زبان
تبصرہ نگارکہتا ہے کہ مہر عبدالحق نے ایک لڑکی کے ہر طرح کے جذبات کی
ترجمانی کی ہے ۔ بچپن کے بعد جب وہ نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی ہے تو اس
نیارخ اختیار کرتے ہیں۔
کے جذبات ایک ُ
ترجمہ :دل انتظار کی گھڑیاں گزار رہا ہے ،اے اللہ تو ملنے کا سبب بنا دے۔ محبوب
کا ملنا اب تو بہت دشوار نظر آنے لگا ہے۔ وقت کا دھارا کبھی نہیں ُرکتا اور بہتا ہی
چال جاتا ہے ان منزلوں کے بعد مامتا کی منزل آتی ہے تو جذبات میں چاشنی اُمڈآتی
ہے وہ محبت بھرے لہجے میں لوری کا یہ گیت گاتی ہے۔
ترجمہ :میں لوری دیتے ہوئے تجھ پر قربان ہوجاؤں اور تمہیں لوری دیتے کبھی نہ
تھکوں ،یہاں تک کہ تمہاری آنکھوں میں خوشی کی نیند آکے بس جائے۔
اس عوامی زبان میں ماہیے ،ڈھولے ،مزاحیہ گیت اور درگاہوں پر گائے جانے والے
گیت شامل ہیں۔
تبصرے سے پہلے چار صفحات پر نواب محمد بہادر خاں کے حاالت زندگی
،شخصیت کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ تمام تبصرے الگ الگ موضوع پر ہیں ۔ سادہ اور
تصنع سے پاک اسلوب میں بین السطور ہمیں تبصرہ نگار کی فکر سرگرداں دکھائی
دیتی ہے ۔ اس نے ہر موضوع کا جائزہ معروضی انداز میں لیا ہے اور انتہائی
دیانتدارانہ انداز سے مصنف کا نقطہ نظر واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔
بہادریارجنگ (6719۔ )6722صرف چالیس برس جیے ۔ انہوں نے ابتدائی عمر میں
علوم مشرقی کی تعلیم پائی تھی اور اس سلسلے میں اکابر علماء کی صحبت کا فیض
اٹھایا تھا ۔ بعد میں وہ مغربی تعلیم کے حصول کے لیے پبلک سکول میں داخل ہوئے
لیکن اس میں وہ ابھی میٹرک ہی کے مرحلے میں تھے کہ سلسلہ تعلیم ترک دینا پڑا ۔
حیدرآباد میں انہوں نے ریاست کے مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم "مجلس
اتحادالمسلمین"کے معامالت کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ حیدرآبادسے باہر کی وسیع
تردنیا میں پہلے خارکساروں کی عسکری تنظیم نے کافی متاثر کیا لیکن بعد میں ان
کی ہمدردیاں مسلم لیگ کے ساتھ ہوگئیں۔ (ص 81کل کی بات)
خسرودکن آصف جاہ نے انہیں "بہادریارجنگ کا خطاب دیا"وہ اصولوں میں اٹل اور
قول کے پکے تھے او ر اس سلسلے میں کبھی کوئی رورعایت نہیں رکھتے تھے اس
کا اندازہ ان کے اس مکتوب سے ہوتا ہے جوانہوں نے ایڈیٹر زمزم کو مورخہ
49نومبر 6726ء میں لکھا تھا۔
ان کے مزید دو اور خطوط شامل تبصرہ ہیں جن میں وہ اسالمی حکومت اور قرآنی
تعلیمات کے اجراء پر زور دیتے ہیں ۔ اس میں وہ ایک انتہاپسند شخصیت کے روپ
میں سامنے آتے ہیں۔
اپنے مکتوب مورخہ 62فروری ،6722بنام حمید نظامی ایڈیٹر نوائے وقت کے نام
لکھتے ہیں۔
پاکستان بننے سے پیشتر ان کے خطوط کا موضوع زیادہ تر یہی تھا کہ پاکستان بننے
الہی دستور اور قرآنی حکومت ہو گی اور اس معاملے میں وہ کوئی اور
کے بعد وہاں ٰ
بات سننے کے قائل نہ تھے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ قائد اعظم کے پیش روتھے
۔ اس کا اظہار اُن کے اس خط سے ہوتا ہے جو انہوں نے موالنا محمد علی صاحب
کے نام مورخہ 68اپریل 6726ء میں لکھا۔" مسلم لیگ کے ساتھ اسی لیے ہوں کہ
غیرشعوری طور پر اس کا قائد اس منزل کی طرف جارہا ہے ۔ پاکستان کے دستور
حکومت کی تحریک اس سال کے اجالس میں نہ آسکی لیکن یہ دیکھ کر خوشی ہوئی
کہ اس مقصد کو م قصد حیات سمجھنے والوں کا ایک خاصا بڑا گروہ لیگ میں پیدا ہو
گیا ہے۔
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ ان تینوں خطوط میں جو مختلف شخصیات کو لکھے ۔ یہ
حقیقت سامنے آتی ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے مسلم لیگ سمیت قائد اعظم کے ذہن
میں پاکستان دستور حکومت کا کوئی واضح تصور موجود نہیں تھا ۔ یہ بہادر یار جنگ
اور ان جیسا سوچنے والوں کی حکمت تھی۔
مزید برآں تبصرہ نگار مکتوب نگاری کی صنف اور اہم مکتوب نگاروں کے حوالے
سے بات کرتا ہے جو کہ زیر نظر تبصرہ سے متعلقہ نہیں ہے ۔آخر میں ان خطوط کی
اہمیت کو واضح کرتے ہوئے وہ کہتا ہے کہ یہ مستقبل کے مورخین کے لیے ایک اہم
دستاویز ہے۔
میں تبصرہ نگار کی فکر کو خراج تحسین پیش کرونگی کہ موضوع سے متعلق اس
کی سوچ میں اس قدر گہرائی ہے اور حاالت حاضرہ پر اس کی گرفت کتنی مضبوط
ہے کہ اس نے ایک مقامی روزنامے میں یہ سوال پڑھ کر کہ آیا پاکستان میں اسالمی
اور قرآنی نظام حکومت کا قیام قائداعظم کے پیش نظر تھا یانہیں؟ اس ضمن میں
مختلف لوگوں نے اپنی آراء پیش کیں ۔ تبصرہ نگار نے اس سوال کا جواب بہادر یار
جنگ کے مجموعہ مکاتیب سے حاصل کیا اور اس پر ایک مفصل تبصرہ تحریرکیا۔
زیر موضوع کتاب میں شامل تیرھواں تبصرہ "خالفت راشدہ اور جمہوری قدریں"پر
ہے ۔ مصنف رشید اختر ندوی 6112 ،صفحات پر مشتمل یہ کتاب ادارہ معارف ملّی ،
میکلوڈ روڈ ،الہور سے شائع ہوئی ۔ اس کتاب کی قیمت 49روپے ہے ۔ سال اشاعت
ندارد یہ تبصرہ فنون کے شمارہ ۴ ،۳جنوری ،فروری ۱۸۱۱میں ص ۴۱۳تا ۴۱۴
میں شائع ہوا۔
تبصرہ نگار تاریخ کے حوالے سے خاصا تنقیدی شعور رکھتا ہے ۔ زیر نظر کتاب
کے عنوان نے اسے غلط فہمی میں مبتال کر دیا اور وہ اسے ایک ایسی کتاب سمجھ
بیٹھا جس میں خلفائے راشدین کے عہد کے ان واقعات ،معامالت اور پالیسیوں کا
تذکرہ ہو گا جن سے جمہوری قدروں کا تعین ہوگا اور اس سے قاری کی سوچ کے در
بھی وا ہوتے ہوں گے لیکن چند صفحات کے مطالعہ کے بعد اندازہ ہوا کہ ایسا کچھ
بھی نہیں ہے۔
تبصرہ نگار سے یہ معمہ حل نہیں ہوتا کہ کتاب کا یہ نام رکھنے کی وجہ کیا ہے؟
کیونکہ اس میں تحقیق و تجزیہ سرے سے موجود ہی نہیں۔ اس کے باوجود وہ اس کی
افادیت سے انکاری نہیں ۔ اسے مصنف کے ذوق مطالعہ پر کوئی شبہ نہیں ۔ مصنف
کا اسلوب واضح اور دل نشین ہے لیکن یہ لب و لہجہ ایک مورخ کے لہجے سے میل
نہیں کھاتا ۔ اس تصنیف میں پہلے چار خلفاء کے دورکی فتوحات اور جنگی مہمات
کی تاریخ رقم ہے۔
مبصر چونکہ ایک باصالحیت ادیب ہے اس کا تاریخی اور لسانی شعور بہت بلند ہے
اس لیے وہ اظہار افسوس کرتا ہے کہ تاریخ تصنیف کرنے کے لیے ایک فلسفیانہ
اورابن خلدونی ذہن کی ضرورت ہے ۔ تبصرہ نگار نے ان خامیوں کا اظہار بھی
تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے شائستگی سے کیا ہے۔
شامل کتاب چودھواں تبصرہ "دربار ملّی"پر ہے ۔ یہ مئی ،جون ۱۸۱۸فنون ،ص
۴۱۶تا ۴۸۰میں شائع ہوا۔ انتخاب و ترتیب ڈاکٹر ایس ایم اکرام ،ڈاکٹر وحید قریشی ،
ترجمہ ،تعلیقات وحواشی خواجہ عبدالحمید یزدانی 6611 ،صفحات (متن ،142
حواشی )911قیمت 41روپے ،مجلس ترقی ادب کلب روڈ ،الہور نے شائع کی۔ سال
اشاعت درج نہیں ہے۔تبصرہ نگارزیر نظر کتاب کا تعارف چند سطور میں کرواتا
ہے۔
’’پاکستان وہند میں نوسوبرس (گیارھویں صدی سے انیسویں صدی)کے اس طویل
عرصے پر پھیلی ہوئی فارسی انشاء وتالیف کا ایک انتخاب ملک کے دونامور
فاضلوں ڈاکٹر ایس ایم اکرام اور ڈاکٹر وحید قریشی نے "دربار ملی "کے نام سے
مرتب کیا تھا ۔زیر نظر کتاب اس انتخاب کا اُردو ترجمہ ہے جس سے مقصود اس
انتخاب کو اُردو خواں قارئین کے وسیع تر حلقے میں روشناس کرانا ہے‘‘۔
اس کتاب کا فارسی سے اُردو ترجمہ فاضل مترجم خواجہ عبدالحمید یزدانی نے کیا ۔
بات ترجمے تک محدود نہیں رہی بلکہ انہوں نے تعلیقات و حواشی پر مشتمل
تقریباًاصل کتاب کی ضخامت جتنی ایک اور کتاب تیار کر دی ۔ اس سے کتاب کی
افادیت اور جامعیت میں گراں قدر اضافہ ہوا۔ اس میں پاک و ہند کی ایک ہزار سالہ
علمی ،سیاسی ،مذہبی اور ثقافتی تاریخ کا پورا باب رقم ہے۔
فارسی اہل قلم کے ساتھ ساتھ موضوعات کا تنوع بھی صوفیاء و علماء حکمران طبقے
،مورخین ان کے نام اور بھی بہت سے موضوعات ہیں ۔اس مجموعے میں
16مصنفین کی تحریروں کا انتخاب شامل ہے ۔
تبصرہ نگار نے مذکورہ باال شخصیات کی تحاریر کے اقتباسات بطور نمونہ پیش کیے
ہیں۔ تجرد کی زندگی کے حوالے سے داتا گنج بخش کے اقوال درج کیے ہیں۔ امیر
خسرواپنی مجلس میں ایک مغنیہ ترمنی خاتون کی تعریف کرتے ہیں ۔ حضرت نظام
الدین کے ملفوظات شامل ہیں۔ عورت کے حوالے سے داناؤں کے اقوال ،تمباکو
،اصول موسیقی ،غالب کے نزدیک مکتوب نگاری کے آداب اور ان کے عالوہ
مختلف نوع کے مضامین شامل ہیں ۔ عورت کے حوالے سے حضرت علی کا دلچسپ
قول بھی شامل ہے۔
بعض اوقات ترجمہ نگاری بھی اسلوب کی چاشنی کھو دیتی ہے اس لیے کچھ
موضوعات کے حوالے سے یہی کہا جاسکتا ہے کہ ان میں نہ کوئی ندرت ہے اور نہ
اسلوب کا ظاہر ی ُحسن نظر آتا ہے لیکن ترجمے کا معیار عمومی طور پر اچھاہے۔
مبصر آخر میں کچھ کوتاہیوں کی طرف توجہ دالتا ہے ۔ وہ مترجم کے اتنے ضخیم
کام کو سراہتے ہیں کہ اتنے مصروف دور میں اس کام کے لیے وقت نکالنا جان
جوکھم ہے وہ کچھ بے اعتدالیوں کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ حواشی کے لیے انہوں
نے حدود کار کا تعین نہیں کیا ۔ اگر ان کو مناسب انتخاب کے ساتھ قلم بند کیا جاتا تو
زیادہ مناسب ہوتا اور کتاب ایک معقول حجم کے اندر رہتی۔ دوسری کمی اشاریے کی
غیر موجودگی ہے جو اس پائے کی دستاویز میں بُری طرح کھٹکتی ہے ۔
مبصر یہ مفید مشورے اس لیے دیتا ہے کہ اگر دوسرا ایڈیشن شائع ہو تو ان خامیوں
کی تالفی ہو جائے ۔ اس کے وسیع المطالعہ ذہن میں اس موضوع سے متعلق معلومات
کا ذخیرہ موجود ہے۔
کتاب میں شامل پندرھواں تبصرہ "اسالم پاکستان میں"پر ہے ۔ مصنف پروفیسر محمد
عثمان 161 ،صفحات پر مشتمل یہ کتاب مکتبہ جدید الہور سے شائع ہوئی ،قیمت
9روپے ،سال اشاعت درج نہیں ہے۔یہ تبصرہ فنون کے شمارہ ۱،۱نومبر ،دسمبر
۱۸۱۸ء میں ،ص ۶۰۱تا ۶۱۱پر شائع ہوا۔
تبصرہ نگار کتاب کے نام سے اختالف کرتا ہے کیونکہ اس سے قاری اس اُلجھن کا
شکار ہو جاتا ہے کہ زیر نظر کتاب میں اس سفر کی کہانی بیان ہوئی ہے جو قیام
پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہوا لیکن اس کتاب میں ایسے کسی سفر کی داستان نہیں
بیان ہوئی ہے اس کے تعارف میں وہ کہتا ہے کہ یہ پروفیسر محمد عثمان کے ان
مضامین کا مجموعہ ہے جو انہوں نے پاکستان میں اسالمی فکر اور اس کے رجال
کے حوالے سے لکھے تھے۔
زیر تبصرہ کتاب میں وہ مصنف کی فکر کا جائزہ لیتے ہوئے کہتا ہے پاکستان میں
اسالم کے بارے میں جتنے بھی فکری اور اعتقادی رویے پائے جاتے ہیں ان میں
انفرادی نقطہ نظر کو چھوڑ کر تین بڑے مدارس فکر میں تقسیم کیے جاسکتے ہیں۔
پہال مدرسہ :روایت پسندی کے زمرے میں آئے گا جو اسالم کی نشاۃ ثانیہ اس انداز
میں چاہتے ہیں کہ قرآن کے ساتھ احادیث اور آثار سلف بھی اپنی تمام ترجزئیات کے
ساتھ واجب العمل ٹھہریں ۔
یہاں صاحب تبصرہ کہتا ہے کہ اتنی ساری پابندیاں لگ جانے کے بعد زندگی اور
گا۔ جائے رہ کیا باقی میں معاشرے
دوسرا مدرسہ :اباحتی یا جدّت پسند لوگوں کا ہے ان کے نزدیک اسالم کی کوئی تعلیم
اور قرآن کی کوئی آیت اپنے مفہوم میں اتنی قطعی اور معین نہیں ہے کہ زمانے اور
حاالت کے مطابق ان کی نئی تعبیرنہ کی جاسکے۔
تیسرمدرسہ :یہ اعتدال پسند لوگوں کا ہے۔ یہ اپنی کوئی باقاعدہ تنظیم نہیں رکھتا ۔ اس
میں ملک کے ذہین طبقے کا ایک بڑا حصہ اور کچھ ادارے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آج
کا مسلمان ذہنی اور فکری طور پر بہت آگے نکل آیا ہے اس کے عقلی ،جذباتی اور
حسی تقاضوں میں تبدیلی رونما ہو چکی ہے ۔ دوسری اقوام کے ساتھ روابط رکھنے
کے لیے اصل اور بنیادی تعلیمات کو چھوڑ کر ضمنی اور روایاتی تعلیمات کے بارے
میں اپنے نقطۂ نظر میں تبدیلی پیداکرنی ہو گی۔
جہاد کے متعلق پروفیسر عثمان کی تحقیق یہ ہے کہ جنگ و قتال کا حکم ہمیشہ کے
لیے نہیں بلکہ صرف ان لوگوں کے خالف ہے جو مذہبی آزادی سلب کرنے کی
کوشش کریں ۔ ان کا نظریہ روایتی عقیدے کی ضد ہے۔
پردہ کے حوالے سے پروفیسر عثمان کے دالئل ٹھوس سنجیدہ غور کے قابل ہیں ۔ وہ
کہتے ہیں کہ قرآن کی آیات پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ پردے کے احکامات
کچھ خاص حاالت میں دیے گئے تھے جب مدینہ میں مسلمان ابھی طاقتور نہ تھے اور
منافقین کا ایک گروہ ایساتھا جو راہ چلتی ہوئی مسلمان عورتوں کو چھیڑتا اورتنگ
کرتا تھا اس لیے عورتوں کو ہدایت کی گئی کہ اپنے اوپر جلباب اوڑھ لیا کریں ۔ وہ
کہتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اسالم کے نظام معیشت میں وہ سارا مواد موجود ہے جس سے
دورحاضر کے تقاضوں کے مطابق دولت کی منصفانہ تقسیم کے مقصد کو عملی جامہ
پہنایا جاسکتا ہے۔
تبصرہ نگار کہتا ہے کہ ان مباحث کے عالوہ اس کتاب میں سرسیّد احمد خان ،عالمہ
اقبال ،آغا خاں مرحوم ،مودودی ،خلیفہ عبدالحکیم جیسی شخصیات کے نظریات پر
بھی بحث ملے گی لیکن انہوں نے وسعت ظرف کا دامن نہیں چھوڑا ۔ مودودی کی
شخصی خامیوں کا تجزیہ کرتے ہوئے انہوں نے ان کی خوبیوں سے صرف نظرنہیں
کیا۔
مصنف نے اس کتاب میں دودانشورشخصیات ڈاکٹر غالم جیالنی اور پروفیسر اشفاق
علی خاں کے خاکے شامل کیے ہیں لیکن مبصر کے خیال میں یہ خاکے کتاب کے
موضوع سے میل نہیں کھاتے ۔شاید انہوں نے اس کتاب کی اشاعت کو موقع غنیمت
جان کر اس میں شامل کر دیے ۔
مذکوراالول خاکہ خاصے کی چیز ہے ان کا اسلوب ادبی لطافت اور چاشنی سے
بھرپور ہے لیکن چونکہ وہ پنجابی نژاد ہیں اس لیے مبصر اُن کے انتساب کے حوالے
سے اسلوب کا جائزہ لیتے ہوئے کہتا ہے کہ جملوں میں ربط نہیں ہے۔
’’اسالمی فکر کی اس روایت کے نام جسے سرسیّد احمد
خاں نے آغاز اور عالمہ اقبال نے مستحکم کیا‘‘(ص ،669
کل کی بات)
شاید اسی لیے اہل زبان اُردو ہم پنجابیوں کے بارے یہ رائے قائم کرتے ہیں کہ زبان
سکتا۔ ہو نہیں مستند محاورہ کا ان میں
زیر موضوع کتاب میں شامل سولہواں تبصرہ "االخبار الطوال(مفصل احوال تاریخ)ابو
حنیفہ الدینوری ،ترجمہ پروفیسر محمد منور961 ،صفحات پر مشتمل یہ کتاب مرکزی
اُردو بورڈ الہور سے شائع ہوئی ۔ قیمت 61روپے ہے سن اشاعت درج نہیں۔ زیر نظر
کتاب کا مصنف اپنے وقت کا بہت بڑا عالم اور ادیب تھا ۔اس نے مختلف علوم و فنون
کے حوالے سے کتب تصنیف کیں ۔ ان کی کثیر تعداد حوادث زمانہ کی نذر ہو گئی ۔
تبصرہ نگار کو صرف مذکور ہ باال تاریخی کتاب تک رسائی حاصل ہوئی ہے ۔ وہ
کہتا ہے کہ ابو حنیفہ الدینوری کی اس کتاب کی وجہ شہرت تاریخ کے انداز میں لکھی
جانے والی پہلی کتاب ہے ۔
اس کتاب میں مندرجات کا ایسا حصہ ہے جو مصنف کا آنکھوں دیکھا ہے ۔ ایک حصہ
سنا جنہوں نے براہ راست کا مشاہدہ کیا تھا ۔ عباسی
وہ ہے جو اس نے ان لوگوں سے ُ
حکومت کے اوائل کے زمانے کی تاریخ اور مختار کے فتنے کے بعد اُموی حکومت
کا زوال اس کے سامنے کی باتیں ہیں ۔ حادثہ کربال اور فتنہ خوارج ،حضرت عائشہ
و حضرت علی اور امیر معاویہ کے درمیان ہونے والی لڑائیوں کی تفصیل وہ چشم دید
گواہوں کے حوالے سے بیان کرتا ہے ۔
تبصرہ نگار کتاب کے تاریخی استناد سے مطمئن نہیں خصوصا ً ماقبل اسالم دورسے ۔
عمر کے
یہ کتاب حضرت آدم ؑ سے لے کر سلطنت ایران کو چھوتی ہوئی حضرت ؓ
زمانے تک کا احاطہ کرتی ہے لیکن یہ سارا زمانہ ڈیڑھ سو صفحات سے کم ہے ۔ اس
حصے میں مصنف نے تاریخی اساطیر پر اکتفا کیا ہے۔
مبصر اُن تاریخی تسامحات کی نشاندہی کرتا ہے جن میں مختلف شخصیات کے ناموں
کو خلط ملط کیا گیا ۔ مصنف نے واقعات میں اسناد کا حوالہ ضروری نہیں سمجھا اور
سنین کا تذکرہ بھی نہیں کیا ۔ اس طرح کی صورتحال میں واقعات کی تحقیق و تصدیق
مشکل ہو جاتی ہے۔ اس تاریخی کتاب کے اسلوب کے حوالے سے تبصرہ نگار کہتا
ہے کہ اس کی تاریخی حیثیت مستند نہیں ہے لیکن ایک تاریخی تذکرے کی حیثیت
سے یہ اتنی دلچسپ اور مسحورکن ہے کہ قاری اس کی جادوبیانی میں کھو کر رہ
جاتا ہے ۔ مصنف کا عربی اسلوب بہت لطیف اور بلیغ ہے۔
تبصرہ نگار دوران تبصرہ ژرف نگاہی کا ثبوت دیتے ہوئے ان معنوی اغالط کی
طرف اشارہ کرتا ہے جو مترجم نے محض اپنے گمان سے ترجمہ کی ہیں لیکن اس
سے کتاب کے بحیثیت مجموعی ترجمے پر کوئی اثر نہیں پڑا ۔ اس کا اُردومطالعہ
عربی! جتناکہ ہے دلچسپ اتنا بھی
سول) پر ہے ۔
زیر موضوع کتاب میں شامل سترہواں تبصرہ "الہمزیۃ النبویہ"(نعت ر ؐ
شاعر امیرالشعراء احمد شوقی ،ترجمہ وتشریح حافظ قاری فیوض الرحمن ایم اے ،
المکتبہ العلمیۃ لیک روڈ ،الہور۔ یہ تبصرہ فنون کے شمارہ ۴فروری ۱۸۹۰ء ،
ص ۱۱۱تا ۱۱۸میں شائع ہوا۔ تبصرہ نگارآغاز میں چند اہم عربی شعراء کا تذکرہ
کرتا ہے اس کے بعد زمانہ قریب میں مصر کے امیر الشعراء احمد شوقی (متوفی
حضورکی مدح میں ایک قصیدہ ہمزہ
ؐ )6714کے قصیدے کا ذکر کرتا ہے ۔ اس نے
کے قافیہ کے ساتھ کہا ۔ اس نعتیہ قصیدے کا ترجمہ جامعہ اسالمیہ الہور کے سربراہ
قاری فیوض الرحمن ایم اے نے کیا ہے ۔ یہ ترجمہ ایم اے عربی کے طلبہ کے لیے
کیا گیا ہے اس لیے اس ترجمے کے ساتھ تشریح بھی ہے۔
دوران تبصرہ مبصر نے بطور نمونہ چند مثالیں بھی پیش کی ہیں جس سے مبصر کی
عربی دانی پر گرفت نظر آتی ہے۔
قاری صاحب نے موالنا محمد ناظم ندوی کے اس خیال کی تردید کرنے کی کوشش
کی ہے کہ بوصیری کے قصیدہ بُردہ میں جو اثروسوز اور محبت رسول ہے وہ شوقی
کی نظم میں نہیں۔ موالنا محمد ناظم کی یہ رائے بالکل صحیح ہے لیکن شاید قاری کو
اس کا علم نہیں۔
اس کتاب کی تشکیل میں جن اصحاب نے حصہ لیا ان میں سے کسی کی بھی اس
موضوع پر گرفت نظر نہیں آتی ۔
کتاب کی تقریظ لکھنے والے کے حوالے سے تبصرہ نگار کی رائے مالحظہ کریں ۔
"کتاب کی تقریظ لکھنے والے ایک فاضل موالنا محمد اجمل خاں صاحب نے شاعر
کو موالنا احمد شوقی مصری لکھا ہے ۔ ہم ان کی خدمت میں موالنا شوقی کا یہ شعر
پیش کرنے کی اجازت چاہتے ہیں ۔
ترجمہ :رمضان چال گیا ،اب تو لے آ ،اے ساقی کہ ایک مشاق روح
اپنے شوق کی راہ دیکھتی ہے۔
میری رائے میں اس طرح کا ترجمہ ان طلبہ پر ظلم کے مترادف ہے کیونکہ یہ ان
کے مستقبل کے لیے کسی خطرے سے کم نہیں ۔ ادارے کے سربراہ کی علمی
صورتحال کا یہ حال ہے تو دیگر اساتذہ اور طلبہ تو پھر قابل رحم ہیں۔ اس فاضل
مترجم نے اپنے ذوق مطالعہ کے اظہار کے لیے بیالیس کتابوں کا حوالہ دیا ہے
حاالنکہ اس کے لیے صرف دو معیاری کتب ہی کافی تھیں۔
زیر موضوع کتاب میں شامل اٹھارہواں تبصرہ "سنہرا دیس "پر ہے مصنف
وفاراشدی464 ،صفحات پر مشتمل یہ کتاب ادارہ مطبوعات ،پاکستان کراچی سے
شائع ہوئی ۔ قیمت 1791روپے ہے ۔ سن اشاعت درج نہیں ہے ۔
زیر تبصرہ کت اب سے پہلے مصنف وفاراشدی کے متعلق تبصرہ نگار کا نقطہ نظر
مالحظہ ہو۔
مصنف کا اسلوب سلجھا ہوااورمتوازن ہے اس لیے قاری اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوتا ۔
زیر تبصرہ کتاب بنگال کے حوالے سے بنیادی اور تاریخی معلومات پر مبنی ہے ۔
قدیم وقتوں میں بنگال میں تین قبیلے ونگا ،گورا،اور پنڈرا آباد تھے۔
بنگال میں اسالمی عہد کا آغاز قطب الدین ایبک کے ترک سپہ ساالر بختیارخلجی کی
فتح کے ساتھ تیرہویں صدی سے ہوا لیکن اسالمی اشاعت کا آغاز عرب تاجروں کے
ساتھ آنے والے مسلمان مبلغین سے ہوا ۔ اسالمی فتح سے پہلے سنسکرت بعد میں
بنگلہ زبان نے اس کی جگہ لے لی۔
بنگال کے متعلق یہ کتاب ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے اس لیے ہر
کوئی اس کا مطالعہ کرنا چاہے گا ۔ ضلع سہلٹ کے باب میں سب سے پہلے انگریز
ریذیڈنٹ تھیکرے کا ذکرکرتاہے وہ یہاں جس بنگلے میں مقیم تھا اب گورنمنٹ کالج
کے پرنسپل کی رہائش گاہ ہے ۔ اس کا ذکر اس خوبصورتی سے کیا ہے کہ قاری کچھ
دیر اس کی مسحورکن فضا میں کھو جاتا ہے۔
زیر نظر کتاب میں ایک باب بنگال کے پوتھی ادب پر ہے ۔ ان پوتھیوں کو پڑھنے کا
ایک خاص انداز ہ ے ۔ یہ شام کے وقت ایک مجمع کے سامنے پڑھ کر سنائی جاتی
ہیں۔ ان میں مثنوی کے رنگ میں اسالمی تہذیب و روایات سے متعلق قصے اور
کہانیاں منظوم کی جاتی ہیں۔
مشرقی پاکستان کا عالقائی ادب پاکستان کے عالقائی ادب کے مقابلے میں زیادہ
باافراط ہے۔
زیر نظر کتاب کے تبصرے میں تبصرہ نگار نے خالف توقع اپنی ذاتی معلومات کا
ذخیرہ پیش نہیں کیا اس سے تبصرے کی فضاء بوجھل پن سے بچ گئی ۔ یہاں ایک اور
پہلو بھی سامنے آتا ہے تبصرہ نگار تنقید برائے تنقید کا قائل نہیں بلکہ وہ جہاں
ضروری سمجھتا ہے وہیں اپنی بے الگ رائے کا اظہار کرتا ہے اور ضروری
مشورے بھی دیتا ہے۔
زیر موضوع میں شامل انیسواں تبصرہ "کھویا ہوا اُفق (مضامین کا مجموعہ)مصنف
محمد خالد اختر 119 ،صفحات پر مشتمل یہ کتاب مکتبہ جدید الہور سے شائع ہوئی ۔
قیمت 2791روپے ہے ۔ سن اشاعت درج نہیں ہے۔
محمد خالد اختر کا شمار تبصرہ نگار کے قریبی دوستوں میں ہوتا ہے اس لیے اس
کے حوالے سے لکھتے ہوئے مبصر کے قلم پر بے خودی کی کیفیت طاری ہو جاتی
ہے اس لیے وہ اپنی خاص ترنگ میں زیر تبصرہ کتاب سے پہلے مصنف کی دوسری
کتب کا تعارف کرواتا ہے اور ان کے موضوع اور اسلوب کے حوالے سے بات کرتا
ہے جو یقیناًایک معلوماتی پہلو ہے لیکن زیر تبصرہ موضوع سے غیر متعلق ہے۔ زیر
تبصرہ کتاب کے حوالے سے وہ کہتا ہے۔
اس مجموعے میں شامل پہلی کہانی "کھویا ہوا اُفق "موضوع کے لحاظ سے ایک
مکمل اور جذبات انگیز کہانی ہے جو اپنے تخلیق کا ر کو بھی آسودگی عطاکرتی ہے
۔ یہ ہندوؤں کے مقدس شہر ہردوار میں مصنف کی ایک سفری آپ بیتی کے لہجے
میں شروع ہوتی ہے لیکن جب اس میں ایک ایسی باؤلی عورت کا کردار داخل ہوتا
ہے جو اپنے کئی نام بتاتی ہے اور تیرہ برس سے گنگا مائی کے چرنوں میں پڑے
اپنے رام کا انتظار کررہی ہے تو یہ ایک شیریں افسانے کی صورت اختیار کر جاتی
ہے ۔
فورتھ ڈائمنشن (چوتھی بُعد ) یہ بھی ایک سنجیدہ آپ بیتی ہے جس میں مصنف اپنا وہ
انوکھا اور ناقابل تشریح تجربہ بیان کرتا ہے جو ہم میں سے اکثر لوگوں کے ساتھ پیش
آتا ہے لیکن اسے لفظوں میں ڈھالنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ بعض اوقات جو
منظر کبھی سوتے جاگتے ہماری یادوں میں محفوظ ہوتا ہے وہی عمر کے شعوری
دور میں ہمارے سامنے آجاتا ہے یہی اس کہانی کا موضو ع ہے۔
‘‘ مقیاس المحبت"ایک فینٹسی ہے جس میں افسانہ نگار نے اپنے اچھوتے تخیل سے
ایک ایسا آلہ ایجاد کیا ہے جسے کالئی پر باندھ کر سامنے آنے والے انسان کے
حوالے سے دیکھ سکتے ہو کہ اس کے دل میں آپ کے لیے کتنی محبت ہے۔ اس
کہانی کا ہیرو جب اسے اپنی محبوبہ پر استعمال کرتا ہے تو ایک لمحے میں محبت کا
راز فاش ہو جاتا ہے کیونکہ اس آلے کی سوئی نفرت کے آخری درجے کی طرف
اشارہ کرتی ہے اور ہیرو ڈاکٹر غریب محمد دل برداشتہ ہو کر خود کو لیاری کی
لہروں کی نذر کر دیتا ہے ۔ اس فینٹسی کا اختتام انتہائی الم ناک ہوتا ہے۔
ان افسانوں میں افسانہ نگار کا اسلوب سادہ اور دل نشین ہے ۔ وہ اپنی فکر اور اسلوب
سے عام خیال کو خاص انداز میں ڈھال دیتا ہے۔ سفرنامہ کی صنف میں محمد خالد
اختر نے مغربی طرز کو اُردو میں برت کر ایک نئے اسلوب سے متعارف کروایا ہے
جس میں عمارات کے ساتھ ساتھ شخصی کرداروں کا داخلی مطالعہ بھی کیا جاتا ہے۔
ڈیپلو سے نوکوٹ تک اور دہقانی یونیورسٹی دوسفری کہانیاں ہیں جس میں ہم سفر
نگار کی شخصیت کا داخلی مطالعہ کرتے ہیں ۔ اس میں اس کے دوست احمد ندیم
قاسمی نے بھی کافی کام کیا اور یہ اپنی اصل حالت میں دونوں کے مشترکہ ناموں
سے شائع ہوئی تھی۔
محمد خالد اختر بہت ذہین اور باصالحیت ادیب تھا لیکن دنیائے ادب میں اسے وہ مقام
حاصل نہ ہو سکا جس کا حق دار تھا ۔ تبصرہ نگار کے جی میں اس زیادتی کا بہت
قلق ہے وہ کہتا ہے کہ اس کا اسلوب اور مزاح مغربی ہے اس لیے مغربی ادب سے
مانوس لوگ ہی اس کی تحریروں سے لُطف اٹھا سکتے ہیں ۔ اس کی تحریروں کے
کردار ہمارے آس پاس ہی بستے ہیں۔ اس کا گناہ یہ ہے کہ وہ انگریزی میں سوچتا اور
اُردو میں لکھتا ہے لیکن اگر وہ چاہے تو تھوڑی محنت اور توجہ سے اس خامی پر
غالب آسکتا ہے ۔ اس کا ایک اور قصور یہ کہ وہ بہت کم آمیز ہے اس لیے وہ موجودہ
گروہ بندیوں سے دور ہے اور معاصر ادباء میں اس کے دوست بہت کم ہیں۔ ویسے
بھی ادب اس کا اوڑھنا بچھونا نہیں تھا وہ محض سکون قلب اور آسودگی ذہن کے لیے
لکھتا تھا۔
زندگی میں انسان کو جس سے قلبی لگاؤ ہوتا ہے خواہ وہ کسی حوالے سے ہو اس
میں رشتوں کا تعین ضروری نہیں اس کے بارے میں غیر جانبداری سے سوچنااور
فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے ۔ تبصرہ نگار بھی یہاں کچھ ایسی ہی صورتحال سے
دوچار نظر آتا ہے کہ اسے خامیاں بھی خوبیاں نظر آتی ہیں اور محبت میں وہ
تاویالت بھی خود ہی تالش کرلیتا ہے۔
شامل کتاب بیسواں تبصرہ "دھنک پر قدم"مصنفہ اختر ریاض الدین 696 ،صفحات پر
مشتمل کتاب ادارہ فروغ اُردو الہور سے شائع ہوئی ،قیمت 9روپے ہے ۔ یہ تبصرہ
فنون کے شمارہ ۱ ،۱ ،مئی جون ،۱۸۹۰س ۱۱۴تا ۱۱۹میں شائع ہوا۔
تبصرہ نگار نے اختر ریاض الدین کا بطورمصنفہ تعارف نہیں کروایا بلکہ ان کے
سفرنامے کے حوالے سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ وہ ایک سی ایس پی آفیسر کی بیگم
اور ان کی دوبچیاں جو دوران سفرساتھ ہی ہیں ۔ بیگم اختر سیروسیاحت کی کافی
شوقین ہیں ۔ بیگم اختر کا پہال سفر نامہ "سات سمندر پار"اور دوسرا دھنک پر قدم
ہے۔
سفر نامہ ایک ایسی تحریر ہے جس میں لکھنے والے کی اپنی ذات کا شامل ہونا
ضروری ہے کیونکہ تخلیقی ادب اظہار ذات کا دوسرا نام ہے۔ جب سیاح اپنے سفر کا
حال موضوعی انداز میں لکھتا ہے تو وہ ایک صحیح ادبی سفر نامہ بنتا ہے۔
تبصرہ نگار مغربی سفر ناموں کے حوالے سے بات کرتا ہے کہ وہاں یہ فن تخلیقی
ادب کی ُجدا گانہ صنف بن چکا ہے ۔ اختر ریاض کے سفر ناموں کی سب سے بڑی
خامی موضوعی انداز نظر کی کمی ہے۔
مبصر کے تجزیے سے یہاں سفرنامہ کے حوالے سے اس کی پُرمغز معلومات سامنے
آتی ہیں اور ان کی روشنی میں اس کا جانچنے کا زاویہ نگاہ بے پناہ وسعت کا حامل
ہے کیونکہ وہ مقدار کو نہیں بلکہ معیار کو ترجیح دیتا ہے ۔ بیگم اختر ہمیں میکسیکو
کے عجائب گھروں ،پارکوں ،پہاڑی غاروں کی سیر کراتی ہیں پھر سان فرانسسکو
کا مشہور پُل گولڈن گیٹ برج دکھاتی ہیں۔ نیویارک کے عالمی میلے میں لے جاتی ہیں
لیکن ان سب کے باوجود وہ اپنا سارا مشاہدہ درودیوار تک محدود رکھتی ہیں ۔ وہ
انسانی ماحول نہیں پی دا ہوتا جس میں زندگی سانس لیتی ہوئی محسوس ہو اور نہ ہی ان
کے بیچ سیاح کی شخصیت نظر آتی ہے۔
اس سفر نامہ میں مزاح پیدا کرنے کی شعوری کوشش کی گئی ہے لیکن موقع محل
کے بغیر مزاح بھی بے معنی محسوس ہوتا ہے اور اسلوب کی متانت پر اثرانداز ہوتا
ہے ۔ دانستہ طور پر ادب کی کسی بھی صنف میں سادہ تحریر کی بجائے مشکل الفاظ
کا استعمال تحریر کی ادبیت کو بُری طرح مجروح کرتا ہے۔ اس حوالے سے تبصرہ
نگار مصنفہ کے اسلوب کا جائزہ لیتا ہے ۔
مبصر قد یم و جدید سفر ناموں پر گہری نگاہ رکھتا ہے اس ضمن میں وہ مغربی
سفرناموں کے اسلوب سے بہت متاثر ہے وہ چاہتا ہے کہ یہی اسلوب ہمارے ہاں بھی
رائج ہو تا کہ یہ خواہ مخواہ کا مصنوعی پن ختم ہو کیونکہ معلومات کے حصول کے
لیے تو ہم انسائیکلوپیڈیاسے بھی مدد لے سکتے ہیں ۔ سفر ناموں سے نہیں اس لیے
ہے۔ ضروری ہونا کا چاشنی اور لطافت ادبی میں صنف اس
سفرنامہ نے اپنے اسلوب میں زبردستی مزاح کا رنگ پیدا کرنے کی جوشعوری
کوشش کی ہے وہ تبصرہ نگار کو ناگوار گزرتی ہے ۔ مزاح کا یہ نمونہ مالحظہ
کریں۔
’’میں ہوائی جہاز میں بہت کم کھاسکتی ہوں اس لیے زمین پر پاؤں رکھتے ہی آنتیں
غرغر کرنے لگتی ہیں‘‘۔
اس طرح کے مزاح کے بغیر بھی کتاب دلچسپ ہو سکتی تھی اور ادبی اعتبار سے
اس کا مقام بھی وقیع ہو سکتاتھا ۔
اس کے بعد مبصر اس سفر نامے کے کچھ مثبت پہلوؤں پر روشنی ڈالتا ہے ۔ کتاب
چھ ابواب لندن ،ہوائی ،میکسیکو ،سان فرانسسکو ،نیویارک ،ہانگ کانگ پر مشتمل
ہے۔
پہلے دوابواب لندن اور ہوائی زیادہ دلچسپ اورانہماک سے لکھے ہوئے لگتے ہیں
کیونکہ ان ابواب میں ہمارا تعارف ایسی شخصیتوں سے بھی ہوتا ہے جو ہمارے ذہن
پر دیر پااثر چھوڑ جاتی ہیں۔ ان میں ایک شخصیت سوامی آگیا نندن بھارتی کی ہے
جو یورپی نژاد ہے لیکن ہندوستان میں رہ کر تپسیاکی ہے اور گروؤں کے چیلے بنے
ہیں اور وہاں کی چھ زبانیں سیکھی ہیں۔ اس وقت امریکہ کی سراکیوز یونیورسٹی میں
علم االنسان کے ماہر مانے جاتے ہیں۔
ہوائی کے باب میں اس طرح کی چند شخصیات نظر آتی ہیں اس سے زندگی کی کچھ
ہے۔ تی ہو محسوس حرارت
زیر موضوع کتاب میں شامل اکیسواں تبصرہ "شہرت کی خاطر"پر ہے ۔ مصنف نظیر
صدیقی ۔ 481صفحات پر مشتمل یہ کتاب پاک کتاب گھر سے شائع ہوئی ۔ قیمت
1791روپے ہے ۔ سن اشاعت اور مقام اشاعت درج نہیں ہے ۔ یہ تبصرہ فنون کے
شمارہ میں اکتوبر ،نومبر ۱۸۱۴ء ،ص ۶۴۶تا ۶۶۰میں شائع ہوا۔
زیر نظر کتاب کے مصنف نظیر صدیقی قائد اعظم کالج ڈھاکہ میں اُردو کے پروفیسر
ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب میں شامل 69انشائیہ مختلف رسائل میں شائع ہو ئے اور کچھ
انشائیے انہوں نے حلقہ ارباب ذوق ڈھاکہ کے جلسوں میں پڑھے تھے۔
تبصرہ نگار زیر موضوع کتاب کا تعارف کرواتے ہوئے کہتا ہے کہ کتاب کے شروع
میں انتیس صفحات پر مشتمل معلومات افزا اور دلچسپ مقدمہ ہے یہاں اس نے فن
انشائیہ کے حوالے مغربی انشائیہ نگاروں کی تنقیدی آراء کا جائزہ لیا ہے ۔اس تمہیدی
مضمون میں اس نے اپنی رائے کا اظہار سلجھے ہوئے انداز میں کیا ہے۔ قاری اسی
توقع کے ساتھ آگے بڑھتا ہے لیکن پہال انشائیہ اسے مایوسی سے دوچار کر دیتا ہے
اور یہ سلسلہ ُرکتا نہیں بلکہ کتاب کے اختتام پر ہی اس کا اختتام ہو تا ہے۔
مبصر انشائیہ نگار کے اسلوب کا سجاد حیدریلدرم کے اسلوب سے تقابل کرتا ہے تو
وہ کہتا ہے کہ ان کا لب و لہجہ انتہائی شائستہ ہے ۔وہ کہتے ہیں
تبصرہ نگار زیر نظر کتاب کا تنقیدی جائزہ لینے کے بعد کہتا ہے کہ مقدمے کے
عالوہ اس میں اگر کوئی چیز قابل مطالعہ ہے تو وہ مصنف کا مضمون "غریب شہر
سخن ہائے گفتنی وارد"ہے ۔ یہ ان کے سفربمبئی کی روداد ہے۔ اس میں انہوں نے
شہر سے زیادہ ادبی شخصیات کا تعارف کروایا ہے جس کے لیے اسے کافی زیادہ
تگ و دو کرنا پڑی ۔ اس روداد میں ان کے اخالق و کردار کی جھلکیاں سامنے آتی
ہیں۔
آخرمیں تبصرہ نگار کہتا ہے کہ یہ تصویریں کافی دلچسپ ہیں لیکن ان میں حقیقت
کہاں تک ہے یہ جاننا مشکل ہے ۔ چونکہ تبصرہ نگار کا اسلوب سادہ اور بے ریا ہے
اور مطالعہ وسیع ہے اس لیے عامیانہ اندازسے وہ کیسے مطمئن ہو سکتا ہے پھر بھی
اس نے ادبی شائستگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی منفی رویے کا اظہار نہیں کیا بلکہ
بین السطور اُسے مفید مشورے دیے ہیں۔
زیر تبصرہ کتاب میں شامل بائیسواں تبصرہ "عام فکری مغالطے"پر ہے مصنف سیّد
علی عباس جالل پوری ،آئینہ ادب چوک مینار انارکلی الہور سے شائع ہوئی ۔
صفحات کی تعداد نہیں ہے ۔ قیمت 64روپے ہے ۔
مختلف مضامین پر مشتمل یہ سیّد علی عباس کی پانچویں کتاب ہے اس میں اُن کی
بحث کا دائرہ پچ ھلی کتب کے مقابلے میں زیادہ وسیع ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب سے
پہلے تبصرہ نگار حسب روایت اُن کی دیگر کتب اور سیّد علی عباس کی فکر سے
متعلق خیاالت کا اظہار مفصل انداز میں کرتا ہے۔ سیّد علی عباس اپنے رویے میں
آزاد خیال ہیں اور اس کے ساتھ وہ آزادی رائے کے پُرزور حامی اور مبّلغ ہیں۔ انسان
کی پوری تمدنی و تہذیبی تاریخ کے پس منظر میں عقائد و افکار کی دُنیا میں مروج
چند فکری مغالطوں کا تجزیہ کرتے ہوئے انہیں باطل قرار دیا ہے۔
زیر تبصرہ کتاب میں چودہ فکری مغالطے ہیں اور انہوں نے ہر مغالطے پر اپنے
خاص اسلوب میں بحث کی ہے اور ان مغالطوں کے اثرات کی نشاندہی کی ہے اور
اس کے لیے وہ انسانی تمدن کی تاریخ میں بہت پیچھے چلے جاتے ہیں پھر وہ صنعتی
معاشرے اور صنعتی انقالب کے زمانے میں نکل آتے ہیں۔ یہ طریق کار ہر مغالطے
کے باب میں ہے اس لیے مبصر اس کتاب کے حوالے سے مشورہ دیتا ہے کہ اسے
ایک ہی نشست میں نہ پڑھیں کیونکہ اس طرح یکسانیت کا احساس ہو گا ۔ ہر باب
اپنے اندر مکمل جامعیت لیے ہوئے ہے اسے سمجھنے کے لیے بھی وقت درکار ہے۔
تبصرہ نگار کہتا ہے کہ سیّد صاحب صنعتی انقالب کے بعد اشتراکی معاشرے کے
حوالے سے بات کرتے ہوئے رومانیت پسند ہو جاتے ہیں جو کہ حقیقت میں ناممکنات
میں سے ہے۔
مبصر کہتا ہے کہ معلوم نہیں کہ سیّد صاحب کا اشارہ کس طرف ہے اس معاشرے کی
طرف جو ابھی قائم ہونا ہے یاوہ معاشرہ جس میں یہ نظام قائم ہو چکا ہے۔ موخرالذکر
کے حوالے سے تبصرہ نگار کہتا ہے کہ اس معاشرے میں بھی وہ چمک دمک نہیں
ہے جس کا نقشہ سیّد صاحب نے اپنے تخیل میں کھینچا ہے اس ضمن میں مبصر اپنے
ذاتی تجربات کی روشنی میں ہمیں تصویر کا وہ دوسرا ُرخ دکھاتا ہے جسے سیّد
صاحب دیکھنا نہیں چاہتے ۔
وہ کہتا ہے کہ جس مثالی صنعتی معاشرے کا تصور کارل مارکس کے ذہن تھا جب
لینن کے ہاتھوں اس کا قیام عمل میں آیاتو کیاہوا ۔ پرولتاری طبقہ اقتدار پر قابض ہو
گیا اور اس نے بدترین قسم کے استبداد کا سہارا لیا اور یہیں سے خون خرابے کی
ابتداء ہو گئی۔
تبصرہ نگار سیّد علی عباس کے چند مغالطوں سے اختالف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ
ان سے اتفاق کرنابہت مشکل ہے کیونکہ وہ مغالطے نہیں حقیقت ہیں۔
‘‘یہ کہ انسانی فطرت ناقابل تغیرہے "۔ اس حوالے سے سیّد صاحب کہتے ہیں ۔
یہ ناممکنات میں سے کہ اقتصادی نظام میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ انسانی فطرت بھی
بدلتی رہتی ہے البتہ اس کے اظہار کی صورتیں بدلتی رہتی ہیں۔
‘‘یہ کہ عورت مرد سے کم ترہے "اس حوالے سے سیّد صاحب عورت کی برتری
ثابت کرنے کے لیے دالئل دیتے ہیں ۔ اس ضمن میں وہ کہتے ہیں۔
تبصرہ نگار اس سے اختالف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ عورت کا ذہن اپنی کیفیت میں
بے شک مرد کے ذہن کے برابر ہو سکتا ہے لیکن اپنی توانائی اور قوت کار کے
اعتبار سے وہ مرد کے ذہن کے ہم پلہ نہیں ہو سکتا ’’۔
اس حوالے سے تبصرہ نگار اختالف رائے کرتے ہوئے کہتا ہے کہ گویا ادب وفن
وہی معتبر ٹھہرا جو اشتراکی ریاست میں امدادباہمی کے فارموں پر جنم لے اور نئے
نئے زرعی نظام کے فوائد و برکات کی عکاسی کرے ۔ایک معاشرے میں جب عشق
میاں بیوی کے درمیان ہی پروان چڑھنے لگے گا تو ادباء وشعراء کے لیے موضوع
یہی کھتی باڑی اور صنعت کاری کے رہ جائیں گے ۔ وہ کہتا ہے کہ فن ایک طرف تو
فن کار کے لیے ہوتا ہے کہ وہی سب سے پہلے اس کے کرب کی لذت سے گزرتا ہے
اوردوسری طرف وہ معاشرے کے خاص طبقے کے لیے ہوتا ہے جو اس فن کا شناسا
اورقدردان ہو !
تبصرہ نگار کہتا ہے کہ میرے اندازے کے مطابق سیّد صاحب نے اس کتاب کے چند
ابواب محض لوگوں کو جوش دالنے کے لیے لکھے ہیں اور اپنے موقف پر وہ شاید
خود بھی سنجیدگی سے کاربند نہ ہوں کیونکہ وہ کتاب کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں۔
تبصرہ نگار کتاب کے دوسرے قارئین کو بھی دعوت فکر دیتا ہے کہ وہ اپنا نقطہ نظر
پیش کریں اس طرح فکر کے ٹھہرے ہوئے پانی میں ہلچل پیدا ہو گی اور سیّد صاحب
بھی چاہتے ہیں لیکن تبصرہ نگار اپنی اس فکری کمزوری کا اظہار کرتا ہے کہ متعدد
ابواب ایسے ہیں جن میں سیّد صاحب سے مباحثہ و مناقشہ کرنا بہت دشوار ہو گا ۔
آخر میں سیّد علی عباس کے اسلوب کے حوالے سے کہتا ہے کہ انہیں اپنے موضوع
پر پوری گرفت حاصل ہوتی ہے وہ اس لیے جمع کیے ہوئے مواد کو اتنے سلیقے اور
مہارت سے برتتے ہیں کہ قاری متحیر رہ جاتا ہے۔
سیّد علی عباس سے اختالف رائے کرنا جان جوکھم سے کم نہیں لیکن ہمارے فاضل
تبصرہ نگار نے انتہائی جرات مندی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے ان کی فکرواسلوب کا
گہرائی سے جائزہ لیا ہے ۔ زیر موضوع اختالفات پر کھل کر اپنی بے الگ رائے کا
کیا۔ اظہار
زیرموضوع کتاب میں شامل تیئسواں تبصرہ "ماہنامہ افکار ندیم نمبر"پر ہے ۔ جو الئی
،اگست ۱۸۹۶ء ص ۱۱۸تا ۱۳۱فنون میں شائع ہوا۔ مدیر صہبا لکھنوی ،مکتبہ
افکار رابسن روڈ کراچی ،صفحات ،718قیمت 11روپے ،سن اشاعت درج نہیں ہے۔
تبصرہ نگار ماہنامہ "افکار"کی اس ادبی کاوش کو خراج تحسین پیش کرتا ہے جس
کے تحت اس نے ایک ضخیم "ندیم نمبر"شائع کیا ۔ اس کے مدیر جناب صہبالکھنوئی
نے زندہ دوستی کا ثبوت پیش کیا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ اعالن کر دیا کہ
ندیم نمبر ان کی عمر کا آخری دستاویزی سرمایہ سمجھا جائے کیونکہ اب ان کی عمر
پچاس سے تجاوز کر چکی ہے ۔ یہ اعالن انہوں نے ایسے وقت میں کیا جب وہ اس
ضخیم نمبر کے سلسلے کی مشقتوں اور تکلیفوں سے نڈھال تھے۔
مبصر ندیم کے حوالے سے اپنے تاثرات بیان کرتا ہے کہ ان کی تمام ادبی جہات کتنی
اثر انگیز ہیں ان کی کسی جہت سے یہ اندازہ نہیں لگاسکتے کہ انہوں نے اپنی آخری
بات کہہ دی ہے ۔ ان کا فن وقت کے ساتھ برابر بڑھ رہا ہے۔
تبصرہ نگار نے افکار کے ندیم نمبر کو چارحصوں میں تقسیم کیا ہے لیکن ان
چارحصوں کے عالوہ شروع میں ایک حصہ پیغامات و تاثرات کا ہے۔ اس میں وہ تمام
خطوط شامل ہیں جو علم و ادب کی بعض اہم شخصیات نے اس نمبر کے سلسلے میں
ہیں۔ لکھے
پہال حصہ (سازارتقاء)
تبصرہ نگار خالد کی اس صاف گوئی سے انکار نہیں کرتا لیکن وہ اسے دوسرے
زاویے سے دیکھتے ہوئے کہتا ہے کہ ہمیں فنکا ر کی داخلی اور نفسیاتی تنہائی پر
ر حم نہیں کھانا چاہیے کیونکہ یہی تنہائی پشیمانی اور پچھتاوے اس کے احساس و
شعور کے لیے چتا کا کام کرتے ہیں کیونکہ وہ خود بھی ذاتی طور پر انہی حاالت
سے گزر چکا ہے لیکن وہ سمجھتا ہے کہ اسی تنہائی اور اُداسی نے اس کے شعور
کو جال بخشی ۔ ندیم کی نظم اور نثر میں جو احساس کی شدت اور گہرائی ملتی ہے
اس میں اسی داخلی اور روحانی تنہائی کا ہاتھ ہے۔
ندیم کے حوالے سے بات کر تے ہوئے ڈاکٹر وزیر آغا نے ایک سوال ان الفاظ میں
اٹھایا ہے ۔
شخصیت کے حوالے سے دوسرا اہم مضمون شاعرہ فہمیدہ ریاض کا ہے ۔ مبصر اس
کے بے باک صاف اور کھرے لہجے کی تعریف کرتا ہے۔ وہ اپنے مضمون کے آغاز
میں یہ اعتراف کرتی ہے۔
’’اگر ا ن ابتدائی ایام میں ندیم صاحب میری اتنی حوصلہ افزائی نہ کرتے تو میں شاید
شروع میں مشق کے دوران ہی نظمیں لکھنا ترک کر دیتی "لیکن اُسے اس بات کا بھی
شدید احساس ہے کہ وہ اور ندیم ایک دوسرے سے بہت مختلف واقع ہوئے ہیں چنانچہ
اس احسان مندی کے باوجود وہ ایک غیر معمولی اخالقی جرات سے کام لیتے ہوئے
ندیم کی شخصیت کے وہ سارے عیب گنواتی ہے جن سے وہ بہت ناالں ہے‘‘۔
دوسری بات یہ کہ ندیم جانتے ہیں لوگوں سے فاصلہ کیسے قائم رکھیں۔ اس کے
جواب میں تبصرہ نگار کہتا ہے کہ فہمیدہ کا یہ مشاہدہ غلط ہے کہ اس میں ندیم کی
کسی شعوری ک وشش کو کوئی دخل ہے کیونکہ ہم سے اکثر لوگوں کی مزاجی
خصوصیت ،عادات ،ذاتی اخالقیات بچپن ہی سے ایسی محکم ہو جاتی ہیں کہ ہم
ساری عمر خواہش کے باوجود ان کے بوجھ تلے سے نہیں نکل سکتے ۔ پھروہ انتہائی
دکھ سے فہمیدہ سے کہتا ہے۔
’’انہوں نے ندیم کے گریبان کے بٹن ب ند دیکھے اور مایوس ہو گئیں کہ یہ شخص تو
بڑے قاعدے قرینے کا اور سرد مہرہے وہ ان کے گریبان کے پیچھے اس دل کی
دھڑکن نہ سن سکیں جس میں خلوص و ایثار کی گرمی تھی ،ہمدردی ،اپنائیت تھی ۔
کیایہی وہ مشاہدہ ہے جس کے بل پر وہ کہانیاں اور خاکے لکھتی ہیں ،اتناعمدہ
شاعری کرتی ہیں؟‘‘(ص ،686کل کی بات)
کسی انسان کو پرکھنے کے لیے ہر ایک کا پیمانہ ُجدا ُجداہوتا ہے اور وہ اسی کے
تحت اپنے خیاالت کا اظہار کرتا ہے ۔ یہاں پر محمد خالد اختر اور فہمیدہ ریاض
دونوں نے اپنے اپنے طور پرمعروضی انداز میں جائزہ لیا ہے کہ جو کچھ نے انہوں
نے براہ راست دیکھا یا مشاہدہ کیا وہی بیان کیا لیکن فاضل تبصرہ نگار نے فہمیدہ
ریاض کے معروضی جائزے کا کڑا محاکمہ کیا اور محمد خالد اختر کے جائزے سے
اس انداز سے اختالف نہیں کیا۔
مسرت لغاری کا احمد ندیم قاسمی ایک تثلیت ہے جو بڑی محبت سے لکھا گیا ہے۔ ندیم
شاع ر ،قاسمی افسانہ نگار اور احمد شاہ وہ انسان ہے جو ان دونوں کے درمیان پورے
قدسے اُٹھتا نظر آتا ہے ۔ ندیم کے بڑے بھائی محمد بخش پیرزادہ کوئی باقاعدہ لیکھک
نہیں ہیں لیکن انہوں نے بھی اپنے بھائی کے بچپن کے واقعات بہت دلچسپ انداز میں
بیان کیے ہیں۔
ندیم کی بیٹی ناہید قاسمی نے میرے ابا جی بہت محبت سے لکھا لیکن اگر وہ یہ خاکہ
تھوڑے فاصلے پر اور معروضی اندا ز میں لکھتیں تو زیادہ موثر ہوتا ۔ حاجرہ
مسرور کا مضمون میرے بھیا ،میرے اللہ بھی خوبصورت اور اثر انگیز اسلوب میں
لکھا ہوا ہے۔
خدیجہ مستور کا مضمون "اللہ اور جھوٹ"بہت مختصر اور ہلکا پھلکا تفریحی انداز
لیے ہوئے ہے ۔ جمیل الدین عالی کا مضمون یہ تمام خراج تحسین ،ندیم کے کردار
کے بعض پہلوؤں پر بے ساختہ انداز میں لکھاہوا ہے۔
ندیم نمبر کا دوسرا حصہ" تخلیق فن" ان کے فن شاعری اور فن افسانوی پر بحث کرتا
ہے۔
صرف دومضمون ندیم کی صحافت اور کالم نگاری پر ہیں۔ فن شعر پر ڈاکٹر سیّد
عبداللہ ،ڈاکٹر وزیر آغا ،فتح محمد ملک اور امجد اسالم امجد کے مضامین معلومات
سے بھرپور ہیں۔
اس حصے کا سب سے اہم مضمون اللہ صحرا کا" کالم ندیم کے جالل میں جمال کے
پہلو" ہے۔ اس مضمون میں اس خاتون نے پورے کالم میں اس کے تجربہ عشق کے
آثار کا سراغ لگایا ہے ۔ اس کے اشعار سے اس کا نظریہ عشق متعین کیا ہے ۔ اس
سے عیاں ہوتا ہے کہ ندیم کا محبوب ایک خاص ذات ہے اور پہلی محبت کے تجربے
کے بعد اسے دوسری محبت کا بھی تجربہ ہوا جس کازمانہ طویل تر تھا ممکن ہے کہ
وہ اب بھی اس کے احساسات میں موجود ہو۔ اس حوالے سے وہ لکھتی ہے۔
’’ ندیم افالطونی محبت کے قائل ہیں ۔ باربار محبت کرنا ان
کے بس کا روگ نہیں ۔ ان کی افتاد طبع ہرجائی پن سے
متنفر ہے وہ محبت میں بھی توحید پسند ہیں‘‘۔ (ص 689کل
کی بات)
حصہ نظم کے جن شعراء نے ندیم کو خراج تحسین پیش کیا ہے ان میں پروین شاکر
ایک اہم نسوانی آواز ہے وہ ندیم کو سایہ دار شجر کہتی ہے۔
تبصرہ نگار جہاں" ندیم نمبر" کی اشاعت پر مدیر کا اتنا ممنون ہے وہیں وہ ایک خط
کی اشاعت پر اس سے یوں گلہ مند ہوتا ہے۔
یہاں مجھے تبصرہ نگار کے نقطہ نگاہ میں انتہاپسندی نظر آتی ہے جس کے تحت وہ
ندیم پر منفی تنقید برداشت نہیں کر سکتے ۔ان کا مطمع نظر یہی نظر آتا ہے کہ
ہرتجزیہ نگار ندیم کی شخصیت و فن کا جائزہ مثبت انداز میں لے ۔ جہاں کسی نے
منفی پہلو کے حوالے سے اظہار خیال کیا مبصر نے اسے کھری کھری سنائیں۔
تبصرہ نگار کہتا ہے کہ ایسے بہت سے نام غائب ہیں جن سے "ندیم نمبر" کے
حوالے سے کچھ لکھنے کی توقع تھی ۔ لیکن حوالے سے وہ کچھ نہیں بتاتا ۔ البتہ اپنے
حوالے سے بتاتا ہے کہ تین بار منصوبہ شروع کیا لیکن مصروفیات روزگار کی وجہ
سے تکمیل نہ کرپایا اور صہبا صاحب نے بھی قبل ازمرگ واویال شروع کیا کہ وقت
کم ہے ۔ رسالہ مکمل ہے اس لیے میں نے حوصلہ ہاردیا کہ بعد میں کسی اور موقع
پر لکھوں گا ۔ تبصرہ نگار نے یہاں اپنا تذکرہ بڑے ڈرامائی انداز میں جاندار اسلوب
میں کیا ہے۔
آخر میں وہ پھر صہبا لکھنوئی کو خراج تحسین پیش کرتا ہے کہ اس نے "ندیم نمبر"
نکال کے اپنی مدیرانہ قابلیت اور صالحیت کا لوہا منوایا ہے ۔ وہ آئندہ بھی اُن سے
ایسی ہی توقع رکھتا ہے۔
زیر تبصرہ کتاب میں شامل چوبیسواں تبصرہ کیسر کیاری (کالموں کا مجموعہ) پر
ہے ۔ کالم نگار ،احمد ندیم قاسمی ،شفیق پبلی کیشنز ،چوک گڑھی شاہو الہور سے
شائع ہونے والی اس کتاب کی قیمت 411روپے ہے صفحات کی تعداد درج نہیں ہے۔
یہ تبصرہ فنون کے شمارہ ، ۱۱۰اپریل تا جوالئی ۱۸۸۸ء ص ۳۱۹تا ۳۴۱میں شائع
ہوا۔
کسی بھی موضوع پر تبصرہ پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ تبصرہ نگار اس موضوع
کے حوالے سے وسیع معلومات رکھتا ہے اور یوں وہ منظر کے ساتھ ساتھ اس کے
پس منظر پر بھی روشنی ڈالتا ہے۔
احمدندیم قاسمی نے فکاہیہ کالم نویسی کا آغاز موالنا عبدالمجید سالک کی نگرانی میں
کیا۔
’’وہ روزنامہ انقالب میں "افکار و حوادث" کے عنوان سے
روزانہ فکاہی کالم لکھتے تھے ۔ کبھی کبھی میں اور جھنگ
کے ایک ممتاز صاحب ان کی خدمت میں کالم لکھ بھجواتے
تھے اور وہ بکمال شفقت انہیں ہمارے ناموں کے حوالے
کے ساتھ افکار و حوادث کے کالم میں درج فرمادیتے
تھے‘‘۔ (ص ،671کل کی بات)
اس ضمن میں تبصرہ نگار کہتا ہے کہ یہ ندیم کی خوش قسمتی ہے کہ انہیں ابتدائی
زمانے میں موالنا عبدالمجید جیسے آزمودہ کارصحافی کی نگرانی میسر آگئی ۔ کیسر
کیاری احمد ندیم قاسمی کے چالیس برسوں کے کالموں کا انتخاب ہے اس میں صرف
ننانوے کالم شامل ہیں۔
ان کالموں میں خاص بات یہ ہے کہ اس میں کالم نگار کی گوناگوں صالحیتیں ہمارے
سامنے آتی ہیں۔ وہ بنیادی طور پر شاعر ،افسانہ نگار اور اس کے ساتھ ساتھ صحافی
اور مدیر بھی تھے ۔ وہ اہل فکر نقاد اور مبصر بھی تھے۔ اس کے عالوہ ان کی
شخصیت کا ایک خاص پہلوان کی حس مزاح اور ایک ماہر لطیفہ گو ہونا ہے۔ ان
کالموں میں وہ ہمارے سامنے مختلف حیثیتوں سے آتے ہیں۔ کالموں میں ان کی جو
فکر ہمارے سامنے آتی ہے وہ ملک کے معاشرتی وسیاسی حاالت میں تبدیلی السکتی
تھی لیکن افسوس کہ جن افراد کی سوچ پر یہ طنزیہ کالم لکھے جاتے تھے وہ انہیں
سمجھنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے تھے۔ اس کی ایک مثال مالحظہ کریں۔
ان سنجیدہ نوعیت کے کالموں کے ساتھ ساتھ ایسے کالم بھی ہیں جن میں لطائف بھی
بیان ہوئے ہیں ۔اس کی مثال دیکھیں۔
ندیم کے کالموں کے موضوعات کا اگر جائزہ لیا جائے تو ان میں طنزوظرافت کے
ساتھ ساتھ سیاست ،خاص مسلم لیگ کے قائدین ،میونسپل کارپوریشن اور اسی طرح
کے دوسرے محکموں کی کارکردگیوں کے نمونے سامنے آتے ہیں۔ مذہب کے اجارہ
داروں کے شرعی حیلوں اور تاویلوں پر بھی بہت کچھ لکھا ہے لیکن ان کے کالموں
میں بغض و حقارت کا تاثر کہیں نہیں ملتا۔ ان کے کالموں سے پتہ چلتا ہے کہ زبان
کیسے لکھی جاتی ہے۔
اعلی
ٰ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ انہوں نے جس طرح انہیں یاد رکھا وہ ان کے
ظرف کی دلیل ہے اس لیے وہ ان کے اس احسان کو تمام عمر نہیں بھولے۔ ندیم کے
کالموں کے حوالے سے تبصرہ نگار اپنا ذاتی تجربہ ایک واقعہ کی صورت میں بیان
کرتاہے۔
" میں نے اسالمی کیمپ کے ایک سینئر اور محترم صحافی موالنا نصراللہ خاں عزیز
سے ایک دفعہ سناتھا (ان دنوں میں بھی اس کیمپ میں تھا) کہ یہ جو احمد ندیم قاسمی
ہیں یہ ہیں تو ترقی پسندوں کمیونسٹوں کے گروہ میں لیکن آدمی شریف الطبع ہیں ۔ وہ
ہم پر پھبتیاں بھی کستے ہیں ہمارے چٹکیاں بھی لیتے ہیں لیکن ایسی شائستگی کے
ساتھ کہ بات چاہے بُری لگے پڑھ کر ایک دفعہ تو لُطف آجاتا ہے"۔ (ص ،671کل کی
بات)
تبصرہ نگار کہتا ہے کہ" کیسر کیاری" میں شامل ان کالموں پر اس سے بہتر تبصرہ
نہیں ہو سکتا جو اس لیے بھی مستند ہے کہ اغیار کی طرف سے سامنے آیا
ہے۔ مبصر نے ان کالموں کے موضوعات اور اسلوب کا جائزہ دقیق نظری سے لیا
ہے اور قارئین کو احمد ندیم قاسمی کی شخصیت کے ایک اہم پہلو کی طرف متوجہ
کیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ وہ فی الوقع ہمہ جہت ادیب تھے۔
شامل کتاب پچیسواں تبصرہ "حسن الجردہ فی شرح القصیدہ البردہ (اُردو)" پر ہے ۔
شارح عالمہ محمد بن عبدالمالک کھوڑوی ،شیخ االسالم اکیڈمی قصور سے شائع
ہونے والی اس کتاب کی قیمت 61791روپے ہے صفحات کی تعداد اور سن اشاعت
ندارد۔
یہ تبصرہ فنون کے شمارہ 1ص 471تا 479اکتوبر ،نومبر 6799میں شائع ہوا۔
اس قصیدے کے حوالے سے پھر وہ اپنے ذاتی تجربات دلچسپ واقعاتی انداز میں بیان
کرتا ہے جو کہ ضعیف االعتقادی کا خاتمہ کرتے ہیں۔تبصرہ نگار قصیدہ بردہ کے
مصنف کا تعارف کرواتا ہے اور اس قصیدے کی وجہ تسمیہ بیان کرتا ہے۔
ان دونوں شخصیات کے تعارف کے بعد میں اصل موضوع کی طرف آتی ہوں ۔
قصیدہ بردہ 614یا619اشعار کی ایک طویل نظم ہے جسے موضوعات کے اعتبار
سے دس ابواب پر تقسیم کیا گیا ہے۔
پہالباب نظم کا مطلع ہے اس میں شاعر نے جاہلی قصیدے کی روایت برقرار رکھتے
ہوئے اپنی واردات عشق کا اظہارکیا ہے ۔ دوسرا باب نفس اور شہوات نفس کے بارے
میں ہے۔ تیسرا باب نظم کا سب سے طویل باب ہے ۔ خالصتا ً مدح رسول میں ہے ۔
چوتھے باب میں آنحضرت کی پیدائش کا ذکر ہوتا ہے ۔ پانچویں میں آپ ؐ کے معجزات
کا ،چھٹا باب قرآن کریم کی فضلیت پر ہے اور ساتویں باب میں شاعر نے واقعہ
معراج کا ذکر کیا ہے۔ آٹھویں باب میں رسول اللہ کے جہاد اور غزوات کا تذکرہ ہے ۔
نویں باب میں شاعر نے اپنی نجات اور مغفرت کے لیے ذات نبوی کا وسیلہ ڈھونڈا
ہے اور دسوا ں باب شاعر کی مناجات اور عرض حال میں ہے۔
اس نظم کے اسلوب کے حوالے سے تبصرہ نگار کہتا ہے کہ اس نظم میں جذبہ سچا
اور سادہ ہے ۔ خیال پاکیزہ لیکن اپنی پرواز میں ارضی حقیقتوں سے زیادہ دورنہیں
جاتا ۔ مواد کے لحاظ سے یہ نظم ماال مال ہے ۔ اس کا سب سے بڑا ُحسن اور اصل
تاثر الفاظ کی نشست اور تراکیب کی بندش میں ہے۔
مبصر کہتا ہے عالمہ عبدالمالک نے زیر نظر کتاب میں جوشرح کی ہے اس کا انداز
ادبی سے زیادہ تعلیمی ہے ۔ اس شرح کی ترتیب یوں ہے کہ عربی کا ایک شعر نقل
کرنے کے بعد اس کا ترجمہ پہلے فارسی شعر میں دیا ہے۔ اس کے بعد عربی شعر
میں استعمال ہونے والے الفاظ کے معانی بتائے ہیں۔ اس کے بعد شعر کا ترجمہ اُردو
نثر میں دیتے ہیں اور آخر میں اُردو کی سلیس نثر میں عربی شعر کا مفہوم قدرے
تفصیل سے بیان کرتے ہیں ۔اس طرح شرح قاری کے سامنے واضح ہو جاتی ہے۔
عالمہ عبدالما لک کی اس شرح کی خصوصیت ان کا جذبہ اصالح اور دینی دردمندی
ہے ۔ ان کی یہ کیفیت ایمانی اپنی سادگی اور سچائی کے باعث قاری کو بہت متاثر
کرتی ہے۔
اس کتاب کے عنوان کے حوالے سے تبصرہ نگار یہ تجویز دیتا ہے کہ "فی شرح
القصیدہ البردہ"عربی قاعدے کی روح سے صحیح نہیں ہے ۔ اس کی صحیح صورت
"فی شرح قصیدۃ البردہ"ہو گی ۔ یعنی لفظ قصیدہ پر ال داخل نہیں ہو گا ۔
تبصرہ نگار چونکہ خود ایک عربی داں ہے اس لیے وہ بصد شوق اس قصیدے کے
چند اشعار کا اُردو ترجمہ کرتا ہے۔ اس قصیدے کا پہال باب شاعر کی واردات عشق
سے متعلق ہے جو کہ بظاہر عجیب معلوم ہوتا ہے لیکن اس کی وجہ عربی شاعری
کی وہ روایت ہے جو امرؤ القیس سے شروع ہوتی ہے ۔ ان کی پابندی کعب بن زبیر
اور حسان بن ثابت نے بھی کی تھی ۔ان کے یہ دونوں قصیدے آنحضرت ؐ نے سنے
تھے لیکن وہ عربی شاعری کے تقاضوں کو سمجھتے تھے کہ روایت سے یکلخت
آزاد ہون ا شاعر کے لیے آسان نہیں۔ وہ مہر وشفقت کا پیکر تھے لیکن اگر ہم آج کے
دور کے حوالے سے دیکھیں تو شاعر کا کیا حشر ہوتا ۔ یہ دور جو بظاہر جدت پسندی
کا دور ہے لیکن مذہب کے نام پر قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے۔
زیر موضوع کتاب میں شامل چھبیسواں تبصرہ "مشاہیر بہاولپور"پر ایک نظر ہے ۔
مصنف مسعود حسن شہاب دہلوی ،اُردو اکیڈمی بہاولپور سے شائع ہونے والی اس
کتاب کی قیمت 21روپے ہے ۔ صفحات کی تعداد اور سن اشاعت نہیں ہے۔ زیر نظر
تبصرہ فنون کے شمارہ 47ص 11تا22نومبر ،دسمبر 6787ء میں شائع ہوا۔
ماقبل تبصرہ مبصر ریاست بہاول پور کا مختصرا ً تعارف کرواتا ہے ۔ اس کے سیاسی
وجود کی کیا اہمیت تھی اور بطور ریاست یہ وجود کب ختم ہوا اس کی بحالی کے لیے
کیا کوششیں ہوئیں لیکن وہ کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکیں۔ اس کے بعد وہ زیر
تبصرہ موضوع کی طرف آتا ہے کہ بہاول پور کے یہ مشاہیر کون لوگ ہیں اور اس
تذکرے میں ان کی شمولیت کے لیے کن باتوں کو مدنظر رکھا گیا ہے؟ اس حوالے
سے وہ زیر موضوع کتاب کے حوالے سے تمہیدی مضمون میں مصنف کے خیاالت
کا اعادہ کرتا ہے۔
اس ضمن میں تبصرہ نگار صاحب کتاب کے اصول سے تو متفق ہے لیکن دوسرے
اصول کو اس نے قابل غور قرار دیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ مشاہیر کے انتخاب میں انہیں
اپنے ذاتی تعارف اور مشاہدے کی شرط نہیں رکھنی چاہیے بلکہ یہ تذکرہ معروضی
اور تحقیقی انداز میں مرتب کرنا چاہیے تھا۔
سنا
اس کتاب میں بعض ایسے مشاہیر کا ذکر ہے جن کا ذکر اس سے پہلے نہیں ُ
صرف صاحب کتاب تک ہی ان کی شہرت محدود ہو گی۔ بعض مشاہیر ایسے ہیں جو
عالمی سطح پر مشہور ہوئے لیکن زیر نظر کتاب میں ان کا تذکرہ ہی نہیں جیسے
سمیع اللہ ،کلیم اللہ اور انہیں تربیت دینے والے ایک کھالڑی مطیع اللہ تھے۔
مصنف کی دلچسپی کے چند خاص میدان ہیں جن میں صحافت ،سیاست اور تصوف
وروحانیات! اس کتاب میں انہوں نے خانقاہی سلسلوں اور گدی نشینوں کا بہت شوق
اور عقیدت سے ذکر کیا ہے۔
اُردو ادب کے شعبے میں بہاول پور کے جو اصحاب مشہور ہو ئے ان میں شفیق
الرحمن اور محمد خالد اختر نمایاں ہیں لیکن انہوں نے ان کا ذکر اتنے سطحی انداز
میں کیا ہے کہ قاری کو ان کی زندگی اور فن سے کوئی خاص بصیرت حاصل نہیں
ہوتی ۔ محمد خالد اختر کے حوالے سے کچھ لکھنے سے پہلے وہ اُن سے ملنے اُن
کے گھر گئے لیکن وہ موجود نہ تھے اس لیے مالقات نہ ہو سکی پھر انہوں نے وہی
کچھ لکھ دیا جو وہ مجمالً جانتے تھے ۔دوسری بار ملنے کی زحمت انہوں نے گوارا
نہیں کی ۔ تبصرہ نگار کے بارے میں لکھتے ہوئے انہوں نے اس کا نام سیّد کاظم علی
شاہ "لکھا ہے اس حوالے سے تحقیق کرنے کی انہوں نے ضرورت نہیں محسوس
نہیں کی۔
کتاب کا دوسرا ُرخ پیش کرتے ہوئے تبصرہ نگار کہتا ہے کہ ان خامیوں اور کوتاہیوں
کے باوجود یہ کتاب قاری کو ریاست بہاول پور کے زمانے اور بعد کے ادوار کی
سیاسی اور ثقافتی تاریخ کے بارے میں اچھا خاصا مواد مہیا کرتی ہے۔ جو کتاب میں
یکجا تو ملتا البتہ مشاہیر کے تذکرے میں ادھر اُدھر بکھرا ہوا ملتا ہے۔ سرائیکی
شاعری میں خواجہ غالم فرید کے بعد دوسرے نمبر پر جو شاعر آتے ہیں وہ حافظ
خرم ہیں۔ انہوں نے مدحیہ قصائد میں جوالنی طبع کے جوہر دکھائے ہیں
نصیر الدین ّ
لیکن جب ہجو کہنے پر آئے تو ایسی زور دار کہی کہ مرزا سودا کی روح بھی عش
عش کراُٹھی ہو گی ۔ ان کی جدّت پسندی کی وجہ سے بہاول پور سے باہر بھی لوگ
انہیں جاننے لگے تھے ۔ پھر اُن کے ساتھ ایک المناک حادثہ پیش آیا وہ بہاولپور میں
ہونے والے کل پاکستان مشاعرے میں شریک ہوئے ۔ اس دوران اُن کا قلمی دیوان ُگم
ہو گیا جو تالش کے باوجود نہ مال۔ اس واقعے نے اُن پر جو اثر کیا اس حوالے سے
تبصرہ نگار یو ں رقم طراز ہے۔
زیر نظر کتاب میں شامل مشاہیر کا تذکرہ طبقہ وار اور مختلف عنوانات کے تحت ہوا
ہے ۔ ایک باب "ابررواں"کے عنوان سے ہے اس میں ان لوگوں کے حاالت ہیں جو
کچھ عرصے کے لیے بہاول پور رہے لیکن کسی وجہ سے یہاں سے چلے گئے ۔ ان
میں بعض شخصیات کے بارے میں مصنف کی معلوما ت اور مشاہدہ مستند نہیں ہے۔
امیر بہاول پور نواب سر صادق محمد خاں خامس مرحوم کے حوالے سے لکھتے
ہوئے اُن کے صرف وصف بیان کیے ہیں ان کی شخصی خامیوں سے دانستہ صرف
نظر کیا ہے۔
زیر نظر کتاب میں مصنف نے مشاہیر کا تذکرہ اس انداز سے کیا ہے کہ وہ انسان
نہیں فرشتے تھے اور ان میں جو حیات ہیں وہ بھی سراپا نیکی ہیں لیکن یہ سچی اور
دیانتدارانہ تذکرہ نگاری نہیں ہے ۔ وہی تذکرہ نگاری معتبر ہوتی ہے جو اچھے اور
بُرے دونوں پہلوؤں کا احاطہ کرے ۔ عقیدت مندانہ انداز سے تنقید نہیں کی جاسکتی
۔ ایک بزرگ روہی والے پیر کے ذکر میں لکھا ہے کہ انہوں نے پہلے تو روہی میں
ڈیرہ ڈالے رکھا لیکن پھر معتقد ین انہیں مجبور کر کے شہر میں لے آئے۔
اس ضمن میں تبصرہ نگار کہتا ہے کہ میں تصوف کی اس صورت کی تحسین نہیں
کر سکتاجس میں ایک صوفی ُخدا کے بندوں سے کنارہ کشی کر کے اپنی عبادت و
ریاضت میں گوشہ نشین ہو جاتا ہے ۔ یہ رسول اللہ کا طریقہ نہیں تھا اور جو عبادت
رسول اللہ کے طریقے سے مختلف ہو خدا کی نظر میں اس کیا وقعت ہوگی ؟۔
وہ کہتا ہے کچھ مشاہیر بہاولپور ایسے ہیں جن کی طرف مصنف کا دھیان نہیں گیا اس
لیے مذکورہ کتاب اُن کے ذکر سے خالی ہے ۔ ان میں موالنا محمد علی جو شہر کی
جامع مسجد میں حدیث کا درس دیتے تھے ۔ شیخ عبدالمجید جو صادق ایجرٹن کالج
بہاولپور کے پرنسپل اور ہر دل عزیز شخصیت اور مصنف بھی تھے ۔ ادبی سیارو ں
میں جمیلہ ہاشم ی کا تذکرہ نہیں ہے ۔ ان کے عالوہ ان اصحاب کا تذکرہ نہیں ہے جن
سے مصنف کی براہ راست مالقات نہیں ہوئی۔
تبصرہ نگار اس کتاب میں کچھ امالئی غلطیوں کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔ آخر میں وہ
اپنی دوٹوک رائے دیتے ہوئے کہتا ہے۔
‘‘مشاہیر بہاول پور"جیسے دلچسپ اور اہم موضوع پر کتاب لکھتے ہوئے شہاب
صاحب کو زیادہ محنت اور تحقیقی کرنی چاہیے تھی ۔ شخصیات کے تذکرے میں
بجائے ایک صلح کل اور تملقانہ انداز کے حقیقت پسندانہ اور دیانتدارانہ انداز اختیار
کرنا چاہیے تھا کہ علمی و ادبی سطح کی شخصیت نگاری سچ بولنے کا نام ہے ،سب
کو خوش کرنے اور اپنی کھال بچانے کا نام نہیں ’’۔ (ص ،449ایضا ً)
میری رائے یہی ہے کہ مبصر نے زیر نظر کتاب کا جائزہ معروضی انداز میں لیا ہے
۔ خامیوں کی نشاندہی اس لیے کی ہے کہ آئندہ ایڈیشن میں اصالح ہو سکے نہ کہ اس
سے اس کا مقصود مصنف کی تذلیل ہے۔
زیر موضوع کتاب میں شامل ستائیسواں تبصرہ "تحریک جدوجہاد بطور موضوع
سخن "پر ہے ۔ مصنف خواجہ منظور حسین ،نیشنل بُک فاؤنڈیشن سے شائع ہونے
والی اس کتاب کی قیمت 98روپے ہے۔ صفحات کی تعداد اور سن اشاعت ندارد ۔
یہاں تبصرہ نگار اُن حاالت کا مختصرا ً جائزہ لیتا ہے جو اس کتاب کی تخلیق کا پس
منظر بنے ۔ وہ انیسویں صدی کی پہلی تہائی میں دہلی سے اُٹھنے والی اس دینی اور
اصالحی تحریک کے اثرات پر بات کرتا ہے جس کے سربراہ سیّد احمد شہید تھے ۔
یہ اسالم کے احیاء کی تحریک تھی ۔ اس کا مقصد مسلمانوں میں رائج بدعات اور غلط
رسومات کا خاتمہ کر کے مذہب کی سادہ اور سچی روح کی طرف لوٹنا تھا جس کا
نمونہ رسول اللہ اور صحابہ کے زمانے میں دُنیانے دیکھا تھا۔ یہ تحریک جو اتنی
کامیابی سے آگے بڑھی تھی اپنوں کی بدعہدیوں کی وجہ سے تتربتر ہو کر رہ گئی ۔
خواجہ صاحب نے نواب صاحب اور سیّد احمد شہید کے دل خراش واقعہ پر اپنے
نظریات کی عمارت کھڑی کی اور اس واقعہ کو انہوں نے اس دور کے اکابر شعراء
کی غزلوں میں تالش کیا ۔اس ضمن میں انہوں نے ذوق کی غزل کا یہ شعرپیش کیا
ہے جو اس نے تحریک مجاہدین کے سربراہ سیّد احمد شہید کے نواب امیر خاں کے
لشکر میں شمولیت کے حوالے سے کہا تھا ۔
تبصرہ نگار یہاں سواالت اُٹھاتا ہے کہ ذوق کے اس شعر کو سارے مبحث کا نقطہ
آغاز بنایا گیا ہے لیکن کیا اس کے باقی سارے کالم میں اس تحریک کے حوالے سے
اشعارملتے ہیں۔ اسی طرح مومن کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ انہوں نے اس
تحری ک کے رہنما کے ہاتھ پر بیعت کی تھی لیکن ہم حتمی طور پر یہ کیسے کہہ
سکتے کہ اُن کا کتنا کالم اس تحریک سے متاثر ہوکر لکھا گیا ہے؟ غالب کے دیوان
میں ایسی غزلوں کی تعداد کتنی ہو گی جن میں اس تحریک کی اثر پذیری کے اشارے
ملتے ہیں؟ نثر کے حوالے سے دیکھیں تو خطوط غالب میں کسی جگہ بھی اس
تحریک کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا؟
تبصرہ نگار مصنف سے اختالف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ فاضل مصنف نے جن
شواہد سے اتنی ضخیم کتاب تیار کی ہے وہ ہر گز یہ مقصد پورانہیں کرتے ۔ یہ
محض مصنف کی ذہنی اختراع ہے ۔ وہ کہتا ہے پہلے مصنف کو اس تحریک کے
بارے میں ضروری معلومات فراہم کرنی چاہئیں تاکہ وہ اس پس منظر کو سمجھ سکے
جسے ذہن میں رکھ مصنف نے اس دور کے شعراء کے کالم کو کھنگاال ہے۔ وہ کہتا
ہے کہ اس کتاب کے مطالعے کے بعد قاری اس تحریک کے حوالے سے کوئی
معلومات یا آسودگی محسوس نہیں کرتا بلکہ کتاب کی فہرست سے ہی اس کی بے
ربطی سامنے آجاتی ہے کیونکہ مصنف نے کتاب بغیر نظر ثانی اشاعت کے لیے بھیج
دی حاالنکہ مصنف کتاب کے شروع میں "تعارف "کے عنوان سے اس موضوع سے
ہے۔ کرتا دعوی
ٰ کا کھولنے گتھیاں تمام متعلق
"ان اوراق میں پہلی بار ذوق ،مومن ،شیفتہ ،آتش اور ناسخ کے کالم سے تحریک
جدوجہاد اور اس کے متعلقات کے بارے ان شاعروں کے متنوع تاثرات اخذ کیے گئے
ہیں ۔ اسی تاریخی اور شعری تناظر میں سیّد احمد شہید ،شاہ اسمعیل اور مولوی فضل
حق کے ساتھ غالب کے رشتوں کی پیچ درپیچ گتھیاں کھولی گئی ہیں اور ان کی
شاعری کے لفظی ومعنوی دروبست کو ٹٹول کے ان کے جذباتی اور فکری اُتار
چڑھاؤ کی روداد اور اسی کے نفسی مضمنات کا تجزیہ کیا گیا ہے’’۔ (ص ،426کل
کی بات)
وہ کہتا ہے کہ مکمل کتاب پڑھنے کے بعد قاری کی یہ تمناہی رہ جاتی ہے کہ ایسا ہو
سکتا ۔
زیر موضوع تبصرے میں تبصرہ نگار نے مصنف کی ذہنی ،فکری کاوشوں کے
ادھورے پن کوثابت کیا ہے کہ اس سلسلے میں اس نے جو مواد پیش کیا وہ ناکافی ہے
اور موضوع کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا۔
زیر موضوع کتاب میں شامل اٹھائیسواں تبصرہ"دریا باد کے مزاج دار
موالنا"(عبدالماجد دریابادی احوال و آثار)مصنف ڈاکٹر تحسین فراقی 994،صفحات پر
مشتمل یہ کتاب ادارہ ثقافت اسالمیہ 4 ،کلب روڈ الہور سے شائع ہوئی ۔ قیمت
ہے۔ 111روپے
یہ تبصرہ فنون کے شمارہ ،26جنوری -اپریل 6772ء ص 41تا16پر شائع ہوا۔
زیر نظر موضوع کے حوالے سے تبصرہ نگار پہلے اپنے خیاالت کا اظہار کرتے
ہوئے موالنا عبدالماجد کی علمی صالحیتوں کا اعتراف کرتا ہے کہ وہ اپنے وقت کی
ایک اہم اور معتبر شخصیت تھے ۔ اُردو کے صاحب طرزانشاپرداز ،باکمال مترجم
،نقاد ،مفسر قرآن ،عالم دین ،سوانح و سفر نامہ نگار اور ایک کہنہ مشق اور مقتدر
صحافی ،والدہ کی وفات اور مالی حاالت خراب ہوجانے کے باعث ایم اے پاس کیے
بغیر ہی تعلیم کو خیر باد کہہ دیا ۔ اس اثنا میں فلسفہ ان کے سر کو چڑھ چکا تھا اور
وہ مذہب سے برگشتہ ہو کر الحادو انکار کی وادی میں نکل آئے تھے ۔اپنی عمر کے
نو سال انہوں نے اس الحاد اور بے دینی کے ساتھ گزارے اور عمر کے چھبیسویں
برس میں تھے کہ مذہب کی طرف واپس آگئے۔
موالنا عبدالماجد کی طبیعت میں توازن نہیں تھا بلکہ انتہاپسندی حددرجہ تھی اور
رویے میں تضاد تمام عمر برقرار رہا ۔ تبصرہ نگار ان کی شخصیت کے اس پہلو کے
حوالے سے کہتا ہے۔
عبدالماجد دریا بادی پر ڈاکٹر تحسین فراقی کا یہ پی ایچ ڈی کا ضخیم اور جامع مقالہ
ہے ۔ اس کے لیے انہوں نے ہندوستان کا سفر اختیار کیا ۔دہلی اور لکھنو کی
یونیورسٹی سے استفادہ کیا ۔ ان کے غیر مطبوعہ مکاتیب اور اخبارات "،صدق" اور
"صدق جدید"کی ورق گردانی کی ۔ کتاب کی ترتیب کے حوالے سے تبصرہ نگاہ کہتا
ہے کہ تحسین نے ادب و فن میں ان کی ُجداگانہ حیثیتوں سے بحث کی ہے ۔ بحیثیت
نقاد ،مترجم و شارح ،بحیثیت سوانح نگار ،سفرنامہ نگار ،مکتوب نگار ،ہر صنف پر
بحث سے پہلے اس کا تاریخی پس منظر بھی بیا ن کیا ہے ۔ تحسین فراقی چونکہ
تحقیق کے آدمی ہیں اس لیے موالنا عبدالماجد کے تنقیدی رویوں کا انہوں نے نسبتا ً
زیادہ جرات کے ساتھ محاکمہ کیا ہے۔
اس تبصرے میں مبصر شخصی مقالے کے حوالے سے ایک بنیادی سوال اُٹھاتا ہے
کہ اس شخصیت کے روبرو آپ نے اپنا موقف کیا اختیار کیا ہے؟ کیاآپ اس شخص
کے علمی و ادبی مرتبے سے مرعوب اور اس کے معتقد و مداح ہیں؟یا اس کے ہم
خیال ہونے کی وجہ سے اس کے طرف دار ہیں؟ یایہ کہ اس کے سامنے آپ نے اپنی
فہم و بصیرت کے مطابق ایک غیر جانبدار اور معروضی رویہ اختیار کیا ہے؟ اس
سے آپ کا موقف واضح ہو کر سامنے آجاتا ہے۔ تحسین فراقی کی اس کتاب کے
حوالے سے تبصرہ نگار کہتا ہے ۔
اپنی اسی طبیعت کی وجہ سے موالنا نے کئی اہل قلم اور علماء سے لڑائیاں لڑیں جو
ان کے نظریات سے اختالف کرتا تھا وہ اس کے خالف ہو جاتے تھے ۔ وہ خود پر
تنقید نہیں برداشت کرتے تھے ۔ موالنا ابوالکالم آزاد ،شورش کاشمیری ،نیاز فتح
پوری سے اُن کے ادبی معرکے جاری رہے۔
وہ موالنا مودودی کے بہت مداح تھے لیکن جب انہوں نے موالنا اشرف علی تھانوی
کے حلقہ ارادت میں شامل ہونے سے انکار کیا تو انہیں ساری زندگی معاف نہ کیا اور
ان کی جماعت کے خالف لکھنے سے بھی نہ کترائے۔ خواجہ حسن نظامی سے پہلے
بڑی دوستی تھی لیکن جب انہوں نے موالنا محمد علی جوہر کے خالف لکھا تو اُن
کے خالف انتہائی سخت کلمات لکھنے سے بھی ُگریز نہ کیا۔
افسانوی مجموعے انگارے کی اشاعت پر انہوں نے طوفان کھڑا کر دیا اور اُسے
۔ ہوگیا ضبط مجموعہ یہ آخر ۔ دیا قرار کتاب شرمناک
یاس یگانہ چنگیزی کا واقعہ سب سے زیادہ گھمبیر ہے انہوں نے مذہبی مسائل پر چند
رباعیاں لکھ کر بے باکی اور ُگس تاخی سے رائے زنی کی تھی ۔ انہوں نے یہ نیاز فتح
پوری کو بھیجیں لیکن انہوں نے موالنا عبدالماجد کو بھیج دیں بس پھر کیا تھا یگانہ
کی وہ شامت آئی کہ انہیں پکڑ کر ایک رکشہ پر بٹھایا ،منہ پر کالک تھوپ دی ،گلے
میں جوتیوں کا ہار پہناکر بازاروں میں ُگھمانے لگے اور لڑکے اُن کے منہ پر
تھوکتے تھے ۔ دوگھنٹے بعد پولیس نے ان کو اس ُچنگل سے نجات دالئی۔
موالنا جو خود اس طرح متشدد تھے لیکن اپنی ذات کے حوالے سے اُن کا کوئی ُکلیہ
قاعدہ نہ تھا ۔ خود انہوں نے اپنی بیگم کی کم التفاتی کی وجہ سے شادی کا ڈرامہ
رچایا ۔ شب زفاف سے پہلے ہی اس نوجوان لڑکی کو طالق دے دی اس طرح گھر
میں انہیں دوبارہ سے توجہ حاصل ہو گئی۔
دوسرا نکاح انہوں نے اپنے دوست کی نوجوان بیوہ سے کیا اور پھر بغیر کسی معقول
وجہ کے طالق دی اور وہ دوچار سال سے زیادہ زندہ نہ رہ سکی ۔عقدثانی اتنا ُجرم
نہیں لیکن بالوجہ طالق دینا بہت بڑا ُجرم ہے ۔ اس واقعے سے ان کے مخالفین کو
بھی بیان بازی کا موقع مل گیا ۔ خواجہ حسن نظامی نے انہیں "عورت باز مولوی"کا
خطاب دیا۔(ص ، ۱۶۴ ،۱۶۳کل کی بات)
موالنا خود ہر طرح سے دوسروں کی توجہ چاہتے تھے لیکن اپنے لیے انہوں نے
ایک نظام االوقات ترتیب دیا ہوا تھا جس پر وہ سختی سے کاربند تھے ۔ خود گھر میں
آنے والے مہمان کے لیے ان کے پاس ناشتے کے بعد سے لے کر عصر تک کوئی
وقت نہیں تھا ۔ کسی تقریب میں جاتے تو پچھلی صفوں میں بیٹھنا توہین آمیز خیال
کرتے تھے۔
’’یہ کوئی نیا اعزاز نہیں وہی پرانا اگست واال ہے ۔ اس کی
باضابطہ عطائے سند کی تقریب اب ہوئی تھی ۔ آگے کی
صفیں پدم بھوشن ،پدم شری وغیرہ سے بھری ہوئی تھیں۔
انہیں میں فالں گویے ،فالں سازندے ،فالں سارنگیے بھی
تھے اور آخری بالکل آخری صف ہم خاکسار "اہل علم"کے
لیے تھی ۔ منظر صبر آزما ہونے کے ساتھ ساتھ تجربہ آموز
بھی رہا‘‘۔ (ص ،499کل کی بات)
موالنا کی طبیعت میں عناد اور انتہاپسندی حد سے زیادہ تھی جب وہ کسی سے
تھے۔ چھوڑتے نہیں گنجائش کوئی تو ہوتے ناراض
تبصرہ نگار یہاں ماہر القادری کا حوالہ دیتا ہے۔
تبصرہ نگار موالنا کی شخصیت کے ان پہلوؤں کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس
دُنیا میں کوئی انسان بھی کامل نہیں ۔ وہ اچھائی برائی کا مجموعہ ہے ۔ موالنا کے
کردار کے یہ منفی پہلو انسانی کمزوریاں تھیں لیکن ان میں خوبیاں اور کماالت بھی
ب ے شمار ہیں۔ ان کا علم و فضل بے پایاں تھا وہ ایک عمدہ نثر نگار تھے ۔ ان کی
تحریروں میں چاشنی ،چمک اور ایک مخصوص کاٹ تھی ۔ وہ کبھی دھیما اور بے
روح فقرہ نہیں لکھتے تھے ۔ان کے مکاتیب بھی جاندار اور ظرافت سے بھر پور
ہیں۔
آخر میں مبصر ایک دفعہ پھر ڈاکٹر تحسین کو ان کی اس علمی و ادبی کاوش پر
مبارک باد دیتا ہے مزید برآں اس نے کچھ امالئی اغالط کی بھی نشاندہی کی ہے جو
ہو سکتا ہے کہ کتابت کی غلطی ہو لیکن کتاب کے آخر میں اشاریہ نہیں دیا گیا جو
ہے۔ کمی بڑی ایک
تبصرہ نگار نے اس موضوع کا جائزہ احسن انداز میں لیا ہے اور حسب روایت اسے
اپنے مفید خیاالت سے مزیّن کیا ہے تاکہ کوئی پہلو تشنہ نہ رہ جائے۔ تبصرہ نگارنے
جہاں زیر موضوع شخصیت کے حوالے سے اتنی مفید معلومات دی ہیں وہاں حوالہ
جات کی کمی بُری طرح کھٹکتی ہے کیونکہ انہوں نے دعوے سے تصویر کا دوسرا
ُرخ دکھایا ہے۔
زیر موضوع کتاب میں شامل انیتسواں تبصرہ "مثنوی سراالسرار"درتردید فلسفہ ء
خودی ڈاکٹر اقبال ،ڈاکٹر خواجہ معین الدین جمیل ،یوسف دال 169پی آئی بی کالونی
کراچی نمبر ،مجموعی صفحات 198قیمت 8روپے سال اشاعت ندارد ۔ یہ تبصرہ فنون
کے شمارہ ،۴جنوری ۱۸۱۴ء ،ص ۴۹۱تا ۴۱۱میں شائع ہوا۔
تبصرہ نگار شروع میں ڈاکٹر خواجہ معین الدین جمیل ایم اے (عثمانیہ ) ایم اے (لندن)
ڈی لٹ (پیرس) کا تعارف کرواتا ہے۔
خواجہ صاحب اس بات پر معترض ہیں کہ اقبال کے فلسفہ خودی کو بغیر سوچے
سمجھے قبول کیا جارہا ہے اس میں موجود خامیوں سے صرف نظر کیا گیا ہے اس
لیے انہوں نے اس کے رد میں زیر نظر مثنوی "سرااالسرار"تصنیف کی ۔
تبصرہ نگار کہتا ہے کہ خواجہ معین الدین جمیل کا یہ نتیجہ فکر تین حصوں میں
منقسم ہے ۔ پہلے حصے میں 81صفحات کا دیباچہ ہے دوسرے حصے میں
72صفحات پر مشتمل ایک پُر مغز مقدمہ ہے اور آخری حصہ 686صفحات پر پھیلی
ہوئی اصل مثنوی پر مشتمل ہے جو زیادہ تر اُردو میں اور کہیں کہیں فارسی میں
ہے۔ دیباچے میں مصنف نے ان حاالت و اسباب کا جائزہ لیا ہے جن کے باعث انہیں
عالمہ اقبال کے فلسفہ خودی کا یہ رد لکھنا پڑا ۔ کہتے ہیں۔
’’ یہ ہم کہہ نہیں سکتے کہ یہ خیال ہمیں کیوں کر پیدا ہوا کہ
اقبال کے فلسفہ خودی پر طبع آزمائی کریں ۔ زیادہ سے
زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں ایک مبہم ساخیال تھا کہ
خودی کا فلسفہ کسی غلط فہمی کی پیداوار ہے لیکن ایسا
معلوم ہوتا ہے کہ احیانا ً ہم پر اس کی تمام کمزوریاں واضح
ہو گئیں اور جس وقت یہ عالم طاری ہوا ہم نے اپنے آپ کو
اس مضمون پر لکھنے کے لیے مجبور پایا ۔ مصلحت ایزدی
یہی معلوم ہوتی ہے کہ اقبال کی تعلیمات کے وہ پہلو لوگوں
کے سامنے آجائیں جن کی طرف عوام تو کیا خواص نے
بھی توجہ نہیں کی‘‘ ۔(ص ،411ایضا ً)
اس ضمن میں تبصرہ نگار کہتا ہے کہ اس مثنوی کی تصنیف چونکہ مصلحت ایزدی
کا اقتضا تھی اس لیے خواجہ صاحب کو اس کے لکھنے کے لیے حیرت انگیز طور
پر مختصر وقت درکار ہوا۔ دیباچہ میں مصنف لکھتا ہے۔
تبصرہ نگار اس کے جواب میں کہتا ہے کہ قارئین کو فی الواقع اس معجزہ کا یقین نہ
آتا لیکن تائید غیبی کی دخل اندازی چشم بینا کو کھلم کھال نظر آرہے ہو وہاں انکار کی
راہ اختیار کر کے کون اپنا ایمان خطرے میں ڈال سکتا ہے۔
مصنف اس مثنوی کو لکھنے کا مقصد زیادہ واضح الفاظ میں اس طرح بیان کرتا ہے۔
عالمہ اقبال کی مثنوی اسرار خودی فارسی زبان میں ہے لیکن خواجہ صاحب کی
مثنوی "سراالسرار اُردو" میں ہے ان کے خیال میں اقبال نے بعض مصالح کی بناء پر
فارسی کو اُردو پر ترجیح دی ۔ جمیل صاحب نے محض گیسوئے اُردو کو سنوارنے
تصوف
ّ کے لیے اُردو زبان کو ذریعہ اظہار بنایا ہے ۔انہوں نے مربوط فلسفیانہ نظام
کو عام فہم زبان میں سمجھانے کی کوشش کی ہے۔
شاعر مزید بحث کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جب انسان اپنی خودی کے اندر خود خدا
تعالی کو جذب کر لینے کا حوصلہ رکھتا ہے تو اس میں نفس شیطانی کہاں سے آجاتا
ٰ
ہے اور اس سے اعمال شر کیوں سرزد ہوتے ہیں۔ کیااس کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ
ادنی کا معیار کیا
اعلی و ٰ
ٰ ادنی ۔ اگر ایسا ہے تو پھر
اعلی ہوتی ہے دوسری ٰ
ٰ ایک خودی
ہے ؟ اس شخص کی خودی کے بارے میں کیاخیال ہے جو آخرت کے خیال سے
بالکل غافل تھا لیکن اس دُنیا کی زندگی میں ہمیشہ کا میاب رہا ۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان
بے چارہ خودی کے فلسفہ کو آزما کر تھک چکا ہے اب خدا کرے اسے بے خودی
میں ہی ابدی مسرت نصیب ہو۔
تبصرہ نگار کہتا ہے کہ اقبال کے فلسفہ خودی کے متعلق عام خیال یہ ہے کہ نطشے
کے افکار سے ماخوذ ہے۔
خواجہ صاحب اس جرمن فلسفی کو بے خدا ہونا واضح کرتے ہیں اور اسے دعوت
دیتے ہیں کہ ادھر آہم تجھے خدا بننے کا ُگر سکھالتے ہیں پھر یورپ کی بدقسمتی پر
بین کرتے ہوئے ایشیا کو بھی گم کردہ راہ بتایا ہے۔
(ص ،492
ایضا ً)
تبصرہ نگار اپنے مخصوص انداز میں کہتا ہے کہ اس مثنوی کے یہ چند نمونے اس
گلستان کی بہار کااندازہ لگانے کے لیے کافی ہیں۔ اقبال کی مثنوی کا طلسم ٹوٹ چکا
تو خواجہ صاحب اقبال کے مداحوں کو تسلی دیتے ہوئے کہتے ہیں۔
تبصرہ نگار کہتا ہے کہ خواجہ صاحب کی عربی زبان کے حوالے سے سمجھ بوجھ
ناکافی ہے ۔ اس کتاب میں انہوں نے عربی کا ایک مقولہ غلط نقل کیا ہے اور دوسری
جگہ قرآن پاک کی آیت کو غلط لکھا ہے اس لیے مبصر انہیں مشورہ دیتا ہے کہ اُردو
کے گیسو سنوارنے کے ساتھ ساتھ عربی زبان کو بھی تھوڑی توجہ کے قابل سمجھ
لیں کیونکہ اُن کا موضوع فلسفہ ہے اور فلسفہ اسالم کی نصوص تما م عربی زبان میں
ہے۔
یہا ں یہ بات قابل غور ہے کہ خواجہ صاحب نے اقبال کے فلسفہ خودی کا طلسم توتوڑ
دیا ہے لیکن اپنے پیش کردہ ادبی فلسفے کے لیے انہوں نے کون سے پیمانے وضع
کیے ہیں اوراسے کن بنیادوں پر صحیح قرار دیا ہے ؟ تبصرہ نگار کا نقطہ نظر بھی
مبہم انداز لیے ہوئے ہے اس لیے وہ صرف یہی کہنے پر اکتفا کرتا ہے ٰلہذا پرستاران
اقبال" فلسفہ خودی "کو چھوڑ کر اس کی باقی چیزوں سے اپنا دل بہال سکتے ہیں۔
مبصر کا انداز ظریفانہ ہے ۔ اس تبصرے سے اُسے صرف یہ دکھانا مقصود ہے کہ
مصنف کی خود اعتمادی باکمال ہے کہ وہ اقبال کے فلسفہ خودی کی تردید کرتا ہے۔
زیر موضوع کتاب میں شامل تیسواں تبصرہ خاطر غبار "غبار خاطر"مصنف
ابوالکالم آزاد پر متین انتقاد ،عاہل نثر ،الف المحراث 922 ،صفحات پر مشتمل یہ
کتاب مکتبہ میری الئبریری الہور سے شائع ہوئی ۔قیمت 29روپے سال اشاعت درج
ہے۔ نہیں
تبصرہ نگار یہ تبصرہ تمسخرانہ انداز میں لکھ کر کتاب کا خاکہ اُڑایا ہے لیکن
صاحب کتاب کی سادہ لوحی دیکھیئے کہ اس نے اسے تعریف وتحسین سمجھا اور
تبصرہ نگار کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے کتاب کا جائزہ اتنی تفصیل سے لیا ہے۔
مبصر کا مقصد اس سادہ لوح مصنف کی خود اعتمادی کو سامنے الکر قارئین تک اس
کے خیاالت بہم پہنچانا ہے کہ دنیا میں اس قسم کے لوگ بھی ہیں جو خود کو نثر کا
بے تاج بادشاہ کہتے ہیں ۔ موالنا ابوالکالم آزاد جیسی جیّد شخصیت کو نثر لکھنے کا
اسلوب سکھاتا ہے ۔ اگر موالنا آج بقید حیات ہوتے تو نہ جانے خاطر غبار پڑھ کر اُن
کا کیا رد عمل ہوتا؟
تبصرہ نگار اس تبصرے کا آغاز تمسخرانہ انداز سے کرتے ہوئے اس مصنف کو
"مرد خاص "کہتا ہے کیونکہ اس نے کمال جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے ابوالکالم
آزاد کی شاہکار تصنیف "غبار خاطر" میں اغالط کی نشاندہی کی ہے۔ وہ اپنی کتاب
میں اہل غفلت کو جھنجوڑ رہا ہے۔ خاطر غبار " الف المحراث کی تیسری تصنیف ہے
۔ ’’خاطر غبار‘‘ معکوس صورت ہے غبار خاطر کی۔اس حوالے سے تبصرہ نگار
کہتا ہے۔
زیر نظر کتاب میں فارسی کتابچے کے لیے تیس صفحات اور باقی ساری کتاب ابو
الکالم آزاد کی کتاب پر متین انتقادہ و تبصرہ ہے۔ مبصر اپنے مخصوص انداز میں
کہتا ہے کہ اگر ابوالکالم آزادہوتے تو وہ ضرور اس محنت پر الف المحراث کے
ممنون ہوتے کہ اس نے کتاب پر اتنی محنت کی ۔ اشاریہ ترتیب دیا۔
الف المحراث نے تنقید کے لیے اسی کتاب کا انتخاب کیوں کیا اور اتنی عرق ریزی
کی ۔ اس کے دوستوں نے اسے غبار خاطر پڑھنے کا مشورہ دیا ۔ جب اس نے کتاب
پڑھی تو اس کے تاثرات کیا تھے ۔ اس کا ترجمہ بھی ساتھ مالحظہ کریں۔" کتاب
عدیداوقات"پانچ چکا ہوں مگر ہنوز کچھ نہیں پایا ۔ سالم کتاب الشے ہے پربھسم ،تیل ،
صابون و فرانسی پوست وغیر اسے اپنا قلم تول کر لکھنا چاہیے تھا"۔
ترجمہ :کتاب کئی مرتبہ پڑھ چکا ہوں لیکن ابھی تک اس میں کچھ نہیں پایا ۔ پوری
کتاب کچھ نہیں سوائے تیل ،صابن اور فرانسیسی چمڑے کے ذکر کے آزاد کو اپنا قلم
تول کر لکھنا چاہیے تھا۔(ص 481۔ ایضا ً)
پھر اس کے دوست نے اسے مشور ہ دیا کہ خدا نے اسے شعور دیا لہذا اُسے تنقید
کرنی چاہیے اگروہ ایسا نہیں کرے گا تو یہ خدا کی ناشکری ہو گی ۔
ا لف المحراث نے اپنے خود ساختہ اصولوں کو بروئے کار التے ہوئے بڑے اعتماد
سے اس پوری کتاب کا تاروپود بکھیر کر رکھ دیا ہے۔ اس نے ابوالکالم آزاد کی نثر
کو غلط قرار دیتے ہوئے اس کی تصحیح اپنی طرف سے اس طرح کی ہے۔
الف المحراث نے بعض مقامات پر سوال کا جواب خود ہی دے کر یہ ثابت کیا ہے کہ
زبان و ادب کے عالوہ تاریخ جغرافیہ اور عمرانیات میں بھی ان کا علمی مرتبہ کسی
سے کم نہیں ۔ دُنیانے ان کے اس جوہر کو نہ پہنچانا اور انہیں وہ مقام نہ مال جس کے
وہ حقدار تھے اس لیے آج یہ حال ہے کہ ’’بقول ان کے ان کی "لکھت کوئی نہیں
چھاپتا۔ یہ اس لیے نہیں کہ معیار احقر ہے بل الٹ بیرون از گرفت علمائے ا ُردو ہے‘‘۔
(ص)۱۱۴
الف المحراث جو سرکاری دفتر میں مالزم تھا لیکن شعوری لحاظ سے بیوقوفی کی حد
تک سادہ لوح تھا ۔ خود کو کامل سمجھنے والے افراد کبھی بھی عقل مند نہیں ہو
سکتے ۔ وہ تمسخر میں پوشیدہ بین السطور طنز کو سمجھ ہی نہ سکا اور دوسروں کو
مورد الزام ٹھہرانے لگا کہ ان میں اُس کو سمجھنے کی اہلیت نہیں ہے۔
زیر تبصرہ کتاب کے مصنف ڈاکٹر فضل الرحمن ،مترجم محمد کاظم Major
themes of the quranکے عنوان سے ۱۸۹۸ء میں یونیورسٹی آف شکاگو سے شائع
ہوئی ۔ ۱۰۰۸ء میں محمد کاظم کے اردو ترجمے کے ساتھ مشعل بکس کی طرف سے
شائع ہوئی۔ زیر موضوع کتاب کے مندرجات میں آٹھ ابواب اور دو ضمیمہ جات شامل
ہیں مصنف نے اس کتاب میں جن موضوعات پر بات کی ہے ۔ وہ اس طرح سے ہیں ۔
۱۔ خدا ۱۔ انسان بطور ایک فردکے ۳۔ انسان معاشرے میں ۴۔ نیچر ۶۔ رسالت اور
وحی ۱۔ معادیات ۹۔ شیطان اور شر ۱۔ مسلم امت کا ظہورمصنف کا اسلوب مفکرانہ
ہے قرآن کے حوالے سے ان کا نقطہ نظر یہ ہے ۔
مصنف کہتا ہے کہ قرآن خدا کے وجود کو ثابت کرتا بلکہ موجودہ کائنات کا مشاہدہ
کر کے اس طرف اشارہ کرتا ہے ۔ مستشرقین قرآن کی بعض آیات سے یہ رائے قائم
کرتے ہیں کہ قرآن کا خدا ایک بے رحم طاقت ہے جو چاہے تو کسی کو جہنم کی آگ
میں جھونک دے اور چاہے تو عذاب سے بچا لے حاالنکہ ان سے کہیں زیادہ آیات
میں خدا کی بے پایاں رحمت کا ذکر ہے لیکن اس کی وجہ انہوں نے قرآنی آیات کو
الگ الگ پڑھ کے نتائج اخذ کیے ہیں ۔ اس لیے دونوں طرح کی آیات کو آپس میں مال
کر پڑھنے سے خدا کا مجموعی تصور بنتا ہے ۔
انسان کے حوالے سے مصنف کہتا ہے کہ اس کی پیدائش کے ساتھ ہی خدا نے اسے
اپنا نائب قرار دیا اہل مغرب نے بعض آیات سے یہ رائے قائم کرنے کی کوشش کی
ہے کہ انسان بے اختیار ہے مصنف اس حقیقت کو سامنے التا ہے کہ خدا بالوجہ یہ
سب نہیں کرتا بلکہ خود انسان کے اعمال اور رجحانات ان نتائج کے ذمہ دار ہوتے
ہیں ۔
اب فقہا نے اس قانونی اجازت کو مہرہ بنا لیا کہ چار شادیاں کر لو کیونکہ خاوند الزما ً
انصاف کرے گا ۔ لیکن مصنف کہتا ہے
اس لیے زیادہ شادیوں کی اجازت نہیں ہونی چاہیے اور یہ اجازت اسی لیے دی گئی
کہ ماضی کی روایت کو فورا موقوف کرنا ممکن نہیں تھا۔ دو عورتوں کی گواہی کے
اہم مسئلے کی طرف توجہ دالئی ہے کہ اگر ان میں سے ایک بھول جائے تو دوسری
اسے یاد دالدے ۔ قرآن میں حکَم کی وجہ کہ اس زمانے میں عورتوں کا مالی معامالت
کا خاص تجربہ نہیں تھا لیکن بعد میں جب وہ بہت سے معامالت میں حصہ لینے لگی
تو بھی مسلم فقہا نے پابندی جاری رکھی ۔
مصنف کہتا ہے کہ اگر عورت اقتصادی فدی طور پر خود کفیل ہوجاتی ہے تو ایسی
عورت پر مرد کی برتری اسی نسبت سے کم ہو جانی چاہیے۔ مختصر یہ کہ مصنف
نے معقول دالئل کے ساتھ قرآن کے حوالے سے علم و دانش کی راہیں کھول کر اہل
فکر کو قرآن کے صحیح مطالعہ کی ترغیب دی ہے ۔
زیر تبصرہ کتاب ۳۱۱صفحات پر مشتمل ہے ۔ مصنف محمد کاظم ،قیمت ۳۰۰
ہوئی۔ شائع سے طرف کی الہور بکس مشعل ، روپے
زیر موضوع کتاب یونانی فلسفے کی شروعات سے آغاز کر کے بیسویں صدی میں
عالمہ اقبال تک آتی ہے ۔ زیر نظر کتاب میں یونانی فلسفے سے آغاز اس لیے کیا گیا
کہ مسلم فکر کے دو بڑے ماخذ قرآن اور فلسفہ یونان ہیں ۔ یونانی فلسفہ جب تراجم کی
وساطت سے عربی زبان میں دستیاب ہوا تو مسلمانوں میں فلسفیانہ سوچ کا آغاز ہوا۔
یہ حقیقت ہے کہ کندی سے لے کر مسلمانوں میں جتنے بھی فالسفر اور اہل فکر
ہوئے وہ سب کے سب یونانی فلسفے سے متاثر تھے ۔
اس کتاب میں مصنف نے مسلم فکر و فلسفے سے پہلے فلسفے کی اہمیت ،ابتدا ،ارتقا
۔ ہے کی بات تفصیالً میں بارے کے ابتدا ،
دور جاہلیت میں عربوں میں فکر کی قابل ذکر روایت ملتی ہے اسالم نے اپنے
پیروکاروں کو فکر و تدبر کی ترغیب دی اس کے ساتھ انہیں اس صورت حال کا
سامنا کرنا پڑا کہ وہ اپنے مذہب میں دوسرے مذاہب کی طرح لچک آمیز رویہ اختیار
ونصاری کے ان
ٰ کریں۔ اس دوران مسلم علماء و فقہاء نے مفتوحہ قوموں اور یہود
متکلمین کا مقابلہ کیا جو فلسفہ اور منطق کے علم برادر تھے لیکن جب علماء کو ان
کے سواالت کا جواب دینے میں کامیابی نہ ہوئی تو انہوں نے عقلی دالئل سے کام لینا
شروع کیا ۔ فلسفہ و منطق کا سہارا لیا اس طرح مسلمانوں میں علم کالم کا آغاز ہوا۔
اس علم کالم سے پہلے مسلمانوں میں کچھ فرقے وجود آگئے جن کی فکر خالصتا ً
حضور کی وفات کے بعد مسئلہ ؐ سیاسی تھی لیکن بعد میں دینی فکر میں بدل گئی
خالفت کی وجہ سے مسلمانوں کے درمیان اختالف پیدا ہوا۔ ان میں ایک طبقہ ایسا تھا
علی کو سمجھتا تھا ۔ وہ شیعان علی کے
جو خالفت کا سب سے زیادہ حقدار حضرت ؓ
نام سے باقاعدہ طور پر سامنے آئے۔ حضرت علی کے دور خالفت میں ان کے اور
معاویہ کے درمیان جنگ صفین ہوئی ۔ جس میں حاالت کا رخ دیکھ کر تحکیم کی
تجویز پیش کی جو حضرت علی نے منظور کر لی تو ان کے ساتھیوں میں سے کچھ
لوگوں نے اس تجویز کو قبول نہ کیا اور خوارج کہالئے اس تحکیم کی وجہ سے وہ
علی کے دشمن ہوگئے اور انہیں شہیدکر دیا ۔
حضرت ؓ
اب ان دو فرقوں یعنی شیعہ اور خوارج سے الگ کچھ لوگ ایسے تھے ان فتنوں سے
الگ رہے ۔ان اصحاب کے رد عمل سے متاثر ہو کر ایک اور فرقہ مرجۂ پیدا ہوا ۔ جو
معتدل اور امن پسند تھا اور انہوں نے سب کے ساتھ مصالحت کا رویہ اختیار کیا۔
یہاں تک اگر غور کریں تو یہی حقیقت سامنے آتی ہے مسلمانوں میں سوچ کی بنیاد
متعین کرنے کی ابتدا سیاست سے ہوئی ایمان اور عقیدے سے متعلق امور کی حیثیت
ثانوی تھی ۔ علم کالم کی ابتدا بھی سیاسی حاالت کی وجہ سے ہوئی بنو امیہ کا تشدد
آمیز رویہ اور پھر وہ اس کے جواب میں کہتے کہ یہ سب خدا کے حکم سے ہو رہا
ہے ہم بے اختیار ہیں ۔ اصحاب اقتدار کے جبری مسلک کے رد عمل میں قدریہ فرقہ
پید ا ہوا جن کے مطابق انسان اپنے اعمال پر قادر ہے ۔ جبریہ اور قدریہ کی کشمکش
جاری رہی ۔ قدر یہ کے نظر یات کو معتزلہ نے آگے بڑھایا واصل بن عطا اس کا
بانی ٹھہرا۔
معتزلہ آٹھویں صدی کے وسط میں منظر عام پر آئے مدت تک عروج پر رہے لیکن
بعد میں اعتدال کا دامن چھوڑدیا ۔ اس طرح آہستہ آہستہ ان کا اثر کم ہونے لگا ۔ بہر
حال وہ دسویں صدی تک کسی نہ کسی طور پر موجود رہے اسی دوران یونانی فلسفہ
تراجم کی وساطت سے مسلم دنیا میں پہنچنے لگا مسلم مفکر یونان کے کالسیکی
فلسفے کی بدلی ہوئی صورت ’’نو فالطونیت‘‘ سے متعارف ہوئے ۔ فلو نامی یہودی
اس فکر کا بانی تھا جو سکندر یہ کار ہنے واال تھا ۔ اسی شہر میں فالطینوس اور اس
کے شاگرد فرفور یوس نے نو فالطونی فلسفے کی بنیاد رکھی جو یونانی فلسفے کی
تمام دھاروں افال طونیت ،ارسطوئیت ،فیثا غورثیت اور رواقیت کا مرکب تھا۔
عقلیت پسندی اور تراجم اور یونانی فلسفہ کے باعث مسلمانوں میں فلسفیانہ سرگرمیوں
کا آغاز ہوا اس کا آغاز نویں صدی کے اوائل سے الکندی سے ہوااس کے بعد ابو
بکرر ازی ،فارابی ابن سینا باضابطہ فلسفی کے طور سامنے آئے بارہویں صدی میں
تین بڑے فالسفہ ابن باجہ ،ابن طفیل اور ابن رشد تھے ۔ ابن رشد کے ڈیڑھ سو سال
بعد ابن خلدون مسلم فکر کی روایت کا آخری اور بڑا نام تھا وہ تاریخ کا ایک بڑا
فلسفی تھا زیر تبصرہ کتاب میں مصنف کا اسلوب سادہ اور سلیس ہے جوا اردوکے
ایک قاری کے لیے بھی دلچسپ ہے ۔ کتاب کی ضخامت کے پیش نظر مصنف نے
فالسفہ کے نظام فکر کو اختصار سے احاطہ تحریر میں النے کی کوشش کی ہے۔
اسالم
زیر موضوع کتاب کے مصنف ڈاکٹر فضل الرحمن اور مترجم محمد کا ظم ہیں ۔ ۳۳۱
صفحات پر مشتمل یہ کتا ب۱۸۱۶ء میں کراچی سے شائع ہوئی ۔ مشعل بکس الہور
نے اسے محمد کا ظم کے اردو ترجمے کے ساتھ شائع کیا۔
باب :۱محمد ؐ باب :۱قرآن باب :۳حدیث کا آغاز اور اس کی نشوونما باب :۴قانون کا
ڈھانچہ باب :۶جدلیاتی کالم اور راسخ عقیدے کی نشوو نما باب :۱شریعت باب:۹
فلسفیانہ تحریک باب :۱صوفی عقیدہ اور عمل باب :۸صوفیانہ تنظیمیں باب :۱۰فرقہ
پرستی کی نشوو نما باب :۱۱تعلیم
باب :۱۱تجدید پسندی سے پہلے کی اصالحی تحریکیں باب :۱۳حاالت میں نئی
مکانات اورا میراث :۱۴ باب تبدیلیاں
تمام ابواب میں متوازن فکری دالئل سے اپنا نقطہ نظر پیش کیا یہا ں اس کے پیش نظر
دیگر مذاہب اور عقائد کی نفی یا تذلیل نہیں ہے یہ کتاب اسالم کی چودہ صدیوں پر
محیط تدریجی ارتقاء سے آگاہ کر نے کی ایک کوشش ہے ۔ یہ معلوماتی ہے اور اس
کے ساتھ اس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے ۔ کہ اسالم کے حوالے سے تمام پہلوؤں
کو بے ربط بیانات کی بجائے مربوط اور با معنی بیانہ انداز میں پیش کرنا ہے ۔ اس
لیے کتاب کا اسلوب تجزیاتی ،فکری اور فلسفیانہ ہے ۔ بیانیہ اسلوب کے ساتھ
معروضی بھی ہے لیکن اس کے باوجود تاریخی اور اسالمی مفہوم میں اسلوب زیادہ
تر تعبیری ہے سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ کتاب مغربی اور مسلم قارئین دونوں کے
لیے ہے یہاں ایک مسلم کی توجہ اس طرف دالتا ہے کہ اسے اپنی مذہبی تاریخ کو
معروضی انداز میں دیکھنا چاہیے ۔ عقیدت مندی کے دائرے سے باہر کر اسالم کے
حوالے سے اپنے تجربے کو جانچے اور غیر مسلم کو یہ جاننا چاہئے کہ اسالم ایک
مسلمان کے ساتھ اس کے اندرون میں کیا کرتا ہے ۔
اس کتاب کے حوالے سے ایک اہم بات چونکہ یہ ۱۸۱۶ء مکمل کی گئی تھی اس لیے
دنیا میں مسلم آبادی کے متعلق مصنف کے پیش کردہ اعداد و شمار تبدیل ہوگئے ہیں ۔
دوسرے یہ کہ کتاب میں مغربی پاکستان کا ذکر کیا ہے اس وقت پاکستان متحد تھا اور
صوں مغربی اور مشرقی پر مشتمل تھا۔
دو ح ّ
زیر موضوع کتاب ۳۰۳صفحات پر مشتمل سنگ میل پبلی کیشنز الہور سے۱۰۰۹ء
میں شائع ہوئی ۔ مصنف ڈاکٹر علی حسن عبد القادر (صدرشعبہ دینیات جامعہ االزہر
قاہرہ نے انگریزی میں لکھی ) مترجم ،محمد کاظم ،انتساب ۱۸۱۴ء میں وفات پانے
والے اپنے بیٹے شعیب محمود کے نام ہے ۔
زیر نظر کتا ب تین حصوں میں منقسم ہے حصہ اول ،حصہ دوم ۔ حصہ اول کے
مندرجات میں پانچ ابواب شامل ہیں۔
باب :۱ابتدائی زندگی باب :۱تصوف جنید کے مآ خذ باب :۳بغداد کا مدرسہ تصوف
باب :۱عقیدۂ توحید باب :۹نظریۂ میثاق باب :۱نظریۂ فنا باب :۸نظریہ بحالی ہوش
(صحو)
حصہ سوم رسائل جنید پر مشتمل ہے ۔ اس میں ۱۱رسائل مکتوب کی شکل میں اردو
ترجمے کے ساتھ شامل ہیں ۔
تیسری صدی ہجری میں عباسی حکومت کے زوال پذیر پایۂ تخت میں جنید ؒ کا مدرسہ
۔ ہے کرتا نمائندگی کی دور اہم نہایت تصوف
زیر تبصرہ کتاب کا اسلوب اور موضوعات صوفیہ اور بزرگان کے تذکروں سے
بالکل مختلف ہیں ۔
زیر نظر کتاب کے مطالعہ سے ان کی شخصیت کے تین پہلو ابہام سے نکل کر علم و
تحقیق کی روشنی میں آجاتے ہیں۔
۱۔ زندگی کے وہ حاالت وواقعات جن میں ان کی ابتدائی تربیت اور تعلیم کے حوالے
سے اساتذہ اور ساتھیوں کے حلقے کی مخصوص فضا دکھائی دیتی ہے ۔
۳۔ان کے مکاتیب کا اصل مجموعہ زمانہ حال میں استنبول کے کتب خانہ سے دستیاب
ہوا ہے۔ ان مکتوب میں ان کا اسلوب اشاراتی ،نصیحت کا عاجزانہ انداز ،دوستوں
کے ساتھ جذبۂ ہمدردی سے بھرپور ہے صوفی کی اصطالح کس طرح رائج ہوئی اس
کے حوالے سے اہل علم کی مختلف آراء ہیں ۔ مترجم کہتا ہے ۔
اس کتاب کے حوالے سے مصنف کا اصل مقصد حضرت جنید کے مجموعہ رسائل
کو انگریز قارئین کے سامنے النا ہے ۔ ان رسائل کے حوالے سے یہ بات نہیں بھولنی
چاہئے ک ہ وہ ایک صوفی تھے ۔ ادیب اور انشا پرداز ،منطقی و متکلم نہیں تھے ۔ اس
لیے ان کے کالم میں اشاریت اور ابہام بار ہا سامنے آتےہیں ۔
حضرت جنید تصوف کے مورث اعلی قرار پاتے ہیں ۔ اس کتاب میں ان کی زندگی
کے ہر پہلو کا جائزہ انتہائی جامع انداز میں لیا گیا ہے کہ شخصیت کا کوئی پہلو تشنہ
کام نہیں رہتا ۔
عربی سیکھئے:
زیر موضوع کتاب ۱۱۱صفحات پر مشتمل ۱۰۰۱ء میں سنگ میل پبلی کیشنز الہور
سے شائع ہوئی ۔ قیمت ۳۰۰روپے ہے ۔ مصنف :محمد کاظم کتاب کے مندرجات میں
پچیس ابواب اور تین ضمیمہ جات شامل ہیں یہ تمام ابواب عربی زبان کی گرامر کا
احاطہ کئے ہوئے ہیں۔
عربی زبان دنیا کی چند بڑی زبانوں میں سے ایک ہے جو بہت سے ممالک میں بولی
جاتی ہے ۔ بطور مسلمان یہ ہمارے لیے اس لیے زیادہ اہم ہے کہ یہ ہماری مذہبی
کتاب قرآن مجید کی زبان ہے ۔ ہمارے ہاں سکولوں میں اس کے لیے جو نصاب اور
طریقہ تدریس و ضع کیا گیا اس سے کوئی مثبت پیش رفت نہ ہو سکی اور کوئی قابل
ذکر طالب علم سامنے نہیں آیا کہ جس نے عربی زبان میں خصوصی استعداد پیدا کر
لی ہو ۔
اس ساری صورتحال کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک مسلمان قرآن اور حدیث سے براہ راست
استفادہ نہیں کر سکتا ۔ قرآن کی تالوت اور نماز کے دوران وہ ان کے مفہوم و مطالب
سے نا آشنا ہوتا ہے ۔ اس سے یہ نقصان ہوا کہ مسلم اقوام کا آپس میں قریبی رابطہ
نہیں رہا ۔ ترجمان کے بغیر ہم کالم ہونا بہت مشکل ہے ۔ اس سے مسلم امہ میں اتحاد
و یگانگت پیدا نہ ہوسکی ۔
عربی زبان کا شمار دنیا کی مشکل زبانوں میں ہوتا ہے لیکن اس خیال سے مکمل
اتفاق نہیں کیا جاسکتا ۔
زیر تبصرہ اس باب میں محمد کاظم کی تصانیف اور تراجم کاجائزہ لینے کے بعد میں
اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ ان کی فکر میں آزادی رائے کا اظہار بغیر لگی لپٹی کے
بدرجہ اتم موجود ہے ۔ اس حوالے سے وہ شخصیت یا موضوع کے متعلق تخصیصی
رویے اور سوچ کے حامل نہیں ہیں انہوں نے بال خوف بعض ان موضوعات پر گرفت
کی ہے جن پر بات کرنا ممنوع بلکہ کفر سمجھا جاتا تھا۔ ان کا حلقہ فکر بہت وسیع
نہیں تھا لیکن اس کے باوجود قارئین کے مزاج تک رسائی حاصل قابل تحسین کارنامہ
ہے ۔
مذکورہ باال کتاب صالح الدین محمود نے ۱۸۹۹ء میں نقش ّاول کتاب گھر سے
"مضامین"کے نام سے شائع کی ۱۸۸۰ء میں اس مجموعے کا نیا ایڈیشن سنگ میل
الہور نے "عربی ادب میں مطالعے "کے نام سے شائع کیا۔ اس کا موجودہ ایڈیشن
۱۰۱۱ء میں سنگ میل الہور کی طرف سے شائع ہوا۔ زیر تبصرہ کتاب ۸مضامین پر
مشتمل ہے جو عربی زبان کے داستانی ادب اور اس کی شاعری کے موضوع کا
احاطہ کیے ہو ئے ہیں ۔
زیر موضوع کتاب میں شامل مضمون "الف لیلہ" عربی ادب میں فنون کے
ہوا۔ شائع ۱۸۱ ۱۱۴تا ٰ ۱۸۱۴ء شمارہ۴جنوری
یہ مضمون ادب کی ایک ایسی صنف کے بارے میں ہے جسے ہم موجودہ عہد کی
اصطالح میں لوک داستانی ادب کہیں گے۔ اس مضمون کے مطالعہ سے یہ دل چسپ
حقیقت سامنے آتی ہے کہ اس کتاب کے ظہور میں بہت سے اتفاقات کو دخل حاصل
ہے ۔ مصنف نے موضوع اسلوب اور فکر کا پس منظر کے حوالے سے جائزہ لیا ہے
۔"الف لیلہ "کے حوالے سے یہ انکشاف حیران کن ہے کہ اس کا موطن و مبدء
س رزمین عرب نہیں ہے بلکہ کسی حد تک ہند اور پھر ایران کی سرزمین ہے ۔ اس
کتاب کی دریافت کے سلسلے میں جو پہال اتفاق پیش آیا وہ اس کے لئے ایک سنگ
میل ثابت ہوا اور آنے والے وقت میں دیگر ادباء اور مترجمین کے لئے مشعل راہ بنا
رہا۔ مصنف اس حوالے سے کہتا ہے
یہ بات قابل غور ہے کہ انطون گالن کا ادبی ذوق با کمال تھا ۔کیونکہ اگر وہ ایک عام
مستشرق ہوتا تو شاید سرسری نگاہ ڈالنے کے بعد اس کتابچے کو واپس رکھ دیتا لیکن
وہ ان انوکھے پُر لطف اور مہم جوئی سے لبریز قدیم عربی ادب سے اس قدر متاثر
ہوا کہ ذوق تجسس بڑھتا ہی گیا اور اس کی تالش میں سر گرداں رہا ۔مصنف اس کے
ذوق جستجو پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتا ہے
اس طرح "الف لیلہ"کے حوالے سے تحقیقات کا سلسلہ جاری رہا اب جسے مکمل
کتاب سمجھ لیا گیا تھا بعد کی تحقیقات نے ثابت کیا کہ اس فرانسی ہاتھوں انجام پانے
واال یہ پہال ترجمہ مکمل کتاب کا ترجمہ نہیں تھا ۔یہ چار جلدیں کتاب کے ایک
چوتھائی حصے سے زیادہ نہیں تھیں اور مزید اس نے ان میں حکایات سند باد کا
اضافہ کیا اور کچھ کہانیاں جو اس نے حلب کے شخص کی زبانی سنی تھیں وہ بھی
صع کاری کی
اس میں شامل کر دیں اور زیب داستان کے لئے اپنی طرف سے بھی مر ّ
تھی ۔لیکن اس کے باوجود ہم اس ترجمے کی اہمیت سے انکار نہیں کرسکتے کیونکہ
یہی ترجمہ مستقبل میں دیگر تراجم کے لئے بنیاد ثابت ہوا۔
م شرق میں "الف لیلہ"کی باقاعدہ دریافت کا سہرا بھی اہل مغرب کے سر پر ہے ۔
اٹھارہویں صدی کے آخر میں پر مصر پرنپولین کے حملے کے بعد یورپین علماء اور
مستشرقین کی آمد و رفت زیادہ ہوئی تو ان کے اندر یہ خواہش پیدا ہوئی کہ جس
مشرقی شاہکار سے وہ تراجم کی مدد سے آشناء ہوئے کیوں نہ اس سے اس کی اپنی
زبان میں لطف لیا جائے یوں تحقیق کا سلسلہ شروع ہوا اور مختلف ممالک سے
مسودے جمع کئے ۔
اب یہاں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ ہندوستان میں "الف لیلہ" کا نسخہ کیسے پہنچا اور
اس پر کس حد اور کس انداز میں کام ہوا اور جو کام ہوا کیااسے مستند قرار دیا
جاسکتا ہے اس حوالے سے مصنف کہتا ہے۔
‘‘ الف لیلہ" کا ایک نامکمل اور ادھورا نسخہ ہندوستان کے نئے حاکموں میں سے کس
کے ہاتھ لگا کہ وہ اسے ہندوستان الئے اور فورٹ ولیم کالج کلکتہ کی زیرنگرانی اس
کی بنیاد پر "الف لیلہ" کا پہال کلکتہ ایڈیشن ۱۱۱۱ء میں شائع ہوا ۔ یہ غالبا َ زیور
طباعت سے مزین ہونے واال پہال نسخہ تھا جو بے حد ناقص تھا کیونکہ اس میں
صرف پہلی دو سو راتوں کی داستان اور سند بادکی حکایات شامل تھیں’’۔(ص ،۱۱
ایضا َ ََ)
اس کے بعد کافی عرصہ تک اہل مشرق میں سے اس سلسلے میں کسی پیش رفت کی
دستاویزی شہادت نہیں تجسس کا یہ جذبہ اہل مغرب کو ہی ودیعت ہوا تھا اور وہ مکمل
نسخے کی تال ش میں سرگرداں رہے۔
بعد کی تحقیق نے یہ ثابت کر دیا کہ مذکورہ باال دونوں ایڈیشن سب سے مستند اور
جامع ایڈیشن قرار پائے اور گذشتہ صدی میں "الف لیلہ" پر جتنا کام ہوا یہی اس کی
بنیاد قرار پائے ۔ یہ واحد کتاب ہے جس کی تکمیل میں مہینے اور برس نہیں بلکہ
صدیاں بیت گئیں ۔ موضوع بحث سوال یہ ہے کہ اس کتاب کا زمانہ تصنیف کیا ہے
اور وہ کن حاالت میں مرتب ہوئی ہے ،عرب میں اس کی نشووونما کن حاالت میں
ہوئی ؟
" الف لیلہ"درحقیقت تین حصوں پر مشتمل ہے پہال حصہ زیادہ تر فارسی اور ہندی
کہانیوں کے ترجمے پر مشتمل ہے ،کیونکہ ایک قصے میں سے دوسرا قصہ نکالنا
قدیم ہندی قصہ گوئی کا خاص انداز تھا اسی اسلوب کو اپنا کر اہل ایران نے اپنی
کہانیاں تصنیف کیں جنہوں نے بعد ازاں عربی میں منتقل ہو کر "الف لیلہ" کی
صورت اختیار کی۔کرداروں کے نام (شہرزاد ،شہر یار) فارسی ہیں۔
دوسرا حصہ بغدادی اور خالص عربی حصہ ہے کیونکہ عرب داستان گو کو جب
ایرانی اور ہندی کہانیوں کا ذخیرہ ختم ہوتا نظر آیا تو اس نے اپنے ماحول اور روایات
کی آمیزش سے کہانیاں ترتیب دینی شروع کر دیں۔
تیسرا حصے کی تالیف و تشکیل مصر کے بازاروں میں پانچ سو سال کے عرصے
میں ہوتی ہے اس میں موضوعات اور شخصیات کاایک عجیب مرکب پندنصیحت اور
عبرت کی کہانیوں میں یہودکی اسرائیلی روایات سے بہت کچھ لیا گیا ہے ،عربی
قصے اور اسالمی روایات شامل ہیں یہ حصہ علی بابا چالیس چور ،عالؤ الدین اور
جادو کا چراغ اور اسی طرح کی دوسری کہانیوں پر مشتمل ہے۔
اس مختصر جائزے کے بعد یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ "الف لیلہ" کا مصنف کسی
خاص زمانے کا کوئی معروف شخص نہیں ہے بلکہ بغداد اور مصر کے بازاروں میں
راتوں کو اپنی محفل میں داستان گوئی کی محفل جمانے واال وجود تھا ،قصہ گوئی
ایک طرح سے اس کا ذریعہ معاش بھی تھا ۔"الف لیلہ" کے ان حصوں سے متعلق
مشہور عرب مورخین کی آراء تحسین آمیز نہیں ہے وہ انہیں من گھڑت اور خرافات
قرار دیتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ عربی ذہن تصور و خیال کے مقابلے میں وصف و بیان سے
مطابقت رکھتا ہے۔ داستان کیلئے لوگوں کا مطالعہ ضرور ی ہوتا ہے لیکن عرب
انسانوں سے زیادہ فطرت کے قریب ہوتا ہے ،غورو فکر اس کی فطرت سے بعید
ہے۔
"الف لیلہ" کی ہر دل عزیزی مغرب میں آج تک برقرار ہے بحیثیت مجموعی دیکھا
جائے تو اس قسم کے ادب پر کسی ایک ملک یا قوم کی اجارہ داری نہیں ہوتی ۔ یہ
زمان و مکان کی قیود سے آزاد ہوتا ہے اہل مشرق کو چاہیے کہ اس کا ترجمہ اس
انداز سے کریں جو کالسیک کا درجہ اختیار کر جائے۔
کر دیا کہ وہ اپنے زمانے کے ساتھ ساتھ آنے والے زمانے کیلئے ضرب المثل کی
حیثیت اختیار کر گئی۔
اس کی مرثیہ نگاری کا محرک اس کے دو جواں سال بھائیوں کی ناگہانی موت بنی۔
عرب معاشرے میں بہن کی محبت الزوال ہے جس کا ثبوت بعدازاں واقعہ کربال کے
دوران حضرت زینب نے دیا۔ تکبر ہر ہ ْنر اور عروج کے لئے زوال ثابت ہوتا ہے،
یہی معاملہ خنساء کے بھائیوں کے ساتھ پیش آیا۔ کیونکہ اس کے باپ کو اپنے دونوں
بیٹوں پر بہت فخر تھا۔
‘‘ان کا باپ"عمر بن حارث جب حج کیلئے جاتا تو وہاں اپنے دونوں بیٹوں کا ہاتھ پکڑ
کر بڑے فخر کے ساتھ اعالن کرتا میں خاندان مضر کے دو بہترین فرزندوں کا باپ
ہوں اگر کسی کو میرے اس دعوے میں سخن ہو تو اٹھ کر مجھے جھٹال دے۔ (ص
،۳۱ایضا َ)
ُ
وزلزلت االرض زلزالھا
‘‘معاویہ کی موت سے یوں لگتا ہے جیسے کوہسار اوندھے
گر پڑے ہوں۔ اور زمین کو ایک زلزلے نے آلیا ہو’’۔ (ص
،۳۹ایضا َ)
اس واقعے سے تین سال بعد اس کے بڑے بھائی کو موت نے آلیا تو اس کے غم کی
کوئی انتہا ء نہ رہی اور آنکھوں سے آنسو اس طرح رواں ہوئے کہ ساری عمر نہ
تھمے ،اس غم نے اسے پْر گو اور پْر اثر شاعرہ بنادیا۔
ایک مرتبہ جب عکاظ کے مشاعرے میں اس نے اپنا مرثیہ پڑھ کر سنایا تو سننے
والوں کے دل ہال ڈالے ،عرب کا شاعر اور نقاد نابغہ اس سال مشاعرے کا صدر تھا ،
خنساء کا کالم سن کر کہنے لگا ۔
خنساء کا زمانہ چھٹی اور ساتویں صدی عیسوی کا ہے اور سنہ آٹھ ہجری میں اپنے
قبیلے کے ساتھ دربار نبوی میں حاضر ہوئی اور اسالم قبول کیا ،یہ زمانہ جاہلیت کے
اختتام اور اسالم کے آغاز کا تھا ،قبول اسالم کے بعد بھی اس کی تمام تر شاعری
جاہلی رویے کی نمائندگی کرتی ہے اس لئے اس کا شمار جاہلی شعراء میں ہوتا ہے۔
مصنف یہاں اس شاعرہ کی فنی خامی کا ذکر کرتا ہے جو دوران مطالعہ کھٹکتی ہے
وہ یہ ہے کہ ان سارے مرثیوں میں اس کی اپنی جذباتی کیفیت بہت کم اور مرنے
والے کے اوصاف کا بیان زیادہ ہے۔ کیونکہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی واردات
قلب بیان کرے ،جو مرنے والوں کے جْ دائی میں اس کے دل پر گذرتی ہے اس طرح
کے مرثیے اس کے ہاں بہت کم ہیں لیکن اس معاملے وہ بالکل مایوس نہیں کرتی۔
ایک مرثیے میں وہ اپنے بھائی صخر کے حوالے سے اپنی اندرونی کیفیت کا اظہار
کرتے ہوئے کہتی ہے ۔
یذکرنی طلوع الشمس صخرا
" ّ
مجھے ہر طلوع و آفتاب صخر کی یاد دالتا ہے اور ہر غروب آفتاب کے وقت میں
اسے یادکرتی ہوں۔ (ص ،۳۸ایضا ً)
مصنف نے اس شعر کی وضاحت نہایت اچھے اسلوب میں اس کی ذہنی کیفیت کو
جانچتے ہوئے کی ہے ،خنساء کے فکر کی سچائی ہے کہ جاہلی شاعری کے انتخاب
اس کے بغیر نامکمل ہیں۔حضورﷺنے اس کا کالم سْنا تو بہت متاثر ہوئے اس کے
مرثیے سنتے تھے اور فرماتے تھے ہاں ہاں تْو اے ۔
قبول اسالم کے بعد بھی اس کی گریہ زاری میں کوئی کمی نہ آئی اور کالی اوڑھنی
ْمر کے زمانے میں بھی اس کی یہی
اس نے اپنے سر سے جدا نہ کی ۔ حضرت ع ؓ
صورت حال رہی۔
خنساء جس کے آنسو بھائیوں کی وفات کے بعد کبھی خشک ہی نہیں ہوئے اور کبھی
آنکھوں کاپانی سوکھ جاتا تو وہ کہتی تھی
’’اے آنکھو! بخل نہ دکھاؤ اور پتھر نہ بن جاؤ کیا تمہارے
اندر اس صخر سخا پیشہ پر بھی رونے کیلئے آنسو نہیں
ہیں‘‘۔ (ص ،۴۶ایضا َ)
جب جنگ قادسیہ میں اس کے چاروں بیٹوں کی شہادت کی روح فرسا خبر اسے
سنائی جاتی ہے تو وہ بڑے صبر و تحمل سے سنتی ہے کہ اللہ نے اسے ان کی
شہادت کی ّ
عزت سے سرفراز کیا۔
زیر تبصرہ کتاب میں شامل یہ مضمون "قنون"کے شمارہ ،۳اگست ۱۸۹۴ء ص ۹تا
۱۶پر شائع ہوا۔
جاہلی شاعر ی کا سرخیل جس کا زمانہ حضرت محمد ﷺسے تقریباًایک سو سال پہلے
کا ہے ،اس کی وفات ۶۴۰ء کے لگ بھگ ہوئی اور ہجرت نبوی کا سال ۱۱۱ء ہے
اسالم سے ایک صدی پہلے کا زمانہ جاہلی شاعری کے عروج کا زمانہ تھا اس نے
کبھی خود کو جاہلی دور کا شاعر اول نہیں کہا۔ بلکہ وہ کہتا ہے
"عوجا علی الطلل المحیل لعلنا نبکی الدیار کمابکی ابن حذام()۸
مصنف نے اس مضمون میں اس کی شاعری کے دو ادوار مقرر کئے ہیں ۔ پہلے دور
میں اس کے آباؤ اجداد کا تعارف اور ا س کی کھلنڈری زندگی کے پے درپے واقعات
کی تفصیل ہے اور ان عوامل کا جائزہ لیا ہے جو اس کی شاعری کے لئے محرک
ثابت ہوئے۔ اس میں دو پہلو زیادہ اہم ہیں ایک یہ کہ وہ ایک فطری شاعر تھا اور
فطری شاعر ی معاشرتی پابندیوں سے آزاد ہوتی ہے۔ دوسرا اس کا ماحول جس میں
عیش و نشا ط کے سبھی سامان اس کی دسترس میں تھے۔
امرؤ القیس کا باپ ح ُجراپنے قبیلے کا سردار تھا اس کا یہ خوش شکل ،شراب اور
شکار کا رسیا بیٹا شاعری کے طرز سخن میں بھی باکمال تھا ،اس نے اپنی شاعری
میں اپنے سب معاشقوں کا برمال ذکر محبوباؤں کے نام لے لے کر کیا۔اگر بحوالہ
شاعری دیکھا جائے تو تغزل کی ایک نئی روایت نے جنم لیا جہاں پہلے گھوڑی یا
اونٹ کی توصیف کی۔سفر کے مصائب کا بیان اور اپنے ممدوح سردار کے جھوٹے
سچے گن گائے جاتے تھے اب محبوب کے عشووہ و ناز کی باتیں ہونے لگیں لیکن
اس سے قبیلے کی بہو،بیٹیوں کی عزت سربازار نیالم ہونے لگی۔اور اس نے حد یہ
کی تھی کہ دوسری عورتوں کے حسن و جمال کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ اپنے باپ کی
ایک بیوی کے محاسن بیان کرنے سے بھی باز نہیں آیا تھا۔
" بات بڑھتے بڑھتے اس کے باپ امیر حجر تک پہنچی اور اس نے عیاش بیٹے کو
بال کر بہت سختی سے تنبیہ کی کہ آئندہ وہ اپنی شاعری میں ان فواحش و لغویات کا
ذکر نہیں الئے گا۔امرؤ القیس اپنی روش پر قائم رہا۔ اُدھر بادشاہ حجر کو بھی اپنا
منصب اور اس کے تقاضے عزیز تھے چنانچہ اس نے انتہائی اقدام کا فیصلہ کرتے
ہوئے امرؤ القیس کو گھر سے نکال دیا’’۔ (ص ،۶۰ایضا ً)
‘‘ایک رات جب اس کے اہل خانہ سو گئے تو میں اس کے باال خانے پر یوں دبے
پاؤں چڑھا جیسے پانی کا بلبلہ اٹھتا ہے ،دھیرے دھیرے بے آواز‘‘!
’’جب میں چھوٹا تھا تو باپ نے مجھے ضائع کر دیا اور اب
میں بڑا ہوا ہوں تو مجھ پر اپنے خون کے بدلے کا بوجھ الد
دیا ہے ۔ آج تو نشہ اْترے گا نہیں اور کل نشہ چڑھے گا نہیں
۔ آج کا دن جام کیلئے ہے اور کل کا دن ایک بڑے کام
کیلئے‘‘۔ (ص ،۶۱ایضا َ)
دوسرے دن اس نے ہوش میں آنے کے بعد قسم کھائی کہ جب تک اپنے باپ کے قاتل
قبیلہ کے سو افراد کو تہہ تیغ کر کے اور سو افراد کی چوٹیاں کاٹ ا ن سے خون کا
بدلہ نہ لیا نہ گوشت چکھوں گا نہ شراب کو منہ لگاؤں گا اور نہ بالوں میں تیل ڈالوں ،
اور نہ اپنا سر پانی س ے دھوؤں گا پھر جب اس کی قسم پوری ہو چکی تھی تو اس نے
مذکورہ نعمتوں کو خود پرحالل کر لیا تھا ،لیکن اس کے انتقام کی آگ ٹھنڈی نہ ہوئی
تھی ۔
وہ قسطنطنیہ میں قیصر روم کے پاس بنو اسد کے خالف امداد کا طالب ہوا قیصر نے
اس کی اچھی خاصی آؤ بھگت کی اور اس کے ساتھ ایک لشکر روانہ کر دیا۔ لیکن
ابتدائی سفر میں ہی اسے کوئی ایسا عارضہ الحق ہوا کہ اس کا سارا جسم دانوں سے
بھر گیا اور مرض گھٹنے کی بجائے بڑھتا گیا۔ اور ایک دن وہ زندگی کی۔
بازی ہار گیا۔ اور عسیب نامی پہاڑی میں دفن ہوا۔ امرؤ القیس جو اپنے معاشقوں اور
جنسی بے راہ روی کی وجہ سے بدنام زمانہ تھا اس کی ازدواجی زندگی کا یہ پہلو
تاریک ہے جب کہ ابھی وہ جوان رعنا تھا اور اپنی حسین بیوی کو جنسی طور پر
آسودہ نہ کر سکا۔مصنف مشہور عرب روای اصمعی کے حوالے سے یہ واقعہ بیان
کرتا ہے
بعدا زاں اْم جندب نے ایسے حاالت پیدا کیے کہ امرؤ القیس کو طالق دیتے ہی
بنی۔ امرؤ القیس کی دوسرے دور کی شاعری میں موضوعات کا تنوع ملتا ہے جب
ا پنے باپ کے قاتل قبیلہ سے بدلنے میں اسے اس طرح کامیابی نہ ہوئی جیسے وہ
چاہتا تھا تو اس کے اشعار اس حاالت کی غمازی کرتے ہیں۔
زندگی میں پیش آمدہ حاالت انسان کی سوچ اور تخیل کو بدل دیتے ہیں لیکن زندگی
کی نامرادیوں کا اظہار سچائی سے کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ،امرؤ القیس
ان پیش اُفتادہ حاالت کی تلخیوں کے سامنے سر جھکا دیتا ہے۔
امرؤ القیس کی شاعری میں خیال کی نزاکت اور احساس کی گہرائی کی تالش بے
سود ہے ،کیونکہ اس کی شاعری بیان واقعہ کی شاعری ہے۔ وہ اپنے اچھے اور بْرے
دونوں حاالت کو بال مبالغہ اپنی شاعری میں رقم کر دیتا ہے اس کی شاعری میں شب
و روز کی تصویر ابھرتی ہے۔
مصنف کہتا ہے انسان کے عمومی مشاہدے میں محبت کی تین اقسام آئی ہیں ۔
پہلی قسم میں جسم ،دوسرے جسم میں کشش محسوس کرتا ہے اور اس میں مدغم ہونا
چاہتا ہے۔ دوسری قسم میں جذبہ اور جسم دونوں اس تعلق میں برابر کے شریک
رہتے ہیں جبکہ تیسری قسم میں ایک روح دوسری روح کی گرویدہ ہوتی ہے۔ اور
جسم اس سارے معاملے میں غیر متعلق رہتے ہیں۔
امرؤ القیس کی اپنی شاعری میں محبت کی پہلی قسم کا برمال اظہار ہے اور اس نے
چالئی۔ ریت کی محبت اسی میں شاعری عربی
امرؤالقیس کی بیوی اُم جندب کے حوالے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ عرب
معاشرے میں چھٹی صدی عیسوی میں عرب کی عورتوں کو اپنی جنسی تشفی کا نہ
صرف شعور تھا بلکہ وہ اسے اپناحق سمجھتی تھیں اور برمال اظہار کرتی تھیں ،اور
اس کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی دے دیتی تھیں۔ عہد نبویﷺ میں بھی اس طرح
کے کئی واقعات پیش آئے۔
ایک بار آنحضرت ﷺ کے سامنے امرؤ القیس کا ذکر کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا
’’وہ شاعروں کا سربراہ اور ان کا علم اٹھائے ہوئے ہے‘‘
زمانہ جاہلیت میں عورتیں آزاد نہ پھرتیں اور تاالبوں میں نہاتیں اور قبائلی جنگوں میں
مردوں کے شانہ بشانہ رہتی تھیں ،اور ان کا جنسی شعور آ ج بھی ہماری مشرقی
عورت کو شرما دے۔(مزید تفصیل کے لیے دارۃ جلجل نامی مقام پر تاالب کا واقعہ
دیکھیں۔ عربی ادب میں مطالعے ص )۶۹
زیر تبصرہ کتاب میں شامل یہ مضمون فنون کے شمارہ ۱،۳جوالئی اگست ۱۸۹۶
ص ۱۱تا ۱۰پر شائع ہوا اس مضمون میں مصنف نے عباسی دور کے ایک اہم شاعر
ابو نواس کی شخصیت کے اہم پہلوؤں کے جائزے کے ساتھ اس کی فکر ،اسلوب اور
شعری موضوعات کو اس عہد کے سیاسی و سماجی تقاضوں کے تحت پرکھا ہے
کیونکہ کسی بھی انسان کی شخصی تعمیر و کردار میں اس کے حاالت سے پہلو تہی
کرنا ممکن نہیں۔
ابو نواس کا دور دوسری ہجری کا نصف آخر ہے وہ خلیفہ منصور کے عہد میں پیدا
اعلی درجے کا ملکۂ شعری لئے بصرہ کو چھوڑ کر
ٰ ہوا ،وہ تیس برس کی عمر میں
بغداد آیا جہاں اس کی شہرت اس کی آمد سے پہلے ہی پہنچ چکی تھی ،وہ جلد ہی
خلیفہ وقت ہارون الرشیدکے مقربین میں شامل ہو گیا لیکن اس کے فسق و فجور ،مے
نوشی اور معامالت مذہب کے حوالے سے بے باکی کی وجہ سے شاعر دربار بنانا
مناسب نہ سمجھا۔ ہارون الرشید کے بعد امین مسند خالفت پرمتمکن ہوا تو ابو نواس
قصر شاہی کا شاعر قرار پایا۔ اور یہ اس کی زندگی کا بہترین دور تھا۔ امین جب جنگ
میں مارا گیا تو ابو نواس نے بھی اپنا طرز زندگی تبدیل کر لیا۔
ابو نواس نے جس معاشرے میں آنکھ کھولی اس کی تصویر مصنف اس طرح پیش
کرتا ہے۔
اس معاشرے میں ایک اور اہم رجحان سامنے آیا تھا جو عربوں اور ایرانیوں کے
تصادم کا نتیجہ تھا یہ درحقیقت ایک ردعمل تھا جو عجمی خصوصا َ ایرانی قوموں میں
عربوں کے قومی و نسلی تفاخر کے خالف بڑی شدت سے پیدا ہوا تھا ۔ جس سے
عربوں کو یہ بتانا مقصود تھا کہ انہیں دنیا کی دوسری قوموں پر کوئی برتری حاصل
نہیں ہے ۔ اور اسالم انہی کے لئے مخصوص نہیں تھا وہ تو ساری دْنیا کے لئے تھا۔
مذہب کی تاریخ میں صرف گنتی کے چار پیغمبر عرب عالقوں کے اندر آئے تھے
باقی ہزاروں پیغمبر دوسری قوموں میں سے بھیجے گئے تھے۔
ابو نواس کی ماں ایران کے عالقے اہواز کی رہنے والی تھی اور اس کا باپ ایک
شامی عرب تھا لیکن غالم خاندان سے تھا۔ بہت چھوٹا تھا کہ باپ کا سایہ اس کے سر
سے اٹھ گیا ماں نے اسے ایک عطار کے ہاں مالزم رکھوا دیا جو غیر شادی شدہ تھا
اور لڑکوں کی جانب رغبت رکھتا تھا ۔ابو نواس نازک اندام ،سرخ و سفید اور خوب
رو تھا یہ دن اس کے کچھ بننے کے تھے لیکن کردار کی جس دیوار میں بچپن سے
کجی آئی تو پھر کبھی سیدھی نہ ہو سکی اس کی ماں نے اْسے عطار کے ہاں چھوڑ
کر دوسری شادی کر لی اور پھر زندگی بھر اس نے اپنی ماں کی شکل نہ دیکھی۔
ان حاالت کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر ابو نواس کی شخصیت کا جائزہ لیا جائے تو
شاید وہ قصور وار نہ تھا کیونکہ اس نے بچپن سے ہی زندگی میں محرومیوں کے
سوا کچھ نہ دیکھا اسے بصرہ اور کوفہ میں جو اساتذہ میسر آئے وہ سب ناؤ نوش کے
روح رواں تھے۔
جب زندگی میں انسان کو حاالت ایسے پیش آئیں کہ اس کے لئے صبح سے شام کرنا
جوئے شیر النے کے برابر ہو تو اس کے کردار و اطوار میں شائستگی اور پاکیزگی
کیسے آسکتی ہے۔ اس کی زندگی میں مثبت تبدیلی کے امکانات تو تھے اگر اسے
محبت میں آسودگی حاصل ہو جاتی لیکن یہ بھی ممکن نہ ہو سکا اس لئے وہ صحت
مند زندگی کی طرف کبھی نہ لوٹ سکا۔
اسے ثقفی خاندان کی ایک خو ب صورت لونڈی جنان سے محبت میں ناکامی نے
عورتوں سے ہمیشہ کیلئے برگشتہ کر دیا۔ اْس نے اْسے اپنی طرف متوجہ کرنے
کیلئے ہر طرح سے جتن کئے۔
اس کی اصل وجہ جنان خود بھی اس کو ناپسند کرتی تھی کیونکہ وہ لڑکپن میں جن
غلط توجہات کا شکار ہوا تھا اس نے اس کے مردانہ کردار اور طور طریقوں کو کافی
حد تک متاثر کیا اور اس کی شخصیت میں کوئی ایسی کمی واقع ہو گئی کہ وہ جنان یا
دوسری عورتوں کو اپنی طرف راغب نہ کر سکا۔
مردوں
اس کی شاعری کے نمایاں پہلوؤں میں شراب ،خوب صورت لونڈیوں اورا َ
سے عشق اور شعوبی رجحان کے زیر اثر عربوں کی روایت سے شعوری بغاوت کا
رجحان نمایاں ہے۔ کہیں وہ دینی روایات اور اخالقیات کا منکر دکھائی دیتا ہے۔
اگر اس کی شاعری کا مطالعہ کریں تو وہ ملحدو زندیق نہیں لگتا کیونکہ اللہ تعالی ٰ
کی غفاری صفات پر اس کا پختہ یقین ہے ۔
’’ قسم میری جان کی! اگر خدا نے شراب کا یہ گناہ معاف
نہ کیا تو روز حساب میں ایک دردناک عذاب بھگتوں گا‘‘۔
(ص ،۸۹ایضا َ)
ابونواس ایک سچا اور کھرا شاعر تھا اس نے اپنی شاعری میں انہی مناظر کی
عکاسی کی ہے جن میں وہ شب وروز گزارتا تھا ۔ وہ چاہتا تو اپنی ہم جنسی پرستی پر
عشق مجازی کا پردہ ڈال سکتا تھا لیکن اس نے ایسا نہ کیا۔
ایران کی تہذیب و ثقافت کے زیر اثر ابو نواس کی شاعری کا ایک موضوع شعوبیت
ہے۔عربی قصیدے کے مطلع میں شعراء نے اس روایت کو مذہبی شعار کی طرح
برقرار رکھا کہ اْجڑے ہوئے دیار کے سامنے کھڑ ے ہو کر محبوبہ کی یاد میں آنسو
بہانا۔
عربی قصیدے کی اس روایت کی تضحیک کرتے ہوئے ابو نواس اپنی شرارت بھری
نظم میں کہتا ہے۔
آخری ایام میں جب وہ مرض الموت میں مبتال تھا تو عیادت کے لئے آنے والوں کو
انتہائی کمزوری کے باوجود نصیحت کرتا تھا۔
اس کے دیوان کے آخری حصے میں ایک چھوٹی سی نظم ہے جس میں اس نے
زندگی کے آگےہتھیار ڈال دیئے تھے۔
اس کی شاعری اور فکر میں ہر صاحب فکر انسان کی طرح ایک کش مکش نظر آتی
ہے جو اْسے کسی لمحے مطمئن نہیں ہونے دیتی۔ شراب اور مغفرت دونوں رویے
ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ اس سب کے باوجود بطور انسان اس کے اخالق بہت اچھے تھے
وہ دوسروں کا مددگار اور ہمہ وقت دکھ درد میں ساتھ دینے واال تھا۔ مذکورہ باال
رویے اس کے ذاتی تھے جس سے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا۔
عربی شاعری ،ایک نئے دور میں زیر تبصرہ مضمون فنون کے شمارہ ۱،۱اپریل
مئی ۱۸۱۴ء ص ۴۳۴تا ۴۴۰
اس مضمون میں مصنف اس سے مراد دوسری عالمی جنگ کے بعد کادور لیتا ہے یہ
شاعری محض اپنے زمانے کی وجہ سے جدید نہیں ہے بلکہ اس میں ہیئت اور مواد
دونوں طرح سے تغیر واقع ہوا ہے کہ یہ عربی شاعری کی پندرہ سو سالہ روایت سے
بالکل مختلف دکھائی دیتی ہے۔عربوں کی جدید نسل آج کل زیادہ تر اسی شاعری کے
نئے تجربے کر رہی ہے ۔ دوسری طرف ایسے ادبی مجلے بھی ہیں جو اس نئی
شاعری کو سرے سے شاعری ہی تسلیم نہیں کرتے۔
دوسری عالمی جنگ نے جو تباہی مچائی اس نے پْرانی قدروں کی جگہ نئی قدریں
کھڑی کر دیں۔ سامراج کے خالف دلوں میں نفرت آخری حدوں کو پہنچ گئی اس
صورتحال کو مزید ہوا یہودیوں کے فلسطین۔
پر قبضے نے دی۔یہودیوں کے خالف پہلی جنگ (۱۸۴۱ء) میں عرب جن تلخ تجربات
سے گزرے اْن کی وجہ سے نئی نسل میں بغاوت نے جنم لیا اور ہر شعبہ حیات اس
کی زد میں آنے لگا۔
ان بحرانی حاالت میں جس شاعری نے جنم لیا اْسے "الشعر الشوری" (بغاوت کی
شاعری) کہا جاتا ہے عربی ادب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ قافیے اور وزن کی روایتی
شکل سے آزاد شاعری تخلیق ہوئی یہ شاعری حقیقت پسندانہ ہے۔
مصنف اس نئے دور کے شعراء کا تذکرہ کرتے ہوئے نوجوان عراقی شاعرہ نازک
المالئکہ کی اس نثری نظم کا حوالہ دیتا ہے جو اس نے مصر میں ہیضے کی تباہ
کاریوں سے متاثر ہو کر اس اْمید کے ساتھ لکھی تھی کہ عربی شاعری میں یہ ایک
نئے عہد کا آغاز ثابت ہو گی۔ یہ نظم اس شاعرہ نے ۱۹اکتوبر۱۸۴۹ء کو اہل خانہ کو
سنائی جن کا تعلق بھی ادب سے تھا۔ اس نظم پر اْسے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
پھر ایک اور شاعر بدر شاکر السیاب کا دیوان شائع ہوا،تو اس میں اسی طرح کی نظم
شائع ہوئی۔اس طرح کی شاعری کی تخلیق کا مقصد اپنے جذبات کا بے ساختہ اظہار
ہے تاکہ قافیوں اور ردیف کی پابندیوں میں اْلجھ کر کہیں اصل مقصد ہی نہ فوت ہو
جائے ۔
سلیمان ٰ
العیسی باوجو د پابند شاعری کے نئے شعراء میں بڑے احترام سے دیکھا جاتا
ہے۔
عربوں میں موجودہ دور میں سب سے مقبول عام جذبہ عربی قومیت کا ہے اس دائرے
میں ہر وہ شخص سما سکتا ہے جس کی مادری زبان عربی ہو مذہب چاہے کوئی بھی
ہو۔
پابند کر لیا ہے اور اس کی شاعری سے زندگی کے ہلکے پھلکے تفریحی پہلوؤں کے
حوالے سے داخلی احساسات کا اظہار کم ہوتا جارہا ہے لیکن یہ کلیتا َ ََ ختم نہیں
ہوا۔جدید شاعرنزارقبانی کی نظم "محبت اور پٹرول"داخلی کیفیت کا اظہارکرتی ہے۔
"تم کب سمجھو گے ،اے میرے سردار!
نہ میں ایک ہندسہ ہوں تمہاری شادی کے رجسٹر کا (جو ہر سال اس میں درج ہوتا
ہے)
تم کب سمجھو گے اے میرے سردار ،،اے صحرا کے شتر بےمہار !(ص ،۱۴۱
ایضا َ)
اس ڈائری کے کچھ صفحات حیفا کے رسالے "الجدید‘‘میں شائع ہوئے تھے ،شاعرہ
کی نثر بھی کہیں شاعری کا لطف دے جاتی ہے اس ڈائری میں ۳۱الگ الگ تحریریں
ہیں ۔
ان تحریروں میں شاعرہ نے فلسطین کے حاالت کے حوالے سے اپنی داخلی کیفیات
بیان کی۔
ہیں۔مختلف شہروں میں اپنے سفر کا ذکر کیا ہے وہ اپنے فکری جمود پر متفکر ہے
ک یونکہ حاالت کی وجہ سے وہ ایک طرح اپنے گھرمیں بند ہے اس لئے اس کے
موضوعات ختم ہو چکے ہیں پھر جوان سال بھائی نمر کی موت کے باعث اس کا دل
زندگی کی دلچسپیوں سے اْچاٹ ہو گیا فلسطین پر اسرائیلی قبضے نے ان کی زندگیاں
ویراں کر دیں ۔ وہ ایک حوصلہ مند مصنفہ ہے جو حاالت سے فرار کی بجائے وہیں
رہنے کو ترجیح دیتی ہے ۔ اپنا وطن اس کیلئے زندگی کی سب سے بڑی نعمت ہے
آخری تحریر میں وہ بتاتی ہے کہ فکری جمود ختم ہو گیا وہ پانچ نظمیں لکھ کر وہ
خود کو آسودہ محسوس کر رہی ہے۔
مصنف نے ان تحریروں کا تنقیدی جائزہ نہیں لیا بلکہ اس کا مقصد ہمیں ایسی نثر سے
متعارف کروانا ہے جو مشکالت میں بھی جینے کا حوصلہ دیتی ہے اس طرح ہمیں
اس حساس اور چوٹ کھائے ہوئے دل کی عرب شاعرہ کی داخلی کیفیات کو جاننے کا
موقع ملتا ہے۔
عربی افسانہ جون ۱۸۱۹ء کی شکست کے بعد زیرتبصرہ مضمون فنون کے شمارہ
ہوا شائع پر ۳۱ تا ۹۱ ص ۱۸۹۰ء فروری ،۴
زیر موضوع کتاب میں شامل اس مضمون میں مصنف نے عربی افسانے کے حوالے
سے بات کی ہے یہاں وہ ایک مجلس مذاکرہ کے متعلق بتاتا ہے جو ۱۱،۱۱ستمبر
۱۸۱۸ء کو" ادب اور معاشرہ " کے موضوع پر ماسکو میں منعقد ہوئی لبنان کے
ادباء کے اس وفد کو سوویت رائٹر ز یونین نے دعوت دی اس مجلس مذاکرہ کی دو
نشستیں ہوئیں دوسری نشست میں کچھ مقالے پڑھے جن میں سے ایک مقالے کا
عنوان مذکورہ باال تھا۔
جون ۱۸۱۹ء میں اسرائیل کے ہاتھوں عرب جس شکست سے دوچار ہوئے اس سے
نہ صرف ادب بلکہ ان کی پوری زندگی متاثر ہوئی اس کا اظہار ان کی نظم و نثر
دونوں میں شدت سے ہوا۔ اس شکست کے بعد عربی افسانے کے اسلوب اور
موضوعات میں نمایاں تبدیلیاں آئیں۔ افسانہ حقیقت اور واقعے کے اور زیادہ قریب ہو
گیا اسلوب میں جر ٗات پیدا ہو گئی ادباء کے ایک۔
خاص گروہ میں اس کا اثر قدرے مختلف انداز میں ہوا ۔ان کی کہانیوں میں تلخی اور
یاس آمیز احتجاج کی پرچھائیاں دکھائی دینے لگیں۔ فن برائے فن کا نظریہ ختم ہو گیا
اور اس کا عملی اظہار تخلیقی صورت میں نظر آنے لگا۔
آخر میں یہ کہنا چاہوں گی کہ حاالت و واقعات کی تلخیاں جیون دھارے کو یکلخت
بدل دیتی ہیں اور زندگی ایک ایسی نہج پر چل پڑتی ہے جس کے متعلق کبھی سوچا
بھی نہیں ہوتا۔
مذکورہ باال مضمون فلسطینی شاعر محمود درویش کی زندگی کے نشیب و فراز کا
احاطہ کرتا ہے۔ مصنف بتاتا ہے کہ یہ مضمون دراصل ایک انٹرویو ہے جو محمود
درویش نے اسرائیل کی اشتراکی پارٹی کے ایک رسالے کو عبرانی زبان میں دیا تھا۔
یہ انٹرویو ایک خود کالمی کی صورت میں شائع کیا گیا حیفا کے رسالے "الجدید" نے
اسے عربی میں منتقل کیا اور عربی سے یہ اْردو ترجمہ مصنف نے قارئین کے لئے
کیا ہے۔
محمود درویش آج کی عربی نسل کے سات یا آٹھ چوٹی کے شعراء میں سے ایک ہیں
اس کی نظم "سجل :انا عربی "(لکھ لو کہ میں عرب ہوں )یہ شاعر کا تعارفی کارڈ
ہے۔
اس کے اندر ادیبانہ بڑائی اور تفاخر کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔وہ چاہتا ہے کہ قارئین
،اس کی فکر ،موضوعات اور اسلوب کے حوالے سے تنقید کریں۔ وہ کھری اور بے
ال گ گفتگو کرنے واال ادیب ہے۔
سرسبز پہاڑی پر واقع خوب صورت اور پْرسکون قصبہ البروہ کبھی اس کی یادوں
سے محو نہ ہو سکا جس کا بعد میں وجود ہی ختم ہو گیا تھا پھر وہ اپنے ہی ملک میں
پناہ گزین بن کر رہ گیا۔
اپنے شاعرانہ جذبات کے حوالے سے وہ انتہائی دکھ آمیز لہجے میں کہتا ہے۔
" میری شاعری نے آنکھ کھولتے ہی میری راہ میں کانٹے بچھا دیئے اور مجھے
فوجی آمروں()۱۴
وہ اسرائیلی یہودیوں سے شدید نفرت کے باوجود اپنی یہودی استانی شوشنہ کا بہت
احترام کرتا ہے۔
’’وہ استانی نہیں تھی ،ایک ماں تھی ،اس نے مجھے نفرت
کے جہنم سے نکاال وہ پْر خلوص خدمت کی عالمت تھی جو
ایک نیک سیرت یہودی اپنی قوم کے لئے کر سکتا ہے اس
نے مجھے ترغیب دی کہ میں تو راۃ کو بطور ایک ادبی
شاہکار کے پڑھا کروں‘‘۔ (ص ،۱۸۱ایضا َ)
جون ۱۸۱۹ء کے بعد کی جدید عربی شاعری زیر تبصرہ مضمون فنون کے شمارہ
(۱اگست ،ستمبر ۱۸۹۱ء)ص ۱۳تا ۱۹میں شائع ہوا ۔
زیر موضوع مضمون میں مصنف جون ۱۸۱۹ء کے بعد تخلیق ہونے والی عربی
شاعری کا موضوعاتی جائزہ لیتا ہے۔وہ شعراء کی بدلتی ہوئی فکر ،اسلوب اور داخلی
کیفیات پر غور کرتا ہے کہ ۱۸۴۱ء کی شکست کے بعد وہ دل کو گدگدانے والے
احساسات سے عاری ہو چکی ہے اس کی جگہ یاس و برہمی کے رویے نے لے لی۔
خوش آئند اور اْمید افزاء رویے شاعری سے بہت دْور چلے گئے۔
مصنف اس جنگ کے اثرات کا ذکر اس انداز سے کرتا ہے
’’جون ۱۸۱۹ء کی چھ روزہ جنگ میں عربوں نے اسرائیل کے مقابلے میں جو
ہزعیت اْٹھائی ،یوں لگتا ہے جیسے کوئی آفت غیب سے نمودار ہو کر اْن پر ٹوٹ
پڑی تھی۔یہ تاریخ کا سانحہ تھا ناگہاں ،پْر ہول اور اٹل عربوں کا وہ زعم کہ ان کے
پاس جذبہ ایمان کی طاقت ہے اور جدید روسی اسلحہ بھی ایک فریب نظر سے زیادہ
کچھ بھی ثابت نہ ہوا‘‘۔ (ص ،۱۰۰ایضا َ ََ)
اس شکست کے اثرات بعد کی عربی شاعری پر کافی نمایاں ہیں ۔زیادہ مایوس ردعمل
یہ سامنے آیا کہ شاعر کا خود اپنے وجود کے جواز سے ایمان جاتا رہا۔
قنوطیت کے اس دور میں حوصلہ مند اور پْرامید شاعری کی آوازیں بھی ہم تک پہنچ
رہی ہیں جو مقبوضہ فلسطین کے اندر ہی ہو رہی ہیں۔ محمود درویش اور سمیح القاسم
کی نظموں میں جر ٗات مند انہ رویہ ملتا ہے جو اس قنوطیت کے دور میں خوش آئند
ہے۔ لگتا
جون ۱۸۱۹ء کے بعد کی شاعری میں عورت کا وجود خال خال ہی نظر آتا ہے۔
ان شعراء نے اپنے تجربات الگ الگ انداز میں پیش کئے ہیں ۔
راہ دے کر محاذکی طرف بھیجتی ہیں اور پھر ان کے نیک انجام کی دعا مانگتی
ہیں"!(ص ،۱۰۴ایضا َ ََ)
اس المیے کے بعد عربی شاعری میں جو دوسرا رویہ زیادہ عام اور ہمہ گیر ہے وہ
اپنی ذات کی تحقیر و تذلیل ہے ۔ شاعر کا یہ احساس شدت اختیار کر جاتا ہے وہ اس
مصیبت میں لفظوں کے تیر چالنے کے سوا کچھ اور نہیں کر سکتا اسے احساس
ہے۔ دیتا کر مبتال میں کمتری
ایک ممتا ز شاعر ایڈونس حسرت بھرا اعتراف کرتا ہے۔
(ص ۱۰۱
،ایضا َ ََ)
مصنف کہتا ہے محبت میں اگر دل ساتھ نہ دیں تو جسم ٹھنڈے ،بے جان جسم دو قدم
بھی نہیں چل سکتے ۔ اس لئے دلوں میں حرارت ہونا ضروری ہے۔
فلسطینی شاعر محمود درویش اور سمیح القاسم کی شاعری میں اْمید اور زندگی کا
پیغام ملتا ہے۔
مذکور االول شاعر کی شاعری میں عورت ،شکست اور اس کے ساتھ انقالب کا بھی
ذکر ہوتا ہے اس لئے وہ کچھ بھی کہتا ہے اس میں توانائی ،صفائی اور روشنی ہے۔
زندگی میں کسی موسم کو دوام نہیں اس لئے ہر خزاں کے بعد بہار ضرور آتی ہے،
رات جتنی بھی تاریک ہو روشن صبح ضرور آتی ہے اس لئے شاعر جس نئے جنم کا
منتظر ہے وہ ضرور آئے گا۔
بارہ مضامین پر مشتمل اس کتاب کے گیارہ مضامین ماہنامہ فنون کے مختلف شماروں
میں شائع ہو ئے اور ایک مضمون "عربوں کی سیرت نگاری ۔گزشتہ ایک صدی میں
"ماہنامہ"نصرت "میں شائع ہوا۔
معری"تین حصوں میں قدرے تفصیل
زیر تبصرہ کتاب میں شامل مضمون "ابو العالء ّ
سے زیر بحث شخصیت کی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے اور مصنف کی
فکری بصیرت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔پہلے ُجز میں عربی شاعری میں فکر کے عنصر
کے حوالے سے مصنف نے ابوالعالء کی شعری فکر کا جائزہ لیا ہے۔یہاں مصنف اس
حقیقت کو سامنے التاہے کہ سوچ اور فکر کا مکمل اظہار زیادہ تر نثر میں ہوتا ہے
اس کے برعکس شاعری میں اس کا اظہار نسبتا َ ََ مشکل ہے۔ اردو شاعری میں غالب
کے ہاں اس کا اظہار بہت موثر اندازمیں ملتاہے اسکے بعد حالی اور اقبال کے کالم
۔ ہے آتی نظر میں صورت کی موتیوں دانائی و حکمت میں
عنصرکے حوالے سے مصنف کہتا ہے کہ عربی ادب میں
عربی شاعری میں اس کے ُ
فکر و تدبرکی کمی ہے اس کی وجہ وہاں کا ماحول اورآب وہوا ہے جو شعراء کے
مزاج پر اثر اندازرہی ہے۔اس لئے ان کی شاعری میں جوش و جذبہ محرک کے طور
پنپتا رہا۔ اس شاعر پر اظہار خیال سے پہلے مصنف عربی شاعری کے پانچ ادوار کا
جائزہ لیتا ہے۔
پہال دور زمانہ جاہلیت کی شاعری کا ہے اس دورکی شاعری میں سبع معلقا ت کے
سلمی ،لبید بن ربیع اور طرفہ بن العبد کے ہاں حکمت و
ٰ تین شعراء ُزہیر ابن ابی
عنصر نمایاں طور پرنظر آتا ہے۔
دانائی کا ُ
دوسرا دور صدر اسالم اور اْموی دور کو کہا جاتا ہے اس دورکے اہم شعراء میں عمر
بن ربیعہ ،جمیل اور قیس کی شاعری عشقیہ موضوعات کا بہترین نمونہ ہے۔تیسرا
دور عباسی دور کہالتا ہے اس کے مشہور شعرا میں بشاربن برد ،ابو نواس ،
معری شامل ہیں ،چوتھا دور نسبتا َ ویران اور
ّ ابوتمام،متبنی اور آخر میں ابوالعالء
بنجر ہے اس میں کوئی قابل ذکر شاعر منظر عام پر نہیں آتا۔پانچواں اور آخری دور
جدید دور کہالتا ہے اس میں محمودسامی البارودی ،احمد شوقی ،محمود درویش اور
نزارقبانی جیسے شعراء شامل ہیں۔فلسطین کی مزاحمتی شاعری بھی اسی دور میں
تخلیق ہوتی ہے۔
معرۃ النعمان میں پیدا ہوا اور چھیاسی سال عمر پائی۔
ابوالعال ء معری شام کے شہر ّ
اس کا دیوان "لزومیات " تیرہ سو صفحات پر مشتمل ہے اس شاعر کی فکر کے
خطوط متعین کرنے کے لئے مصنف چند سوال ترتیب دیتا ہے اور پھر اس کی
شاعری میں اس کے جواب تالش کرتاہے۔
۱۔"کیا دنیا اپنے تمام مصائب کے باوجود ایک بہترین دنیا ہے جیسا کہ Leibnizاور
اس کی طرح کے دوسرے رجائیت پسند لوگوں کاخیال ہے؟ یا یہ کہ ایک بد ترین دْنیا
ہے جیسا کہ شو پنہار کی Pessimismاسے قرار دیتی ہے؟
۴۔کیا معامالت زندگی میں انسان کی بہتر رہنما اس کی عقل ہو سکتی ہے یا اس کا
عقیدہ اوروجدان؟
۶۔ کیا عبادات اور مذہبی شعائر مقصودبالذات ہیں یا یہ انسان کی اچھائی اور نیکی کے
لئے وسیلہ ہیں ؟۔
یہاں مصنف شاعر کے عربی اشعارمع ترجمہ پیش کرتا ہے جو اس کی فکر کے تمام
زاویوں کو ہم پر واضح کرتی ہے ۔کیونکہ ایک گروہ نے اسے کافر اور ملحد قرار دیا
ہے جبکہ دوسرے گروہ نے اسے مومن اور صحیح العقیدہ سمجھا ہے اور اس کے
ہیں۔معری اپنے اشعار میں طویل العمری کو ناپسند کرتا ہے اور
ّ حق میں دالئل دیے
ان لوگوں پر اظہار حیرت کرتا ہے جو طویل عمر کے خواہش مند ہیں ۔
وہ کہتا ہے ۔
یہ زندگی تمام کوفت اور تھکن ہے مجھے حیرت اس پہ ہے
جو اس میں زیادہ کا طلبگار ہوتا ہے۔(ص ،۳۱ایضا ً )
یہ سوال ہر دور میں اہل فکر و فلسفہ اٹھاتے رہے ۔اور اپنے تئیں اس کے جواب بھی
دیتے رہے لیکن انسان کی فطرت کوسمجھنابہت مشکل ہے اس حوالے سے ہر ایک
کی رائے مختلف ہے ۔
عقل اور وجدان کے درمیان جنگ ازل سے ہے اہل فکر حضرات عقل کو ہمیشہ
فوقیت دیتے رہے ہیں اور اسے رہبر قرار دیتے ہیں ہمارایہ شاعر عوام النا س کو
سمجھاتا ہے کہ عقل سے بڑھ کر امام کوئی نہیں ۔
مذہبی شعائر کی پابندی کا ڈھونگ دنیا ازل سے رچاتی رہی ہے لیکن انسانیت کے
۔معری کو اس
ّ حوالے سے ان کے جذبات کی سرد مہری میں کبھی جوش پیدا نہ ہوا
لئے کافر قرار دیا گیا کہ وہ ایسی دینداری سے منحرف تھا جس میں انسانیت کا احترام
اور حقوق کی پاسداری شامل نہ ہو ۔
ی کہ کنارہ کشی
ابو العال معّری نے تمام زندگی اپنی فکر سے سمجھوتہ نہ کیا حت ّٰ
اختیار کر کے اس نے خود کو گھر کے اندر مقید کر لیا اور خود پر کچھ خود ساختہ
پابندیاں کر لیں ۔ گوشت ،انڈے اور دودھ کا استعمال بالکل چھو ڑ دیا شادی کے
معاملے کو اپنی زندگی سے بالکل خارج کر دیا ۔کچھ محرومیاں اسے ایسی ملیں جن
کی وجہ سے اس نے گوشہ تنہائی کو ہی عافیت سمجھا وہ ساڑھے تین برس کا تھا کہ
اس پر چیچک کا حملہ ہوا جس کی وجہ سے اس کی بائیں آنکھ کی بینائی ختم ہو گئی
اور چھ برس کی عمر میں وہ مکمل طورنابینا ہو گیا اس کے بعد کی طویل زندگی اس
نے بے نور آنکھوں کے ساتھ گزاردی ۔
ایک باشعور انسان کے لئے زندگی کی رعنائیاں بے معنی ہوتی ہیں اس لئے اس کے
اسلوب میں جارحیت کے عناصر ہوتے ہیں کیونکہ اس معاشرے میں اسے وہ پذیرائی
نہیں ملتی جس کا وہ مستحق ہوتا ہے ۔
زیر تبصرہ مضمون تبصرہ نگار نے ایک توسیعی لیکچر میں سینٹ ہال الہور میں
پڑھا تھا ۔ اس کے بعد مصنف نے ابو العالمعّری کی زندگی اور فکر کے حوالے سے
دو حصوں پر مشتمل مضمون تحریر کیا جو فنون کے شمارہ ۳۸اپریل ،جوالئی
۱۸۸۳ص ۱۱تا ۱۱پرابو العالمعّری "عربی شاعری میں فکر و فلسفہ اور یاس برہمی
کی آواز"کے عنوان سے شائع ہوا ۔
معّری کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ اس کی فکر میں یاس و برہمی کے عناصر بدر
جہ اتم موجو د ہیں لیکن کسی نے اس کے اسباب جاننے کی زحمت نہیں کی ۔ یاس و
برہمی اس کے اندر سے باہر نہیں آئی بلکہ باہر سے اس کے اندر گئی اور ردّ عمل
کے طور پر سامنے آئی اس دور کے سیاسی اور سماجی حاالت اور عوام الناس کے
دیا۔ کر متنفر
ّ سے زندگی مجلسی اْسے نے رویے آمیز تحقیر
تبصرہ نگار نے اس کی فکر کا جائزہ اس کی شاعری سے اخذ کیا ہے معری کے
سفر بغداد قیام بغداد نے جہاں اس کی سوچ کے بند دَر وا کئے وہاں اْسے تلخ حقائق
سے بھی دوچار کیا اور انہی رویوں کے موجب اس نے واپسی کاقصد کیا اور اس
کے بعد دوبارہ کبھی نہ جانے کا عہد کر لیا اور اْسے مرنے تک بخوبی نبھایا۔اہل فکر
اور فکر کی نئی طرح ڈالنے والوں کے خالف حاسدین کا گروہ ہمیشہ کارفرما رہا ہے
جو اْن کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر کے اْن کی فکر کو پس پشت ڈالنے میں منہمک
رہا۔
معری نے اپنا نقطہ نظر دلیل کے ساتھ پیش کیا ہے وہ بدنی عبادات کو نیکی کا معیار
ّ
نہیں سمجھتا اس کے لئے وہ قلب کی تطہیر کو بنیاد قرار دیتا ہے۔
اگر ان خیاالت کی بناء پر اسے کافر کہا جائے تو سراسر ظلم ہے کیونکہ اس نے تو
اسالم کی صحیح رو ح کو پروان چڑھانے کی ترغیب دی ہے اور نیکی کسی چیز کا
نام نہیں بلکہ ایک عمل ہے جس میں کسی دوسرے کی شرکت الزمی ہے اس کے
بغیر یہ عمل کارفرما نہیں ہو سکتا اب ہمارے ہاں یہی نیکی رواج پاگئی ہے کہ ہر
طرح بْرائی کر کے بعد میں عباد ت کر لو اور صدقہ و خیرات دے کر ازالہ کر لو یا
حج کر کے پاک صاف ہو جاؤ۔دل آزاری کا شمار کسی ُزمرے میں نہیں ہوتا اور نہ
اس پر کوئی فردجرم عائد ہو تی ہے بلکہ اس موضوع پر بات کرنے والے کو کافر
قرار دے کر مذہب کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے ۔ حاالنکہ اس طرح کے جبر کی
مثال قرآن و حدیث میں کہیں نہیں ہے۔زندگی اختالف رائے سے عبارت ہے کیونکہ
عقیدت مندی سوچ کے دھاروں کو منجمد کر دیتی ہے۔
زیرتبصرہ کتا ب میں شامل یہ مضمون فنون کے شمارہ ،۳۱اپریل تا جون ۱۸۸۱ء
ص ۹۶تا ۱۱پر شائع ہوا۔ یہ مضمون امیر شکیب ارسالن کی طرف سے ان الزامات
اولی میں آزادیء
ٰ طہ حسین نے اسالم کے قرون
کی تردید کرتا ہے جومصری ادیب ٰ
اظہار کے حوالے سے لگائے تھے کہ ان دنوں غیر مسلم شعراء کی شاعری اور
تخلیقات پر پابندی عائد تھی۔ عربی میں ردعمل کے طور پر لکھے گئے اس مضمون
کا اْردو ترجمہ محمد کاظم نے کیا۔ یہ ترجمہ اس قدر سلیس اور رواں ہے کہ طبع زاد
محسوس ہوتا ہے۔
ہمارے بعض ادیب کچھ نیا سامنے النے کی دْھن میں من گھڑت خیاالت پیش کرتے
ہوئے حقائق سے بھی نظریں چْ رانے لگتے ہیں اور یوں تاریخ کا چہرہ مسخ کرنے
طہ حسین کا کہنا ہے کہ اسالم نے شاعری کوقابل
میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ڈاکٹر ٰ
مذمت قرار دیا ہے۔فاضل مصنف امیر شکیب ارسالن کی اس تحریر کا مقصد دوسروں
سے اْلجھنا ہرگز نہیں بلکہ حقائق کو سامنے النا ہے۔وہ ان دعوے داروں سے پوچھتا
ہے وہ اس مسلمان خلیفہ کا نام بتائیں جس نے غیر اسالمی شاعری کو ختم کرنے کا
حکم دیا تھا۔وہ بتاتا ہے کہ عرب مسلمانوں نے ان تمام طعنوں کو زبانی روایت بھی کیا
اور قلم بند بھی کیا جو مشرکین آنحضرت ﷺ اور اْن کے صحابہ کو دیتے ہیں۔
نصاری اور یہود و مشرکین کے نہ صرف اشعار نقل کئے بلکہ وہ
ٰ مسلمان راویوں نے
ہجویں بھی نقل کیں جو انہوں نے رسول اللہ اور ان کے صحابہ کرام کے خالف کہی
تھیں وہ اسالم کے اوائل زمانے کا یہ شعر بطور مثال پیش کرتا ہے۔
"بنو ہاشم نے دین کا سوانگ رچایا حاالنکہ نہ کوئی خبر آئی ،نہ وحی اُتری ۔کاش
میرے بڑے بوڑھوں نے بد ر کے میدان میں تیروں کی بوچھاڑ سے خزرج کی
بوکھالہٹ دیکھی ہوتی۔"!(ص ،۱۸ایضا َ)
جب کعب بن زہیر نے آنحضرت ﷺ کو اپنا قصیدہ بانت سْعاَذ سنایا تو آپ ﷺ بہت متاثر
ہوئے اور اسے اپنی چادر بطور انعام دی۔اسالم کے بعد بھی جاہلی شاعری کی
پذیرائی میں کوئی کمی بیشی نہ آئی اور اس کی اہمیت اپنی جگہ مسلّم رہی ۔ عباسی
عہد کے شاعر معری اور اس کے ہم مشرب شاعروں نے اسالمی عقائد کے خالف
ہیں۔ موجود تْوں کے ُجوں بھی آج وہ تھے کہے شعر جو
مصنف حوالے کے طور پر یہ شعر پیش کرتا ہے۔
مصنف کہتا ہے کہ حاالت کے تقاضوں کے تحت متاخر ادوار میں اْس فلسفے پر
قدغن لگائی گئی تھی جو الحاد کا باعث بن رہا تھا۔ عباسی دور میں نصرانیوں نے
اپنے مذہب کی بڑھوتری کے لئے بہت سی تواریخ لکھیں لیکن کسی نے ان سے
تعرض نہ کیا اور نہ ہی کوئی پابندی عائد کی۔
مصنف امیر شکیب نے یہ مضمون روم میں قیام کے دوران ۱مارچ ۱۸۱۱میں
تحریر کیا ان کے پاس حوالے کی کتابوں کی عدم دستیابی تھی اسی حوالے سے اپنے
مضمون کے آخر میں کہتے ہیں۔
’’ اگر ہمارے پاس حوالے کی کتابیں موجود ہوتیں تو ہم اتنے شواہد آپ کے سامنے
لے آتے کہ جن کی کوئی نہایت نہ ہوتی اس کے باوجود اگر آپ محض مخالفت کی
خاطر اپنے مؤ قف پر اصرار کریں گے تو اس سے آپ کی علمیت پر ہمارا اعتماد کم
ہی ہو گازیادہ نہیں ہو گا‘‘۔ (ص ، ۶۶ ،۶۴ایضا َ)
چونکہ یہ مضمون مصنف نے عربی زبان میں تحریر کیا تھا اس لئے اس نے اس کا
عنوان " التاریخ"ال یکون باال فتراض والبالتحکم (تاریخ نہ الل ٹپ باتوں کا نام ہے اور
نہ من مانے حکم لگانے کا) لیکن مترجم نے قارئین "فنون"کے لئے اس عنوان کو بدل
دیا اس مضمون میں مصنف کا یہی نقطہ نظر سامنے آتا ہے کہ تاریخی حقائق کو مسخ
کرنا ایک قبیح فعل ہے۔
زیر تبصرہ کتاب میں شامل مذکورہ باال مضمون عراق کے ایک ہمہ جہت ادیب جبرا
ابراہیم جبرا کے تنقیدی مقاالت کی کتا ب "الحریۃ والطوفان"سے لیا گیا ہے جو
۱۸۱۰ء میں بیروت سے شائع ہوئی۔ مصنف ناول نگار ،افسانہ نگار ،شاعر اور نقاد
ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مصوری کا شغل بھی کرتے ہیں زیر نظر مضمون کا
ترجمہ محمد کاظم نے کیا ہے۔
مترجم کہتا ہے کہ اس مضمون میں ایک ایسا نظریہ پیش کیا گیا ہے جو مغربی
موسیقی ،مصوری اور ادب کے گزشتہ صدیوں پر پھیلے ہوئے ارتقاء کو سامنے رکھ
کر قائم کیا گیا ہے۔اس لئے وہ چاہتا ہے کہ ہمارے قارئین ادب بھی ایسی چیز سے
متعارف ہو سکیں جس کے بارے میں ہمارے ہاں زیادہ اظہار خیال نہیں کیا گیا۔
ادب و فن میں نقطہ عروج اہل یورپ کی اختراع ہے ہر فن پارہ اس کا پابند ہے یہ
نقطہ عروج انسانی تجربے کی چیز ہے اس کی مثال دیتے ہوئے وہ کہتا ہے۔
عروج کی کشمکش
’’یورپی ناول اٹھارہویں صدی میں نقطہ ُ
سے عاری تھا لیکن انیسویں صدی کا ناول نقطہ عروج کا
ناول ہے۔" اس طرح کے ناولوں کی مثالیں گوئٹے کا
ورترکی داستان الم ،جین آسٹن کا ‘‘کبروتعصب " فلو بیر
کا "مادام بواری‘‘۔(ص ،۹۱ایضا َ)
نقطہ عروج کا ایک مظہر انیسویں صدی میں مختصر افسانہ ہے جو اس سے پہلے
حکایت یا روایت سے مشابہ تھا ۔ مذکورہ صدی میں یہ عروجی ترکیب رکھنے واال
ایک فن پارہ بن گیا۔
مصنف کہتا ہے کہ نقطہ عروج کی یہ فن کارانہ صورت انیسویں صدی میں نمو پذیر
ہوئی لیکن ڈرامے میں یہ دو یا تین صدیاں پہلے ہی مکمل صورت میں موجود تھی۔
شیکسپئیر کے عہد میں ڈراما اپنے عروجی ُحسن میں بلندیوں پر فائز تھا۔ یونانی دور
میں وہ ڈرامے میں نقطہ عروج کے حوالے سے کہتا ہے۔
’’نقطہ عروج یونانی المیے میں ایک اہم عنصر تھا او ر ارسطو نے اپنی کتاب شعر
میں ایسے قواعد گنوائے ہیں جو المیے کے لئے ضروری ہیں‘‘۔ (ص ،۱۰ایضا َ ََ)
جہاں عربی ادب کا تعلق ہے وہاں ڈرامہ کا وجود کبھی تھا ہی نہیں کیونکہ عربی
تخلیق میں نقطہ عروج کا تصور کبھی نہیں رہا ۔ عربی شاعری میں نقطہ عروج کا
کسی کو علم نہیں اس لئے اگر نظم میں اشعار آگے پیچھے کر لیں یا حذف کر لیں تو
اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔عربی شاعری کا موضوع زندگی اور اس کے
متعلقات ہی ہوتے ہیں۔
اگر شاعری میں نقطہ عروج کے حوالے مغربی ادب کا جائزہ لیا جائے تو صورت
حال اس کے برعکس ہے۔
مصوری میں نقطہ عروج کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مصنف کہتا ہے کہ اس
نیارخ دیا۔
میں یہ تصور بھی یورپ کی ہی مرہون منت ہے جس نے اسے ایک ُ
جبران خلیل جبران اور اس کے افکار و رومان زیر تبصرہ مضمون فنون کے شمارہ
ہوا شائع پر ۱۸ تا ۱۴ میں ۱۸۸۶ء اپریل تا جنوری ۴۶
زیر تبصرہ مضمون کے حوالے سے مصنف کی معلومات وسیع نقطہ نظر کی حامل
ہیں وہ زیر موضوع شخصیت کے اسلوب ،موضوعات اور فکر کا جائزہ لیتا ہے وہ
اس کی شخصیت کے اُن گوشوں کو موثر انداز میں سامنے التا ہے جو شاید
بیشترقارئین کی نظروں سے اوجھل تھے ،وہ اس کاتعارف کرواتے ہوئے کہتا ہے۔
’’ جبران اصالً ایک عرب تھا جو ۱۱۱۳ء میں لبنان کے
ایک گاؤں بشری میں پیدا ہوا جس میں وہ جنگالت آ ج بھی
موجود ہیں جن کے مقدس صنوبروں کی لکڑی سے
حضرت سلیمان ؑ نے پروشلم میں اپنا معبد تعمیر کروایا تھا
لبنانی رواج کے مطابق بچے کا نام اس کے دادا کے نام پر
جبران رکھا گیا اور مارونی کلیسا میں اسے بپتسمہ دیا
گیا‘‘۔ (ص ،۱۰۱ایضا ً)
جبران خلیل جبران ایک جامع الحیثیث مصنف تھا ۔ وہ شاعر ،افسانہ نگار اور مصور
تھا ۔ اس کا تخلیقی عمل عربی اور انگریزی دو زبانوں میں ہے ملک میں آمرانہ
حکومت کی وجہ سے حاالت ناسازگار ہوئے تو بہت سے افراد کے ساتھ اس نے بھی
ہجرت کا فیصلہ کیا اور ۱۸۰۱ء میں امریکہ جا بسا ۔
مصنف کہتا ہے جبران کے اسلوب پر رومانیت چھائی ہوئی ہے جوقاری کو فوراَ اپنی
گرفت میں لے لیتی ہے لیکن اگر فکر پر غور کیا جائے تو نام نہاد فلسفے کے باوجود
مضحکہ خیز کہانی لگتی ہے وہ اس کی طویل مختصر کہانی "النبی" کا جائزہ لیتا ہے
جو درحقیقت جبران کا اپنا خواب تھا۔
محبت کے معاملے میں جبران کوئی زیادہ خوش قسمت واقع نہیں ہوا تھا۔ اس کی
آئیں۔ عورتیں کئی دیگرے بعد یکے میں زندگی
اس حوالے سے تبصرہ نگار کی رائے مالحظہ ہو۔
اگر غور کریں تو محسوس ہوتا ہے کہ اس کی کہانیوں میں جسمانی حقیقتوں سے فرار
کی وجہ شاید اس کی اسی نوع کی کوئی کمزوری ہو۔ کیونکہ یہ حقیقت مسلم ْہ ہے کہ
اسلوب شخصیت کے اظہار کا دوسرا نام ہے۔
جبران کی تحریروں میں حقیقت سے فرار کا تذکرہ بار بار ملتا ہے لیکن حقیقت پسندی
اور عملی طور پر حاالت کے سامنے سینہ سپر ہونے کا پیغام کہیں نہیں ملتا۔ اس لئے
مصنف اس کی تحریروں کے حوالے سے اس کے قریبی دوست امین الریحانی کی
رائے کو حرف آخر قرار دیتا ہے۔
تبصرہ نگار نے ان سیرت نگاروں کو زبانی اعتبار سے تین گروہوں میں تقسیم کیا
ہے۔
ابن اسحاق اور الواقدی کی سیرت نگاری کی تصنیفات سب سے مستند سمجھی جاتی
ہیں۔ گئی ہو ملط خلط تاریخیں میں کتب ان لیکن ہیں
سیرت النبی ﷺ کے موضوع پر گزشتہ صدی کی قدیم ترین تصنیف مکہ کے شافعی
مذہب کے مفتی السید احمد ابن زینی ضحالن کی کتاب السیرۃ النبویۃ واال ثار المحمدی َۃ
ہے اس میں موضوع اور اسلوب کے اعتبار سے کچھ نیا نہیں ہے قدیم و جدید کتب کا
مواد اختصار سے شامل کر کے کتا ب مرتب کر لی گئی ہے۔
اس زمانے میں لکھی جانے والی تمام کتب کے اسلوب اور موضوعات میں مماثلت
ہے۔
سیرت نگاری کے نئے انداز میں کوئی انوکھا انداز دیکھنے میں نہیں آتا۔ اس میں
طہ حسین کا نام سرفہرست ہے۔وہ آنحضرت کا صرف
مصر کے نابینا ادیب ڈاکٹر ٰ
ایک ہی معجزہ قرآن کریم قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے سوائے
طہ حسین کا اسلوب افسانوی ہے۔
دعوی نہیں کیا۔ ٰ
ٰ قرآن کے اور کسی معجزے کا
سیرت نگاری کے حوالے سے ایک اور مصنف عبدالباقی سرور ہیں انہوں نے سیر ت
طیبہ سے متعلق واقعات کا تجزیہ کرتے ہوئے جو نتائج اخذ کئے ہیں وہ مورخین کی
اکثریت کے خیاالت سے ہم آہنگ نہیں ہیں وہ کہتے ہیں
سیر ت نگاری کے موضوع میں عربوں کی دلچسپی ہمیشہ قائم رہی ہے اس مقصد
کے تحت بے شمار کتابیں زمانہ قریب میں لکھی گئی ہیں۔ جن اہل قلم نے سیرت کو
جدید ترین انداز میں مرتب کرنے کی طرح ڈالی ہے ان میں "حیاۃ محمد" کے مصنف
ڈاکٹر محمد حسین ہیکل بہت ممتاز ہیں۔انہوں نے حضور ﷺ کے معجزات کے بارے
میں کافی اختالف کا اظہار کیا ہے۔
تبصرہ نگار کہتا ہے مشہور عرب مصنف محمد عزہ دروزہ کی کتاب "سیرۃ الرسول"
قرآن مجید سے اخذ کردہ مرقعوں پر مشتمل ہے اس سیرت نگاری میں قرآن کریم ہی
اصل اور اہم ماخذ قرار دیا جاتا ہے ۔ حدیث اور سیرت کی کتابوں سے محض اضافی
معلومات حاصل کی جاتی ہیں۔
"مصنف کا نقطہ نظریہ ہے کہ حدیث میں چونکہ ہر قسم کا سچ اور جھوٹ شامل ہو
گیا ہے اور بعض احادیث یہاں تک بھی دیکھنے میں آتی ہیں کہ ان کے اور قرآن کے
درمیان صریح تضاد پایا جاتا ہے۔ (ص ۱۶۱ایضا ً)
عنوان باال مضمون فنون کے شمارہ ۱۱جون جوالئی ۱۸۱۸ء میں ص ۴۴تا ۶۰میں
شائع ہوا یہ گفتگو محمود درویش کا طویل انٹرویو ہے لیکن مصنف نے یہاں اس کے
اہم نکات پیش کیے ہیں تاکہ قارئین ادب فلسطین کی مزاحمتی شاعری کے علم بردار
اس شاعر کے خیاالت سے مستفید ہو سکیں ۔ ۱۸۹۰ء میں محمود درویش کو ایک
سوال نامہ دیا گیا جس میں اْس نے اپنا موقف قدر تفصیل کے ساتھ بیان کیا ان دنوں
فلسطینی شعراء جس طرح کی شاعری کر رہے تھے اس پر عرب قارئین کا ردعمل
مدح و محبت کا تھا لیکن یہ شعراء چاہتے تھے کہ ان کی شاعری پر معروضی انداز
میں بحث کی جائے۔
وہ خود کو عالمتی شاعر نہیں سمجھتا بلکہ وہ کہتا ہے کہ قارئین کا یہ اعتراض
محض غلط فہمی کی بناء پر ہے ۔وہ کہتا ہے کہ وہ ایک مبہم شاعر نہیں ہے نئی نظم
زیادہ پیچیدہ اس لئے ہے کہ خود زندگی آج بہت پیچیدہ ہو گئی ہے اسے یاس اور
نومیدی کا شاعر کہا جاتا ہے۔ لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کا موجودہ احوال دیکھ
اُسے کوئی زیادہ خوشی نہیں ہوتی۔
محمود درویش کی طویل نظم "ایک فلسطینی عاشق " یہ فلسطینی باشندے کی اپنے
وطن سے محبت کے حوالے سے ہے جو رومانوی انداز میں اپنے وطن سے مخاطب
ہے اس نظم کا پور پور وطن کی محبت میں ڈوبا ہوا ہے۔
یہ مضمون فنون کے شمارہ ،۱۹۰اکتوبر نومبر ۶۳تا ۱۸۱۸ ، ۶۹ء میں شائع ہوا ۔ یہ
پیش لفظ اس لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے کہ اس سے شاعر کی انقالبی فکر قارئین
کے سامنے آتی ہے اور وہ اپنے قارئین کے لئے اظہار مسرت کرتا ہے کہ اْن کی
تائید ہی اس کے اندر لکھنے کی تحریک پیدا کرتی ہے۔ اور اس وجہ سے وہ تجربات
کا محاکمہ کرتا ہے جب اس کے قارئین کہتے ہیں کہ اس کی شاعری کبھی ضائع نہیں
ہو گی تو وہ کہتا ہے کہ اسی صورت میں ممکن ہے اگر میرے اسلوب میں کوئی نئی
بات پیدا ہو۔
اس کی چار نظمیں فلسطینی حاالت کے پس منظر میں لکھی گئی ہیں جن کے اسلوب
اور موضوعات میں پنہاں کرب ناکی قاری کا دل دہال دیتی ہے "،وہ کفن میں لپٹا آیا "
شاعری کے بارے میں " "لورکا " "ڈینیوب نیال نہیں ہے "اخوان الصفاء عباسی دور
میں مسلم اہل فکر کی ایک خفیہ تنظیم زیر تبصرہ مضمون فنون کے شمارہ ۱۱۱
ہوا شائع میں ۶۳ تا ۳۱ ص ۱۰۰۰ء جون تا جنوری
مذکو رہ باال مضمون مصنف کی فطری اور تحقیقی و تنقیدی بصیرت کا منہ بولتا ثبوت
ہے اْردو ادب کے قارئین کے لئے اس سے قبل ایسی تخلیقی کاوش کم ہی دیکھنے میں
آئی ہے۔مصنف اس مضمون کا آغاز ڈرامائی انداز سے کرتا ہے اور قاری اس
متجسس فضاء میں دم سادھے اس کے ہمراہ چلتا جاتا ہے ماسوائے جماعت کے نام
اور چند ضروری باتوں کے دیگر معلومات کے حوالے سے اہل تحقیق میں اختالف
پایا جاتا ہے اس لئے اظہار رائے کے لئے یقینی کلمات کے بجائے غالبا َ کے الفا ظ
استعمال کئے گئے !۔
اس جماعت کے حوالے سے اغلب خیال یہی ہے کہ ان لوگوں کو زندگی میں اپنے
مقاصد کے حوالے سے گہر ا شعور تھا اس لئے ان کے نام کے اجزاء مختلف لوگوں
اور فرقوں سے اپنا تعلق جوڑتے تھے ۔
تاریخ کے مطالعہ سے یہی حقیقت سامنے آتی ہے دسویں صدی عیسوی میں عباسی
حکومت اپنے وسطی دور میں تھی جب بصر ہ میں اہل فکر وفلسفہ کی ایک جماعت
کے افراد نہایت رازداری کے ساتھ خالص علمی اور فکری مسائل پر سوچ بچا ر کے
لئے ہر بارہویں روز مجلس منعقد کرتے تھے اپنی اس گفتگو کو وہ بعد ازاں مفصل
مکتوب کی شکل میں لکھ لیتے ۔ یہ مکاتیب ان لوگوں تک نہایت خاموشی سے
پہنچائے جاتے جو بوجوہ شریک نہیں ہو پاتے تھے۔
ان خطوط میں اپنے عہد کے تمام علوم و فنون کا احاطہ کیا گیا ہے اس جماعت کا
موقف تھا کہ شریعت کو طرح طرح کی جہالتوں نے گدال کر کے رکھ دیا ہے اس کی
تطہیر صرف فلسفے سے ممکن ہے۔
اخوان الصفاء نے اپنے اصحاب کے نام پردہ اخفاء میں کیوں رکھے تھے اس کی وجہ
یہ تھی کہ ان سے تقریبا سو سال پہلے مسلم خلفاء نے فکر و فلسفہ اور آزاد خیالی پر
کڑی پابندیاں عائد کی ہوئی تھیں۔ اب جب یہ رسائل منظر عام پر آئے تو لوگوں میں
تجسس پیدا ہوا کہ آخر ان رسائل کے پیچھے کون ہے؟ مختلف قیاس آرائیاں ہوتی
رہیں۔
مشہور عرب دانش ور اور ادیب ابو حیان التوحیدی نے ان رسائل کی تصنیف میں جن
پانچ افراد کے نام گنوائے ہیں وہ یہ ہیں
اخوان کا مطمئح نظر تھا کہ خدا سے اس دنیا نے اس طرح صدور کیا جیسے سورج
سے اس کی شعاعیں نکل کر پھیلتی ہیں اور وہ اپنی جگہ موجود رہتا ہے لیکن یہ
مادی دنیا خدا سے براہ راست صادر نہیں ہوتی ۔ یہ مختلف واسطوں سے گزر کر
وجود میں آتی ہے ۔ ان واسطوں کا روحانی نظام مرتب ہے یہ روحانی اخوان الصف ٗا
کے ساتھ خاص ہے ۔ اس کے کچھ عناصر انہوں نے فالطینوس سے اور کچھ پہلے
عرب فالسفہ سے لیے ہیں ۔
’’وہ کہتے ہیں کہ خدا واحد اور یکتا ہے اس کے حوالےسے یہ تصور بالکل غلط
ہے کہ اس کے ہاتھ پاؤں ہیں اور وہ انسانوں کی طرح اٹھتا بیٹھتا ہے ۔ اس کا کام
محض تخلیق کا ارادہ کرنا ہے ۔ جب ذات باری سے صدور ہوتا ہے تو عقل کلی وجود
میں آتی ہے یہ بھی خدا کی طرح واحد ہے لیکن عقلی کلی میں اس نے صدور فکر
کی گنجائش رکھ دی ہے جو اختیارات بھی خدا کی طرف منسوب ہوتے ہیں ان کا تعلق
عقل کلی سے ہے ۔ اسی عقل کلی سے نفس کلی صادر ہوتا ہے ۔ یہ اپنی قوت عقل
سے حاصل کرتا ہے اس کا ایک مظہر وہ سورج کو قرار دیتے ہیں جوزمینی اور
آسمانی دنیا کو زندگی بخشتا ہے دنیا میں کسی چیز کی تخلیق کا تعلق نفس کلی سے
۔ ہے
ہیولی اولی کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ اس اولین مادے میں کوئی قوت موجود نہ تھی
ٰ
اس لیے یہ خود صدور نہیں کر سکتا تھا چنانچہ عقل کلی کے اہتمام سے یہ نفس کلی
سے صادر ہوا ۔ اس سلسلے میں نفس کلی کو بہت جدوجہد کرنی پڑی کہ یہ مادہ اس
سے باہر نکل کر مختلف صورتیں اختیار کرے ۔ طبعی قوانین نفس کلی کی قوتوں میں
سے ایک قوت ہے یہی زندگی اور تغیر کا سبب ہے یہ بڑی حکمت سے کام کرتی ہے
یہ خدا کا فلسفیانہ نام ہے اہل مذہب اسے خدا اور اہل فلسفہ اسے نیچر کہتے ہیں‘‘۔
ہیولی ثانیہ جب نفس کلی نے اس مادے کو تین اطراف میں حرکت دینی
ٰ جسم مطلق یا
شروع کی تو مادے میں تین بُعد یں لمبائی ،چوڑائی اور گہرائی پیدا ہوئیں اور بتدریج
وہ جسم مطلق یا ہیولی ثانیہ بن گیا ۔ یہ مادہ اب کوئی تصور نہیں رہا بلکہ ایک خاص
مقدار بن جاتا ہے جس سے ہماری دنیا بنائی گئی ہے اس کی صورت مدور ہوتی ہے
۔
اجرام فلکی یہ صدور کے ساتویں مرحلے میں ظاہر ہوئے جو خیالی نہیں بلکہ
روحانی ہیں ۔ کرے کی شکل کے ہیں ۔ یہ تعداد میں گیارہ اپنے خول کی موٹائی اور
حجم میں مختلف ہیں ۔ ان میں ثابت سیاروں کے عالوہ زحل ،مشتری ،مریخ ،سورج
،زہرہ ،عطارد اور چاند شامل ہیں ۔ یہ چوتھے عنصر اثیر سے بنے ہیں ان پر نہ
تخلیقی عمل ہو سکتا ہے اور نہ انہیں بگاڑا جا سکتا ہے ۔ آٹھویں درجے پر چار
عناصر پانی ،ہوا ،مٹی اور آگ صادر ہوئے ۔ پھر وجود کی وہ صورتیں جو عالم تحت
القمری میں واقع ہیں جہاں تخلیق اور تخریب کا عمل ہوتارہتاہے ۔ اخوان کہتے ہیں یہ
چاروں عناصر ایک دوسرے میں تبدیل ہو سکتے ہیں ۔
’’نواں درجہ اقالیم ثالثہ ہے جب نظام صدوراختتام پذیر ہوا
تو اس میں تین اقلیمیں ظاہر ہوئیں یعنی معدنیات ،نباتات اور
حیوانات جو چار عناصر کے باہمی امتزاج اور ایک
دوسرے میں تبدیل ہونے کے نتیجے میں پیدا ہوئیں ‘‘۔ (ص
)۱۱۶،۱۱۱ ،۱۱۴
یہاں مجھے ان کے دو نظریات زیر تحت عقل کلی یا عقل فعال اور المولدات (اقالیم
ثالثہ ) میں تضاد محسوس ہوتا ہے ۔ ایک طرف تو وہ کہتے ہیں کہ خدا نے عقل کلی
میں یہ گنجائش رکھ دی ہے کے بعد کے جملہ عناصر کا صدور اسی سے ہو لیکن
مذکورا آلخر میں یہ نظریہ ہے کہ جب صدور کا نظام اختتام کو پہنچا ۔ صدور کا نظام
تو نہ اختتام کو پہنچ سکتا ہے اور نہ ہی کبھی مکمل ہو سکتا ہے کیونکہ جب تک
کائنات جاری و ساری یہ سلسلہ بھی رواں دواں رہے گا البتہ یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ
نظام صدور درجہ کمال کو پہنچا تواس میں تین اقلیمیں ظاہر ہوئیں ۔
علمائے شریعت نے ان رسائل کو ملحدانہ قرار دیا اور عباسی خلیفہ مستنجد کے حکم
سے انہیں جال ڈاال گیا لیکن چند نسخے جال دینے سے کیا ہونا تھا یہ ڈیڑھ سو سال
سے زیادہ عرصہ اہل فکر و نظر کے درمیان گردش کرتے رہے۔
’’ چودہ رسائل ریاضیات اور منطق پر اور دس رسائل مابعد الطبیعات پر ،گیارہ
تصوف ،علم نجوم اور سحر پر ،سترہ قدرتی علوم پر ،یہ دسویں صدی عیسوی میں
ترتیب پانے والی پہلی دائرۃ المعارف تھی‘‘۔(ص ،۱۱۸ایضا)
اب وہ اہم بات جس کی بناء پر اخوان الصفا ء کا نام آج تک موجود ہے اور آئندہ بھی
رہے گا وہ اُن کے نظریات ہیں جن کی بناء پر انہیں تخصص حاصل ہوا۔ انہوں نے
اپنے ان نظریات کا پرچار نہایت رازداری سے جاری رکھا ۔
مناسب یہی ہے ان کے نظریات کا جائزہ انہی کی زبانی لیا جائے ۔ پہال تاثر ہی آخری
ہوتا ہے اس کی مثال ان کے نظریات میں بہت عمدہ ہے ۔
اخوان الصفاء کے خیاالت پختہ اور مبنی بر حقیقت تھے۔ وہ آج تک بھی مسلم
سمجھے جاتے ہیں صدیاں گذرنے کے بعد بھی اْن میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
انسانی دوستی کے حوالے سے ان کے خیاالت فکر و تدبر کی عمدہ مثال ہیں اسی لئے
بعض نے سمجھا کہ یہ حضرت علی ؑ کی نسل میں سے کسی امام کا کالم ہے ۔
’’پس تمہیں چاہیے کہ جب کوئی دوست یا بھائی بنانے لگو
تو اُسے اس طرح سے پرکھو جیسے درہم و دینا ر پر کھے
جاتے ہیں اس لئے کہ سچے دوست دین و دنیا دونوں کے
امور میں ساتھی اور پشت پناہ ہوتے ہیں۔ جب انسان کے
احوال میں تبدیلی آتی ہے تو اس کے مزاج اور اخالق میں
بھی تبدیلی آجاتی ہے اپنے دوستوں سے اس کا رویہ بدل
جاتا ہے دوستیاں عموما ً کسی سبب کی بنیاد پر ہوتی ہیں اور
جب وہ سبب ہی باقی نہ رہے تو دوستیاں بھی ختم ہو جاتی
ہیں ،لیکن اخوان الصفاء کی دوستی خونی رشتے کی طرح
ہوتی ہے وہ ایک دوسرے کے لئے جیتے ہیں وہ یہ
سمجھتے ہیں کہ وہ ایک ہی نفس ہیں جو مختلف جسموں
میں بٹا ہوا ہے اس لئے اجسام پر کچھ بھی گذرے نفس ایک
ہی رہتا ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں آتی‘‘۔ (ص ۱۹۱
ایضا ً)
اخوان ا لصفاء یونانی فلسفے سے بہت متاثر تھے ہر فلسفے سے جو باتیں انہیں متاثر
کرتی تھیں وہ انہیں اپنی فکر کا حصہ بنا لیتے تھے وہ اپنی فکر کو اس کے اہل افراد
تک پہنچانے میں کسی قسم کے بُخل سے کام نہیں لیتے تھے ۔ وہ کہتے ہیں۔
اخوان الصفاء کے ان نظریات سے جان کاری کے بعد ان کے فلسفہ زندگی اور مابعد
الطبیعات پر گفتگو ضروری ہے تاکہ ان سواالت کا جواب ڈھونڈا جائے جو اخوان کے
حوالے سے متقاضی ہیں کہ ان کا حل تالش کیا جائے۔
اخوان الصفاء کے رسائل میں چند باتیں ایسی ہیں جو عام قاری کے لئے غیر دلچسپ
ہیں ۔
اخوان الصفاء نے بالشبہ سائنس اور طبی علوم کو مدون کرنے میں اہم کردار ادا کیا
لیکن ان کے رسائل میں کوئی ربط نہیں ملتا اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے مختلف
مذاہب سے استفادہ کیا جب سوچ اور فکر کے لئے ماخذ ایک سے زیادہ ہوں تو فکری
نظام میں ربط پیدا کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
باون رسائل کا بہت بڑ ا حصہ سائنس ریاضی اور فلسفیانہ علوم سے بحث کرتا ہے ۔
اس میں شک نہیں کہ اْن کی باتیں استدالل پر مبنی ہیں لیکن موجود ہ دور میں وہ
حاالت سے مطابقت نہیں رکھتیں ۔ اخوان کا اسلوب بہت طوالنی اور اکتاہٹ آمیز ہے۔
مصنف کہتا ہے کہ اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود ان کا اُردو ترجمہ نہیں ہوا حاالنکہ
عربی زبان کی داستانی کتاب الف لیلہ و لیلہ کا ایک سے زیادہ مرتبہ اردو ترجمہ ہو
چکا ہے۔
اخوان الصفاء اپنی انوکھی اور غیر روایتی فکر کے موجب سب سے الگ دکھائی
دیتے ہیں کیونکہ ان کی فکر معتزلہ ،اشاعرہ ،صوفیہ اور فالسفہ سے مکمل طور پر
مماثل نہیں ہے بہت سے لوگوں نے انہیں اسماعیلی شیعہ سمجھا لیکن وہ اس سے بھی
دور ہیں کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ وہ سیاسی عزائم رکھنے واال گروہ ہے جو عباسی
سلطنت کے زوال کا خواہاں ہے ان کے رسائل کے مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ
ان عزائم سے بہت د َُْور تھے۔
خدا کے بارے میں اخوان الصفاء کے نظریات معتزلہ سے مماثل ہیں۔
وہ کہتے تھے کہ قرآن میں خدا کے بارے میں استعاراتی انداز بیان ہے اسے لفظی
معنوں میں نہیں لینا چاہیے۔ خدا کے بارے میں عام لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ ایک
خاص جگہ پر الگ تھلگ موجود ہے اور بہت اوپر آسمانوں میں اپنے عرش پرمتمکن
ہے اور ساری مخلوقات پر اس کی نظر ہے۔
خدا کے اس تصور کے بارے میں اخوان الصفاء کے نظریہ پر بہت اعتراض ہوئے
کہ خدا جب نور ہے تو کیونکر اس سے مادے کا صدور ہوا اور خدا جو کامل ہے اس
سے ناقص چیزوں نے صدور کیا اور خدا خیر محض ہے اس سے صدور کرنے
والے جہان میں بُرائی اور بدامنی کا غلبہ ہو لیکن اس طرح کے اعتراضات تو تمام
مذاہب پر ہوتے رہے ہیں کہ انسانیت کی اصالح کے لئے اتنے پیغمبر اور رسول آتے
رہے ہیں لیکن پھر بھی بُرائی کی قوتیں ہر دور میں موجود رہی ہیں۔
اخوان الصفاء اخالق پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انسان کے اخالق اور مزاج کا
ہوتاہے۔ پر عوامل مختلف چار انحصار
’’ پہال یہ کہ انسان کے جسم میں چار مزاجوں کی مقدار اور تناسب کیا ہے یعنی
پیدائشی طور پر اس کے اندر صفرا زیادہ ہے یا خون یا بلغم ! دوسرے یہ کہ وہ جس
ملک کا باشندہ ہے اس کی آب و ہوا کیسی ہے اور زمین کی ساخت کس طرح کی ہے
تیسرے یہ کہ اس کی نشوونما میں ا س کے آبائی مذہب اور روایات اور اساتذہ کی
تعلیم و تلقین کا کتنا ہاتھ ہے اور چوتھے یہ کہ جب وہ ماں کے پیٹ میں تھا تو اس پر
ستاروں کے اثرات کی کیا کیفیت تھی‘‘۔ (ص ، ۱۸۴ایضا ً)
وہ انسانی شخصیت کی تشکیل میں چوتھے عوامل کو زیادہ موثر اور کارگر سمجھتے
ہیں ان کے خیال میں سائنس ،فلسفہ ،ریاضیاتی اور طبیعاتی علوم سے آگاہی شخصی
تعمیر کے لئے بہت ضروری ہے۔
رو ز قیامت اس دنیا میں جو تباہی آئے گی اور سب کچھ مکمل طور پر نیست و نابود
ہو جائے گا اخوان اس حوالے سے کہتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے بارے میں یہ گمان بہت بر ا ہے کہ وہ کافروں کو ہمیشہ کے
لئے دوزخ میں ڈال دے گا کیونکہ اس کی صفت رؤف و رحیم ہے۔
اب یہانیہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اخوان جو اپنے رسائل مین جابجا آیات قرآنی کا حوالہ
دیتے ہیں ان کے نظریات دیگر موضوعات پر قرآن کے خالف کیسے جاتے ہیں ؟
' جنوں اور شیطانوں کا ٹھکانہ منافق انسانوں کے سینے ہوتے ہیں جہاں وہ گمراہ کر
نے کے لئے رہتے ہیں اور فرشتوں کے ٹھکانے مومن لوگوں اور ان سے برتر
رسولوں اور انبیا ء کے سینے ہوتے ہیں۔ (ص ،۱۸۱ایضا ً)
اخوان الصفاء کا نقطہ نظریہ ہے کہ انسان کو نہ کسی مذہب کے حق میں اور نہ کسی
چاہیے۔ ہونا متعصب خالف کے مذہب
اخوان الصفاء کے نظریات جاننے کے بعد یہ سوال اٹھتا ہے کہ یہ جماعت کیا تھی
،کیا چاہتی تھی ،اور کیا کرکے گئی؟
اس حوالے سے یہی کہا جاسکتا ہے کہ اخوان الصفاء اہل فکر و دانش کا ایک ایسا
گروہ تھا جو بہت روادار اور صلح جو قسم کے لوگ تھے ان کا رہن سہن بہت سادہ
تھا۔ فراخ دل اور کشادہ ذہن کے مالک تھے مسلمانوں کے روایتی اور قدامت پسندانہ
عقائد کے ساتھ ان کی ہم آہنگی بہت مشکل تھی لیکن باوجود اس رائے کے ہر مذہب
میں کوئی نہ کوئی سچائی موجود ہوتی ہے وہ اسالم کو سب سے اچھا اور قابل عمل
دین سمجھتے تھے ان کے رسائل میں قرآنی آیات کے اقتباسات اتنے زیادہ آتے ہیں کہ
لگتا ہے قرآن انہیں ازبر تھا انہوں نے اسالم کے نظام عقائد اور فلسفے کے درمیان ہم
آہنگی پیدا کرنے کی بہت کوشش کی لیکن راسخ العقیدہ لوگوں نے ان کے خالف محاذ
قائم کر کے خلیفہ وقت کو ان کے رسائل کے نسخے نذر آتش کرنے مجبور کر دیا
اگر وہ خود لوگوں کی نگاہ سے چھپ کر زیر زمین نہ رہے ہوتے تو ان کا بچنا بہت
مشکل تھا۔
مصنف آخر میں اس صورتحال پر اظہار افسوس کرتا ہے کہ اس جماعت اور اس کے
رسائل پر بہت کم لوگوں نے توجہ سے کام کیا ہے ،جن لوگوں نے کیا ہے وہ بھی
محض سرسری انداز سے۔
'نامور مستشرق فلپ کے حتی نے اپنی کتاب History of the Arabsمیں اخوان پر
صرف ایک صفحہ لکھا ہے اوراس میں تین غلطیاں کی ہیں۔ مشہور مصری ادیب
طہ حسین نے اخوان کے رسائل کے ایک ایڈیشن میں مقدمہ لکھا ہے جس میں
ڈاکٹر ٰ
وہ عالوہ بے سرو پا باتوں کے فرماتے ہیں
’’مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ اخوان کی جو شاخ بغداد میں قائم تھی اس کی
مجالس میں نابینا شاعر ابوالعالء معّری باقاعدگی سے شریک ہوتا تھا"ڈاکٹر صاحب
کی یہ بات واقعتاًبھی غلط ہے اور تاریخی اعتبار سے بھی صحیح نہیں ہو سکتی۔
مستشرق آر ۔اے نکلسن اپنی کتاب عربوں کی ادبی تاریخ میں اخوان کے رسائل کی
تعداد پچا س بتاتے ہیں جبکہ وہ ہمیشہ سے باون چلے آتے ہیں اور دوسروں کی دیکھا
دیکھی وہ ان کا تعلق اسماعیلی تحریک کے ساتھ جوڑتے ہیں ۔ایک اطالع البتہ وہ بہت
اچھی دیتے ہیں کہ جرمن سکالر ڈیٹریسی جس نے اخوان کے تقریبا َ تمام رسائل کا
جرمن زبان میں ترجمہ کیا تھا اس نے ا ن کے اس پورے انسائیکلو پیڈیا کا خالصہ
بھی مرتب کیا جو اس کی تصنیف philosopheidor araber in X
jahrhundertمیں دیکھا جاتا ہے‘‘۔ (ص ۱۰۴ایضا َ)
آخر میں میں یہ کہنا چاہوں گی کہ اخوان الصفاء کی یہ جماعت اپنے فکر و فلسفہ کے
باوجود اس عہد کے تہذیبی و سماجی حاالت اور وہاں موجود لوگوں کی فکر میں
انقالب النے کے لئے کوئی مثبت اثرات مرتب نہ کر سکی ۔ شاید اس کی وجہ وہ
سیاسی حاالت تھے جو اْن کی فکر کوپننے نہیں دے رہے تھے کیونکہ اُن کے فکر
انگیز نظریات سے اسالمی عقائد پر براہ راست زد پڑتی تھی جو کہ عوام الناس کے
لئے ُکفر سے کم نہ تھے۔وہ لوگوں میں منطق و دالئل سے بات کرنے کا شعور پیدا
کرنا چاہتے تھے ۔ اُن کا یہ نقطہ نظر بہت اہمیت کا حامل تھا کہ انہوں نے عامتہ الناس
کی درجہ بندی کر دی اور کسی کو بزور قلم مجبور نہ کیا ۔ اُن کے اسلوب بیان میں
عنصر غالب ہے۔
جارحیت نہیں بلکہ رواداری کا ُ
.اگر دیکھا جائے تو جب سے یہ کائنات معرض وجود میں آئی ہے نظریات میں
اختالف کسی نہ کسی حوالے سے موجود رہا ہے اسی اختالف رائے سے کائنات کی
رعنائیاں برقرارر ہیں ورنہ چاروں اور جمود اور یکسانیت طار ی ہوجائے اور فضا
گھٹن کا شکار ہو کر دم ُکشی کی آماجگاہ بن جائے گی اور انسانیت سے فکر
کے سوتے ختم ہو جائیں گے اس لئے اہل فکر اور روایت پرستوں میں نظریاتی جنگ
جاری رہنی چاہیے۔
یہ کتاب ایک تحقیقی کام کے نتیجے میں روبہ عمل میں الئی گئی اس کی وجہ شکاگو
یونیورسٹی کا تحقیقی منصوبہ تھا جس کا موضوع "اسالم اور معاشرتی تغیرات" تھا
اس حوالے سے مختلف سکالرز نے ،دیگر اسالمی ممالک کے بارے میں الگ تحقیقی
مقالے تیار کئے ۔مصنف اس یونیورسٹی میں پروفیسر تھے انہوں نے اپنے ذمے یہ
کام لیا کہ وہ تفصیل سے اس موضوع پر روشنی ڈالیں گے ۔ ان کے پیش نظر یہ
سواالت تھے کہ قرون وسطی میں اسالم کا تعلیمی نظام کیوں کر وقوع پذیر ہوا ؟ وہ
کس طرح کا تھااور اس میں کیا خوبیاں اور کمزوریاں تھیں؟ گذشتہ صدی سے اس کو
جدید بنانے کیلئے کیا کوشش کی گئیں اور ان کے نتائج کیا رہے؟
وسطی
ٰ " اسالم اور جدیدیت"کے عنوان سے یہ کتا ب اسالم کے تعلیمی نظام اور قرون
سے لے کر آج تک اس کی عہد بعہد تبدیلیوں کا احاطہ کرتی ہے لیکن مصنف کہتا
ہے چونکہ اسالمی تعلیم کی ابتداء قرآن اور اس کے فہم سے ہوتی ہے اس لئے اس
نے قرآن کی تفسیر کے موضوع پر بہت اہم نکات اٹھائے ہیں کہ قرآنی تفسیر کے
صحیح طریقہ کار سے استفادہ نہیں کیا گیا۔ فاضل مصنف کہتا ہے کہ قرآن کا نزول
وقفے وقفے سے تقریباَتئیس سال میں حاالت کے تقاضوں کے مطابق ہوا۔ اس کے
احکامات کسی خاص صورتحال کے ردعمل کے طور پر تھے سلسلہ وحی کی تکمیل
کے بعد یہی احکامات اسالمی نظاموں کے لئے قوانین کی بنیاد ٹھہرے۔
مصنف کہتا ہے کہ قرآن میں واضح سمت کا شعور ہے اور اس حوالے سے کوئی
مغالطہ نہیں ہونا چاہیے ۔ قرآن کی تفسیر اور اس کی ہدایات اور احکامات پر روزمرہ
زندگی میں عمل کرتے وقت یہ بات ذہن میں رکھنی بہت ضروری ہے کہ کس معاملے
میں قرآن کا بنیادی اصول کیا ہے۔قرآن کے اصل مقصد کو نظر انداز کر کے اپنے
مطلب کی بات نکالنا صحیح نہیں اور قرآن کے مقصد کی نفی ہو گی۔ اس کی مثال
دیتے ہوئے وہ کہتا ہے کہ غالم کو آزاد کرنا بہت بڑی نیکی ہے اور یہ بعض گناہوں
کیلئے کفارہ ہے اب اگر ان آیات کو حوالہ بنا کر ہم کہیں کہ غالم کا نظام موجودہ دور
میں ہونا چاہیے تاکہ غالم آزاد کر کے ہم اپنے گناہوں کا کفارہ کر سکیں تو یہ قرآنی
مقصد کے منافی ہے۔قرآن تو یہی چاہتا ہے کہ غالمانہ نظام ختم ہونا چاہیئے ایک آزاد
ہوا۔ پیدا آزاد وہ جبکہ بنانا زنجیر پابۂ کیوں کو انسان
زکوۃ کے حوالے سے مسلمانوں کی کثیر تعداد اور اس میں علماء بھی
اسی طرح ٰ
شامل ہیں جو سمجھتے ہیں کہ معاشرے میں غریب لوگ ضرور رہنے چاہیں تاکہ وہ
سب اسالمی ْرکن کی تعمیل کر سکیں ۔اور اللہ کا ْقرب حاصل کر سکیں حاالنکہ قرآن
کا مقصد یہ ہے کہ اْمت مسلمہ میں ایسا معاشرتی اور اقتصادی نظام قائم ہو جس سے
غربت کا خاتمہ ہو ،ان لوگوں کا اخالقی رویہ قرآن کے اصل مقصد کے خالف ہے۔
قرآن کی تفسیر اور موجود حاالت میں اس سے صحیح رہنمائی حاصل کرنے کے لئے
دوباتیں انتہائی اہم ہیں۔
پہلی یہ کہ کسی بھی آیت کا مفہوم سمجھنے کیلئے اُس تاریخی صورت حال کو
سامنے رکھا جائے جس کے جواب میں وہ آیت نازل ہوئی اس لئے موجود عہد کے
تقاضوں کو بحیثیت مجموعی اُس صورتحال میں دی ہوئی ہدایت کی روشنی میں
جائے۔ سمجھا
دوسری یہ کہ قرآن کے ان اخالقی مقاصد کو موجودہ زمانے میں ال کر ان کا اطالق
آج کے مسلمانوں کو درپیش مسائل سے کیا جائے اس طرح قرآنی احکامات پھر سے
مؤثر ہو جائیں گے۔
قرآن کے واضح احکامات کے باوجود مکہ میں کوئی واضح نظام قائم نہ ہو سکا تھا
اس کی وجہ حاالت کی ناساز گاری تھی جس کا سامنا آنحضرت ﷺ اور اْن کے
رفقائے کار کو تھا ۔ اْن حاالت میں لوگوں کو اسالم کی طرف قائل کرنا سب سے اہم
مسئلہ تھا اس لئے اس دوران جو آیات نازل ہوئیں ان میں اخوت و بھائی چارے کی
تلقین کی گئی تھی۔لیکن ہجرت مدینہ کے بعد حاالت ایک نہج پر آگئے تھے اس لئے
قرآنی احکامات کے مطابق معاشرے میں معاشی انصاف کے حوالے سے اصالحات
کی گئیں۔
زیر تبصرہ کتاب کا پہال باب "ورثہ" کے عنوان سے ہے اس میں مصنف نے قرآن
کی بنیادی تعلیمات ،تفسیر کے صحیح طریقے اور ان سے قوانین اخذ کرنے کے
مسائل پر مختلف انداز میں بات کی ہے۔اس ضمن میں وہ بتاتا ہے کہ اسالم میں مختلف
علوم کے شعبوں کا وجود کیسے عمل میں آیا۔ ان میں اضافوں اور تبدیلیوں کی نوعیت
کیا ہے ،مختلف مدارس کے وجود سے اسالمی نظام تعلیم کا معیار برقرار نہ رہ سکا۔
یہ طویل دور ساتویں صدی عیسوی سے اٹھارویں صدی تک چلتا ہے اس دوران
معتزلہ اور اشاعرہ علم کالم کے مختلف سکول کی صورت میں سامنے آئے ۔
معتزلہ اسالمی تعلیمات کو عقلیت کی بنیادوں پر پرکھتے تھے اس لئے اُن کے خالف
محاذ آرائی شروع ہو گئی اور اسالمی تعلیمات پر آنکھ بند کر کے عمل کرنے واال
روایت پرست اشاعرہ مسلط ہو گیا۔ اس دور میں فارابی ،ابن سینا اور غزالی جیسے
فالسفہ بھی تھے ان سب فالسفہ نے اپنے انداز سے اسالمی علوم پر اثرات چھوڑے ۔
اس ضمن میں مصنف بتاتا ہے کہ مدارس کی وجہ سے تعلیمی میدان میں جو تبدیلیاں
آئیں ان کے اثرات خاطر خواہ ثابت نہیں ہوئے اور ان کی تالفی آج تک ممکن نہ ہو
سکی۔ ان مدارس کی تنظیم کے دوران شرعی اور غیر شرعی علوم کی تقسیم کی گئی۔
شرعی علوم میں تفسیر ،حدیث ،فقہ ،الہیات اور ادب شامل تھے جبکہ غیر شرعی
علوم میں طب ،فلسفہ ا ور حکمت کے علوم شامل تھے ۔ان علوم کے اصل متون ایک
طرف رکھ کر شرحیں اپنے اپنے انداز میں لکھی گئیں اور اُن سے ہی استفادہ کیا
جانے لگا۔
یہ باب چونکہ کئی صدیوں کا احاطہ کرتا ہے۔ اس لئے مواد کی کمی کے پیش نظر
موضوعات کا خاطرخواہ جائزہ نہیں لیا جاسکا اس کے باوجود مصنف کی تحقیق الئق
تحسین ہے کہ اس نے اس اہم اور طویل دور کے حوالے سے قارئین تک مفید اور
مستند معلومات پہنچانے کی سعی کی ہے۔ قرون وسطی کے اس دور میں تجسس کا
رویہ بْری طرح مجروح ہوا اور ان اثرات سے دامن چ ْھڑانا اتنا آسان نہیں ہے۔
مصنف کہتا ہے کہ انیسویں صدی میں پانچ نمایاں مسلم تجدید پسند نے سائنس اور
فطرت کی پیہم تالش و جستجو کے حوالے سے اسالم کا مثبت رویہ تشکیل دیا اور
اسے دوسروں کے سامنے پیش کیا۔ہندوستان میں سرسید احمد خاں ،امیر علی ،جمال
الدین افغانی ،ترکی کے نامق کمال اور مصر کے شیخ محمد عبدہ۔
شیخ محمد عبدہ کہتے ہیں قرون وسطی کی مسلم کونیات اور نظریہ کائنات کو سائنس
چیلنج کرسکتی ہے لیکن عقائد کو نہیں کر سکتی اس معاملے میں سائنس کچھ نہیں کر
سکتی دونوں کے مدار جدا ہیں ۔ نامق کمال کا کہنا ہے کہ کوئی بھی شخص فطرت
کے قوانین کے غیر متبدل ہونے کو ثابت نہیں کر سکتا۔ یہ قوانین خدا نے بنائے ہیں
وہی انہیں توڑ سکت ا ہے ۔سرسید احمد خاں نے پہلے علم کالم کو نئے سرے سے
مرتب کیا ،ان کے نزدیک جدید سائنسی روح ہی وہ کسوٹی معین کر سکتی ہے جس
سے کسی عقیدے کے قابل قبول ہونے کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔اس طرح دیکھیں تو
اسالم سب سے زیادہ فطرت کے قوانین کے مطابق ثابت ہوتا ہے اور عقل کو مطمئن
کرنے واال ہے۔مسلمانوں نے قرآن نظریہ کائنات کی غلط تعبیر کی ۔ وہ کہتے ہیں کہ
قدیم طرز کا علم کالم آج بر محل نہیں ہے اس لئے قرآن سے نیا علم کالم نکال کے
پیش کرنا چاہیئے ان کے نظریات میں انتہا پسندی تھی اس لئے وہ انہیں علی گڑھ کالج
میں الگو نہ کر سکے ۔
دوسرے باب "کالسیکی اسالمی جدیدیت پسندی میں مصنف اس زمانے کے حوالے
سے بات کرتا ہے کہ جب مسلم ممالک مغرب کے سیاسی غلبے میں آچکے تھے ۔ان
کی وجہ سے تعلیم کے دو نظام قائم ہو گئے ایک انگریزی تعلیم کا اور دوسرا مدارس
کی تعلیم کا ،اس دور کے تجدید پسندوں نے ان دو نظاموں کو مدغم کرنے کی ناکام
کوششیں کیں جو پوری نہ ہو سکیں۔
سرسید کے حوالے سے عمومی رائے یہی ہے کہ وہ خواتین کو جدید تعلیم دینے کے
حق میں نہیں تھے۔
مصنف نے ترکی ،مصر اور ایران کے نظام تعلیم میں تجدید کے حوالے سے بات کی
ہے۔ایران کے حوالے سے وہ کہتا ہے
تیسرا باب" معاصر تجدید پسندی" جو بیسویں صدی کے نصف کا احاطہ کرتا ہے ۔اس
زمانے میں قریبا َ مسلم ممالک نے مغرب کے سیاسی تسلط سے آزادی حاصل کر لی
تھی اور اس سیاسی آزادی کا مطلب مسلمانوں کو اپنے معاشروں کی جدید طرز تعمیر
کے لئے تعلیم کے مسائل پر نئے سرے سے غور کرنا چاہیے اور اس کے لئے
ضروری اہتمام کرنا چاہیئے ۔ بعض ممالک نے یہ سیاسی آزادی بہت کش مکش کے
بعد حاصل کی۔
اس حوالے سے مصنف اپنے خیاالت کو چند نکات کی صورت میں پیش کرتا ہے۔
’’ان ملکوں کی حکومتیں چاہے وہ جمہوری ہو یا آمرانہ
زیادہ تر عوام کی جانب سے خود ساختہ ایجنٹ بنی ہوئی
ہیں۔خود کو ترقی کی ایجنسیاں سمجھتی ہیں ترقی سے ان
کی مراد صرف معاشی ترقی ہے یہ نظریہ کم و بیش مغربی
نمونے کے مطابق ہے جہاں ذہنی اور اخالقی اقدار بہت
پیچھے چلی گئی ہیں۔ مشرق میں یہ مسئلہ زیادہ پیچیدہ ہو
گیا ہے کہ یہاں بہت سے اہل فکر نے یہ نعرہ اپنے لوگوں
کو دیا ہوا تھا کہ کہ مشرق کا تعلق رواج سے ہے جبکہ
مغرب سراسر مادہ پرست ہے۔۔ اگر مشرق کی اپنی روحانی
خاصیت کے بدلے مغرب سے کچھ تکنیکی علم درآمد کر
لے تو دنیا میں سب سے اچھا ہو جائے گا۔ ان ملکوں میں
عوام اَن پڑھ اور بے خبر ہیں وہ حکومتی معامالت میں
شریک نہیں ہوتے‘‘۔(ص ،۱۴۴ ،۱۴۳ایضا َ)
مصنف اس آگاہی کو خوش آ ئند قرار دیتا ہے جو ترقی پسند ممالک میں پائی جانے
لگی ہے کہ موجودہ صورتحال کو زیادہ دیر تک جاری نہیں رکھا جا سکتا ۔بہت سے
ذہنوں میں اس امر کا شعور پیدا ہو چکا ہے کہ روایتی اور جدید کے درمیان کوئی
ہے۔ نہیں مطابقت
مصر کا جامعہ ازہر ایک سرکاری ادارہ ہے جو گزشتہ صدیوں سے اپنے عقلی و
روحانی موقف میں کم و بیش ایک جگہ پر جما ہوا ہے اس کو جدید بنانے میں انیسویں
صدی کے علماء میں شیخ محمد عبدہ نمایاں تھے لیکن اس کے اثرات صرف نئی
تنظیم ،امتحانوں کے نظام اور نئے مضامین کے اجراء تک محدود رہے۔ پاکستان میں
تعلیم کے حوال ے سے مصنف کہتا ہے کہ یہاں نجی حلقے میں مدارس کے عالوہ ایک
بہت اہم اسالمی فینا مینا "جماعت اسالمی" ہے اس کے بانی موالنا مودودی (متوفی
۱۸۹۸ء) نے نوجوانوں کو روایت پسند علماء سے برگشتہ کر دیا تھا لیکن وہ کسی
طرح بھی دقیق قسم کی تحقیق کرنے والے سکالر نہ تھے وہ مدارس کی پیدا کردہ
گھٹن میں ہوا کے تازہ جھونکے کی طرح تھے لیکن وہ کوئی اہم نظریاتی انقالب نہ ال
سکے۔
اس حوالے سے مصنف کہتا ہے
مصنف اپنی رائے کے اظہار میں بغیر لگی لپٹی کہنے کا قائل ہے لیکن وہ مذکورہ
شخصیت کے حوالے سے حد ادب کا خیال رکھتا ہے کراچی یونیورسٹی کے وائس
چانسلر اشتیاق حسین قریشی سے سوال کرتے ہوئے کہتا ہے
مصنف اسالم کا پرچا ر کرنے والے جنرل ضیاء الحق کے حوالے سے کہتا ہے کہ
اس کے نزدیک انتخابات والی جمہوریت غیر اسالمی ہے لیکن فرماں روائی حکومت
اسالمی طور پر قابل قبول ہے جبکہ یہ نظریہ کسی بھی قابل احترام اسالمی مفکر کا
نہیں رہا۔ انڈونیشیا کے نظام کے متعلق مصنف ایک طرح سے کسی حد تک اچھی
توقع رکھتا ہے۔
کتاب کے چوتھے اور آخری باب "امکانات اور کچھ تجاویز"میں مصنف پھر اس
موضوع کا احاطہ کرتا ہے کہ مسلمانوں میں تعلیم کے جو مختلف نظام اس وقت چل
رہے ہیں انکو مناسب صورت میں اگر یکجا کر دیا ہے تو یہ کوئی ناقابل بیان بات
نہیں ہے ۔ایسا علم جو انسان کی بصیرت اور اس کی عملی سرگرمی کے آفاق کو
وسیع نہیں کرتاایک محدود اور مضرت رساں علم ہے۔
مصنف کے مطابق روایتی اور جدید کو آپس میں یکجا کرنے میں دورکاوٹیں ہیں ایک
نو بنیاد پرست یا نو احیا ء پسند ان لوگوں کا نظریہ ہے کہ ذہنی طور پر مغرب سے
تعلق توڑ لیا جائے جب تک مسلمان مغرب کے ساتھ کسی نہ کسی شکل میں جْ ڑے
رہتے ہیں وہ آزادی اور خود مختاری کے ساتھ کبھی کچھ نہیں کر سکیں گے ۔نواحیاء
پسند کے حوالے سے مصنف کہتا ہے۔
دوسری بڑی رکاوٹ تعلیم یافتہ اور ایسے دانش ور اساتذہ کی کمی ہے جو تعلیم کے
قدیم اور جدید نظام کو یکجا کرسکیں ۔تعلیم کے نئے اور متحد نظام کے نصاب کا تعین
اور اس کے مطابق کتابوں کا لکھا جانا ان امور کے لئے ماہرین اور اساتذہ ضروری
ہیں لیکن ان کا دستیاب ہونا آسان نہیں۔مصنف یہ تجویز کرتا ہے کہ معاشرتی سائنس
دان جو معاصر معاشروں کا مطالعہ کرتے ہیں انہیں تاریخ کے حکمت آمیز اسباق
سے آشناء کیا جائے اس لئے کہ بنی نوع انسان کی تاریخ ناقابل تقسیم ہے اس لحاظ
سے انسانی قوتیں تمام روئے زمین پر ایک جیسی ہیں وہ کہتا ہے کہ جب تک قرآن کا
مواد پوری طرح نظم اور قاعدے میں نہیں الیا جاتا اس کی انفرادی آیات کو حاالت کی
صورتوں پر منطبق کرنا ،جیسا کہ اکثر مسلم واعظین اور دانشور لوگ کرتے ہیں
خطرناک حد تک گمراہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔
معاشرتی علوم کا مطالعہ بھی ایک سلسلہء عمل ہے نہ کہ کوئی ایسی چیز جسے بس
ایک ہی دفعہ ہمیشہ کیلئے قائم کر دیا جائے بلکہ یہ دوسرے کسی بھی میدان سے
زیادہ تسلسل کا متقاضی ہے۔
مصنف کا نقطہ نظر بہت وسیع ہے اور فلسفے کے بعض پہلوؤں پر اس کی نظر اتنی
گہری ہے کہ وہ اقبال جیسے مفکر کی قلعی کھول کر رکھ دیتا ہے لیکن اس دوران
اس کے اسلوب میں تحقیر آمیز رویے کی آمیزش کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ وہ اختالف
کی معقول وجہ ضرور بیان کرتا ہے۔
سفر ناموں کے محرکات میں جاسوسی تجارت ،سفارت اور سیاحت نمایاں ہیں پرا نہیں
جرائد نے بھی قبول عام دیا ۔سفر نامے کو فکشن میں ڈھالنے کی روش ہمارے ہاں
مرد سفر نامہ نگاروں میں عام ہے ،محمد کاظم نسبتا َ ََ سنجیدہ اور بردبار ہیں ،مگر ان
کاہیولی تشکیل دیا
ٰ کی طرف سے یہ کوشش ہوئی ہے کہ سفر نامے میں ایک ہیروئن
جائے اوربین السطور یہ بھی بتا دیا کہ یہ وہ مسافر نہیں کہ گھر میں موجود بیوی کو
بھول جائے یا اپنی مالزمت کے تقاضے۔
سفر نامے کا شمار قدیم اصناف ادب میں ہوتا ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کی
ہئیت میں تبدیلیاں آتی گئیں ۔زمانے کے ساتھ ذرائع آمدورفت کی نوعیت میں تبدیلی اس
کا بڑا سبب بنی ۔ایک وقت تھا جب سفر نامے کا موضوع کسی ملک کے شہر کی
دیواریں ،ساحل ،کتب خانے ،مکانات اور درس گاہیں تھیں لیکن شادی و غمی کی
تقریبات اور اس سے متعلقہ تفریحات موضوع سے خارج سمجھی جاتی تھیں ۔بیشتر
سفر نامے اسی تکنیک کے تحت لکھے گئے ۔
مغربی جرمنی میں ایک برس (سفر نامہ) تحقیقی و تنقیدی جائزہ:
ایک انگریز سفر نامہ نگار نے اس ضمن میں ایک نئی روایت کی طرح ڈالی جس کی
آج تک پیروی کی جارہی ہے اور اس سحر انگیز اسلوب کی ہر دل عزیزی میں برابر
اضافہ ہو رہا ہے ۔
سفر نامہ لکھ نے کی خواہش ہر ادیب کے اندر پنہاں ہوتی ہے یہ الگ بات ہے کہ
مکروہات حیات میں الجھ کر وہ اس سے صرف نظر کر جاتا ہے اپنے تجربات و
مشاہدات کو لفظوں کا روپ دینا اور انہیں کرداروں میں اس طرح سمونا کہ وہ آپ
بیتی کے ساتھ ساتھ ناول کا بھی تاثر دیں ایسا سفر نامہ لکھنا ہی سفر نامے کی اصل
معراج ہے ۔
سفر نامہ کی تکنیک میں روزنامچے اور خطوط کو بنیادی اہمیت حاصل رہی ہے یہ
الگ بات ہے کہ خطوط میں تصنّع کی آمیزش کا اندیشہ رہتا ہے کچھ سفر نامہ نگار
ایسے بھی ہیں جو اپنی یادداشتوں کو ذہن کے کسی گوشے میں محفوظ کرتے جاتے
ہیں اور پ ھر فرصت کے اوقات میں اپنی یادداشت کے بل بوتے پر مشاہدات و واقعات
کو بیانیہ انداز میں احاطہ تحریر میں التے ہیں بیانیہ تکنیک میں اگر کرداروں کی
مکالماتی گفتگو کی رنگ آمیزی بھی شامل ہو جائے تو سفر نامہ حقیقت کا مظہر
ہے دیتا دکھائی
زیر موضوع سفر نامہ "مغربی جرمنی میں ایک برس "کے سفر نامہ نگار محمد کاظم
کا یہ سفر بطور تخلیق کار یامحض تفریح کے نقطہ نگاہ سے نہیں تھا ۔ بلکہ 6791ء
میں ان کے محکمے )واپڈا(کی طرف سے انہیں ایک سال کے تر بیتی پروگرام کے
لئے منتخب کیا گیا تھا ۔ یہ ان کا کمال فن تھا کہ انہوں نے اپنے مشاہدات کو لفظوں کی
زبان دی ۔اس سفر میں وہ اکیلے نہیں تھے ۔بلکہ ان کے دو ساتھی (شیخ اور شہزادہ )
بھی ہمراہ تھے محکمے کے قواعد و ضوابط کی وجہ سے اْ ن پر کچھ پابندیاں عائد
تھیں جن کے تحت ان کے قیام کے اوقات مقرر تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے
اس سفر اور وہاں قیام سے ایک مسافر کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک سیاح کے طور
پر لطف اٹھایا اپنے مطالعے اور مشاہدے میں جزئیات نگاری کو خاص طور پر پیش
نظر رکھا۔
زیر موضوع مذکورہ باال سفر نامہ ۳۱۰صفحات پر مشتمل سنگ میل پبلی کیشنز
الہور سے شائع ہوا ۔ اس کا انتساب کچھ اس طرح سے ہے ۔
یہ سفر نامہ دو پیش لفظ پر مشتمل ہے پہلے پیش لفظ میں دوسرے ایڈیشن کا مختصر
تعارف ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ یہ سفری سرگذشت "مغربی جرمنی میں ایک
برس" کے عنوان سے ادبی مجلہ "فنون" میں قسط وار شائع ہوتی رہی بعد ازاں اسے
کتابی صورت میں ۱۸۱۱ء میں "دامن کوہ میں ایک موسم" کے نئے عنوان سے سنگ
میل پبلی کیشنز نے شائع کیا اور اب دوسرا ایڈیشن ۱۰۰۱ء میں سنگ میل پبلی کیشنز
الہور کی طرف سے شائع ہوا۔
کچھ کتابیں اپنے موضوع اور اسلوب کی وجہ سے اتنی دلچسپ ہوتی ہیں کہ دل چاہتا
ہے انہیں بار بار پڑھاجائے لیکن وہ شائع ہوتے ہی ہاتھوں ہاتھ بک جاتی ہیں لہذا
قارئین کی خواہش کے پیش نظر انہیں دوبارہ شائع کیا جاتا ہے لیکن ضروری نہیں ان
میں کوئی تبدیلی بھی ضرور کی جائے۔
اس سفر نامے کے چند عنوانات میں کتابی صورت میں اشاعت کے دوران اس طرح
تبدیلی کی گئی۔
آخن میوہلے ( )۴۔ ایک مجلس موسیقی ۔۔۔۔۔سے کتاب میں عنوان
اون
زیر موضوع سفر نامہ ۱۶ابواب پر مشتمل ہے پہلے چھ ابواب میں سفر نامہ نگار کا
اسلوب بیانیہ تکنیک میں ہے لیکن قاری کی دلچسپی برقرار رکھنے کے لئے اس نے
کافی غوروفکر کے بعد روزنامچے کا اسلوب اختیار کیا۔
اس سفر نامے کا عنوان مغربی جرمنی اس لئے رکھا گیا کہ اس وقت کے حاالت کے
پیش نظر جرمنی مشرقی اور مغربی دو حصوں میں منقسم تھا اور اب صورتحال
مختلف ہے کیونکہ وہ جرمنی میں مدغم ہو کر ایک ہی ملک بن گیا ہے مغربی جرمنی
میں مصنف نے ایک سال گزارا لیکن یہ سرگزشت کوہ الپس کے دامن میں واقع ایک
چھوٹے سے گاؤں آخن میوہلے میں گزارے ہوئے صرف دو ماہ کا احاطہ کرتی ہے۔
ّ
جرمن زبان سیکھنے میں گزارا۔ اپنے قیام کے باقی دس ماہ کی یہ عرصہ اس نے
کہانی کے متعلق مصنّف کہتا ہے۔
سفرنامہ نگار نے اس سفر نامے میں مغربی جرمنی (آخن میوہلے) کے لوگوں کی
زندگی ،کردار اورعادات کا مطالعہ ان کے اندر رہ کیااور اسی طرح یہاں پر آئے
ہوئے مختلف ممالک کے طالبعلموں کا مطالعہ جس ژ رف نگاہی سے کیا اس سے
سفرنامہ ایک دلچسپ اسلوب سے آراستہ ہو گیا۔
کر داروں کا مطالعہ مصنف کا پسندیدہ موضوع رہا ہے۔ دوران تعلیم علی گڑھ کالج کی
یادوں کو تازہ کرتے ہوئے بھی وہ ہماری مالقات کئی دلچسپ کرداروں سے کرواتا
ہے اس ضمن میں وہ اْن کی نفسیات کا بہت گہرائی سے جائزہ لیتا ہے۔
اس مختص ر سفر کے دوران مصنف کا مشاہدہ ال جواب ہے وہ معمولی سے واقعے کو
بھی نظر انداز نہیں کرتا ۔ وہ اس غریب اور دیہاتی جوتشی کے متعلق سوچ رہا تھا
جس نے ہاتھ دیکھ کر اسے مالزمت میں ترقی اور سمندر پار سفر کی خوش خبری
سنائی لیکن وہ اسے محض مذاق سمجھا تھا اَب وہ سوچ رہا ہے کہ کیا واقعی ایسا
ممکن ہو سکتا ہے؟ اس کے دماغ میں ماضی اور حال کے واقعات ایک فلم کیطرح
چل رہے ہیں۔
یہاں جہاز میں موجود ایئر ہوسٹس کے حوالے سے اس کے تاثرات اس طرح سے
ہیں۔
یہاں مصنف اپنے ملک میں جرمنی کے متعلق رائج تصورات کا ذکر کرتا ہے وہ اپنے
بچپن کے دور کو یاد کرتا ہے جب جرمنی صنعتی لحاظ سے بہت ترقی یافتہ تھا
دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر نے دیگر ممالک کو اپنے مقبوضات میں شامل کر کے
اپنی سلطنت کو وسیع کر لیا۔ لیکن دوسری جنگ عظیم میں اتحادیوں نے اس ملک کو
مکمل طور پر نیست و نابود کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تاکہ یہ دوبارہ کبھی سر
نہ اْٹھا سکے۔ مصنف اس قوم کی استقامت اور قوت ارادی کو سالم کرتا ہے کہ بہت
جلد اس نے اپنی ساری قوتیں،مجتمع کیں۔ اور ایک نئے عزم کے ساتھ دوبارہ دنیا کے
نقشے پر اُبھر آئی۔
مصنف اس خیال کی تائید کرتا ہے کہ حاالت کی گردش اور پیٹ کی بھوک انسان سے
وہ کام کرواتی ہے جو کبھی اس کے لئے ناممکنات میں شامل ہوتے ہیں۔ کسی ملک
کے اقتصادی اور سماجی حاالت اس کے باشندوں کی طرز بودوباش کی نمائندگی
کرتے ہیں جہاں عورتیں خود کو سامان زینت بنالیتی ہیں اور مرد خاموش تماشائی بن
کر رہ جاتے ہیں اس رویے کے حوالے سے سفر نامہ نگار اپنے تاثرات کو پیش کرتا
ہے جو اس نے مختلف جرائد کی وساطت سے جرمنی جانے سے بہت پہلے پڑھے
تھے۔
اب جرمنی جانے سے پیشتر مصنف کے ذہن میں جرمنی سے متعلق تصورات سے
گڈ مڈ تھے کہ درحقیقت جرمنی کیسا ہو گا؟
فرینکفرٹ کو پرواز
اس باب میں دوران سفر ملنے والے کرداروں کا تجزیہ ایک دلچسپ پہلورکھتا ہے۔
چونکہ عربی مصنف کا پسندیدہ مضمون ہے اس لئے وہ اس کے اظہار کے لئے موقع
کی تالش میں رہتا ہے۔ جہازمیں ملنے والی ایک لڑکی کا نام سعاد تھا اس مناسبت سے
اْسے کعب بن زہیر کا مشہور قصیدہ بانت سعاد یاد آگیا۔ اور اس کی گفتگو اس ْرخ پر
چل پڑی۔
من ہائیم ۔وائن ہائیم ۔ ہائیڈل برگ ۔من ہائیم
چوتھا اور پانچواں باب مغربی جرمنی کے شہروں من ہائیم ،وائن ہائیم اور ہائیڈل برگ
کے قدرتی منظر اور تفریح گاہوں اور بازاروں کی سیر کے حوالے سے ہے ۔
یہاں آکر مصنف نے ایک اہم کارنامہ سرانجام دیا جو وہ پچھلے کچھ عرصے سے
ٹالتا چال آرہا تھا زمانے کی اْونچ نیچ نے اس کے ذہن کے بند دریچے کھول دیئے اور
مروجہ طریقوں سے برگشتہ کر دیا۔ اس نے اپنے ارادوں کو عملی
اسے گھسے پٹے ّ
جامہ پہنانے کا تہ یہ کر لیا۔ اور آتے ہی شیو کا سامان نکال کر داڑھی صاف کر
لی۔ایسا کرنے پر اْسے کوئی دکھ اور ندامت نہیں ہوئی کیونکہ وہ کسی مذہبی ٹولے
سے اپنی
وابستگی تو بہت عرصے سے ختم کرنا چاہتا تھا۔ لیکن چونکہ کسی تعلق کو ختم
ہوتے بھی کچھ وقت درکار ہوتا ہے اس لئے وہ بھی مناسب وقت اور مواقعے کی
تالش میں سرگرداں تھا جو آخر مل گیا۔
اس کے بعد وہ وائن ہائیم سے ہائیڈل برگ روانہ ہوتے ہیں راستے میں آنے والے
دیہات بھی شہروں سے کم نہ تھے کیونکہ وہ جدید سہولیات سے آراستہ تھے ۔
’’ نہ سٹور کے کونوں پر محافظ تعینات ہیں ،نہ چیزیں زنجیروں سے بندھی ہوئی ہیں
اس کے باوجود سٹور کا نظام چل رہا ہے اور کسی کو یہ تحریص نہیں ہوتی کہ مطلب
کی چیز اْٹھا کر کوٹ کی جیب میں ڈال لے اور بجائے کاؤنٹر کا ْرخ کرنے کے باہر
کا راستہ لے۔میں سوچتا ہوں کہ ایسا کوئی سٹور ہم مسلمانوں کے کسی ملک میں چل
سکتا ہے؟‘‘
یہاں مصنف بحیثیت مجموعی مسلمانوں کی اس فکر کو سامنے التا ہے کہ ہم ایمان ،
اخالق ،گناہ اور ثواب کا راگ تو ہر وقت االپتے ہیں اللہ اور روز آخرت پر پختہ
ایمان رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود جرمن لوگوں کا عمل خیر ہم سے بہتر ہے جو
بظاہر کسی عقیدے اور ایمان کے پابند بھی نہیں ہیں۔
وہ جرمن عورتوں کی خوب صورتی کے ساتھ ان کی خوب سیرتی کا بھی قائل نظر
آتا ہے اس کی فکر اور اسلوب سے ظاہر ہوتا ہے کہ عورت کو جتنا چ ْھپا کر رکھو
گے اْتنے ہی مسائل پیدا ہوں گے اور معاشرے کی بنیادیں کمزور ہوں گی جو عورت
اعتماد سے عاری ہو گی وہ اگلی نسل کی کیا تربیت کرے گی اور زندگی سے فطری
پن دُور ہو جائے گا۔
آخن میوہلے
یہ وہ گاؤں ہے جہاں کے گوئٹے انسٹیٹیوٹ میں مصنف اور اس کے ساتھیوں نے
جرمن زبان سیکھنی تھی۔
مصنف بیانیہ اسلوب میں آخن میوہلے کا تعارف کرواتا ہے اور اس کا محل وقوع بیان
کرتا ہے ۔
اس تعارف میں مصنف جزئیات نگاری سے کام لیتا ہے اس لئے محسوس ہوتا ہے کہ
صنف کے تخیل کی
ہم بھی مصنف کے ساتھ آخن میوہلے کی سیر کر رہے ہیں م ّ
کارفرمائی قاری کو ایک خوش گوار احساس سے دوچار کرتی ہے یہ تینوں دوست
آخن میوہلے میں واقع گوئٹے انسٹیٹیوٹ پہنچتے ہیں ۔ پیر کا دن اور جوالئی کی ایک
معتدل دوپہر تھی اْن کے شوفر ہر بروننگ نے پرنسپل سے اْن کا تعارف کروایا اور
واپس چال گیا ۔ یہ ان کے آٹھ ہفتوں کے جرمن زبان کے کورس کا پہال دن تھا طلبہ
اور طالبات آچکے تھے اور کچھ ابھی آرہے تھے ۔
پھر مصنف اپنی ایک کالس فیلو کا تعارف مختلف اور ڈرامائی انداز میں تعارف
کرواتا ہے جو پوری کالس ہوا کا تازہ جھونکا ثابت ہوئی اور اس کے آنے سے کالس
کا ماحول یکلخت تبدیل ہو جاتا ہے یوں جیسے اس نے کالس کے مردہ تن میں نئی
روح پھونک دی ہو ۔ سب اس کی پر اعتماد اور چلبلی شخصیت کے زیر اثر آگئے اور
مصنف بھی خود کو اس کے سحر سے نہ بچا سکا ۔ وہ وقتا َ ََ فوقتا َ ََ اس کے حواسوں
پر چھائی رہی۔
آخن میوہلے
یہاں مصنف روز نامچے کا اسلوب اختیار کرتا ہے وہ قاری کو ایک عالمی برادری کا
رہن سہن،گفتگو ،دلچسپیاں دوستیاں ،بد گمانیاں اور رقابتیں تفصیل سے دکھانا چاہتا
ہے
۹جوالئی سے ان کی کالسوں کا آغاز ہوتا ہے ٹیچر کا نام فروالئن الزبتھ واکس ہے
چالیس سے اوپر ادھیڑ عورت ہے اس نے خود کو شادی کے بندھن سے آزاد رکھا۔
مصنف اس کا تعارف کرواتے ہوئے کہتا ہے
ہمارا ہاں یہ تصو ر رائج ہے کہ امریکہ یا دیگر ممالک میں بَسنے والے لوگ بہت
خوشحال ہیں انہیں کسی قسم کا مالی مسئلہ درپیش نہیں ہے اور وہ بے فکر آزاد
زندگی گذار رہے ہیں مصنف گول چہرے ٹھیک ،خدوخال اور بھاری کولہوں والی
بہت ذہین اور پڑھی لکھی امریکی لڑکی ڈورو تھی کے حوالے ہمارے اس فرسودہ
تصور کی نفی کرتا ہے۔
مصنف شخصیات کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ عربوں کی نسبت ترک اور ایرانی
زیادہ اپنائیت اور بھائی چارے کے ساتھ ملتے ہیں پڑھائی کے ساتھ ساتھ سیر و تفریح
کو خاص اہمیت دی جاتی تھی اس لئے سب طالبات کو خوبصورت شہر روزن ہائیم
گیا۔ جایا لے
مصنف اس شہر کا مختصر ا َ ََ تعارف کرواتا ہے۔(ص ،۱۱۱ایضا َ ََ)
یہاں مصنف پر اپنے ساتھیوں کی شخصیتیں کتاب کی طرح ک ْھلتی جارہی ہیں ۔ اپنے
ساتھی شیخ کے حوالے سے کہتا ہے ۔
مصنف ہمیں مختلف تہذیبوں کے افراد سے متعارف کرواتا ہے اس طرح اس ایک فرد
سے ہم پورے ملک کی ثقافت سے واقف ہو جاتے ہیں۔
اس باب میں مصنف بتاتا ہے کہ ان کا جرمن زبان کا کورس اب دوسرے ہفتے میں
داخل ہو چکا ہے جو ردوبدل ہونی تھی وہ ہو چکی۔ اب وہ ماحول سے بھی قدرے
مانوس ہو چکے ہیں۔ پانچ چھ جملوں میں جرمن زبان میں گفتگو بھی کر لیتے ہیں۔
وہ بتاتا ہے کہ اس صوبے بواریا کے لوگ بہت مذہبی ،روایت پسند اور آن کے پکے
وواقع ہوئے ہیں ۔ عقیدے کے اعتبار سے بوارین لوگ زیادہ رومن کیتھولک ہیں
۔قبرستانوں کی رونق ،سجاوٹ اور تروتازگی دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ موت اور اس
کے بعد کی زندگی کا خیال ان کے ذہنوں میں کتنا مستحضر رہتا ہے۔
مصنف بتاتا ہے کہ بوارین لوگوں کا اپنا کلچر اپنے لوک گیت اور عالقائی رقص ہیں
اس حوالے سے وہ خود کو دوسروں سے کم تر نہیں سمجھتے اپنا جنگالتی میلہ جو
وہ موسم گرما کی راتوں کو کھلے آسمان تلے مناتے ہیں اپنی رونق اور دلکشی کا
جواب نہیں رکھتا۔
ُ
جرمن و شیزائیں اپنے مردوں کی جسمانی قوت پر ’’
نازاں اپنا عالقائی لباس پہنے اوراور بیئر کے پانچ پانچ
جگ ایک ہاتھ کی انگلیوں میں اٹکائے تماشائیوں کے
درمیان گھوم پھر کر میزبانی کے فرائض انجام دیتی
ہیں۔ پھر جونہی رقص سیارگان کی دْھن بجتی ہے وہ
فورا َ ََ سٹیج پر پہنچ جاتی ہیں اور دوسرے ہی لمحے
اپنے مردوں کے ہاتھ میں ہاتھ دیئے موسیقی کی لہروں
پر جھولتی دکھائی دیتی ہیں‘‘۔ (ص ، ۱۱۴ایضا َ ََ)
مصنف اپنی کالس فیلو لڑکی ہجراں کے لئے اپنے دل میں ایک خاص گوشہ رکھتا
ہے لیکن اس کی حد درجہ خود اعتمادی اور چْ لبال پن اس کے حوصلے پست کر دیتا
ہے وہ اظہار تمنا ّ کی ہمت نہیں کر پاتا کیونکہ طبعی بزدلی اور کم سخنی آڑے آجاتی
ہے۔ وہ اپنی شخصیت کا تجزیہ کرتے ہوئے خود کالمی کے اندا ز میں کہتا ہے۔
’’ وہ مجھے بہت اچھی لگتی تھی میں اپنے کمرے کی
تنہائی میں اکثر اس کے بارے میں سوچا کرتا تھا لیکن
مجھے کبھی یہ توفیق نہ ہوئی کہ پہل کر کے اس سے
کوئی بات کر لوں۔اس کی کسی چیز کی تعریف کر دوں
(جبکہ اس میں اتنی چیزیں سچ ْمچ قابل تعریف تھیں!
اس کے شہد رنگ بال ،اس کی خوبصورت بادامی
آنکھیں ،اس کے جسم کے ہیجان خیز پیچ و خم ،اس کی
حس مزاح ،اس کا چلبال پن!) یا اس سے اتنا ہی پوچھ
لوں کہ اسے جرمن گرائمر پڑھتے ہوئے کوئی ایسی
مشکل تو پیش نہیں آرہی جس میں َمیں اس کی کوئی مدد
کرسکوں‘‘۔ (ص ، ۱۱۱ایضا َ ََ)
اس سفر نامے میں جب وہ کرداروں کا تجزیہ کرتا ہے تو ایک ناول کا تاثر آتا ہے
جب تمام کالس فیلوز مل کر تفریح کے لئے جاتے ہیں اور گانے گاتے ہیں تو بڑا پْر
لطف منظر ہو جاتا ہے اس دوران ہجراں قدم قدم پردوست بدلتی رہتی ہے۔۔ مصنف
کے اسلوب میں بہت سادگی ہے وہ اشاروں ،کنایوں کے بغیر سیدھے سادے انداز میں
اپنی بات قاری تک پہنچا دیتا ہے۔ اسلوب کا تاثر قاری کو مکمل طور پر اپنی گرفت
میں لے لیتا ہے۔
مصنف گوئٹے انسٹی ٹیوٹ کے کامن روم میں ہونے والی محفل موسیقی کی ایک شام
کا قصہ سناتا ہے اور یہ خیال سچ ثابت ہوتا ہے موسیقی ہر رنگ میں روح جاں اور
لطف دیتی ہے اس کا زبان سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ان کی ٹیچر فروالئن واکس اس
کا اہتمام کرتی ہے وہ اطالوی موسیقار "ویوالدی" کا تعارف کرواتی ہے کہ لوگ اسے
سْرخ بالوں واال پادری کہتے تھے اور جرمن موسیقی کا بڑا یوہن سبسطین باخ بھی
اس کا دلدادہ تھا۔
یہ پروگرام ڈیڑھ گھنٹے جاری رہا اس دوران میں کامن روم سے کوئی بھی فرد اْٹھ
کر باہر نہیں گیا ۔ یہاں وہ قاری کو یہ بتانا چاہتا ہے کہ یورپ میں کالسیکی موسیقی
کی کیا قدرو منزلت ہے اور موسیقی سْننے کے آداب کیا ہیں اور اگر ان آداب کا خیال
رکھا جائے تو دل کی اُجاڑ دنیا بارونق ہو جاتی ہے۔ موسیقی کے درمیان بات چیت
ایک گھٹیا اور شرمناک حرکت سمجھی جاتی ہے۔
را بندن ____برگ ہا ؤ زن ________آخن میو ہلے
اس کے ساتھ اس کی نو جوان بیو ی را کیلے بھی تھی ۔چلتے چلتے اچانک مصنف کو
پتہ چال کہ وہ ای ک جنگال تی میلے میں آنکلے ہیں پہا ڑی جنگال ت سے گھر ی ہوئی
اس جگہ میں بے شما ر لو گ چلے آرہے ہیں ۔وہا ں مصنف ان لو گو ں سے مختلف
مو ضو عات کے حوالے سے باتیں کر تا ہے ان کے رقص اور خو شی سے لطف
اٹھا تا ہے ۔وہ خوشی سے ایک دو سرے کو پیا ر کرنا معیو ب نہیں سمجھتے اسے
باہمی اْلفت کا ذریعہ سمجھتے ہیں ۔
زیر نظر با ب آخن میو ہلے کے گو ئٹے انسٹی ٹیو ٹ کا احا طہ کر تا ہے۔یہاں مصنف
مختلف کر داروں اور ان کے رویے کا جا ئزہ لیتا ہے۔جس سے ان ممالک کی تہذیب
اور معا شرت ایک زندہ شکل میں ہمیں چلتی پھرتی محسوس ہو تی ہے۔
وہ فرانسیسی طالبہ ڈانیل الونے کی خاموش طبیعت ،سادگی اور شرم و حیاکی بہت
تعریف کرتا ہے۔
یہاں پر کچھ طالب علم بھی ہیں جو دوسروں کو خوش رکھتے اور ادارے کی فضا کو
خوش گواررکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں تاکہ اس مختصر عرصے میں سب
اچھی یادوں کے ساتھ رخصت ہوں ایسا ہی ایک لڑکا الجزائر کا راشد بلیلی ہے عرب
ہو کربھی فرانسیسی کو اپنی مادری زبان سمجھتا ہے۔
وہ ان رنگا رنگ کرداروں کو زندگی کے کھیل کا ایک حصہ سمجھتا ہے اور ان کا
مطالعہ بڑی گہرائی سے کرتا ہے۔
اس اپنائیت اور لگاؤ کے باوجود مصنف کے ذہن میں ایک سوال بار بار اْبھرتا ہے۔
.زالٹس بْرک دْنیا کے تین خوبصورت ترین شہروں میں ایک ہے یہاں مصنف اس
شہر کے اندرونی حصوں کے حوالے سے کچھ نہیں کہتا ۔راستے میں سفر کے دوران
مختلف مناظر کی تصویر کشی کرتا ہے وہ راستے میں آنے والے ایک پْرانے شہر
برخٹس گاڈن کا محل وقوع بتا تا ہے کہ یہ ایک اچھا پْرانا شہر ہے ۔
اب وہ آسٹریا کے سرحدی شہر زالٹس بْرک کے تاریخی قلعے "ہوہن زالٹس بْرک
"پہنچتے ہیں۔ یہاں انہیں شہر کے مختلف حصوں میں پھرنے کے لئے چھوڑدیا گیا
پھر دو بجے سب نے مل کر شہر کے اس پرانے قلعے کی سیاحت کے لئے جانا تھا۔
مصنف زالٹس برک کے تعمیراتی حسن اور قدرتی حسن کی تعریف کرتا ہے کہ اسے
دنیا کے تین خوبصورت شہروں میں سے ایک قرار دینا غلط نہیں ہے اس شہر کو
زمانہ قدیم سے موسیقی سے خاص نسبت چلی آتی ہے ،مشہور موسیقار موتسارت
( ۱۹۶۱ء تا ۱۹۸۱ء ) اسی شہر میں پیدا ہوا اور اپنی عمر کے پہلے پچیس سال اس
نے یہیں بسر کئے وہ جن حاالت میں یہ شہر چھوڑ کر گیا وہ اس کے لئے باعث فخر
نہ تھی ا س لئے اس کے بعد وہ یہاں واپس نہ آیا اور آسٹریا کے دارالحکومت وی آنا
میں ہی انتقال کیا۔اس حوالے سے مصنف کہتا ہے
اس کے بعد وہ زالٹس برک کے اس تاریخی قلعے کی سیر کو گئے ۔ قلعے سے نیچے
اترنے سے پہلے انہوں نے نیچے شہر کو دیکھا تو جیسے سانس لینا بھول گئے کہ
اپنی تاریخی عمارتوں اور سبز اور بنفشی رنگ کی ڈھلواں چھتوں ،گنبدوں اور
نوکیلے میناروں کے ساتھ کسی مصور کے عمل کی طرح خوب صورت ،متناسب
اور مکمل دکھائی دیتا ہے ۔
قلعے کے نیچے انہیں ایک چھوٹا سا قبر ستان نظر آیا وہ اس میں چلے گئے قبرستان
کی اس رونق ،تروتازگی ،مہک اور خوبصورتی دیکھ کر مصنف نے اپنے ساتھیوں
سے کہا ۔
آخر کار وہ دن بھی آگیا جب انہیں اپنی کارکردگی کے نتیجوں کے کارڈ ملے ۔کالس
کی اکثریت نے کامیابی حاصل کی تھی ۔اس دن کالس میں الوداعی پارٹی کا اہتمام تھا
،اس تقریب کے آغاز میں ساری کالس نے اپنی ٹیچر فروالئن واکس کو اس کے
محبوب موسیقار یوہن سبسطین باخ کی وائلن اور آرگن موسیقی پر مشتمل تین ریکارڈ
کا تحفہ پیش کیا۔ یہ دیکھ کر مارے حیرت کے اس کا منہ کھال تھا اورگویائی اس کا
ساتھ چھوڑگئی تھی۔
"یہ آپ نے کیا کیا؟ وہ باآلخر اپنے آپ میں آئی اور دھیمی آواز میں بولنے لگی اتنا
نادر تحفہ! باخ کی آرگن اور وائلن میوزک ! اوہ میرے خدا! میں کیسے آپ لوگوں کا
شکریہ ادا کروں گی لیکن پھر اس نے سب کا بہت دل آویز انداز میں شکریہ ادا کیا
اور بہت اچھی گفتگو کی۔ پھر اس نے جذبات سے لدی ہوئی آواز میں ْرک ْرک کر
بولنا شروع کیا۔
"میں اس انسٹی ٹیوٹ میں خدا جانے کب سے پڑھا رہی
ہوں اور اسی طرح پڑھاتی رہی ہوں گی۔طالبعلم آتے ہیں
اور چلے جاتے ہیں ہمارے ہاں یہ روز ّمرہ کا معمول
ہے لیکن میں سچ کہتی ہوں کہ ایک خاص شخصیت کا
طالبعلم صرف ایک ہی بار آتاہے اور ویسی شخصیت
پھر کبھی نہیں آتی لیکن یقین کرو کہ ڈوروتھی ،بلیلی،
الونے کاظم اور ڈی پھر کبھی نہیں آئیں گے۔ میں تم
لوگوں کو ہمیشہ یاد رکھوں گی۔"(ص ، ۳۱۴ایضا َ ََ)
اس کے بعد موسیقی کا دور چال الوداعی تقریب کے اس میلے میں ہجراں کے سوا
باقی سب شریک تھے ۔اسے امتحان میں اپنی ناکامی کا پتا چل گیا تھا اور وہ صبح
ہوتے ہی اپنی جرمن سہیلی کے ساتھ آخن میوہلے کو خیر آباد کہہ کے چلی گئی تھی۔
بحیثیت مجموعی اس سفرنامے کے اچھوتے اور منفرد اسلوب سمیت کرداروں کی جا
بجا کارفرمائی نے اسے منفرد بنادیا اور اس کے انمٹ نقوش ہمیشہ قاری کے دل پر
ثبت رہیں گے کیونکہ مصنف نے ان عمارات ،جنگالت ،راستوں ،ریستورانوں کی
منظر کشی اس انداز سے کی ہے کہ وہ زندہ جاوید ہو گئے اور آنے والے سفرنامہ
نگاروں کو ایک ایسا نشان دے گئے جس پر چل کر انہیں اپنی منزل بہت قریب دکھائی
دے گی۔
بیچ میں کچھ مواقع ایسے بھی آتے ہیں جہاں واقعات کی تکرار یکسانیت کا تاثر دیتی
ہے اور قاری کچھ لمحوں کے لئے ذہنی کوفت محسوس کرتا ہے لیکن جلد ہی مصنف
اس اکتاہٹ کو بھانپ لیتا ہے اور اس کے قلم کی روانی دوسرے ْرخ پر چل پڑتی ہے۔
باب پنجم
مذکورہ باب میں خورشید رضوی کی ان تحاریر کا جائزہ پیش کیا جائے گا جو
مصنف نے مختلف موضوعات پر مختلف عنوانات کے تحت مختلف اوقات میں لکھی
ہیں۔ ان میں تنوع کی رنگا رنگی پائی جاتی ہے ۔ اس سے مصنف کا موضوعات کے
حوالے سے چناؤ ،فکراور اسلوب بیان سامنے آتا ہے۔ اس حقیقت سے مفر نہیں کہ
مصنف کا پی ایچ ڈی کا مقالہ عربی متن کی تحقیق سے متعلق تھا اور یوں وہ بطور
محقق سامنے آتا ہے لیکن اس کے باوجود اس کی بنیادی حیثیت بطور شاعر ہے اور
ثانوی حیثیت بطور محقق اور نثر نگار ہے ۔ اس کی تمام ادبی جہات قارئین ادب کے
لیے نمونے کی حیثیت رکھتی ہیں۔
اس سے مرادمصنّف کے تنقیدی شعور اور تنقیدی بصیرت میں کمی نہیں بلکہ
وہ اف راد جو ان کی کتب کا جائزہ عقیدت مندانہ نقطہ نظر سے لیتے ہیں تو توازن
برقرار رکھنا ان کے لیے ممکن نہیں رہتا اور وہ تنقید کی اصل روح سے غیردانستہ
طور پر انحراف کرجاتے ہیں۔
اطراف(مجموعہ مضامین):
زیر موضوع کتاب 426صفحات پر مشتمل مغربی پاکستان اُردو اکیڈمی الہور
سے طبع دوم 4164ء میں اور طبع ّاول 4111ء میں شائع ہوئیں قیمت -/111
روپے ہے ۔
زیر نظر کتاب کے مندرجات میں آٹھ مضامین اُردو میں اور چار انگریزی میں
شامل ہیں۔ پیش لفظ ڈاکٹر تحسین فراقی نے تحریرکیا ہے۔
1۔ حجرہ نبویہ پر نعتیہ اشعار 4۔ قصیدہ شمسیہ ۔ ایک نادر نعتیہ دستاویز1۔
ال ّخل2۔ دیوان غالب پر موالنا حامد علی خان کے حواشی 9۔ غالب اور سرسیّد1۔ سیّد
نذیر نیازی سے ایک مکالمہ 9۔ مجید امجد۔ ایک اہم شاعر8۔ عبدالعزیزخالد کی ایک
نظم
حجرہ نبویہ پر نعتیہ اشعار :یہ مضمون ان نعتیہ اشعار کے متن اور مطالب پر
مشتمل ہے جو مصنف نے انتہائی تگ و دو سے حاصل کیے ۔ یہ حجرہ نبویہ کی
بیرونی دیواروں پر کندہ کیے ہوئے تھے کیونکہ حجرہ پاک کے اندر جانے کی
سعادت مصنف کو حاصل نہیں ہوئی۔
یہ اشعار سلطان عبدالحمید خاں ّاول کی تخلیق تھے جو ترکان عثمانی میں
ستائیسواں سلطان تھا ۔ 6949ء میں پیدا ہوا ۔ پچاس برس کی عمر میں تخت نشین ہوا
اور 6987ء میں وفات پائی۔
مصنف کو یہ اشعار بالترتیب نہیں ملے کیونکہ متعدد اشعار پر روغن پھرا ہوا
تھا ۔ یہاں مصنف سعودی باشندوں کے رویے کا ذکر کرتا ہے جسے ہم تعصب یا
شاعرانہ بدذوقی پر کہہ سکتے ہیں کیونکہ یہ اشعار ترک بادشاہ کی مساعی جمیلہ کا
تھے۔ نتیجہ
"سعودی دور میں جب گنبد پر روغن کی تجدید کی گئی تو اسی روغن سے ان اشعار
کو بھی دبا دیا گیا ہو جو سعودی مسلک کے اعتبار سے مناسب معلوم نہ ہوئے
ہوں"۔(ص)68
پاکستان واپس آکر مصنف نے کافی چھان بین کے بعدان اشعار کا متن دریافت
کر لیا ۔ زیر موضوع مضمون میں مکمل متن اردوترجمہ کے ساتھ شامل کیا ہے۔
یہ قصیدہ شاعر کے لقب شمس الدین کی رعایت سے "قصیدہ شمسیہ"کہالیا۔ یہ
مورخ ابن الشعار کی وساطت سے اہل فکر طبقہ تک پہنچا۔
ساتویں صدی ہجری کے ّ
سب سے اہم بات یہ کہ ابن الشعار نے سارے کا سارا قالئدالجمان میں محفوظ
کر دیا ہے۔ یہ قصیدہ نادر ہے ۔ اس لیے یہ مکمل عربی متن مع تدوینی حواشی کے
ضمیمہ اس مضمون کے آخر میں شامل ہے ۔ زمانی اعتبار سے یہ قصیدہ بُردہ سے
ہے۔ متقدم
حضورکے ساتھ انتہائی عقیدت کا اظہار کیا گیا ہے اور ان کے حوالے سے
ؐ اس میں
معجزات کا بیان ہے ۔ آخر میں حواشی اور ماخذ دیے ہیں۔
تیسرامضمون ۔ النّحل
زیر تبصرہ مضمون مصنف کی ژرف نگاہی اور تحقیقی نقطہ نظر کی بھرپور
نمائندگی کرتا ہے ۔ اس نے جس موضوع کا انتخاب کیا ہے وہ حیرت انگیز ہونے کے
ساتھ ساتھ معلوماتی بھی ہے۔
"النحل"قرآن پاک کی سولہویں سورت کا نام ہے ۔ نحل عربی میں شہد کی
مکھی کو کہتے ہیں۔
اس حوالے سے مصنف ان آیات کا ذکر کرتا ہے جن میں شہد کی مکھی کا
ذکر ہے۔
وہ کہتا ہے قرآن پاک کو اس کی جامعیت کے سبب غیر مسلم مفکرین نے بھی
استجاب کی نظروں سے دیکھا اور وہ اس کے متعلق غوروفکر کرتے ہیں۔
مصنف نے یہ کہانی طویل بیان کی ہے لیکن زیر موضوع تبصرہ میں اس کی
۔ پڑا لینا کام سے اختصار لیے اس نہیں گنجائش
4۔ دیوان غالب پر موالنا حامد علی خاں کے حواشی
جامعہ پنجاب کی مطبوعات کے وسیع سلسلہ کے تحت دیوان غالب کی دیدہ
زیب اشاعت 6717ء میں ہوئی ۔ تحقیقی متن و ترتیب کا کام موالنا حامد علی خاں
صاحب نے انجام دیا۔
زیر تبصرہ مضمون میں مصنف نے موالنا کے طریقہ تحقیق کا جائزہ لیا ہے ۔
وہ کہتا ہے کہ موالنا کے حسن ذوق اور محنت میں کوئی شک نہیں تاہم بعض حواشی
ایسے بھی ملتے ہیں جنہیں مختصر رکھنے کی کوشش میں تشنۂ ابالغ رہ گیا یاپھر
مصروفیت کی وجہ سے موالنا کو ضروری تحقیق کا وقت نہیں مل سکا اس لیے وہ
اشاعت دوم میں ضروری ترمیم کی توقع رکھتا ہے۔ شعر کے اوزان اور کتابت کی
اغالط کی طرف نشاندہی کی ہے ۔ آخرمیں مصنف نے حواشی تفصیل سے دیے ہیں۔
5۔ غالب اور سرسیّد
مصنف نے یہ 6779ء میں تحریر کیا کیونکہ 6779ء غالب کے دوسوسالہ یوم
والدت اور 6778ء سرسیّد کے صدسالہ یوم وفات کا سال ہے اس لیے مذکورہ باال
سنین دونوں نابغہ کو یاد کرنے کے سلسلے کی کڑی ہے۔
اس وقت کوئی شخص لکھتا تو اسی طرز کو انشاپردازی سمجھا جاتا تھا ۔سادہ
تھی۔ جاتی دی نہیں اہمیت کوئی کو زبان
سید کے تعلق خاطر یہ صورت تھی کہ غالب آثار الصنادید کے تقریظ
غالب اور سر ّ
نگاروں میں شامل تھے انہوں نے پُرتکلف فارسی میں تقریظ لکھی ۔ سرسیّدکی تعریف
اس انداز سے کی ۔
مصنف نے ان کے درمیان نوک جھونک کو موثر اسلوب میں بیان کیا ہے۔ زیر
تبصرہ مضمون میں مصنف نے غالب اور سرسیّد کی شخصیت کے کئی پہلو بحوالہ
حالی بیان کیے ہیں۔ آخرمیں حواشی میں مزید وضاحت کی ہے۔
6۔ سیّد نذیر نیازی سے مکالمہ
زیر موضوع مضمون مصنف نے 4111ء میں تحریر کیا ۔ آغاز میں وہ عالمہ
اقبال کے دیرینہ دوست سید نذیر نیازی سے مالقات کا احوال بیان کرتے ہیں۔ ان کا
شخصی خاکہ اس طرح بیان کیا ہے ۔
مصنف نے اُن کے انکسار کا ذکر عقیدت مندی سے کیا ہے۔ عالمہ اقبال کے
حوالے سے ان کی گفتگو ریکارڈ کی ۔ زیر نظر مضمون میں مصنف نے یہ گفتگو
مکالمہ کے عنوان سے پیش کی ہے۔
اس مضمون میں بین السطور وہ پرانے زخموں پر مرہم رکھتے ہوئے کئی
نئے زخم بھی لگاتا چال گیا۔
روزمرہ کے
ّ مصنف کہتا ہے یہ حقیقت بجاہے کہ مجید امجد کے ہاں تلفظ اور
جھول ملتے ہیں لیکن مضمون نگار کا لہجہ الئق تاسف ہے ۔ وہ تعریف کم لیکن شاعر
کی لفظیات پر کڑی تنقید کرتا ہے۔
نظم "ایک پرنشاط جلوس کے ساتھ"مبصر کا اس نظم کو بے ہنری کی مثال
قرار دینا خود بے دردی کی ایک مثال سے کم نہیں کیونکہ مبصر نے اس نظم کا
بنیادی تصور سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔
اس مضمون میں مصنف نے عبدالعزیز خالد کی پندرہ اشعار پر مشتمل نظم کا
جائزہ لیا ہے ۔ اس نظم پر عربی ادب کے اثرات ہیں یوں تو اقبال کے کالم میں عربی
ادب کے اثرات نمایاں طور پر دیکھے جاسکتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اُردو کا
مزاج عجم کی وساطت سے بناتھا اس لیے خالص عربی آہنگ کو اُردو میں ڈھالنا بہت
مشکل عمل ہے ۔ اس میں ناکامی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ عبدالعزیز خالد کو بھی
بہت سے اعتراضات کا سامنا کرنا پڑا ۔
"خالد کا جانکاہ سفر رفتہ رفتہ ایک ایسا آہنگ نکال رہا
ہے جو ممکن ہے کسی روز عرب اور عجم کے درمیان
ایک پُل کا کام دے سکے"۔ (ص )694
نہیں ہے ُ
طرفہ زمانے میں ماجرا طرفہ
کا
تم آل عمرہ ہو ہم پر بھی یونہی
وارکروگے
ہم اہلیان سخن نغمہ سنج ُحسن رہیں گے
بزورحیلہ ہمیں تم ذلیل و خوار کروگے
کسی بھی حرف جنون فسوں کو آڑ بنا
کر
ہمیں مقید و مصلوب و سنگسار کروگے
اس نظم میں عرب شعراء کا ذکر بطور تلمیح آیا ہے ۔ مصنف شاعر کے آہنگ
کی تعریف کرتا ہے کہ اس سے ارتقاء کا سراغ مل گیا ہے ۔ تاہم وہ کہتا ہے۔
مصنف نے یہ مضمون 6781میں تحریر کیا۔ اس میں زمانہ جاہلیت میں کسی
قبیلے میں جب شاعر کا ظہور ہوتا ہے تو ان کے احساسات کیا ہوتے وہ اپنی خوشی
کا اظہار کس طرح کرتے؟ مصنف ابن رشیق کے حوالے سے بتاتا ہے۔
عرب کے کسی قبیلے میں جب کوئی شاعر ابھرتا تو دیگر قبائل آکر اسے مبارک باد
دیتے کھانے پکائے جاتے اور شادی بیاہ کے انداز میں عورتیں اکٹھی ہو کر سارنگیاں
بجاتیں۔ مرد اور بچے باہم نوید مسرت سناتے کیونکہ شاعر ان سب کی عزت و آبرو
کے تحفظ ،شرافت خاندانی کے دفاع ،ان کے کارہائے نمایاں کو دوام بخشنے اور ان
کے ذکر خیر کو عام کرنے کا ذریعہ تھا۔ تین ہی باتیں ایسی تھیں جن پر مبارکباد پیش
کیا کرتے تھے۔ لڑکے کی پیدائش ،شاعر کا ابھرنا اور گھوڑی کا بیاہنا۔(ص)۳
جاہلی شاعری اثر و رسوخ اور غیرمعمولی مرتبے کے ثبوت میں مشہور
مستشرق نکلسن اس نوجوان کی مثال دیتا ہے۔ جسے اپنی محبوبہ کا رشتہ صرف اس
بناء پر نہ مل سکا کہ نہ وہ شاعر تھا نہ عائف اور پانی کے چشموں کا علم رکھتا تھا۔
()۱۱
In his article the author describes some main points of Ibn Khalikan's writings.
"He says: When working on Uqud - al- Juman of Ibe-al-Shaar(595-654) a senior
contemporary of Ibn Khlikan, I had the opportunity to have access to certain MSS,
which had been amongest the sources of Ibn e Khlikan, while compling his maganum
opus, Whafayat-al-Ayan. This comparative study through sporadic and currsory
bought to light a general tendency in Ibn Khalikan, to feel shy of recording any
adverse remarks and some times to deliberately expunge then from the biographies of
renowned persons. (pg25)
In his article he says I wait to stress is Ibn Khalkan's avoidance who has been
equally genereous to Ahmad Al-Ghazzali as well as his critcis, Bashar b. Burd the
famous bling poet of the Abbasid period, is generally accused of being a heretic. Abn
Khlikan too could not help alluding to this common opinion. He has however,
folowed it up immediately with a banlancing reports that exonerates Bashar of all that
he is changed with and creates a soft corner for him.
In the end, he says that it is however always useful for the research scholor to
be aware of the personal learnings and idiosyncrasies of the leading savants in order
to the able to draw balanced conclusions from their works.
The author gives many notes and references to make his view athentic.
The tomb of Al Busiri.
پنجاب یونیورسٹی الہور سے اردو میں اسالم کا انسائکلوپیڈیا شائع ہوا۔ اس میں
ہے۔ گیا کیا دعوی
ٰ یہ
ء میں انتقال کیا ور امام الشافعی کے مقبرے کے۱۸۱ قاہرہ میں قیام پذیر ہوئے ۔ وہیں
)۴۱جوارمیں مدفون ہوئے۔ (ص
وہ بتاتا ہے کہ دوسری طرف مختلف ذرائع سے ایک مستند رائے یہ بھی ہے
کہ البوصیری کا مزار قاہرہ میں نہیں سکندر یہ میں ہے۔ سادات علی باشا اپنے وسیع
کا م الخطاط التو فیقیہ میں وضاحت کرتا ہے کہ مسجد البوصیری سکندریہ کی مساجد
کے درمیان واقع ہے۔
مختلف آراء کی وجہ مصنف بیان کرتا ہے کہ نام کی غلط فہمی ہے۔
A much senior Scholor, Abdul Qasim Hibat Allah b. Ali b. Masud al- Ansari
al - Khazraji, al- Munastiri. (D AH 598) is commonly knows as as al Busire, because
his grandfather, Masud migrated from Munastir to Busir Quridis, Yaqut has
mentioned him in Mujam al - Buldan under Busir and Munastir and Ibn Khlikan has
noticed him in cnuijam al- Buldan under busir andcnunartis and Ibn Khalikan hs
noticed him in hiswafayat al-Ayan. About his death and burial he says.
He died on the second night of Safar in the year 598 and was buried at the foot
)of al Mulqattam. (Pg 44
آخر میں مصنف کہتا ہے کہ یہی رائے صائب ہے کہ امام ابوصیری کا مزار
امام شافعی کے مقبرے کے جوار میں ہے یہ سوال بھی غالبا ً غلط فہمی کی بناء پر اٹھا
تھا۔
زیر موضوع مضمون مصنف نے ۱۸۱۱ء میں تحریر کیا۔ زیر تبصرہ مضمون
میں مصنف نے علم ریاضی میں مسلمانوں کے کماال ت کو سراہا ہے۔
وہ کہتا ہے کہ سائنس کی تاریخ میں خصوصا ً مغر ب میں سائنس کی مختلف
شاخو ں کا تعلق یونانیوں سے جوڑا جاتا ہے یا براہ راست نشاۃ تانیہ سے جوڑا جاتا
ہے۔ ان قوموں کو شامل کیے بغیر جو یونانیوں کی پیش رو تھیں۔ خصوصا ً مسلمانوں
کا کردار جو درحقیقت یونانیوں اور نشاۃ ثانیہ کے درمیان خال کو پر کر تا ہے عموما ً
نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
مصنف بتاتا ہے درحقیقت عربوں کا درثہ مخطو طات کی شکل میں پوری دنیا
میں موجود ہے۔ ترکی میں مخطوطات کی شاید سب سے زیادہ تعداد ہے اور ان کی
بہت زیادہ مقدار یورپ کی مخلتف الئبریریوں میں پائی جاتی ہے۔ ایک ایسی حقیقت
جس سے متاثر ہو کر اقبال نے یہ شعر کہا۔
مسلمانوں نے صفر کا تصور پیش کیا جس نے الجبرا میں مثبت اور منفی کا تصور
دیا۔
مصنف عباسی خلیفہ کے متعلق کہتا ہے کہ وہ علم ریاضی ،علم فلکیات اور
دست کاری میں سبقت لے گئے۔ وہ دبستان ترجمہ کے طور پر پہنچا نے جاتے تھے۔
جنہوں نے یونان ی سائنسی مخطوطات کا عربی ترجمہ کیا۔ یہ تراجم سائنس کی ترقی
میں بہت معاون ثابت ہوئے۔ کچھ اہم یونانی علوم اب صرف عربی تراجم کی وجہ سے
جانے جاتے ہیں۔
Khayyam also persented a plan for calendar reform about 1079 A.D. His
proposed calendar known as Jalali or Maliki was much more precise than the present
Gregorian Calendar. In Khayyam's plan a difference of one day is accumulated over a
span of 5,000 years as compared to its accumulations over 3,333 years in the
Gregorian Calendar. (Pg 56)
مصنف کہتا ہے کہ یہ مضمون علم ریاضی کی تمام شاخوں کااحاطہ نہیں کرتا۔
اس کا مقصد صرف مسلمانوں کے اس ابتدائی قابل تعریف کردار کا تصور پیش کرنا
ہے جو انہوں نے عمومی طور پر سائنس اور بالخصوص ریاضی کی ترقی میں ادا کیا
ہے۔
In the end the author gives a quoation from an address of Eisehower, delivered
as president of the United States of America before the U.N General (Assembly may
be well in place here. He said:
As I look into the future I see the emergen ce of moderen Muslims states that
would bring to this century contributions surpassing those we cannot forget from the
past. We remember that western artthenetic and algebra owe much to Muslims
mathematicians and that much of the Foundation of the world's medical science and
astronomy was laid by Muslims Scholars. (Pg 58)
ء۱۰۱۰ صفحات پر مشتمل ادارہ اسالمیات پبلشرز الہور سے۹۰۳ زیر نظر کتاب
پر مصادر و مآ۹۰۳ تا۱۳۰ قیمت درج نہیں ہے۔ ص، میں شائع ہوئی۔ اشاعت اول
خذ اور اشاریہ حروف تہجی کی ترتیب سے دیا گیا ہے۔
انتساب " والدہ مرحومہ" کے نام ہے۔ پیش گفتار میں مصنف نے عربی ادب کی چند
تواریخ اور مذکورہ باال کتاب کے حوالے سے اپنے تا ثرات مختصرا ً قلم بند کیے ہیں
زیر موضوع کتاب کے مندرجات کی ابواب بندی نہیں کی بلکہ عنوانات دیے گئے ہیں
اور ہر عنوان کے تحت ذیلی موضوعات ہیں۔
کسی بھی قوم کے ادب کا جائزہ لینے کے لیے اس عہد کے سیاسی حاالت ،تہذیبی و
ثقافتی عوامل کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ ان کے بغیر تاریخ محض معلومات اور
الفاظ کا بیش بہا خزانہ تو ہو سکتی ہے۔ لیکن ادبی تقا ضوں کو پورا نہیں کرتی۔
ادبی تاریخ الفاظ و معانی پر بے جا مباحث کا نام نہیں بلکہ اس عہد کے تقاضوں کو
پورا کرتے ہو ئے جامع اور مدمل انداز میں اپنے نظریات کو اس طرح پیش کر نا کہ
وہ موضوع سے متعلقہ قارئین کے عالوہ عام قارئین ادب کی ضروریات کو پورا
کرتے ہوئے ان کی ذہنی تشفّی کرے کیونکہ ادبی تاریخ کا معیار اس کی ضخامت نہیں
بلکہ تنقیدی شعور ،اسلوب اور موضوعات ہوتے ہیں۔
سامی اقوام میں عرب قوم اور عربی زبان کی کیا حیثیت تھی؟
عرب اقوام کس قسم کے جغرافیائی خط و خال سے دو چار تھی؟
عرب خطے کی نباتی و حیوانی زندگی کس قسم کی تھی ؟
عربوں کے معاشرتی کوائف کیا تھے؟
قدیم عربوں کا دیگر عالمی اقوام سے ربط کس نوعیت کا تھا اور کیا عربوں
نے ان کی ثقافتوں کے اثرات کو قبول کیا؟
عربوں میں قدیم نسب و روایات کی صورتحال کیا تھی؟
عرب ریاستوں اور قبائل کا عربی ادب پر کیا اثر مرتب ہوا؟
عرب مستعربہ کی اہمیت کی وجہ کیا تھی؟
حرب بسوس ،حرب دا حس و الغبراء کس رد عمل کا نتیجہ تھے اور ادب پر
اس کے اثرات کس نوعیت کے تھے؟
عرب میں اسواق کی کیا اہمیت تھی؟
قدیم عربوں کے عقائد و تصورات کیا تھے اس سے ان کی عملی و فنی
صالحیتوں پر کیا اثرات مرتب ہوئے؟
عربی زبان کی امتیازی خصوصیات کیا تھیں؟
عربوں کا ذہنی میالن کیا تھا اور اس کے ادب پر کیا اثرات تھے؟
دور جاہلیت میں نثر اور شاعری کا کیا مقام تھا؟
کیا جاہلی شاعری واقعی حقیقت ہے یا محض افسانہ؟
جاہلی شاعری کے اہم مآ خذ کو ن سے ہیں؟
معلقات کی اہمیت کیوں اور کس وجہ سے ہے اور اس کے شعر اء کون ہیں؟
ان سواالت کی روشنی میں زیر مو ضوع کتاب کے حوالے سے عربی ادب کا جائزہ
پیش کیا جائے گا۔
مصنف عرب قوم اور عربی زبان کو سامی اقوام اور سامی زبانوں میں سے بہترین
قرار دیتا ہے۔ اس کے حق میں وہ یہ دالئل دیتا ہے۔
عرب کے جغرافیائی ماحول میں یک رنگی کی کیفیت پائی جاتی تھی ۔ جس میں تغیر
و تبدل کی رفتار بہت سست تھی اور زبان اور نسلی خصائص کا زیادہ دیر تک خالص
حالت میں باقی رہنا ممکن تھا اور دوسرے اس پہلو سے کہ اسالم کی بدولت عرب
اپنی روایات کو دور دور تک پھیال سکے اور دنیا کے ایک بڑ ے حصے پر ان کی
ثقافت کی مہر ثبت ہو گئی۔ یہ سعادت کسی اور سامی قوم کے حصے میں نہ
آسکی۔(ص ،۱۱عربی ادب قبل از اسالم)
سامی اقوام کے اصل وطن اور تمام سامی زبانوں کی جڑ کے حوالے سے وہ کوئی
حتمی رائے نہیں دیتا۔ مختلف قیاسی نظریات پیش کرتا ہے کیونکہ کسی بھی نظریے
کے حق میں قطعی ثبوت مہیا نہیں ہو سکا۔
عرب اقوام کو درپیش جغرافیائی خط و خال کے حوالے سے پہلے مصنف جزیرہ نما
عرب کا حدود اربعہ بیان کر تا ہے اور مختلف خطو ں کی آب و ہوا سے متعلق طویل
مباحث پیش کر تا ہے لیکن یہ سلسلہ عربی ادب سے متصل ہو تا نظر نہیں آتا محض
جغرافیائی معلومات ہی دکھا ئی دیتی ہیں۔
ان جغرافیائی حاالت کا وہاں کے باشندوں کے ذہنوں اور مزاج پر مرتب ہونے والے
چاہیے۔ نا ہو السطور بین تذکرہ کا اثرات
عرب خطے کی نباتی و حیوانی زندگی کی نوعیت کے حوالے سے مصنف جانوروں
اور پودوں کی مختلف انواع کا جائزہ لیتا ہے کہ وہ کس دور میں کہا ں کہاں کہاں
پائے جاتے تھے اور ان کی مختلف نسلیں کب معدوم ہوئیں؟ شتر مرغ ،نیل گائے ،ببر
شیر ،چیتے ،پہاڑی بکرے ،لومڑی ،گیدڑ ،خرگوش جنگلی چوہے ،پرندوں میں
عقاب ،باز ،کوے ،چڑیاں ،الو ،گدھ ،فاختہ ،کبوتر ،چکور ،بٹیر ،بلبل ،ابابیل،
حشرات میں سانپ ،بچھو ،مکڑیاں ،کنکجھورے ،شہد کی مکھیاں ،ٹڈی دل وغیرہ
پالتو جانوروں میں اونٹ ،گھوڑا ،بھیڑ ،بکریاں ،خچر ،گدھا ،بلیُ ،کتّا وغیرہ پھر
مصنف اونٹ اور گھوڑے کی عرب معاشرے میں اہمیت بتائے ہوئے کہتا ہے۔
اب عربوں کی نباتی زندگی میں مصنف کھجو ر کا حدود اربعہ بیان کرتے ہوئے اس
کی افادیت پر روشنی ڈالتا ہے۔
کھجور غذائیت سے بھرپور ایک بنابنایا کھا جاہے جو دودھ کے ہمراہ ہزاروں سال
تک عربوں کی مستقل روزمرہ غذا میں شامل رہا ہے۔ اس کی گٹھلیاں کو ٹ کر
اونٹوں کو کھالئی جاتی ہیں ۔ تنے مکانات کی تعمیر میں کام آتے ہیں۔ خراب اور
کھاری پانی بھی اس کی نشوونما کے لیے کافی ہے۔(ص)۳۱
اس کے بعد مصنف پھولوں کی مختلف اقسام اور دیگر پھلوں کا ذکر کرتا ہے۔ مختلف
تر کاریوں کے فوائد گنواتا ہے۔ رنگ ،دینے والے پودوں میں قہوہ اور کافی کی اہمیت
بتاتا ہے۔
’’قہوے کو روزمرہ کے سامان تواضع میں اہم ترین حیثیت حاصل ہے خورونوش کی
محفل اس کے بغیر مکمل نہیں ہوتی اور قہوے کی تعریف میں صحرا نشینوں میں
اُسی طرح کے اشعار رائج پائے گئے ہیں جیسے جاہلی ادب میں شراب کی تعریف
میں نظم کئے جاتے ہیں۔ (ص )۳۶
مذکورہ باال معلوماتی دائرہ معارف میں عربی ادب کے حوالے سے کوئی تذکرہ نہیں
ملتا۔ حیونات و نباتات سے حاصل ہونے والے فوائد کا ذکر بخوبی ملتا ہے۔ اس لحاظ
سے زیر نظر کتاب کا یہ حصہ خاصا دلچسپ ہے۔
زیر تبصرہ کتا ب میں مصنف عربوں کے معاشرتی کوائف کے حوالے سے بتاتے
ہوئے ان کی تہذیب و ثقافت اور عادات و خصائل کا جائزہ لیتا ہے۔
بدو لوگ طبعا ً ورشت اور اکھڑطبیعت کے ہوتے ہیں لیکن عہد کی پاسداری ،مہمان
نوازی اور عشق و محبت کے لطیف احساسات بھی ان کی سرشت میں شامل ہیں ۔
لیکن اب وقت کے ساتھ بداوت کی روایات تیزی سے دم توڑتی جارہی ہیں وہ شہروں
کے قریب قریب صحرائی کناروں میں سمٹتے چلے آرہے ہیں۔
الغرض صحرا کی وہ سخت جان روایات جو صدیوں اپنی اصل پر باقی رہیں اور جن
کی مدد سے دور جدید میں بھی قدیم عربی ادب کو سمجھنا آسان تھا اب کوئی دن کی
مہمان نظر آتی ہیں۔(ص )۴۱
قدیم عربوں کا دیگر عالمی اقوام سے ربط کس نوعیت کا تھا اور انہوں نے ان کے
کیا؟ قبول تک حد کس کو اثرات ثقافتی
سرز مین عرب کا رابطہ مختلف اقوام سے ہر دور میں کسی نہ کسی صورت میں رہا
ہے۔ اس لیے ثقافتی اثرات سے وہ چاہتے ہوئے بھی دامن نہ چھڑا سکی۔ مصنف تین
وسائل کا ذکر کر تا ہے۔
یہ ایرانی اور رومی ثقافتوں کے نفوذ کا ذریعہ تھیں اور ان کا عرب معاشرے پر کئی
اعتبار سے اثر تھا۔
اجنبی ثقافتوں کو عرب میں راہ دینے واال تیسرا اہم وسیلہ یہودیت اور نصرانیت تھی ۔
ظہور اسالم سے کئی صدی پہلے کچھ یہودی اسکندر یہ اور روم سے یہاں آکر آباد
ہوئے اور بعدازاں ان کے اثرسے بعض عرب قبائل نے بھی یہودیت قبول کر لی۔
یثرب یہود کا مرکز تھا۔ بنو نضیر ،بنو قینقاع اور بنو قریظہ مشہور یہودی قبائل تھے۔
یہودیوں کی وساطت سے قدیم عرب معاشرے میں دنیا کی پیدائش مرنے کے بعد کی
زندگی اور حساب و میزان سے متعلق روایات و تفاسیر کے سلسلے نے شہرت پائی ۔
اس طرح نصرانیت نے عربوں میں حبشی ،رومی اور یونانی اثرات کی نمائندگی کی
عیسائیت کے اثر سے عربوں میں کائنات کے مظاہر پر غور کرنے اور رہبانیت کی
زندگی بسر کرنے کا میالن پیدا ہوا۔(ص )۴۶ ،۴۴ ،۴۳
عربی زبان میں مختلف الفاظ اور تراکیب کا اضافہ بھی نصرانی میالنات کے وسیلے
سے ہوا۔
عرب بائدہ:
وہ قدیم قبائل ہیں جو یکسر نابود ہوگئے اور ان کی محض کہانیاں باقی رہ گئیں۔ ان میں
عاد ،ثمود ،طسم ،اور جدیس شامل ہیں ۔ ان کے عالوہ چند قبائل مثالً عمالیق ،امیم،
عبیل ،اہل وبار ،اہل مدین اور ُجر ہم کو عرب بائدہ میں شمار کرتے ہیں۔
عرب باقیہ:
بائدہ کے مقابلے میں عرب باقیہ آتے ہیں یعنی وہ قبائل جو بچ رہے ان کی دو قسمیں
ہیں۔
عرب مستعربہ:
’’ ا س سے شمالی عرب مراد ہیں یہ عدنان کی اوالد ہیں اس لیے عدنانی کہالتے
ہیں‘‘۔(ص )۴۹ ،۴۱
مصنف بتاتا ہے کہ قوم عاد اور ثمود کا ذکر قرآن پاک میں بطور عبر ت بار بار آیا
ہود کی قوم تھی۔ ان لوگوں کا مسکن احقاف کی سرزمین تھی ثمود
ہے ۔ عاد حضر ت ؑ
القری کا عالقہ تھا۔
ٰ حضر ت صالح ؑ کی قوم تھی۔ ان کا مسکن وادی
ان اقوام کی تہذیب و ثقافت سے متعلق مصنف نے طویل مباحث کیے ہیں جو عربی
ادب کے موضوع سے خارج ہیں ٰلہذا ان کی تفصیل سے گریز کیا جاتا ہے۔
عرب ریاستوں حیرہ ،غسان اور کندہ ان تینوں کو اپنے عالقے میں شاہا نہ رسوخ
حاصل رہا جس سے دور جاہلیت میں عربوں کی ثقافت اور ادب پر گہرے اثرات
مرتب ہوئے لیکن یہاں مصنف نے ان کی تہذیبی و ثقافتی زندگی پر تفصیالً بات کی
ہے جس سے ان کا عربی ادب پر کوئی براہ راست اثر نظر نہیں آتا۔
عرب مستعربہ کے ضمن میں عدنانی قبیلے کی دو شاخوں ربیعہ اور مضر کا ذکر
کرتا ہے ۔ چونکہ عربی ادب کے پس منظر کو سمجھنے کے لیے یہ قبائل مدد دیں
گے۔ دور جاہلیت میں عرب معاشرے کی مرکزی نمائندگی یہی لوگ کرتے ہیں۔
ثقافتی اعتبار سے جاہلی عرب ایران اور روم کے ہم پلہ نہ تھا لیکن اس سے مراد یہ
نہیں کہ مکمل طور وحشی اور پس ماندہ تھے ۔ ان کا سرمایہ شعر و ادب ،فلسفیانہ و
حکیمانہ اقوال ،ضرب االمثال ،مناظر فطرت سے اثر پذیری عشق و محبت سے
آگہی ،انسانیت ،جواں مردی اور سخت کو شی کے تصورات ان کی ذہنی پختگی کے
آئینہ دار ہیں۔ ان کی زندگیوں میں ترتیب و تنظیم کی کمی تھی اس وجہ باہمی تشدد اور
ماردھاڑ کے سلسلے جاری رہے۔
عرب مستعاربہ کے اہل الوبر قبیلہ کے اثرات عربی ادب کی جاہلی شاعری میں زیادہ
نظر آتے ہیں۔
جاہلی ادب کی بدولت عرب مستعربہ کی اہمیت آج تک مسلم ہے۔ دیگر قبائل کا تو
محض نام ہی رہ گیا۔
حرب بسوس ،حرب داحس و االغبرء کس ردعمل کا نتیجہ تھے اور ادب پر اس کے
اثرات کس نوعیت کے تھے؟
حرب بسوس ،حرب داحس الغبراء ،چالیس چالیس تک جاری رہنے والی طویل
جنگیں ہیں۔ ان کی اہمیت اس وجہ سے ہے کہ شاعری میں ان واقعات کو بطور خاص
پیش کیا گیا ہے۔
مصنف نے مذکورہ باال دونوں لڑائیوں کو کافی تفصیل سے بیان کیا جو تقریبا ً چالیس
سال جاری رہیں۔
یہ لڑائی دو قبائل بکر اور تغلب کے درمیان ایک اونٹنی کو تیر مارنے کی بناء پر
شروع ہوئی ۔ اس کے بدلے دوسرے قبیلے بنو بکر نے بنو تغلب کے سردار کو جوکہ
اس کا بہنوئی بھی تھا قتل کر دیا۔ بسوس بنو بکر کے قاتل جساس بن مرہ کی خالہ کا
نام تھا اس نے جساس کو بھڑ کانے کے لیے کافی آہ و پکار کی ۔ اس جنگ کے
نتیجے میں کئی قتل ہوئے۔
اس جنگ میں بنو بکر کی عورتوں نے بھی بھر پور شرکت کی ۔ انہوں رجز خوانی
سے مردوں کو جو ش دالیا۔
حرب بسوس کے کچھ ہی عرصے بعد عبس اور ذیبان قبیلوں کے مابین ایک اور
طویل جنگ کا آغاز ہو گیا۔ داحس بنو عبس کے سردارقیس بن زہیر کا گھوڑاتھا اور
غ برا بنو ذبیان کے حمل بن بدر کی گھوڑی کا نام تھا گھوڑا اور گھوڑی کے درمیان
دوڑ کا مقابلہ ہوا تو گھوڑے کو آگے بڑھتا ہو دیکھ کر بدکا دیا اور گھوڑی غبراء کو
فاتح قرار دے دیا گیا۔ اس پر گھوڑے کے مالک نے غم و غصے میں گھوڑی والوں
دوڑ جیتنے پر سواونٹ طلب کر نے پر نیز ہ مار کر ہالک کر دیا۔ پھر جنگ کی آگ
دونوں طرف بھڑک اٹھی۔
میں نے حمل بن بدر کو مار کر اپنے جی کی بھڑاس نکال لی اور میری تلوار نے
حذیفہ (کے خون) سے بھی میرے دل کو ٹھنڈک پہنچا دی۔اگرچہ میں نے ان لوگوں
(کے قتل) سے اپنی تشنگی انتقام کو سرد کر لیا ہے۔ تاہم انہیں کاٹ کر میں نے خود
اپنے ہی ہاتھ کاٹے ہیں۔(ص )۱۳۴ان جنگوں کے نتائج بہت المنا ک تھے ۔ قتل و
غارت کا بازار گرم ہو گیا لیکن شعراء کے دلوں کو گرما دیا۔ معلقہ زہیر کا مرکزی
موضوع یہی جنگ ہے
اسواق سوق کی جمع ہے اس کا مطلب بازار یا منڈی ہے۔قدیم عرب میں تجارتی مقاصد
کے لیے مختلف اسواق منعقد ہوتے تھے ان میں نہ صرف مقامی لوگ شرکت کرتے
تھے بلکہ جزیرہ نما کے اطراف سے مختلف میں قبائل شرکت کرتے تھے ان میں اہم
فیصلے اور مقابلے ہوتے تھے۔
یہ عموما ً حج کے موسم میں منعقد ہو تے تھے ۔ ان میں سب سے زیادہ اہمیت عکاظ
کو حاصل تھی۔
اس حوالے سے مصنف بتاتا ہے۔
قدیم عربوں کے عقائد و تصورات کیا تھے اس سے ان کی علمی و فنی صالحیتوں پر
کیا اثرات مرتب ہوئے؟
دور جاہلیت میں عرب مختلف مذہبی عقائد کا شکار تھے قرآن پاک میں بھی ان مختلف
عقائد کا ذکر ملتا ہے۔ مجوس ،صابئین ،آتش پرست مصنف بتاتا ہے کہ کچھ لوگ
خالص دہر یت کے حامل تھے اور زندگی کو محض قوائے فطرت کا عطیہ سمجھتے
تھے اور موت کو گردش زمانہ کا منطقی نتیجہ اور ایک گروہ خالق کا اقرار کرتا تھا
لیکن بعد از موت حیات کا قائل نہ تھا اور اکثریت ان لو گوں کی تھی جنہیں رسالت
تسلیم نہ تھی ان کے لیے بت ہی سب کچھ تھے۔
دراصل عرب جاہلیت کے بڑے شبہات انہی دو امور پر تھے یعنی ایک تو حشر و نشر
کا مسئلہ ان کے ذہن میں خلجان پیدا کر تا تھا اور وہ اکثر سوال کرتے تھے کہ جسم
کو گل سڑ جانے کے بعد کو ن پھر سے زندہ کر سکتاہے۔ اور دوسرے یہ کہ انسان
رسول کیوں کر ہو سکتے ہیں۔ ان کی بجائے وہ یا تو مالئکہ ،کا تقاضا کرتے تھے یا
پھر بتوں کو وسی لہ جانتے تھے انسان کی رسالت پر ان کا دل مطمئن نہ ہو تا تھا۔ (ص
)۱۴۰ ،۱۳۸
دور جاہلیت میں دین ابراہیمی پر قائم لو گو ں کی تعداد بہت قلیل تھی دور جاہلیت کے
بہت سے عقائد کی تصدیق اسالم نے کردی مثالً سگی ماؤں ،بیٹیوں ،خاالؤں،
پھوپھیوں ،بہنوں سے شاد ی نہ کر نا ،خانہ کعبہ کا طوائف کرنا اور لبیک کہنا ،
مردوں کو غسل اور کفن دینا۔
قدیم عربوں کے یہ عقائد و تصورات اپنی جگہ مسلم ہیں ان کی اہمیت سے انکار نہیں
ان میں بعض عقائد کی نفی اسالم نے کی لیکن مصنف نے ان عقائد کی مثال جاہلی
شعراء کے حوالے سے نہیں پیش کی اموی عہد کے شاعر تو بہ بن الحمیر کا شعر دیا
ہے یا مثال دیتے ہوئے یہ کہا ہے کہ کسی کا شعر ہے۔
فوق الفطرت مخلوق کے حوالے سے ایک شعر تابط شرا کا دیا ہے۔
اس (غول) نے کہا ایک وار اور کرمیں نے کہا ذرا ٹھہر اور اپنی جگہ پر قائم رہ کہ
میں مضبوط دل کا مالک ہوں۔(ص )۱۴۴
تیر آلہ جنگ ہونے کے عالوہ وہ آلہ قمار بھی تھے اشک محبوب کی تاثیر کے بارے
ہے۔ سے حوالے اسی شعر یہ کا القیس امرؤ میں
تیری آنکھوں نے آنسو صرف اس لیے ٹپکائے ہیں کہ تو اپنے (ان) دو تیروں سےایک
دل پاش پاش کی دس (کی دس) قاشوں پر ہاتھ مارے۔ (ص )۱۴۶
دور جاہلیت میں عربی مختلف لہجوں میں منقسم تھی ۔ عربی زبان سے مصنف کی
مراد صرف شمالی عربی ہوگی کیونکہ عربی زبان میں محفوظ رہ جانے واال تمام تر
ادبی سرمایہ اسی زبان میں ہے دیگر قبائل کی زبانیں اُن کے ساتھ معدوم ہو گئیں۔
عربی زبان میں ایسی کیا خصوصیت تھی جو آج تک اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے
ہے۔ اس کی وجہ قدیم عربی زبان کی غیر معمولی وسعت ہے۔ یہ زبان ذخیرہ الفاظ ہی
میں باثروت نہیں بلکہ قواعد صرف و نحومیں بھی با کمال ہے۔
عربی کے نظام اعراب کا بھی اسکی وسعت کو نمایاں کرنے میں اہم کردار ہے ۔ قرآن
مجید کے تحفظ کی غرض سے مسلمانوں کی توجہ صرف و نحو کی طرف بھی
مبذول ہوئی۔
مصنف نے عربی زبان میں کثرت مترادفات کو بھی عربی زبان کی خصوصیت میں
شامل کیا ہے۔ مثال کے طور پر کئی الفاظ بھی دئیے ہیں متضاد الفاظ کی کثرت کو
بھی خصوصیت قرار دیا ہے۔
اس حوالے سے مصنف نے کچھ مبہم سے مباحث پیش کیے ہیں اس سلسلے میں وہ
ہے۔ دیتا حوالہ کا مثال ہوئی دی کی امین احمد
اگر وہ کسی باغ کے سامنے ہو تو بیک نگاہ اس کا احاطہ نہیں کر پاتا اور اس کا ذہن
کیمرے کی طرح اس کی کلیت کو گرفت میں نہیں لیا بلکہ شہد کی مکھی کی طرح
ایک پھول سے دوسرے پھول تک اڑتا پھرتا ہے اور ہر ایک کا رس چوستا ہے۔ (ص
)۱۱۰
مصنف اس حوالے سے کوئی حتمی رائے پیش کرنے سے گریزاں ہے و ہ کہتا ہے۔
اس کے پس منظر میں زندگی اپنی تمام تر قدامت اسرار ،پیچیدگی اور بو قلمونی کے
ساتھ موجود ہے اسی طرح کلیت اور جزئیت ،تسلسل اور ریزہ کاری کے بارے میں
یہ فیصلہ کرنا دشوار ہے۔ (ص )۱۱۱
مصنف ابو عمر و بن العالء کے حوالے سے کہتا ہے کہ قبل از اسالم عربی ادب کا
بہت سا سرمایہ ضائع ہو گیا جو حصہ ہم تک پہنچا ہے وہ بہت کم ہے اور اس کا
غالب حصہ شاعری پر مشتمل ہے۔
زیر تبصرہ کتاب کے مصنف کی یہ رائے قابل غور بھی ہے۔ اور دیگر نثر نگاروں
سے مختلف بھی وہ کہتا ہے۔
کیونکہ شعر نثر کی نسبت جلد یا دہو جاتا ہے اور تادیر یا د ر ہ سکتا ہے چنانچہ ایک
ایسے معاشرے میں جس میں تحریر کا رواج کم کم ہو ،شعر فطری طور پر نثر سے
بڑھ کر محفوظ رہ سکتا تھا۔(ص )۱۱۱
اس کی وجہ یہ ہے کہ مصنف کی پہلی حیثیت بطور شاعر ہے اور ثانوی حیثیت بطور
نثر نگار ہے۔
جاہلی نثر کے مختصر سرمایے کو وہ امثال ،حکیمانہ اقوال ،پہیلیوں کا ہنوں کی
سجع ،قصے کہانیوں ،خطبوں اور وصیتوں میں تقسیم کر تا ہے
یہاں مصنف پہلے ان تینوں کے صیغوں پر بات کرتا ہے اور پھر خاص عالمانہ
اسلوب میں ان کی تعریفات بیان کرتا ہے یہ ہیں تو معلوماتی مباحث لیکن اس قدر
طویل ہیں کہ قاری لفظوں کی ان بھول بھلیوں میں کھو کر اصل موضوع سے دور ہو
ہے۔ جاتا
ذیل میں مصنف کی چند مثال پیش کی جاتی ہیں۔
سہ الضر
الحر حران م ّ
حکیمانہ اشعار:
مصنف ان امثال کا سیاق و سباق بھی بیان کرتاہے اور مزید کچھ نمونے بھی پیش کرتا
ہے بوجہ طوالت ان سب کا بیان ممکن نہیں۔
قصے کہانیاں:
ابتدا ء میں مصنف داستان گوئی کے لیے استعمال ہونے والے لفظ قصص کے حوالے
سے کافی تفصیل بیان کرتا ہے پھر بتا تا ہے قصے چار اقسام میں منقسم ہیں۔
ایام العرب:
الہوی :
ٰ احادیث
عشقیہ داستانیں مثالً منخل یشکری اور ملکہ متجردہ کا قصہ اس کے لیے روایات
واشعار کا ذخیرہ ملتا ہے۔
’’ نعمان بن المنذر بادشاہ حیرہ کی ملکہ متجردہ بدکردار تھی اور معروف شاعر منخل
یشکری کے ساتھ بد نام تھی ۔ منخل خوبرو آدمی تھا جبکہ نعمان پست قد ،بدصورت
اور کَبرا تھا۔ نعمان کا ایک دن گھڑ سواری کے لیے مقرر تھا جس سے وہ بہت
دیرسے واپس آیا کرتا تھا۔ منخل نعمان کا مصاحب تھا۔ اس روز خوش وقتی کے لیے
متجردہ کے پاس جا پہنچتا تھا۔ نعمان کی واپسی پر ایک کنیز متجردہ کے حکم مطابق
خبردار کر دیتی اور منخل کو نعمان کی آمد سے قبل نکال دیا جاتا ایک روز راز و
نیاز کے عالم میں متجردہ نے بیٹری کا حلقہ اپنے اور دوسرا منخل کے پاؤں میں ڈاال
۔ بعض روایات کے مطابق اپنی ایک پازیب اسے پہنائی اور عالم وارفتگی میں اپنے
بال لٹکا کر اس کے پاؤں کو اپنے پاؤں سے جکڑلیا۔ نعمان اس روز قبل از وقت آپہنچا
اور کنیز کو علم نہ ہو سکا ۔ متجردہ اور منخل کو اس عالم میں دیکھ کر نعمان نے
منخل کو اپنے داروغہ زندان کے سپرد کر دیا جس نے اسے تکلیفیں دے دے کر مار
)۱۱۴،۱۱۶ (ص ڈاال‘‘۔
اب اس واقعے سے بعض عورتوں کی عیاش طبیعت کھل کر سامنے آتی ہے ہمارے
ہاں یہ تصور اتنا پختہ ہو چکا ہے کہ عرب معاشرے میں عورتوں پر بہت ظلم ہو تا
تھا اور اب یہاں اس واقعے سے ظاہر ہو تا ہے کہ ملکہ کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں
ہوئی ہوگی۔ اس دور کی عورت جذباتی اور جنسی شعور سے مکمل طور پر آگاہ تھی۔
اس کے عالوہ نثر کے حوالے سے مصنف دیگر اقوام سے ماخوذ کہانیوں اور
جانوروں کی کہانیوں کا ذکر کرتا ہے۔ اس کے بعد مصنف سجع کے عنوان سے لفظ
سجع کے لغوی واصطالحی مفہوم اور گرائمر کی رو سے اس کے استعمال پر کافی
بحث کرتا ہے پھر دور جاہلیت کی سجع کے نمونوں کا ذکر کرتا ہے۔
خطب و وصایا:
یہاں مصنف بتاتا ہے کہ خطب خطبہ کی اور وصایا وصیہ کی جمع ہے اور پھر اردو
میں ان دونوں کے معنی میں تخصیص کے حوالے سے بات کرتا ہے اور بطور نمونہ
مختلف خطبوں کے اقتباسات پیش کرتا ہے۔
مصنف جاہلی خطابت کی نمائندگی کے لیے قس بن ساعدہ اور اکثم ابن صیفی کا تذکرہ
کر تاہے۔
قس بن ساعدہ االیادی :
’’ قس کا شمار عرب کے معمرین میں ہوتا ہے اس نے بہت طویل عمرپائی اور بعثت
اکرم نے اسے سوق
ؐ سے کچھ عرصہ قبل اس کی وفات ہوئی ۔ روایت ہے کہ نبی
عکاظ میں ایک خاکستری رنگ کے اونٹ پر بیٹھ کر خطبہ دیتے سنا اور اس کے
حسن کالم اور سالمت طبع نے آپ ؐ کی خاطر عاطر پر اچھا تاثر چھوڑا جس کاذکر
آپ نے بعدکے زمانے میں بھی فرمایا ۔ (ص )۱۰۱
ؐ
’’ لوگو ! سنو اور دامن دل میں محفوظ کر لو جو جیتا ہے وہ مرتا اور جو مر جاتا ہے
وہ ہات ھ نہیں آتا اور ہونی ہو کر رہتی ہے ۔ یہ شب تاریک ،یہ روز پر سکون ،برجوں
سے مزین آسمان چمکتے ہوئے ستارے ،امڈتے ہوئے سمندر ،پاتال میں گڑے ہوئے
کہسار‘‘۔ (ص )۱۰۳
اکثم بن صیفی:
جاہلی دور کے دوسرے بڑے خطیب کے حوالے سے مصنف کہتا ہے کہ دانائی ،
منصفانہ بصیرت ،فصاحت ،بالغت ،شجرہ ہائے نسب پر عبور اور قوت استدالل میں
اکثم بن صیفی کو بہت بلند مر تبہ دیا جاتا ہے۔ اور دور جاہلیت کی معزز شخصیات
ہے۔ ہوتا شمار میں
مصنف اس کے خطبے کا اقتباس پیش کرتا ہے۔
’’ بال شبہ بہترین چیزیں وہ ہیں جو بلند ترین ہوں اور لوگوں میں بلند ان کے بادشاہ
ہوتے ہیں اور بادشاہوں میں افضل وہ ہیں جن کی نفع رسانی زیادہ عام ہو اور اوقات
میں بہترین وہ ہیں جو شاداب ترین ہوں اور خطیبوں میں سب سے زیادہ فضیلت وہ
رکھتا ہے جو سب سے پڑھ کر سچا ہو۔ سچائی سامان نجات ہے۔ اور جھوٹ قعر
ہالکت میں گراتا ہے۔ شر کی بنیاد ا َڑنا اور جھگڑنا ہے‘‘۔ (ص )۱۰۸
مزید برآں مصنف نے اکثم کے حوالے سے اور معلومات دی ہیں قبول اسالم سے
متعلق واقعہ بھی درج کیا ہے لیکن طوالت کے پیش نظر یہاں بیان کر نا ممکن نہیں
ہے کیونکہ اصل موضوع نثر کے حوالے سے اس کے خطبے کا جائزہ لینا ہے۔
شاعری:
مصنف شاعری کو جاہلی ادب کاا ہم ترین حصہ قرار دیتے ہوئے شعر اور شاعری
کے معنی و مفہوم کا عالمانہ اسلوب میں جائزہ لیتا ہے وہ لفظ شعر پر بحث کرتے
ہوئے اس کے لغوی و اصطالحی مفہوم بیان کرتا ہے ۔ شعر کے وزن و قافیہ پر بات
کر تاہے۔
’’یہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ شعریت وزن و قافیہ سے الگ ایک جو ہر لطیف
سے عبارت ہو بہر حال آہنگ نظم میں زیادہ دل نشین اور موثر ہوتی ہے کیونکہ آہنگ
موسیقی کی اساس ہے اور شاعری اور موسیقی کا چولی دامن کا ساتھ ہے چنانچہ
عمالً عربوں کے ہاں شاعری لباس نظم ہی میں جلوہ گر ہوتی تھی‘‘۔ (ص )۱۱۳
مصنف ق دیم عربی شاعری پر بات کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس کی بنیادی اقسام دو ہی
ہیں رجز اور قصیدہ لیکن شاعری پر بحث کے دوران عموما ً رجز کو نظر انداز کر
دیا جاتا ہے پھر وہ اس کے عروضی تغیرات اور اوزان پر بات کرتا ہے۔
پہال قدیم ترین شعراء میں سے دو ید بن نہد سے منسوب ہے جواس نے بستر مرگ پر
کہا
رجز کے بعد مصنف دوسری قسم قصیدہ کے معانی و مفہوم ،بحر اور قافیہ پر بات کر
تا ہے کہ عربی میں اس سے مراد محض نظم ہے خواہ موضوع کچھ ہی کیوں نہ ہو۔
اس کے بعد مصنف عربی شاعری کا آغاز کے عنوان سے عربی شعر کے اوزان پر
بات کرتا ہے کہ کب اور کیوں کر وجود میں آئے؟ عربی شاعری کی انواع بتاتا ہے
کہ یہ تین ہیں رزمیہ ،غنائی ،تمثیلی۔
اس کے جواب میں وہ احمد حسن زیات کا تجزیہ پیش کرتا ہے۔
رزمیہ اور تمثیلی شاعری کے لئے سوچ بچار اور غو روفکر کی ضرورت ہوتی ہے
جبکہ عربوں کی طبیعت میں خود مرکز یت پائی جاتی تھی ۔ ان کے ہاں دین کی
سادگی دائرہ خیال کی تنگی اور توحید پر اعتقاد نے انہیں اساطیری سرمائے سے
محروم رکھا اور وہی رزمیہ شعر کی جان ہے۔(ص )۱۱۰
لیکن مصنف اس رائے سے خود ہی متفق نہیں ہوتا اور مختلف حوالوں سے اس کی
نفی میں دالئل دیتا ہے۔ پھر وہ کہتا ہے کہ عربی شاعری کا ارتقاء جس طرح بھی ہوا
ہو۔ قصصی اور تمثیلی شعر کی عدم موجودگی کے جو بھی اسباب ہوں بہر حال غنائی
شاعری میں قدیم عربوں کو دنیا کے عظیم شعراء کی صف میں شامل پاتے ہیں۔
عربی شاعری کے جو قدیم نمونے ملتے ہیں ان کا زمانہ زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ سو
برس قبل تک کا قرار دیا جا سکتا ہے۔ خود جاہلی شعراء کے نمونہ کالم سے یہ ثبوت
م لتا ہے۔کہ شاعری کا آغاز ان سے پہلے ہو چکا ہے۔ یہ اسلوب ان کی اختراع نہیں
ہے۔
امرؤالقیس اس کی مثال پیش کر تا ہے۔
’’ دوستو! (خیمہ گاہ کے) برسوں پرانے آثار پر رکو کہ ہم بھی گھروں پر اسی طرح
گر یہ کر سکیں جس طرح ابن حذام نے کیا‘‘۔(ص )۱۱۱
عنترہ اور کعب بن زہیر کے ہاں بھی کچھ ایسا کال م ملتا ہے۔
شعر کی تاثیر کے حوالے سے مصنف کہتا ہے عرب معاشرے میں نشر و اشاعت کا
موثر ترین ذریعہ تھا۔ ادبی اہمیت کے عالوہ اس کی معاشرتی اہمیت بھی بہت زیادہ
تھی۔
اعشی کے اشعار
ٰ شعر کی تاثیر کے حوالے سے وہ محلق کا واقعہ بیا ن کرتا ہے کہ
کی تاثیر کا اثر تھا کہ محلق کی آٹھ بیٹیوں کے رشتے فی الفور اچھے گھروں میں ہو
گئے۔
بنو قریع کی ایک شاخ بنو انف النا قتہ (اونٹنی کی ناک کی اوالد) کے حوالے شعر کی
تاثیر کا ذکر کرتا ہے کہ وہ اپنے اس نام سے کھسیا تے تھے لیکن مشہور شاعرحطئیہ
کے اس شعر کے بعد وہ اس نام کو اپنے لیے باعث فخر سمجھنے لگے ۔
شعر کی تاثیر کا اثر دیکھ کر شاعر کا مقام اور اہمیت کا اندازہ از خود ہو جاتا ہے۔
مصنف ایک مشہور روایت کا ذکر کرتا ہے۔
’’ عرب کے کسی قبیلے میں جب کوئی شاعر ابھرتا تو دیگر قبائل آکر اسے مبارکباد
دیتے ۔ کھانے پکائے جاتے اور شاد ی بیاہ کے انداز میں عورتیں اکٹھی ہو کر
سارنگیاں بجاتیں۔ مرد اور بچے باہم نوید مسرت سناتے کیونکہ شاعر ان سب کی
عزت و آبرو کے تحفظ ،شرافت خاندانی کے دفاع ،ان کے کارہائے نمایاں کو دوام
بخشنے اور ان کے ذکر خیر کو عام کرنے کا ذریعہ تھا۔ تین ہی باتیں ایسی تھیں جن
پر وہ مبارک باد پیش کیا کرتے تھے لڑکے کی پیدائش ،شاعر کا ابھر نا ،گھوڑی کا
بیاہنا‘‘۔ (ص )۱۱۱
مصنف اس روایت سے مکمل طور پر اتفاق نہیں کرتا اس کی وجہ وہ بیان کرتا ہے
کہ عربوں کی قدیم شاعری میں اس رسم کا کوئی سراغ نہیں ملتا کیونکہ کسی نئے
شاعر کے ابھرنے پر دیگر شعراء کا اس موقع پر حصہ لینے اور قابل ذکر اشعار
کہنے کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ یہ روایت سب سے پہلے ابن رشیق (۱۰۰۰ء۱۰۹۱ء)
کی ’’روایت العمدۃ‘‘ میں نظر آتی ہے ۔
موالنا حالی نے بھی مقدمہ شعر و شاعری میں اس روایت کی طرف اشارہ کیا ۔ (ص
)۱۱۹ ،۱۱۱
مصنف کہتا ہے کہ عربوں کے کسی قدیم دستور کے بارے میں ابن رشیق کی کوئی
ذاتی رائے تو ہو نہیں ہوسکتی کیونکہ ان کا زمانہ دور جاہلیت سے کوئی پانچ سو
برس بعد کا ہے ۔ اور انہوں نے کچھ ذکر نہیں کیا کہ یہ روایت ان تک کہاں سے
پہنچی۔ وہ کہتا ہے بعض مستشر قین نے قدیم عرب شاعر کی ایک فوق الفطرت اور
ساحرانہ حیثیت متعین کرنے کی کوشش کی ہے اور اس ضمن میں محض قیاسات کو
طول دیا ہے دوسرا خیال کہ قبل از اسالم عرب شاعر کو اپنے قبیلے میں ایک غیبی
رہنما اور ایک فوق الفطرت حیثیت حاصل تھی۔
جن میں شعراء کی تحقیر اپنے قبیلے کے ہاتھوں ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر وہ چند
شعرا کا ذکر کر تاہے۔
امرؤالقیس کو اس کے باپ نے شعر گوئی کے سبب گھر سے نکا ل دیا تھا کیونکہ وہ
شاہی خاندان سے تھا اور شعر گوئی رتبہ شاہانہ سے فروتر سمجھی جاتی تھی طرفہ
کو اپنے بھائی کے اونٹوں کا چرواہا بننا پڑا جس نے اسے شاعر ی کی دھن میں غرق
دیکھ کر طنز کہا کہ اگر یہ اونٹ ضائع ہو گئے تو کیا اپنی شاعری سے انہیں لوٹا
سکے گا؟ طرفہ کا یہ مشہور شعر ضرب المثل بن گیا۔
مصنف دستور روایت کا ذکر کرتا ہے کہ لکھنے کا رواج کم ہونے کی بناء پر قبل از
اسالم شاعری زبانی روایت کے وسیلے سے منتقل ہوئی۔ ہر اہم شاعر کے ساتھ کو ئی
نہ کو ئی راوی ضرور ہوتا تھا۔ چونکہ عربوں کو شعر سے فطری مناسبت تھی۔ ایسے
لوگ جنہوں نے کبھی کبھی شعر کہے بے شمار ہیں بہت سا شعری سرمایہ ضائع ہو
جانے کے باوجود بھی ان کے اشعار کی تعداد دیگر اقوام کی نسبت بہت زیادہ ہے۔
مصنف کہتا ہے کہ شعراء کو حسن کالم کے اعتبار سے مختلف طبقات میں تقسیم
کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے ۔ بعض روایات میں شعراء کو چار طبقوں میں
تقسیم کیا گیاہے۔
جاہلی شاعری کے متعلق اس قسم کے طرز عمل کی اصل وجہ اس کی قدامت ہے
کیونکہ ایک ہی بات کو جب مختلف لوگ بیان کرتے ہیں تو اس کے لہجے اور معافی
میں فرق ہو جاتا ہے جاہلی شاعری کا زمانہ اسالم سے ڈیڑھ سو سال قبل ہے جب
تحریر کے لیے کوئی مناسب انتظام ہی نہیں تھا محض روایات پر ہی انحصار تھا۔ اب
معاملہ راوی کی ذہانت اور دیانت کے سپر د تھا کہ وہ اس حوالے سے کتنا مخلص تھا
۔ یہ قدیم دور کی بات ہو رہی ہے اگر موجودہ جدید دور میں بھی دیکھیں بیان بدلنے
میں دیر نہیں لگتی یہ تو جدید ذرائع نشرو اشاعت اور مواصالت کی کرم فرمائی ہے
کہ بیان آن ریکارڈ سامنے آجاتا ہے۔
محبت اور نفرت کے جذبات ہر انسان میں ایک جیسے ہوتے ہیں فرق صرف نوعیت،
شدت اور بیان کا ہوتا ہے اس لیے تحریر میں مماثلت ہونا اچنبھے کی بات نہیں
کیونکہ انسان ازل سے ایک دوسرے کااثر قبول کرتے آئے ہیں اور خیاالت بھی
ماخوذ ہوتے رہ ے ہیں یہ بحث علیحدہ ہے کہ کچھ لوگ حوالہ دے دیتے ہیں اور کچھ
خود سے منسوب کر لیتے ہیں اور حوالہ دینا ضروری نہیں سمجھتے ہیں
جاہلی شاعری کے حوالے سے مصنف کہتا ہے۔
’’دوسری اور تیسری صد ی ہجری ہی سے خود عرب ناقدین اپنے پرانے شعری
ورثے میں وضع و نحل کی نشاندہی کرتے چلے آئے ہیں ۔ مشہور راویوں میں سے
حماد الراویہ اور خلف االحمر پر بہت تہمتیں لگیں کہ وہ خود شعر کہہ کر قد ماء سے
منسوب کر دیتے ہیں اور اس کمال سے کہتے ہیں کہ ادب کے بڑے بڑے پار کھ
شناخت نہیں کر سکتے۔ شعر گھڑنے کے محرکات بھی گنائے گئے ۔ مثالً قبائلی
ترج یحات کے لیے تفسیری و نحوی مسائل میں استشہادکے لیے فکری ومسلکی
اختالفات میں اپنے مطلب کی با ت ثابت کرنے کے لیے تاریخی معلومات ظاہر کرنے
کے لیے ،نایاب ذخیرہ اشعار میں دوسرے راویوں پر برتری ثابت کرنے کے لیے یا
محض دل لگی کے لیے‘‘۔ (ص )۱۴۳ ،۱۴۱
مصنف کہتا ہے کہ حماد اور خلف پرالزامات کا سبب گروہی تعصبات بھی ہیں لیکن
نقل کے لیے بھی تو اصل کی ضرورت ہو تی ہے ۔ اگر کوئی راوی من گھڑ ت شعر
کسی قدیم شاعر سے اس طرح منسوب کر تا ہے کہ شناخت بھی نہ ہو سکے تو اس
سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس قدیم شاعر کا رنگ کالم معروف تھا اور اسی کے
مطابق نقل تیار کی جاتی تھی۔ لیکن اس سے بھی قدیم شعری ورثے کا وجود ثابت ہوتا
ہے۔ روایت کی بنیاد مذکورہ باال دو راویوں پر نہ تھی بلکہ ابو عمر بن العال ء المفضل
الضبی اور االصمعی جیسے لوگ بھی راویان شعر کی صف میں موجود تھے جنہیں
اتفاق رائے سے مستند تصور کیاجاتا ہے۔ بہر حال عربی شاعری میں آمیزش کا مسئلہ
آغازسے ہی ناقدین کی نظر میں رہا ہے۔
شاعری میں موضوعات میں تبدیلی تو حاالت کے تغیر کے ساتھ ہی آتی ہے دور
جاہلیت میں حاالت تقریبا ً یکساں نوعیت کے ہی رہے تو نئے موضوعات کہاں سے
آتے ۔ موجودہ دور میں عرب ممالک جن حاالت سے دو چار ہیں اس کا عکس ان کے
ادب میں بہت واضح نظر آرہا ہے۔
جاہلی شاعری کے حوالے سے شکوک و شبہات میں گذشتہ ایک ڈیڑھ صدی سے
شدت سے کام لیا گیا۔مصنف کہتا ہے کہ اس رجحان کے آغاز کا سراغ نولد کے اور
آلورد جسے مستشر قین کے ہاں بھی ملتا ہے لیکن زیادہ تفصیلی جائزہ لینے میں
نمایاں ترین نام پروفیسر ارگو لیتھ( )6721-6898کا ہے اس حوالے سے ۳۳صفحات
پر محیط ان کا مفصل مقالہ The origins of Arabic Poetryاپریل ۱۸۱۶ء میں
شائع ہوا۔
وہ کہتا ہے کہ قرآن میں الشعرا کی ایک سورت ہے اس میں شعر اور شاعر کا ذکر ہو
اہے ٰلہذا یہ ماننا پڑتا ہے کہ قبل از اسالم شاعری موجود تھی۔ اس سے وہ یہ نکتہ
نکالتا ہے کہ پیغمبر اسال م تو فن شعر سے ناواقف ہو نے کے باوجود اپنی وحی کے
شعر ہونے کی نفی کرتے ہیں اور کفار جو شاعری سے خوب واقف ہیں وہ قرآن کو
شعر قراردیتے ہیں حاالنکہ ہونااس کے برعکس چاہیے تھا اور قبل از اسالم کتبوں
میں کہیں شعر نہیں ملتا۔
حماسہ میں شعراء کی جوزندگی نظر آتی ہے اس کے مطابق وہ بڑے دھن کے پکے
اور سچے دکھائی دیتے ہیں مگر قرآن کا یہ تبصرہ کہ شعراء وہ کہتے ہیں جو کرتے
نہیں ان پر صادق نہیں آسکتا۔
یہ بھی نہیں پتا چلتا کہ عربی شاعری کا آغاز کب ہوا۔ کیونکہ حضرت اسماعیل ؑ کے
آدم سے منسوب عربی شعر نقل کیے جاتے ہیں اور
زمانے تک عربی اشعار بلکہ خود ؑ
حمیری اور یمنی قبائل جن کے کتبات کی زبان بالکل الگ ہے ان سے بھی قرآنی
عربی میں شاعری منسوب ملتی ہے۔
وہ کہتا ہے کہ مہلہل کو عموما ً اولین شاعر قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد جن جاہلی
شعراء کے دیوان ہم تک پہنچے ہیں ان کی تعداد بہت زیادہ ہے اور ان کے کالم میں
حرف شناسی اور فن تحریر سے واقفیت کی داخلی شہادت ملتی ہے۔ اس اعتبار سے
تو عربوں کو جو قرآ نی عربی استعمال کرتے تھے ایک پڑھا لکھا معاشرہ ہونا چاہیے
تھا۔
پھر وہ یہ نکتہ اٹھاتا ہے قرآن شعراء کے بارے میں تحقیر آمیز تبصرہ کرتا ہے اس
لحاظ سے قبل از اسالم کی شاعری کو ذہنوں سے مٹا دینے کا رجحان پید ہونا چاہیے
تھا ۔ یہ ادب کیوں کر محفوظ رہ سکا؟
وہ کہتا ہے اگر چہ قرآن کی رو سے پیغمبر اسال م سے قبل اہل مکہ میں کوئی نذیر
نہیں آیا تھا لیکن ورقہ بن نوفل جیسے لوگوں کے اشعار سے ان کا نذیر ہونا ثابت ہوتا
ہے ۔ وہ کہتا ہے گو ہم پیغمبر اسالم کی پیغمبری کے قائل نہیں تاہم چونکہ قرآن میں وہ
کسی سابق نذیر کی نفی کر رہے ہیں ٰلہذا دیگر لوگوں کی نسبت انہی کو زیادہ قابل
اعتماد تصور کر نا چاہیے ۔ مارگو لیتھ قرآن پاک کو محمد ؐکی تصنیف سمجھتا ہے ۔
وہ کہتا ہے چونکہ راویوں کو درباروں سے انعام و اکرام ملتا تھا اس سے انہیں جعلی
شعر گھڑنے کی تحریک ملتی تھی۔ بعض راویوں کو دیانتدار تسلیم کیا جاسکتا ہے۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خود ان راویوں کا ماخذ کیا تھا؟
وہ کہتا ہے اسالم کا رویہ قبل از اسالم کی تہذیب کے بارے میں شدید مخاصمانہ تھا
تو پھر قدیم عربی جو اس تہذیب کی نمائندگی کرتی تھی اس کو یاد رکھنے اور آگے
روایت کرنے والے کو ن لوگ ہو سکتے تھے پھر وہ اپنا چونکا دینے واال نظریہ پیش
کرتا ہے کہ حقیقت میں اسالم سے قبل شاعری کا کوئی وجود نہ تھا اور یہ تمام
شاعری جو جاہلی شاعری سے منسوب کی جاتی ہے بعد کے زمانے میں مسلمانوں
نے خود گھڑی ہے ۔
وہ طنزیہ لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ان جاہلی شعراء کا اگر کوئی مذہب
قرار دیا جاسکتا ہے تو وہ مذہب محمدی ؐ ہے کیونکہ ان کی شاعری میں جابجا قرآنی
اصطالحات اور اسالمی تصورات ملتے ہیں۔ اس طرح کے اور بہت سے دالئل وہ
جاہلی شاعری کو غیر حقیقی ثابت کرنے کے حوالے سے پیش کرتا ہے۔ (ص
)۱۴۴،۱۴۸
وہ کہتا ہے اگر پروفیسر مارگولیتھ کتبات کے حوالے سے بات کرتا ہے تو کیا وہ ہو
مر سے پہلے کے کچھ منظوم یونانی کتبات قبور کی نشان دہی کر سکتے ہیں؟
یہ اعتراض کہ قبل از اسالم اس ایک زبان پر جسے عموما ً لہجہ قریش یا قرآنی عربی
سے تعبیر کیا جاتا ہے سب قبائل کا متفق ہو جانا کیوں کر ممکن ہے یہ ایک علمی
سوال اٹھا تا ہے۔ لیکن پھر اس اعتراض کا جواب دیتا ہے۔
قصہ کوتاہ جو نظریہ آج عموما ً قابل قبول سمجھا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ قدیم عرب میں
بول چال کے مختلف لہجوں کے پہلو بہ پہلو ایک ادبی عربی وجود رکھتی تھی جو
ایک معیاری زبان کی حیثیت سے بین القبائلی ابالغ کاکام دیتی تھی اور عام بول چال
کی زبان کے مقابلے میں زیادہ پر شکوہ ساخت رکھتی تھی۔()۱۶۶
وہ کہتا ہے کہ قدیم شعراء کے صخیم دواوین پر اعتراض اگر اس اعتبار سے ہے کہ
یہ سب کی سب شاعری حقیقی نہیں ہو سکتی اس میں بہت کچھ مالوٹ اور ردوبدل ہو
چکا ہے تو یہ بات نئی نہیں تا ہم اس کثرت مقدار کے نتیجے میں عربوں کو پڑھا لکھا
معاشرہ ہونا چاہیے زبر دستی کی نتیجہ بر آری ہے۔
اب رہا جاہلی ادب میں اسالمی عقائد کی جھلک کا پایا جاناخالف توقع نہیں یہودیوں
اور نصرانیوں کی صحبت اور خود دین ابراہیمی کے باقیات کے اثر سے بعض بنیادی
عقائد کا معروف ہونا عین فطری ہے وہ کہتا ہے کہ ان اکا دُکا الحاقات کی بنا پر یہ
موقف اختیار کرنا سراسر غیر ذمہ داری کی بات ہے کہ جاہلی شعراء کا اگر کوئی
محمدی ہے۔ (ص)۱۶۴،۱۶۶ ؐ مذہب قرار دیا جاسکتا ہ تو وہ مذہب
مصنف کہتا ہے کہ پروفیسر مارگولیتھ کے اس مفروضے کو تسلیم کر لیا جائے کہ
اسالم سے پہلے شاعری کاکوئی وجود نہ تھا تو وہ تاریخی دور کے لوگ جیسے
حضرت حسان بن ؓ
ثابت ،خنساء اور کعب بن زہیر جیسے شعراء جن کے شعر خود نبی
کریم ﷺ نے سنے ہیں تو ان کے بارے میں بھی یہی فرض کرنا پڑے گا کہ یہ ڈھلی
ڈھالئی شاعری بغیر کسی سابقہ روایت کے کیسے وجود میں آگئی اس طرح حضور ؐ
کے معاصر شعراء کا انکار بھی الزم آتا ہے۔
آرب ری کے تبصرہ کے مطابق پروفیسر مارگولیتھ کے دالئل خاصے ناقص ہیں تاہم ان
کے دالئل کی گونج دور تک اور دیر تک سنی گئی اور مشرق میں بھی ان کے ہم نوا
پیدا ہوئے۔
طہ حسین (
سب سے نمایاں مشرقی آواز مصر کے مشہور و معروف ادیب ڈاکٹر ٰ
۱۱۱۸،۱۸۹۳ء) کی تھی ۔
طہ حسین نے مارگولیتھ کے خیاالت کا اعادہ اس سے اگلے سال ۱۸۱۱ء میں فی
ٰ
الشعراء الجاہلی (قبل از اسالم کی شاعر ی پر) کے عنوان سے اپنی کتاب میں کیا۔ اس
کے خالف مذہبی حلقوں میں اعتراضا ت کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا تاہم اگلے برس
۱۸۱۹ء میں یہ ایک نئے نام فی االدب الجاہلی سے سامنے آئی ۔ اسے بھی سخت تنقید
کا سامنا کرنا پڑا اور اسکے جواب میں متعدد کتا بیں ،بے شمار مضامین اور
تبصرے شائع ہوئے۔
مصنف کہتا ہے کہ یہ کتا ب اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس کے ردعمل کے طور پر
جاہلی ادب کا ایک باقاعدہ اور گہرا تجزیہ ہو گیا اور وہ نکات سامنے آگئے جو اس
سے قبل نگا ہوں سے اوجھل تھے۔
’’ آپ کو اور دیگر قارئین کو علی االعالن یہ سناد ینے میں مجھے باک نہیں جو کچھ
آپ یہ سمجھ کر پڑھتے ہیں کہ امرؤ القیس یا طرفہ یا ابن کلثوم یا عنترہ کا کالم ہے
اس کاان لوگوں سے کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ اہل روایت کی گھڑنت یا صحرا نشینوں
کی ایجاد یا نحویوں کی کار گزاری یا داستاں گو حضرات کا تکلف یا مفسرین ،
محدثین اور متکلمین کی اختر اع ہے‘‘۔ (ص )۱۴۱
طہ حسین خطبات کو اسالمی فن تصور کرتے ہیں اور دور جاہلیت سے منسوب
ٰ
خطبوں کو مستند نہیں مانتے ۔
طہ
’’مارگولیتھ نے جن مباحث کو اپنے تنتیس صفحات کے مقالے میں اٹھایا تھا۔ ٰ
حسین نے انہیں تین سو تنتیس صفحات پر پھیال دیا ور مارگولیتھ کا نام نہیں لیا چنانچہ
ان کے نکتہ چینیوں نے اسے ان کے ادبی سرقات میں شمار کیا ہے‘‘۔ (ص )۱۱۱
ان میں مصادر الشعراء الجاہلی سب سے آخر میں آئی اور پی ایچ ڈی کے مقالے کے
طور پر پیش کی گئی ۔ اس میں سابقہ کتابوں کے مباحث کا نچوڑ علمی و تحقیقی
ترتیب کے ساتھ مل جاتا ہے۔ فاضل محقق ناصر الدین االسد نے جاہلی ادب کو وسیع
تر تناظر میں کھنگال کر نہایت فکر انگیز معلومات کا اضافہ کیا ہے۔
’’ ڈاکٹر ناصر الدین االسد نے تیسری ،چوتھی اور چھٹی صدی عیسوی کے آٹھ کتبات
نیز آغاز اسالم کے زمانے کے بعض کتبات ،دستاویزات اور دیگر شواہد کے حوالے
سے بحث کرتے ہوئے یہ نتیجہ نکاال ہے کہ قدیم عرب میں تحریر کا رواج اس سے
کہیں زیادہ تھا جتنا بالعموم خیال کیا جا تاہے ۔ اسی طرح قرآن و حدیث میں تحریر کا
ذکر جس سے بالواسطہ دور جاہلیت میں لکھنے کا وجود ثابت ہو تا ہے گو اس دور
میں غالب اکثریت تحریر پر قادر نہیں تھی تاہم لکھ سکنے والوں کا تناسب بھی اچھا
خاصا تھا چنانچہ جاہلی شاعری میں بھی کتاب اور تحریر کا ذکر عام ملتا ہے‘‘۔(ص
)۱۱۱ ،۱۱۱
1۔ معلقات:
معلقات کے بعد عربی شاعری کا قدیم ترین انتخاب المفضل بن محمد االضبی کے نام
کی نسبت سے المفضلیات کے عنوان سے مشہور ہوا۔ مصنف نے اس حوالے سے
بہت طویل بحث کی ہے۔ جس کا ذکر یہاں غیر ضروری ہے۔ اس میں جاہلی زندگی
کی بھرپور عکاسی ملتی ہے۔
3۔ اصمعیات:
یہ انتخاب عباسی دور کے صاحب دیوان شاعر ابو تمام نے کیا۔ یہ جاہلی اور اسالمی
شاعری کا قابل قدر انتخاب ہے۔ مصنف نے بہت تفصیل سے اس کے بارے میں لکھا
ہے۔
یہ مجموعہ ابو تمام کے شاگرد اور ہم قبیلہ ابوعبادہ ،الولید بن عبید الطائی کا ہے۔ جو
بنو طے کی شاخ بحتر کی نسبت سے البحتری مشہور ہوا۔ اس میں چھوٹے بڑے
منتخبات کی تعداد ایک ہزار چار سو چون ہے
ان کے عالوہ مصنف نے مزید سولہ انتخاب کا ذکر کیا ہے۔ پھر دیگر مآخذ کے عنوان
سے بہت سے انتخاب کا جائزہ لیا ہے۔
6۔ معلقات:
اس میں مصنف نے لفظ معلقہ کے لفظی اصطالحی معنی ،اس کے صیغے ،وجہ
تسمیہ ،روایت ،تعلیق ،مخالفانہ موقف ،مستشرقین کا نقطہ نظر اور قیاسات ،تردیدی
دالئل ،حماد الروایہ ،معلقات کے مختلف نام ،تعداد متن ،اہمیت ،تراجم شروح کے
عنوانات کے تحت بہت طویل مباحث بیان کیے ہیں۔ جن کی تفصیل اتنی ضروری نہیں
ہے۔ تاہم وجہ تسمیہ کے حوالے سے مختصرا ً جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔
وجہ تسمیہ:
مصنف معلقات کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے کہتا ہے۔ ہر سال ماہ ذی قعدہ میں مکہ
مکرمہ کے قریب مقام عکاظ پر منعقد ہونے والی سوق عکاظ جہاں اور طرح طرح
کی سرگرمیوں کا مرکز تھی وہاں اس موقع پر شاعری کا مقابلہ بھی ہوتا تھا۔ کسی
نامور شاعر کو من صف مقرر کر کے تمام قبائل کے شعراء اپنا پنا کالم سناتے تھے
اور آخر میں وہ فیصلہ کرتا تھا کہ کو ن سی نظم اس سال کی بہترین نظم ہے۔ منصف
با لعموم قریش سے ہ وتا تھا تا ہم نابغہ ذیبانی کا نام بھی بحیثیت منصف نمایاں طور پر
مذکور چال آتا ہے کہا جاتا ہے کہ اس کے لیے سوق عکاظ میں چرمی خیمہ نصب کیا
جاتا تھا جہاں وہ شعراء کا کالم سن کر فیصلہ صادر کر تا تھا۔ جو قصیدہ بہترین قرار
پا تا اسے آب زر سے قماش مصری پر لکھا جا تا اور خانہ کعبہ پر لٹکا دیا جا تا تا کہ
مشتہر ہو جائے یہ گو یاصالئے عام کی ایک صورت تھی کہ زمانہ حج کے سبب
مختلف عالقوں اور قبیلوں سے آئے ہوئے لوگ اسے پڑھ سن لیں اور اس کا چرچا
تمام عرب میں ہو جائے اور آئندہ برس شعراء اس کی ٹکڑکا قصیدہ کہہ کر النے کی
کوشش کریں۔(ص )۳۱۸ ،۳۱۱
اب اصحاب معلقات اور ان کے کالم کا جائزہ لیا جائے گا فاضل مصنف نے اس کتاب
کے ہر موضوع کا جائزہ بہت تفصیل سے لیا ہے یہی صورت حال سبع معلقات کے
شعراء کی ہے لیکن یہاں ضروری تفصیل سے اجتناب کرتے ہوئے جائزہ لیا جائے گا۔
اس نے ہم مشربوں کی ایک ٹولی کے ساتھ گھومنے پھرنے ،سیر و شکار اور شراب
و کباب میں مست رہنے اور رانگ رنگ کی محفلیں سجانے کو اپنا مستقل شیوہ بنا لیا۔
جہاں پانی اور سبزہ نظر آتا یہ لوگ ڈیرے ڈال دیتے اور جب ختم ہو جاتا تا کسی اور
طرف چل کھڑے ہوتے۔(ص )۳۴۱ ،۳۴۶
سخت مزاجی کی وجہ سے اس کے باپ کی اپنی رعایا سے بھی کشیدگی چلی آرہی
تھی چنانچہ بنو اسد نے موقع پا کر سوتے میں حجر کا گال کاٹ دیا۔ جب قاصد نے اس
کے بڑے بیٹوں کو خبر دی تو انہوں نے سن کر سر میں خاک ڈال لی۔ امرؤالقیس سب
سے چھو ٹا تھا جب وہ اس کے پاس پہنچا تو وہ اپنے ایک ساتھی کے ساتھ شراب اور
نرد کھیلنے میں مصروف تھا اس نے کہا حجر کا خون ہو گیا ۔ امرؤالقیس نے کوئی
توجہ نہ دی البتہ اس کاساتھی ر ک گیا۔ امرؤالقیس نے کہا پانسہ پھینکو ،جب وہ اپنی
چال چل چکا تو امرؤالقیس نے قاصد سے تفصیل معلو م کی یہ خبر اسے دمون کے
مقام پر ملی جسے سن کر اس نے یہ رجز کہی
امرؤالقیس اخالق سے گری ہوئی حرکتیں کر تا تھا یہاں پر اس کی طبیعت کا ایک نیا
رنگ سامنے آتا ہے کہ وہ اندر سے کس قد ر حساس تھا اور اپنے باپ کے اس رویے
کی وجہ سے خود کو سزادی اور جگہ جگہ بھٹکنے لگ گیا۔ لیکن باپ کے قتل کی
خبر سن کر بظاہر پر سکون رہا لیکن اس کی طبیعت کا گداز اس کی شاعری سے
عیاں ہو تا ہے۔
جی بھر کر شراب پینے کے بعد امرؤالقیس نے قسم کھائی جب تک باپ کا بدلہ نہیں
لے لیتا نہ گوشت کھائے گا نہ شراب پیے گا نہ سرد ھوئے گا نہ تیل ڈالے گا اور نہ
کسی نازنین کے قرب سے لطف اندوز ہوگا۔
امرؤالقیس نے بنو بکر اور تغلب سے مدد مانگی اور بنو اسد کے خالف جا سوس
حتی کہ ایک روز کامیابی سے ان پر حملہ
چھوڑے اس نے بنو اسد کا پیچھا نہ چھوڑا ٰ
آور ہو ا اور ایک بڑی تعداد کو قتل کر ڈاال اس کے بعد بکر اور تغلب کے مددگار نے
یہ کہہ کر ساتھ چھوڑ دیا کہ تم نے اپنا بدلہ لے لیا لیکن وہ باز نہ آیا۔
آکر وہ قیصر روم سے مدد کا طالب ہوا۔ قسطنطنیہ جانے سے پہلے اس نے اپنے
ہتھیار اور خاندانی زرہیں اور ہتھیار سموء ل کے پاس امانت رکھ دیے تھے ۔ منذر کو
خبر ہوئی تو اس نے سموء ل کے قلعے کا محاصرہ کرالیا کہ امرؤالقیس کی امانتیں
حوالے کر دے ورنہ اس کے بیٹے کو قتل کر دیا جائے گا۔ لیکن سموئل خیانت پر
آمادہ نہ ہوا چنانچہ اس کے بیٹے کو مارڈاال گیا او راس کا نام پاسداری عہد میں
ضرب المثل بن گیا۔
مصنف بتاتا ہے کہ قیصر روم نے امرؤالقیس کی بڑی عزت و تکریم کی اور ایک
بھاری لشکر اس کے ہمراہ کر دیا۔ بعد میں اس کے مصاحبوں نے امرؤالقیس کے
خالف اس کے کان بھر دیے کہ امرؤالقیس بدکردار شخص ہے ۔ واپس جا کر آپ کی
بیٹی سے تعلقات کی کہانیاں سنائے گا۔
’’یہ بھی کہا جاتا ہے کہ امرؤالقیس نے قیصر کو حمام میں عریاں دیکھ لیا تھا اور اس
کے غیر مختون ہونے پر فحش اشعار کہہ ڈالے تھے‘‘۔(ص)۳۶۴ ،۳۶۱
بہر حال قیصر اس سے بدگمان ہو گیااور اس نے زہر میں بچھا ہوا خلعت اس کے
پیچھے روانہ کیا اور پیغام دیا کہ اسے ضرور پہننا تمہاری عزت افزائی کے لیے ہے۔
یونہی اس نے وہ پہنا زہرفوری طورپر اس کے جسم میں سرایت کر گیا اور اس کی
جلد گل گل کر گرنے لگی اس سبب سے اسے ذولقروح (زخموں واال) کا لقب مال۔
دوسری رائے اس کے متضاد ہے کہ امرؤالقیس کسی جلدی بیماری میں مبتال ہو گیا
تھا جس کا تعلق بے راہ روی سے بھی ہو سکتا ہے۔ بہر حال وہ انقرہ پہنچا تو اس کی
حالت غیر ہو گئی اور عسیب نامی پہاڑ کے دامن میں آخری سانس لیا۔
امرؤالقیس انقرہ ہی میں دفن ہوا جب قیصر کو اس کی موت کا علم ہوا تو اس نے اس
کا ایک مجسمہ تراش کر اس کی قبر پر نصب کرنے کا حکم دیا ۔ اور یہ مجسمہ
مامون کے عہد تک موجود تھا جسے مامون نے خود دیکھا۔
کچھ باتیں یا حقیقتیں بعیداز عقل ہوتی ہیں اور انسان کو انہیں تسلیم کرنا پڑتا ہے ۔
جسے امرؤالقیس کے آخری رجز کا ذکر ہے ۔ لیکن اس وقت اس کے پاس کون تھا
جس نے ان کو اپنے ذہن میں محفوظ کر لیا اس بارے میں تاریخ خاموش ہے اور یہ
روایات ایسے ہی چلی آرہی ہیں جن ایام میں وہ آوارہ پھر رہا تھا اس کی بیوی اور
اوالد کہاں تھی؟ اس کے مذہب کے حوالے سے بھی محض قیاس آرائیاں ہیں کوئی
ٹھوس دلیل سامنے نہیں آتی ۔ اس کے رکھ رکھاؤ سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ نظریاتی
بندھنوں سے آزاد البتہ معاشرتی قیود کا پابند نظر آتا ہے۔
شاعری:
امرؤالقیس کی شخصیت آوارہ مزاجی ،مضبوط قوت ارادی اور جہد مسلسل کامرکب
تھی۔ اس کی زندگی کا نصف اول رنگینیوں اور نصف ثانی سنگینیوں اور در بدر کی
ٹھوکروں میں گزرا ۔ یہی حاال ت اس کی شاعری کے موضوعات بنے۔ وہ فحش نگار
کی حیثیت سے پہنچانا جاتا ہے۔ اس حوالے سے زیر موضو ع کتا ب کا مصنف کہتا
ہے۔
’’ یہ نکتہ دلچسپی سے خالی نہیں کہ ایک طرف تو امرؤالقیس اپنی مردانگی اور
مردانہ کشش کے بیان میں الف و گزاف کی حدود کو پہنچتا ہے لیکن وہ اپنے حسن و
جمال کے باوجود عورتوں میں نا مقبول تھا۔ اور جن عورتوں کو اس سے سابقہ پڑا وہ
اس سے نا آسودہ رہیں ۔ اس نے کئی عورتوں سے شادی کی جن میں سے صرف ہند
نے اس کے ساتھ نباہ کیا۔ ممکن ہے کہ وہ ایک عورت کے لیے بہت کم اور بہت سی
عورتوں کے لیے بہت زیادہ ہو ااور شناسا قربتوں میں نامقبولیت کا شعور اسے انجانی
قربتوں کے لیے مہمیز کر تا رہتا ہو۔ شاید یہی سبب ہے کہ نسوانیت سے اس کا رابطہ
ایک صحت مند لطیف الحس مرد کی طرح سوزوگداز اور الفت و محبت کا رابطہ
ہونے کے بجائے عموما ً فاتحانہ اور جارحانہ رنگ لیے ہوئے ہے اوراکثر وبیشتر
جسم کی سطح سے بلند نہیں ہونے پاتا۔ اس کی تمثا لوں ،تشبیہوں اور استعاروں کی
لطافت جذبے پر نہیں جسمانیت پر استوارہے‘‘۔ (ص )۳۶۱ ،۳۶۹
نمونہ کالم:
کہ وہ سو نے کے لیے
کہنے لگی
امرؤالقیس کا معلقہ اکیاسی سے اکانوے اشعار پر مشتمل ایک المیہ ہے۔ جس کا آغاز
یوں ہو تا ہے۔
طرفہ عتاب شاہی کا نشانہ بنا اور قتل کر دیا گیا۔ اس کی دو وجوہات بیان کی جاتی ہیں
ایک یہ کہ طرفہ نے بادشاہ کی ہجو کہی تھی۔
دوسری یہ کہ
طرفہ کا زمانہ چھٹی صدی عیسوی کا اواخر سمجھا جاتا ہے۔ فنی اعتبار سے وہ نو
عمری کے باوجود امرؤالقیس سے لگا رکھتا ہے۔
معلقہ:
طرفہ کا معلقہ معلقات میں طویل ترین ہے ۔ ایک سو بیس اشعار پر مشتمل بحر طویل
میں ایک دالیہ قصیدہ ہے ۔ آغاز عربی قصیدے کی روایت کے مطابق محبوبہ خولہ
کی خیمہ گاہ کے بچے کھچے آثار کے ذکر سے ہوتا ہے۔
نمونہ کالم:
صبح دم
مصنف نے طرفہ کی شاعری اور معلقے کی کافی تفصیل بیان کی ہے طرفہ کے
اشعار زندگی کے گہرے اور براہ راست ترجمے پر مشتمل ہو نے کی وجہ سے
ضرب المثل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
آدمی کے لیے
اور میں خارش زدہ اونٹ کی طرح الگ کر دیا گیا۔ (ص
)۳۸۱
’’ طرفہ کو بھی نصرانی شعراء میں شمار کیا گیا ہے اس کے کالم سے دور جاہلیت
کی مروجہ جبریت کے سوا کسی مذہبی نظریے کا سراغ نہیں ملتا طرفہ نہ یہودی تھا
نہ عیسائی نہ زرتشتی وہ منکر خدا بھی نہیں بلکہ ایک یاایک سے زیادہ دیوتاؤں کا
ماننے واال تھا جنہیں پریشانی میں پکارنا ممکن ہو وہ آخرت یا جزائے اعمال کا قائل
نہ تھا ۔اس کا خدا فقط زندوں کا خدا ہے ۔ ُمردوں کو نہیں‘‘۔(ص )۴۰۱
آخر میں مصنف کہتا ہے کہ طرفہ کے صرف معلقے ہی کو پیش نظر رکھا جائے تو
بھی اس کے زمانے اور اس کی عمر کو سامنے رکھتے ہوئے اسے انتہائی غیر
معمولی اور حیران کن شاعر تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں۔
سلمی:
ٰ 3۔ زہیر بن ابی
سلمی کے
ٰ امرؤالقیس اور طرفہ کے معلقوں سے گزر تے ہوئے جب ہم زہیر بن ابی
معلقے پر پہنچتے ہیں تو اچانک فضا کی زبردست تبدیلی کا احساس ہوتا ہے۔ اب ہمیں
جوش کے بجائے ہوش ،نعرہ مستانہ کی جگہ پندو مو عظت ،شباب کے بجائے پیرا
نہ سالی اور سیمابیت کے بجائے ٹھہراؤ نظر آتا ہے۔
اوفی او ر ام
ٰ اس کے معلقے میں عورت کے حقیقی وجود کا سراغ اس کی بیویوں ام
کعب کی صورت ہی میں ملتا ہے ۔ مذکوراالول اس کی پہلی بیوی تھی اس سے کئی
بچے ہوئے مگر کوئی زندہ نہ رہا شائد اسی سبب سے زہیر نے کبشہ بنت عمار سے
کعب اور بجیر ؓ جو شرف صحابیت سے سرفراز ہوئے اسی کے
ؓ دوسری شاد ی کی ۔
بطن سے تھے۔
اوفی کا رویہ بہت تلخ ہو گیا اور شاید اسی کی ضد پر زہیر نے
ٰ سوکن کے آنے سے ام
اسے طالق دے د ی اور پھر اس پر بہت متاسف رہا۔ چنانچہ معلقے کے اشعار اسی
حوالے سے ہیں۔
چار شعر کے ایک اور قطعے میں دوسر ی بیوی ام کعب کے شکوے شکایت کا بھی
ذکر ملتا ہے۔ بیوی کو گلہ ہے کہ تو مجھ میں عیب نکالتا ہے اور مجھ سے گریز کر تا
ہے مگر میں تیر ے بچوں کی ماں ،تیری عزت کو سنبھالے بیٹھی ہوں ۔آخری شعر
زہیر کے جواب پر مشتمل ہے۔
بنو غطفان جن میں زہیر کی پرورش ہوئی قبل از اسالم کے دیگر عرب قبائل کی
طرح بت پرست تھے۔ مصنف نے اس کے مذہب کے حوالے سے طویل بحث کی ہے۔
جس کا بیان خارج از موضوع ہے تاہم اس نے زمانہ جاہلیت ہی میں شراب اور جوئے
کو خود پر حرام کر لیا تھا۔
زہیر کا شمار قدیم عربی کے عظیم ترین اساتذہ میں ہوتا ہے۔ زہیر کے اس مشہور
عمر نے فرمایا کہ اگر وہ میرے زمانے میں ہوتا تو میں اس
شعر کی بناء پر حضر ت ؓ
کے فہم کی خوبی اور حکم لگانے کی باریکی کے سبب ضرور اسے قاضی
مقررکرتا۔
قسم کھانا
معلقہ:
زہیر کا معلقہ انسٹھ سے چونسٹھ شعر تک ایک میمیہ قصیدہ ہے اس کا پس منظر دا
حس و غبراء کی جنگ ہے لیکن اس کا آغاز کال سیکی روایت کے مطابق تشبیب سے
اوفی کو یاد کرتا ہے۔
ٰ ہو تا ہے جس میں و ہ اپنی پہلی بیوی ام
اس کا ایک گھر رقمتین میں بھی ہے یوں جیسے کالئی کی رگوں میں گود نے کے
نشان جنہیں بار بار تازہ کیا گیا ہو۔ (ص )۴۶ ،۴۴۸
مصنف بتاتا ہے کہ شاعر طبعا ً برہنگی کی طرف میالن نہیں رکھتا تھا
اس لیے اس نے حسیناؤں کے چشمے میں نہانے کے منظر کو بھی رمزوایما میں بیان
کیا ہے
’’وہ کنار آب آئیں جہاں گہرائیاں نیلگوں تھیں تو انہیں نے ترک سفر کرتے ہوئے ہاتھ
سے یوں عصار کھ دیے جیسے مسافر گھر آپہنچاہو‘‘۔(ص )۴۶۱
وہ اس جنگ کے دو سرداروں ہرم اور حارث کو الئق تحسین سمجھتا ہے کہ انہوں
نے ایثار و تحمل سے کا م لیتے ہوئے صلح کو شیوہ بنایا۔ وہ انہیں اور دیگر لوگو ں
کو اس جنگ میں شریک ہونے کی تلقین کرتا ہے اور خوف خدا دالنے کا یہ انداز
جاہلی شاعری میں سب سے منفرد ہے۔
’’ سنو تم ہر گز ہرگز اللہ سے اپنے دلوں کا بھید چھپانے کی کوشش نہ کرو اس خیال
سے کہ وہ چھپا رہے گا جو کچھ اللہ سے چھپا یا جائے گا وہ اسے جا ن لے گا‘‘۔(ص
)۴۶۳
زہیر کے معلقے کے بعض اشعار ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں کہ اس
نے کتنی گہرائی سے انسانی فطرت کو لفظوں کی ماال میں پرویا ہے۔
’’ کتنے ہی خاموش لوگ ہیں جنہیں دیکھ کر تم بڑے متاثر ہوتے ہو (جبکہ ) ان کی
ہے۔ پنہاں میں گفتار کی ان حساب کا بیشی کمی
انسان کا نصف تو اُس کی زبان سے عبارت ہے اور نصف اس کا دل ہے ان کے
عالوہ بس گوشت اور خون کا ایک پتال باقی بچتا ہے‘‘۔(ص )۴۶۱
زہیر کے اشعار نے ہرم کو امر کر دیا۔ ایک روایت میں اس کی طرف اشارہ ملتا ہے۔
عمر نے زہیر کے بیٹے سے پوچھا تھا کہ وہ پوشا کیں کیا ہوئیں جو ہرم نے
حضرت ؓ
تمہارے باپ کو پہنائیں؟ کہا وقت نے انہیں بوسیدہ کر دیا فرمایا مگر وہ پوشا کیں جو
تمہارا باپ ہرم کو پہنا گیا ہے۔ وقت انہیں بوسیدہ نہیں کر سکا ۔
مصنف زہیر کے دیوان کے متعلق بتاتا ہے کہ دبستان بصرہ میں ابو عبیدہ اور
اصمعی کی روایت سے منتقل ہواہے ۔ اصمعی کی روایت مختصر اور محتاط تھی اور
زیادہ بھرپور طور پر آگے چلی۔
زہیر سے منسوب بہت سا کالم مشکوک تصور کیا جاتا ہے اور اس کی صحت کو
ہے۔ اختالف میں راویوں میں کرنے تسلیم
طہ حسین کی رائے میں
ڈاکٹر ٰ
اموی دور کے سربر آوردہ شاعر اخطل کے کالم پر زہیر کے اثرات بہت نمایاں ہیں۔
(ص )۴۱۱
لبید بن ربیعہ:
بنو عامر کا نام ور فرند ابو عقیل ،لیبد بن ربیعہ عامری زمانی اعتبار سے مخضرم
(جاہلیت اور اسالم دونوں زمانوں کا)ہے اس کی شاعری کا بیشتر حصہ دور جاہلیت
کی یادگار ہے۔ اس لیے اس کا شمار جاہلی شعراء میں ہوتا ہے اس کے قبول اسال م
کے حوالے سے مصنف کہتا ہے۔
حضور نے
ؐ ’’ َٖغزوہ حنین کے بعد سنہ ۱ھ میں جب
جعرانہ کے مقام پر تالیف قلب کی غرض سے بیشتر
مال غنیمت ان لوگوں میں تقسیم فرمایا جنہوں نے تازہ
تازہ بیعت کی تھی تو انہی کے ضمن میں بنو عامر کی
شاخ بنو کالب سے لبیدؓ کا نام بھی ملتا ہے۔ اس اعتبار
سے سنہ ۱ھ کو لبید کے قبول اسالم کا سال سمجھنا
چاہیے۔ ‘‘(ص )۴۱۱
لبید کی زندگی روایتی صحرانشین کی زندگی تھی وہ نہایت خوب رو ،معزز ،سخی
اور حلیم الطبع تھا۔ جاہلیت میں اس کی شاعری اور شاہ سواری مشہور تھی اس کا
شمار عرب کے معمر ین میں ہوتا ہے۔ اس کی عمر ایک سو دس سے ایک سو ساٹھ
برس تک قیاس کی گئی ہے۔ تقریبا ً نوے سا ل دور جاہلیت میں بسر ہوئے ۔
باپ کی وفات کے وقت لبید ابھی بچہ تھا۔ ماں کا تعلق بنو عبس سے تھا ددھیال اور
ننھیال میں چپقلش چلی آتی تھی جس میں لبید نے ددھیال کا ساتھ دیا اور اسی سلسلے
میں اس کی شاعرانہ صالحتیں سامنے آئیں دونو ں قبائل میں حاالت اس نہج پر پہنچ
گئے کہ بادشاہ نعمان بن منذر کے دربار میں آمنے سامنے ہوئے تو دیکھا بادشاہ بنو
عبس کے ربیع بن زیاد کے ساتھ کھانا کھانے میں مصروف تھا بنو عامر نے دربار
میں جاکر اپنی معروضات کا آغاز کیا ربیع کی مداخلت پر لبید جو ابھی چھوٹا تھا یہ
رجز پڑھی۔
قبول اسالم کے بعد لبید کی طبیعت یکسر بدل گئی ۔ فخر یہ مضامین طبیعت پر گراں
گزرنے لگے کبھی تعلی کا کوئی کلمہ زبان پر آجاتا تو باربار استغفار کرتا۔
لبید کا معلقہ بحر کامل میں اٹھا سی یا نواسی اشعار پر مشتمل ہے ایک میمیہ قصیدہ
ہے۔ آخری معلقہ یہ سے اعتبار زمانی ۔ ہے
اس کا متن باقی تمام معلقوں سے زیادہ قابل اعتماد تصور کیا جاتا ہے۔
منی کے مقا م پر ( وہ پرانے) دیار مٹ گئے جہاں کبھی عارضی پڑاؤ رہا اور کبھی
ٰ
طویل اقامت اور غول سے لے کر رجام تک کا سارا عالقہ اجاڑ ہو گیا۔
لبید کے ہاں رقت سے زیادہ حقیقت پسندی کارجحان ملتا ہے ۔ چند اشعار کے بعد
محبوبہ نوار کی یاد میں بھی ہوش مندی کا غلبہ ملتا ہے۔
’’جس کسی کے وصل میں بگاڑ کی بو آنے لگے اس سے اپنی حاجت منقطع کرے
بہترین دوستی جوڑنے واال وہی ہے جو (وقت پڑنے پر) اسے توڑنے میں بھی سبک
دست ہو اور جو کوئی تیرے ساتھ خوش اسلوبی سے پیش آئے اس پر تو بھی بڑھ چڑھ
کر عنایات کر مگر دوستی کا توازن بگڑنے کی صورت میں ترک تعلق کی گنجائش
باقی رہنی چاہیے‘‘۔ (ص )۴۸۴،۴۸۶
’’لبید کے ٰقوی مضمحل ہو چکے تھے سماعت میں فرق آگیا تھا وقت آپہنچنے پر
احساس ہوا تو بیٹے سے کہا ۔ بیٹا تیرا باپ ابھی مر ا تو نہیں مگر فنا ہو چکا ہے سو
جب اس کی روح قبض ہو جائے تو آنکھیں بند کر دینا اور منہ قبلے کی طرف پھیر کر
چادر سے ڈھانک دینا ۔ خیال رہے کہ کوئی بین کرنے والی اس پر بین نہ کرنے
پائے‘‘۔ (ص )۴۱۱
لبید کے دیوان سے متعلق مصنف نے مختلف آراکا حوالہ دیا ہے اور اس کے معلقے
ہے۔ کی پیش رائے کی ناقدین مختلف متعلق سے
آخر میں لبید کے چند حقیقت پسندی کے عکاس اشعار بطور نمونہ۔
’’ انسان سالمت رہنے کی دعائیں کرتا ہے حاالنکہ درازی عمر ،بسا اوقات اس کے
لیے باعث ضرر ہوتی ہے۔ اس کی خوش دلی رخصت ہوجاتی ہے اور شیر ینی حیات
کی جگہ تلخی لے لیتی ہے‘‘۔ (ص )۶۱۱
عمرو بن کلثوم:
بنو تغلب کے نمائندہ ترجمان عمر و بن کلثوم کی حقیقی شخصیت ماضی کے
دھندلکوں میں فنا ہو چکی ہے۔ اب اس کے حاالت زندگی کے نام پر چند افسانوی سی
روایات سے زیادہ کچھ نہیں ملتا۔ عمر وبن کلثوم مہلہل کا نواسا تھا ۔ مصنف نے اس
کے حوالے سے چند روایات کا ذکر کیا ہے۔
جب مہلہل کے ہاں بیٹی کی والدت ہوئی تو اس نے دور جاہلیت کی حمیت کے مطابق
بیوی کو حکم دیا کہ اسے مار ڈالے مامتا نے گوارنہ کیا اور بچی کو پوشیدہ طور پر
ایک مالزمہ کی تحویل میں دے دیا گیا ۔ ادھر مہلہل نے خواب میں کسی کو پکار پکار
کر یہ کہتے ہوئے سنا
’’ آنکھ کھلی تو بیوی سے پوچھا میری بیٹی کہاں ہے اس نے کہا میں نے اسے مار
ڈاال کہا ہر گز نہیں ۔ سچ سچ بتاؤ ۔ بیوی نے حقیقت بیان کی تو مہلہل نے کہا خوب
لیلی تھا‘‘۔ (ص)۶۱۶ ،۶۱۴
اچھی غذادے کر اس کی پرورش کرو۔ اس لڑکی کا نام ٰ
لیلی کی شادی مشہور شاہ سوار کلثوم بن مالک سے ہوئی ۔ اور وہ عمرو کی ماں بنی ۔
ٰ
روایت ہے کہ جب وہ امید سے ہوئی تو خواب میں کوئی شخص یوں کہتا ہوا دکھائی
دیا۔
اس سے ملتی جلتی ایک اور روایت بھی مصنف نے بیان کی ہے۔ جس کا بیان باعث
تکرار ہوگا۔عمرو بن کلثوم کی بہادری ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر گئی۔
افتک من عمر و بن کلثوم (عمروبن کلثوم سے بھی بڑھ کر قاتالنہ حملہ کرنے وال)
عمرو کی یہ نسبت شاہ حیرہ عمرو بن ہند کو قتل کر ڈالنے کے باعث قائم ہوئی ۔
عمرو بن ہند نے اپنے ہم نشینوں سے کہا کیا تم عربوں میں کسی ایسے شخص کو
جانتے ہو جس کی ماں میری ماں کی خدمت کرنے میں عار محسوس کرے انہوں نے
کہا ہاں! عمرو بن کلثوم کی ماں ۔ کہا کیوں؟ انہوں نے کہا اس کا باپ مہلہل بن ربیعہ ،
شوہر کلثوم اپنے قبیلے کا سردار ہے۔ عمر وبن ہند نے عمرو بن کلثوم کو اپنی والدہ
کے ہمراہ اپنے ہاں آنے کی دعوت دی ۔ عمرو بن کلثوم بنو تغلب کی ایک جماعت کے
لیلی کچھ خواتین کی معیت میں آئی۔ عمروبن
ہمراہ حیرہ کی طرف آیا اور اسکی ماں ٰ
لیلی سے کہا
ہند کی ماں نے ہدایت کے مطابق کھانے کے بعد مالزموں کو ہٹا دیا اور ٰ
لیلی نے کہا جسے ضرورت ہے خود اٹھالے ہند نے
کہ مجھے وہ تھالی تو اٹھا دینا ۔ ٰ
لیلی نے چال کر کہا ہائے توہین ! مدد اے
پھر وہی بات دہرائی اور اصرار کیا۔ اس پر ٰ
بنو تغلب ۔ عمرو بن کلثوم نے آواز سنی تو اس نے عمرو بن ہند کی اپنی ہی تلوار سے
اس پروار کیا اور بنو تغلب کو صدا دی سو انہوں نے شامیانے کا سب سازو سامان
اعلی نسل کے اونٹ ہانک کر الجزیرہ کی طرف چل کھڑے
ٰ لوٹ لیا اور بادشاہ کے
ہوئے بنو تغلب نے عمر و بن کلثوم کی اس خودداری کو وجہ فخر تصور کیا۔
اس قصیدے کا متحرک بالعموم عمر وبن ہند کے قتل کا واقعہ تصور کیا جاتا ہے۔
عمرو بن کلثوم نے یہ فخر یہ قصیدہ کہا جسے سوق عکاظ میں جا کر سنایا اور مکہ
جا کر حج کے موقع پر بھی پیش کیا ۔ اس پس منظرکی توثیق معلقے کے ان
اشعارسے ہوتی ہے۔
کس بنا پر یہ خواہش کی جاتی ہے
آخر کس لیے
ٹھہر تو سہی
مصنف متن کا جائزہ لیتے ہوئے کہتا ہے کہ اس معلقے کا آغاز قدیم عربی قصیدے
کی عام روایت سے اجڑے دیار کے ذکر سے نہیں ہو تا اور ہمیں صبوحی پال اور
اندرین کی شرابوں کو (کل کے لیے)بچا کر نہ رکھ۔ (ص )۶۳۴
معلقے میں وہ قبیلے کی بہادر اور غیرت مند خواتین کے کردار اور احساسات کا
تذکرہ کرتا ہے۔ اس دور کی عورت اہم ،باشعور اور باوقار ہستی کے طور پر سامنے
آتی ہے۔
’’ہمارے پیچھے پیچھے (میدان جنگ میں ) درخشاں
ُرو ،خوبصورت عورتیں ہوتی ہیں جن کے بارے میں ہم
یہ گوارا نہیں کرسکتے کہ وہ ( اسیر بنا کر ) تقسیم کر
لی جائیں یا اہانت کا سامنا کریں ۔ وہ ہمارے گھوڑ وں
کو چارہ ڈالتی جاتی ہیں ۔ اور کہتی جاتی ہیں کہ اگر تم
نے ہمار ا دفاع نہ کیا تو پھر تم ہمارے شوہر نہیں
ہو۔‘‘(ص )۶۴۴
یہ معلقہ عربوں کی اجتماعی نفسیات کا بڑا زور دار اظہار تھا۔ تاہم خالص فنی سطح
پر اس میں فلسفیانہ گہرائی نہیں ہے۔ شاعر نے اپنی انفرادیت کو قبیلے کی اجتماعیت
میں ضم کر دیا ہے۔
ان اشعار سے عمر وبن کلثوم کی جو شخصیت سامنے آتی ہے جو ایک ایسے بہادر
انسان کی ہے جو انتہائی خودار ہے۔ بال وجہ دوسروں کے معامال ت میں دخل اندازی
نہیں کرتا لیکن عمل کا جواب ردعمل کے طور پر بھر پور انداز میں دیتا ہے۔
’’معلقے کی سہولت و سالست کے سبب اسے مشکوک سمجھتے ہیں کہ الفاظ اتنے
نرم و سبک ہیں کہ زمانہ حال کا معمولی طور پر عربی جاننے واال بھی انہیں آسانی
سے سمجھ سک تا ہے۔ اور یہ زبان عرب میں ظہور اسالم سے کوئی نصف صدی قبل
تک بھی نہیں بولی جاتی تھی بلکہ بنو تغلب ہی کا شاعر اخطل جو ایک صدی بعد ہوا
وہ بھی یہ زبان استعمال نہیں کرتا‘‘۔ (ص)۶۶۰
مصنف کہتا ہے کہ زبان کے معاملے میں شعراء کی روش انفرادی ہوتی ہے ہر دور
ہیں۔ جاتے پائے گو آسان اور گو مشکل میں
عمروبن کلثوم کے دیوان کے حوالے سے مصنف مختلف روایات کا ذکرکرتا ہے
قدماء میں سے کسی نے اس کا دیوان بہم کرنے کو کوشش نہیں کی البتہ پروفیسر
کرنکو نے استنبول کی جامع سلطان فاتح میں ایک مخطوطہ دریافت کیا جس میں عمر
و بن کلثوم اور ا س کے حریف حارث بن حلزہ کے کالم کو یکجا کیا گیا تھا اور جا بجا
کچھ تشریحات بھی درج تھیں ۔
عمرو بن کلثوم کا دیوان الگ سے بیروت سے ۱۰۰۴ء میں شائع ہوا۔ اس میں معلقہ
بھی شامل ہے۔ اس کی بنیاد پروفیسر کرنکو کے ۱۸۱۱ء کے تحقیق شدہ متن پر ہے۔
عنترہ بن شداو:
عنترہ کا تعلق قبیلہ بنو عبس سے تھا اس کانام شجاعت و جواں مروی میں ضرب
المثل ٹھہرا اور آگے چل کر اس کی شخصیت عربوں کی مقبول عوامی داستان سیرۃ
عنترہ کا مرکزی کردار بنی۔
وہ ایک حبشی کنیز زیبیہ کے بطن سے تھا جو ایک جنگ میں اس کے باپ کے ہاتھ
آئی تھی اور پہلے سے بچوں والی تھی۔ عنترہ کو سیاہ رنگت ماں سے ورثے میں ملی
تھی ۔ عنترہ قبیلے میں غالمانہ حیثیت سے زندگی کا آغاز کیا۔
عنترہ کا ظاہر جتنا میال نظر آتا تھا باطن اتنا ہی اجال تھا ۔ طبیعت میں وقار اور متانت
،دل کا جری ،تلوار کا دھنی ،اہل قبیلہ اس سے متاثر ضرور تھے۔ مگر برابری کا
معاملہ کرنے کو تیار نہ تھے۔
کسی نے قبیلے بنو عبس پر حملہ کر دیا اور ان کے اونٹ ہانک لیے۔ بنو عبس نے
پیچھا کیا اور معرکہ گرم ہوگیا۔ عنترہ موجودتھا باپ نے پکار کر کہا عنترہ حملہ کر۔
عنترہ نے جواب دیا ۔ غالم کو حملے سے کیا کام؟ وہ تو دودھ دوہنا اور تھنوں کو
باندھنا جانتا ہے۔ باپ نے کہا حملہ کر آج سے تو آزاد ہے ۔ یہ سن کر عنترہ رجز
پڑھتے ہوئے حملہ آور ہو ا جان توڑ کر لڑا اور دشمن سے لوٹا ہو ا مال واپس
دھروالیا ۔ اس روز سے باپ نے اسے اپنابیٹا کہا اور مصنف بتاتا ہے کہ قبل از اسالم
کے بیشتر مشاہیر کی طرح عنترہ کے زمانہ حیات کی بھی ٹھیک ٹھیک تعین ممکن
نہیں ۔ مختلف قرائن سے مختلف قیاسات قائم کیے گیے محتاط اندازے کے مطابق
عنترہ کی مدت عمر نوے برس کے لگ بھگ تصور کی جا سکتی ہے۔حرب داحس و
الغبر میں عنترہ کی شمولیت کی داخلی شہادت اس کے معلقے میں ملتی ہے۔
عنترہ ک ی زندگی کا ایک پہلو جس میں داستان اور حقیقت گڈ مڈ ہو گئے ہیں وہ اس کا
عشق ہے اس کے کالم میں چار نسوانی ناموں کا تذکرہ ملتا ہے۔ ایک سمیہ ،دوسرا
نام رقاش اور قطام اور اہم ترین عبلہ کا نام ہے ۔ جو اس کے دیوان میں کثرت سے
ہے۔ ملتا
عبلہ اس کے چچا کی بیٹی تھی جس سے اسے محبت تھی اور وہ اس سے شادی کا
خواہش مند تھا مگر کنیزک زادگی راہ کا پتھر بنی رہی۔ باپ کا نسب ملنے کے باوجود
اس کے ساتھ امتیازی سلوک ختم نہ ہوا۔ جنگ کے موقع پر تو اسے ایک آزاد فرد کی
حیثیت حاصل ہو جاتی لیکن بعد میں وہ پھر سے ابن السوداء (کالی عورت کا بیٹا) ہو
جاتا۔
غترہ کے مذہب کے بارے میں بعض محققین کی رائے میں دیگر مضری قبائل کی
طرح بنو عبس بھی بت پرست تھے ۔ چنانچہ عنترہ کامذہب بھی یہی تصور کیا جاسکتا
ہے۔ عنترہ گو کسی باقاعدہ دین سے وابستہ نہیں مگر اس کے ہاں عفت و حیا داری
کے مضامین ملتے ہیں
فرانسیسی مشرق لولیس شیخو نے دیگر جاہلی شعراء کی طرح عنترہ کو نصرانی
قرار دیا ہے۔ اور ایک دلیل یہ دی ہے کہ عنترہ کی ماں حبشی تھی اور اہل حبشہ کی
نصرانیت معروف ہے۔
عنترہ کی وفات کے متعلق مصنف مختلف روایات بیان کر تا ہے ۔ پہلی روایت کے
مطابق اس نے بڑھاپے میں قبیلہ طے کی شاخ بنی بنہان پر حملہ کیا اور ان کے کچھ
جانور ہانک کر لے چال ۔ اپنی دھن میں رجز پڑھتا ہوا جا رہا تھا کہ بنی بنہان کے
ایک جوان ورز بن جابر نے تاک کر تیر مارا اور کہا یہ لو! اور یاد رہے کہ میں ابن
سلمی ہوں۔ تیر عنترہ کی پشت کو چیر گیا ۔ تکلیف سے نڈھال وہ بمشکل تمام اپنے
ٰ
قبیلے میں پہنچا اور یہ شعر پڑھے۔
یاد رہے کہ میراخون
دستر س سے دور
’’ دوسری روایت کے مطابق عنترہ سال خوردہ ہو گیا تھا۔ ہاتھ تنگ تھا اور لوٹ مار
میں حصہ لینے کے الئق نہ رہا تھا۔ قبیلہ غطفان کے ایک شخص کے ذمے اس کا
ایک اونٹ نکلتا تھا اس کا تقاضا کرنے کو چال ،شرج اور ناظرہ کے درمیان تھا کہ
لو لگ جانے سے اس کی موت واقع ہوگئی‘‘۔(ص )۶۹۳ ،۶۹۱
معلقہ:
عنترہ کا معلقہ بحر کامل میں ایک میمیہ قصیدہ ہے اشعار کی تعداد پچھتر سے ایک
سو پانچ تک پہنچتی ہے۔
مصنف اس معلقے سے متعلق بحث کرتا ہے کہ کیا واقعی یہ اس کی پہلی باقاعدہ نظم
ہوتی۔ نہیں ثابت بات یہ سے حاالت لیکن تھی
معلقے کا آغاز ایک بجائے دو مطلعوں سے ہو تا ہے۔
کیا شعر اء نے پیوند کاری کی کوئی گنجائش چھوڑی ہے؟ (جو تیری کاوش شعر کا
جواز ہو سکے) یا (پرانے مقامات سے گزرتے ہوئے) شک و تردد کے بعد (باآلخر)
تو نے دیار محبوب کو پہچان لیا ہے ( اور فرط جذبات سے شعر گوئی پر مجبور
ہے( ہوگیا
مقام جو اء پر واقع تیری صبحیں خوشگوار ہوں
مصنف بتاتا ہے کہ روایان شعر مطلع اول کو عنترہ کا شعر تسلیم نہیں کرتے کیونکہ
ابتدائے قصیدہ میں یکے بعد دیگرے دو مطلع النا جاہلی قصائد کی عمومی روش سے
بعید ہے۔ وہ مطلع ثانی کو ہی اصل مطلع قرار دیتے ہیں۔
معلقے میں چودہ اشعار تشبیب کے ہیں۔ ان میں عبلہ کے فراق ووصال کا تذکرہ بڑی
حد تک روایتی ہے۔ اور شاعر کا خود پر احساس تفاخر بھی سامنے آیاہے۔
نمونہ کالم:
اے محبوبہ!
یعنی یہ کہ
معلقے کے آخری اشعار میں عنترہ اپنے گھوڑے اوہم کی صفات کا ذکر انسانوں کی
طرح کر تا ہے۔
عنترہ پر تبصرہ کرتے ہوئے مصنف کہتا ہے کہ تمام تر شاعر انہ کمال کے باوجود
اس کی شخصیت کا حوالہ شاعری سے بڑھ کر شاہ سواری اور جنگ آزمائی رہا۔
عنترہ کی شاعری میں جنگی واقعات سے قطع نظر لب و رخسار کا ذکر بھی ملتا
میں ے د پر کے حیاداری اور وقار ہے۔مگر
(فرار کے لیے)
جس نے
بنو عبس کا یہ مرد آہن نہ صرف شاعری میں اپنانقش ثبت کر گیا بلکہ اپنی جراّت و
شجاعت کی وجہ سے حقائق کی دنیا سے نکل کر داستانی کردار بن گیا ۔
عربوں کے لوک ادب میں الف لیلہ کے عالوہ متعدد داستانیں معروف ہیں۔ انہی میں
سے ایک سیرۃ عنترہے ۔ عنترہ کی ذات کے حوالے سے یہ خیالیے کب اور کس کے
ہاتھوں کہانی میں ڈھلے ۔ اس کے بارے یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
معلقات کے شعراء میں حارث کا ذکر اکثر چھٹے نمبر کیا جاتا ہے۔اور عنترہ کا
ساتویں اور آخری نمبر پر ہوتا ہے۔ لیکن مصنف نے یہ ترتیب کس بنیاد پر دی یقین
سے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔
عمرو بن کلثوم کے حریف ،طرفہ کے ہم نسب قبیلہ بنو بکر کی شاخ بنو یشکر کے
شاعر ابو ظلیم ،الحارث بن حلزہ کی شہرت بھی ایک ہی قصیدے پر مبنی ہے۔
حارث کے سوانح بھی چند الجھی ہوئی روایات سے عبارت ہیں جو معلقے کے پس
منظر کے طور پر بیان ہوتی چلی آئی ہیں۔ جو واقعہ حارث کے معلقے کا محرک ثابت
ہوا اس کا خالصہ مختصرا ً یوں ہے۔
’’ ایک موقع پر بنو بکر کی سرد مہری کے باعث بنو تغلب کے ستر آدمی پیاسے مر
گئے اور یہ مقدمہ بادشاہ حیرہ عمرو بن ہند کے دربار میں پیش ہوا۔ بنو تغلب کوخبر
ہوئی تو وہ غضب ناک ہو کر عمرو بن ہند کے پاس آئے اور بنو بکر کے خالف
استغاثہ دائر کیا۔ بنو بکر نے الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے تغلبی سواروں
کو پانی بھی پالیا تھا اور رخصت ہوتے وقت راستہ بھی بتا دیا تھا ۔ اب اگر وہ بھٹک
گئے تو ہمارا کیا قصور ہے؟ بنو تغلب کا نمائندہ عمر وبن کلثوم تھا جبکہ بنو بکر نے
نعمان بن ہرم کو نمائندہ بنایا۔ جب دربار میں آمنا سامنا ہوا تو عمرو دبن کلثوم نے کہا ۔
اوبہر ے! اپنی وکالت کے لیے ثعلبہ کی اوالد تجھے لے تو آئی ہے مگر وہ خود تجھ
پر بھی فخر جتاتی ہے۔نعمان نے کہا۔ زیر آسمان جو کوئی بھی ہے وہ اس پر فخر جتا
سکتے ہیں اور کسی کو دم مارنے کی مجال بھی نہیں ہوتی ۔
عمر وبن کلثوم نے کہا :بخدا اگر میں تیرے ایک تھپڑ رسید کردوں تو وہ تجھے اس کا
بدلہ نہیں دلوا سکیں گے۔
نعمان جواب میں فحش کالمی پر اتر آیا جس سے بادشاہ ناراض ہوا نعمان نے پوری
بے لحاظی سے بادشاہ کو ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ مارے غصے کے بادشاہ نعمان
کو جان سے مار ڈالنے کے درپے ہو گیا مگر اس نازک موقع پر حلزہ نے اٹھ کر اپنا
معلقہ سنایا اور حاالت رخ پلٹ کر رکھ دیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت اس کے ہاتھ میں
کمان یا چھوٹا نیزہ تھا اس پر زور ڈال پر جوش کے عالم میں فی البدیہہ شعر پر شعر
کہتا چال جارہا تھا اور ایسی غضب کی کیفیت اس پر طاری تھی کہ ہتھیلی چھد کر رہ
گئی مگر اسے احساس تک نہ ہوا۔
شاعر کی شخصیت کے متعلق مصنف نے چند دلچسپ روایات کا ذکر بھی کیا ہے۔
حارث کے حاالت زندگی پر دے میں ہیں ۔ اس حوالے سے کوئی تفصیل نہیں ملتی ۔
اصمعی سے منسوب روایت میں کہا گیا کہ جب حارث نے اپنا معلقہ پیش کیا تو اس
کی عمر ایک سو پینتس بر س کی تھی‘‘۔ (ص )۱۰۱
معلقہ:
حارث کا معلقہ جس نے مقدمے کا پانسہ ہی پلٹ کر رکھ دیا اور بادشاہ کو بنو بکر
کے حق میں فیصلہ سنا نے پر مجبور کر دیا۔ یہ بیاسی سے پچاسی اشعار پر مشتمل
ایک ہمزیہ قصیدہ ہے۔ بیشتر قدیم مآخذ میں اسے ایک فی البدیہہ نظم بتایا گیاہے۔ تاہم
اس کے حوالے سے اختالف پایا جاتا ہے۔
اسماء نے (آکر )
نمونہ کالم:
حارث کا دیوان نہایت مختصر ہے اس میں یہ معلقہ شامل نہیں ہے ۔ دیگر اشعار سیاق
و سباق سے کٹے ہوئے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ حارث کا کچھ کالم ضائع ہو گیا
ہے۔
صرف اس ایک معلقے کے حوالے سے حارث کا شمار بہترین شعراء میں ہوتا ہے۔
مصنف نے اس کتا ب میں شاعری کے تناظر میں سبع معلقات کا تفصیلی جائز ہ لیا
ہے زمانہ جاہلیت کے دیگر شعراء کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ موجودہ دور کے ادب سے
متعلق بھی کوئی اشارہ نہیں ملتا اسلوب سے اندازہ ہو تا ہے کہ کتاب سے بہت استفادہ
وہی قارئین کر سکتے ہیں جو عربی گرائمر سے واقف ہوں گو کہ مصنف نے حواشی
میں تفصیل دی ہے اور اپنے ماخذ کا حوالہ بھی دیا ہے۔
زیر تبصرہ کتا ب سویرا میں باالقساط ۱۰۰۳ء سے ۱۰۰۱ء تک شائع ہوئی ۔
مذکورہ باال تالیف زیرموضوع شخصیت کی زندگی ،کماالت اور خدمات کے اعتراف
میں لکھے ج انے والے مقاالت کا مجموعہ ہے۔ اس کے لیے مختلف عنوانات ترتیب
دیے گئے ہیں عنوانات کی ترتیب اس طرح سے ہے۔
اس میں ایک یاد گار تحریر کے عنوان سے خور شید رضوی کے نام ان کے استاد
ہیں۔ شامل تحاریر کی الحق ضیاء محمد صوفی ڈاکٹر
دوسرا عنوان جھوٹی تہذیب اور سچا آدمی ہیں زاہد منیر عامر نے زیر موضوع
شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو اس کی تحریروں کے آئینے میں نہایت عقیدت مندی
سے پیش کیا ہے۔
2۔ سوانحی خطوط:
اس میں خود نوشت کے عنوا ن سے خورشید رضوی کی اپنی تحریر شامل ہے۔
’’کارنامہ‘‘ کے تحت مؤلف نے خوشید رضوی کی تعلیمی ،تدریسی اور ادبی
تحریروں کاتعارف پیش کیا ہے کہ کب اور کہاں شائع ہوئیں جامعاتی تحقیق کے تحت
دیگر یونیورسٹیز میں خورشید رضوی پر کیے جانے والے تحقیقی و تنقیدی کا م کا
مختصر تعارف دیا ہے۔
3۔ شخص:
اس عنوان کے تحت بطور نقاد ،محقق ،شخصیت نگار اور مترجم خورشید رضوی پر
احمد ندیم قاسمی ،اسلم انصاری اور جمیل یوسف کے مقاالت شامل ہیں۔
4۔ شاعر:
بطور شاعر زیر موضوع شخصیت کے شعری اسلوب اور موضوعات پر مختلف
ادیبوں اور شاعروں کے چودہ مقاالت ہیں ۔
5۔ محقق:
بطور محقق دو تحقیقی کتب قالئد الجمان اور عربی ادب قبل از اسالم پر مختلف
شخصیات کے چھ مقاالت شامل ہیں ۔
7۔ مترجم:
مصنف نے ترک سکالر ڈاکٹر فواد سیز گین کے تیرہ خطبات کا ترجمہ ’’تاریخ علوم
میں تہذیب اسالمی کا مقام‘‘ اور دیگر چند مضامین کا ترجمہ کیا ہے۔ ان تراجم کے
حوالے سے مصنف کی شخصیت پر بطور مترجم دو مقالے شامل ہیں۔
8۔ خطبات:
اس میں گورنمنٹ کالج سرگودھا ،حلقہ ارباب ذوق الہور ،حلقہ ارباب ذوق اسالم میں
مصنف کے دیے گئے تین خطبات ہیں۔
9۔ مصاحبے:
اس میں مختلف جرائد کے تحت لیے گئے مصنف کے سات اردو مصاحبے اور ایک
عربی مصاحبہ شامل ہے ان میں مصنف کی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا
ہے۔
10۔ مکاتیب:
اس میں تین شخصیات جمیل یوسف ،چودھری عبدالمجید اور زاہد منیر کے نام
مصنف کے خطوط شامل ہیں۔
ادب کی ہر صنف کو انسانوی رنگ میں ڈھاال جا سکتا ہے۔ انسانی شخصیت ایک
گہرے سمندر کی مانند ہے جس کی گہرائیوں کا کھوج لگانا بہت مشکل ہے لیکن
خطوط وہ واحد صنف ہے جس کے بین السطور شخصیت کا عکس واضح طور پر
دکھائی دیتا ہے اور شخصیت کے خفیہ گوشے بھی کسی نہ کسی طور سامنے آکے
رہتے ہیں اسی طرح ان خطوط کے پس منظر میں بھی شخصیت نظر آتی ہے۔
اس عنوان کے تحت مصنف کی اردو ،فارسی ،عربی ،پنجابی اور انگریزی شاعری
کا نمونہ کالم شامل ہے۔
12۔ تحریروں کے عکس:
اس میں مختلف اہل فکر شخصیات کی خورشید رضوی کے نام تحاریر کے عکس اور
خورشید کے اپنے مکتوب بنام یوسف جمیل کا عکس شامل ہے۔
کتاب میں شامل اس حصے میں خورشید رضوی کی شاعری اور نثر کے حوالے سے
ہے۔ شامل انٹرویو ایک اور مقاالت پانچ
مختصر یہ کہ یہ کتا ب خورشید رضوی کے فن و شخصیت کا تنقیدی جائزہ نہیں بلکہ
تحسینی انداز میں ان کے کماالت اور خدمات مقاالت کی صورت میں نذرانہ عقیدت
کے طور پر پیش کی گئی ہیں۔
زیر نظر ۳۴۱صفحات پر مشتمل ایک کتاب کی اشاعت اول ۱۰۰۱ء اور
اشاعت دوم ۱۰۱۳ء میں شیخ زاہد اسالمک سینٹر ،جامعہ پنجاب الہور سے ہوئی۔
قیمت ۱۸۰روپے ہے۔ مولف ڈاکٹر خورشید رضوی
حرف اول (بار اول) کے عنوان سے ڈاکٹر جمیلہ شوکت نے کتاب کا مختصر
تعارف کروایا ہے۔ حرف اول (بار اول) کے عنوان سے ڈاکٹر محمد اعجاز نے اس
کتاب کی اہمیت مختصر ا ً بیان کی ہے۔
مصنف نے عرصہ قبل طلبہ کے لیے یہ اسباق ترتیب دیے تھے۔ اس کی اہمیت
کے پیش نظر اسے کتابی صورت میں محفوظ کر لیا گیا اس لیے اس کااسلوب سلیس
اور عام فہم ہے۔ عربی کے طلبہ سے قطع نظر عام قاری بآسانی اس سے استفادہ کر
سکتا ہے۔ ہر سبق کے آخر میں مشق دی گئی ہے۔ جس میں اس سبق کے حوالے سے
سواالت پوچھے گئے ہیں ۔
مذکورہ باال شعراء کا تفصیلی جائزہ عربی ادب قبل از اسالم کے تحت لیا جا چکا ہے۔
اال سالمیون کے تحت ان شعراء کا تعارف اور نمونہ کالم ہے۔ جو عہد بنی
امیہ میں نامور تھے۔ ان میں درج ذیل شعراء شامل تھے۔
جمیل بن معمر:
اس کا تعلق قبیلہ عذرہ سے تھا۔ اس قبیلے کے لوگ سچی محبت اور پاکیزگی
جذبات میں ضرب المثل تھے۔ جمیل کو اپنے قبیلے کی لڑکی بثینہ سے ایسی ہی محبت
تھی ۔ وہ لڑکپن ہی سے اس کے عشق میں گرفتار ہو گیا ور جمیل بثینہ کے نام سے
مشہور ہوا بثینہ کو بھی جمیل سے سچا عشق تھا۔ بثینہ کے لیے اس کا رشتہ قبول نہ
کیا گیا۔ ان کی مالقات چوری چھپے ہی ہوتی تھی۔ جب حاالت نے شدت اختیار کی تو
وہ مصر چال گیا اور وہیں انتقال کیا۔
نمونہ کالم:
میں اس کی محبت م یں اس وقت گرفتار ہوا جب میں ابھی بچہ ہی تھا سو اس
کی محبت آج تک مسلسل بڑھتی اور پھلتی پھولتی رہی۔اور میں نے اس کی عطا کے
انتظار میں اپنی ساری عمر فنا کر ڈالی سوا س نے زمانے کو جو نیا تھا اسی انتظار
میں پرانا اور بوسیدہ کر ڈاال۔ (ص)۱۰۸ -۱۰۱
قریش کی شاخ بنو مخزوم سے تعلق تھا۔ اموی دور کے شعراء الغزل میں اسے
عمر کا انتقال ہوا اسی رات اس نے مدینہ کے
منفرد مقام حاصل تھا جس رات حضرت ؓ
معزز اور خوشحال گھرانے میں آنکھ کھولی۔
اس کی شاعری کا مرکزی موضوع ہمیشہ حسن نسوانی رہا جس کے بیان میں
اسے خاص صالحیت حاصل تھی۔ عورتوں کے مخصوص احساسات ،ان کے باہمی
میل جول اور چھیڑ چھاڑ اور انکے محاورہ ،کالم کو جس بے تکلفی اور بے حجابی
سے وہ شعر کا جامہ پہنادیتا تھا۔ اس سے پہلے کوئی نہ پہنا سکا تھا عمالً وہ بدقماش
نہ تھا مگر اس کی ظاہری روش شریف زادیوں کے لیے بڑی مصیبت بن گئی۔ آخر
کار حضرت عمر بن عبد العزیز نے اپنے دور خالفت میں اس پر گرفت کی اور جال
وطن کر کے جزیرہ دھلک بھجوا دیا ۔ جب اس نے اپنی کج روی سے باز آنے کی قسم
کھائی تو اسے واپسی کی اجازت مل گئی تھی۔ (ص)۱۱۱
اپنی بنت عم عائشہ کے لیے اس نے اپنے جذبات کا اظہار اس طرح کیا ہے۔
نمونہ کالم:
تیمی کی بیٹی عائشہ کے لیے میرے ہاں دل کے اندر ایک محفوظ چراگاہ ہے۔
جس کے مخصوص احاطے میں چرنے چرانے کی کسی کواجازت نہیں۔ (ص )۱۱۳
۳۸ھ میں عمر جہاد کی ایک سمندری مہم میں شامل ہوا کشتی میں آگ لگنے کی وجہ
سے جل کر مر گیا۔
اموی دور کے تین اہم شاعر اخطل ،فرزدق اور جریر تھے۔
اخطل :
بنو تغلب کاعیسائی شاعرتھا۔ شعر گوئی کاآغاز لڑکپن ہی سے کیا ۔ اصل
عروج امرائے بنی امیہ سے وابستہ ہوکر پا یا۔ یزید کے دورمیں اس کی خوب پذیرائی
ہوئی ۔ عبدالملک بن مروان نے اسے شاعر الخلیفہ کا خطاب دیا۔ کیفیات شراب کے
بیان میں اسے غیر معمولی مہارت حاصل تھی ۔ شراب کی خاطر اس نے اسالم قبول
نہ کیا۔
وہ حق کی پکار پر لپک کر آنے والے فحش گفتاری سے نفرت کرنے والے،
غیرت مند خودار لوگ ہیں۔ جب کوئی نا پسندیدہ صورتحال ان پر اترتی ہے۔ تو وہ
صبر اختیار کرتے ہیں۔ (ص )۱۱۴
فرزدق:
قبیلہ بنو تمیم کی شاخ بنو دارم سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کا دادا صعصعہ عرب
کانامور آدمی ہو گزرا تھا۔ اس کے بارے میں مشہور ہے کہ جاہلیت میں کوئی عرب
جب اپنی لڑکی کوزندہ درگورکرنے کا ارادہ کرتا تو صعصہ اسے خرید کر زندہ
رہنے دیتا۔ فرزدق کاباپ بڑا معزز سردارتھا۔ فرزدق کی پرورش بصرہ کے ادبی
ماحول میں ہوئی۔
مصنف بتاتا ہے کہ فرزدق کے کالم میں رقت ،لطافت اور گداز کی بہت کمی
ہے۔ منظر نگاری اور بیان واقعہ میں اس کی طبیعت خوب رواں ہے۔ ۰۱۱ھ میں سو
برس کے لگ بھگ عمر پا کر وفات پائی۔
’’ یہ وہ شخص ہے کہ وادی مکہ اس کے لمس قدم کو پہچانتی ہے ا ور بیت اللہ اور
حدود حرم کے باہر اور اندر کاسب عالقہ بھی اس سے آشناہے’’۔ (ص )۱۳۰
جریر:
اس کا تعلق بنو تمیم کی شاخ بنو کلیب سے تھا۔ یمامہ کے عالقے میں پیدا ہوا
اور صحرائی ماحول میں نشو و نما پائی۔ جب شعر پر اس کی گرفت مضبوط ہوگئی تو
بصرہ آنے جانے لگا جو فرزدق کا ٹھکانہ تھا۔
مصنف بتا تا کہ رفتہ رفتہ ا ُسے حجاج بن یوسف کے ہاں پذیرائی ہوئی اور
اسکی شاعری کی ہر طرف دھوم مچ گئی اس نے جب حجاج کے زور دار قصیدے
کہے تو خلیفہ عبدالملک کو بھی رشک محسوس ہوا۔ حجاج رمز شناس تھا۔ اس نے
جریر کو عبدالملک کے دربار میں بھجوا دیا۔ جریر نے خلیفہ کی مدح میں اپنا یہ شعر
کہا۔
’’ کیا تم لوگ ان سب سے بہتر نہیں ہو جو کبھی سواریوں پر سوار ہوئے اور
تمہاری ہتھیلیاں کل عالم سے بڑھ کر سخی نہیں ہیں۔‘‘ تو خلیفہ مسکرایا اور پھول کر
کہا۔ ہم ایسے ہی ہیں اور سدا کے ایسے ہیں۔( ص )۱۳۶ -۱۳۴
جری ر کی وفات فرزدق سے چند ماہ بعد ہوئی۔ اس کا دیوان بھی چھپ چکا ہے۔
بیوی کی موت پر گریہ وزاری عربوں کے ہاں شیوہ مردانگی کے خالف سمجھا جا تا
تھا۔ جریر نے اپنی بیوی کی وفات پر جو مرثیہ کہا وہی فرزدق کی بیوی کی وفات
گیا۔ پڑھا
یہ شعر دیکھیں
مصنف جریر کے حوالے سے بتاتا ہے کہ ذاتی زندگی میں وہ ایک پاک باز و
متدیّن انسان تھا۔ تاہم ہجو کے باب میں فحش گوئی سے بھی گریز نہ کر تا تھا۔ اس کے
مقام سے جل کر شعراء نے اس کے خالف ہجو گوئی شروع کر دی مگر یہ اکیال سب
سے چو مکھی لڑ تا رہا ۔ کسی سے مغلوب نہ ہوا حاالنکہ فرزدق کی طرح فخر
کرنے کے لیے اس کے پاس آباء و اجداد کے کارناموں کا سرمایہ نہ تھا۔مصنف نے
چونکہ یہ کتا ب نصابی نقطہ نظر سے طلبہ کے لیے لکھی تھی اس لیے ہر شعر کے
معنی ،ترجمہ اور تشریح دی ہے او راسلوب میں سال مت کو پیش نظر رکھا ہے۔
تالیف:
پیش لفظ "تقدیم"کے عنوان سے ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا نے لکھا ہے۔ کتاب
کے مندرجات میں جو مضامین شامل ہیں ان کا فرداًفردا ً مختصرا ً جائزہ ذیل میں
لیاجائے گا۔
فارسی کا استاد اور پنجابی اور اُردو کا قابل قدر شاعر ہے ۔ شاعری کے ساتھ
وہ گہرے تنقیدی شعور اور تحقیقی لگن رکھنے واال فن کار ہے ۔ عطاء الحق قاسمی
کی رائے اُن کے بارے میں حرف حرف حقیقت ہے۔
جیالنی صاحب ۔
مجید امجد کی زندگی کا زیادہ عرصہ ساہیوال میں بسلسلہ مالزمت گزرا ۔
مصنف نے بھی بی۔اے تک ساہیوال میں تعلیم حاصل کی اور اس دوران مجید امجد
سے چند مالقاتیں رہیں لیکن اس دوران بطور شاعر مصنف کا اتنا بڑا حوالہ نہیں تھا
لیکن شعری مجلسوں میں قریب سے دیکھنے کا موقع ضرور مال۔
مصنف نے زیر موضوع خاکہ 6774ء میں تحریر کیا ۔ مذکورہ شخصیت پی
۔اے ۔ایف کالج سرگودھا میں شعبہ اُردو کے صدرتھے ۔ اس میں مصنف نے ان کی
علمی و ادبی اور شخصی خوبیوں کا ذکر کیا ہے ۔ وہ کہتا ہے ۔
زیر نظر مضمون مصنف نے 6789ء میں تحریر کیا جبکہ ضمیر جعفری
صاحب حیات تھے ۔ اس میں جعفری صاحب کے فن مزاح کو خراج تحسین پیش کیا
ہے اور اس ضمن میں ان کا نمونہ کالم بھی پیش کیا ہے۔
ڈاکٹر طہ ٰ حسین ۔
زیر نظرمضمون مصنف نے معروف مصری ادیب طہ ٰ حسین کے حوالے
سے 6791ء میں تحریر کیا ۔ اس مضمون میں طہ ٰ حسین کے بچپن کے واقعات سے
اعلی مقام کے حصول تک کے واقعات کو جامع انداز میں احاطہ
ٰ لے کر ادبی دنیا میں
تحریر میں الیا گیا ہے ۔ بچپن میں آشوب چشم سے نابینا ہونے کی وجہ سے اس کی
۔ ہواتھا اضافہ بجائے کی کمی میں صالحیتوں علمی
زیر موضوع مضمون عربی میں ڈاکٹر طہ ٰ حسین نے لکھا اور اس کا
اُردوترجمہ مصنف زیر تبصرہ کتاب نے 6799ء میں کیا۔مضمون کی ابتدائی دوسطور
اقبال کے تعارف اور فن و شخصیت کے حوالے سے کلیدی حیثیت رکھتی ہیں۔
زیر نظرمضمون میں دونوں کا تقابلی انداز میں جائزہ لیا گیا ہے۔
زیر نظر مضمون مصنف نے 6774ء میں تحریر کیا ۔ اس میں اقبال کے
عربی ادب سے لگاؤ اور عرب دنیا میں اس کے مقام و مرتبے کا تعین کیا گیا ہے۔ اگر
اقبال کو سرزمین حجاز سے عشق تھا تو دُنیائے عرب میں اقبالیات کا چرچا
روزافزوں ہے ۔اس ضمن میں مصنف نے مختلف عرب ادباء کا ذکر کیا ہے جنہوں
نے اقبال کے حوالے سے کام کیا ہے۔ آخر میں مصنف نے حواشی تفصیالًدیے ہیں۔
زیر موضوع مضمون مصنف نے 6771ء میں تحریر کیا جس میں اندلس میں
عربوں کی آمد اوروہاں تخلیق ہونے والی عربی شاعری کا جائزہ لیا گیا ہے اور عرب
حکمرانوں کی ایک دوسرے پر لشکر کشی اور ظلم کی داستانیں بھی بین السطور بیان
کی گئی ہیں۔
زیر موضوع مضمون میں مصنف نے مذکورہ باال کتاب کی حقیقی تاریخ کے
چند بنیادی خدوخال اس طرح بیان کیے ہیں۔
"یہ کتاب اصل میں ہندوستان کے کسی راجہ کے لیے
کسی عالم نے سنسکرت زبان میں ترتیب دی ۔ نوشیرواں
نے برزویہ نامی ایک طبیب کو اس کے حصول کے
لیے ہندوستان بھیجااور اس نے اسے پہلوی زبان میں
منتقل کیا ۔ پہلوی سے ابن المقفح نے عربی میں ترجمہ
کیا"۔ (ص )468
مصنف بتاتا ہے کہ کلیلہ ودمنہ کا قدیم پہلوی ترجمہ معدوم ہوگیا اس لیے بعض
محققین کو یہ غلط فہمی بھی رہی کہ اس کی سنسکرت اصل بھی ضائع ہو گئی لیکن
یہ خیال درست نہیں۔ سنسکرت میں یہ کہانیاں برابر موجود چلی آتی ہیں البتہ مختلف
ناموں اورقدرے ردوبدل کے ساتھ ظاہر ہوتی ہیں ۔زیادہ معروف روپ یہ تین ہیں۔ پنچ
ساگر سرت کتھا ۔ ہتوپدیش تنتر۔
اس کتاب کو عالمی ادب میں بہت اہمیت حاصل ہے ۔ یہ ہندوافسانوی ادب کا قدیم ترین
شاہکارہے اور عالمی ادب پر جتنا اثر اس کتاب نے مرتب کیا ۔ ہندوستان کی کسی اور
کتاب نے نہیں کیا۔
آخر میں مصنف کہتا ہے کہ علوم فطرت دہریہ پن کے لیے کوئی جوازمہیا
نہیں کرتے بلکہ حقیقت اس کے برعکس ہے بلکہ سائنس آگے بڑھنے کے ساتھ ہمیں
ایک ایسی کیفیت کی طرف لے جاتی ہے جو ارضیت سے ،حسیت سے باالترہے
جوالوہی ہے۔
یہ عنوان کل پاکستان اہل قلم کانفرنس 6789میں پڑھے جانے والے مقاالت
کے لیے اکادمی ادبیات پاکستان کی طرف سے دیا گیا تھا۔
زیر نظر مضمون میں مصنف تنقید اور تقلید کے حوالے سے بات کرتے ہوئے
کہتا ہے کہ اسے مناسب بھی قرار دیا جاسکتا ہے اور نامناسب بھی کیونکہ یہ مبہم
بھی ہے اور خوشگوار ابہام بھی رکھتا ہے ۔ یہ سوال ایسا ہے جس کا جواب مختلف
مکتبہ ہائے فکر نے مختلف طریقوں سے دیا ہے جن میں تنقید کی گنجائش بھی ہے
اور تقلید کی بھی ۔
مصنف کہتا ہے علم کیمیاکے مورخین اس کے ظہور کا تعلق اہل یونان سے
ہے کہتا وہ سے حوالے اس ۔ سکتے جوڑ نہیں
" دورجدید میں تاریخ کیمیا پیش کرنے کی اولین کوشش کا سہرا سویڈن کے عالم
Torbern Bergmanکے سرہے جس نے 6997تا6984کے درمیانی وقفے میں اس
موضوع پر دوکتابیں شائع کیں ۔ اس کی رائے میں حضرت آدم ؑ پہلے کیمیادان تھے
اور اس شعبہ ء علم کے پھلنے پھولنے اور ترقی پانے میں اہل مصر کا خصوصا ً
ہرمس کا بہت بڑا حصہ تھا "۔ (ص )11
ماقبل اسالم اور صدراسالم کے دور میں دیگر اقوام کی نسبت عربوں کا حصہ
حساب میں بہت کمزور تھا ۔ غالب امکان یہ ہے کہ وہ انگلیوں پر حساب لگایا کرتے
تھے ۔ مسلمان دوسری صدی ہجری میں ہندوستانی ہندسوں سے متعارف ہوئے۔
مصنف بتاتا ہے۔
عربوں کے علم الفلک نے اہل یورپ پر دُوررس اثرات مرتب کیے۔ مصنف
اس حوالے سے بتاتا ہے۔
مسلمان علماء کی حیثیت معلوم کرنا ممکن نہیں رہا کیونکہ اس میدان میں ان
کی تمام اہم کتب ضائع ہو چکی ہیں ۔ الکندی کے رسائل کی حیثیت اس حوالے اہم
دستاویز کی ہے۔
قدیم عربی شاعری میں اصل اور نقل کے مسئلے کو کئی مستشرقین نے
موضوع بنایا ۔ اس حوالے سے جرمن مستشرق نلڈ کے اپنی رائے پیش کرتا ہے۔
مصنف کہتا ہے کہ جاہلی شاعری کی ایک مقدار کے بارے میں نلڈکے اور
اھلوارد اپنے شکوک کو اسی بنیاد پر استوار کرتے ہیں کہ اس شاعری کی تدوین جلد
عمل میں نہ آسکی اور راویوں نے اسے چھ نسلوں تک زبانی روایت میں رکھا۔
اس حوالے سے مصنف متضاد آراء پیش کر تا ہے۔
اس سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ قدیم عربی شاعری میں تحریر کا رواج
موجود تھا ۔ اس دوران روایت کا طریقہ کا ر کیا تھا اس کی کوئی وضاحت نہیں ملتی ۔
جاہلی شاعری کی روایت پر توجہ خلفائے راشدین کے دورمیں جاری رہی۔
مصنف کہتا ہے کہ اموی دور میں جاہلی شاعری کے مدّون مجموعوں کا
سراغ ملتا ہے چنانچہ فرزدق کے پاس دیوان لبید اور جاہلیت کے بعض اور دواوین
موجود تھے ۔ جاہلیت اور صدر اسالم میں شاعری کی تدوین حدیث نبوی کی تدوین
۔ ہے مشابہ سے
قدیم عربی شاعری کی تدوین کے حوالے سے مصنف بتاتا ہے ۔
زیر نظر مضمون میں مشہور نبض شناس حکیم نیر واسطی کے طبی کماالت
اور عربی زبان وادب سے اُن کے لگاؤ کا ذکر بڑی محبت سے کیا گیا ہے۔ مصنف
حکیم صاحب کے حوالے سے ایک واقعہ بیان کرتا ہے ۔
زیر موضوع مضمون میں مصنف نے حکیم صاحب کی شخصی خوبیوں کے
حوالے سے بات کی ہے ۔ تاریخ طب سے متعلق اُن کی مطبوعہ تحریروں کا ذکر کیا
ہے ۔ مصنف حکیم صاحب سے اپنے ربط خاطر کو زندگی کا قیمتی اثاثہ قرار دیتا ہے
اور ان کی اچانک وفات پر گہرے دُکھ کا اظہار کرتا ہے۔
َّ
ھذالزمان قالئد الجمان فے فَرائد شعراء
المشھورب
عقودالجمان فے شعراء ھذالزمان
البن الشعار
پبلشرز :شیخ زید اسالمک سنٹر یونیورسٹی آف پنجاب الہور ۔ اشاعت اول
4116ء 6244/ھ ۔ یہ کتاب 829صفحات پر مشتمل عربی متن میں ہے ۔ اس کا تعارف
مصنف نے انگریزی میں ص 7تا41تک تعارف کروایا ہے۔
قالئدالجمان پر یہ تحقیقی کام انتہائی مشکل اور صبرآزما تھا ۔ یہ ڈاکٹر خورشید
رضوی کی تحقیق و تدوین کا بے مثال کارنامہ ہے۔
یہ ایک افسوس ناک اعتراف ہے کہ ہمارے ہاں عربی ادب کی جانچ پرکھ
کرنے والے معدودے چند سکالرہیں ۔ انہی میں دواہم نام خورشید رضوی اور محمد
کاظم ہیں۔ زیر موضوع کتاب پر بات کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ بتایا جائے
کہ ڈاکٹر خورشید رضوی نے اس کتاب پر کا م کیوں کر کیا ۔اس حقیقت سے انکار
نہیں کہ وہ عربی کے مستند عالم ہیں ۔اس حوالے سے محمد کاظم لکھتے ہیں۔
’’ 1970کے بعد کی دہائی میں انہیں اس مجموعے "قالئد الجمان "کی پہلی جلد
کے م خطوطے کے ساٹھ اوراق اس مقصدسے دیے گئے کہ وہ ان اوراق کی تحقیق و
تصحیح کریں ۔ ان کے مصنف ابن الشعار کی زندگی کے حاالت معلوم کر کے لکھیں۔
متن کے نیچے جہاں ضروری ہو حواشی دیں اور یہ کام ایک تھیسز کی صورت میں
پیش کریں جس پر انہیں ڈاکٹریٹ کی سند مل سکتی ہے ۔ کام اگرچہ مشکل اور محنت
طلب تھا لیکن خورشید رضوی نے اس پر پانچ سال کا عرصہ لگا کر اسے بحسن و
خوبی انجام دیا اور 6786ء میں اس پر ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کرلی ‘‘۔ (ص
416ارمغان خورشید)
اس سے مصنف کا اصل مقصد تو پورا ہو گیا تھا لیکن ابن الشعار کی شخصیت
اور دوسرے اس مخطوطے پر تحقیقی کام کے دوران جو مشکالت پیش آئیں اس نے
مصنف کے جذبہ شوق کو مہمیز دی اور اس نے "قالئدالجمان"کی بقیہ آٹھ جلدوں کی
مائیکروفلموں کے حصول کی کوشش شروع کر دی ۔ ایک عرصے کی تگ و دو کے
بعد مقصد میں کامیابی ہوئی تو اس ذخیرہ معلومات کی مدد سے مصنف نے عربی
زبان میں دو مقاالت تحریر کیے ایک "ابن الشعاراور اس کی تصنیفات"اور دوسرا
"عقودالجمان (قالئدالجمان) کا دوسرا نام ۔ یہ اسالم آباد کی بین االقوامی اسالمی
یونیورسٹی کے رسالے "الدراسات االسالمیہ"میں شائع ہوئے۔ خالص علمی اور تحقیقی
اسلوب کی بناء انہیں اندرون ملک کے ساتھ عراق کی موصل یونیورسٹی میں بھی
پذیرائی ملی۔
تبصرہ نگار کہتا ہے کہ تیرھویں صدی میں عرب قوم کی ادبی زندگی کا
منظرکیا تھا اس کتاب میں اس کا مفصل احوال ملتا ہے ۔ اس زمانے کے فکری و
جذباتی میالنات کا پتہ چلتا ہے۔
انتساب مجید امجد کے نام ہے ۔ پیش لفظ ڈاکٹر وزیر آغا کا تحریر کردہ ہے
۔سخن ہائے گفتی کے عنوان سے شاعر نے کتاب کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار
کیا ہے ۔ زیر موضوع کتاب کا نام شاعر نے اپنے اس شعر سے اخذکیا ہے۔
تم صباکی طرح آئے اور رخصت ہو گئے
ادب کی ہر صنف روایت اور جدت کی مظہر ہے ۔ کسی ایک سلسلے سے
انحراف کر کے صرف ایک ہی کو ترجیح دینا مثبت نتائج سامنے نہیں التا ۔ خورشید
رضوی کی شاعری کو دیکھیں تو ان کا شمار جدید شعراء میں ہوتا ہے لیکن انہوں نے
غزل کے کالسیکی سرمایے سے بھی روگردانی نہیں کی۔
زیر نظر مجموعے میں مذکورہ باال رجحانات کا سنگم پہلو بہ پہلو دکھائی دیتا
ہے جو احساسات کو ایک اچھوتے تاثر سے روشناس کراتا ہے ۔ اسلوب میں سادگی
اور برجستگی اس قدرباکمال ہے کہ بڑے سے بڑا مضمون بھی باآسانی کہہ جاتے
ہیں۔ اس مجموعے میں شامل غزلوں میں رومانیت کے ساتھ زمانے کے مجموعی
رویے پر بات کرتے ہوئے خود اپنی تالش کا عمل بھی جاری ہے۔
بعض اوقات زندگی میں تمام تر آسائشوں کے باوجود ایسا مقام آتا ہے کہ انسان
پر عجیب بے بسی اور جھنجھالہٹ کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے ۔ اپناوجود ہی اس
کے لیے کسی مصیبت سے کم نہیں ہوتا ۔
حقیقت سے فرار کا رویہ تخیل اور رومانیت میں پناہ لینے پر آمادہ کرتا ہے
۔ایسا رویہ بے عملی کا آئینہ دار ہے۔
شاعر کی رومانیت میں معصومیت کا رویہ ایک نئے پہلو سے سامنے آتا ہے
جس میں وہ کہتا ہے۔
انسانی مزاج یکسانیت سے ہمیشہ نفوررہاہے کب کیا ہوجائے کچھ پتا نہیں ۔
اسی کیفیت کا اظہار شاعر اس شعر میں کرتا ہے۔
سرابوں کے صدف:
خورشید رضوی کا دوسرا شعری مجموعہ پہلی بار 6786ء اور دوسری بار
6779ء میں شائع ہوا ۔ تیسری بار 4119ء اور چوتھی بار 4164ء میں شائع ہوا
۔انتساب والدہ صاحبہ کے نام ہے۔
اس مجموعے میں 17غزلیں اور 11نظمیں جن میں نوحے بھی شامل ہیں اس
میں "شاخ تنہا"سے پہلے کی کاوشیں بھی شامل ہیں ۔ مجموعے کی ترتیب میں زمانی
ترتیب کو پیش نظر نہیں رکھاگیا ۔ آغاز مناجات اور نعت سے ہوتا ہے ۔ مجموعے کا
نام اس شعر سے مستعار ہے۔
اس مجموعے کی غزلوں میں دل کا لفظ مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
مجموعے کے آخر میں چند نوحے دنیا سے اچانک منہ موڑنے والے ان
پیاروں کی یادمیں ہیں جو درحقیقت ہر انسان کو اپنے دل کی آواز محسوس ہو تے
ہیں۔
اکیس اپریل کے حوالے سے نظم نوحہ نہیں بلکہ موت کی کیفیت کا بیان ہے
کہ وہ کس طرح شاعر مشرق سے اجازت طلب کرتی ہے ۔
رائگاں:
یہ مجموعہ 648صفحات پر مشتمل ہے ۔ اشاعت اول 6771ء اور اشاعت دوم
4119ء ،اشاعت سوم 4164ء میں الحمد پبلی کیشنز الہور سے شائع ہوئی (مذکورہ
دوم اور سوم یکجا(کلیات) میں شائع ہوئے ۔ انتساب ثریا کے نام اس شعر کے ساتھ
ہے۔
پیش لفظ منیرنیازی نے تحریر کیاہے ۔ آغاز مناجات اور نعت سے ہوتا ہے ۔
مذکورہ مجموعہ غزل ،نظم اور رباعیات پر مشتمل ہے ۔
خورشید رضوی کے حوالے سے منیرنیازی کی رائے ہے۔
زندگی میں کوئی انسان ایسا نہیں جو مشکالت اورغموں سے دوچار نہ ہوا
لیکن احاطہ تحریرمیں الکر اس طرح پیش کرنا وہ ہر انسان کو اپنے ہی دل کی آواز
محسوس ہو یہ بھی کمال فن ہے۔
کالسیکی روایت کی جھلک اس کے ہاں کسی نہ کسی صورت میں اپنی جھلک
دکھاجاتی ہے۔
زیرنظر مجموعے میں ’’سات سمندر پار وطن کی یاد‘‘ ،اور’’ افغانستان کے
لیے ایک نظم ‘‘ افغانستان پر روسی حملے کی چھٹی یلغار کے حوالے سے ہے جس
میں وہ عہد رفتہ کے فاتحین کو یادکرتا ہے۔
شاعر اپنی طبیعت کے ایک اور رنگ سے متعارف کرواتا ہے کہ محفلوں کو
رونق بخشنے کے باوجود تنہائی اس کے وجود کا حصہ بن چکی ہے۔
امکان:
زیر نظر مجموعہ الحمد پبلی کیشنز الہور سے 4112ء میں شائع ہوا ۔ یہ
مجموعہ اس امر کا بین ثبوت ہے کہ شاعر کا تخلیقی عمل جمود کا شکار نہیں ہوا
بلکہ ارتقاء کا عمل جاری ہے ۔وہ غزل کی روایت میں تغزل سے بھرپور نبھاکرتا ہوا
نظر آتا ہے ۔ مذکورہ مجموعے کا انتساب عابد صدیق کے نام ہے ۔ پیش لفظ اعجاز
حسین بٹالوی نے تحریر کیا ہے ۔ حرف سپاس کے عنوان سے شاعر نے مختصراًچند
باتیں کی ہیں۔ آغاز حمد و نعت سے ہوتا ہے۔
زندگی کی بے ثباتی اور موت کے حوالے سے ایک غزل میں شاعر اپنے
تاثرات اس طرح پیش کرتا ہے۔
شاعر کے ہاں مجھے کہیں کہیں تضاد کی کیفیت نظر آتی ہے مثالً یہ اشعار۔
دیریاب:
زیر نظر مجموعہ القاپبلی کیشنز سے 4161ء میں پہلی بار شائع ہوا ۔ انتساب
ڈاکٹر توصیف تبسم کے نام ہے ۔ مجموعے کا عنوان اس سے شعر سے مستعار ہے ۔
پیش لفظ ڈاکٹر اسلم انصاری نے تحریر کیا ہے ۔ مجموعہ غزلوں ،نظموں اور
متفرق اشعار پر مشتمل ہے ۔ آغاز حمد اور نعت سے ہوتا ہے۔
سخن سے ہے خموشی
بے سبب مشق ُ
اچھی
حرف باطل ہیں اگر دل سے اجازت نہیں
لی
خورشید رضوی کے ہاں عشق ومحبت اور پھر اس میں ناکامی کے تجربے کا
اظہار پہلو بہ پہلو ملتا ہے۔
انسان زندگی میں کچھ چیزوں کو بھولنا بھی چاہتا ہے لیکن جب وہ حافظے
سے نکل جاتی ہیں تو بھی وہ حیران و پریشان ہوتا ہے اسی کیفیت کا عکاس یہ
شعرہے۔
زیر نظر کتاب کے مندرجات میں حمد و منا جات ،نعتیں ،سالم و مرثیہ اور
مناقب شامل ہیں مجموعہ ہذا میں پنجابی اور فارسی کالم بھی شامل ہے۔
نمونہ کالم:
زیر نظر مجموعے کا دوسرا حصہ نعتیں کے عنوان سے ہے۔ جس میں شاعر
حضور سر ور کونین ﷺ کی ذات اقد س کو اپنے سب دکھوں کا مداوا اور راحت جاں
حضور کی آخری آرام گاہ روضہ مبارک اورمدینہ کو اپنے لیے رحمت
ؐ قرار دیتا ہے۔
کا سایہ قرار دیتا ہے۔ مدینہ سے دوری کو شاعر اپنے لیے مصیبت قرار دیتا ہے۔ یہ
دوری اس پر گراں گزرتی ہے۔ دررسالت سے فیض یابی اس کے لیے دنیا کی سب
سے بڑی سعادت ہے اور وہ اس سعادت پر نازاں ہے کہ اسے اس قابل سمجھا گیا وہ
خواہش کرتا ہے جس طرح کعب بن زہیر کو مشہور قصیدہ بانت سعاد سنانے پر
حضور نے اپنی چادر عنایت فرمائی اور امام بوصیری کو قصیدہ بردہ کے بدلے
ؐ
خواب میں چادر عنایت فرمائی اسی طرح وہ بھی ردائے رسول ؐ کا متمنی ہے۔ وہ
حضور نے نہایت سادگی سے زندگی
ؐ مدینہ جا کر اسی دور سادہ کا متالشی جس میں
گزاری ۔ وہ کہتا ہے کہ دشمنوں کے لیے بھی ان کی ذات ؐ باعث رحمت ثابت ہوئی۔
آپ کا اسم مبارک تمام بالؤں کو رد کر دیتا ہے۔
ؐ
نمونہ کالم :
نمونہ کالم:
زیر تبصرہ مجموعہ کالم کا چوتھا حصہ مناقب پر مشتمل ہے جس میں شاعر
تین بزرگان دین حضرت علی ہجویری گنج بخش ،بابا فرید گنج شکر اور اپنے جد ّ
امجد شاہ ابن المعروف بدر چشتی کو نذرانہ عقید ت پیش کرتا ہے۔ علم معرفت کو
پھیالنے میں ان کے نمایاں کردار کا تذکرہ کر تا ہے۔
نمونہ کالم:
بنیادی ما ٓخذ:
76خورشید رضوی ،ڈاکٹر ،عربی ادب قبل از اسالم ،جلد اول ،الہور ،ادارہ
اسالمیات پبلشرز ،بک سیلرز ،ایکسپورٹرز ،اشاعت اول۱۰۱۰ ،ء
74خورشید رضوی ،ڈاکٹر (مترجم) تاریخ علوم میں تہذیب اسالمی کا مقام،
خطبات ،ڈاکٹڑ فواد سیزگین ،اسالم آباد ،ادارہ تحقیقات اسالمی الجامعہ
االسالمیۃ العالیۃ ،اشاعت اول ۱۸۸۴ء۔
71خورشید رضوی ،ڈاکٹر ،عربی شاعری ایک تعارف (آغاز تاعہد بنی اُمیہ)،
الہور شیخ زاید اسالمک سینٹر ،جامعہ پنجاب ،سال اشاعت ۱۰۱۳ء
72خورشید رضوی ،ڈاکٹر ،اطراف ،الہور ،مغربی پاکستان اُردو اکیڈمی،
۱۰۱۱ءطبع دوم
79خورشید رضوی ،ڈاکٹر ،تالیف ،الہور ،شہ تاج مطبوعات۱۸۸۶ ،ء
71خورشید رضوی ،ڈاکٹر ،قالئد الجمان فے فرائد شعراء ہذاالزمان ،الہور ،شیخ
اسالمک زید سنٹر یونیورسٹی آف پنجاب
79خورشید رضوی ،ڈاکٹر ،دیریاب ،الہور ،القا پبلی کیشنز ،اشاعت اول ۱۰۱۳ء
78خورشید رضوی ،ڈاکٹر ،نسبتیں ،الہور ،انٹرنیشنل نعت مرکز۱۰۱۶ ،ء
77خورشید رضوی ،ڈاکٹر،یکجا (شاخ تنہا ،سرابوں کے صدف ،رائگاں ،امکان)
الہور ،الحمد پبلی کیشنز ،اشاعت دوم ۱۰۱۱ء
خورشید رضوی ،ڈاکٹر ،حکم المحکمۃ الشرعیۃ (انگریزی سے عربی 761
ترجمہ) ،بابر وفاقی شرعی عدالت کے انگریزی فیصلے کا عربی ترجمہ،
اہتمام اسالمی ترقیاتی بنک جدہ۱۸۸۶ ،ء
الرحمن)
( )۴سویرا ،الہور (مدیر ،محمد سلیم ّ
76عربی ادب قبل از اسالم ( )۱ستمبر ،اکتوبر ۱۰۰۳ء خورشید رضوی
74عربی ادب قبل ازاسالم ( )۱نومبر ،دسمبر ۱۰۰۳ء خورشید رضوی
71عربی ادب قبل ازاسالم ( )۳جنوری ،فروری ۱۰۰۴ء خورشید رضوی
72عربی ادب قبل ازاسالم ( )۴مارچ ،اپریل ۱۰۰۴ء خورشید رضوی
79عربی ادب قبل ازاسالم ( )۶مئی ،جون ۱۰۰۴ء خورشید رضوی
71عربی ادب قبل ازاسالم ( )۵جوالئی ،اگست۱۰۰۴ء خورشید رضوی
79عربی ادب قبل ازاسالم ( )۱ستمبر ،اکتوبر ۱۰۰۴ء خورشید رضوی
78عربی ادب قبل ازاسالم ( )۱نومبر ،دسمبر۱۰۰۴ء خورشید رضوی
77عربی ادب قبل ازاسالم ( )۸جنوری ،فروری ۱۰۰۶ء خورشید رضوی
عربی ادب قبل ازاسالم ( )۱۰مارچ ،اپریل ۱۰۰۶ء خورشید رضوی 761
عربی ادب قبل ازاسالم ( )۱۱مئی ،جون ۱۰۰۶ء خورشید رضوی 766
عربی ادب قبل ازاسالم ( )۱۱جوالئی ،اگست۱۰۰۶ء خورشید رضوی 764
عربی ادب قبل ازاسالم ( )۱۳ستمبر ،اکتوبر۱۰۰۶ء خورشید رضوی 761
عربی ادب قبل ازاسالم ( )۱۴نومبر ،دسمبر۱۰۰۶ء خورشید رضوی 762
عربی ادب قبل ازاسالم ( )۱۶جنوری ،فروری ۱۰۰۵ء خورشید 769
رضوی
عربی ادب قبل ازاسالم ( )۱۵مارچ ،اپریل۱۰۰۵ء خورشید رضوی 761
عربی ادب قبل ازاسالم ( )۱۱مئی ،جون ۱۰۰۵ء خورشید رضوی 769
عربی ادب قبل ازاسالم ( )۱۱جوالئی ،اگست ۱۰۰۵ء خورشید رضوی 768
عربی ادب قبل ازاسالم ( )۱۸ستمبر ،اکتوبر۱۰۰۵ء خورشید رضوی 767
عربی ادب قبل ازاسالم ( )۱۰نومبر ،دسمبر ۱۰۰۵ء خورشید رضوی 741
الرحمن شامی)
( )۶قومی ڈائجسٹ ،الہور (مدیر ،مجیب ّ
76خورشید رضوی کا انٹرویو ،خالد ہمایوں ،جنوری ۱۰۰۴ء
مقاالت
76محمد کاظم کی علمی اور ادبی خدمات ،مقالہ نگار ،شازیہ جبیں ،اورینٹل کالج
پنجاب یونیورسٹی الہور ،سیشن ۱۸۸۱تا ۱۸۸۸ء مقالہ برائے ایم۔اے (اُردو)
74محمد کاظم کے سفر نامہ‘‘ ،مغربی جرمنی میں ایک برس کا تجزیاتی
مطالعہ’’ ،مقالہ نگار ،محمد شکیل ،سیشن ۱۰۰۸تا ۱۰۱۱ء مقالہ برائے ایم
اے (اُردو)
اخبارات
محمد کاظم کی وفات کے حوالے سے مندرجہ ذیل اخبارات کی فائلیں بھی دیکھی گیئں
جن میں تعزیتی کالم تحریر کیے گئے