You are on page 1of 652

‫حلف نامہ‬

‫میں حلفیہ اقرار کرتی ہوں کہ یہ مقالہ بعنوان ’’ادبیات عربی کے دو‬
‫محقق اور نقاد‪ :‬محمد کاظم اور خورشید رضوی (تقابلی مطالعہ) ‘‘‬
‫میری ذاتی کاوش اور محنت کاثمر ہے۔ نیز یہ مقالہ اس سے پہلے کسی‬
‫بھی یونیورسٹی میں کسی ڈگری کے حصول کے لئے پیش نہیں کیا گیا۔‬
‫یہ مقالہ اپنےموضوع سے متعلق اساسی اور اولین مصادر ماخذ پر‬
‫مشتمل ہے۔‬

‫نازیہ راحت‬
‫مقالہ نگار‬

‫انتساب‬
‫محبتوں سے ُگندھی دو شخصیات‬
‫اپنے شریک حیات’’خان شوکت حسین‬
‫کھچی‘‘‬
‫اور‬
‫راحت کے نام‬ ‫اپنی بہن راحیلہ‬
‫کہی ان کہی‬
‫پی ایچ ڈی کے مقالے کی تکمیل میرے لئے انتہائی مسرت آمیز ہے۔‬
‫کیونکہ جب خواب حقیقت بن کر سامنے آجائیں تو زندگی اپنے ہونے کا‬
‫احساس دالتی ہے۔‬
‫مقالے کی بر وقت تکمیل میرے محترم اساتذہ ڈاکٹر انوار احمداور‬
‫ڈاکٹر روبینہ ترین کی مرہون منت ہے ان کی ہر لمحہ حوصلہ افزائی‬
‫صمم نے مجھے وہ حرارت‬ ‫نےمجھے ہمیشہ تحریک دی۔ ان کے عزم م ّ‬
‫بخشی جو اس مقالے کی صورت میں کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ میں‬
‫اپنے محترم استاد ڈاکٹر قاضی عابد کی شکر گزار ہوں جنہوں نے‬
‫مجھے بارہا کہا کہ پی۔ ایچ ۔ ڈی کے بغیر ایم فل کا کوئی فائدہ نہیں لہذا‬
‫آپ پی ۔ ایچ۔ڈی ضرور کریں اور اس دوران انہوں نے میری بہت‬
‫رہنمائی کی۔ ڈاکٹر عقیلہ جاوید‪ ،‬ڈاکٹر شازیہ عنبرین‪ ،‬ڈاکٹر حماد رسول‬
‫‪ ،‬ڈاکٹر سجاد نعیم اور دوسرے تمام اساتذہ کی حوصلہ افزائی پر تہہ دل‬
‫سے اُن کی شکر گزار ہوں۔‬
‫میں اپنے بہت قابل احترام بھائی عامر اقبال بھٹی ایڈووکیٹ (الہور) کی‬
‫انتہائی شکر گزار ہوں جنہوں نے اس مقالے کے متعلق کتب اور دیگر‬
‫مواد بروقت فراہم کرنے میں میری بہت مدد کی۔ اس بے لوث خلوص کا‬
‫شکریہ الفاظ سے ادا کرنا میرے لئے نا ممکن ہے۔‬
‫ڈاکٹر زاہد منیر عامر‪ ،‬علی تنہا‪ ،‬سید ریاض حسین زیدی اور ڈاکٹر خالد‬
‫سنجرانی کی تہہ دل سے شکر گزار ہوں کہ انہوں نے کتب کی فراہمی‬
‫میں ہر ممکن میری مدد کی۔‬
‫اپنی بہن راحیلہ راحت اور ان کے بچوں سرخرو عارف علوی ‪،‬‬
‫مریم عارف اور ثانیہ عارف کی محبتوں کا قرض شاید کبھی نہ اُتار‬
‫سکوں۔ اُنھوں نے مجھے اتنا پُر سکون ماحول دیا کہ جس کی وجہ سے‬
‫میں اپنا کام انہماک سے مکمل کر سکی۔ اس مقالے کے دوران اپنے‬
‫بھانجے اور بھانجیوں کی وجہ سے مجھے کہیں آنے جانے میں دقت‬
‫محسوس نہیں ہوئی کیونکہ وہ بہت محبت سے ہر وقت میرے ساتھ‬
‫جانے کے لئے تیار رہتے تھے۔ اپنے بھائی افتخار احمدعلوی اور‬
‫دعاوں کے‬‫ٔ‬ ‫بہنوں غزالہ راحت اور ثمینہ راحت کی محبتوں اور اور‬
‫لئے ان کی شکر گزار ہوں۔‬
‫اپنی بہت ہی پیاری بیٹی علیزے خان کی بے مثال محبت میرے‬
‫لئے زندگی کی سب سے بڑی خوشی ہے جو رات کو گرمی کے‬
‫باوجود تین بجے تک میرے ساتھ جاگتی تھی‪،‬میری صحت کے متعلق‬
‫انتہائی فکر مند رہتی اور ہر لمحہ میرا ساتھ دیا تاکہ میرا مقالہ بروقت‬
‫مکمل ہو جائے۔‬
‫میرے شریک حیات خان شوکت حسین کھچی مجھے یہاں تک النے‬
‫والی وہ شخصیت ہیں کہ جن کے تعاون کے بغیر میں کبھی کامیاب نہ‬
‫ہوتی۔ اس مقالے کے دوران انہوں نے ہر ممکن میری زندگی میں‬
‫آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کی اپنی ضرورتوں کو پس پشت ڈال کر‬
‫میری خواہشات کاہمیشہ احترام کیا۔ شاید یہ چند سطور اُن کی محبتوں‬
‫کا احاطہ نہ کر سکیں۔ مزید برآں اپنے گھر میں موجود بھتیجے علی‬
‫اکبر کھچی اور بھتیجیوں‪ ،‬بھانجیوں کی تہہ دل سے شکر گزار ہوں کہ‬
‫اُنہوں نے مقالے کی تکمیل دوران گھر کے دیگر امور میں میری بہت‬
‫مدد کی۔‬
‫سکول میں اپنی دوست اور کولیگ مس گلناز زیدی کی بہت شکر گزار‬
‫ہوں کہ انہوں نے اس دوران مجھے سکول کی غیرتدریسی ذمہ‬
‫داریوں سے د ُور رکھا اور مجھے بہت حوصلہ دیا کہ میں اپنی توجہ‬
‫صرف کام پر مبذول رکھوں اور کتب کی فراہمی میں بھی میری مدد کی‬
‫بشری تبسم‪،‬‬
‫ٰ‬ ‫اور دیگر سٹاف ممبران میں شگفتہ ڈوگر ‪ ،‬بتول فاطمہ‪،‬‬
‫سفینہ یاسمین اور منزہ علی کی تہہ دل سے شکر گزار ہوں ۔ آخر میں‬
‫کمپوزرشیخ محمد سہیل صیّاد ‪،‬شکیل احمد اور وسیم کی بہت بہت شکر‬
‫گزار ہوں کہ انہوں نے دن رات ایک کر کے میرا مقالہ بر وقت مکمل‬
‫کیا۔‬

‫نازیہ راحت‬
‫فہرست ابواب‬
‫کہی اَن کہی‬

‫باب اول‪:‬‬

‫‪۱‬۔‬ ‫عربی اد ب اور ہمارا معاشرہ‬


‫‪۵۶‬‬

‫باب دوم‪:‬‬

‫محمد کا ظم (سوانحی حاالت)‬


‫‪۵۵‬۔ ‪۱۰۱‬‬

‫باب سوم‬

‫ڈاکٹر خورشید رضوی(سوانحی حاالت)‬


‫‪۱۴۱ -۱۰۱‬‬

‫باب چہارم‪:‬‬

‫محمد کاظم (تحقیقی وتنقیدی جا ئزہ)‬


‫‪۳۵۱ -۱۴۱‬‬

‫باب پنجم‬

‫خورشید رضوی (تحقیقی و تنقیدی جائزہ(‬


‫‪۴۵۱ -۳۵۱‬‬

‫باب ششم‬

‫عربی ادبیات میں محمد کاظم اور خورشید رضوی کا تخصص‬


‫‪۴۱۱ -۴۵۱‬‬

‫کتابیات‬
‫‪۴۱۸ -۴۱۱‬‬
‫باب اول‪:‬‬
‫عربی اد ب اور ہمارا معاشرہ‬
‫اگرچہ ہندوستان کی سر زمین جہاں مختلف نسلوں ‪،‬ذاتوں‪،‬طبقوں اورمذہبوں‬
‫کے بارے میں اسرار کے بہت سے پردے چھٹ چکے ہیں پھر بھی ہندوستان کے‬
‫جنوب میں آبادغیر آریائی نسلوں (کول ‪،‬منڈا‪،‬بھیل اور دراوڈ)جہاں کے قدیم ترین‬
‫باشندوں کی نشانیاں ہیں ‪،‬کالے ‪،‬پست قد مگر ذہین اور محنتی اور اپنے وجود کے‬
‫بارے حساس کم وبیش ماہرین کا اتفاق ہے کہ آریا مختلف وقفوں میں‪،‬مختلف ٹولیوں‬
‫میں اور مختلف راستوں سے ہندوستان میں اس طرح داخل ہوئے کہ وہ‬
‫نسبتا َ ََدرازقدتھے ۔ اُن میں سے زیادہ تر لوگ گھوڑسوار تھے اور اُن کے ہتھیارترقی‬
‫یافتہ تھے اس لیے انھوں نے ہندوستان کے قدیم باشندوں کو شکست دی ‪،‬مغلوب کیا‬
‫۔چراگاہوں سے تجارتی گزرگاہوں اور خوش حالی کے مراکز سے دور دھکیل دیا۔پھر‬
‫انہی فاتحین نے ایک ایسا مذہب ہندو مت تخلیق کیا جو نئے آقاؤں کو ہمیشہ کے لیے‬
‫انسانوں کے بہترین ُزمرے پر فائز کر دے۔اُن کے مطابق خدا تین تھے لیکن سب سے‬
‫بڑے بر ھما نے انہیں پیدا کیا تھا اور یہ برھما کے سر سے پیدا ہوئے یوں برھما کی‬
‫عقل اور ذہانت کے بھی وارث تھے اور اس عقیدے کے تحت تمام انسانوں پر حکومت‬
‫کرنے کا حق رکھ تے تھے ۔البتہ اس سر زمین کے جن بہادر لوگوں نے مزاحمت کی‬
‫اور وہ پہلے سے موجود راجاؤں اور رجواڑوں کے بازؤے شمشیرزن تھے مذہب کی‬
‫تائید سے انھیں کھشتری قرار دے کر ہندوستان کا سر بکف طبقہ بنا دیا اور پھر‬
‫زمینوں پر کام کرنے والے صابروشاکر سر جھکائے گائے بھینسوں ‪،‬بکریوں اور‬
‫بیلوں جیسے محنتی کسانوں کوویش کا درجہ دیاکہ یہ برھما کے پیٹ سے پیدا ہوئے‬
‫اور ان کا مقدر ہے کہ ان کو محنت کا اجر ملے یا نہ ملے یہ انسانوں کے لیے اناج‬
‫اُگاتے رہیں‪،‬موسموں کی سختیاں برداشت کرتے رہیں پھر جو لوگ کاشت کارتھے‬
‫‪،‬ہنر مندتھے ‪،‬جوتے بناتے تھے ‪،‬کپڑابُنتے تھے ‪ ،‬لوہار تھے اور معاشرے کے لیے‬
‫اور آقاؤں کے لیے مفید کا م کرسکتے تھے اور اپنی اوقات سے باہر نہیں آسکتے‬
‫تھے اپنے آقاؤں کے مندروں میں داخل نہیں ہو سکتے تھے اُن کے کنوؤں سے پانی‬
‫نہیں نکال سکتے تھے۔ ان کی رسوئی میں قدم نہیں دھر سکتے تھے وہ شودر کہالئے‬
‫‪،‬ملیچھ اور دَلت بنے ظاہر ہے کہ اس عقیدے کو طاقت اور مذہب کے خوف سے‬
‫داخلی تضادات پر پھیال کر سماج کو ایک خاص طرح سے تشکیل دینے کی کوشش‬
‫کی گئی مگر اسی سما ج میں نیپال کی ریاست ’’کاپل وستو‘‘ میں ایک شہزادہ ایسا‬
‫پیدا ہو گیا جس نے دکھوں اور بے وفائیوں کے درد کو انسانیت کا درد بنا دیا اور اس‬
‫کے ماننے والوں کی ایک بڑی جماعت پیدا ہوگئی مگر اس بڑی جماعت کے بُدھ مت‬
‫کو اور بعد میں جین مت کو یا تو ہندومت نے اپنی ہی ترمیم شدہ شکلیں قرار دیا یا ان‬
‫مذاہب کوہی نگلنے کی کوشش کی یا انہیں ہندوستان کی سرحدوں سے با ہردھکیلنے‬
‫کی کو شش کی۔ اپنے عقیدے کے اعتبار سے بُدھ مت کے ماننے والے صلح کل تھے‬
‫وہ ہندوؤں کی ایسی کو ششوں سے آزردہ یا دل برداشتہ تو ہوئے ہوں گے مگر ان کے‬
‫مقابل صف آراء نہ ہوئے اُن کی اس آزردگی نے کہیں کہیں ابتدائی مسلمان فاتحین کی‬
‫فتوحات کا وسیلہ بننے میں مددکی ۔‬
‫اس حوالے سے فتح محمد ملک لکھتے ہیں ۔‬

‫ََ ََََ ’’ہمارے ہاں انتظار حسین کے افسانہ وافسوں‬


‫سے پیشتر البیرونی کی ’’کتاب الہند ‘‘ سے لے کر‬
‫عالمہ اقبال کے ’’جاوید نامہ ‘‘تک ہندوستان کی قدیم‬
‫تہذیب ومعاشرت اور مذہبی دیو ماال کے مطالعہ سے‬
‫حکمت وتخیل کو سر سبز وشاداب رکھنے کا کام لیا جا‬
‫چکا ہے۔’’جاوید نامہ ‘‘ میں بھرتری ہری اور جہاں‬
‫دوست کے سے ہندوتہذیب کے نمائندوں کے ساتھ ساتھ‬
‫مہاتما بُدھ اور حضرت عیسٰ ؑی سمیت انسانی تہذیب‬
‫وتمدن کے ارتقا ء کے مختلف مراحل پر قائدانہ کردار‬
‫کر نے والی شخصیات کی دانش وحکمت کو خراج‬
‫تحسین پیش کیا گیا ہے ۔ انتظارحسین کی نثر نے بھی‬
‫اساطیراالولون سے‬
‫ّ‬ ‫اس باب میں قصص القرآن اور‬
‫اکتساب فیض کر کے ہماری اور ہماری آئندہ نسلوں کی‬
‫اخالقی تربیت کا سامان فراہم کیاہے‘‘۔ (‪)۱‬‬

‫ہندومت نے اپنے ماننے والوں کو سمندر یا ترا سے منع کیا تھا اس لیے‬
‫اعلی تعلیم کے لیے گئے تو‬‫ٰ‬ ‫انیسویں صدی میں برہمن زادے انگلستان یا پیرس میں‬
‫مختلف خاندانوں کی طرف سے پرائچشت یاکفارے کی رسمیں ادا ہوئیں اور ان کی‬
‫واپسی پر پھر انہیں واوتر بنا کر دھرم میں داخلے کا تاوان وصول کیا گیا اس تناظر‬
‫میں صرف یہ عرض کرنا چاہتی ہوں کہ ہندوستان اتناوسیع خطہ تھااور یہاں سب سے‬
‫بڑے مذہب کے ماننے والے لوگوں نے بڑے بڑے حکمران پیدا کیے جیسے اشوک‬
‫‪،‬چندرگپت‪،‬موریا مگر اپنے عقیدے کے اعتبار سے انہوں نے اپنی سرحدوں سے باہر‬
‫نکل کر دوسرے ممالک پر حملہ نہ کیا یا حملے کا خطرہ مول نہ لیا البتہ اندرونی‬
‫طور پر اپنی خوشحالی اور استحکام کی خاطر تجارت پیداوار راستوں اور امن وامان‬
‫پر توجہ دیتے رہے عرب بے شک خود کو بولنے واالاور باقی دُنیاکو گونگا یاعجم‬
‫کہیں تا ہم اسالم سے پہلے اُن کی شہرت قبائلی معاشرے میں مرکزیت سے محروم‬
‫ایسے افراد کی تھی جو تجارت کے لیے‪ ،‬مہم جوئی کے لیے ‪،‬لوٹ مار کے لیے ‪،‬‬
‫گرم مصالحے اور عورتوں کی اشتہا میں دنیا میں اور خاص طورہندوستان جیسے‬
‫پُراسرار خطے تک پہنچ جاتے تھے۔‬

‫قدیم سومیری (عراقی‪،‬مصری‪،‬بابلی‪،‬یمنی)تاجر سمندرکے راستے یا مکران‬


‫کے راستے ہندوستان میں آتے رہتے تھے اور یہاں سے سامان تجارت لے کر اور‬
‫ملکوں اور شہروں کی طرف جاتے تھے مگر اپنی اُن عورتوں کی یاد میں پلٹ کر وہ‬
‫ہندوستان تک پہنچنے کے لیے آسان یا مشکل راستوں کی کھوج لگاتے رہتے جن سے‬
‫شادی یا اس کے بغیر اُنھوں نے اپنی اوالدیں بھی پیدا کر رکھی تھیں۔ظہور اسالم کے‬
‫بعد عربوں کی ایک کایا کلپ ہوئی اور ایک الہامی مذہب نے اور اس کے پر چارک‬
‫ایک محسن انسانیت نے ایک طرف انھیں اسالم کی حقانیت کو دُنیا بھر تک پھیال نے‬
‫کے لیے ایک ولولے اور جوش سے ہمکنار کیا اور دوسری طرف انھیں فاتحین کے‬
‫مال غنیمت اور آسائشوں کی تمنا بھی رہی ہو گی ۔یوں مسلمان ہو کر بھی تمام تر‬
‫عرب حقانیت کے پیکر بن کر ہندوستان میں نہیں آئے ہوں گے ۔ انھوں نے مقامی‬
‫آبادی میں سے تذلیل کا شکار ہو نے والے گروہ کی توجہ اور ہمدردی حاصل کی ہو‬
‫گی کہ اسالم مساوات انسانی کا درس دیتا ہے سا تھ ہی سا تھ اُنھوں نے یہ بھی ثابت‬
‫کیا ہو گا کہ وہ کسی بھی عالقے کو فتح کر کے تمام مال غنیمت سمیٹ کر اپنے‬
‫گھروں میں نہیں چلے جاتے یا بھجوا نہیں دیتے اگر انھیں مرکز سے اذن اور ُمہلت‬
‫ملتی ہے تو وہ اپنی مقبوضات کو جنت ارضی بنا نے کی کوشش کرتے ہیں مگر‬
‫سرکار رسالت مآب کے وصال کے بعد مسلمانوں میں قبائلی نسلی اور خاندانی‬
‫عصبیتوں نے بھی ایک خونی کھیل کھیال اس کے نتیجے میں اسالم کا ُچغہ پہنے‬
‫ہوئے بہت اچھے عربی ہندوستان میں آئے ‪،‬کم اچھے بھی آئے ‪،‬بگڑے ہوئے عقیدے‬
‫والے بھی آئے اور اپنے بگاڑ کی مدد سے اسالم کو ایک خاص ُرخ دینے کی بھی کو‬
‫شش کی اور یوں برصغیر کے اندر عرب وہند تعلقات نے ہند مسلم ثقافت کے نام پر‬
‫ایک مر کب آمیزہ تشکیل دیا جس کے چند پہلودل آویزاور دل خوش کن تھے مگر‬
‫بعض پہلوؤں کی خون ریزی یا ہوس زر یا خو ئے انتقام کی پردہ داری نہیں کی جا‬
‫ادنی طالبعلم کے طور پر اس پیچیدہ‬
‫سکتی میری کو شش ہے کہ میں ادبیات کی ایک ٰ‬
‫تعلق اور منظر نامے کو ادب کے قارئ ین کے سامنے تہہ در تہہ پیش کروں تا کہ وہ‬
‫منظرنا مہ جو تاریخ کی راہوں میں دُھندال گیا تھااور حقیقت سے افسا نے کی سمت جا‬
‫رہا تھا دوبارہ ایک مکمل عہد کے ساتھ سامنے آئے ۔‬

‫قبل از اسالم عہد دور جاہلیت کہالتا ہے اس عہد کا ادب اس تہذیب کا عکا س‬
‫ہے ۔ عربی ادب کی ت خلیق قبائلی سما ج سے ہو چکی تھی اور اس کا معتدبہ حصہ‬
‫شاعری پر مشتمل تھا ۔چونکہ اس دور کو جاہلیت کا دور کہا جا تا ہے اس لیے ازخود‬
‫یہ فرض کر لیا گیا کہ اس وقت قتل وغارت اور اخالقی برائیوں کے سوا کچھ نہ تھا‬
‫بعض احباب کی رائے ہے کہ اس عہد میں جو ادب تخلیق ہوا وہ بھی بعیداز حقیقت ہے‬
‫اور بعدازاں اس عہد سے موسوم کیا گیا ہے ۔اس کی وجہ غالبا َ ََ یہ ہے کہ اتنی‬
‫صدیاں گزرنے کے بعد کسی ادب کا اپنی حقیقی صورت میں بر قرار رہنا کسی‬
‫معجزے سے کم نہیں اس بناء پر اس کے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں ہوتی رہیں‬
‫طہ حسین‬ ‫کیونکہ عقل ان قیاس آرائیوں کو کسی حد تک تسلیم کرتی ہے ۔ڈاکٹر ٰ‬
‫(م‪ ۱۸۹۳‬ء)مشہور ادیب نقاد اور انشا پر داز جس نے عربی ادب کی تحقیق و تنقید کے‬
‫حوالے سے بہت کام کیا ۔اس نے بھی کچھ اسی قسم کی رائے کا اظہار کیا لیکن اس‬
‫پر اس شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا اس لیے اُسے اپنی رائے میں ترمیم کرنا پڑی۔‬

‫’’‪ ۱۸۱۱‬ء میں اس نے کتاب ’’فی الشعر الجاھلی‬


‫‘‘شائع کی ‪،‬جس میں اس نے جاہلی شاعری کے بارے‬
‫میں یہ عجوبہ رائے پیش کی کہ اس کا ایک بڑا حصہ‬
‫بعد کے لوگوں کا گھڑا ہواہے ۔جسے بعض اغراض کے‬
‫تحت قدیم شعراء سے منسوب کر دیا گیا ہے۔اس بات پر‬
‫بہت سے ادیب اور نقاد برہم ہوئے اور اخباروں اور‬
‫طہ حسین کے خالف تشنیع و مذمت کا ایک‬‫رسالوں میں ٰ‬
‫طوفان کھڑا ہو گیا ۔چنانچہ حکومت کو مداخلت کر کے‬
‫طہ نے ضروری‬ ‫اس کی اشاعت روک دینی پڑی اور ٰ‬
‫حک و اضافہ کے بعد اسی تصنیف کو دوبارہ ’’فی‬
‫االدب الجاھلی ‘‘کے عنوان سے شائع کیا ‘‘۔(‪)۱‬‬

‫زمانہ جاہلیت میں تخلیق ہونے والی شاعری تا ثیر سے بھر پور تھی اپنے‬
‫اشعار سے شعراء اس دور کے لوگوں کی بہت سی پریشانیاں دور کر دیتے تھے‬
‫مبالغہ آرائی کے ساتھ ساتھ اشعار میں پیش کیا جانے واال پیغام مبنی بر حقیقت ہوتا تھا‬
‫۔موالنا حالی مقدمہ شعر و شاعری میں ان اشعار کی تاثیر کے حوالے سے لکھتے‬
‫ہیں‬

‫’’زمانہ جاہلیت کی شاعری میں ایسی مثالیں کثرت سے‬


‫پائی جاتی ہیں کہ مثالَ ََ شاعر اپنے قبیلہ کو جبکہ تمام‬
‫قبیلہ کے لوگ اپنے مقتول کے خو ن بہا لینے پر راضی‬
‫ہیں مالمت کر تا ہے اور قاتل سے انتقام لینے پر آمادہ‬
‫کرتا ہے یا کسی رنجش کی وجہ سے اپنے قبیلہ کو‬
‫دوسرے قبیلہ سے لڑنے یا بدلہ لینے کے لیے برا‬
‫نگیختہ کرتا ہے یا اپنے پانی کے چشمہ یا چراگاہ کے‬
‫چھن جانے پر قوم سے مدد لینی اور اس میں جوش پیدا‬
‫کرنا چاہتا ہے اور اکثر اپنی تحریصوں میں کامیاب ہو تا‬
‫ہے ۔مثالَ ََ عبد اللہ بن معد یکرب جو کہ بنی زبید کا‬
‫سردار تھا ایک روز بنی مازن کی مجلس میں بیٹھا تھا‬
‫اور شراب پی رکھی تھی کہ مخزوم مازنی کے ایک‬
‫حبشی غالم نے کچھ اشعار ایک عورت کے تشبیب کے‬
‫جو کہ بنی زبید میں سے تھی گائے۔عبداللہ نے اْٹھ کر‬
‫زور سے اس کے منہ پر طمانچہ مارا ۔غالم چال یا ۔بنی‬
‫مازن نے غیظ و غضب میں آکر عبداللہ کو مارڈاال۔پھر‬
‫عمر و بن معد یکرب کے پاس جو کہ عبداللہ کا بھائی‬
‫تھا جا کر عْذر کیا کہ تمہارے بھائی کو ہم سے ایک نا‬
‫دان آدمی نے جو نشہ میں مدہوش تھا مار ڈاال ہے سو ہم‬
‫تم سے عفو کے خواستگار ہیں اور خوں بہا جس قدر‬
‫چاہو دینے کو تیار ہیں عمر و خوں بہالینے پر آمادہ ہو‬
‫گیا ۔جب بھائی کی آمادگی کا حال کبشہ بنت معد یکرب‬
‫کو معلوم ہو ا تو اس نے نہایت مالمت آمیزاشعار کہے‬
‫جن میں عمر کو انتقام نہ لینے پر سخت غیر دالئی ہے‬
‫۔آخر عمر و بہن کی مالمت سے متاثر ہو کر انتقام لینے‬
‫کو کھڑا ہو گیا اور مازینوں سے اپنے بھائی کے خون‬
‫کا بدلہ لے کر چھوڑا ‘‘(‪)۳‬‬

‫زمانہ جاہلیت میں اشعار کی تاثیرمیں وہ جادو تھا کہ ناممکن ممکن ہو جا تا تھا‬
‫۔شعراء اپنے اشعار میں جس کی تعریف کرتے اس کی اتنی شہر ت ہو جاتی کہ اس‬
‫کے تمام مسائل دنوں میں حل ہو جاتے ۔‬
‫’’عرب کا مشہور شاعر میمون بن قیس جس کو نا بینا‬
‫اعشی کہتے تھے اس کے کالم میں یہ‬ ‫ٰ‬ ‫ہونے کے سبب‬
‫تاثیر ضرب المثل تھی کہ جس کی مدح کرتا ہے وہ‬
‫عزیز و نیک نا م اور جس کی ہجو کر تا ہے وہ ذلیل‬
‫ورسوا ہو جاتا ہے ایک بار ایک عورت اس کے پاس‬
‫آئی اور یہ کہا کہ میری لڑکیاں بہت ہیں اور کہیں ان کو‬
‫بَر نہیں ملتا اگر تو چاہے تو لوگوں کو شعر کے ذریعہ‬
‫اعشی‬
‫ٰ‬ ‫سے ہمارے خاندان کی طرف متوجہ کر سکتا ہے‬
‫نے اس کی لڑکیوں کے حسن و جمال اور خصائل‬
‫پسندیدہ کی تعریف میں ایک قصیدہ لکھا جس کی بدولت‬
‫ان لڑکیوں کی صورت اور سیر ت کا چرچا تمام ملک‬
‫میں پھیل گیا اور چاروں طرف سے ان کے پیغام آنے‬
‫لگے یہاں تک کہ امراء نے بھاری بھاری مہر مقرر کر‬
‫کے ان سے شادیاں کرلیں لڑکیوں کی ماں جب کوئی‬
‫لڑکی بیاہی جا تی تھی ایک اونٹ بطور شکریہ کے‬
‫اعشی کے واسطے ہدیہ بھیج دیتی تھی‘‘۔(‪)۴‬‬
‫ٰ‬
‫زمانہ جاہلیت میں شعرا کی بہت عزت افزائی کی جاتی تھی شاعر کو اپنے‬
‫قبیلہ کے لیے باعث فخر سمجھا جاتا تھا اور اس قبیلہ کو مبارک باد دی جاتی جس کا‬
‫کوئی فر د شاعری میں ممتاز ہوتا کیونکہ اسے اپنے نسب کی حفاظت کرنے واال‬
‫سمجھا جاتا تھا۔‬

‫زمانہ جاہلیت میں کافی زیادہ تعدا د میں شعراء موجود تھے اور ان کا کالم بھی‬
‫اپنے عہد میں ایک خاص مقام رکھتا تھا۔زمانہ جاہلیت کی شاعری سے متعلق کچھ‬
‫شکوک اس بنا ء پر پائے جاتے ہیں کہ شاعری کی تدوین دوسری صدی ہجری سے‬
‫قبل تک نہیں ہوئی تھی ۔‬

‫ابو عمر و بن العالء کا مقولہ ہے‬

‫’’عرب کی شاعری کا بہت ہی کم حصہ تم تک پہنچا‬


‫ہے اگر وہ بکمال و تما م ملتا تو علم و حکمت اور شعر‬
‫ادب کا بہت بڑا حصہ تم کو ملتا‘‘ (‪)۶‬‬

‫بہر حال زمانہ جاہلیت کی شاعری کا سب سے زیادہ مستند اور معتمد نمونہ وہ‬
‫’’معلقات ‘‘ہیں جس کے متعلق تما م مور خین متفق ہیں کہ یہ اہل عرب کے منتخب و‬
‫پسندیدہ قصائد تھے جنہیں آب زر سے لکھوا کر خانہ کعبہ پر لٹکا دیا جاتا تھا اس دور‬
‫میں مکہ مکرمہ کے قریب ایک جگہ تھی عکاظ ‪،‬جہاں ایک میلہ لگتا تھا اوراسواق‬
‫العرب کے نام سے تجارتی منڈیاں لگتی تھیں ۔‬

‫ان معلقات میں سات شعراء کا کالم تھا جو خانہ کعبہ پر آویزاں کیا گیا تھا س‬
‫سلمی ‪،‬طرفہ‬
‫ٰ‬ ‫لیے اسے سبع معلقات کہا جاتا ہے ان شعراء میں امرؤالقیس ْ‬
‫‪،‬زہیربن ابی‬
‫بن العبد ‪،‬لبیدبن ربیعہ ‪،‬عنترہ بن شداد ‪،‬عمر و بن کلثوم اور حارث بن حلزہ ہیں ان کے‬
‫متعلق لوگوں کی مختلف آراء ہیں لیکن یہ شعری تراکیب اور تخیل و بند ش کے لحاظ‬
‫سے اپنی مثال آپ ہیں گوکہ موضوعات میں عامیانہ پن اور ابتذال نمایا ں ہے لیکن‬
‫پھر بھی زمانہ جاہلیت کی شاعری کی پہچان ہیں ۔‬

‫کسی زبان کے شعراء و مصنفین کا وہ نادر مجموعہ کالم جس میں اْن کے‬
‫جذبات واحساسات کی عکاسی دل نشیں انداز میں کی گئی ہو وہ اس زبان کا ادب‬
‫کہالتا ہے ۔ ادب کسی بھی معاشرے کا آئینہ ہو تاہے جس میں اْس دور کی تہذیب‬
‫سانس لیتی ہوئی دکھائی دیتی ہے ۔‬

‫اس تناظر سے دیکھا جائے توعربی زبان کا ادب دْنیا کی تمام زبانوں کے ادب‬
‫سے زیادہ ماال مال ہے کیونکہ اس کا آغاز اس دْنیا میں تمدن انسان کی پیدائش سے ہو‬
‫تا ہے اور مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق انتہاء عربی تہذیب و تمدن کے مٹنے پر‬
‫ہو گی۔ کیونکہ قرآ ن مجید تاقیامت اس کائنات میں بحفاظت رہے گا ۔زمانے کے‬
‫سردوگرم کے باوجود یہ زبان اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہے ۔ گویا یہ‬
‫ایک سمند ر ہے جو تمام زبانوں کو اپنے اندرجذب کرنے کی صالحیت رکھتی ہے ۔‬

‫’’عرب ایک جزیرہ نماہے جو برا عظم ایشیا کے جنوب‬


‫مغرب میں واقع ہے شمال میں شام کی حدود سے اس‬
‫کی حدیں ملتی ہیں ۔مشرق میں دریا ئے فرات اور بحر‬
‫ہند واقع ہے ۔جنوب میں بھی بحر ہند نے اس کو گھیر‬
‫رکھا ہے اور مغرب میں بحیرہ احمر ہے‘‘(‪)۱‬‬

‫سر زمین عرب اہل اسالم کے لیے ابتدا ہی سے الئق تعظیم رہی ہے اور رہے‬
‫گی کیونکہ یہ انبیاء کی سر زمین ہے جو انسانیت کو راہ ہدایت دکھانے کے لیے‬
‫آئے۔اُن کے فیوض و بر کا ت کی بدولت اس خطے کے حدود اربعہ اور خصوصا ً سر‬
‫سلم ہے ۔‬
‫زمین حجاز کی اہمیت اپنی جگہ ُم ّ‬

‫’’شمال کے پہاڑی سلسلے میں پْرانے زمانے میں وہ‬


‫قومیں آباد تھیں جنہیں تورات میں عدومی اور مدیانی‬
‫کہاگیا ہے ۔ اس کے بعد حجاز آتا ہے جس میں مشہورو‬
‫معروف شہر مدینہ واقع ہے حجاز ہی میں مکہ اور جدہ‬
‫واقع ہیں مختلف زمانوں میں عرب میں مختلف قومیں‬
‫آباد رہی ہیں ۔عرب میں سب سے آخر آباد ہونے والے‬
‫ابراہیم‬
‫ؑ‬ ‫آل اسمٰ عیل کہالتے ہیں ۔حضرت اسمٰ عیل ؑ حضرت‬
‫کے بیٹے تھے ۔آپ مکے کے قریب آباد ہوگئے ۔آپ کی‬
‫اوالد حجاز میں پھیل گئی ۔انہوں نے عربی عظمت کی‬
‫بنیاد رکھی ۔ حضرت ابراہیم نے کعبہ کی تعمیر کی ۔قدیم‬
‫االیام عرب اس عباد ت گاہ کی تعظیم کرتے چلے آرہے‬
‫ہیں ۔آج خانہ کعبہ اسالمی دْنیا کا مقدس ترین مقام ہے‬
‫‪،‬حجراسود اسی خانہ کعبہ میں ہے‘‘ ۔ (‪)۹‬‬

‫رشتے ناتے ‪،‬تعلقات سب باہمی میل جول کی بدولت پروان چڑھتے ہیں اگر‬
‫روابط ٹوٹ جائیں تو رشتوں کی ڈور بھی ٹوٹ جاتی ہے ۔ کہنے سننے کو کچھ باقی‬
‫نہیں رہتا ۔انسان عرب ی زبان کا لفظ ہے جس کے معانی ہیں محبت رکھنے واال انسا ن‬
‫کبھی اکیال نہیں رہتا ۔ وہ محبت کا پْتال ہو تاہے ‪ ،‬وہ کاروبار لین دین اور سیرو سیاحت‬
‫غرض کہ ہر کام میں باہمی تعاون کا خواہاں ہو تا ہے ۔یہ باتیں انسان خود نہیں سیکھتا‬
‫بلکہ معاشرہ اْسے یہ آداب سکھاتا ہے ۔‬

‫َََ اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ وہ زمانہ جسے ہم دور جاہلیت کہتے ہیں اس‬
‫میں انسانی تہذیب کس دور ا ہے پر تھی ؟دنیا کی دیگر اقوام کے ساتھ اس کے تعلقات‬
‫کس نوعیت کے تھے ؟کیا اْن تعلقات کی اساس سیاحت تجارت یا مذہب تھی ؟‬
‫عموما َ ََتاریخ کا سرسری مطالعہ کرنے والوں نے یہ نتیجہ اخذکیا ہے کہ سر زمین‬
‫حجاز سے اہل ہند کا رشتہ دین اسالم کی مرہون منت ہے ۔‬

‫دعوی ہے کہ ہند وستان سے اْن کا تعلق ہزاروں برس پْرانا ہے‬‫آریا قوم کا ٰ‬
‫ْ‬ ‫لیکن اہل عرب کا ٰ‬
‫دعوی ہے کہ ان کا تعلق ہندوستان سے چند ہزار برس پْرانا نہیں‬
‫بلکہ ہندوستان ان کا پدری وطن ہے ۔‬

‫’’حدیثوں اور تفسیروں میں جہاں حضرت آدم کا قصہ‬


‫ہے وہاں متعدد روایتوں سے یہ بیان آتا ہے کہ حضرت‬
‫آدم جب آسما ن کی جنت سے نکالے گئے تو وہ اسی‬
‫زمین کی " جنت " میں جس کا نام " ہندوستان جنت‬
‫نشان " ہے اْتارے گئے ۔سر اندیپ (لنکا) میں اْنہوں نے‬
‫پہال قدم رکھا جس کا نشان اس کے ایک پہاڑ پر موجود‬
‫ہے ہندوستان کی اس سر زمین کا نام جس میں حضرت‬
‫آدم اترے " دجناء " ہے کیا یہ کہاجا سکتا ہے کہ یہ "‬
‫ؑ‬
‫دجناء " ہندی کا " دکھنا " یا دکھن ہے جو ہندوستان کے‬
‫جنوبی حصہ کا مشہور نام ہے ؟اور چونکہ عرب کے‬
‫ملک میں متعدد قسم کی خوشبوئیں اور مسالے اسی‬
‫جنوبی ہند سے جاتے تھے اور پھر عربوں کے ذریعہ‬
‫وہ تمام دْنیا میں پھیلتے تھے اس لیے اس کا بیان ہے کہ‬
‫آدم‬
‫یہ چیزیں ان تحفوں کی یادگاریں ہیں جو حضرت ؑ‬
‫اپنے ساتھ جنت سے الئے تھے ۔ان تحفوں میں سے‬
‫چھوہارے کے سواد وپھل یعنی لیموں اور کیلے‬
‫ہندوستان ہی میں موجود ہیں‘‘۔(‪)۱‬‬

‫اگر اس اسطور ے کو اہمیت دی جائے کہ واقعی حضرت آدم ؑ سب سے پہلے‬


‫ہندوستان کی زمین میں اْتارے گئے تو اہل ہند کے لئے یہ بہت بڑا اعزاز ہے کہ عرب‬
‫اور اہل ہند کا رشتہ کتنا گہرا اور پْرانا ہے تا ہم اہل تحقیق نے اس راز سے پردہ اْٹھا‬
‫کر ثابت کر دیا ہے کہ اسالم سے بہت پہلے دونوں قوموں کے درمیان تعلقات قائم ہو‬
‫چکے تھے اور اہل عرب تجارت کی غرض سے ہندوستان آباد ہو گئے اور یہاں پر‬
‫انہوں نے اپنی نو آبادی بنالی تھی ۔‬

‫میر آزاد بلگر امی نے ’’سحبۃ المرجان فی آثار ہندوستان ‘‘ میں کئی صفحے‬
‫ہندوستان کے فضائل کے بیان کے نذر کیے ہیں اور اس میں یہاں تک کہاہے کہ جب‬
‫آدم ؑ سب سے پہلے ہندوستان اْترے اور یہاں ان پر وحی آئی تو یہ سمجھنا چاہیے کہ‬
‫یہی وہ ملک ہے جہاں خدا کی پہلی وحی نازل ہوئی اور چونکہ نور محمدی حضرت‬
‫آدم ؑ کی پیشانی میں امانت تھا اس سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ محمد رسول ﷺ کا ابتدائی‬
‫ظہور اسی سرزمین میں ہوا ۔اسی لیے آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے ہندوستان کی طرف‬
‫سے ر بانی خوشبو آتی ہے۔(‪)۸‬‬

‫اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا تعلق ہندوستان سے محمد بن قاسم کی‬


‫فتوحات سے بہت پہلے کا ہے یہ اْن کا مفتوحہ ملک نہیں بلکہ پدری وطن ہے ۔‬

‫ہندوستا ن کے تعلقات اردگرد کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ ہمیشہ خوشگوار‬


‫رہے ہیں ٰلہذامسلمانوں کی آمدورفت یہاں پر زمانہ اسالم سے قبل تھی لیکن تہذیبی اور‬
‫لسانی لحاظ سے یہ مختلف گروہوں سے تھے یعنی عرب ‪،‬ترک اور ایرانی ان کا یہاں‬
‫پر آناجانا محض اتفاقا َ ََ نہیں تھا بلکہ وہ یہاں خاص مقصد سے آتے تھے اور یہاں‬
‫کے مختلف عالقوں سے واقف تھے اس لیے وہ ان پر اپنے اثرات چھوڑ رہے تھے‬
‫اور خود بھی ان سے اثرات قبول کر رہے تھے۔‬

‫حضرت آدم ؑ کے ورود ارض کے واقعے کو مختلف مفسرین نے بیان کیا ہے‬
‫چنانچہ عالمہ ابن کثیر دمشقی کا بیان بھی اس حوالے سے ہے۔‬
‫’’اور ابن آدم ہند میں اُترے ان کے ساتھ سنگ اسود اور‬
‫ایک ُمٹھاجنت کے پتوں کا پھر پھیالدیااس کو ہندو ستان‬
‫میں ‘‘۔ (‪)۱۰‬‬

‫ابو القاسم فرشتہ نے حضرت آدم ؑ کے ساتھ آدم ثانی حضرت نوح ؑ کی نسل کا‬
‫بھی ورود ہندوستان کا واقعہ مختلف انداز میں بیان کیا ہے اس سے یہ بھی ثابت ہوتا‬
‫ہے کہ ہندوستان کو ہند کا نام بھی اہل عرب نے دیا تھا اور ہند کا لفظ عربوں میں بہت‬
‫پہلے مستعمل تھا ۔‬

‫ابو القاسم فرشتہ نے ہند وستان کے بارے میں تفصیالت بیان کرتے ہوئے‬
‫لکھاہے ۔‬

‫’’ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت ابو بشر ؑ کے پیشتر آدم‬


‫خاکی کوئی دُنیا میں پیدا نہیں ہواہماری تحقیق یہ ہے کہ‬
‫ہندوستان بھی دُنیا کے دوسرے ممالک کی طرح‬
‫حضرت آدم ؑ کی اوالد سے آباد ہوا ۔طوفان کے بعد‬
‫حضرت نوح ؑ نے اپنے تینو ں بیٹوں یعنی سام اور یافت‬
‫اور حام کو خدا کے حکم سے دُنیا کے چاروں طرف‬
‫بھیجاحام کے مشہورترین بیٹے نے جس کا نام ہند تھا‬
‫مملکت ہندوستان کی طرف توجہ کی اور اسے خوب آباد‬
‫سبزہ زار بنایااس کے دوسرے بھائی سند ھ نے ملک‬
‫سند ھ میں اپنا قیام کراکے شہر تہت(ٹھٹھ)اور ملتان کو‬
‫اپنے بیٹوں سے آباد کیا ۔ہند کے چار بیٹے پیدا ہوئے‬
‫ایک کا نا م‪ ،‬پورب‪،‬دوسرے کا بنگ ‪،‬تیسرے کا دکن‬
‫‪،‬چوتھے کا نہروال تھا ‪،‬دکن بن ہند کے تین بیٹے پیدا‬
‫ہوئے ایک کا نام مرہٹ ‪،‬دوسرے کا کنٹھر‪،‬تیسرے کا‬
‫تلنگ تھا‘‘۔(‪)۱۱‬‬

‫اس سے یہ اہم بات سامنے آتی ہے کہ سندھ اور ہند دو الگ الگ ملک تھے جو‬
‫بتدریج ایک ہو گئے دوسری اہم بات کہ عرب وہند کے تعلقات اتنے قدیم اور گہرے‬
‫تھے جتنی یہ ُکرہ ارض۔‬
‫عموما َ ََیہ خیال کیا جاتا ہے کہ دریائے سند ھ کی وجہ سے اس عالقے کو‬
‫سندھ کہاگیالیکن یہ سوال اپنی جگہ بر قرارہے کہ دریا کا یہ نا م کس وجہ سے رکھا‬
‫گیا اس سب کے باوجود تاریخی کتب سے یہ با ت ظاہر ہے ۔‬

‫’’اہل عرب بلوچستان کے بعد سے لے کر گجرات تک‬


‫سب کو سندھ سمجھتے تھے‘‘۔(‪)۱۱‬‬

‫عرب سیاحوں اور تاجروں کی ہندوستان آمد سب سے پہلے مختلف سواحل پر‬
‫ہوئی کیونکہ بری راستے نہ ہونے کے برابر تھے ٰلہذ اآمدورفت بحری ر استوں سے‬
‫ہوتی تھی ۔‬

‫’’جنوب کے سواحل تک عربوں ‪،‬ایرانیوں وغیرہ کے‬


‫بیڑے عہد اسالم سے بہت پہلے پہنچ رہے تھے ۔حکیم‬
‫شمس اللہ قادری نے ملیبار سے تجارتی روابط کی‬
‫روایت کو حضرت داود ؑ کے زمانے تک پہنچا دیا ہے‬
‫اس میں شبہ نہیں کہ پہلی صدی ہجری ‪/‬ساتویں صدی‬
‫عیسوی میں مسلمان تاجروں کی بستی سر ندیپ (لنکا‬
‫)میں وجود میں آچکی تھی‘‘۔ (‪)۱۳‬‬

‫متمدن قوموں کا یہ ازل سے دستور رہا ہے کہ وہ کسی ایک خطے میں قلعہ‬
‫بند ہو کر نہیں رہ سکتیں ۔وہ اپنے اردگردکے عالقوں اور ممالک سے کسی نہ کسی‬
‫طور رابطے میں رہتی ہیں ‪،‬یہ روابط تجارت کی بدولت مزید پروان چڑھے اوریہ‬
‫تاجرہندوستان کے مشرقی سواحل تک پہنچ گئے ۔‬

‫’’رفتہ رفتہ مسلمان تاجر جزیرہ نمائے دکن کے مشرقی‬


‫سواحل تک بھی پہنچ گئے اور اس عالقے کو انہوں نے‬
‫معبر کے نام سے موسوم کیا ٖ لفظ معبر بدیہی طور پر‬
‫عربی ہے جس کے معنی گھاٹ کے ہیں اس عالقے میں‬
‫گھوڑے نہیں ہوتے تھے مسلمان تاجر یہا ں گھوڑے‬
‫الکر فروخت کرتے تھے اور معبر کے باشندے‬
‫مسلمانوں سے جانوروں کے ذبح کرانے کا کا م لیتے‬
‫تھے‘‘۔(‪)۱۴‬‬
‫علیحدہ بحث‬‫زبان کاآغاز اس کائنات میں نسل انسانی کی ابتداء سے ہوا یہ ایک ٰ‬
‫ہے کہ تہذیب و ثقافت اور جغرافیائی حدود کی بدولت مختلف بولیوں نے جنم لیا اور‬
‫اس کے ساتھ لہجے کی تبدیلی نے زبان وادب پر نمایاں اثرات مرتب کیے ۔زبا ن میں‬
‫تبدیلیاں معاشرتی تبدیلیوں کی عکاس ہوتی ہیں ۔ اگر کسی قوم کے تما م افراد بال‬
‫تخصیص رنگ ونسل متحدہوں لیکن زبان مختلف ہو تو یہ اتحاد جلد ہی پارہ پارہ ہو‬
‫جاتا ہے زبان خیاالت کے اظہار کا بہت بڑا وسیلہ ہے ۔‬

‫’’زبان کے آغاز کے بارے میں قدیم ترین نظریہ مذاہب‬


‫کا ہے جن میں زبان کی اصل الہامی قرار دی گئی ہے ۔‬
‫بعض مذاہب نے اپنی زبان کو قدیم ترین قرار دیا ہے ۔‬
‫انجیل کے مطابق ابتداء انسانوں میں ایک زبان عبرانی‬
‫رائج تھی اہل بابل نے ایک مینار بنایا تاکہ آسمان پر‬
‫چڑھ کر خدا سے معرکہ کر سکیں خدا نے اس ا ُ ّمت کو‬
‫سزا دینے کے لیے یہ عتاب نازل کیا کہ مینار میں‬
‫چڑھے ہوئے ہر شخص کی زبان مختلف کر دی ۔ وہ‬
‫ایک دوسرے کی بات سمجھنے کے قابل نہیں رہے‬
‫۔روایت کے مطابق ان لوگوں کی مختلف زبانوں سے‬
‫دنیا کی مختلف زبانیں پیدا ہوئیں ۔اسالمی عقیدے کے‬
‫مطابق خدانے حضرت آدم کو اشیاء کے نام سکھائے‬
‫قرآن کالم اللہ ہے جس کے نتیجے میں عربی آسمانی‬
‫زبان قرار پاتی ہے‘‘۔(‪)۱۶‬‬

‫زبان کے حوالے سے ایک اہم بات یہ ہے کہ کوئی بھی انسان اپنی زبان سے‬
‫ہٹ کر دوسری زبان اسی وقت سیکھتا ہے جب اْسے ضرورت پیش آتی ہے کیونکہ‬
‫بنیادی حیثیت تو مادری زبا ن اور قومی زبان کی ہوتی ہے لیکن عربی زبان اس لحاظ‬
‫مستثنی ہے کیونکہ مذہبی نقطہ نظر سے یہ ہمارے لیے‬ ‫ٰ‬ ‫سے اس صورتحال سے‬
‫ہمیشہ سے قابل احترام رہی ہے ۔عربی زبان کی قدامت کا حتمی اندازہ لگانا شاید محقق‬
‫کے لیے ممکن نہیں بہر حال یہ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ جاہلی شاعری کاخاتمہ‬
‫‪ ۱۱۰‬ء میں آنحضرت ﷺ کی بعثت اور ظہورا سالم کے ساتھ ہو جاتا ہے عربی زبان‬
‫ایک مدت تک تو جزیر ہ عرب تک ہی محدود رہی لیکن اس کو ہمہ گیریت اس وقت‬
‫حاصل ہوئی جب اسالم کا ظہور ہوا اور قرآن پاک کا نزول عربی زبان میں ہونے لگا‬
‫ابتدا میں اسالم جزیر ہ عرب تک ہی رہا لیکن جب فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا‬
‫توعرب مسلمان مختلف ممالک میں گئے اور ان کے ساتھ ان کی عربی زبان بھی گئی‬
‫۔بعض ممالک ایسے بھی تھے جہاں عربوں کاتسلط قائم ہوا اس طر ح وہاں عربی‬
‫زبان رواج پاگئی اور بہت سے ممالک میں عربی بولی اور سمجھی جانے لگی اور‬
‫یوں یہ ان ممالک کی زبان قرار پائی ۔‬

‫عربی زبان کی یہ خصوصیت تمام زبانوں پرحاوی ہے کہ اس کی صر ف‬


‫ونحو میں صدیاں گزرجانے کے بعد بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی اور یہ دْنیا کی قدیم‬
‫زبانوں میں سے ایک ہے اور ‪ ۱۱۰‬ء میں ظہور اسالم سے پہلے موجود تھی ۔‬

‫’’عربی ایک سامی زبان ہے یعنی ان قوموں کی زبان‬


‫نوح کے بیٹے سام کی نسل سے تھیں۔سامی‬
‫جو حضرت ؑ‬
‫اقوام کا وطن ّاول وادی فرات یا دجلہ اور فرات کے‬
‫درمیان کا عالقہ تھا ۔جب یہ تعداد میں زیادہ ہو گئے تو‬
‫آس پاس کے عالقوں میں پھیل گئے ۔بابلی اور اشوری‬
‫عراق میں آگئے ۔آرامی شام میں عبرانی فلسطین میں‬
‫فینیقی ساحل شام اور لبنان میں ‪،‬عرب جزیرہ نمائے‬
‫عرب میں اور کچھ دوسرے لوگ حبشہ چلے گئے ۔‬
‫گمان غالب یہ ہے کہ سامی زبانوں میں عربی زبان ہی‬
‫اصل اور بنیادی زبان کے سب سے زیادہ قریب ہے اس‬
‫لیے کہ یہ دنیا سے کٹ کر رہنے کی وجہ سے ان‬
‫تغیرات و انقالبات سے محفوظ رہی جن سے دوسری‬
‫زبانیں دو چار ہوئیں‘‘ ۔ (‪)۱۱‬‬

‫عربی زبان سامی اال صل ہے اس حقیقت کو تسلیم کیا جا چکا ہے اس حوالے‬


‫سے مختلف محققین نے اپنی آراء پیش کی ہیں‬

‫نوح سے منسوب ہیں جن کا ذکر‬


‫’’سامی زبانیں سام ابن ؑ‬
‫انجیل مقدس اور قرآن شریف میں پایا جاتا ہے اور جن‬
‫علی ہیں‬
‫کی نسبت مشہور ہے کہ ان تمام قوموں کے جدا ٰ‬
‫حواس وقت سامی زبانیں بولتی ہیں ۔سامی کی‬
‫مشہورشاخوں میں آشوری جس میں شام اور بابل کی‬
‫مفقود زبانیں شامل ہیں عبرانی ‪،‬فینیقی ‪،‬عربی اور چند‬
‫حبشی بولیوں کا شمار کیا جاتا ہے عبرانی اور عربی‬
‫نے یہودیوں اور مسلمانوں کی مذہبی کتابوں کی وجہ‬
‫سے اس جتھے میں سب سے زیادہ اہمیت حاصل کرلی‬
‫ہے‘‘۔(‪)۱۹‬‬

‫عربی زبان کی ساخت اور طرح کی ہے اور ہندی زبانوں کی اور طرح ہے‬
‫پھر کیا وجہ ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کا رشتہ عربی زبان سے جْ ڑا رہا ؟‬

‫اس کی وجہ یقینا َ ََیہی ہے کہ مسلمانوں کا مذہبی معتقدات کی وجہ سے سے‬


‫عربی سے رشتہ رہا ۔صوفیا ئے کرام نے مکہ ‪،‬مدینہ ‪،‬مصر اور دمشق کے مدرسوں‬
‫سے تعلیم وتربیت حاصل کی لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب النے کا سب سے بڑا‬
‫ذریعہ زبان ہوتی ہے ۔زبان کو سمجھے بغیر باہمی بات چیت اور اس ملک کی تہذیب‬
‫وثقاف ت کو سمجھنا انتہائی مشکل ہے ۔ عربی زبان سے لگاؤہمارے دلوں میں اس حد‬
‫تک جاگزیں ہے کہ اگر کوئی درسی تعلیم حاصل نہ بھی کرے لیکن عربی میں قرآن‬
‫مجید پڑھانا بہت اہم خیال کیا جاتا ہے ۔اْردو حروف تہجی جو کہ عربی ‪،‬فارسی اور‬
‫اْردو کا مرکب ہے ۔اس میں عربی کے ‪۱۱‬حروف ہیں اس کے باوجود اْردو زبان‬
‫مزاجا َ ََ فارسی سے زیادہ قریب ہے جبکہ عربی اور اْردو زبان سیکھنا مشکل ہے ۔‬

‫اْردو اور عربی میں کیا باہمی مناسبت ہے اس میں کسی کو کالم نہیں ہو سکتا‬
‫کہ اْردوآریائی زبان ہے اور عربی سامی زبان یہ صر فی زبان ہے اور وہ غیر صرفی‬
‫زبان ۔دونوں میں نہ صرفی یگانگی اور ہم آہنگی ہے نہ نحوی اور لسانیاتی ۔اْردوکی‬
‫طبعی ساخت عربی کی ساخت سے مختلف ہے نواب حیدر یار جنگ کی رائے تسلیم‬
‫کی مستحق ہے ۔انہوں نے فرمایا‪:‬‬

‫’’مختلف زبانوں کے مختلف اوزان کی وجہ یہ ہے کہ‬


‫ہر زبان کا خاص لہجہ ہوتا ہے اس کے الفاظ میں خاص‬
‫اوزان ہوتے ہیں ۔المحالہ وزن شعر بھی جدا گانہ ہو‬
‫گا‘‘۔(‪)۱۱‬‬

‫دین اسالم پر پختہ یقین سے ہی ہمارے ایمان کی تکمیل ہو تی ہے اسالم کے‬


‫بعد اہل عرب اور اہل ہند کا رشتہ مزید مضبوط ہو گیا وہ رشتہ اخوت سے ُجڑ گئے‬
‫اور فاصلے خود بخود سمٹ گئے ۔اسالم نے حسب نسب کے لحاظ سے بڑائی کی نفی‬
‫کی ہے۔ فضیلت کی بنیاد تقو ٰی کو قرار دیا ہے ۔قومیں اور قبیلے صرف انسان کی‬
‫پہچان کے لیے ہیں یہاں یہ تذکرہ اس لیے برمحل ہے کہ سادات آل زین العابدین نیم‬
‫ہندوستانی ہیں۔‬
‫ََ’’موجودہ سادات خاندانوں کا بہت بڑا حصہ حضر ت‬
‫امام حسین کے صاحبزادہ حضرت امام زین العابدین کی‬
‫نسل سے ہے ۔ حضرت زین العابدین کی ماں عرب نہ‬
‫تھیں۔ ایرانیوں کا دعو ٰ ی ہے کہ وہ ایرانی تھیں اور‬
‫خاندان شاہی سے تھیں مگر مورخوں میں سے بعض‬
‫نے ان کو سند ھ کی بتایا ہے اور یہ کہنا بھی صحیح ہو‬
‫گا کہ اور مسلمان ہو نیا نہ ہوں مگر سادات آل زین‬
‫العابدین علی ہمیشہ سے نیم ہندوستانی ہیں‘‘۔(‪)۱۸‬‬

‫انسان فطرتا َ ََ اختراع پسنداور حریص ثابت ہوا ہے کہ نئی دنیا کی تالش اور‬
‫اس پر اپنا قبضہ مسلط کرنا در ہ خیبر سے آنے والے مسلمان ترکوں اور افغانوں کی‬
‫سر شت میں شامل تھا محمود غزنوی نے الہور ‪۴۱۱‬ھ میں فتح کر لیا لیکن سینکڑوں‬
‫سال گزرنے کے بعد بھی جنوبی ہندوستان مسلمانوں کے قبضے میں نہ آسکا ۔‬

‫’’اہل عرب اور اہل ہند کے تعلقات میں پائیداری سیاحت‬


‫کی بدولت ہوئی ۔عرب سیاح تیسری صدی ہجری میں‬
‫سند ھ اور ملتان کے مختلف عالقوں میں آتے رہے اور‬
‫یہاں کے بارے میں انہوں نے اظہار خیال بھی کیا ہے‬
‫۔مسعودی نے منصورہ اور ملتان کے بیان میں یہ لکھا‬
‫ہے کہ ‪۴‬۔‪۳۰۳‬ھ‪۱۱‬۔‪۸۱۶‬ء میں جب اس نے ان شہروں‬
‫کو دیکھا تھا تو یہ خوشحال اور ترقی یا فتہ تھے‘‘‬
‫۔(‪)۱۰‬‬

‫محمد بن قاسم کی آمد (‪۹۱۱‬ء)سے بہت پہلے عرب سیاح ہندوستا ن آتے تھے‬
‫کیونکہ وہ اس خطے سے ایک خاص اْنسیت محسوس کرتے تھے ۔‬

‫’’ہندوستان اور عرب دْنیا کے وہ ملک ہیں جو ایک‬


‫حیثیت سے ہمسایہ اور پڑوسی کہے جا سکتے ہیں ان‬
‫دونوں کے بیچ صرف سمند ر حائل ہے جس کی سطح‬
‫پر ایسی وسیع اور لمبی چوڑی سڑکیں نکلی ہیں جو‬
‫ایک ملک کو دوسر ے سے باہم مالتی ہیں یہ دونوں‬
‫ملک ایک سمند رکے آمنے سامنے کے خشکی کے‬
‫کنارے ہیں اس جل تھل سمندر کا ایک ہاتھ اگر عربوں‬
‫کے ارض حرم کا دامن تھامے ہے تواس کا دوسراہاتھ‬
‫ہندوؤں کے آریاورت کے قدم چھوتا ہے دریا کے‬
‫کنارے ملک فطرۃ َََ تجارتی ہوتے ہیں یہی پہال رشتہ‬
‫ہے جس نے ان دونوں قوموں کو باہم آشنا کیا ۔ عرب‬
‫تاجرہزاروں بر س پہلے سے ہندوستان کے ساحل تک‬
‫آتے تھے اور یہاں کے بیوپار اور پیداوار کو مصر اور‬
‫شام کے ذریعہ یورپ تک پہنچاتے تھے اور وہاں کے‬
‫سامان ہندوستان‪ ،‬جزائر ہند ‪،‬چین اور جا پان تک لے‬
‫جاتے تھے ۔‘‘(‪)۱۱‬‬

‫اہل عرب اور اہل ہند کے درمیان تعلقات کا ایک اور ذریعہ بھی تھا۔ ’’اس کی‬
‫صورت یہ تھی کہ شہنشاہ ایران کا قبضہ بلوچستا ن اور سندھ پر اکثر رہا اس قبضہ‬
‫کے تعلق سے سندھ کے بعض جنگجوقبیلوں میں سے دوکا ذکر عربوں نے کیا اور وہ‬
‫سید ہیں ۔یہ دونوں سندھ کی مشہور قومیں تھیں ۔‬
‫جات (زط)اور ّ‬

‫ایک حدیث میں ہے کہ عبداللہ بن مسعود صحابی نے آنحضرت ﷺ کے ساتھ‬


‫ایک خاص شکل صورت کے لوگوں کو دیکھا تھا جن کی نسبت انہوں نے یہ بتایا کہ‬
‫ان کا چہرہ جاٹوں کی طرح تھا ۔اس سے معلوم ہوا کہ اہل عرب چھٹی صدی عیسوی‬
‫میں بھی جاٹوں سے واقف تھے ۔(‪)۱۱‬‬

‫ہندوستان کو ہند کا نام بھی اہل عرب اور اہل فارس نے دیا ۔اس سے پہلے اس‬
‫پور ے ملک کا کوئی نام نہ تھا ہر صوبہ کا الگ الگ نا م تھا۔‬

‫’’یہ عجیب حیرت انگیزبات ہے کہ " ہند " کا لفظ‬


‫عربوں کو ایسا پیار ا معلوم ہوا کہ انہوں نے ملک کے‬
‫نام پر اپنی عورتوں کا یہ نام رکھا ۔چنانچہ عربی‬
‫شاعری میں یہ نام وہ حیثیت رکھتا ہے جو فارسی میں‬
‫لیلی اور شیریں کی ہے ‘‘۔(‪)۱۳‬‬
‫ٰ‬

‫اسالم کے بعد سیاحت دو طرفہ ہو گئی ۔‬


‫تبلیغ اسالم کے سلسلے میں جو عرب سیاح آتے تھے وہ در اصل مہذب‬ ‫‪۱‬۔‬
‫جاسوس تھے اور تاجروں کے مددگار بھی ۔‬

‫اسالم کے بعد پہلی بڑی یلغار محمد بن قاسم کی سندھ میں آمد تھی اس سے‬ ‫‪۱‬۔‬
‫عرب وہند کے تعلقات کو بہت فروغ مال محمد بن قاسم کی ہندوستان آمد کا خاص‬
‫مقصد تھا ۔‬

‫’’سنہ ‪۱۱‬ھ (‪۹۰۶‬ء)میں دمشق کے تخت شاہی پر جب‬


‫ولید اموی بیٹھا اور اس کی طرف سے حجاج عراق و‬
‫ایران و مکران و بلوچستان یعنی حکومت کے مشرقی‬
‫مقبوضات کا نائب مقرر ہوا تو اس نے ہندوستان اور اس‬
‫کے جزیروں کے سا تھ اپنے تعلقات اورمضبوط کیے‬
‫۔عرب تاجر برابر آتے جاتے رہتے تھے مگر ساتھ ہی‬
‫ساتھ ہندوستان کے اکثرساحلوں سے بحری قزاق ان‬
‫جہازوں پر ڈاکہ ڈاال کرتے تھے لنکا میں کچھ عرب‬
‫سوداگر تجارت کرتے تھے ۔ان کا وہاں انتقال ہوگیا لنکا‬
‫کے راجہ نے ان کی عورتوں اور بچوں کو ایک جہاز‬
‫پر سوار کر کے عراق روانہ کیا ۔راستہ میں سندھ کی‬
‫بند رگاہ کے قریب ڈاکوؤں نے اس پر چھاپہ مارا اور‬
‫عورتوں کو پکڑ لیا ۔ان عورتوں نے اس مصیبت کے‬
‫وقت حجاج کی دہائی دی حجاج کو جب اس کی خبر‬
‫ہوئی تو اس نے سندھ کے راجہ داہر کو لکھ بھیجا کہ ان‬
‫عورتوں کو حفاظت کے ساتھ میرے پاس بھجوا دو‬
‫۔راجہ نے معذرت کی کہ یہ دریائی ڈاکوؤں کا کام ہے‬
‫جو ہمارے قبضہ میں نہیں ۔عراق کے نائب نے اس‬
‫معذرت کو قبول نہ کیا ۔ اسی دور ان یہ واقعہ بھی پیش‬
‫آیا کہ مکران سے کچھ عرب مجرم بھاگ کر سندھ میں‬
‫پناہ گزیں ہوئے اور اْنہوں نے راجہ داہر کی ماتحتی میں‬
‫اپنا جتھا بنا لیا ۔اس واقعہ نے حجاج کو مشتعل کیا‬
‫چنانچہ اس نے اپنے نوجوان بھتیجے محمد بن قاسم کی‬
‫سر کردگی میں شیراز سے چھ ہزار فوج سندھ روانہ‬
‫کی اور کچھ فوج مع سامان کے دریائی راستہ سے سندھ‬
‫کی طرف بھیجی اور اس کی کمک کے لئے ایران کے‬
‫پرانے راستہ خشکی کی طرف سے بھی فوجیں بھیجیں‬
‫سنہ ‪۸۳‬ھ(‪۹۱۱‬ء)میں محمد بن قاسم سندھ پہنچا اور تین‬
‫برس کے عرصہ میں چھوٹے کشمیر کی سرحد ملتان‬
‫سے لے کر کچھ تک اور ادھر مالوہ کی سرحد تک‬
‫قبضہ کر لیا اور پورے سندھ میں اس نے نہایت عدل‬
‫وانصاف اور امن کی سلطنت قائم کردی سنہ ‪۸۱‬ھ میں‬
‫ولید نے وفات پائی اور اس کی جگہ تخت پر سلیمان‬
‫بیٹھا اس کو حجاج اورا س کے خاندان اور کارندوں کے‬
‫ساتھ ذاتی عداوت تھی اس لیے اس سال حجاج کے مقرر‬
‫کردہ دوسرے افسروں کے ساتھ محمد بن قاسم کو بھی‬
‫اس نے سندھ سے واپس بْالیا اور باآلخر اپنے ذاتی انتقام‬
‫کے نشہ میں اس کوقتل کرادیا ۔جب محمد بن قاسم سندھ‬
‫سے واپس جانے لگا تو سندھ کی رعایا نے اپنے نیک‬
‫دل اور عادل فاتح کی جْ دائی میں آنسو بہائے اور اس کی‬
‫یادگار میں اس کا بُت بنا کر کھڑا کیا ‘‘۔(‪)۱۴‬‬

‫محمد بن قاسم کے بعد مختلف عرب گورنر سندھ آتے رہے اور فتوحات کا‬
‫سلسلہ جا ری رکھا ۔ جب عراق عرب سلطنت کا صوبہ قرار پایا تو حکومت کا مرکز‬
‫دمشق کی بجائے بغداد چالگیا ۔اس انقالب نے ہندوستان اور عرب کے فاصلوں کو‬
‫مزید کم کر دیا ۔‬

‫"سنہ ‪۹۶۸‬ء میں ہشام سندھ کا گورنر ہوکر آیا ۔اس نے‬
‫عمر بن جمل نام ایک افسر کو جہازوں کا ایک بیڑا دے‬
‫کر گجرات بھیجا ۔وہ لوٹ مار کر چند روز میں ناکام‬
‫واپس آگیا اور آخر ہشام نے خود ایک بیڑا لے کر‬
‫بھروچ کے قریب گندھار پر قبضہ کیا ۔اور یہاں اس نے‬
‫اپنی فتح کی یادگا ر میں ایک مسجد بنوائی یہ اس ملک‬
‫گجرات میں اسالم کا پہال قدم تھا اور سندھ کے عالوہ‬
‫ہندوستان میں یہ پہلی مسجد تھی " (‪)۱۶‬‬

‫اسالم کے بعد عرب وہند کے تعلقات میں ایک خاص گہرائی پیدا ہوگئی جوان‬
‫کو ایک دوسرے کے قریب الئی ۔اس کی وجہ ان کا مرکز ایک تھا ۔سر زمین حجاز‬
‫سے اہل ہند کے عشق کی وجہ روضہ رسول ﷺاور خانہ خدا تھا جو کہ تا قیامت رہے‬
‫گا ۔اہل عرب کی زبان عربی کو سب سے اہم سمجھنے کی وجہ قرآن پاک کا عربی‬
‫زبان میں نزول ہے ۔‬

‫سیاحت بھی در حقیقت ایک طرح سے سفار ت کاری تھی ۔عرب سیاح قافلوں‬
‫کی صورت میں جاتے تھے اور اپنے ممالک کو تجارت کے بارے میں معلومات‬
‫دیتے تھے ۔‬

‫‪۹،۱‬اور ‪ ۸‬صدی عیسوی میں بہت سے عرب سیاحوں نے ہندوستان کا سفر کیا‬
‫اور اپنے سفر ناموں میں ان کا ذکر بہت تفصیل سے کیا ہے ان سفر ناموں سے عرب‬
‫وہند کے تعلقات کی گہرائی کا اندازہ ہوتا ہے ۔ یہ سیاح جغرافیہ نویس اور مورخ بھی‬
‫تھے ۔سیاحوں نے عرب و ہند کے تعلقات کو فروغ دینے میں ایک پل کا کردار ادا کیا‬
‫۔‬

‫’’ ابن خردار بہ نوی صدی کا ایک ایسا ہی عرب سیاح اور جغرافیہ نویس ہے‬
‫جس نے عربی زبان میں سب سے پہلی کتاب لکھی جس میں ہندوستان کا ذکر بھی ملتا‬
‫ہے ۔‬

‫"اس وقت عربی زبان میں جغرافیہ کی سب سے پہلی‬


‫کتاب جس میں ہندوستان کا کچھ حال ملتاہے وہ ابن‬
‫خرداربہ (سنہ ‪۱۶‬ھ )کی کتاب المسالک والممالک ہے "‬
‫۔(‪)۱۱‬‬

‫ہندوستان کے لیے اہل عرب ایک خاص کشش محسوس کرتے تھے اسی‬
‫تجسس کی بنا پر وہ وقتا َ ََ فوقتا َ ََ ہندوستانی ساحل کا چکر لگاتے رہتے تھے ۔‬

‫’’یہ سب سے پہال عرب سیاح ہے جس کا سفر نامہ ہم‬


‫تک پہنچا ہے ۔سنہ ‪۱۱۱۱‬ء میں پیرس میں سلسلہ‬
‫التواریخ کے نام سے یہ چھپا ہے ۔ یہ ایک سود اگر تھا‬
‫جو عراق کی بند رگاہ سے چین تک سفر کیا کرتا تھا‬
‫اور اس طرح یہ ہندوستان کے پورے سواحل کا چکر‬
‫لگایا کرتا تھا ۔اس نے اپنے یہ مختصر حاالت سنہ‬
‫‪۱۳۹‬ھ میں لکھے ہیں جس کو آج قریب قریب گیا رہ سو‬
‫برس ہوتے ہیں ‘‘۔ (‪)۱۹‬‬

‫ہندوستان کی تہذیب و ثقافت اور ماحول اہل عرب کے لیے مقناطیسیت رکھتا‬
‫تھا ۔لہذا وہ ہندوستانی سواحل کی طرف کھنچے چلے آتے تھے حاالنکہ اْن کے پیش‬
‫نظر جو مقصد ہو تا تھا وہ محض سیاحت ہی تھا لیکن ان کے سفر ناموں میں اہل‬
‫عرب جب ہندوستان کی معاشرت کو دیکھتے ہیں تو وہ بالکل ایک الگ تہذیب سے‬
‫شناسا ہوتے ہیں جو اْن کیلئے انوکھی ہونے کے ساتھ ساتھ دلچسپ بھی ہے اور وہ‬
‫اپنی اس دریافت پر فخر محسوس کرتے ہیں ۔‬

‫"سیراف خلیج فارس کی مشہور بندرگاہ تھی ابو زید یہیں کارہنے واال تھا ۔‬
‫‪ ۱۱۴‬ھ کا سنہ اس کی کتاب میں ملتا ہے اور مسعودی سیاح سنہ ‪۳۰۰‬ھ میں سیراف‬
‫میں اس سے مال تھا ۔یہ بھی ایک عرب تاجر تھا ۔اس نے سلیمان تاجر کے سفرنامہ کو‬
‫پڑھ کر اس کے ‪ ۱۶،۳۰‬برس کے بعد اس کا تکملہ لکھا ہے ۔وہ بھی سیراف اور‬
‫ہندوستان اور چین کے درمیان دریائی تجارتی سفر کیا کرتا تھا۔اس نے دعو ٰ ی کیا ہے‬
‫کہ‬

‫’’میں پہال شخص ہوں جس نے یہ دریافت کیا کہ‬


‫ہندوستان اور چین کا سمندر اوپر سے پھر کر بحر‬
‫متوسط میں مل گیا ہے ‘‘۔‬

‫اس سیاح کو یہ دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ یہاں دو آدمی بھی ایک ساتھ مل کر‬
‫نہیں کھاتے اور نہ ایک دستر خوان پر کھاتے ہیں اور اس کو برا عیب سمجھتے ہیں‬
‫۔راجاؤں اور امیروں کے یہاں یہ دستور ہے کہ ناریل کی چھا ل کا تھالی سا کوئی‬
‫برتن روز بنتا ہے اور وہ ہر ایک کے سامنے رکھا جاتا ہے ۔کھانے کے بعد جھوٹا کھا‬
‫نا مع اس چھال کی تھالی کے پھینک دیا جا تا ہے۔(‪)۱۱‬‬
‫ابتداء میں تمام عرب سیاح سمندر کے راستے ہندوستان ساحل تک کا سفر کرتے تھے‬
‫کیونکہ خشکی کے راستے سفر خاصا دشوار اور طویل ہوتا تھا لیکن ایک عرب سیاح‬
‫ایسا ہے جو خشکی کے راستے ہندوستان میں داخل ہوا‬

‫’’ابودلف مسعر بن مہلہل ینبوعی یہ بڑا عرب سیاح ہے‬


‫اس کا زمانہ سنہ ‪۳۳۱‬ھ سے سنہ ‪۳۹۹‬ھ تک یقیناًثابت‬
‫ہے ۔یہ بغداد سے ترکستان آیا اور شاہ بخارا ‪،‬نصر‬
‫سامانی المتوفی سنہ ‪۳۳۱‬ھ سے مال ۔وہاں سے ایک‬
‫چینی سفیر کے ساتھ چین روانہ ہو گیا پھر چین سے‬
‫نکل کر ترکستان ‪،‬کابل ‪،‬تبت اور کشمیر ہو کر ملتان‬
‫‪،‬سندھ اور ہندوستان کے جنوبی سواحل ؔ (کولم )تک‬
‫پہنچا ۔اس نے ملتان کے بْت خانہ کا مفصل تذکرہ کیا ہے‬
‫۔ اسی طرح مدراس کی پیداوار اور مصنوعات کا ذکر‬
‫کیا ہے ۔ غالبا َ ََیہ پہال عرب سیاح ہے جو ہندوستا ن میں‬
‫خشکی کے راستے سے داخل ہوا‘‘۔(‪)۱۸‬‬

‫بعض عرب جہازراں ایسے بھی تھے جو جہاز رانی کے ساتھ ساتھ سیاحت کا‬
‫شوق بھی رکھتے تھے ۔ ایسا ہی ایک سیاح ہندوستان کے ساحلوں اور جزیروں پر‬
‫اپنے جہاز لے کر آتا تھا ۔‬

‫’’بزرگ بن شہر یار سنہ ‪۳۰۰‬ھ یہ ایک جہازراں تھا‬


‫جو اپنے جہازات عراق کی بندرگاہ سے ہند وستان کے‬
‫ساحلوں اور جزیروں سے لے کر چین اور جاپان تک‬
‫لے جاتا اور لے آتاتھا اس نے عجائب الھند کے نام سے‬
‫اپنے اور اپنے دوسرے ساتھیوں کے دریائی مشاہدات‬
‫عربی میں قلمبند کیے ہیں جن میں جنوبی ہند اورگجرات‬
‫کے متفرق واقعات ملتے ہیں ان میں سب سے اہم واقعہ‬
‫ایک ہندو راجہ قرآن کا ہندی میں ترجمہ کرا کر سنتا ہے‬
‫‘‘۔(‪)۳۰‬‬

‫یہ کتاب ‪ ۱۱۱۱‬ء میں لندن میں چھپی ہے اس کا فرنچ ترجمہ تو اسی کے ساتھ‬
‫شائع ہوا ہے ۔مگر انگریزی فروری ‪ 6791‬ء میں چھپ کر نکال ہے ۔‬

‫بعض افراد نے تو اپن ی زندگیاں ہی سیاحت کے لیے تج دیں اس کو وہ اپنی‬


‫تاریخ اور جغرافیے کا حصہ سمجھتے تھے ۔زندگی میں اردگرد کے حاالت سے بے‬
‫خبری دراصل بے حسی ہے ۔سیاحت ایک طرح سے دلچسپ مشغلہ بھی ہے ۔جسے‬
‫کوئی صاحب ذوق ہی اختیار کر سکتاہے ۔ایسا ہی ایک سیاح جس نے اپنی زندگی کے‬
‫پچیس سال سیاحت میں بسر کیے ۔‬
‫’’مسعودی جس کا نام ابو الحسن علی تھا ایک بلند پایہ‬
‫مورخ ‪،‬جغرافیہ نویس اور سیاح کی حیثیت سے مشہور‬
‫ہے اس نے اپنی عمر کے پچیس برس سیرو سیاحت میں‬
‫بسر کئے ۔اس نے اپنے وطن بغداد سے سفر شروع کیا‬
‫اور عراق و شام و آرمینیا ‪،‬روم ‪،‬افریقہ ‪،‬سوڈان ‪،‬زنگ‬
‫کے عالوہ چین ‪،‬تبت ‪،‬ہندوستان اور سراندیپ کا سفر کیا‬
‫‘‘۔(‪)۳۱‬‬

‫مسعودی نے اپنی کتاب’’مروج الذھب ‘‘سنہ ‪۳۳۱‬ھ میں سیرو سیاحت ختم‬
‫کرنے کے بعد لکھی ہے یہ گویا اسالم کی تاریخ ہے مگر اس کے مقدمہ میں تمام دْنیا‬
‫کی قوموں کی اجمالی تاریخ ہے منجملہ اس کے ہندستان بھی ہے اس نے دریاؤں کے‬
‫حاالت بہت مفصل لکھے ہیں ۔ملتان سنہ ‪۳۰۰‬ھ کے بعد اپنا پہنچنا وہ ظاہر کر تا ہے‬
‫اوروہاں کے مسلمان عرب بادشاہ اور وزراء کے نام بتاتا ہے ۔‬

‫بعض سیاح ایسے بھی تھے جنہوں نے سیاحت کے ساتھ ساتھ دْنیا کے نقشے‬
‫بھی تیار کیے تاکہ کسی بھی ملک میں جانا مشکل نہ ہو ایسے ہی ایک سیاح کا نام‬
‫اصطخری ہے۔‬

‫’’ابو سحاق ابراہیم بن محمد فارسی مشہور اصطخری‬


‫کے نا م سے ہے بغداد کے محلہ کرخ کارہنے واال تھا‬
‫۔بہت بڑا سیاح تھا ایشیا کے اکثر ملکوں کی سیاحت کی‬
‫تھی اس کی کتاب ’’مسالک الممالک ‘‘میں عرب اور‬
‫ایران کے بعد ماوراء النھر ‪،‬کابلستان ‪،‬سندھ اور‬
‫ہندوستان کا ذکر ہے ۔ وہ ہندوستان سنہ ‪۳۴۰‬ھ (سنہ‬
‫‪۸۶۱‬ء )میں آیا تھا ۔ اس کا کارنامہ صرف ملکوں کا‬
‫حال لکھنا نہیں بلکہ دینا کا نقشہ تیا ر کرنا ہے ۔ جس‬
‫میں سندھ کا نقشہ بھی ہے ‘‘۔(‪)۳۱‬‬

‫بعض تاجر ایسے بھی تھے جو تجارت کے ساتھ ساتھ سیاحت میں بھی دلچسپی‬
‫رکھتے تھے اورمختلف ممالک کے جغرافیائی حاالت سے باخبر رہنے کے لیے نقشہ‬
‫نویسی میں بھی دلچسپی رکھتے تھے ۔ ابن حوقل ایسا ہی ایک تاجر تھا ۔‬
‫’’یہ بغداد کا ایک تاجر تھا ۔سنہ ‪۳۳۱‬ھ مطابق سنہ‬
‫‪۸۴۳‬ء کو اس نے بغداد چھوڑا اور یورپ ‪،‬افریقہ اور‬
‫ایشیا کے ملکوں کا سفر کیا اسپین اورسسلی سے لے کر‬
‫ہندوستان تک کی زمین اس نے چھان ماری ۔اس نے‬
‫بھی ملکوں کے نقشے تیار کئے مگر افسوس ہے کہ اس‬
‫کے مطبوعہ نسخہ میں یہ نقشے نہیں دیئے ہیں ۔یہ پہال‬
‫عرب سیاح اور جغرافیہ نویس ہے جس کی کتاب میں‬
‫ہندوستان کی پوری لمبائی چوڑائی بتانے کی کوشش کی‬
‫گئی ہے‘‘۔‬

‫سیاحت کے ساتھ ساتھ ایک خاص لسانی اور تہذیبی شعور کا ہونا بہت‬
‫ضروری ہے ۔ یہ شعور ہی کچھ خاص قسم کی تخلیق کا باعث بنتا ہے‬

‫’’شمس الدین محمد بن احمد بشاری شام کے ملک میں‬


‫بیت المقدس کا رہنے واالتھا ۔ اس نے اپنی کتاب سنہ‬
‫‪۳۹۸‬ھ میں ختم کی ۔ اس نے صرف اپنے زمانہ کی دنیا‬
‫ئے اسالم کا سفر کیا ہندوستان بھی آیا مگر سندھ سے‬
‫آگے نہیں بڑھا اس کی کتاب کا نام ’’احسن التقاسیم فی‬
‫معرفۃ االقالیم‘‘ہے ۔ کتاب کا آخری باب سندھ پر ہے ۔‬
‫اس نے ملک کی تقسیم صوبوں پر اور صوبوں کی‬
‫علیحدہ ٰ‬
‫علیحدہ ذکر‬ ‫شہروں پر کی ہے ۔پھر ہر ایک کا ٰ‬
‫کیا ہے اور ہر جگہ کی تجارت ‪،‬پیداوار ‪،‬صنعت ‪،‬مذاہب‬
‫کا حال لکھا ہے سندھ کا حال اس نے ‪۱۴‬صفحوں میں‬
‫لکھا ہے ‘‘۔ (‪)۳۳‬‬

‫ہندوستان میں جن دو عرب سیاحوں کو بے مثال شہر ت ملی اور انہوں نے‬
‫اپنے مشاہدات کو بال امتیاز جس انداز سے قلمبند کیا وہ قابل تحسین ہے ۔البیرونی‬
‫‪۴۰۰‬ھ اور ابن بطوطہ ‪۹۹۸‬ھ کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔‬
‫’’البیرونی جو اصل میں خوارزم کا رہنے وال تھا وہ‬
‫جب ہندوستان آیا تو محمود غزنوی کے حملے غالبا َ ََ‬
‫شروع نہیں ہوئے تھے۔ مگر اس نے اپنی کتاب محمود‬
‫کے دو برس بعد لکھی ہے اس نے کتا ب الہند کے‬
‫عالوہ اور بہت سی کتابیں لکھی ہیں ۔ جن میں سے‬
‫قانون مسعودی خاص ذکر کے قابل ہے جواب تک چھپی‬
‫نہیں ۔اس میں ہندوستان کے بہت سے شہروں کے نام‬
‫لکھے ہیں اور ان کا طول بلد اور عرض بلد مقرر کیا‬
‫ہے‘‘۔‬

‫’’ ابن بطوطہ یہ سیاح مراکش کا باشندہ تھا اور محمد‬


‫تغلق کے زمانہ میں ہندوستان آیا تھا اور اس کے چپہ‬
‫چپہ کو اس نے دیکھا تھا ۔اس نے اپنے سفرنامہ‬
‫’’عجائب االسفار ‘‘میں جس خوبی سے اپنے مشاہدات‬
‫کا ذکر کیا ہے وہ کہانی سب کو معلوم ہے ہمارے لیے‬
‫اس کے بیان کا سب سے اہم حصہ جنوبی ہند کے اس‬
‫وقت کے حاالت ہیں جب مسلمانوں نے اس کوفتح نہیں‬
‫کیا تھا‘‘۔ (‪)۳۴‬‬

‫ہندوستان سے عربوں کا لگاؤ خصوصی اہمیت کا حامل ہے خصوصا َ ََنویں‬


‫صدی عیسوی میں بہت سے ایسے عرب جغرافیہ نویس اور عرب مورخ تھے جو‬
‫خود تو ہندوستان نہیں آئے لیکن انہوں نے مختلف ذرائع سے ہندوستان سے متعلق‬
‫مستند کتب تحریر کیں یہاں کے مذاہب ‪،‬فصلوں ‪،‬آب وہوا ‪،‬تہذیب وثقافت کے بارے‬
‫میں جس انداز سے لکھا ہے اس سے ہندوستا ن کے بارے میں انکے خیاالت کا‬
‫اندازہوتا ہے کہ ایسی کتب تحریر کر کے وہ اہل عرب کو اہل ہند سے متعارف کروانا‬
‫۔‬ ‫تھے‬ ‫چاہتے‬
‫چند عرب جغرافیہ نویس اور مورخ جنہوں نے اس سلسلے میں اہم کردار ادا کیا ۔‬

‫ابن ندیم کا اصلی نام محمد بن اسحاق بن ابی یعقوب الندیم تھا لیکن ابن ندیم کے‬
‫نام سے مشہور ہے وطن بغداد تھا یہ کتابوں کی نقل و ترتیب و تصحیح اورفروخت‬
‫کاکام کرتاتھااس نے اپنی مشہور تصنیف "الفہرست ‪ ۳۹۹‬؁ھ مطابق ‪۸۱۹‬ء میں‬
‫لکھی ۔ہندوستانی علوم و فنون کی کتابوں اور یہاں کے مذاہب کا بھی اس میں تذکرہ‬
‫ہے بلکہ یہ ہندوستانی مذاہب کے بارے میں نہایت قدیم اور مستند ماخذ ہے۔وفات‪۸۸۶‬ء‬
‫کے بعد ہوئی ۔‬

‫وہ اپنی کتاب "الفہرست "میں لکھتا ہے ۔‬

‫’’سندھ کے لوگوں کی زبانیں اور مذاہب باہم مختلف‬


‫اوررسم الخط متعدد ہیں ان عالقوں میں جانے وا لے‬
‫ایک سیاح نے مجھ کو بتایا کہ ان کے تقریبا َ ََ دوسو‬
‫رسم الخط ہیں اور بادشاہ کے محل میں جو سونے کا بت‬
‫میں نے دیکھا اور جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ‬
‫ہاتھ کی شکل کا ایک مجسمہ ہے اور ایک کرسی پر‬
‫رکھا ہوا ہے ‪،‬اپنا ایک ہاتھ اس طرح کئے ہوئے ہے کہ‬
‫معلوم ہوتا ہے ‪۳۰‬تک گنتی گن رہا ہے اور کرسی پر‬
‫اس طرح کا ایک کتبہ بھی ہے ‪ ،‬اسی سیاح نے بیا ن کیا‬
‫کہ سندھ کے لوگوں میں عموما َ ََ ‪ 7‬رسم الخط رائج‬
‫ہیں‘‘۔(‪)۳۶‬‬

‫نام عبدالقاہر (وفات ‪۱۰۳۹‬ء)کنیت ابو منصور ‪،‬باپ کا نام طاہراور وطن بغداد‬
‫تھا ‪ ،‬مختلف علوم وفنون خصوصا َ ََ حساب وفرائض میں پوری مہارت تھی ‪،‬تصنیف‬
‫وتالیف کی طرح درس و تدریس میں بھی منہمک رہتے ۔مالدار اور ذی ثروت بھی‬
‫تھے لیکن سارا مال و دولت علم اور علماء کے لیے وقف رہتا ‪،‬اسالمی فرقوں کی‬
‫تاریخ کے متعلق اْن کی ایک کتاب ’’الفرق بین الفرق‘‘موجود ہے ۔ اس میں اسالم کے‬
‫ایک عقل پر ست فرقہ معتز لہ کا تذکرہ کرتے ہوئے ضمنا َ ََ چند سطریں ہندوستان‬
‫کے سمنی فرقہ کے متعلق بھی تحریر کی گئی ہیں ۔‬

‫الفرق بین الفرق میں لکھتے ہیں‬

‫’’تناسخ کو ماننے والو ں کی کئی قسمیں ہیں ‪ ،‬ایک قسم‬


‫فلسفیوں کی ہے اور دوسری سمنیوں کی ‪،‬اور یہ دونوں‬
‫قسمیں اسالمی سلطنت سے قبل پائی جاتی تھیں تناسخ‬
‫کے قائل سمنی عالم کو قدیم اور غورواستدالل کو باطل‬
‫سمجھتے ہیں ’’ ان کا خیال ہے کہ معلومات حاصل‬
‫کرنے کا ذریعہ صرف حواس خمسہ ہیں ان میں سے‬
‫اکثر لوگ دوبارہ زند ہ کئے جانے اور مرنے کے بعد‬
‫اْٹھائے جانے کے منکر ہیں ‘‘۔ (‪)۳۱‬‬

‫’’قاضی صاعد (وفات ‪۱۰۹۰‬ء)اندلسی عربی النسل تھے‬


‫‪،‬قرطبہ کا مردم خیز شہر ان کا وطن تھا ۔ انہوں نے کئی‬
‫کتابیں لکھیں مگر ’’طبقات االمم‘‘ کے سواسب باد‬
‫حوادث کی نذر ہو گئیں اور تنہایہی کتاب مصنف کے‬
‫علم وتبحر ‪،‬و سعت نظر اور مذاق تحقیق کی پختگی اور‬
‫بلندی کا ثبوت ہے ۔ایک باب میں ہندوستان کے علوم و‬
‫فنون خصوصا َ ََ ہئیت ونجوم پر مفید اور فاضالنہ بحث‬
‫ہے جس سے ہندوستانی علوم و فنون کے متعلق مصنف‬
‫کی معلومات کا اندازہ اور اْن کے وسیع مطالعہ کا ثبوت‬
‫ملتا ہے‘‘۔‬

‫طبقات االمم میں لکھتے ہیں‬

‫’’قدیم قوموں کے نزدیک ہر زمانہ میں ہندوستان حکمت‬


‫و دانش کا گہوارہ اور عد ل و سیاست کا سر چشمہ رہا‬
‫ہے ۔ وہاں کے باشندوں کو سب سے زیادہ عقلمند اور‬
‫صائب الرائے سمجھا جا تا تھا ۔ اگرچہ اس کا رنگ سیا‬
‫ہی مائل ہے ‪ ،‬اس لئے وہ سیہ فام لوگوں میں شمار کئے‬
‫تعالی نے انہیں سیہ فاموں کی‬
‫ٰ‬ ‫جاتے ہیں لیکن اللہ‬
‫بدکرداری بد خوئی اور بے وقوفی سے محفوظ رکھا ہے‬
‫اور بہت سی سفید فام اور گند م گوں قوموں پر انہیں‬
‫فضیلت و برتری عطا کی ہے ۔ بعض نجومی اور‬
‫جوتشی اس کے اسباب یہ بتاتے ہیں کہ زحل اورعطارد‬
‫ہندوستان کی حالت طبعی پر حکمراں اور موثر ہیں اس‬
‫لیے زحل کے اثرات سے ان کا رنگ کاال ‪،‬عطارد کے‬
‫اثر اور زحل کی شرکت کی وجہ سے غورو فکر کی‬
‫صحت میں ان کی عقلیں روشن اور ذہن لطیف ہیں‬
‫‘‘۔(‪)۳۹‬‬

‫’’عبدالکریم شہر ستانی (وفات ‪۱۱۶۳‬ء)اس کا نام محمد‬


‫‪ ،‬کنیت ابوالفتح اور وطن شہر ستان تھا‪،‬شہر ستانی‬
‫مشہور متکلم ‪،‬ماہرفقیہ ‪ ،‬بلندپایہ مصنف‪،‬مناظر ‪،‬واعظ‬
‫اور مذاہب عالم کا بے نظیر محقق گزرا ہے ۔ اس کی‬
‫متعدد تصنیفات ہیں جن میں ’’الملل والخل‘‘سب سے‬
‫زیادہ مشہور ہے اس میں مذاہب عالم کا مبسوط تذکرہ‬
‫اور اْن کے فلسفہ و تاریخ اور اہل مذاہب کے مختلف‬
‫فرقوں اور اْن کے عقائد و نظریات پر فاضالنہ اور‬
‫معلومات آفریں بحثیں ہیں اور اسی سلسلے میں قرون‬
‫وسطی کے ہندوستانی مذاہب اور ہندوؤں کے مختلف‬
‫ٰ‬
‫فرقوں اور ان کے افکارو عقائد کا بھی بہت مفصل ذکر‬
‫اور اْن کے متعلق مفید معلومات ہیں ‘‘۔‬

‫اپنی کتا ب میں لکھتے ہیں‬

‫’’بڑی بڑی قومیں چار ہیں ۔عربی ‪،‬عجمی ‪،‬یونانی اور‬


‫ہندوستانی ۔پھر ان میں سے ہر قوم کے ایک دوسرے‬
‫سے تعلق کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ عرب اور‬
‫ہندو ستانی قریب ایک مذہب پر تھے اور ان کا میال ن‬
‫زیادہ تراشیاء کی خصوصیات بیان کرنے ‪،‬ماہیتوں اور‬
‫حقیقتوں کے احکام کا فیصلہ کرنے اور روحانی چیزوں‬
‫کواستعمال کرنے کی طرف ہے‘‘۔(‪)۳۱‬‬

‫’’قاضی رشیدبن زبیر پانچویں صدی کے ممتاز عالم اور‬


‫کئی اہم کتابوں کے مصنف ہیں اْن کی تصانیف میں ایک‬
‫کتاب ’’الذخائر والتجف ‘‘ بھی ہے چونکہ وہ تمام دربار‬
‫سے وابستہ رہے اس لیے انہوں نے اپنی کتاب میں‬
‫مسلمان حکمرانوں اور دوسرے ممالک کے حکمرانوں‬
‫کے تعلقات کے بارے میں لکھا ہے ۔رشید کی تاریخ‬
‫والدت اور وفات نہ مل سکی لیکن قرائن سے پتہ چلتا‬
‫ہے کہ یہ کتاب ‪۴۱۱‬ھ کے لگ بھگ لکھی گئی ہے ‘‘۔‬

‫تحائف دینے اور لینے سے محبت بڑھتی ہے اور رشتوں میں قربت کا احساس‬
‫فروغ پاتا ہے ۔عرب حکمران ہندوستان کے حکمرانوں سے دوستی استوار کرنے کے‬
‫لیے ان کے ساتھ تحائف کا تبادلہ کرتے تھے حاالنکہ اس زمانے میں ذرائع آمدورفت‬
‫بھی سْست تھے دنوں کا سفر مہینوں میں طے ہوتا تھا لیکن پھر بھی رابطے بحال‬
‫رہے ۔‬

‫قاضی رشید اپنی کتاب میں لکھتے ہیں‬

‫’’ ہندوستان کے ایک راجہ نے ہارون رشیدکے پاس بہت‬


‫سے بیش قیمت تحفے بھیجے۔ جن میں ایک زمرد کی‬
‫چھڑی بھی تھی جو ایک ہاتھ سے زیادہ لمبی تھی ۔اْس‬
‫کی موٹھ کے اْوپر یاقوت سرخ کی ایک چڑیا بنی ہوئی‬
‫تھی جس کی نفاست و لطافت کا اندازہ کر نا مشکل ہے‬
‫‘‘۔ (‪)۳۸‬‬

‫شریف االدر یسی ‪۴۸۳‬ھ میں صقلیہ میں پیدا ہوا ۔علم جغرافیہ کی تاریخ میں‬
‫اس کا نام ہمیشہ زریں حروف سے لکھا جائے گا۔افریقہ کے شاہی خاندان ادریسی کا‬
‫علی سے‬‫چشم و چراغ تھا ۔ جس کا سلسلہء نسب تیرہویں چودہویں پشت میں حضرت ؓ‬
‫مل جاتا ہے ۔بچپن ہی میں حصول تعلیم کے لیے ْقرطبہ چال گیا ۔جہاں اْس نے علم و‬
‫فن کی تکمیل کی ۔کچھ دنوں کے بعد جب اْس کے علم و فضل کا چرچا ہوا تو صقلیہ‬
‫کے عیسائی حکمران راجر دوم نے اسے صقلیہ طلب کیا ۔راجر نے اس کے علم فضل‬
‫سے فائدہ اْٹھانے کے لیے اْس سے زمین کاایک مکمل کرہّ تیار کرنے کی فرمائش کی‬
‫اور اس کام کے لیے اس نے چار الکھ درہم کی نقرئی اینٹ اس کے حوالے کر دی‬
‫۔ادریسی نے چاندی پگھال کر اس سے زمین کا ایک عظیم الشان ُک ّرہ تیا ر کیا ۔ وہ چند‬
‫صاحب علم جغرافیہ دان اور با کمال مصوروں کی جماعت کے ساتھ دْنیا کی سیاحت‬
‫کے لیے روانہ ہوا ‪،‬یہ سفراس نے تقریبا َ ََ پندرہ برس میں ختم کیا ۔واپسی کے بعداس‬
‫نے انہی معلومات کی بنیاد پر اپنی شہر ہ آفاق کتاب "نزہتہ المشتاق فی اختراق اآلفاق‬
‫لکھی ۔‬
‫اس کتاب میں وہ ہندوستان کے حوالے سے لکھتا ہے ۔‬

‫’’عدل وانصاف ہندوستان کے لوگوں کی گھٹی میں پڑا‬


‫ہوا ہے اس کے عالوہ وہ کسی چیز پر بھروسہ نہیں‬
‫کرتے ‪،‬اپنی عدل پسندی اور عہدوپیمان کی پابندی اور‬
‫حسن سیرت میں وہ ممتاز ہیں مجموعی حیثیت سے اس‬
‫ملک کے لوگ اچھے اور بھلے ہوتے ہیں ۔ اسی وجہ‬
‫سے کثرت سے باہر کے لوگ یہاں آتے ہیں ۔اس کے‬
‫شہر آباداور ان کی حالت قابل اطمینان ہے ‘‘۔ (‪)۴۰‬‬

‫’’ابن ابی اصیبعہ (وفات ‪۱۱۱۸‬ء)کا اصل نام احمد بن‬


‫قاسم اور وطن دمشق تھا۔ ابن ابی اصیبعہ نے شروع میں‬
‫اپنے باپ سے فن طب کی تحصیل کی اور قاہر ہ میں‬
‫اس کی تکمیل کی ‪’’،‬عیون االبناء فی طبقات االطباء‘‘‬
‫کے نام سے اس نے دو جلدوں میں دنیا کی تمام متمدن‬
‫قوموں کے مشہور طبیبوں کی سوانح لکھی ہے ۔‬
‫دوسری جلد کے ایک باب میں ہندوستان کے اطباء کے‬
‫حاالت اور اْن کے طبی کارناموں کا ذکر کیا ہے‘‘۔‬

‫اپنی کتاب میں لکھتے ہیں ۔‬

‫’’میں نے اخبار انحلفاء والبرامکہ کتاب میں یہ واقعہ‬


‫دیکھا ہے کہ ایک دفعہ خلیفہ ہارون رشید سخت بیمار‬
‫ہوا بغداد کے تمام اطباء کا عالج ہو الیکن مرض میں‬
‫افاقہ نہ ہوا تو ابو عمر عجمی نے بتایا کہ ہندوستان میں‬
‫منکہ نامی ایک طبیب ہے جو مشہور پنڈت اور فلسفی‬
‫بھی ہے اگر امیر المومنین اسے بلو ا بھیجیں تو شاید اللہ‬
‫تعالی اس کے ہاتھ پر شفا بخشیں چنانچہ خلیفہ رشید نے‬
‫ٰ‬
‫اسے بالنے کے لیے ایک شخص کو سفر خرچ دے کر‬
‫بھیجا اور اس نے آکر عالج کیا اور اس کے عالج سے‬
‫شفاہوئی اس کے صلہ میں خلیفہ نے اْسے انعام و اکرام‬
‫سے ماال مال کر دیا ‘‘۔(‪)۴۱‬‬

‫ابو العباس شہاب الدین احمد بن علی قلقشندی آٹھویں صدی ہجری کا مشہور‬
‫مصنف اور فاضل ادیب ‪۹۶۱‬ھ میں مصر کے ایک گاؤں قلقشندہ میں پیدا ہوا اور اسی‬
‫نسبت سے وہ قلقشندی کہالتا ہے ۔اس کی کئی مفید اور بلندپایہ تصنیفات ہیں لیکن ان‬
‫االعشی"‬
‫ٰ‬ ‫سب میں اہم اور عربی زبان و ادب میں الزوال شہر ت رکھنے والی" صبح‬
‫ہے ۔اس کتاب کی پانچویں جلد میں آٹھویں صدی ہجری کے ہندوستان کی حکومت‬
‫تہذیب وتمدن اور معاشرت کے عالوہ اس کا مفصل جغرافیہ مختلف شہروں‬
‫خصوصا َ ََ دارالسلطنت دہلی اور ہندوستان کی پیداوار ‪،‬صنعت ‪،‬زراعت ‪،‬تجارت کا‬
‫جامع تذکرہ ہ ے ۔مصنف کے دو ماخذ ہیں ایک عرب سیاحوں او ر جغرافیہ نویسوں‬
‫کی کتابیں ۔دوسرے ہندوستان کے بعض اہل علم جوان ممالک تک پہنچے ان کے‬
‫بیانات ۔‬

‫وہ اپنی کتاب میں ہندوستان کے حوالے سے لکھتا ہے‬

‫میں یہاں کے متعلق نہایت حیرت انگیز خبریں سنتا اور کتابوں میں پڑھتاتھا‬
‫۔مگر چونکہ یہ ملک ہم سے بہت دورہے اس لیے اس کی اصل حقیقت نہیں معلوم‬
‫ہوتی تھی مگر جب راویوں سے اس کی تحقیقات کی تو اس کو اپنے وہم و گمان اور‬
‫تصور وخیال سے کہیں زیادہ پایا اس کے متعلق اس قدر ذکر کر دینا کافی ہے کہ یہاں‬
‫کے سمند ر سے موتی ‪،‬خشک زمینوں سے سونا ‪،‬پہاڑوں سے یا قوت والماس اور‬
‫گھاٹیوں اور وادیوں سے عود و کافور دستیاب ہوتے ہیں ۔‬

‫شہروں میں شاہی تخت و تاج ہیں اس کے جنگلی جانوروں میں ہاتھی اور‬
‫گینڈے ہیں اور اس کے لوہے میں ہندی تلواریں ہیں ۔یہاں کے لوگ حکمت ودانائی میں‬
‫مشہور اور نفسانی خواہشات پر تمام قوموں سے زیادہ قابو رکھنے والے اور اپنی‬
‫عبادتوں اور تقرب کے کاموں میں سب سے زیادہ نفس کی قربانی کرنے والے‬
‫ہیں۔(‪)۴۱‬‬

‫عرب وہند کے تعلقات کو فروغ دینے میں سب سے اہم کردار سیاحوں نے‬
‫اداکیا ۔اْنہوں نے ہی داخلی و خارجی معامالت کا جائزہ لے کر سفیر کا کردار اداکرتے‬
‫ہوئے عر ب تاجروں کو اہل ہند کے ساتھ تجارت کا مشورہ دیا کیونکہ وہ اہل ہند کے‬
‫اخالق سے بہت متاثر تھے ۔‬

‫شریف االدریسی اپنی کتا ب میں یوں رقم طراز ہے‬

‫’’عدل وانصاف ہندوستان کے لوگوں کی گھٹی میں پڑا‬


‫ہوا ہے اس کے عالوہ وہ کسی چیز پر بھر وسہ نہیں‬
‫کرتے اپنی عدل پسندی اور عہد وپیمان کی پابندی اور‬
‫حسن سیر ت میں وہ ممتاز ہیں مجموعی حیثیت سے اس‬
‫ملک کے لوگ اچھے اور بھلے ہوتے ہیں اسی وجہ‬
‫سے کثر ت سے باہر کے لوگ یہاں آتے ہیں اس کے‬
‫شہر آباد اوران کی حالت قابل اطمینان ہے ‘‘۔(‪)۴۳‬‬

‫تجارتی تعلقات‪:‬‬
‫جو ممالک صحرا پر مشتمل ہوں اور سر سبزی و شادابی سے محروم ہوں تو‬
‫وہاں کے باسیوں نے ذریعہ معاش کے لیے آخر کوئی توسود مند پیشہ اختیار کرنا ہوتا‬
‫۔لہذا اہل عرب نے اپنے محل وقوع اور وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے جس پیشے‬ ‫ہے ٰ‬
‫کا انتخاب کیا وہ تجارت تھا‬

‫’’ساتویں صدی عیسوی کے درمیانی زمانے میں عرب‬


‫مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت تجارتی اغراض سے‬
‫سمندر پار کرکے ہندوستان پہنچی اور ساحل ماالبار پر‬
‫وطن اختیار کیا ۔صوبہ مدراس کے بہت سے مسلمان‬
‫خاندان اس امر کا اعتراف کرتے ہیں کہ وہ انھیں عرب‬
‫تاجروں کی اوالد ہیں اور بیان کرتے ہیں کہ ان کے آباؤ‬
‫اجداد صرف ساحل ماالبار پر نہیں ُرکے بلکہ تمام ملک‬
‫کو عبور کیا اور ہندوستان کے مشرق سواحل تک پہنچ‬
‫گئے جہاں انہیں مجبوراقیام کرنا پڑا‘‘۔(‪)۴۴‬‬

‫عربوں نے یہ فیصلہ بہت پہلے کر لیاتھا کہ تجارت کے لیے کون سا ملک اْن‬
‫کے لیے سب سے زیادہ منافع بخش ہے بہت سے ممالک کے ساتھ اہل عرب کے براہ‬
‫راست تعلقات تھے انہی ممالک میں سے ’’ہندوستان ‘‘بھی ایک ایسا ہی ملک ہے جس‬
‫کے ساتھ اہل عرب نے تجارتی تعلقات کا آغاز کیا ۔جب سے دْنیا میں تجارتی تعلقات کا‬
‫آغاز ہوا اہل عرب بھی اسی کاروبار میں مصروف رہے ۔‬

‫’’اس وقت ہمارے پاس دْنیا کی بین االقوامی تاریخ کی‬


‫سب سے پرانی کتاب توراۃ ہے ۔ اس میں حضرت‬
‫ابراہیم ؑ کی دوہی نسل بعد حضرت یوسف کے زمانہ میں‬
‫ہم اس تجارتی قافلہ کو اسی راستہ سے گزرتے ہوئے‬
‫پاتے ہیں اور یہ وہی کارواں ہے جو حضرت یوسف کو‬
‫مصر پہنچاتا ہے اس راستہ کا ذکر یونانی مورخوں نے‬
‫بھی کیا ہے ۔الغرض حضرت یوسف کے عہد سے لیکر‬
‫مار کوپولواور واسکو ڈی گا ما کے زمانہ تک ہندوستان‬
‫کی تجارت کے مالک عرب ہی رہے ‘‘۔(‪)۴۶‬‬

‫اہل عرب ہندوستان کے ساتھ تجارت کو بہت اہمیت دیتے تھے کیونکہ وہ‬
‫تھے‬
‫ْ‬ ‫ہندوستان کو تجارتی لحاظ سے ایک مکمل ملک سمجھتے‬

‫’’‪ ۱۴‬؁ھ میں حضرت عمر نے ایک عرب سیاح سے‬


‫پوچھا کہ ہندوستا ن کے متعلق تمہاری رائے کیا ہے‬
‫؟اس نے کہا ’’اْس کے دریا موتی ہیں ‪،‬اس کے پہاڑ یا‬
‫قوت ہیں اور اس کے درخت عطر ہیں ‘‘۔(‪)۴۱‬‬

‫اہل عرب جو تجارت کرتے تھے وہ اس میں ہندوستان سے کیا لے کر جاتے‬


‫تھے ؟‬

‫نویں صدی عیسوی میں ایک عرب اس کا سبب بیان کرتا ہے کہ سیراف کے‬
‫جہاز بحرا حمرہو کر مصر کیوں نہیں جاتے اور جدہ سے لوٹ کر ہندوستان کیو ں‬
‫چلے جاتے ہیں ؟‬

‫کہتا ہے اس لیے کہ وہ چین اور ہندوستان کے سمند ر کی طرح جس کے پانی‬


‫میں موتی اور عنبر ہو تا ہے اور جس کے پہاڑوں میں جواہرات اور سونے کی کانیں‬
‫ہیں اور جس کے جانوروں کے منہ میں ہاتھی دانت ہیں اور جس کی پیداوار میں‬
‫آبنوس ‪،‬بید ‪،‬عود ‪،‬کافور ‪،‬لونگ‪،‬جوزبوا ‪،‬بکم ‪،‬صندل اور ہر قسم کی خوشبو کی‬
‫چیزیں ہوتی ہیں اور جس کے پرندوں میں طوطا اور مور ہیں اورجس کی زمین کا‬
‫فضلہ مشک اور زباد(ایک جانور کا خوشبو دار پسینہ )ہے۔مختلف سیاح جو ہندوستان‬
‫آت ے تھے انہوں نے اپنے سفرناموں میں ہندوستا ن میں بننے والے کپڑوں اور جوتوں‬
‫کی بہت تعریف کی جو یہاں سے بن کر دوسرے مما لک میں جاتے تھے۔‬

‫ہندوستان اہل عرب کے لیے صدیوں پہلے سے ہی ایک خاص کشش رکھتا تھا‬
‫۔وہ ہندوستان کے ساحلی مقامات اور بحر ہند کے ایک ایک جزیرہ کا جائزہ لیتے تھے‬
‫۔یورپ اور ہندوستان کا راستہ بہت اہم تھا اسی کے ذریعہ سے تاریخ میں بڑے بڑے‬
‫انقالبات ہوئے ہیں ۔‬
‫’’حضرت مسیح کے ‪ ۱‬سو بر س بعد جب اسالم آیا اور‬
‫عربوں نے عروج پایا تو چھٹی صدی مسیحی میں وہ‬
‫مصر سے لے کر سپین تک چھا گئے اور بحر روم کے‬
‫اہم جزیروں کو بھی انہوں نے اپنے مقبوضات میں داخل‬
‫کر لیا ۔اس کانتیجہ یہ ہوا کہ دْنیا میں تجارت اور‬
‫سوداگری کی یہ سب سے بڑی سڑک عربوں کے ہاتھ‬
‫میں آگئی اور صدیوں تک وہ اس پر قابض رہے‬
‫‘‘۔(‪)۴۹‬‬

‫اہل یورپ کے لیے یہ برداشت کرنا بہت مشکل تھا کہ تمام راستوں پر اہل‬
‫عرب قابض ہو چکے تھے وہ کسی طرح ان کو یہاں سے بے دخل کرنا چاہتے تھے‬
‫ٰلہذا اس کے متبادل کوئی دوسرا راستہ پیدا کرنے کے لیے کوشاں تھے ۔‬

‫’’اسی کوشش کا نتیجہ ہے کہ شمالی افریقہ اور بحرروم‬


‫کو چھوڑ کر جنوبی افریقہ کے راستہ سے ہندوستا ن کا‬
‫سراغ لگا یا گیا ۔اس راستہ میں ڈچ اور پْر تگا ل اور بعد‬
‫کو انگریز اور فرانسیسی بھی شریک ہو گئے اور‬
‫ہندوستان کی وہ تجارت جو عربوں کے ہاتھوں میں تھی‬
‫اس کو ان سے لڑ بھڑ کر چھیننے لگے ۔اس کشمکش‬
‫میں اہل مغرب اور اہل مشرق کی ایک سخت دریائی‬
‫جنگ بھی ہندوستان کے سواحل پر ہوئی اس جنگ میں‬
‫مشرق کو شکست ہوئی اور یہی شکست اہل مشرق کی‬
‫تمام آئندہ شکستوں کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔تقریبا َ ََاس‬
‫زمانہ سے آج تک تمام جزائر ہنداور سواحل کی تجارت‬
‫اہل یورپ کے ہاتھ آگئی ۔مدراس کے عرب تاجروں کو‬
‫جن کو موپال کہتے ہیں ۔ جواس وقت ہندوستان کے اْس‬
‫گوشہ او رجزیروں کی تجارت کے مالک تھے ا ن کے‬
‫جہازوں کو ہر طرح تباہ و برباد کر دیا گیا‘‘۔(‪)۴۱‬‬
‫ملکیت کا اللچ اہل یورپ کی فطر ت میں شامل تھا وہ کسی بھی چیز پر قابض‬
‫ہوئے بغیر اس سے فائدہ حاصل کرنا اپنے لیے سود مند خیال نہیں کرتے تھے۔‬

‫’’بحرروم کے قریب ترراستہ کی ملکیت کا خیال اہل‬


‫یورپ کے دل سے دور نہیں ہوا‪،‬چنانچہ اس کو اور‬
‫قریب تر کرنے کے لیے بحرا حمر اور بحر روم کے‬
‫درمیان کی پتلی خشکی کھود کر نہر سویز نکالی گئی‬
‫اور پھر مصر اور سویز پر قبضہ ضروری خیال کیا گیا‬
‫تاکہ یورپ اورہندوستان کا یہ اہم تاریخی راستہ ہمیشہ‬
‫کے لیے محفوظ ہوجائے ‘‘۔(‪)۴۸‬‬

‫مختلف جزائر جو تجارت کا گڑھ تھے اور اہم تجارتی منڈی سمجھے جاتے‬
‫تھے انہی میں سے ایک قیس ہے ۔‬

‫’’قیس یا کیش یہ خلیج فارس میں عمان کے پاس ایک‬


‫جزیرہ تھا ۔قیس ہندوستان کی تجارت کی منڈی اور اس‬
‫کے جہازا ت کا بند رہے۔ہر عمدہ چیز جو ہندوستان میں‬
‫ہوتی ہے وہ یہاں الئی جاتی ہے ‘‘۔(‪)۶۰‬‬

‫ہندوستان میں بندرگاہوں کا سلسلہ بہت قدیم ہے انہی کے ذریعے اہل ہند کے‬
‫دوسرے ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات مضبوط ہوئے اور اہل عرب ہندوستان کے‬
‫ساتھ تعلقات بڑھانے میں سبقت لینا چاہتے تھے ۔‬

‫’’ہندوستان کی بند گا ہوں کے نام ہم کو پہلی صدی‬


‫ہجری سے ملنے شروع ہوتے ہیں اور تیسری صدی‬
‫تک بکثرت نام بڑھ جاتے ہیں اور پھر آخر تک وہی قائم‬
‫رہتے ہیں جن میں سے عربوں کے نزدیک خلیج فارس‬
‫کے بعد سب سے پہلے بلوچستان کی بندر گاہ تیز پھر‬
‫سندھ کی بند رگاہ دیبل تھا‘‘۔(‪)۶۱‬‬

‫تجارتی تعلقات ایک طرح سے باہمی میل جول کی راہ بھی ہموار کر رہے‬
‫تھے اس دوران دریائی تجارتی راستے استعمال ہوتے تھے مسلمان تاجر چونکہ خود‬
‫یورپ نہیں جاتے تھے اس لیے یہودی اہل کتاب ہونے کے ناطے ان دونوں قوموں‬
‫کے درمیان اہم کر دار ادا کرتے تھے کیونکہ وہ یورپ سے یونانیوں کے زمانہ سے‬
‫واقف تھے ۔‬

‫عربوں کے اہل ہند کے ساتھ تجارتی تعلقات کا علم ہمیں عرب سیاحوں کے‬
‫ذریعے ہوتا ہے کیونکہ انہوں نے اپنے مشاہدات کو مختلف انداز سے قلمبند کیا ہے ۔‬

‫’’مسعودی جو ہندستان ‪ ۳۰۶‬؁ھ کے قریب آیا تھا اور بلخ و بخارا سے بھی‬
‫گزرا تھا ۔اس نے بحر ہند کے اْتارچڑھا ؤاور تالطم اور سکون کے زمانے مقرر کیے‬
‫ہیں اور اس حساب سے جہازات کی روانگی کے مہینے قرار دیئے ہیں ۔لکھا ہے کہ‬
‫ہمارے یہاں اور ہندوستان میں موسموں کا فرق ہے ۔ہمارے یہاں سے گرمی میں لوگ‬
‫ہندوستان سردی گزار نے جاتے ہیں کہ جون کے مہینے میں ہندوستان جہاز کم جاتے‬
‫ہیں اور جوجاتے ہیں وہ بہت ہلکے ہوتے ہیں اور ان میں زیادہ سامان نہیں الدا جاتا‬
‫‘‘۔‬

‫’’ابو زید سیرافی کا بیان ہے کہ برسات کے زمانہ میں‬


‫جہازات نہیں چلتے ‪،‬ہندوستان والے اس زمانہ میں بیٹھ‬
‫کر کھیتی باڑی کرتے ہیں یا کوئی پیشہ کرتے ہیں اسی‬
‫برسات پر ان کا گزارا ہے اس میں چاول پیدا ہوتا ہے‬
‫جو ان کی خوراک ہے‘‘۔(‪)۶۱‬‬

‫تعالی نے‬
‫ٰ‬ ‫ہندوستان قدرتی طورپر ایک زرخیز ملک واقع ہوا ہے کیونکہ اللہ‬
‫اس خطے کو ہر طرح کے موسموں سے نوازا ہے جس کی وجہ سے اہل عرب اور‬
‫اہل یورپ اس پر رشک کرتے تھے ۔اورہندکے لیے وہ ایک خاص قسم کی جاذبیت‬
‫محسوس کرتے تھے اس خطے کے موسموں اور آب و ہوا کے عالوہ وہ یہاں کی‬
‫پیداواری اشیاء سے بہت متاثر تھے اور بطور تاجران اشیاء کو اپنے ممالک میں لے‬
‫کر جاتے تھے ۔‬

‫’’مسعر بن مہلہل جو ‪۳۳۱‬ھ میں ہندوستان آیا تھا ۔وہ مدراس کے حوالے سے‬
‫لکھتا ہے ’’یہیں وہ مٹی کے برتن تیا ر ہوتے ہیں جو ہمارے ملک میں چینی کر کے‬
‫بکتے ہیں‘‘۔‬

‫’’ ہند وستان سے ایک قسم کا زہر بھی باہر جاتا تھا جس‬
‫کا نام قزوینی نے ’’بیش لکھا ہے‘‘ ابن الفقیہ ہمدانی‬
‫(‪۳۳۰‬ھ )میں لکھتا ہے کہ ہندوستان اور سندھ کو اللہ‬
‫تعالی نے یہ خصوصیت دی ہے کہ وہاں ہر قسم کی‬
‫ٰ‬
‫خوشبو ‪،‬جواہرات ‪،‬گینڈا اور ہاتھی ‪،‬ساگوان کی لکڑی‬
‫اور سیاہ مرچ پیدا ہوتی ہے ‘‘۔(‪)۶۳‬‬

‫عرب میں ہندوستان کی تلواریں مشہور تھیں ہندوستان سے جانے والی خوشبو‬
‫ئیں اہل عرب میں مقبول تھیں وہ انہیں اپنے لیے خاص سوغات سمجھتے ہیں ‪ ،‬اہل ہند‬
‫کو اس بات پر فخر ہے کہ اْن کی خوشبو ؤں کا ذکر قرآن پاک میں ہے ۔‬

‫’’مگر اس میں شک نہیں کہ جنت کی تعریف میں اس‬


‫جنت نشان ملک کی تین خوشبوؤں کاذکر ضرور ہے‬
‫یعنی مسک (مشک) زنجبیل (سونٹھ یا ادرک)اور کافور‬
‫(کپور)‘‘۔(‪)۶۴‬‬

‫اس حقیقت سے مفر نہیں کہ اہل عرب اور اہل ہند کے تجارتی تعلقات بہت قدیم‬
‫۔‬ ‫ہیں‬ ‫کے‬ ‫پہلے‬ ‫بہت‬ ‫سے‬ ‫اسالم‬ ‫اور‬
‫اس حوالے سے سید سلیمان ندوی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں۔‬

‫’’یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ لوبان اور قسم قسم کے‬


‫خوشبو ‪،‬پھول خودیمن میں پیدا ہوتے تھے ۔مگر آبدار‬
‫فوالد (تلوار)‪،‬تیزپات ‪،‬اور مسالوں کا ملک ہندوستان ہی‬
‫تھا اور تلوار ‪،‬تیزپات اور مسالوں کا ملک وہی آج بھی‬
‫ہے ۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ عربوں کے ہندوستان‬
‫کے تجارتی تعلقات مسیح سے کم از کم دوہزار برس‬
‫پہلے سے ہیں‘‘۔(‪)۶۶‬‬

‫اہل عرب ہندوستان میں کاشت ہونے والے پھلوں کو بہت پسند کرتے تھے‬
‫کیونکہ یہ پھل پہلی بار ہندوستا ن سے ہی عرب میں لے جائے گئے۔‬

‫’’مسعودی کا بیان ہے کہ نارنگی اور لیموں بھی‬


‫ہندوستان کی خاص چیزیں ہیں یہ عرب میں تیسری‬
‫صدی ہجری میں ہندوستان سے الئے گئے اور پہلے‬
‫عمان میں پھر وہاں سے عراق وشام تک پہنچے ‪،‬یہاں‬
‫تک کہ وہ شام کے ساحلی شہروں اور مصر میں گھر‬
‫گھر پھیل گئے ‘‘۔مگر اْن میں مسعودی کہتا ہے کہ ’’وہ‬
‫ہندوستان کا مزہ نہیں ‘‘۔(‪)۶۱‬‬

‫ہندوستان سے پرندے بھی عرب ممالک میں لے کر جاتے تھے جو اپنی نسل‬
‫میں نایاب تھے۔ مسعودی نے ہندوستان کے مور کی تعریف کی ہے اور لکھا ہے کہ‬

‫’’گو ہندوستان سے لے جاکر عراق وغیر ہ میں ان کی‬


‫نسل لے جائی گئی اور تیار کی گئی مگر وہ ہندوستا ن‬
‫کا قدوقامت اوررنگ وروپ ان میں نہیں ‘‘۔(‪)۶۹‬‬

‫زندگی کچھ لینے اور کچھ دینے کا نام ہے پھر تجارت تو اسی اْصول کے تحت‬
‫کی جاتی ہے کہ اگر کسی ملک کو کچھ برآمد کیا جاتا ہے تو اس کے بدلے اس سے‬
‫درآمد بھی کیا جاتا ہے کیونکہ یک طرفہ تعلقات باآلخر جلد ہی اختتام پذیر ہو جاتے‬
‫ہیں۔ہمیشہ دوطرفہ تعلقات ہی کامیاب ہوتے ہیں ۔‬

‫اہل عرب ہندوستان سے بے شمار چیزیں لے کر جاتے تھے تو وہ بھی بدلے‬


‫میں اہل ہند کے لیے ضرور کچھ التے ہوں گے۔‬

‫اس حوالے سے یہ بیان دیکھیں ۔‬

‫’’شراب مصر سے یہاں آتی تھی اور روم سے ریشمی‬


‫کپڑے اور سمور اور پوستین اور تلواریں آتی تھیں‬
‫‪،‬فارس سے گالب کا عرق جو مشہور تھا ہندوستان آتاتھا‬
‫۔بصرہ سے دیبل کی بندر گاہ میں کھجور یں آتی تھیں‬
‫‘‘۔(‪)۶۱‬‬

‫اہل ہند بھی عربوں کے آنے سے خوش تھے کیونکہ اْن کی آمد اہل ہند کے‬
‫لیے بہت بڑا ذریعہ آمد ن تھی ۔اس لیے وہ ان عرب تاجروں کو ہر طرح سے خوش‬
‫کر تے تھے پر تگالی جہازران جو بسلسلہ تجارت بحر ہند میں داخل ہوئے لیکن انہیں‬
‫ہندوستان کا راستہ نہ مال یہ عرب جہازران ہی تھے جنہوں نے پرتگالیوں کو ہندوستان‬
‫تک پہنچایا ۔‬

‫’’ان پرتگالیوں کوہندوستان تک ایک عرب ہی جہازران‬


‫نے پہنچایا ۔اس کا نام ابن ماجد اور اسد البحر یعنی‬
‫’’دریا کا شیر ‘‘اس کا خطاب تھا ‘‘۔ (‪)۶۸‬‬
‫عرب شاعروں نے ہندوستان کو اپنی شاعری کے ذریعے خراج تحسین پیش‬
‫کیا۔‬

‫’’اس شاعر کا نام ابو ضلع سندھی ہے اور جس کے‬


‫وجود کا زمانہ بہرحال‪۱۱۱‬ھ سے پہلے ہو گا اور عجب‬
‫نہیں کہ تیسری یا چوتھی صدی ہو کیونکہ سندھ میں‬
‫عربوں کے دور کازمانہ یہیں ختم ہوتا ہے ‘‘۔‬

‫’’میرے دوستوں نے انکار کیا اور یہ بہتر نہیں جب‬


‫ہندوستان کی اور ہندوستان کے تیر کی معرکہ میں‬
‫تعریف کی جا رہی تھی ‘‘۔‬

‫’’اس کی خاص چیزوں میں مشک ‪،‬کافور عنبر ‪،‬عود‬


‫اور قسم قسم کی خوشبو ان کے لیے جو میلے ہوں ‘‘۔‬

‫’’اور ہتھیاروں میں تلواریں ہیں جن کو کبھی صیقل کی‬


‫حاجت نہیں اور ایسے نیز ے ہیں کہ جب وہ ہلیں تو فوج‬
‫کی فوج اس سے ہل جائے ‘‘۔‬

‫’’ تو کیا بیوقوف کے سوا کوئی اور بھی ہندوستان کی ان‬


‫خوبیوں کا انکار کرسکتا ہے‘‘؟(‪)۱۰‬‬

‫ہر کاروبار کی بنیاد خلوص پر رکھی جاتی ہے اس کے بغیر کا میابی ناممکن‬


‫ہے اہل عرب اور اہل ہند میں تجارت کے ساتھ ساتھ خلوص کا رشتہ بتدریج استوار‬
‫ہوتا گیا ۔اور کبھی نہ ٹوٹنے والے بندھن میں بندھ گیا اور انہوں نے یہاں کی ہر شے‬
‫کو خلو ص دل سے سراہا ۔ان کے خیال میں اس سے انکار کرنے واال بیوقوف ہی ہو‬
‫سکتا ہے کیونکہ تجارتی تعلقات نے ہی دیگر تعلقات کو فروغ دیا ۔تاجر لوگ ہر طرح‬
‫کے حاالت کا مشاہدہ کرتے تھے اور انہی کے مطابق اپنے معامالت طے کرتے تھے‬
‫۔‬

‫علمی تعلقات ‪:‬‬


‫عرب و ہند کے درمیان تعلقات کا آغاز بہت پہلے ہو چکا تھا ان تعلقات کو‬
‫فروغ دینے کے لیے سیاحوں اور تاجروں کے ساتھ ساتھ اہل علم نے بھی بھر پور‬
‫ساتھ دیا ۔‬

‫عرب وہند کے علمی تعلقات میں کن شخصیات نے اہم کردار ادا کیا اس کی‬
‫تشریح مستند کتابوں سے ملتی ہے ۔ ان شخصیات میں فالسفر ‪،‬انشاپر داز ‪،‬متکلم‬
‫‪،‬مورخ اور حکیم و طبیب شامل ہیں ۔‬

‫جس تعلق کا سلسلہ علم کی لڑی میں پر وکر پروان چڑھایا جائے وہ دلوں پر‬
‫انمٹ نقوش چھوڑتا ہے اور تعلق کو لگاؤ میں بدل دیتا ہے ایسا ہی لگاؤ علم نے عرب‬
‫وہند کے درمیان پیدا گیا ۔خاندان برامکہ جوکہ عباسی دو ر خالفت میں وزارت کے اہم‬
‫فرائض سر انجام دیتا تھا اسی کی بدولت عرب وہند کے درمیان علمی تعلقات وجود‬
‫میں آئے اور انہوں نے اہل عرب کے اندر فلسفہ ‪،‬طب اور دوسری قوموں کے علوم‬
‫سیکھنے کا جذبہ پیدا کیا۔عرب وہند کے درمیان تعلقات کا آغاز تجارت کے عالوہ‬
‫دوسرے مقاصد کے لیے بھی تھا اس آمد ورفت کا سلسلہ پہلی صدی ہجری کے آخر‬
‫سے شروع ہو چکا تھا ۔‬

‫’’عباسی خانوادہ کا دوسرا خلیفہ منصور ‪۱۳۱‬ھ میں‬


‫بادشاہ ہوا۔ ‪۱۴۱‬ھ میں پایہ تخت کی تعمیر ہوئی اور‬
‫بغداد آباد ہوا اور اس کے آٹھ برس کے بعد یعنی ‪۱۶۴‬ھ‬
‫سے عرب و ہند کے علمی تعلقات کا باقاعدہ آغاز‬
‫ہوا‘‘۔(‪)۱۱‬‬

‫چونکہ عرب ہندوستان کی زبانوں سے نا آشنا تھے اس لیے وہ چاہتے تھے کہ‬
‫کسی طرح وہ ہندوستان کی تہذیب و ثقافت اور علم وفن کو جان لیں اس کے لیے انہوں‬
‫نے مختلف علمی کتابوں سے تراجم کرانے کا فیصلہ کیا اور اس کا آغا ز پہلی صدی‬
‫ہجری سے کیا۔ہندوستان کے ریاضی کے ماہر پنڈت نے سنسکر ت کی سدھانت کا‬
‫ترجمہ عرب ریاضی دان کی مدد سے عربی زبان میں کیا اور اس طرح عربوں پر‬
‫ہندوستان کی بیدار مغزی اور قابلیت کی دھاک بٹھا دی ۔‬

‫تراجم کے ذریعے اہل عرب کے دلوں میں ہندوستان کی جو قدر و منزلت پیدا‬
‫ہوئی اس کی نظیر ملنا مشکل ہے ۔مشہور عرب مصنف جاحظ جو کہ انشاپردا‬
‫ز‪،‬فالسفر اور متکلم تھا اس کے ہندوستان سے اچھے تعلقات تھے ۔‬

‫اس حوالے سے وہ کہتا ہے‬

‫’’ان کے ہاں مختلف قسم کے خط ہیں شاعری کا ذخیرہ‬


‫بھی اور تقریروں کا حصہ بھی ہے۔طب ‪،‬فلسفہ اور ادب‬
‫و اخالق کے علوم بھی ان کے پاس ہیں انہی کے ہاں‬
‫سے کلیلہ دمنہ کتا ب ہمارے پاس آئی اور فکر کا علم‬
‫انہیں کے پاس سے آیا ہے اور ان کو ایسے منتر معلوم‬
‫ہیں جن کو یہ زہر پر پڑھ دیں تو زہر بیکار ہوجائے پھر‬
‫نجوم کے حساب کے وہی موجد ہیں ‘‘۔(‪)۱۱‬‬

‫یعقوبی جو سیاح ‪،‬مورخ اور فاضل بھی تھا ۔وہ اہل ہند کے بارے میں اس طرح‬
‫اظہا رخیال کر تا ہے ۔‬

‫’’اور ہندوستان کے لوگ عقل اور غور وفکر والے ہیں‬


‫اور وہ اس حیثیت سے سب قوموں سے بڑھ کر ہیں‬
‫۔جوتش اور نجوم میں ان کی باتیں سب سے زیادہ درست‬
‫نکلتی ہیں ۔سدھا نت انہیں کی ذہانت کا نتیجہ ہے جس‬
‫سے یونانیوں اور ایرانیوں تک نے فائدہ اْٹھایا ۔طب میں‬
‫ان کا فیصلہ سب سے آگے ہے ‘‘۔ (‪)۱۳‬‬

‫ابو زید سیرافی تیسری صدی کے آخر میں تھا ۔وہ ہندوستان کے اہل علم کے‬
‫حوالے سے کہتا ہے ۔‬

‫’’ہندوستان کے اہل علم برہمن کہالتے ہیں اور ان میں‬


‫شاعربھی ہیں جو بادشاہوں کے درباروں میں رہتے‬
‫ہیں‘‘۔(‪)۱۴‬‬

‫عرب حکمرانوں کی قدردانی اور سر پرستی کی وجہ سے بہت سے ہندوستانی‬


‫پنڈت اور وید عراق پہنچے اور بہت سی کتابوں (ریاضی ‪،‬نجوم ‪،‬ھیئت اور ادب و‬
‫اخالق)کا عربی میں ترجمہ کیا یہ المیہ اپنی جگہ کہ ان پنڈتوں کے نام عربی لب و‬
‫لہجہ میں بالکل بدل گئے ‪،‬خلیفہ ہارون الرشید ایک بار سخت بیمار ہوا تو ہندوستان‬
‫کے طبیب کے عالج سے وہ صحت یاب ہوا ‪،‬خلیفہ کا چچا زاد بھائی بھی ہندی وید‬
‫کے عالج سے صحت یاب ہوا۔‬

‫اہل عرب بہت فخر سے بتاتے ہیں کہ انہوں نے اسے ‪ ۸‬تک حسابی ہند سے‬
‫لکھنے کا طریقہ اہل ہند سے سیکھا ۔‬
‫بالغت کے اصولوں کے بارے میں اہل عرب نے ہندی کتابوں کے تراجم سے‬
‫مددلی کہ ایک مقرر کو کیسا ہونا چاہئے اور کس وقت اس کے لیے کیسی تقریر‬
‫مناسب ہے ۔ہم جو اہل عرب کی فصاحت و بالغت کے شیدائی ہیں کہ ان کے اند ر اس‬
‫خوبی کوعرب خطے کی آب وہوا کا اثر سمجھتے ہیں لیکن اگربنظر غائر دیکھا جائے‬
‫ہے۔‬ ‫ہاتھ‬ ‫کا‬ ‫ہند‬ ‫اہل‬ ‫بھی‬ ‫میں‬ ‫اس‬ ‫تو‬
‫ہندوستان کی بہت سی کتب کا عربی میں ترجمہ کیا گیا ہے کیونکہ اہل عرب‬
‫ہندوستانی ادب سے بہت متاثر تھے ۔کتب کے تراجم ایک لحاظ سے علمی تعلقات کی‬
‫پائیداری ثابت ہوئے ۔‬

‫افسانوں اور قصوں کے متعلق ہندوستانی کتابیں یہ ہیں ۔’’کتاب کلیلہ و دمنہ‬
‫‘‘ اس کے متعلق اختالف ہے کہا جاتا ہے کہ وہ اہل ہند کی تصنیف ہے اور اس کا ذکر‬
‫دیباچہ کتاب میں بھی ہے لیکن دوسرا قول یہ ہے کہ وہ اسکا نی بادشاہوں کی تصنیف‬
‫ہے اور اہل ہند نے اسے اپنی طرف منسوب کر لیا ہے ۔‬

‫ایک روایت کے مطابق وہ اہل فارس کی تصنیف ہے اور ہندوستان والوں نے‬
‫ہے‬ ‫لیا‬ ‫کر‬ ‫منسوب‬ ‫طرف‬ ‫اپنی‬ ‫اسے‬
‫’’سند باد حکیم‘‘کی کتاب کے دونسخے ہیں ایک بڑا اور دوسرا چھوٹا اس کے بارے‬
‫میں بھی کلیلہ ودمنہ کی طرح اختالف ہے لیکن زیادہ صحیح اور قرین قیاس بات یہ‬
‫ہے کہ وہ اہل ہند کی تصنیف ہے ۔ (‪)۱۶‬‬

‫ان دونوں کتب کے عربی میں تراجم ہوئے اور انہیں بے پناہ شہر ت ملی ۔‬

‫اگر مختلف زبانوں میں ترجمے کے اعتبار سے دیکھا جائے تو پنچ تنترد ُنیا کی‬
‫مقبول ترین افسانوی کتب میں سے ہے ۔کلیلہ ود منہ کی اصل یہی کتاب ہے۔ یہ ‪۳۰۰‬‬
‫ق م سے پہلے کی تصنیف ہے۔‬

‫کلیلہ ودمنہ کے دو کردار راجادابشلیم اور بیدپا برہمن تھے ۔بیدپا ‪۳۰۰‬ق م کے‬
‫قریب ہوا ہے ۔پورس کو شکست دے کر سکندر ایک یونانی گورنر چھوڑتا گیا۔ سکندر‬
‫کے جاتے ہی رعایا نے بغاوت کر کے یونانی کو ہٹاکر دا بشلیم کو راجا بنا دیا ۔ اس‬
‫کے راج میں ایک بید پابرہمن تھا۔(‪)۱۱‬‬

‫’’ان کے عالوہ ہندی کی چند اورکہانیاں بھی عربوں نے‬


‫اپنی زبان میں نقل کرائیں جن میں سے ایک دیپک ہندی‬
‫کی کہانی ہے جس میں ایک مرد اور ایک عورت کا‬
‫قصہ ہے۔ایک حضرت آدم ؑ کے زمین میں آنے کی‬
‫کہانی ہے اسی طرح ایک راجہ کی کہانی ہے جس میں‬
‫لڑنے اور تیر نے کا بیان ہے ۔ہندوستان کے متعدد‬
‫قصوں اور کہانیوں کے حوالے اخوان الصفا کے رسائل‬
‫میں ملتے ہیں ‘‘۔ (‪)۱۹‬‬

‫کلیلہ ودمنہ وہ اہم کتا ب ہے جو ہندوستانی دماغ کی تخلیق ہے اوراہل عرب‬


‫نے تراجم کی مدد سے اسے دنیا کے تمام گوشوں میں پھیال دیا ۔‬

‫وہ مسلمان عرب فاضل جوسیاحت کے لیے نہیں درحقیقت ہندوستان کے علم و‬
‫فن کواپنے اند ر جذب کرنے آئے تھے او ر حقیقتا َ ََ وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب‬
‫بھی ہو گئے تھے ۔ان میں دونام زیادہ اہمیت کے حامل ہیں ۔‬

‫’’پہال شخص محمد بن اسماعیل تنوخی ہے غالبا َ ََ اس‬


‫کازمانہ تیسری صدی ہجری (نویں صدی عیسوی ) کا ہو‬
‫گا ۔یہ نجو م اور ھیئت کامشہور عالم تھا یہاں وہ اپنے فن‬
‫کے متعلق بہت سی نادر معلومات لے کر واپس گیا ‘‘۔‬
‫(‪)۱۱‬‬

‫ذو ق تحسین ہی کچھ کر گزرنے کا جذبہ ابھارتا ہے اور ایسے انسا ن کے اند‬
‫ر دوسروں کے خیاالت اور مسائل جاننے کا خاص شوق ہوتا ہے اسکے اس ذوق کا‬
‫اظہار اس کی تحریروں سے بھی ہوتا ہے ۔‬

‫ایسا ہی مشہور فاضل حکیم وریاضی داں ابوریحان البیرونی ہے اس کے زمانہ‬


‫تک مسلمان علمی تحقیقات اور عربی علوم میں بدرجہ کمال تک پہنچ چکے تھے اب‬
‫بیرونی محض جدت پسندی کے لیے ہی ہندوستا ن کے علوم سیکھنا چاہتا تھا ۔‬

‫وہ ہندوستان کب آیااورکب تک قیام کیا اس بارے میں کوئی واضح بیان سامنے‬
‫نہیں آتا۔‬

‫’’بہرحا ل وہ ہندوستان میں اْس وقت داخل ہوا جب‬


‫ہندوستان کی سرزمین سلطان محمود کے حملوں سے‬
‫زیر زبرہورہی تھی‘‘ ۔(‪)۱۸‬‬

‫اس نے کتاب الہند لکھی اہل ہند کو زیر بار کر دیاکہ اس میں ان کے پْرانے‬
‫تمدن ‪،‬خیاالت اور علوم کو پوری دنیا میں قائم رکھا ۔اس نے مسلمانوں اور ہندوؤں کے‬
‫درمیان ایک علمی سفیر کا کردار اداکیا ۔‬

‫’’ اس نے ہندؤو ں کو عربوں اورایرانیوں کی تحقیقات سے آگاہ کیا اس نے‬


‫عربی جاننے والوں کے لیے سنسکر ت سے اور سنسکرت جاننے والوں کے لیے‬
‫عربی سے کتابیں ترجمہ کیں اور اس طرح وہ فرض ادا کیاجو ہندوستان کا مدت سے‬
‫عربی زبان کے علوم و فنون پر چال آرہا تھا ۔اس نے ہندوستان کے متعلق تین قسم کی‬
‫کتابیں لکھیں ۔‬

‫ایک عربی سے سنسکرت میں‬ ‫‪۱‬۔‬

‫دوسری سنسکرت سے عربی میں‬ ‫‪۱‬۔‬

‫تیسری ہندی علوم اور مسئلو ں کی چھا ن بین اور جانچ پڑتال میں‬ ‫‪۳‬۔‬
‫‘‘۔(‪)۹۰‬‬

‫البیرونی کسی بھی قوم کے حاالت و واقعات کو جاننے کے لیے اس قوم کی‬
‫زبان جاننا بہت ضروری سمجھتا ہے کیونکہ اس کے بغیر اس کی تاریخ کو سمجھنا نا‬
‫ممکن ہے وہ ہندوستان کے متعلق لکھتا ہے ۔‬

‫’’جب تک مجھے ان کی زبان نہیں آتی تھی تو ان کے سامنے شاگردوں کی‬


‫طرح بیٹھتا تھا لیکن جب ان کی کچھ زبان آگئی اور میں نے ہئیت اور حساب میں ان‬
‫کو مسائل اور دالئل اور تحقیقات بتانی شروع کیں تو وہ حیرت میں آگئے اورخود مجھ‬
‫سے سیکھنے لگے اور تعجب سے پوچھنے لگے کہ تم کس پنڈت کے شاگر د ہو‬
‫؟‘‘۔(‪)۹۱‬‬

‫مختصر یہ کہ ان فاضل عرب سیاحوں نے عرب وہند کے درمیان فاصلوں کی‬


‫دوری م ٹا دی اور انہیں ایک دوسرے کے قریب النے میں اہم کردار ادا کیا ۔یوں‬
‫محسوس ہونے لگا کہ ان کے درمیان تہذیب و ثقافت کے فاصلے بھی جلد ہی مٹ‬
‫جائیں گے۔‬

‫مذہبی تعلقات‪:‬‬
‫جس رشتے نے عرب وہند کو ایک لڑ ی میں سدا پروئے رکھا وہ مذہب کا‬
‫رشتہ ہے ۔‬

‫اسالم سے قبل دو رجاہلیت میں بھی دیکھیں تو بھی عرب و ہند مذہبا ً ایک‬
‫دوسرے سے قریب تر تھے اور دونوں ہی بت پرست تھے اگرچہ ان کے عقائد الگ‬
‫الگ تھے اور تہذیب و ثقافت کے مطابق ان کے بتوں میں بھی فرق تھا ۔لیکن بنیادی‬
‫مقصد ایک ہی تھا ۔یعنی ان کی پوجا کر نا اور ان کے سامنے خود کو حقیر سمجھنا‬
‫اوراپنی تمام حاجتوں کا درماں انہی کوسمجھنا ۔‬

‫’’ عرب اور ہندوالوں کے سات مشہور بت خانے ہیں جو سات ستاروں کے نام‬
‫پر بنائے گئے ہیں اْن میں سے بعض میں بْت تھے مگر انہیں آتشکدوں میں تبدیل کردیا‬
‫گیا ۔اور بعض اپنی حالت پرباقی ہیں ۔آگ اوربُت کے ماننے والوں میں بڑی کشمکش‬
‫اوراختالف رہتاہے اور کبھی یہ جماعت اورکبھی وہ جماعت غالب ہو جاتی ہے ۔‬
‫جس جماعت کو غلبہ و اقتدار حاصل ہوتا ہے وہ اپنے دین و مذہب کے طریقہ‬
‫اور رواج کے مطابق عبادت خانے میں تغیّر کر دیتی ہے‘‘ ۔ (‪)۹۱‬‬

‫دنیامیں مختلف اقوام آباد تھیں لیکن ان میں خصوصی اہمیت کی حامل اقوام چار‬
‫تھیں۔‬

‫’’بڑی بڑی قومیں چار ہیں ‪،‬عربی ‪،‬عجمی ‪،‬یونانی ‪،‬اور‬


‫ہندوستانی عرب اورہندوستانی قریب قریب ایک ہی‬
‫مذہب پر تھے اور ان کا میالن زیادہ تر اشیاء کی‬
‫خصوصیات بیان کرنے ‪،‬ماہیتوں اور حقیقتوں کے احکام‬
‫کا فیصلہ کرنے اور روحانی چیزوں کو استعمال کرنے‬
‫کی طرف ہے ‘‘۔ (‪)۹۳‬‬

‫عرب وہند کے مذہبی تعلقات کے حوالے سے ایک اہم نکتہ بہت اہمیت کا حامل‬
‫ہے کہ ہندوستان آنے والے ترک‪،‬مغل اور افغان فاتحین کی تمام کارروائیوں کو اسالم‬
‫کے مطابق سمجھا جاتاہے کہ وہ یہ سب کچھ دین اسالم کے سچے ہیرو ہونے کے‬
‫ناطے کر رہے ہیں حاالنکہ حقیقت اس کے برعکس ہے کیونکہ وہ اسالم کے نمائندے‬
‫نہ تھے اور نہ انکے طرز حکومت کی بنیاد اسالمی قوانین پر مبنی تھی ۔ان میں شامل‬
‫زیادہ تر ترک افسر تومسلم غالم تھے ۔غزنوی سلطنت جس ملک میں قائم ہوئی تھی‬
‫وہاں اسالم کے قدم ابھی پوری طرح جمے نہیں تھے مغل ساتویں صدی تک کافر‬
‫سمجھے جاتے تھے کیونکہ اس دورمیں نہ اسالمی تعلیمات عام تھیں اور نہ ہی مسلم‬
‫علماء ہر گوشے میں پھیلے تھے اس لیے ان کے جنگی اصول اسالم کے منافی تھے ۔‬

‫’’برخالف اس کے وہ عرب فاتح جو ایک صدی کے‬


‫اندر اند ر ایک طرف شام کی سرحد عبور کر کے مصر‬
‫اور شمالی افریقہ کے راستہ سے اسپین تک پہنچ چکے‬
‫تھے اور دوسری طرف عراق کے راستہ سے خراسان‬
‫تک اور ایران ترکستان کو طے کر کے ایک سمت میں‬
‫کاشغر اوردوسری سمت میں سندھ تک فتح کر چکے‬
‫تھے ۔وہ لوگ تھے جن میں اسالم کی تعلیمات زندہ تھیں‬
‫اسالم کا قانون جنگ عمل میں تھا ۔کہیں کہیں افسروں‬
‫میں بعض ایسے بزر گوار بھی تھے جنہوں نے پیغمبر‬
‫اسالم کی صحبت اْٹھائی تھی او ر ایسے تو بکثرت تھے‬
‫جنہوں نے صحابہ کا فیض پا یا تھا ۔اس لیے ان کے‬
‫طور طریق ‪،‬اصول حکومت اور طرز سلطنت خیبر‬
‫سے آنے والی قوموں سے بالکل مختلف تھے ‘‘۔(‪)۹۴‬‬

‫یہ وضاحت اس لیے ضروری ہے تاکہ یہ حقیقت سامنے آسکے کہ مغل ‪،‬ترک‬
‫اور افغان فاتحین کوعرب فاتحین کے مثل نہ سمجھا جائے کیونکہ غوری قبائل تو‬
‫چوتھی صدی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے جو اصول جنگ اسالم نے سکھائے تھے‬
‫وہ اس سے کوسوں دور تھے ٰلہذا جب انہوں نے ہندوستان پر حملے کیے تو لوٹ مار‬
‫کا بازار گرم کر دیا اور اہل ہند نے کبھی انہیں دل سے قبول نہ کیا۔ عربوں نے دوران‬
‫جنگ کسی عبادت گاہ کو نقصان نہیں پہنچایا ۔کیونکہ اسالم نے دنیا کی تمام قوموں کو‬
‫چار حصوں میں تقسیم کیا تھا ۔’’(‪)۱‬مسلمان ‪)۱(،‬اہل کتاب‪)۳(،‬مشابہ اہل کتاب یعنی وہ‬
‫قومیں جو کسی آسمانی تعلیم کی پیروی کی مدعی تو ہیں مگر قرآن میں ان کا نام نہیں‬
‫آیاہے اس لیے ان کے اہل کتاب ہونے کا یقین نہیں مگر گمان ضرور ہے ‪)۴(،‬کفار یہ‬
‫وہ قومیں ہیں جو کسی آسمانی تعلیم کی پیرو نہیں ‘‘۔(‪)۹۶‬‬

‫اسالم میں ان تمام اقوام کے لیے الگ الگ قوانین ہیں لیکن یہ قوانین ایسے ہیں‬
‫کہ ان میں کسی کے ساتھ استحصال کی اجازت نہیں ۔اہم بات یہ ہے کہ جب کسی غیر‬
‫قوم میں اسالمی سلطنت قائم ہو تو یہ دیکھنا بہت ضروری ہے کہ وہ قوم ان چاروں‬
‫اقوام میں سے کس میں آتی ہے ؟اس کے مطابق اس کے ساتھ حسن سلوک کر نا‬
‫چاہیے جبر نہیں کر نا چاہئے ۔‬

‫اعلی‬
‫ٰ‬ ‫عرب فاتح محمد بن قاسم ‪۸۳‬ھ میں سندھ آیا تو اس نے رواداری کی‬
‫مثالیں قائم کیں ۔ہندوستان میں کثیر تعداد میں مختلف اقوام آبادتھیں اور ایک انداز ے‬
‫کے مطابق ‪ ۴۱‬مذہبی فرقے تھے ۔محمد بن قاسم نے کسی بھی فرقے پر مذہبی تسلط‬
‫قائم نہیں کیا ان کو ہر طرح سے مذہبی آزادی دی کیونکہ جبر کسی بھی رشتے کی‬
‫موت ہے ۔اس کے سہارے قائم ہونے والے تعلقات بہت جلد کھوکھلے ہو جاتے ہیں ۔‬

‫’’سندھ کو فتح کرتے ہوئے جب عرب سپہ ساالر محمد‬


‫بن قاسم سندھ کے مشہور شہر الور پہنچا تو شہروالوں‬
‫نے کئی مہینہ تک حملہ آوروں کا پر زور مقابلہ کیا پھر‬
‫صلح کی اور اس میں دو شرطیں پیش کیں ۔اول یہ کہ‬
‫شہر کا کوئی آدمی قتل نہ کیا جائے دوسرے یہ کہ ان‬
‫کے بت خانوں سے کوئی تعرض نہ کیا جائے ‘‘۔‬

‫محمد بن قاسم نے جس وقت ان شرطوں کوقبول کیا تو یہ الفاظ کہے ۔‬


‫’’ہندوستان کا بت خانہ بھی عیسائیوں اور یہودیوں کی‬
‫عبادت گاہوں اور مجوس کے آتش کدوں ہی کی طرح‬
‫ہے‘‘(‪)۹۱‬‬

‫اعلی مثال ہے کہ اس نے بت خانوں کو وہی‬


‫ٰ‬ ‫یہ اس عرب فاتح کی رواداری کی‬
‫درجہ دیا جو اہل کتاب یا مشابہ اہل کتاب کی عبادت گاہوں کا اسالم میں ہے ۔اس‬
‫رواداری نے عرب وہند کے درمیان مذہبی تعلقات کو فروغ دیا ۔اسی لیے ایک بودھ‬
‫مت کے پیرو نے ہند و راجہ کو مشورہ دیا۔‬

‫’’ہم کو اچھی طرح معلوم ہے کہ محمد بن قاسم کے پاس‬


‫حجاج کا فرمان ہے کہ جو اماں چاہے اس کو اماں دو‬
‫اس لیے ہمیں یقین ہے کہ آپ اس کو مناسب سمجھیں‬
‫گے کہ ہم اس سے صلح کرلیں کیونکہ عرب ایمانداراور‬
‫اپنے معاہدوں کے پابند ہیں‘‘۔(‪)۹۹‬‬

‫محمد ب ن قاسم نے اسالمی اصول جنگ کے مطابق سندھ پر حملے کیے اور‬
‫اس دوران وہاں کے بت خانوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا ۔مفتوحہ عالقے میں اپنی‬
‫الگ مسجد بنائی جب ملتان پر حملہ کیا تو وہاں کے بت خانہ کوکوئی نقصان نہیں‬
‫پہنچایا بلکہ عربوں کی تین سوسال کی حکومت میں بھی وہ صحیح سالمت رہا ۔اسی‬
‫دوران عرب سیاحوں نے پجاریوں کے اللچ اور منافقت کا عجیب قصہ سنایا ہے کہ‬
‫لوگ اپنی عقیدت میں جو کچھ چڑھا وے کے طور پر ان بتوں کی نذر کرتے ان کو‬
‫پجاری عرب تاجروں کے ہاتھ بیچ ڈالتے یہ بت خانہ تقریبا ً ‪ ۳۱۶‬ھ تک عرب امیروں‬
‫کے زیر حکومت اپنی اصل حالت میں برقرار رہا ۔اس میں تبدیلی اس وقت آئی جب‬
‫یہاں پر حکمران تبدیل ہو گئے اور یہ جامع مسجد میں تبدیل ہو گیا ۔‬

‫’’اس مندر میں افراط سے سونا چاندی تھی دو دو سو‬


‫اشرفیوں کا عود یہاں جالنے کو بھیجتے تھے جن کو‬
‫پجاری عرب تاجروں کے ہاتھ بیچ ڈالتے تھے ‘‘۔(‪)۹۱‬‬

‫جب ابو ریحان بیرونی ‪ ۴۰۰‬ھ کے بعد یہاں آیا ہے تو اس نے اس کو بت خانہ‬


‫کے بجائے جامع مسجد پایا ۔اس تغیر کی وجہ اس نے یہ لکھی ہے ۔‬

‫’’محمد بن قاسم نے جب ملتان فتح کیا تو اس کی آبادی‬


‫اوردولت مندی کا سبب اسی بت خانہ کو پایا تو اس نے‬
‫اس کو اپنی حالت پر چھوڑدیا اور اس کے گلے میں‬
‫گائے کی ہڈی باندھ کر یہ ثابت کیا کہ وہ اس کوکسی‬
‫عقیدت کی وجہ سے نہیں چھوڑرہا ہے اور اس نے‬
‫مسلمانوں کے لیے جامع مسجدالگ بنائی پھر جب ملتان‬
‫پر قرمطی لوگ حکمران ہو گئے تو جلم بن شیبان نے‬
‫اس بت خانہ کو توڑ دیا اور پجاریوں کو قتل کر دیا ۔اس‬
‫کی عمارت کو جو اینٹ کی تھی اور اْونچی جگہ پر تھی‬
‫جامع مسجدبنا دیا اور پہلی جامع مسجد میں قفل لگا دیا‬
‫کہ وہ بنی اْمیہ کی یادگار تھی اور ان سے ان کو دشمنی‬
‫تھی پھر جب سلطان محمود نے ملتان فتح کر کے‬
‫قرمطیوں کو مٹادیا تو جامع مسجد کو بند کر کے پھر‬
‫اصلی جامع مسجد کھلوا دی اور اب وہ صرف بت خانہ‬
‫کی جگہ صرف میدان ہے ‘‘۔(‪)۹۸‬‬

‫محمد بن قاسم نے قبول اسالم کے معاملے میں کسی پر کوئی جبر نہ کیا اور‬
‫باقاعدہ اعالن کر دیا جو چاہے اسالم قبول کر لے اورجو چاہے اپنے پہلے مذہب پر‬
‫ہی قائم رہے ۔ اسالمی قوانین کے مطابق جو ضروری ٹیکس تھے وہی عائد کیے ان‬
‫کے عالوہ کوئی ٹیکس نہ تھا اور ہر طرح کی مکمل مذہبی آزادی حاصل تھی ۔‬

‫عربوں کی اس رواداری سے ہندو بہت متاثر ہوئے دوسری صدی ہجری میں‬
‫جب ایک عالقے میں عرب حکومت ختم ہو گئی اور ہندو وہاں قابض ہو گئے تو انہوں‬
‫نے مسلمانوں کی مسجد کو کوئی نقصان نہ پہنچایا اور مسلمان وہاں نماز پڑھتے رہے‬
‫اور جمعہ میں حسب دستور اپنے خلیفہ کا نام لیتے رہے ۔‬

‫اہل عرب اور اہل ہند کے باہمی میل جول کی وجہ سے عربوں میں یہ تجسس‬
‫پیدا ہو اکہ وہ ہندؤوں کے مختلف مذاہب کے بارے میں واقفیت حاصل کریں اور انہوں‬
‫نے تحقیقات کا آغاز کر دیا ۔اس کے لیے انہوں نے مختلف اشخاص کو ہندوستان بھیجا‬
‫تاکہ وہ وہاں کے مذاہب کے بارے میں معلومات حاصل کریں ۔‬

‫یحیی بر مکی نے جس کی وزارت کا زمانہ ‪۱۹۰‬ھ‬


‫’’ ٰ‬
‫سے ‪ ۱۸۰‬ھ تک ہے ایک شخص کو ہندوستان خاص‬
‫طور سے اس لیے بھیجا کہ وہ یہاں کی دوائیں اوریہاں‬
‫کے مذہبوں کا حال لکھ کر الئے ‘‘۔ (‪)۱۰‬‬
‫ٰلہذا یہ شخص ہندوستان آیا اور اس نے یہاں کی روداد بڑی تفصیل سے لکھی‬
‫ہے ۔مختلف فرقوں اور ان کے رہن سہن کے بارے میں بتایا ہے ۔‬
‫ابو ریحان البیرونی نے اپنی کتاب میں ہندؤوں کے مختلف مذاہب پر تفصیالً‬
‫روشنی ڈالی ہے ۔‬

‫’’یہ مورتی پوجا صرف ہندوستان کے عوام اور جاہلوں‬


‫کادھرم ہے ورنہ پڑھے لکھے ہندو ایسا نہیں سمجھتے‬
‫‘‘۔ (‪)۱۱‬‬

‫مختلف عربوں سیاحوں نے ہندو ستان کے مذہبی حاالت کے متعلق لکھا ہے ۔‬


‫انہوں نے زیادہ تر ملتان اور سندھ کے بْت خانوں کے متعلق لکھا ہے اور ان بتوں کی‬
‫ظاہری شکل و صورت کے بارے میں لکھا ہے کہ آنکھوں کی جگہ دولعل تھے اور‬
‫سرپر سونے کا تاج تھا ۔‬

‫عر ب سیاحوں نے ان مندروں کا ذکر کر اہت سے کیا ہے جہاں دیودا سیاں‬


‫رکھنے کا دستور تھا ۔اس قسم کے مندر ملتان کے ساتھ ساتھ سندھ میں بھی تھے ۔‬

‫ایک اہم چیز جس کا ذکر عرب سیاحوں نے کیا ہے وہ اپنی جان بلی دان کرنے‬
‫کا ہے کیونکہ وہ تناسخ اور آواگون پر اتنا پختہ یقین رکھتے تھے کہ آگ میں خود کو‬
‫زندہ جال دینا ان کے لیے بہت معمولی بات تھی ۔‬

‫دونوں قومیں یعنی ہندو اور مسلم شدید مذہب پرست تھے لیکن پھر بھی مذہبی‬
‫معامالت میں ایک دوسرے سے سمجھوتہ کرنے میں کس نے زیادہ قربانی دی ؟مذہب‬
‫میں اس قدر اختالف کے باوجود ان کے تعلقات میں رواداری یقینا َ ََ اس میں دونوں‬
‫کے عظمت کر دار کا دخل ہے ۔اس کا آغاز محمد بن قاسم نے کیا ۔‬

‫ہندو مذہب مختلف فرقوں میں بٹا ہوا تھا ۔ اس لیے ہر فرقہ کے عقائد میں بھی‬
‫کسی حد تک اختالف تھا ایک عرب مصنف نے تمام ہندو فرقوں کو دوحصوں میں‬
‫تقسیم کیا ہے ۔‬

‫’’مطہر مقدسی (‪۳۳۶‬ھ )نے تمام ہندو فرقوں کو دو‬


‫حصوں میں منقسم کیا ہے ۔ایک کا نام برہمنیہ‬
‫اوردوسرے کا نام سمنیہ بتایا ہے ۔بعض عرب مصنفوں‬
‫کولفظ برہمن کی مشابہت سے اتنا حسن ظن پیدا ہوا کہ‬
‫انہوں نے یہ فر ض کر لیا کہ بر ہمن در حقیقت حضرت‬
‫ابراہیم کے پیرو ہیں ۔اسی لیے ان کو برہمن کہتے ہیں‬
‫۔لیکن شہر ستانی نے اس غلطی کو دور کیا کہ یہ برھم‬
‫کی طرف نسبت ہے ۔ابراہیم کی طرف نہیں ۔برہمنوں کا‬
‫حریف سمنیہ دراصل عربی میں بودھوں کا نام‬
‫ہے‘‘۔(‪)۱۱‬‬

‫’’شہر ستانی نے جو پانچویں صدی ہجری کے اخیر‬


‫میں تھا ۔ سمنیہ کے بجائے بد کا لفظ استعمال کیا ہے‬
‫اور معلوم ہو تا ہے کہ اس کو اس مذہب سے پور ی‬
‫واقفیت تھی ۔وہ کہتا ہے کہ ’’بد‘‘(بدھ )سے مراد وہ‬
‫وجود ہے جس کا ظہو ر نہ تو پیدا ئش سے ہوتا ہے اور‬
‫نہ وہ شادی بیاہ رچاتا ہے ۔نہ کھا تا ہے ‪،‬نہ پیتا ہے ‪،‬نہ‬
‫بوڑھا ہو تا ہے اور نہ مرتا ہے‘‘۔(‪)۱۳‬‬

‫اس سے اس کی مراد گو تم بدھ کی تعلیمات ہیں اور عرب مصنفین کی‬


‫ہندوستان کے مذاہب میں دلچسپی ہے وہ اس بات کے شائق تھے کہ کسی طر ح یہ‬
‫کھوج لگا یا جائے کہ اہل ہند میں بت پرستی کی نوعیت کیا ہے ۔‬

‫’’محمد خورازمی چوتھی صدی ہجری کے اخیر میں‬


‫کہتا ہے کہ سمینہ بت پرست ہیں اور قدم عالم ‪،‬تناسخ‬
‫کے اور اس کے قائل ہیں کہ زمین ہمیشہ نیچے کو‬
‫جارہی ہے ان کے پیغمبر کا نام بوذاسف ہے جو‬
‫ہندوستان میں پیدا ہوا اور یہ لوگ ہندوستان اور چین میں‬
‫ہیں‘‘۔(‪)۱۴‬‬

‫مشہور عرب مورخ اور سیاح مسعودی (‪۳۳۳‬ھ )چین کے حال میں لکھتا ہے ۔‬

‫’’ان کا مذہب پہلے لوگوں کا مذہب ہے اور یہ ایک فرقہ‬


‫ہے جس کا نام سمنیہ ہے جن کی پوجا کا طریقہ وہی ہے‬
‫جو اسالم سے پہلے قریش کا تھا ‘‘۔ (‪)۱۶‬‬

‫سلیمان تاجر ‪۱۳۹‬ھ اپنے سفرنامہ میں کہتا ہے ۔‬


‫’’چین کے مذہب کی اصل ہندوستان سے ہے اور وہ‬
‫کہتے ہیں کہ بْدھ کی مورتیاں ہندوستان ہی نے ہمارے‬
‫لیے بنائی ہیں‘‘۔(‪)۱۱‬‬

‫سمنیہ جو در حقیقت بت پرست تھے مسلمانوں کے ساتھ اْن کے تعلقات قدیم‬


‫اور اچھے تھے ۔پھر ایک وقت وہ آیا کہ انہوں نے اسالم بھی قبول کر لیا ۔‬

‫’’سمنیہ کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات خراسان ‪،‬ترکستان اور افغانستان سے‬


‫شروع ہوتے ہیں اور رفتہ رفتہ وہ ہندوستان تک بڑھتے چلے آتے ہیں چنانچہ بلخ کے‬
‫نو وھار (نو بہار )کے متولی برمکیوں سے لے کران ملکوں کے معمولی بودھوں نے‬
‫بھی اسالم قبول کرنے میں کچھ زیادہ پس و پیش نہیں کیا ۔‬

‫یہی صورتحال سندھ میں نظر آتی ہے ۔پہلی صدی ہجری (ساتویں صدی‬
‫عیسوی )کے خاتمہ پر یعنی سندھ کی فتح کے چند ہی سال کے بعد جب بنو امیہ کے‬
‫دیندار اور برگزیدہ خلیفہ عمر بن عبد العزیز نے سندھ کے لوگوں کو اسالم کا دعوت‬
‫نامہ بھیجا تو بہت سے راجاؤں نے اسالم قبول کر لیا ۔ (‪)۱۹‬‬

‫دْنیا کے تمام رہنماؤں میں غالبا َ ََبدھ ہی کی ایسی ذات ہے جس کی شکل‬


‫وصورت اس کے مجسمہ اور مورتی کی بدولت ہزاروں سال گزر جانے کے باوجود‬
‫دنیا کے سامنے ہے۔اہل عرب بھی بدھ کی اس شکل و صور ت سے واقف تھے ۔ابن‬
‫ندیم نے ان لفظو ں میں اس کی تصویر کھینچی ہے۔‬

‫’’ایک شخص ایک تخت پر بیٹھا ‪،‬چہر ہ پر بال نہیں‬


‫‪،‬ٹھڈی نیچے جھکی ‪،‬کسی قدر مسکراہٹ ‪،‬انگلیاں بند‬
‫اور کچھ کھلی ‘‘۔(‪)۱۱‬‬

‫لفظ بت کو عام طور پر ایک فارسی لفظ سمجھا جاتا ہے لیکن حقیقت میں یہ‬
‫لفظ ’’بدھ ‘‘سے ’’بد‘‘اور ’’بد‘‘ سے ’’بْت ‘‘بنا ہے چونکہ بدھ کی مورتی کی پوجا‬
‫ہوتی تھی اس لیے ’’بد‘‘کے معنی ہی فارسی میں بت ہو گئے اسی لیے عربی میں اس‬
‫بت کو ’’بد ‘‘کہتے ہیں اور اس کی جمع ’’بدوہ‘‘آتی ہے۔(‪)۱۸‬‬

‫عربوں کو یہ بات معلوم تھی کہ بتوں کے گاہک زیادہ تر ہندوستان میں ہیں اس‬
‫لیے اٹلی پر حملہ کے وقت وہاں سے ملنے والے مجسمے ہندوستان بھیجے گئے اور‬
‫یہاں پر فروخت ہوئے ۔‬

‫مذہب ہی وہ واحد قلعہ ہے جو تمام انسانیت کو ایک مرکز پر ال کرکھڑا کر تا‬


‫ہے لیکن جب مذاہب الگ الگ ہوں توایک مقام پر ٹھہرنا ناممکن ہے لیکن بعض‬
‫اوقات ایسا ہو بھی جا تا ہے کہ ایک ہی مقام پر دو مختلف مذاہب کے لوگ کا دلی‬
‫عقیدتوں کا مرکز ایک ہی ہو جیسا کہ سراندیپ کے پہاڑ کی چٹان پر حضرت آدم ؑ کا‬
‫نقش پا مسلمانوں ‪،‬ہندوؤں ‪،‬بودھوں کے لیے زیارت گاہ ہے کیونکہ بودھ اس کو شاکیہ‬
‫مونی اور ہندو شیو کے پاؤں کا نشان سمجھتے ہیں ۔اس کا ذکر ہر بحری سیاح نے کیا‬
‫ہے یہی چیز مسلمانوں کی بکثرت آمدورفت اور اس جزیرہ میں اسالم کے قدم جمانے‬
‫کا باعث بنی ۔‬

‫بہر حال تجارتی ‪،‬معاشرتی اور سیاسی تعلقات کی وجہ سے بغیر کسی جنگ‬
‫وجدل کے امن وسکون سے ہندوستان میں اسالم پھیلتا گیا ۔اسی دوران عربوں اور‬
‫ہندوؤں کے تعلقات اس حد تک بڑھ چکے تھے کہ وہ آپس میں مذہبی مناظر ے کرنے‬
‫لگے بلکہ بعض اوقات ہندوؤں ‪،‬بودھوں اور مسلمانوں میں دوستانہ مذہبی مناظر ے‬
‫بھی ہوتے تھے قرآن مجید جو کہ حکمت و دانش کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے جس میں‬
‫غوطہ زن ہو کر زندگی کے بہت سے رازوں سے پردے اْٹھتے چلے جاتے ہیں اور‬
‫جہالت کے بادل چھٹ کر روشنی کی قوس قز ح بکھیر دیتے ہیں۔قرآن پاک جو کہ‬
‫ہمارے لیے ضابطہ حیات ہے اس نے ہندوؤں کے دلوں میں اس چیز کی تڑپ پیدا کی‬
‫ٰلہذا وہ بھی یہ چاہنے لگے کہ اس کے ذریعے وہ دین اسالم کو سمجھیں ۔‬

‫’’‪۱۹۰‬ھ میں الور (واقع سند ھ )کے راجہ مہر وگ نے‬


‫منصورہ (واقع سندھ )کے امیر عبداللہ بن عمر کو لکھ‬
‫بھیجا کہ کسی ایسے شخص کو میرے پاس بھیجئے جو‬
‫ہندی میں ہم کو اسالم کا مذہب سمجھا سکے ۔منصورہ‬
‫میں عراق کا ایک مسلمان تھا جو بہت تیز طبیعت‬
‫سمجھداراور شاعر تھا اور چونکہ ہندوستان میں پال تھا‬
‫اس لیے یہاں کی مختلف زبانیں وہ جانتا تھا ۔امیر نے‬
‫اس راجہ کی خواہش کا ذکر کیا وہ تیار ہوا ۔وہ راجہ‬
‫کے دربار میں تین برس رہا اور اس کی خواہش سے‬
‫اس نے قرآن کا ہندی زبان میں ترجمہ کیا ۔راجہ روزانہ‬
‫ترجمہ سنتا تھا اور اس سے بے حد متاثر ہو تا‬
‫تھا‘‘۔(‪)۸۰‬‬

‫عرب وہند کے تعلقات سے یہ حقیقت ہم پر عیاں ہو گئی ہے کہ ہندوستان میں‬


‫مسلمان فتوحات سے پہلے ہی آچکے تھے۔ہندوستان اور در ۂ خیبر پار ممالک کے‬
‫درمیان تعلقات متواتر صلح و جنگ کے تھے ۔ جسے قوت حاصل ہوتی وہی غالب‬
‫آجاتا یہ صورتحال ساتویں صدی عیسوی تک تھی اس میں تبدیلی اس وقت رونما ہوئی‬
‫جب اسالمی فتوحات کے قدم بڑھتے گئے اور ان ممالک اور قبائل نے اسالم قبول کر‬
‫نا شر وع کیا لیکن ان افغانیوں کی ہندوستانی راجاؤں کے ساتھ قوت آزمائی محض‬
‫مذہبی جذبہ نہ تھا بلکہ در حقیقت اقتدار کے حصول کی جنگ تھی ۔محمود غزنوی نے‬
‫چوتھی صدی ہجری میں اپنی ‪۳۳‬بر س کی حکومت میں چاروں طرف کے ممالک کو‬
‫خواہ وہ مسلمان ہو نیا نہ ہوں اپنے بے پناہ حملوں سے مجبور کر کے اپنی چھوٹی سی‬
‫موروثی حکومت میں شامل کر لیا۔ ہندوستان اور غور کے سوا باقی تقریبا َ ََ سبھی‬
‫مسلمانوں کی سلطنتیں تھیں یہ صورتحال شمالی ہندوستان میں تھی لیکن جنوبی ہند کی‬
‫کیفیت اس سے مختلف تھی یہاں پر محمود غزنوی ‪،‬شہاب الدین غوری اور قطب الدین‬
‫ایبک مختلف ادوار میں بادل کی طرح آئے اور آندھی کی طرح نکل گئے ۔اس جنگ و‬
‫جدل اور حملہ آوری کی حدود سے دور مسلمان عربوں اورعراقیوں کی آبادیاں تھیں‬
‫جو کہ سمندر کے کنا رے چل کر ا ن عالقوں میں آباد ہوئے تھے اور آتے جاتے‬
‫رہتے تھے اور یہیں پر انہوں نے اپنی نو آبادیاں قائم کر لی تھیں اور یہ سارا سلسلہ‬
‫تجارتی آمدورفت سے وابستہ تھا ۔یہاں بتدریج باہر سے مسلمان آکر آباد ہوتے گئے‬
‫اور اس عالقہ کے لوگوں نے بھی اسالم قبول کر نا شروع کر دیا تھا یہاں آمدورفت‬
‫کی ایک وجہ تجارت تھی اور دوسری وجہ سراندیپ کے نقش قدم کی زیارت تھی ۔‬

‫’’چونکہ اسالم کے پہلے ہی سے عرب ان جزیروں میں‬


‫تاجرانہ آتے تھے اور یہاں کے لوگ عرب جا یا کرتے‬
‫تھے اس لیے سراندیپ کے راجہ کو اسالم اور‬
‫مسلمانوں کا حال سب سے پہلے معلوم ہو ا اور صحابہ‬
‫کرام ہی کے زمانہ میں ‪۴۰‬ھ ؁میں(ساتویں صدی‬
‫عیسوی کے شروع ہی میں )وہ مسلمان ہو گیا ‘‘۔(‪)۸۱‬‬

‫اسالم اور عربوں کی پہلی نو آبادی سراندیپ میں قائم ہوئی اس کی تائید اس‬
‫واقعہ سے ہوتی ہے ۔‬

‫’’پہلی صدی ہجری کے آخر میں امویوں کی طر ف‬


‫سے حجاج عراق کا گورنر تھا اور جزائر ہند کی طرف‬
‫عراق ہی کی بند رگاہ سے جہازات آتے جاتے تھے تو‬
‫سراندیپ کے راجہ نے مسلمانوں کے ساتھ اپنی دوستی‬
‫اور محبت کے اظہار کے طور پر ایک جہاز میں‬
‫دوسرے تحفوں کے ساتھ ان مسلمان عورتوں اور‬
‫لڑکیوں کو عراق روانہ کیا جن کے باپ وہاں تجار ت‬
‫کرتے تھے اور وہیں ان کو مسافرت میں بے والی‬
‫وارث چھوڑ کر مر گئے تھے ‘‘۔(‪)۸۱‬‬
‫چونکہ اہل عرب اور اہل ہند کے درمیان تعلقات میں رواداری پیدا ہو گئی تھی‬
‫اور آنے جانے کا سلسلہ مزید بڑھنے لگا ۔گو اس وقت تک ان کے درمیان علمی و‬
‫ادبی تعلقات کا آغاز نہیں ہو اتھا ۔جزیرہ مالدیپ عربوں اور مسلمانوں کا اہم مرکز تھا‬
‫یہاں کے لوگ بْت پرست تھے جو بعد میں ایک عرب شیخ ابو البرکات کے ہاتھوں‬
‫مسلمان ہوئے اور یہاں آج بھی بڑی تعداد مخلوط النسل عربوں کی ہے ۔اس وقت اسالم‬
‫اور عربوں کا ایک اور اہم مرکز ملیبار تھا جو کہ ہندوستان کا آخری کنارہ تھا ۔ایک‬
‫روایت کے مطابق‪:‬‬

‫’’اسالم سے پہلے اور اسالم کے بعد یہودی اور عیسائی‬


‫سوداگر یہاں آیا کرتے تھے اور یہاں بودو باش اختیار‬
‫کر چکے تھے۔جب اسالم پر دو سو برس گزرے عرب‬
‫اور عجمی مسلمان درویشوں کی ایک جماعت حضرت‬
‫آدم کے نقش قدم کی زیارت کے لیے سراندیپ جس کو‬
‫لنکا کہتے ہیں جارہی تھی ۔اتفاق یہ ہے کہ ان کا جہاز ہو‬
‫ا کے جھونکوں سے بہک کر ملیبار شہر کے کنارے‬
‫آکر لگا شہر کے راجہ زیمور نے اْن کی بڑی آؤ بھگت‬
‫کی راجہ ان درویشوں کے ساتھ عرب چال گیا اور‬
‫مسلمان ہو گیا اور ان درویشوں سے کہا کہ ملیبار میں‬
‫اسالم پھیالنے کی صورت یہ ہے کہ تم لوگ ملیبار سے‬
‫تجارت اور سوداگری کا کاروبار شروع کر و‘‘۔(‪)۸۳‬‬

‫عرب تاجر اس وقت تک سے آنے جانے لگے اور یہاں رہنے لگے یہی‬
‫مسلمان عرب تاجر اور سوداگر ہیں جو موپال اور نائت کے ناموں سے ہندوستان میں‬
‫مشہور ہیں اور پر تگیزوں سے پہلے سمندر کی باگ انہی کے ہاتھوں میں تھی ۔‬
‫کولم ‪،‬کارومندل اور مختلف مراکز سے ہوتے ہوئے عربوں نے سندھ کی طرف رخ‬
‫کیاا ورپہلی صدی ہجری کے آخر میں دیبل سے ملتان تک کا عالقہ فتح کیا لیکن‬
‫حقیقت یہ ہے مسلمان اس حملے سے پہلے ہی سندھ میں آباد ہو چکے تھے ۔ محمد بن‬
‫قاسم کی فتح کے بعد تقریبا َ ََ سوا سو برس تک یہ ملک پہلے دمشق پھر بغداد کی‬
‫حکومت کا جز رہا ۔تیسری صدی ہجری (نویں صدی عیسوی )میں صورتحال مختلف‬
‫ہوگئی اور عرب گورنر وں نے کسی حد تک خود مختاری حاصل کر لی اس لیے‬
‫کہیں ہندو راجاؤں نے قبضہ کر لیا اور کہیں مسلمانوں نے اپنی ریاستیں قائم کر لیں‬
‫‪،‬محمود غزنوی کے حملہ تک سندھ میں کئی ریاستوں پر مسلمانوں کی حکومت تھی‬
‫اور یہاں بہت سے مسلمان عالم اور محدث پیدا ہوئے ۔منصورہ اور ملتان دو اہم مرکز‬
‫تھے یہاں پر مختلف عرب قبائل مختلف شہروں میں آکر آباد ہوئے ۔ملتان وہ شہر ہے‬
‫جہاں پر عربوں نے پہلی صدی ہجر ی میں قبضہ کیا اور محمود غزنوی کے حملے‬
‫تک برابر یہاں قابض رہے اس کا ذکر تیسری اور چوتھی صدی ہجر ی کے ہر عرب‬
‫سیاح نے کیا ہے سندھ کے دوسرے شہروں کے ساتھ ملتان پر بھی دمشق کے اموی‬
‫خاندان قابض رہے بعد میں جب بنوامیہ کی جگہ بنو عباس مسند خالفت پر بیٹھے تو‬
‫حکومت کا مرکز بغداد آگیا۔ شروع میں ملتان سندھ اور منصور ہ کے سا تھ تھا لیکن‬
‫بعد میں الگ ہو کر ایک خود مختار حکومت بن گیا۔ تیسری صدی ہجری میں ملتان‬
‫شیعوں کے ایک فرقہ اسماعیلیہ کا مرکز بن گیا اور بعد میں انہوں نے وہاں اپنی‬
‫حکومت قائم کر لی یہ عربی نسل کے لوگ تھے اور سامہ بن لوئی کی اوالد کہالتے‬
‫تھے ۔‬

‫ابوریحان بیرونی کتاب الہند میں (‪۴۱۴‬ھ )لکھتا ہے‪:‬‬

‫’’جب قرمطی (اسماعیلیہ )مولتان پر قابض ہوئے تو جلم‬


‫بن شیبان نے جس نے یہاں غلبہ حاصل کر لیا تھا محمد‬
‫بن قاسم کی جامع مسجد کو ایک اموی یادگار سمجھ کر‬
‫بند کر دیا اور اس بْت خانہ کو توڑ کر مسجد بنا لیا ‘‘۔‬

‫’’سلطان محمود غزنوی نے ‪ ۳۸۱‬ھ میں ملتان کے‬


‫اسماعیلیوں کے خالف فوج کشی کی اور ‪ ۴۰۱‬ھ میں‬
‫وہاں کے قرمطی امیر کو گرفتا ر کرلیا‘‘۔(‪)۸۴‬‬

‫تاریخ اسالم کا سب سے زیادہ دل خراش واقعہ کربال کیونکر پیش آیا ؟‬

‫ایک بات تو طے ہے کہ جس حقیقت کو تلوار کے زور پر جتنا بھی ختم کرنے‬


‫کی کوشش کی جائے وہ کبھی ختم نہیں ہوتی بلکہ وقت کے ساتھ اور نکھر کر سامنے‬
‫آتی ہے اور اپنے آپ کو منوا کر رہتی ہے ۔یہی صورتحال جابر و نافرمان اور ظالم‬
‫حکمران یزید کے ساتھ پیش آئی کہ اس نے شہدا ئے کر بال پر ناحق ظلم وستم کے‬
‫پہاڑ توڑے اور ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کی لیکن وقت نے حق و باطل کے‬
‫ؓ‬
‫حسین اور ان کے خاندان کو بخشا وہ رہتی‬ ‫اس معرکے میں جو ْرتبہ جناب سید امام‬
‫دنیا تک ایسی مثال ہے کہ جس کی نظیر ملنا نا ممکن ہے ۔‬

‫’’‪ ۱۰‬ہجری کو یزید تخت خالفت پر متمکن ہوا جسے قیصری حکومت میں‬
‫حسین سے بیعت لو‬‫ؓ‬ ‫بدل دیا گیا تھا ۔اس نے ولید بن عتبہ بن ابی سفیان کو لکھا امام‬
‫۔خط کے ملتے ہی ولید نے فورا َ ََ مروان بن حکم کومشورہ دیا کہ بیعت نہ کرنے کی‬
‫حسین کو شہید کر دیا جائے لیکن ولیدنے اس مشورے کوٹھکرا دیا‬ ‫ؓ‬ ‫صورت میں امام‬
‫ؓ‬
‫حسین‬ ‫ؓ‬
‫حسین رات کی تنہائی میں اپنے اہل و عیال کولے کر مکہ روانہ ہوئے امام‬ ‫۔امام‬
‫حسین نے چچازاد بھائی حضرت‬ ‫ؓ‬ ‫کی مکہ آمد پر کوفیوں کے خطوط آنے لگے۔امام‬
‫مسلم بن عقیل کو دورہبروں کے ساتھ کو فہ روانہ کیا ۔‪ ۱۱‬ہزار کوفہ والوں نے امام‬
‫حسین کی بیعت کی ۔اس صورتحال کا علم ہونے پر یزید نے‬ ‫ؓ‬ ‫مسلم کے ہاتھ پر امام‬
‫رسول کو سر جون مسیحی کے مشورے پر‬ ‫ؓ‬ ‫گورنر کوفہ نعمان بن بشیر صحابی‬
‫معزول کر کے عبیداللہ بن زیاد کو گورنر کوفہ نامزد کیا ۔زیاد منہ چھپائے کوفہ میں‬
‫داخل ہوا اور نعمان بن بشیر کو معزولی اور اپنی نامزدگی کا حکم نامہ سنایا اور ساتھ‬
‫ہی امام مسلم کی گرفتاری کا حکم دیا ۔مختصر سی لڑائی کے بعد امام مسلم کو امان‬
‫ؓ‬
‫حسین‬ ‫مسلم چونکہ امام‬
‫ؓ‬ ‫کے دھوکے پر گرفتار کر لیا گیااور انہیں شہید کر دیا گیا ۔امام‬
‫کو خط تحریر کر چکے کہ کوفہ والوں نے بیعت کر لی ہے اس لیے آپ کو فہ آجائیں‬
‫حسین ؓکو فہ کی طرف روانہ ہوئے اس پر آپ کو روکا بھی گیا اور‬ ‫ؓ‬ ‫اس طرح امام‬
‫عباس لیکن آپ ؑ نے فرمایا‬
‫ؓ‬ ‫بعض مخلصین نے یمن جانے کا بھی مشورہ دیا مثالَ ََ ابن‬
‫کہ میں نے رسول اللہﷺکو خواب میں دیکھا ہے کہ انہوں نے مجھے ایک کام کرنے‬
‫کا حکم دیا ہے اور میں وہ قیامت تک بتا نہیں سکتا ۔آپ ؑ جب تنعیم پہنچے تو فرزدق‬
‫شاعر مال اس نے کہا کہ کوفہ والوں کے دل تو آپ کے ساتھ ہیں لیکن تلواریں یزید‬
‫کے ساتھ ہیں راستے میں حضرت مسلم کی شہادت کی اطالع ملی تو آپ ؑ نے برادران‬
‫مسلم کو خبردار کیا اور ساتھ ہی راستہ بدلنے کا ارادہ کیا لیکن برادران مسلم نے‬
‫قصاص کے لیے اصرار کیا راستے میں عبداللہ بن مطیع ُزہیربن قین وغیرہ اصحاب‬
‫ملتے گئے ‪،‬مختلف مقامات سے ہوتے ہوئے کربال کے نزدیک ایک آبادی کا نام‬
‫نینوی ہے جہاں آپ بُدھ ‪ ۱‬محرم الحرام‪۱۱‬ھ کو پہنچے ۔ ُحر بن یزید ریاحی جو ایک‬ ‫’’ ٰ‬
‫ہزار فوج کے دستے کے ساتھ آپ ؑ کو روکنے کے لیے آیا تھا بھی کربال میں اُتر‬
‫پڑا۔دوسرے دن عمر ابن سعد چار ہزار کی سپاہ لیے ہوئے کربال میں وارد ہوا ۔سات‬
‫محرم الح رام تک گفت وشنید ہوتی رہی اور بیعت یزید پر اصرار ہوتا رہا اور نیاحکم‬
‫نامہ ملنے پر پانی بند کر دیا گیا ‪ ،‬حضرت عباس ؑ نے تھوڑی سی جھڑپ کے بعد پانی‬
‫حاصل کرلیا باالآخر دسویں محرم الحرام کو ابن سعد نے حملہ کردیا ۔اما ؑم نے ایک‬
‫رات کی مہلت مانگی اور دسویں کی دن جنگ برسر پیکا ر ہوئے چونکہ رات عبادت‬
‫اور دوستوں کو رخصت دینے کے لیے مانگی تھی لیکن کوئی بھی جانے کو تیا ر نہ‬
‫ہوا توبا قاعدہ جنگ فرمائی پہلے حضرت عبداللہ بن عوسجہ اسدی سمسلم بن عوسجہ‬
‫اسدی ‪،‬حبیب بن مظاہر اسدی زبیر بن قین بجلی ودیگر جرات اور بہادری کا مظاہرہ‬
‫کرتے ہوئے شہادت پاتے رہے اور تاریخ پر اپنے انمٹ نقوش ثبت کرتے رہے اس‬
‫کے بعدخاندان اہل بیت کے ‪۱۱۳‬فراد ‪ ،‬حضرت عباس ‪ ،‬قاسم ‪ ،‬علی اکبر ‪ ،‬علی اصغر‬
‫‪ ،‬عون ومحمد‪،‬عبداللہ وابوبکر نے جام شہادت نوش فرمایا۔ اور پھرتاجدار کربال‬
‫حسین نے جام شہادت نوش فرمایا آ ؑپ کے اصحاب‬ ‫ؑ‬ ‫جگرگوشہ بتول نواسہ رسول امام‬
‫میں ‪۹۱‬شہید ہوئے اور دشمن کے ‪۱۱‬آدمی واصل جہنم ہوئے ‘‘۔(‪)۸۶‬‬

‫عرب و عجم کے ما بین اختال فات کے با وجود آمدورفت کا سلسلہ ہمیشہ‬


‫جاری ر ہا۔‬

‫عرب ا شا عت اسالم کے لیے مختلف ممالک اورمقبوضہ عال قوں میں جا تے‬
‫رہتے تھے ۔فتو حا ت کی صو رت میں ما ل غنیمت کے ساتھ خواتین بھی ال ئی جا تی‬
‫تھیں لیکن اُن کے سا تھ کسی قسم کی زبر دستی نہیں کی جا تی تھی اُنہیں فیصلے کا‬
‫پو را اختیا ر دیا جا تا تھا اور اُن کے انتخاب کو تر جیح دی جا تی تھی۔ایسے ہی ایک‬
‫موقع پر شا ہ ایران کی دختر بھی مدینہ آئی۔یہ صورت حال اس کے لیے انتہائی تکلیف‬
‫دہ تھی لیکن آنے والے وقت نے ثابت کر دیا کہ اس کا مد ینے میں آنااس کے لیے سعد‬
‫ثابت ہوا اور تا ریخ کے اوراق میں اس کا نا م ہمیشہ کے لیے سنہری حروف میں ثبت‬
‫ہو گیا۔شاہ ایران کی اس دختر کا نام شہر بانو ہے جو امام حسین ؑ کے نکاح میں آئیں‬
‫اور ان کی کو کھ سے علی ابن حسین امام زین العابدین نے جنم لیا ۔واقعہ کر بال اور‬
‫ما بعد پیش آمدہ حا ال ت کا انہوں نے بلند ہمتی سے سامنا کیا ۔ان کی مد ینہ آمد کے‬
‫حوالے سے روایت ہے ۔‬

‫’’ان کا نام سال مہ بنت یزدجردبن شہر یا ر بن شیرویہ‬


‫بن کسٰ ری تھا اور یزد جرد ایران کا آخری با د شاہ تھا ۔‬
‫امام محمد با قر ؑ نے فر ما یا کہ بنت یزدجردحضرت‬
‫عمر کے پاس آئیں تو مدینہ کی با کرہ لڑکیاں ان کا حسن‬
‫ؓ‬
‫وجمال دیکھنے با الئے بام آئیں جب مسجد میں داخل‬
‫ہوئیں تو چہرے کی تا بندگی سے مسجد رو شن ہو‬
‫گئی۔عمر نے جب ان کی طرف دیکھا تو انہوں نے اپنا‬
‫ؓ‬
‫چہرا چھپا لیا اور کہا ۔بُرا ہو ہر مز کا کہ اس کی سوئے‬
‫عمر نے کہا‬
‫تد بیر سے یہ روزبد نصیب ہوا ۔حضرت ؓ‬
‫کیا تو مجھے گالی دیتی ہے اور ان کی اذیت کا ارادہ کیا‬
‫۔امیر المومنین نے کہا ۔ ایسا نہیں ہے اس کو اختیار دو‬
‫کہ وہ مسلمانوں میں سے کسی کو اپنے لیے اختیا ر‬
‫کرے ۔اس کے حصہ غنیمت میں اس کو سمجھ لیا جا‬
‫ئے جب اختیار دیا گیا تو وہ لو گوں کو دیکھتی ہوئی‬
‫چلیں اور امام حسین کے سر پر اپنا ہا تھ رکھ‬
‫دیا۔ امیرالمومنین نے پوچھا تمھارا نا م کیا ہے ۔کہا جہاں‬
‫شاہ ‪،‬حضرت نے فرما یا۔ نہیں بلکہ شہر با نو‘‘۔(‪)۸۱‬‬

‫اس الم ناک واقعہ کے بعد امام حسین کو ماننے والے مختلف گروہوں میں بٹ‬
‫گئے ہر گروہ خود کو امام حسین کا سچا عاشق ثابت کرنے کی کو شش کرتا ۔ ان میں‬
‫دو گروہ ایک حسینی برہمن اور دوسرا قرامطہ زیادہ مشہور ہوئے ‪،‬حسینی برہمن تو‬
‫حکمرانی کاشوق نہیں رکھتے تھے لیکن قرامطہ نے تقریبا ً دو ڈھائی سو سال حکومت‬
‫کی اور دوسرے عالقوں کے حکمرانوں سے براہ راست ٹکر بھی لیتے رہے ۔حسینی‬
‫برہمن کون ہیں ‪ ،‬یہ نا م سن کر تعجب ہوتا ہے کہ یہ حسینی کیسے بنے ؟ میدان کربال‬
‫میں جنگ کے دور ان ہندوستان کے ایک قبیلہ کے افراد جو اپنے آپ کو حسینی برہمن‬
‫کہتے ہیں ۔جناب امام حسین ؑ کی امدادکے لیے کربال کی طرف روانہ ہوئے لیکن‬
‫سدافسوس !جب یہ لوگ مسافت طے کرکے کربال پہنچے تو جناب امام حسین ؑ کی‬
‫شہادت ہو چکی تھی ٰلہذاان جانثاروں نے خود کو ختم کرنے کے لیے اپنی تلواریں‬
‫اپنی گردنوں پررکھ دیں تاکہ خود کو امام حسین ؑ کی محبت میں مٹادیں۔ لیکن جنا ب‬
‫مختار ثقفی کے سمجھانے پر انہوں نے تلواریں نیاموں میں ڈال لیں ۔ایک روایت‬
‫مطابق ان کی نسل میں پیدا ہونے والوں بچوں کی گردنوں پر تلوار کے نشان دیکھے‬
‫گئے ہیں۔‬

‫ُحسینی برہمنوں کے بارے میں مختلف روایات ہیں ۔‬

‫ایک روایت یہ ہے۔‬

‫’’ ریت کے سینے کو چیرتا ہوا بجلی کی رفتا ر سے کچھ ہندوستانی سپوتو ں‬
‫پنوں میں اپنی جگہ بنانے آنکھوں میں ایک عظیم‬ ‫کا ایک چھوٹا سا کارواں تاریخ کے ّ‬
‫حسین نے‬
‫ؑ‬ ‫مقصد عرب کی زمین کربال کی طرف رواں۔نبی محمدﷺ کے نواسے امام‬
‫جب کربال میں انسانیت سے سوال کیا ؟ہے کوئی جو میری مدد کو آئے تا ریخ گواہ‬
‫ہے کہ انسانیت سے کیے گئے اس سوال کے جواب میں امام کی مدد کے لیے اپنے‬
‫گھرو ں سے جو حق پرست نکلے وہ رسول کا کلمہ پڑھنے والے مسلمانوں کے ساتھ‬
‫ساتھ کا ندھے پہ چنے ڈالے ماتھے پر تلک لگائے کچھ ہندوستانی برہمن بھی تھے یہ‬
‫وہی ویر سپوت ہیں جو مدد کی شکل میں ہندو اور مسلمانوں کے بیچ پریم کی ایک‬
‫سنہری عبارت لکھنے کربال جا رہے ہیں ظالم بادشا ہ یزیداپنی حکومت کے نشے میں‬
‫چورہو کہ انسانیت کا چہرہ بگاڑدینا چاہتا ہے لیکن اُسے یہ پتہ تھا کہ جب تک نبی‬
‫محمد ﷺصاحب کے نواسے امام حسین ؑ زندہ ہیں تب تک وہ اپنی مرضی نہیں کر سکتا‬
‫۔اُس کے اسی ڈرنے امام ُحسین کو اُن کے پر ی وار کے ساتھ کربال میں گھیر کے اُن‬
‫سے اپنی حکومت کے سامنے سر جھکانے کو کہا ۔جیو اور جینے دو زندہ مثال پیش‬
‫کرتے ہوئے امام حسین نے یزید کے سامنے ایک پیش کش رکھی کہ اگر تُم کو مجھ‬
‫سے کوئی خطرہ ہو تو ُمجھے راستہ دے دو تاکہ میں ہندوستان چال جاؤ ں امام کو‬
‫دریائے فرات کے کنارے گھیر لیا گیا اُن کے بچوں اور عورتوں پر پانی بند کر دیا گیا‬
‫یہ سب ظلم یزید کے خط ملنے کے بعد ابن زیاد نے امام حسین ؑ پہ کیے امام کی طرف‬
‫سے جو خط لکھے گئے کہتے ہیں کہ لوگ مصیبت میں اپنوں کو یاد کر تے ہیں یا‬
‫پھر مصیبت میں جوساتھ دے وہ ہی اپنا ہوتا ہے امام نے اپنے بچپن کے دوست حبیب‬
‫کو خط لکھ کر مدد کے لیے بالیا اور دوسرا خط کربال سے دُور بہت دُور ہندوستان‬
‫حسین کے بیٹے علی ابن حسین نے اپنے بھا ئی‬ ‫ؑ‬ ‫کے ایک ہندو راجا کے نام لکھا۔امام‬
‫کے نام ہندوستان کے راجہ سمڈرا ُگپت کے نام لکھا ۔ سننے میں اٹپٹا لگنے والے اس‬
‫رشتے کی تاریخ گواہ ہے لگ بھگ چودہ سو سال پہلے ایران کے بادشاہ جو پارسی‬
‫مذہب سے تھے ان کی دو بیٹیاں تھیں ۔مہر بانو اور شہر بانو ۔مہر بانو کابیاہ ہندوستان‬
‫کے راجہ چندرگپت سے ہوارانی کا نام مہر بانو سے بدل کر چندر ریکھا رکھا گیا‬
‫کچھ ورشوں بعد چند ریکھاکی چھوٹی بہن شہر بانو کی شادی امام حسین سے ہوئی‬
‫۔چندر ُگپت اور چندر ریکھاکے بیٹے سمڈرا ُگپت اس وقت ہندوستان کے راجہ تھے‬
‫جب انہیں اپنے موسیر ے بھائی علی ابن حسین کا خط مال۔ راجا سمڈرا ُگپت نے جلد ہی‬
‫سینکوں کی ایک ٹکڑی تیار کر کے اسے کربال کی طرف روانہ کیا ۔ان ویر سینکوں‬
‫کے سردار کا نام رہب دت تھا ۔جو ایک موہیال بر ہمن تھے افسوس کہ جب رہب دت‬
‫کربال پہنچے تو امام حسین کو شہید کیا جا چکا تھا ۔یہ جان کر بر ہمنوں کا دل ٹوٹ گیا‬
‫اور جوش میں اپنی تلواروں کو اپنے گلوں پر رکھ لیا کر جن کی جان بچانے آئے‬
‫تھے جب وہی نہ ہے تو ہم جی کر کیا کریں گے لیکن امام کے چاہنے والے ایک‬
‫عرب ُمختار کے منع کرنے پر اپنی تلواروں کو اپنے گلوں سے ہٹایااور ُمختار کے‬
‫ساتھ مل کر دشمنوں سے سے بدلہ لینے کے لیے ایک یاد گار جنگ کی اور اُنھیں‬
‫ہندوستانی تلوار کے جو ہر دکھائے ان ویر سینکوں نے کربال میں جہاں پڑاؤڈاالتھا‬
‫اس جگہ کو ہند یا کہتے ہیں یہ جگہ آج بھی وہاں موجود ہے۔ان پرہمنوں میں سے کچھ‬
‫کربال میں شہید ہو گئے ان ویر برہمنوں میں سے کچھ کربال بس گئے اور اپنے کچھ‬
‫اپنے دیش بھارت چلے آئے تاریخ ان ویر برہمنوں کو ُحسینی برہمن کے نام سے‬
‫جانتی ہے‘‘ ۔ (‪)۸۹‬‬

‫حسین کے چاہنے والے اور شیدائی ہوتے ہیں‬


‫ؑ‬ ‫حسینی برہمن وہ ہوتے ہیں جو‬
‫اور ان کی خاطر کٹ مرنے والے ہوتے ہیں۔‬

‫حسینی برہمن کے بارے میں ایک اور روایت ہے ۔‬

‫’’ایک برہمن اوراُس کی اہلیہ تھی وہ بے اوالد تھے تو‬


‫ان دونو ں نے سوچا کہ چلو کوئی درشن کرنے نکلتے‬
‫ہیں ۔وہ برہمن اور ان کی اہلیہ کربالکی طرف بڑ ھتے‬
‫چلے گئے اور آ خر وہ کربال میں جا کر رہنے لگے ۔‬
‫جب ایک بارانہوں نے موالنا ُحسین کے درشن کیے تو‬
‫وہ رونے لگے کہ اُن کی کوئی اوالدنہیں ہے تو موال نا‬
‫حسین نے دُعا کی اور د ُعا کر کے کہا کہ اب تمہارے‬
‫ؑ‬
‫اوالد ہو گئی تو ان کے کرم سے اللہ نے اس برہمن کو‬
‫سات بیٹے دیے ۔جب واقعہ کربالپیش آیا تو یزید ی‬
‫سین کا کٹا ہوا سر لے کر جارہے تھے اور‬
‫لشکر امام ُح ؑ‬
‫راستے میں اس برہمن کے گھر کے پاس سے گزرے تو‬
‫انہوں نے وہاں ایک رات ٹھہرنے کی اجازت مانگی اور‬
‫کہا کہ ہمارا یہ صندوق اندر رکھ لیں ان برہمنوں کو کچھ‬
‫کھٹکا سا لگاانہوں نے صندوق کھوال اس میں امام‬
‫حسین ؑ کا کٹاہواسر دیکھ کر وہ رونے لگے اور سارا‬
‫واقعہ سمجھ گئے ٰلہذاانہوں نے یزیدی لشکرپہ تلواریں‬
‫حسین‬
‫ؑ‬ ‫اُٹھالیں اوراس برہمن کے ساتوں بیٹے جناب امام‬
‫پر قربان ہو گئے ‘‘۔ (‪)۸۱‬‬

‫یہ حسینی برہمن ہندوستان اورکشمیر کے مختلف عالقوں میں آباد ہیں اور آج‬
‫بھی ہندومذہب کے باوجود امام حسین ؑ سے عقیدت اسی طرح برقرار ہے کیونکہ‬
‫حسین خود تو ہندوستان نہ آسکے لیکن ان کی یا دیں لے کر دت برہمن‬ ‫ؑ‬ ‫حضرت امام‬
‫ہند وستان واپس آئے اور انہوں نے پہلی با رمجلس اعزاء منعقد کی ۔‬

‫مش ہور افسانہ نگا ر اور ناول نگا ر منشی پریم چند نے اپنا مشہور ڈراما‬
‫’’کربال‘‘‪۱۸۱۴‬ء میں لکھا۔جس میں انہوں ان حسینی برہمنوں کے کردار کو لوگوں پر‬
‫واضح کیا ہے ۔‬

‫حسینی برہمنوں کے بارے میں انتظار حسین لکھتے ہیں ۔‬

‫’’موال اس وقت کربال میں نہیں ہیں محرم کے چاند کے‬


‫ساتھ وہ کربالسے نکلتے ہیں اور ہندوستان کی طرف‬
‫آجاتے ہیں ۔ہند اسالمی تہذیب اپنی جگہ اس کے بیچ‬
‫محرم کی تہذیب نے یہاں آکر کیا رنگ پکڑا۔یہاں کی‬
‫تہذیبی اور مذہبی روایتوں سے عوامی سطح پر جب اس‬
‫کا گھال میل ہواتو ایک ہند محرم تہذیب نے جنم لیا‘‘۔‬
‫(‪)۸۸‬‬

‫’’قرمطیوں کا قلع قلمع کرنے میں سلطان محمود غزنوی نے ملتان پر پے در‬
‫پے حملے کیے اور وہاں قرمطی امیرکو گرفتار کر کے غزنین لے گیا اور غور کے‬
‫قلعہ میں قید کر دیا جہا ں وہ مرگیا ۔‬

‫فرما نروایاں ملتان کے تین مختلف سلسلے ظاہر ہوتے ہیں‬

‫’’منبہ بن اسد جو اسامہ بن لوی کے خاندان قریش میں سے تھا اورجس کے‬
‫خاندان کو بنو منبہ کہتے ہیں اورجس کا پتہ ‪۱۸۰‬ھ ؁سے ‪۳۴۰‬ھ ؁تک یقینی طور‬
‫سے لگتا ہے ۔ح لم بن شیبان جو بیرونی کے بیان کے مطابق وہ شخص ہے جو پہال‬
‫قرمطی یا اسماعیلی تھا جس نے ملتان پر قبضہ کیا تھا اس کا زمانہ ‪۳۱۹‬ء ‪۳۱۶‬کے‬
‫درمیان ہے ۔شیخ حمید اور اس کا بیٹا نصراور اس کا بیٹاابو الفتوح داؤد قرمطی ‪،‬شیخ‬
‫حمید الپتگین اورسبکتگین کامعاصر تھا یعنی ‪۳۶۱‬ھ سے ‪ ۳ ۸۰‬ھ شیخ حمید اور اس‬
‫کے بیٹے نصر کا زمانہ قرار دیا جا سکتا ہے ۔سلطان محمود کا معاصر ابو الفتوح‬
‫داؤد تھا اس لیے اس کی فرماں روائی کاعہد ‪ ۳۸۰‬ھ سے ‪ ۴۰۱‬ھ (ملتان کی دوسری‬
‫فتح اور داؤد کی گرفتاری)تک ہو گا‘‘۔(‪)۱۰۰‬‬
‫ملتان میں عربوں کی حکومت کی وجہ سے عربی وہندی تمدن کی خوش گوار‬
‫آمیزش تھی ۔شہر کے چاروں طرف فصیل ہونے کی وجہ سے بحیثیت مجموعی امن‬
‫وامان تھا ۔‬

‫اصطخری نے (‪۳۴۰‬ھ )ملتان کے حوالے سے لکھا ہے ۔‬

‫’’ملتان کا امیر ہاتھی پر سوار ہو کر جمعہ کی نماز کے‬


‫لیے جامع مسجد جاتا ہے یہ خالص ہندو راجاؤں کی پْر‬
‫شان وشکوہ سواری گویا عرب امیروں کو پسند آچکی‬
‫تھی ۔ملتان کے لوگ پاجامہ پہنتے ہیں اور اکثر لوگ‬
‫فارسی اورسندھی بھی بولتے ہیں‘‘۔‬

‫ابن حوقل (‪ ۳۱ ۹‬ھ )یہاں کے طرز لباس اور زبان کے متعلق کہتا ہے ۔‬

‫’’یہاں کے مسلمانوں اور ہندوؤں کا لباس ایک ہی طرح‬


‫کا ہے اور بالوں کے چھوڑنے کا بھی وہی ایک طریقہ‬
‫ہے اور اسی طرح ملتان والوں کی وضع ہے ۔ملتان اورا‬
‫س کے اطراف میں عربی اور سندھی بولی جاتی ہے ‘‘۔‬

‫بشاری ‪ ۳۹۶‬ھ میں آیا ۔اس نے یہاں کے اخالق اور تمدن کا بہت اچھا نقشہ‬
‫کھینچا ہے ۔کہتا ہے‪:‬‬

‫’’ملتان منصورہ سے چھوٹا ہے مگر اس سے زیادہ آباد‬


‫ہے ۔یہاں بدکاری اور شراب خوری نہیں ۔خرید و‬
‫فروخت میں نہ جھوٹ بولتے ہیں اور نہ کم تولتے ہیں ۔‬
‫اکثر باشندے عرب ہیں۔حکومت منصفانہ ہے فارسی‬
‫زبان سمجھی جاتی ہے ۔ملتان کا سکہ مصر کے فاطمی‬
‫سکہ کے مطابق بنایا گیا ہے ‘‘۔‬

‫محمد بن قاسم نے پہلی صدی ہجری کے آخر میں سندھ اور ملتان کو فتح کیا‬
‫۔سندھ کا اہم شہر منصورہ جسے محمد بن قاسم کے بیٹے عمر و نے آباد کیا ۔‬

‫بنو اْمیہ نے عرب ممالک کے ساتھ ساتھ غیر عربوں پر بھی تادیر شاندار‬
‫ح کومت کی جب عربوں نے سندھ پر قبضہ کیا تو وہاں کچھ شہر تو پہلے سے ہی آباد‬
‫اور مشہور تھے لیکن بعد میں فوجی اور سیاسی ضرورتوں کی وجہ سے عربوں کو‬
‫خود اپنے شہر بسانے پڑے جس میں محفوظہ ‪،‬بیضاء اور منصورہ بہت مشہور ہوئے‬
‫۔‬

‫اْموی حکومت کا دائرہ کار بہت وسیع تھا لیکن وقت کے ساتھ ہرکما ل زوال‬
‫پذیر ہوتا ہے اسی طرح بنو امیہ کے اخیر زمانے میں عربوں کی قوت کمزور ہوئی تو‬
‫سند ھیوں نے ان کو سواحل کی طرف دھکیلنا شروع کر دیا ۔‬

‫’’اس وقت کے عرب والی حکم بن عوانہ کلبی نے سب‬


‫عربوں کو سمیٹ کر ایک جگہ جمع کیا اور دریا پار‬
‫ایک شہر بسایا جس کا نام محفوظہ رکھا ۔حکم کے ساتھ‬
‫محمد بن قاسم کا لڑکا عمرو بھی تھا جو نہایت بہادر اور‬
‫مدبر تھا ۔حکم کے تمام کام وہی انجام دیتا تھا ۔اس نے‬
‫سمندر کے ساحل پر برہمن آباد سے دو فرسخ پر‬
‫منصورہ آباد کیا‘‘۔‬

‫ایک اندازے کے مطابق منصورہ کے قیام کی تاریخ ‪۱۱۰‬ھ سے ‪ ۱۱۰‬ھ ہے‬


‫۔(‪)۱۰۱‬‬

‫منصورہ اپنے محل وقوع کی وجہ سے بہت جلد مرکز نگا ہ بن گیا کیونکہ یہ‬
‫ساحل دریا پر واقع ہونے کی وجہ سے سمندر کے بھی قریب تھا اس لیے عراق اور‬
‫ملک عرب سے آمد ورفت اوربوقت ضرورت یہاں سے نکل جانے کے لیے بھی‬
‫انتہائی مناسب تھا س لیے تیسری صدی میں سندھ میں یہ عربوں کا پایہ تخت بن گیا‬
‫۔تما م عرب سیاح بھی اس کا نام اسی حوالے سے لیتے ہیں ۔تیسری صدی ہجر ی میں‬
‫اہل عرب اور اہل سندھ کے درمیان تعلقات کا سلسلہ بہت وسعت اختیار کر چکا تھا‬
‫اور بہت سے عرب خاندا ن یہاں رہائش پذیر تھے ۔‬

‫اس حوالے سے مسعودی لکھتا ہے ۔یہ ‪ ۳۰۳‬ھ کا واقعہ ہے‬

‫’’میرے منصورہ پہنچنے کے زمانہ میں ابو المنذر عمر‬


‫بن عبداللہ بادشاہ تھاا ور وہیں اس کے وزیر ریاح اور‬
‫اس کے دونوں بیٹوں محمد اور علی کو دیکھا ‪،‬حضرت‬
‫علی بن ابی طالب کی بہت سی اوالد کرام !وہاں نظر آئی‬
‫جو عمر بن علی اور محمد بن علی کی نسل سے‬
‫تھی‘‘۔(‪)۱۰۱‬‬
‫مسعودی کے بعد ‪۳۱۹‬ھ میں ابن حوقل آیا اس وقت تک یہی خاندان یہاں‬
‫حکمران تھا اور گو خالفت عباسیہ سے سیاسی وانتظامی تعلق باقی نہیں رہا تھا مگر‬
‫مذہبی رشتہ باقی تھا چنانچہ عباسی ہی خلفاء کے نام کا وہ خطبہ پڑھتے تھے ۔وہ‬
‫لکھتا ہے‪:‬‬

‫َ ’’ملک کا بادشاہ ایک قریشی ہے جس کی نسبت کہا‬


‫جاتا ہے کہ وہ ھباربن اسودکی نسل سے ہے اس کے‬
‫باپ دادا اس ملک پر حکمران تھے اور اب وہ ہے مگر‬
‫خطبہ خلیفہ بغداد ہی کے نام کا پڑھا جاتا ہے ‘‘۔(‪)۱۰۳‬‬

‫منصورہ کے حدود اربعہ کے بارے میں مصنف بتاتا ہے‪:‬‬

‫’’منصورہ ایک میل لمبا اور ایک ہی میل چوڑا تھا اور‬
‫چاروں طرف دریا سے گھرا ہواتھا۔یہاں کے باشندے‬
‫مسلمان تھے‘‘۔‬

‫بشاری کہتا ہے کہ‬

‫’’منصورہ سندھ کا مرکزی شہر اور ملک کا‬


‫دارالحکومت ہے ‪،‬دمشق کی طرح ہے ‪،‬مکانات لکڑی‬
‫اور مٹی کے ہیں جامع مسجد اینٹ اور پتھر سے بنی‬
‫ہے اور بڑی ہے شہر میں چار دروازے ایک کا نام باب‬
‫البحر دوسرے کا طوران دروازہ ‪،‬تیسرے کا نام سندان‬
‫دروازہ ہے ‪،‬چوتھے کا نام ملتان دروازہ ‘‘۔(‪)۱۰۴‬‬

‫اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ منصورہ اور ملتان کے روابط آپس میں کتنے گہر‬
‫ے تھے کیونکہ کسی نام پہ نا م رکھنا ہی تعلق کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے ۔منصورہ‬
‫علمی اور مذہبی لحاظ سے بھی بہت بہتر تھا ۔‬

‫بشاری اپنے سفر نامہ میں اس کے متعلق لکھتا ہے‬

‫مروت ہیں ان کے ہاں‬


‫’’یہاں کے باشندے الئق اور با ّ‬
‫اسالم کو تازگی حاصل ہے اور علم اور اہل علم یہاں‬
‫بہت ہیں ان میں ذہانت و ذکاوت ہے اور نیکی اور‬
‫خیرات کرتے ہیں ‘‘۔(‪)۱۰۶‬‬

‫منصورہ میں بسنے والوں کی زبان خاص تھی اور ہندوستان سے الگ‬
‫۔منصورہ کی بندرگاہ دیبل میں اکثریت تاجروں کی تھی اور ان کی زبان سندھی اور‬
‫عربی تھی ‪،‬اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں کی زبان پر عربی کا اثر کتنا گہرا ہے‬
‫سندھی اور عربی الفاظ اس طرح ملے ہوئے ہیں کہ انہیں الگ کرنا نا ممکن ہے اور‬
‫سندھی رسم الخط آج بھی بعینہ عربی ہے منصورہ کی عربی حکومت کا خاتمہ کب‬
‫اور کیوں ہوا اس حوالے سے کوئی حتمی بات سامنے نہیں آتی کیونکہ بشاری کے‬
‫زمانہ ‪ ۳۹۶‬ھ تک وہ یقینا َ ََ قائم تھی ۔جب سلطان محمود نے ‪ ۴۱۱‬ھ میں سومنات پر‬
‫اپنا مشہور حملہ کیا تو واپسی پر اس نے سندھ کا راستہ اختیار کیا بعض مورخین کے‬
‫مطابق وہ اس دوران منصورہ سے ہوکر گزرا۔‬

‫ابن اثیرنے اپنی تاریخ کامل میں اسی حوالے سے لکھاہے‬

‫’’اور سلطان محمود نے منصورہ کا قصد کیا یہاں کا‬


‫والی اسالم سے پھر گیا تھا تو جب اس کو سلطان کی آمد‬
‫کی خبر ہوئی تو شہر سے نکل گیا اپنے آدمیوں کولے‬
‫کر جھاڑیوں میں چھپ گیا سلطان محمود نے اس کا‬
‫تعاقب کیا بہت سے آدمی مارے گئے اور بہت سے دریا‬
‫میں ڈوب کر مر گئے تھوڑے بچ گئے وہاں سے سلطان‬
‫بھاتیہ ہو کر غزنین چال گیا ‘‘۔(‪)۱۰۱‬‬

‫اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس حکومت کا خاتمہ ‪۴۱۱‬ھ میں سلطان محمود‬


‫کے ہاتھ سے ہوا اس حملہ سے پہلے بشاری نے اہل منصورہ کے اہل حدیث ہونے کی‬
‫شہ ادت دی ہے ۔اب اسالم سے پھر جانے سے مراد شاید یہ ہو کہ یہاں کا بادشاہ بھی‬
‫ملتان کی طرح اسماعیلی قرمطی مذہب میں داخل ہو گیا ہو محمود کے حملہ کو صحیح‬
‫ثابت کرنے کے لیے بھی یہ واقعہ مشہور کر دیا ہو کہ یہاں کا بادشاہ مرتد ہو گیا ہے‬
‫یا یہ بھی ہو سکتا کہ منصورہ کے ہباری خاندان کا خاتمہ قرمطیوں نے کیا ہو کیونکہ‬
‫ملتان ان کے ہاتھ سے نکل چکا تھااور انہوں نے سندھ میں اپنی ریاست قائم کر لی ہو‬
‫اور پھر اس قرمطی ریاست کا خاتمہ سلطان محمود نے کیا۔‬

‫بظاہر تو یہ ہباری خاندان ہمیشہ کے لیے مٹ گیا لیکن اس کی جوروحانی‬


‫یادگار ہمیشہ کے لیے باقی رہ گئی وہ شیخ االسالم زکریا ملتانی تھے جو ‪ ۶۹۱‬ھ میں‬
‫پیدا ہوئے ۔‬
‫اب دیکھنا یہ ہے کہ صدیوں پہلے اہل عرب اور عربی زبان سے اہل ہند کا‬
‫جور شتہ ُجڑا تھا وہ وقت کے ساتھ ساتھ کتنا مضبوط اور گہرا ہو گیا کیونکہ ‪ ۱۱‬ھ‬
‫میں جب ولید اموی دمشق کے تخت شاہی پر بیٹھا تو اس نے حجاج بن یوسف کو‬
‫عراق و ایران و مکران وبلوچستان کا نائب مقررکیا تو اس نے ہندوستان اور اس کے‬
‫جزیروں کے ساتھ اپنے تعلقات اور مضبوط کیے ۔تعلقات کا باقاعدہ آغاز ‪ ۸۳‬ھ یعنی‬
‫ساتویں صدی عیسوی میں محمد بن قاسم کی آمد کے ساتھ ہوا اور اس دوران عربی‬
‫زبان اور رسم الخط کو بہت فروغ مال اور عام لوگوں میں بھی اس زبان کے حوالے‬
‫سے شعور بیدار ہوا ۔جب ‪۱۳۳‬ھ میں عربی حکومت میں تبدیلی رونما ہوئی اور‬
‫امویوں کی جگہ عباسی آئے اور شام کی بجائے عراق سلطنت کا صوبہ قرار پایا اور‬
‫حکومت کا مرکز دمشق سے ہٹ کر بغداد چال گیا ۔اس انقالب نے ہندوستان کو عرب‬
‫سلطنت کے مرکز سے بہت زیادہ قریب کر دیا اور اسی قربت کی وجہ سے ان کے‬
‫اندر عربی زبان و ادب سے لگاؤ پیدا ہو گیا جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا گیا کیونکہ‬
‫اس کی بڑی وجہ تو قرآن پاک کا عربی زبان میں نزول ہے بغیر سمجھے اس کو‬
‫پڑھنا محض رٹا لگا نا ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں ۔اگر چہ اْردو زبان مزا جا َ ََ فارسی‬
‫کے زیادہ قریب ہے اور فارسی اہل عجم کی زبان ہے چونکہ مسلم اُمہ رشتہ اخوت‬
‫میں بندھی ہوئی تھی اس لیے عرب وعجم کا تصور دھند ال پڑ گیا ۔اہل ایران اور اہل‬
‫ہند کا لباس بھی ملتا جلتا تھا خصوصا َ ََ مکران کے لوگ ان کی زبان بھی عام بول‬
‫چال میں فارسی اور مکرانی تھی ۔‬

‫عربوں نے ہندوستان کے بہت سے عالقوں میں حکومت کی اگرچہ ملتان اور‬


‫سندھ میں مختلف عالقوں میں ہندو راجہ بھی حکمران رہے لیکن با قاعدہ حکومت‬
‫مسلمان اہل عرب کی تھی ٰلہذا اس دوران مقامی زبان کے ساتھ ساتھ عربی زبان بھی‬
‫رائج تھی ۔اس طرح مقامی سطح پر عربی سمجھنے والے بڑھتے گئے ۔عربی زبان‬
‫سے ہمار مذہبی رشتہ اٹوٹ ہے۔‬

‫یہ حقیقت تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ عربی زبان سے ہمارا رشتہ‬
‫کیسے استوار ہوا اور اس میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پائیداری کیسے آئی ؟لیکن‬
‫اس کے باجود بر عظیم پاک وہند میں عربی کی حیثیت ہمیشہ ایک غیر ملکی زبان کی‬
‫رہی ہے ۔ اس لیے قدرتی طورپر یہاں کے مسلمانوں نے عربی ادبیات کے حوالے‬
‫سے ان ممالک کے لوگوں سے زیادہ توجہ کی جہاں عربی بولی جاتی ہے ۔مقابلتا َ ََ‬
‫دیکھا جائے تو ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ بر صغیر پاک وہند میں‬
‫فارسی کو عربی پر کئی اعتبار سے فوقیت حاصل رہی کیونکہ فارسی ایک آسان زبان‬
‫ہے اور تقریبا َ ََ نو سو برس تک یہاں کے حکمرانوں کی زبان رہی ہے اس کے عالوہ‬
‫پاک وہند ایران کے درمیان آمدورفت کے براہ راست بّری وسائل موجود ہیں لیکن اس‬
‫علیحدہ کر رکھا ہے جہاں عربی زبان‬ ‫کے برعکس سمندر نے ہند کو ان ممالک سے ٰ‬
‫بولی جاتی ہے اس لیے برصغیر پاک وہند میں فارسی ادبیات کے حوالے سے زیادہ‬
‫کام ہوا ہے تاہم مذہب سائنس اور فلسفہ میں یہاں زیادہ کتابیں نہیں لکھی گئیں کیونکہ‬
‫یہاں کے مذہبی علماء اس کو خالف دین سمجھتے تھے یہاں تک کہ جب شاہ ولی اللہ‬
‫نے قرآن پاک کا فارسی میں ترجمہ کیا تو ان کے خالف ہو گئے ۔عربی ادبیا ت میں‬
‫ہند میں اس طرح کام نہیں ہوا جتنا کہ ان ممالک میں ہوا جہاں عربی بولی جاتی ہے یا‬
‫جو عرب سے قریب واقع ہیں اور ان کے لیے عربی علوم کے مراکز سے رابطہ کرنا‬
‫آس ان ہے لیکن پھر بھی ہمارا معاشرہ عربی ادب سے اثرپذیر ہو اہے کیونکہ یہ ممکن‬
‫ہو ہی نہیں سکتا کہ جب عربوں نے سندھ اور ملتان کے عالقے فتح کیے وہاں کوئی‬
‫عاَلم نہ ہوا ہو۔‬

‫صہ سے تو ظاہر ہو تا ہے کہ زمین پر انسانی زندگی کے‬ ‫حضرت آدم ؑ کے ق ّ‬


‫آغاز ہی میں ہند اور عرب میں تعلق پیدا ہو گیا تھا۔عرب اور ہند میں جو تجارتی‬
‫روابط قائم ہوئے ان کی وجہ سے بہت سے ہندی الفاظ عربی زبان میں داخل ہوگئے‬
‫۔عرب تاجر جو تجارتی اشیاء ہند سے لے کر جاتے تھے ان کے نام انہوں نے ہند کی‬
‫زبانوں ہی سے لیے تھے ۔‬

‫’’چنانچہ قرن فل ‪،‬فل فل ‪،‬ہیل ‪،‬زنجیبل ‪،‬جائفل ‪،‬ناریل‬


‫‪،‬لیموں ‪،‬تنبول وغیر ہ ہندی زبانوں کے معرب الفاظ ہیں‬
‫‪،‬بعض چیزیں جن کے نام پہلے سے عربی میں موجود‬
‫تھے ان کے ساتھ لفظ ہندی کا اضافہ کر کے نئے نام‬
‫بنائے گئے مثالَ ََعود ہندی ‪،‬قسط ہندی ‪،‬تمر ہندی وغیرہ‬
‫۔ہند میں بنے ہوئے کپڑے بھی یمن اور وہاں سے حجاز‬
‫بھیجے جاتے تھے اور عربی کے الفاظ شاس (ململ‬
‫)شیت (چھینٹ)فوطہ(چار خانہ تہمد )اسی طرح سے اس‬
‫زبان میں داخل ہو گئے ہیں ‘‘۔(‪)۱۰۹‬‬

‫لفظ ہند ی عربوں میں بہت مقبول ہوا اور انہوں نے اس کو اپنی عورتوں کے‬
‫لیے ایک خوبصورت نام کے طور پر بھی اختیار کر لیا ۔‬

‫نظام ہندسہ سے بھی عرب اہل ہند کی معرفت متعارف ہوئے۔‬

‫’’آٹھویں صدی تک عربی میں ہندسوں کے بجائے الفاظ‬


‫لکھے جاتے تھے ۔اس کے بعد عرب ہند کے نظام ہندسہ‬
‫سے واقف ہوئے جو غالبا َ ََ ایک ہندی سفیر ‪۹۹۳‬ء میں‬
‫علم نجوم کے خاکوں کے ساتھ بغداد لے آیا تھا ۔نویں‬
‫موسی‬
‫ٰ‬ ‫صدی عیسوی کے آغاز میں نامور عالم محمد بن‬
‫الخوارزمی نے ہند کے نظام ہندسہ کی عربی میں تشریح‬
‫کی تھی اور اس کے بعد یہ رفتہ رفتہ تما م عرب ممالک‬
‫میں رائج ہو گیا ‘‘۔ (‪)۱۰۱‬‬

‫گو عربوں میں علم ہیئت بہت پہلے سے موجود تھا لیکن انہوں نے اہل ہند کے‬
‫علم ہئیت میں بھی گہر ی دلچسپی لی یہ ایک طرح اہل ہند کی طرف عربی ادبیات میں‬
‫اہم اضافہ تھا ۔‬

‫’’دوسری صدی ہجری میں جبکہ خالفت عباسیہ اپنے‬


‫عروج پر تھی اور دوسری زبانوں کی تصانیف کا عربی‬
‫میں ترجمہ کرنے کے لیے غیر معمولی کام ہو رہا تھا‬
‫تو سنسکرت کی بہت سی کتابیں بھی عربی میں منتقل‬
‫کی گئیں ‪،‬علم الہیت کی کتابوں میں سندھ ہند پہلی‬
‫تصنیف تھی جس سے عربوں نے بہت دلچسپی لی اور‬
‫پہلی بار اس کا ترجمہ انفراری (‪۹۹۰‬ء)نے کیا اس کے‬
‫موسی الخوارزمی نے اس کو عربی کا‬
‫ٰ‬ ‫بعد محمد بن‬
‫جامہ پہنا یا اور آخر میں البیرونی نے سند ہند پر ایک‬
‫کتاب لکھی ‘‘۔(‪)۱۰۸‬‬

‫علم الطب سے متعلق ہند نے عربی ادب میں ایک اہم اضافہ کیا ہے ۔‬

‫’’سنسکرت میں علم طب پر بہترین کتابیں چرکا اور‬


‫سسرتانے لکھی تھیں جن کاآٹھویں صدی عیسوی کے‬
‫آخر میں عربی میں ترجمہ کیا گیا‘‘۔(‪)۱۱۰‬‬

‫عربی زبان میں بھی حکایات پر مبنی بہت سی کتب ہیں لیکن اس کے باوجود‬
‫انہیں تفریحی ادب کے لیے کتب کی تالش تھی اس کی کمی انہوں نے تراجم کی مدد‬
‫سے پوری کی ۔ اسی طرح شطرنج کا تعلق بھی ہند سے ہے لیکن عربی ادب میں اس‬
‫کی اہمیت سے مفرنہیں ۔‬

‫’’حکایات کی دو کتابوں کلیلہ و دمنہ اور الف لیلہ کو تفریحی ادب میں جو‬
‫مقبولیت اور اہمیت حاصل ہے اس کی مثال مشکل سے ملے گی ۔ان میں کلیلہ ودمنہ‬
‫ایک ہندی تصنیف ہے جس کو ابن المقفع نے آٹھویں صدی عیسوی میں فارسی سے‬
‫صے کا‬‫عربی میں منتقل کیا ۔الف لیلہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کے ایک بڑے ح ّ‬
‫مواد ہندی ہے ‘‘۔‬
‫صہ میں لوگ جب‬ ‫’’بہترین محقق اس پر متفق ہیں کہ دْنیا کے کسی اور ح ّ‬
‫شطرنج سے و اقف تک نہ تھے تو یہ کھیل ہند میں رائج تھا لفظ شطرنج فارسی یا‬
‫عربی کے لیے ایک اجنبی لفظ ہے یہ لفظ سنسکرت کے لفظ چترنگا یا چترنگ سے‬
‫اخذ کیا گیا ہے ۔عربی اور فارسی دونوں زبانوں میں کئی تشبیہیں اور استعار ے‬
‫شطرنج سے لیے گئے ہیں ‘‘۔(‪)۱۱۱‬‬

‫کچھ کتابیں اس نوعیت کی ہیں کہ اْن کی اہمیت عرب وہند میں یکساں ہے لیکن‬
‫در حقیقت ان کا مواد ہند سے اخذ کیا گیا ہے ٰلہذا وہ عربی ادب میں اہل ہند کی طرف‬
‫سے ایک اہم اضافہ ہیں ۔‬

‫’’البیرونی کا ہند سے اتنا گہر اتعلق ہے کہ یہاں عربی‬


‫میں لکھی جانے والی کتابوں کے بیان میں اس کو نظر‬
‫انداز کر دینے کا خیال تک نہیں کیا جاسکتا علم الہئیت‬
‫اور علم الحساب کے ایک زبر دست عالم و محقق کی‬
‫حیثیت سے بیرونی نے بڑی شہر ت پائی ہے اور اس‬
‫میں ہندی علماء کی ان تصانیف کا بھی دخل ہے جن‬
‫سے البیرونی نے استفادہ کیا تھا ‘‘۔(‪)۱۱۱‬‬

‫نقل مکانی کا سلسلہ ازل سے جاری ہے اور تاابدجاری رہے گا از منہ قدیم میں‬
‫ذرائع نقل و حمل سست روی کا شکار تھے اور آمدورفت جان جو کھم سے کم نہ تھی‬
‫چونکہ ہجری سن کی پہلی تین صدیوں میں سندھ عربوں کی نو آبادی بن گیا تھا ٰلہذا‬
‫جس طرح عرب سند ھ میں آباد ہو گئے تھے اسی طرح بہت سے سندھیوں نے بھی‬
‫عرب میں سکونت اختیار کرلی تھی ۔‬

‫’’ابو معشر ایک محدث تھے اور ان کو سیر ت نبوی‬


‫ﷺکا مستند عالم سمجھا جاتا تھا۔ایک عالم کی حیثیت سے‬
‫اعلی مرتبہ حاصل تھا اس کا اندازہ اس واقعہ‬
‫ٰ‬ ‫ان کو جو‬
‫ہو سکتا ہے کہ جب ان کا انتقال ہوا تو خلیفہ ہارون‬
‫الرشید خود ان کے جلوس جنازہ میں شریک ہوئے اور‬
‫نماز جنازہ بھی پڑھائی ‘‘۔(‪)۱۱۳‬‬

‫عربی ادبیات میں ہند کے مصنفین نے گراں قدر اضافہ کیا ۔مذہبی نقطہ نظر‬
‫سے طویل مدّت تک تفسیر قرآن کے حوالے سے مختلف کتب عربی میں لکھیں عالوہ‬
‫‪،‬تصوف اور اخالقیات ‪،‬علم الکالم ‪،‬فلسفہ ‪،‬حساب ‪،‬ہئیت ‪،‬طب‬
‫ّ‬ ‫ازیں علوم حدیث ‪،‬فقہ‬
‫‪،‬تاریخ وسوانح جغرافیہ ‪،‬علم اللسان ‪،‬خطبات ‪،‬مرصع نثر اور ادب لطیف ‪،‬قصص‬
‫وحکایات اور شاعری پر بر عظیم پاک وہند کے عالمین ‪،‬محدثیں ‪،‬مفسرین ‪،‬مصنفین‬
‫اور شعراء نے عربی میں الزوال ادب تخلیق کیا جس کا ایک زمانہ معترف ہے اگرچہ‬
‫سمے کی بے رحم لہر وں نے ان کا مکمل نمونہ کالم ادبی سمندر کے کوزے میں‬
‫محفوظ نہ رکھا لیکن پھر بھی جو کسی حد محفوظ ہے وہ گویا گا گر میں ساگر ہے ۔‬

‫’’‪۱۱۱۱‬ھ ‪ ۶ /‬ا‪۹‬ا ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے تجارتی‬


‫مراعات حاصل کرنے کے لیے فرخ سیر کے دربار میں‬
‫اپنی سفارت بھیجی جس میں ولیم ہیملٹن بھی شامل تھا‬
‫بادشاہ بیمار تھا ہیملٹن نے اس کا عالج کیا اور صحت‬
‫یاب ہو گیا بادشاہ نے خوش ہوکر ایسٹ انڈیا کمپنی کو‬
‫ساری مطلوبہ تجارتی مراعات دے دیں ‘‘۔(‪)۱۱۴‬‬

‫اس طرح برعظیم پاک وہند میں انگریزوں کی آمد ہوئی ۔وقت کے ساتھ جب ان‬
‫کے قدم مضبوط ہوتے ہو گئے تو انہوں نے کاروبار حکومت میں مداخلت شروع‬
‫کردی ۔انہوں نے سلطنت کو کمزور کرنے کے لیے سب سے پہلے مسلمانوں کا لسانی‬
‫رشتہ عربی اور فارسی سے منقطع کیا اور انگریزی کو اُن پر مسلط کیا جو آج تک‬
‫ہے اور ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے حاالنکہ عربی زبان اْردو زبان کا‬
‫دامن آج بھی ماال مال کر رہی ہے کیونکہ عربی زبان سے ہمارا مذہبی رشتہ کبھی ختم‬
‫نہیں ہو سکتا بے شک تہذیب و تمدن میں بہت فرق ہے اسی لیے تحریک پاکستان کے‬
‫دوران مسلمانوں کی اجتماعی شناخت کا سوال پیدا ہوا کہ ان کی وفاداری اپنی سر‬
‫زمین سے ہے یا اس سے باہر ہے کیونکہ تحریک آزادی کے جیالوں اور رہنماؤں کا‬
‫رجحان مذہبی نقطہ نظر کی وجہ سے عربی کی طرف تھا ۔عالمہ اقبال ‪،‬ابو الکالم‬
‫االعلی مودودی اور دیگر رہنما‬
‫ٰ‬ ‫آزاد ‪،‬موالنا شوکت علی ‪،‬موالنا محمد علی جوہر ‪،‬ابو‬
‫عربی کے خواہاں تھے ۔‬

‫عالمہ اقبال (‪ ۱۱۹۹‬ء۔‪۱۸۳۱‬ء)گوعجم کی بہت تعریف کرتے ہیں لیکن اس‬


‫کے باوجود وہ تلقین کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ عربی بھی سیکھیں تاکہ‬
‫وہ عرب کی تہذیب و تمدن اور ان کے مزاج کو بآسانی سمجھ سکیں ۔یہ دور ایسا تھا‬
‫کہ اقبال ن ے عالم اسالم کے لیے عربی کو ضروری قرار دیا تاکہ وہ سچائی اور‬
‫واقعیت نگاری سے بہر ہ مند ہو سکیں ۔‬

‫اقبال اسرار خودی میں مخاطب ہیں‬

‫اے میان کیسہ ات نقد سخن بر عیار زندگی اور رابزن‬


‫فکر روشن بین عمل رارہبر است چوں درخش برق پیش‬
‫تندراست‬ ‫از‬
‫فکر صالح در ادب می بایدت رجعتے سوئے عرب می‬
‫بایدت‬
‫دل بہ سلمائے عرب باید سپرد تادمد صبح حجاز از شام‬
‫کرد‬
‫از چمن زار عجم گل چیدۂ نو بہار ہند وایراں دیدۂ‬
‫اند کے از گرمی صحرا بخور بادۂ دیرینہ ازخرمابخور‬
‫سریکے اندربرگرمش بدہ تن دمے با صرصرگرمش بدہ‬
‫مدّتے غلطیدہ اندر حریر خوبہ کر پاس در شتے ہم بگیر‬
‫قرنہا بر اللہ پا کو بیدۂ عارض از شبنم چو گل شو ئیدۂ‬
‫خویش رابر ریگ سو زاں ہم بز ن غوطہ اند ر چشئمہ ز‬
‫بزن‬ ‫زم‬ ‫م‬

‫عالمہ اقبال کو احساس تھا کہ شعر و ادب میں فارسی نے مبالغے کی الگ‬
‫رنگ آمیزی کی ہے خیاالت معصومانہ سادگی کے ساتھ براہ راست نہیں آتے بلکہ‬
‫تشبیہ ‪،‬استعارے اور تمثیل کے پیرا ئے میں بیان ہوتے ہیں پھر شاہی درباروں میں‬
‫زرطلبی کی تمنا نے بھی شعر کو اس کی فطری تاثیر سے محروم کر دیا تھا اس لیے‬
‫وہ اپنے معاصراور بعد کے شاعروں کو تلقین کر تے ہیں کہ وہ اپنی ذہنی اور‬
‫روحانی تربیت کے لیے فارسی کی بجائے عربی ادبیات کی دنیا کو منتخب کریں تاکہ‬
‫معامالت ومحبت بھی غیر فطری نہ ہوجائیں ۔‬

‫عالمہ اقبال شاعر سے مخاطب ہیں کہ اے شاعر !تیری جیب میں شعر کی جو‬
‫متاع موجود ہے اسے زندگی کی کسوٹی پر لگا۔اس کی اصل شان یہی ہے کہ قوم میں‬
‫زندگی کی روح پیدا کرے ۔‬

‫شاعر کی فکر روشن قوم کے لیے عمل کی رہنما بن جاتی ہے ۔اْسے بجلی کی‬
‫چمک قرار دینا چاہیے جو کڑک اور گرج سے پہلے نمودار ہوتی ہے مراد بظاہر یہ‬
‫ہے کہ شاعر کی فکر روشن بجلی کی طرح چمکتی ہے اس سے قوم میں عمل کی‬
‫روح بیدار ہو تی ہے عمل کو بجلی کی کڑک اور گرج سمجھنا چاہیے۔‬

‫ادبیات میں ایسے افکار و خیاالت کی ضرورت ہے جن سے حْ سن عمل کا‬


‫جذبہ بیدار ہو جائے اس سلسلے میں عربوں کی شاعری کو نمونہ بنا نا چاہیے۔جس کی‬
‫سب سے بڑی خصوصیت سادگی اور واقعیت ہے ۔بناوٹ کی اس میں جھلک تک نہیں‬
‫پائی جاتی۔گویا ہمارے شاعروں کو عربی شاعری کی طرف لوٹنا چاہیے ۔‬

‫الزم یہی ہے کہ دل عرب کی محبوبہ کے حوالے کیا جائے تاکہ کرد کی شام‬
‫سے حجاز کی صبح نمودار ہو یعنی تمام غیر اسالمی خصوصیات مٹ جائیں اور‬
‫اسالمی اوصاف جالپائیں۔‬

‫اے شاعر !تو نے عجم کے باغ سے پھول چنے ۔ہندوستان اورا یران کی نوبہار‬
‫دیکھی اب تھوڑ ی دیر کے لیے صحرا کی گرمی کا لطف بھی اْٹھا اور کھجور کی‬
‫مے کہنہ نو ش کر ۔ تو اپنا سر صحرا کی گرم بغل میں دے دے اور جسم کو تھوڑی‬
‫دیر کے لیے وہاں کی َجال دینے والی ہوا کے حوالے کر دے ۔تو مدّت تک ریشمی‬
‫لباس کی لذت میں مست رہا ۔اب کپاس کے موٹے جھوٹے کپڑے کا بھی عادی ہو جا ۔‬

‫تو صدیوں تک گل اللہ کے فرش پر رقص کر تا رہا اور پھول کی طرح شبنم‬
‫سے منہ دھوتا رہا اب ُجھلس دینے والی ریت پر بھی گرم رفتار ہو اور زمزم کے‬
‫چشمے میں غوطہ لگا ۔(‪)۱۱۶‬‬

‫ان تمام اشعار میں عجمیت کو چھوڑ کر عربیت کا انداز اختیار کر لینے کی‬
‫دعوت دی گئی ہے ۔‬

‫در حقیقت عالمہ اقبال شاعر کے ساتھ مسلم ا ُ ّمہ کو دعوت فکر وعمل دیتے ہیں‬
‫کہ زندگی میں کچھ حاصل کر نے کے لیے مشققت کی چکی میں خود کو پیسنا پڑتا‬
‫ہے ۔کیونکہ جو لو گ مشققت کی ذلت اْٹھاتے ہیں وہی دنیا میں ناموری پاتے ہیں ۔‬

‫سر زمین حجاز سے قلبی لگاؤ کی وجہ سے ہمارے شعراء کرام عربی دانی‬
‫کی طرف متوجہ تھے کیونکہ اس وقت ماحول ہی ایسا تھا کہ عربی کو ایک الزمی‬
‫مضمون کے طور پر چْ نا جاتا تھا لیکن یہ صورتحال بطور مضمون کی حد تک نہ‬
‫تھی بلکہ عرب معاشرے کے ادب ‪ ،‬تہذیب و ثقافت سے آگاہی کو ایک فرض خیال کیا‬
‫جاتا تھا ۔‬

‫اْردوکے مشہور رومانوی شاعر اختر شیرانی (‪۱۸۰۶‬ء تا ‪)۱۸۴۱‬کو بچپن میں‬
‫ایسا ماحول مال جہاں اردو اور فارسی کے ساتھ عربی کی تعلیم بھی دی جاتی تھی یہی‬
‫چیز جوان ہونے پر بھی ان کے دماغ میں چھائی رہی سرزمین حجاز سے اپنے عشق‬
‫کا اظہار یوں کرتے ہیں ۔‬

‫کس نے پھر چھیڑ دیا قصہ لیالئے حجاز دل کے پردوں‬


‫حجاز‬ ‫تمنائے‬ ‫ہے‬ ‫مچلتی‬ ‫میں‬
‫بھر کے دامن میں غریبوں کی دعائیں لے جا اے نسیم‬
‫حجاز‬ ‫پیمائے‬ ‫بادیہ‬ ‫سحراے‬
‫بزم ہستی میں ہے ہنگا مہ محشر برپا اب تو ہو خواب‬
‫حجاز‬ ‫مسیحائے‬ ‫بیدار‬ ‫سے‬
‫مئے افر نگ میں باقی نہ رہا کوئی سرور ہم نے جس‬
‫دن سے چکھی ہے مئے مینائے حجاز‬
‫دل دیوانہ دعا مانگ وہ دن پھر آئے وہی ہم ہوں وہی‬
‫حجاز(‪)۱۱۱‬‬ ‫صحرائے‬ ‫وہی‬ ‫سجدے‬

‫اختر شیرانی عرب شعراء اور خصوصا َ ََ امراء القیس سے کافی متاثر نظر‬
‫آتے ہیں وہ صحرا ئیت اور سادگی کے اسی طرح شیدا‬
‫ہیں جس طرح قیس ۔انہیں صحرائی ٹیلوں ‪،‬چشموں ‪،‬بیابانوں میں چرائے جانے والے‬
‫گلوں ‪،‬گاؤں کی الٹھر دوشیزاؤں سے محبت ہے ۔‬
‫’’ذہنی اعتبار سے اختر عرب کے شعرائے جاہلیت کا‬
‫ہمنوا تھا جو اپنے عہد سے سالہا سال بعد ایک اور ہی‬
‫ملک میں پیدا ہوا اس کے مزاج پرو ہی آزاد منشی‬
‫چھائی ہوئی تھی اور یہ آزاد منشی بڑی تندرست تھی‬
‫جو قدیم شعرائے عرب کی امتیازی خصوصیت اور مایہ‬
‫نا ز تھی اگر قسم کے شعور کو احساس بدویت قرار دیا‬
‫جائے تو بے جانہ ہو گا‘‘۔‬

‫اختر نے خود بھی اپنے اس ذہنی رجحان کا اعتراف کیا ہے اور اس شعور کو‬
‫بدویت ہی قرار دیا ہے ۔‬

‫اک بدویت کا عاشق صحرائیت سے بے خود‬


‫اختر بھی اپنی دھن میں ہے ا ک جوان صحرا‬

‫بدویت سے محبت کے ہاتھوں مجبور ہو کر صحرائی حسینوں‬


‫کو پیغام بھیجتے ہیں‬

‫چل اے نسیم صحرا روح رواں صحرا میرا پیام لے جا‬


‫صحرا‬ ‫بتان‬ ‫سوئے‬
‫صحرائی مہ وشوں کی خدمت میں جاکے کہنا بھولے‬
‫ان صحرا‬ ‫دختر‬ ‫ہم اے‬ ‫نہیں تمہیں‬
‫تم نجد میں پریشان شہروں میں ہم ہیں حیراں اللہ کی‬
‫صحرا(‪)۱۱۹‬‬ ‫بتان‬ ‫پر‬ ‫تم‬ ‫ہو‬ ‫اماں‬

‫چونکہ عام طالب علموں کو عربی زبان کی سوجھ بوجھ نہ تھی اس لیے‬
‫مورخین نے عربی ادب کی تواریخ اُردو زبان میں لکھیں تاکہ یہ ادب پڑھ کر ان کے‬
‫اند رعربی ادبیا ت کی لگن اور عربی سیکھنے کا شوق پیدا ہو اْردو زبان کے طالبعلم‬
‫کے نصاب میں عربی زبان شامل ہے اور اْردو کے طالبعلموں کی زیادہ غلطیاں ہی‬
‫عربی میں ہوتی ہیں اس لیے ضرورت تھی کہ کوئی لو گ ایسے ہوں جو اْن کو عربی‬
‫زبان کے بڑے شاعروں سے متعارف کروائیں ‪۹۴‬۔‪۱۸۹۳‬ء میں ذو الفقار علی بھٹو‬
‫سے درخواست کی گئی کہ نیشنل سنٹر ز میں ایسے لوگوں کو مالزمتیں دیں جو عربی‬
‫بول چال سکھائیں ٰلہذا اس تجویز پر عمل در آمد کیا گیا ۔ اب کئی ملین مسلمان عرب‬
‫ممالک میں آباد ہیں ۔عبادت ‪،‬تجارت ‪،‬روزگار کا رشتہ عربی سے وابستہ ہے ۔‬

‫عربی زبان و ادب سے ہمارے ان تمام رشتوں کے باوجود موجودہ صدی کے‬
‫حوالے سے دیکھا جائے تو وہ خلوص نظر نہیں آتا بلکہ عربی زبان وادب اور اس‬
‫کے اثرات ہمارے ہاں اُردو دُنیا میں دُور کی آواز دکھائی دے رہے ہیں نزدیک کی‬
‫نہیں۔اس میں شایدہماری اس سوچ کو دخل ہے کہ اس حقیقت سے واقف ہوتے ہوئے‬
‫بھی کہ جاہلی دورمیں شاندار ادب تخلیق ہوا ہے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت‬
‫میں لڑائی جھگڑوں اور قتل غارت کے سوا کچھ نہیں اس ضمن میں ہم اس دور کی‬
‫خصوصیات کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں۔نتیجتا ًعربی زبان سیکھنے کے رحجان‬
‫میں کمی ہوتی جا رہی ہے حاالنکہ یہی زبان فارسی کے بعد برعظیم پاک وہند کی‬
‫نمائندہ زبان رہی ہے ۔‬

‫اس تمام صورتحا ل کے با وجود پاکستان میں عربی ادب کے حوالے سے دو‬
‫نام انتہائی معتبر سمجھے جاتے ہیں۔ جنہوں نے اپنے ذاتی شوق اورلگن سے عربی‬
‫ادبیات میں جو کار ہائے نمایاں سر انجام دیے ہیں انہیں ملکی وغیر ملکی سطح پر بے‬
‫انتہا پذیر ائی ملی ہے۔یہ دو نمایا ں ادبی شخصیات محمد کا ظم اور خورشید رضوی‬
‫ہیں۔یہ دونوں ہمہ جہت شخصیات ہیں جنہوں نے عربی ادبیات کے عالوہ اردو ادب‬
‫میں بے شمار کا م کیا ہے لیکن یہاں ہمیں ان کے عربی ادب کے حوالے سے کیے‬
‫گئے کام سے بحث ہے کہ زندگی میں متنوع پہلوہوتے ہوئے کیوں کہ ان دونوں نے‬
‫اپنے لیے یہ میدان مختص کیا ۔‬

‫ا س ضمن میں میرے ذہن میں یہ چند سواالت ہیں جن پر آئندہ ابواب میں بحث‬
‫ہو گی ۔‬

‫محمد کاظم اور خورشید رضوی نے عربی ادب کو ہی کیوں فوقیت دی‬ ‫‪۱‬۔‬
‫؟کیا اس میں تربیت کا کو ئی دخل ہے؟‬

‫محمد کاظم اور خورشید رضوی نے جس عربی ادب پر کام کیا۔کیا وہ‬ ‫‪۱‬۔‬
‫ادب اپنے زمانے میں قابل قدر تھا؟‬

‫جاہلی ادب کے اس دور کے معا شرے پر کیا اثرات مرتب ہوئے؟‬ ‫‪۳‬۔‬

‫موجودہ دور میں جا ہلی ادب کی کیا اہمیت ہے؟‬ ‫‪۴‬۔‬

‫کیاعربی ادب کو اردو اورفارسی ادب کا پیش رو کہا جاسکتا ہے؟‬ ‫‪۶‬۔‬

‫عربی ادب نے اردو ادب پر کیا اثرات مرتب کیے؟‬ ‫‪۱‬۔‬

‫محمد کاظم اورخورشید رضوی نے عربی ادب پر جو کام کیا ہے آیا وہ‬ ‫‪۹‬۔‬
‫ادب میں کوئی اہم اضافہ ثابت ہو سکتا ہے؟‬
‫حوالہ جا ت‬
‫فتح محمد ‪،‬ملک ‪،‬انتظار حسین کا خواب نا مہ‪ ،‬سنگ میل پبلی کیشنز‬ ‫‪۱‬۔‬
‫‪،‬الہور ‪۱۰۱۱،‬ء ‪ ،‬ص‪۶۳،۶۴‬‬

‫محمد کا ظم ‪ ،‬عربی ادب کی تاریخ ‪ ،‬سنگ میل پبلی کیشنز ‪،‬الہور‬ ‫‪۱‬۔‬
‫‪ ۱۰۰۴،‬ء ص ‪۴۰۸‬‬

‫حالی‪ ،‬الطاف حسین ‪،‬مقدمہ شعروشاعری ‪،‬ال ہور ‪۱۰۰۱‬ء ص‪۱۱‬‬ ‫‪۳‬۔‬

‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪۴۰۸‬‬ ‫‪۴‬۔‬

‫عبدالرحمٰ ن سورتی ‪،‬اشاعت‬


‫ّ‬ ‫احمد حسن زیات ‪،‬تاریخ ادب عربی ‪،‬ترجمہ‬ ‫‪۶‬۔‬
‫دوم ‪،‬کرا چی ‪۱۸۹۱‬ء‪ ،‬ص‪۱۰‬‬

‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪۶۱‬‬ ‫‪۱‬۔‬

‫سید امیر علی ‪،‬تا ریخ اسالم ‪،‬مترجم ‪ ،‬باری علیگ‪،‬الہو ر‪،‬‬ ‫‪۹‬۔‬
‫‪۱۸۸۹‬ء‪،‬ص‪۸،۱۰‬‬

‫ندوی ‪،‬سیدسلیمان ‪،‬عرب و ہند کے تعلقات‪،‬کریم سنزپبلشرز‪ ،‬کرا چی‬ ‫‪۱‬۔‬


‫‪۱۸۹۱‬ء ص‪۱،۱‬‬

‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪۳‬‬ ‫‪۸‬۔‬

‫‪۱۰‬۔ محمد انصار اللہ‪ ،‬تا ریخ ار تقا ء زبان و ادب ‪،‬مغربی پاکستان اردو‬
‫اکیڈمی ‪ ،‬ال ہو ر ص ‪۴۱‬‬

‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪۱۴،۱۶‬‬ ‫‪۱۱‬۔‬

‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪۱۱‬‬ ‫‪۱۱‬۔‬

‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪۱۸‬‬ ‫‪۱۳‬۔‬

‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪۱۰‬‬ ‫‪۱۴‬۔‬

‫گیان چند ‪،‬ڈاکٹر‪،‬لسا نی جا ئز ے ‪،‬ال ہو ر ‪۱۰۰۶،‬ء ص‪۱۶‬‬ ‫‪۱۶‬۔‬

‫‪۱۱‬۔ محمد کا ظم ‪ ،‬عربی ادب کی تاریخ ‪ ،‬سنگ میل پبلی کیشنز ‪،‬الہور‬
‫‪ ۱۰۰۴،‬ء ص‪۱۶‬‬

‫‪۱۹‬۔ محی الدین قا دری ‪ ،‬ہندو ستا نی لسا نیا ت ‪ ،‬فضلی بک سپر ما رکیٹ‪،‬‬
‫کرا چی ‪ ۱۰۱۱‬ء ص ‪۶۴‬‬
‫‪۱۱‬۔ پنڈت بر ج ‪،‬مو ہن ‪ ،‬تا تریہ کیفی ‪،‬کیفیہ ‪ ،،‬فضلی بک سپر ما رکیٹ‪،‬‬
‫کرا چی ‪ ۱۰۱۱‬ء ص ‪۱۶۸‬‬

‫ندوی ‪،‬سیدسلیمان ‪،‬عرب و ہند کے تعلقات‪،‬ص‪۴‬‬ ‫‪۱۸‬۔‬

‫زبید احمد ‪ ،‬ڈاکٹر‪،‬عربی ادبیات میں پاک و ہند کا حصہ ‪،‬ص ‪۸‬‬ ‫‪۱۰‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۱‬‬ ‫‪۱۱‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۱۱‬‬ ‫‪۱۱‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۱۳‬‬ ‫‪۱۳‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۱۶،۱۱‬‬ ‫‪۱۴‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۱۹‬‬ ‫‪۱۶‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۱۳‬‬ ‫‪۱۱‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۱۶‬‬ ‫‪۱۹‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۳۴‬‬ ‫‪۱۱‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۳۶‬‬ ‫‪۱۸‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۳۶،۳۱‬‬ ‫‪۳۰‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪،۳۱‬تا ‪۳۱‬‬ ‫‪۳۱‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۳۱‬‬ ‫‪۳۱‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۴۰‬‬ ‫‪۳۳‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۴۱‬‬ ‫‪۳۴‬۔‬

‫‪۳۶‬۔ مو ال نا مسعود علی ندوی ‪ ،‬ہندوستان عربوں کی نظر میں ‪،‬جلد‬


‫دوم‪،‬دارالمصنفین‪،‬اعظم گڑھ‪۱۸۱۱،‬ء‪،‬ص‪۱،۳‬‬

‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪۳۰،۳۱‬‬ ‫‪۳۱‬۔‬

‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪۳۳،۳۶،۳۱،۳۹‬‬ ‫‪۳۹‬۔‬

‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪۴۹‬‬ ‫‪۳۱‬۔‬


‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪۸۴،۸۱‬‬ ‫‪۳۸‬۔‬

‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪۱۱۱،۱۱۹،۱۱۱‬‬ ‫‪۴۰‬۔‬

‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪۱۳۳،۱۴۱،۱۴۳‬‬ ‫‪۴۱‬۔‬

‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪۳۴۱،۳۴۱،۳۴۸‬‬ ‫‪۴۱‬۔‬

‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪۱۱۱،۱۱۳‬‬ ‫‪۴۳‬۔‬

‫محی الدین قادری ‪،‬ہندوستا نی لسا نیات ‪ ،‬ص ‪۸۴‬‬ ‫‪۴۴‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۴۶‬‬ ‫‪۴۶‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۶۰‬‬ ‫‪۴۱‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۴۹،۴۱‬‬ ‫‪۴۹‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۴۸‬‬ ‫‪۴۱‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۴۸‬‬ ‫‪۴۸‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۶۴‬‬ ‫‪۶۰‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۶۶‬‬ ‫‪۶۱‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۱۱،۱۱‬‬ ‫‪۶۱‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۱۱،۱۹،۱۱‬‬ ‫‪۶۳‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۹۱،۹۱‬‬ ‫‪۶۴‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۹۳‬‬ ‫‪۶۶‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۹۴‬‬ ‫‪۶۱‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۹۹‬‬ ‫‪۶۹‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۱۱‬‬ ‫‪۶۱‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۸۱‬‬ ‫‪۶۸‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۸۴،۸۶،۸۱‬‬ ‫‪۱۰‬۔‬


‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۱۱۴‬‬ ‫‪۱۱‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۱۱۹،۱۱۱‬‬ ‫‪۱۱‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۱۱۸‬‬ ‫‪۱۳‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص‪۱۱۸‬‬ ‫‪۱۴‬۔‬

‫ہندو ستا ن عر بوں کی نظر میں ‪،‬ص ‪۹،۱‬‬ ‫‪۱۶‬۔‬

‫گیان چند ‪،‬اردو کی نثری داستانیں ‪،‬ص ‪۳۳،۱۱۱‬‬ ‫‪۱۱‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۱۱۴،۱۱۶‬‬ ‫‪۱۹‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۱۱۴،۱۱۶‬‬ ‫‪۱۱‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۱۹۶‬‬ ‫‪۱۸‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۱۹۹‬‬ ‫‪۹۰‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۱۹۱،۱۹۹‬‬ ‫‪۹۱‬۔‬

‫ہندو ستا ن عر بوں کی نظر میں ‪،‬ص ‪۴۸،۶۰‬‬ ‫‪۹۱‬۔‬

‫ہندو ستا ن عر بوں کی نظر میں ‪،‬ص ‪۴۹‬‬ ‫‪۹۳‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۱۸۰‬‬ ‫‪۹۴‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۱۸۳‬‬ ‫‪۹۶‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۱۸۴‬‬ ‫‪۹۱‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۱۸۶،۱۸۱‬‬ ‫‪۹۹‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۱۸۹،۱۸۱‬‬ ‫‪۹۱‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۱۸۱،۱۸۸‬‬ ‫‪۹۸‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۱۰۳‬‬ ‫‪۱۰‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۱۱۱‬‬ ‫‪۱۱‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۱۱۶‬‬ ‫‪۱۱‬۔‬


‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۱۱۱‬‬ ‫‪۱۳‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۱۱۱‬‬ ‫‪۱۴‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۱۱۱‬‬ ‫‪۱۶‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۱۱۴‬‬ ‫‪۱۱‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۱۱۱‬‬ ‫‪۱۹‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۱۱۳‬‬ ‫‪۱۱‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۱۳۱‬‬ ‫‪۱۸‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۱۴۱،۱۴۱‬‬ ‫‪۸۰‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۱۶۸،۱۱۰‬‬ ‫‪۸۱‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۱۱۱،۱۱۳‬‬ ‫‪۸۱‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۱۱۱،۱۱۹‬‬ ‫‪۸۳‬۔‬

‫عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۳۱۴،۳۱۶‬‬ ‫‪۸۴‬۔‬

‫ما خذ ‪،‬کامران اعظم سو ہدروی‪ ،‬تذکرہ شہدائے کر بال ‪ ،‬اسالم آباد‪،‬‬ ‫‪۸۶‬۔‬
‫اشاعت دوم ‪۱۰۱۰ ،‬ء‪ ،‬کا روان شہادت مدینہ تا مدینہ‪ ،‬منزل بہ منزل‬
‫‪،‬تالیف ‪،‬عال مہ محمد علی فا ضل ‪،‬مکتبہ ہا دی ‪،‬ال ہو ر ‪۱۰۱۰،‬ء‬

‫محمد یعقوب کلینی‪’’ ،‬الشافی‘‘ مترجم‪ ،‬سید ظفر حسن‪’’ ،‬اصول‬ ‫‪۸۱‬۔‬
‫کافی‘‘‪( ،‬جلد سوم) ظفر شمیم پبلی کیشنز‪ ،‬گلستان جوہر‪ ،‬کراچی‪،‬‬
‫‪۱۰۱۱‬ء‪ ،‬ص ‪۶۱،۶۸‬‬

‫‪Hussaini Brahmins -Download from YTPAK .COM‬‬ ‫‪۸۹‬۔‬


‫‪from YTPAK .COM‬‬ ‫‪۸۱‬۔‬

‫‪۸۸‬۔ انتظار حسین ‪ ،‬جستجو کیا ہے ‪،‬سنگ میل پبلی کیشنز ‪ ،‬ال ہو ر ‪۱۰۱۱،‬‬
‫ء ص ‪۱۹۱ ،۱۹۰‬‬

‫‪۱۰۰‬۔ عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۳۱۱،۳۱۹‬‬

‫‪۱۰۱‬۔ عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۳۳۳،۳۳۴،۳۳۶‬‬

‫‪۱۰۱‬۔ عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۳۴۳‬‬


‫‪۱۰۳‬۔ عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۳۴۴‬‬

‫‪۱۰۴‬۔ عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۳۴۶‬‬

‫‪۱۰۶‬۔ عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۳۴۹‬‬

‫‪۱۰۱‬۔ عر ب و ہند کے تعلقات ‪،‬ص ‪۳۴۸،۳۶۰‬‬

‫‪۱۰۹‬۔ زبید احمد ‪ ،‬ڈاکٹر‪،‬عربی ادبیات میں پاک و ہند کا حصہ ‪،‬ص‪۳۶‬‬

‫‪۱۰۱‬۔ زبید احمد ‪ ،‬ڈاکٹر‪،‬عربی ادبیات میں پاک و ہند کا حصہ ‪،‬ص‪۳۱‬‬

‫‪۱۰۸‬۔ زبید احمد ‪ ،‬ڈاکٹر‪،‬عربی ادبیات میں پاک و ہند کا حصہ ‪،‬ص‪۳۱‬‬

‫‪۱۱۰‬۔ زبید احمد ‪ ،‬ڈاکٹر‪،‬عربی ادبیات میں پاک و ہند کا حصہ ‪،‬ص‪۳۹‬‬

‫‪۱۱۱‬۔ زبید احمد ‪ ،‬ڈاکٹر‪،‬عربی ادبیات میں پاک و ہند کا حصہ ‪،‬ص‪۳۱،۳۸‬‬

‫‪۱۱۱‬۔ زبید احمد ‪ ،‬ڈاکٹر‪،‬عربی ادبیات میں پاک و ہند کا حصہ ‪،‬ص‪۳۸‬‬

‫‪۱۱۳‬۔ زبید احمد ‪ ،‬ڈاکٹر‪،‬عربی ادبیات میں پاک و ہند کا حصہ ‪،‬ص‪۴۰،۴۱‬‬

‫‪۱۱۴‬۔ جمیل جا لبی ‪ ،‬ڈاکٹر ‪،‬تا ریخ ادب اردو ‪ ،‬جلد دوم ‪،‬مجلس ترقی ادب‬
‫‪،‬الہو ر ‪۱۰۰۸‬ء ص‪۱‬‬

‫‪۱۱۶‬۔ موال نا غالم رسول ‪،‬مہر ‪،‬مطالب اسرار و رموز‪،‬شیخ غالم علی اینڈ‬
‫سنز پبلشرز ‪ ،‬ال ہو ر ‪ ۱۸۱۰،‬ء ص ‪۱۱۶،۱۱۱‬‬

‫‪۱۱۱‬۔ اختر شیرانی اور جدید اُردو ادب ‪ ،‬انجمن ترقی اُردو پا کستا ن ‪ ،‬کرا‬
‫چی ‪،‬ص ‪۶۰۱‬‬

‫‪۱۱۹‬۔ اختر شیرانی اور جدید اُردو ادب ‪ ،‬انجمن ترقی اُردو پا کستا ن ‪ ،‬کرا‬
‫چی ‪،‬ص ‪۱۱۰‬‬
‫باب دوم‪:‬‬

‫محمد کا ظم سوانحی حاالت(‪۶۲۹۱‬ءتا‪۹۱۶۲‬ء)‬

‫کسی بھی انسان کی شخصیت کو سنوارنے میں جو عوامل محرک ثابت ہوتے‬
‫ہیں ان میں والدین اور ما حول کی اہمیت مسلم ہے جس سے مفر ممکن نہیں۔عالوہ‬
‫ازیں کچھ خ ّ‬
‫ط وں میں بھی خاص تاثیر ہوتی ہے جو علم و ادب کی ترویج میں غیر‬
‫محسوس انداز میں معاونت کرتی ہے اور ایک ایسی فضا تخلیق کرتی ہے جو وہاں‬
‫کے مکینوں میں تخلیقی شعور بیدار کرکے ان کی خوابیدہ صالحیتوں کو اجاگر کرتی‬
‫ہے۔ ایسا ہی خطہ جو ریاست بہاولپور کے نام سے معروف ہے زبان وادب کی آبیاری‬
‫میں اس کا کردار ابتداء سے غیر معمولی رہا ہے۔یہی بات یہاں کے باشندوں کے‬
‫الشعور میں کارفرمارہی ہے اسی لیے انہوں نے بھی بساط بھر علمی وادبی ‪،‬تحقیقی و‬
‫تنقیدی شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دیے۔‬

‫ریاست بہاول پور اردو زبان وادب کے حوالے سے خصوصی اہمیت کی حامل‬
‫ہے اس کی اڑھائی سو سالہ تاریخ شاہد ہے کہ دکنی ریاستوں کی طرح یہاں کے‬
‫حکمرانوں نے خود اردو زبان کی ترویج و اشاعت میں بڑی دلچسپی لی ۔حتی کہ یہاں‬
‫کی دفتری زبان بھی اردو ہی قرار دی گئی یہاں اردو کے روشن مستقبل کے حوالے‬
‫سے مولوی عبدالحق کہتے ہیں۔‬

‫’’پاکستان بھر میں بہاولپور وہ جگہ ہے جہاں اردو کو‬


‫اس کا صحیح مقام دیا جا رہا ہے اور امید ہے کہ بہاول‬
‫پور کے لوگ ہی اردو کو قومی زبان کی حیثیت سے‬
‫عام کرنے میں نمایاں کردار ادا کریں گے‘‘۔ (‪)۱‬‬

‫ریاست بہاول پور کی ایک نابغہ شخصیت سید محمد کاظم جس نے علی گڑھ‬
‫سے انجینئرنگ کی اور محکمہ واپڈا سے اپنی مالزمت کا آغاز کیا اور انتہائی ذمہ‬
‫داری سے اپنے پیشہ ورانہ فرائض سر انجام دیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ جو تعارف‬
‫اس کا حوالہ بنا وہ اس کی تحقیق ‪،‬تنقیدی شعور‪ ،‬خاکہ نگاری ‪،‬ترجمہ نگاری اور‬
‫عربی زبان و ادب میں کامل دستگاہ ہے ۔بطور سفر نامہ نگار اس نے دلچسپ اور‬
‫نایاب ادب تخلیق کیا اور بطور ادیب معروضی انداز میں اپنی یاداشتوں کو قلم بند‬
‫کرنے میں اس نے جس بے ساختگی اور سالست بیان سے لفظوں کی بنت کاری کر‬
‫کے جاذبیت پیدا کی ہے وہ اسے اپنے ہم عصر ادبا سے ممتاز کرتی ہے۔‬

‫’’محمد کاظم کا تعلق سابق ریاست بہاولپور کے ایک‬


‫سید خاندان سے ہے ان کے آباؤ اجداد عرب سے‬
‫افغانستان کا سفر کرتے ہوئے ہندوستان آئے پہلے وہ‬
‫سندھ کی طرف گئے اور پھر وہاں سے لوٹ کر‬
‫بہاولپور (احمد پور شرقیہ )میں آباد ہوگئے‘‘۔(‪(۱‬‬

‫احمد پورشرقیہ کو اوچ شریف سے قربت کی وجہ سے نہ صرف پنجاب بلکہ‬


‫بر صغیر پا ک و ہند میں ایک خاص مقام حاصل ہے ۔محمد کاظم کے آباؤ اجدادمذہبی‬
‫رحجان رکھتے تھے خاندان کے بہت لوگ حج کی سعادت حاصل کر چکے تھے ۔اور‬
‫ارکان مذہب کے پا بندتھے ۔محمد کاظم کے دادا بہاول پور کی فوج کی امامت کرواتے‬
‫تھے ۔‬

‫’’میرے دادا نہ صرف امامت کرواتے تھے بلکہ‬


‫تفسیروحدیث کی کتابوں کا مطا لعہ بھی کرتے تھے ‘‘۔‬
‫(‪(۳‬‬

‫کچھ خصوصیات ایسی ہوتی ہیں جو نسل درنسل منتقل ہوتی رہتی ہیں کیونکہ‬
‫۔لہذامحمد کا ظم‬
‫وہ خون میں سرایت کی جاتی ہیں اور اس طرح سلسلہ چلتا رہتا ہے ٰ‬
‫کے والد میں بھی اپنے والد کی خصوصیات موجود تھیں ۔‬

‫’’محمد کا ظم کے والد سید محمود شاہ ‪۱۱۸۱‬ء میں پیدا‬


‫ہوئے وہ بھی اپنے والد کی طرح مذہب سے قریب تھے‬
‫۔اس کے ساتھ وہ دین ودنیاوی مشاغل بھی رکھتے‬
‫تھے۔انہیں علم وادب سے خصوصی لگاؤ تھا۔بہت سی‬
‫کتابوں کا مطالعہ بھی کیا ہوا تھا‘‘۔(‪)۴‬‬

‫محمد کاظم کے والد مطالعہ کا خصوصی ذوق رکھتے تھے۔مالزمت کی‬


‫مصروفیت کے باوجود کچھ خاص کتب ان کے زیر مطالعہ رہتی تھیں۔‬

‫’’انھیں پڑھنے کا شوق تھا۔چنانچہ ان کے جانے کے‬


‫بعدمجھے معلوم ہواکہ حفیظ جالندھری کا شاہنامہ اسالم‬
‫ان کے زیر مطالعہ رہتا تھا۔اس کے عالوہ انھوں نے‬
‫عالمہ شبلی نعمانی کی سیرت النبی کی پہلی دو جلدیں‬
‫باالستیعاب پڑھی تھیں اور دوسری جلد کے آخر میں‬
‫اپنے دستخط ثبت کیے تھے‘‘۔(‪)۶‬‬

‫وہ خاندان جو نسلوں سے دینی علوم کا شائق تھااوراس علم کوبطوروراثت آنے‬
‫والی نسلوں تک منتقل کر رہا تھااور معاشرے میں اپنے رکھ رکھاؤ کی وجہ سے قابل‬
‫احترام سمجھا جاتا تھااسی خاندان میں ایک ایسے بچے نے آنکھ کھولی جو مستقبل‬
‫میں علم وادب کے افق پر ایک درخشاں ستارے کی مانند چمکنے واال تھااور تحقیق‬
‫کی پُرخار اور سنگالخ چٹانوں سے ٹکرانے کا حوصلہ رکھنے واال پُرعزم عبقری‬
‫تھاجس کا نام اس کے والدنے محمد کاظم رکھااور جو آنے والے وقت میں با مسمٰ ی‬
‫ثابت ہوا۔‬

‫’’محمد کاظم‪ ۱۴‬اگست ‪۱۸۱۱‬ء کو احمد پور شرقیہ میں‬


‫پیدا ہوئے جبکہ میٹرک کی سند کے مطابق تاریخ پیدائش‬
‫‪ ۱۹‬جوالئی ‪ ۱۸۱۹‬ہے۔احمدپور شرقیہ سے چار میل‬
‫کے فاصلے پرریاست کی افواج کی چھاؤنی تھی‬
‫اوریہیں امیر آف بہاول پورکا رہائشی محل تھا۔اس وجہ‬
‫سے یہ چھوٹاسا شہر ڈیرہ نواب کہالتا تھا اوراحمد‬
‫پورشرقیہ کے ریلوے اسٹیشن کا نام بھی اس مناسبت‬
‫سے ڈ یرہ نواب کہالتا تھااور احمدپور شرقیہ کے‬
‫ریلوے اسٹیشن کا نام بھی اس مناسبت سے ڈیرہ نواب‬
‫صاحب ہی رہا۔سیّدمحمود شاہ اس وقت حیات تھے‬
‫اورڈیرہ نواب میں امیر آف بہاول پور کے ہاؤس‬
‫ہولڈآفس میں سپرنٹنڈنٹ تھے۔اُن کی تنخواہ معقول تھی‬
‫اورایک خوش حال زندگی گزاررہے تھے لیکن‪۱۸۳۳‬ء‬
‫میں اُن کا انتقال ہوگیااور اس کے بعد اس چھوٹے‬
‫عسرت اور تنگ دستی کا سا منا کرنا پڑا۔اس‬
‫خاندان کو ُ‬
‫وقت محمد کاظم کی عمر تقریبا َ ََ سات سال اور اُن کے‬
‫بڑے بھا ئی محمدہاشم کی عمر دس سال تھی‘‘۔(‪)۱‬‬

‫والد کی وفات کے بعد اس کی پرورش و پرداخت والدہ کے ساتھ ساتھ ماموں‬


‫صاحبان نے بہت پیار سے کی۔اس کار زارحیات کے کٹھن لمحات میں اپنے ہونے کا‬
‫احساس دالیا تاکہ اس کے اندر کسی قسم کا احساس محرومی نہ پنپ سکے لیکن باپ‬
‫کی بے وقت موت نے محمد کاظم کو اپنی عمر سے زیادہ سمجھدار بنادیا اور اس کا‬
‫بچپن بھی دوسرے بچوں سے مختلف انداز میں گزرا اور اس کی فکر میں گہرائی پیدا‬
‫ہوگئی تھی جو بعد میں اس کی شخصیت کا خاصہ بن گئی۔دونوں بھائیوں کو والد سے‬
‫بہت محبت تھی اور انہوں نے اس کمی کو تمام عمر محسوس کیا۔بڑے بھائی محمد‬
‫ہاشم اس حوالے سے بتاتے ہیں۔‬

‫’’ہم نے والدہ صاحبہ کے زیر اثر اور ماموں صاحبان‬


‫کی سر پرستی میں یتیمی کی زندگی گزاری میرے والد‬
‫صاحب گھر میں ایک آئیڈیل شوہر اور مشفق باپ تھے‬
‫۔اس سے زیادہ یہ کہ وہ احمد پور شرقیہ میں مسلمانوں‬
‫اور ہندوؤ ں میں برابر مقبول تھے ۔ان کی نماز جنازہ‬
‫میں جتنی تعداد مسلمانوں کی تھی تقریبا َ ََ اتنی تعداد‬
‫ہندوؤں کی جنا ز گاہ سے باہر تھی ‘‘۔(‪)۹‬‬
‫محمد کاظم بچپن سے ہی بہت حساس طبیعت کا تھا اوراپنے گردو نواح کا‬
‫مشاہدہ معروضی انداز میں کرتا تھا اسی انداز نے اس کی تحریروں کو جال بخشی۔‬

‫اپنے بچپن کے بارے میں رقمطراز ہے۔‬

‫’’میرا بچپن احمد پور شرقیہ میں گزرا احمد پور شرقیہ‬
‫میں تقریبا َ ََ پچیس فی صد ہندو آبادی تھی ۔ اس وقت‬
‫احمد پور شرقیہ کا سارا بازار اور اس کا کاروبار‬
‫ہندوؤں کے ہاتھوں میں تھا اور مسلمانوں کی صر ف‬
‫چند دوکانیں گوشت ‪،‬دہی دودھ ‪،‬جوتے اور ْکھسے اور‬
‫شربت وغیر ہ کی تھیں‘‘ ۔ (‪)۱‬‬

‫اس بیان سے اُس عہد کے معاشرتی و ثقافتی حاالت کا پتہ چلتا ہے کہ اس وقت‬
‫لوگوں کے نمایاں رجحانات کیا تھے؟ زیست کو بسر کرنے کے لیے گزر اوقات کا‬
‫ذریعہ کار کیا تھا اور وہ ذہنی طور پر کتنے پختہ تھے۔محمد کاظم نے عہد طفولیت‬
‫میں ہی ان حاالت کو اپنے غائر مشاہدے کے ترازو میں توال اورپرکھا۔‬

‫چونکہ محمد کاظم کا ننھیال ایک کھاتا پیتا گھرانہ تھا اس لیے اس کی تعلیم و‬
‫گئی۔‬ ‫دی‬ ‫توجہ‬ ‫خصوصی‬ ‫پر‬ ‫تربیت‬
‫سیّد ہاشم بتاتے ہیں ۔‬

‫’’ہمارا ننھیال احمد پور (ضلع بہاول پور) میں مقیم تھا‬
‫۔ہمارے نانا سیّد ذوالفقار شاہ صاحب گر داور تھے ۔ان‬
‫کی زمینیں بھی تھیں تقریبا َ ََ (دس بار مربعے )‘‘۔ (‪)۸‬‬

‫اُن کی والدہ کو مذہب کی طرف خاص رغبت تھی۔نماز اور روزے کی پابند‬
‫تھیں اور تالوت قرآن کا خصوصی اہتمام کرتی تھیں۔وہ اپنے بیٹوں کی پڑھائی میں‬
‫خصوصی دلچسپی لیتی تھیں۔انہوں نے بیٹوں کی تربیت اس مقولے کے مصداق کی کہ‬
‫کھالؤ سونے کا نوالہ اور دیکھو شیر کی آنکھ سے۔‬
‫’’ہمارے ماحول میں رنگین مزاجی ناپید تھی والدہ‬
‫صاحبہ اور ماموں صاحبان کی ہم پر بہت نگرانی اور‬
‫کنٹرول تھا ‘‘۔(‪)۱۰‬‬

‫عالوہ ازیں اس نے بچپن میں اپنے والد کو بھی نماز پڑھتے اور قرآن مجید مع‬
‫ترجمہ پڑھتے دیکھا۔‬

‫محمد کاظم نے بچپن سے ہی مختلف ادبی رسائل کو دیکھا اور ان کا مطالعہ‬


‫کیا اس وجہ سے بعد میں اس کا جھکاؤ بھی مذہب کی طرف رہا۔یہ رسائل اس دور‬
‫میں خاصی اہمیت کے حامل تھے۔اگرچہ اس کے خاندان کے کسی فرد نے کبھی کچھ‬
‫لکھا نہیں اس لحاظ سے اولیت سہرا محمد کاظم کے سر ہے۔‬

‫’’محمد کاظم کے پھوپھا سید سیف اللہ شاہ اس صدی کی‬


‫اوائل دہائیوں میں نکلنے والے ادبی ‪،‬دینی اور سیاسی‬
‫رسالوں کے مطالعے کا شوق رکھتے تھے جن مین‬
‫مخزن ‪،‬عالمگیر ‪،‬ادب لطیف ‪،‬سیاست مولوی ‪،‬صوفی‬
‫اور ترجمان القرآن وغیرہ شامل تھے ۔اس کے ساتھ وہ‬
‫ایک مقامی جماعت حزب اللہ کے رکن بھی تھے ۔مجلس‬
‫احرار کی طرف جھکا ؤ رکھنے کی وجہ سے سید‬
‫عطااللہ شاہ بخاری کے ساتھ ان کے قریبی مراسم تھے‬
‫لیکن انہوں نے اپنی زندگی میں کچھ نہیں لکھا‘‘ ۔(‪)۱۱‬‬

‫اپنے خاندان کی نظریاتی وابستگی کا ذکر اس طرح کیا ہے۔‬

‫’’ہمارے خاندان کی نظریاتی وابستگی ایک زمانے میں‬


‫مجلس احرار کی ساتھ ر ہی ہے۔‘‘(‪)۱۱‬‬

‫محمد کاظم نے دینی تعلیم کا آغازاس زمانے کے مطابق بہت چھوٹی عمرسے‬
‫کر دیا تھا۔اسنے نا ظرہ قرآن پاک چار سال کی عمر میں پڑھنا شروع کر دیا تھا چونکہ‬
‫محنت اورتوجہ اس کی گھٹی میں شامل تھی اس لیے اڑھائی سال میں قرآن پاک بھی‬
‫ختم بھی کر لیا۔بچپن سے ہی پڑھائی میں خاص دلچسپی تھی اور اس میں والدہ کا بھی‬
‫ہاتھ تھا۔‬

‫محمد ہاشم شاہ بتاتے ہیں ۔‬

‫’’والدہ صاحبہ دونوں بچوں پر جان دیتی تھیں ۔والد‬


‫صاحب کا سایہ سر سے آٹھ گیا تھا لیکن والدہ صاحبہ‬
‫نے باپ بن کر ہمیں پاال ہماری تعلیم و تربیت انہیں کی‬
‫مر ہون ہے۔سید محمد کاظم چونکہ چھوٹے تھے ان کی‬
‫طرف توجہ زیادہ تھی اگرچہ خود زیادہ پڑھی لکھی‬
‫نہیں تھیں لیکن محمد کاظم کو سردیوں کے موسم میں‬
‫لحاف میں بٹھا کر سبق یا د کرایا کراتیں اور سنا کرتیں‬
‫۔اس وجہ سے بھی محمد کاظم پڑھائی میں بہت سنجید ہ‬
‫ہوتے گئے‘‘۔(‪َ)۱۳‬‬

‫چونکہ بچپن میں محمد کاظم اپنی والدہ کے زیادہ قریب تھا اس لیے ابتدائی‬
‫جماعتیں اس نے گھر میں پڑھیں اور تیسری جماعت میں سکول داخل کروایا اس لیے‬
‫اس سال تھوڑی مشکل پیش آئی لیکن پھر آہستہ آہستہ اس کے اندر مقابلے کی فضا پیدا‬
‫ہونا شروع ہوگئی اور اس چیز نے اسے محنت کا عادی بنا دیا۔اس نے مڈل کے‬
‫امتحان میں اچھی پوزیشن حاصل کی۔اس دور میں صورت حال آج سے مختلف تھی‬
‫مضامین کے انتخاب میں بچوں کی رائے نہیں لی جاتی تھی۔محمد کاظم کو سائنس کا‬
‫مضمون پسند نہ تھا لیکن بڑوں کی رائے کا احترام کرنا پڑا اس لیے اس کا اثر میٹرک‬
‫کے نتائج پر پڑا۔ حساب کے مضمون میں خصوصی دلچسپی تھی اس لیے انجنیئرنگ‬
‫میں کامیابی حاصل کی۔‬

‫’’محمد کاظم میٹرک کے بعد کالج میں داخل ہوئے۔داخلے کے لیے بہاول پور‬
‫اپنے بڑے ماموں کے پاس آگئے یہاں صادق ایجرٹن کالج میں ایف ایس سی میں داخلہ‬
‫لیا۔محمد کاظم نے ‪ ۱۸۴۳‬ء ایف ایس سی کا امتحان سیکنڈڈویژن میں پاس کیا۔اس کی‬
‫غالب ََا یہ کہ سائنس کے دو ایسے مضمون شامل نصاب تھے جو انہیں نا پسند‬
‫َ‬ ‫وجہ‬
‫تھے فز کس اور کیمسٹری کی وجہ سے کوئی پوزیشن حاصل نہ کر سکے۔ایف ایس‬
‫سی کے بعد بہاول پور ہی میں بی ایس سی (ریاضی) میں داخلہ لیا لیکن ابھی پہلے‬
‫سال کا امتحان نہ دیا تھا کہ انجینئرنگ کے لیے ‪۱۸۴۴‬ء میں علی گڑھ چلے‬
‫گئے۔‘‘(‪)۱۴‬‬

‫عربی ‪،‬اردو اور انگریزی ان کے پسندیدہ مضامین تھے لیکن خاندانی دباؤ کے‬
‫آگے ہتھیار ڈال دیے اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل‬
‫کی۔ انجینئرنگ کے ساتھ ساتھ عربی کا شوق کیسے پروان چڑھا کیونکہ دونوں ایک‬
‫دوسرے سے یکسر مختلف ہیں۔لیکن یہ اس بناء ممکن ہوسکا کہ انجینئرنگ میں‬
‫داخلے کے وقت محمدکاظم کی عمر مقررہ حد سے کچھ ماہ کم تھی اس لیے داخلے‬
‫کے لیے کچھ ماہ انتظار کرنا پڑا۔اس دوران اس کے پاس کافی فارغ اوقات تھے اور‬
‫ان اوقات کا بہترین مصرف اس نے مختلف کتب کے مطالعہ میں تالش کیا۔‬

‫محمد کاظم طب َع ََا شرمیال‪ ،‬کم آمیز اور کم گو تھا۔کتب بینی کا شوق اس کے‬
‫ماحول کا اثر تھا۔علی گڑھ جانے سے پہلے بہاول پور کالج میں تعلیم کے دوران اس‬
‫کی شخصیت میں خود اعتمادی کا فقدان تھا وہ کسی اور سے پہلے ہی اپنی ذات کی‬
‫نفی کر دیتا تھا۔کالج کے تعلیمی دور میں وہ داخلی طورپر اپنی شخصیت کا تجزیہ‬
‫کرتا رہتا تھا جب اس نے اچھی طرح اس حقیقت کو محسوس کر لیا کہ وہ عملی طور‬
‫پر کچھ کر گزرنے کی صالحیت سے محروم ہے اور ایک غیر متحرک قسم کا طالب‬
‫علم ہے تو اس نے کتابوں کو بہترین پناہ گاہ تسلیم کرکے اپنی تمام کوفتوں کا درماں‬
‫کیا کیونکہ ان دنوں وہ اپنے نقطہ نظر کو ٹھوس انداز میں واضح کرنے کی صالحیت‬
‫سے بے بہرہ تھا۔‬

‫اس حوالے سے وہ خود کہتا ہے۔‬

‫’’کالج کا سٹیج میری پہنچ سے ویسے ہی دور تھا۔کچھ‬


‫اپنے فطری حجاب اور کچھ سکول کے زمانے کی‬
‫نادرست تربیت کی وجہ سے میرے اندر سٹیج کی شرم‬
‫مریضانہ حدتک شدید تھی۔مجھے اگر کبھی کالس میں‬
‫اُٹھ کر صرف اپنا نام بھی بتانا پڑتا تو مارے اضطراب‬
‫اور بوکھالہٹ کے میرا چہرہ کانوں تک سرخ ہو جاتا‪،‬‬
‫ٹانگین کانپنے لگتیں اور زبان لڑکھڑا جاتی ‪،‬ا پنی تنہائی‬
‫اور بے چارگی دور کرنے کے لئے میں نے باآلخر‬
‫ایک طرف مذہب کا اور دوسری طرف کتابوں کا سہارا‬
‫لیا تھا ۔ میں نے اسی عمر میں نماز کی پابندی شروع‬
‫کی اور شام کو روزانہ بجائے کالج کے کھیل کے میدان‬
‫میں جانے کے ‪ ،‬میں شہر کی جامع مسجد میں جاتا اور‬
‫وہاں نماز مغرب کے بعد شہر کے ایک ممتاز اہل دل‬
‫عالم (موالنا محمد علی ) کا درس حدیث سنتا ‪ ،‬ادھر کالج‬
‫کی الئبریری سے عالمہ شبلی اور سیّد سلیمان ندوی‬
‫اور دوسرے اچھے اچھے مصنفین کی کتابیں لے آتا اور‬
‫اُن کے صفحات میں گم ہو کراپنی ساری فکریں اور‬
‫کلفتیں بھول جاتا‘‘۔(‪)۱۶‬‬

‫اعلی‬
‫ٰ‬ ‫زندگی میں کچھ پانے کیلئے تعلیم اور بلند مراتب حاصل کرنے کےلیے‬
‫تعلیم بہت ضروری ہے۔ جب شہر میں یہ مواقع محدود ہو جائیں اور دل میں آگے‬
‫بڑھنے کی لگن بھی اوج کمال کوپہنچ جائے اور کسی پل چین نہ لینے دے تو نقل‬
‫مکانی اس کے لیے الزم ٹھہر جاتی ہے اور وہ حصول منزل کے لیے سوئے منزل‬
‫روانہ ہو جاتا ہے۔ بحیثیت انسان محمد کاظم نے بھی یہی کیا۔‬

‫’’انجینئرنگ کی تعلیم کے لئے مسلم یونیورسٹی علی‬


‫گڑھ گئے اور ‪۱۸۴۱‬ء میں فارغ التحصیل ہوئے‘‘ (‪)۱۱‬‬

‫محمد کاظم کی شخصیت میں یہ احساس شدّت پکڑ چکا تھا کہ وہ روبروکسی‬
‫سے بات نہیں کر سکتا اس کی وجہ جسمانی طور پر دُبال پتال اور کوتاہ قامت ہونا بھی‬
‫تھا اس لئے وہ کالج کی نشاط انگیز فضا سے ثروت مند نہ ہو سکا اور یہ احساس علی‬
‫گڑھ یونیورس ٹی جا کر بھی معدوم نہ ہوا ‪ ،‬پری انجینئرنگ کالسز میں بھی وہ اسی‬
‫احساس کے حصار میں قلعہ بند رہا اور زیادہ وقت یونیورسٹی کی الئبریری میں‬
‫مختلف ُکتب کے مطالعہ میں صرف کرتا ۔‬

‫اس حوالے سے وہ خود رقم طراز ہے۔‬

‫’’انہی دنوں میں نے سیّد سلیمان ندوی کے رسالہ‬


‫’معارف‘کے بہت سے شمارے الف سے ی تک پڑھ‬
‫ڈالے ۔ ان سے کافی علمی فائدہ اُٹھایا اور اپنی ڈائری‬
‫میں نوٹس لئے ‪ ،‬اس کے ساتھ عالمہ شبلی نعمانی کی‬
‫’سیرت النبی ؐ ‘ اور مسلمان مشاہیر کی کتابیں ایک ایک‬
‫کر کے پڑھ ڈالیں ‘‘۔ (‪)۱۹‬‬

‫پری انجینئرنگ کالسز میں صرف دو کالسز ہوتی تھیں اس لئے وہ زیادہ وقت‬
‫الئبریری میں مختلف کتب کے مطالعہ میں گزارتا۔جب اس کی عمر مطلوبہ حد کے‬
‫مطابق (یعنی سترہ سال )پوری ہوگئی تو اس نے انجینئرنگ کی باقاعدہ کالسز پڑھنا‬
‫شروع کر دیں ۔ علی گڑھ میں دو سال قیام کے دوران اس کی شخصیت پر مثبت اثرات‬
‫مرتب ہوئے اور خود اعتمادی پیدا ہوئی ۔ یہ تعلیمی ادارہ برصغیر میں نمایاں حیثیت کا‬
‫حامل تھا ۔ یہا ں ہندوستان کے دیگر خطوں پنجاب‪ ،‬دہلی ‪ ،‬مدراس ‪ ،‬بہار‪ ،‬بنگال وغیرہ‬
‫سے طالبعلم آئے ہوئے تھے ۔‬

‫محمد کاظم اس حوالے سے بتاتے ہیں ۔‬

‫’’ان مختلف زبانوں اور تہذیبوں کے باہمی میل جول‬


‫سے شخصیت پر نمایاں اثر پڑا میرا نقطہ نظر وسیع ہوا‬
‫اور ملک کے دوسرے صوبوں اور عالقوں کے رہن‬
‫سہن ‪ ،‬زبان اور عادات واطوار سے آگاہی حاصل ہوئی‬
‫‘‘(‪)۱۱‬‬

‫اپنی زبان کے عالوہ کسی دوسری زبان میں دلچسپی لینا اور پھر اس میں ید‬
‫طولی حاصل ہونا گویا کارہائے نمایاں ہے ۔ محمد کاظم کے گھر میں تو کوئی بھی‬
‫ٰ‬
‫فردماہر عربی نہ تھا ۔جماعت اسالمی سے تعلق کسی حد تک اس شوق کا محرک ہو‬
‫سکتا ہے ۔ دوسری صورت میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس کا طبعی رجحان عربی‬
‫کی طرف تھا ۔دوران تعلیم علی گڑھ یونیورسٹی میں موسم گرما کی تعطیالت نہیں‬
‫ہوتی تھیں صرف دس بارہ روز کے لئے یونیورسٹی بند ہوتی تھی ۔دوردراز کے زیادہ‬
‫تر طالب علم ہاسٹل میں ہی ٹھہر جاتے تھے ٰلہذا محمد کاظم نے بھی یہیں ٹھہرنا‬
‫مناسب سمجھااور اس دوران اپنا مطالعہ وسیع کیا ۔‬

‫عربی تعلیم کی ابتدا کس طرح ہوئی اس کی زبانی سنیئے‬

‫’’علی گڑھ میں دوران تعلیم کسی اخبار میں دارالعلوم‬


‫ندوہ کے کسی ادارے کا ایک اشتہار دیکھا جس کا‬
‫عنوان تھا ’’عربی زبان کے دس سبق‘‘ کسی چیز نے‬
‫مجھے قائل کیا کہ میں اسے خرید لوں ۔جب میں نے‬
‫عربی زبان کے پہلے دس سبق پڑھ اور سمجھ لئے اور‬
‫ان کی مشقیں بھی حل کر لیں تومجھے یوں لگا کہ‬
‫میرے لئے عربی زبان کوئی مشکل زبان نہیں ہے اور‬
‫میں اس میں استعداد پیدا کر سکتا ہوں ۔چنانچہ میں نے‬
‫دارالعلوم ندوہ کے اس ادارے سے عربی زبان کی تعلیم‬
‫کی مزید کتابیں منگوائیں اور ایک ایک کر کے انہیں‬
‫پڑھتا چال گیا ۔ کچھ عرصہ بعد میں نے عربی زبان کی‬
‫ابتدائی کتابیں اور رسالے پڑھنا شروع کئے‘‘۔(‪)۱۸‬‬

‫عربی زبان و ادب سے محمد کاظم کو خصوصی لگاؤ ہو گیا تھا جو کہ اس‬
‫کے ذاتی شوق اور لگن کا نتیجہ تھا ۔عربی سے اپنی دلچسپی اور محبت کا ذکر اس‬
‫انداز سے کیا ہے۔‬

‫’’زبانوں کے معاملے میں میری پہلی محبت عربی زبان‬


‫ہے جس کے دام میں میں اس وقت گرفتار ہوا جب میں‬
‫علی گڑھ یونیورسٹی میں انجینئرنگ کے آخری سال‬
‫میں تھا ۔ میری مسیں اس وقت بھیگ رہی تھیں اور‬
‫میری ادبی حس آہستہ آہستہ بیدا ر ہو رہی تھی ‘‘۔(‪)۱۰‬‬

‫محمد کاظم نے عربی زبان میں خصوصی مہارت حاصل کر لی تھی یہ‬
‫استعداد کسی ڈگری کی محتاج نہ تھی لیکن یہ نیت کا خلوص تھا کہ اس نے اپنی‬
‫مصروف ترین زندگی میں عربی کے لئے وقت نکاال۔‬

‫’’انہوں نے ‪۱۸۱۱‬ء میں پنجاب یونیورسٹی الہور سے‬


‫پرائیویٹ ایم اے عربی بھی کیا‘‘(‪)۱۱‬‬

‫جب جذبہ کامل سے کوئی کام کیا جائے تو نشان منزل خود بخود مل جاتا ہے ۔‬
‫سب سے اہم بات ہمت کی ہے لیکن اس دوران جو لوگ سہارا دیتے ہیں اور قدم قدم پر‬
‫حوصلہ بڑھاتے ہیں وہ ذہن کے دریچوں میں محفوظ ہو جاتے ہیں اور اپنی کامیابیاں‬
‫اُن کے نام منسوب کرنے کو دل چاہتا ہے ۔ ایسی ہی ایک شخصیت محمد کاظم کی‬
‫رہنما ثابت ہوئی ۔‬

‫’’عربی سیکھنے میں ا ُن کے نگران مسعود عالم ندوی‬


‫تھے ۔مسعود عالم ندوی سے اُن کا تعلق باقاعدہ سات‬
‫برس رہا ۔ وہ جماعت اسالمی کے شعبہ عربی‬
‫دارالعروبہ کے انچارج تھے ۔اس طرح اُن کا تعلق‬
‫دوستی اور بھائی چارے میں بدل گیا‘‘۔ (‪)۱۱‬‬

‫تعلیم مکمل کرنے کے بعداگال مرحلہ عملی طور پر زندگی کے کسی شعبے‬
‫میں اپنی صالحیتوں کو بروئے کا ر النا ہوتا ہے ورنہ حاصل شدہ تعلیم کار مصرف‬
‫ثابت نہیں ہوتی اور جملہ ذہنی صالحیتیں زنگ آلود ہو جاتی ہیں ۔تعلیم کا بروقت اور‬
‫برمحل استعمال ہی مالزمت کہالتا ہے ۔محمد کاظم نے بھی جب تعلیم سے فراغت پائی‬
‫تو مالزمت کے لئے تگ ودو شروع کر دی ‪،‬ان دنوں ملک کی سیاسی فضا بھی آئے‬
‫دن فسادات کی وجہ سے بہت پریشان کن صورتحال اختیار کر رہی تھی لیکن وہ پھر‬
‫بھی مصروف عمل رہا۔‬
‫’’‪۱۸۴۱‬ء میں انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد‬
‫محمد کاظم نے ڈیڑھ سال کا عرصہ الہور کی ایک‬
‫ریلوے ورکشاپ میں انجینئرنگ کی ڈگری کے حصول‬
‫کے لئے عملی تربیت میں گزارا اور ‪۱۸۴۱‬ء میں‬
‫انجینئرنگ کی ڈگری مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے‬
‫حاصل کی ۔‪۱۸۴۸‬ء میں ریاست بہاولپور کے محکمہ‬
‫انہار کے ایک ذیلی ادارے ورکشاپ ڈویژن میں بطور‬
‫سب ڈویژنل آفیسر تعینات ہوئے اور ‪۱۸۶۸‬ء میں جب‬
‫واپڈا کا قیام عمل میں آیا تو اسسٹنٹ ایگزیکٹو انجینئر‬
‫کے عہدے سے مالزمت کا آغاز کیا ۔یہاں تک کہ ترقی‬
‫کرتے کرتے جنرل منیجر کے عہدے پر پہنچ کر‬
‫‪۱۸۱۹‬ء میں ریٹائرڈ ہوئے‘‘۔(‪)۱۳‬‬

‫اپنی عمر کے ‪۳۱‬سال مالزمت کو دئیے ۔اس دوران جو عرصہ سب سے اہم‬


‫لگا اس کے بارے میں رقم طراز ہے ۔‬

‫’’واپڈا میں میری مالزمت کا سب سے اہم دور وہ تھا‬


‫جب میں دس سال کا عرصہ واپڈا کے مرکزی ادارے‬
‫سینٹرل کنٹریکٹ سیل)‪ (CCC‬کا چیف انجینئر تھا اور‬
‫اسی عرصے میں واپڈا کے متعدد بڑے پروجیکٹوں کی‬
‫تقویمی رپورٹیں تیار کیں‘‘۔(‪)۱۴‬‬

‫عموما ً خوشیاں ادھوری ہی رہ جاتی ہیں کیونکہ بسا اوقات دوران تکمیل یا‬
‫بعداز تکمیل کوئی ایسا حادثہ رونما ہو جاتا ہے جو انسان کو انتہائی دکھی کر جاتا ہے‬
‫اور اس کا اظہار لفظوں میں کرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ محمد کاظم بھی مالزمت ملنے‬
‫کے بعد کچھ ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہوا جب نئی نئی مالزمت ملی تھی کہ اس‬
‫کی والدہ زندگی کی جنگ لڑتے لڑتے ہار گئیں اور موت ہمیشہ کی طرح بازی لے‬
‫گئی ۔ اس حوالے سے بڑے بھائی محمد ہاشم شاہ بتاتے ہیں ۔‬
‫’’والدہ صاحبہ کی وفات سے ہم دونوں بھائیوں کو بہت‬
‫صدمہ ہوا ۔ہم نے اپنی والدہ کی طویل بیماری میں اُن کی‬
‫تیمار داری اور عالج میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہم‬
‫دونوں بھائیوں نے ان کے آپریشن کی خاطر اپنا اپنا‬
‫خون دیا ‪ ،‬الہور آپریشن ہوا ‪ ،‬کراچی میں عالج ہوا‪،‬‬
‫بہاولپور میں عالج ہوا ‪،‬لیکن وہ جانبر نہ ہو سکیں اور‬
‫‪۱۸۴۸‬ء ماہ ستمبر میں فوت ہو گئیں ‘‘۔(‪)۱۶‬‬

‫دوران مالزمت اپنے ماتحتوں کے ساتھ رویہ ہمدردانہ تھا اور وہ بے جا سختی‬
‫کا قائل نہیں تھا۔‬

‫کسی بھی شعبے میں مالزمت ملنے کے بعد ساری مالزمت ایک ہی جگہ یا‬
‫ایک شہر میں کرنا ممکن نہیں ہوتا ٰلہذا تبدیلی عمل میں آتی رہتی ہے ۔محمد کاظم بھی‬
‫دوران مالزمت مختلف شہروں میں تعینات رہا ۔‬

‫بسلسلہ مالزمت وہ مختلف شہروں میں رہا ۔ پہلے بہاولپور اور پھر بہاولنگر‪،‬‬
‫راجڑ ‪ ،‬جوہر آباداور الہور میں قیام رہا سب سے پہلے بہاولپور میں ‪۱۸۴۸‬ء سے‬
‫‪۱۸۶۶‬ء تک رہا یہاں اس کے دو دوست تھے ایک سیّد رحمت اللہ شاہ اور دوسرا نذیر‬
‫حسین غوری ۔ اول الذکر اس کا دوست ہونے کے ساتھ ساتھ پھوپھی زاد بھی تھا ۔یہ‬
‫عربی زبان کے لیکچرار تھا ۔مؤخرالذکر نذیر حسین غوری ایس ڈی او تھا ۔محمد کاظم‬
‫ان کے بارے میں یوں رقم طراز ہے ۔‬

‫’’ہم دونوں ایک ہی کمرے میں بیٹھتے تھے ‪ ،‬غوری‬


‫صاحب بہت باتیں کرتے تھے اور ان سے مجھے کافی‬
‫مفید معلومات ‪ ،‬زندگی اور لوگوں کے بارے میں حاصل‬
‫ہوئیں‘‘۔(‪)۱۱‬‬

‫محمد کاظم کا ایک بہت ہی قریبی دوست جس سے وجہ دوستی دونوں کی ایک‬
‫ہی محکمہ اور ایک ہی دفتر میں مالزمت تھی جو بعد میں انتہائی قربت میں بدل گئی‬
‫اس کی وجہ دونوں کی دلچسپی کا مشترکہ میدان ادب تھا ۔ یہ دوست محمد خالد اختر‬
‫تھا۔‬
‫اس کے حوالے سے محمد کاظم اپنے ایک مضمون میں لکھتا ہے ۔‬

‫’’کچھ ایک ہی محکمہ میں ہم کار ہونے کی وجہ سے‬


‫اور کچھ اس وجہ سے کہ ہم دونوں میں لکھنے اور‬
‫پڑھنے کی لگن تھی اورادب ہماری دلچسپی کا میدا ن‬
‫تھا ‪ ،‬ہمارا تعلق ایک ایسی گہری دوستی میں بدل گیا جو‬
‫‪۱۸۶۴‬ء سے شروع ہو کر ‪۱۰۰۱‬ء میں خالد کی وفات‬
‫تک پورے اڑتالیس برس ایک ہی نہج پر قائم رہی ۔الہور‬
‫میں ہم نے زندگی کے بارہ تیرہ سال اکٹھے گزارے ۔‬
‫خالد نے اسی اثناء میں مجھے انگریزی ادب سے‬
‫روشناس کرایا۔انگریزی زبان میں لکھنے والے اچھے‬
‫اور مشہور ادباء کے نام مجھے بتائے اور ان میں سے‬
‫بعض کی کتابیں بھی پڑھنے کے لئے دیں ۔اُن کے‬
‫مطالعے کے بعدمیں حیرت زدہ رہ گیا کہ تحریر تو یہ‬
‫ہوتی ہے ۔میں اب تک کیا پڑھتا رہا ہوں ‪ ،‬کہاں اپنا وقت‬
‫کھپاتا رہا ہوں ‘‘۔ (‪)۱۹‬‬

‫زندگی کا ایک خوبصورت بندھن جسے قید آزادی کے نا م سے بھی تعبیر کیا‬
‫جاتا ہے جو ہمارے معاشرتی اور اخالقی تحفظ کا ضامن اور ذہنی یکسوئی میں معاون‬
‫ثابت ہوتا ہے وہ ’شادی‘ ہے جو دوافراد کی دوئی کے ساتھ ساتھ دو خاندانوں کو اکائی‬
‫کی لڑی میں پروتا ہے ۔محمد کاظم بھی ایسے ہی خوشگوار رشتے میں منسلک ہوا ۔‬

‫’’محمد کاظم کا رشتہ ان کی والدہ نے خاندانی رسم و‬


‫رواج کے مطابق خود طے کیا ۔جس میں اس کی پسند‬
‫اور خواہش بھی شامل تھی ان کی نسبت ان کے سب‬
‫سے چھوٹے ماموں قاسم گیالنی کی بیٹی حفصہ تنویر‬
‫سے طے ہوئی ۔قاسم گیالنی بریگیڈیئر تھے اور بہت‬
‫زیادہ خوشحال اور مال دار انسان تھے ان کی دوبیٹیاں‬
‫تھیں بڑی بیٹی کی شادی سیّد محمد ہاشم شاہ سے اور‬
‫چھوٹی کی محمد کاظم سے فروری ‪6791‬ء میں ایک‬
‫ساتھ ہوئی ۔یہ دونوں بہنیں بہت خوبصورت تھیں‬
‫‘‘۔(‪)۱۱‬‬

‫اس زمانے میں عورتوں کی تعلیم کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی‬
‫تھی ۔ابتدائی چند جماعتوں کے بعد سلسلہ تعلیم موقوف کر دیا جاتا تھا ۔چونکہ محمد‬
‫کاظم سیّد خاندان سے تھا اس لئے اس گھرانے کی عورتوں کے لئے پردے کی پابندی‬
‫الزمی تھی اس دور میں مردوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی لیکن‬
‫عورتوں کے امورخانہ کے معامالت میں تعلیم و تربیت کی جاتی تھی تا کہ وہ گھر‬
‫دار ی کے معامالت کو بطریق احسن سرانجام دے سکیں ۔‬

‫محمد کاظم کی اہلیہ کی صورت حال بھی ایسی تھی ۔وہ زیادہ پڑھی لکھی نہیں‬
‫تھیں اور نہ اُنہیں مزید تعلیم حاصل کرنے کا کوئی شوق تھا لیکن گھریلو معامالت میں‬
‫وہ پوری طرح دلچسپی لیتی تھیں ۔ ُحسن صورت اور سیرت کی یکجائی ہر کسی میں‬
‫ممکن نہیں ہوتی لیکن خوش قسمتی سے وہ ان دونوں خوبیوں سے آراستہ تھیں ۔ابتداء‬
‫میں محمد کاظم کی خواہش تھی کہ وہ مزید پڑھیں لیکن پھر رجحان دیکھ کر انہوں‬
‫نے ارادہ تبدیل کر دیا اور ایک خوشگوار گھریلو زندگی گزاری ۔‬

‫’’میں نے اُنہیں پڑھانے کی کوشش کی لیکن ان کا ذہن‬


‫پڑھائی واال نہ تھا انہیں میرے لکھنے پر کوئی اعتراض‬
‫نہ ہوتا تھا ہم دونوں نے ایک طرح سے مفاہمت کا رویہ‬
‫اپنا لیا اور پر امن زندگی گزاری دی ‘‘۔(‪)۱۸‬‬

‫محمد کاظم کی یہ خواہش ایک طرح سے حسرت بن گئی اس لیے اس نے اس‬


‫موضوع کو زیادہ طوالت نہ دی اور ماحول کو خوش گوار رکھنے کے لیے انہیں تمام‬
‫گھریلو معامالت میں پورا اختیار سونپ دیا تھا اور اپنی پسند کو اُن کی پسند کے‬
‫حتی کہ وہ محمد کاظم کے کپڑے تک خود خریدتیں اور سلوا کر‬
‫مطابق ڈھال لیا تھا ٰ‬
‫التیں ۔انہوں نے محمد کاظم کو تمام تر ذمہ داریوں سے آزاد کر دیا تھا تا کہ وہ گھر‬
‫آکر یکسوئی سے اپنے ادبی کام کر سکے ۔ دونوں ایک دوسرے پر بے حد‬
‫اعتمادکرتے تھے ۔ محمد کاظم جب ایک سال کے لئے مغربی جرمنی گیا تو باقاعدگی‬
‫سے گھر خط لکھتا تھا۔‬

‫اہلیہ کی وفات کو اس نے اپنے لئے بہت بڑا سانحہ قرار دیا وہ فروری ‪۱۸۸۱‬ء‬
‫گئیں‬ ‫دے‬ ‫مفارقت‬ ‫داغ‬ ‫میں‬
‫اس سانحے کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتا ہے ۔‬

‫’’اس سانحے نے مجھے کافی ہال کر رکھ دیا ۔میں‬


‫سمجھتا ہوں کہ ان کے جانے کے بعدمیں اب وہ نہیں رہا‬
‫جو پہلے تھا ان کے ہوتے ہوئے میں کبھی کبھی رات‬
‫کو بارہ ایک بجے گھر واپس آتاتو وہ جاگ رہی ہوتیں‬
‫تھی اور مجھے یقین تھا کہ وہ میری بخیریت واپسی کی‬
‫دعا کر رہی ہوں گی لیکن اب وہ نہیں ہیں تو کچھ غیر‬
‫محفوظ محسوس کرنے لگا ہوں ‪ ،‬اب میں رات کو نو‬
‫دس بجے کے بعد گھر سے باہر نہیں رہتا‘‘(‪)۳۰‬‬

‫دونوں کا ‪۴۱‬سال پرانا ساتھ تھا ٰلہذا یہ صدمہ بہت گہرا تھا اور اس کے اثرات‬
‫شخصیت پر مرتب ہونے ہی تھے۔‬

‫’’محمد کاظم کے ہاں چار بچے پیدا ہوئے ‪ ،‬تین بیٹے‬


‫اور ایک بیٹی ۔ان میں سے منجھال بیٹا شعیب محمود‬
‫‪۱۸۱۴‬ء میں ساڑھے سات سال کی عمر میں فوت ہو گیا‬
‫اور بیٹی آٹھ دن کی ہو کر یرقان کا شکار ہو کر کر چل‬
‫بسی ۔باقی دو بیٹے ہیں ۔بیٹے اور بیٹی کی وفات کا دکھ‬
‫انہیں ساری عمر رہا ہے ۔اس بیٹے سے انہیں بہت‬
‫محبت تھی وہ بہت خوبصورت اور پڑھائی میں الئق‬
‫تھا۔وہ طویل عرصہ تک اس غم کے حصار سے باہر نہ‬
‫نکل سکا ۔اس المناک حادثے پر اس کے دوستوں خاص‬
‫طور پر محمد خالد اختر نے اسے بہت حوصلہ دیا۔‬
‫اس کا سب سے بڑا بیٹا طیب محمود ‪۳۰‬اکتوبر ‪۱۸۶۱‬ء‬
‫کو پیدا ہوا ۔بہاولپور ہی میں تعلیم حاصل کی ۔ایف ایس‬
‫اعلی نمبروں سے پاس‬
‫ٰ‬ ‫سی صادق پبلک سکول سے بہت‬
‫کی پھر الہور میں میرٹ کی بنیاد پر انجینئرنگ‬
‫یونیورسٹی میں داخلہ لیا ابھی ایک سال ہی پڑھا تھا کہ‬
‫امریکہ یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا اور امریکہ چال‬
‫گیا۔وہاں کمپیوٹر سائنس میں بی ایس سی کا امتحان پاس‬
‫کیا ۔اس کے کچھ سال بعد ایم ایس کیا اور شادی ماں باپ‬
‫کی پسند کے مطابق خاندان سے باہر ہوئی ۔چھوٹا بیٹا‬
‫ریحان محمود ہے جو بڑے بھائی سے د س سال چھوٹا‬
‫ہے ۔بہاولپور میں تعلیم حاصل کی ۔اس کے بعد ایچی سن‬
‫کالج میں داخلہ لے لیا۔یہاں ابھی بی اے میں تھے کہ‬
‫امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں داخلہ ملنے پر باہر‬
‫چلے گئے ۔شادی اس کی پسند اور والدین کی رضا مندی‬
‫سے ہوئی ۔بیگم ڈاکٹر ہے ۔دونوں بیٹے صاحب اوالد ہیں‬
‫۔‘‘(‪)۳۱‬‬

‫اس کے دونوں بیٹے گزشتہ کئی سالوں سے امریکی ریاست کیلیفورنیا میں‬
‫مقیم ہیں لیکن اس کے باوجود وہ والد سے بہت محبت کرتے ہیں ۔‬

‫بڑا بیٹا طیب محمود اپنے والد کے حوالہ سے بتاتا ہے‬

‫’’ہمارے والد دونوں بھائیوں سے بہت محبت کرتے ہیں‬


‫۔ہماری تعلیم میں اُن کا بڑا ہاتھ ہے ۔یہ انہوں نے ہی‬
‫فیصلہ کیا تھا کہ ہم کہاں اور کس سکول میں پڑھیں گے‬
‫اعلی تعلیم کے لئے باہربھجو انے میں‬
‫ٰ‬ ‫‪ ،‬ہم دونوں کو‬
‫بھی ان کی مرضی شامل تھی اس کے لئے جتنا ہو سکا‬
‫انہوں نے کیا ‘‘۔ (‪)۳۱‬‬

‫محمد کاظم کے بڑے بھائی محمد ہاشم تو جماعت اسالمی میں باقاعدہ طور پر‬
‫شامل ہو چکے تھے۔اس وجہ سے انہوں نے سرکاری مالزمت سے اجتناب کیا ۔کچھ‬
‫عر صہ تجارت کے بعد زراعت کا پیشہ اختیار کیا ۔انہی کے زیر اثر محمد کاظم بھی‬
‫ذہنی طور پر جماعت اسالمی سے متاثر ہو چکا تھا ۔چونکہ وہ سرکاری مالزم تھا اس‬
‫لئے باقاعدہ رکنیت اختیا ر نہ کی لیکن وہ موالنا مودودی کی شخصیت سے بہت متاثر‬
‫تھا اور ان سے ایک خاص محبت اور عقیدت تھی اسی وجہ سے عربی زبان سیکھی‬
‫اور موالنا مودودی کوعرب دنیا میں متعارف کروانے کے لئے ان کی کتب کے عربی‬
‫میں تراجم کئے ۔ اس طرح عربی سیکھنے کا جذبہ بڑھتا گیا۔‬

‫عربی تعلیم کے سلسلہ میں کچھ عرصہ بعدان کا رابطہ جماعت اسالمی کے‬
‫عربی ترجمہ شعبہ دارالعروبہ سے ہو گیا اور۔ اس کے سربراہ مسعود عالم ندوی سے‬
‫عربی میں سلسلہ خط وکتابت شروع کر دیا اس طرح عربی میں استعداد بڑھتی گئی‬
‫۔مسعود عالم ندوی عربی کے عالم تھے اور محمد کاظم انہیں اپنے استاد کا درجہ دیتا‬
‫تھا اور ا ن سے کسب فیض کیا۔‬

‫’’میں نے ایک دن زندگی کی ایک اہم اور فیصلہ کن‬


‫ساعت میں بیٹھے بٹھائے اپنے آپ یہ عہد کیا تھا کہ آئندہ‬
‫پوری یکسوئی کے ساتھ مذہب کی اس روایتی راہ پر‬
‫چلوں گا جس پر ہمارے کچھ دینی پیشوا ہمیں چالنا‬
‫چاہتے ہیں ‘‘(‪)۳۳‬‬

‫‪۱۸۴۴‬ء کے آخر میں جماعت کا عربی شعبہ ’’دارالعروبہ الدعوۃ االسالمیہ‬


‫‘‘باضابطہ طور پر قائم ہوا تھا اس کے تحت مسعود عالم جماعت کے لٹریچر کو‬
‫عربی میں منتقل کرتے اور جماعت کو دنیائے عرب میں متعارف کرانے کے لئے‬
‫انفرادی رابطوں کے ساتھ عربی اخبارات میں مضمون لکھتے ۔محمدکاظم کا تعلق ان‬
‫سے سات برس رہا ان کی وفات کے بعد ان پر ایک مضمو ن لکھا ’’االستاد مسعود‬
‫الندوی ‘‘ایک تعلق کی یاد ‘‘اس مضمون میں ہر جگہ انہوں نے استاد مسعود ندوی‬
‫لکھا ہے ۔‬

‫’’مجھے اگرچہ روایتی معنوں میں ان کی باقاعدہ‬


‫شاگردی کرنے کا شرف حاصل نہ ہو سکا تھا لیکن وہ‬
‫میرے لئے استاد اور ُم ّربی سے بھی بڑھ کر اگرکوئی‬
‫چیز ہو سکتی ہے تو وہ تھے‘‘۔ (‪)۳۴‬‬

‫اپنے بھائی کی وجہ سے محمد کاظم کا تعلق مسعود عالم ندوی سے بنا۔ وہ‬
‫بھائی کے دوست تھے اور ان کے ذریعے محمد کاظم کا غائبانہ تعارف ہوا ۔‬

‫محمد کاظم بلند پایہ محقق و نقاد ‪ ،‬خاکہ نگار اور مترجم تھا‬

‫اس کی ادبی شخصیت کی بے شمار جہتیں ہیں ۔ اس نے زندگی میں جو کچھ‬


‫حاصل کیا اس میں جہد مسلسل اور طویل ریاضت فکر شامل ہے ۔ اپنے ادبی‬
‫کارناموں کو منظر عام پر النے کے لئے اس نے کبھی عجلت کا مظاہرہ نہیں کیا‬
‫۔اظہار کے معاملہ میں وہ ابہام کا نہیں ابالغ کے قائل تھا ۔وہ ہمیشہ نمودونمائش سے‬
‫گریزاں رہا اور اپنے شوق کی تکمیل کے لئے ادب کے مختلف پہلوؤں پر خامہ‬
‫فرسائی کرتا رہا ۔‬

‫تحقیق کی پرخار وادی میں کسی سندی ضرورت اور مالی منفعت کے بغیر‬
‫اُترنا معددوے چندادیبوں کا شیوہ ہے ۔جب شعبہ حیات کے ڈانڈے بھی ادب سے متصل‬
‫نہ ہوں تو پھر بھی تحقیقی شاہکار تخلیق کر کے قارئین کو گذشتہ صدیوں کے ادب‬
‫اور تہذیب سے روشناس کرانا جو اُن کے لئے مانوس ہونے کے باوجود اجنبی ہوتی‬
‫جا رہی تھی بالشبہ ایسی گراں مایہ کاوش ہے جو عبادت کا درجہ رکھتی ہے اور‬
‫جس کا صلہ یہی ہے کہ ان تحریروں کی موضوعیت کو پرکھ کر اس عہد کے‬
‫تقاضوں کو سمجھا جائے ۔محمد کاظم کی تحقیقی کاوشیں اسی بات کی متقاضی ہیں کہ‬
‫انہیں سمجھا جائے اور مزید پیش رفت کے لئے کوشش کی جائے ۔‬
‫محمد کاظم نے ما قبل اور مابعد اسالم شعراء کے حاالت زندگی اور نمونہ کالم‬
‫کا جائزہ فکری گہرائیوں کے ساتھ لیا ہے اور بغیر لگی لپٹی انہیں سادہ اسلوب اور دل‬
‫نشین انداز میں پیش کیا ہے ۔‬

‫بطور محقق ’’عربی ادب میں مطالعے اور ’’عربی ادب کی تاریخ ‘‘ اس کے‬
‫تحقیقی جنون کا شاہکار ہیں کیونکہ اہل علم کا جنون عام مجنونوں سے مختلف ہوتا‬
‫االول ان تحقیقی مضامین کا مجموعہ ہے جو عربی ادب کے چیدہ چیدہ‬
‫ہے ۔مذکورہ ّ‬
‫حصوں کا احاطہ کرتا ہے اور مذکوراآلخر میں عربی ادب کی تاریخ ‪ ،‬زمانہ جاہلیت‬
‫سے موجودہ دور تک سموئی گئی ہے ۔یہ دونوں کتب نثرنگاری کا شاہکار ہیں ۔ اس‬
‫میں لفظوں کی ایسی ماالئیں پروئی ہیں کہ کوئی لفظ بھی اپنی جگہ سے د ستبردار‬
‫نہیں ہو سکتا ۔‬

‫اصناف ادب میں ترجمہ نگاری کی اہمیت سے انکار ناممکن ہے کیونکہ ہر‬
‫زبان کا ادب اپنے عہد کا نباض اور ترجمان ہوتا ہے کیونکہ اس میں اس عہد کی‬
‫تہذیب سانس لیتی دکھائی دیتی ہے اس لئے وہ کسی بھی تہذیب کے لیے اچھے‬
‫اورمثبت پہلو ضرور رکھتا ہے کسی بھی معاشرے کی تہذیب و ثقافت اور ادب سے‬
‫آگاہی اسی صورت میں ممکن ہے جب اس ادب کا مطالعہ کیا جائے اوریہ اسی‬
‫صورت میں ممکن ہے کہ اس زبان کی سوجھ بوجھ ہو لیکن یہ کام کوئی فاضل ادیب‬
‫ہی کر سکتا ہے کہ وہ سوجھ بوجھ حاصل کر کے زبان سیکھے اور بذریعہ ترجمہ‬
‫اس ادب کو اپنی زبان میں انتہائی دیانتداری سے منتقل کرے کیونکہ ایک زبان کی‬
‫معنوی لطافتوں اور ادبی محاسن کو دوسری زبان کے ادبی اور لسانی پیرایوں میں‬
‫منتقل کرنا بظاہر آسان نظر آنے واال کام حقیقت میں زیادہ مشکل ہے کیونکہ یہ‬
‫سرحدوں کوباہم مالتا ہے ۔‬

‫ترجمے کی ضرورت و اہمیت کے حوالے سے جیالنی کامران کہتے ہیں ۔‬

‫’’ترجمے کی ضرورت تہذیبی نشوونما کے لئے بھی‬


‫الزمی ہے کیونکہ تہذیبیں ایک عرصے کے بعد اپنے‬
‫سر چشموں کو خشک کر دیتی ہیں اور اپنے آپ میں‬
‫سے پھر کوئی نئی شے پیدا نہیں کر سکتیں اس طرح وہ‬
‫ذہنی ٰ‬
‫علیحدگی اور یکطرفہ تہذیبی تعصب کا شکار ہو‬
‫جاتی ہیں ۔اس بیماری کو ترجمے کا عمل دور کرتا ہے‬
‫اور قومیں اور تہذیبیں ‪ ،‬مسافت اور جغرافیے کی دقتوں‬
‫کے باوجود ایک دوسرے سے آشنا ہوتی ہیں اور‬
‫انسانوں کے گروہ مختلف گروہوں کو پہچاننے لگتے‬
‫ہیں اور انسانی برادری کا چہرہ نظر آنے لگتا ہے جس‬
‫کی جانب ہمیشہ سے سفرکر رہا ہے ۔کئی ایک دوسری‬
‫سرگرمیوں کی طرح ترجمے کا عمل بھی انسان کو‬
‫انسان کے قریب تر التا ہے اور ذہن کی سرحدیں‬
‫پھیالتے ہوئے کہتا ہے زبانیں مختلف سہی ‪ ،‬ملک دور‬
‫دور سہی مگر انسان ایک غیر منقسم صداقت ہے‘‘۔‬
‫(‪)۳۶‬‬

‫محمد کاظم کی ادبی شخصیت کی پرتیں تہہ در تہہ کھلتی ہیں اور قارئین کے‬
‫گرد ایک حصار باندھ لیتی ہیں جن کے سحر سے نکلنا مشکل ہو جاتا ہے بلکہ اس کی‬
‫فکر کے پہلو بہ پہلو چل کر ہی اس کی حقیقت کو سمجھا جا سکتا ہے جو وہ ہمیں‬
‫سمجھانا چاہتا ہے۔ وہ اس صورتحال کو بھانپ چکا تھا کہ ہم دوسری اقوام کی تہذیب و‬
‫ثقافت سے آہستہ آہستہ دور ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ ان کی زبان ہمارے لئے اجنبی‬
‫تھی اس لئے اس عہد اور اس کے تقاضوں کو سمجھنے کے لئے اس نے تراجم‬
‫جیسے کوہ گراں کو سر کرنے کا فیصلہ کیا اور ترجمہ نگاری کا آغاز کر دیا ۔محمد‬
‫کاظم کے تراجم اسلوب بیان کی سادگی اور لفظوں کی بُنت کاری میں اپنی مثال آپ‬
‫ہیں ۔اس نے اس مقصد کیلئے جن کتب اور شخصیات کا انتخاب کیا ہے وہ عہد حاضر‬
‫کے تقاضوں کو پورا کرتی ہیں اور آنے والی نسلوں کے لئے تحقیقی و ادبی جستجو‬
‫کا پیش خیمہ ثابت ہوں گی ۔ فن ترجمہ نگاری کے اصولوں کے اندررہتے ہوئے تراجم‬
‫اس انداز سے کئے ہیں کہ وہ طبع زاد معلوم ہوتے ہیں ۔‬
‫’’اسالم اور جدیدیت ‘‘‪’’ ،‬جنید بغداد‘‘مزید برآں موالنا مودودی کی کتب کے‬
‫عربی میں تراجم کر کے الزوال مثال قائم کر دی ۔ایسی رواں اور شستہ عربی کہ جس‬
‫نے اہل عرب کو متحیر کر دیا ۔یہ اس کی تحقیقی لگن کا ثبوت ہے کہ اس نے ان تھک‬
‫محنت کی اور عالم اسالم کی ہم آہنگی کے لئے بھرپورسعی کی ۔یہ ذمہ داری اس نے‬
‫بغیر کسی دباؤ کے احسن انداز میں نبھائی ۔ان تراجم کی بدولت ایک خاص لسانی ‪،‬‬
‫جغرافیائی اور تہذیبی شعور بیدار ہوتا ہے اور اہل عرب پر اس کی عربی دانی کی‬
‫۔‬ ‫گئی‬ ‫بیٹھ‬ ‫دھاک‬
‫محبت اور عقیدت میں فرق ہے ۔ محبت میں انسان خوبیاں اورخامیوں دونوں پر نظر‬
‫رکھتا ہے یہ الگ بات ہے کہ وہ دانستہ خامیوں سے صرف نظر کر لے لیکن عقیدت‬
‫میں دائیں بائیں دیکھنے کی اجازت نہیں ہو تی صرف نقش قدم پر چلتے ہیں اور وہ‬
‫بھی ہر طرح کی خامیوں پر آنکھیں بند کر کے اور سر جھکا کر چلتے ہیں ۔‬

‫خاکہ نگار بھی اُنہی شخصیات کو احاطہ تحریر میں ال تا ہے جن سے وہ کوئی‬


‫تعلق محسوس کرتا ہے لیکن اس کے لیے اُسے غیر جانب دار رہنا ہوتا ہے ۔زیر‬
‫موضوع شخصیت سے محبت میں عقیدت مندی میں توازن برقرار رکھنا ضروری‬
‫ہے۔محمد کاظم نے خاکہ نگا ری کے دوران ان دونوں پہلوؤں سے انصاف کیا ہے ۔‬

‫خاکہ نگاری ایسی صنف ہے جس کی صالحیت ہر شخص میں فطری طور پر‬
‫ہوتی ہے لیکن اسے لفظوں میں ڈھالنا ہر انسان کے بس کی بات نہیں کیونکہ لفظ خود‬
‫کو منواتے ہیں اور اس کے لئے ایک خاص ذہنی اُپج درکار ہوتی ہے ۔خاکہ نگار‬
‫شخصیت کے چند خاص پہلوؤں کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ سوانح نگاری کے بغیر‬
‫۔‬ ‫ہے‬ ‫جاتا‬ ‫آ‬ ‫سامنے‬ ‫عکس‬ ‫کا‬ ‫پہلوؤں‬ ‫جملہ‬ ‫کے‬ ‫شخصیت‬
‫بطورخاکہ نگار محمد کاظم نے اپنے قریبی دوستوں کو موضوع بنایا ہے جن میں اہل‬
‫قلم شخصیات بھی شامل ہیں ۔ اس نے روایتی خاکہ نگاری سے قطع نظر اپنے‬
‫مخصوص اور بے الگ انداز میں ان افراد کی مجموعی شخصیت کا بھر پور تاثر‬
‫دینے کی کوشش کی ہے ۔کیونکہ ذاتی یادیں بیانیے سے مختلف ہوتی ہیں اور ذاتی‬
‫حوالہ انہیں بے حد دلچسپ بنا دیتا ہے ۔محمد کاظم نے اپنی یادوں سے انہیں بازیافت‬
‫پرخلوص انداز میں تنقید کی ہے جس سے قارئین کے علم میں‬
‫کیا ہے اور ان پر ُ‬
‫وسعت پیدا ہوئی ہے ۔خاکہ نگاری کیساتھ ساتھ حلیہ نگاری اس اندا زسے کی ہے کہ‬
‫یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم براہ راست ان لوگوں کو دیکھ رہے ہیں اور اسی عہد‬
‫میں جی رہے ہیں ۔محمد کاظم طبعاًصلح جو انسان تھا اس لئے اس نے منفی پہلوؤں پر‬
‫کم اور مثبت پہلوؤں کوزیادہ موضوع بنایا ہے ۔یہ انداز معروضیت سے تھوڑا دور ہو‬
‫جاتا ہے لیکن اسلوب بیان کی سادگی اور چاشنی آخر تک برقرار رہتی ہے۔ جن‬
‫شخصیات پر خاکہ نگاری کی ان میں مختار مفتی ‪ ،‬علی عباس جالل پوری ‪ ،‬محمد‬
‫خالد اختر ‪ ،‬احمد ندیم قاسمی ‪ ،‬اختر حسین جعفری شامل ہیں ۔ جو اسلوب اپنایا اس سے‬
‫متعلقہ فرد سے اس کے تعلق کی نوعیت واضح ہو جاتی ہے۔‬

‫ت نقید ہماری حیات کا الزمی جزوہے جو اس شاہراہ میں قدم قدم پر ہماری‬
‫رہنمائی کرتا ہے اس کے بغیر کوئی منزل سر نہیں ہو سکتی ۔ادب میں تخلیق اور‬
‫تحقیق ایک ہی زاویے کے دو ُرخ ہیں ۔دونوں ہی تنقید کے بغیر سادہ کاغذ کی مانند‬
‫ہیں۔تنقید کے بغیر کسی بھی تخلیق کا وجود میں آنا ناممکن ہے لیکن اس کے لئے جو‬
‫بات زیادہ اہم ہے وہ تنقیدی شعور ہے کیونکہ اس کی عدم موجودگی سے کوئی‬
‫شاہکار وجود میں نہیں آتا ۔تخلیقی عمل میں یہ وجدان کی حیثیت رکھتا ہے ۔کوئی بھی‬
‫ادیب یا فنکارفن پارے کی تخلیق کے دوران کانٹ چھانٹ اس لئے کرتا ہے کہ اس کا‬
‫تنق یدی شعور ا سے ترک و انتخاب کی ترغیب دیتا ہے ۔کوئی تخلیقی ادیب اگر نقاد‬
‫نہیں ہے تو یہ اتنا اہم نہیں لیکن اس میں تنقیدی بصیر ت ضروری ہے ۔کسی بھی ادیب‬
‫کے ادبی مقام کا تعین بھی اسی شعور کی بناء پر کیا جاتا ہے کیونکہ بوقت تخلیق اس‬
‫صالحیت کی کمی بیشی اُسے چھوٹا یا بڑا ادیب بناتی ہے ۔‬

‫محمد کاظم کی نپی تُلی ادبی تحریریں اس کے تنقیدی شعور کی ضامن ہیں‬
‫مزید برآں مختلف کتب پر اس کے تبصرے اور جائزے فنون میں شائع ہوتے تھے جو‬
‫اس کی ناقدانہ بصیرت کا ثبوت ہیں اور اسے ایک معروضی نقاد ثابت کرتے ہیں ۔ اس‬
‫نے بالتعصب مختلف شخصیات پر مضمون نگاری کی ۔اس کی مثال ’’اخوان‬
‫۔‬ ‫ہیں‬ ‫مضامین‬ ‫دیگر‬ ‫جبران‘‘اور‬ ‫خلیل‬ ‫’’جبران‬ ‫الصفاء‘‘‪،‬‬
‫سفرنامہ نگاری کی صنف ادب میں قدیم روایات کی حامل ہے دوران سفرپیش آنے‬
‫والے حاالت و واقعات اور تاثرات کومخصوص انداز میں قلمبند کرنا سفر نامہ کہالتا‬
‫ہے ۔اسے آپ بیتی کی ایک شکل کہا جا سکتا ہے ۔اگر سفر نامے میں اسلوب بیان اور‬
‫معیار کاخیال رکھا جائے تو یہ کسی ناول اور افسانے سے کم نہیں ۔ اس کے لئے سفر‬
‫نامہ نگار کا مشاہدہ ‪ ،‬مطالعہ اور اسلوب بنیادی اہمیت کے حامل ہیں ۔سفرسیاحت کے‬
‫طور پر کیا جائے اور قاری کو شریک سفر بنایاجائے اور ذہن ہر قسم کے تعصب‬
‫سے باالتر ہونا چاہئے ۔زمانہ قدیم کے سفر اور موجودہ دور کے ذرائع سفر میں بہت‬
‫فرق ہے ۔اس لئے ضروری ہے کہ مبالغہ آرائی سے اجتناب کرتے ہوئے ایمانداری‬
‫سے تمام واقعات و تاثرات سامنے الئے اور جان بوجھ کر عالمانہ انداز اختیار نہ‬
‫کرے ۔کیونکہ اسلوب کی سادگی ہی لفظوں میں چاشنی پیدا کرتی ہے ۔‬

‫محمد کاظم دوران مالزمت ایک سال کے تربیتی پروگرام کے لئے مغربی‬
‫جرمنی گیا ۔لیکن یہ سفر نامہ صرف دو ماہ کا احاطہ کرتا ہے جو اس نے جرمن زبان‬
‫سیکھنے کے لئے ایک گاؤں آخن میوہلے میں گزارے ۔ باقی دس ماہ کی سرگزشت‬
‫ا بھی اس نے کہنی تھی لیکن کاروبار حیات نے مہلت نہ دی اور پیغام اجل آپہنچا ۔اس‬
‫سفر نامے میں اس نے کرداروں کو مرکزی حیثیت دی ہے اور ایک منفرد اسلوب‬
‫اختیار کیا ہے ۔‬

‫اس حوالے سے وہ کہتا ہے ۔‬

‫’’ان حاالت کی وجہ سے میری اس سر گذشت میں‬


‫انسانوں کے تذکرے کو مرکزی حیثیت حاصل ہے‪ ،‬اس‬
‫میں میں نے کچھ خاص کرداروں کا تفصیل سے جائزہ‬
‫لیا ہے اور یہ جائزہ چونکہ میرے ذاتی نقطہ نظر سے‬
‫ہے اس لئے ایسا کرتے ہوئے میں نے خود اپنے آپ کو‬
‫سب سے زیادہ بے نقاب کیا ہے ۔جتنا کچھ بھی دیکھا‬
‫اسے مناسب جزئیات کے ساتھ اس سفرنامے کے کینوس‬
‫پر اس طرح پیش کیا ہے کہ جرمن تہذیب و ثقافت کے‬
‫کئی ایک پہلو روشنی میں آجاتے ہیں‘‘۔(‪)۳۱‬‬
‫یہ سفرنامہ اسلوب بیان کی سادگی کے ساتھ ساتھ جھوٹ اور تصنّع سے پاک‬
‫ہے ۔‬

‫محمد کاظم بلحا ظ مالزمت ایک ایسے پیشے سے منسلک تھے جس کا ادب‬
‫سے کوئی ربط نہ تھا لیکن اس کے باوجود وہ اپنے ذوق کی آبیاری کرتے رہے اور‬
‫جس صنف کے لئے بھی لکھا منفرداور اچھوتے انداز میں ایک تاثر قلمبند کر کے‬
‫قاری کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ اس نے اپنے معموالت حیات بھی اس کے مطابق‬
‫ترتیب دے لئے تھے ۔روز مرہ زندگی میں وہ سنجیدہ رہنے واال کم گو انسان تھا لیکن‬
‫اس کی شوخ طبعی اس کے سفرنامے ’’مغربی جرمنی میں ایک برس ‘‘میں لفظوں‬
‫کی ردا اوڑھے سامنے آتی ہے کیونکہ وہ خشک طبیعت کا انسان نہیں تھا بلکہ دوران‬
‫مالزمت وہ ادبی لحاظ سے زیادہ متحرک تھا ۔‬

‫مکتوب نگاری ابتدائے آفرینش سے مختلف ادباء کا خاصہ رہا ہے ۔ انسان کی‬
‫شخصیت ایک ایسا گورکھ دھندہ ہے جس کو سمجھنا بہت مشکل ہے ۔ شخصیت کی‬
‫داخلی کیفیات تہہ در تہہ پرتوں میں چھپی ہوئی ہیں جنہیں بے نقاب کرنا کسی دوسرے‬
‫انسان کے بس کی بات نہیں ہے یہ تو خود مکتوب نگار کی ذات ہے جو کسی خاص‬
‫کیفیت کے زیر اثر اپنی ذات کے راز کھول دیتی ہے اور مکتوب الیہ کے ساتھ ساتھ‬
‫عام قاری کو بھی جہان حیرت کی سیرکرا دیتی ہے ۔مکتوب نگار کے جذبات و‬
‫احساسات لفظ بن کر سامنے اُبھرتے ہیں اور مکتوب الیہ کے ساتھ اس کے دلی جذبات‬
‫کو ظاہر کرتے ہیں ۔‬

‫ہر نارمل انسان کی طرح محمد کاظم کی شخصیت میں یہ عنصر شامل تھا کہ‬
‫زیادہ سے زیادہ لو گ انہیں ادبی تحریر وں کی وجہ سے پہچانیں ۔ اس مقصد کو پانے‬
‫کے لئے وہ قصدا ً ایسے خطوط تحریر کرتا تا کہ مدیر فنون احمد ندیم قاسمی انہیں‬
‫اپنے رسالے میں شائع کریں جو ادبی دنیا میں اس کا حوالہ بن سکیں ۔‬

‫اس حوالہ سے وہ خود بتاتا ہے ۔‬


‫’’میرے مغربی جرمنی کے قیام کے دوران میں ندیم نے‬
‫مجھے آٹھ خط لکھے جو عموما ً طویل ہوتے تھے ۔ان‬
‫خطوں میں عالوہ ذاتی اور نجی باتوں کے ندیم مجھے‬
‫پاکستان کے اس وقت کے سیاسی اور ادبی حاالت کے‬
‫بارے میں تفصیل سے لکھتے تھے ۔اُدھر سے میں جو‬
‫خط ندیم کو لکھتا تھا وہ بہت بنا سنوار کے لکھتا تھا کہ‬
‫ا س کام کے لئے میرے پاس کافی وقت ہوتا تھا ۔میں‬
‫دراصل اندر سے یہ چاہتا تھا کہ میرے خط ندیم صاحب‬
‫کو اتنے پسند آئیں کہ وہ انہیں ’’فنون‘‘ میں چھاپ دیا‬
‫کریں۔ میرے یہ خط انہیں پسند تو بہت تھے لیکن انہوں‬
‫نے ان کو ’’فنون‘‘میں دے کر میری یہ خواہش پوری‬
‫نہ کی ‘‘۔(‪)۳۹‬‬

‫د راصل احمد ندیم قاسمی اپنی ذات میں انجمن تھے ۔وہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ‬
‫خط کوئی اور پڑھے اور ان کے اندرونی معامالت سے باخبر ہو ۔اس لئے انہوں نے‬
‫یہ خطوط شائع نہیں کئے ۔وہ خطوط کو ادب کی ایک صنف سمجھتے تھے ۔‬
‫اس حوالے سے وہ کہتے ہیں ۔‬

‫’’چنانچہ گھر آکر خط پڑھا اور سوچتا رہا کہ اگر یہ‬


‫خط ہے تو فن کیا ہوتا ہے ۔کاش میں یہ خط ’’فنون‘‘‬
‫میں درج کر سکتا مگر نہیں کر سکتا کہ اس میں بعض‬
‫باتیں ایسی ہیں جو فنون سے آگے نہیں جا سکتیں‬
‫‘‘۔(‪)۳۱‬‬

‫محمد کاظم کے زیادہ خطوط احمد ندیم قاسمی اور محمد خالد اختر کے نام تھے‬
‫اس کے عالوہ مغربی جرمنی میں قیام کے دوران انہوں نے اپنی بیگم کے نام خطوط‬
‫لکھے جس کا سلسلہ اس کی مراجعت وطن تک رہا۔چونکہ وہ جامع الحیثیت شخص‬
‫تھا اس لئے اس نے اپنی ہر حیثیت کو منوایا ۔ اس کی ادبی تحریروں اور بعض خطوط‬
‫میں مماثلت ہے اور وہ اس لئے ہے کہ کچھ خطوط وہ شعوری طور پر تنقیدی‬
‫بصیرت کے ساتھ لکھتا تھا ۔ ورنہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کچھ ادباء کی‬
‫شخصیت خطوط کے آئینے میں ان کی تحریروں کے مقابلے میں مختلف ہوتی ہے ۔‬
‫اس میں ادبی چاشنی مفقود ہوتی ہے۔‬

‫محمد کاظم کے عربی زبان سے لگاؤ نے مسعود عالم ندوی کو بھی حد درجہ‬
‫متاثر کیا۔‬

‫محمد ہاشم کے مطابق‪:‬‬

‫’’مسعود عالم نے کہا کہ آپ اس سے کہیں کہ مجھے‬


‫عربی میں خط لکھے ۔میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ آپ‬
‫کے بھائی میں کتنی صالحیت ہے اور عربی زبان میں‬
‫کس سطح پر ہیں تاکہ میں اس کے مطابق ان کو آگے‬
‫چالؤں ۔کچھ عرصہ بعد جب جماعت اسالمی کے‬
‫اجتماع پٹنہ کے لئے جارہے تھے تو موالنا مسعود عالم‬
‫ندوی صاحب بھی میرے گروپ میں شامل تھے انہوں‬
‫نے بہت خوش ہو کر مجھ سے کہا کہ آپ کے بھائی‬
‫کاظم صاحب کا عربی میں خط میرے پاس آیا ہے اور‬
‫کمال ہے کہ بغیر استاد کی اصالح کے بالکل صحیح‬
‫عربی میں لکھا ہے آپ کے بھائی میں عربی زبان و‬
‫ادب کی بہت صالحیت ہے آپ فکر نہ کریں اب ہمارا‬
‫براہ راست رابطہ رہے گا ‘‘۔(‪)۳۸‬‬

‫اس کے بعد محمد کاظم کے موالنا مودودی سے براہ راست علمی و ادبی‬
‫تعلقات ہوگئے اورا نہوں نے عربی میں ترقی کرنا شروع کی ۔مسعود عالم سے اصالح‬
‫کا سلسلہ کچھ عرصہ رہا ۔آخر ‪۱۸۶۱‬ء میں انہیں دارالعروبہ سے موالنا مودودی کے‬
‫پمفلٹ ’’اسالم کا اخالقی نقطہ نظر ‘‘کا عربی میں ترجمہ کرنے کے لیے کہا گیا جو‬
‫بہاولپور میں جامعہ عباسیہ کے پرنسپل محمد ناظم ندوی کی زیر نگرانی کیا گیا ۔محمد‬
‫کاظم نے جب یہ ترجمہ مکمل کیا تو انہیں اور بھی کام ملنے لگا ۔اس کام کا نقطہ‬
‫عروج موالنا مودودی کی کتابیں ’’پردہ ‪،‬تنقیحات ‘‘تھیں جو انہوں نے بہت جان مار‬
‫کر عربی میں منتقل کیں اور جو عرب ملکوں میں شائع ہو کر بہت مقبول ہوئیں جن‬
‫کتابوں کا محمد کاظم نے عربی میں ترجمہ کیا ان کی تفصیل یہ ہے ۔‬

‫اسالم کا اخالقی نقطہ نظر (‪۱۸۶۱‬ء)‬ ‫‪۱‬۔‬

‫قرآن کی چاربنیادی اصطالحیں(‪۱۸۶۳‬ء)‬ ‫‪۱‬۔‬

‫تجدید واحیائے دین (‪۱۸۶۴‬ء)‬ ‫‪۳‬۔‬

‫اسالم میں ذمیوں کے حقوق (‪۱۸۶۶‬ء)‬ ‫‪۴‬۔‬

‫قادیانی تحریک (موالنا مودودی کا دوسرا بیان( ) ‪۱۸۶۱‬ء)‬ ‫‪۶‬۔‬

‫پردہ (‪۱۸۶۹‬ء)‬ ‫‪۱‬۔‬

‫تنقیحا ت (‪۱۸۱۳‬ء)‬ ‫‪۱‬۔‬

‫الجزائر سے ایک عربی ادبی رسالہ ’’البصائر ‘‘نکلتا تھا ۔اس میں اس نے‬
‫موالنا مودودی کی شخصیت کے بارے میں مضمون ‪ ۴‬اقساط میں لکھا اس میں محمد‬
‫کاظم نے اپنے نا م کی جگہ اپنے بیٹے کا نام استعمال کیا ۔‬

‫من ھوالمودودی تعلیق علی مقال االستاد الرئیس بقلم ابی طیب سباق (‪۱‬‬ ‫‪۱‬۔‬
‫اکتوبر ‪۱۸۶۳‬ء)‬

‫من ھوالمودودی تعلیق علی مقال االستاد الرئیس بقلم ابی طیب سباق‬ ‫‪۱‬۔‬
‫(‪۸‬اکتوبر ‪۱۸۶۳‬ء)‬

‫من ھوالمودودی تعلیق علی مقال االستاد الرئیس بقلم ابی طیب سباق‬ ‫‪۳‬۔‬
‫(‪۱۳‬اکتوبر ‪۱۸۶۳‬ء)‬
‫من ھوالمودودی تعلیق علی مقال االستاد الرئیس بقلم ابی طیب سباق‬ ‫‪۴‬۔‬
‫(‪۳۰‬اکتوبر ‪۱۸۶۳‬ء)(‪)۴۰‬‬

‫اپنا نام نہ لکھنے کی کوئی خاص وجہ نہ تھی غالبا ًاپنی فطری کم آمیزی کی‬
‫وجہ سے ابھی وہ پس منظر رہنا چاہتے تھے تاکہ پُرسکون ہو کراپنا کام کر سکیں‬
‫کیونکہ وہ خود کو اس قابل نہیں سمجھتے تھے کہ کسی بڑے ادبی رسالے میں اردو‬
‫میں لکھ سکیں اس کا ذکر انہوں نے فنون میں اپنی پہلی شائع ہونے والی تحریر کے‬
‫حوالے سے بھی کیا ہے۔‬

‫محمد کاظم کے ہم عصر ادباء میں مسعود اشعر ‪،‬علی عباس جالل پوری ‪،‬سبط‬
‫حسن ‪ ،‬صالح الدین محمود ‪،‬اکرام اللہ محمود الحسن اور احمد ندیم قاسمی نمایاں ہیں‬
‫محمد کاظم نے ان قد آور معاصرین کے درمیان جس طرح اپنی منفر د پہچان بنائی وہ‬
‫اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اپنے کام کے حوالے وہ بے حد حساس تھا ۔‬

‫محمد کاظم ایک مختلف اور غیر روایتی قسم کے ادیب ہے اس کی بعض‬
‫خصوصیات ایسی ہیں جن میں وہ اپنے معاصرین سے الگ دکھائی دیتا ہے اس کے‬
‫اسلوب میں سادگی اور نیاپن ہے اس نے شہرت اور نام و نمود کو کبھی اپنا مقصد‬
‫نہیں بنا یا ۔‬

‫آج سے بہت عرصہ پہلے عربی میں مضامین لکھتا تھا اور عربی میں تراجم‬
‫کرتا تھا تو محمد کاظم سباق لکھتا تھا ۔ اپنے نام سبا ق کی وضاحت اس طرح کرتا ہے‬
‫۔‬

‫’’آج سے کافی عرصہ پہلے جب میں عربی لکھتا تھا تو‬


‫میں نے محمد کاظم کے ساتھ ایک الحقہ ’’سباق ‘‘لگا‬
‫دیا تھا اس طرح میرے عربی ترجموں اور مضامین پر‬
‫لکھنے والے کا نام ’’محمد کاظم سباق‘‘ہوتا تھا ۔جو‬
‫مصرو شام کے بعض عرب ادبا مثالَ ََ عبد الرحمن عزام‬
‫‪،‬احمد حسن الزیات وغیر ہ کے ناموں کے طرز پر تھا‬
‫سباق میرے آٹھویں یا دسویں جدامجد کا نام تھا جو میں‬
‫نے اپنے شجر ہ نسب سے اْٹھا کر اپنے نام کے ساتھ‬
‫چپکا دیا ‘‘۔(‪)۴۱‬‬

‫‪ ۱۸۴۱‬ء میں اس کا ایک خط اور پہلی تحریر موالنا چراغ حسن حسر ت کے‬
‫روزنامہ ’’امروز ‘‘میں ادارتی صفحے پر شائع ہوئی اس کاعنوان تھا ۔‬

‫’’اْردو زبان کے رسم الخط کا مسئلہ‘‘‬

‫یہ ان کی پہلی تحریر تھی ۔جس سے ان میں خود اعتمادی پید ا ہوگئی پھر ان‬
‫کی دلچسپی عربی ادب سے ہوگئی اس کے ساتھ ساتھ انگریزی ادب کا گہرا مطالعہ‬
‫کیا ۔انگریزی ادب پڑھنے کا مشورہ ان کے دوست محمد خالد اختر نے دیا اور‬
‫انگریزی مصنفین کے بارے ان کی رہنمائی کی ۔اس کے بعد ان کی دلچسپی اْردو و‬
‫ادب سے پیدا ہوگئی ۔‬

‫محمد کاظم کے مطابق‪:‬‬

‫’’محمد خالد اختر جو اس وقت ایک بڑے ادیب کے‬


‫طور پر پہچانے جانے لگے تھے ۔مجھے انگریزی ادب‬
‫پڑھنے کا اور اردو میں لکھنے کا مشور ہ دیا ‘‘۔(‪)۴۱‬‬

‫محمد کاظم نے لکھنے کا آغازعربی مضامین سے کیا۔ان مضامین سے فکری‬


‫صالحیتوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ مضامین بیرون ملک مختلف رسائل میں شائع ہوتے‬
‫تھے ۔‬

‫’’ان کا پہال مضمون بھی ‪ ۱۸۶۱‬ء میں مراکش کے ادبی‬


‫رسالے ’’دعوۃالحق ‘‘میں عربی زبان میں بعنوان‬
‫’’حدیث فی القطار ‘‘شائع ہوا ۔ اس کا عنوان ’’ریل‬
‫گاڑی میں ایک گفتگو ‘‘تھا ۔جس میں مصنف اپنے ایک‬
‫دوست کا یہ شک رفع کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ‬
‫قران میں اخروی زندگی کے بارے میں جو نقشہ پیش‬
‫کیا گیا ہے وہ حقیقی نہیں خیالی اور افسانوی‬
‫ہے‘‘۔(‪)۴۳‬‬

‫وہ نہ صرف تراجم کرتا تھا بلکہ طبع زاد عربی مضامین ‪ ،‬خطوط اور ادبی‬
‫مضامین مختلف رسائل کے لیے لکھتا رہتا تھا۔‬

‫’’محمد کاظم کا شماران چند پاکستانی دانشوروں میں‬


‫ہوتا ہے جن کے طبع زاد علمی اور ادبی مضامین‬
‫مراکش کے رسالے ’’دعوۃ الحق ‘‘اور الجزا ئر کے‬
‫ادبی ہفت روزہ ’’البصائر ‘‘میں شائع ہوتے رہے ۔عالوہ‬
‫ازیں محمد کاظم کے خطوط مصر کے ادبی مجلہ‬
‫’’الرسالۃ ‘‘اور بیروت کے ادبی ماہنامے ’’اآلداب‬
‫‘‘میں شائع ہوئے ‘‘۔(‪)۴۴‬‬

‫محمد کاظم نے باقاعدہ اردو میں لکھنے کی ابتداء کب کی اس سلسلے میں یہ‬
‫حوالہ دیکھیں ‪:‬‬

‫’’محمد کاظم نے کسی مجلہ کے لیے باقاعدہ اْردو میں‬


‫لکھنے کی ابتداء ‪ ۱۸۱۱‬میں حنیف رامے کے ماہنامہ‬
‫’’نصرت ‘‘سے کی۔ ‪ ۱۸۱۳‬ء میں جب احمد ندیم قاسمی‬
‫نے اپنا ادبی مجلہ ’’فنون‘‘جاری کیا تو اس میں لکھنے‬
‫لگے اور ‪ ۱۰۰۱‬ء تک اس رسالہ میں باقاعدگی سے‬
‫لکھا اس سلسلے میں انہوں نے اْردو قارئین کو عربی‬
‫ادب ‪،‬عربی ادبا اور اہل فکر کی نگارشات سے متعارف‬
‫کرایا۔‬

‫اس دوران چند ایک دوسرے ادبی رسائل کے لیے بھی لکھا ۔ان میں ’’*افکار‬
‫*‘‘‪’’،‬صحیفہ *‘‘‪*’’،‬ماہ نو‘‘‪*’’،‬سرچشمہ‘‘‪ ،‬اور’’ *سوغات ‘‘(بنگلور انڈیا )قابل‬
‫ذکر ہیں ۔رسائل میں لکھنے کے ساتھ ساتھ اسالمی موضوعات پر چار علمی کتابوں‬
‫کے انگریزی سے اْردو زبان میں ترجمے بھی کیے ۔‘‘(‪)۴۶‬‬

‫اپنا پہال مضمون جو انہوں نے اْردو ’’نصرت‘‘میں لکھا اس کے بارے میں‬


‫اپنے سفر نامہ ’’مغربی جرمنی میں ایک برس‘‘ میں اس طرح اظہار خیال کیا ہے ۔‬

‫’’ایک عرصہ عربی میں لکھنے کے بعد جب میں نے‬


‫اپنی زبان اْردو میں لکھنا شروع کیا تو میر ا سب سے‬
‫پہال مضمون جو کسی رسالے میں چھپا وہ البیر کمیو‬
‫(فرانس کا نوبل انعام یافتہ ) پر تھا ۔اس میں اس کے‬
‫فلسفہ عثبیت کا ذکر تھا اس کی نوبل انعام والی تقریر‬
‫کے کچھ حوالے تھے اور اس کے ناولوں کا مختصر‬
‫تعارف تھا ‘‘۔ (‪)۴۱‬‬

‫فنون میں اپنے فنی سفر کے آغاز کے متعلق محمد کاظم یوں رقم طراز ہے ۔‬

‫احمد ندیم قاسمی سے میرے تعلق کا زمانہ چالیس برس سے زیادہ پر پھیال ہوا‬
‫ہے ۔‪ ۱۸۱۱‬ء کا سال تھا ۔محمد خالد اختر اور میں اس زمانے میں بجلی کے بڑے دفتر‬
‫بھارت بلڈنگ میں کام کرتے تھے ۔ میرا دفتر دوسری منزل پر تھا اور خالد کا تیسری‬
‫منزل پر کبھی کبھی ہم اپنے کا م سے ذرا فارغ ہوتے تو ایک دوسرے کے پاس چلے‬
‫جاتے ۔چائے پیتے اور کچھ گپ شپ کرتے ایک دن اسی طرح میں اوپر خالد کے‬
‫کمرے میں جانے لگا تو کیا دیکھتا ہوں کہ احمد ندیم قاسمی خالد سے ملنے آئے ہوئے‬
‫ہیں پہلے تو میں جھجکا اور اْلٹے پاؤں واپس جانے کا سوچا لیکن پھر ہمت کر کے‬
‫میں بھی وہاں جاکر خالد کی جہازی میز کے ایک طرف ندیم صاحب سے کچھ فاصلہ‬
‫رکھ کر بیٹھ گیا ۔‬

‫محمد خالد اختر نے ندیم صاحب سے میرا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ میرے‬
‫یہ بہاولپوری دوست بھی ادب کا ذوق رکھتے ہیں اور کچھ لکھتے بھی رہتے ہیں اس‬
‫پر ندیم صاحب نے ازراہ مروت مجھے بھی ’’فنون ‘‘کے لیے کوئی چیز دینے کو کہا‬
‫جسے میں نے بالکل سنجیدگی سے نہ لیا ۔کہاں احمد ندیم قاسمی جیسے ادیب شہیر کا‬
‫ادبی رسالہ اور کہاں میں جس نے اردو زبان میں ابھی حال ہی میں لکھنا شروع کیا‬
‫تھا ۔‬

‫اس بات کوکئی ماہ گزر گئے آخر اپریل ‪6711‬ء میں ’’فنون ‘‘کا پہال شمارہ‬
‫منظر عام پر آیا ۔اس میں ہندوپاکستان کے چوٹی کے افسانہ نگاروں ‪،‬شاعروں اور‬
‫مضمون نگاروں کی محفل سجی تھی ۔‬

‫ندیم صاحب کی اس پہلی مالقات والی فرمائش کے باوجود میں اپنے اندر‬
‫’’فنون ‘‘میں کچھ لکھنے کا حوصلہ پیدا نہ کرسکا۔’’فنون ‘‘کا دفتران دنوں انار کلی‬
‫کو جانے والی سٹرک پر بائبل بک سوسائٹی کے سامنے ایک سٹیشنر کی دکان کی‬
‫دوسری منزل پر تھا ۔دفتر میں دو چھوٹے چھوٹے کمرے تھے پہلے کمرے میں مدیر‬
‫فنون بیٹھتے تھے اور دوسرے کمرے میں حکیم حبیب اشعر دہلوی‪،‬جو رسالے کے‬
‫جائنٹ ایڈیٹر تھے اپنا مطب کرتے تھے ایک دن میں بائبل بک سوسائٹی کے فٹ پاتھ‬
‫پر کھڑا تھا کہ حبیب اشعر سیڑھیاں اْتر کر تیز تیزقدموں سے چلتے ہوئے میرے پاس‬
‫آئے اور کہنے لگے کہ ’’فنون ‘‘میں اپنا کوئی مضمون یا عربی سے کوئی ترجمہ کر‬
‫کے دو ۔یہ بہت ضروری ہے ۔اس لیے کہ مجھ سے آج کل لکھا نہیں جا تا اور میں‬
‫ندیم بھائی کے سامنے شرمندہ ہوں۔اس فرمائش پر میں نے کچھ لیت و لعل کی لیکن‬
‫حبیب اشعر کا تقاضااتنا پُراصرار تھا کہ مجھے ہاں کرتے ہی بنی ۔مجھے یاد ہے میں‬
‫نے پور ا ایک ماہ دن رات ایک کرکے فنون کے لیے اپنا پہال مضمون ’’الف لیلہ‬
‫عربی ادب میں ‘‘لکھا اور اسے جاکر حبیب اشعر کے حوالے کر دیا ۔اس لیے ندیم‬
‫صاحب کو پیش کرنے کا مجھ میں حوصلہ نہیں تھا ۔اس بات کو جب ایک ہفتہ گزر گیا‬
‫تو میں ایک مدیر ’’فنون ‘‘کی نظر بچا کر حبیب اشعر کے پاس ان کے مطب میں گیا‬
‫اور ان سے گزارش کی کہ ندیم صاحب سے پوچھ دیں کہ میرا مضمون ’’فنون ‘‘کے‬
‫معیار پر پورا اترا ہے یا نہیں ؟حبیب اشعر نے بیچ کی کھڑکی میں سے جھانک کر‬
‫ندیم صاحب سے دریافت کیا تو جواب مال کہ ان کا مضمون ’’فنون ‘‘کے معیار سے‬
‫کچھ اْونچا ہی ہے اور بہت اچھا ہے ۔‬
‫’’فنون ‘‘جیسے چوٹی کے ادبی رسالے کے مدیر کا ایک نئے لکھنے والے‬
‫کے پہلے مضمون پر اپنی رائے کا اس طرح بر مال اور بے تحفظ‬
‫)‪ (Unreserved‬اظہار !یہی وہ چیز تھی جس نے ندیم کو ایک کامیاب اور ہر دلعزیز‬
‫مدیر بنایا اور جس کی بدولت انہوں نے اْبھرتے ہوئے ادیبوں اور شاعروں کو ایک ان‬
‫دیکھی قوت کے ساتھ اپنی طرف کھینچا اور ان کی مناسب تربیت اور حوصلہ افزائی‬
‫سے ادب میں ان کی ترقی کی راہیں کھول دیں ۔‬

‫’’فنون ‘‘کے چوتھے شمارے میں جب میرا یہ پہال‬


‫مضمون شائع ہوا تو اس نے گویا مجھے اپنے ہونے کا‬
‫احساس دالیا اور میرے اندر وہ اعتماد اور حوصلہ پیدا‬
‫کیا جس نے مجھے لکھنے کی راہ پر ڈال دیا ‘‘۔ (‪)۴۹‬‬

‫علی مودودی کے نظریات کے‬ ‫’’‪1946‬ء سے ‪ 6711‬تک موالنا سید ابواال ٰ‬


‫ساتھ ذہنی وابستگی رہی اور موالنا کے کہنے پرا ُن کی کئی کتابوں کا عربی میں‬
‫ترجمہ کیا یہ تمام کتب بال د عرب میں شائع ہوئیں‘‘۔(‪)۴۱‬‬

‫‪ 1966‬ء میں محمد کاظم نے جماعت اسالمی سے اختالف کی بنا ء پر اس کے‬


‫نظریات سے علیحدگی اختیار کر لی اور اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے وہ کہتا ہے۔‬

‫’’موالنا مودودی سے اختالف اس وقت پیدا ہوا جب اْن‬


‫کی جماعت اسالمی کا مزاج جو پہلے علمی اور‬
‫اصالحی ہو ا کرتا تھا اب روزبروز سیاسی ہوتا چالگیا‬
‫اورا س میں ایسے لوگ آگے آنے لگے جن کا دینی علم‬
‫برائے نام تھا اور وہ اکثر سیاست ہی کی باتیں کرتے‬
‫تھے‘‘۔(‪)۴۸‬‬

‫اختالف کی ایک وجہ اور بھی ہے ‪:‬‬

‫’’اس زمانے میں میرے ساتھ ہونے والے ایک سانحے‬


‫میں جس سے میں از حد غمزدہ تھا میرے کچھ دوستوں‬
‫نے جن کا میرے ساتھ نظریاتی اختالف بھی تھا میر ی‬
‫بہت دل جوئی کی ۔اس کے برعکس جماعت کی طرف‬
‫سے ایک بھی شخص میرے پاس نہیں آیا اور کسی نے‬
‫ایک لفظ بھی میرے غم میں شامل ہونے کے لیے نہیں‬
‫کہا ۔اس بات سے میرے دل میں ان کااحترام ختم ہوگیا‬
‫اور اس کے بعد کے دنوں میں مغربی فلسفے کے‬
‫مطالعہ نے مجھے مودودی صاحب کے کیمپ سے‬
‫علیحدہ کر دیا ‘‘۔‬

‫جماعت سے علیحدگی کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں (‪)۱‬ایک تو جماعت کا‬


‫سیاست میں آنا اور دوسراان کے منجھلے بیٹے شعیب محمود کا انتقال اور اس صدمے‬
‫کے بار ے میں جماعت والوں کی بے حسی اور بے اعتنائی ۔چنانچہ وہ جماعت سے‬
‫دور ہوگئے ۔(‪)۶۰‬‬

‫محمد کاظم جون ‪6791‬ء کے آخر میں اپنے محکمے کی طرف سے ایک سال‬
‫کی ٹریننگ کے لیے مغربی جرمنی گیا ۔تو اس کے ساتھ دو اور ساتھی شیخ اور‬
‫شہزادہ بھی تھے ۔خیاالت تو پہلے ہی تبدیل ہو چکے تھے اور جرمنی جاکر جو مزید‬
‫سنیے۔‬
‫تبدیلی آئی وہ اس کی زبانی ُ‬

‫’’ باہر یورپ کے موسم گرما کی شام کا طویل جھٹپٹا ابھی باقی تھا ۔میں پچھلی‬
‫کئی راتوں کا جاگا ہوا اور تھکن سے چور اب اس نرم اور بے داغ بستر کی آسائش‬
‫میں دبکنا چاہتا تھا ۔لیکن اس سے پہلے مجھے ایک ایسے کام سے نمٹنا تھا جسے میں‬
‫کئی برسوں سے کچھ اپنی کاہلی اور کچھ بزدلی کے سبب ٹالتا چال آرہا تھا ۔آج اس‬
‫معاملے میں پس و پیش کرنے اور اسے آئندہ پرٹالنے کی کوئی گنجائش نہ تھی اس‬
‫لیے کہ میں نے اس سفر پر آتے ہوئے اپنے پیچھے کشتیاں جال ڈالی تھیں اور اپنی‬
‫ٹھوڑی کے بالوں کی تراش خراش کا سامان گھر چھوڑ آیاتھا میری مختصر سی‬
‫خشخشی ڈاڑھی تین چار روز میں کافی بڑھ چلی تھی چنانچہ میں نے اْٹھ کر اپنے‬
‫تھیلے سے شیو کا نیا خرید کردہ سامان نکاال اور ہوٹل مک کی تیسر ی منزل پر واقع‬
‫اس کمرے میں شیشے کے سامنے کھڑے ہوئے اپنے چہرے پر سے وہ نقاب اْتارنے‬
‫لگا جو ایک عرصہ سے اپنا جواز کھو چکا تھا اور جس نے بال وجہ میرے اصل‬
‫چہرے کو مستور کر رکھا تھا ۔عجیب بات ہے کہ ایسا کرتے ہوئے میرے ہاتھ ایک‬
‫ل محے کے لیے بھی ٹھٹکے اور نہ میں نے دل کے کسی نہاں گوشے میں افسوس اور‬
‫ندامت کی کوئی کھٹک محسوس کی ۔‬

‫مذہب کے نام پر تنگ نظری ‪،‬کھوکھلی پارسائی ‪،‬تعصب اور پست خیالی کے‬
‫ایسے ایسے نظائر دیکھنے میں آئے تھے کہ مذہب کی اس روایتی صورت سے جی‬
‫بر گشتہ ہو گیا تھا ۔اور انسان یہ چاہنے لگا تھا کہ اپنی شخصیت سے ہر وہ اثر اور ہر‬
‫وہ عالمت محو کر دے جو اسے کسی طورپر مذہبی ٹولے سے وابستہ کرتی ہو!‬

‫آئینے میں اب میرا چہر ہ صاف اور روشن نکل آیاتھا ۔میں نے محسوس کیا کہ‬
‫اپنی داڑھی کے کھچڑی بالوں کے ساتھ میں نے اپنی عمر کے چند ایک سال بھی پانی‬
‫کی راہ بہاد یئے تھے ۔مجھے شیشے میں اپنے اس جواں تر روپ سے مالقات کر کے‬
‫بہت مسرت ہوئی اور میں اس ہیجان مسرت میں اپنا یہ حلیہ دکھانے کیلیے ’’شیخ‬
‫‘‘کے کمرے کی طرف چال گیا ۔‬

‫آ۔۔۔ہا ۔۔۔۔اے کی دیکھ رہے ہیں ہم ’’شیخ مجھے دیکھتے ہی کرسی سے اْچھل‬
‫پڑا میں تو اس چہرے کا پیار لے کر رہوں گا‘‘۔ و ہ وفور مسرت میں مجھ سے لپٹ‬
‫گیا ۔‬

‫’’ کیا خیال ہے ‪،‬اچھا نہیں کیا میں نے ؟میں نے جھینپتے ہوئے اس سے پوچھا‬
‫’’بہت اچھا کیا ہے ‘‘شیخ نے قطعیت کے ساتھ جواب دیا ’’سچ !یہ کام تو آپ کو بہت‬
‫پہلے کر لینا چاہیے تھا ۔خواہ مخواہ اتنا عرصہ اپنی شکل کچھ سے کچھ بنائے رکھی‬
‫۔بہت اچھے !بات ہوئی نا!‬

‫اور اس رات میں زندگی میں شاید ایک بار پھر اس تجربے کی لذت سے آشنا‬
‫ہوا جو انسان کو اپنے ماضی کے کچھ نا پسند یدہ عالئق سے دامن چھڑا کر ہوتا‬
‫ہے۔وہ ایک نیا ملک تھا ۔اس میں انسانوں کے اطواراور اخالق کے ضابطے بھی نئے‬
‫تھے ۔اور اْس کے ایک شہر میں ایک نئی چھت کے نیچے ایک نئی شخصیت کے‬
‫ساتھ لیٹا ہوا میں اپنے اندر ایک عجیب آزادی اور ہلکا پن محسوس کر رہا تھا ۔میرے‬
‫سامنے اب ایک ایسا مستقبل تھا جس کے امکانات المحدود تھے اور ماضی فی الحال‬
‫پہاڑ ی کی اوٹ میں چال گیا تھا‘‘۔(‪)۶۱‬‬

‫اس کے بعد محمد کاظم نے عربی ادب کے حوالے سے بہت کام کیا لیکن ذہنی‬
‫ْرجحان تبدیل ہو گیا اور نقطہ نظر میں واضح تبدیلی دیکھنے میں آئی ۔وہ ادب میں‬
‫نظریہ فن کے قائل نہیں اس کا کہنا یہ ہے کہ فن تو فن ہوتا ہے ۔جس کی بنیا د ذوق‬
‫جمال ہے اور فن کا مقصد پڑھنے والوں کو مسرت پہنچانا ہوتا ہے اور وہ خود کو‬
‫کسی نظریاتی تحریک سے ْکلی طور پر متفق و متاثر نہیں سمجھتا بلکہ اس کا کہنا یہ‬
‫ہے کہ‪:‬‬

‫’’ہر نظریاتی تحریک میں مجھے جو باتیں اچھی لگتی‬


‫ہیں انہیں میں قبول کر لیتا ہوں اور ان کے مطابق اپنے‬
‫آپ کو ڈھا ل لیتا ہوں ۔‘‘(‪)۶۱‬‬

‫محمد کاظم اور مودودی کے درمیان اختالف کی وجہ شاکر حسین شاکر اس‬
‫طرح لکھتے ہیں۔‬

‫’’آغاز میں انہوں نے جماعت اسالمی اور موالنا‬


‫مودودی سے تعلق خاطر رکھا لیکن موالنا مودودی ان‬
‫کے جوان بیٹے کے انتقال پر افسوس کرنے نہ آئے تو‬
‫انہوں نے موالنا سے تعلق ختم کر دیا اور اپنی توجہ‬
‫لکھنے پڑھنے کی طرف مبذول کرلی‘‘۔(‪)۶۳‬‬

‫آخری ایام‪:‬‬
‫لکھنے کے کام سے مختلف بیماریوں کے باعث محمد کاظم آخری ایام میں‬
‫عملی طور کنار ہ کش ہو گیا تا ہم وہ چڑ چڑ ے پن کا شکار نہیں ہوا تھا ۔خندہ پیشانی‬
‫تادم آخر مزاج کا خاصہ رہی ۔‬

‫ڈاکٹر انوار احمد نے سہ ماہی پیلھوں کا چوتھا شمارہ انہیں ارسال کیا تو جواب‬
‫میں محمد کاظم کا اْداس کردینے واال خط پیلھوں کے شمارہ ‪ ۶‬میں کچھ اس طرح ہے‬
‫۔‬

‫’’آپ کا بھیجا ہوا ارسالہ ’’پیلھوں ‘‘کا چوتھا شمارہ موصول ہوا ‪ ،‬اس عنایت‬
‫کے لیے بے حد شکر گزار ہوں ‪،‬رسالے کو میں نے سر سری طور پر دیکھا اور‬
‫اسے دل چسپ پایا ہے ا س کے مطالعے میں میں کچھ دن اچھے گزر جائیں گے لیکن‬
‫مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہو رہا ہے کہ رسالے کے ضمن میں آپ نے جو کام‬
‫میرے ذمے لگائے ہیں ان میں سے کوئی بھی انجام نہیں دے سکوں گا۔وجہ اس کی‬
‫بڑھاپا ہے ۔(میر عمر ستاسی ‪ ۱۹‬برس سے اْوپر ہو چکی ہے )اور بڑھاپے کی الئی‬
‫ہوئی نا توانی اور بے کاری اور بے دلی ہے ۔اب کوئی محنت طلب کام کرنے کی‬
‫طاقت اور ہمت نہیں رہی ۔لکھنے کا کام عرصہ دوسال سے بالکل بند ہے۔پڑھنے کا‬
‫کام البتہ کر لیتا ہوں ۔وہ بھی ہلکی پْھلکی چیزیں مثالَ ََ افسانے ‪،‬سفر نامے ‪ ،‬یا د‬
‫داشتیں وغیر ہ پڑھنے کا ۔ٹھوس علمی اور تنقیدی مقاالت بھی نہیں پڑھے جا سکتے‬
‫۔ان حاالت میں مجبور ہوں کہ آپ کے پیلھوں کے لیے کچھ نہیں لکھ کے بھیج سکتا‬
‫۔رہے میرے با ذوق اور صاحب دل احباب تو افسوس ہے کہ وہ بھی اب زیادہ نہیں‬
‫رہے ۔ان میں سے اکثر ایک ایک کر کیاللہ کو پیار ے ہوچکے ہیں اور مجھے اکیال‬
‫چھوڑ دیا ہے۔‬

‫میں مختلف عوارض کا شکار ہوں ‪،‬دْعا کریں کر جتنے دن بھی میری زندگی‬
‫کے باقی ہیں وہ چلتے پھرتے گزر جائیں اور اللہ کسی کا محتاج نہ کرے اْمید ہے کہ‬
‫آپ میری معذرت ْکھلے دل سے قبول فرمائیں گے‘‘ ۔(‪)۶۴‬‬

‫محمد کاظم‬
‫‪۱۳۳‬سی ‪،‬ٹیک سوسائٹی نیو کیمپس الہور‬

‫‪۱۱‬فروری ‪ ۱۰۱۴‬ء‬

‫علی تنہا لکھتے ہیں ۔‬

‫’’عمر کے آخری حصہ میں انہوں نے رسالہ ’’الحمرا‬


‫‘‘میں یادنگاری کا آغاز کیا تھا لیکن موت نے اس کی‬
‫تکمیل کی اجازت نہ دی ‘‘۔(‪)۶۶‬‬

‫انتظار حسین محمد کاظم کے آخری ایام کی مصروفیت کے بارے میں لکھتے‬
‫ہیں‬

‫’’ اب وہ اپنی آپ بیتی لکھ رہے تھے اس دور کے بارے میں جو انہوں نے‬
‫علی گڑھ یونیورسٹی میں گزارا وہ بہت کچھ لکھ بھی چکے تھے ۔مگر یہ ان کی‬
‫تحریر ادھوری ہی رہ گئی ۔اس کی تکمیل سے پہلے پیغام اجل آگیا‘‘ ۔(‪)۶۱‬‬

‫وفات ‪/‬سفر آخرت‪:‬‬

‫سید کاظم نے فالج نمونیہ اور برین ہیمرج کے جان لیوا حملے کی وجہ سے‬
‫مختصرعاللت کے بعد تقریبا َ ََ اٹھاسی برس کی عمر ‪ ۱۱‬اپریل بروز منگل ‪ ۱۰۱۴‬ء‬
‫کو اس جہاں فانی سے رخصت ہو گئے۔ جہاں سینکڑوں مداحوں کی موجودگی میں‬
‫۔‬ ‫گیا‬ ‫کیا‬ ‫ک‬ ‫خا‬ ‫د‬ ‫سپْر‬ ‫انہیں‬
‫ہم عصر قلم کا روں کا خراج عقیدت اور تعزیتی اداریے‪:‬‬

‫ملک اور بیرون ملک ادیبوں ‪،‬اخبارات ورسائل اور نشریاتی اداروں نے اْن کی‬
‫وفات پر تعزیت کا اظہار کیا اور اس سانحے کو علم وادب کی دْنیا کے لیے عظیم‬
‫نقصان قرار دیا ۔‬

‫شاکر حسین شاکر محمد کاظم کی وفات پر یوں رقمطراز ہیں‬


‫’’میرے سامنے ملتان سے شائع ہونے واال ادبی جریدہ‬
‫’’پیلھوں ‘‘کا شمارہ نمبر‪ ۶‬رکھا ہے۔مدیر ڈاکٹر انوار‬
‫احمد اداریے میں لکھتے ہیں ’’اس شمارے میں میرے‬
‫پسندید ہ ادیب محمد کاظم کا ایک اْداس کردینے واال خط‬
‫ہے جو ہمارے قارئین کے لیے برگ سبز ہے ‘‘۔خط‬
‫مالحظہ فرمایا کہ سید محمد کاظم ‪8‬اپریل ‪4162‬ء کو‬
‫داغ مفارقت دے گئے ۔اس طرح کے لوگ خاک میں‬
‫جاتے تو ہیں لیکن خاک نہیں ہوتے ا س طرح کے لوگ‬
‫مرتے تو ہیں لیکن زندہ لوگوں کے ساتھ اپنی کتابوں کی‬
‫صورت رہتے ہیں ۔محمد کاظم حقیقی معنوں میں عالم‬
‫تھے ۔ان کی موت پر جی چاہتا ہے کہ میں یہ لکھوں کہ‬
‫موت العالم ‪،‬مو ت العالم ‘‘۔(‪)۶۹‬‬

‫عطاالحق قاسمی محمد کاظم کی وفات پر اس طرح اظہار تعزیت کرتے ہیں ۔‬

‫’’مجھے موت پر بہت کم غصہ آتا ہے لیکن جب آتا ہے‬


‫تو بہت زیادہ آتا ہے اس غصے کی نوبت اس وقت آتی‬
‫ہے جب موت کوئی قیمتی آدمی ہم سے چھین لیتی ہے‬
‫اس منگل کو یہ موت سید محمد کاظم ایسا عظیم اسکالر‬
‫اور انسان ہم سے چھین کر لے گئی ہے سید محمد کاظم‬
‫ایک گوشہ نشین سکالر تھے ۔نام ونمود اور شہر ت سے‬
‫الر جک ۔ نہ یہ کبھی اسٹیج پر بیٹھے اور نہ کبھی‬
‫مجبور ََا ایساکرنا پڑا ہو‬
‫َ‬ ‫انٹرویو دیا ۔اگر ایک آدھ دفعہ‬
‫تو کچھ کہا نہیں جا سکتا لیکن مجھے حیرت ہوئی جب‬
‫میں نے ان کا جنازے میں سینکڑوں سوگواروں کو‬
‫دیکھا جو ان کے علمی کارناموں کو یا د کرتے تھے‬
‫۔اور مجھے اس وقت موت پر غصہ آیا جب انہیں لحد‬
‫میں اْتارا جا رہا تھا ۔اس غصے میں یہ شکایت نمایاں‬
‫تھی کہ تو نے ہمیں اس خوبصورت چہرے کے دیدار‬
‫سے ہمیشہ کے لیے محروم کر دیا ۔جس کے دیکھنے‬
‫سے صبح خوشگوار ہوتی تھی اور اب اس کے چھپنے‬
‫سے لگتا ہے سورج غروب ہو گیا ہے ‘‘۔ (‪)۶۱‬‬

‫انتظارحسین محمد کاظم کے حوالے سے اپنے تعزیتی کالم میں لکھتے ہیں ۔‬

‫’’سید کاظم کس خاموشی سے اس دنیا سے سفر کر‬


‫گئے ایسا خاموش سفر کہ ان کے کتنے مداحوں کواس‬
‫کے بعد پتہ چال جب وہ خاک تلے جا سوئے تھے‬
‫۔زندگی کا سفر اور اس سفر کے بیچ علمی ادبی سفر‬
‫بھی تو انہوں نے اتنی ہی خاموشی سے طے کیا ۔کم‬
‫آمیز‪ ،‬محفلوں مجلسوں سے دور اپنے گوشے میں‬
‫اطمینان سے اپنی علمی کام میں مشغول رہا ۔نام و نمود‬
‫سے بے نیاز ۔پھر میڈیا میں ان کے انتقال کی خبر‬
‫کیسے اچھلتی اور قریب و دور تک پہنچتی ‘‘۔ (‪)۶۸‬‬

‫مسعود اشعر محمد کاظم کی وفات پر اپنے تعزیتی کالم میں لکھتے ہیں ۔‬

‫’’بیماری کی اطالع ملی تو میں اکرام اللہ اور محمود‬


‫الحسن اسپتال پہنچے تاروں میں جکڑے ہوئے بستر‬
‫پرلیٹے تھے ہمیں پہچان لیا اور اپنے بڑے بیٹے طیب‬
‫سے جو امریکہ سے فورا آگیا تھا ۔ہمارا تعارف کرایا‬
‫محمود الحسن نے کہا میں آپ کے لیے کتابیں لے آیا‬
‫ہوں۔آپ گھر جائیں گے تو پہنچا دوں گا ۔بہت خوش‬
‫ہوئے ۔مگر افسوس یہ کتابیں پہنچانے کا موقع نہیں آیا‬
‫۔ایک دن پہلے تک ڈاکٹر تسلی دے رہے تھے کہ کل‬
‫گھر لے جانا اور ہم بھی پر امید تھے ۔مگر اچانک‬
‫نمونیہ ہوااور وہ ہمہ جہت ‪،‬ہمہ گیرا ور خوش باش‬
‫شخص ہم میں نہ رہا ۔ایسی عالم و فاضل شخصیت کی‬
‫موت پر ہی تو کہا جا تا ہے ۔’’موت العالم موت العالم‬
‫‘‘۔عالم کی موت ایک زمانے کی موت ہوتی ہے کاظم‬
‫صاحب کے ساتھ ایک عالَم اور ایک زمانہ ختم ہو گیا‬
‫۔اور میں ایک بے لوث دوست اور ایک مشفق استاد سے‬
‫محروم ہوگیا ۔جب بھی مجھے کوئی علمی اْلجھن ہوتی‬
‫تو میں انہی سے تو رجوع کیا کر تا تھا ‘‘۔(‪)۱۰‬‬

‫علی تنہا محمد کاظم کی وفات پر اپنے تعزیتی کالم میں یوں رقمطراز ہیں۔‬

‫’’نامور سکالر محمد کاظم کا گزشتہ دنوں الہور میں‬


‫طویل عاللت کے بعد انتقال ہو گیا۔محمد کاظم جیسے‬
‫چوکس ذہن کے روشن خیال سکالر ز مدتوں بعد جنم‬
‫لیتے ہیں اور اپنی بصیر ت اور دانش سے عقل و خرد‬
‫سے الزوال کا رنامے آنے والی نسلوں کے لیے چھوڑ‬
‫جاتے ہیں یہ کسی قدم کا مقسوم ہے کہ اس سے فیضان‬
‫پاتے ہیں یا امراض کی راہ پر چل کے تباہی کے دہانے‬
‫پر جا پہنچتے ہیں ۔اس پس منظر میں محمد کاظم کا گزر‬
‫جانا ایک قومی سانحہ ہے ‪،‬بلکہ علم و خرد کے ایک‬
‫عہد کا خاتمہ ہے ‘‘(‪)۱۱‬‬

‫ڈاکٹر خورشید رضوی محمد کاظم کی وفات پر اپنے تعزیت نامے میں یوں رقم‬
‫طرا ز ہیں ۔‬

‫’’ میں صبح گیار ہ بجے کاظم صاحب کے گھر گیا ۔وہی دروبام ‪،‬وہی کمرہ‬
‫وہی نشست گاہ مگر آج کاظم صاحب درون خا نہ کہیں محواستراحت رہے کسی سے‬
‫ملنے نہیں آئے ۔طیب بعض احباب کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے میں سوگوار دل کے‬
‫ساتھ کافی دیر بیٹھا رہا ۔‬
‫شام کو جنازہ اْٹھنے سے قبل میں پھر اْن کے دروازے پہ پہنچا ۔یہاں آج عجیب‬
‫نا مانوس منظر پایا ۔احباب اْترے ہوئے چہروں کے ساتھ کھڑے تھے پانچ بجے سے‬
‫پہلے جنازہ باہر آیا تودل پر رقت طاری ہو گئی ۔آنکھیں بھر آئیں ۔کاظم صاحب کا‬
‫چہرے سے کفن سرکایا گیا ۔ان کی ستواں ناک اور تیکھے خدوخال ہمیشہ کی طرح‬
‫باوقا ر اور ان کے پتلے ہونٹ اْسی طرح پْر عزم تھے۔خاموش پلکوں میں ایک ہلکی‬
‫سی در ز کھلی ہوئی تھی ۔مگر اس سے جھانکتی آنکھیں آج بے نور تھیں ۔‬

‫اب ہم اْسی مسجد میں پہنچے جہاں اب سے بیس برس پہلے نماز جمعہ کے‬
‫ناتے سے کاظم صاحب سے میری مالقاتوں کا آغا ز ہوا ۔عصر کے بعد سامنے والے‬
‫سبزہ زار میں نمازجنازہ ادا کی گئی اور پھر ہم ٹیک سوسائٹی کے مخصوص قبر‬
‫ستان کی طرف روانہ ہو گئے جہاں قبر تیا ر کی جا چکی تھی ‘‘۔(‪)۱۱‬‬

‫سید کا ظم کی وفات سے ادبی دُنیا میں جو خال پیدا ہوا اس کی قدر وقیمت سے‬
‫اہل ادب ہی شناسا ہیں کیو نکہ اہل ثروت کو تو شاید کو ئی فرق نہ پڑے ۔ وہ اتنے کم‬
‫گو اور طبعا َ ََشرمیلے انسان تھے اس لیے اُنہوں نے کبھی خود سے اپنے آپ کو‬
‫متعارف کروانا ضروری نہیں سمجھا تھا ۔ اُن کا تعلق ایک مخصوص طبقہ فکر سے‬
‫تھا زیادہ میل جول انہیں پسند نہیں تھا ۔ان کی عربی دانی کے معترف نامور اہل علم‬
‫تھے۔انہوں امجد اسالم امجد کی فلسطینی شاعری کے منظوم تراجم پر مبنی کتاب‬
‫’’عکس‘‘کا مفصل دیباچہ لکھا جو ان کی وسعت مطالعہ کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔‬

‫محمد کاظم کی رحلت پر امجد اسالم امجد اپنے تعزیتی کا لم میں لکھتے ہیں ۔‬

‫’’سید محمد کا ظم کی وفات سے ممکن ہے اہل جاہ و‬


‫حشم کو کوئی فرق نہ پڑا ہو یہ بھی ممکن ہے کہ عوام‬
‫الناس کے لیے بھی یہ خبر کو ئی خبر نہ ہو مگر وہ تمام‬
‫لوگ جو ادب اور ادیب کی حرمت سے آشناء ہیں ان کے‬
‫لیے یقیناًمحمد کاظم کی وفات اسی قول سعید کی‬
‫بازگشت ہے کہ ’’ایک عالم کی مو ت ایک پو رے عا لم‬
‫کی مو ت ہو تی ہے ‘‘۔(‪)۱۳‬‬
‫محمد کاظم کے گھریلوماحول ‪،‬تربیت اور معاشرتی و تہذیبی عوامل کے‬
‫نتیجے میں ان کی شخصیت میں عاجزی وانکسار‪ ،‬علمی جستجو اور خلوص جیسی‬
‫خوبیاں بہت نمایاں تھیں ۔‬

‫محمد کاظم کی انسان دوستی ہی کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے زندگی بھر اپنے‬
‫احباب اور دیگر ملنے والوں پر اپنے عہدے و مرتبے کا رعب جمایا اور نہ ہی اس کا‬
‫احساس دالیا ۔وہ ہمیشہ خلوص کی سطح پر ملتے تھے ۔‬

‫محمد کاظم کی شخصیت کے متعلق عطاالحق قاسمی لکھتے ہیں ۔‬

‫’’ایک سکالر ہونے کے ساتھ ساتھ محمد کاظم ایک‬


‫اعلی عہدوں پر فائز‬
‫ٰ‬ ‫شخص بھی تو تھا وہ واپڈا میں‬
‫رہے ۔اگر اربوں نہیں تو کروڑوں کی کمیشن کہیں نہیں‬
‫گئی ہوئی تھی مگر رزق حرام اس سید زادے کو چھوکر‬
‫بھی نہیں گزرا تھا ۔ان میں وہ کر وفر بھی نہیں تھا جو‬
‫ایسے عہدوں پر فائز افراد کی شخصیت میں خواہ مخواہ‬
‫در آتا ہے وہ نہایت منکسر المزاج اور وضع دار شخص‬
‫تھے‘‘ ۔(‪)۱۴‬‬

‫مسعود اشعر محمد کاظم کی شخصیت کے حوالے سے لکھتے ہیں‪:‬‬

‫فور ََا میر ی اصالح‬


‫’’میں انہیں سید محمد کاظم کہتا تو َ‬
‫کرتے میں اپنے نام کے ساتھ سید نہیں لکھتا بہت ہی‬
‫شریف آدمی تھے اور ہر شریف آدمی کی طرح شرمیلے‬
‫بھی بہت بڑے عالم تھے اور بڑے عالموں کی طرح‬
‫منکسر المزاج بھی۔ شہر ت کے پیچھے کبھی نہیں‬
‫بھاگے محفل بازنہیں تھے مگر محفلوں میں خوش بھی‬
‫ہوتے تھے البتہ ادبی تقریبوں سے بچتے تھے ‘‘۔(‪)۱۶‬‬

‫علی تنہا محمد کاظم کی ادبی شخصیت کے حوالے سے لکھتے ہیں ۔‬


‫’’محمد کاظم کی یہ خوبی تھی کہ وہ قاری کے تجربے‬
‫اور فکر میں تبدیلی کے تمنائی رہتے اس لیے اپنے‬
‫مضامین میں کئی جہتوں سے اپنے نقطہ نظر کی صحت‬
‫اور اثر آفرینی کو اجالتے وہ اپنے ہاں کی روایتی اور‬
‫ٹھس شاعری یا نثر پر کڑھتے کیونکہ آئے روز اردو‬
‫کی کثیر ْکتب یکسانیت اور مجہول فنی پیرائے میں‬
‫سامنے آتی ہیں جس نے پاکستان کے قارئین کو سنجیدہ‬
‫علم و فن سے دور کر دیا ہے۔محمد کاظم منطقی ذہن‬
‫رکھنے کے باوجود عالمگیر علمی و ادبی تحریکوں کے‬
‫جو یا اور پر ستار تھے لیکن محمد کاظم البیر‬
‫کامیو‪،‬سارتر ‪،‬ایلیٹ ‪،‬کازکا تھا مسن مان ‪،‬بودلئیر اور‬
‫گبرئیل مار کوئیس وغیرہ کے بھی نہایت شائق تھے‬
‫‘‘۔(‪)۱۱‬‬

‫انتظار حسین محمد کاظم کی شخصیت کے حوالے سے لکھتے ہیں‪:‬‬

‫’’شجرہ نسب کے بارے میں بھی ایک بات سْن لیجیے‬


‫۔بتانے لگے کہ مجھے عربی جاننے سیکھنے میں کوئی‬
‫دقت محسوس نہیں ہوئی لگتا تھا کہ میں پہلے سے کچھ‬
‫جانتا ہوں ۔‬

‫’’شاید یہ بات خون میں ہو ۔ آخر آپ سید ہیں‘‘۔‬

‫’’بولے کہ ہاں ایک تو مجھے ویسے ہی اپنے سید ہونے‬


‫کا یقین ہے کہ ہمارا شجر ہ نسب محفوظ چال آتا ہے پھر‬
‫ایک مرتبہ سید سلیمان ندوی سے شرف مالقات حاصل‬
‫ہوا۔انہوں نے میرا چہرہ مہرہ دیکھ توثیق کی کہ بے‬
‫شک تم سید ہو ‘‘۔(‪)۱۹‬‬
‫سید شاکر حسین شاکر محمد کاظم کی عاجزی ‪،‬علم دوستی اور سادگی کے‬
‫حوالے سے لکھتے ہیں‪:‬‬

‫محمد کاظم کے بارے میں یوں تو بے شمار باتیں ہیں لیکن ایک واقعہ پڑھ لیں‬
‫اعلی‬
‫ٰ‬ ‫۔ یہ واقعہ پڑھتے ہوئے یہ بھی ضرور سوچیے گا کہ جو شخص واپڈا میں‬
‫عہدے پر فائز رہا ہو اور اس کے مالی معامالت اس طرح کے ہوں تو پھر جی چاہتا‬
‫ہے کہ سید محمد کاظم کی جی بھر تحسین کی جائے ۔وہ ایک جگہ لکھتے ہیں‪:‬‬

‫’’جن دنوں میں اور خالد اختر واپڈا ہاؤس الہور میں‬
‫نوکری کرتے تھے ان دنوں ہمارا ایک دل پسند مشغلہ‬
‫کتابوں کی دکانوں میں جا کر کتب بینی کرنا ہوتا تھا‬
‫۔مال پر فیروز سنز اور کو آپرا میں ہم اکثر کتابوں کی‬
‫سیر کے لیے جاتے ‪،‬ایک گھنٹہ وہاں چل پھر کر‬
‫دیکھتے کہ انگریزی اْردو میں کونسی نئی کتابیں آئی‬
‫ہیں کونسی ان میں سے خریدنے کے الئق ہیں او ر‬
‫کونسی صرف دیکھ لینے کے الئق ۔نئی کتابوں کی خرید‬
‫کے لیے ہمارے پاس زیادہ مالی گنجائش نہیں ہوتی تھی‬
‫۔کتابوں کی خرید کے لیے ہم اکثر اتوار کو انار کلی کی‬
‫فٹ پاتھو ں کا پھیرا لگاتے تھے میرے پاس انگریزی‬
‫فکشن اور شاعری کا اچھا خاصا مجمو عہ ایسا ہے جو‬
‫میں نے فٹ پاتھ سے خریدا تھا ۔اور ان میں سے اکثر‬
‫کتابوں کی قیمت میں نے ایک روپیہ یا ڈیڑھ روپیہ ادا‬
‫کی کچھ زیادہ پْرانی کتابیں آٹھ آنے میں بھی مل جاتی‬
‫تھیں‘‘۔(‪)۱۱‬‬

‫محمدکاظم کی شخصیت اور عربی دانی کا اعتراف ان کے بہت سے رفقاء نے‬


‫برمال کیا ہے۔‬
‫’’کاظم کا ذکر تم نے خط میں کیا ہے وہ میرا جگری‬
‫دوست ہے اور رفیق کار ۔ہمارے کمرے بالکل ملحقہ‬
‫ہیں ۔شاید تم نہیں جانتے کہ کاظم عربی کا ایک عالم ہے‬
‫کسی زمانے میں وہ جماعت اسالمی کا ایک سر گرم کا‬
‫رکن بھی رہا۔(اب وہ مختلف آدمی ہے)مودودی صاحب‬
‫کی کئی کتابوں کے نہایت ادبی عربی زبان میں ترجمے‬
‫کیے بیروت چھپے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ عربی زبان‬
‫پر عبور اس نے خود اپنی اَن تھک محنت سے کیا۔ کسی‬
‫یونیورسٹی میں تدریسی سے نہیں ۔وہ ایک بڑا قابل‬
‫انجینئربھی ہے۔جو میں مطلق نہیں ‘‘۔(‪)۱۸‬‬

‫ڈاکٹر خورشید رضوی محمد کاظم کی شخصیت کے حوالے سے لکھتے ہیں ۔‬

‫’’کاظم صاحب کا علمی مرتبہ غیر معمولی تھا ۔عربی‬


‫جیسی مشکل زبان انہوں نے اپنے طورپر سیکھ لی اور‬
‫اس میں غیر معمولی قدرت حاصل کر لی ۔ایک زمانے‬
‫میں جب وہ جماعت اسالمی کے حلقہ اثر میں تھے‬
‫انہوں نے موالنا مودودی کی متعدد کتابوں کا نہایت‬
‫شستہ ورواں عربی میں ترجمہ کیا۔مغربی جرمنی میں‬
‫ایک برس ان کا قیام رہا مگر اس مختصر سی مدت میں‬
‫انہوں نے جرمن سے زبان سے اچھی واقفیت بہم پہنچا‬
‫لی ۔قدیم عربی پر کام کرتے ہوے مجھے ایک آدھ مقام‬
‫پر کسی جرمن عبارت کا مفہوم جاننے کی ضرورت‬
‫پیش آئی تو انہوں نے مجھے اس کا رواں ترجمہ کر‬
‫دیا‘‘۔(‪)۹۰‬‬
‫کُتب ‪/‬تصانیف (تعارف)‬

‫عربی ادب میں مطالعے‪ : 1978‬ء میں مقاالت کا یہ مجموعہ نقش ّاو ل کتا ب‬ ‫‪۱‬۔‬
‫گھر الہور سے ’’مضامین ‘‘کے نام سے شائع ہوا۔‪1990‬ء میں اس مجموعے‬
‫کا نیا ایڈیشن سنگ میل پبلی کیشنز الہور نے ’’عربی ادب میں مطالعے ‘‘کے‬
‫اصل نام اور موزوں نام سے شائع کیا ۔‪2012‬ء میں اس کا دوسرا ایدیشن سنگ‬
‫میل پبلی کیشنز الہور کی طرف سے شائع ہوا ‪۱۰۱‬صفحات پر مشتمل اس‬
‫کتاب کی قیمت ‪291‬روپے ہے۔‬

‫مغربی جرمنی میں ایک برس( ‪ :‬سفر نامہ ) ‪۳۱۰‬صفحات پر مشتمل اس‬ ‫‪۱‬۔‬
‫سفرنامے کا دوسرا ایڈیشن ‪۱۰۰۱‬ء میں سنگ میل پبلی کیشنز الہور سے شائع‬
‫ہوا ۔اس کا انتساب بھائی اور دوست ’’احمد ندیم قاسمی ‘‘کے نام ہے ۔اس کی‬
‫قیمت ‪ ۳۰۰‬روپے ہے ۔اس کا پہال ایڈیشن سنگ میل پبلی کیشنز الہور نے‬
‫‪ ۱۸۱۱‬ء میں ’’دامن کو ہ میں ایک موسم ‘‘کے عنوان سے شائع کیا ۔‬

‫مسلم فکر و فلسفہ عہد بعہد ‪ :‬مسلمانوں کی فکری تاریخ کاایک جائزہ صفحات‬ ‫‪۳‬۔‬
‫پر مشتمل یہ کتاب مشعل الہور نے ‪ ۱۰۰۱‬ء میں شائع کی ۔‬

‫عربی ادب کی تاریخ( ‪ :‬دور جاہلیت سے موجودہ دور تک )اشاعت ّاول ‪،‬قیمت‬ ‫‪۴‬۔‬
‫‪-/711‬روپے ‪966‬صفحات پر مشتمل پر یہ کتاب ‪ ۱۰۰۴‬ء میں سنگ پبلی‬
‫کیشنز الہور نے شائع کی ۔اس کا انتساب االستاد مسعود الندوی کے نام ہے ۔‬

‫اخوان الصفا اور دوسرے مضامین ‪۱۹۶:‬صفحات پر مشتمل یہ کتاب پہلی بار‬ ‫‪۶‬۔‬
‫‪ ۱۰۰۳‬ء میں سنگ میل پبلی کیشنز الہور کی طرف سے شائع ہوئی اس کی‬
‫قیمت ‪ ۱۶۰‬روپے ہے ۔‬

‫عربی سیکھئے ‪۱۱۱ :‬صفحات پر مشتمل یہ کتاب ‪ ۱۰۰۱‬ء میں پہلی بار سنگ‬ ‫‪۱‬۔‬
‫میل پبلی کیشنز الہور سے شائع ہوئی اس کی قیمت ‪ ۳۰۰‬روپے ہے ۔‬
‫یادیں اور باتیں ‪( :‬خاکے اور مختلف مضامین‪ ) 199‬صفحات پر مشتمل یہ‬ ‫‪۹‬۔‬
‫کتاب ‪ ۱۰۱۰‬ء میں پہلی بار سنگ میل پبلی کیشنز الہور سے شائع ہوئی ۔اس‬
‫کی قیمت ‪ ۴۰۰‬روپے ہے ۔‬

‫کل کی بات‪( :‬جائز ے اور تبصرے ) ‪۱۱۹‬صفحات پر مشتمل اس کتاب کی‬ ‫‪۱‬۔‬
‫اشاعت ّاول ‪ ۱۰۱۰‬ء میں القاء پبلی کیشنز کی طرف سے ہوئی ۔اس کی قیمت‬
‫‪ ۴۸۶‬روپے ہے ۔‬

‫جنیدبغداد‪( :‬سوانح ‪،‬نظریات ‪،‬رسائل ) ڈاکٹر علی حسن عبدالقادر( صدر شعبہ‬ ‫‪۸‬۔‬
‫دینیات ‪،‬االزھر یونیورسٹی قاہرہ )نے ‪ ۱۸۱۹‬ء میں انگریزی میں لکھی اور‬
‫انگلستان میں علوم مشرقی کی نادر کتابیں چھاپنے والے ادارے گنبر میموریل‬
‫نے شائع کی ۔‪۳۰۴‬صفحات پر مشتمل یہ کتاب محمد کاظم کے اْردو ترجمہ کے‬
‫ساتھ ‪ ۱۰۰۹‬ء میں پہلی بار سنگ میل پبلی کیشنز الہور سے شائع ہوئی ۔‬

‫اسالم اور جدید یت ‪ :‬مصنف ‪:‬ڈاکٹر فضل الرحمن (پروفیسر شکا گو یونیورسٹی‬ ‫‪۱۰‬۔‬
‫امریکہ )‪ ۱۸۱۱‬ء میں یونیورسٹی آف شکاگو پریس سے شائع‬
‫ہوئی۔‪۱۶۴‬صفحات پر مشتمل یہ کتاب محمد کاظم کے اردو ترجمہ کے ساتھ‬
‫مشعل الہور کی طرف سے ‪ ۱۸۸۱‬ء میں شائع ہوئی اس کی قیمت ‪ ۱۱۰‬روپے‬
‫ہے ‪،‬دوسراایڈیشن ‪۱۰۰۸‬ء میں مشعل بکس ال ہو ر سے شا ئع ہوا ۔قیمت ‪۳۱۰‬‬
‫روپے صفحات ‪۱۶۴‬‬

‫قرآن کے بنیادی موضوعات ‪ :‬مصنف‪:‬ڈاکٹر فضل الرحمن مترجم ‪:‬محمد‬ ‫‪۱۱‬۔‬


‫کاظمصفحات پر مشتمل یہ کتاب ‪ ۱۰۰۱‬ء میں مشعل الہور سے شائع ہوئی ۔‬

‫اسالم ‪ :‬مصنف ڈاکٹر فضل الرحمن مترجم ‪:‬محمد کاظم ‪۳۳۱‬صفحات پر مشتمل‬ ‫‪۱۱‬۔‬
‫یہ کتاب ‪ ۱۰۰۱‬ء میں مشعل الہور سے شائع ہوئی‬

‫قرآن کریم کا سلیس اور رواں اُردو ترجمہ ‪،‬سنگ میل پبلی کیشنز الہور ۔سن‬ ‫‪۱۳‬۔‬
‫اشاعت ‪ ۱۰۱۱‬ء‬
‫مسلم فکر و فلسفہ عہد بعہد ‪ :‬مصنف‪:‬محمد کاظم قیمت ‪ ۳۰۰‬روپے ‪،‬صفحات‬ ‫‪۱۴‬۔‬
‫‪ ۳۱۱‬اشاعت ّاول ‪ ۱۰۰۱‬ء مشعل بکس الہور۔‬
‫حوالہ جا ت‬

‫عفت سر فراز‪،‬سہ ماہی ‪،‬الزبیر‪،‬بہاول پور ‪،‬خصوصی شماروں کا ادبی‬ ‫‪۱‬۔‬


‫و تحقیقی جا ئزہ ‪،‬ص‪۸‬‬

‫محمد کا ظم کے سفر نا مہ ‪ ،‬مغربی جر منی میں ایک برس کا تجزیا‬ ‫‪۱‬۔‬


‫تی مطا لعہ ‪،‬مقالہ نگار ‪،‬محمد شکیل ‪،‬سیشن ‪۱۰۰۸‬ء تا ‪ ۱۰۱۱‬ء مقالہ‬
‫برائے ایم اے ‪،‬ص‪۸‬‬

‫محمد کاظم کی علمی اور ادبی خد مات ‪ ،‬مقالہ نگار ‪،‬شا زیہ جبیں‬ ‫‪۳‬۔‬
‫‪،‬اورئنیٹل کا لج پنجاب یو نیورسٹی ‪ ،‬ال ہور‪،‬سیشن ‪۱۸۸۸‬ء تا ‪ ۱۸۸۱‬ء‬
‫مقالہ برائے ایم اے ‪،‬ص‪۱‬‬

‫ایضا َ ََ‬ ‫‪۴‬۔‬

‫مغربی جرمنی میں ایک بر س کا تجزیا تی مطالعہ ‪،‬ص‪۱۰‬‬ ‫‪۶‬۔‬

‫’محمد کا ظم کی علمی اور ادبی خدمات ‘‪،‬ص‪۱۰‬‬ ‫‪۱‬۔‬

‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪۱‬‬ ‫‪۹‬۔‬

‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪۱۰‬‬ ‫‪۱‬۔‬

‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪۴‬‬ ‫‪۸‬۔‬

‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪۶‬‬ ‫‪۱۰‬۔‬

‫ایضا َ ََ‬ ‫‪۱۱‬۔‬

‫مغربی جرمنی میں ایک بر س کا تجزیا تی مطالعہ ‪،‬ص‪۱۱‬‬ ‫‪۱۱‬۔‬

‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪۳‬‬ ‫‪۱۳‬۔‬


‫’محمد کا ظم کی علمی اور ادبی خدمات ‘‪،‬ص‪۱۴،۱۱،۱۹‬‬ ‫‪۱۴‬۔‬

‫محمد کاظم ‪،‬سید‪’،‬یادیں اور باتیں ‘سنگ میل پبلی کیشنز الہور ‪۱۰۱۰،‬‬ ‫‪۱۶‬۔‬
‫ء ص‪۱۱۱،۱۱۱‬‬

‫محمد کاظم ‪،‬سید‪’،‬کل کی با ت‘القا پبلی کیشنزالہور‪۱۰۱۰،‬ء ص‪vii‬‬ ‫‪۱۱‬۔‬

‫’دن جو علی گڑھ میں گزارے‘‪،‬مشمولہ ‪،‬ما ہنا مہ الحمرا ‪،‬جنوری‬ ‫‪۱۹‬۔‬
‫‪۱۰۱۱‬ء جلد ‪،۱۱‬شمارہ‪،۱‬ص‪۱۹۱‬‬

‫مغربی جرمنی میں ایک بر س کا تجزیا تی مطالعہ ‪،‬ص‪۱۱‬‬ ‫‪۱۱‬۔‬

‫’محمد کا ظم کی علمی اور ادبی خدمات ‘‪،‬ص‪۱۹،۱۱‬‬ ‫‪۱۸‬۔‬

‫محمد کاظم ‪،‬سید ‪’ ،‬مغربی جر منی میں ایک برس‘‪،‬سنگ میل پبلی‬ ‫‪۱۰‬۔‬
‫کیشنز الہور‪۱۰۰۱،‬ء ص‪۱۱۱‬‬

‫محمد کاظم ‪،‬سید‪’،‬کل کی با ت‘‪ ،‬ص‪vii‬‬ ‫‪۱۱‬۔‬

‫’محمد کا ظم کی علمی اور ادبی خدمات ‘‪،‬ص‪۱۱‬‬ ‫‪۱۱‬۔‬

‫مغربی جرمنی میں ایک بر س کا تجزیا تی مطالعہ ‪،‬ص‪۱۱‬‬ ‫‪۱۳‬۔‬

‫ایضا َ ََ‬ ‫‪۱۴‬۔‬

‫’محمد کا ظم کی علمی اور ادبی خدمات ‘‪،‬ص‪۱۰‬‬ ‫‪۱۶‬۔‬

‫ایضا َ ََ‬ ‫‪۱۱‬۔‬

‫محمد کاظم ‪،‬سید‪’،‬یادیں اور باتیں ‘‪،‬ص‪۱۱۱‬‬ ‫‪۱۹‬۔‬

‫’محمد کا ظم کی علمی اور ادبی خدمات ‘‪،‬ص‪۱۱‬‬ ‫‪۱۱‬۔‬

‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪۱۳‬‬ ‫‪۱۸‬۔‬


‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪۱۴‬‬ ‫‪۳۰‬۔‬

‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪۱۴،۱۶‬‬ ‫‪۳۱‬۔‬

‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪۱۱‬‬ ‫‪۳۱‬۔‬

‫محمد کاظم ‪،‬سید ‪’ ،‬مغربی جر منی میں ایک برس‘‪،‬ص‪۶۶‬‬ ‫‪۳۳‬۔‬

‫’محمد کا ظم کی علمی اور ادبی خدمات ‘‪،‬ص‪۱۱‬‬ ‫‪۳۴‬۔‬

‫رابعہ سر فراز‪ ،‬ڈاکٹر‪’،‬ترجمہ ‪،‬فن اور اہمیت‘‪،‬ہائر ایجو کیشن کمیشن‬ ‫‪۳۶‬۔‬
‫اسالم آباد‪۱۰۱۱،‬ء ‪،‬ص‪۱۴‬‬

‫محمد کاظم ‪،‬سید ‪’ ،‬مغربی جر منی میں ایک برس‘‪،‬ص‪۸‬‬ ‫‪۳۱‬۔‬

‫محمد کاظم ‪،‬سید‪’،‬یادیں اور باتیں ‘‪،‬ص‪۶۶‬‬ ‫‪۳۹‬۔‬

‫ایضا َ ََ‬ ‫‪۳۱‬۔‬

‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪۱۱،۱۱‬‬ ‫‪۳۸‬۔‬

‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪۱۱،۱۳‬‬ ‫‪۴۰‬۔‬

‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪۸،۱۰‬‬ ‫‪۴۱‬۔‬

‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪۴۱‬‬ ‫‪۴۱‬۔‬

‫مغربی جرمنی میں ایک بر س کا تجزیا تی مطالعہ ‪،‬ص‪۱۴‬‬ ‫‪۴۳‬۔‬

‫کل کی با ت‪ ،‬ص‪۹،۱‬‬ ‫‪۴۴‬۔‬

‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪viii‬‬ ‫‪۴۶‬۔‬

‫محمد کاظم ‪،‬سید ‪’ ،‬مغربی جر منی میں ایک برس‘‪،‬ص‪۱۱۱‬‬ ‫‪۴۱‬۔‬


‫احمد ندیم قاسمی ‪’،‬ایک تعلق کی یاد‘ ‪،‬مشمو لہ‪،‬یادیں اور باتیں‬ ‫‪۴۹‬۔‬
‫‪،‬ص‪۶۰،۶۱‬‬

‫کل کی با ت‪ ،‬ص‪۹‬‬ ‫‪۴۱‬۔‬

‫مغربی جرمنی میں ایک بر س کا تجزیا تی مطالعہ ‪،‬ص‪۱۳‬‬ ‫‪۴۸‬۔‬

‫’محمد کا ظم کی علمی اور ادبی خدمات ‘‪،‬ص‪۱۴‬‬ ‫‪۶۰‬۔‬

‫محمد کاظم ‪،‬سید ‪’ ،‬مغربی جر منی میں ایک برس‘‪،‬ص‪۶۴،۶۶،۶۱‬‬ ‫‪۶۱‬۔‬

‫مغربی جرمنی میں ایک بر س کا تجزیا تی مطالعہ ‪،‬ص‪۱۱‬‬ ‫‪۶۱‬۔‬

‫پیلھوں‪،‬اپریل تا جو ن ‪۱۰۱۴،‬ء مد یر ‪،‬ڈاکٹر انوار احمد ‪،‬ص ‪۱۹‬‬ ‫‪۶۳‬۔‬

‫پیلھوں ‪،‬جنوری تا مارچ‪ ،‬شمارہ ‪۶،۱۰۱۴‬ء‪،‬ص‪۱۳۳‬‬ ‫‪۶۴‬۔‬

‫روز نا مہ‪ ،‬جنگ‪ ،‬ملتا ن ‪ ۳۰،‬اپریل ‪۱۰۱۴‬ء ص‪۱۱‬‬ ‫‪۶۶‬۔‬

‫روز نا مہ‪ ،‬ایکسپریس‪،‬الہور‪ ۱۱،‬اپریل ‪۱۰۱۴‬ء ص‪۱۱‬‬ ‫‪۶۱‬۔‬

‫پیلھوں‪،‬شمارہ‪،۶‬ص‪۱۶،۱۱‬‬ ‫‪۶۹‬۔‬

‫روز نا مہ‪ ،‬جنگ‪ ،‬ملتا ن ‪۱۰،‬اپریل ‪۱۰۱۴‬ء ص‪۱‬‬ ‫‪۶۱‬۔‬

‫روز نا مہ‪ ،‬ایکسپریس‪،‬الہور‪ ۱۱،‬اپریل ‪۱۰۱۴‬ء ص‪۱۳‬‬ ‫‪۶۸‬۔‬

‫روز نا مہ‪ ،‬جنگ‪ ،‬ملتا ن ‪۱۶،‬اپریل ‪۱۰۱۴‬ء ص‪۸‬‬ ‫‪۱۰‬۔‬

‫روز نا مہ‪ ،‬جنگ‪ ،‬ملتا ن ‪۳۰،‬اپریل ‪۱۰۱۴‬ء ص‪۱۱‬‬ ‫‪۱۱‬۔‬

‫خو رشید رضوی ‪،‬ڈاکٹر ‪’،‬کاظم صا حب کی یا د میں ‘‪،‬مشمو لہ‬ ‫‪۱۱‬۔‬


‫‪،‬الحمرامئی ‪۱۰۱۴‬ء ال ہو ر ‪،‬ص‪۱،۹‬‬
‫روزنامہ ایکسپریس الہور‪ ۱۰ ،‬اپریل‪۱۰۱۴ ،‬ء‬ ‫‪۵۳‬۔‬

‫روز نا مہ جنگ‪ ،‬ملتا ن ‪۱۰،‬اپریل ‪۱۰۱۴‬ء ص‪؎۱‬‬ ‫‪۱۴‬۔‬

‫روزنامہ جنگ ملتان‪ ۱۶ ،‬اپریل ‪۱۰۱۴‬ء‬ ‫‪۱۶‬۔‬

‫روز نا مہ جنگ‪ ،‬ملتا ن ‪۳۰،‬اپریل ‪۱۰۱۴‬ء ص‪۱۱‬‬ ‫‪۱۱‬۔‬

‫روز نا مہ‪ ،‬ایکسپریس‪،‬الہور‪ ۱۱،‬اپریل ‪۱۰۱۴‬ء ص‪۱۱‬‬ ‫‪۱۹‬۔‬

‫پیلھوں‪،‬اپریل تا جو ن ‪۱۰۱۴،‬ء ص‪،‬ص‪۱۱‬‬ ‫‪۱۱‬۔‬

‫چند ادیبوں کے خوابیدہ خطوط ‪’،‬محمد خالداختر بنام ڈاکٹر انور محمو د‬ ‫‪۱۸‬۔‬
‫‘‪،‬فنون اپریل ‪۱۰۱۴‬ء جلد ‪،۱۴‬شمارہ ‪ ۴۱‬ص‪۱۸،۳۰،‬‬

‫خو رشید رضوی ‪،‬ڈاکٹر ‪’ ،‬کا ظم صا حب کی یا د میں‘‪،‬ص‪۱،۹‬‬ ‫‪۹۰‬۔‬

‫انور سدید ڈاکٹر ‪ ،‬پاکستان میں ادبی رسائل کی تاریخ (ابتداء تا ‪۱۸۱۱‬ء)‬ ‫‪‬‬
‫سال اشاعت ‪ ،۱۸۴۶‬مدیر‪ ،‬صہبا لکھنؤی‪ ،‬رشدی بھوپالی‪ ،‬ص ‪۱۱۱‬‬ ‫‪‬‬
‫سال اشاعت ‪ ،۱۸۶۹‬مدیر‪ ،‬سید عابد علی عابد‪ ،‬سجاد رضوی‪ ،‬ص‪۱۹۸‬‬ ‫‪‬‬
‫سال اشاعت ‪ ،۱۸۴۱‬مدیر‪ ،‬سید وقار عظیم ‪ ،‬ص‪۱۳۳‬‬ ‫‪‬‬
‫سال اشاعت ‪ ،۱۸۱۶‬مدیر‪ ،‬محمد اجمل خان نیازی‪ ،‬ص ‪۱۶۰‬‬ ‫‪‬‬
‫سال اشاعت ‪ ،۱۸۱۱‬مدیر‪ ،‬محمود ایاز‪ ،‬غالم محمد ‪ ،‬ص ‪۱۶۴‬‬ ‫‪‬‬
‫باب سوم‬

‫ڈاکٹر خورشید رضوی سوانحی حاالت (پ‪۶۲۲۹‬ء)‬

‫لفظ شخصیت جو بظاہر پانچ حروف کا مجموعہ ہے لیکن وسعت کے لحاظ‬


‫سے یہ اس بحر بیکراں کی مانند ہے جس کی حدود کا تعین گویا نا ممکنات میں سے‬
‫ہے ۔جب کسی بھی مصنف کا شخصی حوالے سے جائزہ لیا جاتا ہے تو اس کی زندگی‬
‫کے ہمہ پہلوؤں کا مطالعہ کیا جاتا ہے ۔‬

‫اعلی تعلیم سے‬


‫ٰ‬ ‫ڈاکٹر خورشید رضوی ایسا ہی صاحب بصیر ت عبقری ہے جو‬
‫بہر ہ ور منکسر المراج انسان ‪،‬بلندپایہ شاعر‪،‬محقق‪،‬مترجم ‪،‬نقاد ‪،‬خاکہ نگار اورعربی‬
‫داں ادیب ہے ۔ شخصی خوبیاں خامیاں ہر انسان کی ذات کا جْ ملہ پہلو ہیں ٰلہذا ڈاکٹر‬
‫خورشید رضوی بھی ان سے مبرا نہیں ہوگا ۔وقت کے ساتھ ساتھ اسے سازگار حاالت‬
‫بھی ملتے گئے اور یوں وہ ایک نہ ختم ہونے والے سفر کی طرف رواں ہو گیا اور‬
‫دیے سے جلنے کے مصداق اْس کے متعلمین اس راہ میں اس کے ہم قدم وہم سفر ہیں۔‬

‫انسان کی جنم بھومی اس کی زندگی میں نما یاں حیثیت رکھتی ہے کیو نکہ جو‬
‫مقام دل میں سما جا ئے وہ وقت کے سا تھ دھندال تو جا تا ہے لیکن کبھی مٹتا نہیں اور‬
‫ان مٹ نقوش ثبت کر جا تا ہے پھر جیسے ہی انسان زندگی کی گو نا گوں مصروفیات‬
‫سے تھو ڑی دیر کے لیے دم لیتا ہے تو عہد رفتہ کی یادیں مجسم ہو کر اس کے تخیل‬
‫میں ایک میال سا لگا دیتی ہیں اوروہ ان میں کھو کر بہت راحت محسوس کرتا ہے ۔‬

‫خورشید رضوی امروہہ میں پیدا ہوئے اسے آج بھی اپنے شہر سے بے پناہ‬
‫محبت ہے اور شاید وہ وہاں سے کبھی نہ آتا لیکن مقسوم ازل کے سامنے انسان بے‬
‫بس ہے۔تقسیم ملک کے وقت جب فسادات کی آندھی چلی تو اس نے ہر چیز کو اپنی‬
‫لپیٹ میں لے لیا اور صدیوں سے مقیم لوگ دکھوں کی چادر اوڑھے نقل مکانی پر‬
‫مجبور ہو گئے لیکن وہ آج تک اس زمین سے اپنا قلبی رشتہ نہ توڑ سکا۔ خورشید‬
‫رضوی بھی ایسی ہی صورت حال سے دو چار ہے گو وہ کم عمری ہی میں اپنی جنم‬
‫بھومی کی سکونت ترک کر کے اپنی والدہ اور دیگر قریبی اقرباء کے ہمراہ منٹ‬
‫گمری (ساہیوال)آگیا تھا لیکن امروہہ کی یاد آج تک اس کے دل سے محو نہ ہوسکی‬
‫اور اس کا ایک ایک نقش اس کی روح میں سمایا ہوا ہے ۔‬

‫’’خورشید رضوی ‪67‬مئی ‪ ۱۸۴۱‬ء کو یوپی کے‬


‫معروف شہر امروہہ میں پیدا ہوئے ۔اصل نام خورشید‬
‫الحسن اور ادبی دْنیا میں خورشید رضوی کے نام سے‬
‫شہرت پائی ‪،‬ددھیال اور ننہیال دونوں کا تعلق امروہہ‬
‫کے اہل سْنت سادات رضویہ سے تھا جو پیرزادگان کے‬
‫نام سے مشہور تھے ا ور اکبری دور کے معروف‬
‫بزرگ سید ابوالفتح عبداللہ کرمانی المعروف بہ ’’شاہ‬
‫ابن بدر چشتی‘‘کی اوالد میں تھے ان کا تذکرہ عبدالقادر‬
‫بدایونی نے منتخب التوار یخ میں کیا ہے ‘‘۔(‪(۱‬‬

‫کچھ رشتے ایسے ہوتے ہیں جو واقعی زندگی کی کڑی دھوپ میں گھنا سایہ‬
‫ہوتے ہیں اور اْن کی کمی اْس وقت زیادہ محسوس ہوتی ہے۔جب وہ ہمارے درمیان‬
‫سے آنا َ ََ فانا َ ََکہیں بہت دور ایسی جگہ چلے جائیں جہاں سے واپسی ناممکن ہو تو اْن‬
‫کو یاد کر کے ایک افسردہ آہ بھرنے کے سوا کچھ نہیں کیا جا سکتا کہ ازل سے یہی‬
‫دستور رہا ہے لیکن اْنھیں بْھال دینا نا ممکن ہے کیونکہ وہ ہماری ذات میں سرایت کر‬
‫جاتے ہ یں ۔خورشید رضوی بھی بچپن ہی میں کچھ ایسے رشتوں سے محروم ہو گیا‬
‫تھا کہ جن کی کمی زندگی میں بہت کچھ پالینے کے بعد بھی اْس کے اند ر نظر نہ‬
‫آنے والی اداسی کی صورت میں ڈھل گئی ۔قدرت کا بھی یہ اْصول ہے کہ جب وہ‬
‫کسی سے کوئی بڑا کام لینا چاہتی ہو تو اْسے بچپن ہی میں آزمائشوں میں مبتال کر‬
‫دیتی ہے یا یتیم کر دیتی ہے تاکہ وہ دُکھوں کی بھٹی سے گزر کر ْکندن بن سکے ۔‬

‫’’میرے والد سید حلیم الدین رضوی کلکتہ کی ایک‬


‫تجارتی کمپنی میں مالزمت کر تے تھے میں چار برس‬
‫کا تھا کہ ا ُ ن کا انتقال ہو گیا ۔اس سے ایک آدھ سال‬
‫پہلے مجھے کلکتہ کے گھر میں رہنا بھی کچھ کچھ یا د‬
‫ہے اس گھر کے مکینوں میں میرے والدین کے عالوہ‬
‫میں اور میری چھوٹی بہن رابعہ شامل ہے جو بچپن میں‬
‫چیچک کی وجہ سے فوت ہو گئی ۔والد کی وفات کے‬
‫بعد میری والدہ مجھے اور میری بہن کو ساتھ لے کر‬
‫اپنے میکے چلی آئیں ۔اس کے بعد ننہیال ہی میں میری‬
‫پرورش ہوئی ‘‘۔(‪(۱‬‬

‫اتنی کم عمر ی کے باوجود والد اور بہن کی یاد اُس کے دل میں آج تک ایک‬
‫کسک کی صورت میں موجود ہے کیونکہ اس کے بعد گھر کا ماحول بد ل جا تا ہے‬
‫اور اپنی والدہ کے ساتھ ننہیال آجاتا ہے۔پھر تقسیم ملک کے ہنگامے شروع ہو جاتے‬
‫ہیں اور وہ اپنے قریبی عزیزوں کے ہمراہ ‪ ۱۸۴۸‬ء میں چھ سات برس کی عمر میں‬
‫ساہیوال آگیا کیونکہ اُس کے ماموں جو محکمہ ریلوے میں مالزم تھے فسادات میں‬
‫جان بچاتے ہوئے پہلے ہی یہاں آگئے تھے اور ریلوے کو ارٹر میں مقیم ہوگئے ۔‬

‫خورشید رضوی کا بچپن تنگی حاالت کا غماز ہے ویسے تو اس وقت اُس کے‬
‫اردگر د سب لوگوں کے مالی حاالت کچھ زیادہ اچھے نہ تھے ضروریات زندگی کی‬
‫دستیابی میں مشکالت در پیش تھیں لیکن اس نے بہت حوصلے سے حاالت کا مقابلہ‬
‫کیا اور زندگی کی دوڑ میں کسی لمحہ کو تاہی نہ برتی۔‬

‫اس حوالے سے وہ خود لکھتا ہے ۔‬

‫’’چھ سات بر س کی عمر میں منٹ گمری پہنچا۔ ریلوے‬


‫کوارٹرز کا ایک خاص ماحول تھا۔پانچ سات کوارٹروں‬
‫کے بعد ایک سرکاری نل لگا ہو تا تھا جس سے لوگ‬
‫بالٹیوں میں بھر بھر کر گھر لے جاتے تھے چولھا‬
‫جالنے کے لیے پھٹی ہوئی لکڑیاں مہنگے داموں ملتی‬
‫تھیں ۔اس لیے ہر گھر میں ایک کلہاڑی سے انہیں پھاڑا‬
‫جاتا تھا میں نے بھی لڑکپن میں تھوڑی بہت لکڑیاں‬
‫پھاڑی ہیں ۔غربت اور مفلوک الحالی عام تھی ۔طویل‬
‫مسافتیں پیدل ہی طے کی جاتی تھیں ۔میں سات آٹھ برس‬
‫کی عمر میں بھاری بستہ کا ندھے پر لٹکائے تین میل‬
‫جاتے اور تین میل آتے کی یہ مسافت پید ل ہی طے کیا‬
‫کرتا تھا‘‘۔(‪(۳‬‬

‫غلیل سے پرندوں کا شکار ‪،‬درختوں پر چڑھنا اور گلی ڈنڈا کھیلنا اُس کے‬
‫بچپن کے پسندیدہ مشاغل تھے ۔بہن کی وفات کے بعد خورشید رضوی اپنی والدہ کی‬
‫اکلوتی اوالد تھا لیکن اس کے باوجود اس کی والدہ نے اس کی تعلیم و تربیت میں کسی‬
‫قسم کی کوتاہی نہیں کی ۔بے جا الڈ پیار سے گریز کیا تاکہ وہ ایک باعمل انسان بن‬
‫سکے ۔بچپن میں اس کو جو ماحول مال وہ بھی مذہبی قسم تھا ۔اْن کی والدہ دیندار اور‬
‫وصلوۃ کی پابند تھیں ۔وہ اپنی والدہ کا بے حد احترام کرتا تھا ۔‬
‫ٰ‬ ‫صو م‬

‫صلوۃ کی بے‬
‫ٰ‬ ‫’’میری والدہ صاحبہ دیندار اور صوم و‬
‫حد پابند تھیں ۔بچپن میں جب صبح میری آنکھ کھلتی تو‬
‫ان کی تالوت اور پھر منظوم مناجات کی آواز میرے‬
‫کانوں میں پڑتی یہ آواز زندگی بھر میرے ساتھ رہی تا‬
‫آنکہ ‪۱۰۰۸‬ء میں یہ بہت دور کی آواز بن گئی‘‘۔(‪(۴‬‬

‫بچپن میں خورشید رضوی نے اپنے خالو سے اپنی تعلیم کا آغاز کیا جو‬
‫مزاجا َ ََ بہت سخت تھے لیکن اس کی والدہ نے اس کے آنے والے اچھے کل کی‬
‫خاطر کبھی کوئی تعرض نہ کیا ۔اس نے اپنی والدہ کی خواہش پر چھٹی جماعت میں‬
‫عربی بطور مضمون اختیار کی حاالنکہ انہیں عربی کی کوئی خاص ُ‬
‫شد بُدنہ تھی‬
‫محض رٹا لگا کر پاس ہو جاتا تھا ۔‬

‫’’میں نے والدہ کے کہنے پر عربی کا مضمون تو‬


‫اختیار کر لیا اور رٹ رٹا کر اسکول میں پاس بھی ہو‬
‫جاتا تھا مگر حقیقت یہ ہے کہ عربی کافہم مجھے مطلق‬
‫حاصل نہ تھا ‘‘۔(‪(۶‬‬
‫خورشید رضوی اپنے اساتذہ کا بہت احترام کرتا تھا اور اسے آج بھی اپنے‬
‫اساتذہ کا طریقہ تدریس یادہے ۔اس کا ذکر وہ بہت عقیدت سے کرتا ہے ۔وہ اپنی مادر‬
‫علمی گورنمنٹ ہائی سکول منٹ گمری کی فضا کو اپنے اند ر رچا ہوا محسوس کرتا‬
‫ہے ۔اس کو یاد کرتے ہوئے وہ ایک خاص طرح کی سر شاری محسوس کرتا ہے۔‬

‫عمر کے حوالے سے حساسیت زیادہ تر خواتین میں پائی جاتی ہے کہ وہ‬


‫اپنی ُ‬
‫بار بار یہی ثابت کرنا چاہتی ہیں کہ وہ کم عمر ہیں لیکن یہاں پر مجھے فاضل مصنف‬
‫و شاعر خورشید رضوی بھی اسی کیفیت میں نظر آتا ہے اپنی کم عمری کا حوالہ‬
‫انہوں نے بار ہا دیا ہے۔‬

‫’’کاغذوں میں میری تاریخ پیدائش دوسال زیادہ لکھی‬


‫ہوئی ہے شاید اس وقت کم عمر ہونے کے سبب داخلہ‬
‫نہیں دیتے ہوں گے ‘‘۔(‪(۱‬‬

‫’’میری عمر اور مرحلہ تعلیم میں بہت کم فرق تھا جس‬
‫وقت میں گورنمنٹ کالج منٹگمری میں داخل ہوا ۔وہاں کا‬
‫سب سے کم عمر طالب علم تھا ۔عمر تیرہ برس تھی اس‬
‫وقت طالب علم مجھے حیرت سے دیکھتے کہ یہ کہاں‬
‫کالج میں آگیا ‘‘۔‬

‫کمر عمری کا یہ احساس نہ جانے کیوں اسے مضطرب رکھتا ہے کہ جب جب‬


‫تعلیم کے حوالے سے ذکر آیا تو اس نے اپنی کمر عمری کے حوالے سے ضرور‬
‫گفتگو کی ہے یہ سلسلہ مالزمت تک بھی ساتھ جاتا ہے۔‬

‫’’‪۱۸۶۶‬ء میں میٹرک پاس کرنے کے بعد میں نے‬


‫گورنمنٹ کالج منٹ گمری میں داخلہ لیا تو میں کالج کا‬
‫سب سے کم عمر طالب علم تھا ۔اس وقت میری حقیقی‬
‫عمر تیرہ سال تھی جبکہ کا غذات میں درج فرضی‬
‫تاریخ پیدائش (‪۱‬دسمبر ‪۱۸۴۰‬ء)کی رو سے میں پندر ہ‬
‫برس کا ہو چکا تھا ۔مجھے کچھ معلوم نہیں کہ یہ تاریخ‬
‫پیدائش کس نے اور کیوں لکھوائی غالبا َ ََ جب مجھے‬
‫اسالمیہ ہائی سکول میں درجہ پنجم میں داخل کر ایا جا‬
‫رہا ہو گا تو عمر کم ہونے کی وجہ سے میرے دونوں‬
‫ماموؤں میں سے کسی نے ایک ایسی تاریخ پیدائش کا‬
‫اندراج کرادیا جس کے مطابق میں پانچویں جماعت میں‬
‫داخلے کے لیے قبول کیا جاسکوں بہر حال اب میرے‬
‫تمام سر کا ری و رسمی کا غذات میں یہی میری تا ریخ‬
‫پیدائش کے طور پر درج ہے‘‘۔(‪(۹‬‬

‫گورنمن ٹ کالج منٹ گمری میں زمانہ طالبعلمی کے دوران وہ انتہائی فعال‬
‫طالب علم تھا ۔ابتداء میں تو اس کے دونوں ماموں جو کالج میں نمایاں حیثیت کے‬
‫حامل تھے اُن کی وجہ سے کا لج میں اسے ایک مؤثر حوالہ مل گیا کیونکہ اْس کے‬
‫ماموں شمیم احمد مجلہ ساہیوال کے مدیر تھے۔ بی اے کے بعد اور ینٹل کالج الہور‬
‫سے ایم اے (عربی )میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔‬

‫کالج کی فضا اس کے لیے بہت سود مندثابت ہوئی کیونکہ وہاں پر پڑھانے‬
‫والے تمام اساتذہ بہت قابل تھے اور انہوں نے اس کے علمی شو ق کی آبیاری میں‬
‫نمایاں کردار ادا کیا ۔کالج کے پرنسپل وسیع علمی نقطہ نظر رکھتے تھے اور اس کے‬
‫ساتھ ساتھ بہترین انتظامی صالحیتوں کے مالک تھے و ہ فردا ً فردا ًہر طالبعلم کے‬
‫مسائل کے بارے میں جاننے کے لیے کوشاں رہتے اور ان کے حل کے لیے اپنی‬
‫طرف سے پوری کوشش کرتے تاکہ کسی بھی طالب علم کے ساتھ زیادتی نہ ہو ۔‬

‫محنت اور لگن خورشید رضوی کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی اس لیے روشن‬
‫مستقبل کی ضامن منزل گویا اُسے اپنی طرف کھینچ رہی تھی ۔اسی لیے اس کے‬
‫تعلیمی مراحل بہت جلد طے ہو گئے ۔‬

‫کالج میں اپنے وقت کے نامور اور قابل ترین استاد صوفی ضیاالحق کا‬
‫تلمذحاصل ہونا بھی اُس کے لیے کسی سعادت سے کم نہیں ۔انہوں نے اس کے اندر‬
‫علم کی ایسی جوت جگائی کہ جس نے آگے جاکر ان گنت چراغ جالئے اور ایسے‬
‫قابل فخر شاگرد رشید سامنے آئے جن کے بارے خورشید رضوی کا شعر ہے ۔‬

‫تھے کتنے قافلے کہ ملے اور بچھڑ‬


‫گئے‬
‫میں سنگ میل ہوں کہ جہاں تھا وہیں پہ‬
‫ہوں‬

‫وہ خود کو بہت خوش قسمت سمجھتا ہے کہ اسے صوفی ضیاء الحق کی‬
‫شاگردی میسر آئی اور عربی میں تخصص حاصل ہو ا کیونکہ وہ سبق رٹوانے کی‬
‫بجائے خوابیدہ صالحتیں بیدار کرتے تھے ۔خورشید رضوی کو صوفی ضیاء الحق‬
‫سے مسلسل چھ برس تک باقاعدہ عربی پڑھنے کا موقع مال ۔‬

‫’’میں اورینٹل کالج میں ایم اے عربی کرنے کے لیے‬


‫گیا تو اس وقت صوفی صاحب گورنمنٹ کالج الہور میں‬
‫صدر شعبہ عربی تھے چنانچہ کالس میں بھی ان سے‬
‫پڑھتا رہا اور گھر پر بھی جاتا رہا ۔اس طرح مجھے ان‬
‫سے مسلسل چھ برس تک باقاعدہ عربی پڑھنے کا موقع‬
‫مال ‘‘۔(‪(۱‬‬

‫صوفی ضیاالحق نے اسے عربی میں اتنارواں کر دیا تھا اس نے ایم اے کے‬
‫مقالے میں بھی عربی قصیدے کی شرح لکھی۔‬

‫’’امام بوصیری ؒ کے قصیدے ’ذخرالمحاد ‘‘کی شرح‬


‫لکھی اور ان کے حاالت زندگی پر کام کیا۔اس زمانے‬
‫میں نہ تو فوٹو اسٹیٹ کی سہولت تھی اور نہ ہمارے‬
‫پاس اتنے پیسے ہوتے تھے کہ ٹائپ کروالیتے میں نے‬
‫اپنے مقالے کی چار کاپیا ں اپنے ہاتھ سے تیار‬
‫کیں۔پانچویں ذاتی کاپی نہ بنائی جا سکی ‘‘۔(‪(۸‬‬
‫فارسی بھی اس نے ایف اے اور بی اے میں بطور آپشنل پڑھی اور اسی دوران‬
‫صوفی ضیاالحق نے شیخ سعدی کی ’’گلستان‘‘بھی نصف کے لگ بھگ سبقا َ ََ سبقا َ ََ‬
‫پڑھا دی ۔مزید ا ستعداد اس نے ذاتی طور پر غالب اور اقبال کے مطالعہ سے حاصل‬
‫کی۔‬

‫خورشید رضوی کو جو ادبی مقام حاصل ہوا اس میں اُس کی ذاتی لگن اور‬
‫کاوش کو بہت دخل ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ اسے تعلیمی ماحول بھی طبیعت کے‬
‫مطابق ملتا گیا ۔حصول تعلیم کے بعد جب انسان عملی زندگی کا آغاز کرتا ہے تو در‬
‫حقیقت ایک طرح کی پختگی دل ودماغ پر طاری ہو جاتی ہے اور انسان خود کو‬
‫میچور سمجھنے لگتا ہے لیکن جب کم عمری کا احساس ذہن میں ہو تو ہر نگاہ خود پر‬
‫مرکوز محسوس ہو تی ہے۔‬

‫’’‪۱۸۱۱‬ء میں ایم اے کے بعد جنوری ‪۱۸۱۱‬ء میں محکمہ تعلیم کی طرف‬
‫سے لیکچرر کی حیثیت سے مجھے گورنمنٹ انٹر کالج بہاول پور میں تعینات کر دیا‬
‫گیا ۔اس وقت میرے اکثر شاگرد عمر میں مجھ سے بڑے تھے پہلے پہل جب میں‬
‫کالس میں لیکچر دیا کرتا تو باہر برآمدے میں محض مجھے دیکھنے کے لیے لڑکوں‬
‫کے ٹھٹھ لگ جا تے مگر میں نے اس پر قا بو پا یا اور نکل کر برآمدے میں ان‬
‫تماشائیوں کے پاس گیا کہ آپ کو میرے با رے میں کچھ تجسس ہے ؟‬

‫’’جو کچھ آپ کو پوچھنا ہے پوچھ لیجیے مگر ازراہ‬


‫کرم آئندہ میری کالس کے سامنے ہجوم نہ کیجئے ۔اس‬
‫سے میری یکسوئی میں خلل آتا ہے ۔لڑکوں نے مجھ‬
‫سے کچھ سوال پوچھے اور پھر مطمئن ہو کر چلے‬
‫گئے ۔تا ہم گلیوں بازاروں میں چلتے پھرتے بھی مجھے‬
‫اُن ترچھی نگاہوں کا احساس رہتا تھا جو تجسس سے‬
‫مجھے دیکھا کرتی تھیں ‘‘۔(‪(۱۰‬‬

‫بہاولپور میں ایک سال قیام کے بعد پبلک سروس کمیشن سے لیکچرر منتخب‬
‫ہو کر سرگودھا کالج میں تعینا ت ہونے کے بعد اور وہاں بائیس برس وہیں گزارے۔‬
‫اس کائنات میں کچھ رشتے تو پیدائش کے ساتھ ہی انسان سے یوں جڑے ہوتے‬
‫ہیں کہ وہ تادم حیات برقرار رہتے ہیں ۔وقت کے ساتھ ساتھ ان کی نوعیت ضرور بدل‬
‫جاتی ہے ۔ترجیح میں فرق آجاتا ہے ۔مگر ختم نہیں ہوتے یہی رشتے خون کے رشتے‬
‫کہالتے ہیں لیکن ایک ایسا رشتہ جو ان سب رشتوں کے بعد وقوع پذیر ہوتا ہے ۔لیکن‬
‫اہمیت کے اعتبار سے ذہنی اختالف کے باوجود سب رشتوں پر حاوی ہو تا ہے ۔یہ‬
‫رشتہ ازدواج کے مقدس بندھن میں منسلک ہونے کے بعد وجود مینآتا ہے اس رشتے‬
‫سے جو رشتے جنم لیتے ہیں وہ اتنے پائیدارا ور عزیز ہوتے ہیں کہ اْن کا تعارف‬
‫زندگی کا حاصل سمجھا جاتا ہے ۔‬

‫’’خورشید رضوی کی شادی ‪۱۸۱۹‬ء میں اپنے ہی‬


‫خاندان میں قیام سرگودھا کے دوران ہوئی اور دونوں‬
‫بیٹے سرگودھا ہی میں پیدا ہوئے اور وہیں اپنا گھر‬
‫تعمیر کر لیا ۔اسی زمانے میں عربی میں پی ایچ ڈی کے‬
‫لیے مقالہ لکھا ۔جو ‪۱۸۱۱‬ء میں جامعہ پنجاب سے‬
‫ڈاکٹریٹ کے لیے منظور کر لیا گیا ۔سرگودھا سے کہیں‬
‫اور جانے پر شایدوہ کبھی آمادہ نہ ہوتے مگر ہوا یوں‬
‫کہ پبلک سروس کمیشن نے انہیں انیسویں گریڈ میں‬
‫بطور پرنسپل منتخب کر کے سرگودھا کے گورنمنٹ‬
‫انبالہ مسلم کالج میں تعینا ت کر دیا ۔ وہ طبعا َ ََ تدریس‬
‫کے آدمی ہیں اس لیے جب سال بعد ڈیپوٹیشن پرادارہ‬
‫تحقیقات اسالمی‪ ،‬اسال م آباد میں جانے کا موقع مال تو‬
‫انہوں نے فی الفور اس انتظامی عہدے سے سبکدوش ہو‬
‫جانے کو غنیمت سمجھا‘‘۔(‪(۱۱‬‬

‫خورشید رضوی کا بڑا بیٹا عامر خورشید (پ ‪)۱۸۱۸‬سعودی عرب میں ایک‬
‫پرائیویٹ کمپنی کے جنرل منیجر ہے۔دوسرا بیٹا عاصم خورشید (پ‪)۱۸۹۳‬میڈیکل‬
‫ڈاکٹر کی حیثیت سے برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس سے منسلک ہے اور شاعری‬
‫ہے۔‬ ‫کرتا‬ ‫بھی‬
‫خورشید رضوی انتظامی عہدوں سے دُور کہ کسی ایسی جگہ جانا چاہتا تھا جہاں وہ‬
‫تدریس سے اپنا رشتہ برقرا ر رکھ سکے یہ بات نہیں کہ ان میں انتظامی صالحیت‬
‫مفقو د تھی لیکن اس سے ا ُن کا پسندیدہ سلسلہ تدریس متاثر ہوتا تھا جس سے وہ ذہنی‬
‫طور بہت متاثر ہوتا تھا باآلخر چھ سال بعد ‪ ۱۸۸۱‬ء میں صدر شعبہ عربی کی حیثیت‬
‫سے گورنمنٹ کالج الہورآگیا ۔اس کے لیے اسے بہت تگ ودو کرنی پڑی لیکن صدر‬
‫شعبہ کی حیثیت سے بھی انتظامی ذمہ داریوں کا بوجھ تدریس پر اثر انداز ہوتا ہے‬
‫۔توجہ ایک جگہ پر مرکوز نہیں رہتی اس لیے اس نے قبل از وقت ہی ریٹائر منٹ کا‬
‫فیصلہ کر لیا ۔‬

‫’’چار برس شعبے کی صدارت کے بعد میں نے اُس‬


‫وقت کے بعض حاالت کے پیش نظر بعض احباب کے‬
‫مشورے پر ‪ ۱۸۸۶‬ء کے اواخر میں قبل از وقت‬
‫ریٹائرمنٹ لے لی‘‘۔(‪(۱۱‬‬

‫خورشید رضوی طبعا َ ََ ُ‬


‫بردباد شخصیت ہے اس کا ا س بات پر یقین ہے کہ ہر‬
‫کام کا ایک مناسب وقت ہو تا ہے اور وہ اُسی وقت ہوتا ہے ٰلہذا جلد بازی اْس کے‬
‫مزاج کا خاصہ نہیں ہے ۔اس لیے اس کی قبل از وقت ریٹائرمنٹ نے ایک دم تو سب‬
‫کوحیرت زدہ کر دیا کہ آخر وجہ کیا ہے ؟‬

‫احمد ندیم قاسمی لکھتے ہیں‬

‫’’مجھے اْن کے مزاج میں جلد بازی کا کوئی سراغ‬


‫نہیں مال مگر اپنی ریٹائرمنٹ کے سلسلے میں انہوں نے‬
‫جس عجلت سے کام لیا ہے اس کا پس منظر میری‬
‫سمجھ میں نہیں آیا ۔میں نے ایک بار ان سے پوچھا بھی‬
‫تھا انہوں نے اپنی نرم گفتاری کے پردے میں جواب‬
‫یوں گو ل مول کر دیا تھا کہ مزید تفصیل پوچھنے کی‬
‫مجھے جرات نہیں ہوئی ‘‘۔(‪(۱۳‬‬
‫خورشید رضوی اب خودبھی مالزمت کے بندھن سے خود کو آزاد کر دینا‬
‫چاہتاتھا تاکہ وہ اپنی تصنیف و تالیف کی طرف یک سوئی سے توجہ دے سکے ۔‬

‫اس لیے اپنے دوست کے نام خط میں اس حوالے سے لکھتا ہے ۔‬

‫’’میں اپنے منصوبے کے مطابق الحمداللہ ‪۹‬دسمبر سے‬


‫سبکدوش ہو چکا ہوں خاصا ہلکا پھلکا محسوس کر رہا‬
‫ہوں ۔یونی ورسٹی میں ہفتے میں دو بارتدریس کا سلسلہ‬
‫جاری ہے۔گورنمنٹ کالج والے بھی چاہتے ہیں کہ نئے‬
‫سال سے میں وہاں بھی کنٹریکٹ پر تدریس میں کچھ‬
‫حصہ لیتا رہوں ۔میرا ارادہ یہ ہے کہ جن دو دنوں میں‬
‫اور ینٹل کالج جاتا ہو ں انھی میں ایک دن اور بڑھا کر‬
‫ہر ہفتے میں تین روز کی مصروفیت اختیار کروں اور‬
‫باقی چار روز فارغ رہ سکیں جن میں اپنی پسند کے کام‬
‫جاری رکھے جائیں‘‘۔(‪(۱۴‬‬

‫خورشید رضوی اپنے نقطہ نظر کو نپے تُلے انداز میں پیش کرنے والے محقق‬
‫اور نقادہے لیکن اس سب کے ساتھ ساتھ اس کی پہلی حیثیت ایک شاعرکی ہے اور‬
‫دوسری حیثیت ایک عربی داں کی ۔ہر انسان کے اندر مختلف صالحتیں پوشیدہ ہو تی‬
‫ہیں اور شعور ذات اسی کا نا م ہے کہ ان صالحیتوں کا کھوج لگا کر انہیں مناسب‬
‫انداز میں لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے ۔شاعری ایک ودیعت کردہ الہامی‬
‫صالحیت ہے اس کا اصل جو ہر انداز میں فطری پن اور سادگی ہے کیونکہ یہ ابالغ‬
‫ہے۔‬ ‫ذریعہ‬ ‫ترین‬ ‫موثر‬ ‫کا‬
‫خورشید رضوی نے اپنی شاعر انہ زندگی کا آغاز گویا لڑکپن سے ہی کر دیا تھا بلکہ‬
‫خود بخود ہی آغاز ہو گیا تھا ۔‬

‫’’میری شاعرا نہ زندگی کا آغاز دس بارہ برس کی عمر میں ایک شعر سے ہوا‬
‫۔ریلوے اسٹیشن منٹ گمر ی کے چھوٹے سے کوارٹر میں ایک کھڑکی کے پا س‬
‫کھڑے ہو کر ایک شعر کا نوٹ بُک میں لکھنا مجھے اب تک یا دہے ‘‘۔ شعریوں تھا‪:‬‬
‫ہر شب کو فلک پر ہیں چمکتے ہوئے‬
‫تارے‬
‫خورشید نکلتا ہے تو چھپ جا تے ہیں‬
‫سارے‬

‫اس وقت اس نے ایک شعر ہی کہا یا گھر یلو تقریبات کی مناسبت سے تہنیتی‬
‫اشعار ‪،‬سہرے ‪،‬سہاگ لکھے ‪،‬لیکن انہیں محفوظ نہ رکھ سکے ۔‬

‫جب وہ گورنمنٹ کالج ساہیوال زیر تعلیم تھا تو اس کی پہلی غزل شائع ہوئی‬
‫اور یہ خوشی دیدنی تھی کیونکہ ایک تو یہ ولولے سے بھر پور دور تھا اور دوسری‬
‫خوشی اس بات کی کہ پہلی شائع ہونے والی غزل تھی ۔‬

‫یہ غزل غالب کی زمین میں کہی تھی ۔اس کے اساتذہ نے بہت حوصلہ افزائی‬
‫کی ۔اس غزل کا ایک شعر یہ ہے ۔‬

‫قفس کی تیلیاں کیا کم ہیں تنکوں سے‬


‫کے‬ ‫نشیمن‬
‫قفس میں رہ کے پھر ہم کو تالش آشیاں‬
‫ہو‬ ‫کیوں‬

‫پہلی اشاعت پر اپنی سر شاری کی کیفیت وہ یوں بیا ن کر تا ہے ۔‬

‫’’یہ غزل اساتذہ کی نظر میں اس طرح آئی کہ یہ کالج‬


‫کے مجلہ ساہیوال میں شائع ہوئی تھی اور یہ میری پہلی‬
‫چیز تھی جو کہیں شائع ہوئی تھی مجھے وہ بے تابی یا‬
‫دہے جب ساہیوال کے پلندے تازہ تازہ چھپ کر آئے‬
‫اورستلیوں میں جکڑے ہوئے الئبریری کے کاؤنٹر کے‬
‫ساتھ ڈھیر کر دیے گئے ۔مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ میر‬
‫۔الہی کو ن سی گھڑی ہو گی کہ‬ ‫ی غزل چھپ گئی ہے ٰ‬
‫یہ پلندے کھلیں گے اور رسالہ تقسیم ہو گا ۔ظاہر ہے کہ‬
‫الئبریرین صاحب کو اس سلسلے میں کوئی جلدی نہ‬
‫تھی آخر میں نے اسی جکڑے ہوئے پلندے کے صفحات‬
‫کو انگلیاں مضبوطی سے جما جما کر تھوڑا تھوڑا سر‬
‫کا یا اور رسالے کے اند ر جھانکنا شروع کیا اور جب‬
‫ایک بے ڈھب زاویے سے ’’کیوں ہو‘‘کی ردلیف عمدہ‬
‫سفید کاغذ پرٹائپ کے حروف میں چھپی ہوئی دکھائی‬
‫دے گئی ۔تو ایک ایسی سر شاری کی کیفیت پیدا ہوئی‬
‫جو بیاں سے باہر ہے ‘‘۔(‪(۱۶‬‬

‫چہرہ تو جذبات سے عاری ہو سکتا ہے لیکن دل کبھی بھی نہیں ہو تا ہر ذی‬


‫بشر عمر کے ایک خاص حصے میں اس کیفیت سے دوچار ہوتا ہے ۔اس کی شدت کو‬
‫کچھ لوگ تو اپنے دل کے نہاں خانوں میں ُچھپا لیتے ہیں او ر اس کی میٹھی سی‬
‫کسک ساری زندگی م حسوس کرتے ہیں یہ کسک نارسائی کی صورت میں ہی‬
‫محسوس ہوتی ہے جبکہ کچھ افراد اس شدت سے اظہار وفا کرتے ہیں اور مطلب‬
‫براری نہ ہونے کی صورت میں ذہنی وقلبی کر ب سے گزرتے ہیں اور دیوانہ وار‬
‫اپنی واردات قلبی کا بر مال اظہار کرتے ہیں حاالنکہ یہ تعلق دل سے دل تک ہوتا ہے‬
‫اور اس کو لفظو ں کی خوبصور ت رد ا میں ہی لپیٹ دینا چاہیے ۔یہ حقیقت طے شدہ‬
‫ہے کہ نارسائی کا پہلو ہمیشہ محبت کو مضبوط بناتا ہے ۔‬

‫’’ خورشید رضوی کی مقناطیسی شخصیت کا اثر ہے اس سے جو ملتا ہے‬


‫گرویدہ ہو جاتا ہے۔اس کے پاس ایک ایسا سحر ہے’’جس سحرسے سفینہ رواں ہو‬
‫سراب میں‘‘‬

‫سب سخن میں بھی نہ سمٹیں گے خزینے‬


‫کے‬ ‫دل‬
‫دفن دل ہی میں رہیں گے یہ دفینے دل‬
‫کے‬
‫لیکن زندگی کی سفاکی کا کیا کیجئے کہ مدّعا طلبی میں یہ سحر غالب کی‬
‫طرح خورشید رضوی کے بھی کام نہ آیا ۔اس وقت و ہ نصف نہار شباب پر تھے ۔اس‬
‫حادثے سے وہ پلک جھپکنے میں (بقول خود)برج کہولت میں آگئے اور اُردو شاعری‬
‫کو ’’شاخ تنہا‘‘کی غزلوں کا تحفہ مل گیا ‘‘۔‬

‫تم صبا کی طرح آئے اور رخصت ہو‬


‫گئے‬
‫ہم مثال شاخ تنہا دیر تک لرزاں رہے‬

‫نو جوانی میں ہر انسان کے اندر آگے بڑھنے اور کچھ خاص کر لینے کا جذبہ‬
‫پنہاں ہو تا ہے اس لیے اپنے ہم مزاج حلقوں میں جانے کے بہانے ڈھونڈتا ہے لیکن‬
‫ناموری ملنے کے بعد وہ اپنے آپ کو محدود کر لیتا ہے شاید ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ‬
‫وقت کے ساتھ اس کی فکر میں گہرائی آجاتی ہے اور اپنے ان احساسات کو صفحہ‬
‫قرطاس پر منتقل کرنے کے لیے ذہنی یکسوئی درکار ہوتی ہے جو کہ تنہائی کے بغیر‬
‫ممکن نہیں اور یوں وہ آہستہ آہستہ محفلوں سے کنا رہ کشی اختیار کر لیتا ہے اور‬
‫خود کو با مقصد تخلیقی تنہائی کا پابند کر لیتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اُس‬
‫میں اپنی ذات کے حوالے سے کوئی بڑاپن آجاتا ہے ۔خورشید رضوی بہت مجلسی‬
‫آدمی کبھی نہیں رہااسے نامور لوگوں سے زیادہ ملنے کا شوق نہیں لیکن اُس میں‬
‫انکسار اس حد تک ہے کہ اس نے اپنے نام کے ساتھ کبھی ’’ڈاکٹر‘‘نہیں لکھا تاہم‬
‫ادبی محفلوں میں وہ کبھی کبھار چال جاتا ہے زمانہ طالب علمی کی محفلوں کے‬
‫حوالے سے کہتاہے۔‬

‫’’کالج کے زمانے میں (ساہیوال میں )ادبی محفلوں میں‬


‫جانا شروع کر دیا کچھ اصالح میں نے ڈاکٹر محمد‬
‫صوفی ضیاء الحق سے لی تھی جو کہ عربی کے بہت‬
‫بڑے عالم تھے وہ شاعر بھی تھے ۔اس دور کی محفلوں‬
‫میں مجید امجد ‪،‬ظفر اقبال‪،‬منیر نیازی‪،‬حاجی بشیر احمد‬
‫‪،‬عطاء اللہ جنون آتے تھے ‘‘۔ (‪)۱۱‬‬
‫تاہم یہا ں پرکچھ تضاد محسوس ہوتا ہے کہ تنہائی پسند ہونے کے‬
‫باوجودپاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پاکستان سے بہت سے تعلیمی ‪،‬مذہبی اور ادبی‬
‫پروگراموں میں شرکت و میزبانی کے فرائض انجام دے رہے ہیں ۔لیکن اس حقیقت‬
‫سے بھی مفر نہیں کہ ہر تخلیق کار تنہائی میں راحت محسوس کر تا ہے۔‬

‫بلند پایہ استاد ہونے کے ساتھ ساتھ اسے لفظوں کو ایک خوبصورت لڑی میں‬
‫پرو کر شاعری کے صحن گلشن کی آبیاری کرنی بھی بخوبی آتی ہے ایک زمانہ اُس‬
‫کے ا س ہنر بے مثال کا معترف ہے ۔اس نے اْردو داں طبقے کو یادگار شعری‬
‫مجموعے دیے ہیں جس کی لفاظی اور قابل فہم اسلوب قاری کے دل میں اْتر کر روح‬
‫میں سما جاتا ہے ۔‬

‫چھ شعری مجموعے اور ایک کلیات یکجا کے نام سے شائع ہو چکی ہے ۔‬

‫شاخ تنہا ‪۱۸۹۴‬ء‬ ‫‪۱‬۔‬

‫سرابوں کے صدف ‪۱۸۱۱‬ء‬ ‫‪۱‬۔‬

‫رائگاں ‪۱۸۸۱‬ء‬ ‫‪۳‬۔‬

‫یکجا ‪۱۰۰۹‬ء‬ ‫‪۴‬۔‬

‫امکان ‪۱۰۰۴‬ء‬ ‫‪۶‬۔‬

‫دیریاب ‪۱۰۱۴‬ء‬ ‫‪۱‬۔‬

‫نسبتیں ‪۱۰۱۶‬ء‬ ‫‪۹‬۔‬

‫خورشید رضوی کا حلقہ فکر بہت وسیع ہے کیونکہ بنیادی طور پر وہ شاعر‬
‫ہیں اس لیے اْردو ادب میں اس کا خصوصی مقام ہے جو اُس کو ہم عصر شعراء سے‬
‫ممتاز کر تا ہے ۔اس نے اپنی شاعری میں رومانی اورکال سیکی رویوں کو بخوبی‬
‫نبھایا ہے۔‬
‫لبوں پہ آج سر بزم آ گئی بات‬
‫مگر وہ تیری نگاہوں کی التجا کہ نہیں‬

‫اس نے اپنے شعری مجموعوں کے نام اپنے تخیل میں رونما ہونے والی فکر‬
‫انگیزی کے مطابق ترتیب دیئے ۔اس نے ادب کی ہر صنف میں طبع آزمائی کی اور‬
‫بے مثال انداز میں جو اہر پارے تخلیق کیے ۔جدیدیت اور وقت کی بے ثباتی نے جہاں‬
‫اس معاشرے کو تہ وباال کر دیا وہیں تخلیق کا ر بھی اس کا اثر قبول کیے بنا نہ رہ‬
‫سکا ۔خورشید رضوی جو بظاہر بہت سادہ نظر آتا ہے لیکن اپنے داخلی رویوں میں وہ‬
‫بہت پیچیدہ ہیں وہ اپنی تحریروں میں بھی نظر نہیں آتا ۔بدلتے ہوئے حاالت نے اُس کو‬
‫بھی متردد کر دیا۔اسی لیے وہ کہتا ہے ۔‬

‫اپنے‬ ‫تھے‬ ‫نہیں‬ ‫خدوخال‬ ‫یہ‬


‫عجیب‬ ‫حاالت‬ ‫ہمیں‬ ‫آئے‬ ‫پیش‬
‫تم مجھ سے نہ مل پاؤ گے ہر گز کہ‬
‫گرد‬ ‫میرے‬
‫دیوار ہی دیوار ہے دروازہ نہیں ہے‬

‫خورشید رضوی کا شمار جدید شعراء میں ہوتا ہے ۔اس نے غزل کے ساتھ‬
‫نظمیں بھی لکھیں اور نظم گوئی میں ن م راشد اور مجید امجد کی شاعری سے متاثر‬
‫ہے ۔‬

‫اْردو ادب میں فارسی اور عربی کے اثرات وقت کے ساتھ ساتھ معدوم ہوتے‬
‫جار ہے ہیں ٰلہذا اس صورتحال میں ہم اپنی زریں روایات سے دور ہوتے جا رہے ہیں‬
‫بلکہ رفتہ رفتہ ا ن سے کٹ چکے ہیں آج ہماری نئی نسل غالب اور اقبال کے فارسی‬
‫کالم سے بالکل نا بلد ہے ۔حاالنکہ کال سیکی ادب کا اپنا ایک خاص مقام ہے اور اسے‬
‫برقرار رہنا چاہیے ۔انہی مسائل اور روایات سے بے گانگی نے شاعر خورشید‬
‫رضوی کو اندرونی طور پر کشمکش میں مبتال کر دیا ہے ۔اسی لیے وہ کہتا ہے ۔‬
‫مصالحت بھی نہیں ہے سرشت میں اپنی‬
‫مگر کسی سے تصادم کا حوصلہ بھی‬
‫نہیں‬

‫وہ آنے والی تبدیلیوں سے خوفزدہ یا دلبرداشتہ نہیں ہے لیکن وہ پْرانی روایات‬
‫کو بھی ساتھ لیکر چلنے کا عادی ہے الیکڑونک میڈیا کا اس سلسلے میں بہت عمل‬
‫دخل ہے آج کا طالبعلم کتابوں سے دور ہو تا جارہا ہے اس لیے ادب میں سطحیت رہ‬
‫گئی ہے اور فکری گہرائی ختم ہوتی جارہی ہے ۔اور میڈیا اپنے من چاہے ادیب کو‬
‫بہت آگے لے جاتا ہے اس ضمن میں وہ لوگ جو اس طریقہ کار سے گریزاں ہیں وہ‬
‫۔لہذا اس غیر صحت مندرو یے کی حوصلہ شکنی ازحد‬
‫بہت پیچھے رہ جاتے ہیں ٰ‬
‫ضروری ہے تاکہ ادب پھر سے اپنا مقام حاصل کر سکے۔ خورشید رضوی شاعری‬
‫کے فروغ کے ل یے مشاعروں سے قطع نظر ادبی نشست کے حق ہے تاکہ اس سے‬
‫نئے آنے والے شاعر کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے ۔‬

‫بطور شاعر خورشید رضوی ایسے ادب کے فروغ کا خواہاں ہے جو صحت‬


‫مند خیاالت پیدا کرے کیونکہ جذبات میں ہیجان انگیزی اور بے عملی پیدا کرنے واال‬
‫ادب پائیدار نہیں ہوت ا ۔وہ چاہتا ہے کہ آج کا طالبعلم جاہلی ادب کا مطالعہ کرے تاکہ وہ‬
‫اس عہد کے تہذیبی و معاشرتی حاالت سے واقفیت حاصل کرے اور موجودہ ادب سے‬
‫اس کا موازنہ کرسکے۔ وہ بیسویں صدی کے رجحان ساز عربی شعراء کے حوالے‬
‫سے کہتے ہیں۔ ’’پہلے احمد شوقی ہیں ملک شعراکہالئے ۔اسی دور کے حافظ ابراہیم‬
‫تھے ۔ عباس محمود العقاد جو کہ بہت پھیلی ہوئی متنوع شخصیت ہیں نثر بھی بہت‬
‫عمدہ لکھتے تھے ۔شاعری میں وہ صاحب دیوان ہیں موجودہ دور میں محمود درویش‬
‫ہیں جنہوں نے فلسطین کی تحریک مزاحمت کو موضوع بنایا ۔پھر نزار قبانی ہیں جو‬
‫پہلے آزاد خیال شاعر تھے لیکن رفتہ رفتہ مزاحمتی شاعری میں ممتاز ہوئے ۔(‪)۱۱‬‬

‫وہ اْردو شعراء میں اقبال سے بھی بہت متاثر ہے اس نے اس موضوع پر کہ‬
‫اقبال نے موت کا سامنا کیسے کیا ہو گا کے حوالے سے ’’اکیس اپریل ‘‘کے عنوان‬
‫سے نظم لکھی ۔‬
‫’’میری ایک نظم‘‘ ’’اکیس اپریل ‘‘عالمہ اقبال کی‬
‫وفات کے حوالے سے ہے آزاد نظم ہے۔پوری نظم کہنے‬
‫میں پانچ سات منٹ لگے ہوں گے ‘‘۔(‪)۱۸‬‬

‫وہ شاعری میں نئے نئے تجربات کرنے والوں کے خالف نہیں ہے کیونکہ وہ‬
‫اصل چیز ’’خیال ‘‘کو سمجھتا ہے کہ شاعر آپ سے کیا کہنا چاہتا ہے ۔چاہے وہ بات‬
‫ایک ہی مصرعے میں کیوں نہ ہو کچھ غلط نہیں ۔وہ نظم اور غزل دونوں کو ہی‬
‫ذریعہ اظہار سمجھتا ہے اس لیے اس نے ان دونوں کو موضوع سخن بنایا ہے ۔وہ‬
‫نثری اور آزاد نظم کو بھی مخصوص زاویہ نظر سے دیکھتا ہے کیونکہ وہ زندگی‬
‫میں ہر چیز کا روشن پہلو دیکھتا ہے اس نے خود تو ایسی نظمیں نہیں لکھیں لیکن وہ‬
‫۔‬ ‫ہے‬ ‫سمجھتا‬ ‫توجہ‬ ‫قابل‬ ‫کو‬ ‫نظموں‬ ‫ایسی‬
‫خورشید رضوی ذرائع ابالغ کی اثر پذیری کے قائل ہونے کے باوجود انسان میں‬
‫موجود غیر معمولی صالحیت کو بھی بہت اہمیت دیتا ہے کہ جو وقت کے ساتھ ساتھ‬
‫اپنا راستہ خود بخود بنا لیتی ہے اس ضمن میں مجید امجد کی مثال ہمارے سامنے‬
‫موجود ہے و ہ زمان و مکاں کی حدود سے بے نیا ز درویش انسان تھے۔اگر مصنف یا‬
‫شاعرکی تخلیقی قوت مضبوط ہے۔اور وہ کسی بڑی تحریک سے وابستہ بھی نہیں ہے‬
‫تو پھر بھی اس کی عظمت پر کوئی آنچ نہیں آئے گی۔ شاعری میں مقدار نہیں معیار‬
‫ہونا چاہیے۔وہ مجید امجد کو اس عہد کا بڑا شاعر قرار دیتا ہے ۔‬

‫عوام الناس میں خوبیاں تالش کرناخورشید رضوی کی سرشت میں شامل ہے‬
‫۔ادبی لحاظ سے بھی وہ اسی نقطہ نظر کا قائل ہے ۔اپنے ہم عصر شعراء کے حوالے‬
‫سے اپنی پسند یدگی کا اظہار ان لفظوں میں کرتا ہے ۔‬

‫’’میری نسل کے شعراء کے فوری بعد کے شعراء میں‬


‫محمد اظہار الحق ‪،‬اختر عثمان‪،‬ادریس بابر اور ثروت‬
‫حسین مجھے پسند ہیں ۔افسوس کہ ثروت حسین اب‬
‫ہمارے درمیان نہیں رہے ۔ناصر کاظمی کے بعد جب‬
‫غزل کی روایت اور ارتقا ء کا تذکرہ ہو گا تو احمد‬
‫مشتاق کا نام اس میں شامل ہوگا ‘‘۔(‪)۱۰‬‬

‫خورشید رضوی نے شاعری کے ساتھ جو تراجم کیے اور تحقیقی کام کیے وہ‬
‫ادب میں ایسا گراں قدر اضافہ ہیں جو مابعد آنے والے محققین کے لیے مشعل راہ ہیں‬
‫جس پر چل کر وہ تحقیق کی پْرخار وادی میں اپنی منزل کا نشان پاسکتے ہیں ۔‬

‫اس نے شاعری میں بھی جن موضوعات کا احاطہ کیا ہے اس میں ادبی پہلوؤں‬
‫کی نزاکتوں کو بھی مجروح نہ ہونے دیا۔اس نے موجودہ معاشرے میں رونما‬
‫ہونیوالے حاالت و واقعات کا ژرف نگاہی سے جائزہ لیا ہے اور زندگی کی تلخیوں کو‬
‫حقیقت پسندی کے آئینے میں دیکھا ہے ۔‬

‫ممکن ہے کہ صحرا کو گلستان میں بدل‬


‫دیں‬
‫کچھ اس سے مگر وحشت آہو نہیں جاتی‬
‫تصویر لب یار سے ‪،‬سوکھے ہوئے گل‬
‫سے‬
‫سْرخی بھی چلی جائے تو خوشبو نہیں‬
‫جاتی‬

‫خورشید رضوی کی زندگی اگر چہ مختلف مسائل سے دوچار رہی ہے لیکن‬


‫اْس کے ہاں قنوطیت کی بجائے رجائیت پسند رویہ اُبھرتا ہے ۔اپنی بعض محرومیوں‬
‫کو اس نے خود پر طاری کرنے کی بجائے اْن کا کتھا ر سس اپنی شاعری میں اس‬
‫انداز سے کیا ہے کہ وہ اجتماعی آواز بن جاتا ہے ۔‬

‫دل میں وہ جا بسا رگ جاں کاٹتا ہوا‬


‫لو آج ہم نے آنکھ سے دیکھا سْنا ہوا‬
‫اور کیا ہوگا جہاں کی بے ثباتی کا ثبوت‬
‫تم کہ سرتا پا حقیقت تھے کہانی ہو گئے‬
‫اس کی شاعری سے جو مجموعی تاثر ابھرتا ہے وہ معروضیت سے داخلیت‬
‫تک کا سفر ہے لیکن اس میں حاالت سے فراریت نہیں ہے بلکہ جہد مسلسل سے نبرد‬
‫آزمائی کی کیفیت سامنے آتی ہے سخت کوشی کا یہ سبق اس نے عرب شعراء کے‬
‫مطالعہ سے سیکھا ہے کیونکہ سبع معلقات کے تمام شعراء جرات و حمیت کی عملی‬
‫مثال تھے ۔‬

‫وہ اقبال کی طرح عمل پیہم کا قائل ہے اس لیے وہ خواہاں ہے کہ کچھ‬


‫خواہشات نا تمام ہی رہیں تاکہ زندگی کا سفر جا ری رہے کیونکہ خواہشات کی تکمیل‬
‫دلی ٰقوی کو بے کار کردیتی ہے۔اسی لیے وہ خودہی کہتا ہے ۔‬

‫آج تک حسرت تعبیر میں دل جا گتا ہے‬


‫کتنا اچھا ہوا کچھ خواب ادھورے ہی‬
‫رہے‬

‫تخلیق کار کے بہت سے دکھ نادیدہ ہو تے ہیں جن سے لذت آشنائی دوسروں‬


‫کے لیے ممکن نہیں اس کے کچھ دُکھ خود ساختہ بھی ہوتے ہیں جو کہ تخلیقی عمل‬
‫کے لیے مہمیز کا کام دیتے ہیں ۔‬

‫زندگی کٹتی جاتی ہے اس کا نہیں رنج‬


‫رنج یہ ہے کہ کبھی ڈھنگ سے زندہ نہ‬
‫رہے‬

‫خورشید رضوی کی شعری کائنات میں ذات سے فرار نہیں بلکہ شعور ذات کا‬
‫احساس جا بجا ملتا ہے اس لیے وہ خود کو اذیت دینا چاہتا ہے ۔‬

‫دْور رہ کر بھی میری روح میں موجود‬


‫ہو‬ ‫نہ‬
‫تو کبھی اپنی جدائی بھی تو سہنے دے‬
‫مجھے‬
‫اْس کی شاعری قدیم و جدید کا سنگم ہے جو قاری کو یوں اپنی گرفت میں لیتی‬
‫ہے اس سے انحراف اْس کے لیے ممکن ہی نہیں رہتا ۔‬

‫خورشید رضوی کا یہ کارہائے نمایاں بہت بڑی ادبی خدمت ہے کہ ا ُس نے ان‬


‫طالب علموں کو عربی زبان سے شنا سا کیا جو اس سے نابلد تھے اس نے عربی زبان‬
‫و ادب کے حوالے سے جو کتب لکھیں اور تراجم کیے اس سے اْردو ادبیات کے‬
‫طالب علم کو اس تخلیقی کائنات کی طرف متوجہ کیا کہ جس پر بوجوہ پردہ ڈاال گیا‬
‫کیونکہ دور جاہلیت کی شاعری کو طبقہ عوام میں ناپسند کیا جاتا ہے کہ اس میں‬
‫شراب اور شباب کا بے باکی سے اظہار ہے عربی ادب کی گہرائی میں تو کبھی کسی‬
‫نے جھانکا ہی نہیں تھا بلکہ یہی سمجھا جاتا تھا کہ عربی میں تو صرف قرآن اور‬
‫حدیث ہی ہوتی ہے اور اب عربی ادب کی کھوج لگانے والوں نے ایک نئی سمت‬
‫دکھائی اور عربی ادبیات کے جوہر سے اْردو داں دنیا کو متجسس کیا اور سوچ کے‬
‫مفقل در کھولے ۔‬

‫اس ضمن میں ایک اہم سوال یہ اْٹھتا ہے کہ خورشید رضوی نے عربی ادب‬
‫کو ہی کیوں فوقیت دی ؟حاالنکہ اُس کی پہلی حیثیت اُردو شاعر کی ہے اور اپنی‬
‫شاعری میں اس نے زندگی کے تمام موضوعات کا احاطہ کیا ہے ۔پھر عربی ادب میں‬
‫اُس کی اُپج کیسے اور کیوں کر ہوئی کیونکہ زمانہ طالبعلمی میں تو بہت سے طلباء‬
‫بطور مضمون عربی پڑھ لیتے ہیں لیکن جو تخصص خورشید رضوی نے حاصل کیا‬
‫اس پر اہل عرب کو بھی فخر ہے قابل غور بات یہ ہے کہ کیا اس میں تربیت کا کوئی‬
‫دخل ہے ؟‬

‫اگر تربیت کے حوالے سے دیکھیں تو تمام مسلمان گھرانوں میں قرآن پاک تو‬
‫بچپن میں سب بچوں کو پڑھایا جاتا ہے لیکن اس کے بعد اُردو زبان پر زیادہ توجہ دی‬
‫جاتی ہے اور گھر میں مادری زبان بولی جاتی ہے اس لیے عربی زبان جو ہمارے‬
‫حروف تہجی میں بھی شامل ہیں اس پر معمول سے زیادہ توجہ نہیں دی جاتی کیونکہ‬
‫زبان تہذیب کی پروردہ ہوتی ہے۔قرآن مجید اور احادیث عربی زبان میں ہیں اس لیے‬
‫عربی زبان کو دیگر زبانوں پر فضیلت تو حاصل ہے ۔‬
‫خورشید رضوی کے عہد میں دیکھیں تو اس دور میں عربی پڑھانے والے‬
‫اساتذہ موجود تھے لیکن اس کے باوجود عربی پڑھنے کا رجحان کچھ زیادہ نہ تھا‬
‫۔اس نے خود بھی اپنی والدہ کی ہدایت پر چھٹی جماعت میں عربی مضمون رکھا‬
‫حاالنکہ عربی کی کوئی خاص سوجھ بوجھ نہ تھی ۔ جب وہ کالج میں داخل ہوا تو وہاں‬
‫پراپنے ماموں جو( اس وقت کالج میں چوتھے سال میں پڑھتے تھے) کی وجہ سے‬
‫کافی تحفظ مال اور ماموں جو کالج میگزین کے ایڈیٹر تھے ان کی وساطت سے ڈاکٹر‬
‫اعلی پائے کے استاد کی شاگردی نصیب ہوئی انہی کی وجہ‬
‫ٰ‬ ‫صوفی ضیاء الحق جیسے‬
‫سے خورشید رضوی کے رجحان میں تبدیلی آئی اورعربی میں دلچسپی ہوگئی کیونکہ‬
‫اْن کا طریقہ تدریس بہت منفر د اور موثر تھا اور طالب علم کو ازخود دلچسپی پیدا ہو‬
‫جاتی تھی ۔‬

‫خورشید رضوی عربی سیکھنے کے حوالے سے بتاتا ہے۔‬

‫’’جب میں فرسٹ ائیر میں آیا تو ماموں نے میرا ان سے‬


‫تعارف کروادیا کیونکہ وہ ان کے پاس جاتے رہتے تھے‬
‫چنانچہ میں ان کے گھر بھی کبھی کبھی چال جاتا تھا‬
‫اپنی ذات میں ڈاکٹر صاحب غیر معمولی صالحیتوں کے‬
‫آدمی تھے ۔عربی کے متبحر عالم تھے موالنا اصغر‬
‫علی روحی کے فرزند تھے ۔ موالنا روحی اس پائے‬
‫کے عالم تھے کہ عالمہ اقبال بھی ان سے مشورہ کرتے‬
‫تھے ۔عربی اور فارسی کے اجل علماء میں سے تھے‬
‫ان کی بہت سی تصانیف ہیں صوفی ضیاء الحق صاحب‬
‫نہ صرف استاد تھے بلکہ ان کے ذمے کالج کے کئی‬
‫فرائض تھے ۔کالج کیمپس ہی رہتے تھے میں روز انکے‬
‫ہاں جاتا تھا انہوں نے مجھ سے کہا کہ تم میں عربی‬
‫پڑھنے کی اچھی صالحیت ہے اور میں نے کم‬
‫طالبعلموں میں یہ صالحیت پائی ہے تم شام کور وز‬
‫پڑھنے آجایا کرو ناغہ کر وگے تو میں بطور سزا تمہیں‬
‫عربی پڑھانا بند کر دوں گا ۔چنانچہ میں روزانہ جا تا تھا‬
‫۔انہوں نے مجھے عربی میں بہت محنت کروائی چنانچہ‬
‫میرا شوق بھی بڑھتا گیا ۔ایف اے کے بعد بی اے میں‬
‫بھی عربی پڑھی وہ مجھے پنجابی میڈیم میں عربی‬
‫پڑھاتے تھے ‘‘۔(‪)۱۱‬‬

‫صوفی ضیاء الحق نے خورشید رضوی میں عربی کا اتنا شوق پیدا کر دیا کہ‬
‫اس نے ایم اے عربی کیا اور پھر عربی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لی ۔پی ایچ ڈی کے‬
‫لیے اسے جو موضوع مال وہ اس کی مشکل پسند طبیعت سے مناسبت رکھتا تھا۔اس‬
‫نے تیرھویں صدی عیسوی کے مورخ ‪،‬ادیب اور شاعر ابن الشعار (‪۱۱۸۱‬ء‬
‫تا‪۱۱۶۱‬ء)کے تذکرہ شعراء ’’قالئدالجمان ‘‘کی پہلی جلد کے مخطوطے کے ساٹھ‬
‫اوراق کی تدوین کی ۔اس مخطوطے کی کل دس جلدیں تھیں ۔ان میں سے دوسری اور‬
‫آٹھویں جلد بغداد پر تا تاریوں کے حملے کے دوران ضائع ہوگئی ۔خورشید رضوی کا‬
‫پی ایچ ڈی کے حوالے سے کیا جانے واال کام انتہائی محنت طلب اور دقیق تھا۔‬

‫’’‪۱۸۹۰‬ء کے بعد کی دہائی میں اس مجموعے ’’قالئد‬


‫الجمان ‘‘کی پہلی جلد کے مخطوطے کے ساٹھ اوارق‬
‫اس مقصد سے دیے گئے کہ وہ ان اوراق کی تحقیق و‬
‫تصحیح کریں ان کے مصنف ابن الشعار کی زندگی کے‬
‫حاالت معلوم کرکے لکھیں ۔متن کے نیچے جہاں‬
‫ضروری ہو حواشی دیں اور یہ کام ایک تھیسسزکی‬
‫صور ت میں پیش کریں جس پر انہیں ڈاکٹر یٹ کی‬
‫ڈگری مل سکتی ہے ۔کا م اگرچہ مشکل اور محنت طلب‬
‫تھا لیکن خورشید رضوی نے اس پر پانچ سال کا عرصہ‬
‫لگا کر اسے بحسن و خوبی انجام دیا اور ‪۱۸۱۱‬ء میں‬
‫اس پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر لی ‘‘۔(‪)۱۱‬‬
‫اس مخطوطے کی تدوین گویااسی کی شخصیت کا خاصا تھا جواس نے نہایت‬
‫عمدہ طور پرنبھایا لیکن اس کی متجسس طبیعت نے چین نہ پایا اوراس نے بقیہ آٹھ‬
‫جلدوں کو مائکرو فلم ریڈر کی مدد سے پڑھا اور عربی زبان میں ان سے متعلق دو‬
‫مقالے تحریر کیے ٰلہذا اس کے بعد ’’قال ئد الجمان ‘‘کی سب سے مشکل چھٹی جلد‬
‫اس کے سپرد کر دی گئی کہ اس کی تحقیق و تدوین کر کے اسے قابل اشاعت بنا دیں‬
‫۔انہوں نے دن رات سات آٹھ سال اس پر انتہائی جا ن فشانی سے کام کرکے اسے قابل‬
‫۔‬ ‫بنادیا‬ ‫اشاعت‬
‫اس کتاب کے مطالعہ سے عرب قوم کی تہذیبی و ادبی زندگی کا منظر نامہ ہماری‬
‫آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے ۔خورشید رضوی ایک کامیاب عربی داں محقق و مصنف‬
‫کی صورت میں ہمارے سامنے آتا ہے ۔‬

‫خورشید رضوی عربی دانی کے حوالے سے اپنے محترم استاد ڈاکٹر صوفی‬
‫ضیاء الحق کا نام انتہائی عقیدت مندی سے لیتا ہے کہ عربی اس کی موروثی زبان‬
‫نہیں تھی بلکہ یہ سب اْس کے استاد کے طفیل ہے کیونکہ گھر یلو ماحول میں بھی‬
‫اسے عربی زبان اس طرح نہیں سکھائی گئی تھی کہ بڑے ہو کر وہ اس میں کوئی‬
‫کارہائے نمایاں سر انجام دے سکے لیکن یہ اْس کے استاد کی تربیت ہے کہ بطور‬
‫عربی داں انہوں نے جو نام کمایا اس میں بعض اوقات اْن کی شاعر انہ حیثیت دبتی‬
‫ہوئی محسوس ہوتی ہے کیونکہ بطور عربی داں محقق اس نے جو کام کیا وہ انتہائی‬
‫ژرف نگاہی سے کیا اور آنے والے ناقدین اور طالب علموں کے لیے بہت سے سوال‬
‫چھوڑ دیے تاکہ ان کے اندر مادہ تجسس بیدار ہو اور وہ کچھ کر گزرنے کی ٹھان لیں۔‬

‫قالئدالجمان کے بعد اس نے عربی ادب کی تاریخ ’’عربی ادب قبل از اسالم‬


‫‘‘ کے نام سے مرتب کی جو اس عہد کے لسانی ‪،‬جغرافیائی اور معاشرتی عناصر کا‬
‫احاطہ کرتے ہوئے عربوں کی قبائلی بودوباش ‪،‬اوہام پرستی ‪،‬جنگی احوال او‬
‫رشاعری کے مختلف ادوار پر جامع انداز میں روشنی ڈالتی ہے اس میں عالمانہ اور‬
‫محققانہ انداز اختیار کیا ہے اور عرب قبائل کی زندگی کا کوئی پہلو تشنہ نہیں رہنے‬
‫دیا ۔وہ ایک منجھے ہوئے محقق کے طورپر حقائق کا تجزیہ کرتے ہیں ۔یہ تاریخ‬
‫’’سویرا‘‘میں قسط وار بھی شائع ہوتی رہی ہے ۔‬
‫خورشید رضوی ایک کثیرالجہت مصنف ہے اس نے نثر بھی نہایت مو ثر اور‬
‫جاندارا سلوب میں لکھی۔ اس کی عمدہ مثال ان کی تصنیف ’’تالیف ‘‘ہے ۔جس میں‬
‫مختلف دیدہ و نادیدہ شخصیات پر تحقیقی و تنقیدی مضامین قلم بند کیے ہیں۔ انداز‬
‫تحریر میں سا دگی اور بر جستگی نے وہ رنگ دکھا یا کہ جیسے وہ شخصیات ہمارے‬
‫سامنے موجود ہیں اور ہم اْن سے بہت اچھی طرح واقف ہیں اور یوں سوچ کے بہت‬
‫سے دریچے واہو جاتے ہیں اور شگفتگی تحریر قاری کو بے مزہ نہیں ہونے دیتی ۔‬

‫’’تالیف ‘‘نثر نگاری کے ساتھ ساتھ خاکہ نگاری کا عمدہ نمونہ ہے اس میں‬
‫فاضل مصنف کی خاکہ نگاری عظمت کی بلندیوں کو چھوتی ہوئی نظر آتی ہے‬
‫کیونکہ اس میں اس نے نپے تلے انداز میں ان شخصیات کا علمی مرتبہ بھی اُجاگر کیا‬
‫۔‬ ‫ہے‬
‫شاہراہ حیا ت گو نا گوں مسائل اور تلخیوں کا مجموعہ ہے اگر تما م افراد ان کو اپنی‬
‫ذات پر طاری کر لیں تو زندگی دکھوں کی آمادگاہ بن جا ئے لیکن اس کائنات میں تمام‬
‫افراد فطرتا َ ََایک دوسرے سے مختلف ہیں اسی لیے اس چمن میں جشن بہاراں کا‬
‫سماں رہتا ہے اور زندگی اپنے ہو نے کا احساس دال تی رہتی ہے ۔‬

‫وہ لوگ جو دوسروں کوانبساط و راحت دیں اور انہیں دوبارہ صحت مند‬
‫ان‬ ‫گویا‬ ‫وہ‬ ‫دیں‬ ‫د‬ ‫مد‬ ‫میں‬ ‫لوٹنے‬ ‫جانب‬ ‫کی‬ ‫رو یوں‬
‫کے لیے رہنماہیں ۔یہ صالحیت بہت کم افراد میں ہو تی ہے جو اپنی تکلیفوں اور‬
‫تلخیوں کو اپنے نہاں خانوں میں چھپا کر دوسروں کے لیے مزاح کا سا ما ن پیدا کریں‬
‫۔‬

‫پروفیسر غالم جیالنی اصغر (پرنسپل گورنمنٹ کالج سرگودھا)ایسی ہی ایک با‬
‫غ و بہار شخصیت تھے جو ہر دم اپنی بر جستہ گفتگو اور مزاح سے ہر محفل کو‬
‫کشت زعفران بنائے رکھتے تھے اور اس میں نا گواری کا احساس قطعی نہیں ہوتا تھا‬
‫چونکہ وہ بہت اچھے مقرر تھے ۔ ان کی اس با کمال خوبی کی وجہ سے انہیں اکثر‬
‫محافل اور تقریبات میں سٹیج پر آنے کی دعوت دی جا تی تھی ۔بعض اوقات‬
‫مصروفیات کی بنا پروہ جھنجھال بھی جا تے تھے۔‬
‫ان کے بارے میں خورشید رضوی رقم طراز ہے ۔‬

‫’’جیالنی صاحب اس اعتبا ر سے یکسر مختلف ہیں کہ‬


‫انہیں تقریر کرنے سے پہلے خود علم نہیں ہو تا کہ وہ‬
‫کیا کہنے والے ہیں۔سٹیج پر ہو نے کا شعور ان کے ہاں‬
‫ہے ہی نہیں ۔ جب سٹیج پر آتے ہیں تو کالم ان کی زبان‬
‫پر از خودایک روئیدگی کی طرح ظہور کر نے لگتا‬
‫ہے۔اس مثال کمال کا ایک تکلیف دہ پہلوبھی ہے ۔وہ یہ‬
‫کہ جیال نی صاحب خواہ کسی حا ل میں ہوں۔اگر آس‬
‫پاس کوئی تقریب ہورہی ہے تو سٹیج سیکرٹری ان سے‬
‫پوچھے بغیر ہی ان کے نام کا اعالن کر دیتا ایسے ہی‬
‫ایک موقع پر انہوں نے جھنجال کر کہا تھا ۔اپنی یہ حالت‬
‫دیکھ کر مجھے اپنے بچپن کے زمانے کی ایک گائے یا‬
‫د آتی ہے جو کوئی اسے دیکھ لیتا تھاجھٹ اس کی‬
‫ٹانگیں جکڑ کر دودھ دوہنے لگتا تھا اور کمال یہ ہے کہ‬
‫ہر بار وہ تھوڑا بہت دودھ دے ہی دیتی تھی ‘‘۔(‪)۱۳‬‬

‫خاکہ نگاری ادب میں ایک اہم صنف گردانی جا تی ہے اس میں شخصیت کے‬
‫جملہ پہلوؤں کو اس طرح سامنے ال یا جا تا ہے کہ وہ شخصیت مجسم ہو کر سامنے‬
‫آجا تی ہے خلوص نیت پر مبنی خاکے اپنائیت کا احساس دال تے ہیں اور مصنف کی‬
‫فکری و فنی بصیرت کا عملی ثبوت فراہم کرتے ہیں ۔‬

‫انور مسعود(پ‪۱۸۳۶‬ء)سر زمین گجرات کے فرزند ہیں ۔انہوں نے پیشہ ورانہ‬


‫زندگی کا آغاز فارسی کے لیکچررکی حیثیت سے کیا۔ وہ ہمہ جہت شخصیت ہیں اور‬
‫بیک وقت شاعر‪،‬نقاداور محقق کی حیثیت سے مصروف عمل ہیں ۔ادبی دنیا میں‬
‫مزاحیہ شاعری میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں ۔ ان کی مزاحیہ شاعری میں صرف‬
‫مزاح ہی نہیں بلکہ مقصدیت کی گہرائی بین السطور پوشیدہ ہے ۔سخن گوئی کا ملکہ‬
‫ان کے خون میں شامل ہے اور حاال ت بھی ساز گار ہو تے گئے اور یوں یہ جو ہر‬
‫فطری نکھرتا اور سنورتا گیا۔‬

‫وہ کا لج کے زما نے میں خورشید رضوی سے ایک سال جونئیر تھے لیکن‬
‫جلد ہی الفت باہمی اور بے تکلفی کی فضاپیدا ہو گئی اور خورشید رضوی ان کی‬
‫شخصیت کے سحر سے خود کو نہ بچا سکے اور دونوں آج تک دوستی کے اٹوٹ‬
‫میں بندھے ہوئے ہیں اور حق دوستی اداکرتے ہوئے خورشید رضوی نے انور مسعود‬
‫کا جو خاکہ تحریر کیا ہے وہ ہمیں ایک ایسی شخصیت سے متعارف کرواتا ہے جو‬
‫زندگی کے گھمبیرمسائل کو ہوا کے دوش پر رکھتا ہے نہ کہ خود پر حاوی کر تا ہے‬
‫۔شخصیتوں میں تضاد کے باوجود فریقین میں مزاج کی ہم آہنگی بر قرار ہے۔‬

‫انور مسعود کے با رے میں لکھتا ہے ۔‬

‫’’نہ وہ میرا فین ہے نہ میں اس کا فین ہوں اس لیے کہ‬


‫ہم تو ایک دوسرے کے عین ہیں‘‘۔(‪)۱۴‬‬

‫محمد کا ظم کی و فات پر ان پر جو تعزیتی مضمون لکھا وہ اظہار عقیدت کے‬


‫ساتھ ساتھ جزئیات نگاری اور بین السطور پو شیدہ قرب کو ظاہر کرتا ہے جس انداز‬
‫سے منظر نگا ری کے ساتھ خاکہ نگاری کی ہے اس سے قارئین محمد کا ظم کی‬
‫شخصی خوبیوں خامیوں سے آگا ہ ہو جاتے ہیں ۔خورشید رضوی نے ان کی شخصیت‬
‫کا جائزہ غیر جانب داری سے لیا ہے ورنہ عموما َ ََ یہی ہو تا ہے کہ جا نے والے کی‬
‫صرف خوبیا ں ہی زیر بحث الئی جا تی ہیں ۔‬

‫ادب کی دیگر اصناف میں ایک اہم صنف ترجمہ نگاری ہے ۔ادب زندگی کا‬
‫آئین ہ ہے اور اسی کے وسیلے سے ہم کسی بھی عہد کے رجحانات اور ذہنی کیفیات‬
‫کو جانچ سکتے ہیں کیونکہ اس عہد میں جانا تو ہمارے لیے نا ممکن ہے ادب کی‬
‫نمواُسی صورت میں ممکن ہے اگر اسے وسعت دی جائے کیونکہ اسے کواڑوں میں‬
‫بند کر نے سے تو یہ جلد ہی اپنی موت مر جائے گا ۔ادب کی عالمگیریت کے لیے‬
‫ضروری ہے کہ اسے ترجمے کا جامہ پہنایا جائے لیکن اس ضمن بہت محتاط رویے‬
‫کی ضرورت ہے سب سے اہم چیز مترجم کی دونوں زبانوں پر گرفت ہے اس کے بعد‬
‫اْس فن پارے سے جذباتی وابستگی ہو نا بہت ضروری ہے کیونکہ یہ بھی تخلیقی عمل‬
‫سے کم نہیں ۔شاعری میں تراجم کے حوالے سے کچھ پیچیدگیا ں سامنے آتی ہیں‬
‫کیونکہ اس میں قافیہ ‪،‬ردیف اور آہنگ کی منتقلی بآسانی نہیں ہوتی ۔جبکہ فن پارے‬
‫میں صورت حال اس سے مختلف ہو تی ہے ۔‬

‫غیر ملکی ادب تک ہماری رسائی تراجم کی بدولت ممکن ہو سکی ہے کیونکہ‬
‫ترجمہ دوزبانوں اور تہذیبوں کے درمیان پل کا کام دیتا ہے ۔جب تخلیقی عمل‬
‫موضوعاتی لحاظ سے سست روی اور جمود کا شکار ہوجائے اور مصنف خود کو بار‬
‫بار دہرانے کی بجائے اگر اپنی توجہ عالمی ادب کی طرف مرکوز کر لے تو ایک‬
‫طرح سے اْسے تازگی کا احساس ہو گا اور فکری جمود کا قفل بھی کھل جائے گا۔غیر‬
‫ملکی ا دب کو سمجھنے کے لیے تراجم سے بہتر رفیق کوئی نہیں مل سکتا ۔کیونکہ‬
‫اس سے ذہنی کشادگی پیدا ہو تی ہے۔دیگر اقوام کے ساتھ جذبات واحساسا ت شریک‬
‫کر نے کا وسیلہ ترجمہ ہی ہے جس کے فروغ کے لیے ہر دور میں عملی کو ششیں‬
‫ہیں‬ ‫رہی‬ ‫جاری‬
‫اعلی درجے کا مترجم بھی ہے‬
‫ٰ‬ ‫خورشید رضوی تخلیق کا رہونے کے ساتھ ساتھ‬
‫کیونکہ اسے اْردو کے ساتھ ساتھ پنجابی ‪،‬فارسی ‪،‬انگریزی اور عربی زبان پر کامل‬
‫دستگاہ حاصل ہے۔ اس کا عملی ثبوت اس نے ان تراجم میں پیش کیا ہے جو انہوں نے‬
‫نہایت سلیس انداز میں کیے کیونکہ وہ ان اصولوں سے واقف ہے جوفن ترجمہ نگاری‬
‫کے لیے ال زم ہیں ۔‬

‫ڈاکٹر خورشید رضوی نے نامور ترک سکالر ڈاکٹر فواد سیز گین کے خطبات‬
‫کا اردو ترجمہ اس انداز سے کیا جو مطالعہ کرنے والے افراد کے اندر تنقیدی شعور‬
‫پیدا کر تا ہے ۔ عربی میں تخصص اس کا بین ثبوت اس نے ان تیرہ خطبات کے تراجم‬
‫کے دوران دیا ہے ۔یہ خطبات ڈاکٹر فواد کی طویل تحقیقی جدوجہد کا نچوڑ ہیں جو‬
‫تاریخ التراث العربی ‘‘کے زیر عنوان شائع ہو چکے ہیں ۔‬
‫ان خطبات کا موضوع اس متعصب رویے کے خالف احتجاج ہے جو اہل عرب‬
‫مسلمانوں کے خالف ایک سازش ہے کہ سائنسی علوم کی تاریخ میں پہلے یونان قدیم‬
‫کے دور اور اس کے فورا َ ََ بعد یورپ کی تحریک احیائے علوم کو جگہ دی ہے‬
‫حاالنکہ ان ادوار کے درمیانی عرصے میں عربوں کی بیش قیمت علمی خدمات ہیں‬
‫۔جن سے دانستہ چشم پوشی کی گئی ہے اور ان کے بغیر تاریخ علوم کا تسلسل برقرار‬
‫رہنا بہت مشکل ہے اور وہ عمومی طورپر رواج پا نے والے اس رویے کی تردید‬
‫کرتا ہے کہ اہل عرب میں نئے علوم کو سمجھنے کی اہلیت نہ تھی یہ الگ بات ہے کہ‬
‫تنقید کے حوالے سے جانچ پڑتال کی سمجھ بوجھ رکھنے کے باوجوداس نے رواداری‬
‫کا مظاہرہ کیا ۔‬

‫ڈاکٹر خورشید رضوی کی وسیع النظری اور مثبت انداز فکر ہے کہ اس نے‬
‫ڈاکٹر فواد سیز گین کے خطبات کا مطالعہ ذاتی طور پر محدود رکھنے کی بجائے‬
‫ترجمے کے ذریعے تمام عالم اسالم کو اس کے تحقیقی نقطۂ نظر سے متعارف کروایا‬
‫۔بطور مترجم وہ خود بھی مصنف جیسے تخلیقی عمل سے گزراہے کیونکہ ترجمہ‬
‫نگاری آسان نہیں ہے۔ اس حوالے سے محمد کاظم کہتا ہے۔‬

‫’’مترجم کے لیے محض ذخیرہ الفاظ کی کثرت کافی‬


‫نہیں ہے بلکہ اسے برتنے کا مکمل سلیقہ اور شعور بھی‬
‫ہو ۔خورشید رضوی بطور مترجم ایسا دکھائی دیتا ہے‬
‫کہ اس کی ذات خوبیوں کا مرکب نظر آتی ہے اس کی‬
‫ذات ذخیرہ الفاظ کے ساتھ ساتھ اس کو برتنے کا گر بھی‬
‫جانتی ہے۔لیکن وہ انتخاب کا درجہ رکھتے ہیں کتاب کی‬
‫فنی متانت کے پیش نظر وہ اصالحات کے استعمال سے‬
‫بھی بڑی حد تک کامیاب گزرے ہیں ترجمہ کرتے وقت‬
‫بیان کی شگفتگی اور روانی میں کوئی فرق نہیں آیا اور‬
‫یہ ترجمے کا کمال ہے‘‘۔ (‪)۱۶‬‬
‫خورشید رضوی نے فواد سیز گین کے خطبات کا ترجمہ ’’تاریخ علوم میں‬
‫تہذیب اسالمی کا مقام ‘‘کے نام سے کیا ہے اس کا نام ہی قاری کو اپنی گرفت میں لے‬
‫لیتا ہے اور وہ متجسس ہو کر خود کو اس کے مطالعہ پر مجبور پاتا ہے ۔ترجمے کے‬
‫دوران اس نے فواد سیز گین کے تحقیقی نتائج کی اندھا دھند تقلید نہیں بلکہ جہاں‬
‫محسوس کیا وہاں اختالف بھی کیا ہے ۔‬

‫’’دوران ترجمہ بعض ایسے مقامات بھی آئے جہاں اس‬


‫نے فواد سیز گین کے بعض نتائج تحقیق سے اختالف‬
‫کیا ہے اس ضمن میں ’’آثار علویہ کی تاریخ پر‬
‫مسلمانوں اور عربوں کا مقام ‘‘نامی مضمون پران کے‬
‫حواشی الئق مالحظہ ہیں جو اْن کی وسعت نظر اور‬
‫تعمق کی عمد ہ مثال ہیں ‘‘۔(‪)۱۱‬‬

‫اگر وہ ان خطبات کا ترجمہ نہ کرتا تو اہل اسالم اہل عرب کے ان کارناموں‬


‫سے بہرہ مند نہ ہو تے جو بوجو ہ پردہ اخفاء میں رکھے گئے تھے ۔ خورشید رضوی‬
‫جامع الحیثیت مصنف ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسے وہ جوہر بھی عطاہوا ہے کہ‬
‫لکھے تو باکمال اور بولے تو ایسا سماں باندھے جو دل کے تاروں چھو جائے اور‬
‫گھنٹے لمحے محسوس ہونے لگیں وہ کسی بھی موضوع پر نہایت دل نشیں انداز اور‬
‫نپے تلے الفاظ میں بے تکان گفتگو کر تا لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسے اپنے سامعین‬
‫کی ارتکاز توجہ کا بھی احساس رہتا ہے۔اْس کی قوت خطابت کا ثبوت اْس کے وہ‬
‫خطبے ہیں جو اس نے مختلف علمی اجتماعات میں ارشاد فرمائے ہیں ۔‬

‫’’‪۱۴‬مئی ‪۱۸۱۸‬ء کو گورنمنٹ کا لج سر گودھا میں اس نے جو خطبہء‬


‫صدارت دیا اس میں اس کی قوت فکر کے ساتھ ساتھ قو ت خطابت کے جوہر نمایاں‬
‫ہو تے ہیں ۔ ’’مجھے یہاں حاضری کی دعوت ملی تو ایک گہری مسرت کے ساتھ سا‬
‫تھ اپن ی کم مائیگی کا شد یداحساس بھی دامن گیر ہوا۔ مجھے امید ہے کہ آپ میرے اس‬
‫جملے کو فرسودہ قسم کے انکسار پر محمول نہیں کریں گے۔حقیقت یہ ہے کہ یہ‬
‫دعوت مجھے اپنے استحقاق سے بہت باال تر نظر آئی۔میں کوئی امیرووزیر نہیں جس‬
‫کی گرہ میں اپنے میزبانوں کی خدمت میں پیش کرنے کے لیے کوئی ٹھوس ہدیہ‬
‫موجود ہو۔میں کوئی عا لم وفاضل بھی نہیں جس کا علم و فضل اتنے بڑے اعزازکا‬
‫جواز و استحقاق پیدا کر سکے اگرچہ جناب پرنسپل نے اس سلسلے میں میرے سائے‬
‫کو میرے قد سے بڑھا دیا ہے۔دراصل اس کا سبب ان کی محبت ہے ‘‘۔ (‪)۱۹‬‬

‫عربی خورشید رضوی کا خاص مضمون ہے اس میں اس نے جو تخصص‬


‫حاصل کیا ہے اہل عرب بھی اس کے معتر ف ہیں ۔‬

‫’’سعودی عرب کی حکومت نے سود کے مسئلے پر‬


‫پاکستا ن کی وفاقی شرعی عدالت کا طویل فیصلہ ان‬
‫سے عربی میں ترجمہ کروایا ہے جو شکر یے اور‬
‫تحسین کا خط عرب والوں نے رضوی صاحب کو لکھا‬
‫ہے اس میں کہا ہے کہ ہم ترجمہ دیکھ کر حیران ہیں اتنا‬
‫اچھا ترجمہ تو کوئی عرب بھی نہیں کر سکتا ‘‘(‪)۱۱‬‬

‫وہ دینی مدارس میں پڑھائے جانے والے جاہلی ادب کی اس لیے حمایت کرتا‬
‫ہے کہ یہ عربی ادب میں کالسیک کا درجہ رکھتا ہے اور آئندہ نسلوں کا رشتہ اپنے‬
‫ماضی سے جوڑتا ہے جاہلی شاعری اس عہدکی عکاسی کرتی ہے جس میں یہ تخلیق‬
‫ہوئی تھی عربی ادب شاعری کی صورت میں اسالم سے ‪ ۱۶۰‬سال پہلے تک کا ملتا‬
‫ہے اس سے پہلے جوادب تخلیق ہوا وہ ضائع ہو چکا ہے ۔غالبا َ ََ اس دور میں تحریر‬
‫کار واج بہت کم تھا ۔‬

‫کوئی بھی تحریر جس میں ادبی چاشنی ہو وہ اپنے تخلیق کار کے ذہنی رجحان‬
‫اور اْس کے عہد کی عکاس ہوتی ہے کیونکہ کوئی بھی تخلیق کار اپنے عصری‬
‫حاالت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔‬

‫انسان طبعا َ ََ اختراع پسند واقع ہوا ہے اور اپنے اس شوق کی تکمیل کے لیے‬
‫وہ زندگی میں نت نئے کاموں میں مصروف عمل رہتا ہے کیو نکہ کچھ مواقع تو اُسے‬
‫سردست مل جاتے ہیں اور وہ سفر کی صعوبتوں سے بچ جاتا ہے لیکن زندگی میں‬
‫کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو سفر کو اپنے لیے سعادت سمجھتے ہیں ۔‬

‫مورخ اور تہذیبی ولسانی شعور رکھتا ہے اور اپنے‬


‫خورشید رضوی محقق ‪ّ ،‬‬
‫اس شوق کی تکمیل کے لیے مختلف مما لک کی سیاحت کرتا رہتا ہے اور وہاں کے‬
‫حاالت وواقعات اور مقامات کومخصوص زوایہ نگاہ اور تحقیقی وتنقیدی پہلو سے‬
‫۔‬ ‫ہیں‬ ‫دیکھتے‬
‫وہ مئی ‪۱۰۰۸‬ء کواُردن گیا اور اپنے اس سفر کی روداد ’’چند روز اُردن میں‘‘کے‬
‫۔‬ ‫ئی‬ ‫ہو‬ ‫شائع‬ ‫’’الحمرا‘‘میں‬ ‫جو‬ ‫لکھی‬ ‫سے‬ ‫نام‬
‫اُردن کے مشہور مقامات اور مساجد کا ذکرعقیدت مندی سے کیا ہے اور ساتھ سا تھ‬
‫قاری کو دلچسپ تاریخی معلومات بھی فراہم کی ہیں ۔ یہاں کی ایک مسجد کا ذکر اس‬
‫طرح کر تا ہے ۔‬

‫’’خوبصورت اور نفیس گنبد ومینار مقناطیسی کشش‬


‫رکھتے تھے اور کیو ں نہ ہو ‪،‬اس مسجد کے دروبام‬
‫اپنی آغوش میں دو جلیل القدر صحابیوں کو لیے ہوئے‬
‫تھے ۔یعنی شہیدان جنگ موتہ حضرت زید بن حارثہ‬
‫اور حضرت جعفر طیار‘‘۔ (‪)۱۸‬‬

‫خیاالت اور جذبات واحسا سات کا اختالف ہی شخصی رویوں کو جنم دیتا ہے‬
‫اور ان رویوں سے ایک نیا ادب تخلیق ہو کر مختلف اصناف میں متشکل ہو تا ہے اور‬
‫اپنی نوعیت کے اعتبار سے مخصوص نا م سے مو سوم ہو جا تا ہے۔‬

‫اس کائنات کی بو قلمونیاں ہی انسان کو اپنی طرف کھینچتی ہیں اور ان کا‬
‫نظارہ کر نے کے لیے سفر سے بڑھ کر رفیق کوئی نہیں ہو سکتا ۔ دوران سفر اپنے‬
‫خیاالت و تا ثرات کو صفحہ قرطاس پر اس طرح النا کہ قارئین بھی خود کو ذہنی‬
‫طور پر وہیں محسوس کریں اور فنّی لوازم بھی ملحوظ خاطر رہیں تو یہ صنف ادبی‬
‫دنیا میں سفر نا مہ کہالتی ہے۔‬
‫وہ سفر نامے اَمروہ ہو تے ہیں جو اسلوب بیان ‪،‬ادبی چاشنی اور تخیل کی‬
‫فراوانی سے ثروت مند ہوں ۔ وہ لوگ خوش قسمت ہیں جنہیں زندگی میں مواقع ملیں‬
‫اور وہ ان سے بھر پور طریقے سے فائدہ اُٹھائیں۔آج کے جدید دور میں ایک جگہ سے‬
‫دوسری جگہ سفر کرناکو ئی بڑی بات نہیں رہی ہے لیکن اس سفر کو لفظوں میں‬
‫ڈھالنااور ہر جگہ اپنے مشاہدات وتجربات کو مخصوص زوایہ نگاہ سے دیکھنا اور‬
‫صفحہ قرطاس پر اُتارنا مر صع سازی سے کم نہیں ۔‬

‫ایسے ہی ایک صاحب اسلوب ادیب خورشید رضوی ہیں جہان ان کی شخصیت‬
‫کی بے شمارجہتں ہیں وہیں ایک جہت سفر نا مہ نگا ر کی ہے ۔ گوانہوں نے باقاعدہ‬
‫سفر نامے نہیں لکھے تاہم اپنے سفر(سعودی عرب )کا احوال جو وہ ہر سال کرتے ہیں‬
‫انھوں نے ایک سفر نامے کی صورت میں تحریر کیا ہے ۔سفر نامہ ادب کی ایک ایسی‬
‫صنف ہے جو مختلف ادوار میں ادب کا مو ضوع بنتا رہا ہے وقت کے ساتھ ساتھ اُتار‬
‫چڑھاؤ کا شکار بھی رہا ہے ۔تاہم اردو ادب میں اس کی مصمم حیثیت سے انکار‬
‫ممکن نہیں ۔ خورشید رضوی نے اپنے سفر کا احوال ’’مدینہ ‪،‬خیبر اور مدائن صالح‬
‫‘‘ کے نا م سے لکھا اگرچہ اس میں طوالت نہیں لیکن سفر نامہ نگاری کے معیار پر‬
‫پو را اترتا ہے ۔ماہ نامہ الحمرا کے دو شماروں (فروری ‪،‬مارچ ‪۱۰۱۴‬ء)میں شائع‬
‫ہوا۔مدائن صالح کی حدود میں داخلہ عام انسان کی رسائی میں نہیں لیکن اس نے اس‬
‫کے لیے خصوصی اجازت نامہ حاصل کر لیا ۔مدائن میں مختلف عہد میں ہو نے والے‬
‫واقعات تسلسل سے بیان کر کے ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے جو اس کے تبحر‬
‫علمی ‪،‬عربی ادب اور اہل عرب سے قلبی لگاؤ کا ثبوت ہے۔اس میں اس نے وہاں کے‬
‫لو گوں کے طرزبودوباش اور عربی زبان سے ان کی محبت کو بڑے دل نشیں انداز‬
‫میں قلم بند کر کے گویا لفظوں کی ما ال ئیں پرودی ہیں ۔وہاں کی مساجد اور عما رات‬
‫کی تاریخ کا بڑی ژرف نگاہی سے جائزہ لیا ہے ۔‬

‫’’لفظ’’مدائن صالح‘‘سے فوری طور پر ذہن میں یہی آتا‬


‫ہے کہ یہ عال قہ حضرت صالح سے منسوب ہے ۔تا ہم‬
‫بعض محققین کا کہنا یہ ہے کہ یہ’’صالح ‘‘اسالمی دور‬
‫کی ایک شخصیت ہے جس کا تعلق بنو عباس سے تھا۔‬
‫اس سے منسوب کر کے العال کے جنوب میں ایک شہر‬
‫’’مدینہ صالح‘‘ کے نا م سے آباد کیا گیا تھا جو چوتھی‬
‫صدی ہجری تک باقی تھا ۔بعد میں رفتہ رفتہ التباس کے‬
‫تحت عال قہ ہجرکو مدائن صالح کہا جانے لگا ‘‘۔(‪)۳۰‬‬

‫نثرکے اظہار کی بہت سی اصناف ہیں ۔ہر صنف اپنے اند رمکمل اکائی رکھتی‬
‫ہے ۔مکتوب نگاری بھی نثر ہی کی صنف ہے۔اس میں مکتوب نگار ہر طرح کی‬
‫احتیاط کو پیش نظر رکھنے کے باوجود بھی کوئی نہ کوئی روزن کھال رکھ چھوڑ تا‬
‫ہے جو حاال ت حاضرہ کا نقیب ثابت ہوتا ہے ۔‬

‫خورشید رضوی نے اس ضمن میں بھی خامہ فرسائی کی ہے اور اپنے‬


‫دوستوں کے نام خطوط تحریر کیے ہیں لیکن اس میں انہوں نے کسی قسم کا مصنوعی‬
‫پن ظاہر نہیں کیا ۔وہ طبعا َ ََ انتہائی حساس اور محتاط شخصیت کا مالک ہے اس لیے‬
‫اس کے خطوط میں بھی اسی محتاط رویے اور مقالہ نگاری سے گریز کا اظہار ملتا‬
‫ہے لیکن اس نے اپنے ذاتی مسائل اور بسلسلہ مالزمت درپیش مسائل اپنے بعض‬
‫خطوط میں بیان کیے ہیں اور حل کے لیے بھی وہ کوشاں نظر آتا ہے لیکن اس کے‬
‫ساتھ ساتھ اپنی علم ی سر گرمیوں سے بھی صرف نظر نہیں کرتا ۔ان خطوط سے ہی‬
‫اْس کو الحق مختلف عوارض اور قبل ازوقت مالزمت سے ریٹائرمنٹ کی تفصیل‬
‫سامنے آتی ہے ۔‬

‫خورشید رضوی نے نثر کی جس صنف میں بھی لکھا گویا حق ادا کر دیا ۔اس‬
‫نے افسانے بھی لکھے ہیں ۔اُس کا افسانہ ’’سائن بورڈ‘‘فنون ‪۱۸۱۹‬ء کے شما رہ‬
‫‪۱۱‬میں (ص‪۳۶۹‬تا‪)۳۱۳‬شائع ہوا ۔اورفنون ‪۱۸۸۸‬ء کے شما رہ ‪۱۱۰‬میں افسانہ‬
‫’’کبھی کبھی ‘‘شا ئع ہوا۔جو افسانے کی فنی و فکری جہتوں کا عکا س ہے ۔اُس کی‬
‫پہلی ادبی تحریر جوکسی رسالے میں شائع ہوئی وہ ’’جسے تا ریخ نے فرا موش کر‬
‫دیا ‘‘ کے نا م سے اسنے عر بی سے ترجمہ کیا تھا ۔اگست ‪۱۸۱۱‬ء میں اُردو ڈائجسٹ‬
‫ال ہو ر میں شائع ہوئی۔(‪)۳۱‬‬
‫خطوط کے آئینے میں اْس کی شخصیت کا جو عکس ابھرتا ہے وہ انتہائی ذمہ‬
‫دار ‪،‬نرم خو‪،‬ملنسا ر‪،‬چھوٹی چھوٹی خوشیوں پر راحت محسوس کرنے واال اور‬
‫مسائل حیات کے حل نہ ہونے تک تشویش میں مبتال رہنے والے انسان کا ہے ۔وہ ذمہ‬
‫داریوں کو خوش اسلوبی سے نبھانے واال شخص ہے لیکن جو ذمہ داری اْس کی‬
‫طبیعت سے میل نہ کھاتی ہو اْسے پورا کرتے رہنے کے باوجود بھی وہ اندرونی‬
‫طورپر اذیت محسوس کرتا ہے ۔اس لیے اس سے کنارہ کشی کو ہی آسودگی ذہن اور‬
‫سکون قلب کا باعث سمجھتا ہے اس کی مثال دوران مالزمت انتظامی عہدوں پر‬
‫تعیناتی اور اس کی وجہ سے دل گرفتگی کی کیفیت اُس کی شخصیت کو ریزہ ریزہ‬
‫کرنے کے لیے کافی تھی اوراُس کے اندر کی اکائی کو جْ ڑنے نہیں دیتی تھی اسی‬
‫لیے اس نے کہا‪:‬‬

‫وہ جو مجھ میں ایک اکائی تھی وہ نہ جڑ‬


‫سکی‬
‫یہی ریزہ ریزہ جو کام تھے مجھے کھا‬
‫گئے‬

‫وہ بنیادی طورپر مدرس تھا اس لیے اسی میں راحت محسوس کرتا تھا ۔اس‬
‫کے عالوہ جو اہم فرائض اس نے خود ہی اپنی ذات پر عائد کر لیے تھے اُن کی یک‬
‫جائی اس بات کی متقاضی تھی کہ وہ قبل ازوقت مالزمت سے سبک دوش‬
‫ہوجائے۔لہذا اس کو ہ گراں کو سر کرنے کے بعد تکمیل ذات کے لیے وہ پورے‬
‫ٰ‬
‫انہماک کے ساتھ اپنے تحقیقی مشاغل کی بجا آوری میں مصروف ہے۔بطور محقق‬
‫مترجم اور شاعرجوشاہکار تخلیق کیے وہ اس کی طبع اختراعی کا خاصہ ہے ۔اس‬
‫مشکل ترین گھاٹی کو سر کرنے کے ساتھ ساتھ اس نے اپنے شوق اور ذاتی دلچسپی‬
‫کی بنا ء پر اور کچھ قریبی دوستوں کی خواہش پر سلسلہ تدریس بھی جاری رکھا اور‬
‫تاحال مختلف درس گاہوں میں لیکچر ز کا سلسلہ جاری ہے۔‬
‫ہر تخلیقی فرد کی طرح مختلف محافل کا حصہ بننے کے باوجود وہ تنہائی میں‬
‫راحت محسوس کرتا ہے وہ اکثروبیشتر ذہنی دباؤ کا شکار ہوجاتا ہے جس کا اظہار وہ‬
‫شاعری میں کرتا ہے ۔یا پھر قریبی دوستوں کو خطوط میں کرتا نظر آتا ہے ۔‬

‫بظاہر عام انسانوں کی طرح نظر آنے واال تخلیق کار داخلی کیفیات میں ان سے‬
‫بہت مختلف ہوتا ہے کیونکہ شاعری اورنثر میں طبیعت میں قبض وبسط کی‬
‫صورتحال پیدا ہوتی رہتی ہے بعض اوقات سالوں میں کوئی ایک تخلیقی کاوش سامنے‬
‫آتی ہے اس دوران کوئی شعوری کوشش بھی اثرپذیر ثابت نہیں ہو تی لیکن کبھی کبھی‬
‫طبیعت میں بسط کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور وہ زود نویسی پر مائل ہو جاتی ہے‬
‫۔‬

‫اپنی تخلیقی کیفیت کے حوالے سے خورشید رضوی کہتا ہے ۔‬

‫’’میں نے کوئی ایک یا دو شعر غزل کے کہے تو دس‬


‫دس سال تک وہ غزل مکمل نہیں ہوئی کیونکہ یہ تو‬
‫ممکن ہے کہ ایک نشست میں اسی قافیہ ردیف میں‬
‫پچیس پچیس شعر کی غزل لکھ لیں لیکن اسی آہنگ کا‬
‫شعر وارد ہو یہ نہیں ہوتا ۔شاعری میں یہ‬
‫الزمی بات نہیں کہ ادھر کوئی واقعہ پیش آیا اور فورا َ ََ‬
‫وہ تخلیقی تجربہ بن گیا شعوری طور پر کوئی نظم لکھ‬
‫دیں یہ آ پ کی قادر الکالمی ہے شاعری نہیں ہے۔اگر‬
‫آپ تخلیقی ذہن رکھتے ہیں تو نثر لکھتے ہوئے بھی یہ‬
‫کیفیت ہوتی ہے کبھی زیادہ ہوتی ہے کبھی کم۔ طبیعت‬
‫بند بھی ہو جاتی ہے کبھی کبھی آپ چاہیں بھی تو کچھ‬
‫نہیں لکھ سکتے‘‘۔(‪)۳۱‬‬

‫اُس کی شاعری اور نثر کا موازنہ کرنا کہ ان میں سے کس صنف میں اس نے‬
‫زیادہ بہتر ادب تخلیق کیا ہے دقت طلب امر ہے کیونکہ دونوں ہی فکر اور موضوعات‬
‫کے لحاظ سے ادب عالیہ کی مثال ہیں شاعری نثر اور تحقیق میں اس کا نقطہ نظر‬
‫انتہائی معروضی ہے اس کی رومانویت میں بھی حقیقت اپنی جھلک دکھا جاتی ہے‬
‫جس سے قاری محظوظ ہونے کے ساتھ مصنف کی فکر سے بھی براہ راست متاثر‬
‫ہوتا ہے ۔‬

‫خورشید رضوی نے ’’عربی شاعری ایک تعار ف میں آغاز سے عہدبنی‬


‫اْمیہ‘‘ میں عرب شعرا کے نمونہ کالم اور حاالت زندگی کا نا قدانہ اندا زمیں جائزہ لیا‬
‫ہے کہ اُس دور میں اْن کی شاعری کی کیا قدرو منزلت تھی ؟‬

‫خورشید رضوی کی شاعری مختلف مراحل طے کرتے ہوئے اپنی اصل کی‬
‫جانب لوٹ رہی ہے جہاں باآلخر اسے لوٹنا ہی تھا۔علم وفن کی یکجائی سے لفظو ں‬
‫کے موتی پرونا اس کی شاعری کا وصف خاص ہے اپنے حالیہ مجموعہ کالم‬
‫’’نسبتیں ‘‘ میں اس نے ذات خداوندی کی بڑائی بیان کرتے ہوئے اس کا شکر ادا کیا‬
‫ہے اور نعت میں نبی آخر الزماں کی ذات اقدس کے فیوض و برکات کو موضوع‬
‫سخن بنایا ہے۔‬

‫کو ئی بھی ذی شعور انسان اپنے معا شرے سے کٹ کر مثبت زندگی نہیں‬
‫گزار سکتا ۔ جو شخص زندگی میں کچھ خاص کر نے کا خواہاں ہو وہ ربط با ہمی کا‬
‫داعی ہو تا ہے ۔ کیو نکہ اس کے بغیر وہ اپنے مقاصد کے حصول میں کامیا ب نہیں‬
‫تا۔‬ ‫ہو‬
‫خورشید رضوی کی شخصیت پر بلواسطہ اور بال واسطہ بہت سی شخصیات اثر انداز‬
‫رہی ہیں اور وہ بھی ان کی ا ثر پذیری سے منکر نہیں ہے۔ کسی بھی انسان کی یہ‬
‫بڑی خوش بختی ہے کہ اسے زندگی میں خرا ج تحسین پیش کیا جا ئے اور اس کی‬
‫اعلی صالحیتوں کا جائزہ اس کے ہم عصراور ما بعد شعراء ادباء نے معروضی انداز‬
‫ٰ‬
‫میں لیا ہے جو مبا لغہ آرائی سے کوسوں دور ہے ۔‬

‫احمد ندیم قا سمی خورشید رضوی کی شخصیت کی مختلف جہتوں کے دل‬


‫سے معترف تھے اور وہ انہیں اس طرح خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔‬
‫’’کچھ عرصہ پہلے تک میں خورشید رضوی سے اس‬
‫حد تک متعارف تھا کہ وہ ایک عمدہ غزل گو اور عربی‬
‫زبان کے ایک بڑے عالم ہیں پھر آہستہ آہستہ ان کی‬
‫شخصیت کی ہمہ جہتی مجھ پر منکشف ہو نے لگی‬
‫۔معلوم ہوا کہ عر بی کے عال وہ انہیں اردو اور فارسی‬
‫شعروادب کے متوازن تجزیے کا بھی کما ل حا صل ہے‬
‫اور وہ علم عروض پر بھی حاوی ہیں ۔ان کی‬
‫تصنیف’’تالیف‘‘کے مطالعے سے ثابت ہوا ہے کہ وہ نہ‬
‫صرف ایک عمدہ نقاد اور محقق ہیں بلکہ ایک شخصیت‬
‫نگار اور مکمل مترجم بھی ہیں ‘‘۔(‪)۳۳‬‬

‫جن لو گوں سے دیرینہ تعلقات ہوں اور خصو صی قر بت رہی ہو ان کے با‬


‫رے میں کچھ لکھتے ہوئے دل کشمکش میں مبتال ہو جا تا ہے کہ ابتداء کہاں سے‬
‫کریں اور انتہاء کہاں پہ ہو۔خو رشید رضوی کے ایک دوست اسلم انصاری یو ں رقم‬
‫طراز ہیں ۔‬

‫’’جن لو گوں سے ذہنی اور جذبا تی قربت رہی ہو ‪،‬ان‬


‫کی شخصیت یا فکر وفن کے بارے میں کچھ لکھنا‬
‫خاصامشکل ہو تا ہے ۔بر سوں پر محیط ما نو سیت‬
‫‪،‬مطلو بہ حد تک معروضیت کو ممکن نہیں رہنے دیتی‬
‫جو درست فنی محا کمے اور تنقیدی تجزیے کے لیے‬
‫ضروری ہے۔اس کے با وجود خورشید رضوی یا اس‬
‫کی شاعری کے با رے میں اظہارخیال کچھ ایسا مشکل‬
‫نہیں ۔ اس کی شا عری خاص احباب کے دائرے سے‬
‫نکل کر ارباب نقدونظر تک پہنچی تو سب کے لیے‬
‫فردوس گو ش ثابت ہوئی ‘‘۔(‪)۳۴‬‬
‫اگرہم عصر افراد کسی شخص کے علم و فن اور شخصیت کے جملہ پہلوؤں‬
‫کو سراہیں تو یہ اُس کے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں کہ اسے زندگی میں ہی اس‬
‫قابل سمجھا گیا۔‬

‫جمیل یوسف خورشید رضوی کے حوالے سے لکھتے ہیں ۔‬

‫’’مجھے اس کا علم نہیں ہے کہ آنے واال وقت خورشید‬


‫رضوی کی شاعری سے کیا سلوک کرے گا مگر یہ‬
‫دعوی میں بال خوف وتردید کر سکتا ہوں کہ اگر کسی‬
‫ٰ‬
‫ہم عصر کی شاعری مجید امجد کے اثرات کے امکانات‬
‫کی آئینہ دار ہے تو خورشید رضوی کی شاعری ہے۔ان‬
‫کی طبعیت میں بھی وہی خلوت گزینی اور گو شہ نشینی‬
‫ہے جو مجید امجد میں تھی۔ کسی قسم کا کوئی علمی‬
‫‪،‬ادبی‪ ،‬لسانی مسئلہ در پیش ہو تو میں فو را َ ََان کے‬
‫دروازے پر دستک دیتا ہوں اور اپنا دامن علم و دانش‬
‫کے مو تیوں سے بھر لیتا ہوں ‘‘۔(‪)۳۶‬‬

‫کم گوئی‪،‬کم خوری‪،‬کم خوابی اوراس کے ساتھ ساتھ کم آمیزی‪،‬اگر یہ چار‬


‫عناصر کسی شخصیت کا خاصہ بن جائیں تو وہ یقیناًغیر معمولی شخصیت ہوگی۔کچھ‬
‫افراد میں یہ خصائص طبعا ً ہوتے ہیں جبکہ بعض افراد اکتساب فیض سے انہیں‬
‫اپناکراس کارگہ ہستی میں دوسروں کے لیے ایک مثال قائم کر دیتے ہیں۔ ادبی‬
‫شخصیات کی اکثریت نے اپنی ذات کو خود پر منکشف کرنے کے لیے گوشہ تنہائی‬
‫او ر کم آمیزی میں ہی عافیت جانی کیونکہ ان کے کام کی نوعیت بھی اسی متقاضی‬
‫ہے۔‬

‫خورشید رضوی کی گوشہ نشینی اور کم آمیزی کی گواہی بہت سے لوگوں نے‬
‫دی ہے۔ محمد کاظم اس حوالے سے لکھتے ہیں۔‬
‫’’شہرت اور خود نمائی سے انھیں کبھی غرض نہیں‬
‫رہی وہ خاموشی سے ٹھوس کام کرنے کے عادی ہیں‬
‫اور اپنے کام کا ڈھنڈورا انہوں نے کبھی نہیں پیٹا۔انھوں‬
‫نے ایک عربی تذکرہ شعراء قالئد الجمان کی تدوین‬
‫وتسوید ‪،‬ترجمے اورحواشی کے پُر مشققت کام کی‬
‫تکمیل میں اپنی زندگی کے دس برس لگادئیے اور ان‬
‫کے اس کام کی کسی کو خبر تک نہ ہوئی‘‘۔ (‪)۳۱‬‬

‫بطور محقق خورشید رضوی نے ’’عربی ادب قبل از اسالم‘‘ کے نام سے جو‬
‫تاریخ مرتّب کی ہے وہ ان کی محنت اور اپنے کام سے لگن کا عملی ثبوت ہے۔اس‬
‫حوالے سے محمد جاوید سیّد رقم طراز ہیں۔‬

‫’’مشہور پا کستانی محقق و شاعر خورشید رضوی نے‬


‫جو عربی ادب میں تخصص رکھتے ہیں۔ان کی مسا عی‬
‫جمیلہ سے عربی ادب قبل ازاسالم کی ایک ایسی کتا ب‬
‫ہے جو تشنگان عربی ادب کو قبل ازاسالم عربی ادب‬
‫وشعر کی صورت حال سے تفصیلی طور پر آگاہ کر تی‬
‫ہے اور انہیں مشرق ومغرب میں ہو نے والی تما م تر‬
‫ممکنہ تحقیق سے بھی آگاہ کراتی ہے ‘‘۔(‪)۳۹‬‬

‫بطور نثر نگار اور مترجم خورشید رضوی نے ایسی شاندار کتب تخلیق کی‬
‫ہیں جو اس کی علمی وسعت اوربین االقوامی ادب سے لگاؤ کا بیّن ثبو ت ہیں‬
‫۔نثرنگاری کے ساتھ ساتھ اس کی بے ال گ خاکہ نگا ری اردوادب میں اسے صف ّاول‬
‫کے خاکہ نگار وں کی صف میں ال کھڑا کر تی ہے ۔‬

‫سلجھاکر انہیں معانی کے‬


‫سادگی‪ ،‬سالست ‪،‬روانی اورلفظوں کی گتھیوں کو ُ‬
‫نئے نئے پیراہن دینا با کمال نثر نگار کا اسلوب نگارش ہے اور جان جو کھم بھی‬
‫ہے۔خورشید رضوی کی نثر میں یہ خوبی بدرجہ اتم مو جود ہے جس کا اعتراف اُس‬
‫کے معا صربھی کر تے ہیں ۔‬
‫ان کی نثر نگا ری کے حوالے سے ڈاکٹر حسین احمد پر ا چہ لکھتے ہیں ۔‬

‫’’خورشید رضوی کی نثر کی یہ نمایاں خو بی ہے کہ‬


‫خالص علمی گتھیاں کھولتے ہوئے بھی ان کی تحریر‬
‫کی سال ست ‪،‬روانی اور شگفتگی رہتی ہے ۔شخصیت‬
‫نگا ری کے نازک کا م سے نہا یت حسن وخو بی کے‬
‫ساتھ عہدہ برا ہو ئے ہیں ۔(‪)۳۱‬‬

‫شخصیت کا بے الگ اظہار خاکہ نگاری کا نمایاں وصف ہے ۔کسی شخص کی‬
‫زندگی کے پہلوؤں کو اس طرح نما یاں کر نا کہ اس کا تعارف بھی ہو جا ئے مگر وہ‬
‫اس کی سوانح نہ ہو۔ اس شخص کے افکاروکردار ‪،‬خوبیوں اور خامیوں پر روشنی‬
‫ڈالی جا تی ہے ۔خورشید کی خاکہ نگا ری کا اعتراف اس کے معاصرین نے خلوص‬
‫دل سے کیا ہے کیونکہ اس نے خاکہ نگاری کے اصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے‬
‫تمام خاکے تحریر کیے۔‬

‫خورشید رضوی کی خاکہ نگا ری کے بارے میں نسیم عباس احمد یوں رقم‬
‫طراز ہیں ۔‬

‫’’ڈاکٹر خورشید رضوی کی خاکہ نگا ری میں یہ خوبی‬


‫اوج کما ل کو پہنچی ہو ئی ہے کہ خوبیوں کو روانی‬
‫سے بیان کرتے چلے جا تے ہیں جب کہ خامیوں کی‬
‫طرف اشاروں میں با ت کر دیتے ہیں ۔اس کی وجہ ان‬
‫کی اپنی شخصیت کی منکسرالمزاجی ہے ‘‘۔(‪)۳۸‬‬

‫خورشید رضوی کے ہم عصر قلم کاروں نے اس کی شخصیت کے ہر پہلو کا‬


‫جائزہ عقیدت مندی سے لیا ہے۔ اس لئے فن و شخصیت میں خوبیاں زیادہ نظر آتی ہیں۔‬

‫کتب ‪/‬تصانیف (تعارف)‬


‫عربی شاعری ایک تعارف ‪(:‬آغاز تا عہد بنی اْمیہ ‪،‬مؤلّف ‪:‬ڈاکٹر خورشید‬ ‫‪۱‬۔‬
‫رضوی ‪ ۱۴۳‬صفحات پر مشتمل یہ کتاب پہلی بار ‪ ۱۰۰۱‬ء میں اور دوسری‬
‫بار ‪ ۱۰۱۳‬ء میں شیخ زید اسالمک جامعہ پنجاب الہور س ‪۱۰۰۰‬تعداد میں‬
‫شائع ہوئی ۔اس کی قیمت ‪ ۱۸۰‬ر وپے ہے ۔‬

‫تالیف (مجموعہ مضامین )‪:‬مصنف ڈاکٹر خورشید رضوی ‪،‬ناشر ‪:‬پروفیسر‬ ‫‪۱‬۔‬
‫محمد شریف اصالحی ‪ ۱۱۴‬صفحات پر مشتمل یہ کتاب اکتوبر ‪ ۱۸۸۶‬ء‬
‫شرکت پرنٹنگ پریس ‪ ۴۳‬نسبت روڈ الہور سے ایک ہزار تعداد میں شائع ہوئی‬
‫۔اس کی قیمت ‪ ۱۰۰‬روپے ہے انتساب والد مرحوم کے نام ہے ۔‬

‫اطراف (مجموعہ مضامین )‪:‬مصنف ‪:‬ڈاکٹر خورشید رضوی ‪،‬اشاعت اول‬ ‫‪۳‬۔‬
‫‪۱۰۰۳‬ء اشاعت دوم ‪ ۱۰۱۱‬ء ‪ ۱۴۱،‬صفحات پر مشتمل یہ کتاب ‪ ۶۰۰‬کی تعداد‬
‫میں مغربی پاکستان اردو اکیڈمی الہور سے شائع ہوئی اس کی قیمت ‪۳۰۰‬‬
‫روپے ہیں انتساب استاد گرامی ڈاکٹر ایس ایم زمان صاحب کے نام ہے ۔‬

‫تاریخ علوم میں تہذیب اسالمی کا مقام ‪:‬خطبات ‪:‬ڈاکٹر فواد سیز گین ‪،‬ترجمہ‬ ‫‪۴‬۔‬
‫‪:‬ڈاکٹر خورشید رضوی ‪ ۱۴۱،‬صفحات پر مشتمل کتاب ادارہ تحقیقات اسالمی‬
‫الجامعہ االسالمیہ العالمیہ اسالم آباد سے شائع ہوئی ۔انتساب استاد گرامی ڈاکٹر‬
‫صوفی محمد ضیا ء الحق کے نام ہے ۔‬

‫عربی ادب قبل از اسالم (جلد ّاول )‪:‬ڈاکٹر خورشید رضوی اشاعت ّاول جون‬ ‫‪۶‬۔‬
‫‪ ۱۰۱۰‬ء ‪ ۹۰۳،‬صفحات پر مشتمل یہ کتاب ادارہ اسالمیات پبلیشرز ‪،‬بْک‬
‫سیلرز الہور سے شائع ہوئی ۔انتساب والدہ مرحومہ کے نام ہے ۔‬

‫قالئد الجمان (تحقیق متن عربی ‪،‬حصہ ششم )تحقیق ‪ :‬خورشید رضوی‬ ‫‪۱‬۔‬
‫‪۱۱۴‬صفحات پر مشتمل یہ کتاب شیخ زید اسالمک سنٹر‪،‬پنجاب یونیورسٹی‬
‫الہور سے شائع کی گئی ۔اس کی قیمت ‪ ۱۰۰‬روپے ہے۔انتساب استاد محترم‬
‫ڈاکٹر صوفی ضیاء الحق کے نام ہے ۔‬
‫حکم المحکمۃ الشرعیۃ ‪(:‬انگریزی سے عربی ترجمہ )‪:‬رباپر وفاقی شرعی‬ ‫‪۹‬۔‬
‫عدالت کے انگریزی فیصلے کا عربی ترجمہ‪،‬زیر اہتمام‪،‬اسالمی ترقیاتی بنک‬
‫جد ہ ‪ ۱۸۸۶،‬ء ۔‬

‫یکجا (کلیات )‪:‬خورشید رضوی ‪،‬اشاعت اول ‪۱۰۰۹:‬ء میں ہوئی ‪۱۱۰،‬‬ ‫‪۱‬۔‬
‫صفحات پر مشتمل یہ کتاب الحمد پبلی کیشنز الہور سے شائعہوئی ۔اس کی‬
‫قیمت ‪ ۱۰۰‬روپے ہے ۔اس مجموعے میں شاخ تنہا‪،‬م سرابوں کے صدف‪،‬‬
‫رائگاں‪ ،‬امکان) شامل ہیں۔‬

‫دیریاب ‪ :‬خورشید رضوی ‪،‬اشاعت ّاو ل ‪ ۱۰۱۳‬ء ‪(،‬حمد ونعت ‪،‬غزلیں ‪،‬نظمیں‬ ‫‪۸‬۔‬
‫)‪ ۱۱۸‬صفحات پر مشتمل یہ مجموعہ کالم القا پبلی کیشنز الہور سے شائع ہوئی‬
‫انتساب ڈاکٹر توصیف تبسم کے نام ہے اس کی قیمت ‪۳۸۶‬روپے ہے۔‬

‫شاخ تنہا‪ :‬خورشید رضوی ‪۱۱،‬مئی ‪ ۱۸۹۴‬ء ‪،‬انتساب مجید امجد کے نام ہے‬ ‫‪۱۰‬۔‬
‫۔‪ ۱۱۰‬صفحات پر مشتمل یہ مجموعہ کالم ہے ۔ یکجا (کلیات) اشاعت دوم‬
‫‪ ،۱۸۹۴‬اشاعت سوم ‪ ۱۰۰۹‬اور چوتھی اشاعت یکجا (کلیات) کی صورت‬
‫‪۱۰۰۹‬ء اور پانچویں ‪۱۰۱۱‬ء میں ہوئی۔‬

‫سرابوں کے صدف ‪:‬خورشید رضوی ‪،‬انتساب والدہ صاحبہ کے نام ہے۔اشاعت‬ ‫‪۱۱‬۔‬
‫ّاول ‪ ۱۸۱۱‬ء اشاعت دوم ‪ ۱۸۸۶‬ء‪ ۱۴۴ ،‬صفحات پر مشتمل اس مجموعہ کالم‬
‫کی اشاعت سوم ‪ ۱۰۰۹‬اور اشاعت چہارم ‪۱۰۱۱‬ء میں ہوئی۔ انتساب والدہ‬
‫صاحبہ کے نام ہے۔‬

‫رائگاں ‪:‬خورشید رضوی ‪،‬انتساب ثریا کے نام ہے۔اشاعت ّاول ‪۱۸۸۱‬ء‬ ‫‪۱۱‬۔‬
‫‪۱۱۱‬صفحات ہیں۔‬

‫امکان ‪:‬خورشید رضوی ‪،‬انتساب عابد صدیق کے نام ہے ۔اشاعت اول ‪ ۱۰۰۴‬ء‬ ‫‪۱۳‬۔‬
‫‪ ۱۱۰‬صفحات ہیں۔‬
‫نسبتیں ‪(:‬حمد ‪،‬نعت ‪،‬منقبت ‪،‬سالم )اشاعت ّاول ‪ ۱۰۱۶‬ء انتساب ترتیب ارسالن‬ ‫‪۱۴‬۔‬
‫احمد ارسل شاعر خورشید رضوی‪ ،‬قیمت ‪ ۱۱۰‬روپے‪ ،‬انٹرنیشنل نعت مرکز‬
‫الہور۔‬
‫حوالہ جا ت‬

‫زاہد منیرعا مر ‪،‬ڈاکٹر‪،‬تالیف‪’’،‬ارمغان خورشید ‘‘‪،‬ال ہو ر ‪،‬پنجاب‬ ‫‪۱‬۔‬


‫یونیورسٹی‪،‬ص ‪۳۸‬‬

‫ارمغا ن خو ر شید ‪ ،‬ص‪۳۸،۴۰،۴۱‬‬ ‫‪۱‬۔‬

‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪۴۱،۴۱،‬‬ ‫‪۳‬۔‬

‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪۴۶،‬‬ ‫‪۴‬۔‬

‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪۴۶‬‬ ‫‪۶‬۔‬

‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪۳۱۸،۳۱۱‬‬ ‫‪۱‬۔‬

‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪۴۴،۴۶‬‬ ‫‪۹‬۔‬

‫انٹر ویو‪،‬خا لد ہما یوں ‪،‬مشمو لہ‪،‬قو می ڈائجسٹ‪،‬جنو ری ‪۱۰۰۴‬ء‬ ‫‪۱‬۔‬


‫ص‪۱۱‬‬

‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪۳۱‬‬ ‫‪۸‬۔‬

‫ارمغا ن خو رشید ‪،‬ص‪۴۹،‬‬ ‫‪۱۰‬۔‬

‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪۴۱‬‬ ‫‪۱۱‬۔‬

‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪۴۱‬‬ ‫‪۱۱‬۔‬

‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪۱۰‬‬ ‫‪۱۳‬۔‬

‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪۴۱۱‬‬ ‫‪۱۴‬۔‬

‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪۱۴،۱۶‬‬ ‫‪۱۶‬۔‬


‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪۱۳‬‬ ‫‪۱۱‬۔‬

‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪۳۱۴‬‬ ‫‪۱۹‬۔‬

‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪۳۴۱،۳۴۹‬‬ ‫‪۱۱‬۔‬

‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪۳۶۰‬‬ ‫‪۱۸‬۔‬

‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪۳۹۹‬‬ ‫‪۱۰‬۔‬

‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪۳۱۱،۳۱۳‬‬ ‫‪۱۱‬۔‬

‫محمد کا ظم ‪’،‬قالئدالجمان ‘‪،‬مشمولہ ‪،‬فنون ‪،‬جوالئی تا ستمبر‬ ‫‪۱۱‬۔‬


‫‪۱۰۰۱‬ء‪،‬شما رہ‪،۱۱۶‬ال ہو ر‪،‬ص‪ ۳۱‬تا ‪۴۰‬‬

‫خو رشید رضوی ‪،‬ڈاکٹر ‪’،‬تا لیف‘‪،‬ال ہور ‪،‬شہ تا ج مطبو عات‬ ‫‪۱۳‬۔‬
‫‪۱۸۸۶،‬ء ‪،‬ص‪۱۹‬‬

‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪۱۱‬‬ ‫‪۱۴‬۔‬

‫ارمغا ن خو رشید ‪،‬ص‪۱۱۸،۱۹۱‬‬ ‫‪۱۶‬۔‬

‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪۱۱۱‬‬ ‫‪۱۱‬۔‬

‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪۱۱۱‬‬ ‫‪۱۹‬۔‬

‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪۸۱‬‬ ‫‪۱۱‬۔‬

‫خو رشید رضوی ‪،‬ڈاکٹر ‪’ ،‬چند روز اُردن میں ‘‪،‬مشمو لہ ‪،‬‬ ‫‪۱۸‬۔‬
‫الحمرا‪،‬شمارہ ‪ ،۳‬جلد ‪،۱۳‬ال ہور ‪،‬مارچ ‪۱۰۱۳‬ء‪،‬ص‪۳۶‬۔‬

‫الحمرا ‪،‬مارچ‪۱۰۱۴‬ء‪،‬ال ہو ر‪،‬ص‪۱۱‬‬ ‫‪۳۰‬۔‬

‫ارمغان خورشید ‪،‬ص‪۹۰‬‬ ‫‪۳۱‬۔‬


‫قومی ڈائجسٹ‪،‬جنو ری ‪۱۰۰۴‬ء‪،‬ص‪۴۴‬‬ ‫‪۳۱‬۔‬

‫ارمغا ن خو رشید‪،‬ص‪۹۸‬‬ ‫‪۳۳‬۔‬

‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪۱۴‬‬ ‫‪۳۴‬۔‬

‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪۸۹‬‬ ‫‪۳۶‬۔‬

‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪۱۸۱‬‬ ‫‪۳۱‬۔‬

‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪۱۳۱‬‬ ‫‪۳۹‬۔‬

‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪۱۴۱‬‬ ‫‪۳۱‬۔‬

‫ایضا َ ََ‪،‬ص‪۱۶۰‬‬ ‫‪۳۸‬۔‬


‫باب چہارم‪:‬‬

‫محمد کاظم (تحقیقی وتنقیدی جا ئزہ)‬

‫محمد کاظم کا ادبی حلقوں میں تعارف ’’فنون‘‘ کے ذریعے ہوا اس لیے طالبعلموں‬
‫کے جس گروہ کو فنون۔ کی فکر اور مزاج کا آئینہ دارسمجھا جاتا تھا ۔ اُن پر محمد‬
‫کاظم جب قلم اُٹھاتے ہیں تو دراصل وہ اپنی اجتماعی شناخت کی دریافت کی سرشاری‬
‫کے مرحلے سے گزرتے ہیں ۔ وہ جب احمد ندیم کاقسمی محمد خالد اختر یا علمی‬
‫عباس جالل پوری پر قلم اٹھائیں تو دراصل یہ اُن کی بالواسطہ آپ بیتی کا معنی خیز‬
‫حصہ بن جاتا ہے۔ میں ہر شخص اپنی انا رکھتا تھا لیکن احمد ندیم قاسمی اور فنون‬
‫نے اُنہیں ایک خاص گروہ میں ڈھال دیا تھا۔‬

‫یادیں اور باتیں (خاکے اور منتخب مضامین )پر ‪ ۱۸۸‬صفحات پر مشتمل یہ کتاب‬
‫‪ ۱۰۱۰‬ء میں سنگ میل پبلی کیشنز ال ہور سے شائع ہوئی۔یہ محمد کا ظم کی ان‬
‫‘‘’’سوغات‬ ‫’’فنون‬ ‫رسائل‬ ‫مختلف‬ ‫جو‬ ‫ہے‬ ‫مجموعہ‬ ‫کا‬ ‫تحریروں‬
‫‘‘’’(بنگلور)‘‘’’الحمرا‘‘‪’’،‬مونتاج‘‘میں شائع ہوئیں۔اس کتاب کے پانچ بڑے حصے‬
‫ہیں ۔‬

‫پہال حصہ ’’خاکے‘‘کے عنوان سے ہے ۔ اس میں پانچ خاکے ’’ماڈرن قلندر‘‘(مختار‬


‫مفتی )’’شاہ جالل پور ‘‘(علی عباس جالل پوری)’’محمد خالد اختر ‘‘ ‪’’،‬احمد ندیم‬
‫قاسمی ‘‘ ’’اختر حسین جعفری ‘‘کے عنوانات کے تحت پیش کیے گئے ہیں ۔‬

‫پہال خاکہ ‘‘ماڈرن قلندر’’ فنون کے شمارہ جوالئی اگست ‪۱۸۱۱‬ء میں شائع ہوا اور یہ‬
‫محمد کا ظم کی پہلی تخلیقی کاوش ہے ‪ ۸‬تا ‪ ۱۶‬صفحا ت پر اس کتاب میں مشمولہ یہ‬
‫خاکہ فکرونظر کے کئی دروا کرتا ہے ۔ اس خاکے کی شخصیت ’’مختاراحمد مفتی‬
‫‘‘ہیں۔ جو محمد کا ظم کے کالج فیلو‪ ،‬دوست اور درجہ ّاول کے مجسٹریٹ تھے ۔‬

‫فنون میں شائع ہونے والی محمد کاظم کی ہر تحریر خاص مقصد کی حامل ہے ایسا‬
‫محسوس ہو تا ہے کہ وہ اپنے قارئین کی خصوصی ذہنی تربیت کرنا چاہتے ہیں‬
‫عموما َ ََخاکے صاحب حیات شخصیات کے لکھے جا تے ہیں لیکن محمد کاظم کا‬
‫معاملہ اس کے برعکس ہے اُس نے زیادہ تر وفیات کے بعد خاکے تحریر کیے۔‬

‫مختارمفتی خاکہ نگار کا کالج فیلوتھا اس لیے اُس کے ساتھ عقیدت کا نہیں بلکہ دوستی‬
‫کا رشتہ تھا جو بہت لمبے عرصے پر محیط تھا ۔ پہال دَورکالج دوران تعلیم اور دوسرا‬
‫مال زمت کے دوران اچانک مالقات اور پھر پُرانی دوستی کا والہانہ انداز سے عود‬
‫آنا۔‬ ‫کر‬
‫سن کر عہد رفتہ کو یاد کرتے ہوئے محمد کا ظم‬
‫مختارمفتی کی اچانک وفات کی خبر ُ‬
‫ا ُس کی شخصیت کے جملہ پہلوؤں کا معروضی انداز میں جائزہ لیتا ہے۔ خاکہ نگار‬
‫کا اسلوب انتہائی دلچسپ بر محل اور بر حستہ ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ صاحب‬
‫خاکہ مجسم ہو کر ہمارے سامنے کھڑا ہے۔ محمد کا ظم نے روایت دوستی نبھا تے ہو‬
‫ئے غیر جانبدرانہ انداز میں من حیث االنسان اس کی شخصی خوبیوں اور خامیوں‬
‫کابے الگ جائزہ لیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ صاحب خاکہ کا اہل قلم نہیں بلکہ اہل‬
‫دل ہو نا ضروری ہے ۔‬

‫مختار مفتی کی شخصیت بظاہر سید ھی سادی ہے لیکن کبھی کبھی وہ فلسفیانہ‬
‫گفتگوشروع کر دیتا ہے جس سے محسوس ہوتا ہے کہ اس کی شخصیت میں بہت پیچ‬
‫وخم ہیں۔اس کے اندر خواہشات کا ایک ال متناہی سلسلہ ہے جو کبھی پوری ہو تی دکھا‬
‫دیں۔‬ ‫نہیں‬ ‫ئی‬
‫محمد کا ظم اس کے علم وادب ‪،‬فن مو سیقی سے لگاؤ کا معترف ہے لیکن اس کے‬
‫باوجود اس کی شخصیت کے جذباتی پن اور تضاد کو واضح کیا ہے کہ کامیاب از‬
‫دواجی زندگی کے با وجود وہ عورت اور مرد کے رشتے کو مضحکہ خیز سمجھتا‬
‫ہے ‪،‬تنہائیوں اور ویرانیوں کا ذکر کرتا ہے حاالنکہ وہ خود محفل کا آدمی ہے۔‬

‫محمد کا ظم نے خاکہ نگاری کی معروف قوت حلیہ نگاری سے بھی کام لیا ہے ۔‬

‫’’کالج کے زمانے کا مختار ایک ناٹے قد کا گول مول‬


‫قصبائی وضع کا لڑکا تھا۔ شلوار قمیض پہنتا اور اپنے گول‬
‫سر اور خشخشے بالوں کے ساتھ یو ں لگتا جیسے مسجدمیں‬
‫پڑھتے پڑھتے کالج میں چالآیاہو پھر جب سولہ سال کے‬
‫ایک نا قابل یقین عرصے کے بعد ہم پہلی بارایک دوسرے‬
‫سے ملے تو اب وہ ایک نکلتے ہوئے قد کا جوان رعنا تھا ۔‬
‫اس کی رنگت بھی کچھ صاف اور اُجلی ہو چکی تھی ۔اپنی‬
‫مالحت بھری رنگت ‪،‬موٹے ہونٹوں اور سفید دانتوں کے سا‬
‫تھ وہ جنوبی سمندروں کے جزیروں کا شہزادہ لگتا تھا‬
‫‘‘۔(‪)۱‬محمد کاظم ‪،‬یادیں اور باتیں‪،‬سنگ میل پبلی کیشنز‬
‫‪ ،‬الہور ‪۱۰۱۰،‬ء ص‪)۱۹‬‬

‫محمد کاظم نے مختار مفتی کی حس مزاح کو بہت دلچسپ انداز میں بیا ن کیا ہے کہ‬
‫کہیں بھی یکسانیت کا احساس نہیں ہو تا ۔مختار مفتی خلیل جبران خلیل کا مداح تھا اس‬
‫لیے اُس کے خطوط جبران کے اسلوب کے نمائندہ تھے چونکہ محمد کاظم شبلی‬
‫نعمانی اور سید سلیمان ندوی کے طرزنگارش کا زبر دست مداح تھا اس لیے اس کے‬
‫اسلوب میں بھی وہی محققانہ انداز ہے اس لیے اُس کی تحریریں خواہ کوئی موضوع‬
‫ہو ہمیشہ قارئین پر اَن مٹ نقوش ثبت کریں گی ۔‬

‫’’شاہ جالل پور‘‘فنون شمارہ ‪ ۱۰۸‬مارچ ‪۱۸۸۸‬ء ص ‪ ۱۶‬تا ‪۱۴‬میں شائع ہو نے واال‬
‫یہ خاکہ فکروفلسفہ اور علم و دانش سے بھر پور شخصیت سید علی عباس جالل‬
‫پوری کا ہے جنہوں نے برسوں فکروفلسفہ کے چمن کی آبیاری کی ۔‬

‫عقیدت اور تنقید چند قدم تو ساتھ چل سکتی ہیں لیکن طویل مسافت ایک ساتھ طے کر‬
‫نا ان کے لیے ناممکن ہے۔ تنقید ایک پُر خار وادی کا نا م ہے جس کے لیے دامن خار‬
‫دار کانٹوں سے بھی اُلجھتا ہے لیکن استقامت ضروری ہے جس طرح ایک باغبان بے‬
‫دردی سے پودوں کی کا نٹ چھانٹ کرتا ہے صرف ان کی بہتری اور بڑھوتری کے‬
‫لیے اسی طرح ایک نقاد کا منصب بھی یہی ہے کہ وہ فن پا رے کو ہر پہلو سے‬
‫جانچے ۔‬

‫زیر موضوع خاکہ بھی اسی حقیقت کا متقاضی ہے کہ اس کا معروضی انداز میں جا‬
‫ئزہ لیا جا ئے ۔محمد کا ظم کا علی عباس جالل پوری سے دوستی اور بے تکلفی کا‬
‫رشتہ استوار تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ عقیدت مندی اپنی جگہ بر قرار تھی جو انہیں‬
‫کسی بھی حد سے تجاوز کر نے سے ما نع تھی ۔ اس لیے اس خاکے میں کچھ فنی‬
‫معائب ایسے بھی ہیں جن سے خاکہ نگار نے دانستہ طور پر پہلوتہی کی ہے۔‬
‫فنون میں شائع ہو نے والی محمد کا ظم کی تمام تحریریں متوازن اور سچ پر مبنی تھی‬
‫یہ خاکہ بھی سچائی کا دامن تھامے ہوئے ہے چونکہ یہ خاکہ سید صاحب کی وفات‬
‫کے بعد لکھا گیا ہے اس لیے اس روایت کو نبھانے کی کو شش کی گئی ہے کہ جانے‬
‫والے کی خامیوں سے صرف نظر کرتے ہو ئے اسے بڑی عقیدت کے ساتھ طاق‬
‫نسیان پر سجا نا ہے ۔‬

‫مصنف تھے ۔لیکن اُن کے اندر ایک‬


‫ّ‬ ‫اعلی پا ئے کے‬
‫ٰ‬ ‫سید علی عباس جالل پوری‬
‫متوازن ادیب کی شخصی خوبیوں کی کمی تھی ان کے اندر اختالف رائے برداشت‬
‫کرنے کا ما دہ بہت کم تھا حاالنکہ بطور مصنف وہ خود بھی ایک نقاد تھے اپنی‬
‫تحاریر پر تنقید کر نے والے کو وہ آڑے ہاتھوں لیتے اور ذاتیات پر اُتر آتے یہاں تک‬
‫کہ انہوں نے محمد کا ظم کو بھی نہ معاف کیا ۔محمد کا ظم کے بارے میں کہتے ہیں۔‬

‫’’ایک بات میرے لیے بھی ناقابل فہم ہے سید محمد کاظم‬
‫جو دوسروں کو تختہ دار پر لٹکتے ہوئے دیکھنے کے اس‬
‫قدر مشتاق ہیں ‪،‬خود گوشہ عافیت میں بیٹھ کر اور اپنی ہی‬
‫ذات کے خول میں محصور ہو کرابتدائی قسم کے حظوظ‬
‫سے بہرہ یاب ہو نے کو زندگی کا حاصل کیوں سمجھتے‬
‫ہیں‘‘؟(‪( )۱‬محمد کاظم ‪،‬یادیں اور باتیں‪،‬سنگ میل پبلی‬
‫کیشنز ‪ ،‬الہور ‪۱۰۱۰،‬ء ص‪)۳۱‬‬

‫یہ محمد کاظم کی شرافت طبع ہے کہ اُنہوں نے اسے انتہائی صبر سے برداشت کیا‬
‫اور ان کے بارے میں مثبت رویہ رکھا ۔ علمیت اور تعصب ایک دوسرے کے منافی‬
‫ہیں ۔ تعصب کسی بھی شکل میں علمی صالحیتوں کے لیے دیمک ہے ۔علی عباس‬
‫جالل پوری سخت قسم کے پنجابی اور عالقائی تعصب رکھتے تھے اس سلسلے میں‬
‫وہ کچھ سننے کے روادار نہ تھے۔اپنی ذات کے با رے میں سچ بولنا ہر کسی کے بس‬
‫کی با ت نہیں اسی لیے سید صاحب نے بھی اپنی یاد ایام کی چند جھلکیاں دکھا کر یہ‬
‫ادھورا سلسلہ جلد ہی موقوف کر دیا ۔‬

‫محمد کا ظم کا تحریر کردہ یہ خاکہ انتہائی دلچسپ اور بھر پور تا ثر لیے ہو ئے ہے‬
‫اس میں سید صاحب کی شخصیت کے مخصوص پہلواس طرح سموئے ہوئے ہیں کہ‬
‫خاکے کے اختتام پذیر ہو نے کاپتہ ہی نہیں چلتا یوں محسوس ہو تا ہے کہ ہم برا ہ‬
‫راست سید صاحب سے محوم القات ہیں اور یہ اشتیاق بڑھتا ہی جا تا ہے ۔ محمدکا ظم‬
‫نے اُن کی شخصی کمزوریوں سے پردہ تو اُٹھایا ہے مگر اس طرح سے سید صاحب‬
‫پر بجائے غصے کے پیار آنے لگتا ہے دل واقعتا َ ََبر ضا و تسلیم ہو جا تا ہے کہ وہ‬
‫بلند فشار خون کی وجہ سے ہی اتنے جذباتی ہو جا تے تھے لیکن بعد میں اپنی غلطی‬
‫کا احساس بھی ہو جا تا تھا لیکن رسما َ ََمعافی کے خواستگار کم ہی ہو تے تھے ۔محمد‬
‫کاظم نے اُن کے علمی کارناموں کا اس انداز سے جا ئزہ لیا ہے کہ ان کی و سعت‬
‫اعلی‬
‫ٰ‬ ‫علمی اور فلسفیانہ ژرف نگا ہی بھر پور انداز سے سامنے آتی ہے اور نہایت‬
‫ظرفی سے سید ص احب کی علمیت کا تہہ دل سے اعتراف کیا ہے اس طرح ان کے‬
‫۔‬ ‫ہے‬ ‫آتی‬ ‫نظر‬ ‫متانت‬ ‫کی‬ ‫طرح‬ ‫خاص‬ ‫میں‬ ‫انداز‬
‫زیر موضوع کتاب کا تیسرا خاکہ ’’محمد خالد اختر‘‘‪:‬ایک تعارف ہے جو ’’سو غات‬
‫ہوا۔‬ ‫شائع‬ ‫میں‬ ‫‪۱۸۸۴‬ء‬ ‫مارچ‬ ‫‘‘بنگلور‬
‫یہ خاکہ مذکورہ با ال خاکوں سے اس لیے مختلف ہے کہ یہ محمد خالد اختر کی زندگی‬
‫میں لکھا گیا ۔اس کا آغاز ڈرامائی انداز سے حلیہ نگاری سے کیا ہے جو قاری کی‬
‫توجہ فورا َ ََاپنی جا نب مبذول کر لیتا ہے ۔‬

‫یہ خاکہ تعارفی انداز میں لکھا گیا ہے اس لیے اس میں شخصی تعارف زیادہ ہے۔‬
‫آباؤاجداد کے مسکن کا ذکر ہے۔محمد خالد اخترکی تعلیم ‪،‬مالزمت ‪،‬افتادطبع اور‬
‫لکھنے کی ابتداء کے حوالے سے تفصیل ہے ۔ ان کے حلقہ احباب میں احمد ندیم‬
‫قاسمی سے تعلق اور دوستی کا ذکر ہے ۔ محمد خالداختر کی سیمابی فطرت کا ذکر‬
‫کرتے ہو ئے کہ ایک جگہ اطمینان سے نہیں ٹھہرتے تھے اور سیاحت کا شوق‬
‫رکھتے تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنی یادداشتوں کو سفر نامے کی صورت میں‬
‫قلمبند کرتے جاتے تھے ۔‬
‫محمد کاظم نے ممکن حد محمد خالد اختر کی کتب کا جائزہ بھی لیا ہے۔محمد خالد‬
‫اعلی تعلیم یافتہ اورہمہ جہت ادیب تھے ۔انہوں نے سفر نامے ناول اور مختلف تنقیدی‬
‫ٰ‬
‫مضامین کے ساتھ ساتھ انگریزی سے اردو میں تراجم کیے انھیں پڑھنےوالے اور ان‬
‫اعلی تعلیم یافتہ تھا کیو نکہ عام قاری‬
‫ٰ‬ ‫کی فکر کو سمجھنے والے قارئین کا حلقہ بھی‬
‫انہیں سمجھنے سے قاصر تھا ۔ ان کے دو کر دار ’’چچا عبدالباقی ‘‘اور ’’بھتیجے‬
‫بختیار خلجی ‘‘نے طنز و مزاح کی دُنیا میں غیر فانی کردار ادا کیا ۔‬

‫محمد خا لد آزاد طبیعت کے آدمی تھے لیکن مالزمت نے ایک طرح سے پابند کر دیا‬
‫تھے‬ ‫تعینات‬ ‫پر‬ ‫عہدے‬ ‫اعلی‬
‫ٰ‬ ‫میں‬ ‫واپڈا‬ ‫وہ‬ ‫اور‬
‫اور لکھنے لکھانے کا سلسلہ بھی قریبا َ ََ موقوف ہو گیا تھا لیکن ان کے ادبی قالب میں‬
‫احمد ندیم قاسمی نے نئی روح پھونکی جبکہ ’’فنون‘‘کا اجراء ہوا تو محمد خالد کے‬
‫لیے طے پایا کہ اس کے لیے با قا عدگی سے لکھیں گے ۔ محمد خالد کے لیے یہ پیغام‬
‫ایک نئی نوید ثابت ہوا کہاں ہر وقت واپڈا کی خشک فائلوں میں سر کھپانا اور اب ان‬
‫کو اپنے مزاج کو جال دینے کا موقع مال۔ ’ ’ٖفنون‘‘ کے پہلے شمارے سے ہی محمد‬
‫خالد نے د وبارہ سے لکھنے کا آغاز کیا وہ سلسلہ جو کسی حد تک موقوف ہو گیا تھا‬
‫دوبارہ سے جڑ گیا۔ اس طرح اس کے مختلف شماروں میں اس کی رنگا رنگ‬
‫تحریریں شائع ہو نا شروع ہو گئیں اور یہ سلسلہ طویل عرصے پر محیط ہے۔‬

‫محمد کا ظم نے اپنے اس تعارفی خاکے میں محمد خالد اختر کی شخصیت کے اس‬
‫پہلو کا خصو صا َ ََ ذکر کیا ہے کہ وہ کسی کردار کو تخلیق کرنے سے پہلے اس کو‬
‫خود پر طاری کر لیتے تھے انہوں نے ان عالقوں میں رہائش اختیار کی جن کے‬
‫متعلق ناول یا کوئی مضمون لکھا ۔ہر دور میں ان کی تر جیحات بدلتی رہی ہیں ۔انہوں‬
‫نے غالب کو بالکل ایک اچھوتے انداز میں اس کے خطوط میں دریافت کیااور اسی‬
‫انداز میں اپنے رفقاء ے کار کو خطوط لکھے ۔‬

‫‘‘محمد کاظم نے اس خاکے میں اپنے دوست کا ادبی مرتبہ‬


‫طے کرتے ہوئے انتہائی افسوس کے سا تھ کہا کہ’’محمد‬
‫خالد اختر کس وضع کا اور کس مرتبے کا ادیب ہے اور‬
‫اردو ادب میں اس کی کنٹری بیوشن کیا ہے ؟اس بارے میں‬
‫اگر آپ اردو کے نقادوں سے رجو ع کریں گے تو وہاں‬
‫سوائے خاموشی کے آپ کو کچھ نہیں ملے گا ۔اس لیے کہ‬
‫خالد کو بالکل نظرانداز کرنے میں انہوں نے شروع سے اب‬
‫تک بڑی استقامت دکھائی ہے‘‘۔(‪( )۳‬یادیں اور‬
‫باتیں‪،‬ص‪)۴۶‬‬

‫محمد کاظم نے محمد خالد اختر کے اسلوب کی ندرت اور لطافت کو بہت سراہاہے ان‬
‫کی شخصیت وفن کے معائب نہیں بلکہ محاسن ہی بیاں کیے ہیں اور ان کے ساتھ‬
‫معاصرین کی بے مہری کی تالفی کرنے کی کوشش کی ہے ۔اور ان کے طرز اظہار‬
‫کی مثبت انداز سے وضاحت کی ہے ۔ان کی کتب کو ما سوائے مخصوص طبقے کے‬
‫پزیرائی نہ ملنے کی وجہ ان کی عزلت پسندی اور کمزور تعلقات عامہ ہے۔ محمد کا‬
‫ظم نے ان کی کتب کا فردا َ ََفردا َ ََتعارف کرایا ہے اور ان کا جائزہ لیا ہے ۔محمد خالد‬
‫زمانہ طالب علمی سے ہی منفرد مزاج کا حامل تھا۔کچھ نیا کرنے کی دھن اس پر‬
‫سوار رہتی تھی ان لیے اس کی سوچ اور خیا ال ت عام قاری کی سمجھ سے باال تر‬
‫ہیں۔‬
‫بحیثیت مجموعی یہ خاکہ بہت دلچسپ بیانیہ انداز میں لکھا گیا ہے لیکن ابتدائی سطور‬
‫میں محسوس ہو تا ہے کہ ہم براہ راست محمد خالد اختر سے مالقات کر رہے ہیں یہ‬
‫مصنف کے قلم کا اعجاز ہے جس نے تحریر کو زندگی بخشی ہے ۔‬

‫زیر نظر ک تاب میں شامل چوتھا خاکہ جس شخص پر لکھا گیا ہے وہ ادبی دنیا میں‬
‫ایک قد آور شخصیت اور کسی تعارف کی محتاج نہیں محمد کاظم سے پہلے ان پر بے‬
‫شمار لوگوں نے لکھا ۔ ان کی زندگی میں ہی بہت سے معاصرین نے انہیں خراج‬
‫تحسین پیش کیا ۔ ان کی شخصیت اتنی پہلو دار ہے کہ جتنی بھی پرتیں کھولتے جائیں‬
‫ہر پرت میں ایک منفرد شخصیت ہمارے سامنے آئے گی ۔ شاعر‪ ،‬افسانہ نگار‪ ،‬مدیر‬
‫یہ ہر دل عزیز شخصیت احمد ندیم قاسمی ہیں ۔‬

‫احمد ندیم قاسمی پر تحریر کردہ یہ خاکہ فنون میں شائع ہوا ۔ یہ احمد ندیم قاسمی کی‬
‫وفات کے بعدان سے حق رفاقت ادا کرتے ہوئے لکھا ملنا‪ ،‬بچھڑنا ‪ ،‬جینا‪ ،‬مرنا یہ سب‬
‫زندگی کی ریت ہیں لیکن ان احساسات کو صفحۂ قرطاس پر النا ہر کسی کے لیے‬
‫ممکن نہیں ۔‬

‫وہ لوگ جو دوسروں کی زندگیوں کے لیے چراغ رہ ثابت ہوں اور انہیں زندگی کے‬
‫معانی سمجھادیں تو انہیں بھالنا واقعتا ناممکن ہے ۔ جینے کے لیے زندگی کو معمول‬
‫کی ڈگر پر تولے آتے ہیں لیکن وہ لوگ جن کے ساتھ زندگی کے یاد گار لمحے‬
‫گزرے ہوں انہیں چاہ کر بھی نہیں بھال یا جا سکتا ۔‬

‫یہ خاکہ تاثر سے بھرپور انداز میں یادوں کے سلسلے کو جوڑتے ہوئے سلیس اسلوب‬
‫میں لکھا گیا ہے ۔پیشہ وارانہ زندگی میں محمد کاظم اور احمد ندیم قاسمی دو مختلف‬
‫دنیاؤں کے لوگ تھے لیکن جو چیز انہیں ایک مرکز پر الئی وہ ’’فنون‘‘کا اجراتھا‬
‫جس کے مدیر احمد ندیم قاسمی تھے محمد کاظم کی ان سے پہلی مالقات محمد‬
‫خالداختر کی وساطت سے ہوئی اور بعد میں یہ گہری دوستی میں بدل گئی محمد کاظم‬
‫طبعا ً کم گو اور کم آمیز انسان تھا اس لیے ابتدائی تعلقات میں وہ دوسروں سے کچھ‬
‫فاصلہ ہی رکھتا تھا ۔ احمد ندیم قاسمی سے وہ ذہنی طور مرعوب تھا اور باوجود ان‬
‫کی فرمائش کے ’’فنون‘‘ کے لیے کچھ لکھنے سے گریزاں تھا حاالنکہ اس سے‬
‫پہلے وہ عربی ادب کے حوالے سے دیگر رسائل میں مضامین لکھ چکا تھا ۔‬

‫فنون میں لکھنے کے لیے حکیم حبیب الشعر نے بے انتہا اصرار کیا ل ٰہذا انہیں لکھتے‬
‫ہی بنی ۔ ایک ماہ کی مسلسل محنت سے انہوں نے فنون کے لیے ’’الف لیلہ عربی‬
‫ادب میں ‘‘ لکھا جسے مدیر فنون نے بہت سراہا اور چوتھے شمارے میں شائع کیا ۔‬
‫اس سے محمد کاظم کے اندر بطور ادیب اعتماد پیدا ہوا اور وہ احمد ندیم قاسمی کی ہر‬
‫فکر ی جہت کے دل سے معترف تھے ۔‬

‫محمد کاظم ان کی ادبی صالحیتوں سے قطع نظر ان کی حس مزاح اور دوستوں سے‬
‫محبت اور بے تکلفی کے انداز کو بہت پسند کرتے تھے۔ اس خاکے میں احمد ندیم‬
‫قاسمی کے ساتھ ساتھ الہور کی تہذیب و ثقافت اور ادبی ماحول کے بارے میں بھی‬
‫جانکاری ملتی ہے ۔ وقت کے س اتھ ساتھ احمد ندیم قاسمی اور محمد کاظم کی شناسائی‬
‫قربت میں بدلتی گئی اور گھریلو تعلقات بھی پروان چڑھنے لگے ۔‬
‫محمد کاظم کا اسلوب جاندار اور تحریریں نپی تلی ہوئی ہیں اس لیے وقت اور حاالت‬
‫کے ساتھ اس کی تحریریں بھی اسی رخ پر ڈھلتی جاتی ہیں یہاں ۔ پر محمد کاظم اپنے‬
‫سفر جرمنی (جون ‪ 6791‬ء) جو کہ اس کی زندگی کا اہم واقعہ ہے یہاں دو دوست دور‬
‫ہو کر بھی پہلے سے زیادہ ایک دوسرے کے قریب آگئے اور طویل خطوط کا تبادلہ‬
‫شروع ہو گیا محمد کاظم دانستہ خطوط کی نوک پلک سنوار کر لکھتا تاکہ وہ فنون میں‬
‫شائع ہو جائیں لیکن مدیر فنون جو ایک صاحب دانش ادیب تھے ان میں پرکھ پڑچول‬
‫کی حس بہت زیادہ تھی انہوں نے ارادتا ً ان خطوط کوشائع نہ کیا کیونکہ وہ چاہتے‬
‫تھے کہ محمد کاظم ان سارے واقعات کو ایک سفر نامے کی صورت میں مرتب کرے‬
‫۔تاکہ قارئین ادب کے سامنے اس کا ایک نیا جوہر سامنے آئے ۔ محمد کاظم نے اس‬
‫خاکے میں احمد ندیم قاسمی کی دو شخصی خوبیوں کا ذکر انتہائی عقیدت سے کیا ہے‬
‫۔ ایک وہ تعلق نباہنے میں بے مثال تھے اور دوسرے احساس ذمہ داری ان میں بدرجۂ‬
‫اتم موجود تھا ۔ا حمد ندیم قاسمی کے حوالے سے لکھتے ہوئے محمد کاظم اپنے اور‬
‫ان کے مشترکہ دوست محمد خالد اختر سے اُن کی دوستی اور بے تکلفی کا ذکر کرتا‬
‫ہے۔‬

‫جب فنون کا دفتر دوسری جگہ منتقل ہوا اور ندیم مجلس ترقی ادب کے دفتر میں بطور‬
‫ناظم تعینات ہوئے تو ان کی زندگی میں بہت بڑی تبدیلی آئی جو نشیب و فراز سے بھر‬
‫پور ہے ۔‬

‫آخر میں محمد کاظم ان کی وفات پر اپنے منفرد اور دلکش اسلوب میں اظہار غم کرتا‬
‫ہے کہ ان کے بعد پیدا ہونے واال خال کبھی بھی پرنہیں ہوگا وہ اپنی ذات میں ایک‬
‫تھے اس لیے دو ئی ناممکن ہے ۔ وہ اردو ادب والوں کے لیے بمثال شجر سایہ دار‬
‫تھے کیونکہ وہ ہر صنف میں با کمال تھے اور نئے آنے والوں کی بہت حوصلہ‬
‫افزائی کرتے تھے ۔‬

‫محمد کاظم اپنی ذات کے حوالے سے احمد ندیم قاسمی سے جدائی کو اپنی زندگی کا‬
‫بہت بڑا سانحہ قرار دیتا ہے ایسا سانحہ جس نے اس سے لکھنے کی صالحیت سلب‬
‫کرلی اور اب اس کے پاس کہنے سننے کو کچھ بچا ہی نہیں کیونکہ وہ جس شخصیت‬
‫کے لیے لکھتا تھا وہ اب ان سے بہت دور منوں مٹی کے نیچے جا سوئی ۔‬

‫محمد کاظم کی یہ تحریر اپنے آغاز سے لے کر اختتام تک قاری کو اپنی گرفت میں‬
‫یوں جکڑے رکھتی ہے کہ وہ اسے پڑھے بغیر دم نہیں لیتا اور آخر میں ایک افسردہ‬
‫تاثر کے ساتھ محمد کاظم کے لیے دعا کرتا ہے کہ انہیں لکھنے کے لیے کوئی ایسا‬
‫محرک مل جائے کہ جس کی پناہ میں وہ خود کو آسودہ سمجھیں ۔‬

‫شامل کتاب پانچواں خاکہ ‘‘اختر حسین جعفری ‪ :‬دل سے کب اس کی یاد جاتی ہے ’’‬
‫کے عنوان سے یہ خاکہ اختر حسین جعفری کی وفات کے بعد احاطہ تحریر میں الیا‬
‫گیا۔ جس میں خاکہ نگار نے ان بیتی ہوئی یادوں کو مجتمع کیا ہے ۔ جو ایک دوسرے‬
‫کی سنگت میں وقتا ً فوقتا ً گزری ہیں ۔ (‪ ۱۱‬فنون مئی‪ ،‬اگست ‪۱۸۸۱‬ء ‪ ،‬ص‪ ۶۱‬تا ‪۶۶‬‬
‫میں شائع ہوا)۔‬

‫اعلی تعلیم یافتہ اور محکمہ کسٹمز میں افسر تھا ۔ بے حد حساس‬
‫ٰ‬ ‫اختر حسین جعفری‬
‫انسان اور خوش فکر شاعر تھا لیکن نمود و نمائش سے ہمیشہ گریزاں رہا ۔ جس فکر‬
‫سے وہ اپنی پہچان بنانا چاہتا تھا وہ عوام کی سمجھ سے باال تر تھی اوروہ اس کی‬
‫۔‬ ‫تھے‬ ‫چاہتے‬ ‫نہیں‬ ‫ہی‬ ‫سمجھنا‬ ‫کو‬ ‫گہرائی‬
‫زیر موضوع خاکہ انہی موضوعات کو لیے ڈرامائی انداز سے شروع ہوتا ہے اور‬
‫قاری کی توجہ فورا ً اپنی جانب مبذول کر لیتا ہے ۔ جو اختر حسین جعفری سے شناسا‬
‫بھی نہیں ہیں وہ بھی اسلوب کی دلکشی میں گم ہو کر دم سادھے اس خاکہ نما مضمون‬
‫کو پڑھ کرہی دم لیتے ہیں ۔ محمد کاظم کی نثر سادگی اور سالست کا مجموعہ ہے‬
‫صاحب خاکہ سے اس کی طویل مالقاتیں تو محض چند تھیں لیکن یادیں بے شمار ہیں‬
‫اس کے باوجود ان یادوں میں بے تکلفی کی وہ فضا نہیں جو دوسرے خاکوں میں ہے‬
‫۔ اختر جعفری کابے ربط سا تعارف ہے جس سے قاری اس کی شخصیت کے بارے‬
‫میں کوئی واضع رائے نہیں پیش کر سکتا ۔ محمد کاظم نے اس کی شاعری ‪ ،‬شاعرانہ‬
‫بصیرت اور وسیع نقطہ نظر کا اعتراف کیا ہے۔ اور اس کی شاعری کے بارے میں‬
‫اپنا نقطہ نظر پیش کیا ہے۔‬
‫اختر حسین جعفری جدید نظر کا شاعر تھا اس کی نظم کا ہر مصرع ایک علیحد ہ‬
‫خیال پیش کرتا ہے اور اس میں باہمی ربط کا فقدان ہے لیکن مصرعوں کی بنت‬
‫باکمال اور آہنگ شاندار ہے اس لیے قار ی ان کی گرفت میں آجاتا ہے جبکہ اختر‬
‫حسین جعفری اس بارے میں جذباتی ہو جاتا تھا اور اس کا کہنا تھا کہ اس کا ہر‬
‫مصرع الگ الگ صورتحال کے لیے خاص تاثر دیتا ہے اور اس کو نا سمجھنا گویا‬
‫جدید نظم کے تقاضوں سے بے خبری کے مترادف ہے ۔ ایسا ہی ایک سوال علی‬
‫عباس جالل پوری (جو حددرجہ جذباتی انسان تھے )نے کیا اس قسم کی شاعری کی‬
‫قدروقیمت کیا ہے ؟ اختر حسین جعفری اس غیر متوقع سوال کو حفظ مراتب کے‬
‫تقاضے کے تحت برداشت کر گیا لیکن اندر سے وہ انتہائی مضمحل ہو گیا اور یہ بے‬
‫چینی ایک غزل کی صورت میں سامنے آئی اس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس کی‬
‫فکر اس کے مزاج کی تابع تھی کیونکہ یہ غزل اس کی ذہنی کیفیت کی عکاس‬
‫تھی اختر حسین جعفری کے نام سے زیادہ لوگ غیر شناسا ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ‬
‫اس نے غالبا ً خود اس کی غفلت ہے محمد کاظم نے یہاں انتہائی دکھ کا اظہار کیا ہے‬
‫کہ وہ زمانے کی بے اعتنائی کا شکار ہو گیا اور یوں اچانک وقت سے پہلے ہی اس‬
‫دنیا سے رخصت ہوگیا۔ وہ اپنی شخصیت کا اظہار اس طرح سے نہ کر سکا جس‬
‫طرح چاہتا تھا اس لیے اس نے اظہار کا دوسرا راستہ یہ نکاال کہ ’’فروا‘‘ کے نام‬
‫سے کتابی سلسلے کی اشاعت کا آغاز کیا۔ پہال شمارہ ہی شائع ہوا اور دوسرا بھی‬
‫تیاری کے مراحل میں تھا کہ پیغام اجل آپہنچا اور یوں اپنے ادھورے منصوبوں کے‬
‫ساتھ وہ ہم سے جدا ہوگیا محمد کاظم جو خود ایک مرنجاں مرنج شخصیت تھے انہیں‬
‫بعد میں اس بات کا شدید قلق رہا کہ انہیں طے شدہ منصوبے کے تحت ایک جگہ جمع‬
‫ہو کر اپنے خیاالت کو عملی جامہ پہنانا تھا لیکن مصروفیت حیات نے فرصیت نہ دی‬
‫اور یوں یہ خواہش ایک کسک بن کر رہ گئی۔‬

‫محمد کاظم اس خاکے کا اختتام انتہائی کرب کے ساتھ شعر کے اس مصرعے سے‬
‫کرتے ہیں ۔‬

‫ملیں گے اب بھی ‪ ،‬مگر آہ! کب ؟ کہاں ؟ کیوں کرزیر موضوع کتاب کا دوسرا حصہ‬
‫’’عربی اور اسالمی ادب ‘‘کے عنوان سے ہے ۔ اس میں مختلف موضوعات پر‬
‫مشتمل چار مضامین ہیں جو محمد کاظم کی زیر کی اور تنقیدی بصیرت کی روشن‬
‫مثال ہیں ۔ وہ عربی ادب پر گہری نظر رکھتا تھا ۔ زیر موضوع مضامین اسی کی‬
‫حقیقت پر داللت کرتے ہیں ۔ یہ مضامین اس سے پہلے فنون کے مختلف شماروں میں‬
‫شائع ہوتے رہے ہیں اور اب اس کتاب میں شائع کیے گئے ہیں تاکہ جو قارئین بوجوہ‬
‫نہیں پڑھ سکے وہ اب ان کا مطالعہ کر سکیں ’’فنون ‘‘ میں شائع ہونے والے اور اب‬
‫کتاب میں شائع ہونے والے ان مضامین اور ان کے موضوعات میں کوئی تبدیلی نہیں‬
‫گئی۔‬ ‫کی‬
‫پہال مضمون ’’ موالنا محمد علی جوہر اور ان کے انتقال پر کہے گئے دو مرثیے‘‘‬
‫ہے اس میں ان مرثیوں کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ یہ مضمون ’’روزن در‘‘کے عنوان کے‬
‫تحت فنون کے شمارہ ‪ ،۴۰‬جوالئی تا دسمبر ‪۱۸۸۳‬ء میں ص ‪ ۱۱‬تا ‪ ۱۱‬پر شائع ہوا ۔‬
‫اس سلسلے میں تین مضامین ہیں ۔ جس میں مذکورہ مضمون پہلے نمبرپر ہے اس کے‬
‫بعد دوسرا مضمون سیننکا کا ایک خط (کتابوں کے مطالعے کے بارے میں ) اور‬
‫تیسرا مضمون شام کے شاعر ’’نزار قبانی ‘‘ کی ایک چھوٹی سی نظم کا جائزہ ہے ۔‬
‫زیر نظر کتاب کے دوسرے حصے میں شامل پہال مضمون میرا موضوع بحث ہے ۔‬
‫اس میں محمد کاظم نے موالنا محمد علی جوہر کے انتقال پر کہے گئے مرثیوں کا‬
‫تحقیقی و تنقیدی جائزہ لیا ہے موالنا محمد علی جوہر تحریک پاکستان کے سر کردہ‬
‫رہنما اور اپنے ارادوں میں چٹان کی مانند شخصیت تھے ‪ ،‬دیار غیر میں ان کی‬
‫اچانک وفات پر بے شمار مرثیے کہے گئے لیکن محمد کاظم نے جن مرثیوں کو‬
‫موضوع بنایا ہے ان کی خاصیت یہ ہے کہ یہ دو عظیم شعراء شاعر مشرق عالمہ‬
‫محمد اقبال (‪6899‬ء تا ‪ )6718‬اور مصر کے امیر الشعراء احمد شوقی (م‪۱۸۳۱‬ء) کا‬
‫ان کی شان میں نذرانہ عقیدت ہے ۔‬

‫یہ مرثیے دو مختلف زبانوں میں کہے گئے ۔ عالمہ اقبال نے جو مرثیہ کہا وہ فارسی‬
‫زبان میں ہے اور احمد شوقی کا مرثیہ عربی زبان میں ہے موالنا محمد علی جوہر کی‬
‫وفات ایک عالم کی وفات تھی اس لیے ان کی یاد میں بہت سے شعراء نے مرثیے‬
‫کہے ۔ محمد کاظم نے ان مرثیوں کو آخر میں اردو ترجمے کے ساتھ پیش کیا ہے‬
‫لیکن اس سے پہلے انہوں موضوع مرثیہ شخصیت موالنا محمد علی جوہر کی‬
‫شخصیت کے چند پہلوؤں کا اجمالی جائزہ لیا ہے تاکہ ان مرثیوں کی ادبی اہمیت‬
‫واضح ہو سکے ۔ انہوں نے موالنا محمد علی جوہر کی جذباتیت کا خصوصا ً ذکر کیا‬
‫ہے لیکن ساتھ ہی یہ واضح کیا ہے کہ یہ جذباتیت کسی مثبت پہلو کی ہی آئینہ دار‬
‫ہوتی تھی ۔ یہاں پر موالنا کی سیاسی جدو جہد اور اس کے نتیجے میں پیش آمدہ‬
‫مشکالت ک ا ذکر کیا ہے کہ کس طرح اس بطل حریت نے اپنی زندگی داؤ پر لگا دی‬
‫ان کے انگریزی اخبار’’کامریڈ ‘‘ نے آزادی صحافت میں نمایاں ترین کردار ادا کیا۔‬

‫موالنا کی شخصیت اور جدوجہد آزادی کے بارے میں یہ واقعات تاریخ کے صفحات‬
‫میں ہمیں جا بجا ملتے ہیں کہ کسی جابر حکمران کے سامنے گردن جھکانا انہوں نے‬
‫سیکھا ہی نہیں تھا وہ سب مصلحتوں کو باال ئے طاق رکھ کرسامنے کھڑے ہوجاتے‬
‫نتائج کی پرواہ انہوں نے کبھی نہیں کی تھی ۔ اس میں ان کی ان دوتقاریر کا حوالہ ہے‬
‫جو انہوں دو مختلف مواقع پر کیں ایک لندن میں گول کانفرنس میں شرکت کے دوران‬
‫اور دوسری ابن سعود کی بدعہدی کے موقع پر ان کے منہ پر اسے للکارا۔‬

‫محمد کاظم نے چھ صفحوں پر مشتمل اس مضمون میں ان مرثیوں کا جائزہ آخری‬


‫ایک صفحہ پر لیاہے ۔ پہلے احمد شوقی کے مرثیے کا جائزہ لیا ہے کہ یہ بائیس‬
‫اشعار پر مشتمل ایک رواں بحر طویل نظم ہے ۔ اس میں حسب روایت پہلے بیت‬
‫المقدس کی رفعت و عظمت کا ذکر ہے اس کے بعد جدوجہد آزادی کے اس متوالے کو‬
‫خراج عقیدت پیش کیا ہے ۔‬

‫’’اے زمین قدس ! اپنے سبزہ زار کا ایک قطعہ سجا ‪ ،‬اس‬
‫کے لیے جو تیری مٹی کا مہمان ہوا ہے اور اس کی آمد کا‬
‫جشن منا۔ وہ اللہ کی تلوار وں میں سے ایک تلوار ہے یا یوں‬
‫سمجھو کہ اپنی کاٹ میں وہ ایک سیف ہندی ہے بستیوں کی‬
‫سر دار اس بستی میں تمہاری تدفین کا اذن ایک ایسے مفتی‬
‫نے دیا جس نے اپنے اس فتوے میں اللہ کی رضا چاہی تھی‬
‫‘‘(ص ‪)۹۱‬‬
‫عالمہ اقبال کا مرثیہ پانچ اشعار پر مشتمل ایک مختصر نظم ہے لیکن یہ ان کے‬
‫فارسی کلیات میں شامل نہیں ہے ۔ یہ پہلی بار کسی اخبار میں شائع ہوئی تھی ۔ اس‬
‫میں شاعر سرزمیں بیت المقدس کے لیے یہ سعادت سمجھتا ہے کہ یہ وفا کے پتلے‬
‫کے لیے آخری آرام گاہ بنی ۔ وہ اس کی عظمت کردار کو خراج تحسین پیش کرتا ہے‬
‫۔‬

‫’’ایک ایسا انسان جو کالے اور گورے کی تفریق سے بلند‬


‫تھا صرف اسی خاک میں سماسکتا تھا جو رنگ و بو سے‬
‫پاک ہو اس کا جلوہ چشم ایشیا میں تا ابد باقی رہے گا‪،‬‬
‫اگرچہ مشرق کی آنکھ کا وہ نور آفتاب سے بھی پرے نکل‬
‫گیا‘‘۔(ص‪)۹۹‬‬

‫دونوں شعراء نے اپنے اپنے انداز میں موالنا کو خراج عقیدت پیش کیا ہے موضوع‬
‫دونوں کا مشترک ہے لیکن اسلوب بیان اور جذبے کے گداز میں فرق ہے لیکن دونوں‬
‫کے خلوص کی سچائی قاری کے جذبات کو گرماتی ہے اور وہ موالنا کے جذبہ‬
‫حریت سے متاثر ہوتا ہے ۔‬

‫مضمون کے آخر میں محمد کاظم ان مرثیوں میں شامل جذبات نگاری سے بہت متاثر‬
‫ہوتے ہیں کہ اگر موالنا محمد علی جوہر نے یہ مرثیے سنے ہوتے تو وہ ان مضامین‬
‫کے انتخاب پر ان شاعروں کو بہت داد دیتے ۔ دوسرا مضمون ’’عربی کی ایک‬
‫الوارث نظم ‘‘ کے نام سے شامل ہے ۔‬

‫محمد کاظم نے اس نظم کاتحقیقی و تنقیدی جائزہ لیا ہے لیکن یہاں پر یہ تفصیل بتانے‬
‫سے گریز کیا ہے کہ انہوں نے یہ نظم کب اور کہاں پڑھی بس اتنا بتانے پر اکتفاکیا‬
‫ہے کہ یہ قریبی زمانے کے لوگوں نے شائع کی ۔ اس نظم کا نام الیتیمتہ ہے اس کی‬
‫دو وجوہات بیان کی ہیں ۔ ایک تویہ کہ عربی میں الدرۃ الیتیمۃ اس کو موتی کہتے ہیں‬
‫جو بے مثال ہو یہ نظم خوبصورتی میں بے مثال ہے ۔ دوسری وجہ یہ کہ اس کا خالق‬
‫اس نظم کے دنیا کے سامنے آنے سے پہلے ہی قتل ہوگیا تھا اور یہ بن باپ کے بچے‬
‫کی طرح رہ گئی اور یتیمہ کہالئی ۔ اس نظم کا خالق شاعر کون تھا یہ بات آج تک‬
‫صیغۂ راز میں ہے ۔ اس نظم کے مضامین اور اسلوب کے پیش نظر اسے جاہلی نظم‬
‫قرار دیا گیا ہے ۔ یہاں پر مصنف نے ایک اہم نقطہ اٹھایا ہے کہ آخر وہ کون سا جاہلی‬
‫شاعر ہے کہ صدیاں گزرنے کے باوجود اس کی نظم مورخین کی نگاہوں سے اوجھل‬
‫رہی ؟‬

‫صاسبع معلقات کے‬


‫مصنف نے اس نظم کے اسلوب سے مماثل جاہلی شعراء خصو ً‬
‫شعراء کے اشعار کی امثال پیش کی ہیں لیکن اس کے باوجود اہل نظر اصحاب نے‬
‫اسے جاہلی ماننے سے انکار کر دیا۔‬

‫یہاں مصنف ایک اور خیال سامنے التا ہے کہ بعض اصحاب کی رائے میں اس نظم کا‬
‫شاعر عباسی دور کا ہے کیونکہ اس دور کے ادبا ء نے اس نظم میں ایسے اشعار کا‬
‫تذکرہ کیا ہے جو اس دور میں مستعمل تھے اس حوالے سے ناقدین کی مختلف آراء‬
‫۔‬ ‫ہیں‬
‫ایک نقاد عکبری نے بحوالہ ابوالفتح بن فوزجہ ا سے ایک شاعر منجبی کی نظم قرار‬
‫دیا ہے لیکن اس شاعر منبجی کے بارے میں کوئی تفصیل نہیں بتائی ۔ فی الوقت اگر‬
‫اس پر یقین کر لیا جائے تو اس نظم سے وابستہ داستان کا خاتمہ ہو جاتا ہے ۔ ذاتی‬
‫طور اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتا کہ یہ نظم منبجی نام کے کسی شاعر کی ہوگی‬
‫کیونکہ اس کا تو نام ہی غیر شاعرانہ لگتا ہے ۔‬

‫اس نظم سے وابستہ داستان سے مصنف کو جو مسرت ملی اسے وہ قارئین ادب کے‬
‫ساتھ شریک کرنا چاہتا ہے اس نظم کا تخیل اسلوب اور تاثر باکمال اور منفرد ہے ۔‬
‫مصنف اس نظم کے موضوع کا خالصہ یوں بیان کرتا ہے ۔‬

‫’’ نجد کے عالقے میں وعد نام کی ایک شہزادی تھی جسے اللہ نے عزت وقار کے‬
‫ساتھ حسن و جمال بھی عطا کیا تھا اور شعر کہنے کی بھی اچھی صالحیت بخشی تھی‬
‫۔ اس کو قریب و دور سے شادی کے پیغام آئے لیکن اس نے سب کو رد کر دیا ۔ اس‬
‫نے یہ تہیہ کیا ہوا تھاکہ وہ اس شخص سے شادی کرے گی جو اس سے بہتر شاعر‬
‫ہوگا اور اس کا سراپا بڑی خوبصورتی سے بیان کرے گا۔ شہزادی کی اس شرط کی‬
‫خبر جب پورے جزیرہ عرب میں پھیلی تو عالقہ تہامہ کے رہنے والے ایک شاعر‬
‫نے شہزادی کے سامنے پیش ہونے کا ارادہ باندھا۔ اس مقصد سے اس نے ایک نظم‬
‫کہی اور اونٹنی پر سوار ہو کر نجد کی طرف چل دیا راستے میں اسے ایک اور شاعر‬
‫مال جو اسی ارادے سے نجد کی طرف جا رہا تھا ۔ دونوں نے اپنے سفر کا مقصد بیان‬
‫کیا اور ایک دوسرے کو اپنی نظم سنائی ۔ دو سرے شاعر نے جب اس شاعر کی نظم‬
‫اعلی معیار کی ہے ۔ اس‬
‫ٰ‬ ‫سنی تو اس پر عیاں ہوا کہ اس کی نظم زیادہ خوبصورت اور‬
‫کے دل میں حسد پیدا ہوا اور اس نے تہامہ کے اس شاعر کو قتل کر دیا اور اس کی‬
‫نظم لے کر نجد کی شہزادی کے سامنے پیش ہوا۔‬

‫شہزادی پردے کے پیچھے آکر بیٹھ گئی اور شاعر نے وہ نظم سنانی شروع کی جب‬
‫وہ ایک خاص شعر پر پہنچا تو پتہ چال کہ شاعر تہامہ کا رہنے واال ہے لیکن نظم‬
‫پڑھنے والے شاعر کا لہجہ تہامی نہیں تھا ۔ شہزادی فورا ً معاملے کی تہہ تک پہنچ‬
‫گئی اور چال کر اپنے آدمیوں سے کہنے لگی کہ اس شاعر کو پکڑ لو یہ میرے شوہر‬
‫کا قاتل ہے انہوں نے اسے پکڑ لیا اور جب سختی کی تو اس نے اپنے جرم کا اقرار‬
‫کر لیا اس پر اسے قتل کردیا گیا ۔‬

‫اس خاص شعر کا ترجمہ یہ ہے۔‬

‫’’اگر تمہارا تعلق تہامہ سے ہے تو تہامہ میرا وطن ہے اور‬


‫اگر تم نجد کی ہو تو نجد میری جان ہے‘‘ (ص ‪)۹۱ ، ۹۰‬‬

‫مصنف کہتا ہے کہ یہ نظم بہت طویل ہے اس لیے اس نے اس نظم کے تمام اشعار‬


‫اپنے مضمون میں نہیں دیے محض تعارف کے لیے چند اشعار پر اکتفا کیا ہے ۔ تمام‬
‫اشعار کا موضوع اور لب ولہجہ جاہلی شعراء سے ملتا جلتا ہے ۔ نظم کے آخری‬
‫اشعار میں حکمت و دانش سے بھرپور نصیحت کی گئی ہے اور اس نصیحت میں عالم‬
‫گیر سچائی پوشیدہ ہے ۔‬

‫مصنف کا اس نظم کے حوالے سے جائز ہ لینا اور اسے شامل کتاب کرنا اس کاعربی‬
‫ادب کے حوالے سے لگاؤ ظاہر کرتا ہے کہ اس بات کا شدت سے خواہاں تھا کہ کسی‬
‫طرح عربی شاعری کے یہ الزوال نمونے قارئین کی تحسین آمیز نظروں سے اوجھل‬
‫نہ ہو جائیں ۔ اب اس نظم کے خالق کے حوالے بات شک و شبے میں ہے لیکن‬
‫شاعری کا ایک الزوال شاہ کار پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ افروز ہے۔‬

‫اس حصے کا تیسرا مضمون’’بشار بن وبرد اس کی زیر کی اور اور حس مزاح ‘‘‬
‫ہے ۔ یہ مضمون فنون کے شمارہ ‪ ،۱۱۱‬نومبر‪ ،‬دسمبر ‪۱۰۰۳‬ء میں ص‪ ۴۱‬تا ‪۶۴‬پر‬
‫شائع ہوا۔ ’’فنون ‘‘ اور زیر موضوع کتاب میں شائع شدہ اس مضمون کے موضوع‬
‫مواد اور لفاظی میں کوئی ردو بدل نہیں ۔‬

‫محمد کاظم جو کہ اپنی انجینئرنگ کی تعلیم اور پیشے کے لحاظ سے ایک الگ دنیا‬
‫کے باسی تھا اس کا مقصد محض قارئین کو عربی ادب سے متعارف کروانا تھا یہ کام‬
‫وہ ادبی خدمت او ر ذہنی آسودگی کے لیے انجام دیتا تھا یہ اس کی وسعت قلب اور‬
‫وسیع النظر ی تھی کہ جو خوشی اسے حاصل ہو رہی تھی وہ اسے دوسروں کے ساتھ‬
‫شریک کرنا چاہتا تھا ۔‬

‫مذکورہ باال مضمون ان کی اسی لگن کا جامع ثبوت ہے کہ وہ ایک ایسے شاعر سے‬
‫مالقات کرواتا ہے جس نے اموی اور عباسی دونوں دور حکومت دیکھے لیکن وہ‬
‫عباسی دور کا شاعر کہالتا ہے کیونکہ اس نے اپنی باشعور زندگی اور فکر و احساس‬
‫کی شاعری کا آغاز اسی دور سے کیا ۔‬

‫محمد کاظم نے زیر موضوع شاعر پر تبصرے سے پہلے اس عہد کی ادبی فضا‬
‫مختصرا ً بیان کی ہے کہ کس طرح عربی شاعر ی عہد جاہلیت کی فضا سے نکل کر‬
‫شہری فضا اور محالت میں آئی تو اسلوب بدل گیا ۔ موضوعات میں ایک طرح سے‬
‫نفاست آئی لیکن فصاحت کالم جو عربی شاعری کا ہر دور میں خاصہ رہا وہ من وعن‬
‫برقرار رہا ۔ عربی شاعری نے امرؤ القیس سے لے کر آگے دو بار حیات نو پائی ایک‬
‫عباسی دور میں بشاربن برد اور دوسرے انیسویں صدی کے او اخر میں محمود سامی‬
‫البارودی مصری شاعر کی بدولت ۔ عربی شاعری کے طویل سفر میں امرؤ القیس‪،‬‬
‫بشار بن برد اور بارودی مسلمہ حیثیت کے حامل ہیں ۔‬
‫محمد کاظم نے اس مضمون میں بشار بن برد کی شخصیت اور فن کے حوالے سے‬
‫بحث کی ہے بشار جو مادر زاد نابینا تھا اس نے اس کائنات کی رنگینیوں کو کبھی‬
‫دیکھا ہی نہیں تھا لیکن قانون قدرت ہے کہ جب کسی انسان میں کسی ایک صالحیت‬
‫کی کمی ہوتی ہے تو دوسری صال حیتیں زیادہ بہتر انداز میں کام کرتی ہیں۔‬

‫بشا ر بن برد نے نابینا ہونے کے باوجود اپنی شاعری میں رمز و ایما ‪ ،‬معنی و‬
‫موضوعات ‪ ،‬اظہار و بیان کے ایسے کماالت دکھائے کہ وہ بینا افراد کے لیے ایک‬
‫ضرب المثل بن گیا اسے اپنی فصاحت و بالغت اور اپنے کالم کے مستند ہونے کا‬
‫پورا احساس تھا ۔ وہ بصرہ میں پیدا ہوا اور وہاں قریب کے صحرائی عالقے میں جو‬
‫عرب بدو خیمہ نشین تھے وہ ان کے ہاں آتا جاتا تھا اس لیے وہ بادیہ عرب کی خالص‬
‫زبان اور اس کے محاورے سے مکمل طور پر واقف ہو چکا تھا ۔‬

‫بشار کی شخصیت میں کچھ ایسے منفی عناصر بھی تھے جن کی وجہ سے اس کے‬
‫قرب جوار کے لوگ اس سے بہت تنگ تھے کیونکہ اس نے لڑکپن سے ہی ہجو کہنی‬
‫شروع کر دی تھی ۔ اس لیے وہ اس سے کنارہ کشی میں عافیت سمجھتے تھے ۔ بشا ر‬
‫کی شخصیت میں یہ خوبی بدر جہ اتم تھی کہ وہ بلند حوصلہ تھا اس نے اپنی محرومی‬
‫کو روگ نہیں بنایا وہ روز مرہ زندگی میں انتہائی خوش مزاج ظرافت طبع تھا ۔ وہ‬
‫قنوطی لوگوں اور قنوطیت سے کوسوں دُور بھاگتا تھا اسے یہ رویہ پسند نہ تھا کہ‬
‫لوگ نابینا ہونے کی وجہ سے اسے ترحم آمیز نظروں سے دیکھیں ۔‬

‫بلکہ وہ دوسروں کو ز چ کر کے حظ اٹھا تا اور اس طرح انہیں اپنی طرف متوجہ‬


‫کرتا ۔ اس لیے وہ کہا کرتا تھا ۔‬

‫’’اللہ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے بینائی نہیں دی ۔ لوگ‬


‫اس سے پوچھتے اے ابو معاذ! ایسا کیوں کہتے ہو ۔ بشار‬
‫جواب دیتا اس نے ایسا اس لیے کیا ہے کہ میں مکروہ‬
‫چہرے نہ دیکھ سکوں ‘‘۔ (ص ‪)۱۸‬‬
‫بشار کے رویے سے لوگ بہت ناالں تھے ۔ اس لیے اس کے باپ کے پاس شکایت‬
‫کرتے لیکن بشار جسے اپنے رویے کا احساس تھا اس نے خودہی تاویل تالش کرلی‬
‫اور اپنے باپ سے کہا کہ انہیں قرآن کی یہ آیت سنا دو کہ ’’اندھے پر کچھ گناہ نہیں‬
‫‘‘۔‬ ‫ہے‬
‫مضمون نگار نے بشار کی شخصیت کا تجزیہ جامع اور مدلل انداز میں کیا ہے ۔ وہ‬
‫خلفاء وقت کی مدح تو کرتا تھا لیکن چاپلو سی سے گریزاں تھا اور وہ خوشامدیوں کو‬
‫ان کے منہ پر ہی لتاڑدیتا تھا ۔ صاحب مضمون نے ایسا ہی ایک واقعہ بیان کیا ہے ۔‬

‫’’ ایک دن بشار مہدی کی اجاز ت کے انتظار میں باہر بیٹھا تھا اس لیے کہ وہ خالفت‬
‫ک ے امور سلجھانے میں مصروف تھا بشار کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی بیٹھے تھے‬
‫جن میں مہدی کا ایک غالم تھا جو بہت خوشامدی تھا اس نے حاضرین سے سورۃ‬
‫النحل کی ان آیات کی تفسیر پوچھی ’’۔‬

‫’’اور تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھیوں کو اشارہ کیا‬


‫ان کے پیٹ سے پینے کی چیز نکلتی ہے جن کے مختلف‬
‫رنگ ہوتے ہیں‘‘۔‬

‫الخل کیا ہے اور شراب کیا ہے ؟ دوسرے لوگ تو خاموش رہے بشار نے کہا النحل‬
‫شہد کی مکھی تو معروف چیز ہے اور شراب پینے کی چیز ظاہر ہے شہد ہے وہ‬
‫کہنے لگا نہیں بالکل نہیں اس آیت میں النحل بنو ہاشم ہیں اور شراب وہ چیز ہے جو‬
‫ان کے پیٹ سے نکلتی ہے اور وہ علم ہے علم اس پربشار صبر نہ کر سکا اور اس‬
‫آدمی سے کہنے لگا ‪ :‬اللہ تمہارا کھانا اور پینا اس چیز میں رکھ دے جو بنو ہاشم کے‬
‫پیٹ سے خارج ہو جاتی ہے۔ یہ سن کر اس شخص کو بہت غصہ چڑھا اور حاضرین‬
‫بھی اس پر احتجاج کرنے لگے ۔اس واقعے کی خبر جب خلیفہ مہدی تک پہنچی تو ا‬
‫س نے دونو ں کو بال کر سارا ماجرا سنا اور ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوگیا پھر اس آدمی‬
‫سے مخاطب ہو کر کہنے لگا ‪ :‬اس میں کوئی شک نہیں کہ تم بہت ہی کوڑھ مغز اور‬
‫گنوار انسان ہوآخر چاپلوسی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ۔ (ص ‪)۸۳‬‬
‫بشار کو اس بات کی ہرگز پروا نہ تھی کہ لوگ اس کے بارے میں کیا رائے رکھتے‬
‫ہیں اس لیے اپنی شاعری میں بھی وہ خیالی قافیے لگا دیتا تھا اور ان کی وضاحت دینا‬
‫ضروری نہیں سمجھتا تھا۔ اس کا فلسفیانہ نظریہ یہ تھا کہ وہ ان چیزوں کا قائل تھا جن‬
‫کا وہ عینی شاہد تھا ۔ اس سلسلے میں وہ دین کے بنیادی عقائد کے بارے میں اپنی‬
‫رائے کا بے الگ اظہار کرتا تھا ۔‬

‫’’ایک دفعہ بشار کا گزر ظاہر پرستوں سے تعلق رکھنے‬


‫والے ایک قصہ گوپر ہوا جو مسجد میں کھڑا لوگوں کو دین‬
‫کی باتیں سنا رہا تھا ۔ وہ ان سے کہہ رہا تھا کہ جو شخص‬
‫رجب ‪،‬شعبان اور رمضان کے روزے رکھ لے تو اس کے‬
‫لیے جنت میں محل تعمیر کیا جائے گا جس کا صحن ایک‬
‫ہزار فرسخ ضرب ایک ہزار فرسخ ہوگا ۔ اس کی بلندی ایک‬
‫ہزار فرسخ ہوگی اور اس کا ہر دروازہ دس فرسخ ضرب‬
‫دس فرسخ ہوگا ۔ بشاریہ سنتا رہا پھر اپنے ساتھی کو‬
‫مخاطب کر کے کہنے لگا‪ :‬ایسا گھر تو کانون‬
‫الثانی(جنوری) کے مہینے میں ایک عذاب ہوگا۔ بشار کے‬
‫اس قول پر لو گوں نے اسے متہم کیا کہ وہ جنت کے وجود‬
‫سے انکار کرتا ہے اور اس کا مذاق اڑاتا ہے‘‘۔(ص ‪)۸۳،‬‬

‫بشار نابینا ہونے کے ساتھ ساتھ کافی بد صورت تھا اس کا چہرہ چیچک زدہ اور‬
‫آنکھوں کے ڈھیلے باہر کو نکلے ہوئے تھے اس کی وجہ سے اسے لوگوں کی طرف‬
‫سے بری طرح تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔‬

‫زیر کی اور حسں مزاح کے باوجود اس کے عقائد اور نظریہ اشعار میں اخیر دم تک‬
‫کسی قسم کی تبدیلی نہ آئی۔ اس نے پوری زندگی اپنے اشعار میں لوگوں کی ہجویں‬
‫لکھیں اور عورتوں سے چھیڑ چھاڑ کا مشغلہ جاری رکھا ۔ خلیفہ وقت بھی اس سے‬
‫مستثنی نہ تھا لیکن وہ اس کے خالف کوئی قدم اُٹھانے سے اس لیے گریزاں تھا کہ یہ‬
‫ٰ‬
‫انتقامی کاروائی سمجھی جائے گی ۔‬
‫جب اخیر عمر میں اس نے شراب پی کر چاشت کی اذان دی تو خلیفہ وقت (مہدی)‬
‫کے حکم سے اسے ستر کوڑے لگا ئے گئے اس کے کچھ عرصہ بعد وہ بصرہ میں‬
‫فوت ہوگیا چونکہ اس نے اپنی صالحیتوں کا استعمال منفی طریقے سے کیا اس لیے‬
‫اس کے مرنے کے بعد بالعموم اطمینان کا سانس لیا گیا اور ا للہ کا شکر ادا کیاگیا کہ‬
‫سب اس کے شر سے بچ گئے آخر میں یہ صورتحال انتہائی کرب ناک دکھائی دیتی‬
‫ہے کہ جب اس کے جنازے کے پیچھے سوائے اس کی مالزمہ کے کوئی نہ تھا۔‬

‫یہ بات قابل غو ر ہے کہ آیا وہ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے ایسی‬
‫حرکتیں کرتا تھا اور اپنے اندھے پن کے غم کو اپنے اندر ہی چھپا نا چاہتا تھا کہ لوگ‬
‫اس پر ترس نہ کھائیں اور وہ اپنا شمار ان امراء میں کرتا تھا جنہیں لوگ جانتے ہیں‬
‫لیکن وہ لوگوں کو بہت کم جانتے ہیں ۔ اس عہد کے لوگ اس کے نظریہ شعر سے‬
‫متاثر تھے لیکن وہ اس کی اوچھی حرکتوں سے تنگ تھے ۔ بشا ر کو اس بات کا شدت‬
‫سے احساس تھا کہ اس کے والدین بنی عقیل کے غالم تھے اور نچلے طبقے کے‬
‫لوگ تھے لیکن اپنے آباؤ اجداد کے حوا لے سے وہ کہتا تھا کہ ان کامرتبہ اہل فارس‬
‫میں وہی تھا جو عربوں میں قریش کا تھا ۔ اچھا شاعر ہونے کے باوجود یہ خاندانی‬
‫نسب کا اثر تھا کہ لوگوں کو زک پہنچانے سے ساری عمر باز نہ آیا کیونکہ اخالقی‬
‫اعتبار سے اس کی تعلیم و تربیت اس انداز سے نہیں ہوئی جیسا کی عموما شرفاء کے‬
‫گھرانوں میں ہوتی ہے۔‬

‫اس مضمون میں محمد کاظم نے ان شاعروں اور شخصیات کا خصوصی حوالہ دیا‬
‫ہے جو کسی جسمانی محر و می کا شکار تھے لیکن انہوں نے اپنی صالحیتوں کا لوہا‬
‫اعلی ذہنی‬
‫ٰ‬ ‫اس طرح منوایا کہ جسمانی محرومی پس پشت چلی گئی اور دنیا ان‬
‫صالحیتوں کی معترف ہو گئی اسی طرح بشا ر بن برد کی شخصی خامیوں سے قطع‬
‫نظر اس کی شاعرانہ صالحیتوں اور حس مزاح سے انکار ممکن نہیں۔‬

‫مقبول (ایک عہد بہ عہد سرسری جائزہ)‘‘‬


‫ؐ‬ ‫اس حصے کا چوتھا مضمون ’’نعت رسول‬
‫محمد کاظم نے یہ مختصر مقالہ ٹیک سوسائٹی الہور کے کلب کی ایک فکری نشست‬
‫میں پڑھا تھا ۔ اس کے سامعین کا تعلق انجینئرنگ اور صنعت و حرفت کے شعبوں‬
‫تھا۔‬ ‫سے‬
‫محمد کا ظم نے کچھ ضروری اضافوں کے ساتھ اسے ’’الحمرا‘‘کے قارئین کے پیش‬
‫ہوا۔‬ ‫شائع‬ ‫بھی‬ ‫میں‬ ‫’’الحمرا‘‘‬ ‫مقالہ‬ ‫مذکورہ‬ ‫۔‬ ‫کیا‬
‫مقالہ نگار نے مختلف شعراء جنہوں نے اس موضوع پر خامہ فرسائی کی ہے ان کی‬
‫شاعری جو اس دور میں قصیدہ کہالتی تھی کا موضوعاتی جائزہ لیا ہے ۔‬

‫’’نعت‘‘ کا موضوع بے پناہ وسعتوں کا حامل ہے ۔ اس کا مکمل احاطہ کرنا بہت‬


‫مشکل ہے ۔ اس کے لیے تین جلدیں درکار ہیں ۔ ایک عربی نعت دوسری فارسی نعت‬
‫اور تیسری اردو نعت ۔ موضوع کی وسعت کومد نظر رکھتے ہوئے یہ بھی نا کافی‬
‫ہیں ۔مقالہ نگار نے نعت کے مفہوم سے بحث کی ہے کہ عربی اور اردو میں یہ الگ‬
‫الگ معنی کا حامل ہے ۔ عربی میں اس کے معنی کسی چیز کا وصف بیان کرنا جبکہ‬
‫اردو میں اس نظم کو کہتے ہیں جس میں آنحضرت کے ساتھ عقیدت اور محبت کا‬
‫اظہار کیا گیا ہو۔ اردو میں جسے نعت کہتے ہیں عربی میں اسے ’’ا لمدیح المنبوی‘‘‬
‫کہتے ہیں ۔‬

‫حضور کی ذات اقدس تمام کائنات کے لیے مکمل نمونہ ہے ۔ آپ ؐ کے تشریف النے‬
‫ؐ‬
‫سے اور تبلیغ و ہدایت سے ہر طرف بھائی چارے اور اسالم کا غلبہ ہوگیا ا س لیے یہ‬
‫آپ سے عقیدت و محبت کا اظہار اشعار میں نہ کرتے‬
‫کیسے ممکن نہ ہوتا کہ لوگ ؐ‬
‫آپ کی مدح کی ان میں حضرت حمزہ ‪،‬حضرت ابو‬
‫۔ابتدائی ایام میں جن اصحاب نے ؐ‬
‫آپ کے چچا جناب ابو‬
‫فاطمہ کے نام شامل ہیں ۔ ؐ‬
‫ؓ‬ ‫بکر‪ ،‬حضرت عاتکہ اور حضرت‬
‫آپ کی مدح میں جو اشعار کہے وہ اس طرح ہیں ۔‬
‫طالب نے ؐ‬

‫’’اور اب جب قریش مکہ فخر کے لیے جمع ہوں تو وہ‬


‫محمد ہی ان میں سب سے برگزیدہ اور مایۂ‬
‫ؐ‬ ‫دیکھیں گے کہ‬
‫افتخار ہیں‘‘ (ص ‪)۱۰۱‬‬

‫اعلی معیار کی نعتیں کہیں ان‬


‫ٰ‬ ‫حضور ؐ کے زمانے میں جن شعراء نے عربی زبان میں‬
‫میں کعب ابن زہیر کا قصیدہ ’’بانت سعاد‘‘ حضرت عبداللہ بن رواحہ اور حسان بن‬
‫ثابت کے نام نمایاں ہیں۔‬
‫اعشی ایک بڑا جاہلی شاعر تھا ۔ جب اس نے حضور ؐ کی بعثت کی خبر سنی تو ایک‬
‫ٰ‬
‫نعتیہ قصیدہ کہا اور حجاز کی طرف روانہ ہوگیا لیکن جب ابو سفیان اور دوسرے اہل‬
‫اعشی کو یہ‬
‫ٰ‬ ‫قریش کو خبر ہوئی تو انہوں نے فورا ً چند ہ جمع کر کے ایک سو اونٹ‬
‫اعشی اللچ میں اونٹ لے کر اسالم الئے بغیر‬
‫ٰ‬ ‫کہہ کر دیئے کہ وہ لوٹ آئے چنانچہ‬
‫اور قصی دہ سنائے بغیر واپس آگیا لیکن اس کا انجام بہت الم ناک ہوا۔ ان میں سے ایک‬
‫اونٹنی کی پیٹھ سے نیچے گرا اور اس نے اپنے سینے سے رگڑ رگڑ کر اسے ہالک‬
‫کر دیا ۔‬

‫حسان بن ثابت نے اپنے مدحیہ قصائد میں آنحضرت کے خالف ہجو گوئی کرنے‬
‫‪،‬والوں کو ایسا جواب دیا کہ سب کو خاموش کر دیا ان کے بعد مدح نبوی کی روایت‬
‫کا آغاز ہوگیا اور ہر دور کے شعر ٗا نے اس سلسلے میں اپنا اپنا کردار ادا کیا ۔ مقالہ‬
‫نگار نے یہاں پر چیدہ چیدہ شعراء کا ذکر کیا ہے ان میں جاہلی دور کے وہ شعراء‬
‫آپ کا مکمل‬ ‫بھی شامل ہیں جنہوں نے قبول اسالم کے بعد مدحیہ اشعار لکھے اور ؐ‬
‫دفاع کیا۔ مقالے کی طوالت کے پیش نظر انہوں نے زیادہ تفصیل سے قصدا ً گریز کیا‬
‫ہے جس سے یک گونہ تشنگی کا احساس ہوتا ہے ۔ مزید برآں حواشی اور حوالوں کی‬
‫کمی بھی کھٹکتی ہے ۔‬

‫اس کے بعد مصنف تیرہویں صدی عیسویں کا ذکر کرتا ہے جب مصر میں شرف‬
‫الدین محمد بن سعید البوصیری پیدا ہوئے جنہوں نے اپنی شاعری میں نعتیہ کالم کے‬
‫نادر نمونے پیش کیے اور نبی کریم ؐکی شان مبارک میں متعدد قصائد لکھے ‪،‬‬
‫بوصیری کا قصیدہ بردہ تاریخ میں خصوصی اہمیت کا حامل ہے ۔ اس نظم کا نام‬
‫’’قصیدہ بردہ‘‘ کیوں رکھا ؟ اس کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی ہے کہ شاعر بوصیری پر‬
‫فالج کا حملہ ہوا جس سے اس کے جسم کا نصف حصہ بیکار ہوگیا انتہائی پریشانی‬
‫میں انہوں نے یہ قصیدہ نظم کرنا شروع کیا جب یہ مکمل ہوا تو وہ اسے پڑھ کر خدا‬
‫سے گڑ گڑا ک ر دعا کرتے ۔ ایک رات اسی حالت میں سو گئے تو خواب میں دیکھا کہ‬
‫حضورﷺ تشریف الئے انہوں نے اپنا دست مبارک ان کے جسم پر پھیرا اور اس پر‬
‫ایک چادر ڈال دی صبح جب وہ بیدار ہوئے تو خود کو بالکل تندرست پایا اسی مناسبت‬
‫سے انہوں نے اس نظم کا عنوان ’’قصیدہ بردہ‘‘ رکھا کیونکہ بردہ عربی زبان میں‬
‫ہیں۔‬ ‫کہتے‬ ‫کو‬ ‫چادر‬ ‫دار‬ ‫دھاری‬ ‫کی‬ ‫اوڑھنے‬
‫قصیدہ بردہ ایک سو پینسٹھ اشعار کی دس ابواب پر مشتمل طویل نظم ہے ۔ پہال باب‬
‫تشبیب پر مشتمل ہے جس میں عربی روایت کے مطابق واردات عشق کا اظہار ہے‬
‫دوسرا باب نفس اور شہوات نفس سے متعلق ہے تیسرا باب اکتیس اشعار پر مشتمل‬
‫حضور کی پیدائش سے متعلق ہے ۔ پانچویں‬
‫ؐ‬ ‫رسول میں ہے ۔ چوتھے باب میں‬
‫ؐ‬ ‫مدح‬
‫آپ کے معجزات کا بیان ہے ‪ ،‬چھٹا باب قرآن کی فضیلت پر ہے ساتویں باب‬
‫باب میں ؐ‬
‫میں واقعہ معراج کا ذکر ہے ۔ آٹھویں باب میں حضور ؐ کے جہاد اور غزوات کا تذکرہ‬
‫حضور کی ذات کو‬
‫ؐ‬ ‫ہے نویں باب میں شاعر نے اپنی نجات اور مغفرت کے لیے‬
‫۔‬ ‫ہیں‬ ‫مناجات‬ ‫کی‬ ‫شاعر‬ ‫میں‬ ‫باب‬ ‫آخری‬ ‫اور‬ ‫ہے‬ ‫بنایا‬ ‫وسیلہ‬
‫محمد کاظم نے اس مقالے میں ابواب کے فردا ً فرداًتعارف کے بعد اس نظم کی شاعری‬
‫پر بحث کی ہے کہ شاعر نے الفاظ کے انتخاب اور تراکیب کے چناؤ میں کما ل فن کا‬
‫مظاہرہ کیا ہے الفاظ کے چناؤ میں ایک نغمگی کا احساس ہوتا ہے اور جادوئی کیفیت‬
‫پیدا ہوتی ہے یہ کیفیت اسی صورت میں برقرار رہ سکتی ہے اگر اسے اس کی اصل‬
‫زبان میں پڑھا جائے ۔ ترجمے سے معنی میں تو کوئی تبدیلی نہیں آتی بہر حال نظم کا‬
‫حسن بعینہ منتقل نہیں ہو سکتا ۔ مصنف نے اس مقالے میں چند اشعار کا سلیس اور‬
‫بامحاورہ ترجمہ پیش کیا ہے ۔ بوصیری کے بعد بھی شعرا نے عربی زبان میں نعتیں‬
‫لکھیں اردو زبان میں نعت نگاری کی تاریخ اردو شاعری جتنی قدیم ہے آج سے تین‬
‫سو سال پہلے ‪،‬ولی دکنی نے نعتیہ اشعار کہے ۔ حضور ؐ کی مدح کے حوالے سے‬
‫اعلی معیار کی‬
‫ٰ‬ ‫پچھلے دو سو سال سے مختلف شعراء نے طبع آزمائی کی ہے ان میں‬
‫شاعری بے شک محدود ہے لیکن شعراء کا جذبہ عقیدت قابل تعریف ہے ۔‬

‫اردو نعت گوئی کے حوالے سے مقالہ نگاری کے تین ادوار مقرر کیے ہیں ۔‬

‫پہال دور محسن کا کوروی ‪ ،‬امیر مینائی اور حالی کا ہے ۔‬

‫دوسرا دور عالمہ اقبال ‪ ،‬موالنا ظفر علی خاں اور حفیظ جالندھری کا ہے ۔‬

‫تیسرا اور موجودہ دور جس کی ابتداء ‪6711‬ء سے ہوئی اور تاحال جاری ہے ۔‬
‫محسن کا کوروی نے اپناسارا شعری ملکہ اس صنف کے لیے وقف کر دیا ۔‬
‫امیرمینائی نعتیہ کالم میں کامل دسترس رکھتے تھے موالنا حالی نے ’’مسدس‬
‫حضور کے بارے میں اپنی دلی‬
‫ؐ‬ ‫مدوجزر اسالم ‘‘میں دیگر موضوعات کے ساتھ‬
‫۔‬ ‫ہے‬ ‫کیا‬ ‫اظہار‬ ‫کا‬ ‫عقیدت‬
‫اقبال کی شاعر ی میں نعتیہ کالم روایتی صورت میں نہیں ہے ۔ لیکن ان کے اردو اور‬
‫فارسی کالم میں مدح رسول کے حوالے سے جا بجا مضامین ہیں موالنا ظفر علی خان‬
‫کو مدح رسول میں جو قدرت کالم حاصل تھی وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ حفیظ جالندھری’’‬
‫کا شاہنامہ اسالم ‘‘حضورﷺ سے محبت اور عقیدت کے جذبات سے معمور ہے ۔ ان‬
‫کے عالوہ اس دور میں مزید اور بھی قادر الکالم شعراء تھے جنہوں نے ا چھی نعت‬
‫نگاری کی ان میں ہندومہاراجہ کشن پرشاد کا نام قابل ذکر ہے ۔‬

‫مقالہ نگار نعت کے تازہ دور کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ادبی‬
‫رسائل میں گزشتہ چالیس برس سے ایک نئی روایت کا آغاز ہوا ہے کہ ابتدائی چند‬
‫صفحات کا آغاز حمد و نعت سے ہوتا ہے ۔ موجودہ دور میں اس صنف کو رواج دینے‬
‫میں دو ا ہم شخصیات احمد ندیم قاسمی اور حفیظ تائب کا نمایاں کردار ہے ۔ انہوں نے‬
‫نبی ؐ کی مدحت میں بے مثال نعتوں کا ذخیرہ مہیا کر دیا ۔ ان شعراء کے عالوہ‬
‫شاعری کرنے والے شاعر بے شمار ہیں اس سلسلے میں پی ایچ ڈی کے مقالے کے‬
‫حوالے سے بھی پیش رفت ہو رہی ہے ۔‬

‫عالقائی زبا نوں میں بھی مدحت نبوی کے حوالے سے شاعری ہوتی رہی ہے جس میں‬
‫حضور کی ذات اقدس کو خراج تحسین پیش کیا ہے ۔‬
‫ؐ‬ ‫شعراء نے اپنے اپنے انداز میں‬
‫پنجابی نعت نگاری میں مصنف چند شعراء کا ذکرتا ہے۔ اگر ہم ماضی میں جھانکیں‬
‫تو جن شعراء نے اپنے احساسات کو زبان دے کر مدح نبوی کی ہے ان میں سلطان‬
‫باہو‪ ،‬سچل سرمت‪ ،‬میاں محمد بخش ‪ ،‬خواجہ غالم فرید‪ ،‬پیر مہر علی گولڑوی‪ ،‬کے‬
‫نعتیہ اشعار کالسیک کا درجہ حاصل کر چکے ہیں ۔‬

‫مدحت نبوی ایک ایسا موضوع ہے جس پر مختلف ادوار میں لکھا جاتا رہا ہے اور یہ‬
‫سلسلہ تا ابد جاری رہے گا کیونکہ یہ موضوع بحر بیکراں کی مانند ہے ۔ اس میں‬
‫مقالہ نگار نے مختصرا ً چندا دوار کو احاطہ تحریر میں النے کی کوشش کی ہے‬
‫۔ تیسرے حصے میں ’’ مغربی ادب ‘‘ کے نام سے دو عنوانات پر مشتمل مضامین‬
‫’’سولثریےنتسن اور اس کی سات مختصر کہانیاں‘‘(ص ‪669‬تا‪ )619‬اور پابلو نیرو‬
‫داسے ایک گفتگو ‘‘ ص ‪619‬تا ‪691‬پر شامل کتاب ہیں ۔‬

‫مذکورہ باال پہال مضمون اس سے پیشتر ’’فنون‘‘ شمارہ ‪ ۱ ،۳‬جنوری فروری ‪6792‬ء‬
‫جلد ‪۱۱‬ص ‪ ۱۴‬تا ‪ ۱۱‬پر شائع ہو چکا ہے ۔ انہیں دوبارہ کتابی صورت میں اس لیے‬
‫شائع کرایا ہے کہ جو قارئین بوجوہ ان سے استفادہ نہیں کر سکے وہ ان سے فیض‬
‫سکیں۔‬ ‫ہو‬ ‫یاب‬
‫مذکورہ باال پہال مضمون نوبل انعام یافتہ روسی ادیب اکساندرے سولثرے نتسن اور‬
‫اس کی سات کہانیوں کے حوالے سے ہے پہلے اس ادیب کے حوالے سے اپنے ذاتی‬
‫تاثرات بیان کیے ہیں کہ کس طرح اس نے اس ادیب کی تحریروں کو شروع میں‬
‫دانستہ نظر انداز کیا لیکن آخر وہ اس کے اثر میں آگیا جب ‪۱۸۹۰‬ء میں وہ جرمنی‬
‫ایک سال کے تربیتی کورس کےلیے گیا وہاں اس نے سولثرے نتسن کی سات کہانیاں‬
‫انگریزی زبان میں پڑھیں ۔جو اتنی سحرانگیز تھیں کہ آخر اس نے ان سات کہانیوں‬
‫کو اردو ترجمہ کے ساتھ بطور خاص’’فنون ‘‘ کے لیے پیش کیا تاکہ قارئین بھی اس‬
‫سر شاری کی کیفیت سے نہال ہوں جو اسے ان کہانیوں کو پڑھتے وقت محسوس ہوئی‬
‫۔‬

‫ابتداء میں مصنف نے اس روسی ادیب کے حاالت زندگی بیان کیے ہیں کہ کس طرح‬
‫وہ زندگی کے کٹھن حاالت سے گزرتا ہوا کندن بنا ۔ پیشے کے لحاظ سے حساب داں‬
‫عالم طبیعیات تھا ۔ اس نے چار برس جنگ کے محاذ پر آٹھ بر س ایک مشقتی کیمپ‬
‫میں اور پھر چار برس ایک جبری جال وطنی میں گزار ے۔‬

‫سولثر ے نتسن نے مختصر افسانوں کے عالوہ چار ناول لکھے اس نے سوویت لیبر‬
‫کیمپوں کے نظام کی ایک مفصل تاریخ اپنی کتاب گالگ آرا کی پالگو میں لکھی ۔‬
‫جسے لندن اور امریکہ کے اخبارات و رسائل نے متعدد اقساط میں شائع کیا اس جرم‬
‫میں اسے گرفتا ر کر کے ملک بدر کر دیا گیا ۔ اس کے نام کو جتنا مٹانے کی کوشش‬
‫کی گئی وہ اتنا ہی نمایاں ہو کر سامنے آیا ۔ وقت کی گرد اسے کبھی دُھندال نہیں سکے‬
‫گی۔‬

‫اس کے بعد مصنف نے اس کی سات کہانیوں کو اردو ترجمے کے ساتھ پیش کیا ہے ۔‬
‫ترجمہ نگاری بھی ایک فن کی حیثیت اختیار کر چکی ہے ۔ اس کے لیے اس کے‬
‫اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اس صنف میں قدم رکھنا چاہیئے ۔‬

‫محمد کاظم نے ان کہانیوں کا ترجمہ کسی خاص مقصد کو ذہن میں رکھے بغیر خالص‬
‫فنی نقطہ نظر سے کیا ہے وہ ایک ایسے شخص کو بطور کردارہمارے سامنے پیش‬
‫کرتا ہے جس نے مشکالت بلکہ زندگی کے طوفانوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا لیکن‬
‫اعلی مثال قائم کی اور یہ ثابت‬
‫ٰ‬ ‫ہمت نہیں ہاری اور دوسرے سب انسانوں کے لیے ایک‬
‫کیا کہ خون دل سے لکھنے والے ایسے ادیب نازونعم کے پروردہ نہیں ہوسکتے ۔‬

‫ان سات کہانیوں میں پہلی کہانی ’’بوسیدہ بالٹی‘‘ سے متعلق ہے چونکہ وہ زندگی میں‬
‫مختلف جنگی محاذوں پر مامور رہا ہے اس لیے یہ کہانی بھی ایک ایسے ہی پس‬
‫منظر کی عکاسی کرتی ہے کہ نچلے طبقے کا ازل سے استحصال کیا گیا ہے اور‬
‫ہمیشہ ان کے حقوق پامال کیے گئے ہیں ۔ یہاں بوسیدہ بالٹی ‘‘کو عالمتی انداز میں‬
‫پیش کیا گیا ہے کہ کس طرح وقت کی بے رحم لہروں نے اسے پچھاڑ دیا ۔ جس طرح‬
‫وقت کی دھند میں قریبی تعلقات اور قریبی رشتے دھندال جاتے ہیں اور نظر ہی نہیں‬
‫آتے اسی طرح جب یہ بالٹی کسی کام کی نہ رہی اور زنگ آلودہ ہوگئی تو اسے بھی‬
‫فالتو سمجھ کر خندق میں اترنے والے راستے میں پھینک دیا گیا۔‬

‫دوسری کہانی ’’ سیگدن کی جھیل ‘‘ ہے اس میں جھیل کو حوالہ بنا کر بورژوا اور‬
‫پرلتاری طبقے کی باہمی چپقلش اور استحصالی نظام کی عکاسی کی گئی ہے کہ کس‬
‫طرح بورژو اطبقہ پورے نظام پر قابض ہو کر محنت کش طبقے کا استحصال کرتا‬
‫ہے اور ہر قسم کے عیش و آرام پر اپنا صرف حق سمجھتا ہے اگر کبھی کسی نے‬
‫دخل در معقوالت کرنے کی کوشش بھی کی تویہاں سے بھگا دیا گیا کیوں کہ یہاں‬
‫ملکیتی نظام حاوی ہے اور باقی عوام کے لیے ترقی کے تمام راستے مسدود ہیں ۔‬
‫محمد کاظم نے فن ترجمہ نگاری کا حق ادا کرتے وقت سلیس اور بامحاورہ زبان‬
‫استعمال کی ہے اور اپنی طرف سے کسی قسم کا کوئی نظریہ پیش کرنے سے قصدا ً‬
‫گریز کیاہے تاکہ کہانی کی موضوعیت مجروح نہ ہونے پائے ۔‬

‫تیسری کہانی ’’ایک شاعر کی راکھ‘‘ ہے جس میں مصنف دور ماضی کے جھروکوں‬
‫میں جھانکتے ہوئے اس گاؤں کو یاد کرتا ہے جس کی جگہ اب ایک نیا گاؤں آباد تھا ۔‬
‫وہ اندرونی خانہ جنگیوں کے ساتھ ساتھ اقتدار کے حصول کے لیے خونی رشتوں کو‬
‫ہے۔‬ ‫دیکھتا‬ ‫بدلتے‬
‫وہ شاعر یا کوف پژووچ پولونسکی کو یاد کرتا ہے کہ اس نے مرنے کے بعد مقدس‬
‫سینٹ جان کی خانقاہ میں دفن ہونے کی وصیت کی تھی ۔ جب مصنف اس شاعر کی‬
‫قبر پر جاتا ہے تو اسے وہ قبر نہیں ملتی کیونکہ اسے وہاں سے نکال کر ریا زان لے‬
‫جایا جاچکاتھا اس پر وہ انتہائی دکھ کا اظہار کرتا ہے ۔‬

‫یہاں کے گرد جاگھروں کو مسمار کر کے ان اینٹوں سے گائیوں کے لیے چھپر بنا دیا‬
‫گیا تھا اور اس تاریخی روایت کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے جب پادریوں کی میت کو‬
‫گرجا گھر کے اندر ہی دفن کر دیا جاتا تھا ۔‬

‫چوتھی کہانی ’’ یسنینوں کے دیس میں‘‘ چار یکساں شکل کی بستیوں کے حوالے‬
‫سے ہے ۔ جن میں کوئی سر سبزی و شادابی نہیں ہے اس میں منظر نگاری جنرئیات‬
‫سے کی گئی ہے اور ان کے مکینوں کی روز مرہ مشکالت کو بیان کیا ہے ۔ اسلوب‬
‫اتنا سادہ اور جاندار ہے کہ قاری خود کو انہی مناظر کے درمیان محسوس کرتا ہے ۔‬
‫یہاں مصنف شاعر سرگئی کا ذکر کرتا ہے جو اسی بستی کی جھونپڑی میں اپنی‬
‫بہترین شاعری تخلیق کرتا تھا۔‬

‫مصنف ان بستیوں کے تنگ اور چھوٹے صحن کا ذکر کرتا ہے کہ دیہاتیوں کے لیے‬
‫سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ وہ اپنی فصلوں کے ڈھیر کیسے لگائیں اور پھر ارد‬
‫گرد کے تعلقات کیسے نبھائیں ۔ وہ دیہاتی مناظر کی خوبصورتی کو جزئیات کے ساتھ‬
‫ساتھ بیان کرتا جاتا ہے وہ دیہاتیوں کو اس خوبصورتی کا احساس دالنا چاہتا ہے اس‬
‫کہ انی میں اس کے عالوہ کوئی خاص پہلو اجاگر نہیں کیا گیا۔‬
‫پانچویں کہانی ’’کو لخو ز عالقے کی پشت ٹوکری‘‘ اس میں مصنف سولثر ے نتسن‬
‫ایک ٹوکری کے بارے میں بتا رہا ہے کہ ایک دیہاتی عورت جو بہت جفا کش ہے وہ‬
‫چٹائی سے بنی ہوئی اس ٹوکری میں اپنا اور اپنے دو پڑوسیوں کا دودھ ‪ ،‬پنیر اور‬
‫ٹماٹر شہر میں بیچتی ہے اور واپسی پر نان لے کر آتی ہے ۔ یہاں وہ یہ بتانا چاہتا ہے‬
‫کہ وہ عورت کتنی باہمت ہے کہ اس ٹوکری کو کوئی کسان بھی بآسانی نہیں اٹھا سکتا‬
‫لیکن کولخوز کے عالقے کی عورتیں اس ٹوکری کو ایک خاص انداز سے اٹھاتی ہیں‬
‫کہ وزن زیادہ محسوس نہیں ہوتا ۔‬

‫چھٹی کہانی ’’دریائے نیوا پر واقع شہر ‘‘ اس میں مصنف دریائے نیوا کے کنارے‬
‫واقع شہروں کے بارے میں بتاتا ہے کہ یہاں افراتفری کا جو عالم ہے اس لیے اب یہاں‬
‫کسی نئے شہر کی تعمیر کی اجازت نہیں وہ ان شہروں کی عظمت اور شان و شوکت‬
‫کو اتنے کرب سے بیان کرتا ہے انہیں بنانے والے روسی نثراد تھے لیکن یہ غریب‬
‫اور مزدور عوام کا استحصال کر کے ان کے خون سے سینچے گئے تھے ۔‬

‫وہ دکھ کا اظہار کرتا ہے کہ ہماری نسلوں کی زندگیاں تباہ ہوگئیں احتجاج کے جواب‬
‫میں انہیں گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا تھا ۔ ان کی عورتوں کی جدوجہد اور آنسو‬
‫سب مٹی میں مل گئے ۔ اس کے بدلے انہیں کیا مال؟ آخر میں وہ سوال کرتا ہے کہ‬
‫اتنی اذیتوں کے بعد اب نیوا کے کنارے آباد شہر کی طرح اور کوئی شہر وجود آسکتا‬
‫ہے ؟‬

‫ساتویں کہانی ’’ روشن آگ اور چیونٹیاں ‘‘ اس مختصر کہانی میں چیونٹیوں کو مثال‬
‫بنا کر م ادر وطن سے محبت کے جذبے کو تقویت دی گئی ہے کہ جن لوگوں کو وطن‬
‫سے محبت ہوتی ہے کہ وہ اس کی خاطر کٹ مرنے کو تیار رہتے ہیں لیکن اسے‬
‫چھوڑ کر کہیں اور جانا گوارہ نہیں کرتے ۔‬

‫مصنف کہتا ہے کہ اس نے لکڑی کا چیونٹیوں بھرا دیمک خوردہ کندا انجانے میں آگ‬
‫میں پھینک دی ا اس میں موجود چیونٹیاں جل جل کر مرنے لگیں لیکن بعد میں اس نے‬
‫لکڑی ایک طرف پھینک دی تاکہ وہ بچ جائیں لیکن چیونٹیاں پھر اس جلتی ہوئی لکڑی‬
‫کے سرے پراپنے گھر کی محبت میں گئیں تپش سے گھبرا کر دوڑیں اور پھر وہیں‬
‫جل کر راکھ ہوگئیں ۔‬

‫یہاں پر وہ اس حقیقت کو واضح کرنا چاہتا ہے کہ وطن کی محبت ہرذی روح میں‬
‫سمائی ہوئی پھر انسان اس جذبے سے کیسے خالی ہو سکتا ہے ؟‬

‫’’مغربی ادب‘‘ میں شامل دوسرا مضمون ’’پابلونیر و دا سے ایک گفتگو‘‘ ص‪ 619‬تا‬
‫‪691‬ہے ۔ بیروت کے عربی رسالے ’’اآلداب‘‘ میں نیروداکا یہ انٹرویو شائع ہوا محمد‬
‫کاظم نے اس گفتگو کا ترجمہ عربی سے اردو میں ’’فنون ‘‘ شمارہ ‪ ۱ ،۱‬اپریل مئی‪2‬‬
‫‪679‬ء ص ‪ ۸‬تا ‪ ۱۶‬اور جوالئی ‪6792‬ء میں قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش کیا۔‬

‫اس سے پیشتر مترجم نے نیرودا کے حوالے سے چند باتیں کی ہیں جو اس کی‬


‫شخصیت کو سمجھنے میں مدد دیتی ہیں ۔ نیرو داچلی کا وہ شاعر ہے جو اپنی زندگی‬
‫کے پہلے دور میں پرجوش اور رومانی تھا لیکن بعدمیں حاالت کے پیش نظر اس کی‬
‫شاعری کا لہجہ یکلخت بدل گیا اس کی وجہ سپین کی خانہ جنگی تھی جو اس نے چلی‬
‫کے سفیرکے طور پر اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی ۔ اس نے اسے پختہ مزاج‬
‫اشتراکی بنادیا اور اس کی شاعری میں ایسی کیفیت پید ا کر دی کہ وہ اپنے خون سے‬
‫شاعری کرنے لگا اس لیے اس کی موت پر سرکاری سوگ منانے کی اجازت نہ دی‬
‫گئی اس شاعر کو ‪۱۸۹۱‬ء میں نوبیل انعام دیا گیا ۔‬

‫اس طویل گفتگو میں اس کے بچپن سے لیکر تمام ادوار کے حاالت کو موضوع بحث‬
‫بنایا گیا ہے ۔‬

‫نیرودا نے سیدھے سادھے فطری انداز میں اپنے خیاالت کا اظہار کیا جو عام قارئین‬
‫کے لیے بھی دلچسپی کا باعث ہے ۔‬

‫نیرودا کا اصل نام ریکاردو ایلیسیر نفتالی ریس ای باسو آلتو تھا ۔ چونکی اس کا والد‬
‫سخت مزاج تھا اور اس کی شاعری کے خالف تھا اس لیے اس نے اپنا قلمی نام پا‬
‫بل ونیرودا رکھا جو بعد میں وجہ شہرت بنا اور اصل نام بہت پیچھے چال گیا ۔ چلی میں‬
‫زیادہ تر لوگوں کا طبعی رجحان شاعری اور سیاحت کی طرف تھاا س لئے وہ بھی‬
‫شاعری کیسا تھ قنصل بن گیا۔ وہ آمریت کے مخالف تھا اس لیے اس نے کیمونسٹ‬
‫پارٹی میں شمولیت اختیار کی طویل عرصہ قنصل خانے میں مالزمت سے آخر کار‬
‫وہ تنگ آگیا اور پھر ایک دن اپنے وطن واپس آگیا۔‬

‫نیرودا نے شاعری میں بنیادی اہمیت اس بات کو دی کہ اپنے وجود کے ہر لمحے میں‬
‫جو کچھ بھی محسوس کرو اسے اپنے اسلو ب میں فنکارانہ اظہار دو ۔ وہ کسی‬
‫شاعرانہ نظام یا دبستان کا قائل نہیں تھا ۔‬

‫مصنف نیرودا کے نظریات سے حددرجہ متاثر ہوا اس کی شاعری پڑھنے کے بعد وہ‬
‫اسے ایک ناقابل فہم شخصیت سمجھتا تھا لیکن اس کا انٹر ویو پڑھنے کے بعد وہ‬
‫انہیں بے حد سادہ اور فطر ی انسان محسوس ہوا اس لیے وہ اس کے اشتراکی نظریات‬
‫کو دوسروں کے ساتھ شریک کرنا چاہتا تھا تاکہ دیگر شعراء اور ادباء اس سے‬
‫استفادہ کر سکیں ۔‬

‫کتاب کے چوتھے حصے میں ’’مغربی موسیقی ‘‘ کے نام سے جرمن زبان سے‬
‫ترجمہ شدہ ایک مضمون جرمن موسیقار’’ہینڈل کا’’مسایا‘‘ کے عنوان سے‬
‫(ص‪697‬تا‪691‬شامل ہے ۔ یہ تاریخی کہانی مشہور جرمن ادیب شٹیفن سویگ نے اپنے‬
‫بے مثال اسلوب میں قدر ے طویل لکھی ۔ محمد کاظم نے اسے سادہ اور سلیس‬
‫ترجمے کے ساتھ تلخیص میں قارئین کے لیے پیش کیا جو یقیناًان کے لیے دلچسپی کا‬
‫باعث ہے ۔‬

‫تمہید میں محمد کاظم نے جرمنی کی کالسیکی موسیقی کی روایت مختصرا ً بیان کی‬
‫ہے ۔ اس میں دو بڑے نام سامنے آتے ہیں ۔ ایک یوہن سبطین باخ(‪۱۱۱۶‬ء۔‪۱۹۶۰‬ء)‬
‫اور دوسرا جارج فریڈرک ہینڈل (‪۱۱۱۶‬ء۔‪۱۹۶۸‬ء) ۔ ہینڈل چھبیس سال کی عمرمیں‬
‫جر منی چھوڑ کر لندن آ گیا یہاں آ کر ہینڈل نے بیس برس تک موسیقی کی دنیا میں نام‬
‫کمایا لیکن اس کے بعد وقت کے ساتھ ساتھ زوال پذیر ہونا شروع ہوگیا۔ پھر بالئے‬
‫ناگہانی کی طرح ہینڈل ایک ایسی جسمانی بیماری میں مبتال ہوا کہ وہ اپنا تخلیقی کام‬
‫سر انجام دینے کے قابل نہ رہا۔ اس نے ان آنے والی مشکالت کا سامنا کیسے کیا؟‬
‫اپنی کھوئی ہوئی توانائی کو کیسے یکجا کیا ؟‬
‫اس کہانی کا آغاز ڈرامائی انداز سے ہوتا ہے جس میں ہینڈل کو ایک ایسے کردار میں‬
‫پیش کیا گیا ہے جو کبھی بہت باہمت تھا اور اسے اپنے اوپر اسے عشق کی حد تک‬
‫لگاؤ تھا۔ چونکہ قسمت سدا ایک جیسی نہیں رہتی ایسی صورتحال کا سامنا ہینڈل کو‬
‫بھی کرنا پڑا کہ رفتہ رفتہ لوگ اس کے اوپر اسے بیزار ہونے لگے اور ہینڈل اس‬
‫صورتحال کے ل یے ذہنی طور پر تیار نہ تھا اور اس صدمے کی تاب نہ التے ہوئے‬
‫ذہنی و جسمانی طور پر مفلوج ہو کر رہ گیا ۔ اس آڑے وقت میں اس کا مالزم اور‬
‫سیکرٹری دونوں نے بھرپورساتھ دیا ۔ فالج سے اس کے جسم کا دایاں حصہ بالکل ختم‬
‫ہوگیا لیکن انسان مکمل طور پر اس وقت ختم ہوتا ہے جب اس کے ارادے پست ہو‬
‫جائیں ہینڈل کے مفلوج جسم میں ابھی پر اسرار قوت موجود تھی جو اسے جینے پر‬
‫آمادہ کر رہی تھی ۔ اپنی مضبوط قوت ارادای کے بل بوتے پر اس نے ڈاکٹر کے‬
‫خدشوں کو مات دے دی اور نئے سرے سے ایک صحت مندوجود کے ساتھ اپنے‬
‫ادھورے کاموں کو مکمل کرنے کا آغاز کر دیا ۔‬

‫بعض معامالت انسان کے اختیار میں نہیں ہوتے ان کا فیصلہ وقت ہی کرتا ہے ۔ تمام‬
‫جوش و جذبے کے باوجود اچانک قسمت ہینڈل سے روٹھ گئی اس کی سر پر ست‬
‫ملکہ وفات پا گئی اور اس کی پنشن بند ہوگئی ۔ حاالت یکلخت بدل گئے اور ایک ان‬
‫تھک انسان نے زندگی میں پہلی بار تھکن محسوس کی اور خدا سے گلہ مند ہوا۔ وہ ان‬
‫شکست خوردہ حاالت میں لندن چھوڑ کر کہیں نہیں جانا چاہتا تھا ۔ وہ روحانی تخلیق‬
‫کے نشے سے آشنا ہو چکا تھا اس لیے اس پر کوئی نشہ اثر انداز نہیں ہو رہا تھا ۔ یہ‬
‫احساس اسے دیمک کی طرح چاٹ رہا تھا کہ خدا اور اس کے بندوں نے منہ موڑ لیا‬
‫ہے ۔‬

‫عروج وزوال کے پر پیچ راستوں سے گزر تی ہوئی یہ داستان گھپ اندھیروں سے‬
‫نکل کر ایک بار پھر روشنی کی طرف بڑھتی ہے اور اس عظیم موسیقار کی زندگی‬
‫میں ایک نیا موڑ آتا ہے اس کے لیے شاعر چارلس جنینز محرک ثابت ہوا جس نے‬
‫اس کے مردہ قالب میں روح پھونکی اور اس کی کھوئی ہوئی قوت کو مجتمع کیا۔ اس‬
‫نے اسے مذہبی او پیرا پر مشتمل ایک متن بھیجا کہ وہ اسے اپنی جاوداں موسیقی کے‬
‫سروں میں ڈھال دے ۔ ہینڈل نے ان لفظوں کو سروں سے مزین کرنے کے لیے اپنے‬
‫خون سے آب کاری کی تین ہفتوں کی لگاتار محنت سے موسیقی کی دنیا میں ایک بے‬
‫نظیر عجوبہ سر انجام پایا جو ایک دفعہ پھر ہینڈل کو شہرت کی بلندیوں پر لے گئی‬
‫ہینڈل نے اس اوپیرا’’مسایا ‘‘ سے پہلے بہت مشکل حاالت کا سامنا کیا۔ ذہنی کوفت‬
‫کے ساتھ ساتھ قرض خواہوں سے منہ چھپاتا پھرتا تھا ۔ یہ اس کے کردار کی عظمت‬
‫ہے کہ اس نے ’’مسایا‘‘ سے حاصل ہونے والی آمدنی قیدیوں ‪،‬بیماروں اور یتیموں‬
‫کو یہ کہتے ہوئے دے دی کہ میں خود بھی کبھی ایک بہت بیمار آدمی اور اب افاقہ پا‬
‫چکا ہوں ۔ میں قیدی تھا اور اب آزاد ہوں ‘‘۔ وہ اس نغمے کی تخلیق پر خدا کا بہت‬
‫شکر گزار تھا۔‬

‫اس کے بعد کچھ عرصہ تک حاالت سازگار رہے لیکن زیادہ دیر تک نہ رہ سکے آخر‬
‫کار بڑھتی ہوئی عمر نے اس کی توانائی اور اعصاب کو مضحل کر دیا لیکن پھر بھی‬
‫وہ مسلسل برسرپیکار رہا اور نئی نئی دھنیں ترتیب دیتا رہا ۔ اسی دوران وہ بالکل‬
‫اندھا ہوگیا۔ ہنڈل اپنے کاموں کا بہت سخت نقاد تھا لیکن اسے اپنا ’’مسایا‘‘ اس لیے‬
‫پسند تھا کہ وہ اسے پاتال سے اٹھا کر ایک بار پھر دنیا کے سامنے لے آیا تھا ۔ اپنے‬
‫آخری شاہکار کے انعقاد کے دوران وہ بہت کمزور ہوچکا تھا اور بمشکل بگھی میں‬
‫بیٹھ کر وہاں پہنچا تھا لیکن جب اوپیرا شروع ہوا تو اس کے مردہ تن میں جان اور بے‬
‫نور آنکھوں میں چمک آگئی ۔ پھر وہ لڑکھڑا یا اور آہستہ آہستہ اپنے قدموں پر گرگیا‬
‫اس کے دوست اسے بہت احتیاط سے گھر الئے اور بستر پر لٹا دیا وہ بڑ بڑا یا میں‬
‫‪ Good friday‬کو مرنا چاہوں گا۔ اس کا ڈاکٹر اور احباب الجھن میں تھے کہ یہ کیا‬
‫معمہ ہے کیونکہ ابھی اس میں ایک ہفتہ باقی تھا۔‬

‫ہینڈل کی زندگی کے اہم کام ‪ ۱۳‬اپریل کو ہی ہوئے تھے اس لیے وہ چاہتا تھا کہ اس‬
‫کی زندگی کا چراغ بھی اسی تاریخ کو بجھے ۔ جب اسے فالج ہوا اور پھر اس کا‬
‫حیات افروز ’’مسایا‘‘ مکمل ہوا تو یہی تاریخ تھی ۔ایسا شخص جو کبھی وقتی طور‬
‫پر تو مایوس ہو ا لیک ن اس نے زندگی میں کبھی ہار نہیں مانی آخر موت کے سامنے‬
‫ہار مان گیا لیکن اس کا پختہ ارادہ موت پر بھی اثر انداز ہوکے رہا اور ‪ ۱۳‬اپریل کو‬
‫ہی اس نے زندگی کو خیر باد کہا ۔‬
‫’’آج سے کئی سال پہلے ‪ ۱۳‬اپریل کو ہی قسمت نے فالج‬
‫کے حملے میں اسے گرا کر بستر سے لگا دیا تھا۔یہی دن‬
‫تھا جب مسایا کو مکمل کر کے حیات نو پائی تھی اور پھر‬
‫اسی دن ‪ ۱۳‬اپریل کو اس کا یہ حیرت انگیز کام پہلی دفعہ‬
‫ڈبلن کے لوگوں کے سامنے پیش ہوا تھا۔ اب اسی تاریخ کو‬
‫وہ اس زندگی کو خیر باد کہہ کر ابدی حیات نو کی طرف‬
‫جانا چاہتا تھا‘‘ (ص ‪)۱۹۱‬‬

‫یہ عظیم موسیقار ز ند گی کے محاذ پر ان گنت مشکالت کا سامنا کرتا رہا لیکن اس‬
‫کے اندر اپنے کام سے جو سچی لگن تھی وہ کبھی مانند نہ پڑی اور وہ آنے والی‬
‫نسلوں کے لیے عمل پیہم کی الزوال مثال چھوڑ گیا ۔ کتاب کا پانچواں حصہ ’’ یاد‬
‫ایام‘‘ تین عنوانات پر مشتمل ہے ۔پہال ’’کچھ دوسری طرح کی یادیں ‘‘(ص‪697‬تا‬
‫‪ )684‬دوسرا ’’محمد خالد اختر کی یاد میں ‘‘(ص‪681‬تا ‪ )687‬تیسرا’’چار خط(محمد‬
‫خالد اختر بنام محمد کاظم )‘‘ص‪671‬تا ‪ 677‬یاد ایام کے نام سے یہ حصہ ماضی کی‬
‫۔‬ ‫ہے‬ ‫مبنی‬ ‫پر‬ ‫یادوں‬
‫مذکورہ باال پہال مضمون ’’کچھ دوسری طرح کی یادیں ‘‘ اس سے پہلے فنون کے‬
‫شمارے ‪، ۱۱۴‬جنوری تا جون ‪ ۱۰۰۱‬ء میں ص‪۱۶۶‬تا ‪ ۱۶۹‬پر شائع ہوا۔‬

‫اس کا موضوع محمد کاظم کا وہ زمانہ طالب علمی ہے جو انہوں نے اڑھائی تین برس‬
‫صا د ق ایجرٹن کالج بہاول پور میں گزارا یہاں اسلوب سادہ اور بیانیہ انداز لیے ہوئے‬
‫ہے لیکن منظر نگاری جزئیات کے ساتھ اتنی جاندار ہے کہ قاری خود کو اسی منظر‬
‫نامے میں محسوس کرتا ہے ۔ فکر میں عمل پیہم کا جذبہ ابتد ٗا سے اختتام تک موجود‬
‫رہتا ہے لیکن طبعی جھجک آڑے آئی جو اس تمام عرصے کچھ کر گزرنے اور آگے‬
‫بڑھنے میں ہمیشہ مانع رہی ۔‬

‫خود پر تنقید کرنا اور اپنی شخصی خامیوں کا برمال اظہار ایک حقیقت پسند ادیب کا‬
‫ہی خاصہ ہے ۔ جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں ۔ ان یادوں کو قارئین کے ساتھ‬
‫شریک کرنے کا مقصد یہی ہے کہ وہ مصنف کی شخصیت کے مخفی گوشوں کو جان‬
‫سکیں کہ کس طرح اس نے اپنی ذات سے جنگ لڑی ‪ ،‬اپنی تنہائی اور بے چارگی پر‬
‫کیسے قابو پایا ؟یہاں پر جو چیز بطور خاص نظر آتی ہے وہ یہ کہ متانت ہمیشہ‬
‫مصنف کی شخصیت کا الزمہ رہی ۔‬

‫کالج کا زمانہ طالبعلمی ایک نشاط انگیز اور پر کیف دور ہوتا ہے جب امنگیں جوان‬
‫ہوتی ہیں اور کچھ نیا کر گزرنے کا جذبہ ہر لمحہ موجود ہوتا ہے تو ایسے میں محمد‬
‫کاظم کے اندر تنہائی ‪ ،‬محرومی و نارسائی کا یہ احساس کہاں سے در آیا کہ وہ اپنی‬
‫ذات میں ہی سمٹ کر رہ گیا ۔ کیا اسے زندگی میں ایسے حاالت پیش آئے جن کے زیر‬
‫اثر دنیا کے معامالت سے کٹ کر اس نے اپنی ذات میں جھانکنا‪ ،‬تنہا رہنا اور کتابوں‬
‫کے ساتھ وقت گزارنا سیکھنا۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ اس نے وقت کا مصرف مثبت‬
‫انداز میں کیا۔‬

‫ان یادوں کے بین السطور ایک دروں بین شخصیت سامنے آتی ہے جو اپنے اندر‬
‫چاہے جانے کا احساس چھپائے ہوئے ہے کیونکہ یہ احساس ہر نارمل انسان کے اندر‬
‫ہوتا ہے کالج کی بے کیف اور عام روش سے ہٹی ہوئی زندگی کا احساس ان کے اندر‬
‫خلش بن کر رہ گیااپنی ڈری ڈری اور سہمی ہوئی شخصیت کا ذمہ دار وہ اپنے فطری‬
‫حجاب اور زمانہ سکول کی نادرست تربیت کو قرار دیتا ہے ۔ ماسوائے پڑھائی کے وہ‬
‫کالج کی کسی بھی سرگرم ی میں حصہ نہ لے سکا۔ ان کا بڑا بھائی جو اسی کالج میں‬
‫زیر تعلیم تھا اس نے اس سلسلے میں رہنمائی کی کوشش کی لیکن مصنف نے کوئی‬
‫پیش رفت نہ کی ٰلہذا یہ کوشش بے سود ثابت ہوئی آخر میں مصنف کی سچائی اور‬
‫حقیقت پسندی متاثر کن ہے ۔ وہ کسی لگن اور جذبے کی وجہ سے مذہب کی طرف‬
‫متوجہ نہیں ہوا تھا بلکہ اپنی تنہائی اور بے چارگی سے جنگ لڑتے لڑتے جب وہ‬
‫تھک گیا تو مجبورا ً مذہب کا اور کتابوں کا سہارا لیا تھا ۔اسی دوران نماز کی پابندی‬
‫شروع کی چونکہ کالج کی فٹ بال میں اسے کوتاہ قامتی کی وجہ سے شامل نہیں کیا‬
‫گیا تھا اس لیے اس نے کھیل کے میدان میں جانے کی بجائے شام کو ممتاز عالم دین‬
‫کا درس حدیث سننا اور عالمہ شبلی اور سید سلیمان کی کتابوں کے مطالعہ میں خود‬
‫کو گم کر کے ساری پریشانیوں کو بھالنے کی سعی مسلسل کو اپنا معمول بنا لیا ۔ اس‬
‫تمام عرصے میں اپنے محاسبے کے دوران اس نے صرف اپنی منفی صالحیتوں سے‬
‫آگا ہی حاصل کی کیونکہ ابھی اس کا مثبت شعور بیدار نہیں ہوا تھا۔‬
‫دوسرا ’’محمد خالد اختر کی یاد میں‘‘‬

‫محبت سے گندھی ہوئی اس تحریر میں مصنف نے اپنے جگر ی دوست کی وفات کے‬
‫بعد اس کے ساتھ گزارے ہوئے وقت کی یادوں کو تازہ کیا ہے ۔ اسلوب بیانیہ اور ادبی‬
‫چاشنی سے بھرپور ہے ۔ آغاز ڈرامائی انداز سے ہوتا ہے اور قاری کو فورا ً اپنی‬
‫جانب متوجہ کر لیتا ہے یہاں محبت اور عقیدت پہلو بہ پہلو چلتی ہیں ۔ مصنف کی فکر‬
‫حقیقت پسندی پر مبنی ہے ۔ مصنف ماضی کو کھنگالتے ہوئے دلچسپ انداز میں اپنے‬
‫دوست سے پہلی مالقات کا حال بیان کرتا ہے جو اپنی ذات میں غیر معمولی انسان اور‬
‫ایک بڑا ادیب تھا اس پہلی مالقات میں مصنف کو اس کی ظاہری شخصیت میں کوئی‬
‫خاص کشش محسوس نہ ہوئی کیونکہ دونوں کے مزاج میں بھی اختالف تھا ۔ محمد کا‬
‫ظم کا تعلق جماعت اسالمی سے تھا جبکہ محمد خالد اخترانگلش لٹریچر کی باتیں کرتا‬
‫تھا اور آزاد خیال انسان تھا مضمون نگار اس کے فن پر بات کرتے ہوئے کہتا ہے کہ‬
‫اسے انگریزی میں مہارت تھی لیکن وہ اردو میں لکھتا تھااس کی وجہ غالبا َ یہ تھی‬
‫انگریزی ادیبوں کے مقابلے میں وہ نمایاں نہیں ہوسکتا تھا ۔ اس کے برعکس اردو‬
‫میں اسے قارئین کا وسیع حلقہ میسر تھا کیونکہ انگریزی سوچ اور طرز اظہار نے‬
‫اسے منفرد بنا دیا تھا ۔‬

‫وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دونوں میں دوستی کا مضبوط رشتہ استوار ہوگیا اور خط‬
‫و کتابت شروع ہو گئی جس سے شخصیت کی تہہ در تہہ پرتیں کھلتی گئیں۔ محمد خالد‬
‫اختر مذہبی معامالت کی پیر وی میں اتنا پابند نہیں تھا جتنا کہ ایک عام مسلمان کو ہونا‬
‫چاہئے لیکن اس نے کبھی جھوٹ کا لبادہ اوڑھ کر خود کو اچھا ثابت کرنے کی‬
‫کوشش نہیں کی تھی۔ وہ اپنی کوتاہیوں کا دل سے معترف تھا ۔اسے اس بات کا شدید‬
‫قلق تھا کہ اس کی اردو لغت بے حدمحدود ہے ۔‬

‫محمد کاظم خود ایک مرنجاں مرنج شخصیت تھے اس لیے وہ دوسروں کی خوبیوں پر‬
‫زیادہ اور خامیوں پر کم نظر رکھتے تھے اس مضمون میں بھی یہی صورتحال ہے وہ‬
‫اس بات کے معترف تھے کہ خالد نے ان کا نقطہ نظر وسیع کیا اور انہیں انگریزی‬
‫ادب سے روشناس کیا۔ چونکہ یہ مضمون محمد خالد اختر کی وفات کے بعد لکھا گیا‬
‫اس لیے آخر میں مصنف انتہائی رنجیدہ ہے اور اپنے دوست سے جو مالزمت سے‬
‫سبکدوشی کے بعد کراچی منتقل ہوگیا تھا بذریعہ خطوط مسلسل رابطے میں تھا لیکن‬
‫اب یہ سلسلہ بھی منقطع ہوچکا تھا ۔ اسے رہ رہ کر اس کے خطوط کی یاد آتی تھی‬
‫جو اسے حیات نو بخشتے تھے کیونکہ وہ اس کی تحریروں کا نقاد بھی تھا ۔ اپنے‬
‫دوست کے بغیر اسے زندگی خالی اور بے معنی لگنے لگی ہے ۔‬

‫تیسرا اور آخری مضمون ’’چارخط‘‘ ہیں جو محمد خالد اختر نے کاظم کے نام لکھے‬
‫تھے ۔‬

‫محمد کاظم کو خالد سے ایک خاص لگاؤ اور عقیدت تھی اس لیے انہوں نے اس کے‬
‫خطوط کو بے حد احتیاط کے ساتھ رکھا چونکہ کاظم اس کی تحریروں کا مداح تھا اس‬
‫لیے وہ اس کی خطوط نویسی کے اسلوب کا بھی پرستار تھا حاالنکہ ان خطوط میں‬
‫کوئی قابل ذکر موضوع نہیں ہے محض نجی نوعیت کے خطوط ہیں لیکن محمد کاظم‬
‫ان خطوط سے حاصل ہونے والی مسرت میں کو دیگر قارئین کو شریک کرنا چاہتا‬
‫ہے اس لیے اس نے انہیں اس کتاب میں شامل کردیا تاکہ جو لوگ انہیں نہ پڑھ سکے‬
‫سکیں۔‬ ‫کر‬ ‫مطالعہ‬ ‫کا‬ ‫ان‬ ‫بھی‬ ‫وہ‬ ‫ہوں‬
‫پہال خط کراچی سے ‪6776‬ء میں لکھا ہے جس میں سفر بہاول پور کا تذکرہ ہے اور‬
‫وہاں کے مرحوم دوستوں کو شدت سے یاد کیا ہے اس کی وجہ سے واپس آکر بھی‬
‫بے کلی کی کیفیت طاری ہے اور دل ہر چیز سے اچاٹ اور مائل بہ اداسی ہے ۔ محمد‬
‫کاظم کی چوری شدہ کار پر اظہار افسوس ان کے علمی معامالت پر استفسار کیاہے ۔‬
‫دوستوں کی جدائی پر یوں نوحہ کناں ہیں کہ خود بھی اس زندگی سے بیزار ہیں ۔‬

‫اسلوب انتہائی سادہ اور جامع ہے اس مختصر سے خط سے بہت سے معامالت سے‬


‫آگاہی ہوتی ہے ۔‬

‫دوسرا خط کراچی سے ‪6774‬ء میں لکھا ہے ۔یہ محمد کاظم کے اس خط کے جواب‬


‫میں ہے جو انہوں نے اپنی بیوی کی بیماری کی وجہ سے انتہائی پریشانی میں لکھا‬
‫تھا ۔ ان کی چوری ہوجانے والی گاڑی بھی نہیں ملی تھی ۔ اس خط نے خالد کو بھی‬
‫اداس کردیا اس لیے وہ انہیں بہت حوصلہ دے رہے ہیں ۔ اپنے شاعر دوست اختر‬
‫حسین جعفری کی موت کا سن کر بہت رنجیدہ ہیں اس لیے وہ اب خود بھی منتظر‬
‫موت ہیں ۔ یہ خط ایک حوصلہ افز ا تحریر ہے جس میں مالی مسائل کی وجہ سے‬
‫پریشان محمد کاظم کو ’’کنٹریکٹ‘‘ ملنے پر خوشی کا اظہار کیا ہے کہ اس طرح‬
‫مسائل کے حل ہونے میں مدد ملے گی ۔ ادبی معامالت پر توجہ مذکور کرنے کی‬
‫ہدایت کی ہے قنوطیت سے منع کیا ہے ۔ مکتوب نگار نے اپنی مصروفیت کے اوقات‬
‫کار کا ذکر کیا ہے ۔‬

‫تیسراخط کراچی سے ‪6774‬ء میں لکھا گیا جو قدرے طویل ہے اس میں مختلف‬
‫۔‬ ‫ہیں‬ ‫گئے‬ ‫الئے‬ ‫بحث‬ ‫زیر‬ ‫موضوعات‬
‫محمد کاظم طبعا ً تساہل پسند تھا اس لیے خط کا جواب لمبے وقفے سے دیتا تھا ۔ خالد‬
‫اخترکو وقت کی تیز رفتاری کا احساس شدت سے ہورہا تھا۔ اس وجہ سے کبھی کبھی‬
‫وہ اضمحالل کا شکار ہوجاتا تھا ۔ یہاں اس کی فکر کھل کر سامنے آتی ہے کہ وہ کن‬
‫نظریات کا حامل ہے کیونکہ وہ حیات بعد ازموت کاقائل نہ تھا ۔‬

‫اس خط میں مکتوب نگار ایک حوصلہ مند انسان کے طور پر سامنے آتا ہے جو شدید‬
‫آشوب چشم کے باوجود لکھنے کا کام جاری رکھے ہوئے ہے ۔ آپریشن ملتوی ہونے‬
‫کی وجہ مالی مشکالت ہیں کیونکہ اس کے عالوہ دیگر امراض کا عالج بھی چل رہا‬
‫۔‬ ‫تھا‬
‫لکھنے میں پہلے والی باقاعدگی اور شدت برقرار نہیں رہی تھی لیکن اس کے لیے‬
‫بھی وہ ایک نظریہ پیش کرتے ہیں کہ ہنر)‪ (Talent‬بھی ایک حد ہوتی ہے جو صرف‬
‫ہوجائے تو دوبارہ بحال نہیں ہوتا اور اخراج کے لیے نیا راستہ تالش کرتا ہے جس‬
‫طرح غالب کی تخلیق کاری ایک عرصے کے بعد شاعری کی بجائے خطوط میں در‬
‫آئی ۔ زندگی میں بے پناہ مصروفیت یابعض اوقات مالی مسائل کی وجہ سے اپنی‬
‫تحریروں کو یکجا کرنے کا موقع نہیں ملتا لیکن یہ خلش رہتی ہے کہ کاش یہ‬
‫تحریریں کتابی شکل میں آجائیں ایسی ہی ایک خواہش کا اظہار خالد اخترنے اپنے خط‬
‫میں کیا ہے کہ محمد کاظم ان کی تحریروں کو کتابی شکل میں لے آئیں ۔وہ ’’آج‘‘ میں‬
‫شائع ہونے والی اپنی نئی کہانی ’’عبدالباقی‘‘ محمد کاظم کو پڑھنے کے لیے کہہ‬
‫رہے ہیں جو مستقل عاللت کے دوران لکھی تھی ۔‬
‫احمد ندیم قاسمی اور وزیر آغا کی ادبی چیقلش پر دکھ کا اظہار کیا ہے ۔ بہاول پور‬
‫سے تعلق رکھنے والے ’’فنون‘‘ کے مستقل لیکھک رشید ملک کی ہونہار بیٹی کی‬
‫موت کو ایک بہت بڑا المیہ قرار دیا ہے اس کے عالوہ چھوٹے چھوٹے گھریلو مسائل‬
‫کو احاطہ تحریر میں الیا گیا ہے ۔‬

‫چوتھا اور آخری خط کراچی سے ‪6771‬ء میں لکھا گیا ۔ اس میں مختلف موضوعات‬
‫پر اظہار خیال کیا گیا ہے ۔ اہم موضوع ادبی مجلے’’سوغات ‘‘ کا محمد خالد اختر‬
‫نمبر کی اشاعت ہے ۔ اس میں مکتوب نگار کی متضاد رائے سامنے آتی ہے ۔ ایک‬
‫طرف تو وہ شہرت اور نام و نمود بیگانگی کا اظہار کر رہے ہیں لیکن دوسری طرف‬
‫محمد کاظم سے درخواست کررہے ہیں کہ اس نمبر کے لیے ان کی شخصیت پر بہت‬
‫اچھا تعارفی مضمون لکھ دے تاکہ اہل ہند ان سے متعارف ہو جائیں کیونکہ اس کے‬
‫بغیر محمد خالد اختر نمبر کا چھپنابے مقصد ہوگا۔ اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا‬
‫ہے کہ وہ بیرون ملک ناموری کے شدت سے خواہاں ہیں ۔‬

‫’’فنون‘‘ کا شمارہ نہ ملنے کا گلہ کیا ہے۔ تمام خطوط میں انہوں نے اپنی عاللت کے‬
‫ساتھ ساتھ وقت کی برق رفتاری کا شدت سے ذکر کیا ہے ۔ آخر میں احمد ندیم قاسمی‬
‫کی عافیت پوچھنے کے بعد رشید ملک کے المیے پر اظہار تاسف کیا ہے اور پھر‬
‫محمد کاظم کی بیوی کی خیریت دریافت کی ہے ۔‬

‫یہ بات قابل غور ہے کہ خطوط میں زمانی ترتیب سے نہیں ہے ۔ محمد کاظم نے ان‬
‫کے آخری زمانے کے خطوط ایک طالبعلم کو دیئے تھے جو ان پر پی ایچ ڈی کر رہا‬
‫تھا ۔ یہ خطوط محمد خالد اختر کی وفات سے دس سال پہلے کے ہیں۔‬

‫کتاب کے آخرمیں ’’اشارات ‘‘ کے عنوان سے محمد کاظم نے ان خطوط کے حوالے‬


‫سے ضروری وضاحتیں کی ہیں تاکہ قارئین کسی مشکل سے دوچار نہ ہوں لیکن‬
‫مصنف نے اس کتاب میں حوالہ جات کی ضرورت محسوس نہیں کی جس سے یک‬
‫گونہ تشنگی کا احسا س ہوتا ہے ۔‬
‫عربی ادب کی تاریخ ( دور جاہلیت سے موجودہ دور تک ) موضوع کتاب ‪۶۱۱‬‬
‫صفحات پر مشتمل سنگ میل پبلیکیشنز الہور سے ‪۱۰۰۴‬ء میں شائع ہوئی۔ قیمت ‪۸۰۰‬‬
‫روپے‪ ،‬مصنف محمد کاظم انتساب االستاد مسعود الندوی کے نام ہے۔‬

‫کتاب کے مندرجات میں پیش لفظ اور سات ابواب شامل ہیں ۔ عربی زبان و ادب‬
‫ابتدائے آفرنیش سے ہمارےلیے خصوصی اہمیت کا حامل رہا ہے لیکن یہ صورت‬
‫حال تشویش ناک ہے کہ عربی کی تدریس کے حوالے سے ہمارے معاشرے کوئی‬
‫ٹھوس اقدامات نہیں کیے جا رہے سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اسے دین کے ساتھ‬
‫جوڑ دیا جاتا ہے حاالنکہ ادب اور دین کے تقاضے مختلف ہیں۔ ۔‬
‫دین کی اصالح کے لیے قرآن و حدیث دو مستند واسطے ہمارے لیے مشعل راہ ہیں‬
‫لیکن ادب تو ان احساسات و جذبات کے اظہار کا نام ہے جو ازل سے انسان کی روح‬
‫کو بیدار کر کے اسے خود سے شناسا کرتا ہے ادب اظہار ذات کا دوسرا نام ہے ۔ یہ‬
‫الگ بات ہے بعض خواہشات کے تشنہ رہ جانے سے انسان متوازی راہوں پر چل پڑتا‬
‫ہے یہ فرار ذات ہے ۔ ادب کی تشکیل ان دوراہوں کے بین بین ہوتی ہے ۔‬

‫ہمارے ہاں یہی رویہ پایا جاتا ہے کہ عربی ادب کو قرآنی آیات کے ساتھ خلط ملط کر‬
‫دیا جاتا ہے ۔ اس لیے ہم لوگ ابھی تک عربی ادب کے بنیادی مزاج کے حوالے سے‬
‫ناخواندہ ہیں ۔ کسی بھی زبان کے ادب کو سمجھنے کے لیے تراجم نے یقیناًکلیدی‬
‫کردار ادا کیا ہے ۔ اس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں تاریخ ادب ایک ایسا موضوع‬
‫ہے کہ اس کا مطالعہ اصل زبان میں ہی کیا جائے تو اس عہد کو بہتر طور پر سمجھا‬
‫جا سکتا ہے ۔‬

‫مذکورہ باال کتاب کی تصنیف کے دوران مصنف نے مآخذات میں عربی اور اردو کی‬
‫کتب و تواریخ سے استفادہ شامل کیاہے لیکن حوالے حواشی سے صرف نظر کیا ہے ۔‬
‫کتابیات کی فہرست اور اشاریہ اسماء و کتب اور مقامات ص ‪ ۴۱۸‬تا ‪ ۶۱۱‬پر موجود‬
‫ہے ۔ زیر نظر کتاب میں اگر کہیں کوئی کمی بیشی ہے یا مصنف نے جن کتب سے‬
‫استفادہ کیا ہے اس کااعتراف ا س نے واضح لفظوں میں کیا ہے ۔ کتاب کی ضخامت‬
‫کے پیش نظر مصنف نے دانستہ طور پر اختصار سے کام لیا ہے ۔ موضوع کی‬
‫وسعت کے باوجود تمام اصناف کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے اپنی اس جدوجہد کو‬
‫اس نے محض ایک کوشش پر محمول کیا ہے ۔ اس پر تصدیق کی کوئی مہر ثبت‬
‫کرنے کی سعی نہیں کی لیکن بال دلیل کوئی رائے مسلط نہیں کی ۔‬

‫معاشرتی و سیاسی حاالت‬

‫زیرتبصرہ کتاب میں مصنف نے زبانوں کی قدامت کے حوالے سے بات کی ہے ۔‬


‫موجودہ دور میں انگریزی زبان ہم پر اس طرح مسلط کر دی گئی ہے کہ عربی کے‬
‫حوالے سے چند مورخین کے سوا کسی نے اس کا کھوج لگانے کی کوشش نہیں کی‬
‫کہ یہ زبان کب ‪ ،‬کیسے وجود میں آئی اورا س کے ماخذات کیا ہیں ۔‬

‫عربی زبان کے حوالے سے مصنف زبانو ں کے خاندانوں کے بارے میں بتاتا ہے۔‬

‫’’ دنیا کی سب سے بڑی اور قدیم زبانیں تین ہیں۔ سامی ‪ ،‬آریائی اور حامی ‪ ،‬سامی‬
‫عربی‬ ‫اور‬ ‫کنعانی‬ ‫‪،‬‬ ‫آرامی‬ ‫۔‬ ‫ہیں‬ ‫یہ‬ ‫شاخیں‬ ‫کی‬ ‫زبان‬
‫َٓ آرامی زبان کی شاخیں ہیں ‪ ،‬عبرانی ‪ ،‬فینیقی عربی ایک سامی زبان ہے یعنی ان‬
‫قوموں کی زبان جو حضرت نوح کی بیٹے سام کی نسل سے تھیں ۔ سامی اقوام کا‬
‫وطن اول وادئ فرات یا دجلہ اور فرات کے درمیان کا عالقہ تھا جب یہ تعداد میں‬
‫زیادہ ہوگئے تو اس پاس کے عالقوں میں پھیل گئے ۔ بابلی اور شوری عراق میں‬
‫آگئے آرامی شام میں ‪ ،‬عبرانی فلسطین میں ‪ ،‬فنینیقی ساحل شام اوار لبنان میں عرب‬
‫جزیرہ نمائے عرب میں اور کچھ دوسرے لوگ حبشہ چلے گئے‘‘ (عربی ادب کی‬
‫تاریخ‪ ،‬ص‪)۱۶‬‬

‫یہ کہا جا سکتا ہے کہ سامی زبانوں میں عربی زبان ہی اپنی اصل سے زیادہ قریب‬
‫ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ الگ تھلگ رہنے کی وجہ سے یہ تغیرات زمانہ سے‬
‫محفوظ رہی ہے ۔ دیگر زبانیں اپنے باشندوں کے ساتھ ہجرت کرنے کی وجہ سے‬
‫اختالط کا شکار ہو گئیں اور یوں اپنی اصل سے دور ہوتی گئیں۔ عربی زبان کی‬
‫قدامت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ‪۱۱۰‬ء میں ظہور اسالم سے‬
‫پہلے یہ جزیرہ نمائے عرب میں مکمل طور پر موجود تھی ۔ اس کا ثبوت زمانہ‬
‫علی شاہ کار ہیں ۔‬
‫جاہلیت کی شاعری اور خطبات کے نمونے ہیں جو کہ فکر و فن کا ٰ‬
‫عربی زبان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس کا محاورہ اور روزمرہ آج‬
‫بھی وہی ہے جو ساڑھے پندرہ سو برس پہلے تھا۔ ایک وقت تھا جب پورے برصغیر‬
‫میں فارسی زبان کا شہرہ تھا اور اب انگریزی زبان کا لیکن قدامت کے لحاظ سے‬
‫دیکھیں تو فارسی زبان کی عمر گیارہ سو برس سے تجاوز ہے اور انگریزی زبان کی‬
‫عمر چھ سو سال ہے ۔ عربی زبان عالم گیر سطح پر اپنا وجود کیوں نہ منوا سکی اور‬
‫بتدریج دور کی آواز ہی بنتی گئی اس میں قصور وار تو اہل زبان ہیں کہ انہوں نے‬
‫اسے اپنی حد تک ہی محدود رکھا اور عالمی سطح پر اس کی پذیرائی کے لیے کچھ‬
‫نہ کیا۔‬

‫مصنف عرب قوم کی تاریخ ‪ ،‬عالقے اور مشہور قبائل کے حوالے سے بتاتا ہے ۔‬

‫’’ عرب قوم تاریخی زمانوں سے تین طبقوں میں تقسیم کی جاتی ہے ۔ عرب بائدہ‪ :‬یہ‬
‫بہت قدیم لوگ ہیں جن کا کوئی مستند حال معلوم نہیں ہے سوائے ان بیانات کے جو‬
‫قرآن یا حدیث میں ان کے بارے میں آئے ہیں ۔ ان کے قدیم قبائل میں طسم ‪،‬جدیس اور‬
‫ہود کو پیغمبر بنا کر بھیجا گیا جنوب کی‬
‫عاد اور ثمود تھے عاد کی طرف حضرت ؑ‬
‫طرف احقاف میں رہتے تھے ۔ ثمود حجاز میں آباد تھے ان کی طرف حضرت صالح‬
‫کو پیغمبر بنا کر بھیجا گیا ۔‬

‫عرب عاربہ‪ :‬یہ وہ لوگ تھے جو فرات کے عالقے سے آکر یمن میں بس گئے تھے‬
‫ان کا تعلق یعرب بن قحطان سے تھا ۔ جس کے متعلق یہ خیال کیا جاتا ہے کہ عربی‬
‫زبان کی ابتداء اسی سے ہوئی ۔‬

‫’’عرب مستعربہ ‪ :‬یہ لوگ حضرت اسماعیل ؑ کی اوالد تھے‬


‫جو انیسویں صدی قبل مسیح میں حجاز میں پروان چڑھے‬
‫لیکن یہ لوگ زمانے کی گرد میں ایسے گم ہوئے کہ ان کے‬
‫بارے میں کچھ بھی پتا نہ چل سکا پہلی بار جو نام گمنامی‬
‫سے ابھر کر سامنے آیا وہ عدنان کا تھا اسی سے صحیح‬
‫عربی نسب شروع ہوتا ہے ۔ عدنان سے جو قبائل چلے ان‬
‫میں مشہور ربیعہ اور مضر تھے مضر سے کنانہ اور اس‬
‫سے قریش جس کی سب سے اہم شاخ قصی سے ہوتی ہوئی‬
‫عبدمناف اور ہاشم اور عبدالمطلب تک آئی ۔ عدنانی قبائل‬
‫مختلف عالقوں میں آباد ہوگئے قریش مکہ میں ثقیف طائف‬
‫میں ‪ ،‬بنو تمیم بصر ہ میں ہوا زن مکہ کے مشرق میں اور‬
‫بنو اسد مشرقی تیماء اور مغربی کوفہ میں ‘‘(ص‬
‫‪،۱۹،۱۱،۱۸‬عربی ادب کی تاریخ )‬

‫ہر قوم کا ادب اس کی سیاسی اور معاشرتی تاریخ وحاالت سے جڑا ہوتا ہے دونوں‬
‫میں تبدیلی ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتی ہے ۔ فکری انقالب حاالت پر سب سے‬
‫گہرے اثرات مرتب کرتا ہے ۔ عربی ادب کے مورخین اس کی تاریخ کو پانچ ادوار‬
‫میں تقسیم کرتے ہیں ۔ اس دوران جو ادب تخلیق ہوا اس کے اثرات آج تک موجود ہیں‬
‫اور ان کے بغیر عربی ادب کی تاریخ نامکمل ہے جاہلی دور ‪ ،‬صدر اسالم اور اموی‬
‫حکومت کا دور ‪ ،‬عباسی دور ‪ ،‬اندلسی دور‪،‬فاطمی اور ترکی دور جدید دور۔‬

‫مصنف نے زیر نظر باب میں قبل از اسالم عربوں کی معاشرتی‪ ،‬سیاسی‪ ،‬مذہبی اور‬
‫فکری زندگی کا مختصرا ً جائزہ لیا ہے اُن کی طرز بود وباش اور آب وہوا کا ان کے‬
‫مزاج پر ا ثر کا جائزہ لیتے ہوئے یہ اہم نکتہ اٹھایا کہ قبل از اسالم عربوں کا مذہب‬
‫بہت سادہ تھا ۔ ان کے دین ابراہیمی کی کچھ باقیات تھیں جو ایک طویل زمانہ گزرنے‬
‫کی وجہ سے جہالت وخانہ بدوشی کی وجہ سے اپنی اصل صورت کھو چکی تھیں ۔‬
‫مصنف ان ادوار کا ادبی جا ئزہ لیتا ہے۔ سب سے پہلے جا ہلی دور کو دیکھتے ہیں ۔‬
‫اس دور کی نوعیت کیا تھی ؟ اس نام کی وجہ کیا تھی ؟آج تک اس نام سے کیوں مو‬
‫سوم چالآتا ہے عربی زبان کے ارتقا کی کیا صور تحا ل تھی ؟‬

‫وہ دور جہالت کا نہیں بلکہ جا ہلیت کا تھا ۔ جس میں معاشرتی ناہمواری ‪ ،‬نامعقو لیت ‪،‬‬
‫بے انصافی اور بت پرستی‪ ،‬شامل تھی۔ عدم توازن کی وجہ سے جہالت اور جاہلیت کو‬
‫خلط ملط کر دیا گیا اور یہی تصور عوام الناس میں راسخ ہوگیا۔‬
‫ہر معاشرے میں زبان کی مختلف شکلیں رہی ہیں اسی طرح عربی زبان بھی دو طرح‬
‫کی ہے ۔ ایک فصیح عربی جو قرآن پاک اور لکھنے پڑھنے کی زبان ہے۔ دوسری‬
‫عامی عربی جسے عالقائی زبان کہتے ہیں۔‬

‫دنیا کی کوئی بھی زبان ایک ہی مرحلے میں بلندی کے تمام مراحل طے نہیں کرتی‬
‫بلکہ اسے تہذیب یافتہ شکل اختیار کرنے میں مدتیں درکار ہوتی ہیں۔ عربی زبان بھی‬
‫کچھ ایسی ہی صورتحال سے دو چاررہی ہے۔‬

‫جاہلی دور‬

‫جاہلی دور کے حوالے سے چند اہم سواالت سامنے آتے ہیں اس دور میں‬ ‫‪‬‬
‫تخلیق ہونے والی شاعری اور نثر کی زبان کیا تھی؟‬
‫اس زبان نے ترویج کیسے پائی؟‬
‫جاہلی شاعری کا اس دور کے معاشرے میں کیا مقام تھا ؟‬ ‫‪‬‬
‫شاعری کس قسم کی تھی اور اس کا مقصد کیا تھا اور کیا یہ مکمل طور پر‬ ‫‪‬‬
‫محفوظ رہ سکی تھی ؟‬
‫شاعری کی خصوصیات اور اہم مجموعے کو ن سے تھے؟‬ ‫‪‬‬
‫دور جاہلیت کے اہم نثر نگار ‪ ،‬شعر اء اور ان کے نمونہ کالم کے موضوعات‬ ‫‪‬‬
‫کیا تھے؟‬

‫جب ہم عربی ادب کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد یقیناًفصیح عربی ہے کیونکہ یہ‬
‫زبان بین االقوامی حیثیت کی حامل ہے اور تمام عرب ممالک میں بولی اور سمجھی‬
‫جاتی ہے ۔ جاہلی دور میں جوادب تخلیق ہوا وہ اسی زبان میں ہے ۔ لہجوں کا فرق بھی‬
‫بتدریج معدوم ہو تا گیا یہاں جس عربی ادب سے ہمیں کالم ہے ان شعراء کا تعلق شمال‬
‫کے ربیعہ اور مضر قبائل سے تھا جو بوجوہ یہاں قیام پذیر نہیں تھے وہ بھی ہجرت‬
‫کر کے یہیں آکر آباد ہو گئے تھے۔‬

‫یہ حقیقت ہمارے مشاہدۂ عام میں ہے کہ ادب میں پہلے نثروجود میں آتی ہے پھر‬
‫شاعری اس کی وجہ غالبا یہ ہے کہ نثر اظہار کا آسان اور قدرتی ذریعہ ہے اپنا مدعا‬
‫بیان کرنا مشکل نہیں ہے۔‬
‫دور جاہلیت کی نثر کے حوالے سے دیکھیں تو اس دور میں نثر دوطرح کی تھی‬

‫’’ایک مسجع یعنی وہ جس کے جملوں کے آخر میں قافیہ‬


‫کا التزا م ہوتا تھا اور دوسری مرسل یعنی آزاد جس میں اس‬
‫طرح کا کوئی التزام نہیں ہوتا تھا‘‘۔ (ص‪)۱۹‬‬

‫کسی بھی ادب کے لیے اس دور کے معاشرتی ‪،‬سیاسی اور تجارتی حاالت ذرائع‬
‫مواصالت کا کردار ادا کرتے ہیں۔ انہی کی وجہ سے زبان ترویج کے مراحل طے‬
‫کرتی ہے زمانہ جاہلیت میں تفریح اور کاروباری نقطۂ نظر سے وسیع پیمانے پر ساال‬
‫نہ میلے منعقد ہوتے تھے مختلف مقابلہ جات کے دوران شعروشاعری کامقابلہ بھی‬
‫ہوتا تھا اور اس کے لیے یہ طے تھا کہ شعراء اپنا بہتریں کالم پیش کریں۔ زبان اور‬
‫محاور ے عام فہم ہوں ۔ اس طرح عربی زبان رفتہ رفتہ مہذب اور عام فہم ہوتی گئی۔‬

‫اس حوالے سے مصنف کہتا ہے۔‬

‫"ان میلوں میں " عکاظ" کا میلہ سب سے زیادہ مشہورتھا‬


‫جو ذی القعدہ کے مہینے میں لگتا تھا اور اس میں شاعری‬
‫کے مقابلے میں اس سال کے بہترین کال م کا فیصلہ کیا جاتا‬
‫تھا" (ص‪۱۱‬ایضا)‬

‫شاعری نرم و نازک احساسات کو لفظوں میں ڈھالنے کا نام ہے اور یہ صالحیت عطیہ‬
‫خاص ہے اکتساب سے تو محض لفظوں کی کانٹ چھانٹ کی جاتی ہے ۔ دومصرعوں‬
‫میں زندگی کے بڑے بڑے حقائق کا خالصہ بیان کر دیا جاتا ہے۔ جاہلی شاعری کے‬
‫نمون ہ کالم سے اندازہ ہو تا ہے کہ یہ اسالم سے ڈیڑھ سو برس پہلے کی ہے اپنے‬
‫ہے۔‬ ‫پر‬ ‫بلندیوں‬ ‫اعلی‬
‫ٰ‬ ‫کی‬ ‫فن‬ ‫اور‬ ‫پختہ‬ ‫میں‬ ‫مزاج‬
‫عرب معاشرے میں شاعر کو جو مقام حاصل تھا اس کی مثال دوسر ی اقوام اور‬
‫معاشرے میں نہیں ملتی۔ کیونکہ وہاں شاعری محض تفریح کے سوا کچھ نہ تھی۔‬

‫اس حوالے سے مصنف بتاتا ہے۔‬


‫’’ایرا ن میں شاعری تفریح طبع کی چیز سمجھی جاتی تھی‬
‫چنانچہ انوری نے ایک قطعہ میں ثابت کیا ہے کہ انسانی‬
‫جماعت میں شاعر کی اتنی بھی ضرورت نہیں جتنی کہ‬
‫ایک خاکروب کی ہوتی ہے۔ اس سے پہلے یونان میں‬
‫شاعری سے عموما ً جو کام لیا جاتا تھا وہ صرف تفنن آمیز‬
‫جلسوں کو گرم کرنے کا ہوتا تھا اور شاعر سخن ساز اور‬
‫دورغ گو کے لقب سے پکارا جاتا تھا چنانچہ ارسطو نے‬
‫جھوٹا طلسم باندھنے کو کمال شاعری قرار دیا تھا‘‘۔(ص‬
‫‪ ۳۱‬ایضا)‬

‫اب ہم جاہلی شاعری کے حوالے سے دیکھتے ہیں تو شاعر کو یہ پورا اختیار حاصل‬
‫تھا کہ وہ اپن ے کالم کے ذریعے کسی بھی قبیلے کو سر بلند کر سکتا تھا اور اگر چاہتا‬
‫تو ہجو کہ کر ذلیل خوار کر دیتا تھا ۔ جاہلی معاشرے میں جس قبیلے میں کسی بڑے‬
‫شاعر کا ظہور ہو تا تو اس کی قسمت پر رشک کیا جاتا تھا۔ شاعر معاشرے کے لیے‬
‫چلتا پھرتا ذریعہ ابالغ تھا ۔ اس کے کالم پر تصدیق کی مہر ثبت کر دی جاتی تھی۔‬
‫عموما شاعری تین طرح کی ہوتی ہے ایک جذبہ و احساس کی دوسری رزمیہ اور‬
‫تیسری تمثیلی شاعری ۔شاعری کی اول الذکر قسم سب سے پہلے وجود میں آئی ۔ اسی‬
‫سے د یگر اقسام وجود میں آئیں۔‬

‫اب سوال یہ ہے کہ اس دور کی جاہلی شاعری کیا تھی اور اس کا مقصد کیا تھا ؟‬

‫جاہلی معاشرے میں ایک عرب کے سامنے صحرا کے‬


‫مناظر تھے اور جو قصے اس کے پیش نظر ہوتے تھے وہ‬
‫محض بہاوری اور جنگ کے اور حسن صرف عورت کا ان‬
‫تین موضوعات کی تکرار جاہلی شاعری میں ملتی ہے اور‬
‫ایک ہی اندازسے ملتی ہے۔اس تکرار کی وجہ سے جاہلی‬
‫شاعرزہیر کو کہنا پڑا کہ میں تو یہ دیکھتا ہوں کہ ہم جو‬
‫بھی کہتے ہیں وہ یا تو کسی سے مستعار لیا ہو ہوتا ہے یا‬
‫پھر اس میں ہماری ہی کسی بات کی تکرار ہوتی‬
‫ہے۔(ص‪)۴۳‬‬

‫عربوں کے خاص ماحول ‪ ،‬محدود تصور کی وجہ سے اساطیر وہاں رواج نہ پاسکیں ۔‬
‫عرب شعراء فطرت نگاری کے زیادہ قریب تھے ۔ عکاظ کے میلے میں جو شاعری‬
‫کا مقابلہ ہوتا تھا اس کی کشش دور دور کے قبائل کو شاعری کی طرف التی تھی ۔ وہ‬
‫اپنے اندر فصیح عربی لہجہ پیدا کرنے کے لیے کوشاں رہتے تھے۔ اس طرح جاہلی‬
‫شا عری مکہ کے قرب وجوار کے درمیان تجارت کا وسیلہ ثابت ہوئی۔‬
‫عرب شاعر کو اپنے سوا کوئی اور دکھائی نہیں دیتا تھا لیکن اس کے باوجود اس کی‬
‫شاعری موضوعاتی لحاظ سے خصوصیات کی حامل تھی سب سے بڑی خصوصیات‬
‫‪ ،‬سچائی‪ ،‬واقفیت اور بے ساختگی ہے موضوع چاہے کوئی بھی ہو لیکن جھوٹ اور‬
‫مبالغے کی آمیز ش سے خالی ہوگا ۔‬

‫یہ شاعری اس عہد کے جغرافیائی ‪ ،‬معاشرتی اور اخالقی حاالت کا مکمل نمونہ پیش‬
‫کرتی ہے۔ دوسری اہم خصوصیت جو خامی کے ُزمرے میں بھی آسکتی ہے۔ وہ‬
‫مضامین کی محدود یت اور یک رنگی ہے ۔ کیونکہ اس میں مضامین غیر مربوط انداز‬
‫میں ہیں۔ ترتیب میں تبدیلی سے یا کوئی شعر حذف کرنے سے بیا ینے پر کوئی اثر‬
‫نہیں پڑتا ۔ عرب مزاجا ً فلسفی یا مفکر نہیں تھے اس لیے وہ ایک روایت کی پاسداری‬
‫کرتے چلے آرہے تھے۔ جاہلی شاعری میں تنوع کا فقدان ہے۔ اگر بنطر غائر دیکھا‬
‫جائے تو اس کا زمانہ بھی زیادہ طویل نہیں تھا۔‬

‫جاہلی شاعری کا جو سرمایہ زمانہ حال تک موجود ہے۔ اس کے متعلق شکوک و‬


‫شبہات پائے جاتے ہیں اس کی وجہ یہ مختلف روایتوں سے گزری ہے ۔ راویوں میں‬
‫ایسے لوگ بھی تھے جو جاہلی طرز پر شعر کہہ کر اس کا الحاق جاہلی شاعری سے‬
‫تھے‬ ‫کردیتے‬
‫مصنف عربی ا دب کے عالم اور راوی ابو عمر و بن العالء کے حوالے سے کہتا ہے۔‬

‫’’وہ اپنے معاصرین سے کہا کرتا تھا کہ آپ لوگو ں تک‬


‫جاہلی شاعری کا جو حصہ پہنچا ہے وہ بہت کم ہے اگر آپ‬
‫لوگوں تک پوری شاعری پہنچ پاتی تو آپ بہت زیادہ علم‬
‫اور شعری ذخیر ے سے مستفید ہوتے‘‘۔(ص‪)۳۱‬‬

‫یہ حقیقت اپنی جگہ درست ہوگی لیکن جاہلی شاعری کا جو ذخیرہ دستیاب ہو ا ہے‬
‫اسے اہل نقد و نظر ممیز کر سکتے ہیں کہ یہ جاہلی شاعری میں اصل اور بنیاد کی‬
‫حیثیت رکھتا ہے ۔ ہر دور میں ادب کے حوالے سے قیاس آرائیاں ہوتی رہی ہیں اور‬
‫اسی سے تنقید کے دَروا رہتے ہیں ورنہ جمود کی فضا طاری ہو جائے۔ جاہلی شاعری‬
‫کے مستند اور نمائندہ مجموعوں کے حوالے سے مصنف بتاتا ہے۔‬

‫معلقات ‪ ،‬یہ سات چوٹی کے جاہلی شعرا کے سات طویل قصید ے ہیں جن کو عکاظ‬
‫کے میلے کے ساالنہ مقابلوں میں بہترین قرار دیا گیا اور مقبول عام روایت کے‬
‫مطابق سونے کے پانی سے لکھ کر درکعبہ پر لٹکا ئے گئے تھے۔ کوئی شک نہیں کہ‬
‫جاہلی شاعری کے بہترین نمونے ان سات قصائد میں ملتے ہیں جن کے شعراء میں‬
‫سلمی ‪ ،‬لبید بن ربیعہ ‪ ،‬عمرو بن کلثوم ‪،‬‬
‫ٰ‬ ‫امرؤ القیس ‪ ،‬طرفہ بن العبد‪ ،‬زہیر بن ابی‬
‫عنترہ بن شداد اور حارث بن حلزہ ‪ ،‬چونکہ یہ قصائد سونے کے پانی سے لکھے‬
‫جاتے تھے اس لیے ان کو مذ ّھبات بھی کہا گیا۔مفضّلیات ‪ ،‬یہ جاہلی شاعری کا وہ‬
‫انتخاب ہے جو آٹھویں صدی عیسوی میں ایک عالم اور ادیب مفضل الضبی نے خلیفہ‬
‫ابو جعفر منصور کے کہنے پر اس کے بیٹے اور ولی عہد مہدی کے لیے کیا تھا جو‬
‫اس کا شاگرد تھا۔‬

‫اصمعیات ‪ :‬اسی طرح کا ایک اور انتخاب مشہور راوی اصمعی نے آٹھویں صدی‬
‫عیسوی ہی میں ہارون الرشید کے کہنے پر اس کے بیٹے امین کے لیے کیا۔‬

‫ان مذکورہ مجموعوں میں معلقات کے شعراء کے عالوہ دور جاہلیت کے دوسرے‬
‫بڑے شعراء کا کالم ہے۔‬

‫دیوان الحماستہ ‪ :‬یہ جاہلی اور اسالمی دور کی شاعری کا وہ مشہور اور قابل قدر‬
‫انتخاب ہے جو دور عباسی کے نامور شاعر ابو تمام (م‪ )۶۴۱‬نے نوی صدی عیسوی‬
‫میں کیا اور اس میں عربی شاعری کے بہترین نمونوں کو جگہ دی۔‬
‫جمہرۃ اشعار العرب‪ :‬بارہویں صدی عیسوی کے اوائل میں عربی کے ایک بڑے عالم‬
‫اور ادیب ابوزید قرشی نے جاہلی اور ابتدائی اسالمی دور کی بہترین شاعری کا‬
‫انتخاب سات سات نظموں پر مشتمل سات عنوانات کے تحت کیا۔ یہ سب اپنے زمانے‬
‫کی چیدہ اور منتخب نظمیں تھیں۔ مراثی ‪،‬مشوبات‪ ،‬ملحمات۔ مراثی میں سات مرثیے‬
‫ہیں اور مشوبات میں ایسی نظمیں ہیں جن کے شاعروں میں اہل کفر بھی اور اہل اسالم‬
‫بھی ہیں ان منتخب مجموعوں کے عالوہ جاہلی شاعری کے نمونے ابن قتیبہ‬
‫(‪۱۱۸‬ء)کی کتاب " الشعرو الشعراء " جو جاہلی اور اس کے بعد اسالمی ‪ ،‬امومی او‬
‫رعباسی ادوار سے متعلق ایک مستند تذکرۂ شعراہے۔ اسی طرح جاہلی شاعری کے‬
‫اعلی نمونے عباسی دور کے ابو الفروج اصفہانی (م‪ )۸۱۹‬کی شہرہ آفاق تاریخی‬
‫ٰ‬ ‫بہت‬
‫کتاب " کتاب االغانی" میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔(ص‪ ۳۱،۳۹،۳۱‬ایضا ً)‬

‫سبع معلقات جاہلی شعراء کا نمونہ کالم ہے لیکن زمانے کے اعتبار سے اسے طبقات‬
‫میں تقسیم کیا جاتا ہے۔‬

‫جاہلی شعراء ‪ :‬یہ وہ شاعر ہیں جو اسالم سے پہلے ہوئے اور ان میں سے بعض نے‬
‫اسالم کا زمانہ پایا لیکن اس زمانے میں انہوں نے کوئی خاص شاعری نہیں کی۔‬

‫مخضرم شعراء‪ :‬وہ شعرا ء جن کی زندگی کا کچھ حصہ جاہلیت میں گزرا ا ور کچھ‬
‫کہے۔‬ ‫شعر‬ ‫میں‬ ‫زمانوں‬ ‫دونوں‬ ‫نے‬ ‫انہوں‬ ‫اور‬ ‫میں‬ ‫اسالم‬
‫زمانہ جاہلیت کی نثر نگاری کے نمونے اور اہم نثر نگار‪:‬‬

‫عربی نثر کے نمونے لوگوں کی گفتگو‪ ،‬خطبوں اور تقریروں میں ملتے تھے۔ راویوں‬
‫نے صرف اسی حصے پر توجہ کی جو اپنی خوبصورتی ‪ ،‬بالغت اور اختصار کی‬
‫وجہ سے ذہنوں میں محفوظ رہ گیا۔‬

‫مصنف کہتا ہے۔‬

‫’’جاہلی نثر کا یہ حصہ کہاوتوں ‪ ،‬حکیمانہ مقولوں ‪،‬‬


‫پندونصائح اور تقریروں پر مشتمل ہے‘‘۔(ص‪)۱۹‬‬
‫اس زمانے میں عربی نثر بہت چھوٹے چھوٹے جملوں میں ملتی ہے۔‬

‫الخطاء زاد العجول (غلطی عجلت پسندی کا زادراہ ہوتی ہے) یامن اسلک الجددامن‬
‫العثار (جو سیدھے اور پختہ راستے پر چلے گا پھسلنے سے بچا رہے گا۔‬

‫مصنف بتاتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں اچھی اور مؤثر تقریر وہ سمجھی جاتی تھی جو‬
‫اعلی نمونہ ہو اس زمانے کے مشہور خطیبوں میں دو نام اہم‬
‫ٰ‬ ‫بالغت اور فصاحت کا‬
‫ہیں۔‬

‫’’قس بن ساعدہ نجران کاالٹ پادری تھا اور اکثر زمین پر‬
‫تلوار ٹیک کر اس کے سہارے کھڑے ہو کے تقریر کیا کرتا‬
‫تھا ۔ آنحضرت ﷺ نے قس بن ساعدہ کو عکاظ کے میلے میں‬
‫سنا تو اس کی تعریف کی ۔ عکاظ میں اسکی ایک تقریر‬
‫مختصرا ً یو ں ہے۔"لوگو سنو اور سمجھو جو بھی یہاں زندہ‬
‫ہے وہ ایک دن مر جائے گا اور جو مر جائے گا وہ اوجھل‬
‫ہوجائے گا اور جو کچھ آنے واال ہے وہ آ کر رہے گا‬
‫آسمانوں میں یقیناًکوئی خبر ہے اور زمین میں عبرت ناک‬
‫واقعات ہیں لوگو ں کو کیا ہو گیا ہے کہ جاتے ہیں اور واپس‬
‫نہیں آتے‘‘۔(ص ‪) ۱۱،۱۸‬‬

‫اس دور کا دوسرا اہم خطیب عمروبن معد یکرب زبیدی تھا۔‬

‫’’جو آنحضرت ﷺ سے اس وقت مال جب آپ تبوک سے‬


‫واپس آرہے تھے چنانچہ وہ اور اس کی قوم کے لوگ‬
‫مسلمان ہو گئے ۔ اسالم کی زندگی اسے راس نہ آئی اور‬
‫اسالم چھوڑدیا۔ لیکن کچھ عرصے کے بعد وہ پھر مسلمان‬
‫ہوا اور ایک سو دس برس کی عمر میں جنگ قادسیہ میں‬
‫عمر کی خالفت کے آخری زمانے میں‬
‫شریک ہوا۔ حضرت ؓ‬
‫فوت ہوا‘‘۔‬

‫اس کی تقریر کا ایک مشہور جملہ ہے۔‬


‫’’چھوٹے سے دو عضو ہیں جن سے انسان انسان بنتا ہے۔‬
‫ایک دل اور دوسرا زبان ‘‘(ص‪)۱۸‬‬

‫ضرب االمثال ‪ ،‬حکیمانہ اقوال اور تقریروں کے عالوہ وعظ و نصیحت کے باب میں‬
‫ہیں۔‬ ‫ملتے‬ ‫نمونے‬ ‫عمدہ‬ ‫میں‬ ‫نثر‬ ‫جاہلی‬ ‫بھی‬
‫زبیر بن جناب الکلبی اپنے بیٹو ں کو نصیحت کرتا ہے۔‬

‫’’اے بیٹو! ایسا نہ ہو کہ تم حواد ث زمانہ سے دھوکہ کھا‬


‫جاؤ اور ان کے معاملے میں بے فکر ہو جاؤ یا ان پر ہنسنے‬
‫لگو اس لیے کہ کسی قوم نے جب بھی تمسخر کیا ہے‬
‫آزمائش میں ڈالی گئی ہے۔ یاد رکھو ایک تیرا یسا ضرور‬
‫ہوتا ہے جو ٹھیک نشانے پر جا کے لگتا ہے‘‘۔ (ص‪)۳۰‬‬

‫جاہلی شعراء اور ان کا نمونہ کالم‪:‬‬

‫جاہلی شعراء میں سرفہرست وہ شعراء رہیں جو سبع معلقات میں شامل ہیں ۔ان کی‬
‫شاعرانہ عظمت کو ہر دور میں خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔ ان شعراء کا سال‬
‫پیدائش شاید بوجوہ نہ مال ہو لیکن سال وفات مصنف نے ہر شاعر کا درج کیا ہے تاکہ‬
‫اس عہد کی معاشرتی اور سیاسی زندگی کی تصحیح ممکن ہو سکے۔ان شعراء کے‬
‫حوالے سے مصنف کا نقطہ نظر مختصراًدرج کیا جاتاہے۔‬

‫‪1‬۔ امرؤ القیس (م‪۰۲۱‬ء)‬

‫مورخ نے تامل نہیں کیا لیکن‬


‫مذکورہ شاعر کو جاہلی دور کا سرخیل ماننے میں کسی ّ‬
‫یہ نہیں کہا جاسکتا کہ جاہلی شاعری کا آغاز اسی سے ہوتا ہے ۔ بہر حال اس نے اپنی‬
‫شاعری میں ایسے اسالیب اور مضامین کی طرح ڈالی جس نے بعد کے شعراء کے‬
‫لیے نمونہ اور مثال کا کام دیا۔زیر نظر شاعر کے حوالے سے مصنف کی کتاب‬
‫’’عربی ادب میں مطالعے‘‘ میں ص ‪ ۴۱‬تا ‪ ۱۹‬پر تفصیلی مضمون ہے۔ راقمہ نے اس‬
‫کتاب کے جائز ے کے دوران زیر تبصرہ شاعر کے فکر و فن کا جائزہ لیا ہے۔‬
‫امرؤ القیس کے اسلوب شعر کا بہترین اور نمائندہ نمونہ اسی اشعار پر مشتمل اس کی‬
‫طویل نظم معلقہ ہے جو بحر طویل میں ہے اور پوری عربی شاعری میں سب سے‬
‫زیادہ پڑھی جانے والی نظم ہے۔‬

‫‪2‬۔ طرفہ بن العبد (م ‪۰۱۲‬ء)‬

‫معلقات کے شعراء میں دوسرے نمبر ہے۔ اپنے شعری معیار کی وجہ سے وہ‬
‫امرؤالقیس کے طبقے کا شاعر سمجھا جاتاہے ۔ زمانہ جاہلیت میں شاعری تو بہت‬
‫زیادہ ہوئی لیکن فکر کی بلندی ہر شاعر کے حصے میں نہیں آئی ۔ مصنف فکر‬
‫گہرائی کے حوالے سے معلقات کے دوشعراء کے نام لیتا ہے۔ ایک طرفہ بن العبد اور‬
‫سلمی ۔انسان کوپیش آمدہ حاالت بھی اس کی شخصیت پر بُری‬
‫ٰ‬ ‫دوسرا زہیر بن ابی‬
‫طرح اثر انداز ہوتے ہیں طرفہ بھی کچھ ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہوا۔‬

‫’’طرفہ پیدا ہوا وہ مشہو ر شاعر متلمس کا بھانجاتھا ۔ بچپن‬


‫میں ہی اس کے سر سے باپ کا سایہ ا ُ ٹھ گیا اور اس کی‬
‫پرورش اس کے چچاؤں نے نہایت نامناسب طریقے سے‬
‫کی۔ یہاں تک کہ اس کی ماں کی جائیداد بھی غصب کر لی۔‬
‫طرفہ کو اس بات کا بہت رنج ہوا اور اس نے ان کی ہجو‬
‫میں اشعار کہے‘‘۔(ص ‪ ۴۴‬ایضا)‬

‫ان حاالت کے ردعمل کے طور پر طرفہ باغی ہو گیا ور لہو ولعب اور شراب سے‬
‫شغل کرنے لگا۔ دوست تو ہمیشہ اچھے وقتوں کے ساتھی ہوتے ہیں ٰلہذا جب تک اس‬
‫کے پاس پیسہ ہو تا دوست ساتھ دیتے اور بعد میں ساتھ چھوڑ جاتے ۔ اب یہی اس کی‬
‫زندگی کا چلن تھا کچھ عرصہ تک اس کی اہل خاندان کے ساتھ تعلقات میں بہتری‬
‫آگئی لیکن یہ زیادہ عرصہ برقرار نہ رہی۔ اسی دوران اس نے اپنا معلقہ کہا ۔‬

‫اس کے بعد طرفہ کی زندگی اپنے اختتام کی طرف بڑھتی ہے۔ اس نے حیرہ کے‬
‫بادشاہ عمر و بن ہند کے دربار کا رخ کیا ۔ اس نے طرفہ اور اس کے ماموں متلمس‬
‫کی قدرافزائی کی لیکن پھر انہیں اپنے ولی عہد کے حوالے کر دیا اس نے ان کی قدر‬
‫نہ کی جس پر ان دونوں نے بادشاہ کی ہجوکہہ ڈالی۔ بادشاہ نے یہ بات دل میں رکھتے‬
‫ہوئے انہیں گورنر بحر ین کے نام دو الگ الگ خط دئیے ۔ متلمس صورتحال بھانپ‬
‫گیا اور راستے میں الگ ہو گیا لیکن طرفہ نہ مانا۔ خط کھولنے پر پتہ چال کہ اس میں‬
‫ہے۔‬ ‫گیا‬ ‫دیا‬ ‫حکم‬ ‫کا‬ ‫قتل‬ ‫کے‬ ‫طرفہ‬
‫طرفہ کی خواہش پر اسے خوب شراب پال کر اکحل نامی شریان کا منہ کھول دیا خون‬
‫بہہ جانے سے وہ مر گیا قتل کے وقت اس کی عمر چھبیس سال تھی۔‬

‫طرفہ کے معلقے کے حوالے سے مصنف اپنی رائے دیتا ہے۔‬

‫’’ طرفہ کا معلقہ بحر طویل میں ایک سو چار اشعار پر‬
‫مشتمل ایک دالیہ قصیدہ ہے لیکن دوسرے معلقات کی طرح‬
‫اس میں بھی ایک مکمل ادبی وحدت نظر نہیں آتی چنانچہ‬
‫موضوعات پر اس کے متعدد ٹکڑے ہیں جو لگتا ہے شاعر‬
‫نے مختلف اوقات میں نظم کیے ہیں جن کا زمانہ اور ماحول‬
‫مختلف ہو سکتا ہے‘‘۔(ص ‪)۴۱‬‬

‫بعض اشعار میں اس کی فکر الگ ہے لیکن اسلوب جاہلی دستور کے مطابق ہے ۔‬
‫تشبیب کے بعد اونٹنی کے وصف میں پینتیس اشعار ہیں پھر اپنی ذات پر فخر کا اظہار‬
‫کرتے ہوئے اپنا فلسفہ زندگی بیان کرتا ہے۔ اس کے بعد عزیز و اقارب کے دیے‬
‫ہوئے دکھوں کا شکوہ کرتا ہے اور معلقے کا اختتام حکمت و فلسفے کی باتوں پر کرتا‬
‫ہے۔‬

‫نمونہ کالم‪:‬‬

‫" میری شراب نوشی اور لطف واندوزی کاعالم وہی رہا ہے اسی طرح میں اپنی نئی‬
‫اور موروثی جائیداد کو خریدتا اور بیچتا رہا ہوں یہاں تک کہ میرے اہل خاندان نے‬
‫مجھ سے کنارہ کشی کر لی اور مجھے ایک ایسے اونٹ کی طرح الگ کر دیا جسے‬
‫خارپشت کا روگ لگ گیا ہو۔اور ایک شعر میں کہتا ہے۔‬
‫’’زمانہ تمہیں وہ کچھ دکھائے گا جس کا تم نے سو چا بھی‬
‫نہ تھا اور تمہارے پا س ایسے لوگ خبریں لے کر آئیں گے‬
‫جن کو تم نے یہ خبریں النے کے لیے زاد راہ دے کر نہیں‬
‫بھیجا تھا‘‘۔(ص ‪)۴۹،۴۱‬‬

‫سلمی (م ‪۱۶۶‬ء)‬
‫ٰ‬ ‫‪3‬۔ ُزہیر بن ابی‬

‫زہیر مضر کی شاخ قبیلہ مزینہ سے تھا ۔ یہ اپنے خاندان کے ساتھ نجد میں غطفان‬
‫کے عالقے میں رہتا تھا۔‬

‫مصنف زہیر کے حوالے سے بتاتا ہے۔‬

‫’’اس کے مزاج میں متانت اور شرافت تھی اور وہ اپنی‬


‫شاعری میں ایک دانا اور معلم اخالق نظر آتا ہے ۔ بے سبب‬
‫کسی کی مدح یا ہجو نہیں کرتا تھا اس کے کالم میں جنگ‬
‫سے نفرت اور امن و صلح پسندی کا پیغام ملتا ہے۔ اس کا‬
‫سلمی اور خنساء دو بیٹے‬
‫ٰ‬ ‫سسر اوس بن حجر ‪ ،‬دو ہمشیرگان‬
‫کعب بن زبیر اور بجیر سب نے شاعری بن نام پیدا کیا ۔‬
‫کعب بن زہیر نے اسالم النے کے بعد حضورﷺ کی خدمت‬
‫سعاد سنایا‬
‫میں حاضر ہو کر اپنا مشہور قصیدہ بانت ُ‬
‫تھا‘‘۔(ص ‪)۴۸ ،۴۱‬‬

‫زہیر بہت حوصلہ مند‪ ،‬صائب رائے ‪ ،‬اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے واال شخص‬
‫تھا۔‬

‫’’جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے وہ اللہ سے ہر گز نہ چھپاؤ‬


‫اس خیال سے کہ وہ مخفی رہے اس لیے کہ جو کچھ بھی‬
‫اللہ سے چھپایا جائے گا وہ اسے جان لے گا‘‘۔(ص ‪)۴۸‬‬

‫جاہلی دور میں شاعری کا آغاز ایک خاص روایت سے ہوتا ہے جس کا آغاز محبوبہ‬
‫کے چھوڑے ہوئے کھنڈرات سے ہوتا ہے لیکن یہاں شاعر معلّقے کا آغاز اپنی مطلّقہ‬
‫بیوی ا ُ ّم اوفی کے چھوڑے ہوئے کھنڈرات سے کرتا ہے جب وہ اس کے ساتھ رہتی‬
‫تھی۔ معلّقے کے آخر میں وہ انسان دوستی کے جذبے کے تحت زندگی کے تجربوں‬
‫ہے۔‬ ‫لگتا‬ ‫کرنے‬ ‫باتیں‬ ‫کی‬ ‫حکمت‬ ‫کردہ‬ ‫اخذ‬ ‫سے‬
‫زہیر کے معلقے کا موضوع قبیلہ عبس اور زیبان کے درمیان صلح کروانے والے دو‬
‫سرداروں حارث بن عوف اور ہرم بن سنان کی مدح ہے۔‬

‫نمونہ کالم‪:‬‬

‫’’اور جو شخص کسی ایسے آدمی پر احسان کرتا ہے جو‬


‫اس کا اہل نہیں ہوتا تو اس کا یہ قابل تعریف فعل مذّمت بن‬
‫جاتا ہے’’ اور‘‘ وہ اس پر نادم ہو تا ہے اور جو شخص بہت‬
‫سے معامالت میں مفاہمت سے کام نہیں لیتا ہے وہ دانتوں‬
‫میں چبا ڈاال اور پاؤں تلے روند دیا جاتا ہے‘‘۔(ص ‪)۶۱‬‬

‫مصنف زہیر کی خصوصیات کالم سے بحث کرتے ہوئے کہتا ہے کہ دور جاہلیت کے‬
‫دوسرے شعراء کے ہاں ان کا شدیدفقدان ہے۔ اس کا کالم گھٹیا اور فحش مضامین سے‬
‫پاک ہے۔ حکمت اور دانائی کی باتیں بعض دوسرے شعرا ء نے بھی کی ہیں لیکن‬
‫زندگی کے جن حقائق کا اظہار اس نے کیا ہے وہ دوسرے شعراء کے ہاں اس انداز‬
‫سے نہیں ملتا۔‬

‫‪4‬۔ لبید بن ربیعہ (م ‪)۱۱۶‬‬

‫چھٹی صدی عیسوی کے آخر میں پیدا ہوا اور معاویہ کی خالفت کے آغاز میں فوت ہو‬
‫۔ بلحاظ عمر یہ معلقات کے تمام شعراء میں سب سے چھوٹا تھا۔ اس کا تعلق بنو عامر‬
‫قبیلہ سے تھا۔مصنف نے غیر ضروری تفصیل میں جائے بغیر اس کے کالم کی‬
‫خصوصیات اور اس کے معلقے کے موضوعات کا ذکر کیا ہے۔‬
‫لبید کی شاعری کا آغاز نوعمری سے ہی ہو گیا تھا اس نے قبیلہ عبس کی ایسی ہجو‬
‫کہی کہ بادشاہ ان سے بددل ہوگیا اور اس نے لبید کے قبیلہ بنو عامر کو اپنے قریب‬
‫کر لیا اور یوں وہ بطور شاعر ہر طرف مشہور ہوگیا۔‬

‫مصنف اس کے معلقے کے متعلق کہتا ہے۔‬

‫’’لبید کا معلقہ اٹھا سی اشعار پر مشتمل بحر کامل میں ایک‬


‫میمیہ قصیدہ ہے اس کے مضامین میں اگر چہ روایتی ہیں‬
‫لیکن اسلوب کی تازگی نے ان میں نیاپن پیدا کر دیا ہے۔ عام‬
‫روایت کے مطابق نظم کا آغاز تشبیب سے محبوبہ کے‬
‫اجڑے ہوئے دیار کے دکھ سے ہوتا ہے ۔پھر اونٹنی کی تیز‬
‫رفتا ری ‪ ،‬اپنی سخاوت اور اپنی قوم پر فخر کا اظہار کر‬
‫تاہے‘‘۔(ص ‪)۶۹‬‬

‫نمونہ کالم‪:‬‬

‫’’ہم وہ لوگ ہیں کہ جب قبائل جمع ہوں تو اس وقت ہم میں‬


‫کار عظیم کو سر انجام دینے اور اس سے عہدہ بر آ ہونے‬
‫واال ضرور موجود ہوتا ہے تو اے عدو مالک نے جو تقسیم‬
‫کر دی ہے اس کا مان لے اس لیے کہ طبیعتوں اور مزاجوں‬
‫کی تقسیم وہی کر تا ہے جو سب سے زیادہ جاننے واال‬
‫ہے۔اور یہ مال اور یہ اہل و عیال امانیتں ہی تو ہیں اور ایک‬
‫دن یہ امانتیں بہر حال واپس کرنی ہوتی ہیں بخدانہ سنگ‬
‫ریزے پھینکنے والے اور نہ پرندوں کو اڑا کر مال نکالنے‬
‫والے جانتے ہیں کہ اللہ کیا کرنے واال ہے‘‘۔(ص ‪)۶۸ ،۱۶‬‬

‫‪5‬۔ عمر و بن کلثوم (م‪۰۸۲‬ء)‬


‫عمر و بن کلثوم تغلب قبیلے کا سردار اور شہسوار تھا وہ ایسا بہادر اور جنگ جو‬
‫شاعر تھا جو اپنے ایک ہی قصیدے سے الزوال ہو گیا ۔ وہ پندرہ برس کی عمر میں‬
‫قبیلے کا سردار بن گیا۔‬

‫مصنف عمر و بن کلثوم کے معلقے کے حوالے سے ایک روایت بیان کرتا ہے جسے‬
‫یہاں مختصرا ً بیان کیا جاتا ہے۔جنگ بسوس کی وجہ سے تغلب اور بکر بن وائل کے‬
‫قبائل میں چپقلشیں جاری رہتی تھیں ایک موضوع پر حیرہ کے بادشاہ عمر و بن ہند‬
‫کی موجودگی میں مخاصمت کی صورت پیدا ہو گئی اس موقع پر قبیلہ بنی بکر کے‬
‫شاعر حارث بن حلزہ نے اپنا مشہور قصیدہ پڑھا تو بادشاہ اس قبیلے کی طرف ہو گیا‬
‫اس پر عمرو بن کلثوم بادشاہ سے ناراض ہو کر چال گیا۔ بادشاہ نے عمرو بن کلثوم کو‬
‫ذلیل کرنے کا منصوبہ بنایا اس نے اپنے مصاحبوں سے پوچھا کہ تم کسی ایسے‬
‫عرب کو جانتے ہو جس کی ماں کو میری ماں کی خدمت کرنے میں عار محسوس ہو ۔‬
‫انہوں نے کہا عمر و بن کلثوم کی ماں۔ اس پر بادشاہ نے عمر و بن کلثوم کو مع اس‬
‫کی ماں کے بال بھیجا تا کہ اس کی ماں بادشاہ کی ماں کے ساتھ کچھ وقت گزارے۔‬
‫عمر و بن کلثوم اپنی ماں اور تغلب کی ایک جماعت سمیت آیا جب اس کی ماں خیمے‬
‫لیلی‬
‫میں آئی تو بادشاہ کی ماں نے اشارے سے خدام کو باہر بھیج دیا ۔ اور اس کی ماں ٰ‬
‫سے کہا کہ ذرا اُٹھ کر مجھے وہ طبق تو ال دو اس پر ٰ‬
‫لیلی نے کہا جن کو ضرور ت‬
‫لیلی پکار اُٹھی‬
‫ہووہ یہ کام خودہی کر لے جب بادشاہ کی ماں نے اصرار کیا تو اس پر ٰ‬
‫ہائے یہ ذلت ! ہائے کہاں ہو تغلب والو! دوسرے خیمے سے عمروبن کلثوم نے جب‬
‫اپنی ماں کا یہ واویال سنا تو اٹھا اور خیمے میں آویزاں بادشاہ کی تلوار ہاتھ میں لے‬
‫کر عمر و بن ہند کی گردن اُڑادی اور پھر تغلبیوں کو حکم دیا کہ وہ سب کچھ لوٹ لیں‬
‫اور واپس چلیں۔‬

‫مصنف بتاتا ہے کہ اس واقعے کے بعد عمروبن کلثوم اپنے عالقے میں واپس آگیا اور‬
‫آتے ہی اس نے اپنا وہ معلقہ کہا جس کا مطلع ہے‬
‫" اے ساقی ! اپنا پیالہ شراب کالے کر اٹھ اور صبح سویرے‬
‫ہی ہمیں پالدے اور اندریں کی بہترین شراب کو بچا کر مت‬
‫رکھ"۔(ص ‪)۶۸،۱۰‬‬

‫یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس معلقے کا آغاز ذکر محبوب کی بجائے ساغرو ساقی‬
‫کے ذکر سے ہوتا ہے اس کے بعد چند شعر محبوبہ کے ُحسن اور جدائی کے دکھ سے‬
‫متعلق ہیں ۔ پھر وہ براہ راست بادشاہ حیرہ سے مخاطب ہو کر اپنی قوم کی معرکہ‬
‫آرائیوں کا ذکر کر تا ہے۔عمر و بن کلثوم نے جب یہ قصیدہ عکاظ کے میلے میں سنایا‬
‫تو اسے اس سال کی بہترین نظم قرار دیاگیا۔‬

‫عمر و بن کلثوم ظہور اسالم سے نصف صدی قبل فوت ہوا!‬

‫نمونہ کالم‪:‬‬

‫’’خبردار کوئی ہمارے ساتھ نامعقولیت نہ برتے ورنہ ہم ان‬


‫سے بھی زیادہ ڈھٹائی اورنا معقولیت کارویہ اختیار کر یں‬
‫گے۔جب ہم گھاٹ پر اُترتے ہیں توصاف پانی پیتے ہیں اور‬
‫دوسرے لوگو ں کے حصے میں گدال اور مٹیاال پانی ہی آتا‬
‫ہے۔جب کوئی بادشاہ لو گو ں کو ذلیل کرنے پر آ تا ہے تو ہم‬
‫اس کے سامنے ذلیل ہونے سے انکار کردیتے ہیں‘‘۔(ص‬
‫‪)۱۳‬‬

‫مصنف اس قصیدے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس نے ایک ہی معلقہ کہا ہے‬
‫لیکن اس کی وجہ سے وہ بہت مشہور ہو گیا۔ اس کے الفاظ میں حسن ‪ ،‬عبارت میں‬
‫موزونیت ‪ ،‬جذبہ فخر کی شدت اور مقصد کی بلندی ہے اس کی شاعری سے اس دور‬
‫کے عرب معاشرے کے متعلق بہت قیمتی معلومات ملتی ہیں۔‬

‫’’مذہب کے معاملے میں اس دور کی عورتوں کے بارے‬


‫میں پتہ چلتا ہے کہ بعض عورتیں بتوں کا طواف کرتی تھیں‬
‫اور اس کے ساتھ مذہبی رقص بھی کیا کرتیں تھیں معاشرتی‬
‫زندگی میں جنگ کے وقت عورتیں اپنے مردوں کا ساتھ‬
‫دیتی تھیں۔ گھوڑوں کو چارہ کھال تی تھیں مردوں کو لڑنے‬
‫پر آمادہ کرتی تھیں اور ان سے کہتی تھیں اگر تم نے ہمیں‬
‫دشمن سے نہ بچایا تو تم ہمار ے خاوند نہیں ہو‘‘(ص ‪۱۱‬‬
‫‪،‬ایضا)‬

‫اس کے معلقے میں بہت سی باتیں ایسی ہیں جو اس کے ساتھ خاص ہیں اس معلقے‬
‫میں امرؤ القیس‪ ،‬طرفہ یالبید جیسے فنی محاسن نہیں ملتے لیکن اس کی زبان دوسرے‬
‫معلقات کے مقابلے میں آسان ہے اور اس میں قدرتی روانی ہے۔‬

‫‪6‬۔ حارث بن حلزہ (م ‪۰۷۱‬ء)‬

‫قبیلہ بنو بکر کا شاعر تھا ۔عمر و بن کلثوم کی طر ح صرف ایک قصیدے کی بدولت‬
‫شہرت دوام حاصل کی۔مصنف اس معلقے کا سیاق و سباق اس طرح بیان کرتا ہے "‬
‫بنو بکر اور بنو تغلب میں ایک عرصے سے دشمنی چلی آتی تھی جس کی وجہ سے‬
‫ان قبیلوں کے درمیان لڑائی کاوہ طویل سلسلہ جاری تھا جسے حرب البسوس کہتے‬
‫ہیں۔ حیرہ کے بادشاہ منذر نے ان دونوں میں صلح کروائی اور ہر قبیلے سے سوسو‬
‫غالم بطور ضمانت لیے کہ اگر کسی قبیلے نے زیادتی کی تو اس کے غالم دوسرے‬
‫قبیلے کو دے دیے جائیں گے۔‬

‫’’منذر کے بعد اس کے بیٹے عمر و بن ہند نے بھی یہ عہد‬


‫برقرار رکھا ۔ایک دفعہ یہ ضمانتی غالم کسی مہم پر بھیجے‬
‫گئے تو بنو بکر کے غالموں نے تغلبی غالموں کو وہاں‬
‫سے مار بھگایا ۔ یہ غالم صحرا میں بھٹکتے ہوئے مر گئے‬
‫اس پر بنو تغلب نے خون بہا مانگا۔ معاملہ عمرو بن ہند کے‬
‫سامنے پیش ہوا۔ بادشاہ تغلبیوں کے حق میں فیصلہ دینے وال‬
‫تھا کہ حارث بن حلزہ نے فی البدیہ اپنا مشہور معلقہ کہنا‬
‫شروع کر دیا۔ اس نے جب اپنا معلقہ ختم کیا تو بادشاہ کی‬
‫ہمدردیاں بنو بکر کی طرف ہو گئیں ۔ اس قصیدے سے‬
‫سارے عرب میں قبیلہ بکر کی دھوم مچ گئی ۔ اور تغلبی‬
‫ایک زمانے تک دبے رہے پھر عمر وبن کلثوم نے بادشاہ‬
‫کو قتل کرنے کے بعد اپنا مشہو ر معلقہ کہا تو دونوں کا پلڑا‬
‫برابر ہو گیا‘‘۔ (ص ‪)۱۴ ،۱۳‬‬

‫نمونہ کالم ‪:‬‬

‫یقیناًہمارے بھائی بنو تغلب ہم پر زیادتی کرتے ہیں اور ان کی بات میں ایک طرح کا‬
‫اصرار بے جا ہے۔ وہ ہم میں سے بے قصور کو قصور وار سے مال دیتے ہیں اور‬
‫بے گنا ہ کو اس کی بے گناہی کچھ فائدہ نہیں دیتی ۔ اے ہمارے بارے میں عمر وبن‬
‫ہندکے ہاں باتیں بنانے اور لگائی بجھائی کرنے والے ! کیا تمہاری ان باتوں کا کوئی‬
‫اثر باقی رہنے واال ہے؟ بادشاہ کو اکسانے کے باوجود ہمیں دبنے واال خیال نہ کر‬
‫کیونکہ اس سے پہلے بھی ہمارے بارے میں دشمن چغلیاں کھا چکے ہیں۔ (ص ‪،۱۶‬‬
‫ایضا)‬

‫عنترہ بن شداد (م ‪۱۶۰‬ء)‬

‫اس کا تعلق بنو عبس سے تھا ۔عنترہ کی ماں ایک حبشی کنیز تھی ۔ عربوں کا قاعدہ‬
‫تھا کہ لونڈی کے پیٹ سے پیدا ہونے والی اوالد کو غالم بنا لیتے تھے جب تک وہ‬
‫اپنے کارہائے نمایاں سے اپنی نجابت کا کوئی ثبوت مہیا نہ کردے اسے باپ کا نام نہ‬
‫ملتا تھا ۔عنترہ بھی انہی حاالت سے دو چار تھا۔اس حوالے سے مصنف ایک واقعہ‬
‫بیان کرتا ہے۔‬

‫’’ایک دفعہ کسی قبیلے نے بنو عبس کے کچھ آدمیوں پر‬


‫حملہ کیا اورا ُ ن کے اونٹ اور گھوڑے لے کر بھاگ گئے‬
‫اس موقع پرعنترہ کے باپ نے کہا کر یا عنترہ ! اے عنترہ‬
‫حملہ کر ۔عنترہ نے کہا غالم کہاں حملہ کر سکتا ہے وہ تو‬
‫بس دودھ دوہنا اور تھنوں کو باندھنا جانتا ہے ۔ اس پر باپ‬
‫نے کہا اگر حملہ کر دے تو تو آزاد ہے ۔ چنانچہ عنترہ ان‬
‫لوگو ں پر ٹوٹ پڑا اور جانوروں کو واپس لے آیا۔ اس کے‬
‫بعد اس کے باپ نے اسے اپنے نسب میں شامل کر‬
‫لیا‘‘۔(ص ‪)۱۹‬‬

‫اسکے بعد بھی کنیز ک زادگی کی وجہ سے عنترہ کی زندگی مشکالت سے دوچار‬
‫رہی۔ نوجوانی میں اس وجہ سے محبت میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن وہ بہت‬
‫باہمت انسان تھا۔‬

‫’’قبیلہ عبس کے ایک شخص نے اسے حبشی ماں کا طعنہ‬


‫دیا توعنترہ نے اسے مقابلے کے لیے ہلکارا اس پر عبسی‬
‫نے کہا میں تم سے اچھے شعر کہہ لیتا ہوں۔عنترہ نے کہا تم‬
‫یہ بھی جان لو گے کہ کون اچھے شعر کہتا ہے۔ چنانچہ اس‬
‫نے اپنا معلقہ نظم کیا اور اپنے مخالف کا منہ بند کر‬
‫دیا‘‘۔(ص ‪)۱۱‬‬

‫عنترہ کا معلقہ بحر کامل میں ایک میمیہ ہے اشعار کی تعداد ‪ ۹۶‬سے ‪ ۱۶‬تک ہے‬
‫آغاز تشیب سے ہوتا ہے۔‬

‫نمونہ کالم‪:‬‬

‫کیاشاعروں نے بخیہ گری کے لیے کوئی جگہ چھوڑ ی بھی ہے اور کیا تو نے‬
‫ہے۔‬ ‫پہچانا‬ ‫بعد‬ ‫کے‬ ‫غور‬ ‫بہت‬ ‫گھر‬ ‫کا‬ ‫محبوبہ‬
‫جواء کے مقام پر اے عبلہ کی حویلی ! تو کچھ تو بول تو ہر صبح خوش و خرم رہ‬
‫اور تم پر سالمتی سایہ فگن ہو۔ اور جب مجھ پر ظلم کیا جائے تو پھر جواب میں برا‬
‫ظلم بہت برا اور اندرائن کی طرح کڑوا ہو تاہے۔(ص ‪)۱۱،۹۰‬‬

‫اعلی درجے کی حامل ہیں اور ان شعراء کا‬


‫ٰ‬ ‫یہ نظمیں چونکہ زبان و بیان کی وجہ سے‬
‫مرتب ہ بھی جاہلی شاعری میں بہت بلند ہے لیکن ان شعراء کے عالوہ کچھ اور شاعر‬
‫بھی ہیں جن کی نظمیں اگر چہ معلقات قرار نہ دی گئیں لیکن فنی مرتبے میں وہ ان‬
‫کے قریب قریب ہیں ان میں دو شعراء زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔‬
‫نابغہ ذبیانی(م ‪۱۱۲‬ء)‪:‬‬

‫اس کا نام ابو امامہ زیاد بن معاویہ تھا وہ نابغہ اس لیے کہالیا کہ اچھی خاصی عمر کا‬
‫ہو جانے کے باوجود کوئی شعر نہ کہہ سکا تھا ۔ ادھیڑ عمر میں اس پر آمد ہونے لگی‬
‫تو شعر اس کی زبان سے چشمے کی طرح پھوٹ نکلے۔ اس مناسبت سے اس کا نام‬
‫گیا۔‬ ‫واال)پڑ‬ ‫نکلنے‬ ‫(پھوٹ‬ ‫نابغہ‬
‫نمونہ کالم‪:‬‬

‫’’انسان اس امید میں رہتا ہے کہ زندہ رہے گا لیکن لمبی زندگی بعض دفعہ اس کے‬
‫لیے مضرثابت ہوتی ہے۔اس کی ساری شگفتگی اور تروتازگی جاتی رہتی ہے اور‬
‫زندگی کی حالوت کے بعد اس کی کڑو ا ہٹ باقی رہ جاتی ہے۔زمانہ اس سے منہ‬
‫پھیر لیتا ہے یہاں تک کہ کوئی چیز ایسی نہیں رہتی جسے دیکھ کر اس کے دل کی‬
‫کلی کھل اٹھے‘‘۔(ص‪)۹۱‬‬

‫نابغہ کے فنی مرتبے کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ عکاظ کے ساالنہ میلے‬


‫میں وہ من صف کے فرائض انجام دیتا تھا اس کے فیصلے سے انحراف کی کسی کو‬
‫جرات نہ تھی۔‬
‫اعشی قیس(م ‪:)۱۹۲‬‬
‫ٰ‬

‫اعشی اگرچہ معلقات کے سات شعراء میں شامل نہیں ہے‬


‫ٰ‬ ‫’’‬
‫لیکن بعض ناقدین اس کی طویل نظم کو معلقہ قرار دیتے‬
‫اعشی کے لقب سے‬
‫ٰ‬ ‫ہیں۔ ابو بصیر میمون بن قیس بن جندل‬
‫مشہور ہوا اس لیے کہ اسے رات کو دکھائی نہیں دیتا تھا۔‬
‫اعشی قیس اس لیے کہتے تھے کہ وہ دوسرے ایسے‬
‫ٰ‬ ‫اسے‬
‫اعشی‬
‫ٰ‬ ‫شعراء سے الگ پہچانا جائے جو اس کی طرح‬
‫کہالتے تھے‘‘۔ (ص‪)۹۴‬‬

‫لوگوں کی نظروں میں جس چیز نے اس کا رتبہ کم دیا وہ یہ کہ اپنے کالم میں اپنی‬
‫ضرورتوں کا اظہار کر کے مالی معاونت کا طلب گار ہوا۔ اس سے پہلے شعراء‬
‫صرف مدح کرتے تھے لیکن سوال نہیں کرتے تھے ۔ اس کے اندر کا یہ اللچ کبھی‬
‫ختم نہ ہوا۔ اس کی اخیر عمر کا واقعہ ہے۔‬

‫اعشی جب عمر رسیدہ ہوا تو بڑھاپے کی وجہ سے اس‬


‫ٰ‬ ‫’’‬
‫کی آنکھوں میں سفید ی آگئی اور وہ اندھا ہو گیا۔ اس نے‬
‫آنحضرت ﷺ کے بارے میں سناتو ان کی مدح میں ایک‬
‫قصیدہ کہا اور اسے لے کر حجاز کی طرف روانہ ہو کہ ان‬
‫کی خدمت میں حاضر ہو کر انہیں سنائے۔ قریش کو اس کا‬
‫اعشی کے اسالم النے کےامکان سے بہت‬
‫ٰ‬ ‫پتہ چال تو وہ‬
‫اعشی‬
‫ٰ‬ ‫خوفزدہ ہوئے ۔ ابو سفیان نے ان سے کہا واللہ اگر‬
‫محمدﷺ کے پاس پہنچ گیا اور اسالم لے آیا تو وہ اپنے‬
‫شعروں میں تمہارے خالف پورے عرب میں آگ بھڑ کا دے‬
‫گا چنانچہ انہوں نے اس کے لیے سو اونٹ جمع کیے اور‬
‫اعشی‬
‫ٰ‬ ‫اس سے کہا کہ وہ فی الحال اپنے گھر چال جائے ۔‬
‫نے اونٹ لے لیے اور واپسی کا سفر اختیار کیا وہ یمامہ کے‬
‫قریب پہنچا تو ایک اونٹنی سے گر پڑا جس سے اس کی‬
‫گردن ٹوٹ گئی اور وہ مر گیا ور اپنے گاؤں منفوحہ میں‬
‫دفن ہوا‘‘۔(ص ‪)۹۶‬‬

‫اعشی کے اشعار کی تاثیر پورے عرب میں مشہور تھی ۔ ایک شخص محلّق کے‬
‫ٰ‬
‫حوالے سے اس کی شاعری کا قصہ بہت مشہورہے۔ جن کی آٹھ کنواری بیٹیاں تھیں‬
‫اور غربت کی وجہ سے رشتہ نہیں ہوتا تھا۔ اس نے عکاظ کے میلے میں محلّق کی‬
‫اس انداز سے اپنی شاعری میں تعریف کی تو اس کی ساری بیٹیوں کی شادی ایک‬
‫سال کے اندر ہوگئی۔‬
‫نمونہ کالم ‪:‬‬

‫جاہلی روایت کے مطابق وہ آغاز محبوبہ کی تعریف اور بے توجہی سے کرتا ہے۔ہر‬
‫یرہ کو اب رخصت کرو کہ قافلہ اب کوچ کرنیواال ہے لیکن ذر ا سوچو جو تو کیا تم‬
‫اسے وداع کر بھی سکو گے؟ (ص ‪)۹۹‬‬

‫آنحضرت کی مدح میں اس کی نظم کے چند اشعار میں نے قسم کھائی کہ اس اونٹنی‬
‫کی تھک ن پر آزردہ نہیں ہوں گا اور نہ اس کے پیروں کی تکلیف کا خیال کروں گا جب‬
‫تک وہ محمد ﷺتک نہ پہنچ جائے (ص ‪)۹۱‬‬

‫مصنف نے ان جاہلی شعراء کے بعد اس دور کے دو شعراء کا ذکر کیا ہے جنہیں‬


‫عربی میں " صعالیک شعراء" کا نام دیا جاتا ہے ۔یہ وہ لو گ ہیں۔ جو صحراؤں اور‬
‫جنگلوں میں وحشی جانوروں اور درندوں کے ساتھ رہتے تھے ان کی گزار اوقات‬
‫لوٹ مار اور چور ی تھی ۔ اپنی تیز رفتاری میں وہ گھوڑے کو بھی پیچھے چھوڑ‬
‫دیتے تھے۔ اس حیوانی زندگی کے باوجود یہ اچھے اور قادر الکالم شاعر تھے ۔ ان‬
‫میں دولوگ زیاد ہ مشہور ہیں۔‬

‫تاب ّ‬
‫ط شرا (م ‪۰۳۱‬ء)‬

‫ّ‬
‫تابط شرا عرف تھا مفضلیات میں قدیم شاعری کا انتخاب‬ ‫نام ثابت بن جابر تھا لیکن‬
‫تابط شرا کے قصیدے سے شروع ہو تا ہے۔‬

‫نمونہ کالم‪:‬‬

‫یہ نظم اس نے اپنے ابن عم شمس بن مالک سے خطاب کر تے ہوئے کہی۔‬

‫’’ جو بھی مشکالت اسے درپیش ہوں ان کا شکو ہ نہیں کر‬


‫تا اس کی خواہشیں کثیر ہیں اور اس کی منزلیں اور راہیں‬
‫ہر طرف ہیں ۔ وہ دوپہر ایک صحرا میں کرتا ہے اور شام‬
‫دوسرے صحرا میں ‪ ،‬تن تنہا ‪ ،‬ہالکت کے راستوں پر چلتا‬
‫ہوا‘‘(ص ‪)۱۱ ، ۱۰‬‬

‫شنفری‪:‬‬
‫ٰ‬
‫شنفری اس کے‬
‫ٰ‬ ‫یہ تابط شرا کا بھانجا تھا۔ نام ثابت بن اوس االزدی تھا اس کا عرف‬
‫موٹے ہونٹوں کی وجہ سے پڑا ۔ وہ زندگی بھر انتہائی مشکالت سے دوچار رہا۔ اس‬
‫کی شاعری کا بہترین نمونہ اس کا وہ قصیدہ ہے جو ال میتہ العرب کے نام سے‬
‫مشہور ہے جن کا یورپ کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکاہے۔‬
‫نمونہ کالم‪:‬‬

‫وہ کہتا ہے کہ انسان پر جیسے بھی حاالت گزریں خدا کی زمین اس کے لیے تنگ‬
‫نہیں۔اس زمین میں ایک باعزت انسان کے لیے پناہ کی کمی نہیں اور جس کو خدشہ ہو‬
‫کہ لو گ اسے پسند نہیں کرتے وہ اس دنیا میں الگ تھلگ رہ سکتا ہے‘‘۔(ص‪،۱۱‬‬
‫‪)۱۴ ،۱۳‬‬

‫صدراسالم اور اموی خالفت کا دور‪:‬‬

‫جاہلیت کے آخری دور میں عرب قوم تہذیب سے دور تھی ظہور اسالم سے ان کی‬
‫زندگی کے تمام پہلوؤں میں یکلخت انقالب آگیا۔ اسالم کی ہمہ گیر یت کے اثرات‬
‫عربی ادب پر بھی مرتب ہوئے۔سب سے گہرا اثر قرآن پاک کی وجہ سے ہوا۔ یہ اثر‬
‫دو طرح سے مرتب ہوا۔جاہلی دور کے جو شعراء اسالم لے آئے وہ قرآن کی فصاحت‬
‫سے اس قدر مرعوب ہوئے کہ شعرگوئی ترک کر دی یا کم کردی دوسرے شعراء نے‬
‫رسول ﷺ کی مدح اورا سالم پھیالنے کی غرض سے شعر کہنے شروع کیے۔‬

‫کرام کی‬
‫ؓ‬ ‫اب شاعری کے موضوعات بھی بدل گئے تھے۔ خلفاء راشد ین اور صحابہ‬
‫توجہ قرآنی آیات کی طرف زیادہ مبذول ہو گئی تھی ۔ حضورﷺ کے وصال کے بعد‬
‫قرآن کی تدوین اور کتابت کا سلسلہ شروع کیا گیا یہ کام زیدبن ثابت کے سپر د کیا گیا۔‬
‫فتوحات کا سلسلہ وسیع ہوا تو تالوت قرآن کے حوالے سے لہجوں کا اختالف سامنے‬
‫کرام کی ایک کمیٹی‬
‫ؓ‬ ‫ؓ‬
‫عثمان نے صحابہ‬ ‫آیا اس صورت حال کے پیش نظر حضر ت‬
‫ترتیب دی جنہوں نے تمام لہجوں کو چھوڑ کر قریش کی زبان اور لہجہ باقی رکھا‬
‫کیونکہ قرآن اسی میں نازل ہواتھا۔ گردونواح تمام عرب ممالک میں ان مستند مصحف‬
‫کی نقول بھیجی گئیں اور ایک مد ینے میں رکھی گئی۔‬

‫اس کے بعد احادیث کی تدوین کی طرف توجہ دی گئی قرآن کے بعد یہ شریعت کا‬
‫دوسراماخذہے۔ حضرت عمر اور دوسرے صحابہ حدیث کی روایت کو اس لیے اچھا‬
‫نہیں سمجھتے تھے کہ لوگ کہیں قرآن کو چھوڑ کر حدیث کی طرف زیادہ مصروف‬
‫نہ ہو جائیں۔ بعض لوگ اپنی خواہش کے پیچھے آنحضر ت ﷺ سے من گھڑت باتیں‬
‫روایت کرنے لگے اس طرح حدیث کا بے بہا ذخیرہ جمع ہو گیا۔‬

‫’’اموی خلیفہ عمر بن العزیز نے احادیث کو باضابطہ مدون‬


‫کرنے کا حکم دیا اس کام کے لیے بعض آئمہ اور اصحاب‬
‫علم نے کڑے معیار مقرر کیے ضعیف اور گھڑی ہوئی‬
‫حدیثوں کے انبار کو ردکردیا اور صرف فی الواقع اصل اور‬
‫صحیح احادیث جمع کیں‘‘۔(ص ‪ ، ۸۳‬ایضا ً)‬

‫احادیث کی بدولت عربی نثر میں فصیح و بلیغ اور خوبصورت انداز بیان سامنے‬
‫آیا۔صدر اسالم کے مختصر تعار ف کے بعد مخضرم شعراء کا تعار ف پیش نظر ہے۔‬

‫کعب بن زہیر ‪ ،‬خنساء ‪ ،‬حسان بن ثابت اور حطیہ۔‬

‫کعب بن زبیر‪:‬‬

‫سلمی کے بیٹے تھے قبول اسالم کے لیے جب‬


‫ٰ‬ ‫یہ معلقات کے شاعر زہیر بن ابی‬
‫درباررسالتﷺ میں حاضر ہوئے تو اپنا قصیدہ " بانت سعاد"سنایا ۔ جس میں حضورﷺ‬
‫۔آپ نے یہ قصیدہ پسند فرمایا اور شاعر کو بطور انعام اپنی‬
‫کی مدح کی گئی تھی ؐ‬
‫چادر عنایت کی۔اس کی اہمیت اس لیے بہت زیادہ ہے کہ یہ عربی ادب میں سب سے‬
‫پہلی نعت تھی اور اسے خود حضورﷺ نے سنا اور پسند فرمایا۔‬
‫نمونہ کالم‪:‬‬

‫کعب کی شاعری کا یہ عمدہ نمونہ ہے۔ بحر بسیط میں ‪ ۶۸‬اشعار کا ایک المیہ قصیدہ‬
‫ہے بلحاظ اسلوب یہ جاہلی شاعری کا کامل نمونہ ہے ۔ آغاز محبوبہ کی جدائی کے‬
‫حوالے سے تشبیب کے اشعار سے ہوتا ہے آگے حضور ﷺ کے عفودرگزر کی مدح‬
‫ہے۔‬ ‫تا‬ ‫کر‬
‫میرے ہر دوست نے جس سے مجھے کچھ امید تھی مجھ سے کہہ دیا کہ میرے‬
‫سکتا۔‬ ‫کر‬ ‫نہیں‬ ‫توجہ‬ ‫طرف‬ ‫تمہاری‬ ‫میں‬ ‫رہنا‬ ‫نہ‬ ‫پر‬ ‫بھروسے‬
‫رسول خداﷺ ایسی تلوار ہیں جس کی چمک سے روشنی حاصل کی جاتی ہے اللہ کی‬
‫تلواروں میں ایک تیز اوربے نیام تلوار۔ (ص ‪)۸۹ ،۸۱‬‬

‫خنساء (م ‪۱۱۲‬ء)‪:‬‬

‫تماضر بنت عمر و نام تھا ۔ مضر کے قبیلہ بنو سلیم سے تھیں۔ عربی ادب میں ان سے‬
‫بڑی شاعرہ نہیں گزری ۔ مرثیہ ان کا خاص موضوع تھا۔ شاعری کی کچھ رمق ان‬
‫کے اندر موجود تھی لیکن یکے بعد دیگرے دونوں بھائیوں کی ناگہانی اموات نے ان‬
‫کے اندر شاعری کا بند باب کھول دیا۔ ظہور اسالم کے بعد اسالم قبول کر کے‬
‫صحابیت کا شرف حاصل کیا آنحضرت ﷺ کو خنساء کی شاعری بہت پسند تھی۔راقمہ‬
‫نے خنساء کے حوالے سے عربی ادب میں مطالعے میں ایک جاہلی مرثیہ پڑھ کرکے‬
‫عنوان سے تفصیلی جائزہ لیا ہے۔‬
‫حسان بن ؓ‬
‫ثابت (م ‪:)۱۷۲‬‬

‫ابوالولید حسان بن ؓ‬
‫ثابت دربار رسالت کے شاعر تھے۔ مخضرم شعراء ‪ ،‬میں انہیں بلند‬
‫ترین مقام حاصل تھا۔ انہوں نے تقریبا ً ایک سو بیس برس عمر پائی جو آدھی زمانہ‬
‫جاہلیت اورآدھی اسالم میں بسر ہوئی ۔ وہ رسول خدا کی مدد تلوار سے تو نہیں کر‬
‫سکتے تھے لیکن اپنے اشعار سے آپﷺ کی تائید و حمایت کی۔‬

‫ہجو اگر سچی ہو تو بھی تکلیف دیتی ہے لیکن اگر بالکل ہی من گھڑت ہو تو تکلیف‬
‫انتہا کو پہنچ جاتی ہے ۔ اسالم کے بعد جب اہل قریش حضورﷺ کی ہجو کرتے تو آپ‬
‫کو بہت تکلیف ہوتی۔‬

‫’’ ایک دفعہ آپﷺ نے اپنے صحابہ سے فرمایا وہ لو گ جو‬


‫اللہ اس کے رسول ﷺ کی اپنے اسلحہ سے مدد کرتے ہیں‬
‫انہیں کسی چیز نے روکا ہے کہ وہ اپنی زبان سے ان کی‬
‫مدد نہیں کرتے ۔ اس پر حسان بن ثابت آگے بڑھے اورکہا‬
‫یہ کام میں کروں گا۔ آ ؐپ نے فرمایا تم ان کی ہجو کیسے کرو‬
‫گے کہ میں بھی تو ان لوگو ں کے خاندان سے ہوں۔ حسان‬
‫آپ کو اس طرح نکال لوں گا‬
‫نے جواب دیا میں ان میں سے ؐ‬
‫آپ نے اجازت دے‬
‫جیسے آٹے میں سے بال نکاال جاتا ہے۔ ؐ‬
‫ؓ‬
‫حسان نے مشر کین کی ایسی ایسی ہجو کی کہ ان‬ ‫دی اور‬
‫کی زبانیں بند ہو گئیں‘‘۔ (ص‪)۱۰۱‬‬

‫نمونہ کالم‪:‬‬

‫ؓ‬
‫حسان کے یہ شعر بہت مشہور ہیں۔‬ ‫حضور کی مدح میں حضرت‬
‫ؐ‬

‫آپ سے بڑھکر حسین میری آنکھوں نے آج تک نہیں دیکھا‬


‫ؐ‬
‫دیاہے۔آپ‬
‫ؐ‬ ‫آپ سے زیادہ جمیل انسان کو عورتوں نے جنم‬
‫نہ ؐ‬
‫ہر عیب سے مبرا پیدا کیے گئے ہیں۔ لگتا ہے کہ جس طرح‬
‫آپ نے چاہا تھا آپ اسی طرح پیدا کیے گئے۔ (ص‬
‫ؐ‬
‫‪)۱۰۴،۱۰۶‬‬

‫ؓ‬
‫حسان بھی فکر‬ ‫کالم شیریں بڑے سے بڑا مسئلہ حل کر دیتا ہے اسی لیے حضرت‬
‫معاش سے آزاد ہو گئے ۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں اور بعد میں بھی ان کی تمام‬
‫حضور نے انہیں ام المومنین ماریہ قبطیہ‬
‫ؐ‬ ‫ضرورتیں بیت المال سے پوری ہوتی رہیں۔‬
‫کی بہن سیرین عنایت کی۔ چنانچہ سیرین سے حسان بن ؓ‬
‫ثابت کا بیٹا عبدالرحمان پیدا‬
‫ہوا۔ (ص ‪)۱۰۱‬‬
‫حطئیہ (م ‪:)۱۷۸‬‬

‫وہ بنی عبس میں پیدا تو ضرور ہوا لیکن اس کے باپ اور حسب نسب کا کچھ پتہ نہ‬
‫تھا۔ وہ خاندانی شرف سے محروم رہا۔ وہ ایک دھتکارا ہو ا شخص تھا ۔مصنف‬
‫اصمعی کے حوالے سے بتاتا ہے۔‬

‫وہ کافی بد اخالق‪ ،‬کمینہ صفت ‪ ،‬بے عقیدہ ‪ ،‬اچھی صفات سے عاری‪ ،‬بدصورت ‪،‬‬
‫کوتاہ قد‪ ،‬پھٹے کپڑوں میں پھرنے واال۔ اس کی بے شرمی اس حد تک پہنچی کہ اس‬
‫اورحتی کہ اپنی بھی ہجوکہہ ڈالی۔ (ص ‪)۱۰۶‬‬
‫ٰ‬ ‫نے اپنی ماں ‪،‬بیوی ‪ ،‬بیٹوں‬

‫اسالم النے کے بعد مرتد ہو گیا ور اہل ارتداد سے جامال۔ پھر معافی مانگ لی لیکن وہ‬
‫اپنے عقیدے میں مترلزل ہی رہا۔‬

‫اس نے بنی انف الناقہ کی مدح میں جو شعر کہا اس سے اب وہ فخر کے ساتھ سر اٹھا‬
‫کر چلنے لگے۔یہ لوگ بنی انف الناقہ تو ناک ہیں اور دوسرے لوگ دُم کی جگہ ہیں‬
‫بھال دُم کو کوئی ناک کے برابر سمجھ سکتا ہے۔ (ص‪)۱۰۴‬‬

‫ُحطئیہ کی اس بد فطرت کے پیچھے وہ حاالت ہیں اس سے اچھی توقع کیوں کر کی‬


‫۔‬ ‫تھا‬ ‫کیا‬ ‫معاف‬ ‫نہیں‬ ‫کو‬ ‫خود‬ ‫نے‬ ‫اس‬ ‫کہ‬ ‫جب‬ ‫تھی‬ ‫جاسکتی‬
‫اعلی نمونہ ہے۔‬
‫ٰ‬ ‫ُحطئیہ کا یہ شعر سچائی کا‬

‫’’جو انسان بھال کام کرتا ہے اس پر جزا پاکر ہی رہتا ہے۔‬


‫اس لیے کہ اچھا کام اللہ اور لوگوں کے درمیان ضائع نہیں‬
‫ہوتا‘‘۔(ص ‪)۱۰۸‬‬

‫اموی دور کی شاعری‪:‬‬

‫ظہور اسالم کے بعد عموما ً لوگوں کی توجہ شاعری سے ہٹ گئی تھی کیونکہ قرآن‬
‫پاک میں بھی اس حوالے سے حوصلہ افزاء تاثرات نہ تھے اور پھر فتوحات کا سلسلہ‬
‫شروع ہو گیا۔ قرآن کی فصاحت و بالغت نے لوگوں کے دلوں کو مسحور کر دیا۔‬
‫فتوحات کے نتیجے میں مال غنیمت سے خوش حالی کا دور شروع ہو گیا۔ اس طرح‬
‫عربی شاعری جو عرصے تک پس منظر میں رہی دوبارہ سامنے آگئی اور اسلوب‬
‫کے لحاظ سے جاہلی شاعری سے زیادہ مختلف نہ تھی۔ موضوعات بدل گئے غزل‬
‫اور مناسباتی شاعری ہونے لگی۔ اس دور کے اہم شعراء میں جمیل بن معمر‪،‬عمر بن‬
‫ربیعہ‪ ،‬اخطل ‪ ،‬فرزدق اور جریر تھے۔‬

‫جمیل جو اپنی محبوبہ کے حوالے سے جمیل بثنیہ کے نام سے مشہور ہوا اس کی‬
‫غزل کا موضوع پاکیزہ محبت کے جذبات تھے۔ جو افالطونی محبت کہالتی تھی ۔‬
‫جنسیت سے دور روح اور شخصیت کی گہر ی وابستگی ۔ قیس بن الملوح اس کی‬
‫لیلی یہ بھی اسی دور کے حقیقی کردار تھے عمر بن ابی ربیعہ (‪۹۱۰‬ء) نے‬
‫محبوبہ ٰ‬
‫غزل کے موضوع پر نہایت لطیف شاعری کی اس کی شاعری کو لوگوں نے بہت‬
‫گایا۔ اس کی شاعری کی ناپسند یدگی کی وجہ مصنف بیان کرتا ہے۔‬

‫’’وہ حج پر جانے والی حسیناؤں کا تعاقب کرنے لگا اور‬


‫معزز عورتوں سے اپنی شاعری میں اظہار عشق کرنے‬
‫لگا وہ ان کا ایسی حالت میں سراپابیان کرتا جب وہ احرام‬
‫باندھے طواف کی حالت میں ہوتیں‘‘۔ (ص ‪)۱۱۹‬‬

‫قبیلہ قریش کافر د ہونے کی وجہ سے لوگ اس سے صرف نظر کرتے رہے جب وہ‬
‫باز نہ آیا تو خلیفہ عمر بن عبدالعزیز نے اسے جالوطن کر دیا۔ پھر وہ توبہ کر کے‬
‫واپس آیا۔ وہ معامالت حسن و عشق کا ذکر کر تا تھا لیکن غلط کاموں میں ملوث نہیں‬
‫ہوتا تھا۔‬

‫نمونہ کالم‪:‬‬

‫وہ اپنی محبوبہ ہند کے بارے میں ایک نظم میں کہتا ہے۔‬

‫’’کہتے ہیں اس نے اپنے ساتھ والیوں سے ایک دن پوچھا‬


‫جب اس نے ٹھنڈے پانی میں نہانے کے لیے کپڑ ے اتار ے‬
‫تھے۔کیاجس طرح وہ میرا وصف بیان کرتا ہے مجھے تم‬
‫ویسا ہی دیکھتی ہو یا وہ صحیح بات نہیں کرتا تو وہ ہنس‬
‫پڑیں اور کہنے لگیں ہرآنکھ جس کو چاہتی ہے وہ اسے‬
‫خوبصور ت ہی لگتا ہے‘‘۔( ص‪)۱۱۱‬‬

‫اخطل (م ‪۷۶۲‬ء)‪:‬‬

‫نام غیاث بن غوث اخطل ‪ ،‬بنو تغلب کے نصرانی خاندان سے تھا شراب کے موضوع‬
‫اس کے شعروں کی گہرائی کو زمانہ اسالم کا کوئی شاعر نہ پہنچ سکا۔ اخطل کی‬
‫اعلی نمونہ پیش کر تے تھے ۔‬
‫ٰ‬ ‫خاص بات یہ تھی کہ اس کے مدحیہ قصائد فن کا بہت‬
‫اس نے لمبی لمبی نظمیں کہیں لیکن معیار سے گری ہوئی بات نہیں کی وہ مدحیہ‬
‫قصائد پر سال سال بھر غور کرتا تھا اگر نوے شعر ہو جاتے تو کاٹ چھانٹ کر کے‬
‫صرف تیس اشعار باقی رہنے دیتا۔(ص ‪)۱۱۶،۱۱۹‬‬

‫نمونہ کالم‪:‬‬

‫عبدالملک بن مروان کی مدح میں قصیدے کا یہ شعر دیکھیں ’’میری جان امیر‬
‫المومنین پر فدا ہو ۔ جب ایک برا اور سخت دن آنکھیں دکھانے لگے وہ کسی جنگ‬
‫میں شامل ہو تو اچھی قسمت اس کے ساتھ ہوتی ہے۔ اللہ کا خلیفہ ہے جس کے وسیلے‬
‫سے بارش مانگی جاتی ہے۔(ص ‪)۱۱۱‬‬

‫حکمت کے حوالے یہ شعر بہت مشہور ہے۔‬

‫ایک شخص جب ایسی گمراہی سے باز نہ آئے جس کی اس کے نفس نے خواہش کی‬


‫وہ وہ پر لے درجے کا بے وقوف اورالعلم ہے۔(ص‪ )۱۳۰‬فرزدق (م‪۹۱۱‬ء) اس کا‬
‫شمار صف اول کے ان شعراء میں ہوتا ہے جنہوں نے مدح اور ہجو کے موضوع ہر‬
‫بہت کچھ کہا۔‬

‫مصنف فرزدق کے حوالے سے بتاتا ہے‬


‫’’فر زدق ایک تو اپنی ہجو میں بد گوئی اور بدنامی کر تا‬
‫تھا اور فحش گالیاں استعمال کر تا تھا نیز باعفت عورتوں پر‬
‫بصری کے‬
‫ؓ‬ ‫تہمت لگاتا تھا ۔ تاہم بڑھاپے میں حضرت حسن‬
‫پاس حاضر ہوا اور اپنے تمام غلط کاموں سے توبہ کر لی‬
‫اور نیک اور پا کبازبن گیا۔ اس طرح اس کا خاتمہ بخیر‬
‫ہوا‘‘۔(ص ‪)۱۳۱‬‬

‫نمونہ کالم‪:‬‬

‫ؓ‬
‫الحسین کی تعریف میں یہ اشعار‬ ‫مدح میں جو سب سے عمدہ چیز کہی وہ امام علی بن‬
‫ہیں۔یہ وہ شخص ہے کہ مکہ وادی اسکے قدم پہچانتی ہے اور بیت اللہ اور حدود حرم‬
‫کے باہر کا عالقہ سب اس سے آشنا ہیں۔وہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کی محبت دین‬
‫ہے جن سے بغض رکھنا کفر ہے اور جن کا قرب نجات اور پناہ کی جگہ ہے۔(ص‬
‫‪)۱۳۱‬‬

‫جریر (م ‪۷۹۸‬ء)‬

‫جریر کا تعلق بنو تمیم کی شاخ بنو کلیب سے تھا۔ صحرائی ماحول میں نشوونما پائی۔‬
‫ذاتی زندگی میں جریر دیندار اور پاکباز انسان تھا لیکن جب وہ ہجو کہنے پہ آتا تو اس‬
‫میں فحش گوئی سے بھی پرہیز نہ کر تا تھا۔ اس کے باوجود وہ نماز‪ ،‬دعا اور تسبیح‬
‫کا پابند تھا۔‬

‫نمونہ کالم‪:‬‬

‫خلیفہ عبدالملک بن مردان کی مدح میں یہ قصیدہ کیا آپ لوگ ان سب لوگوں سے بہتر‬
‫نہیں ہو جو کبھی سواریوں پر بیٹھے اور تمہاری ہتھیلیاں کل عالم سے بڑھ کر سخی‬
‫نہیں ہیں۔ (ص ‪)۱۴۱‬‬

‫خلیفہ عمر بن عبدلعزیز کی مدح میں یہ شعر‬


‫ہمارے ہاں بارش نہ ہو تو ہم خلیفہ سے اسی طرح کی امید رکھتے ہیں جو ہم بارش‬
‫سے رکھتے ہیں۔‬

‫موسی اپنے رب کے پاس ٹھیک‬


‫ٰ‬ ‫اس نے ٹھیک وقت پر خالفت سنبھالی جس طرح‬
‫اندازے کے مطابق آیا تھا۔ (ص‪)۱۴۳‬‬

‫صدر اسالم اور اموی دور کی نثر‪:‬‬

‫اعلی‬
‫ٰ‬ ‫اس دور میں نثر لکھنے کا رواج زیادہ نہیں ہوا تھا شاعری کے بعد ادب کے‬
‫نمونے خطابت میں ملتے ہیں ۔دعوت اسالم کے لیے خطابت کی ضرورت تھی۔اس‬
‫دور میں سب سے بلیغ خطیب حضرت محمد ﷺ تھے ان کے عالوہ حضرت‬
‫اعلی نمونے پیش کیے ۔ اسی‬
‫ٰ‬ ‫ابوبکر‪،‬حضر ت عمر‪ ،‬حضرت علی نے خطابت کے‬
‫زمانے میں سحبان بن وائل زیاد بن ابیہ اورحجاج بن یوسف کے خطبے مشہور ہوئے‬
‫۔آپ کے خط بات کی تعداد زیادہ ہونی چاہیے تھی تاہم وہ پوری طرح محفوظ اور مدون‬
‫ؐ‬
‫آپ کی گفتگو جامع اور مختصر ہوتی تھی۔ چند لفظوں میں پورا‬
‫نہ کیے جا سکے ؐ‬
‫مضمون ادا ہو جاتا تھا ۔‬

‫آپ نے فرمایا یا خیل اللہ ارکبی (اے اللہ کے‬


‫مجاہدین اسالم سے خطاب کر تے ہوئے ؐ‬
‫علی انہوں نے اس سے پہلے‬
‫آپ کا ایک جملہ جو بقول حضرت ؓ‬
‫گھوڑو‪،‬سوار ہو جاؤ) ؐ‬
‫کسی عرب سے نہیں سنا ایک دفعہ اونٹوں کے کجاووں پر کچھ عورتیں سوار تھیں۔‬
‫آپ نے آواز‬
‫اونٹوں والے نے حدی گانا شروع کی تو اونٹ تیز تیز چلنے لگے اس پر ؐ‬
‫دے کر فرمایا رفقا باًلقواریر(یہ شیشے کے برتن ہیں ان کو آرام سے لے جاؤ) ۔‬

‫آپ نے فرمایا ‪:‬۔‬


‫ؐ‬

‫’’کیا تمہیں ایک انسان کے بہترین سرمائے کاپتا نہ بتاؤں ؟‬


‫وہ سرمایہ ایسی نیک عورت ہے کہ اگر مرد اس کو دیکھے‬
‫تو اس کا دل باغ باغ ہو جائے اور اگر وہ اس سے دور چال‬
‫جائے تو وہ اس کے مال اور عزت کی حفاظت کرے‘‘۔‬
‫(ص ‪)۱۶۰‬‬
‫خلیفہ اول حضرت ابوبکر (م‪۱۳۲‬ء)‪:‬‬

‫حضور کے وصال‬
‫ؐ‬ ‫’’حضرت ابوبکر فصیح و بلیغ تھے ۔‬
‫کے بعد خالفت کے مسئلے پر صحابہ کرام کے درمیان‬
‫آپ نے اس موقع پر یادگار تقریر‬
‫اختالف پیدا ہو گیا تو ؓ‬
‫کی۔’’لوگو ہم مہاجرین ہیں ہم سب سے پہلے اسالم الئے اور‬
‫سب سے معزز نسب والے ہیں۔ ان میں سب سے خوش شکل‬
‫ہیں اور آنحضرت ؐکے ساتھ سب سے قریبی تعلق والے ہیں ۔‬
‫پس تم اپنے مہاجر بھائیوں سے اُس بات پر حسد نہ کرو جو‬
‫اللہ نے انہیں مرحمت فرمائی ہے‘‘۔ (ص‪)۱۶۱‬‬

‫الخطاب (م ‪:)۱۲۲‬‬
‫ؓ‬ ‫عمربن‬

‫آپ کے خطبوں میں وہ خطبہ اہم ہے جو خالفت سنبھالنے کے وقت دیا تھا۔‬

‫’’اے لوگو میں دعاکرتا ہوں آپ آمین کہیں۔ اے اللہ میں‬


‫سخت مزاج ہوں مجھے حق کی موافقت میں اپنے اہل‬
‫اطاعت کے لیے نرم کر دے اس طرح کہ مجھے تیری رضا‬
‫اور آخرت کی زندگی کا خیال ہو ۔ ہاں اپنے دشمنوں کے‬
‫لیے اور فاجروں اور منافقوں کے لیے میرے اندر درشتی‬
‫اور شدت پیدا کر دے بغیر اس کے میں ان پر ظلم کر وں یا‬
‫کوئی زیادتی کروں‘‘۔(ص ‪)۱۶۱،۱۶۳‬‬

‫طالب (م ‪۱۱۶‬ء)‪:‬‬
‫ؓ‬ ‫علی بن ابی‬

‫آپ کا کالم‬
‫’’انہیں مسلم خطیبوں کا امام تسلیم کیا جاتا ہے ؓ‬
‫تین صورتوں میں ملتا ہے ۔ ‪6‬۔ خطبات ‪4‬۔ احکام ‪ ،‬خطوط‬
‫‪،‬رسائل‪ 1‬۔ وعظ و حکمت کی باتیں ان سب کو آپ کی اوالد‬
‫میں سے ایک شاعر الشریف الرضی نے ایک کتاب میں‬
‫جمع کردیا جس کا نام " نہج البالغہ" رکھا یہ صحیح ہے کہ‬
‫علی کا‬
‫اس مجموعے میں بہت سا کالم ایسا ہے جو حضرت ؓ‬
‫نہیں سمجھا جاتا اور اہل نظر کا خیال ہے کہ یہ باہرسے ال‬
‫کر اس میں داخل کیا گیا ہے ۔ تاہم کتاب کا خاصاحصہ حضر‬
‫علی کے خطبات رسائل اور مواعظ پر مشتمل ہے اور یہ‬
‫ت ؓ‬
‫آسانی سے پہچانا جا سکتا ہے‘‘۔(ص‪)۱۶۴‬‬

‫بطور نمونہ خطبے کا مختصر حصہ درج ذیل ہے۔‬

‫’’تمہاری سب سے اچھی پونجی نیک عمل کی ہونی چاہیے‬


‫پس اپنی خواہشات پر قابو اور جو تمہار ے لیے حالل نہیں‬
‫ہے اس سے اپنے نفس کو بچائے رکھواس لیے کہ نفس کو‬
‫سالمت رکھنے کے معنی ہیں اس کی پسند یا نا پسند کے‬
‫معاملے میں اس سے انصاف کرنا‘‘(ص‪)۱۶۹‬‬

‫سحبان بن وائل (م ‪۱۷۳‬ء)‪:‬‬

‫زمانہ جاہلیت میں پیدا ہوا ا ور جب اسالم نے ظہور کیا تو مسلمان ہو گیا ۔ وہ ایک آتش‬
‫بیاں خطیب تھا۔ امیر معاویہ نے اس کی کافی عزت افزائی کی۔ اس کے خطبے کا‬
‫نمونہ‬

‫’’یہ دنیا واسطے کی منزل ہے۔اور آخرت کا گھر ہے۔ جب‬


‫کوئی شخص مر جاتا ہے تو لوگ پوچھتے ہیں وہ کیا چھوڑ‬
‫گیا فرشتے پوچھتے ہیں کہ اس نے آگے کیا بھیجا؟ پس اپنے‬
‫لیے کچھ ایسا آگے بھیجو جو تمہارے کام آئے اور اپنے‬
‫پیچھے سب کچھ ایسا نہ چھوڑ و جو تمہارے نقصان کا‬
‫باعث ہو‘‘۔(ص ‪)۱۶۱‬‬

‫زیاد بن ابیہ (م ‪۱۷۳‬ء)‪:‬‬

‫زیاد بہت حاضر دماغ اور فصیح اللسان تھا۔ وہ بنو امیہ کی حکومت کا سب سے طاقت‬
‫ہے۔‬ ‫یہ‬ ‫کااقتباس‬ ‫خطبے‬ ‫مشہور‬ ‫کے‬ ‫اس‬ ‫تھا‬ ‫ستون‬ ‫ور‬
‫"تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جس کی آنکھ کو دنیانے پھیر نہ دیا ہو اور جس کے‬
‫کان خواہشات نے بند نہ کردیے ہوں اور جس نے باقی رہنے والی زندگی پر فانی‬
‫زندگی کوترجیح نہ دی ہو۔(ص‪)۱۱۰‬‬

‫حجاج بن یوسف (م ‪۷۶۲‬ء)‬

‫وہ ایک فصیح و بلیغ مقررتھا۔ بطور گورنر عراق اس کے اولین خطبے کا نمونہ‬
‫دیکھیں۔‬

‫’’اے اہل کوفہ میں کچھ سروں کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ پک‬
‫گئے ہیں اور ان کے کاٹنے کا وقت آگیا ہے اور یہ کام میں‬
‫کرنے واال ہوں ۔ اے اہل عراق مجھے کسی حربے سے‬
‫چونکا یا نہیں جا سکتا اور نہ انجیر کی طرح مجھے‬
‫کچوکادے کے پر کھا جا سکتا ہے‘‘۔(ص‪)۱۱۳‬‬

‫عربی زبان میں انشاپردازی کے ارتقا میں عبدلحمید الکاتب(م ‪۹۴۸‬ء) نے مزید‬
‫اصالحات کیں اور اسے شاعرانہ اسالیب بیان سے بے حد موثر بنا دیا ۔ وہ اہل قلم اور‬
‫انشاپرداز لوگو ں کو نصیحت کر تے ہوئے کہتا ہے۔‬

‫’’تکبر اور نادانی سے بچو اس لیے کہ یہ ساری باتیں بغیر‬


‫کسی بغض و حسد کے دشمنی پیدا کرتی ہیں۔ اگر آپ میں‬
‫برا وقت آجائے تو اس پر توجہ کروا سے دال‬
‫سے کسی پر ُ‬
‫سا دوتاکہ وہ اپنی حالت کو واپس آجائے اور اس کے امور‬
‫پہلے جیسے ہو جائیں‘‘۔ (ص‪)۱۱۱‬‬

‫مختصر یہ کہ عربی ادب کے لیے یہ دور ہر پہلو سے انقالبی اور ارتقا ء پذیر ثابت‬
‫ہوا۔‬

‫عباسی دور‪:‬‬
‫یہ اسالم کا سنہری دور تھا ۔ اس دور میں اسالمی فنون کوبہت فروغ حاصل ہوا۔‬
‫عباسیوں نے اہل فارس کی مدد سے امویوں سے حکومت چھینی تھی اس لیے ان کی‬
‫خالفت کا مزاج ایرانی رہا اور بغداد ان کا پایۂ تخت بنا اسی دور میں شعو بیت کی‬
‫آواز بلند ہوئی جس کا مقصد یہ ثابت کر نا تھا کہ عرب قوم کسی لحاظ سے عجمیوں‬
‫سے بہتر نہیں ہے۔‬

‫عباسی خالفت میں ایرانی تہذیب و ثقافت کے اثرات کی وجہ سے معقوالت کے‬
‫دروازے بھی کھل گئے۔یونان سے فکرو فلسفہ ‪ ،‬ایران سے مذہبی عقائد‪ ،‬ادب و‬
‫حکایات ‪،‬ہندوستان سے ٰالہیات‪ ،‬حساب اور علم نجوم نے اسالمی ثقافت میں رواج پایا۔‬
‫اب لوگوں کو فکری آزادی میسر آگئی۔ مسلمانوں کے اندر متعدد فرقے وجود میں آ‬
‫مرجیہ۔‬ ‫اور‬ ‫شیعہ‪،‬‬ ‫اشعریہ‪،‬‬ ‫جبریہ‪،‬‬ ‫‪،‬قدریہ‪،‬‬ ‫معتزلہ‬ ‫گئے‬
‫عباسی دور میں عربی نثر‪:‬‬

‫اس دور کے اہم نثر نگاروں میں ابن لمقفع (م ‪۹۶۸‬ء) نسالفارسی تھا اور عرب میں‬
‫تھا۔‬ ‫مجوسی‬ ‫والد‬ ‫کا‬ ‫اس‬ ‫پائی۔‬ ‫پرورش‬
‫اولی سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کی‬
‫ٰ‬ ‫’’ ابن المقفع عربی زبان کے نثر نگاروں کے طبقہ‬
‫کتاب " کلیلہ و دمنہ‘‘ جس کے متعلق کہاجاتا ہے کہ اس نے اسے ایک سنہری دانش‬
‫وربید پائے کی کہانیوں کی کتاب کے فارسی ترجمے سے عربی میں منتقل کیا تھا‬
‫اعلی درجے کی ادبی کال سیک کا درجہ رکھتی ہے‘‘۔(ص ‪)۱۹۱‬‬
‫ٰ‬ ‫عربی میں ایک‬

‫ابن المقفع کی نثر کا نمونہ‪:‬‬

‫’’رشتے داری‪ ،‬ہمسائیگی اور انسیت تمہیں ایک جاہل کے‬


‫شر سے غافل نہ کر دے ۔ اس لیے کہ ایک انسان کو آگ کا‬
‫سب سے زیادہ خطرہ اس وقت ہو تا ہے جب وہ اسکے‬
‫قریب ہو۔ اسی طرح ایک جاہل جب تمہارا ہمسایہ ہو گا تو‬
‫تمہیں عاجز کر دے گا اگر وہ تمہارا ہم نسب ہو گا تو تم پر‬
‫ظلم کرے گا چنانچہ تمہارے لیے بہتر یہی ہے کہ تم اسی‬
‫سے بھا گو بجائے اس کے کہ بڑے سانپوں کے زہر سے‪،‬‬
‫خوف ناک آگ سے ‪ ،‬بوجھل فرض سے اور ال عالج بیماری‬
‫سے بھاگتے پھرو‘‘۔ (ص ‪)۱۹۹‬‬

‫جاحظ (م‪۸۱۸‬ء)‪:‬‬

‫اعلی پایے کا نثر نگار ‪ ،‬متعدد کتابوں کا مصنف ‪ ،‬مذہبی اور سیاسی مباحث اور‬
‫ٰ‬
‫معتزلی ٰالہیات پر دلچسپ رسائل کا خالق بصرے میں پیدا ہوا۔ "ابوعثمان عمر واصل‬
‫نام تھا بدصورت اور افسردہ ُرو شخص تھا۔ اس کی آنکھوں کے بڑے بڑے ڈھیلے‬
‫باہر کو ابلے پڑتے تھے اسی لیے اسے جاحظ کا نام دیا گیا۔ (ص ‪)۱۱۰ ،۱۹۸ ،۱۹۱‬‬

‫جاحظ کی نثر کے نمونے‪:‬‬

‫جاحظ کی تصانیف میں دوسو کے نام گنے جاتے ہیں۔ لیکن ان میں سے صرف تیس‬
‫بچی ہ یں۔ ۔ باقی تصانیف کا کوئی نشان نہیں ملتا ۔ اپنے ایک دوست سے شکوہ کرتے‬
‫ہوئے جاحظ کہتا ہے۔‬

‫’’ قلیب ! خدا کی قسم اگر میر ا جگر تمہاری محبت میں‬
‫زخم خوردہ نہ ہو تا اور میری روح تمہاری وجہ سے گھائل‬
‫نہ ہو تی تو میں اس قطع تعلق میں تم سے بڑھ جاتا اور‬
‫تمہارے ساتھ رشتہ توڑنے کے اس سلسلے کو بڑھاتا۔ لیکن‬
‫میں امید کر تا ہوں کہ اللہ تمہاری بے وفائی کے بدلے‬
‫مجھے صبر دے‘‘۔(ص ‪)۱۱۶‬‬

‫ابن العمید(م ‪۲۷۱‬ء)‪:‬‬

‫ابن العمید کی اصل فارسی تھی وہ ایران کے شہر قم کا باشندہ تھا۔‬

‫’’عربی انشاء اور تحریر کے فن ‪ ،‬نیز رسائل کی نگارش‬


‫میں ابن العمید نے اتنا اونچا معیار قائم کیا۔کہ اس کے بارے‬
‫میں یہ جملہ مشہور ہو گیا کہ انشا پردازی عبدالحمید الکاتب‬
‫سے شروع ہوئی تھی اور ابن العمید پر ختم ہو گئی‘‘۔(ص‬
‫‪)۱۶۹‬‬

‫نمونہ تحریر‪:‬‬

‫ایک شخص کو رکن الددلہ کے خالف عصیان کا رویہ اختیار کرنے کو کہتا ہے "‬
‫تمہارا خیال ہے کہ تم اطاعت کے کنارے پرہو حاالنکہ پہلے تم اطاعت کے اندر اور‬
‫اس کے وسط میں تھے۔ اگریہی بات ہے تو تم نے دونوں حالتوں جوجان لیا ہو گا اور‬
‫ان کا تجربہ کر لیا ہو گا۔ میں خدا کا واسطہ دے کر تم سے پوچھتا ہوں اور تم مجھے‬
‫سچ سچ بتاؤ کہ تم جس حالت سے پلٹے ہو اسے تم نے کیسا پایا؟ اور جس حالت میں‬
‫آگئے ہو اسے کیسا پایا؟ کیا تم پہلی حالت میں ایک گھنے سائے تلے نہیں تھے اور اب‬
‫تم پر کس چیز نے سایہ کیا ہے کیا جہنم کے دھوئیں نے جو نہ سایا مہیا کر تا ہے اور‬
‫نہ آگ سے بچاتا ہے۔ (ص ‪)۱۱۹،۱۱۱‬‬

‫صاحب بن عباد (م ‪۲۲۰‬ء)‪:‬‬

‫اس نے عربی نثر میں سجع بندی اور رعایت لفظی کو فروغ دیا اس کو انشا پر دازی‬
‫میں عبدالحمید الکاتب کا ثانی کہا جاتا ہے ۔ اس نے ادباء کی بہت حو صلہ افزائی کی‬
‫اور ادب کی شمع کو روشن رکھا۔‬

‫نثر کا نمونہ‪:‬‬

‫قاضی ابو بشیر جرجانی کے ورود کی خبر سن کر کہتا ہے۔‬

‫’’اے قاضی ! آپ کی سواری اور آپ کے سفر کو بلکہ آپ‬


‫کو اور آپکے سارے گھر والوں کو خوش آمدید! آپ کے‬
‫آنے کی خبر کی خوشبو کتنی سر عت سے پھیلی ۔ ہم نے‬
‫آپ کے خوش گوار جھونکے میں یوسف کی مہک کا لطف‬
‫پایا۔ بس اب سواریوں کو مہمیز کرو کہ ہم آپ کے دیدار‬
‫سے اپنی پیاس بجھائیں‘‘۔(ص ‪)۱۱۸‬‬
‫خوارزمی (م ‪۲۳۳‬ء)‪:‬‬

‫انشا پرداز‪ ،‬شاعر عالم لغت ‪ ،‬ادیب‪ ،‬سیاح متعدد رسائل لکھے جو بہت مشہور ہیں۔‬

‫نمونہ نثر‪:‬‬

‫وہ اپنے ایک شاگر د کو مختصر مکتوب میں لکھتا ہے ۔ " اللہ تمہیں عزت دے اگر‬
‫تمہارا خیال ہے کہ ہم مالقات کے قابل نہیں ہیں توہم تو مالقات کے لیے خواہاں ہیں‬
‫اور اگر تم سمجھتے ہو کہ تم نے ہمارے پاس جو کچھ تھا وہ سب لے لیا چنانچہ ہمارا‬
‫حق تم پر سے ساقط ہو گیا لیکن تمہارا حق ہم پر باقی رہا توبات یہ ہے کہ ایک صحت‬
‫مند آدمی اپنی بیماری سے شفا پا کر اور دوائی سے بے نیاز ہو کر بھی طبیب سے‬
‫ملنے چال جا یا کر تاہے۔(ص ‪)۱۸۱ ،۱۸۰‬‬

‫عباسی دور میں عربی نثر میں ایک نئی صنف " مقامہ" ایجاد کی۔ اس میں دو ادباء کا‬
‫نام بطور خاص ہے۔‬

‫بدیع الزمان ہمذانی (م ‪۶۱۱۷‬ء)‪:‬‬

‫یہ صنف حکایت یا ڈرامائی واقعہ ہو تاہے جس میں ایک کردار اپنے وقت کی ادبی ‪،‬‬
‫معاشرتی اور اخالقی صورتحال پر لوگوں کے سامنے ادبی زبان میں اظہار خیال کر‬
‫تا ہے جو خوبصورت ‪ ،‬مسجع اور موزوں ہو تی ہے ۔ ہمذانی مقامہ کا موجد ہے اس‬
‫اعلی درجے کے ہیں۔ (ص‪)۱۸۱‬‬
‫ٰ‬ ‫کے مقامات ادب اور فن کے اعتبار سے بہت‬

‫حریری ( م ‪۶۶۹۹‬ء)‬

‫اس کے مقامات بھی کافی مقبول اور متداول ہیں اور عربی ادب کے نصاب کی کتابوں‬
‫میں شامل ہیں۔ لیکن ہمذ انی کے مقابلے میں دوسرے درجے کی چیزہیں بعد میں متعدد‬
‫لوگو ں نے کوشش کی لیکن بات نہ بن سکی۔ (ص ‪)۱۸۱‬‬

‫دور عباسی کی شاعری‪:‬‬


‫عباسی دور کی شاعری نے اس روایت کو ختم کر دیا جس کا آغاز محبوبہ کے‬
‫چھوڑے ہوئے کھنڈرات پر کھڑے ہو کر رونے اور اس کو یاد کرنے ہو تا تھا۔ اس‬
‫کی جگہ اب لہو طرب اور راگ رنگ کی محفلوں کا حال بیان ہونے لگا۔ کھنڈروں پر‬
‫کھڑے ہو کر رونے کو طنز کا نشانہ بنایا جانے لگا۔‬

‫موضوعات ‪ ،‬مقاصد ‪ ،‬لفظیات اور اسلوب میں نمایاں تبدیلی‬


‫آگئی ۔ عباسی دورکے اہم شعراء میں۔بشار بن بُرد( م ‪۹۱۳‬ء)‬

‫اس نے اموی اور عباسی دونوں حکومتوں کا زمانہ پایا۔ بشار نابینا پیدا ہو ا تھا اس‬
‫لیے اس دنیا میں کچھ نہ دیکھ سکا لیکن اپنے اشعار میں وہ بعض مناظر کی ایسی‬
‫تشبیہہ الیا جو آنکھوں والوں سے نہ بن پڑی۔‬

‫مذکورہ شاعر کے حوالے سے مصنف نے " یادیں او رباتیں‬


‫" کے عنوان سے اپنی کتاب میں تفصیلی مضمون لکھا ہے ۔‬
‫راقمہ نے مذکورہ کتاب کے جائزے کے دوران " بشاربن‬
‫برد" کا تفصیالً تحقیقی ‪ ،‬تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ابوالعتاہیہ (م‬
‫‪۱۱۱‬ء)‬

‫ابوالعتاہیہ حجاز کے ایک گاؤں میں پیدا ہوا اور کوفہ میں پروان چڑھا۔ اپنے وقت کا‬
‫سب سے زیادہ موزوں طبع اور پرگو شاعر تھا۔‬

‫‘‘اس کے شروع زمانے کے قصائد کو چھوڑ کر جو عشق‬


‫و محبت اور مدح وہجو کے باب میں ہیں اس کی شاعری‬
‫کے بہت بڑے حصے کا مرکزی خیال یہ ہے کہ یہ زندگی‬
‫چند روزہ ہے ۔ سازو سامان اور عیش و عشرت یہ سب مایا‬
‫کا روپ ہے اور ایک دن ختم ہو کے رہ جائے گا‘‘۔ (ص‬
‫‪)۱۱۰‬‬

‫نمونہ کالم‪:‬‬
‫ہم سب غافل ہیں اور موت ہمارے درمیان چلتی پھرتی ہے۔اے کم نصیب! اگر تجھے‬
‫تو حہ کرنا ہی ہے تو اپنے آپ کا کرکہ چاہے تمہیں عمر نو ح بھی عطا ہو جائے ایک‬
‫دن پھر بھی مر جانا ہے۔(ص ‪)۱۱۱‬‬

‫ابو نواس (م ‪۸۶۲‬ء)‪:‬‬

‫ابو نواس اہواز کے ایک گاؤں میں پیدا ہوا وہاں سے یہ بصرہ آگیا اور یہیں پروان‬
‫چڑھا ۔ پھر بغدادچال گیا اور آخر وقت تک وہیں رہا۔مذکورہ شاعر کے حوالے سے‬
‫’’عربی ادب میں مطالعے" میں بعنوان " ابو نواس" کے تحت راقمہ نے تفصیالً جائزہ‬
‫لیا ہے۔‬

‫الرومی ( م ‪۸۲۱‬ء)‪:‬‬
‫ابن ُّ‬

‫نام ابوالحسن علی بن العباس اور کنیت ابن الرومی بغداد میں پیدا ہوا اور وہیں پال بڑھا‬
‫او رعلم و ادب میں ترقی کی۔ اس نے اپنے ہم عصر خلفاء کے ساتھ کوئی زیادہ تعلق‬
‫قائم نہ کیا ۔ اس کی تو ہم پرستی کے قصے بہت مشہو ر ہیں اسکی وجہ اس کی‬
‫اعصابی کمزوری بتائی جاتی ہے۔ وہ بڑا قادر الکالم اور پر گو شاعر تھا ۔‬
‫نمونہ کالم‪:‬‬

‫الرومی مغنیہ و حید کے بارے میں کہتا ہے‬


‫ابن ُّ‬

‫’’دوستو مجھے تو وحید نے اپنا بندہ بے دام بنا لیا اب میر‬


‫دل تکلیف میں ہے اور ملول ہے۔نرم و نازک لڑکی جس نے‬
‫اپنے قد کا حسن شاخ سے لیا ہے اور اپنی آنکھوں اور گردن‬
‫کا حسن ہرن ہے۔اپنے بیٹے کا مرثیہ لکھتا ہے تو کہتا ہے "‬
‫موت اس کو مجھ سے لے گئی تو اس کی زیارت قُرب کے‬
‫باوجود دور ہو گئی اور دوری کے باوجود قریب ثابت‬
‫ہوئی‘‘۔(ص ‪)۱۱۱،۱۱۸ ،۱۱۳‬‬

‫ابن المعتز ( م ‪۲۱۸‬ء)‪:‬‬

‫امیرالمومنین ابوالعباس عبداللہ جو خلیفہ معتز با للہ کا بیٹا تھا اس کی پرورش عزت‬
‫وشان کے ماحول میں ہوئی لیکن انجام بالخیر نہ ہوا۔ اس کے ماحول کا اثرشاعری پر‬
‫نمایاں ہے۔‬

‫نمونہ کالم‪:‬‬

‫ایک نظم میں شاعر اپنے دوست کے لیے اپنی وفا کا اظہارکرتا ہے۔میرے کتنے‬
‫دوست ہیں جن کے وعدوں سے میں فائدہ نہ اٹھاسکا میں نے اپنی محبت کیساتھ اس‬
‫سے وفا کی لیکن اس پر کوئی بہانہ نہ غالب آگیا ۔‬

‫’’ جو لوگ مجھے عزیز ہیں ان کے ہاں میری قسمت یہی‬


‫ہے اور اگر میں انہیں چھوڑ دوں تو میرے بارے میں بہت‬
‫ناروا باتیں ہوں گی‘‘۔ (ص‪)۱۳۰،۱۳۳‬‬

‫الشریف الرضی (م ‪۶۱۶۰‬ء)‪:‬‬


‫بغداد میں پیدا ہوا۔ بہت خوددار اور بلند حوصلہ انسان تھا۔ وہ اتنا راست باز تھا کہ اس‬
‫نے کبھی کسی سے کوئی صلہ یا انعام نہ لیا۔ اس نے اپنے ہاں ایک حویلی قائم کی‬
‫جس کا نام اس نے " دارالعلم" رکھا ۔ طلبہ کی مالی ضروریات وہ اپنی جیب سے‬
‫پوری کرتا تھا۔ اس نے شاعری میں قدیم شعراء کاطرز اپنایا۔‬

‫نمونہ کالم‪:‬‬

‫اس نے عشقیہ شاعری بھی کی اور اس کے عالوہ قصیدے اور مرثیے لکھے۔امام‬
‫حسین کا مرثیہ ان اشعار سے شروع ہو تا ہے۔‬

‫’’کربال ! تو کرب اور بال ثابت ہوئی۔ آل مصطفیﷺ تیرے‬


‫وہاں کس عذاب سے گزرے۔تیری زمین پرجب ان کو گرایا‬
‫گیا توکتنا خون بہا اور کتنے آنسو جاری ہوئے۔خون سے‬
‫لتھڑے ہوئے سینے سے وہ جلدی جلدی مٹی پونچھتی‬
‫تھیں‘‘۔ (ص ‪)۱۳۱‬‬

‫طغرائی (م ‪۶۶۹۶‬ء)‪:‬‬

‫اصفہان میں پیدا ہوا ۔ انشا ء پردازی اور شاعری میں ایسی مہارت پیدا کی کہ بے مثل‬
‫گیا۔‬ ‫دیا‬ ‫کر‬ ‫قتل‬ ‫کر‬ ‫لگا‬ ‫الزام‬ ‫کا‬ ‫ہونے‬ ‫ملحد‬ ‫پر‬ ‫اس‬ ‫کہالیا۔‬
‫نمونہ کالم‪:‬‬

‫بڑھاپے میں بیٹا پیداہونے پر طغرائی نے کہا۔‬

‫’’یہ چھوٹی سی جان جو میرے بڑھاپے میں آئی ہے اس نے‬


‫میری آنکھوں کو ٹھنڈک تو پہنچائی لیکن میری فکروں میں‬
‫اضافہ کر دیا۔ستاون برس اگر پتھر پر بھی گزریں تو ان کی‬
‫تاثیر اس کی سطح پر دکھائی دے جائے گی‘‘۔(ص‬
‫‪)۱۴۰،۱۴۱،‬‬
‫شام میں شاعری اور شعراء‪:‬‬

‫شام کے لیے یہ بات بڑے فخر کی تھی کہ اس نے عربوں کو ابو تمام ‪ ،‬بحتری‪،‬‬
‫متبنی‪ ،‬ابوفراس حمدانی ابوالعالء معری کی صور ت میں شاعری کی سبقت لوٹا دی‬
‫جو اس سے پہلے ایران چلی گئی تھی۔(‪)۱۴۴‬‬

‫ابو تمام (م ‪:)۸۲۰‬‬

‫اصل نام حبیب بن ادس کنیت ابوتمام تھی ۔ اس کا باپ شام کے عجمی نصرانیوں میں‬
‫سے تھا ۔ اسالم النے کے بعد اپنا نام اوس رکھ لیا۔ ابو تمام بے حد ذکی الحسن اور‬
‫حاضر جواب تھا۔ فی البدیہہ شعر کہنے میں ملکہ حاصل تھا اس نے بہت سے قصائد‬
‫کہے۔‬ ‫قطعات‬ ‫اور‬
‫نمونہ کالم‪:‬‬

‫اس نے حکیمانہ اشعار بھی بہت کہے۔‬

‫’’محبت میں اپنے دل کو چاہے جس طرح بدل لو‪ ،‬محبت تو‬


‫پہلے محبوب کے لیے ہی رہے گی۔ زمین میں کتنے گھر‬
‫ہیں جن سے انسان مانوس ہو تا ہے لیکن اس کا شوق اور‬
‫ولولہ ہمیشہ پہلے گھر کے لیے ہی ہوتاہے‘‘۔ (ص ‪)۱۶۰‬‬

‫بحتری (م ‪۸۲۷‬ء)‪:‬‬

‫ابو عباد ۃ الولید خالص عرب تھا اور قبیلہ طی سے تھا ۔ بحتر اس کے کسی جدا مجد‬
‫کا نام تھا اس لیے بحتری اس کالقب پڑا ۔ عربی فصاحت اس کی رگ رگ میں سما‬
‫گئی۔‬

‫’’منفعت ذات اور حرص وطمع کا یہی جذبہ جس نے بحتری‬


‫کے اخالقی کردار میں پختگی کی بجائے اسے ریاکاری کے‬
‫راستے پر ڈال دیا چنانچہ وہ اپنے سرپرست خلفاء کی بدلتی‬
‫ہوئی مذہبی روش میں غالموں کی طرح ان کا ساتھ دیتا‬
‫رہا‘‘۔ (ص ‪)۱۶۱‬‬

‫نمونہ کالم‪:‬‬

‫بحتری جلب کی عورت علوہ کے عشق میں مبتال ہو گیا اس کے لیے اس نے غزل کی‬
‫شاعری کی۔‬

‫’’اے علوہ ! اگر تو چاہے تو ہمارے ساتھ اس بے رخی کو‬


‫اصل میں بدل دے اور ایک عاشق کے لیے تمہار سخت دل‬
‫نرم ہو جائے ۔کیا میں حلب کے اطراف میں ظہران آسکتا‬
‫ہوں اور کیا میں تمہارے عارضوں اور سینے کے درمیان‬
‫کیف وسرور حاصل کرسکتا ہوں‘‘۔ (ص ‪)۱۶۱‬‬

‫متبنی (م ‪۲۱۰‬ء)‬

‫ابو الطیب احمد بن الحسین المتبنی کو فہ میں غریب ماں باپ کے گھر پیدا ہوا ۔ وہ‬
‫شروع ہی سے اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھتا تھا۔ ابھی تو نوعمر ہی تھا کہ اس نے‬
‫لوگو ں سے اپنی خالفت کے لیے بیعت لینی شروع کردی۔ اس حرکت پر اسے گرفتار‬
‫کر کے قید خانے میں ڈال دیا بعد میں رہا کر دیا۔ جب وہ شام گیا تو پھر وہاں نبوت کا‬
‫دعوی کر دیا۔ اس کو گرفتار کر کے اس وقت تک باندھ کے رکھا گیا جب تک اس نے‬
‫ٰ‬
‫دعوی سے توبہ نہ کر لی ۔ اس طر ح متبنی کا لقب اس کے ساتھ چپک گیا۔‬
‫اس ٰ‬

‫اپنے شعرمیں اس نے خود کو حضر ت صالح کے مماثل قرار دیا۔‬

‫’’میں ایک ایسی امت میں ہو ں جسے اللہ نے نوازا ہے‬


‫مگر ایسا اجنبی ہوں جیسے قوم ثمود میں صالح‬
‫تھے‘‘۔(ص‪)۱۱۰‬‬

‫اس کی شاعری معانی آفرینی ‪ ،‬حسن ادا‪ ،‬جدت اسلوب ‪ ،‬تشبیہات و استعارت کی وجہ‬
‫سے امتیازی حیثیت رکھتی ہے۔‬
‫نمونہ کالم‪:‬‬

‫جو شخص سورج کی روشنی سے حسد کر ے اور کوشش کر ے کہ اس جیسا لے‬


‫آئے تو وہ ایک سعی بے کار ہے۔‬

‫اگر تم کسی بھلے آدمی کی عزت کر و گے تو اسے اپنا لو گے اور اگر کسی رذیل‬
‫گا۔‬ ‫جائے‬ ‫ہو‬ ‫سرکش‬ ‫وہ‬ ‫تو‬ ‫وگے‬ ‫کر‬ ‫تکریم‬ ‫کی‬ ‫آدمی‬
‫جو ذلیل ہو اس کو ذلت محسوس نہیں ہوتی جس طرح ایک مرد ے کو زخم کی تکلیف‬
‫نہیں ہوتی۔ (ص ‪)۱۹۳ ،۱۹۱‬‬

‫ابو فراس الحمدانی (م ‪۲۱۷‬ء)‪:‬‬

‫موصل میں پیدا ہوا تین برس کا تھا تو اس کا باپ مارا گیا ۔ اپنے چچازاد بھائی امیر‬
‫سیف الدولہ کی نگرانی میں پروان چڑھا۔ اس کی شاعری کا بہترین حصہ وہ قصائد‬
‫ہیں جنہیں رومیات کا نام دیا جاتا ہے ۔‬

‫نمونہ کالم‪:‬‬

‫وہ فتوحات کے واقعات پر فخر کر تا ہو ا کہتا ہے۔‬

‫’’ہم سیف الدولہ کے پروردہ ہیں جب وہ اتنا فائق ہے تو‬


‫ہمیں بھی فوقیت حاسل ہے اور ہم اس کے پودے ہیں جب‬
‫پودے لگانے واال اتنا پاکیزہ ہے تو ہم بھی پاکیزہ ہیں‘‘۔‬
‫(ص‪)۱۹۱ ،۱۹۶‬‬

‫ابولعالء معری (م ‪۶۱۰۷‬ء)‪:‬‬

‫عباسی دور کے اس آخری بڑے شاعر کے فکر و فن کاجائزہ بعنوان " اخوان الصفا‬
‫اور دوسرے مضامین" کے تحت لیا جاچکا ہے ۔‬

‫مکرر جائزہ باعث کوفت ہوگا۔‬


‫اندلسی دور ‪ ،‬فاطمی دور اور ترکی دور۔‬
‫اندلس میں شاعری اور ادب‪:‬‬

‫اندلس میں شاعری اور ادب کیسے پروان چڑھا ؟ اس کے لیے اندلس کے سیاسی پس‬
‫ہے‬ ‫ضروری‬ ‫لینا‬ ‫جائزہ‬ ‫کامختصر‬ ‫منظر‬
‫" اموی دور میں عرب شمالی افریقہ کے ساحلی عالقوں تک پہنچ گئے ولید بن‬
‫موسی بن نصیر کو تعینات کیا۔ ‪۹۱۱‬ء میں طارق بن‬
‫ٰ‬ ‫عبدالملک نے شمالی افریقہ پر‬
‫زیاد نے عرب اور بر بر قبائل کی فوج کی مدد سے گو تھ قوم کو شکست دے کر‬
‫اندلس کے بہت سے عالقے پر قبضہ کر لیا۔ اندلس کے بہت سے عالقے عربوں کے‬
‫زیر تسلط آتے چلے گئے ۔ مسلمان فاتحوں نے مقامی لوگوں کو ملکی امور میں اپنے‬
‫ساتھ شامل کیا اس طرح عربوں نے ان کی بہت سی باتیں اپنا لیں ان کے اندر اہل بادیہ‬
‫والی خشونت جاتی رہی۔خوبصورت وادیوں نے ان کے تصور و خیال کو وسعت دی‬
‫‪۹۱۱‬ء سے ‪۹۶۱‬ء تک یہاں اموی والی یکے بعد دیگرے آتے رہے۔(ص ‪)۱۸۰‬‬
‫اندلسی شعراء نے مختلف اصناف میں اچھے نمونے پیش کیے۔‬

‫ابن عبدربہ( م ‪۲۲۱‬ء)‪:‬‬

‫قرطبہ میں پیدا ہوا اور وہیں پروان چڑھا۔ اندلس کے علماء اور ادباء سے فیض حاصل‬
‫کیا۔ اس کی شاعری کا موضوع وصف نگاری اور غزلیات ہے۔‬

‫نمونہ کالم‪:‬‬

‫غزل کے موضوع پر " میں نے اس جیسا گو ہر نہ دیکھا نہ سنا جو مارے حیا کے‬
‫سرخ عقیق ہو جاتا ہو‘‘۔ جب تو اس کے چہرے کے حسن و جمال پر نظر کر ے گا تو‬
‫تمہارا چہرہ اس کی چمک دمک میں کہیں گم ہو جائے گا۔ابن ہائی االندلسی ( م‪۸۹۳‬ء)‬

‫ابن ہا نی اشبیلیہ میں پیدا ہوا ۔ وہ اپنی زندگی میں کافی اوباش‪ ،‬بدکردار اور ناؤنوش‬
‫کار رسیا تھا۔ قول و فعل کا ایسا سچا اورکھرا تھا کہ اسے اس کی پرواہ نہیں تھی کہ‬
‫لوگ اس کے متعلق کیا کہیں گے اس نے صنف مدح میں بے حد مبالغے سے کام لیا۔‬
‫نمونہ کالم‪:‬‬

‫مرثیہ میں دیکھیں۔‬

‫’’ہم لوگ ہماری امیدیں بہت زیادہ ہیں اور عمر یں مختصر‬
‫اپنی آنکھوں کے سامنے اموات دیکھتے ہیں کاش کہ ذہن‬
‫اس سے عبرت حاصل کرتے‘‘۔ (ص ‪)۳۰۱‬‬
‫ابن زیدون( م ‪:)۶۱۷۶‬‬

‫قرطبہ میں پیدا ہو ا۔ بچپن ہی میں ماں باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا تھا لیکن سر پر‬
‫ستوں نے تعلیم کے لیے بہترین اساتذہ کا انتظام کر دیا۔ جلد ہی اس نے ہم سبقوں میں‬
‫ممتاز حیثیت حاصل کر لی۔ بعد میں اس کی زندگی مشکالت سے دوچار رہی۔ اس کی‬
‫شاعری اندلس کی شاعری کا بہت صحیح اور عمدہ نمونہ ہے۔‬

‫نمونہ کالم‪:‬‬

‫اس کی شاعری کا بہترین حصہ وہ ہے جو اس نے ایام اسیری میں قرطبہ سے دور‬


‫اس شہر کے فراق میں یا اپنی محبوبہ والدہ کی یاد میں تخلیق کیا۔‬

‫’’ہمارے قرب کی جگہ دوری نے لے لی اور مالقات کی‬


‫خوشی کے بدلے مفارقت ہمارنصیب ٹھہری۔ٓآپ کے نہ‬
‫ہونے سے ہمارے دن بھی سیاہ ہو گئے آ پ کے ہوتے ہوئے‬
‫ہماری راتیں بھی اُجلی ہوتی تھیں‘‘۔(ص ‪)۳۰۳،۳۰۹‬‬

‫ابن حزم (م ‪۶۱۱۳‬ء)‪:‬‬

‫قرطبہ کی خالفت کے آخری برسوں میں جو ادباء شعراء موجود تھے ان میں ابن حزم‬
‫ایک ایسا عالم شاعر تھا جس کے ساتھ عرب ہسپانو ی تجدید یت کا دور شرع ہوا۔‬

‫نمونہ کالم ‪:‬‬

‫وصل میں مرگ آرزو کے تصور کو صحیح نہیں سمجھتا بلکہ کہتا ہے کہ وصل سے‬
‫تو آتش شوق اور تیز ہوتی ہے اس ضمن میں اپنے اشعار پیش کرتا ہے۔‬

‫’’میں چاپتا ہوں کہ میرا دل ایک چھری سے چاک کیا جاتا‬


‫اور تم اس میں داخل کر دی جاتی اور پھر میرا سینہ جوڑ‬
‫دیا جاتا۔تم میرے دل میں رہتی اور اسے چھوڑ کے کہیں نہ‬
‫جاتی تآ نکہ قیامت کا دن آ جاتا اور لوگ حشر کے لیے نکل‬
‫پڑتے۔ "تم میرے دل رہتی جب تک میں زندہ رہتا اور جب‬
‫میں مر جاتا تو تم قبر کے اندھیروں میں میرے دل کی تہوں‬
‫میں پڑتی رہتی‘‘۔ (ص ‪)۳۱۳ ،۳۱۱‬‬

‫معتمد ابن عباد (م ‪)۶۱۲۰‬‬

‫ابو القاسم اپنے باپ المعتمد کے بعد اشبیلیہ و قرطبہ کا فرماں روا ہوا شاعری اس کے‬
‫مزاج میں تھی۔ شاہان اندلس میں اس سے بڑا شاعر پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ وہ ایک‬
‫باہمت اور سخی حکمران تھا۔ مراکش کے حکمران یوسف بن تا شفین نے اندلس پر‬
‫حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا۔اور معتمد کو قید کر کے طنجہ لے گیا۔ جہاں سے وہ‬
‫کبھی نہ نکل سکا۔‬

‫نمونہ کالم‪:‬‬

‫وہ ماضی کی عزت و شان اور حال کی ذلت اور بے بسی کا موازنہ کرتے ہوئے کہتا‬
‫ہے۔‬

‫پرچموں کے سائے کی عزت کے بدلے فوالد کی ذلت اور بیٹریوں کا بوجھ میرے‬
‫نصیب میں آیا ۔ لوہا میرے لیے نیز ے کی انی ہو تا تھا اور باریک صیقل کی ہوئی‬
‫دھار والی تلوار۔اب وہ اور یہ دونوں ایک بیٹری میں ڈھل گئی ہیں جو میری پنڈلیوں‬
‫کو کوڑھ بن کے کاٹے جاتی ہیں۔(ص ‪)۳۱۴،۳۱۶ ،۳۱۳‬‬

‫مصنف بناتا ہے کہ انہی اشعار کی ترجمانی اقبال نے" قید خانے میں معتمد کی فریاد"‬
‫کے عنوان سے بال جبریل میں کی ہے۔‬

‫احمد حمدیس الصقلی (م ‪:)۶۶۳۹‬‬

‫جزیرہ سیلی میں پیدا ہوا بعد میں سپین چال گیا ۔ وہ ہسپانوی مناظر قدرت کا شاعر ہے۔‬
‫آخری عمر میں عاجز اور نابینا ہو کر فوت ہو ا اس نے عشقیہ نظمیں بھی کہیں۔‬
‫نمونہ کالم‪:‬‬

‫اپنے گناہوں پر روتا ہے اور خدا سے مغفرت کا طالب ہو تا ہے۔‬

‫’’اے میرے گناہو! بخدا تم نے میری پیٹھ پر بوجھ ال د دیا‬


‫ہے۔ میرا بہانہ کھل کر سامنے آگیا تو میرا عذر کیسے‬
‫مقبول ہو ا۔میں ایک ساعت میں تو توبہ کرتا ہوں اور‬
‫دوسری ساعت میں اپنے برے کاموں اور ہرزہ سرائی کی‬
‫طرف لوٹ جاتا ہوں‘‘۔(ص‪)۱۳۰ ،۳۱۹‬‬

‫ابن خفاجہ (م ‪۶۶۳۸‬ء)‪:‬‬

‫مشرقی اندلس کا یہ شاعر جزیرہ شقر میں پیدا ہوا ۔ اس نے باقاعدہ تعلیم پائی ہے۔ ادب‬
‫سے متعارف ہو اور شعر کہنے لگا اس نے فنکاروں کی سی زندگی گزاری جس میں‬
‫کوئی فکر اور کوئی پابندی نہیں تھی۔‬

‫نمونہ کالم‪:‬‬

‫وہ ایک پھول کی تعریف میں کہتا ہے۔وہ شوخ اور مغرور جس کو بارش نے سرخ‬
‫زیور اور سبز ردا پہنا دی ہے۔اس کے لیے گھٹاؤں کاپانی چاندی بن کر بہتا ہے اور‬
‫اس کے پہلوؤں میں چمکدار سونا بن کر جم جاتا ہے۔(ص‪)۳۱۳ ،۳۱۱‬‬

‫لسان الدین بن الخطیب (م ‪۶۳۷۲‬ء)‪:‬‬

‫اندلس کا آخری بڑا ادیب اور شاعر غر ناطہ میں پیدا ہوا اس کے خاندان میں علم تھا ‪،‬‬
‫تھی۔‬ ‫سرداری‬ ‫اور‬ ‫تھی‬ ‫عزت‬
‫اس کی شاعری نفیس الفاظ‪ ،‬پسندیدہ معانی سے عبارت ہے اس کی شاعری‬
‫قادرالکالمی اور پختہ گورئی کا اچھا نمونہ ہے اس کے فلسفیانہ خیاالت کی وجہ سے‬
‫اس پر الحاد کا الزام لگایا اور قید خانے میں ہی گال گھونٹ کر ماردیا۔‬
‫نمونہ کالم ‪:‬‬

‫اس نے معتمد کی قبر پر کھڑے ہو کر کچھ شعر کہے تھے‬

‫’’میں اپنی خواہش سے اغمات میں تمہاری قبر پر حاضر ہو‬


‫امیرے لیے یہ میرا اولین فریضہ تھا۔میں تمہاری زیارت‬
‫کے لیے کیسے نہ آؤں اے سب سے سخی بادشاہ اور‬
‫اندھیری راتوں کے چراغ‘‘۔(ص‪)۳۱۶،۳۱۹‬‬

‫وسطی کی عرب ثقافت میں اندلس کا عربی ادب ایک روشن مثال ہے یہ بات‬
‫ٰ‬ ‫قرون‬
‫اپنی جگہ ان شعراء کی فکر میں ابو تمام ‪ ،‬متبنی اور معری کے کالم جیسی گہرائی‬
‫اورفکر نہیں ملتی لیکن ان کے اظہار خیال اور شاعرانہ تخیل اور ادائیگی حسن سے‬
‫مفر نہیں۔اندلس کے واسطے سے قدیم تہذیبیں اپنی روایات کے ساتھ یورپ تک‬
‫پہنچیں۔‬

‫فاطمی دور مصر میں نثر نگاری اور شاعری‪:‬‬

‫اس دور میں مصر میں بہت سے شعراء ہوئے ۔ لیکن چارنام خاص ذکر کے قابل‬
‫ہیں۔کمال الدین ابن البنیہہ ( م ‪۱۱۱۱‬ء)‬

‫اس کی شاعری میں برجستگی ‪ ،‬نکتہ طرازی اور اسلوب میں نظم و ترتیب ہے۔ اس‬
‫کی شاعری میں تین موضوع اہم ہیں۔ ایک مدح‪ ،‬دوسرا تغزل ‪ ،‬تیسر ا وصف نگاری۔‬
‫نمونہ کالم‪:‬‬

‫عباسی بادشاہ ناصرالدین کی مدح میں کہتا ہے۔‬

‫’’صبح کی شراب سویرے پیا کرو کہ زندگی کا لطف اول‬


‫وقت میں ہے۔ اور شاخ پر بیٹھے ہوئے طائر نے بھی سر‬
‫نکاال ہے۔ "اپنے زمانے سے وہ کچھ لے لو جو تمہیں‬
‫غنیمت کے طور پر دیدے ویسے تو تم ہی اس وقت کے‬
‫حکم دینے والے اور منع کرنے والے ہو‘‘(ص ‪)۳۳۰،۳۳۱‬‬

‫ابن الفارض (م‪۶۹۳۲‬ء)‪:‬‬

‫قاہرہ میں پیدا ہوا ۔ ایک ایسا شاعر ہے جس نے اپنی شاعری میں عشق و محبت کے‬
‫مضامین بیان کیے اور ایک ایسے محبوب کی بات کی جسے آپ چاہیں تو خدا قرار‬
‫دے سکتے ہیں اور چاہیں تو کوئی خوبصورت انسانی وجود سمجھ سکتے ہیں۔‬

‫نمونہ کالم‪:‬‬

‫تغزل کے بارے میں شاعر کہتا ہے۔‬

‫’’تمہارے بارے میں میں حسد سے کبھی خالی نہیں ہوا پس‬
‫ایک غلط خیال اڑا کرمیرے جگراتے کو خراب نہ کرو۔رات‬
‫کے ستاروں سے پوچھو کیا نیند نے میری پلکوں کو چھوا‬
‫بھی ہے؟ اور وہ آئے بھی کیسے جو میری نگاہوں کے لیے‬
‫اجنبی ہے‘‘۔(ص‪)۳۳۴ ،۳۳۱‬‬

‫ابن العربی ( م ‪۶۹۲۱‬ء)‪:‬‬

‫محی الدین العربی اندلس کے شہر مرسیہ میں پیدا ہوا۔ آٹھ برس کی عمر میں وہ اشبیلیہ‬
‫چال آیا۔ آخر کار دمشق میں آکر رہنے لگا اور یہیں وفات پائی ۔ وہ بنیادی طور پر ایک‬
‫صوفی تھا اس کیساتھ ساتھ وہ شاعر بھی تھا۔ شاعری میں اس نے جاہلی اور عباسی‬
‫دور کے شعراء کا طرز اپنایا ۔ ایک طرف وہ لوگ جو اسے ولی کامل سمجھتے ہیں‬
‫اور دوسرے طرف وہ گروہ جس کے نزدیک وہ بدترین قسم کا ملحد‬
‫تھا۔(ص‪)۳۳۱،۳۳۹‬‬

‫یہاں ہمیں صرف اس کی شاعری سے سروکارہے۔‬


‫نمونہ کالم‪:‬‬

‫ابن العربی کی وحدت الوجود ایک ایسا مذہب ہے جس نے تمام مذاہب کا احاطہ کر لیا‬
‫ہے اور تمام اعتقادات کو اس طرح متحد کر دیا ہے جس طرح کہ واحد حقیقت مطلق‬
‫تمام اشیاء کا احاطہ کر کے انہیں متحد کرتی ہے یہ خیال حسب ذیل شعر سے ظاہر‬
‫ہے۔‬

‫’’یہ بات کہ میں عشق میں مبتال ہوں لوگو ں پر ظاہر ہے‬
‫لیکن وہ اس ذات سے بے خبر ہیں جس سے مجھے عشق‬
‫ہے‘‘(‪)۳۳۹،۳۳۱‬‬

‫متنبی کی زمین میں ابن العربی کا ایک بہت عمدہ قصیدہ ہے۔‬

‫’’قسم باپ کی یہ کیسی شاخیں ہیں جو گالوں پر جھکی پڑتی‬


‫ہیں اورگردن تک آجاتی ہیں۔ وہ نازونخرے میں اپنے دامن‬
‫کھینچتی ہیں اور حسن کی چادر میں لپٹی رہتی ہیں حیا کی‬
‫وجہ سے وہ اپنے ان محاسن کو چھپاتی ہیں جن سے وہ‬
‫ایک متقی اور ڈرنے والے انسان کا دل اپنے قابو میں کر‬
‫لیں‘‘۔(ص ‪)۳۳۱،۳۳۸،۳۴۰‬‬

‫البہاء زہیر (‪۶۹۰۸‬ء)‪:‬‬

‫مکہ کے قریب وادئ نخلہ میں پیدا ہوا پھر مصر چال آیا۔ وہ وزیر بھی تھا اور ایک‬
‫انشا پرداز اور شاعر بھی۔(‪)۳۴۰‬‬

‫نمونہ کالم‪:‬‬

‫اس کی شاعری میں مضامین عام نوعیت کے ہیں لیکن نرم حالوت پائی گئی ہے۔‬

‫’’زمانہ جو تم پر مصیبت الیا ہے تو اسے معتوب نہ کرو‬


‫اگر اس نے کچھ لے لیاہے تو بہت عرصے سے وہ دیتا بھی‬
‫رہا ہے۔اللہ نے حاالت میں پھیر رکھا ہے چنانچہ نہ کوئی‬
‫راحت ہمیشہ رہتی ہے اور نہ کوئی تکلیف‘‘۔ (ص ‪،۳۴۱‬‬
‫‪)۳۴۱‬‬

‫ترکی دور‪:‬‬

‫سقوط بغداد کے بعد قاہرہ نے بغداد اور قرطبہ کی جگہ کیسے سنبھالی خلیفہ متوکل‬
‫کے بغداد میں عباسیوں کو زوال آگیا۔ اس کی وجہ مصنف یہ بتاتا ہے کہ ترک اور‬
‫ایرانی مدمقابل آگئے شیعہ اور اہل سنت کے درمیان اختالفات کی خلیج حائل ہوتی‬
‫گئی۔ اس اقتدار کا خاتمہ ‪۱۱۶۱‬ء میں ہال کو کے بڑے حملے سے ہوا۔ اندلس میں بر‬
‫بر اور موالیوں کی وجہ سے اموی حکومت کمزور پڑ گئی اور کئی صدیوں تک عالم‬
‫سالم میں کہیں کوئی عرب حکمران نہیں تھے۔‬

‫تہذیب سے عاری لوگوں نے کتب خانوں کو جالدیا مدارس بند کر دیے علماء کو تہ‬
‫تیغ کر دیا۔ ان حاالت کے باوجود عربی زبان مصر‪ ،‬شام‪ ،‬عراق اور جزیرہ نمائے‬
‫عرب میں نہ صرف دینی علوم کی زبان رہی بلکہ حکومتو ں کے درمیان رابطے کا‬
‫رہی۔‬ ‫بنی‬ ‫بھی‬ ‫وسیلہ‬
‫اگر ترکوں کو غرور اور ایرانیوں کا تعصب نہ ہو تا تو عربی آج سارے عالم اسالمی‬
‫کی زبان ہوتی ۔ اس زوال کے باجود اس کی بقا کا وسیلہ قرآن پاک اور جامع االزہر‬
‫ہیں۔‬

‫جب حکومت اور اقتدار بنو عثمان کے ہاتھ آیا تو خالفت عباسی نہ رہی بلکہ عثمانی ہو‬
‫گئی اور دارالحکومت قاہرہ کی جگہ قسطنطنیہ ہو گیا۔ سرکاری زبان ترکی ہوگئی۔‬
‫عربی کے نثری اور شعری اسلوب کو زوال آگیا۔ ہر طرف تاریکی چھائی رہی اور‬
‫جب قاہرہ کے دروازوں پر نپولین کی توپیں گرجنے لگیں تو لوگ اس وقت نیند کے‬
‫غلبے سے جاگے۔‬

‫یہاں مصنف ترکی دور کے ان شعراء کا تذکرہ کر تا ہے جو اس زبوں حالی کے دور‬


‫اعلی نمونے پیش کیے۔‬
‫ٰ‬ ‫میں پیدا ہوئے اور عربی شاعری کے‬
‫بوصیری ( م‪۶۹۲۰‬ء)‪:‬‬

‫شرف الدین محمد بن سعید بن حماد البوصیری پورا نام ہے دالص میں پیدا ہوئے ۔‬
‫بوصیر میں پروان چڑھے اور پھر قاہر چلے آئے۔ قصیدہ بردہ دس ابواب پر مشتمل‬
‫ایک خوبصورت طویل نظم ہے۔ (ص‪)۳۴۴،۳۴۶‬‬

‫اس کا شعری معیار وہ نہیں ہے جو جاہلی دور یا اموی او ر عباسی دور کے شعرا‬
‫کے ہاں ملتا ہے۔‬

‫نمونہ کالم‪:‬‬

‫محمد دو جہانوں کے اور جن و انس کے سردار ہیں وہ عرب اور عجم دونوں فریقوں‬
‫کے سردار ہیں۔‬

‫’’وہ ہمارے بنی ہیں‪،‬حکم دینے والے اور منع کرنے والے ‪،‬‬
‫پس امرونہی کے بیان کرنے میں ‪ ،‬کو ئی بھی ان سے زیادہ‬
‫راست گو نہیں ہے‘‘۔ (ص ‪)۳۴۹‬‬

‫صفی الدین الحلی (م ‪۶۳۲۲‬ء)‪:‬‬

‫جزیرہ نمائے عرب کا شاعر تھا ۔ فرات پر واقع ایک شہر حلہ میں پیدا ہوا اور وہیں‬
‫پروان چڑھا اور ادب کی تحصیل کی ۔ جب شعر کہنے شروع کیے تو اپنے وقت کا‬
‫سب سے بڑا شاعر قرار پایا۔‬
‫نمونہ کالم‪:‬‬

‫اس کا مشہور نونیہ قصیدہ ہے۔‬

‫’’ ہم ایسے لوگ ہیں کہ اگر ہماری دشمنی مول لی جائے تو‬
‫ہم فرعون ہیں اور اگر ہمیں حکم بنایا جائے تو ہم انصاف‬
‫کے میزان بن جاتے ہیں۔ "آرزوؤں کے حصول کے راستے‬
‫میں ہمارے اندر کوئی کمزوری نہیں ہوتی اگرچہ ہمیں اپنی‬
‫آرزوؤں کے راستے میں موت کے سائے دکھائی دیتے‬
‫ہی‘‘۔(‪)۳۴۸‬‬

‫ابن نباتہ (م ‪۶۳۱۱‬ء)‬

‫اس کی پیدائش مصر میں فسطاط کے مقام پر ہوئی اور وہ قاہرہ میں پروان چڑھا۔ اس‬
‫کا زمانہ حوادث اور اضطراب کا تھا تار تاری حملوں کا خوف اور مصر میں ایسا‬
‫قحط پڑا کہ بھوک کے مارے لوگ حرام جانور کھانے پر مجبور ہو گئے۔ نبا تہ ان‬
‫حاالت سے بہت متاثر ہوا اس کے اندر خوف بیٹھ گیا۔ اس کا اثر اس کی شاعری میں‬
‫بھی دکھائی دیتا ہے۔ اورآ خر عمر میں وہ ذہنی انتشار کا شکار ہو کر ہسپتال میں داخل‬
‫ہوا اور وہیں وفا ت پائی۔‬

‫نمونہ کالم‪:‬‬

‫اس کی شاعری جرات و شجاعت اور ہجو گوئی سے خالی ہے وہ عتاب بھی نرم‬
‫لہجے میں کرتا ہے۔‬

‫’’کوئی ایسی مشکل بات تو نہ تھی کہ ایک لفظ کہہ کر مجھ‬


‫پر احسان کر دیتے اس سے میری پریشانیاں رفع کر‬
‫دیتے‘‘۔(ص ‪)۳۶۰‬‬

‫عربی زبان میں علوم و فنون ‪:‬‬


‫اموی دور سے ترکی دور تک‪:‬‬

‫عربی زبان میں علوم و فنون نے عہد بہ عہد کیسے ترقی کی منازل طے کیں یہ کام‬
‫اتنا آسان تھا ۔ اس کی ترویج میں کئی نسلوں نے مسلسل سعی کی کیونکہ خطۂ عرب‬
‫کی سر زمین مسلسل اندرونی و بیرونی سازشوں سے دو چاررہی۔‬

‫ظہور اسالم کے بعد بنو امیہ کے دور میں ادب و شاعری کی ترویج تو ہوتی رہی‬
‫لیکن علوم کی طرف زیادہ توجہ نہ ہونے کی وجہ ایک تو فتوحات کا سلسلہ تھا اور‬
‫دوسرا مذہبی اور سیاسی گروہوں کی شر پسند کاروائیوں نے علوم و فنون کے لیے‬
‫انہیں پر سکون نہ رہنے دیا۔ بہر حال علوم میں انہوں نے صرف نحو ‪ ،‬تفسیر‪ ،‬فقہ اور‬
‫تدوین حدیث میں ابتدائی کام کیا ۔ دوسری اقوام کے علوم کا عربی میں تراجم کا آغاز‬
‫کیا۔‬

‫اس کام کے صحیح نتائج و ثمرات عباسی دور میں حاصل ہوئے ۔ عباسی دور میں‬
‫تراجم کے لیے خلیفہ ابو جعفر المنصور نے آغاز کیا ۔ ہارون الرشید نے مزید وسعت‬
‫دی ۔ مامون الرشید کے دور میں یہ علمی بیداری نقطہ عروج پر پہنچ گئی ۔اس وقت‬
‫ک ے تمام علوم و فنون کا عربی میں ترجمہ کیا گیا۔ ان تراجم کے عالوہ وہ اپنے ہاں‬
‫رہا۔‬ ‫تا‬ ‫ہو‬ ‫م‬ ‫کا‬ ‫مسلسل‬ ‫بھی‬ ‫پر‬ ‫فنون‬ ‫و‬ ‫علوم‬ ‫کے‬
‫اس دور میں حرکت کے قونین مرتب کیے ۔ وقت بتانے کی گھڑی ایجاد کی جو ہارون‬
‫الرشید نے فرانس کے بادشاہ کو تحفے میں بھیجی۔ پنڈولم اور قطب نما کو متعارف‬
‫کروایا۔ الجبرا کے علم میں اضافہ کیا ۔ عباسی دور میں ہی مدرسے اور کتب خانے‬
‫قائم کئے گئے ۔ ہر جامع مسجد کے ساتھ مدرسہ قائم کیا گیا۔‬

‫علم و فنون کا ارتقا عباسی دور میں کسی نہ کسی شکل میں جاری رہا لیکن تارتاریوں‬
‫کے حملے اور اس کے بعد ترکی اقتدار کی وجہ سے علم کی ساری ترقی بہت حد‬
‫تک رک گئی ۔ لوگوں کا کام صرف اسالف کی کتابوں کی شر حیں لکھنا اور ان کے‬
‫تھا۔‬ ‫گیا‬ ‫رہ‬ ‫پڑھنا‬ ‫خالصے‬
‫عربوں کے ہاں مختلف علوم و فنون میں جو نشوونما ہوئی اور جن اساتذہ اور مشاہیر‬
‫نے اس سلسلے میں اہم کردار کیا ذیل میں ان کامختصر جائزہ لیا جائے گا۔‬

‫روایت ادب اور روایان ادب‪:‬‬

‫زمانہ قدیم میں لکھنے کا رواج نہیں تھا اس لیے جاہلی زمانے سے آگے تک شاعری‬
‫اور ادب‪ ،‬خطبات و اقوال کو محفوظ کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کا ذریعہ‬
‫روایت ہی تھا ۔ یہ راوی لوگ اگر اس ادب کو اپنے ذہنوں میں محفوظ نہ کرتے تو آج‬
‫علمی‬ ‫اس‬ ‫ہم‬
‫خزانے سے محروم رہتے اور آنے والی نسلوں کو کچھ بھی نہ دے پاتے جاہلی ادب‬
‫اور اس کے بعد صدر اسالم اور بنو اُمیہ کی شاعری کے جو سب سے بڑے راوی‬
‫ہوئے۔‬

‫اس حوالے سے مصنف درج ذیل پانچ راویوں کا ذکر کر تا ہے حماد الراویہ ( م‬
‫‪۹۹۱‬ء) خلف االحمر (م ‪۹۸۱‬ء) اصمعی ( م ‪۱۳۱‬ء)‬

‫ابو عبیدہ معمر بن المثنی ( م ‪۱۱۶‬ء) ابو زید االنصاری ( م ‪۱۳۱‬ء) (ص ‪)۳۶۶‬‬
‫علم نحو اور اس کے رجال‪:‬‬

‫فتوحات کے نتیجے میں اقتدار کا دائرہ وسیع ہونے کی صورت میں عجمیوں کی آبادی‬
‫زیادہ ہونے لگی تو یہ عربی زبان بادیہ عرب کے لہجے سے ہٹ کر بولتے تھے اور‬
‫یہ معاملہ قرآن حکیم کی صور ت میں بھی سرزد ہونے لگا تو صورت حال سنجیدہ ہو‬
‫گئی ۔ اس ضرورت کے تحت عربی زبان کے بنیادی قواعد اور اصول مقرر کئے‬
‫گئے۔ اس طرح نحو اور صرف نے باقاعدہ علم کی صورت اختیار کی۔‬
‫عربی نحو کے تعلق سے جو بڑے نام ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں۔ سیبویہ (م ‪۹۸۱‬ء)‬
‫کسائی (م ‪۱۰۶‬ء) فراء (م ‪۱۱۱‬ء) ابن الحاجب (م ‪۱۱۴۱‬ء) ابن مالک ( م ‪۱۱۹۴‬ء) ابن‬
‫ہشام (م‪۱۳۱۰‬ء) (ص ‪)۳۶۱‬‬

‫علم لغت اور مولفین لغات ‪:‬‬

‫عربی زبان کے الفاظ کی حرکات کے معاملے میں جب لوگوں کا ملکہ بگڑنے لگا تو‬
‫علمائے لغت نے اصالح کے لیے ضابطے اور قواعد بنائے لیکن اس سے کوئی‬
‫اصالح نہ ہوئی۔ اس کے لیے الخلیل بن احمد نے کتاب العین لکھ کر عربی لغت کی‬
‫تدوین کے کام کا آغاز کیا۔ وہ الفاظ جو حلق سے نکلتے ہیں پھر وہ الفاظ جو زبان سے‬
‫ہیں۔‬ ‫ہوتے‬ ‫ادا‬ ‫سے‬ ‫دانتوں‬ ‫جو‬ ‫وہ‬ ‫میں‬ ‫آخر‬ ‫اور‬ ‫ہیں‬ ‫نکلتے‬
‫ائمہ لغت اور علماء کے نام درج ذیل ہیں۔‬

‫الخلیل بن احمد ( م ‪۹۱۱‬ء) ابن درید (م ‪۸۳۳‬ء) ابو علی القالی (م ‪۸۱۹‬ء) ازہری ( م‬
‫‪۸۱۰‬ء) جوہری (م ‪۱۰۰۶‬ء) ابن سیدہ ( م ‪۱۰۱۱‬ء) زمخشری ( م ‪۱۱۴۴‬ء) ابن منظور‬
‫مرتضی الزبیدی ( م ‪) (۱۹۸۰‬ص ‪۳۱۳‬تا‬
‫ٰ‬ ‫( م ‪۱۳۱۱‬ء) فیروز آبادی ( م ‪۱۴۱۴‬ء)‬
‫‪)۳۱۱‬‬
‫عربی زبان میں ادب و شعر کے مجموعے اور مختارات‪:‬‬

‫بعض دانش مند ادیبوں کو خیال آ یا کہ اگر زبانی روایتوں کا ذخیرہ لوگوں کے ذہنوں‬
‫سے محو ہو گیا تو عربی ادب کو اس سے بہت بڑا نقصان ہو گا۔ اس لیے انہوں نے ان‬
‫کو مجموعوں کی صورت میں ترتیب دینے کا بیڑہ اٹھایا ۔ یہ کام عباسی دور کے اوائل‬
‫سے شروع ہو ا تو آگے تک چلتا گیا۔‬

‫ان مجموعوں اور مرتبین کے نام یہ ہیں۔‬

‫البیان و التبیین ‪ ،‬للجاظ (م ‪۱۱۱‬ء )ادب الکاتب ‪ ،‬البن قتبیہ ( ‪۱۱۸‬ء) الکامل فی الغتہ‬
‫واال دب ‪،‬للبر د ( ‪ ،۱۸۱‬العقد االقرید ‪ ،‬البن عبدریہ ( م ‪۸۰۴‬ء) کتاب ‪ ،‬االمالی ‪ ،‬تالیف‬
‫ابی علی القالی (م ‪۸۱۹‬ء) کتاب االغانی ‪،‬البی الفرج صفہانی ( م ‪۸۱۹‬ء)‬
‫نھایتہ االرب فی فنون االدب ‪ ،‬لنویری ( م ‪۱۳۳۱‬ء)‬

‫حیاۃ الحیوان ‪،‬للدی میری (م ‪۶۲۱۰‬ء)‬

‫صح االعشی فی صناعتہ االنشاء ‪،‬للقلقشندی (م ‪۱۴۱۱‬ء) (ص ‪ ۳۱۸‬تا ‪)۳۹۱‬‬

‫علم تاریخ اور مشہور مورخین‪:‬‬

‫عربی زبان میں تاریخ لکھنے کے حوالے سے مصنف بتاتا ہے۔‬

‫’’عربی زبان میں تاریخ لکھنے کا آغاز محمد بن جریر‬


‫طبری(م ‪۸۱۱‬ء)سے ہوتا ہے جس کی تاریخ االمم و الملوک‬
‫نے تاریخ نگاری کاراستہ متعین کر دیا‘‘۔ (ص ‪)۳۹۹‬‬

‫اس کے بعد مورخین نے اس کام کو آگے بڑھایا ان میں سعودی ( م ‪۸۶۹‬ء) مروج‬
‫الذھب ‪ ،‬ابن مسکویہ (م ‪۱۰۳۰‬ء) تجارب االمم و تعاقب الھمم ‪ ،‬ابن االشیر (م ‪۱۱۳۴‬ء)‬
‫الکامل فی تاریخ ابو الغداء ( م ‪۱۳۳۱‬ء)المختصر فی تاریخ ابشر ابن خلدون (م‬
‫‪۱۴۰۱‬ء)کتاب العبر ‪ ،‬دیوان المبتداء واالخبر ۔‬

‫شرعی علوم حدیث اور علم فقہ‪:‬‬

‫عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے تدوین احادیث کا بیڑا اٹھایا ۔ صحیح احادیث کا پہال‬
‫مجموعہ " موطا" کے نام سے امام مالک بن انس نے مدون کیا۔ بعض ائمہ نے احادیث‬
‫کی تدوین کا ذمہ لیا اور چھ مختلف مجموعے انتہائی جانچ پرکھ کے بعد مرتب کیے۔‬
‫صحیح بخاری ‪ :‬امام محمد بن اسماعیل بخاری ( م ‪۱۹۰‬ء)‬

‫صحیح مسلم ‪:‬امام مسلم بن الحجاج (م ‪۱۹۴‬ء)‬

‫سنن ابن ماجہ ‪:‬ابو عبداللہ ابن ماجہ (م‪۱۱۹‬ء)‬

‫سنن ابوداؤد ‪:‬ابوداؤدالسجستانی ( م ‪۱۱۸‬ء)‬

‫ابوعیسی الترمذی (م ‪۱۸۱‬ء)‬


‫ٰ‬ ‫جامع ترمذی ‪:‬‬

‫سنن النسائی ‪:‬عبدالرحمان النسائی (م ‪۸۱۶‬ء( )ص ‪)۳۹۸‬‬

‫علم فقہ ‪ ،‬مالکی‪ ،‬حنفی ‪ ،‬شافعی اور حنبلی مسلم امت میں آج تک رائج ہیں۔‬

‫عربی ادب میں قصے اور حکایات‪:‬‬

‫’’الف لیلہ‘‘اس ضمن میں مصنف کی کتاب عربی ادب میں مطالعے میں تفصیلی‬
‫جائزہ لیا جا چکا ہے۔‬

‫عربی ادب کا موجودہ دور ‪:‬‬

‫(انیسویں صدی کے آغاز سے بیسویں صدی کی دوسری دہائی تک )‬

‫انیسویں صدی سے عربی ادب کے حوالے سے جو تبدیلیاں عمل میں الئی گئیں اور‬
‫زوال و انحطاط کا شکار ادبی جمود کو توڑ نے میں جن اکا برین نے کار ہائے نمایاں‬
‫انجام دیے ان کا مختصرا ً جائزہ مصنف اس طرح پیش کرتا ہے۔‬

‫عربی زبان کونئی زندگی مصر سے ملی‪،‬نپولین نے مصر پر حملہ کر کے غلبہ پا لیا‬
‫اس کے ساتھ اہل علم کے گروہ نے حربی ہنگاموں سے قطع نظر مصر میں تہذیب کا‬
‫بیج بونے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس تبدیلی کے پیش نظرخدیوی خانوادے کے سربراہ‬
‫محمد علی الکبیر نے مصر میں تعلیم کو عام کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس نے مدارس‬
‫پھراعلی تعلیم کے لیے فرانس بھیجا‬
‫ٰ‬ ‫قائم کیے اور لوگوں کو زبردستی تعلیم دالئی اور‬
‫پڑھ کر آنے والوں نے سارے علوم و فنون میں ترجمہ و تالیف کا کام اپنے ذمے لے‬
‫لیا۔ مزید وفد تعلیم کے لیے یورپ جاتے رہے جو جامع ازہر سے ہوتے تھے۔‬

‫جب مصر انگریزی استعمار کے زیر تسلط آگیا تو ترقی کی رفتار انہوں نے روک دی‬
‫لیکن مصری قوم نے پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا۔ ان کے زعماء عربی کی باال‬
‫دستی کے لیے اٹھ کھڑ ے ہوئے اور نئی نسلوں کا ذمہ خود لے لیا۔ اس طرح عربی‬
‫زبان کے حقوق دوبارہ سے بحال ہو گئے سلسلہ پھر وہیں سے جاری ہوگیا۔‬

‫فرانسیسی تسلط کے نتیجے میں محمد علی کے جذبہ آزادی کااثر یہ ہوا کہ مصر اور‬
‫لبنان میں مغرب سے آنے والے علم کی روشنی پھیل گئی چنانچہ اس روشنی کے‬
‫پیچھے وہ وسائل علمی بیداری اورثقافتی نشوونما کے لیے بہت مفید ثابت ہوئے۔ان‬
‫میں اہم وسائل یہ تھے۔‬

‫مدارس‪ ،‬مغرب کو وفود کی ترسیل اور مغربی زبانوں کی تعلیم‪ ،‬جامع ازہر (‪۸۱۸‬ء)‬
‫میں قائم کی‪ ،‬جامعہ مصریہ ( ‪۱۸۰۱‬ء) چھاپے خانے ‪،‬صحافت ‪ ،‬ادبی اکیڈمیاں یہاں‬
‫انگریزی اور فرانسیسی زبان ذریعہ تعلیم کے طور پر رائج نہ ہو سکی اس لیے ذریعہ‬
‫تعلیم عربی ہی رہا۔ عربی نے ہر طرح کے علم و فنون کو اپنے اند رسمیٹا۔اب عربی‬
‫ادب کے اس نئے دور اور ترقی پسند دور کے حوالے سے بات کی جائے گی۔‬
‫اہل قلم اور ادباء‪:‬‬

‫جمال الدین افغانی ( م ‪۱۱۸۹‬ء)جمال الدین عرب نہیں تھے اور عربی زبان و ادب میں‬
‫بھی انہوں نے کوئی خصوصی تعلیم حاصل نہیں کی تھی ۔اس لیے جو زبان وہ لکھتے‬
‫تھے اس میں فصاحت کا کوئی بلند معیار نہیں پایا جا تا تھا۔ انہوں نے خود تو ادب‬
‫تخلیق نہ کیا ۔ وہ اد یب نہیں البتہ ادیب گر تھے ۔عربی تقاریر دآل ویز عربی لہجے میں‬
‫کرتے تھے۔ ان کی تصنیف صرف ایک عربی رسالہ ہے۔ وہ ایک ملک میں جاتے اور‬
‫کچھ عرصہ بعد وہاں سے نکال دیے جاتے ۔ آخر کار استنبول واپس آگئے اور یہیں‬
‫سرطان کی وجہ سے وفات پائی۔‬

‫شیخ محمد عبدہ( م ‪۶۲۱۰‬ء)‪:‬‬

‫مصر کے مشہو ر مفکر ‪ ،‬عالم‪ ،‬ادیب ‪ ،‬انشاپرداز اور جدیدادبی بیداری کے بانیوں میں‬
‫سے ایک تھے۔ انہوں نے قرآن کی تفسیر کا ایک نیا طرز نکاال جس سے آیات کے‬
‫مطالب کو عقل و فلسفے کے تقاضوں کےقریب النے کی کوشش کی گئی۔‬

‫محمد رشید رضاء (م ‪۶۲۳۰‬ء)‪:‬‬

‫عربی ادب میں ان کا مقام یہ تھا کہ وہ صحیح اور بلیغ عربی نثر لکھتے تھے مضامین‬
‫چاہے دینی ہو ں یا اصالحی ان کی عربی نثر میں ادبی چاشنی پائی جاتی تھی۔‬

‫قاسم امین (م ‪۶۲۱۸‬ء)‪:‬‬

‫وہ ایک انقالبی تھا جس نے مسلم عورت کی آزادی کے حق میں آواز اٹھائی اس‬
‫صورت حال کی اصالح کے لیے ’’ تحریر المراۃ‘‘ (عورت کی آزادی) کے عنوان‬
‫سے کتاب لکھی ۔ عورت کی تعلیم اور پردے سے نجات پر زور دیا۔ اس کے لیے‬
‫شریعت سے دالئل پیش کیے۔ اس کتا ب کی تائید کم لوگوں نے کی لیکن مخالفت زیادہ‬
‫لوگوں نے کی ۔ اس نے اس کے جواب میں دوسری کتاب المرأۃ الجدیدہ (جدید عورت)‬
‫لکھ دی اور اپنے مخالفین کے اعتراضات کا جواب دیا۔‬
‫جرجی زیدان ( م ‪۶۲۶۲‬ء)‪:‬‬

‫وہ کوئی محقق نہ تھا اور نہ عربی کا کوئی بڑا ادیب تھا اس نے متعدد اور مختلف قسم‬
‫کے مباحث کو لوگوں تک پہنچایا اور عربوں کو تلقین کی کہ یورپ کے ارتقا یافتہ‬
‫طریق کار‪ ،‬تاریخ اور ادب پر بھی توجہ کریں۔‬
‫مصطفی لطفی المنفلوطی ( م ‪۶۲۹۲‬ء)‪:‬‬

‫بہت عمدہ نثر نگار اور اچھا شاعر تھا۔ پاکستان میں اس کی کتابیں ایم اے عربی کے‬
‫نصاب میں شامل رہی ہیں۔ منفلوطی کی ادبی حیثیت کے قائم رہنے کی راہ میں دو‬
‫رکاوٹیں حائل ہوئیں اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کے لیے اس میں طاقت ور اظہار‬
‫کی کمی تھی اور دوسرے اس کی تعلیم بہت محدود تھی۔(ص‪ ۳۸۶‬تا ‪)۴۰۱‬‬

‫بیسویں صدی کے درمیانی عرصے میں مصر کے ادبی افق پر علم اور ادب اور تنقید‬
‫میں بہت قابل قدر اور باقی رہ جانے واال کام کیا ان میں چار نام خصوصیت کے ساتھ‬
‫قابل ذکر ہیں۔‬

‫احمد امین ( م ‪۶۲۰۲‬ء)‪:‬‬

‫مصری فاضل اور مصنف قاہرہ میں پیدا ہوا ۔ اس کی اہم تصنیف دسویں صدی عیسوی‬
‫کے تمدن اسالمی کی تاریخ ہے جوتین حصوں میں ہے اس میں پہلی مرتبہ بڑے‬
‫پیمانے پر تنقید و تحقیق کا طریقہ استعمال کیا گیا ہے۔‬

‫طہٰ حسین (م ‪۶۲۷۳‬ء)‬

‫عالم عرب کا نہایت ممتا ز ‪ ،‬مشہور و معروف ادیب‪ ،‬نقاد اور انشاء پرداز اس نے اس‬
‫دور کی کئی نسلوں کو اپنے علم ‪ ،‬افکار ‪ ،‬تنقید اور نثری اسلوب سے متاثر کیا ۔ چھ‬
‫سال کی عمر میں نور بصارت سے محروم ہو گیا اس نے جاہلی شاعری کے حوالے‬
‫سے جورائے پیش کی اس سے اس کے خالف تشنیع و مذمت کا طوفان کھڑا ہو گیا۔‬
‫وہ ذہنی طور پر معتزلہ کے افکار سے بھی متاثر تھا۔اس کی رہنمائی میں قاضی‬
‫عبدالجبار المعتزلی ( م ‪۱۰۱۴‬ء)کی گراں قدر تصنیف المغنی معتزلی افکار کی دائرہ‬
‫ہوئی۔‬ ‫شائع‬ ‫میں‬ ‫جلدوں‬ ‫بیس‬ ‫ہے۔‬ ‫معارف‬
‫احمد حسن زیات ( م ‪۱۸۱۱‬ء)‬
‫جامع ازہر میں تعلیم پائی اپنے ہفتہ وار ادبی مجلے الرسالہ سے اس نے جدید عربی‬
‫ادب کی بہت خدمات انجام دیں ‪’’،‬تاریخ االدب العربی‘‘ جیسی گراں قدر کتاب تصنیف‬
‫کی۔ ادب ‪ ،‬تنقید ‪ ،‬تاریخ پر قابل قدر کتب تصانیف کیں۔‬

‫عباس محمود العقاد ( م ‪۶۲۱۲‬ء)‬

‫ادیب ‪ ،‬شاعر‪ ،‬نقاد ‪ ،‬مترجم اور سیاسی مقالہ نگار اس نے کوئی باقاعدہ تعلیم حاصل نہ‬
‫کی۔ اپنے شوق اور محنت سے علم حاصل کیا ۔ اس کی سیاست کسی خاص اصول یا‬
‫نظریے کی پابند نہ تھی جہاں فائدہ دکھائی دیتا وہیں شامل ہوجاتا اپنے قلم کی طاقت‬
‫سے بہت فائدہ اٹھاتا ۔ (‪ ۴۰۹‬تا ‪)۴۱۱‬‬

‫جدید عربی شاعری ‪:‬‬

‫جدید عربی شاعری کے نمائندہ شاعر درج ذیل ہیں‬

‫محمود سامی البارودی ( م ‪۶۲۱۲‬ء)‪:‬‬

‫بارودی قاہرہ میں پیداہوا ۔اسے کم عمری سے شاعری اور ادب پڑھنے کا شوق رہا‬
‫ہے۔ اس کا کالم قدماء کی طرح بدیع کے تکلفات سے پاک ہے۔‬

‫نمونہ کالم‪:‬‬

‫میرے گزرے ہوئے زمانے سے مجھے بچپن لوٹا دو اور کیا اجڑے ہوئے بالوں کی‬
‫سیاہی لوٹ کے آسکتی ہے۔اگر انسان کو اپنے انجام کی فکر ہوتی تو اس کے اخالق‬
‫حرص اور طمع سے کبھی ملوث نہ ہوتے۔ اسماعیل صبری ( م ‪۱۸۱۳‬ء)‬

‫مصر میں پیداہوا فرانس سے قانون کی تعلیم مکمل کی۔ واپس آ کر محکمہ انصاف میں‬
‫مالزمت کی۔ مالزمت سے فارغ ہونے کے بعد گھر میں مقیم ہو گیا آنے والوں کے‬
‫ساتھ ادب اور شاعری کے موضو ع پر گفتگو کرتا۔‬
‫نمونہ کالم‪:‬‬

‫خدا کو مخاطب کر کے کہتا ہے۔‬

‫اے رازوں کے جاننے والے میرے لیے یہ جاننا ہی بڑی آزمائش ہے کہ تو سب‬
‫رازوں کا جاننے واال ہے۔ (ص‪)۴۱۸‬‬

‫ان شعراء کے عالوہ احمد شوقی ( م ‪۱۸۳۱‬ء) حافظ ابراہیم ( م ‪۱۸۳۱‬ء) جمیل صدقی‬
‫الزہاوی (م ‪ )۱۸۳۱‬معروف الرصافی (م ‪ )۱۸۴۶‬خلیل مطران ( م ‪ )۱۸۴۸‬کا ذکر‬
‫مصنف کی کتاب عربی ادب میں مطالعے میں بعنوان عربی شاعری نئے دور میں ہو‬
‫چکا ہے۔ان سب نے اپنی شاعری کو ذریعہ ابالغ بنا کر اپنے نظریات و خیاال ت کو‬
‫عام لوگوں تک پہنچا نے کی ہر ممکن سعی کی جس کی پاداش میں انہیں بہت کچھ‬
‫برداشت کرنا پڑا جالوطن ہونا پڑا ۔‬

‫عربی ادب میں فکشن (افسانہ ‪ ،‬ناول ‪ ،‬ڈرامے) کا روج انیسویں صدی میں عرب ادباء‬
‫یورپ کے وسیلے سے افسانے کی اس صورت سے آشنا ہوئے اور انہیں یہ بہت‬
‫اچھی لگی۔‬

‫عربی زبان میں سب سے پہلے کسی حد تک کامیاب افسانہ محمود تیمور نے ‪۱۸۱۹‬‬
‫میں فی القطار کے نام سے لکھا ۔ و ہ فرانس کے موپاساں سے متاثر تھا۔ دوسرے‬
‫افسانہ نگار محمود طاہر الشین نے اپنے متعدد افسانوں کا خیال روس کے چیخوف‬
‫سے لیا۔‬

‫عربی افسانوں کے مجموعے درج ذیل ہیں۔‬

‫‪1‬۔ عیسی عبید کا احسان ھانم‬

‫‪2‬۔ شحاتہ عبید کا درس مولم‬

‫‪3‬۔ محمود تیمور کے نو مجموعے الشیخ جمعہ سے لے کر فرعون اصغیر تک‬


‫‪4‬۔ محمود طاہرالشین کا سخر یتہ الناس اور یحکی ان‬

‫‪5‬۔ نجیب محفوظ کا ھمس الجنون جو اس کا اولین مجوعہ تھا‬

‫عربی افسانے کے حوالے سے عربی ادب میں مطالعے میں بھی بحث کی گئی ہے۔‬

‫عربی زبان میں حرجی زید ان ( م ‪ )۱۸۱۴‬کے تاریخی ناول ابتدائی ناول ہیں اس کے‬
‫بعد محمد المویلحی (م ‪ )۱۸۳۰‬نے ناول کی طرز حکایات کا سلسلہ شروع کیا۔‬

‫عربی زبان میں پہال ناول محمد حسین ہیکل کا " زینب" ہے جو مصر میں ‪۱۸۱۳‬ء‬
‫میں شائع ہوا۔عربی میں درج ذیل اصناف میں ناول لکھے گئے‬

‫‪1‬۔ نفسیاتی تجزیے کے ناول۔‬

‫اس میں عیسٰ ی عبید کا " ثریا" محمود تیمور کا " رجب آفند ی اور االطالل‘‘ ٰ‬
‫طہ‬
‫حسین کا " ادیب" شامل ہیں۔‬

‫‪2‬۔ ذاتی تجربے کے ناول۔‬

‫ان میں ابراہیم عبدالقادر مازنی کا " ابراہیم لکاتب" عباسی محمود العقاد کا " سارہ" اور‬
‫دیگر شامل ہیں‬

‫‪3‬۔ معاشرتی طبقوں کے ناول۔‬

‫طہ حسین کا " دعاالکروان "‬


‫اس میں محمود طاہر الشین کا" حوا ء‪ ،‬بال آدم" اور ٰ‬

‫‪4‬۔ ذہنی ناول۔‬

‫یہ ناول کی خاص قسم ہے توفیق الحکیم کا ناول " عودۃ الروح" اس کی صحیح نمائند‬
‫گی کر تاہے۔‬

‫‪5‬۔ تاریخی ناول‬


‫اس میں محمد فرید ابوحدیدکا " ابنۃ المموک" اور نجیب محفوظ کا " عبث االقدار"‬
‫‪)۴۴۹‬‬ ‫‪،۴۴۱‬‬ ‫(ص‬ ‫ہیں۔‬ ‫ناول‬ ‫عمدہ‬
‫عربی ادب میں ڈرامے کے حوالے سے احمد شوقی اور توفیق الحکیم کی وجہ سے‬
‫ڈرا ما ایک صنف بن گیا ۔ ان کے ڈرامے عربی ادب کا حصہ پائے ۔ شوقی کے کل‬
‫سات ڈرامے لکھے سوائے ایک کے باقی سب منظوم تھے۔ توفیق الحکیم کے ڈرامہ‬
‫فن ڈرامانگاری کی معراج سمجھے جاتے ہیں۔ اس کے ڈراموں کا مجموعہ دو جلدوں‬
‫میں شائع ہوا۔‬

‫جدید عربی شاعری‬

‫اس حوالے سے مصنف بتاتا ہے کہ‬

‫‪۱۸۴۰‬ء کی دہائی کے آخری برسوں سے عربی شاعری میں چار بڑے رجحانات‬
‫غالب رہے۔‬

‫آزاد شاعری کی تحریک مجلہ شعر کی تحریک‬

‫حنر یران ( جون ‪ ۱۸۱۹‬کی شکست) کا تجربہ‬

‫بیروت پراسرائیلی غلبے کا تجربہ (ص ‪)۴۱۱‬‬

‫زمانہ حال کی شاعری میں انقالبی فکر ہے غصہ اور برہمی مزاحمتی رویہ جو‬
‫فلسطین کے المیے سے پیدا ہواْ‬

‫ان شعراء میں درج ذیل نام شامل ہیں۔‬

‫نزار قباتی‬

‫فدوی طوفان‬
‫ٰ‬

‫نازک المالئکہ‬
‫صالح عبدالصبور‬

‫بدر شاکر السیاب‬

‫عبدالوہاب البیاتی‬

‫سمیح القاسم‬

‫محمود درویش‬

‫آخر میں کہنا چاہوں گی کہ کوئی بھی صنف ایک ہی جگہ پر رک نہیں سکتی ۔ وقت‬
‫اور حاالت کے ساتھ ہر چیز تغیر پذیر ہوتی ہے۔ جمود سے مراد تو زندگی کاخاتمہ‬
‫ہے اگر انقالب بھی زندگی میں مثبت تبدیلی الئے تو زندگی تھکتی نہیں بلکہ شاداں و‬
‫خراماں آگے بڑھتی ہے لیکن جب انقالب اپنے ساتھ دکھوں کی چادر اوڑھ کر آئے‬
‫اور خون ریزی کا پیغام الئے تو یاس و برہمی کا رویہ خود بخود زندگی کے ہر پہلو‬
‫میں در آتا ہے۔‬

‫عربی شاعری جس کا آغاز قبل از اسالم محض تفریح اور طرب و نشاط سے ہوا لیکن‬
‫ارتقائی منزل کرتے ہوئے یاس والم کی آوازبن گئی۔بہت سے مدرس اور معلم تو‬
‫موجود ہیں جو اپنے شاگردوں کے لیے کسی بھی زبان کی شعرو ادب کی تنقید کی‬
‫تاریخ لکھ دیتے ہیں مگر محمد کاظم جیسے ادیب بہت کم ہیں جو اپنے شوق سے ایک‬
‫زبان سیکھیں اور پھر اس کی ادبی تاریخ اس زبان کے طالب علموں کے لیے نہیں‬
‫بلکہ اردو ادب کے با ذوق لوگو ں کے لیے لکھ ڈالیں۔‬

‫بہت سے معلم اور مدرس تو موجود ہیں جو اپنے شاگردوں کے لئے کسی بھی زبان‬
‫کی شعر و ادب کی تن قید کی تاریخ لکھ دیتے ہیں مگر محمد کاظم جیسے ادیب بہت کم‬
‫ہیں جو اپنے شوق سے ایک زبان سیکھیں اور پھر اس کی ادبی تاریخ اس زبان کے‬
‫طالب علموں کے لئے نہیں بلکہ اُردو ادب کے باذوق لوگوں کے لئے لکھ ڈالیں۔‬

‫کل کی بات محمد کاظم‬


‫عام طور پر کتابوں کے تبصروں کو دُنیائے تنقید بہت زیادہ اہمیت نہیں دیتی مگر‬
‫میرے نزدیک محمد کاظم کی کتاب "کل کی بات "(جائزے اور تبصرے) کی اہمیت‬
‫تین اسباب کی بنیاد پر ہے۔‬

‫‪ 1‬۔ یہ تبصرے فنون الہور میں شائع ہوئے اور احمد ندیم قاسمی کی ادارت میں شائع‬
‫ہونے والے اس جریدے کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں خطوط اور تبصرے بھی‬
‫خانہ پُری کے لیےنہیں ہوتے تھے بلکہ علمی نکات موجود ہوتے تھے ۔‬

‫‪ 2‬۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ محمد کاظم کی وسعت مطالعہ ‪ ،‬عالمانہ سنجیدگی اور‬
‫علمی وقار ہے کہ وہ کسی کتاب کو سرسری مطالعے یا رائے کے لیے منتخب نہیں‬
‫کرتے۔‬

‫‪3‬۔ تیسری بات یہ ہے کہ وہ رائے دیتے ہوئے کسی بھی اپنے قریبی دوست یا کسی‬
‫بڑے عالم سے مرعوب نہیں ہوتے تھے ۔ یہ اور بات کہ وہ ایسے موقعے پر ایک‬
‫لطیف پیرایہ طنز کا اختیار کرتے ہیں ۔ یہ محمد کاظم کا وہ انداز ہے کہ جس کی‬
‫خاطر انہوں نے اس کتاب میں شامل دو مضامین میں سے آخری دو کے لیے عنوان‬
‫ہی ظریفانہ تبصرے تجویز کیا ہے۔‬

‫‘‘ کل کی بات"یہ ان تبصروں اور جائزوں کا مجموعہ ہے جو علم و ادب ‪ ،‬تاریخ‬


‫‪،‬ثقافت ‪،‬سوانح اور دوسرے موضوعات پر شائع ہونے والی کتابوں پر "فنون"کے لیے‬
‫لکھے تھے ۔‪ 481‬صفحات پر مشتمل یہ کتاب القا پبلی کیشنز کی طرف سے پہلی بار‬
‫‪ 4161‬میں شائع ہوئی ۔کتاب کا آغاز فہرست سے ہوتاہے ۔اس کے بعد محمد کاظم کی‬
‫زندگی کے حوالے سے جستہ جستہ معلومات ہیں پھر پیش لفظ ہے جس میں مصنف‬
‫نے اس کتاب کے حوالے سے مختصرا ً اظہار خیال کیا ہے ۔ تبصروں کے اس سلسلے‬
‫کا آغاز ‪6712‬ء سے ہو کر چالیس برسوں پر محیط ہے۔‬

‫محمد کاظم طبعا ً جو شیلے آدمی نہیں تھے اس لیے ان کے تبصروں میں بھی عموما ً‬
‫دھیما پن اورٹھہراؤ ہے ۔ان کا مقصد خالصتا ً قاری کے علم میں اضافہ اور سوچ میں‬
‫وسعت پیدا کرنا ہے۔‬
‫یہ کتاب تیس تبصروں پر مشتمل ہے ۔ زیر تبصرہ کتب مختلف موضوعات کا مجموعہ‬
‫ہیں۔‬

‫شامل کتاب پہالتبصرہ مسعود حسن شہاب کی کتاب "خواجہ غالم فرید"پر ہے ۔‬
‫‪148‬صفحات پر مشتمل یہ کتاب اُردو اکادمی بہاولپور سے شائع ہوئی اس کی قیمت‬
‫‪1‬روپے ہے۔ یہ تبصرہ فنون کے شمارہ اپریل ‪ ،‬مئی ‪۱۸۱۴‬ء‪ ،‬ص‪ ۴۹۰‬تا ‪ ۴۹۳‬میں‬
‫شائع ہوا۔ کتاب پر تبصرہ سے پیشتر تبصرہ نگار نے عالقائی ادب کے پس منظر ‪،‬‬
‫روایت اور مقتدر عالقائی شخصیات کے فن پر مختصرا ً بات کی ہے ۔ اس کے بعد‬
‫خواجہ غالم فرید پر تحریر کردہ کتب کا ذکر ہے ۔" مناقب فریدی"‬

‫یہ کتاب بہادرشاہ ظفر کے پوتے مرزا احمد اختر نے تصنیف کی ۔ دوسری کتاب‬
‫"گوہر شب چراغ"ان کی وفات کے بعد شائع ہوئی جو ان پر اُردو میں اولین کتاب‬
‫سمجھی جاتی ہے ۔ اس کے بعد "دیوان فرید"شائع ہوا جس میں خواجہ صاحب کا‬
‫مفصل سوانحی خاکہ بھی شامل ہے ۔ اس کے عالوہ " ہفت انقالب"اور "فقر فرید"بھی‬
‫حوالے کی کتابیں ہیں۔‬

‫زیرتبصرہ کتاب ‪6711‬ء میں شائع ہوئی ۔بیس ابواب پر مشتمل اس کتاب کے تمام‬
‫ہے۔‬ ‫گیا‬ ‫لیا‬ ‫سے‬ ‫نگاہی‬ ‫ژرف‬ ‫جائزہ‬ ‫کا‬ ‫عنوانات‬
‫تبصرہ نگار نے مصنف کتاب کی شخصیت و فن پر مختصرا ً بات کی ہے ۔ صاحب‬
‫تبصرہ نے خواجہ صاحب کی شخصیت کے مخفی گوشوں کو اُجاگر کرنے کے لیے‬
‫اُن کے اشعار بھی بطور حوالہ پیش کیے ہیں۔ خواجہ صاحب کی شخصیات کے اہم‬
‫پہلو فقر‪ ،‬درویشی اور تصوف ہیں۔ تبصرہ نگار نے مصنف کی اس اخالقی جرات کو‬
‫متصوف شخصیت کی‬
‫ّ‬ ‫خراج تحسین پیش کیا ہے کہ اس نے خواجہ صاحب جیسی‬
‫زندگی کے رومان کے حوالے سے ایک باب تحریر کیا ہے کہ انہیں فی الحقیقت روہی‬
‫کی دوشیزہ سے عشق ہوا جس کی خاطر وہ اٹھارہ سال ریگستان میں ڈیرے ڈالے‬
‫رہے۔‬
‫مبصر نے مصنف کے خیاالت سے اختالف کرتے ہوئے انہیں عام فہم انداز میں پیش‬
‫کیا ہے اور خواجہ صاحب کی شاعری میں حسن پرستی ‪ ،‬دردمندی اور موسیقیت کے‬
‫پہلو کو اُجاگر کیا ہے۔‬

‫آخر میں تبصرہ نگار نے اُردواکادمی بہاولپورکو اس کتاب کی اشاعت پر مبارک باد‬
‫دی ہے کہ اس سے خواجہ صاحب کی شخصیت کے گمنام گوشے منظر عام پر‬
‫آگئے۔‬

‫شامل کتاب دوسرا تبصرہ "اسالمی ریاست"(ایک تاریخی جائزہ) پر ہے ۔ اس میں‬


‫تبصرہ نگار بتاتا ہے کہ یہ کتاب اصل میں انگریزی میں ڈاکٹر امیر حسن صدیقی نے‬
‫لکھی تھی جو لندن یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی ہیں اُن کے شاگر د نثاراحمد نے اس کا‬
‫اُردو ترجمہ کیا اور اس پر مناسب اضافہ کے بعد مفصل حواشی بھی لکھے۔‬
‫لکھا۔‬ ‫نہیں‬ ‫اشاعت‬ ‫سن‬ ‫کا‬ ‫کتاب‬ ‫اس‬ ‫مشتمل‬ ‫پر‬ ‫‪141‬صفحات‬
‫تبصرہ نگار نے زیر موضوع کتاب کے موضوع ‪ ،‬اسلوب اور فکر کا جائزہ لیا ہے‬
‫لیکن تبصرے سے قبل اس نے ظہور اسالم سے پہلے عرب معاشرے کے اس‬
‫لغوتصور کی نفی کی ہے کہ عرب معاشرے میں جہالت کا دوردورہ تھا ۔فاضل مبصر‬
‫کہتا ہے کہ عرب معاشرہ مکمل قبائلی نظام کے ساتھ قواعد و ضوابط پر کاربند تھا ۔‬
‫پھر وہ کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اسلوب عالمانہ اور محققانہ ہے اور‬
‫حقائق کو مع روضی انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔کتاب کا موضوع‬
‫اسالمی ریاست ہے اس لیے اس کی ابتداء اور خصوصیات سے بحث کی ہے ۔ اس‬
‫کے مختلف ادوار اورتغیرات و تبدل کو حقائق کی روشنی میں جانچا گیا ہے ۔ کتاب‬
‫کے مندرجات پر تحقیق سے بات کی ہے۔‬

‫تبصرہ نگارکانقطہ نظروسعت کا حامل ہے اس لیے جو موضوعات مندرجات میں‬


‫شامل نہیں ہیں لیکن موضوع سے متعلقہ ہیں اسی حوالے سے سوال اٹھاتے ہوئے‬
‫فاضل مبصر کہتا ہے کہ اسالمی ریاست جو اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ صرف‬
‫پہلی صدی ہجری کے کچھ عرصے تک قائم رہی ۔ موجودہ زمانے میں اس کی تشکیل‬
‫کس حد تک ممکن ہے؟ وہ خود ہی اس کا جواب یوں دیتا ہے کہ اب صورتحال‬
‫غیریقینی دکھائی دے رہی ہے ۔ اس کی وجہ وہ یہ بیان کرتا ہے کہ عالم اسالم خود‬
‫شکستگی اور داخلی انتشار کا شکار ہو چکا ہے ایسی صورت میں اسالمی ریاست کا‬
‫مطالعہ فکراور جذبے کے لیے محرک ثابت ہو سکتا ہے لیکن یہ پیش قدمی بھی‬
‫الحاصل ثابت ہو رہی ہے ۔ اس سلسلے میں محققین و مورخین کا جذبہ عمل ہی ان‬
‫تنظیموں کی تحقیق کر سکتا ہے کہ اس اندرونی خلفشار کی کیا وجہ ہے ؟ کیا چیز‬
‫منزل کی رسائی میں مانع ہے ؟ وہ مصنف کی توجہ اس پہلو کی جانب مبذول کرواتے‬
‫ہوئے کہتا ہے کہ اس پر تھوڑی سی بحث ہونی چاہیے تاکہ اگلے ایڈیشن میں تشنگی‬
‫کا یہ احساس ختم ہو جائے۔‬

‫البتہ تبصرہ نگار نے کچھ ایسے جملوں کی نشاندہی کی ہے جن کا اسلوب معیاری‬


‫نہیں ہے ۔ مثال کے طور پر وہ کچھ جملے بیان کرتا ہے۔‬

‫’’یہ دنیا کے سب سے بڑے سیاستداں محمد عربی ؐتھے‬


‫جنہوں نے حیرت انگیز کارنامے انجام دیے‘‘(ص ‪64‬کل‬
‫کی بات ۔ محمد کاظم)‬

‫کتاب میں زبان و بیان کی چھوٹی چھوٹی فروگزاشتوں کی طرف قاری اور مصنف کو‬
‫متوجہ کیا ہے ۔ آخر میں تبصرہ نگار امید کرتا ہے کہ اگال ایڈیشن ان اغالط سے پاک‬
‫ہو گا ۔ وہ کتاب کو ایسے نوٹس کا مجموعہ قرار دیتا ہے جو بلحاظ موضوع انتہائی‬
‫ہیں۔‬ ‫قیمتی‬
‫زیر موضوع کتاب میں شامل تیسرا تبصرہ "دبستان غالب"پر ہے ۔ مصنف ناصرالدین‬
‫اعلی ایڈیشن کی قیمت‬
‫ٰ‬ ‫ناصر۔ ‪211‬صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت ‪69‬روپے اور‬
‫‪ 49‬روپے ہے ۔ مکتبہ الفتح شارع عالمہ اقبال الہور سے شائع ہونے والی کتاب کے‬
‫سن اش اعت کا ذکر بین السطور کیا گیا ہے ۔ یہ فنون کے شمارہ ‪ ۱،۱‬نومبر ‪،‬‬
‫ہوا۔‬ ‫شائع‬ ‫میں‬ ‫‪۶۱۶‬‬ ‫تا‬ ‫‪۶۱۳‬‬ ‫میں‬ ‫دسمبر‪۱۸۱۸‬ء‬
‫زیر نظرکتاب پر تبصرہ سے پہلے مبصر نے غالب کی برسی کے حوالے سے ہونے‬
‫والی تقریبات اور تحقیق و تصنیف کا مختصرا ً جائزہ لیا ہے ۔ صدسالہ برسی کے‬
‫سلسلے میں غالب پر ہونے والے تصنیفی کام کی ایک کڑی یہ کتاب "دبستان‬
‫غالب"ہے اس کے مندرجات پر بحث کرتے ہوئے تبصرہ نگارکہتا ہے کہ کتاب تین‬
‫حصوں پر مشتمل ہے۔‬

‫پہال حصہ غالب کے حاالت زندگی پر ہے اس میں اس کے مکاتیب کے حوالے بھی‬


‫ہیں۔‬

‫دوسرا حصہ کالم غالب پر مشتمل ہے جس میں موضوعاتی لحاظ سے دوسرے بڑے‬
‫ہے۔‬ ‫گیا‬ ‫لیا‬ ‫جائزہ‬ ‫تقابلی‬ ‫کا‬ ‫کالم‬ ‫کے‬ ‫شعرا‬
‫تیسرا حصہ "عقدہ ہائے مشکل"کے عنوان سے شامل ہے اس میں کالم غالب کے‬
‫پیچیدہ اشعار کی شرح پچھلی شرحوں کے پس منظر میں کی گئی ہے۔‬

‫موضوعات کے بعد مبصر مصنف کی فکر اور اسلوب کا جائزہ لیتا ہے کہ اس میں‬
‫تحقیقی لب و لہجے کا فقدان ہے اور عقیدت مندانہ نقطہ نظر حاوی نظر آتا ہے اس‬
‫سے کتاب کا اسلوب دلچسپ ہو گیا ہے اور یہ قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے‬
‫اور وہ اسے پڑھے بغیر نہیں چھوڑتا۔‬

‫غالب کی وسیع المشربی کے حوالے سے مصنف کی کوششوں کو سراہتا ہے کہ اس‬


‫سے غالب کی زندگی کا ایک انوکھا پہلو سامنے آتا ہے اس کی وضاحت وہ کتاب کے‬
‫اس حوالے سے کرتا ہے۔‬

‫’’پروفیسر حمید احمد خاں صاحب نے بگا بیگم صاحبہ‬


‫متبنی مرزا عارف کی بہو اور مرزا کے جگری‬
‫ٰ‬ ‫(مرزا کے‬
‫دوست نواب ضیاء الدین خاں کی بیٹی مئی ‪6729‬ء میں‬
‫‪71‬برس کی عمر میں انتقال کیا) سے مرزا کے مذہب کے‬
‫متعلق سوال کیا تو وہ بولیں اُن کے مذہب کا کیا ٹھکانا؟ جہاں‬
‫بیٹھے اسی مذہب کے ہو گئے ۔ بگابیگم صاحبہ کا یہ جملہ‬
‫مرزا کے مذہب کی جس قدر جامع تعریف شائد کوئی ضخیم‬
‫کتاب بھی اس کا حق ادا نہ کر سکے ۔ درحقیقت جس انسان‬
‫کا مذہب ہی انسانیت ہو وہ اللہ میاں کے کس انسان کو‬
‫ناراض کر سکتا ہے۔ مرزا غالب زندگی بھر اسی مسلک‬
‫انسانیت کے پیروکار رہے اور اسی لیے کسی خاص مذہبی‬
‫مسلک کی پوری طرح پیروی نہ کر سکے‘‘۔ (ص ‪ ،61‬کل‬
‫کی بات)‬

‫تبصرہ نگار اس پر مزید روشنی ڈالتا ہے کہ جب تک انسان کا ذہن ایک خاص سطح‬
‫تک رہتا ہے وہ کسی ایک مذہب پر کاربند رہتا ہے لیکن جب فکری سطح بلند ہو جاتی‬
‫ہے تو وہ ان پابندیوں سے آزاد ہو جاتا ہے۔‬

‫ابتدائی دور میں مرزا کا کالم مشکل پسندی کی طرف مائل تھا لیکن بعد میں انہیں خود‬
‫ہی احساس ہو گیا اس لیے انہوں نے وہ اشعار حذف کر دیے اور نمونے کے طور پر‬
‫دس پندرہ اشعار دیوان میں رہنے دیے لیکن تبصرہ نگارکہتا ہے کہ نیازفتح پوری نے‬
‫مشکالت غالب میں چارسواشعار اُن کے دیوان سے نکالے اور زیر نظر کتاب میں‬
‫دوسوکے قریب اشعار مشکل پسندی کے زمرے میں آتے ہیں۔‬

‫اس حصے میں ان مشکل اشعار کی تشریح کا جائزہ تقابلی انداز سے لیا گیا ہے تبصرہ‬
‫نگار کتاب کی ترتیب و اشاعت کے حوالے سے معترض ہے کہ ناشر اور سن اشاعت‬
‫کا کہیں اندراج نہیں ہے ۔ ترتیب ادبی سلیقے سے خالی ہے فہرست پہلے آتی ہے اور‬
‫انتساب بعد میں ۔انتساب قاری کے اندر ایک خاص طرح کا تجسس پیدا کرتا‬
‫ہے۔ ‘‘انسان کی زندگی میں ایسا وقت بھی آتا ہے کہ وہ ُحسن کی بارگاہ میں کوئی‬
‫شایان شان تحفہ پیش کرنا چاہتا ہے’’۔ تبصرہ نگار اس حوالے سے ظریفانہ انداز میں‬
‫کہتا ہے۔‬

‫’’یہ جملہ پڑھ کر میں تھوڑی دیر کے لیے چونکا کہ بڑا‬


‫جرات مندانہ انتساب معلوم ہوتا ہے اور تجسس کے ساتھ‬
‫آگے بڑھا کہ اب ُحسن کی شخصیت پر سے پردہ اٹھایا‬
‫جائے گا لیکن ُحسن کی بارگاہ مصنف کے استاد میاں محمد‬
‫شفیع صاحب نکلے‘‘۔ (ص ‪،67‬کل کی بات)‬
‫ترتیب و اشاعت کے حوالے سے کتاب میں چھوٹی چھوٹی فروگزاشتیں ضرورہیں‬
‫لیکن مواد کی فراہمی کے سلسلے میں یہ ایسی کتاب ہے جو ایک ہی جلد میں قاری کو‬
‫غالب کے متعلق اتنی معلومات دیتی ہے ۔‬

‫زیر موضوع کتاب میں چوتھا تبصرہ "بنگال میں اُردو" پر ہے ۔ مصنف وفاراشدی‪،‬‬
‫‪9‬روپے‬ ‫قیمت‬ ‫‪،471‬‬ ‫صفحات‬
‫مکتبہ اشاعت اُردو ‪ ،‬حیدر آباد پاکستان ۔ سن اشاعت نہیں ہے۔‬

‫بین السطور یہ تذکرہ کیا ہے کہ اس کتاب کو شائع ہوئے کافی عرصہ ہو چکا ہے ۔‬

‫تبصرہ نگار مصنف وفاراشدی کا مختصرا ً تعارف کرواتا ہے کہ وہ بنگالی نژاد ادیب‬
‫اور شاعر ہیں جو طویل عرصے سے مغربی پاکستان میں مقیم ہیں ۔ تبصرہ نگار کا‬
‫تعلق ایک صاحب فکر ادبی گروہ سے تھا اس لیے ان کی فکر میں ایک خاص طرح‬
‫کی وسعت ہے اور ان کی حس مزاح بھی باکمال ہے جو اس تبصرے کے دوران‬
‫مختلف مواقع پر ملتی ہے۔‬

‫زیر تبصرہ کتاب کا مصنف اور ناشر ایک ہی وجود کے دونام ہیں اس لیے کتاب کا‬
‫آغاز معمول سے ہٹ کر ہوتا ہے ۔ مصنف کے ادیب قلم کار دوست اور مختلف اخبار‬
‫و رسائل کے حوالوں سے تعارف کرواتے ہیں ۔‬

‫’’وفاراشدی میں تالیف کا سلیقہ ہے‬

‫وفاراشدی ایک پُرجوش اور اور خوش فکر شاعر ہے ۔‬

‫وفار اشدی کے انتخاب اور انداز میں ایک پختگی ہے۔‬

‫وفاراشدی جواں فکروجواں سال مؤلف بذات خود ایک‬


‫معروف شاعر و ادیب ہے‘‘۔ (ص ‪ ،46‬کل کی بات)‬

‫اس کے بعد تعارف میں بھی تعریف مبالغہ آرائی کی حدوں کو چھوتی نظر آتی ہے ۔‬
‫مبصر صرف اس بات پر معترض ہے کہ اتنی تعریفات کے بعد تصنیف زیر نظر کا‬
‫مواد اس معیار کا حامل نہیں جتنی اس سے توقع کی جاتی ہے ۔ کتاب کا عنوان "بنگال‬
‫میں اُردو"اندرونی مواد کے منافی ہے۔ تبصرہ نگار اس کا نیا نام "بنگال میں اُردو کے‬
‫شعراء و ادباء"تجویز کرتا ہے کیونکہ اس میں نصف سے زائد حصے میں تقریباًدو‬
‫سو شعراء ادباء کا تذکرہ مع نمونہ کالم شامل ہے ۔‬

‫آغا حشر کا شمیری بنگال کی نامور ادبی شخصیت کا تعارف بطور نمونہ پیش ہے۔‬

‫’’آغا حشر کاشمیری کی ابتدائی تعلیم و تربیت اسالمی رواج‬


‫کے مطابق ہوئی ۔ قرآن مجید اور فارسی وعربی کا درس‬
‫گھر پر مکمل کیا ۔ بنارس کے جے نرائن ہائی سکول میں‬
‫آٹھویں جماعت تک انگریزی کی تعلیم سے آراستہ ہوئے۔‬
‫اپنی خداداد ذہانت اور غیر معمولی ذوق و شوق کے باعث‬
‫درسی کتابوں کے قید و بند سے آزاد ہوگئے ۔ بطور خود اتنا‬
‫مطالعہ کیا کہ فارسی ‪ ،‬عربی ‪،‬اُردواور ہندی زبانوں پر‬
‫یکساں قدرت حاصل کر لی ۔ انگریزی لٹریچر سے بھی‬
‫خاص شغف تھا جس کا ثبوت ان کے ترجمہ شدہ ڈراموں‬
‫سے بخوبی ملتا ہے‘‘۔ (ص‪ ،44‬کل کی بات)‬

‫اس تذکرے سے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ آغا صاحب کے ڈراموں میں اسالمی‬
‫جوش و خروش کی وجہ ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت ہے جو اسالمی رسم و رواج کے‬
‫مطابق ہوئی ۔ شائد اسی لیے وہ ہندو سکول میں آٹھویں جماعت سے آگے تعلیم سے‬
‫آراستہ ہونا گوارا نہ کر سکے۔‬

‫کتاب میں ایک اور تذکرہ بنگال کے مشہور قلم کار مزاح نگار سیّد محمد آزاد کا ہے‬
‫جن کا شمار اُردو ادب کے چند اچھے مزاح نگاروں میں ہوتا ہے ۔ کتاب میں شامل‬
‫پانچواں تبصرہ "امانت"(چارایکٹ میں اسٹیج ڈرامہ) پر ہے اس کے لیکھک اصغر بٹ‬
‫‪624،‬صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت ‪9‬روپے ہے ۔ ریلیکا پبلی کیشنز صدر‬
‫کراچی سے شائع ہوئی لیکن سن اشاعت ندارد! یہ فنون کے شمارہ اکتوبر ‪ ،‬نومبر‬
‫ص‪ ۶۳۹‬تا ‪ ۶۴۴‬میں شائع ہوا۔‬
‫زیر نظر کتاب پر تبصرہ سے پہلے تبصرہ نگار اسٹیج ڈرامہ کی اہمیت و پس منظر‬
‫کے حوالے سے اپنے خیاالت کا اظہار کرتا ہے۔ اس کے مطابق وہ وقت آگیا ہے جس‬
‫کے انتظار میں ہمارا ڈرامہ نگار اصغر بٹ تھا کیونکہ اس نے اپنی کتاب کے پیش‬
‫لفظ میں تھیٹر کے احیاء کا وقت کہا ہے ۔ انہوں نے اس وقت کا خیرمقدم یہ طویل‬
‫ڈرامہ لکھ کر کیا ہے۔ اس طویل ڈرامے کا جائزہ لیتے ہوئے تبصرہ نگار سب سے‬
‫دورخاپن اس‬
‫پہلے اس کے موضوع کے حوالے سے بات کرتا ہے کہ کیمو فالج اور ُ‬
‫کا موضوع ہے جس کی وجہ سے انسانی شخصیتوں میں اتنی پیچیدگی درآئی ہے کہ‬
‫انہیں سمجھنا مشکل ہو گیا ہے۔‬

‫یہ سنجیدہ نوعیت کا ڈرامہ ہے اور اس میں قارئین اور ناظرین کے لیے ایک پیغام‬
‫پوشیدہ ہے ۔ نوجوان نسل بے راہ روی کا شکار کیوں ہو جاتی ہے ؟ اس پر اثرانداز‬
‫ہونے والے عوامل میں والدین کا رویہ اور ماحول دونوں شامل ہیں۔ ڈرامے کے‬
‫مرکزی کردار چارہیں۔ میمونہ ‪ ،‬ہاشم‪ ،‬شیریں گل اور مرزاصاحب۔‬

‫موضوع بالکل سادہ اور عمومی نوعیت کا ہے۔ معنوی گہرائی سے قطع نظر اس میں‬
‫کوئی انوکھا پن نہیں ہے۔‬

‫اٹھارہ سالہ خوبصورت میمونہ انشورنس کمپنی کے ایجنٹ ہاشم کی ظاہر ی چمک‬
‫دمک سے متاثر ہو کر سوتیلی والدہ سے اپنی مرحومہ ماں کے زیورات لے کر گھر‬
‫سے بھاگ جاتی ہے ۔ میمونہ کا والد پولیس لے کر پہنچ جاتا ہے اور ہاشم کو پکڑ لیتا‬
‫ہے جبکہ میمونہ موقع پا کر فرار ہو جاتی ہے اور ہاشم کے دوست شیریں گل کی‬
‫طرف روا نہ ہو جاتی ہے جہاں اس نے اور ہاشم نے جاکر نکاح کرنا تھا ۔‬
‫اس کے بعد شیریں گل کے جنگالت کے ریسٹ ہاؤس میں ٹھہر جاتی ہے اور وہ اسے‬
‫اپنے دوست کی امانت سمجھ کر اس کی حفاظت کرتا ہے ۔ شیریں گل ایک کم گو اور‬
‫شریف انسان تھا ۔ اسی دوران ایک مزاحیہ کردار مرزا صاحب جو محکمہ جنگالت‬
‫میں افسر ہے نمودار ہوتا ہے ۔ شیریں اس کو ناپسند کرتا ہے کیونکہ شیریں کی‬
‫محبوبہ کی شادی اس سے خالف مرضی ہوئی تھی اور وہ یہاں اس کے پاس جلد ہی‬
‫وفات پاگئی۔ مرزا صاحب میمونہ سے بہت جلد بے تکلف ہوجاتے ہیں لیکن شیریں گل‬
‫سے جھڑپ کے دوران وہ میمونہ پر بھی بے ہودہ الزام لگانے سے گریز نہیں کرتے‬
‫ہے۔‬ ‫لگتی‬ ‫کرنے‬ ‫نفرت‬ ‫سے‬ ‫ان‬ ‫میمونہ‬ ‫بعد‬ ‫کے‬ ‫اس‬
‫ایکٹ کے آخری حصے میں ہاشم ایک دفعہ پھر نظرآتا ہے وہ میمونہ سے کہتا ہے کہ‬
‫وہ جس طرح گھر سے آئی تھی اسی طرح زیورات لے کر واپس چلی جائے تاکہ اس‬
‫طرح ہاشم کے کردار کی بے گناہ ی ثابت ہو جائے ۔ میمونہ یہ سن کر بہت ناراض ہو‬
‫تی ہے کیونکہ اب اس پر ہاشم کی خودغرضی اور مکاری واضح ہو تی ہے اب وہ‬
‫اس کا موازنہ شیریں سے کرتی ہے اور تلخ کالمی کے بعد شیریں سے محبت کا‬
‫اقرار کر لیتی ہے ۔ شیریں اس انکشاف سے حیران بھی ہوتا ہے اور خوش بھی ! یہاں‬
‫ہے۔‬ ‫جاتا‬ ‫ہو‬ ‫پذیر‬ ‫اختتام‬ ‫ڈرامہ‬
‫تبصرہ نگار کی توجہ جو چیز اپنی جانب مبذول کرتی ہے وہ کرداروں کی نفسیاتی‬
‫کشمکش اور جذباتی اتارچڑھاؤ ہے ۔ پالٹ کی گرفت اتنی مضبوط ہے کہ تماشائی کی‬
‫توجہ ایک لمحہ بھی ادھر اُدھر نہیں بٹتی ۔‬

‫شامل کتاب چھٹا تبصرہ "اقبال کا علم کالم"۔ ایک جائزہ ہے ۔ مصنف سیّد علی عباس‬
‫جالل پوری ۔ آئینہ ادب چوک مینار ‪ ،‬انارکلی الہور سے شائع ہونے والی اس کتاب‬
‫کے صفحات کی تعداد اور قیمت ندارد ہے ۔ یہ فنون کے شمارہ ‪ ۳ ،۱‬جنوری ‪،‬‬
‫فروری ‪۱۸۹۳‬ء ص ‪ ۱۸‬تا ‪ ۱۶‬میں شائع ہوا۔‬

‫اقبال کے علم کالم پر بات کرنے سے پہلے تبصرہ نگار اس حوالے سے اپنے‬
‫نظریات پیش کرتا ہے جو اس کی علمی و فکری اٹھان اور فلسفہ پر منطقی گرفت کا‬
‫ثبوت ہیں ۔ وہ علم کالم کی مختصرا ً تعریف اس طرح کرتا ہے۔‬

‫’’پہلے سے ایک عقیدہ رکھتے ہوئے زندگی اور کائنات کے‬


‫بارے میں غوروفکر کرنا اور اس عقیدے کے حق میں عقلی‬
‫دالئل بہم پہنچانا علم کالم کی تعریف میں آتا ہے اس کے‬
‫مقابلے میں ایک دوسرے رویے کا نام فلسفہ ہے جس میں‬
‫انسان کسی خاص عقیدے کا پابند ہوکر نہیں بلکہ آزاد اور‬
‫خالی الذہن ہو کر اس کا رخانہ ء وجود میں سوچ بچار کرتا‬
‫اور اپنا نظام فکر مرتب کرتا ہے‘‘۔ (ص ‪ ،11‬کل کی بات)‬
‫ان دونوں رویوں میں تضاد رہا ہے ۔ مبصر اس طرف توجہ دالتا ہے کہ علم کالم کو‬
‫بھی مذہبی عقیدہ اور فلسفہ قدیم جتنا قدیم ہونا چاہیے۔ مبصر کا تعلق چونکہ اہل علم و‬
‫فکر کے خرد مند گروہ سے تھا اس لیے اس کے دالئل بھی منطقی نوعیت کے ہیں ۔‬
‫وہ کہتا ہے کہ مسلمانوں کے مذہبی فرقوں میں اختالفات کی وجہ علم کالم ہے ۔ اس‬
‫کی وجہ وہ بڑی معتبربیان کرتا ہے کہ عربوں کا مزاج منطقی سے زیادہ جذباتی تھا‬
‫اس لیے اسالم جب جزیرہ عرب میں محدود رہا عقائد میں کوئی اختالف نہیں آیا لیکن‬
‫جب اسالم چارسو پھیال اور مختلف اقوام (ایرانی‪ ،‬یونانی ‪،‬قبطی) اس کے حلقہ اثر میں‬
‫آئیں تو عقائد میں اختالفات کا آغاز ہو گیا چونکہ ان اقوام کے ہاں قضاوقدر جیسے‬
‫مسائل کے بارے عقائد و نظریات پہلے سے موجود تھے اور ان کا تقابل اسالمی عقائد‬
‫سے کرنے لگے کیونکہ اسالم میں بعض مسائل ہیں جن کے بارے میں ہمیشہ سے‬
‫دورائیں پائی گئیں اور ان کی کڑیاں کتاب اللہ سے ملتی ہیں۔‬

‫’’یہ مسئلہ کہ انسان اس دنیا میں اپنے اعمال کا آپ مختار‬


‫ہے یا نہیں؟ اس بارے میں قرآن کی بعض آیات سے یہ نکلتا‬
‫ہے کہ وہ اپنے اعمال کا مختار ہے اور بعض دوسری‬
‫صراحت کرتی ہیں کہ انسان کا عمل منشائے الہٰ ی کے تابع‬
‫ہے ۔ عقائد کے بارے میں جب اس طرح بحث و مباحثے کی‬
‫روش چلی تو ہر چھوٹے بڑے مسئلے پر اختالفات پیدا‬
‫ہوئے اور ان اختالفات کی بنیاد پر مشبہ ‪ ،‬جبریہ‪ ،‬قدریہ‬
‫‪،‬مرجیہ جیسے مذہبی فرقے وجود میں آئے اور اُن کے‬
‫درمیان آئے دن مناظروں کی وجہ سے علم کالم کو فروغ‬
‫حاصل ہوا‘‘۔ (ص ‪19‬کل کی بات)‬

‫یہاں تبصرہ نگار نے قرآن کی بعض آیات کا لفظ استعمال کیا ہے لیکن جب اپنی رائے‬
‫کا اظہار منطقی انداز میں کیا جائے تو آیات کو بطور حوالہ پیش کرنا چاہیے تھا۔‬

‫ان کالمی مسائل کے نتیجے میں دوگروہ وجود میں آئے ۔ ایک گروہ جو غوروفکر کو‬
‫الزم سمجھتا تھ ا اور عقل کو نقل پر ترجیح دیتا تھا وہ معتزلہ کہالیا اور دوسرا گروہ‬
‫تو عقائد پر آنکھ بند کر کے یقین کرنے واال اور نقل کو عقل پر فضیلت دینے کا قائل‬
‫تھا۔ یہ گروہ اشاعرہ کہالیا اس کی بنیاد امام شعری نے رکھی۔‬

‫الہی کے متعلق اختالفات کی نوعیت اس قدر‬


‫ان دونوں گروہوں کے درمیان صفات ٰ‬
‫شدید تھی کہ جیسے دو مختلف مذاہب کے ماننے والوں میں ہوتی ہے۔ تبصرہ نگار ان‬
‫دونوں گروہوں کے عقائد کو فرداًفرداًبیان کرتاہے ۔ اس کے خیاالت اس بات کی تائید‬
‫کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے عقائد سے متاثر ہے کیونکہ اشاعرہ کی جبریت‬
‫نے تو تقدی ر پرستی کو عام کیا اور ذہنی جمود و اندھی تقلید کو رواج دیا۔ قرآن کی جن‬
‫آیات کا مفہوم یہ نکلتا ہے کہ انسان اپنے اعمال کا مختار ہے اس سے دانستہ‬
‫روگردانی کرکے انسان پر فکروعمل کے دروازے بند کردیے ۔ اس کے بعد عقلی‬
‫دالئل سے علم کالم کو جانچنے والوں کو خاطر خواہ کامیابی نہ ہو سکی بلکہ اُن پر‬
‫فتوی صادر کر دیا گیا۔ انیسویں صدی میں کچھ ایسی ہی باعمل خرد‬
‫ٰ‬ ‫کفر والحاد کا‬
‫افروز شخصیات منظرعام پر آئیں جن کے خیاالت آزادئ فکر کے ترجمان تھے ۔وہ‬
‫فکر جو معتزلہ کے ساتھ ہی ختم ہو گئی تھی۔ ان شخصیات میں سرسیداحمد خاں اور‬
‫سیّد امیر علی تھے جنہوں نے عقلی اور منطقی رویے کے تحت زمانے کی‬
‫ضروریات کے مطابق نیا علم کالم ترتیب دینے کی کوشش کی لیکن ان کے مقابلے‬
‫الہ آبادی اور‬
‫میں روایت پرستوں کا گروہ تھا جن میں موالنا ابو الکالم آزاد ‪ ،‬اکبر ٰ‬
‫شبلی شامل تھے ۔ یہی وہ پس منظر ہے جس میں عالمہ اقبال اپنے علم کالم کے ساتھ‬
‫ہمارے سامنے آتے ہیں کیونکہ انہیں اس بات کا پورا احساس تھا کہ دورجدید کے‬
‫تقاضوں کے مقابلے اسالمی عقائد کو ایک نئے انداز سے سمجھنے کی ضرورت ہے‬
‫۔اس ضرورت کے تحت انہوں نے نظم و نثر کو دونوں اپنے اظہار کا وسیلہ بنایا اور‬
‫کالمی مسائل پر اپنے افکار پیش کیے۔‬

‫سیّد علی عباس جالل پوری معروف محقق و مفکر ہیں ۔ اقبال کے علم کالم پر انہوں‬
‫نے ماہنامہ" ادبی دنیا "میں ایک سلسلہ مضامین لکھاتھا ۔ زیر نظر کتاب میں ان‬
‫مضامین کو یکجاکر دیا گیا ہے ۔ تبصرہ نگار کہتا ہے کہ سیّد علی عباس کا اسلوب‬
‫خالصتا ً علمی ‪،‬سنجیدہ اور دیانت داری سے بھرپورہے ۔ وہ جو بات صحیح سمجھتے‬
‫ہیں اس کا اظہار برمال کرتے ہیں ۔ وہ یہ بھی پیش نظرنہیں رکھتے کہ مدمقابل‬
‫شخصیت کون ہے اس لیے ان کی زد میں بڑی بڑی شخصیات آتی رہی ہیں ۔ان کا‬
‫اسلوب منطقی ہے اس لیے اُن کے دالئل کا جواب کسی سے کم ہی بن پڑا ۔مبصر خود‬
‫بھی اس زد میں آچکا ہے اس لیے وہ یہ بات ذاتی تجربے کی بناء پر کہہ رہا ہے۔‬
‫" اقبال کا علم کالم" اس کتاب میں علی عباس جالل پوری کا اسلوب منطقیت سے بھر‬
‫پور ہے ۔ انہوں نے بال خوف اقبال کے علم کالم کے ایسے پہلو بے نقاب کیے ہیں جو‬
‫قرآن اور اسالم سے مطابقت نہیں رکھتے اور بعض پہلو ایسے بھی ہیں جن میں‬
‫مغربی فالسفہ کی تقلید کی ہے ۔ یہ چیز اقبال کے عقیدت مندوں پر گراں گزرے گی ۔‬

‫اس حوالے سے صاحب تبصرہ کہتاہے۔‬

‫’’اس کا کیاعالج کہ سیّد صاحب نے یہ نتائج خود عالمہ کی‬


‫تحریروں اور ان کے اشعار سے مرتب کیے ہیں اور اُن کو‬
‫جھٹالنے کے معنی خود اقبال کو جھٹالنے کے ہوں گے‬
‫لیکن اقبال کے تنقیدی جائزے کا یہ مطلب لینا بھی صحیح‬
‫نہیں ہو گا کہ سیّد علی عباس شاعر اقبال کی عظمت کے‬
‫قائل نہیں ہیں۔ اس کے برعکس وہ اقبال کی شاعری کے‬
‫بہت پرجوش مداح ہیں اور میرتقی میر ‪ ،‬مرزاغالب اور میر‬
‫انیس کے ساتھ اُردو شاعری کے عناصر اربعہ میں شمار‬
‫کرتے ہیں‘‘۔ (ص ‪ ،21‬کل کی بات)‬

‫سید علی عباس کی شخصیت کا یہ خاصہ تھا کہ خوبیوں کے ساتھ خامیوں پر بھی‬
‫عمیق نگاہ رکھتے تھے اس لیے زیر نظر کتاب بھی اسی زاویہ نگاہ کا پرتو ہے۔ علی‬
‫عباس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے تبصرہ نگار نے اندھا دھند مشاہیر پرستی پر‬
‫جابجا اپنے خیاالت کا اظہار کیا ہے۔ اقبال کو ہم عظیم فلسفی مانتے ہیں لیکن علی‬
‫عباس نے اس کی تردید کی ہے ۔ وہ اپنی کتاب میں فلسفی اور متکلم کا فرق واضح‬
‫کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اقبال اصل میں متکلم تھے فلسفی نہیں تھے۔‬
‫اس کتاب میں علم کالم کی مختصر تاریخ بیان کرنے کے بعد مختلف کالمی مسائل پر‬
‫الگ الگ باب میں اقبال کے علم کالم کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ تبصرہ نگار نے‬
‫موضوع کے ساتھ ساتھ مصنف کے اسلوب اور فکر کو پیش نظر رکھا۔‬

‫صور ذات‬
‫زیر موضوع کتاب کے پہلے دوابواب میں سیّد علی عباس نے اقبال کے ت ّ‬
‫باری اور نظریہ وحدت الوجود پر بحث کی ہے۔انہوں نے عالمہ اقبال کی تحریروں‬
‫‪،‬اشعار اور خطبات کو سامنے رکھ کر یہ ثابت کیا ہے کہ اُن کا تصور ذات باری‬
‫مختلف زمانوں میں مختلف رہا ہے ۔ "وہ اپنی شاعری کے پہلے دور میں وحدت‬
‫الوجود کے شارح اور نوفالطونی صوفی تھے "۔ عالمہ جب انگلستان مقیم تھے تو‬
‫اکثر مجالس میں حافظ شیرازی کے شعر پڑھتے تھے لیکن ان کے نظریات میں تبدیلی‬
‫اس وقت آتی ہے جب وہ ملت اسالمیہ کے احیاء کے داعی بنے تو وہ ہمہ اوست کی‬
‫مخالفت کرنے لگے اور ابن عربی کی تعلیمات کو کفر کے مترادف قرار دیا ۔ سیّد‬
‫علی عباس کہتے ہیں کہ اس عجیب صورتحال کی طرف سرسیّد نے توجہ دالئی کہ‬
‫عالمہ ایک طرف ابن عربی کی تعلیمات کو گمراہ کن قرار دیتے ہیں لیکن دوسری‬
‫طرف موالنا جالل الدین رومی کو جو ابن عربی کے ایک شاگرد کے شاگرد اور‬
‫وحدت الوجود کے اہم ترجمان کو اپنا پیرومرشد سمجھتے ہیں۔‬

‫عالمہ کا یہ شخصی تضاد ایک عام قاری کی سمجھ سے باال تر ہے اسے محقق‬
‫ومفکر اور فلسفے سے سوجھ بوجھ رکھنے واال ہی سمجھ سکتا ہے۔‬

‫سیّد علی عباس اس اہم نکتے کو پھر ایک بار سامنے التے ہیں کہ عالمہ نے اپنا نقطہ‬
‫نظر اس وقت پھر تبدیل کر لیا جب وہ اپنے خطبات رقم کرنے لگے تو انہوں نے‬
‫الہیات کو قبول کر لیا بلکہ وہ مغربی فلسفی برگساں سے متاثر ہو‬
‫وجود ی صوفیا کی ٰ‬
‫کر ذات خداوندی کے ارتقائی سریان کے قائل ہوئے جس کا مطلب خداوندی ارتقاء کی‬
‫منازل طے کرنے کے ساتھ تخلیق مسلسل کے عمل میں سرگرم ہے۔‬
‫اگالباب" اقبال اور تقابل عقل وجدان "ہے ۔ وہ اقبال کو برگساں کی طرح عقل و خرد‬
‫کی تنقیص کرتے ہوئے دیکھتے ہیں ۔ یہاں پر سیّد علی عباس اقبال سے اختالف کرتے‬
‫ہوئے عقل و خرد کی اور وجدان و جذبے پر اس کی برتری کے حق میں ٹھوس دالئل‬
‫دیتے ہیں ۔ اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو بھی یہی حقیقت سامنے آتی ہے کہ جذبہ و‬
‫وجدان بغیر عقل وفکر کی رہنمائی کے ہمیں کسی منزل پر نہیں پہنچائیں گے ۔ اگلے‬
‫دو باب"اقبال کے رومانی افکار"اور تاویالت اقبال ہیں ۔ موخرالذکر میں تبصرہ نگار‬
‫سیّد صاحب کے حوالے سے بات کرتا ہے کہ انہوں نے اقبال کے نظریہ خودی ‪،‬‬
‫نظریہ زمان اور حیات بعد ممات کے متعلق ان کے خیاالت کا تجزیہ کیا ہے ۔اقبال کے‬
‫ان خیاالت کے ڈانڈے مغربی فالسفر سے ملتے ہیں۔ سیّد صاحب نے انتہائی جانچ‬
‫پڑتال سے یہ ماخذ تالش کیے۔ اقبال کا نظریہ خودی فشٹے اور نظریہ زمان برگساں‬
‫سے ماخوذ ہے۔ حیات بعدممات کے حوالے سے بھی وہ جرمنی فلسفی فشٹے سے‬
‫متاثر ہیں ۔ ایک طرف ان کا خیال ہے کہ جن اشخاص کی خودیاں مضبوط ہوں گی‬
‫وہی بقائے دوام کے حق دار ہوں گے باقی سب جسم کی موت کے ساتھ فنا ہوجائیں‬
‫گے۔‬

‫سیّد صاحب اس نظریے سے حیرت زدہ ہیں کیونکہ اس کی زد براہ راست اسالم کے‬
‫نظریہ معاد و بقا پر پڑتی ہے۔ اقبال اس حوالے سے واشگاف الفاظ میں کہتے ہیں‬
‫الہی پر منحصر ہے اور‬
‫"میرے نزدیک حیات بعد ممات انسانی کوشش اور فضل ٰ‬
‫میرے نزدیک کوئی شخص ابدی موت کا خواہش مند ہو تو وہ اسے حاصل کر سکتا‬
‫ہے‘‘۔ (ص ‪ ،22‬کل کی بات)‬

‫تبصرہ نگار اس پر اقبال کا شکر گزارہے کہ انہوں نے ہمیں جنت اور جہنم کی ایک‬
‫اکتا دینے والی المتناہیت کے عالوہ ایک تیسرے امکان سے بھی آگاہ کیا ہے جس میں‬
‫ہم مٹی میں مل کر مٹی ہو جائیں گے اور جینے کی مصیبت سے ہمیشہ کے لیے نجات‬
‫گے۔‬ ‫پاجائیں‬
‫زیر نظر کتاب کے اگلے دوباب علم کالم کے اثرات و نتائج اور دنیائے اسالم میں‬
‫خرد افروزی کی ضرورت’’ان ابواب میں سیّد صاحب کا لہجہ کچھ زیادہ بے باک‬
‫اورتُند ہے وہ ماضی کے ان علماء سے ناالں ہیں جنہوں نے مذہب کے نام پر خرد‬
‫شمنی کی روایت کو پروان چڑھایا ۔ یہاں وہ امام غزالی ‪ ،‬موالنا رومی اور موالنا‬
‫مودودی کے افکار کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں۔ چونکہ سیّد صاحب بغیر لگی لپٹی کہنے‬
‫کے عادی ہیں اس لیے وہ مودودی سے بھی بے باکی سے مخاطب ہیں۔ وہ فلسفے اور‬
‫سائنس کو بھی علم کالم کی کنیز بناناچاہتے ہیں اور پھر سے مذہب پر علوم کی بنیاد‬
‫رکھنے کا وہ تجربہ کرناچاہتے ہیں جو اس سے پہلے بھی ہو چکا ہے اور ناکام رہا‬
‫ہے‘‘۔ (ص ‪22‬کل کی بات)‬

‫وہ موالنا مودودی کے اپنے مقاالت میں سے ایک اقتباس درج کرتے ہیں جو مودودی‬
‫کے ذہن کا عکاس ہے۔‬

‫’’مسلمانوں میں ایسے مفکر و محقق پیدا ہوں جو قرآن کے‬


‫بتائے ہوئے طریق فکر پر آثار کے مشاہدے اور حقائق کی‬
‫جستجو سے ایک نظام فلسفہ کی بنیاد رکھیں ‪،‬ایک نئی‬
‫حکمت طبیعی کی عمارت اٹھا سکیں جو قرآن کی ڈالی ہوئی‬
‫داغ بیل پر اٹھے اور اس جدید فکروتحقیق کی عمارت کو‬
‫اس قوت سے اٹھائیں کہ وہ تمام دُنیا پر چھاجائے اور دُنیا‬
‫میں مغرب کی مادی تہذیب کی بجائے حقانی تہذیب جلو گر‬
‫ہو‘‘۔ (ص ‪ ،29‬کل کی بات)‬

‫سیّد علی عباس اس اقتباس کے بعد مودودی سے بے باکی سے پوچھتے ہیں کہ پھر وہ‬
‫بسم اللہ کیوں نہیں کرتے اور کس کے لیے انہوں نے اس کام کو ملتوی کر رکھا ہے۔‬

‫تبصرہ نگار کہتا ہے کہ مودودی کا خیال تھا کہ اس تلقین کو سنتے ہی ان کے ہم خیال‬


‫موالنا کتب خانوں میں بیٹھ جائیں گے اور ایک نیا اسالمی فلسفہ اور نئی سائنس لے‬
‫کر ہی باہر آئیں گے لیکن حقیقت میں ایسانہ ہو سکا کیونکہ موالنا خود ہی فرمان کی‬
‫خالف ورزی کرتے ہوئے سیاسی بکھیڑوں میں اُلجھ گئے ۔ بیٹھ کر محض اعالنات‬
‫کرنا اور حقائق کی تلخ دنیا کا سامنا کرنا دوالگ الگ چیزیں ہیں۔"دنیائے اسالم میں‬
‫خرد افروزی کی ضرورت"‬

‫اس حوالے سے تبصرہ نگار کہتا ہے کہ یہ باب پوری کتاب کا لُب لباب ہے اور وہ‬
‫خود بھی اس سے حرف بحرف متفق ہے کیونکہ سیّد علی عباس محض دوسروں‬
‫کوشعور دے کر خود ایک طرف نہیں بیٹھ گئے ۔ اس ضمن میں اُن کی تحریریں‬
‫دوسروں کے لیے بھی باعث مشارکت ہیں۔ وہ سیّد صاحب کو مشورہ دیتا ہے کہ خرد‬
‫افروزی کے سلسلے میں انہوں نے اپنے وسیع مطالعے اور تجربات کی روشنی میں‬
‫اس زندگی اور کائنات کے بارے میں جو کچھ سوچ رکھاہے وہ سامنے لے آئیں اور‬
‫اپنے گرد ہم جیسے حقائق کے متالشیوں کا مجمع لگائیں ۔اب وہ ہمیں دوسروں کی‬
‫باتیں سنانے کی بجائے اپنی باتیں سنائیں۔‬

‫سیّد علی عباس کی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے بین السطور ہم تبصرہ نگار کے زاویہ‬
‫ہیں۔‬ ‫سکتے‬ ‫کر‬ ‫حاصل‬ ‫آشنائی‬ ‫بھی‬ ‫سے‬ ‫نگاہ‬
‫کہ وہ حقیقت کا متالشی اور خرد افروزی کا خواہاں ہے وہ ہر جگہ مسلمانوں کی ذلت‬
‫خواری سے ناالں ہے اس لیے وہ چاہتا ہے کہ ان تمام سواالت کا جواب بالتعصب علم‬
‫و سائنس کی روشنی میں تالش کرنا ہی اس دورکا علم کالم ہو گا ۔‬

‫زیر موضوع کتاب میں شامل ساتواں تبصرہ "بروہی لوک کہانیاں"مصنف انور رومان‬
‫‪79 ،‬صفحات پر مشتمل یہ کتاب قالت پبلشرز‪،‬مستونگ قالت سے شائع ہوئی ۔ سن‬
‫اشاعت درج نہیں ہے ۔قیمت ‪1799‬روپے ہے۔‬

‫تبصرہ نگار کتاب کے پس منظر اور انتساب پر مختصراًاظہار خیال کرنے کے بعد‬
‫بروہی لوگوں کے بارے میں دیباچے میں مختلف آراء کے حوالے سے بات کرتا ہے‬
‫کہ بروہی پاکستان کے قدیم ترین قبائل میں سے ہیں۔‬

‫’’بلوچوں کا طائفہ اول جوان کی عام ہجرت سے بہت پہلے‬


‫ایرانی حکومتوں کی لوٹ مار سے تنگ آکر اس سرزمین‬
‫میں وارد ہوئے چونکہ یہ کوہ البرز سے چلے تھے اس لیے‬
‫مقامی لوگ انہیں بُرز کوہی پکانے لگے اور پھر یہ رفتہ‬
‫رفتہ بروہی بن گئے ۔ بروہوں نے پہلی مرتبہ میر عمر‬
‫واڑی کے تحت سولہویں صدی عیسوی کے اوائل میں قالت‬
‫میں ایک آزاد سلطنت قائم کی تھی لیکن ان کی سلطنت کو‬
‫چالنے میں بلوچی قبائل ہی دست راست بنے ۔ اس لیے‬
‫بروہی حکومت نے ان کے مفاد کو ہمیشہ عزیز رکھا اور ان‬
‫کے زبان و ادب کی سرپرستی فرمائی‘‘۔ (ص‪ ،27‬کل کی‬
‫بات)‬

‫لو ک کہانیاں نسل د رنسل سینہ بہ سینہ چلتی ہیں ۔ ان کا تعلق پڑھنے سے زبانی سننے‬
‫سے ہوتاہے ۔ ان کا کوئی مخصوص مصنف نہیں ہوتا بلکہ وہ سب افراد ہوتے ہیں جن‬
‫کی زبانوں سے ہوتی ہوئی یہ ارتقاء کی جانب اپنا سفر جاری رکھتی ہیں۔ یہ کہانیاں‬
‫واقعیت سے بہت دورلیکن لوگوں کی جذباتی زندگی کے بہت قریب ہوتی ہیں۔‬

‫تبصرہ نگار نے یہاں اس مجموعے میں شامل سب سے پہلی کہانی "جگ بیتی "کا‬
‫جائزہ ہے ۔ اس کا موضوع عورت کے معاملے میں مرد کی فطری کمزوری ہے ۔‬
‫تہذیب و ثقافت اور شرافت و اخالق کے باوجود وہ اپنی اس کمزوری پر غلبہ نہ پاسکا‬
‫۔ اس کہانی کا اسلوب سادہ اور دل نشین ہے ۔ کہانی کا عنوان اس کے موضوع کی‬
‫عکاسی کرتا ہے۔‬

‫چار مزدو رنجار ‪،‬صراف ‪،‬خیاط اور درویش جو تالش روزگار کے لیے گھر سے‬
‫نکلتے ہیں ۔رات کو وہ سنسان صحرا میں پہنچتے ہیں ۔ صحرائی ڈاکو ؤں کے ڈرسے‬
‫وہ باری باری پہرہ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں ۔ پہلے نجار کی باری آتی ہے وہ خود‬
‫کو مصروف رکھنے کے لیے ایک حسین دوشیزہ کی تصویر بناتا ہے پھر صراف اس‬
‫کو زیورات سے آراستہ کرتا ہے ‪ ،‬خیاط خوبصورت لباس پہنا کر ظاہری شخصیت‬
‫تعالی سے دُعا‬
‫ٰ‬ ‫کی تکمیل کرتا ہے آخر میں درویش اس کے حسن سے متاثر ہو کر اللہ‬
‫کرتا ہے کہ اس میں جان ڈال دے ۔ اس کی دعا قبول ہوتی ہے اور وہ سانس لینے‬
‫اورچلنے پھرنے لگتی ہے ۔ اب ہر کوئی اس کا دعوے دار بن گیا ۔ وہ کوتوال کے‬
‫پاس گئے وہ کہنے لگا یہ میرے مرحوم بھائی کی بیوی ہے اس لیے یہ میرے پاس‬
‫رہے گی ۔ وہ ان سب کو بادشاہ کے پاس لے جاتا ہے ۔ بادشاہ دیکھتے ہی کہتا ہے کہ‬
‫یہ تو ہماری خادمہ ہے ۔‬

‫بعض اوقات حقیقت میں ایسا ہوتا ہے کہ ایک ہی دوشیزہ کے بیک وقت کئی پرستار‬
‫نکل آتے ہیں اور صورتحال خاصی گھمبیر ہو جاتی ہے لیکن عین موقع پر پردہ غیب‬
‫سے کوئی نیاآدمی آکر اسے اُڑا لے جاتا ہے ۔‬
‫تبصرہ نگار کہتا ہے کہ بروہی کہانیوں کے حوالے سے ایک چیز گراں گزرتی ہے‬
‫کہ اُردو ترجمے کے دوران تکلف سے کام لیا جاتا ہے اس وجہ سے ان کی سادگی‬
‫اور بھول پن ختم ہو جاتا ہے ۔ اس لیے ضروری ہے کہ دوران ترجمہ ان کے قدرتی‬
‫اسلوب میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے۔ اس کہانی میں وہ چوتھے آدمی درویش کی‬
‫فاضالنہ خو دکالمی پر کڑی تنقید کرتا ہے کیونکہ لوک کہانیوں میں خود کالمی نہیں‬
‫ہوتی اگر کبھی ہو بھی تو سادہ اور بے تکلف انداز میں ہوتی ہیں۔وہ اس کوشش کو‬
‫خوش آئند قراردیتا ہے اور چاہتا ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہے۔ آخر میں وہ پروفیسر‬
‫انور رومان ان کہانیوں کے مولّف کا مختصرا ً تعارف کرواتا ہے اور بتاتا ہے کہ یہ‬
‫کہانیاں روزنامہ "امروز"میں شائع ہوئی تھیں ۔اب یہ کتابی صورت میں شائع ہوئی‬
‫ہیں۔‬

‫زیر نظر کتاب میں شامل آٹھواں تبصرہ "بلوچی گیت"پر ہے ۔مصنف عطاشاد اور عین‬
‫سالم ہیں۔ ‪624‬صفحات پر مشتمل یہ کتاب قالت پبلشرز مستونگ سے شائع ہوئی ۔‬
‫قیمت ‪2791‬روپے ہے ۔‬

‫تبصرہ نگار عالقائی زبانوں کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ بلوچی زبان کا ایک اپنا‬
‫ادب اور لوک گیت ہیں جن سے ہمیں اس سے پہلے کوئی خاص واقفیت نہ تھی لیکن‬
‫اس کتاب کی وجہ سے اس زبان کے ادب اور اس کے موضوعات کو سمجھنے میں‬
‫ملی۔‬ ‫مدد‬
‫مبصر کچھ مشہور بلوچی گیتوں کا ذکر کرتا ہے جن میں سوت ‪ ،‬الڑوگ‪ ،‬ہالو‪،‬‬
‫سرپت‪ ،‬لولی ‪ ،‬تک ‪ ،‬ڈیہی ‪،‬لیلی مور شامل ہیں۔ لولی ایک لوری ہے جس سے بلوچی‬
‫ماں کے جذبات کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے بیٹے کی تربیت کس انداز سے کرتی ہے‬
‫۔ سوت شادی بیاہ کے مواقع پر گائے جانے والے گیتوں کی مقبول صنف ہے جو لڑکا‬
‫ہے۔‬ ‫مکالمہ‬ ‫منظوم‬ ‫دلچسپ‬ ‫ایک‬ ‫درمیان‬ ‫کے‬ ‫لڑکی‬ ‫اور‬
‫تبصرہ نگار کہتا ہے کہ اس کتاب کا اسلوب بہت اچھوتا ہے اس کے ایک صفحہ پر‬
‫بلوچی متن ہے اور دوسرے صفحہ پر اُردو میں اس کا منظوم ترجمہ بحیثیت مجموعی‬
‫زیر نظر ترجمہ اچھا اور شعری خوبیوں سے آراستہ ہے کہیں کہیں پرتکلف اسلوب‬
‫ہے۔‬ ‫کھٹکتا‬
‫آخر میں وہ عالقائی زبانوں میں لوک گیتوں کے سلسلے میں ہونے والے کام کو قابل‬
‫ستائش قرار دیتا ہے اور اسے جاری رہنے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے وہ چاہتا ہے‬
‫سروں میں ڈھاالجائے۔‬
‫کہ انہیں موسیقی کے ُ‬

‫شامل کتاب نواں تبصرہ رض یہ فصیح احمد کے افسانوی مجموعے دوپاٹن کے بیچ پر‬
‫ہے ۔ یہ تبصرہ اس سے فنون کے شمارہ ‪ ،۱،۱‬مئی ‪۱۸۱۹‬ء‪ ،‬ص‪ ۳۴۰‬تا ‪۳۴۶‬‬

‫‪ 215‬صفحات پر مشتمل یہ کتاب مکتبہ ادب جدید الہور سے شائع ہوئی۔ اس کی قیمت‬
‫‪9‬روپے ہے لیکن سن اشاعت درج نہیں ہے۔ ابتداء میں تبصرہ نگار تعارف کرواتے‬
‫ہو ئے کہتا ہے کہ یہ سولہ افسانوں کا مجموعہ ہے۔ ان میں دو افسانے "فنون"کے‬
‫شماروں میں شائع ہو چکے ہیں۔‬

‫" دوپاٹن کے بیچ "افسانوی مجموعے میں وہ مجموعی طور پر افسانوں کے‬
‫موضوعات کا جائزہ لیتا ہے اور چیدہ چیدہ افسانوں کا مجموعی جائزہ لیتے ہوئے آخر‬
‫میں افسانہ نگار کا تعارف کرواتا ہے۔‬

‫وہ کہتا ہے ان افسانوں کے موضوعات میں تنوع ہے ان میں تازگی اور نیاپن ہے ۔‬
‫عورت ہو کر اس نے موضوعات کو چاردیواری تک محدود نہیں رکھا ۔ دوسری اہم‬
‫بات فنی پختگی اور اسلوب ہے جو شروع سے آخر تک برقرار رہتا ہے ۔ افسانوں کو‬
‫خواہ مخواہ پُراسرار نہیں بنایا ۔ پالٹ زندگی کے بہت قریب ہیں۔‬

‫اس کتاب کے بعض افسانوں کا شمار منتخب افسانوں میں ہوتا ہے ۔ ان میں چوہا‪،‬‬
‫رکھی مائی‪ ،‬گم نصیب ‪ ،‬ماموں شامل ہیں۔ "چوہا"یہ کہانی شاہ دولہ کے چوہے سے‬
‫متعلق ہے ۔ افسانہ نگار نے اس کردار کا مطالعہ بڑی ہمدردی اور حقیقت پسندی سے‬
‫کیا ہے ۔ اس کہانی کی شہال کو خاندانی تعلقات کی وجہ سے اس چوہے اجی کے ساتھ‬
‫ہمدردی ہوجاتی ہے لیکن وہ اس ہمدردی کو کچھ اور رنگ دیتا ہے اور شائد اسی لیے‬
‫اس کا جنسی شعور بیدار ہو جاتا ہے ۔ ایک دن ایک سادہ لوح ہمسائی نے شہال کی‬
‫موجودگی میں اجی کی شادی کا ذکر چھیڑا تو وہ خوشی سے بے قابو ہو گیا ۔‬
‫’’وہ خوشی کے جنون میں اس کی طرف اشارہ کر کے‬
‫پاگلوں کی طرح ہنس رہا تھا ۔اس کا چہرہ اور پنکھے کی‬
‫طرح کھڑے ہوئے کان مارے خوشی کے سرخ ہو گئے‬
‫تھے اور وہ مارے شرم کے گلنار ہو گئی تھی ۔سب کے‬
‫ہنس پڑنے پر وہ کیسی بے تحاشا اُٹھ کر وہاں سے بھاگی‬
‫تھی‘‘!۔ (ص ‪ ،19‬کل کی بات)‬

‫کہانی کے اختتام پر شہال کو اس ہمدردی کی بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے کیونکہ جب‬
‫اس چوہے کا ناآسودہ جنسی جذبہ مرض کے دوروں کی خطرناک صورت اختیار کر‬
‫جاتا ہے تو شہال مالی قربانی دے کر اور اپنے خاندان کی عزت کو خطرے میں ڈال‬
‫کر اس کے لیے ایک کرائے کی عورت کا بندوبست کرتی ہے اور اسے بے موت‬
‫مرنے سے بچاتی ہے۔‬

‫عمومی مشاہدہ ہے کہ ایسے لوگوں سے بالوجہ ہمدردی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ان‬
‫کے اندر کا شیطان کسی وقت بھی باہر آسکتا ہے اور مرد کے جنسی جذبے کے لیے‬
‫ہلکی سے آنچ ہی کافی ہے شائد افسانہ نگار کا بھی کوئی ایسامشاہدہ ہو۔‬

‫" رکھی مائی"ایک کرداری افسانہ ہے جس میں تبصرہ نگار اس کے موضوع کے‬
‫حوالے سے کہتا ہے کہ یہ ظاہر و باطن کے تضاد کی کہانی ہے ۔ظاہری پرہیزگاری‬
‫کے پیچھے مکروہات کے طوفان چھپے ہیں۔‬

‫رکھی مائی ایک ادھیڑعمربیوہ عورت بظاہر شرافت کا لبادہ اوڑھے ہوئے تھی اور‬
‫اہل محلہ اس پر آنکھ بند کر کے اعتماد کرتے تھے اور اپنی بیٹیوں کو اس کے ساتھ‬
‫بال جھجک باہر بھیج دیتے تھے لیکن اچانک وہ کچھ عرصے کے لیے غائب ہو گئی‬
‫اور پھر ایک دن یہ خبر ملی کہ مائی رکھی کے ہاں لڑکا پیدا ہواہے۔‬

‫"گم نصیب"بھی ایک کرداری کہانی ہے کہ اس میں ایک ہوٹل کے بیرے کے کردار‬
‫کی تصویر کشی موثر انداز میں کی گئی ہے اور یہ کردار اصلیت کے ساتھ ہمارے‬
‫سامنے آتا ہے۔‬
‫"ماموں"اس میں ایک بخیل بزرگ کی داستان ہے جن پر سوروپے کی رقم جمع کرنے‬
‫کی دُھن سوار تھی اس کے لیے انہیں بہت جتن کرنے پڑے لیکن جب وہ نوٹ ان کے‬
‫ہاتھ آیا تو زیادہ دن کے لیے نہیں اور انہیں اپنی جدائی کا ایسا داغ دے گیا کہ اس سے‬
‫وہ جان برنہ ہو سکے۔‬

‫تبصرہ نگاراس افسانوی مجموعے کے عنوان کے حوالے سے بتاتا ہے کہ یہ بھگت‬


‫کبیرکے اس شعر سے لیا گیا ہے۔ چلتی چکی دیکھ کر دیا کبیرارو دوپاٹن کے بیچ‬
‫آثابت گیانہ کو اس کہانی میں اس انوکھے تجربے کا بیان ہے کہ انسان اپنے گزرے‬
‫ہوئے خیال یا ماضی میں دیکھے ہوئے خواب کو جب ہو بہو حقیقت کی شکل میں‬
‫اپنے سامنے دیکھتا ہے تو اسے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ اس منظر کو دوبارہ‬
‫دیکھ رہا ہو۔ یہاں تبصرہ نگار اپنے لڑکپن کا ایک واقعہ بطور حوالہ پیش کرتا ہے‬
‫ہو۔‬ ‫آسانی‬ ‫میں‬ ‫سمجھنے‬ ‫موضوع‬ ‫تاکہ‬
‫رضیہ فصیح احمد کے تعارف میں تبصرہ نگار کہتا ہے ۔‬

‫’’رضیہ فصیح احمد کا آبائی وطن مرادآباد ہے اور ان کے‬


‫خود نوشتہ حاالت سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا تعلیمی‬
‫کیرئربہت شاندار رہا ہے ۔ بی۔ اے کے امتحان میں وہ‬
‫یونیورسٹی میں اول آئی تھیں ۔ عجیب بات ہے کہ درسی‬
‫وتعلیمی قسم کی ذہانت ان کے ادبی و تخلیقی عمل میں بھی‬
‫بدستور قائم رہی ورنہ دوقسم کی ذہانتوں میں یہ تسلسل کم‬
‫ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ایسے طلبہ ادب اور فنون لطیفہ میں‬
‫اکثر گھامڑ ثابت ہوتے ہیں‘‘۔ (ص ‪ ،18,17‬کل کی بات)‬

‫زیر موضوع کتاب میں شامل دسواں تبصرہ "جرمنی نامہ"پر ہے ۔ جو فنون کے‬
‫شمارے ‪ ۱،۱‬مئی‪ ،‬جون ‪۱۸۱۹‬ء‪ ،‬ص‪ ۳۴۱‬تا ‪ ۳۶۰‬میں شائع ہوا۔ مصنف حکیم محمد‬
‫سعید دہلوی ‪982 ،‬صفحات پر مشتمل یہ کتاب مکتبہ جدید الہور سے شائع ہوئی قیمت‬
‫‪69‬روپے ‪ ،‬سال اشاعت درج نہیں ہے۔‬
‫تبصرہ نگار کے اسلوب میں ادبی چاشنی ہے ۔ تبصرے کا آغاز وہ براہ راست زیر‬
‫نظر سفرنامے سے نہیں کرتا بلکہ تبصرہ نگاری کی ایک منفرد روایت رقم کرتے‬
‫ہوئے ڈرامائی انداز سے کرتا ہے۔‬

‫’’دس برس ہوتے ہیں طب کی دُنیا کے دوگرامی قدر بھائی‬


‫حکیم محمد سعید اور ان کے برادر بزرگ عبدالحمید دہلوی‬
‫یورپ کی سیاحت پر نکلے ۔ یہ سفر جو دوماہ پچیس دن‬
‫بیس گھنٹے تیس منٹ میں ختم ہواتھا ہمارے لیے بے حد‬
‫مفید ثابت ہوا‘‘(ص‪ ،91‬کل کی بات)‬

‫یہ سفر نامہ اپنے انداز اور موضوع کے لحاظ سے منفرد ہے ۔ یہ محض تفریح کا‬
‫ذریعہ نہیں ہے بلکہ بڑے بھائی اپنے پیش لفظ میں لکھتے ہیں۔‬

‫’’بیانیہ واقعات کے پس منظر میں جو روح عمل ایمائی‬


‫انداز میں کارفرمادکھائی گئی ہے اس سے سبق حاصل کیا‬
‫جائے‘‘۔ (ص ‪،96‬ایضا ً)‬

‫اس کے بعد تبصرہ نگار سفرنامہ کی صنف کے حوالے مغربی سفر نگاروں کے‬
‫تاثرات بیان کرتا ہے ۔اُردو سفر نگاروں میں وہ محمد خالد اختر کے دوچھوٹے‬
‫سفرناموں "کاغانی مہم اور سواتی مہم "کو سفرنامے کے اسلوب پر صحیح پورا‬
‫اترنے والے سفرنامے قراردیتا ہے وہ محمود نظامی کے سفرنامہ "نظرنامہ"کو بہتر‬
‫قرار دیتا ہے لیکن زبان اور اسلوب اظہار سے مطمئن نہیں ہے۔ سفر نامہ "جرمنی‬
‫نامہ "کے حوالے سے وہ قریبا ً چار صفحات میں اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے ۔ زیر‬
‫موضوع سفر نامہ اس کے خیال میں بیکن کے انداز میں لکھا گیا ہے ۔ برطانوی مفکر‬
‫فرانسس بیکن سفرنامہ کے متعلق اپنے خیاالت کا اظہار اس طرح کرتا ہے۔" سفر میں‬
‫جن چیزوں کا مشاہدہ کرناالزم ہے وہ یہ ہیں ۔ شہروں کی دیواریں ‪ ،‬قلعے ‪ ،‬فصیلیں ‪،‬‬
‫گودیاں‪ ،‬ساحل ‪ ،‬آثار قدیمہ ‪ ،‬کھنڈرات ‪ ،‬کتب خانے ‪ ،‬درس گاہیں‪ ،‬مکانات ‪ ،‬باغات ‪،‬‬
‫بارودخانے وغیرہ باقی رہیں دعوتیں ‪ ،‬شادی بیاہ کی رسوم ‪ ،‬ماتم کی تقریبات اور اس‬
‫طرح کے دوسرے تماشے تو سیاحوں کو ان کی طرف زیادہ دھیان نہیں دینا چاہیے"۔‬
‫(ص ‪ ،96‬کل کی بات)‬

‫زیر تبصرہ سفرنامہ عالمانہ اور سنجیدہ انداز میں لکھا گیا ہے اس میں قاری کو اپنے‬
‫ذہن میں اٹھنے والے تمام سواالت کے جواب مل جاتے ہیں ۔ جرمنی کے تمام بڑے‬
‫شہروں اور ان میں موجود عمارات کے حاالت تفصیل سے بیان ہوئے ہیں ۔ وہ جرمنی‬
‫کے ان ہفتہ واراور ماہانہ ریل کے ٹکٹوں کا ذکر کرتا ہے کہ ایک ٹکٹ خریدنے سے‬
‫وہ پورا ہفتہ یا مہینہ کسی بھی گاڑی میں سفر کر سکتے ہیں۔‬
‫تبصرہ نگار اس سفر نامہ کے اسلوب کا جائزہ لیتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ موضوعی‬
‫انداز میں نہیں لکھا لیکن پھر بھی کہیں کہیں حکیم سعید کی شخصیت کی کچھ‬
‫جھلکیاں دکھائی دے جاتی ہیں۔یہ عالمانہ کتابوں کی طرح خشک اور غیر دلچسپ ہے‬
‫لیکن ان کے اسلوب بیان میں چاشنی اور لطافت ہے اس لیے دوران مطالعہ اکتاہٹ‬
‫نہیں ہوتی کیونکہ اس میں طنزوظرافت کا مال جال تاثر موجود ہے۔‬
‫جرمنی میں ایک جگہ کا نام "باڈن باڈن"ہے ۔ حکیم صاحب لکھتے ہیں "کسی طرح یہ‬
‫معلوم نہ ہو سکا کہ اس چھوٹے سے شہر کے نام میں ایک ہی لفظ دوبار کیوں‬
‫استعمال ہوا ہے ۔ بہت ممکن ہے کہ شہر کی داغ بیل ڈالے جانے کے وقت یہ نام کسی‬
‫ہکلے شخص نے تجویز کیا ہو۔ وہ صرف باڈن کہناچاہتا تھا لیکن معذوری کے باعث‬
‫وہ اس ے دوبارکہہ گیا اور لوگوں نے جس طرح سنا اختیار کرلیا"۔ (ص ‪ ،91‬کل کی‬
‫بات)‬

‫آخرمیں تبصرہ نگار اس سفر نامے سے بہت متاثر ہو کر کہتا ہے کہ اگر کبھی خود‬
‫جرمنی گیا تو یہ سفر نامہ ضرور ساتھ رکھے گا کیونکہ یہ اسے ایک گائیڈ کا کام دے‬
‫گا۔‬

‫تبصرہ نگارحکیم صاحب کی شخصیت کے حوالے سے کچھ کہنے سے اس لیے‬


‫گریزاں ہے کہ وہ اس سوسائٹی کے مشاہیر میں سے ہیں اس لیے وہ تعارف محتاج‬
‫نہیں۔‬
‫کتاب میں شامل گیارہواں تبصرہ "سرائیکی لوک گیت"پر ہے ۔ مصنف ڈاکٹر مہر‬
‫عبدالحق ‪611‬صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت ‪1791‬روپے ہے ۔ بزم ثقافت ملتان‬
‫کی طرف س ے شائع ہوئی ۔ سن اشاعت کا ذکر شائد تبصرہ نگار ضروری نہیں‬
‫سمجھتا ۔ ملتان ‪ ،‬مظفرگڑھ ‪ ،‬ڈیرہ غازی خان اور بہاولپور کے عالقے میں بولی جانے‬
‫والی زبان کا نام سرائیکی ہے جو اپنی طرز میں ایک میٹھی بولی تصور کی جاتی‬
‫ہے۔‬

‫تبصرہ نگار زیر موضوع کتاب پر تبصرے سے پہلے اس زبان کی تہذیب و ثقافت‬
‫اور پس منظر کے حوالے سے بات کرتا ہے کہ مہر عبدالحق کی مرتبہ یہ کتاب‬
‫دریائے سندھ کی لہروں کے نام معنون ہے۔ انہوں نے اس زبان کے عوامی گیت بڑی‬
‫تگ و دو سے اکٹھے کیے اور روزنامہ "امروز "میں ایک سلسلہ مضامین شائع کیا۔‬

‫وہ مہر عبدالحق کی اس کوشش کو خراج تحسین پیش کرتا ہے کہ انہوں نے لوگوں‬
‫کے ذہنوں سے لوک گیتوں کے مٹتے ہوئے نقوش کو دوبارہ سے اُجاگر کرنے کی‬
‫کوشش کی ہے ۔ عوامی ادب کی مثال نامیاتی وجود کی سی ہے جس کی بڑھوتری‬
‫کے لیے خاص ماحول اور گردوپیش کا ہونا ضروری ہے ۔ اسے کتابوں میں محفوظ‬
‫کر نا ایک خوش آئند قدم ہے لیکن یہ اس کی نشوونما کی ضمانت نہیں ہے اس کے‬
‫لیے ضروری ہے کہ عوام میں اس کے حوالے سے شعور پیدا کیا جائے۔‬

‫سرائیکی لوک گیت ہر عمر کے لوگوں کے لیے ایک خاص کشش رکھتے ہیں ۔ بچپن‬
‫میں لڑکی کی محبت کا مرکز اس کا بھائی ہوتا ہے اس لیے وہ یہ گیت گاتی ہے۔‬

‫ایہوں چیکوں تاں ملّن امیر سیّو میرے ویر کوں مل گئی ہیر سیّو‬

‫ترجمہ ‪ :‬یہ اُبٹنا وہ ہے جسے امیر لوگ استعمال کرتے ہیں میرے بھائی کو دلہن بھی‬
‫ہیر جیسی ملی ہے۔‬

‫چونکہ تبصرہ نگار کا تعلق ایک سرائیکی خطے سے ہے اس لیے اُسے اس عوامی‬
‫ہے۔‬ ‫لگاؤ‬ ‫والہانہ‬ ‫سے‬ ‫منظر‬ ‫پس‬ ‫کے‬ ‫اس‬ ‫اور‬ ‫زبان‬
‫تبصرہ نگارکہتا ہے کہ مہر عبدالحق نے ایک لڑکی کے ہر طرح کے جذبات کی‬
‫ترجمانی کی ہے ۔ بچپن کے بعد جب وہ نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی ہے تو اس‬
‫نیارخ اختیار کرتے ہیں۔‬
‫کے جذبات ایک ُ‬

‫آرل مل چنڑوں ہا سانول یار‬


‫پکیاں پیلو تے تھیاں گلزار ُ‬

‫ترجمہ‪ :‬پیلو پک کر باغ و بہار ہو گئی ہے اے سانولے محبوب تم آجاتے تو مل کر پیلو‬


‫ُچنتے شادی کا دن قریب آنے پر ایک لڑکی کے جذبات میں جو ہلچل ہوتی ہے اس کا‬
‫اظہار وہ یوں کرتی ہے۔ دل تانگ ‪ ،‬اللہ جوڑ سانگے ماہی داملنڑا مشکل مہانگے‬

‫ترجمہ‪ :‬دل انتظار کی گھڑیاں گزار رہا ہے ‪،‬اے اللہ تو ملنے کا سبب بنا دے۔ محبوب‬
‫کا ملنا اب تو بہت دشوار نظر آنے لگا ہے۔ وقت کا دھارا کبھی نہیں ُرکتا اور بہتا ہی‬
‫چال جاتا ہے ان منزلوں کے بعد مامتا کی منزل آتی ہے تو جذبات میں چاشنی اُمڈآتی‬
‫ہے وہ محبت بھرے لہجے میں لوری کا یہ گیت گاتی ہے۔‬

‫لولی ڈیندی میں ونجاں گھولی‬

‫لولی ڈیندی میں اتّی دے راوے‬

‫نندرخوشی دی تیڈی اکھیاں کوں آوے‬

‫ترجمہ ‪ :‬میں لوری دیتے ہوئے تجھ پر قربان ہوجاؤں اور تمہیں لوری دیتے کبھی نہ‬
‫تھکوں ‪،‬یہاں تک کہ تمہاری آنکھوں میں خوشی کی نیند آکے بس جائے۔‬

‫اس عوامی زبان میں ماہیے ‪ ،‬ڈھولے ‪،‬مزاحیہ گیت اور درگاہوں پر گائے جانے والے‬
‫گیت شامل ہیں۔‬

‫تبصرہ نگار خوشی سے سرشار ہے کہ یہ عوامی گیتوں کی پہلی جلد ہے اس عنوان‬


‫کے تحت ابھی مزید اور جلدیں آئیں گی ۔ اس کے بعد مبصر نے سرائیکی ادب کے‬
‫حوالے سے اس کتاب سے قطع نظر اپنے احساسات اور مشاہدات کا تذکرہ کیا ہے جو‬
‫ہے۔‬ ‫محل‬ ‫بے‬ ‫یہاں‬
‫زیر موضوع کتاب میں شامل بارہواں تبصرہ "مکاتیب بہادر یارجنگ "پر ہے ۔ یہ‬
‫تبصرہ فنون کے شمارہ ‪ ۴ ،۳‬جنوری‪ ،‬فروری ‪۱۸۱۱‬ء ‪ ،‬ص‪ ۴۹۸‬تا ‪ ۴۱۱‬میں شائع‬
‫ہوا۔‬

‫میں‪118‬صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت ‪61‬روپے ہے ۔ یہ بہادریارجنگ اکادمی‬


‫کراچی سے شائع ہوئی ۔ سال اشاعت اندراج نہیں ہے۔‬

‫تبصرے سے پہلے چار صفحات پر نواب محمد بہادر خاں کے حاالت زندگی‬
‫‪،‬شخصیت کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ تمام تبصرے الگ الگ موضوع پر ہیں ۔ سادہ اور‬
‫تصنع سے پاک اسلوب میں بین السطور ہمیں تبصرہ نگار کی فکر سرگرداں دکھائی‬
‫دیتی ہے ۔ اس نے ہر موضوع کا جائزہ معروضی انداز میں لیا ہے اور انتہائی‬
‫دیانتدارانہ انداز سے مصنف کا نقطہ نظر واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔‬

‫بہادریارجنگ (‪6719‬۔‪ )6722‬صرف چالیس برس جیے ۔ انہوں نے ابتدائی عمر میں‬
‫علوم مشرقی کی تعلیم پائی تھی اور اس سلسلے میں اکابر علماء کی صحبت کا فیض‬
‫اٹھایا تھا ۔ بعد میں وہ مغربی تعلیم کے حصول کے لیے پبلک سکول میں داخل ہوئے‬
‫لیکن اس میں وہ ابھی میٹرک ہی کے مرحلے میں تھے کہ سلسلہ تعلیم ترک دینا پڑا ۔‬
‫حیدرآباد میں انہوں نے ریاست کے مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم "مجلس‬
‫اتحادالمسلمین"کے معامالت کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ حیدرآبادسے باہر کی وسیع‬
‫تردنیا میں پہلے خارکساروں کی عسکری تنظیم نے کافی متاثر کیا لیکن بعد میں ان‬
‫کی ہمدردیاں مسلم لیگ کے ساتھ ہوگئیں۔ (ص ‪81‬کل کی بات)‬

‫خسرودکن آصف جاہ نے انہیں "بہادریارجنگ کا خطاب دیا"وہ اصولوں میں اٹل اور‬
‫قول کے پکے تھے او ر اس سلسلے میں کبھی کوئی رورعایت نہیں رکھتے تھے اس‬
‫کا اندازہ ان کے اس مکتوب سے ہوتا ہے جوانہوں نے ایڈیٹر زمزم کو مورخہ‬
‫‪49‬نومبر ‪6726‬ء میں لکھا تھا۔‬

‫’’میں زندگی کے ہر گوشے اور حیات کے ہر پہلو کے لیے‬


‫قرآنی نظام کافی اور شافی سمجھتاہوں چاہے حیات انسانی کا‬
‫وہ گوشہ اخالقی ہو یا علمی ‪ ،‬اقتصادی ہو یا سیاسی ‪ ،‬حالت‬
‫امن سے متعلق ہو یا حالت جنگ سے ۔ یہی وجہ ہے کہ میں‬
‫نہ روسو کا قائل ہوں نہ کارل مارکس کا ‪ ،‬نہ لینن کا قائل‬
‫ہوں ‪،‬نہ ٹالسٹائے کا ‪ ،‬نہ اینی بسنٹ کا قائل ہوں ‪ ،‬نہ گاندھی‬
‫کا اور اپنی اس بغاوت کا اقرار کرتا ہوں کہ اگر جناح اور‬
‫مشرقی بھی اس کے سواکوئی اور نظام حیات چاہتے ہیں تو‬
‫ان کا بھی قائل نہیں ہوں‘‘۔ (ص ‪87‬۔ کل کی بات)‬

‫ان کے مزید دو اور خطوط شامل تبصرہ ہیں جن میں وہ اسالمی حکومت اور قرآنی‬
‫تعلیمات کے اجراء پر زور دیتے ہیں ۔ اس میں وہ ایک انتہاپسند شخصیت کے روپ‬
‫میں سامنے آتے ہیں۔‬

‫اپنے مکتوب مورخہ ‪62‬فروری ‪،6722‬بنام حمید نظامی ایڈیٹر نوائے وقت کے نام‬
‫لکھتے ہیں۔‬

‫’’آپ امام کی فکر نہ کیجیے ۔ خدا نے ہمیشہ مسلمانوں کے‬


‫لیے اس وقت امام پیدا کیا جبکہ انتشار اپنی انتہا کو پہنچ گیا‬
‫ہو۔ اگر پنجاب نے اقبال کی صورت میں گفتار کا امام پیدا‬
‫کر لیا تو انشاء اللہ تھوڑے دنوں میں اس کی گفتار سے‬
‫نسبت رکھنے والوں میں سے کوئی کردار کا امام بھی پیدا‬
‫ہوجائے گا‘‘۔ (ص ‪ ،87‬ایضا ً)‬

‫پاکستان بننے سے پیشتر ان کے خطوط کا موضوع زیادہ تر یہی تھا کہ پاکستان بننے‬
‫الہی دستور اور قرآنی حکومت ہو گی اور اس معاملے میں وہ کوئی اور‬
‫کے بعد وہاں ٰ‬
‫بات سننے کے قائل نہ تھے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ قائد اعظم کے پیش روتھے‬
‫۔ اس کا اظہار اُن کے اس خط سے ہوتا ہے جو انہوں نے موالنا محمد علی صاحب‬
‫کے نام مورخہ ‪68‬اپریل ‪6726‬ء میں لکھا۔" مسلم لیگ کے ساتھ اسی لیے ہوں کہ‬
‫غیرشعوری طور پر اس کا قائد اس منزل کی طرف جارہا ہے ۔ پاکستان کے دستور‬
‫حکومت کی تحریک اس سال کے اجالس میں نہ آسکی لیکن یہ دیکھ کر خوشی ہوئی‬
‫کہ اس مقصد کو م قصد حیات سمجھنے والوں کا ایک خاصا بڑا گروہ لیگ میں پیدا ہو‬
‫گیا ہے۔‬

‫الہی دستور اور وہاں کی‬


‫اللہ نے میری زبان سے اعالن کروایا کہ پاکستان کا دستور ٰ‬
‫حکومت قرآنی حکومت ہو گی ۔جب میں دوران تقریراس مقام پر پہنچا تو قائد اعظم‬
‫نے زور سے اور بڑے جوش سے میز پر مکا م ار کر فرمایا تم بالکل درست کہتے ہو‬
‫اور میں نے فورا ً اعالن کر دیا کہ قائد اعظم سے میرے قول پر سند تصدیق مل گئی ۔‬
‫(ص ‪71‬۔ کل کی بات)‬

‫یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ ان تینوں خطوط میں جو مختلف شخصیات کو لکھے ۔ یہ‬
‫حقیقت سامنے آتی ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے مسلم لیگ سمیت قائد اعظم کے ذہن‬
‫میں پاکستان دستور حکومت کا کوئی واضح تصور موجود نہیں تھا ۔ یہ بہادر یار جنگ‬
‫اور ان جیسا سوچنے والوں کی حکمت تھی۔‬

‫مزید برآں تبصرہ نگار مکتوب نگاری کی صنف اور اہم مکتوب نگاروں کے حوالے‬
‫سے بات کرتا ہے جو کہ زیر نظر تبصرہ سے متعلقہ نہیں ہے ۔آخر میں ان خطوط کی‬
‫اہمیت کو واضح کرتے ہوئے وہ کہتا ہے کہ یہ مستقبل کے مورخین کے لیے ایک اہم‬
‫دستاویز ہے۔‬

‫میں تبصرہ نگار کی فکر کو خراج تحسین پیش کرونگی کہ موضوع سے متعلق اس‬
‫کی سوچ میں اس قدر گہرائی ہے اور حاالت حاضرہ پر اس کی گرفت کتنی مضبوط‬
‫ہے کہ اس نے ایک مقامی روزنامے میں یہ سوال پڑھ کر کہ آیا پاکستان میں اسالمی‬
‫اور قرآنی نظام حکومت کا قیام قائداعظم کے پیش نظر تھا یانہیں؟ اس ضمن میں‬
‫مختلف لوگوں نے اپنی آراء پیش کیں ۔ تبصرہ نگار نے اس سوال کا جواب بہادر یار‬
‫جنگ کے مجموعہ مکاتیب سے حاصل کیا اور اس پر ایک مفصل تبصرہ تحریرکیا۔‬

‫زیر موضوع کتاب میں شامل تیرھواں تبصرہ "خالفت راشدہ اور جمہوری قدریں"پر‬
‫ہے ۔ مصنف رشید اختر ندوی ‪6112 ،‬صفحات پر مشتمل یہ کتاب ادارہ معارف ملّی ‪،‬‬
‫میکلوڈ روڈ ‪ ،‬الہور سے شائع ہوئی ۔ اس کتاب کی قیمت ‪49‬روپے ہے ۔ سال اشاعت‬
‫ندارد یہ تبصرہ فنون کے شمارہ ‪ ۴ ،۳‬جنوری ‪ ،‬فروری ‪ ۱۸۱۱‬میں ص‪ ۴۱۳‬تا ‪۴۱۴‬‬
‫میں شائع ہوا۔‬

‫تبصرہ نگار تاریخ کے حوالے سے خاصا تنقیدی شعور رکھتا ہے ۔ زیر نظر کتاب‬
‫کے عنوان نے اسے غلط فہمی میں مبتال کر دیا اور وہ اسے ایک ایسی کتاب سمجھ‬
‫بیٹھا جس میں خلفائے راشدین کے عہد کے ان واقعات ‪ ،‬معامالت اور پالیسیوں کا‬
‫تذکرہ ہو گا جن سے جمہوری قدروں کا تعین ہوگا اور اس سے قاری کی سوچ کے در‬
‫بھی وا ہوتے ہوں گے لیکن چند صفحات کے مطالعہ کے بعد اندازہ ہوا کہ ایسا کچھ‬
‫بھی نہیں ہے۔‬

‫کتاب کے موضوع اور مصنف کی فکر کے حوالے سے صاحب تبصرہ کہتا ہے ۔‬

‫’’یہ خلفائے راشدین کے عہد کی اسالمی تاریخ کی ایک‬


‫سیدھی سادی کتاب ہے جو نسبتا ً زیادہ تفصیل سے تاریخ کی‬
‫اصل کتابوں کے حوالوں کے ساتھ مرتب کی گئی ہے اور‬
‫جس میں مصنف رفتار واقعات پر بس کہیں کہیں تبصرہ‬
‫کرتے جاتے ہیں‘‘۔ (ص ‪ ،71‬کل کی بات)‬

‫تبصرہ نگار سے یہ معمہ حل نہیں ہوتا کہ کتاب کا یہ نام رکھنے کی وجہ کیا ہے؟‬
‫کیونکہ اس میں تحقیق و تجزیہ سرے سے موجود ہی نہیں۔ اس کے باوجود وہ اس کی‬
‫افادیت سے انکاری نہیں ۔ اسے مصنف کے ذوق مطالعہ پر کوئی شبہ نہیں ۔ مصنف‬
‫کا اسلوب واضح اور دل نشین ہے لیکن یہ لب و لہجہ ایک مورخ کے لہجے سے میل‬
‫نہیں کھاتا ۔ اس تصنیف میں پہلے چار خلفاء کے دورکی فتوحات اور جنگی مہمات‬
‫کی تاریخ رقم ہے۔‬

‫مبصر چونکہ ایک باصالحیت ادیب ہے اس کا تاریخی اور لسانی شعور بہت بلند ہے‬
‫اس لیے وہ اظہار افسوس کرتا ہے کہ تاریخ تصنیف کرنے کے لیے ایک فلسفیانہ‬
‫اورابن خلدونی ذہن کی ضرورت ہے ۔ تبصرہ نگار نے ان خامیوں کا اظہار بھی‬
‫تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے شائستگی سے کیا ہے۔‬
‫شامل کتاب چودھواں تبصرہ "دربار ملّی"پر ہے ۔ یہ مئی‪ ،‬جون ‪ ۱۸۱۸‬فنون‪ ،‬ص‬
‫‪ ۴۱۶‬تا ‪ ۴۸۰‬میں شائع ہوا۔ انتخاب و ترتیب ڈاکٹر ایس ایم اکرام ‪ ،‬ڈاکٹر وحید قریشی ‪،‬‬
‫ترجمہ ‪ ،‬تعلیقات وحواشی خواجہ عبدالحمید یزدانی ‪6611 ،‬صفحات (متن ‪،142‬‬
‫حواشی ‪ )911‬قیمت ‪41‬روپے ‪ ،‬مجلس ترقی ادب کلب روڈ ‪ ،‬الہور نے شائع کی۔ سال‬
‫اشاعت درج نہیں ہے۔تبصرہ نگارزیر نظر کتاب کا تعارف چند سطور میں کرواتا‬
‫ہے۔‬
‫’’پاکستان وہند میں نوسوبرس (گیارھویں صدی سے انیسویں صدی)کے اس طویل‬
‫عرصے پر پھیلی ہوئی فارسی انشاء وتالیف کا ایک انتخاب ملک کے دونامور‬
‫فاضلوں ڈاکٹر ایس ایم اکرام اور ڈاکٹر وحید قریشی نے "دربار ملی "کے نام سے‬
‫مرتب کیا تھا ۔زیر نظر کتاب اس انتخاب کا اُردو ترجمہ ہے جس سے مقصود اس‬
‫انتخاب کو اُردو خواں قارئین کے وسیع تر حلقے میں روشناس کرانا ہے‘‘۔‬

‫اس کتاب کا فارسی سے اُردو ترجمہ فاضل مترجم خواجہ عبدالحمید یزدانی نے کیا ۔‬
‫بات ترجمے تک محدود نہیں رہی بلکہ انہوں نے تعلیقات و حواشی پر مشتمل‬
‫تقریباًاصل کتاب کی ضخامت جتنی ایک اور کتاب تیار کر دی ۔ اس سے کتاب کی‬
‫افادیت اور جامعیت میں گراں قدر اضافہ ہوا۔ اس میں پاک و ہند کی ایک ہزار سالہ‬
‫علمی ‪ ،‬سیاسی ‪ ،‬مذہبی اور ثقافتی تاریخ کا پورا باب رقم ہے۔‬

‫فارسی اہل قلم کے ساتھ ساتھ موضوعات کا تنوع بھی صوفیاء و علماء حکمران طبقے‬
‫‪ ،‬مورخین ان کے نام اور بھی بہت سے موضوعات ہیں ۔اس مجموعے میں‬
‫‪16‬مصنفین کی تحریروں کا انتخاب شامل ہے ۔‬

‫تبصرہ نگار نے مذکورہ باال شخصیات کی تحاریر کے اقتباسات بطور نمونہ پیش کیے‬
‫ہیں۔ تجرد کی زندگی کے حوالے سے داتا گنج بخش کے اقوال درج کیے ہیں۔ امیر‬
‫خسرواپنی مجلس میں ایک مغنیہ ترمنی خاتون کی تعریف کرتے ہیں ۔ حضرت نظام‬
‫الدین کے ملفوظات شامل ہیں۔ عورت کے حوالے سے داناؤں کے اقوال ‪ ،‬تمباکو‬
‫‪،‬اصول موسیقی ‪ ،‬غالب کے نزدیک مکتوب نگاری کے آداب اور ان کے عالوہ‬
‫مختلف نوع کے مضامین شامل ہیں ۔ عورت کے حوالے سے حضرت علی کا دلچسپ‬
‫قول بھی شامل ہے۔‬

‫’’عورت تمام تر بُرائی ہے اور سب سے بُری بات اس کی‬


‫یہ ہے کہ اس کے بغیر چارہ بھی نہیں‘‘۔(ص ‪ ،۱۰۰‬کل کی‬
‫بات)‬
‫تبصرہ نگار کتاب کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے کہتا ہے کہ زیر نظر کتاب میں انتخاب‬
‫کا اصول و معیار کیا رکھا ؟ پاک و ہند کے فارسی ادباء اور اہل قلم میں سے کن کن‬
‫کو شامل کیا اور کن کو چھوڑا؟ تاہم انتخاب وسیع المطالعہ اور محقق اساتذہ نے کیا‬
‫جو یقیناًبہترین چیزوں کا ہی ہو گا ۔‬

‫بعض اوقات ترجمہ نگاری بھی اسلوب کی چاشنی کھو دیتی ہے اس لیے کچھ‬
‫موضوعات کے حوالے سے یہی کہا جاسکتا ہے کہ ان میں نہ کوئی ندرت ہے اور نہ‬
‫اسلوب کا ظاہر ی ُحسن نظر آتا ہے لیکن ترجمے کا معیار عمومی طور پر اچھاہے۔‬

‫مبصر آخر میں کچھ کوتاہیوں کی طرف توجہ دالتا ہے ۔ وہ مترجم کے اتنے ضخیم‬
‫کام کو سراہتے ہیں کہ اتنے مصروف دور میں اس کام کے لیے وقت نکالنا جان‬
‫جوکھم ہے وہ کچھ بے اعتدالیوں کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ حواشی کے لیے انہوں‬
‫نے حدود کار کا تعین نہیں کیا ۔ اگر ان کو مناسب انتخاب کے ساتھ قلم بند کیا جاتا تو‬
‫زیادہ مناسب ہوتا اور کتاب ایک معقول حجم کے اندر رہتی۔ دوسری کمی اشاریے کی‬
‫غیر موجودگی ہے جو اس پائے کی دستاویز میں بُری طرح کھٹکتی ہے ۔‬

‫مبصر یہ مفید مشورے اس لیے دیتا ہے کہ اگر دوسرا ایڈیشن شائع ہو تو ان خامیوں‬
‫کی تالفی ہو جائے ۔ اس کے وسیع المطالعہ ذہن میں اس موضوع سے متعلق معلومات‬
‫کا ذخیرہ موجود ہے۔‬

‫کتاب میں شامل پندرھواں تبصرہ "اسالم پاکستان میں"پر ہے ۔ مصنف پروفیسر محمد‬
‫عثمان ‪161 ،‬صفحات پر مشتمل یہ کتاب مکتبہ جدید الہور سے شائع ہوئی ‪ ،‬قیمت‬
‫‪9‬روپے ‪ ،‬سال اشاعت درج نہیں ہے۔یہ تبصرہ فنون کے شمارہ ‪ ۱،۱‬نومبر ‪ ،‬دسمبر‬
‫‪۱۸۱۸‬ء میں‪ ،‬ص‪ ۶۰۱‬تا ‪ ۶۱۱‬پر شائع ہوا۔‬

‫تبصرہ نگار کتاب کے نام سے اختالف کرتا ہے کیونکہ اس سے قاری اس اُلجھن کا‬
‫شکار ہو جاتا ہے کہ زیر نظر کتاب میں اس سفر کی کہانی بیان ہوئی ہے جو قیام‬
‫پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہوا لیکن اس کتاب میں ایسے کسی سفر کی داستان نہیں‬
‫بیان ہوئی ہے اس کے تعارف میں وہ کہتا ہے کہ یہ پروفیسر محمد عثمان کے ان‬
‫مضامین کا مجموعہ ہے جو انہوں نے پاکستان میں اسالمی فکر اور اس کے رجال‬
‫کے حوالے سے لکھے تھے۔‬

‫وہ خود ان کے بارے میں کہتے ہیں۔‬

‫’’کچھ تو قرآن حکیم کے بعض تصورات و احکام سے تعلق‬


‫رکھتے ہیں اور کچھ ان ارباب فکر سے جو ہماری حالیہ‬
‫تاریخ میں ممتاز ہوئے ان کے عالوہ چند مضامین ایسے ہیں‬
‫جن میں تعلیم ‪ ،‬معاشی انصاف ‪ ،‬اسالمی سوشلزم جیسے‬
‫معاشرتی مسائل کے بارے میں میرے ذاتی خیاالت اور‬
‫سوچ کا اظہار ہوا ہے‘‘۔ (ص ‪ ،618،617‬کل کی بات)‬

‫مبصر مصنف کے اسلوب کے حوالے سے کہتا ہے کہ ان کی تحریروں میں یبوست‬


‫اور سرد مہری نہیں بلکہ وہ نپے تلے دلچسپ اور شگفتہ انداز میں اپنا مدعا بیان‬
‫کرتے ہیں۔ وہ کسی بھی موضوع کے حوالے سے بات کریں ان کی تحریر میں گرفت‬
‫محسوس ہو تی ہے ۔ پھر وہ مصنف کی دیگر کتب کے حوالے سے اپنے خیاالت کا‬
‫اظہار کرتا ہے ۔‬

‫تبصرہ نگاری کے لیے صاحب تبصرہ کی موضوع پر گرفت ضروری ہے ۔ فاضل‬


‫تبصرہ نگار زیر تبصرہ موضوعات پر مکمل گرفت رکھتا ہے اس لیے وہ اس‬
‫موضوع کے پس منظر اور پیش منظر کا بھی ساتھ ساتھ جائزہ لیتا ہے جو بعض‬
‫اوقات اتنی طوالت اختیار کر جاتا ہے کہ زیر موضوع کتاب پس منظر میں جاتی ہوئی‬
‫محسوس ہو تی ہے۔‬

‫زیر تبصرہ کتاب میں وہ مصنف کی فکر کا جائزہ لیتے ہوئے کہتا ہے پاکستان میں‬
‫اسالم کے بارے میں جتنے بھی فکری اور اعتقادی رویے پائے جاتے ہیں ان میں‬
‫انفرادی نقطہ نظر کو چھوڑ کر تین بڑے مدارس فکر میں تقسیم کیے جاسکتے ہیں۔‬
‫پہال مدرسہ ‪ :‬روایت پسندی کے زمرے میں آئے گا جو اسالم کی نشاۃ ثانیہ اس انداز‬
‫میں چاہتے ہیں کہ قرآن کے ساتھ احادیث اور آثار سلف بھی اپنی تمام ترجزئیات کے‬
‫ساتھ واجب العمل ٹھہریں ۔‬

‫یہاں صاحب تبصرہ کہتا ہے کہ اتنی ساری پابندیاں لگ جانے کے بعد زندگی اور‬
‫گا۔‬ ‫جائے‬ ‫رہ‬ ‫کیا‬ ‫باقی‬ ‫میں‬ ‫معاشرے‬
‫دوسرا مدرسہ‪ :‬اباحتی یا جدّت پسند لوگوں کا ہے ان کے نزدیک اسالم کی کوئی تعلیم‬
‫اور قرآن کی کوئی آیت اپنے مفہوم میں اتنی قطعی اور معین نہیں ہے کہ زمانے اور‬
‫حاالت کے مطابق ان کی نئی تعبیرنہ کی جاسکے۔‬

‫تیسرمدرسہ‪ :‬یہ اعتدال پسند لوگوں کا ہے۔ یہ اپنی کوئی باقاعدہ تنظیم نہیں رکھتا ۔ اس‬
‫میں ملک کے ذہین طبقے کا ایک بڑا حصہ اور کچھ ادارے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آج‬
‫کا مسلمان ذہنی اور فکری طور پر بہت آگے نکل آیا ہے اس کے عقلی ‪،‬جذباتی اور‬
‫حسی تقاضوں میں تبدیلی رونما ہو چکی ہے ۔ دوسری اقوام کے ساتھ روابط رکھنے‬
‫کے لیے اصل اور بنیادی تعلیمات کو چھوڑ کر ضمنی اور روایاتی تعلیمات کے بارے‬
‫میں اپنے نقطۂ نظر میں تبدیلی پیداکرنی ہو گی۔‬

‫یہ اس کتاب کی خصوصیت ہے کہ اس میں روایت پسند مدرسے کے بعض معتقدات‬


‫کی مخالفت میں پہلی بار ایسی معقول ‪ ،‬مدلّل اور متوازن آواز اُٹھی ہے جس کی تردید‬
‫کرنا اتنا آسان نہ ہو گا۔‬

‫جہاد کے متعلق پروفیسر عثمان کی تحقیق یہ ہے کہ جنگ و قتال کا حکم ہمیشہ کے‬
‫لیے نہیں بلکہ صرف ان لوگوں کے خالف ہے جو مذہبی آزادی سلب کرنے کی‬
‫کوشش کریں ۔ ان کا نظریہ روایتی عقیدے کی ضد ہے۔‬

‫پردہ کے حوالے سے پروفیسر عثمان کے دالئل ٹھوس سنجیدہ غور کے قابل ہیں ۔ وہ‬
‫کہتے ہیں کہ قرآن کی آیات پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ پردے کے احکامات‬
‫کچھ خاص حاالت میں دیے گئے تھے جب مدینہ میں مسلمان ابھی طاقتور نہ تھے اور‬
‫منافقین کا ایک گروہ ایساتھا جو راہ چلتی ہوئی مسلمان عورتوں کو چھیڑتا اورتنگ‬
‫کرتا تھا اس لیے عورتوں کو ہدایت کی گئی کہ اپنے اوپر جلباب اوڑھ لیا کریں ۔ وہ‬
‫کہتے ہیں۔‬

‫’’قرآن اصل میں ایسی سوسائٹی پیدا کرنا چاہتا ہے جس میں‬


‫نہ منافق خصلت نہ ملعون صفت طبقہ موجود ہو اور نہ‬
‫جلباب کی نوبت آئے۔ دردسر کا صحیح عالج یہ نہیں کہ آپ‬
‫عمر بھر اسپروکھاتے رہیں بلکہ یہ ہے کہ آپ ان اسباب کو‬
‫دور کریں جن کے باعث درد سر پیدا ہو تا ہے‘‘۔ (ص‬
‫‪ ،661‬کل کی بات)‬

‫وہ کہتے ہیں کہ اسالم کے نظام معیشت میں وہ سارا مواد موجود ہے جس سے‬
‫دورحاضر کے تقاضوں کے مطابق دولت کی منصفانہ تقسیم کے مقصد کو عملی جامہ‬
‫پہنایا جاسکتا ہے۔‬

‫تبصرہ نگار کہتا ہے کہ ان مباحث کے عالوہ اس کتاب میں سرسیّد احمد خان ‪ ،‬عالمہ‬
‫اقبال ‪ ،‬آغا خاں مرحوم ‪ ،‬مودودی ‪ ،‬خلیفہ عبدالحکیم جیسی شخصیات کے نظریات پر‬
‫بھی بحث ملے گی لیکن انہوں نے وسعت ظرف کا دامن نہیں چھوڑا ۔ مودودی کی‬
‫شخصی خامیوں کا تجزیہ کرتے ہوئے انہوں نے ان کی خوبیوں سے صرف نظرنہیں‬
‫کیا۔‬

‫مصنف نے اس کتاب میں دودانشورشخصیات ڈاکٹر غالم جیالنی اور پروفیسر اشفاق‬
‫علی خاں کے خاکے شامل کیے ہیں لیکن مبصر کے خیال میں یہ خاکے کتاب کے‬
‫موضوع سے میل نہیں کھاتے ۔شاید انہوں نے اس کتاب کی اشاعت کو موقع غنیمت‬
‫جان کر اس میں شامل کر دیے ۔‬

‫مذکوراالول خاکہ خاصے کی چیز ہے ان کا اسلوب ادبی لطافت اور چاشنی سے‬
‫بھرپور ہے لیکن چونکہ وہ پنجابی نژاد ہیں اس لیے مبصر اُن کے انتساب کے حوالے‬
‫سے اسلوب کا جائزہ لیتے ہوئے کہتا ہے کہ جملوں میں ربط نہیں ہے۔‬
‫’’اسالمی فکر کی اس روایت کے نام جسے سرسیّد احمد‬
‫خاں نے آغاز اور عالمہ اقبال نے مستحکم کیا‘‘(ص ‪،669‬‬
‫کل کی بات)‬

‫شاید اسی لیے اہل زبان اُردو ہم پنجابیوں کے بارے یہ رائے قائم کرتے ہیں کہ زبان‬
‫سکتا۔‬ ‫ہو‬ ‫نہیں‬ ‫مستند‬ ‫محاورہ‬ ‫کا‬ ‫ان‬ ‫میں‬
‫زیر موضوع کتاب میں شامل سولہواں تبصرہ "االخبار الطوال(مفصل احوال تاریخ)ابو‬
‫حنیفہ الدینوری‪ ،‬ترجمہ پروفیسر محمد منور‪961 ،‬صفحات پر مشتمل یہ کتاب مرکزی‬
‫اُردو بورڈ الہور سے شائع ہوئی ۔ قیمت ‪61‬روپے ہے سن اشاعت درج نہیں۔ زیر نظر‬
‫کتاب کا مصنف اپنے وقت کا بہت بڑا عالم اور ادیب تھا ۔اس نے مختلف علوم و فنون‬
‫کے حوالے سے کتب تصنیف کیں ۔ ان کی کثیر تعداد حوادث زمانہ کی نذر ہو گئی ۔‬
‫تبصرہ نگار کو صرف مذکور ہ باال تاریخی کتاب تک رسائی حاصل ہوئی ہے ۔ وہ‬
‫کہتا ہے کہ ابو حنیفہ الدینوری کی اس کتاب کی وجہ شہرت تاریخ کے انداز میں لکھی‬
‫جانے والی پہلی کتاب ہے ۔‬

‫’’اس میں اہل فارس کی تاریخ ‪ ،‬عربوں کے ساتھ ان کے‬


‫تعلقات اور پھر حضرت عثمان کی شہادت کے بعد سے لے‬
‫کر عباسی دور کے اوائل تک رونما ہونے والے کچھ اہم‬
‫واقعات کے بارے میں ایسی تفصیالت ملتی ہیں جو اگر اس‬
‫مدون نہ ہو چکی ہوتیں تو بعد کے مورخین کو‬
‫کتاب میں ّ‬
‫دوسرے ماخذ سے اتنی آسانی کے ساتھ دستیاب نہ‬
‫ہوسکیں‘‘۔ (ص ‪ ،667‬کل کی بات)‬

‫اس کتاب میں مندرجات کا ایسا حصہ ہے جو مصنف کا آنکھوں دیکھا ہے ۔ ایک حصہ‬
‫سنا جنہوں نے براہ راست کا مشاہدہ کیا تھا ۔ عباسی‬
‫وہ ہے جو اس نے ان لوگوں سے ُ‬
‫حکومت کے اوائل کے زمانے کی تاریخ اور مختار کے فتنے کے بعد اُموی حکومت‬
‫کا زوال اس کے سامنے کی باتیں ہیں ۔ حادثہ کربال اور فتنہ خوارج ‪ ،‬حضرت عائشہ‬
‫و حضرت علی اور امیر معاویہ کے درمیان ہونے والی لڑائیوں کی تفصیل وہ چشم دید‬
‫گواہوں کے حوالے سے بیان کرتا ہے ۔‬
‫تبصرہ نگار کتاب کے تاریخی استناد سے مطمئن نہیں خصوصا ً ماقبل اسالم دورسے ۔‬
‫عمر کے‬
‫یہ کتاب حضرت آدم ؑ سے لے کر سلطنت ایران کو چھوتی ہوئی حضرت ؓ‬
‫زمانے تک کا احاطہ کرتی ہے لیکن یہ سارا زمانہ ڈیڑھ سو صفحات سے کم ہے ۔ اس‬
‫حصے میں مصنف نے تاریخی اساطیر پر اکتفا کیا ہے۔‬

‫مبصر اُن تاریخی تسامحات کی نشاندہی کرتا ہے جن میں مختلف شخصیات کے ناموں‬
‫کو خلط ملط کیا گیا ۔ مصنف نے واقعات میں اسناد کا حوالہ ضروری نہیں سمجھا اور‬
‫سنین کا تذکرہ بھی نہیں کیا ۔ اس طرح کی صورتحال میں واقعات کی تحقیق و تصدیق‬
‫مشکل ہو جاتی ہے۔ اس تاریخی کتاب کے اسلوب کے حوالے سے تبصرہ نگار کہتا‬
‫ہے کہ اس کی تاریخی حیثیت مستند نہیں ہے لیکن ایک تاریخی تذکرے کی حیثیت‬
‫سے یہ اتنی دلچسپ اور مسحورکن ہے کہ قاری اس کی جادوبیانی میں کھو کر رہ‬
‫جاتا ہے ۔ مصنف کا عربی اسلوب بہت لطیف اور بلیغ ہے۔‬

‫تبصرہ نگار مترجم کے حوالے سے کہتا ہے۔‬

‫’’اتنی دیانت داری کے ساتھ اس قدر رواں ترجمہ کرنا‬


‫پروفیسر منور کی ہنرمندی اور قابلیت کی دلیل ہے اور اس‬
‫پر وہ مبارک باد کے مستحق ہیں‘‘۔ (ص‪ ،644‬کل کی بات)‬

‫تبصرہ نگار دوران تبصرہ ژرف نگاہی کا ثبوت دیتے ہوئے ان معنوی اغالط کی‬
‫طرف اشارہ کرتا ہے جو مترجم نے محض اپنے گمان سے ترجمہ کی ہیں لیکن اس‬
‫سے کتاب کے بحیثیت مجموعی ترجمے پر کوئی اثر نہیں پڑا ۔ اس کا اُردومطالعہ‬
‫عربی!‬ ‫جتناکہ‬ ‫ہے‬ ‫دلچسپ‬ ‫اتنا‬ ‫بھی‬
‫سول) پر ہے ۔‬
‫زیر موضوع کتاب میں شامل سترہواں تبصرہ "الہمزیۃ النبویہ"(نعت ر ؐ‬
‫شاعر امیرالشعراء احمد شوقی ‪،‬ترجمہ وتشریح حافظ قاری فیوض الرحمن ایم اے ‪،‬‬
‫المکتبہ العلمیۃ لیک روڈ ‪ ،‬الہور۔ یہ تبصرہ فنون کے شمارہ ‪ ۴‬فروری ‪۱۸۹۰‬ء ‪،‬‬
‫ص‪ ۱۱۱‬تا ‪ ۱۱۸‬میں شائع ہوا۔ تبصرہ نگارآغاز میں چند اہم عربی شعراء کا تذکرہ‬
‫کرتا ہے اس کے بعد زمانہ قریب میں مصر کے امیر الشعراء احمد شوقی (متوفی‬
‫حضورکی مدح میں ایک قصیدہ ہمزہ‬
‫ؐ‬ ‫‪ )6714‬کے قصیدے کا ذکر کرتا ہے ۔ اس نے‬
‫کے قافیہ کے ساتھ کہا ۔ اس نعتیہ قصیدے کا ترجمہ جامعہ اسالمیہ الہور کے سربراہ‬
‫قاری فیوض الرحمن ایم اے نے کیا ہے ۔ یہ ترجمہ ایم اے عربی کے طلبہ کے لیے‬
‫کیا گیا ہے اس لیے اس ترجمے کے ساتھ تشریح بھی ہے۔‬

‫تبصرہ نگار ترجمہ جائزہ لیتے ہوئے کہتا ہے‬

‫’’ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ترجمہ معیار سے‬


‫گرا ہوا ہے اور شوقی جیسے عظیم شاعر کے بالکل شایان‬
‫شان نہیں‘‘۔ (ص ‪ ،641‬کل کی بات)‬

‫دوران تبصرہ مبصر نے بطور نمونہ چند مثالیں بھی پیش کی ہیں جس سے مبصر کی‬
‫عربی دانی پر گرفت نظر آتی ہے۔‬

‫’’ایک شعر میں االشترکیون انت امامھم کا ترجمہ انہوں نے‬


‫یہ کیا ہے کہ "آپ اشتر اکیوں کے امام ہیں"انہیں شاید معلوم‬
‫نہیں کہ عربی میں اشتراکیون سوشلسٹوں کے بوالجاتا ہے ۔‬
‫کمیونسٹوں کے لیے ایک دوسرا لفظ شیوعیون ہے‘‘۔ (ص‬
‫‪ ،641‬ایضا ً)‬

‫قاری صاحب نے موالنا محمد ناظم ندوی کے اس خیال کی تردید کرنے کی کوشش‬
‫کی ہے کہ بوصیری کے قصیدہ بُردہ میں جو اثروسوز اور محبت رسول ہے وہ شوقی‬
‫کی نظم میں نہیں۔ موالنا محمد ناظم کی یہ رائے بالکل صحیح ہے لیکن شاید قاری کو‬
‫اس کا علم نہیں۔‬

‫اس کتاب کی تشکیل میں جن اصحاب نے حصہ لیا ان میں سے کسی کی بھی اس‬
‫موضوع پر گرفت نظر نہیں آتی ۔‬

‫کتاب کی تقریظ لکھنے والے کے حوالے سے تبصرہ نگار کی رائے مالحظہ کریں ۔‬
‫"کتاب کی تقریظ لکھنے والے ایک فاضل موالنا محمد اجمل خاں صاحب نے شاعر‬
‫کو موالنا احمد شوقی مصری لکھا ہے ۔ ہم ان کی خدمت میں موالنا شوقی کا یہ شعر‬
‫پیش کرنے کی اجازت چاہتے ہیں ۔‬

‫رمضان ولّی ھاتھایاساقی مشتاقۃ تسعی الی مشتاق‬

‫ترجمہ‪ :‬رمضان چال گیا ‪،‬اب تو لے آ‪ ،‬اے ساقی کہ ایک مشاق روح‬
‫اپنے شوق کی راہ دیکھتی ہے۔‬

‫میری رائے میں اس طرح کا ترجمہ ان طلبہ پر ظلم کے مترادف ہے کیونکہ یہ ان‬
‫کے مستقبل کے لیے کسی خطرے سے کم نہیں ۔ ادارے کے سربراہ کی علمی‬
‫صورتحال کا یہ حال ہے تو دیگر اساتذہ اور طلبہ تو پھر قابل رحم ہیں۔ اس فاضل‬
‫مترجم نے اپنے ذوق مطالعہ کے اظہار کے لیے بیالیس کتابوں کا حوالہ دیا ہے‬
‫حاالنکہ اس کے لیے صرف دو معیاری کتب ہی کافی تھیں۔‬

‫زیر موضوع کتاب میں شامل اٹھارہواں تبصرہ "سنہرا دیس "پر ہے مصنف‬
‫وفاراشدی‪464 ،‬صفحات پر مشتمل یہ کتاب ادارہ مطبوعات ‪ ،‬پاکستان کراچی سے‬
‫شائع ہوئی ۔ قیمت ‪1791‬روپے ہے ۔ سن اشاعت درج نہیں ہے ۔‬

‫زیر تبصرہ کت اب سے پہلے مصنف وفاراشدی کے متعلق تبصرہ نگار کا نقطہ نظر‬
‫مالحظہ ہو۔‬

‫’’سنہرا دیس میں ہم جس وفاراشدی سے ملتے ہیں وہ اس‬


‫سے صریحی طور پر مختلف ہیں ۔ جس سے ہم بنگال میں‬
‫اُردو کے صفحات پر متعارف ہوئے تھے ۔ سنہرا دیس کی‬
‫سرزمین کے رنگا رنگ پہلوؤں پر لکھے ہوئے ان مضامین‬
‫میں سنجیدگی ہے ‪ ،‬وقار ہے ۔ حسن ترتیب ہے اور ایک‬
‫یکسو مطالعے کے آثار ہیں ۔ وفاراشدی نے یہ مضامین‬
‫پچھلے سالوں میں ملک کے مختلف رسالوں اور جریدوں‬
‫کے لیے لکھے تھے ۔ اب انہیں ایک مناسب ترتیب کے ساتھ‬
‫"سنہرادیس "کے عنوان سے جمع کردیا ہے‘‘۔ (ص ‪،648‬‬
‫کل کی بات)‬

‫مصنف کا اسلوب سلجھا ہوااورمتوازن ہے اس لیے قاری اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوتا ۔‬

‫زیر تبصرہ کتاب بنگال کے حوالے سے بنیادی اور تاریخی معلومات پر مبنی ہے ۔‬
‫قدیم وقتوں میں بنگال میں تین قبیلے ونگا ‪ ،‬گورا‪،‬اور پنڈرا آباد تھے۔‬

‫’’ابوالفضل کہتاہے کہ ونگا کے ساتھ جب آل (بمعنی مٹی کا‬


‫پشتہ‪ ،‬حدبندی ) کا الحقہ لگایا گیا تو پہلے ونگا آل اورپھر‬
‫بنگال بنا‘‘۔ (ص ‪ ،647‬ایضا ً)‬

‫بنگال میں اسالمی عہد کا آغاز قطب الدین ایبک کے ترک سپہ ساالر بختیارخلجی کی‬
‫فتح کے ساتھ تیرہویں صدی سے ہوا لیکن اسالمی اشاعت کا آغاز عرب تاجروں کے‬
‫ساتھ آنے والے مسلمان مبلغین سے ہوا ۔ اسالمی فتح سے پہلے سنسکرت بعد میں‬
‫بنگلہ زبان نے اس کی جگہ لے لی۔‬

‫بنگال کے متعلق یہ کتاب ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے اس لیے ہر‬
‫کوئی اس کا مطالعہ کرنا چاہے گا ۔ ضلع سہلٹ کے باب میں سب سے پہلے انگریز‬
‫ریذیڈنٹ تھیکرے کا ذکرکرتاہے وہ یہاں جس بنگلے میں مقیم تھا اب گورنمنٹ کالج‬
‫کے پرنسپل کی رہائش گاہ ہے ۔ اس کا ذکر اس خوبصورتی سے کیا ہے کہ قاری کچھ‬
‫دیر اس کی مسحورکن فضا میں کھو جاتا ہے۔‬

‫زیر نظر کتاب میں ایک باب بنگال کے پوتھی ادب پر ہے ۔ ان پوتھیوں کو پڑھنے کا‬
‫ایک خاص انداز ہ ے ۔ یہ شام کے وقت ایک مجمع کے سامنے پڑھ کر سنائی جاتی‬
‫ہیں۔ ان میں مثنوی کے رنگ میں اسالمی تہذیب و روایات سے متعلق قصے اور‬
‫کہانیاں منظوم کی جاتی ہیں۔‬

‫مشرقی پاکستان کا عالقائی ادب پاکستان کے عالقائی ادب کے مقابلے میں زیادہ‬
‫باافراط ہے۔‬
‫زیر نظر کتاب کے تبصرے میں تبصرہ نگار نے خالف توقع اپنی ذاتی معلومات کا‬
‫ذخیرہ پیش نہیں کیا اس سے تبصرے کی فضاء بوجھل پن سے بچ گئی ۔ یہاں ایک اور‬
‫پہلو بھی سامنے آتا ہے تبصرہ نگار تنقید برائے تنقید کا قائل نہیں بلکہ وہ جہاں‬
‫ضروری سمجھتا ہے وہیں اپنی بے الگ رائے کا اظہار کرتا ہے اور ضروری‬
‫مشورے بھی دیتا ہے۔‬

‫آخری چند سطور کا جائزہ وہ طنزیہ اسلوب میں لیتا ہے‬

‫’’چاٹگام کے ذکر میں ایک جگہ لکھا ہے شہر کے درمیان‬


‫‪6791‬میں شائستہ خاں کی تعمیر شدہ مسجد مسلمانوں کی‬
‫عظمت کی یادگار ہے ۔ ‪6791‬تو ہمارے نئے پنج سالہ‬
‫منصوبہ کی میعاد ہے ۔ شائستہ خاں نے اس مسجد کی تعمیر‬
‫کے لیے جو منصوبہ بنایا ہو گا اس کا زمانہ خداجانے کیا‬
‫تھا‘‘؟!(ص ‪ ،616‬کل کی بات)‬

‫زیر موضوع میں شامل انیسواں تبصرہ "کھویا ہوا اُفق (مضامین کا مجموعہ)مصنف‬
‫محمد خالد اختر ‪ 119 ،‬صفحات پر مشتمل یہ کتاب مکتبہ جدید الہور سے شائع ہوئی ۔‬
‫قیمت ‪2791‬روپے ہے ۔ سن اشاعت درج نہیں ہے۔‬

‫محمد خالد اختر کا شمار تبصرہ نگار کے قریبی دوستوں میں ہوتا ہے اس لیے اس‬
‫کے حوالے سے لکھتے ہوئے مبصر کے قلم پر بے خودی کی کیفیت طاری ہو جاتی‬
‫ہے اس لیے وہ اپنی خاص ترنگ میں زیر تبصرہ کتاب سے پہلے مصنف کی دوسری‬
‫کتب کا تعارف کرواتا ہے اور ان کے موضوع اور اسلوب کے حوالے سے بات کرتا‬
‫ہے جو یقیناًایک معلوماتی پہلو ہے لیکن زیر تبصرہ موضوع سے غیر متعلق ہے۔ زیر‬
‫تبصرہ کتاب کے حوالے سے وہ کہتا ہے۔‬

‫’’محمد خالد اختر کی تیسری کتاب "کھویا ہوا اُفق"کہانیوں ‪،‬‬


‫طنزیہ خاکوں ‪ ،‬پیروڈیوں اور سفری روئدادوں کے اس‬
‫مجموعے میں ہمیں مصنف کی تخلیقی صالحیتوں کی ایک‬
‫ایسی پچی کاری دکھائی دیتی ہے جس کا نمونہ اس کی پہلی‬
‫کتابوں میں موجود نہیں ۔ اس مجموعے میں وہ بیک وقت‬
‫کئی حیثیتوں سے ہمارے سامنے آتا ہے وہ ایک کامیاب‬
‫افسانہ نگار بھی ہے اور ایک قابل اور مشاق پیروڈی نگار‬
‫بھی ! وہ ایک نادر فن کاری کے ساتھ سفری کہانیاں لکھنے‬
‫واال بھی ہے ۔ ایک کامیاب فینٹسی لکھنے کے لیے اچھوتا‬
‫تخیل بھی اپنے اندر رکھتا ہے پھر طنزیہ ومزاحیہ خاکے تو‬
‫وہ ایسی سہولت اورسبک دستی کے ساتھ لکھتا ہے جیسے‬
‫ان کے لکھنے میں اسے کوئی ترددّ ہی نہ کرنا پڑتا ہو‘‘۔‬
‫(ص ‪ ،611‬کل کی بات)‬

‫اس مجموعے میں شامل پہلی کہانی "کھویا ہوا اُفق "موضوع کے لحاظ سے ایک‬
‫مکمل اور جذبات انگیز کہانی ہے جو اپنے تخلیق کا ر کو بھی آسودگی عطاکرتی ہے‬
‫۔ یہ ہندوؤں کے مقدس شہر ہردوار میں مصنف کی ایک سفری آپ بیتی کے لہجے‬
‫میں شروع ہوتی ہے لیکن جب اس میں ایک ایسی باؤلی عورت کا کردار داخل ہوتا‬
‫ہے جو اپنے کئی نام بتاتی ہے اور تیرہ برس سے گنگا مائی کے چرنوں میں پڑے‬
‫اپنے رام کا انتظار کررہی ہے تو یہ ایک شیریں افسانے کی صورت اختیار کر جاتی‬
‫ہے ۔‬

‫فورتھ ڈائمنشن (چوتھی بُعد ) یہ بھی ایک سنجیدہ آپ بیتی ہے جس میں مصنف اپنا وہ‬
‫انوکھا اور ناقابل تشریح تجربہ بیان کرتا ہے جو ہم میں سے اکثر لوگوں کے ساتھ پیش‬
‫آتا ہے لیکن اسے لفظوں میں ڈھالنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ بعض اوقات جو‬
‫منظر کبھی سوتے جاگتے ہماری یادوں میں محفوظ ہوتا ہے وہی عمر کے شعوری‬
‫دور میں ہمارے سامنے آجاتا ہے یہی اس کہانی کا موضو ع ہے۔‬

‫‘‘ مقیاس المحبت"ایک فینٹسی ہے جس میں افسانہ نگار نے اپنے اچھوتے تخیل سے‬
‫ایک ایسا آلہ ایجاد کیا ہے جسے کالئی پر باندھ کر سامنے آنے والے انسان کے‬
‫حوالے سے دیکھ سکتے ہو کہ اس کے دل میں آپ کے لیے کتنی محبت ہے۔ اس‬
‫کہانی کا ہیرو جب اسے اپنی محبوبہ پر استعمال کرتا ہے تو ایک لمحے میں محبت کا‬
‫راز فاش ہو جاتا ہے کیونکہ اس آلے کی سوئی نفرت کے آخری درجے کی طرف‬
‫اشارہ کرتی ہے اور ہیرو ڈاکٹر غریب محمد دل برداشتہ ہو کر خود کو لیاری کی‬
‫لہروں کی نذر کر دیتا ہے ۔ اس فینٹسی کا اختتام انتہائی الم ناک ہوتا ہے۔‬

‫ان افسانوں میں افسانہ نگار کا اسلوب سادہ اور دل نشین ہے ۔ وہ اپنی فکر اور اسلوب‬
‫سے عام خیال کو خاص انداز میں ڈھال دیتا ہے۔ سفرنامہ کی صنف میں محمد خالد‬
‫اختر نے مغربی طرز کو اُردو میں برت کر ایک نئے اسلوب سے متعارف کروایا ہے‬
‫جس میں عمارات کے ساتھ ساتھ شخصی کرداروں کا داخلی مطالعہ بھی کیا جاتا ہے۔‬

‫ڈیپلو سے نوکوٹ تک اور دہقانی یونیورسٹی دوسفری کہانیاں ہیں جس میں ہم سفر‬
‫نگار کی شخصیت کا داخلی مطالعہ کرتے ہیں ۔ اس میں اس کے دوست احمد ندیم‬
‫قاسمی نے بھی کافی کام کیا اور یہ اپنی اصل حالت میں دونوں کے مشترکہ ناموں‬
‫سے شائع ہوئی تھی۔‬

‫محمد خالد اختر بہت ذہین اور باصالحیت ادیب تھا لیکن دنیائے ادب میں اسے وہ مقام‬
‫حاصل نہ ہو سکا جس کا حق دار تھا ۔ تبصرہ نگار کے جی میں اس زیادتی کا بہت‬
‫قلق ہے وہ کہتا ہے کہ اس کا اسلوب اور مزاح مغربی ہے اس لیے مغربی ادب سے‬
‫مانوس لوگ ہی اس کی تحریروں سے لُطف اٹھا سکتے ہیں ۔ اس کی تحریروں کے‬
‫کردار ہمارے آس پاس ہی بستے ہیں۔ اس کا گناہ یہ ہے کہ وہ انگریزی میں سوچتا اور‬
‫اُردو میں لکھتا ہے لیکن اگر وہ چاہے تو تھوڑی محنت اور توجہ سے اس خامی پر‬
‫غالب آسکتا ہے ۔ اس کا ایک اور قصور یہ کہ وہ بہت کم آمیز ہے اس لیے وہ موجودہ‬
‫گروہ بندیوں سے دور ہے اور معاصر ادباء میں اس کے دوست بہت کم ہیں۔ ویسے‬
‫بھی ادب اس کا اوڑھنا بچھونا نہیں تھا وہ محض سکون قلب اور آسودگی ذہن کے لیے‬
‫لکھتا تھا۔‬

‫زندگی میں انسان کو جس سے قلبی لگاؤ ہوتا ہے خواہ وہ کسی حوالے سے ہو اس‬
‫میں رشتوں کا تعین ضروری نہیں اس کے بارے میں غیر جانبداری سے سوچنااور‬
‫فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے ۔ تبصرہ نگار بھی یہاں کچھ ایسی ہی صورتحال سے‬
‫دوچار نظر آتا ہے کہ اسے خامیاں بھی خوبیاں نظر آتی ہیں اور محبت میں وہ‬
‫تاویالت بھی خود ہی تالش کرلیتا ہے۔‬
‫شامل کتاب بیسواں تبصرہ "دھنک پر قدم"مصنفہ اختر ریاض الدین ‪696 ،‬صفحات پر‬
‫مشتمل کتاب ادارہ فروغ اُردو الہور سے شائع ہوئی ‪،‬قیمت ‪9‬روپے ہے ۔ یہ تبصرہ‬
‫فنون کے شمارہ‪ ۱ ،۱ ،‬مئی جون ‪ ،۱۸۹۰‬س‪ ۱۱۴‬تا ‪ ۱۱۹‬میں شائع ہوا۔‬

‫تبصرہ نگار نے اختر ریاض الدین کا بطورمصنفہ تعارف نہیں کروایا بلکہ ان کے‬
‫سفرنامے کے حوالے سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ وہ ایک سی ایس پی آفیسر کی بیگم‬
‫اور ان کی دوبچیاں جو دوران سفرساتھ ہی ہیں ۔ بیگم اختر سیروسیاحت کی کافی‬
‫شوقین ہیں ۔ بیگم اختر کا پہال سفر نامہ "سات سمندر پار"اور دوسرا دھنک پر قدم‬
‫ہے۔‬

‫اپنے حوالے سے وہ خود کہتی ہیں۔‬

‫’’اب سفرناموں سے دل بھر گیا ہے اگر آئندہ اُردو میں قلم‬


‫اٹھایا بھی تو انشاء اللہ ڈرامے یا مضامین لکھوں گی ۔‬
‫سفرنامہ اُردو میں لکھنے سے محنت دوگنی کرنی پڑتی ہے‬
‫اس لیے کہ تیرہ سال انگریزی پڑھاتی رہی اور آٹھ سال‬
‫پاکستان ٹائمز کے لیے لکھ رہی ہوں لیکن موالنا صالح‬
‫الدین کے اصرار پر میں نے اُردو میں قلم اُٹھایا تھا اُن کا‬
‫کہناتھا کہ اُردو میں سفر ناموں کی بہت کمی ہے‘‘۔ (ص‬
‫‪ ،624‬کل کی بات)‬

‫سفر نامہ ایک ایسی تحریر ہے جس میں لکھنے والے کی اپنی ذات کا شامل ہونا‬
‫ضروری ہے کیونکہ تخلیقی ادب اظہار ذات کا دوسرا نام ہے۔ جب سیاح اپنے سفر کا‬
‫حال موضوعی انداز میں لکھتا ہے تو وہ ایک صحیح ادبی سفر نامہ بنتا ہے۔‬

‫تبصرہ نگار مغربی سفر ناموں کے حوالے سے بات کرتا ہے کہ وہاں یہ فن تخلیقی‬
‫ادب کی ُجدا گانہ صنف بن چکا ہے ۔ اختر ریاض کے سفر ناموں کی سب سے بڑی‬
‫خامی موضوعی انداز نظر کی کمی ہے۔‬
‫مبصر کے تجزیے سے یہاں سفرنامہ کے حوالے سے اس کی پُرمغز معلومات سامنے‬
‫آتی ہیں اور ان کی روشنی میں اس کا جانچنے کا زاویہ نگاہ بے پناہ وسعت کا حامل‬
‫ہے کیونکہ وہ مقدار کو نہیں بلکہ معیار کو ترجیح دیتا ہے ۔ بیگم اختر ہمیں میکسیکو‬
‫کے عجائب گھروں ‪ ،‬پارکوں ‪ ،‬پہاڑی غاروں کی سیر کراتی ہیں پھر سان فرانسسکو‬
‫کا مشہور پُل گولڈن گیٹ برج دکھاتی ہیں۔ نیویارک کے عالمی میلے میں لے جاتی ہیں‬
‫لیکن ان سب کے باوجود وہ اپنا سارا مشاہدہ درودیوار تک محدود رکھتی ہیں ۔ وہ‬
‫انسانی ماحول نہیں پی دا ہوتا جس میں زندگی سانس لیتی ہوئی محسوس ہو اور نہ ہی ان‬
‫کے بیچ سیاح کی شخصیت نظر آتی ہے۔‬

‫اس سفر نامہ میں مزاح پیدا کرنے کی شعوری کوشش کی گئی ہے لیکن موقع محل‬
‫کے بغیر مزاح بھی بے معنی محسوس ہوتا ہے اور اسلوب کی متانت پر اثرانداز ہوتا‬
‫ہے ۔ دانستہ طور پر ادب کی کسی بھی صنف میں سادہ تحریر کی بجائے مشکل الفاظ‬
‫کا استعمال تحریر کی ادبیت کو بُری طرح مجروح کرتا ہے۔ اس حوالے سے تبصرہ‬
‫نگار مصنفہ کے اسلوب کا جائزہ لیتا ہے ۔‬

‫’’ہم نے سب سے پہلے ماسکو کی ٹھانی ‪ ،‬اگلے روز ایک‬


‫قریب کے گاؤں نی ایستا میں جادھمکے"۔ اس ٹھانی اور‬
‫جادھمکے سے آخر کیا تاثر دینا مقصود ہے ؟ سوائے اس‬
‫کے کہ جو بات بھی کہی جائے ایک‪ Bang‬کے ساتھ کہی‬
‫جائے ورنہ اس کا اثر نہیں ہو گا لہجے کا یہ آہنگ اور ہر‬
‫بات اُونچے سروں میں کہنے کا یہ انداز کتاب میں شروع‬
‫سے آخر تک چال گیا ہے‘‘۔ (ص ‪ ،629‬کل کی بات)‬

‫مبصر قد یم و جدید سفر ناموں پر گہری نگاہ رکھتا ہے اس ضمن میں وہ مغربی‬
‫سفرناموں کے اسلوب سے بہت متاثر ہے وہ چاہتا ہے کہ یہی اسلوب ہمارے ہاں بھی‬
‫رائج ہو تا کہ یہ خواہ مخواہ کا مصنوعی پن ختم ہو کیونکہ معلومات کے حصول کے‬
‫لیے تو ہم انسائیکلوپیڈیاسے بھی مدد لے سکتے ہیں ۔ سفر ناموں سے نہیں اس لیے‬
‫ہے۔‬ ‫ضروری‬ ‫ہونا‬ ‫کا‬ ‫چاشنی‬ ‫اور‬ ‫لطافت‬ ‫ادبی‬ ‫میں‬ ‫صنف‬ ‫اس‬
‫سفرنامہ نے اپنے اسلوب میں زبردستی مزاح کا رنگ پیدا کرنے کی جوشعوری‬
‫کوشش کی ہے وہ تبصرہ نگار کو ناگوار گزرتی ہے ۔ مزاح کا یہ نمونہ مالحظہ‬
‫کریں۔‬

‫’’میں ہوائی جہاز میں بہت کم کھاسکتی ہوں اس لیے زمین پر پاؤں رکھتے ہی آنتیں‬
‫غرغر کرنے لگتی ہیں‘‘۔‬

‫’’دو جانوروں کو دیکھ کر میری ممتا اُبل پڑتی ہے وہ ہیں‬


‫گدھا اور ا ُ ّلو ۔ اتفاق سے یہ دونوں ہمارے ہاں دُشنام ہیں ۔‬
‫واللہ اعلم کیوں؟" ہم نے خوب اال بال کھائی اور رات بھر‬
‫پیٹ کے درد میں خوب روئے‘‘۔(ص ‪ ،621‬کل کی بات)‬

‫اس طرح کے مزاح کے بغیر بھی کتاب دلچسپ ہو سکتی تھی اور ادبی اعتبار سے‬
‫اس کا مقام بھی وقیع ہو سکتاتھا ۔‬

‫اس کے بعد مبصر اس سفر نامے کے کچھ مثبت پہلوؤں پر روشنی ڈالتا ہے ۔ کتاب‬
‫چھ ابواب لندن ‪ ،‬ہوائی‪ ،‬میکسیکو‪ ،‬سان فرانسسکو ‪ ،‬نیویارک‪ ،‬ہانگ کانگ پر مشتمل‬
‫ہے۔‬

‫پہلے دوابواب لندن اور ہوائی زیادہ دلچسپ اورانہماک سے لکھے ہوئے لگتے ہیں‬
‫کیونکہ ان ابواب میں ہمارا تعارف ایسی شخصیتوں سے بھی ہوتا ہے جو ہمارے ذہن‬
‫پر دیر پااثر چھوڑ جاتی ہیں۔ ان میں ایک شخصیت سوامی آگیا نندن بھارتی کی ہے‬
‫جو یورپی نژاد ہے لیکن ہندوستان میں رہ کر تپسیاکی ہے اور گروؤں کے چیلے بنے‬
‫ہیں اور وہاں کی چھ زبانیں سیکھی ہیں۔ اس وقت امریکہ کی سراکیوز یونیورسٹی میں‬
‫علم االنسان کے ماہر مانے جاتے ہیں۔‬

‫اس کی شخصیت کا تجزیہ تبصرہ نگار اس کے خیاالت سے کرتا ہے جب وہ سیاح‬


‫سے کہتا ہے کہ‬

‫’’تمہارے ملک میں عورتوں کا حال تباہ ہے ۔ آپ کی‬


‫عورتوں کو ان کے خاوند جانوروں کی طرح برتتے ہیں ۔‬
‫اپنے محدود تعلیم یافتہ امیر طبقے کو آپ ایک طرف رہنے‬
‫دیں ۔ میں صرف جاہل شہریوں اور اس اکثریت کی بات کرتا‬
‫ہوں جو دیہات کے اجڈ گنواروں پر مشتمل ہے ۔ زیادہ تر‬
‫عورتیں خاوندوں کی جنسی فرمائشوں کے ہاتھوں رو رہی‬
‫ہیں۔ مرد صنف نازک کو جذباتی اور جسمانی طور پر آہستہ‬
‫آہستہ تیار کرنا بالکل نہیں جانتے ۔ ان کو انگریزی کتابیں‬
‫نہیں پڑھائی گئیں تو کم ازکم "کاماسوترا"کا پنجابی یا سندھی‬
‫ترجمہ کر کے دیا جاتا ۔ آپ کے ملک اور ہندوستان میں‬
‫بہت کم عورتیں ایسی ہیں جوجنسی تعلقات سے لطف اندوز‬
‫ہوں‘‘۔ (ص ‪ ،629‬کل کی بات)‬

‫ہوائی کے باب میں اس طرح کی چند شخصیات نظر آتی ہیں اس سے زندگی کی کچھ‬
‫ہے۔‬ ‫تی‬ ‫ہو‬ ‫محسوس‬ ‫حرارت‬
‫زیر موضوع کتاب میں شامل اکیسواں تبصرہ "شہرت کی خاطر"پر ہے ۔ مصنف نظیر‬
‫صدیقی ۔ ‪481‬صفحات پر مشتمل یہ کتاب پاک کتاب گھر سے شائع ہوئی ۔ قیمت‬
‫‪ 1791‬روپے ہے ۔ سن اشاعت اور مقام اشاعت درج نہیں ہے ۔ یہ تبصرہ فنون کے‬
‫شمارہ میں اکتوبر‪ ،‬نومبر ‪۱۸۱۴‬ء‪ ،‬ص‪ ۶۴۶‬تا ‪ ۶۶۰‬میں شائع ہوا۔‬

‫"شہرت کی خاطر "انشائیوں کا مجموعہ ہے ۔ کتاب کے تعارف سے پہلے حسب‬


‫روایت تبصرہ ن گار اس صنف کے حوالے سے اپنے خیاالت کا اظہار کرتا ہے ۔ اس‬
‫ضمن میں مختلف مغربی انشائیہ نگاروں کی امثال پیش کرتا ہے ۔ وہ کہتا ہے ابتداء‬
‫میں انشائیہ ادیب کے اظہار ذات کی سب سے موثر شکل تھی لیکن اب ہر صنف ادب‬
‫میں اظہار ذات کی گنجائش ہے ۔ قدماء میں وہ فرحت اللہ بیگ اور سجاد حیدر یلدرم‬
‫کو انشائیہ نگاروں میں شمار کرتا ہے ۔ موجودہ دور میں وزیر آغا نے اچھے انشائیے‬
‫لکھے۔‬

‫زیر نظر کتاب کے مصنف نظیر صدیقی قائد اعظم کالج ڈھاکہ میں اُردو کے پروفیسر‬
‫ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب میں شامل ‪69‬انشائیہ مختلف رسائل میں شائع ہو ئے اور کچھ‬
‫انشائیے انہوں نے حلقہ ارباب ذوق ڈھاکہ کے جلسوں میں پڑھے تھے۔‬
‫تبصرہ نگار زیر موضوع کتاب کا تعارف کرواتے ہوئے کہتا ہے کہ کتاب کے شروع‬
‫میں انتیس صفحات پر مشتمل معلومات افزا اور دلچسپ مقدمہ ہے یہاں اس نے فن‬
‫انشائیہ کے حوالے مغربی انشائیہ نگاروں کی تنقیدی آراء کا جائزہ لیا ہے ۔اس تمہیدی‬
‫مضمون میں اس نے اپنی رائے کا اظہار سلجھے ہوئے انداز میں کیا ہے۔ قاری اسی‬
‫توقع کے ساتھ آگے بڑھتا ہے لیکن پہال انشائیہ اسے مایوسی سے دوچار کر دیتا ہے‬
‫اور یہ سلسلہ ُرکتا نہیں بلکہ کتاب کے اختتام پر ہی اس کا اختتام ہو تا ہے۔‬

‫انشائیہ نگار کے حوالے سے تبصرہ نگار کہتا ہے۔‬

‫’’فکرومعنی کی سطحیت ‪،‬اسلوب کی بے رنگی اور طنز و‬


‫مزاح کا کھراور کھردراپن اس مضمون سے شروع ہوکر‬
‫پوری کتاب میں قاری کا ساتھ دیتا ہے‘‘۔ (ص ‪ ،691‬کل کی‬
‫بات)‬

‫انشائیہ نگار کے اسلوب میں عامیانہ پن ہے ۔ دوستوں کے حوالے سے بات کرتے‬


‫ہوئے تنزل کی حدوں کو چھونے لگتا ہے اور ادبی معیار سے گرا ہوا محسوس ہوتا‬
‫ہے ۔ دوست اور دوستی کے عنوان سے انشائیے کی ابتدا ان الفاظ سے ہوتی ہے۔‬

‫’’بہت سی نعمتیں ایسی ہیں جن کے بغیر زندگی گزارلینا‬


‫چنداں مشکل نہیں لیکن کچھ لعنتیں ایسی ہیں جن کے بغیر‬
‫زندگی بسر کرنا یکسر محال ہے ۔ دوستوں کا وجود انہی‬
‫لعنتوں میں سے ہے‘‘(ص‪692‬۔ ایضا ً)‬

‫مبصر انشائیہ نگار کے اسلوب کا سجاد حیدریلدرم کے اسلوب سے تقابل کرتا ہے تو‬
‫وہ کہتا ہے کہ ان کا لب و لہجہ انتہائی شائستہ ہے ۔وہ کہتے ہیں‬

‫’’یہ سب میرے عنایت فرما اور خیرطلب ہیں مگر اپنی‬


‫طبیعت کو کیا کروں صاف صاف کہتا ہوں کہ ان میں سے‬
‫ہر ایک سے کہہ سکتا ہوں" مجھ پہ احسان جو نہ کرتے تو‬
‫یہ احساں ہوتا‘‘!(ص ‪ ،692‬ایضا ً)‬
‫یہاں تبصرہ نگار کی ُچبھتی ہوئی تنقیدی نگاہ سامنے آتی ہے جس کی مدد سے وہ‬
‫دونوں کے اسلوب کا نچوڑ قاری کے سامنے رکھ دیتا ہے کہ اب وہ خود فیصلہ کرے‬
‫۔ وہ کہتا ہے کہ ایک انسان میں صالحیتوں کی صحیح حدود پہچاننے کی صالحیت‬
‫ہونی چاہیے۔ بعض لوگوں میں یہ صالحیت ہوتی بھی ہے لیکن وہ سنجیدگی اختیار‬
‫نہیں کرتے اور یوں وہ معاشرے میں ایک قابل رحم مذاق بن کر رہ جاتے ہیں۔ نظیر‬
‫صدیقی کو ان کے بعض کرم فرماؤں نے اس صنف سے دوررہنے کا مشورہ دیا ۔‬

‫تبصرہ نگار زیر نظر کتاب کا تنقیدی جائزہ لینے کے بعد کہتا ہے کہ مقدمے کے‬
‫عالوہ اس میں اگر کوئی چیز قابل مطالعہ ہے تو وہ مصنف کا مضمون "غریب شہر‬
‫سخن ہائے گفتنی وارد"ہے ۔ یہ ان کے سفربمبئی کی روداد ہے۔ اس میں انہوں نے‬
‫شہر سے زیادہ ادبی شخصیات کا تعارف کروایا ہے جس کے لیے اسے کافی زیادہ‬
‫تگ و دو کرنا پڑی ۔ اس روداد میں ان کے اخالق و کردار کی جھلکیاں سامنے آتی‬
‫ہیں۔‬

‫آخرمیں تبصرہ نگار کہتا ہے کہ یہ تصویریں کافی دلچسپ ہیں لیکن ان میں حقیقت‬
‫کہاں تک ہے یہ جاننا مشکل ہے ۔ چونکہ تبصرہ نگار کا اسلوب سادہ اور بے ریا ہے‬
‫اور مطالعہ وسیع ہے اس لیے عامیانہ اندازسے وہ کیسے مطمئن ہو سکتا ہے پھر بھی‬
‫اس نے ادبی شائستگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی منفی رویے کا اظہار نہیں کیا بلکہ‬
‫بین السطور اُسے مفید مشورے دیے ہیں۔‬

‫زیر تبصرہ کتاب میں شامل بائیسواں تبصرہ "عام فکری مغالطے"پر ہے مصنف سیّد‬
‫علی عباس جالل پوری ‪ ،‬آئینہ ادب چوک مینار انارکلی الہور سے شائع ہوئی ۔‬
‫صفحات کی تعداد نہیں ہے ۔ قیمت ‪64‬روپے ہے ۔‬

‫مختلف مضامین پر مشتمل یہ سیّد علی عباس کی پانچویں کتاب ہے اس میں اُن کی‬
‫بحث کا دائرہ پچ ھلی کتب کے مقابلے میں زیادہ وسیع ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب سے‬
‫پہلے تبصرہ نگار حسب روایت اُن کی دیگر کتب اور سیّد علی عباس کی فکر سے‬
‫متعلق خیاالت کا اظہار مفصل انداز میں کرتا ہے۔ سیّد علی عباس اپنے رویے میں‬
‫آزاد خیال ہیں اور اس کے ساتھ وہ آزادی رائے کے پُرزور حامی اور مبّلغ ہیں۔ انسان‬
‫کی پوری تمدنی و تہذیبی تاریخ کے پس منظر میں عقائد و افکار کی دُنیا میں مروج‬
‫چند فکری مغالطوں کا تجزیہ کرتے ہوئے انہیں باطل قرار دیا ہے۔‬

‫زیر تبصرہ کتاب میں چودہ فکری مغالطے ہیں اور انہوں نے ہر مغالطے پر اپنے‬
‫خاص اسلوب میں بحث کی ہے اور ان مغالطوں کے اثرات کی نشاندہی کی ہے اور‬
‫اس کے لیے وہ انسانی تمدن کی تاریخ میں بہت پیچھے چلے جاتے ہیں پھر وہ صنعتی‬
‫معاشرے اور صنعتی انقالب کے زمانے میں نکل آتے ہیں۔ یہ طریق کار ہر مغالطے‬
‫کے باب میں ہے اس لیے مبصر اس کتاب کے حوالے سے مشورہ دیتا ہے کہ اسے‬
‫ایک ہی نشست میں نہ پڑھیں کیونکہ اس طرح یکسانیت کا احساس ہو گا ۔ ہر باب‬
‫اپنے اندر مکمل جامعیت لیے ہوئے ہے اسے سمجھنے کے لیے بھی وقت درکار ہے۔‬

‫تبصرہ نگار کہتا ہے کہ سیّد صاحب صنعتی انقالب کے بعد اشتراکی معاشرے کے‬
‫حوالے سے بات کرتے ہوئے رومانیت پسند ہو جاتے ہیں جو کہ حقیقت میں ناممکنات‬
‫میں سے ہے۔‬

‫’’نئے صنعتی معاشرے میں افراد کو نیک بننے کی محض‬


‫زبانی تلقین نہیں کی جائے گی بلکہ ایسا اجتماعی ماحول پیدا‬
‫کیا جائے گا جو معاشی وعمرانی عدل وانصاف پر مبنی ہو‬
‫گا اور جس میں ہر شخص کی جائز ضروریات بدرجہ اتم‬
‫پوری ہوں گی ۔ اس نوع کے معاشرے میں بدی کے‬
‫محرکات کا ازخود خاتمہ ہو جائے گا اور انسان صحیح‬
‫معنوں میں بااخالق زندگی گزار سکے گا‘‘۔ (ص‪612‬۔ کل‬
‫کی بات)‬

‫مبصر کہتا ہے کہ معلوم نہیں کہ سیّد صاحب کا اشارہ کس طرف ہے اس معاشرے کی‬
‫طرف جو ابھی قائم ہونا ہے یاوہ معاشرہ جس میں یہ نظام قائم ہو چکا ہے۔ موخرالذکر‬
‫کے حوالے سے تبصرہ نگار کہتا ہے کہ اس معاشرے میں بھی وہ چمک دمک نہیں‬
‫ہے جس کا نقشہ سیّد صاحب نے اپنے تخیل میں کھینچا ہے اس ضمن میں مبصر اپنے‬
‫ذاتی تجربات کی روشنی میں ہمیں تصویر کا وہ دوسرا ُرخ دکھاتا ہے جسے سیّد‬
‫صاحب دیکھنا نہیں چاہتے ۔‬

‫‘‘ فن برائے فن کار"کے حوالے سے تبصرہ نگار کہتا ہے کہ اگر اس صنعتی‬


‫اعلی معیار کا‬
‫ٰ‬ ‫معاشرے میں فنکار کو اتنی ذہنی آزادی حاصل ہے تو پھر ابھی تک‬
‫ادب کیوں نہیں تخلیق ہو سکا ۔ جوادیب اس سلسلے میں آگے بڑھے انہیں کوکیوں کچل‬
‫کر رکھ دیا گیا ۔ روس کے سولثرے نتسن کوکیوں ملک بدرکردیا گیا ۔ آج کس ادیب‬
‫میں اتنی جرات ہے کہ وہ سچائی کو دنیا کے سامنے السکے ۔ مبصر مصنف سے یہ‬
‫سوال کرتا ہے کہ‬

‫’’سولثرے نتن جیسا ادیب روس کے صنعتی معاشرے کی‬


‫منفی پیداوار کیوں ہوا؟ مثبت پیداوار کیوں نہ ہو سکا؟‘‘(ص‬
‫‪ ،611‬کل کی بات)‬

‫وہ کہتا ہے کہ جس مثالی صنعتی معاشرے کا تصور کارل مارکس کے ذہن تھا جب‬
‫لینن کے ہاتھوں اس کا قیام عمل میں آیاتو کیاہوا ۔ پرولتاری طبقہ اقتدار پر قابض ہو‬
‫گیا اور اس نے بدترین قسم کے استبداد کا سہارا لیا اور یہیں سے خون خرابے کی‬
‫ابتداء ہو گئی۔‬

‫’’یہ کہ عشق ایک مرض ہے" ۔ اس میں سیّد صاحب‬


‫اشتراکی معاشرے کے حوالے سے اپنے خیاالت کا اظہار‬
‫اس طرح کرتے ہیں۔اس معاشرے کے مردعورتیں جو‬
‫جسمانی اور ذہنی لحاظ سے تندرست ہوتے ہیں قدرتا ً ایک‬
‫دوسرے میں جنسی کشش محسوس کرتے ہیں جو ذہنی و‬
‫ذوقی لگاؤ کے ساتھ مل کر صحت مند عشق کی صورت‬
‫اختیار کر لیتی ہے ۔ معاشرہ چاہنے والوں کے راستے میں‬
‫حائل نہیں ہوتا ۔ باہمی احترام اور جنسی توافق میاں بیوی کو‬
‫گہری مسرت سے سرشار کردیتے ہیں ۔یہ اُنس اورلگاؤ ہی‬
‫اس معاشرے کا عشق ہے‘‘۔ (ص ‪ ،618‬کل کی بات)‬
‫اس کے جواب میں تبصرہ نگار کہتا ہے کہ کیاسیّد صاحب اس حقیقت سے واقف نہیں‬
‫کہ عشق ایک ایسی آگ جو ہجر و فراق کے ایندھن سے جلتی ہے اور جو حجلہء‬
‫عروسی میں پانی کا پہال چھینٹا پڑتے ہی ٹھنڈی ہو جاتی ہے ۔ کیااشتراکی معاشرے‬
‫میں عشق جیسا ازلی جذبہ بھی اپنی خاصیت بدل لیتا ہے۔‬

‫تبصرہ نگار سیّد علی عباس کے چند مغالطوں سے اختالف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ‬
‫ان سے اتفاق کرنابہت مشکل ہے کیونکہ وہ مغالطے نہیں حقیقت ہیں۔‬

‫‘‘یہ کہ انسانی فطرت ناقابل تغیرہے "۔ اس حوالے سے سیّد صاحب کہتے ہیں ۔‬

‫’’کرہ ارض روزبروز ایک بہت بڑے شہر کی صورت‬


‫اختیار کررہا ہے جس کے شہری ایک دوسرے سے نفرت‬
‫کرنا بھول جائیں گے‘‘ ۔(ص ‪ ،617‬ایضا ً)‬

‫یہ ناممکنات میں سے کہ اقتصادی نظام میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ انسانی فطرت بھی‬
‫بدلتی رہتی ہے البتہ اس کے اظہار کی صورتیں بدلتی رہتی ہیں۔‬

‫‘‘یہ کہ عورت مرد سے کم ترہے "اس حوالے سے سیّد صاحب عورت کی برتری‬
‫ثابت کرنے کے لیے دالئل دیتے ہیں ۔ اس ضمن میں وہ کہتے ہیں۔‬

‫’’روس کی ایک ہواباز خاتون کا خالء میں جاکر واپس آجانا‬


‫اس امر کا کافی ثبوت ہے کہ صنعتی معاشرے میں عورت‬
‫نے مرد کی جسمانی برتری کا بلبلہ بھی پھوڑ دیا ہے‘‘۔‬
‫(ص ‪ ،617‬ایضا ً)‬

‫تبصرہ نگار اس سے اختالف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ عورت کا ذہن اپنی کیفیت میں‬
‫بے شک مرد کے ذہن کے برابر ہو سکتا ہے لیکن اپنی توانائی اور قوت کار کے‬
‫اعتبار سے وہ مرد کے ذہن کے ہم پلہ نہیں ہو سکتا ’’۔‬

‫’’یہ کہ فن برائے فنکار ہے"یہ بھی سیّد صاحب کے نزدیک‬


‫ایک مغالطہ "ہے اس لیے کہ ان کے خیال میں فن وہی‬
‫صحت منداور زندگی سے بھرپور ہو سکتا ہے جو ایک‬
‫اشتراکی معاشرے میں عوام کی امنگوں اور تمناؤں کی‬
‫ترجمانی کرتا ہے‘‘۔ (ص ‪ ،691‬ایضا ً)‬

‫اس حوالے سے تبصرہ نگار اختالف رائے کرتے ہوئے کہتا ہے کہ گویا ادب وفن‬
‫وہی معتبر ٹھہرا جو اشتراکی ریاست میں امدادباہمی کے فارموں پر جنم لے اور نئے‬
‫نئے زرعی نظام کے فوائد و برکات کی عکاسی کرے ۔ایک معاشرے میں جب عشق‬
‫میاں بیوی کے درمیان ہی پروان چڑھنے لگے گا تو ادباء وشعراء کے لیے موضوع‬
‫یہی کھتی باڑی اور صنعت کاری کے رہ جائیں گے ۔ وہ کہتا ہے کہ فن ایک طرف تو‬
‫فن کار کے لیے ہوتا ہے کہ وہی سب سے پہلے اس کے کرب کی لذت سے گزرتا ہے‬
‫اوردوسری طرف وہ معاشرے کے خاص طبقے کے لیے ہوتا ہے جو اس فن کا شناسا‬
‫اورقدردان ہو !‬

‫تبصرہ نگار کہتا ہے کہ میرے اندازے کے مطابق سیّد صاحب نے اس کتاب کے چند‬
‫ابواب محض لوگوں کو جوش دالنے کے لیے لکھے ہیں اور اپنے موقف پر وہ شاید‬
‫خود بھی سنجیدگی سے کاربند نہ ہوں کیونکہ وہ کتاب کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں۔‬

‫’’راقم نے عام فکری مغالطے لکھ کر سوچ کے ٹھہرے‬


‫ہوئے پانی میں چند کنکر پھینک دیے ہیں۔ اس امید کے ساتھ‬
‫کہ سطح آب پر اُٹھتی ہوئی چند ننھی منی لہریں کناروں تک‬
‫پھیل جائیں گی‘‘۔ (ص ‪ ،696‬کل کی بات)‬

‫تبصرہ نگار کتاب کے دوسرے قارئین کو بھی دعوت فکر دیتا ہے کہ وہ اپنا نقطہ نظر‬
‫پیش کریں اس طرح فکر کے ٹھہرے ہوئے پانی میں ہلچل پیدا ہو گی اور سیّد صاحب‬
‫بھی چاہتے ہیں لیکن تبصرہ نگار اپنی اس فکری کمزوری کا اظہار کرتا ہے کہ متعدد‬
‫ابواب ایسے ہیں جن میں سیّد صاحب سے مباحثہ و مناقشہ کرنا بہت دشوار ہو گا ۔‬

‫آخر میں سیّد علی عباس کے اسلوب کے حوالے سے کہتا ہے کہ انہیں اپنے موضوع‬
‫پر پوری گرفت حاصل ہوتی ہے وہ اس لیے جمع کیے ہوئے مواد کو اتنے سلیقے اور‬
‫مہارت سے برتتے ہیں کہ قاری متحیر رہ جاتا ہے۔‬
‫سیّد علی عباس سے اختالف رائے کرنا جان جوکھم سے کم نہیں لیکن ہمارے فاضل‬
‫تبصرہ نگار نے انتہائی جرات مندی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے ان کی فکرواسلوب کا‬
‫گہرائی سے جائزہ لیا ہے ۔ زیر موضوع اختالفات پر کھل کر اپنی بے الگ رائے کا‬
‫کیا۔‬ ‫اظہار‬
‫زیرموضوع کتاب میں شامل تیئسواں تبصرہ "ماہنامہ افکار ندیم نمبر"پر ہے ۔ جو الئی‬
‫‪ ،‬اگست ‪۱۸۹۶‬ء ص ‪ ۱۱۸‬تا ‪ ۱۳۱‬فنون میں شائع ہوا۔ مدیر صہبا لکھنوی ‪ ،‬مکتبہ‬
‫افکار رابسن روڈ کراچی ‪ ،‬صفحات ‪ ،718‬قیمت ‪11‬روپے ‪،‬سن اشاعت درج نہیں ہے۔‬

‫تبصرہ نگار ماہنامہ "افکار"کی اس ادبی کاوش کو خراج تحسین پیش کرتا ہے جس‬
‫کے تحت اس نے ایک ضخیم "ندیم نمبر"شائع کیا ۔ اس کے مدیر جناب صہبالکھنوئی‬
‫نے زندہ دوستی کا ثبوت پیش کیا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ اعالن کر دیا کہ‬
‫ندیم نمبر ان کی عمر کا آخری دستاویزی سرمایہ سمجھا جائے کیونکہ اب ان کی عمر‬
‫پچاس سے تجاوز کر چکی ہے ۔ یہ اعالن انہوں نے ایسے وقت میں کیا جب وہ اس‬
‫ضخیم نمبر کے سلسلے کی مشقتوں اور تکلیفوں سے نڈھال تھے۔‬

‫مبصر ندیم کے حوالے سے اپنے تاثرات بیان کرتا ہے کہ ان کی تمام ادبی جہات کتنی‬
‫اثر انگیز ہیں ان کی کسی جہت سے یہ اندازہ نہیں لگاسکتے کہ انہوں نے اپنی آخری‬
‫بات کہہ دی ہے ۔ ان کا فن وقت کے ساتھ برابر بڑھ رہا ہے۔‬

‫تبصرہ نگار نے افکار کے ندیم نمبر کو چارحصوں میں تقسیم کیا ہے لیکن ان‬
‫چارحصوں کے عالوہ شروع میں ایک حصہ پیغامات و تاثرات کا ہے۔ اس میں وہ تمام‬
‫خطوط شامل ہیں جو علم و ادب کی بعض اہم شخصیات نے اس نمبر کے سلسلے میں‬
‫ہیں۔‬ ‫لکھے‬
‫پہال حصہ (سازارتقاء)‬

‫پونے دوسوصفحات پر پھیالہوا یہ حصہ ندیم کے فن کو سمجھنے کے لیے بہت اہم‬


‫ہے ۔ اس میں ندیم کے حوالے سے چوبیس مضامین ہیں ۔تین ان کے گھر کے افراد‬
‫(بڑا بھائی ‪ ،‬بیوی ‪ ،‬بیٹی) ہیں اور باقی دوست اور جاننے والے ۔ تبصرہ نگار کہتا ہے‬
‫ان میں سب سے عمدہ اور موضوعی اندا زمیں تحریر کیا جانے واال مضمون محمد‬
‫خالد اختر کا "ایک آدمی احمد شاہ نامی"ہے ۔ یہ ایک گہرے احساس کے ساتھ لکھا گیا‬
‫مضمون اس احمد شاہ کے نام ہے جو اسی کے ساتھ بہاولپور کالج میں پڑھتا تھا ۔‬
‫محمد خالد اختر نے ندیم کی شخصیت کے حوالے سے صاف ‪ ،‬بے الگ اور قدرے‬
‫چونکا دینے والی باتیں کی ہیں۔ وہ اپنے دوست کی شخصیت کا ذکر کرتے ہوئے کہتا‬
‫ہے۔‬
‫مگر اس کے ہمراہ گفتگو کے راستے پر کچھ دیر چل کر تم ایک ایسے مکان پر‬
‫آنکلتے ہو جس کا آہنی دروازہ اور دریچے بند ہیں جس میں سوائے اس کے کوئی‬
‫داخل نہیں ہو سکتا ۔ اس بے ہوا اور اُجاڑ مکان میں وہ اکیال رہتا ہے ۔ اپنے غالب‬
‫اخالقی آسیبوں ‪ ،‬پچھتاوؤں ‪ ،‬نامرادیوں اورپشیمانیوں کے ساتھ!‘‘( ص‪ ،699‬کل کی‬
‫بات)‬

‫تبصرہ نگار خالد کی اس صاف گوئی سے انکار نہیں کرتا لیکن وہ اسے دوسرے‬
‫زاویے سے دیکھتے ہوئے کہتا ہے کہ ہمیں فنکا ر کی داخلی اور نفسیاتی تنہائی پر‬
‫ر حم نہیں کھانا چاہیے کیونکہ یہی تنہائی پشیمانی اور پچھتاوے اس کے احساس و‬
‫شعور کے لیے چتا کا کام کرتے ہیں کیونکہ وہ خود بھی ذاتی طور پر انہی حاالت‬
‫سے گزر چکا ہے لیکن وہ سمجھتا ہے کہ اسی تنہائی اور اُداسی نے اس کے شعور‬
‫کو جال بخشی ۔ ندیم کی نظم اور نثر میں جو احساس کی شدت اور گہرائی ملتی ہے‬
‫اس میں اسی داخلی اور روحانی تنہائی کا ہاتھ ہے۔‬

‫ندیم کے حوالے سے بات کر تے ہوئے ڈاکٹر وزیر آغا نے ایک سوال ان الفاظ میں‬
‫اٹھایا ہے ۔‬

‫’’سوال یہ ہے کہ ذہن کی زرخیزی تو ہوئی کہ زمانے کا‬


‫تقاضا یہی ہے لیکن ندیم کے ہاں تخلیقی لگن کی نوعیت کیا‬
‫ہے کہ ان کے بیشتر دوسرے معاصرین تو تھک ہارکر‬
‫گرتے رہے لیکن ندیم کے بڑھتے ہوئے قدموں میں لغزش‬
‫تک نہ آئی ۔ آگے چل کر اگر ندیم صاحب نے کبھی اپنی‬
‫سوانح عمری لکھنے کی ضرورت محسوس کی تو اہل نظر‬
‫کو پتا چل سکے گا کہ وہ "آگ "کس قسم کی تھی جس نے‬
‫اس فن کار کو اظہار ذات پر سدا مائل رکھا‘‘۔ (ص ‪،698‬‬
‫کل کی بات)‬

‫مبصر اس حوالے سے اپنی رائے کا اظہار اس طرح کرتا ہے کہ یہ آگ اس تپسیا سے‬


‫پیدا ہوئی ہے جو وہ اپنی سوچوں ‪ ،‬پچھتاؤوں اور پشیمانیوں کے ساتھ تنہا رہ کر کرتا‬
‫ہے ۔ اس لیے وہ نہیں چاہتا کہ ندیم اپنی ذات کے اس خلوت خانے کے سب دروازے‬
‫اور دریچے چوپٹ کھول دے اور اپنے سب دوستوں کو اس کے اندربُال لے۔‬

‫شخصیت کے حوالے سے دوسرا اہم مضمون شاعرہ فہمیدہ ریاض کا ہے ۔ مبصر اس‬
‫کے بے باک صاف اور کھرے لہجے کی تعریف کرتا ہے۔ وہ اپنے مضمون کے آغاز‬
‫میں یہ اعتراف کرتی ہے۔‬

‫’’اگر ا ن ابتدائی ایام میں ندیم صاحب میری اتنی حوصلہ افزائی نہ کرتے تو میں شاید‬
‫شروع میں مشق کے دوران ہی نظمیں لکھنا ترک کر دیتی "لیکن اُسے اس بات کا بھی‬
‫شدید احساس ہے کہ وہ اور ندیم ایک دوسرے سے بہت مختلف واقع ہوئے ہیں چنانچہ‬
‫اس احسان مندی کے باوجود وہ ایک غیر معمولی اخالقی جرات سے کام لیتے ہوئے‬
‫ندیم کی شخصیت کے وہ سارے عیب گنواتی ہے جن سے وہ بہت ناالں ہے‘‘۔‬

‫’’وہ کہتی ہے کہ ندیم صاحب خواب بالکل نہیں دیکھتے ۔‬


‫مروجہ‬
‫ضبط و تحمل کا پیکر ہیں اور ساتھ ہی معاشرے کی ّ‬
‫روایات کا بہت احترام کرتے ہیں۔ رسوم و قیود کے پابند ہیں‬
‫۔ ان کے لیے میرے منہ اور قلم سے ہمیشہ ندیم صاحب یا‬
‫قاسمی صاحب ہی نکلتا ہے ۔ ہ جانتے ہیں کہ لوگوں سے‬
‫فاصلہ کیسے قائم رکھیں ۔ میں جب اُن سے ملی ہوں مجھے‬
‫ایسا لگا ہے جیسے وہ رسیوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ یہ‬
‫کیسی بندشیں ہیں جو انہوں نے خود پر عائد کر رکھی ہیں‬
‫اور آخر میں ندیم صاحب کی تقدیر میں عزت احترام ہے‬
‫عظمت کی بلندیوں پر وہ تنہا کھڑے ہیں‘‘۔ (ص ‪،681‬‬
‫ایضا ً)‬
‫تبصرہ نگار فہمیدہ کے اس تجزیے کا جواب بڑے تیکھے لہجے میں دیتا ہے وہ کہتا‬
‫ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ندیم صاحب خواب نہیں دیکھتے پھر وہ شاعر کیسے ہو‬
‫گئے۔ میرا خ یال ہے وہ یہ کہنا چاہتی ہیں کہ ندیم اس طرح کے خواب نہیں دیکھتے‬
‫جیسے خواب وہ چاہتی ہیں کہ وہ دیکھیں۔‬

‫دوسری بات یہ کہ ندیم جانتے ہیں لوگوں سے فاصلہ کیسے قائم رکھیں۔ اس کے‬
‫جواب میں تبصرہ نگار کہتا ہے کہ فہمیدہ کا یہ مشاہدہ غلط ہے کہ اس میں ندیم کی‬
‫کسی شعوری ک وشش کو کوئی دخل ہے کیونکہ ہم سے اکثر لوگوں کی مزاجی‬
‫خصوصیت ‪ ،‬عادات ‪ ،‬ذاتی اخالقیات بچپن ہی سے ایسی محکم ہو جاتی ہیں کہ ہم‬
‫ساری عمر خواہش کے باوجود ان کے بوجھ تلے سے نہیں نکل سکتے ۔ پھروہ انتہائی‬
‫دکھ سے فہمیدہ سے کہتا ہے۔‬

‫’’انہوں نے ندیم کے گریبان کے بٹن ب ند دیکھے اور مایوس ہو گئیں کہ یہ شخص تو‬
‫بڑے قاعدے قرینے کا اور سرد مہرہے وہ ان کے گریبان کے پیچھے اس دل کی‬
‫دھڑکن نہ سن سکیں جس میں خلوص و ایثار کی گرمی تھی ‪ ،‬ہمدردی ‪،‬اپنائیت تھی ۔‬
‫کیایہی وہ مشاہدہ ہے جس کے بل پر وہ کہانیاں اور خاکے لکھتی ہیں‪ ،‬اتناعمدہ‬
‫شاعری کرتی ہیں؟‘‘(ص ‪ ،686‬کل کی بات)‬

‫کسی انسان کو پرکھنے کے لیے ہر ایک کا پیمانہ ُجدا ُجداہوتا ہے اور وہ اسی کے‬
‫تحت اپنے خیاالت کا اظہار کرتا ہے ۔ یہاں پر محمد خالد اختر اور فہمیدہ ریاض‬
‫دونوں نے اپنے اپنے طور پرمعروضی انداز میں جائزہ لیا ہے کہ جو کچھ نے انہوں‬
‫نے براہ راست دیکھا یا مشاہدہ کیا وہی بیان کیا لیکن فاضل تبصرہ نگار نے فہمیدہ‬
‫ریاض کے معروضی جائزے کا کڑا محاکمہ کیا اور محمد خالد اختر کے جائزے سے‬
‫اس انداز سے اختالف نہیں کیا۔‬

‫مسرت لغاری کا احمد ندیم قاسمی ایک تثلیت ہے جو بڑی محبت سے لکھا گیا ہے۔ ندیم‬
‫شاع ر ‪،‬قاسمی افسانہ نگار اور احمد شاہ وہ انسان ہے جو ان دونوں کے درمیان پورے‬
‫قدسے اُٹھتا نظر آتا ہے ۔ ندیم کے بڑے بھائی محمد بخش پیرزادہ کوئی باقاعدہ لیکھک‬
‫نہیں ہیں لیکن انہوں نے بھی اپنے بھائی کے بچپن کے واقعات بہت دلچسپ انداز میں‬
‫بیان کیے ہیں۔‬

‫ندیم کی بیٹی ناہید قاسمی نے میرے ابا جی بہت محبت سے لکھا لیکن اگر وہ یہ خاکہ‬
‫تھوڑے فاصلے پر اور معروضی اندا ز میں لکھتیں تو زیادہ موثر ہوتا ۔ حاجرہ‬
‫مسرور کا مضمون میرے بھیا ‪ ،‬میرے اللہ بھی خوبصورت اور اثر انگیز اسلوب میں‬
‫لکھا ہوا ہے۔‬

‫خدیجہ مستور کا مضمون "اللہ اور جھوٹ"بہت مختصر اور ہلکا پھلکا تفریحی انداز‬
‫لیے ہوئے ہے ۔ جمیل الدین عالی کا مضمون یہ تمام خراج تحسین‪ ،‬ندیم کے کردار‬
‫کے بعض پہلوؤں پر بے ساختہ انداز میں لکھاہوا ہے۔‬

‫ندیم نمبر کا دوسرا حصہ" تخلیق فن" ان کے فن شاعری اور فن افسانوی پر بحث کرتا‬
‫ہے۔‬

‫صرف دومضمون ندیم کی صحافت اور کالم نگاری پر ہیں۔ فن شعر پر ڈاکٹر سیّد‬
‫عبداللہ ‪ ،‬ڈاکٹر وزیر آغا‪ ،‬فتح محمد ملک اور امجد اسالم امجد کے مضامین معلومات‬
‫سے بھرپور ہیں۔‬

‫اس حصے کا سب سے اہم مضمون اللہ صحرا کا" کالم ندیم کے جالل میں جمال کے‬
‫پہلو" ہے۔ اس مضمون میں اس خاتون نے پورے کالم میں اس کے تجربہ عشق کے‬
‫آثار کا سراغ لگایا ہے ۔ اس کے اشعار سے اس کا نظریہ عشق متعین کیا ہے ۔ اس‬
‫سے عیاں ہوتا ہے کہ ندیم کا محبوب ایک خاص ذات ہے اور پہلی محبت کے تجربے‬
‫کے بعد اسے دوسری محبت کا بھی تجربہ ہوا جس کازمانہ طویل تر تھا ممکن ہے کہ‬
‫وہ اب بھی اس کے احساسات میں موجود ہو۔ اس حوالے سے وہ لکھتی ہے۔‬

‫’’ ندیم افالطونی محبت کے قائل ہیں ۔ باربار محبت کرنا ان‬
‫کے بس کا روگ نہیں ۔ ان کی افتاد طبع ہرجائی پن سے‬
‫متنفر ہے وہ محبت میں بھی توحید پسند ہیں‘‘۔ (ص ‪689‬کل‬
‫کی بات)‬
‫حصہ نظم کے جن شعراء نے ندیم کو خراج تحسین پیش کیا ہے ان میں پروین شاکر‬
‫ایک اہم نسوانی آواز ہے وہ ندیم کو سایہ دار شجر کہتی ہے۔‬

‫تبصرہ نگار جہاں" ندیم نمبر" کی اشاعت پر مدیر کا اتنا ممنون ہے وہیں وہ ایک خط‬
‫کی اشاعت پر اس سے یوں گلہ مند ہوتا ہے۔‬

‫’’شروع کے پیغامات اور خطوط کے حصے میں صہبا‬


‫لکھنوی نے ن م راشد کا خط من و عن درج کر کے بڑی‬
‫سنگ دلی کا ثبوت دیا ہے ۔ میرا خیال نہیں تھا کہ یہ شخص‬
‫صہبا جس کی باتوں سے ہمیشہ مہرومحبت ٹپکتی ہے اتنا‬
‫سفاک بھی ہو سکتا ہے ن م راشد نے اپنے خط کی صورت‬
‫میں جو زہریلی قے کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ‬
‫اندر سے بہت بیمارہیں ۔ ندیم کے کردار پر ان کو جو‬
‫اعتراض ہے اس کا فوری سبب ممکن ہے ۔ فنون میں‬
‫چھپنے والی کوئی تحریر ہو‘‘‪(7‬ص ‪ ،681‬کل کی بات)‬

‫یہاں مجھے تبصرہ نگار کے نقطہ نگاہ میں انتہاپسندی نظر آتی ہے جس کے تحت وہ‬
‫ندیم پر منفی تنقید برداشت نہیں کر سکتے ۔ان کا مطمع نظر یہی نظر آتا ہے کہ‬
‫ہرتجزیہ نگار ندیم کی شخصیت و فن کا جائزہ مثبت انداز میں لے ۔ جہاں کسی نے‬
‫منفی پہلو کے حوالے سے اظہار خیال کیا مبصر نے اسے کھری کھری سنائیں۔‬

‫’’ندیم نمبر"کے حوالے سے فیض احمد فیض کا چند سطری‬


‫مکتوب بالکل ٹھنڈا‪ ،‬رسمی اور بے جان ہے ۔ جس سے‬
‫معلوم ہوتا ہے کہ ان کے تعلقات سردمہری سے آگے نہیں‬
‫بڑھے ۔ وہ اپنے اس رفیق کے حوالے سے صرف اتنا کہنے‬
‫پر اکتفا کرتے ہیں "ادب ‪ ،‬صحافت اور شاعری میں ان کا‬
‫مقام مسلم ہے‘‘(ص ‪ ،689‬کل کی بات)‬

‫تبصرہ نگار کہتا ہے کہ ایسے بہت سے نام غائب ہیں جن سے "ندیم نمبر" کے‬
‫حوالے سے کچھ لکھنے کی توقع تھی ۔ لیکن حوالے سے وہ کچھ نہیں بتاتا ۔ البتہ اپنے‬
‫حوالے سے بتاتا ہے کہ تین بار منصوبہ شروع کیا لیکن مصروفیات روزگار کی وجہ‬
‫سے تکمیل نہ کرپایا اور صہبا صاحب نے بھی قبل ازمرگ واویال شروع کیا کہ وقت‬
‫کم ہے ۔ رسالہ مکمل ہے اس لیے میں نے حوصلہ ہاردیا کہ بعد میں کسی اور موقع‬
‫پر لکھوں گا ۔ تبصرہ نگار نے یہاں اپنا تذکرہ بڑے ڈرامائی انداز میں جاندار اسلوب‬
‫میں کیا ہے۔‬

‫آخر میں وہ پھر صہبا لکھنوئی کو خراج تحسین پیش کرتا ہے کہ اس نے "ندیم نمبر"‬
‫نکال کے اپنی مدیرانہ قابلیت اور صالحیت کا لوہا منوایا ہے ۔ وہ آئندہ بھی اُن سے‬
‫ایسی ہی توقع رکھتا ہے۔‬

‫زیر تبصرہ کتاب میں شامل چوبیسواں تبصرہ کیسر کیاری (کالموں کا مجموعہ) پر‬
‫ہے ۔ کالم نگار ‪ ،‬احمد ندیم قاسمی ‪ ،‬شفیق پبلی کیشنز ‪ ،‬چوک گڑھی شاہو الہور سے‬
‫شائع ہونے والی اس کتاب کی قیمت ‪411‬روپے ہے صفحات کی تعداد درج نہیں ہے۔‬
‫یہ تبصرہ فنون کے شمارہ ‪ ، ۱۱۰‬اپریل تا جوالئی ‪۱۸۸۸‬ء ص ‪ ۳۱۹‬تا ‪ ۳۴۱‬میں شائع‬
‫ہوا۔‬

‫کسی بھی موضوع پر تبصرہ پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ تبصرہ نگار اس موضوع‬
‫کے حوالے سے وسیع معلومات رکھتا ہے اور یوں وہ منظر کے ساتھ ساتھ اس کے‬
‫پس منظر پر بھی روشنی ڈالتا ہے۔‬

‫کالموں کے اس مجموعے پر بات کرنے سے پہلے وہ فکاہیہ کالم نگاری پر بات‬


‫کرتے ہیں کہ اس کا آغاز اس صدی کے تیسرے عشرے کے ابتدائی برسوں میں ہوا‬
‫کیونکہ سیاستدانوں کی باہمی رقابتوں اور جبرواستبداد کے واقعات پڑھ کر قاری‬
‫عموما ً گھٹن محسوس کرتا تھا اور وہ اخبار کی اس بوجھل فضاء سے نکلنا چاہتا تھا‬
‫اور کچ ھ ایسا چاہتاتھا جو تفریح کے ساتھ معلوماتی بھی ہو اور اس میں طنز کی حس‬
‫بھی ہو۔‬

‫احمدندیم قاسمی نے فکاہیہ کالم نویسی کا آغاز موالنا عبدالمجید سالک کی نگرانی میں‬
‫کیا۔‬
‫’’وہ روزنامہ انقالب میں "افکار و حوادث" کے عنوان سے‬
‫روزانہ فکاہی کالم لکھتے تھے ۔ کبھی کبھی میں اور جھنگ‬
‫کے ایک ممتاز صاحب ان کی خدمت میں کالم لکھ بھجواتے‬
‫تھے اور وہ بکمال شفقت انہیں ہمارے ناموں کے حوالے‬
‫کے ساتھ افکار و حوادث کے کالم میں درج فرمادیتے‬
‫تھے‘‘۔ (ص ‪ ،671‬کل کی بات)‬

‫اس ضمن میں تبصرہ نگار کہتا ہے کہ یہ ندیم کی خوش قسمتی ہے کہ انہیں ابتدائی‬
‫زمانے میں موالنا عبدالمجید جیسے آزمودہ کارصحافی کی نگرانی میسر آگئی ۔ کیسر‬
‫کیاری احمد ندیم قاسمی کے چالیس برسوں کے کالموں کا انتخاب ہے اس میں صرف‬
‫ننانوے کالم شامل ہیں۔‬

‫ان کالموں میں خاص بات یہ ہے کہ اس میں کالم نگار کی گوناگوں صالحیتیں ہمارے‬
‫سامنے آتی ہیں۔ وہ بنیادی طور پر شاعر ‪ ،‬افسانہ نگار اور اس کے ساتھ ساتھ صحافی‬
‫اور مدیر بھی تھے ۔ وہ اہل فکر نقاد اور مبصر بھی تھے۔ اس کے عالوہ ان کی‬
‫شخصیت کا ایک خاص پہلوان کی حس مزاح اور ایک ماہر لطیفہ گو ہونا ہے۔ ان‬
‫کالموں میں وہ ہمارے سامنے مختلف حیثیتوں سے آتے ہیں۔ کالموں میں ان کی جو‬
‫فکر ہمارے سامنے آتی ہے وہ ملک کے معاشرتی وسیاسی حاالت میں تبدیلی السکتی‬
‫تھی لیکن افسوس کہ جن افراد کی سوچ پر یہ طنزیہ کالم لکھے جاتے تھے وہ انہیں‬
‫سمجھنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے تھے۔ اس کی ایک مثال مالحظہ کریں۔‬

‫’’گزشتہ الیکشن میں جب ہر طرف "روٹی کپڑے اور‬


‫مکان" کا نعرہ لگ رہا تھا ایک صاحب نے صرف روٹی‬
‫اور مکان کا نعرہ مارا یعنی کپڑے گول کر گئے ۔ کسی نے‬
‫ان کی تصحیح کی تو بولے "کپڑے کو تو میں نے اپنے‬
‫مطالبے میں جان بوجھ کر خارج کیا ہے ۔وجہ اس کی یہ‬
‫ہے کہ میرے پاس مکان نہیں ہے ۔ جماعت اسالمی اور‬
‫مسٹر اے کے بروہی کی یقین دہانی کے باوجود میں روٹی‬
‫کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا چنانچہ اگر روٹی مل جائے تو‬
‫مجھے کپڑے کی ضرورت نہیں ہے ۔ میں اپنے مکان میں‬
‫فتوی لے لوں گا‬
‫ٰ‬ ‫ننگا ہی بیٹھا رہوں گا اور ان حضرات سے‬
‫کہ روٹی کی طرح انسان کپڑے کے بغیر بھی زندہ رہ سکتا‬
‫ہے‘‘۔ (ص ‪ ،672‬ایضا ً)‬

‫ان سنجیدہ نوعیت کے کالموں کے ساتھ ساتھ ایسے کالم بھی ہیں جن میں لطائف بھی‬
‫بیان ہوئے ہیں ۔اس کی مثال دیکھیں۔‬

‫’’ایک صاحب سے کسی نے ان کے" وطن مالوف" کے‬


‫بارے میں پوچھا تھا تو انہوں نے کہا تھاآج کل میکے گئی‬
‫ہوئی ہے ۔بچہ ہونے واال ہے‘‘۔(ص ‪679‬ایضا ً)‬

‫ندیم کے کالموں کے موضوعات کا اگر جائزہ لیا جائے تو ان میں طنزوظرافت کے‬
‫ساتھ ساتھ سیاست ‪ ،‬خاص مسلم لیگ کے قائدین ‪ ،‬میونسپل کارپوریشن اور اسی طرح‬
‫کے دوسرے محکموں کی کارکردگیوں کے نمونے سامنے آتے ہیں۔ مذہب کے اجارہ‬
‫داروں کے شرعی حیلوں اور تاویلوں پر بھی بہت کچھ لکھا ہے لیکن ان کے کالموں‬
‫میں بغض و حقارت کا تاثر کہیں نہیں ملتا۔ ان کے کالموں سے پتہ چلتا ہے کہ زبان‬
‫کیسے لکھی جاتی ہے۔‬

‫کالموں کے اس مجموعے کا نام موالنا عبدالمجید سالک نے ان کے کسی پہلے‬


‫مجموعے کے لیے تجویز کیا تھا جو اب ناپید ہو چکا ہے۔ اسی لیے وہ اپنے فکاہی‬
‫کالموں کے اس انتخاب کو اسی نام سے پیش کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی یہ کتاب‬
‫مرشدگرامی حضرت موالنا عبدالمجید سالک کی نذر کی ہے۔‬

‫اعلی‬
‫ٰ‬ ‫یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ انہوں نے جس طرح انہیں یاد رکھا وہ ان کے‬
‫ظرف کی دلیل ہے اس لیے وہ ان کے اس احسان کو تمام عمر نہیں بھولے۔ ندیم کے‬
‫کالموں کے حوالے سے تبصرہ نگار اپنا ذاتی تجربہ ایک واقعہ کی صورت میں بیان‬
‫کرتاہے۔‬
‫" میں نے اسالمی کیمپ کے ایک سینئر اور محترم صحافی موالنا نصراللہ خاں عزیز‬
‫سے ایک دفعہ سناتھا (ان دنوں میں بھی اس کیمپ میں تھا) کہ یہ جو احمد ندیم قاسمی‬
‫ہیں یہ ہیں تو ترقی پسندوں کمیونسٹوں کے گروہ میں لیکن آدمی شریف الطبع ہیں ۔ وہ‬
‫ہم پر پھبتیاں بھی کستے ہیں ہمارے چٹکیاں بھی لیتے ہیں لیکن ایسی شائستگی کے‬
‫ساتھ کہ بات چاہے بُری لگے پڑھ کر ایک دفعہ تو لُطف آجاتا ہے"۔ (ص ‪ ،671‬کل کی‬
‫بات)‬

‫تبصرہ نگار کہتا ہے کہ" کیسر کیاری" میں شامل ان کالموں پر اس سے بہتر تبصرہ‬
‫نہیں ہو سکتا جو اس لیے بھی مستند ہے کہ اغیار کی طرف سے سامنے آیا‬
‫ہے۔ مبصر نے ان کالموں کے موضوعات اور اسلوب کا جائزہ دقیق نظری سے لیا‬
‫ہے اور قارئین کو احمد ندیم قاسمی کی شخصیت کے ایک اہم پہلو کی طرف متوجہ‬
‫کیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ وہ فی الوقع ہمہ جہت ادیب تھے۔‬

‫شامل کتاب پچیسواں تبصرہ "حسن الجردہ فی شرح القصیدہ البردہ (اُردو)" پر ہے ۔‬
‫شارح عالمہ محمد بن عبدالمالک کھوڑوی ‪ ،‬شیخ االسالم اکیڈمی قصور سے شائع‬
‫ہونے والی اس کتاب کی قیمت ‪61791‬روپے ہے صفحات کی تعداد اور سن اشاعت‬
‫ندارد۔‬
‫یہ تبصرہ فنون کے شمارہ ‪1‬ص ‪471‬تا ‪479‬اکتوبر ‪ ،‬نومبر ‪6799‬میں شائع ہوا۔‬

‫تبصرہ نگار نے حسب روایت اس قصیدے کے جائزے سے پہلے اس کے شارح‬


‫عالمہ محمد عبدالمالک کھوڑوی کا تفصیلی تعارف کروایا ہے ۔میں یہاں مختصرا ً بیان‬
‫کرتی ہوں۔‬

‫’’مصنف کا پورانام عالمہ ابوالبرکات محمد عبدالمالک خان‬


‫ہے ۔ ان کاتعلق ضلع گجرات کے قصبے کھوڑہ سے تھا‬
‫لیکن بسلسلہ روزگار انہوں نے اپنی عمر کا ایک حصہ‬
‫سابق ریاست بہاول پور میں گزاراجہاں وہ مشیر مال کے‬
‫عہدہ جلیلہ پر فائز رہے ۔ مالزمت سے سبکدوش ہونے پر‬
‫وہ واپس اپنے گاؤں کھوڑہ چلے آئے اور جب تک زندہ‬
‫رہے اپنے آپ کو مطالعہ اور تصنیف و تالیف میں مشغول‬
‫رکھا۔ ان کے بیٹے مولوی اختر علی صاحب بہاولپور میں‬
‫ایک طویل عرصہ ڈپٹی کمشنر رہے ۔ انہیں بھی ادب سے‬
‫شغف تھا لیکن صاحب قلم نہیں تھے البتہ اپنے خلف الصدق‬
‫محمد خالد اختر کی ذات میں وہ ایک ایسا ادیب اور صاحب‬
‫قلم اس دنیا کو دے گئے جس پر آج اُردو ادب بجاطور پر‬
‫نازکر سکتا ہے‘‘۔ (ص ‪678‬تا‪ ،677‬کل کی بات)‬

‫اس قصیدے کے حوالے سے پھر وہ اپنے ذاتی تجربات دلچسپ واقعاتی انداز میں بیان‬
‫کرتا ہے جو کہ ضعیف االعتقادی کا خاتمہ کرتے ہیں۔تبصرہ نگار قصیدہ بردہ کے‬
‫مصنف کا تعارف کرواتا ہے اور اس قصیدے کی وجہ تسمیہ بیان کرتا ہے۔‬

‫’’قصیدہ بردہ کے مصنف ابوعبداللہ شرف الدین محمد بن‬


‫سعیدالبوصیری ہیں ۔ یہ بربری نسل کے ایک عربی شاعر‬
‫اور صوفی تھے ان کے والد کا تعلق چونکہ مصر کے‬
‫قصبہ بوصیر سے تھا اس لیے یہ بوصیری کی نسبت سے‬
‫ہی زیادہ مشہورہوئے ۔ پیدائش ‪118‬ھ (‪6464‬ء) میں ہوئی ۔‬
‫آخری عمر میں پنڈلی ٹوٹ جانے کی وجہ سے معذور ہوئے‬
‫اور قاہرہ میں قیام پذیر ہو گئے وہیں ‪171‬ھ (‪6479‬ء) میں‬
‫وفات پائی ۔قصیدہ بُردہ کی تخلیق کے ضمن میں ابن‬
‫شاکرالکبتی نے "فوات الوفیات"میں یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ‬
‫ایک مرتبہ بوصیری پر فالج کا حملہ ہوا جس سے ان کا‬
‫نصف حصہ جسم بیکار ہو کر رہ گیا ۔ اس بیماری نے ان‬
‫کے دل و دماغ پر گہرا اثرڈاال اور انہوں نے یہ قصیدہ نظم‬
‫کرنا شروع کیا ۔ جب یہ مکمل ہو گیا تو اسے بار بار پڑھتے‬
‫اور اپنی صحت کے لیے اللہ سے گڑگڑا کر دعا کرتے ۔‬
‫ایک رات اسی حالت میں سو گئے تو خواب میں کیا دیکھتے‬
‫ہیں کہ آنحضرت ؐ تشریف الئے اور انہوں نے اپنا دست‬
‫مبارک ان کے جسم پر پھیرا اور ان پر ایک چادر ڈال دی‬
‫۔جب یہ صبح بیدار ہوئے تو اپنے آپ کو بالکل تندرست اور‬
‫صحت یا ب پایا ۔ اس واقعے کا ان پر بے حد اثر ہوا اور اس‬
‫کی مناسبت سے انہوں نے اپنے قصیدے کا نام "قصیدہ‬
‫البردہ "رکھا‘‘۔ (ص ‪411‬۔ ایضا ً)‬

‫ان دونوں شخصیات کے تعارف کے بعد میں اصل موضوع کی طرف آتی ہوں ۔‬
‫قصیدہ بردہ ‪614‬یا‪619‬اشعار کی ایک طویل نظم ہے جسے موضوعات کے اعتبار‬
‫سے دس ابواب پر تقسیم کیا گیا ہے۔‬

‫پہالباب نظم کا مطلع ہے اس میں شاعر نے جاہلی قصیدے کی روایت برقرار رکھتے‬
‫ہوئے اپنی واردات عشق کا اظہارکیا ہے ۔ دوسرا باب نفس اور شہوات نفس کے بارے‬
‫میں ہے۔ تیسرا باب نظم کا سب سے طویل باب ہے ۔ خالصتا ً مدح رسول میں ہے ۔‬
‫چوتھے باب میں آنحضرت کی پیدائش کا ذکر ہوتا ہے ۔ پانچویں میں آپ ؐ کے معجزات‬
‫کا ‪،‬چھٹا باب قرآن کریم کی فضلیت پر ہے اور ساتویں باب میں شاعر نے واقعہ‬
‫معراج کا ذکر کیا ہے۔ آٹھویں باب میں رسول اللہ کے جہاد اور غزوات کا تذکرہ ہے ۔‬
‫نویں باب میں شاعر نے اپنی نجات اور مغفرت کے لیے ذات نبوی کا وسیلہ ڈھونڈا‬
‫ہے اور دسوا ں باب شاعر کی مناجات اور عرض حال میں ہے۔‬
‫اس نظم کے اسلوب کے حوالے سے تبصرہ نگار کہتا ہے کہ اس نظم میں جذبہ سچا‬
‫اور سادہ ہے ۔ خیال پاکیزہ لیکن اپنی پرواز میں ارضی حقیقتوں سے زیادہ دورنہیں‬
‫جاتا ۔ مواد کے لحاظ سے یہ نظم ماال مال ہے ۔ اس کا سب سے بڑا ُحسن اور اصل‬
‫تاثر الفاظ کی نشست اور تراکیب کی بندش میں ہے۔‬

‫مبصر کہتا ہے عالمہ عبدالمالک نے زیر نظر کتاب میں جوشرح کی ہے اس کا انداز‬
‫ادبی سے زیادہ تعلیمی ہے ۔ اس شرح کی ترتیب یوں ہے کہ عربی کا ایک شعر نقل‬
‫کرنے کے بعد اس کا ترجمہ پہلے فارسی شعر میں دیا ہے۔ اس کے بعد عربی شعر‬
‫میں استعمال ہونے والے الفاظ کے معانی بتائے ہیں۔ اس کے بعد شعر کا ترجمہ اُردو‬
‫نثر میں دیتے ہیں اور آخر میں اُردو کی سلیس نثر میں عربی شعر کا مفہوم قدرے‬
‫تفصیل سے بیان کرتے ہیں ۔اس طرح شرح قاری کے سامنے واضح ہو جاتی ہے۔‬
‫عالمہ عبدالما لک کی اس شرح کی خصوصیت ان کا جذبہ اصالح اور دینی دردمندی‬
‫ہے ۔ ان کی یہ کیفیت ایمانی اپنی سادگی اور سچائی کے باعث قاری کو بہت متاثر‬
‫کرتی ہے۔‬

‫اس کتاب کے عنوان کے حوالے سے تبصرہ نگار یہ تجویز دیتا ہے کہ "فی شرح‬
‫القصیدہ البردہ"عربی قاعدے کی روح سے صحیح نہیں ہے ۔ اس کی صحیح صورت‬
‫"فی شرح قصیدۃ البردہ"ہو گی ۔ یعنی لفظ قصیدہ پر ال داخل نہیں ہو گا ۔‬

‫تبصرہ نگار چونکہ خود ایک عربی داں ہے اس لیے وہ بصد شوق اس قصیدے کے‬
‫چند اشعار کا اُردو ترجمہ کرتا ہے۔ اس قصیدے کا پہال باب شاعر کی واردات عشق‬
‫سے متعلق ہے جو کہ بظاہر عجیب معلوم ہوتا ہے لیکن اس کی وجہ عربی شاعری‬
‫کی وہ روایت ہے جو امرؤ القیس سے شروع ہوتی ہے ۔ ان کی پابندی کعب بن زبیر‬
‫اور حسان بن ثابت نے بھی کی تھی ۔ان کے یہ دونوں قصیدے آنحضرت ؐ نے سنے‬
‫تھے لیکن وہ عربی شاعری کے تقاضوں کو سمجھتے تھے کہ روایت سے یکلخت‬
‫آزاد ہون ا شاعر کے لیے آسان نہیں۔ وہ مہر وشفقت کا پیکر تھے لیکن اگر ہم آج کے‬
‫دور کے حوالے سے دیکھیں تو شاعر کا کیا حشر ہوتا ۔ یہ دور جو بظاہر جدت پسندی‬
‫کا دور ہے لیکن مذہب کے نام پر قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے۔‬

‫زیر موضوع کتاب میں شامل چھبیسواں تبصرہ "مشاہیر بہاولپور"پر ایک نظر ہے ۔‬
‫مصنف مسعود حسن شہاب دہلوی ‪ ،‬اُردو اکیڈمی بہاولپور سے شائع ہونے والی اس‬
‫کتاب کی قیمت ‪21‬روپے ہے ۔ صفحات کی تعداد اور سن اشاعت نہیں ہے۔ زیر نظر‬
‫تبصرہ فنون کے شمارہ ‪47‬ص ‪11‬تا‪22‬نومبر ‪ ،‬دسمبر ‪6787‬ء میں شائع ہوا۔‬

‫ماقبل تبصرہ مبصر ریاست بہاول پور کا مختصرا ً تعارف کرواتا ہے ۔ اس کے سیاسی‬
‫وجود کی کیا اہمیت تھی اور بطور ریاست یہ وجود کب ختم ہوا اس کی بحالی کے لیے‬
‫کیا کوششیں ہوئیں لیکن وہ کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکیں۔ اس کے بعد وہ زیر‬
‫تبصرہ موضوع کی طرف آتا ہے کہ بہاول پور کے یہ مشاہیر کون لوگ ہیں اور اس‬
‫تذکرے میں ان کی شمولیت کے لیے کن باتوں کو مدنظر رکھا گیا ہے؟ اس حوالے‬
‫سے وہ زیر موضوع کتاب کے حوالے سے تمہیدی مضمون میں مصنف کے خیاالت‬
‫کا اعادہ کرتا ہے۔‬

‫’’میں نے صرف ان لوگوں کے ذکر پر اکتفا کیا ہے جو‬


‫بہاول پور کے رہنے والے ہیں یا جنہوں نے بہاولپور کو اپنا‬
‫وطن بنایا ہے ۔ان میں بھی صرف وہ لوگ شامل ہیں جنہیں‬
‫میں نے خود دیکھا ہے اور ان کی خوبیوں کا مشاہدہ کرنے‬
‫کا موقع مالہے‘‘۔ (ص ‪ ،461‬کل کی بات)‬

‫اس ضمن میں تبصرہ نگار صاحب کتاب کے اصول سے تو متفق ہے لیکن دوسرے‬
‫اصول کو اس نے قابل غور قرار دیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ مشاہیر کے انتخاب میں انہیں‬
‫اپنے ذاتی تعارف اور مشاہدے کی شرط نہیں رکھنی چاہیے بلکہ یہ تذکرہ معروضی‬
‫اور تحقیقی انداز میں مرتب کرنا چاہیے تھا۔‬

‫سنا‬
‫اس کتاب میں بعض ایسے مشاہیر کا ذکر ہے جن کا ذکر اس سے پہلے نہیں ُ‬
‫صرف صاحب کتاب تک ہی ان کی شہرت محدود ہو گی۔ بعض مشاہیر ایسے ہیں جو‬
‫عالمی سطح پر مشہور ہوئے لیکن زیر نظر کتاب میں ان کا تذکرہ ہی نہیں جیسے‬
‫سمیع اللہ ‪ ،‬کلیم اللہ اور انہیں تربیت دینے والے ایک کھالڑی مطیع اللہ تھے۔‬

‫مصنف کی دلچسپی کے چند خاص میدان ہیں جن میں صحافت ‪ ،‬سیاست اور تصوف‬
‫وروحانیات! اس کتاب میں انہوں نے خانقاہی سلسلوں اور گدی نشینوں کا بہت شوق‬
‫اور عقیدت سے ذکر کیا ہے۔‬

‫اُردو ادب کے شعبے میں بہاول پور کے جو اصحاب مشہور ہو ئے ان میں شفیق‬
‫الرحمن اور محمد خالد اختر نمایاں ہیں لیکن انہوں نے ان کا ذکر اتنے سطحی انداز‬
‫میں کیا ہے کہ قاری کو ان کی زندگی اور فن سے کوئی خاص بصیرت حاصل نہیں‬
‫ہوتی ۔ محمد خالد اختر کے حوالے سے کچھ لکھنے سے پہلے وہ اُن سے ملنے اُن‬
‫کے گھر گئے لیکن وہ موجود نہ تھے اس لیے مالقات نہ ہو سکی پھر انہوں نے وہی‬
‫کچھ لکھ دیا جو وہ مجمالً جانتے تھے ۔دوسری بار ملنے کی زحمت انہوں نے گوارا‬
‫نہیں کی ۔ تبصرہ نگار کے بارے میں لکھتے ہوئے انہوں نے اس کا نام سیّد کاظم علی‬
‫شاہ "لکھا ہے اس حوالے سے تحقیق کرنے کی انہوں نے ضرورت نہیں محسوس‬
‫نہیں کی۔‬

‫کتاب کا دوسرا ُرخ پیش کرتے ہوئے تبصرہ نگار کہتا ہے کہ ان خامیوں اور کوتاہیوں‬
‫کے باوجود یہ کتاب قاری کو ریاست بہاول پور کے زمانے اور بعد کے ادوار کی‬
‫سیاسی اور ثقافتی تاریخ کے بارے میں اچھا خاصا مواد مہیا کرتی ہے۔ جو کتاب میں‬
‫یکجا تو ملتا البتہ مشاہیر کے تذکرے میں ادھر اُدھر بکھرا ہوا ملتا ہے۔ سرائیکی‬
‫شاعری میں خواجہ غالم فرید کے بعد دوسرے نمبر پر جو شاعر آتے ہیں وہ حافظ‬
‫خرم ہیں۔ انہوں نے مدحیہ قصائد میں جوالنی طبع کے جوہر دکھائے ہیں‬
‫نصیر الدین ّ‬
‫لیکن جب ہجو کہنے پر آئے تو ایسی زور دار کہی کہ مرزا سودا کی روح بھی عش‬
‫عش کراُٹھی ہو گی ۔ ان کی جدّت پسندی کی وجہ سے بہاول پور سے باہر بھی لوگ‬
‫انہیں جاننے لگے تھے ۔ پھر اُن کے ساتھ ایک المناک حادثہ پیش آیا وہ بہاولپور میں‬
‫ہونے والے کل پاکستان مشاعرے میں شریک ہوئے ۔ اس دوران اُن کا قلمی دیوان ُگم‬
‫ہو گیا جو تالش کے باوجود نہ مال۔ اس واقعے نے اُن پر جو اثر کیا اس حوالے سے‬
‫تبصرہ نگار یو ں رقم طراز ہے۔‬

‫خرم صاحب تقریبا ً ایک سال مزید‬


‫’’اس واقعے کے بعد ّ‬
‫جیے لیکن واقعہ یہ ہے کہ ان کی زندگی کے یہ ایام بڑے‬
‫حسرت ناک تھے ۔ ان کی شگفتہ مزاجی اور بدلہ سنجی‬
‫بالکل مفقود ہو گئی تھی وہ اپنی زندگی کا سارا سرمایہ گنوا‬
‫بیٹھے تھے اور یہ صدمہ گھن کی طرح انہیں کھا گیا تھا‘‘۔‬
‫(ص ‪ ،467‬کل کی بات)‬

‫زیر نظر کتاب میں شامل مشاہیر کا تذکرہ طبقہ وار اور مختلف عنوانات کے تحت ہوا‬
‫ہے ۔ ایک باب "ابررواں"کے عنوان سے ہے اس میں ان لوگوں کے حاالت ہیں جو‬
‫کچھ عرصے کے لیے بہاول پور رہے لیکن کسی وجہ سے یہاں سے چلے گئے ۔ ان‬
‫میں بعض شخصیات کے بارے میں مصنف کی معلوما ت اور مشاہدہ مستند نہیں ہے۔‬
‫امیر بہاول پور نواب سر صادق محمد خاں خامس مرحوم کے حوالے سے لکھتے‬
‫ہوئے اُن کے صرف وصف بیان کیے ہیں ان کی شخصی خامیوں سے دانستہ صرف‬
‫نظر کیا ہے۔‬

‫زیر نظر کتاب میں مصنف نے مشاہیر کا تذکرہ اس انداز سے کیا ہے کہ وہ انسان‬
‫نہیں فرشتے تھے اور ان میں جو حیات ہیں وہ بھی سراپا نیکی ہیں لیکن یہ سچی اور‬
‫دیانتدارانہ تذکرہ نگاری نہیں ہے ۔ وہی تذکرہ نگاری معتبر ہوتی ہے جو اچھے اور‬
‫بُرے دونوں پہلوؤں کا احاطہ کرے ۔ عقیدت مندانہ انداز سے تنقید نہیں کی جاسکتی‬
‫۔ ایک بزرگ روہی والے پیر کے ذکر میں لکھا ہے کہ انہوں نے پہلے تو روہی میں‬
‫ڈیرہ ڈالے رکھا لیکن پھر معتقد ین انہیں مجبور کر کے شہر میں لے آئے۔‬

‫’’لیکن یہاں بھی اس طرح گوشہ نشین ہو کر رہے کہ بتیس‬


‫سال میں ماسوائے ایک دوبار کے کسی ضرورت کے لیے‬
‫بھی بازار کا ُرخ کبھی نہیں کیا۔ زیادہ سے زیادہ وقت عبادت‬
‫و ریاضت میں گزرتا صرف ہفتے میں ایک بار اتوار کو‬
‫خلوت سے جلوت میں آتے ۔ مشتاقان دید یہ دن بڑے‬
‫اضطراب میں گزارتے ۔ اتوار آتا تو لوگ پروانوں کی طرح‬
‫اس شمع پر آتے‘‘۔ (ص ‪ ،449‬ایضا ً)‬

‫اس ضمن میں تبصرہ نگار کہتا ہے کہ میں تصوف کی اس صورت کی تحسین نہیں‬
‫کر سکتاجس میں ایک صوفی ُخدا کے بندوں سے کنارہ کشی کر کے اپنی عبادت و‬
‫ریاضت میں گوشہ نشین ہو جاتا ہے ۔ یہ رسول اللہ کا طریقہ نہیں تھا اور جو عبادت‬
‫رسول اللہ کے طریقے سے مختلف ہو خدا کی نظر میں اس کیا وقعت ہوگی ؟۔‬

‫وہ کہتا ہے کچھ مشاہیر بہاولپور ایسے ہیں جن کی طرف مصنف کا دھیان نہیں گیا اس‬
‫لیے مذکورہ کتاب اُن کے ذکر سے خالی ہے ۔ ان میں موالنا محمد علی جو شہر کی‬
‫جامع مسجد میں حدیث کا درس دیتے تھے ۔ شیخ عبدالمجید جو صادق ایجرٹن کالج‬
‫بہاولپور کے پرنسپل اور ہر دل عزیز شخصیت اور مصنف بھی تھے ۔ ادبی سیارو ں‬
‫میں جمیلہ ہاشم ی کا تذکرہ نہیں ہے ۔ ان کے عالوہ ان اصحاب کا تذکرہ نہیں ہے جن‬
‫سے مصنف کی براہ راست مالقات نہیں ہوئی۔‬

‫تبصرہ نگار اس کتاب میں کچھ امالئی غلطیوں کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔ آخر میں وہ‬
‫اپنی دوٹوک رائے دیتے ہوئے کہتا ہے۔‬

‫‘‘مشاہیر بہاول پور"جیسے دلچسپ اور اہم موضوع پر کتاب لکھتے ہوئے شہاب‬
‫صاحب کو زیادہ محنت اور تحقیقی کرنی چاہیے تھی ۔ شخصیات کے تذکرے میں‬
‫بجائے ایک صلح کل اور تملقانہ انداز کے حقیقت پسندانہ اور دیانتدارانہ انداز اختیار‬
‫کرنا چاہیے تھا کہ علمی و ادبی سطح کی شخصیت نگاری سچ بولنے کا نام ہے ‪ ،‬سب‬
‫کو خوش کرنے اور اپنی کھال بچانے کا نام نہیں ’’۔ (ص ‪ ،449‬ایضا ً)‬

‫میری رائے یہی ہے کہ مبصر نے زیر نظر کتاب کا جائزہ معروضی انداز میں لیا ہے‬
‫۔ خامیوں کی نشاندہی اس لیے کی ہے کہ آئندہ ایڈیشن میں اصالح ہو سکے نہ کہ اس‬
‫سے اس کا مقصود مصنف کی تذلیل ہے۔‬

‫زیر موضوع کتاب میں شامل ستائیسواں تبصرہ "تحریک جدوجہاد بطور موضوع‬
‫سخن "پر ہے ۔ مصنف خواجہ منظور حسین ‪ ،‬نیشنل بُک فاؤنڈیشن سے شائع ہونے‬
‫والی اس کتاب کی قیمت ‪98‬روپے ہے۔ صفحات کی تعداد اور سن اشاعت ندارد ۔‬

‫یہاں تبصرہ نگار اُن حاالت کا مختصرا ً جائزہ لیتا ہے جو اس کتاب کی تخلیق کا پس‬
‫منظر بنے ۔ وہ انیسویں صدی کی پہلی تہائی میں دہلی سے اُٹھنے والی اس دینی اور‬
‫اصالحی تحریک کے اثرات پر بات کرتا ہے جس کے سربراہ سیّد احمد شہید تھے ۔‬
‫یہ اسالم کے احیاء کی تحریک تھی ۔ اس کا مقصد مسلمانوں میں رائج بدعات اور غلط‬
‫رسومات کا خاتمہ کر کے مذہب کی سادہ اور سچی روح کی طرف لوٹنا تھا جس کا‬
‫نمونہ رسول اللہ اور صحابہ کے زمانے میں دُنیانے دیکھا تھا۔ یہ تحریک جو اتنی‬
‫کامیابی سے آگے بڑھی تھی اپنوں کی بدعہدیوں کی وجہ سے تتربتر ہو کر رہ گئی ۔‬

‫سید احمد چاہتے تھے کہ مسلمانوں کی حکمرانی جو ان کے ہاتھ سے نکلی جارہی‬


‫تھی کسی طرح سے بحال ہو جائے انہوں نے اس دور کے سردار نواب امیر خان سے‬
‫بھی اُمیدیں وابستہ کیں اور انہیں انگریزوں کے خالف جہاد کرنے کی تلقین کی لیکن‬
‫نواب صاحب پر اثرنہ ہوا ۔آخر سیّد صاحب اس کے لشکر کو چھوڑ کر دہلی چلے آئے‬
‫۔ ‪ 6869‬ء میں نواب کے حاالت اچانک نازک موڑ پر پہنچ گئے اور وہ انگریزوں سے‬
‫صلح کر نے پر مجبور ہو گیا کہ اپنے آپ کو ریاست ٹونک میں‬
‫اس معاہدے کے ساتھ ُ‬
‫محدود کر لے۔‬

‫خواجہ صاحب اس کتاب کو تصنیف کرنے کے حوالے سے بتاتے ہیں۔‬

‫’’اس موضوع کے سیاق و سباق پر پورے غوروتامل کے‬


‫بعد مجھے کامل یقین ہو گیا کہ جو ُکنجی میں اتنے عرصے‬
‫تک شعروادب کے گوشے گوشے میں ڈھونڈتا رہا وہ آخر‬
‫ہاتھ لگ گئی‘‘۔(ص ‪ ،416‬کل کی بات)‬

‫خواجہ صاحب نے نواب صاحب اور سیّد احمد شہید کے دل خراش واقعہ پر اپنے‬
‫نظریات کی عمارت کھڑی کی اور اس واقعہ کو انہوں نے اس دور کے اکابر شعراء‬
‫کی غزلوں میں تالش کیا ۔اس ضمن میں انہوں نے ذوق کی غزل کا یہ شعرپیش کیا‬
‫ہے جو اس نے تحریک مجاہدین کے سربراہ سیّد احمد شہید کے نواب امیر خاں کے‬
‫لشکر میں شمولیت کے حوالے سے کہا تھا ۔‬

‫گاہ ہجوم یاس میں ہے ‪ ،‬گاہ ہجوم حسرت میں‬


‫ہے یہ مرد سپاہی پیشہ ‪ ،‬پھرتا لشکرلشکر ہے‬

‫تبصرہ نگار یہاں سواالت اُٹھاتا ہے کہ ذوق کے اس شعر کو سارے مبحث کا نقطہ‬
‫آغاز بنایا گیا ہے لیکن کیا اس کے باقی سارے کالم میں اس تحریک کے حوالے سے‬
‫اشعارملتے ہیں۔ اسی طرح مومن کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ انہوں نے اس‬
‫تحری ک کے رہنما کے ہاتھ پر بیعت کی تھی لیکن ہم حتمی طور پر یہ کیسے کہہ‬
‫سکتے کہ اُن کا کتنا کالم اس تحریک سے متاثر ہوکر لکھا گیا ہے؟ غالب کے دیوان‬
‫میں ایسی غزلوں کی تعداد کتنی ہو گی جن میں اس تحریک کی اثر پذیری کے اشارے‬
‫ملتے ہیں؟ نثر کے حوالے سے دیکھیں تو خطوط غالب میں کسی جگہ بھی اس‬
‫تحریک کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا؟‬

‫تبصرہ نگار مصنف سے اختالف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ فاضل مصنف نے جن‬
‫شواہد سے اتنی ضخیم کتاب تیار کی ہے وہ ہر گز یہ مقصد پورانہیں کرتے ۔ یہ‬
‫محض مصنف کی ذہنی اختراع ہے ۔ وہ کہتا ہے پہلے مصنف کو اس تحریک کے‬
‫بارے میں ضروری معلومات فراہم کرنی چاہئیں تاکہ وہ اس پس منظر کو سمجھ سکے‬
‫جسے ذہن میں رکھ مصنف نے اس دور کے شعراء کے کالم کو کھنگاال ہے۔ وہ کہتا‬
‫ہے کہ اس کتاب کے مطالعے کے بعد قاری اس تحریک کے حوالے سے کوئی‬
‫معلومات یا آسودگی محسوس نہیں کرتا بلکہ کتاب کی فہرست سے ہی اس کی بے‬
‫ربطی سامنے آجاتی ہے کیونکہ مصنف نے کتاب بغیر نظر ثانی اشاعت کے لیے بھیج‬
‫دی حاالنکہ مصنف کتاب کے شروع میں "تعارف "کے عنوان سے اس موضوع سے‬
‫ہے۔‬ ‫کرتا‬ ‫دعوی‬
‫ٰ‬ ‫کا‬ ‫کھولنے‬ ‫گتھیاں‬ ‫تمام‬ ‫متعلق‬
‫"ان اوراق میں پہلی بار ذوق ‪ ،‬مومن ‪ ،‬شیفتہ ‪ ،‬آتش اور ناسخ کے کالم سے تحریک‬
‫جدوجہاد اور اس کے متعلقات کے بارے ان شاعروں کے متنوع تاثرات اخذ کیے گئے‬
‫ہیں ۔ اسی تاریخی اور شعری تناظر میں سیّد احمد شہید ‪ ،‬شاہ اسمعیل اور مولوی فضل‬
‫حق کے ساتھ غالب کے رشتوں کی پیچ درپیچ گتھیاں کھولی گئی ہیں اور ان کی‬
‫شاعری کے لفظی ومعنوی دروبست کو ٹٹول کے ان کے جذباتی اور فکری اُتار‬
‫چڑھاؤ کی روداد اور اسی کے نفسی مضمنات کا تجزیہ کیا گیا ہے’’۔ (ص ‪ ،426‬کل‬
‫کی بات)‬

‫وہ کہتا ہے کہ مکمل کتاب پڑھنے کے بعد قاری کی یہ تمناہی رہ جاتی ہے کہ ایسا ہو‬
‫سکتا ۔‬

‫زیر موضوع تبصرے میں تبصرہ نگار نے مصنف کی ذہنی ‪،‬فکری کاوشوں کے‬
‫ادھورے پن کوثابت کیا ہے کہ اس سلسلے میں اس نے جو مواد پیش کیا وہ ناکافی ہے‬
‫اور موضوع کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا۔‬
‫زیر موضوع کتاب میں شامل اٹھائیسواں تبصرہ"دریا باد کے مزاج دار‬
‫موالنا"(عبدالماجد دریابادی احوال و آثار)مصنف ڈاکٹر تحسین فراقی ‪994،‬صفحات پر‬
‫مشتمل یہ کتاب ادارہ ثقافت اسالمیہ ‪4 ،‬کلب روڈ الہور سے شائع ہوئی ۔ قیمت‬
‫ہے۔‬ ‫‪111‬روپے‬
‫یہ تبصرہ فنون کے شمارہ ‪ ،26‬جنوری ‪-‬اپریل ‪6772‬ء ص ‪41‬تا‪16‬پر شائع ہوا۔‬

‫زیر نظر موضوع کے حوالے سے تبصرہ نگار پہلے اپنے خیاالت کا اظہار کرتے‬
‫ہوئے موالنا عبدالماجد کی علمی صالحیتوں کا اعتراف کرتا ہے کہ وہ اپنے وقت کی‬
‫ایک اہم اور معتبر شخصیت تھے ۔ اُردو کے صاحب طرزانشاپرداز‪ ،‬باکمال مترجم‬
‫‪،‬نقاد ‪ ،‬مفسر قرآن ‪ ،‬عالم دین ‪ ،‬سوانح و سفر نامہ نگار اور ایک کہنہ مشق اور مقتدر‬
‫صحافی ‪ ،‬والدہ کی وفات اور مالی حاالت خراب ہوجانے کے باعث ایم اے پاس کیے‬
‫بغیر ہی تعلیم کو خیر باد کہہ دیا ۔ اس اثنا میں فلسفہ ان کے سر کو چڑھ چکا تھا اور‬
‫وہ مذہب سے برگشتہ ہو کر الحادو انکار کی وادی میں نکل آئے تھے ۔اپنی عمر کے‬
‫نو سال انہوں نے اس الحاد اور بے دینی کے ساتھ گزارے اور عمر کے چھبیسویں‬
‫برس میں تھے کہ مذہب کی طرف واپس آگئے۔‬

‫موالنا عبدالماجد کی طبیعت میں توازن نہیں تھا بلکہ انتہاپسندی حددرجہ تھی اور‬
‫رویے میں تضاد تمام عمر برقرار رہا ۔ تبصرہ نگار ان کی شخصیت کے اس پہلو کے‬
‫حوالے سے کہتا ہے۔‬

‫’’عجیب بات کہ عبدالماجد دریا بادی جب مذہب کے خالف‬


‫رسول اللہ کی‬
‫ؐ‬ ‫تھے تو اس راہ پر اتنی دورنکل گئے تھے کہ‬
‫ذات کے بارے میں نازیبا کلمات کہنے سے بھی نہیں‬
‫چوکتے تھے اور جب وہ مذہب کی طرف لوٹے تو اس میں‬
‫بھی وہ اس انتہاکو پہنچے کہ شرعی قباحت کے خیال سے‬
‫اپنی فوٹو تک نہیں اُترواتے تھے‘‘۔ (ص ‪ ،421‬کل کی بات)‬

‫عبدالماجد دریا بادی پر ڈاکٹر تحسین فراقی کا یہ پی ایچ ڈی کا ضخیم اور جامع مقالہ‬
‫ہے ۔ اس کے لیے انہوں نے ہندوستان کا سفر اختیار کیا ۔دہلی اور لکھنو کی‬
‫یونیورسٹی سے استفادہ کیا ۔ ان کے غیر مطبوعہ مکاتیب اور اخبارات ‪ "،‬صدق" اور‬
‫"صدق جدید"کی ورق گردانی کی ۔ کتاب کی ترتیب کے حوالے سے تبصرہ نگاہ کہتا‬
‫ہے کہ تحسین نے ادب و فن میں ان کی ُجداگانہ حیثیتوں سے بحث کی ہے ۔ بحیثیت‬
‫نقاد‪ ،‬مترجم و شارح‪ ،‬بحیثیت سوانح نگار ‪ ،‬سفرنامہ نگار ‪ ،‬مکتوب نگار ‪ ،‬ہر صنف پر‬
‫بحث سے پہلے اس کا تاریخی پس منظر بھی بیا ن کیا ہے ۔ تحسین فراقی چونکہ‬
‫تحقیق کے آدمی ہیں اس لیے موالنا عبدالماجد کے تنقیدی رویوں کا انہوں نے نسبتا ً‬
‫زیادہ جرات کے ساتھ محاکمہ کیا ہے۔‬

‫اس تبصرے میں مبصر شخصی مقالے کے حوالے سے ایک بنیادی سوال اُٹھاتا ہے‬
‫کہ اس شخصیت کے روبرو آپ نے اپنا موقف کیا اختیار کیا ہے؟ کیاآپ اس شخص‬
‫کے علمی و ادبی مرتبے سے مرعوب اور اس کے معتقد و مداح ہیں؟یا اس کے ہم‬
‫خیال ہونے کی وجہ سے اس کے طرف دار ہیں؟ یایہ کہ اس کے سامنے آپ نے اپنی‬
‫فہم و بصیرت کے مطابق ایک غیر جانبدار اور معروضی رویہ اختیار کیا ہے؟ اس‬
‫سے آپ کا موقف واضح ہو کر سامنے آجاتا ہے۔ تحسین فراقی کی اس کتاب کے‬
‫حوالے سے تبصرہ نگار کہتا ہے ۔‬

‫’’چند پہلوؤں کو چھوڑ کر کتاب کے زیادہ تر حصے میں‬


‫تحسین کا موقف موالنا عبدالماجد کے روبرو ایک سعادت‬
‫مندطالب علم اور ایک مرعوب و مودب تذکرہ نگار کا رہا‬
‫ہے ۔ موالنا ایک اسالمی شخصیت تھے اور تحسین نظریاتی‬
‫طور پر خود بھی اسالم پسند اور مذہبی آدمی ہیں ۔ دوسرے‬
‫انہیں یہ مقالہ پنجاب یونیورسٹی کے ارباب حل و عقد کے‬
‫سامنے پیش کر کے ان سے منظور کرانا تھا اس لیے میں‬
‫سمجھتا ہوں کہ دیے گئے حاالت میں وہ موالنا عبدالماجد کی‬
‫شخصیت کے دوسرے ُرخ کے بارے میں اگر چاہتے بھی‬
‫تو زیادہ ُکھل کر بات نہیں کر سکتے تھے‘‘۔(ص ‪ ،428‬کل‬
‫کی بات)‬
‫چونکہ تبصرہ نگار کی ایسی کوئی مجبوری نہیں اس لیے وہ تصویر کا دوسرا ُرخ‬
‫ہے۔‬ ‫التا‬ ‫سامنے‬ ‫کے‬ ‫قارئین‬ ‫حقائق‬ ‫کچھ‬ ‫کر‬ ‫دکھا‬
‫موالنا ضد کے پکے ‪ ،‬شدید انا پرست اور زعم پارسائی میں مبتال انسان تھے ۔‬
‫ضرورت اور خواہش کے باوجود زیادہ عرصہ مالزمت نہ کر سکے اس لیے کہ‬
‫ماتحت بن کر رہنا ان کے لیے سخت مشکل تھا۔ اپنی آپ بیتی میں وہ اپنے مزاج کی‬
‫اس خصوصیت کا اعتراف کرتے ہیں۔‬

‫’’سرشت کی افتاد ہی کچھ ایسی واقع ہوئی ہے کہ ادھر کسی‬


‫نے سختی کی اُدھر طبیعت مقاومت و بغاوت پر تُل گئی ۔‬
‫عمربھر طبیعت کی کجی قائم رہی اور مظاہرے ناشائستگی‬
‫کے ہوتے رہے ۔ آہ یہ بدسرشتی جس کی اصالح عمر کی‬
‫آخری منزلوں میں بھی نہ ہو سکے ۔ اسی کو کہتے ہیں کہ‬
‫ٹیڑھا لگا ہے قط قلم سرنوشت کو‘‘(ص ‪ ،428‬کل کی بات)‬

‫اپنی اسی طبیعت کی وجہ سے موالنا نے کئی اہل قلم اور علماء سے لڑائیاں لڑیں جو‬
‫ان کے نظریات سے اختالف کرتا تھا وہ اس کے خالف ہو جاتے تھے ۔ وہ خود پر‬
‫تنقید نہیں برداشت کرتے تھے ۔ موالنا ابوالکالم آزاد ‪ ،‬شورش کاشمیری ‪ ،‬نیاز فتح‬
‫پوری سے اُن کے ادبی معرکے جاری رہے۔‬

‫وہ موالنا مودودی کے بہت مداح تھے لیکن جب انہوں نے موالنا اشرف علی تھانوی‬
‫کے حلقہ ارادت میں شامل ہونے سے انکار کیا تو انہیں ساری زندگی معاف نہ کیا اور‬
‫ان کی جماعت کے خالف لکھنے سے بھی نہ کترائے۔ خواجہ حسن نظامی سے پہلے‬
‫بڑی دوستی تھی لیکن جب انہوں نے موالنا محمد علی جوہر کے خالف لکھا تو اُن‬
‫کے خالف انتہائی سخت کلمات لکھنے سے بھی ُگریز نہ کیا۔‬

‫افسانوی مجموعے انگارے کی اشاعت پر انہوں نے طوفان کھڑا کر دیا اور اُسے‬
‫۔‬ ‫ہوگیا‬ ‫ضبط‬ ‫مجموعہ‬ ‫یہ‬ ‫آخر‬ ‫۔‬ ‫دیا‬ ‫قرار‬ ‫کتاب‬ ‫شرمناک‬
‫یاس یگانہ چنگیزی کا واقعہ سب سے زیادہ گھمبیر ہے انہوں نے مذہبی مسائل پر چند‬
‫رباعیاں لکھ کر بے باکی اور ُگس تاخی سے رائے زنی کی تھی ۔ انہوں نے یہ نیاز فتح‬
‫پوری کو بھیجیں لیکن انہوں نے موالنا عبدالماجد کو بھیج دیں بس پھر کیا تھا یگانہ‬
‫کی وہ شامت آئی کہ انہیں پکڑ کر ایک رکشہ پر بٹھایا ‪ ،‬منہ پر کالک تھوپ دی ‪ ،‬گلے‬
‫میں جوتیوں کا ہار پہناکر بازاروں میں ُگھمانے لگے اور لڑکے اُن کے منہ پر‬
‫تھوکتے تھے ۔ دوگھنٹے بعد پولیس نے ان کو اس ُچنگل سے نجات دالئی۔‬

‫موالنا جو خود اس طرح متشدد تھے لیکن اپنی ذات کے حوالے سے اُن کا کوئی ُکلیہ‬
‫قاعدہ نہ تھا ۔ خود انہوں نے اپنی بیگم کی کم التفاتی کی وجہ سے شادی کا ڈرامہ‬
‫رچایا ۔ شب زفاف سے پہلے ہی اس نوجوان لڑکی کو طالق دے دی اس طرح گھر‬
‫میں انہیں دوبارہ سے توجہ حاصل ہو گئی۔‬

‫دوسرا نکاح انہوں نے اپنے دوست کی نوجوان بیوہ سے کیا اور پھر بغیر کسی معقول‬
‫وجہ کے طالق دی اور وہ دوچار سال سے زیادہ زندہ نہ رہ سکی ۔عقدثانی اتنا ُجرم‬
‫نہیں لیکن بالوجہ طالق دینا بہت بڑا ُجرم ہے ۔ اس واقعے سے ان کے مخالفین کو‬
‫بھی بیان بازی کا موقع مل گیا ۔ خواجہ حسن نظامی نے انہیں "عورت باز مولوی"کا‬
‫خطاب دیا۔(ص‪ ، ۱۶۴ ،۱۶۳‬کل کی بات)‬

‫موالنا خود ہر طرح سے دوسروں کی توجہ چاہتے تھے لیکن اپنے لیے انہوں نے‬
‫ایک نظام االوقات ترتیب دیا ہوا تھا جس پر وہ سختی سے کاربند تھے ۔ خود گھر میں‬
‫آنے والے مہمان کے لیے ان کے پاس ناشتے کے بعد سے لے کر عصر تک کوئی‬
‫وقت نہیں تھا ۔ کسی تقریب میں جاتے تو پچھلی صفوں میں بیٹھنا توہین آمیز خیال‬
‫کرتے تھے۔‬

‫اس حوالے سے مسعود حسن رضوی ادیب کو ایک خط میں لکھا ۔‬

‫’’یہ کوئی نیا اعزاز نہیں وہی پرانا اگست واال ہے ۔ اس کی‬
‫باضابطہ عطائے سند کی تقریب اب ہوئی تھی ۔ آگے کی‬
‫صفیں پدم بھوشن ‪،‬پدم شری وغیرہ سے بھری ہوئی تھیں۔‬
‫انہیں میں فالں گویے ‪ ،‬فالں سازندے‪ ،‬فالں سارنگیے بھی‬
‫تھے اور آخری بالکل آخری صف ہم خاکسار "اہل علم"کے‬
‫لیے تھی ۔ منظر صبر آزما ہونے کے ساتھ ساتھ تجربہ آموز‬
‫بھی رہا‘‘۔ (ص ‪ ،499‬کل کی بات)‬

‫موالنا کی طبیعت میں عناد اور انتہاپسندی حد سے زیادہ تھی جب وہ کسی سے‬
‫تھے۔‬ ‫چھوڑتے‬ ‫نہیں‬ ‫گنجائش‬ ‫کوئی‬ ‫تو‬ ‫ہوتے‬ ‫ناراض‬
‫تبصرہ نگار یہاں ماہر القادری کا حوالہ دیتا ہے۔‬

‫’’موالنا عبدالماجد نے "صدق جدید"میں کئی بار لکھا کہ‬


‫پاکستان میں مال واحدی خواجہ محمد شفیع ‪ ،‬دہلوی اور ماہر‬
‫القادری سے اُردو روزمرہ کے مسائل میں رجوع کرنا‬
‫چاہیے مگر جب وہ مجھ سے کسی مسئلے پر ناراض ہوئے‬
‫تو انہوں نے میرا نام لکھنا ترک کر دیا اس کی جگہ وغیرہ‬
‫تحریر فرمادیا کرتے‘‘(ص ‪ ،497‬کل کی بات)‬

‫تبصرہ نگار موالنا کی شخصیت کے ان پہلوؤں کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس‬
‫دُنیا میں کوئی انسان بھی کامل نہیں ۔ وہ اچھائی برائی کا مجموعہ ہے ۔ موالنا کے‬
‫کردار کے یہ منفی پہلو انسانی کمزوریاں تھیں لیکن ان میں خوبیاں اور کماالت بھی‬
‫ب ے شمار ہیں۔ ان کا علم و فضل بے پایاں تھا وہ ایک عمدہ نثر نگار تھے ۔ ان کی‬
‫تحریروں میں چاشنی ‪ ،‬چمک اور ایک مخصوص کاٹ تھی ۔ وہ کبھی دھیما اور بے‬
‫روح فقرہ نہیں لکھتے تھے ۔ان کے مکاتیب بھی جاندار اور ظرافت سے بھر پور‬
‫ہیں۔‬

‫آخر میں مبصر ایک دفعہ پھر ڈاکٹر تحسین کو ان کی اس علمی و ادبی کاوش پر‬
‫مبارک باد دیتا ہے مزید برآں اس نے کچھ امالئی اغالط کی بھی نشاندہی کی ہے جو‬
‫ہو سکتا ہے کہ کتابت کی غلطی ہو لیکن کتاب کے آخر میں اشاریہ نہیں دیا گیا جو‬
‫ہے۔‬ ‫کمی‬ ‫بڑی‬ ‫ایک‬
‫تبصرہ نگار نے اس موضوع کا جائزہ احسن انداز میں لیا ہے اور حسب روایت اسے‬
‫اپنے مفید خیاالت سے مزیّن کیا ہے تاکہ کوئی پہلو تشنہ نہ رہ جائے۔ تبصرہ نگارنے‬
‫جہاں زیر موضوع شخصیت کے حوالے سے اتنی مفید معلومات دی ہیں وہاں حوالہ‬
‫جات کی کمی بُری طرح کھٹکتی ہے کیونکہ انہوں نے دعوے سے تصویر کا دوسرا‬
‫ُرخ دکھایا ہے۔‬

‫زیر موضوع کتاب میں شامل انیتسواں تبصرہ "مثنوی سراالسرار"درتردید فلسفہ ء‬
‫خودی ڈاکٹر اقبال ‪ ،‬ڈاکٹر خواجہ معین الدین جمیل ‪ ،‬یوسف دال ‪169‬پی آئی بی کالونی‬
‫کراچی نمبر‪ ،‬مجموعی صفحات ‪198‬قیمت ‪8‬روپے سال اشاعت ندارد ۔ یہ تبصرہ فنون‬
‫کے شمارہ‪ ،۴‬جنوری ‪۱۸۱۴‬ء‪ ،‬ص‪ ۴۹۱‬تا‪ ۴۱۱‬میں شائع ہوا۔‬

‫تبصرہ نگار شروع میں ڈاکٹر خواجہ معین الدین جمیل ایم اے (عثمانیہ ) ایم اے (لندن)‬
‫ڈی لٹ (پیرس) کا تعارف کرواتا ہے۔‬

‫"مشرقی پاکستان کی راج شاہی یونیورسٹی میں شعبہ فلسفہ‬


‫کے صدر ہیں ‪ ،‬فلسفہ ان کا خاص موضوع ہے"۔ (ص‬
‫‪ ،419‬کل کی بات)‬

‫خواجہ صاحب اس بات پر معترض ہیں کہ اقبال کے فلسفہ خودی کو بغیر سوچے‬
‫سمجھے قبول کیا جارہا ہے اس میں موجود خامیوں سے صرف نظر کیا گیا ہے اس‬
‫لیے انہوں نے اس کے رد میں زیر نظر مثنوی "سرااالسرار"تصنیف کی ۔‬

‫تبصرہ نگار کہتا ہے کہ خواجہ معین الدین جمیل کا یہ نتیجہ فکر تین حصوں میں‬
‫منقسم ہے ۔ پہلے حصے میں ‪81‬صفحات کا دیباچہ ہے دوسرے حصے میں‬
‫‪72‬صفحات پر مشتمل ایک پُر مغز مقدمہ ہے اور آخری حصہ ‪686‬صفحات پر پھیلی‬
‫ہوئی اصل مثنوی پر مشتمل ہے جو زیادہ تر اُردو میں اور کہیں کہیں فارسی میں‬
‫ہے۔ دیباچے میں مصنف نے ان حاالت و اسباب کا جائزہ لیا ہے جن کے باعث انہیں‬
‫عالمہ اقبال کے فلسفہ خودی کا یہ رد لکھنا پڑا ۔ کہتے ہیں۔‬

‫’’ یہ ہم کہہ نہیں سکتے کہ یہ خیال ہمیں کیوں کر پیدا ہوا کہ‬
‫اقبال کے فلسفہ خودی پر طبع آزمائی کریں ۔ زیادہ سے‬
‫زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں ایک مبہم ساخیال تھا کہ‬
‫خودی کا فلسفہ کسی غلط فہمی کی پیداوار ہے لیکن ایسا‬
‫معلوم ہوتا ہے کہ احیانا ً ہم پر اس کی تمام کمزوریاں واضح‬
‫ہو گئیں اور جس وقت یہ عالم طاری ہوا ہم نے اپنے آپ کو‬
‫اس مضمون پر لکھنے کے لیے مجبور پایا ۔ مصلحت ایزدی‬
‫یہی معلوم ہوتی ہے کہ اقبال کی تعلیمات کے وہ پہلو لوگوں‬
‫کے سامنے آجائیں جن کی طرف عوام تو کیا خواص نے‬
‫بھی توجہ نہیں کی‘‘ ۔(ص ‪ ،411‬ایضا ً)‬

‫اس ضمن میں تبصرہ نگار کہتا ہے کہ اس مثنوی کی تصنیف چونکہ مصلحت ایزدی‬
‫کا اقتضا تھی اس لیے خواجہ صاحب کو اس کے لکھنے کے لیے حیرت انگیز طور‬
‫پر مختصر وقت درکار ہوا۔ دیباچہ میں مصنف لکھتا ہے۔‬

‫’’ہمیں اعتراف ہے اس مثنوی کو لکھنے میں ہماری‬


‫کوششوں سے تائید غیبی کو دخل ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ اقبال‬
‫نے ایک عرصہ دراز کی فکر کے بعد خودی کے فلسفے‬
‫کو پیش کیا (واضح رہے کہ انہوں نے دوسال کی کدوکاوش‬
‫کے بعد اسرارخودی تحریر کیا تھا) ۔ قارئین کو یقین نہیں‬
‫آئے گا کہ اس مثنوی کو لکھنے میں ہمیں زیادہ سے زیادہ‬
‫ایک ہفتے کہ مہلت درکار ہوئی‘‘۔ (ص ‪،411‬ایضا ً)‬

‫تبصرہ نگار اس کے جواب میں کہتا ہے کہ قارئین کو فی الواقع اس معجزہ کا یقین نہ‬
‫آتا لیکن تائید غیبی کی دخل اندازی چشم بینا کو کھلم کھال نظر آرہے ہو وہاں انکار کی‬
‫راہ اختیار کر کے کون اپنا ایمان خطرے میں ڈال سکتا ہے۔‬

‫مصنف اس مثنوی کو لکھنے کا مقصد زیادہ واضح الفاظ میں اس طرح بیان کرتا ہے۔‬

‫’’بہت کم لوگ اس حقیقت سے خبردار ہو سکے ہیں کہ اقبال‬


‫کی تعلیمات سے جہاں بے شمار فوائد حاصل ہوئے وہاں بے‬
‫راہ روی کا دروازہ بھی کھل گیا ۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی‬
‫کہ اب ہر شخص گویا خودی کو بلند کرنے میں مصروف‬
‫نظر آتا ہے ۔ چنانچہ ہمارا مقصد اس مثنوی کو لکھنے سے‬
‫یہ ہے کہ ہم لوگوں کو اس راستے پر جانے سے روکنا‬
‫چاہتے ہیں جو خودی کی طرف لے جاتا ہے اور جس کے‬
‫ڈانڈے دانستہ یا نادانستہ طور پر خود بینی اور خود سری‬
‫سے مل جاتے ہیں‘‘۔ (ص‪ ،۱۱۹‬ایضا ً)‬

‫عالمہ اقبال کی مثنوی اسرار خودی فارسی زبان میں ہے لیکن خواجہ صاحب کی‬
‫مثنوی "سراالسرار اُردو" میں ہے ان کے خیال میں اقبال نے بعض مصالح کی بناء پر‬
‫فارسی کو اُردو پر ترجیح دی ۔ جمیل صاحب نے محض گیسوئے اُردو کو سنوارنے‬
‫تصوف‬
‫ّ‬ ‫کے لیے اُردو زبان کو ذریعہ اظہار بنایا ہے ۔انہوں نے مربوط فلسفیانہ نظام‬
‫کو عام فہم زبان میں سمجھانے کی کوشش کی ہے۔‬

‫اقبال کے فلسفہ ء خودی اور خواجہ صاحب کے اس سے اختالفات کی نوعیت کے‬


‫ہے۔‬ ‫کرتا‬ ‫بیان‬ ‫مختصرا ً‬ ‫مصنف‬ ‫سے‬ ‫حوالے‬
‫عالمہ کے فلسفہ خودی کا خالصہ مثنوی "سراالسرار"میں اس طرح بیان ہوا ہے۔‬

‫’’عالمہ اقبال کے نزدیک فرد انسانی ایک مستقل بالذات‬


‫اکائی ہے اس کے اندر ایک خودی موجود ہے جس کی‬
‫نشوونما اور ترقی کی معراج یہ ہے کہ وہ باآلخر خدائے‬
‫اعلی و برتر اکائی کی صفات اپنے اندر جذب کر‬
‫ٰ‬ ‫کائنات اس‬
‫لے۔ خاکی و نوری نہاد بندہ موالصفات ہر دو جہاں سے‬
‫غنی اس کا دل بے نیاز‘‘ (ص ‪ ،496‬ایضا ً)‬

‫مثنوی "سراالسرار"میں خواجہ معین الدین ‪ ،‬جمیل اقبال کے اس نظریے سے اتفاق‬


‫نہیں کرتے بلکہ وہ حیرت کے ساتھ سوال کرتے ہیں کہ کیا اس قسم کی کوئی قوت‬
‫انسان میں پائی جاتی ہے کہ وہ خدا کو اپنے اندر جذب کر سکے ۔ اگر ایسا ہوتا تو تمام‬
‫رہبران حق کی تعلیمات میں اس بات کو خاص طورسے اہمیت دی جاتی کہ دیکھو خدا‬
‫کو تو اپنے میں جذب کرو مگر خیال رہے کہ کہیں اس میں جذب نہ ہو جانا۔‬

‫وہ اپنی مثنوی کی ابتداء ان اشعار سے کرتا ہے۔‬


‫لے نہ میرے نام خودی کتنا خوں آشام ہے جام خودی‬
‫کام لے عقل و خرد سے کام لے تھام لے مستوں کا دامن‬
‫لے‬ ‫تھام‬
‫ہوش کو ان کے خرد پاتی نہیں خود سے جانے تک‬
‫نہیں‬ ‫آتی‬ ‫سمجھ‬
‫خود کو اوصاف خودی سے پاک کر چاک کر قلب و‬
‫کر‬ ‫چاک‬ ‫کو‬ ‫جگر‬

‫شاعر مزید بحث کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جب انسان اپنی خودی کے اندر خود خدا‬
‫تعالی کو جذب کر لینے کا حوصلہ رکھتا ہے تو اس میں نفس شیطانی کہاں سے آجاتا‬
‫ٰ‬
‫ہے اور اس سے اعمال شر کیوں سرزد ہوتے ہیں۔ کیااس کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ‬
‫ادنی کا معیار کیا‬
‫اعلی و ٰ‬
‫ٰ‬ ‫ادنی ۔ اگر ایسا ہے تو پھر‬
‫اعلی ہوتی ہے دوسری ٰ‬
‫ٰ‬ ‫ایک خودی‬
‫ہے ؟ اس شخص کی خودی کے بارے میں کیاخیال ہے جو آخرت کے خیال سے‬
‫بالکل غافل تھا لیکن اس دُنیا کی زندگی میں ہمیشہ کا میاب رہا ۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان‬
‫بے چارہ خودی کے فلسفہ کو آزما کر تھک چکا ہے اب خدا کرے اسے بے خودی‬
‫میں ہی ابدی مسرت نصیب ہو۔‬

‫تبصرہ نگار کہتا ہے کہ اقبال کے فلسفہ خودی کے متعلق عام خیال یہ ہے کہ نطشے‬
‫کے افکار سے ماخوذ ہے۔‬

‫خواجہ صاحب اس جرمن فلسفی کو بے خدا ہونا واضح کرتے ہیں اور اسے دعوت‬
‫دیتے ہیں کہ ادھر آہم تجھے خدا بننے کا ُگر سکھالتے ہیں پھر یورپ کی بدقسمتی پر‬
‫بین کرتے ہوئے ایشیا کو بھی گم کردہ راہ بتایا ہے۔‬

‫مثنوی کے یہ اشعار دیکھیں۔‬

‫ہاں خدا بننے کا سکھالتے ہیں ُگر اس طرف آنطشے اے‬


‫ُحر‬ ‫مرد‬
‫ہائے یورپ ‪ ،‬ہائے یورپ ‪ ،‬ہائے ہائے کون تجھ کو رہ‬
‫دکھائے‬ ‫کی‬ ‫حقیقت‬

‫(ص ‪،492‬‬
‫ایضا ً)‬

‫تبصرہ نگار اپنے مخصوص انداز میں کہتا ہے کہ اس مثنوی کے یہ چند نمونے اس‬
‫گلستان کی بہار کااندازہ لگانے کے لیے کافی ہیں۔ اقبال کی مثنوی کا طلسم ٹوٹ چکا‬
‫تو خواجہ صاحب اقبال کے مداحوں کو تسلی دیتے ہوئے کہتے ہیں۔‬

‫’’پرستاران اقبال کو طلسم خودی کے ٹوٹنے سے مایوس‬


‫نہیں ہونا چاہیے ۔ خود اقبال اس کو تسلیم کر چکے ہیں کہ‬
‫فلسفے میں کسی کی تحریر ایسی نہیں جس کو ہمیشہ کے‬
‫لیے پائندہ سمجھا جائے۔ اقبال کے پاس یہی تو ایک چیز‬
‫نہیں انہوں نے اس کے عالوہ بھی تو بہت کچھ لکھا ہے جو‬
‫باقی رہ سکتا ہے۔‘‘(ص ‪ ،492‬ایضا ً)‬

‫تبصرہ نگار کہتا ہے کہ خواجہ صاحب کی عربی زبان کے حوالے سے سمجھ بوجھ‬
‫ناکافی ہے ۔ اس کتاب میں انہوں نے عربی کا ایک مقولہ غلط نقل کیا ہے اور دوسری‬
‫جگہ قرآن پاک کی آیت کو غلط لکھا ہے اس لیے مبصر انہیں مشورہ دیتا ہے کہ اُردو‬
‫کے گیسو سنوارنے کے ساتھ ساتھ عربی زبان کو بھی تھوڑی توجہ کے قابل سمجھ‬
‫لیں کیونکہ اُن کا موضوع فلسفہ ہے اور فلسفہ اسالم کی نصوص تما م عربی زبان میں‬
‫ہے۔‬

‫یہا ں یہ بات قابل غور ہے کہ خواجہ صاحب نے اقبال کے فلسفہ خودی کا طلسم توتوڑ‬
‫دیا ہے لیکن اپنے پیش کردہ ادبی فلسفے کے لیے انہوں نے کون سے پیمانے وضع‬
‫کیے ہیں اوراسے کن بنیادوں پر صحیح قرار دیا ہے ؟ تبصرہ نگار کا نقطہ نظر بھی‬
‫مبہم انداز لیے ہوئے ہے اس لیے وہ صرف یہی کہنے پر اکتفا کرتا ہے ٰلہذا پرستاران‬
‫اقبال" فلسفہ خودی "کو چھوڑ کر اس کی باقی چیزوں سے اپنا دل بہال سکتے ہیں۔‬
‫مبصر کا انداز ظریفانہ ہے ۔ اس تبصرے سے اُسے صرف یہ دکھانا مقصود ہے کہ‬
‫مصنف کی خود اعتمادی باکمال ہے کہ وہ اقبال کے فلسفہ خودی کی تردید کرتا ہے۔‬

‫زیر موضوع کتاب میں شامل تیسواں تبصرہ خاطر غبار "غبار خاطر"مصنف‬
‫ابوالکالم آزاد پر متین انتقاد ‪ ،‬عاہل نثر ‪ ،‬الف المحراث ‪922 ،‬صفحات پر مشتمل یہ‬
‫کتاب مکتبہ میری الئبریری الہور سے شائع ہوئی ۔قیمت ‪29‬روپے سال اشاعت درج‬
‫ہے۔‬ ‫نہیں‬
‫تبصرہ نگار یہ تبصرہ تمسخرانہ انداز میں لکھ کر کتاب کا خاکہ اُڑایا ہے لیکن‬
‫صاحب کتاب کی سادہ لوحی دیکھیئے کہ اس نے اسے تعریف وتحسین سمجھا اور‬
‫تبصرہ نگار کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے کتاب کا جائزہ اتنی تفصیل سے لیا ہے۔‬

‫مبصر کا مقصد اس سادہ لوح مصنف کی خود اعتمادی کو سامنے الکر قارئین تک اس‬
‫کے خیاالت بہم پہنچانا ہے کہ دنیا میں اس قسم کے لوگ بھی ہیں جو خود کو نثر کا‬
‫بے تاج بادشاہ کہتے ہیں ۔ موالنا ابوالکالم آزاد جیسی جیّد شخصیت کو نثر لکھنے کا‬
‫اسلوب سکھاتا ہے ۔ اگر موالنا آج بقید حیات ہوتے تو نہ جانے خاطر غبار پڑھ کر اُن‬
‫کا کیا رد عمل ہوتا؟‬

‫تبصرہ نگار اس تبصرے کا آغاز تمسخرانہ انداز سے کرتے ہوئے اس مصنف کو‬
‫"مرد خاص "کہتا ہے کیونکہ اس نے کمال جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے ابوالکالم‬
‫آزاد کی شاہکار تصنیف "غبار خاطر" میں اغالط کی نشاندہی کی ہے۔ وہ اپنی کتاب‬
‫میں اہل غفلت کو جھنجوڑ رہا ہے۔ خاطر غبار " الف المحراث کی تیسری تصنیف ہے‬
‫۔ ’’خاطر غبار‘‘ معکوس صورت ہے غبار خاطر کی۔اس حوالے سے تبصرہ نگار‬
‫کہتا ہے۔‬

‫’’اس عنوان سے ایک کتاب اُردو موالنا ابوالکالم آزاد کے‬


‫قلم سے شائع ہو کر مشہور ہوئی اور دوسرا ایک کتابچہ‬
‫بزبان فارسی میر عظمت اللہ بلگرامی نے رقم کیا ۔ جناب‬
‫الف نے "خاطر غبار "لکھ کر گویا ان دونوں مصنفوں کو‬
‫آئینے میں ان کا چہرہ دکھایا کر تمہاری شہرت و مقبولیت‬
‫اور تمہارا دعوائے علم و فضل جو بھی ہو تمہارے اصل‬
‫خدوخال یہ ہیں۔ آئینے میں ہر چیز چونکہ اُلٹی نظر آتی ہے‬
‫اس لیے ہر دو "غبار خاطر"جب محرابی آئینے میں منعکس‬
‫ہوئے تو "خاطر غبار"دکھائی دیے‘‘۔ (ص ‪ ،498 ،499‬کل‬
‫کی بات)‬

‫زیر نظر کتاب میں فارسی کتابچے کے لیے تیس صفحات اور باقی ساری کتاب ابو‬
‫الکالم آزاد کی کتاب پر متین انتقادہ و تبصرہ ہے۔ مبصر اپنے مخصوص انداز میں‬
‫کہتا ہے کہ اگر ابوالکالم آزادہوتے تو وہ ضرور اس محنت پر الف المحراث کے‬
‫ممنون ہوتے کہ اس نے کتاب پر اتنی محنت کی ۔ اشاریہ ترتیب دیا۔‬

‫الف المحراث نے تنقید کے لیے اسی کتاب کا انتخاب کیوں کیا اور اتنی عرق ریزی‬
‫کی ۔ اس کے دوستوں نے اسے غبار خاطر پڑھنے کا مشورہ دیا ۔ جب اس نے کتاب‬
‫پڑھی تو اس کے تاثرات کیا تھے ۔ اس کا ترجمہ بھی ساتھ مالحظہ کریں۔" کتاب‬
‫عدیداوقات"پانچ چکا ہوں مگر ہنوز کچھ نہیں پایا ۔ سالم کتاب الشے ہے پربھسم ‪،‬تیل ‪،‬‬
‫صابون و فرانسی پوست وغیر اسے اپنا قلم تول کر لکھنا چاہیے تھا"۔‬

‫ترجمہ ‪:‬کتاب کئی مرتبہ پڑھ چکا ہوں لیکن ابھی تک اس میں کچھ نہیں پایا ۔ پوری‬
‫کتاب کچھ نہیں سوائے تیل ‪ ،‬صابن اور فرانسیسی چمڑے کے ذکر کے آزاد کو اپنا قلم‬
‫تول کر لکھنا چاہیے تھا۔(ص ‪481‬۔ ایضا ً)‬

‫پھر اس کے دوست نے اسے مشور ہ دیا کہ خدا نے اسے شعور دیا لہذا اُسے تنقید‬
‫کرنی چاہیے اگروہ ایسا نہیں کرے گا تو یہ خدا کی ناشکری ہو گی ۔‬

‫ا لف المحراث نے اپنے خود ساختہ اصولوں کو بروئے کار التے ہوئے بڑے اعتماد‬
‫سے اس پوری کتاب کا تاروپود بکھیر کر رکھ دیا ہے۔ اس نے ابوالکالم آزاد کی نثر‬
‫کو غلط قرار دیتے ہوئے اس کی تصحیح اپنی طرف سے اس طرح کی ہے۔‬

‫غلط ابوالکالم آزاد صحیح الف المحراث‬


‫سن کر ہنسیں گے عساہا ذاہنسائے ‪ ،‬شایدایں خندائے‬
‫‘‘آپ ُ‬
‫اچھے خاصے ُجرم میں فی فظ جرم گھمبیراپرادھ میں آخری‬
‫خط اخیررسیلہ بنیاد ڈالی تھی بنیادا’’(ص ‪،481‬ایضا ً)‬

‫الف المحراث نے بعض مقامات پر سوال کا جواب خود ہی دے کر یہ ثابت کیا ہے کہ‬
‫زبان و ادب کے عالوہ تاریخ جغرافیہ اور عمرانیات میں بھی ان کا علمی مرتبہ کسی‬
‫سے کم نہیں ۔ دُنیانے ان کے اس جوہر کو نہ پہنچانا اور انہیں وہ مقام نہ مال جس کے‬
‫وہ حقدار تھے اس لیے آج یہ حال ہے کہ ’’بقول ان کے ان کی "لکھت کوئی نہیں‬
‫چھاپتا۔ یہ اس لیے نہیں کہ معیار احقر ہے بل الٹ بیرون از گرفت علمائے ا ُردو ہے‘‘۔‬
‫(ص‪)۱۱۴‬‬

‫اُن کا مطلب ہے کہ جو چیز علمائے اُردو کی گرفت سے باہر ہو گی اس کے بارے‬


‫ہے۔‬ ‫قابل‬ ‫رویہ‬ ‫دوستانہ‬ ‫غیر‬ ‫کا‬ ‫ان‬ ‫میں‬
‫وہ اپنے مقام و مرتبے سے آگاہ ہے لیکن اسے اس بات پر افسوس ہے کہ اس کےپاس‬
‫سفارش ہے نہ رشوت اس لیے آشفتہ حال ہے ۔ تبصرہ نگار ظریفانہ انداز میں اس کی‬
‫تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے مجھے چاہیے تھا کہ خاطر غبار میں حضرت الف‬
‫المحراث کی پیروی کرتے ہوئے اپنی اس ہیچ اور پورچ نثر کو سنوارتا ۔ وہ افسوس‬
‫کرتا ہے کہ یہ کٹھن کام ہے اور اس لیے اس کے بس سے باہر ہے ۔‬
‫آخر میں وہ کہتا ہے ۔‬

‫’’الریب "خاطر غبار"اپنی بھانت کی انوکھی کتاب ہے اور‬


‫الف المحراث مستقبل کا انسان ہے اور اس کی نثر آنے والے‬
‫روشن زمانوں کی نثر ہے ۔ ایک وقت آئے گا جب الف‬
‫المحراث کا نام ضرب المثل ہو گا اور کہاجائے گا کہ فالں‬
‫شخص اُردو زبان میں الف ہو گیا ۔ مطلب یہ کہ الف‬
‫المحراث کے درجے کو پہنچا‘‘( ص ‪ ،489‬ایضا ً)‬

‫الف المحراث جو سرکاری دفتر میں مالزم تھا لیکن شعوری لحاظ سے بیوقوفی کی حد‬
‫تک سادہ لوح تھا ۔ خود کو کامل سمجھنے والے افراد کبھی بھی عقل مند نہیں ہو‬
‫سکتے ۔ وہ تمسخر میں پوشیدہ بین السطور طنز کو سمجھ ہی نہ سکا اور دوسروں کو‬
‫مورد الزام ٹھہرانے لگا کہ ان میں اُس کو سمجھنے کی اہلیت نہیں ہے۔‬

‫قرآن کے بنیادی موضوعات‬

‫زیر تبصرہ کتاب کے مصنف ڈاکٹر فضل الرحمن ‪ ،‬مترجم محمد کاظم ‪Major‬‬
‫‪themes of the quran‬کے عنوان سے ‪۱۸۹۸‬ء میں یونیورسٹی آف شکاگو سے شائع‬
‫ہوئی ۔ ‪۱۰۰۸‬ء میں محمد کاظم کے اردو ترجمے کے ساتھ مشعل بکس کی طرف سے‬
‫شائع ہوئی۔ زیر موضوع کتاب کے مندرجات میں آٹھ ابواب اور دو ضمیمہ جات شامل‬
‫ہیں مصنف نے اس کتاب میں جن موضوعات پر بات کی ہے ۔ وہ اس طرح سے ہیں ۔‬

‫‪۱‬۔ خدا ‪۱‬۔ انسان بطور ایک فردکے ‪۳‬۔ انسان معاشرے میں ‪۴‬۔ نیچر ‪۶‬۔ رسالت اور‬
‫وحی ‪۱‬۔ معادیات ‪۹‬۔ شیطان اور شر ‪۱‬۔ مسلم امت کا ظہورمصنف کا اسلوب مفکرانہ‬
‫ہے قرآن کے حوالے سے ان کا نقطہ نظر یہ ہے ۔‬

‫’’اس کتاب کو ایک اکائی کے طور پر نہیں پڑھا اور سمجھا‬


‫گیا ۔ اس کی آیات کو الگ الگ کر کے ان کا ترجمہ اور‬
‫تشریح کی جاتی ہے جس سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ مختلف اہم‬
‫موضوعات مثالً خدا‪ ،‬انسان ‪ ،‬معاشرے اور یوم آخرت کے‬
‫بارے قرآن کا مجموعی نقطہ کیا بنتا ہے‘‘(ص ‪ ،۱‬قرآن کے‬
‫بنیادی موضوعات)‬

‫مصنف کہتا ہے کہ قرآن خدا کے وجود کو ثابت کرتا بلکہ موجودہ کائنات کا مشاہدہ‬
‫کر کے اس طرف اشارہ کرتا ہے ۔ مستشرقین قرآن کی بعض آیات سے یہ رائے قائم‬
‫کرتے ہیں کہ قرآن کا خدا ایک بے رحم طاقت ہے جو چاہے تو کسی کو جہنم کی آگ‬
‫میں جھونک دے اور چاہے تو عذاب سے بچا لے حاالنکہ ان سے کہیں زیادہ آیات‬
‫میں خدا کی بے پایاں رحمت کا ذکر ہے لیکن اس کی وجہ انہوں نے قرآنی آیات کو‬
‫الگ الگ پڑھ کے نتائج اخذ کیے ہیں ۔ اس لیے دونوں طرح کی آیات کو آپس میں مال‬
‫کر پڑھنے سے خدا کا مجموعی تصور بنتا ہے ۔‬
‫انسان کے حوالے سے مصنف کہتا ہے کہ اس کی پیدائش کے ساتھ ہی خدا نے اسے‬
‫اپنا نائب قرار دیا اہل مغرب نے بعض آیات سے یہ رائے قائم کرنے کی کوشش کی‬
‫ہے کہ انسان بے اختیار ہے مصنف اس حقیقت کو سامنے التا ہے کہ خدا بالوجہ یہ‬
‫سب نہیں کرتا بلکہ خود انسان کے اعمال اور رجحانات ان نتائج کے ذمہ دار ہوتے‬
‫ہیں ۔‬

‫’’انسان معاشرے میں’’ اس حوالے سے مصنف قرآنی نقطہ‬


‫نظر کے مطابق مختلف موضوعات کا احاطہ کرتا ہے ۔ وہ‬
‫عورتوں کے معاملے میں ایک زیادہ شادیوں کے مسئلے پر‬
‫بات کرتا ہے ۔ اس حوالے سے قرآن سورۃ النساء میں کہتا‬
‫ہے’’تم خواہ کتنا ہی چاہو عورتوں میں انصاف ہرگز نہیں‬
‫کر سکو گے ‘‘(ص ط‪ ،‬ایضا ً)‬

‫اب فقہا نے اس قانونی اجازت کو مہرہ بنا لیا کہ چار شادیاں کر لو کیونکہ خاوند الزما ً‬
‫انصاف کرے گا ۔ لیکن مصنف کہتا ہے‬

‫’’ایک مسلم جدیدیت پسند بیویوں کے درمیان انصاف کو‬


‫اولیت دے گا اور کہے گا کہ ایک سے زیادہ شادیوں کی‬
‫اجازت کچھ خاص حاالت میں اور خاص مقاصد کے پیش‬
‫نظر دی گئی تھی‘‘۔ (ایضا ً)‬

‫اس لیے زیادہ شادیوں کی اجازت نہیں ہونی چاہیے اور یہ اجازت اسی لیے دی گئی‬
‫کہ ماضی کی روایت کو فورا موقوف کرنا ممکن نہیں تھا۔ دو عورتوں کی گواہی کے‬
‫اہم مسئلے کی طرف توجہ دالئی ہے کہ اگر ان میں سے ایک بھول جائے تو دوسری‬
‫اسے یاد دالدے ۔ قرآن میں حکَم کی وجہ کہ اس زمانے میں عورتوں کا مالی معامالت‬
‫کا خاص تجربہ نہیں تھا لیکن بعد میں جب وہ بہت سے معامالت میں حصہ لینے لگی‬
‫تو بھی مسلم فقہا نے پابندی جاری رکھی ۔‬

‫مصنف نے اس حوالے سے کہا ہے ۔‬


‫’’ایک مسلم جدیدیت پسندیہ دلیل دے گا کہ مرد کے مقابلے‬
‫میں عورت کی نصف شہادت کی وجہ مالی معامالت میں‬
‫اس کی یا دداشت کی کمزوری تھی اب جبکہ وہ مالی‬
‫معامالت سے آگاہ اور تجربہ کارہوچکی ہے تو اس کی‬
‫نصف گواہی کا معاملہ لیا ہے کہ اس پر دوبارہ غور کیا جانا‬
‫چاہیے‘‘ (ص ک ‪،‬ایضا ً)‬

‫مرد عورت کی برابری کے مسئلے کے حوالے سے وہ کہتا ہے کہ مرد اور عورت‬


‫میں کوئی فرق نہیں دونوں اپنے اپنے اعمال کی جزا پائیں گے ۔ قرآن کہتا ہے کہ‬

‫’’مرد عورتوں کے قوام ہیں اس بنا پر کہ اللہ نے ایک کو‬


‫دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال‬
‫خرچ کرتے ہیں ‘‘۔(ص ک ‪ ،‬ایضا ً)‬

‫مصنف کہتا ہے کہ اگر عورت اقتصادی فدی طور پر خود کفیل ہوجاتی ہے تو ایسی‬
‫عورت پر مرد کی برتری اسی نسبت سے کم ہو جانی چاہیے۔ مختصر یہ کہ مصنف‬
‫نے معقول دالئل کے ساتھ قرآن کے حوالے سے علم و دانش کی راہیں کھول کر اہل‬
‫فکر کو قرآن کے صحیح مطالعہ کی ترغیب دی ہے ۔‬

‫مسلم فکر و فلسفہ عہد بعہد‬

‫زیر تبصرہ کتاب ‪ ۳۱۱‬صفحات پر مشتمل ہے ۔ مصنف محمد کاظم ‪ ،‬قیمت ‪۳۰۰‬‬
‫ہوئی۔‬ ‫شائع‬ ‫سے‬ ‫طرف‬ ‫کی‬ ‫الہور‬ ‫بکس‬ ‫مشعل‬ ‫‪،‬‬ ‫روپے‬
‫زیر موضوع کتاب یونانی فلسفے کی شروعات سے آغاز کر کے بیسویں صدی میں‬
‫عالمہ اقبال تک آتی ہے ۔ زیر نظر کتاب میں یونانی فلسفے سے آغاز اس لیے کیا گیا‬
‫کہ مسلم فکر کے دو بڑے ماخذ قرآن اور فلسفہ یونان ہیں ۔ یونانی فلسفہ جب تراجم کی‬
‫وساطت سے عربی زبان میں دستیاب ہوا تو مسلمانوں میں فلسفیانہ سوچ کا آغاز ہوا۔‬
‫یہ حقیقت ہے کہ کندی سے لے کر مسلمانوں میں جتنے بھی فالسفر اور اہل فکر‬
‫ہوئے وہ سب کے سب یونانی فلسفے سے متاثر تھے ۔‬
‫اس کتاب میں مصنف نے مسلم فکر و فلسفے سے پہلے فلسفے کی اہمیت ‪ ،‬ابتدا‪ ،‬ارتقا‬
‫۔‬ ‫ہے‬ ‫کی‬ ‫بات‬ ‫تفصیالً‬ ‫میں‬ ‫بارے‬ ‫کے‬ ‫ابتدا‬ ‫‪،‬‬
‫دور جاہلیت میں عربوں میں فکر کی قابل ذکر روایت ملتی ہے اسالم نے اپنے‬
‫پیروکاروں کو فکر و تدبر کی ترغیب دی اس کے ساتھ انہیں اس صورت حال کا‬
‫سامنا کرنا پڑا کہ وہ اپنے مذہب میں دوسرے مذاہب کی طرح لچک آمیز رویہ اختیار‬
‫ونصاری کے ان‬
‫ٰ‬ ‫کریں۔ اس دوران مسلم علماء و فقہاء نے مفتوحہ قوموں اور یہود‬
‫متکلمین کا مقابلہ کیا جو فلسفہ اور منطق کے علم برادر تھے لیکن جب علماء کو ان‬
‫کے سواالت کا جواب دینے میں کامیابی نہ ہوئی تو انہوں نے عقلی دالئل سے کام لینا‬
‫شروع کیا ۔ فلسفہ و منطق کا سہارا لیا اس طرح مسلمانوں میں علم کالم کا آغاز ہوا۔‬

‫اس علم کالم سے پہلے مسلمانوں میں کچھ فرقے وجود آگئے جن کی فکر خالصتا ً‬
‫حضور کی وفات کے بعد مسئلہ‬ ‫ؐ‬ ‫سیاسی تھی لیکن بعد میں دینی فکر میں بدل گئی‬
‫خالفت کی وجہ سے مسلمانوں کے درمیان اختالف پیدا ہوا۔ ان میں ایک طبقہ ایسا تھا‬
‫علی کو سمجھتا تھا ۔ وہ شیعان علی کے‬
‫جو خالفت کا سب سے زیادہ حقدار حضرت ؓ‬
‫نام سے باقاعدہ طور پر سامنے آئے۔ حضرت علی کے دور خالفت میں ان کے اور‬
‫معاویہ کے درمیان جنگ صفین ہوئی ۔ جس میں حاالت کا رخ دیکھ کر تحکیم کی‬
‫تجویز پیش کی جو حضرت علی نے منظور کر لی تو ان کے ساتھیوں میں سے کچھ‬
‫لوگوں نے اس تجویز کو قبول نہ کیا اور خوارج کہالئے اس تحکیم کی وجہ سے وہ‬
‫علی کے دشمن ہوگئے اور انہیں شہیدکر دیا ۔‬
‫حضرت ؓ‬

‫اب ان دو فرقوں یعنی شیعہ اور خوارج سے الگ کچھ لوگ ایسے تھے ان فتنوں سے‬
‫الگ رہے ۔ان اصحاب کے رد عمل سے متاثر ہو کر ایک اور فرقہ مرجۂ پیدا ہوا ۔ جو‬
‫معتدل اور امن پسند تھا اور انہوں نے سب کے ساتھ مصالحت کا رویہ اختیار کیا۔‬
‫یہاں تک اگر غور کریں تو یہی حقیقت سامنے آتی ہے مسلمانوں میں سوچ کی بنیاد‬
‫متعین کرنے کی ابتدا سیاست سے ہوئی ایمان اور عقیدے سے متعلق امور کی حیثیت‬
‫ثانوی تھی ۔ علم کالم کی ابتدا بھی سیاسی حاالت کی وجہ سے ہوئی بنو امیہ کا تشدد‬
‫آمیز رویہ اور پھر وہ اس کے جواب میں کہتے کہ یہ سب خدا کے حکم سے ہو رہا‬
‫ہے ہم بے اختیار ہیں ۔ اصحاب اقتدار کے جبری مسلک کے رد عمل میں قدریہ فرقہ‬
‫پید ا ہوا جن کے مطابق انسان اپنے اعمال پر قادر ہے ۔ جبریہ اور قدریہ کی کشمکش‬
‫جاری رہی ۔ قدر یہ کے نظر یات کو معتزلہ نے آگے بڑھایا واصل بن عطا اس کا‬
‫بانی ٹھہرا۔‬

‫معتزلہ آٹھویں صدی کے وسط میں منظر عام پر آئے مدت تک عروج پر رہے لیکن‬
‫بعد میں اعتدال کا دامن چھوڑدیا ۔ اس طرح آہستہ آہستہ ان کا اثر کم ہونے لگا ۔ بہر‬
‫حال وہ دسویں صدی تک کسی نہ کسی طور پر موجود رہے اسی دوران یونانی فلسفہ‬
‫تراجم کی وساطت سے مسلم دنیا میں پہنچنے لگا مسلم مفکر یونان کے کالسیکی‬
‫فلسفے کی بدلی ہوئی صورت ’’نو فالطونیت‘‘ سے متعارف ہوئے ۔ فلو نامی یہودی‬
‫اس فکر کا بانی تھا جو سکندر یہ کار ہنے واال تھا ۔ اسی شہر میں فالطینوس اور اس‬
‫کے شاگرد فرفور یوس نے نو فالطونی فلسفے کی بنیاد رکھی جو یونانی فلسفے کی‬
‫تمام دھاروں افال طونیت ‪ ،‬ارسطوئیت ‪ ،‬فیثا غورثیت اور رواقیت کا مرکب تھا۔‬

‫عقلیت پسندی اور تراجم اور یونانی فلسفہ کے باعث مسلمانوں میں فلسفیانہ سرگرمیوں‬
‫کا آغاز ہوا اس کا آغاز نویں صدی کے اوائل سے الکندی سے ہوااس کے بعد ابو‬
‫بکرر ازی ‪ ،‬فارابی ابن سینا باضابطہ فلسفی کے طور سامنے آئے بارہویں صدی میں‬
‫تین بڑے فالسفہ ابن باجہ ‪ ،‬ابن طفیل اور ابن رشد تھے ۔ ابن رشد کے ڈیڑھ سو سال‬
‫بعد ابن خلدون مسلم فکر کی روایت کا آخری اور بڑا نام تھا وہ تاریخ کا ایک بڑا‬
‫فلسفی تھا زیر تبصرہ کتاب میں مصنف کا اسلوب سادہ اور سلیس ہے جوا اردوکے‬
‫ایک قاری کے لیے بھی دلچسپ ہے ۔ کتاب کی ضخامت کے پیش نظر مصنف نے‬
‫فالسفہ کے نظام فکر کو اختصار سے احاطہ تحریر میں النے کی کوشش کی ہے۔‬
‫اسالم‬
‫زیر موضوع کتاب کے مصنف ڈاکٹر فضل الرحمن اور مترجم محمد کا ظم ہیں ۔ ‪۳۳۱‬‬
‫صفحات پر مشتمل یہ کتا ب‪۱۸۱۶‬ء میں کراچی سے شائع ہوئی ۔ مشعل بکس الہور‬
‫نے اسے محمد کا ظم کے اردو ترجمے کے ساتھ شائع کیا۔‬

‫مترجم اس کتاب کی ضرورت واہمیت کے حوالے سے بتاتا ہے‪:‬۔‬

‫’’اصل کتاب انگریزی زبان میں ہے اور اس کے اُردو‬


‫ترجمے کی ضرورت کم از کم دو وجوہ سے تھی ۔ ایک یہ‬
‫کہ یہ کتاب پاکستان میں اگر کبھی دستیاب تھی بھی تو اب‬
‫ایک طویل عرصے سے نایاب ہے ۔ اس لیے اس تک نہ‬
‫صرف اردو ان طبقے کی بلکہ انگریزی جاننے والے طبقے‬
‫کی رسائی بھی نہیں ہے ۔ دوسرے یہ کہ اسالم کے بارے‬
‫میں ہم نے اب تک اردو زبان میں جو کچھ پڑھا ہے وہ زیادہ‬
‫تر ایسا بیانیہ ہے جو عقیدت مندی کے ساتھ لکھا گیا ہے‬
‫جس کا انداز مدافعانہ اور مخالفین کے جواب میں عموما ً‬
‫معذرت خواہانہ رہا ہے ۔ اسالم پر اب تک خالص معروضی‬
‫‪ ،‬تجزیاتی اور دانشور انہ انداز میں کم ہی کسی نے لکھا ہے‬
‫۔ یہ ضرورت ڈاکٹر فضل الرحمن کی یہ کتاب پورا کرتی‬
‫ہے ‘‘( ص ‪ ،۹‬اسالم)‬

‫زیر تبصرہ کتاب کے مندرجات میں چودہ ابواب ہیں ۔‬

‫باب ‪ :۱‬محمد ؐ باب‪ :۱‬قرآن باب ‪:۳‬حدیث کا آغاز اور اس کی نشوونما باب‪ :۴‬قانون کا‬
‫ڈھانچہ باب‪ :۶‬جدلیاتی کالم اور راسخ عقیدے کی نشوو نما باب ‪ :۱‬شریعت باب‪:۹‬‬
‫فلسفیانہ تحریک باب‪ :۱‬صوفی عقیدہ اور عمل باب‪ :۸‬صوفیانہ تنظیمیں باب‪ :۱۰‬فرقہ‬
‫پرستی کی نشوو نما باب ‪:۱۱‬تعلیم‬

‫باب‪ :۱۱‬تجدید پسندی سے پہلے کی اصالحی تحریکیں باب‪ :۱۳‬حاالت میں نئی‬
‫مکانات‬ ‫اورا‬ ‫میراث‬ ‫‪:۱۴‬‬ ‫باب‬ ‫تبدیلیاں‬
‫تمام ابواب میں متوازن فکری دالئل سے اپنا نقطہ نظر پیش کیا یہا ں اس کے پیش نظر‬
‫دیگر مذاہب اور عقائد کی نفی یا تذلیل نہیں ہے یہ کتاب اسالم کی چودہ صدیوں پر‬
‫محیط تدریجی ارتقاء سے آگاہ کر نے کی ایک کوشش ہے ۔ یہ معلوماتی ہے اور اس‬
‫کے ساتھ اس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے ۔ کہ اسالم کے حوالے سے تمام پہلوؤں‬
‫کو بے ربط بیانات کی بجائے مربوط اور با معنی بیانہ انداز میں پیش کرنا ہے ۔ اس‬
‫لیے کتاب کا اسلوب تجزیاتی ‪ ،‬فکری اور فلسفیانہ ہے ۔ بیانیہ اسلوب کے ساتھ‬
‫معروضی بھی ہے لیکن اس کے باوجود تاریخی اور اسالمی مفہوم میں اسلوب زیادہ‬
‫تر تعبیری ہے سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ کتاب مغربی اور مسلم قارئین دونوں کے‬
‫لیے ہے یہاں ایک مسلم کی توجہ اس طرف دالتا ہے کہ اسے اپنی مذہبی تاریخ کو‬
‫معروضی انداز میں دیکھنا چاہیے ۔ عقیدت مندی کے دائرے سے باہر کر اسالم کے‬
‫حوالے سے اپنے تجربے کو جانچے اور غیر مسلم کو یہ جاننا چاہئے کہ اسالم ایک‬
‫مسلمان کے ساتھ اس کے اندرون میں کیا کرتا ہے ۔‬

‫اس کتاب کے حوالے سے ایک اہم بات چونکہ یہ ‪۱۸۱۶‬ء مکمل کی گئی تھی اس لیے‬
‫دنیا میں مسلم آبادی کے متعلق مصنف کے پیش کردہ اعداد و شمار تبدیل ہوگئے ہیں ۔‬
‫دوسرے یہ کہ کتاب میں مغربی پاکستان کا ذکر کیا ہے اس وقت پاکستان متحد تھا اور‬
‫صوں مغربی اور مشرقی پر مشتمل تھا۔‬
‫دو ح ّ‬

‫زیر نظر کتاب میں مصنف نے اسالم کی رو سے زندگی کے ہر پہلو کا جائزہ‬


‫معروضی انداز میں لیا ہے ۔ ٰلہذا آخر میں وہ پر امید ارادےسے یہ کہتے ہوئے کتاب‬
‫کا اختتام کرتا ہے ۔‬

‫’’اسالم ارادۂ ٰالہی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کا نام ہے‬


‫۔ یعنی حکم خداوندی یا اخالقی فرمان کو دنیا کی طبعی ہیئت‬
‫تر کیبی میں بجا النے کا عزم !بجاالنے کا یہ کام خدا کی‬
‫عبادت ہے ۔ مسلمان نے یقیناًیہ ایمان نہیں کھو یا کہ وہ یہ‬
‫عبادت کر سکتاہے اور اسے ضرور کرنی چاہئے وہ اس‬
‫وقت اپنے دل کو ٹٹولنے کے عمل میں ہے اور اس عبادت‬
‫کے ان سے زیادہ مکمل معانی دریافت کرنے کی کوشش‬
‫میں ہے جن کا اس نے ماضی میں کبھی تصور کیا تھا اور‬
‫اس کے تصور کی کیفیت ‪ ،‬دسعت‪ ،‬صحت اور تاثیر جو اس‬
‫وقت پیدا ہونے لگی ہیں نہ صرف اس کے اپنے مستقبل پر‬
‫اثر انداز ہوسکتی ہیں بلکہ اس کے ارد گرد کی دنیا کے‬
‫ایک بڑے حصے کو بھی متاثر کر سکتی ہیں‘‘۔(ص ‪،111‬‬
‫ایضا ً)‬

‫جنید بغداد (سوانح‪ ،‬نظریات ‪ ،‬رسائل )‬

‫زیر موضوع کتاب ‪ ۳۰۳‬صفحات پر مشتمل سنگ میل پبلی کیشنز الہور سے‪۱۰۰۹‬ء‬
‫میں شائع ہوئی ۔ مصنف ڈاکٹر علی حسن عبد القادر (صدرشعبہ دینیات جامعہ االزہر‬
‫قاہرہ نے انگریزی میں لکھی ) مترجم‪ ،‬محمد کاظم ‪ ،‬انتساب ‪۱۸۱۴‬ء میں وفات پانے‬
‫والے اپنے بیٹے شعیب محمود کے نام ہے ۔‬

‫زیر نظر کتا ب تین حصوں میں منقسم ہے حصہ اول‪ ،‬حصہ دوم ۔ حصہ اول کے‬
‫مندرجات میں پانچ ابواب شامل ہیں۔‬

‫باب ‪:۱‬ابتدائی زندگی باب‪ :۱‬تصوف جنید کے مآ خذ باب‪ :۳‬بغداد کا مدرسہ تصوف‬

‫باب‪ :۴‬شخصیت جنید باب‪:۶‬تصانیف‬

‫حصہ دوم (نظریات ) کے مندرجات میں چھ ابواب شامل ہیں ۔‬

‫باب ‪ :۱‬عقیدۂ توحید باب‪ :۹‬نظریۂ میثاق باب‪ :۱‬نظریۂ فنا باب‪ :۸‬نظریہ بحالی ہوش‬
‫(صحو)‬

‫باب‪ :۱۰‬معرفت ٰالہی باب‪ :۱۱‬جنید اور فالطینوس‬

‫حصہ سوم رسائل جنید پر مشتمل ہے ۔ اس میں ‪ ۱۱‬رسائل مکتوب کی شکل میں اردو‬
‫ترجمے کے ساتھ شامل ہیں ۔‬
‫تیسری صدی ہجری میں عباسی حکومت کے زوال پذیر پایۂ تخت میں جنید ؒ کا مدرسہ‬
‫۔‬ ‫ہے‬ ‫کرتا‬ ‫نمائندگی‬ ‫کی‬ ‫دور‬ ‫اہم‬ ‫نہایت‬ ‫تصوف‬
‫زیر تبصرہ کتاب کا اسلوب اور موضوعات صوفیہ اور بزرگان کے تذکروں سے‬
‫بالکل مختلف ہیں ۔‬

‫اس حوالے سے مترجم کہتا ہے ۔‬

‫’’یہ کتاب حضرت جنید کی شخصیت پر ایک عالمانہ ‪ ،‬متین‬


‫اور بصیرت افروز بحث ہے‘‘(ص‪ ،۹‬جنید بغداد)‬

‫زیر نظر کتاب کے مطالعہ سے ان کی شخصیت کے تین پہلو ابہام سے نکل کر علم و‬
‫تحقیق کی روشنی میں آجاتے ہیں۔‬

‫‪ ۱‬۔ زندگی کے وہ حاالت وواقعات جن میں ان کی ابتدائی تربیت اور تعلیم کے حوالے‬
‫سے اساتذہ اور ساتھیوں کے حلقے کی مخصوص فضا دکھائی دیتی ہے ۔‬

‫‪۱‬۔ ان کی صوفیانہ فکر ‪ ،‬راہ سلوک کی کیفیات کے حوالے سے ان کے نظریات ان‬


‫کے متفرق اقوال اور صوفیانہ رنگ میں لکھے ہوئے مکاتیب ۔‬

‫‪ ۳‬۔ان کے مکاتیب کا اصل مجموعہ زمانہ حال میں استنبول کے کتب خانہ سے دستیاب‬
‫ہوا ہے۔ ان مکتوب میں ان کا اسلوب اشاراتی ‪ ،‬نصیحت کا عاجزانہ انداز ‪ ،‬دوستوں‬
‫کے ساتھ جذبۂ ہمدردی سے بھرپور ہے صوفی کی اصطالح کس طرح رائج ہوئی اس‬
‫کے حوالے سے اہل علم کی مختلف آراء ہیں ۔ مترجم کہتا ہے ۔‬

‫’’ صوفی عابدو زاہد لوگوں کے اس گروہ کا نام پڑ ا جو‬


‫ریشم و حریر کو چھوڑ کر اس زمانے کا مقبول لباس تھا‬
‫صرف اُون (صوف) پہننے پر اکتفاکرتے تھے ۔ دوسرے کی‬
‫رائے میں صوفی’’صفا‘‘ سے نکال ہے جس کے معنی دل‬
‫کی صفائی جب کوئی اپنے دل کا آئینہ صاف کرنے کے لیے‬
‫ریاضت کرتا ہے تو وہ صوفی کہالتا ہے کچھ لوگوں نے‬
‫صوفی کا تعلق اصحاب صفہ سے جوڑا جو عہد نبوت میں‬
‫صحابہ کا وہ گروہ تھا جو دنیا کے مشاغل سے الگ ہو کر‬
‫دن رات کا زیادہ حصہ عبادت اور ذکر میں بسر کرتے تھے‬
‫‘‘۔(ص‪،۸،۱۰‬ایضا ً)‬

‫تصوف کے حوالے سے مختصرا ً کہہ سکتے ہیں کہ یہ خوف کی منزل سے چل کر‬


‫عشق و محبت کے مقام تک پہنچا پھر یونانی فکر و فلسفہ کے زیر اثر معرفت کی‬
‫پرپیچ راہوں میں داخل ہوگیا۔‬

‫اس کتاب کے حوالے سے مصنف کا اصل مقصد حضرت جنید کے مجموعہ رسائل‬
‫کو انگریز قارئین کے سامنے النا ہے ۔ ان رسائل کے حوالے سے یہ بات نہیں بھولنی‬
‫چاہئے ک ہ وہ ایک صوفی تھے ۔ ادیب اور انشا پرداز ‪ ،‬منطقی و متکلم نہیں تھے ۔ اس‬
‫لیے ان کے کالم میں اشاریت اور ابہام بار ہا سامنے آتےہیں ۔‬

‫حضرت جنید کی تعلیمات کے حوالے سے مترجم کہتا ہے ۔‬

‫’’ان کے سوانح اور ان کی تعلیمات کا مطالعہ بہت آسان ہو‬


‫جاتا ہے اگر ان کے دو قریبی شاگردوں کی لکھی ہوئی‬
‫دواصل کتابیں آج دستیاب ہوتیں۔ ایک کتاب ابو سعید ابن‬
‫العربی کی ’’طبقات النساک‘‘ تھی اور دوسری محمد جعفر‬
‫الخلدی کی ’’حکایات االولیاء‘‘ (ص ‪ ،۱۱‬ایضا ً)‬

‫حضرت جنید تصوف کے مورث اعلی قرار پاتے ہیں ۔ اس کتاب میں ان کی زندگی‬
‫کے ہر پہلو کا جائزہ انتہائی جامع انداز میں لیا گیا ہے کہ شخصیت کا کوئی پہلو تشنہ‬
‫کام نہیں رہتا ۔‬

‫عربی سیکھئے‪:‬‬

‫زیر موضوع کتاب ‪ ۱۱۱‬صفحات پر مشتمل ‪۱۰۰۱‬ء میں سنگ میل پبلی کیشنز الہور‬
‫سے شائع ہوئی ۔ قیمت ‪۳۰۰‬روپے ہے ۔ مصنف‪ :‬محمد کاظم کتاب کے مندرجات میں‬
‫پچیس ابواب اور تین ضمیمہ جات شامل ہیں یہ تمام ابواب عربی زبان کی گرامر کا‬
‫احاطہ کئے ہوئے ہیں۔‬

‫عربی زبان دنیا کی چند بڑی زبانوں میں سے ایک ہے جو بہت سے ممالک میں بولی‬
‫جاتی ہے ۔ بطور مسلمان یہ ہمارے لیے اس لیے زیادہ اہم ہے کہ یہ ہماری مذہبی‬
‫کتاب قرآن مجید کی زبان ہے ۔ ہمارے ہاں سکولوں میں اس کے لیے جو نصاب اور‬
‫طریقہ تدریس و ضع کیا گیا اس سے کوئی مثبت پیش رفت نہ ہو سکی اور کوئی قابل‬
‫ذکر طالب علم سامنے نہیں آیا کہ جس نے عربی زبان میں خصوصی استعداد پیدا کر‬
‫لی ہو ۔‬

‫اس ساری صورتحال کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک مسلمان قرآن اور حدیث سے براہ راست‬
‫استفادہ نہیں کر سکتا ۔ قرآن کی تالوت اور نماز کے دوران وہ ان کے مفہوم و مطالب‬
‫سے نا آشنا ہوتا ہے ۔ اس سے یہ نقصان ہوا کہ مسلم اقوام کا آپس میں قریبی رابطہ‬
‫نہیں رہا ۔ ترجمان کے بغیر ہم کالم ہونا بہت مشکل ہے ۔ اس سے مسلم امہ میں اتحاد‬
‫و یگانگت پیدا نہ ہوسکی ۔‬

‫عربی زبان کا شمار دنیا کی مشکل زبانوں میں ہوتا ہے لیکن اس خیال سے مکمل‬
‫اتفاق نہیں کیا جاسکتا ۔‬

‫مصنف اس حوالے سے کہتا ہے‬

‫’’چونکہ میں نے یہ زبان بغیر کسی استاد کے اور مدرسی‬


‫تعلیم کے اپنے شوق سے خود پڑھی ہے اس لیے میں کہہ‬
‫سکتا ہوں کہ عربی زبان اتنی مشکل نہیں ہے کہ وہ محنت‬
‫اور لگن سے سیکھی نہ جاسکے ہمار ا تجربہ یہ ہے کہ یہ‬
‫زبان اگر ایک مناسب ترتیب اور باقاعدگی کے ساتھ پڑھی‬
‫جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس میں اچھی پیش رفت نہ‬
‫ہوسکے‘‘۔ (ص‪ ،۸‬عربی سیکھئے)‬
‫زیر تبصرہ کتاب میں عربی قواعد کے ساتھ عربی زبان بھی پڑھائی گئی ہے ہر سبق‬
‫میں جو قاعدہ پڑھایا گیا اس میں ایسے عربی جملے دیئے گئے ہیں جن کا تعلق اس‬
‫قاعدے سے ہے قواعد کی تعلیم میں ترتیب کا خاص خیال رکھا گیا ہے ہر سبق میں‬
‫پڑھنے والوں کے لیے ترجمے کی مشقیں دی گئی ہیں ۔ عربی سے اردو اور اردو‬
‫سے عربی اس کتاب کے پچیس اسباق میں عربی زبان کے تمام ضروری قواعد کا‬
‫احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اس میں مصنف نے نحوی اصطالحوں کو کم‬
‫سے کم اور آسان صورت میں استعمال کیا ہے۔ اور گردانیں بھی سہل انداز میں‬
‫سکھائی ہیں تاکہ یاد کرنے میں آسانی ہو۔‬

‫زیر تبصرہ اس باب میں محمد کاظم کی تصانیف اور تراجم کاجائزہ لینے کے بعد میں‬
‫اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ ان کی فکر میں آزادی رائے کا اظہار بغیر لگی لپٹی کے‬
‫بدرجہ اتم موجود ہے ۔ اس حوالے سے وہ شخصیت یا موضوع کے متعلق تخصیصی‬
‫رویے اور سوچ کے حامل نہیں ہیں انہوں نے بال خوف بعض ان موضوعات پر گرفت‬
‫کی ہے جن پر بات کرنا ممنوع بلکہ کفر سمجھا جاتا تھا۔ ان کا حلقہ فکر بہت وسیع‬
‫نہیں تھا لیکن اس کے باوجود قارئین کے مزاج تک رسائی حاصل قابل تحسین کارنامہ‬
‫ہے ۔‬

‫عربی ادب میں مطالعے (تحقیقی و تنقیدی جائزہ)‬

‫مذکورہ باال کتاب صالح الدین محمود نے ‪۱۸۹۹‬ء میں نقش ّاول کتاب گھر سے‬
‫"مضامین"کے نام سے شائع کی ‪۱۸۸۰‬ء میں اس مجموعے کا نیا ایڈیشن سنگ میل‬
‫الہور نے "عربی ادب میں مطالعے "کے نام سے شائع کیا۔ اس کا موجودہ ایڈیشن‬
‫‪ ۱۰۱۱‬ء میں سنگ میل الہور کی طرف سے شائع ہوا۔ زیر تبصرہ کتاب ‪۸‬مضامین پر‬
‫مشتمل ہے جو عربی زبان کے داستانی ادب اور اس کی شاعری کے موضوع کا‬
‫احاطہ کیے ہو ئے ہیں ۔‬

‫زیر موضوع کتاب میں شامل مضمون "الف لیلہ" عربی ادب میں فنون کے‬
‫ہوا۔‬ ‫شائع‬ ‫‪۱۸۱‬‬ ‫‪۱۱۴‬تا‬ ‫‪ٰ ۱۸۱۴‬ء‬ ‫شمارہ‪۴‬جنوری‬
‫یہ مضمون ادب کی ایک ایسی صنف کے بارے میں ہے جسے ہم موجودہ عہد کی‬
‫اصطالح میں لوک داستانی ادب کہیں گے۔ اس مضمون کے مطالعہ سے یہ دل چسپ‬
‫حقیقت سامنے آتی ہے کہ اس کتاب کے ظہور میں بہت سے اتفاقات کو دخل حاصل‬
‫ہے ۔ مصنف نے موضوع اسلوب اور فکر کا پس منظر کے حوالے سے جائزہ لیا ہے‬
‫۔"الف لیلہ "کے حوالے سے یہ انکشاف حیران کن ہے کہ اس کا موطن و مبدء‬
‫س رزمین عرب نہیں ہے بلکہ کسی حد تک ہند اور پھر ایران کی سرزمین ہے ۔ اس‬
‫کتاب کی دریافت کے سلسلے میں جو پہال اتفاق پیش آیا وہ اس کے لئے ایک سنگ‬
‫میل ثابت ہوا اور آنے والے وقت میں دیگر ادباء اور مترجمین کے لئے مشعل راہ بنا‬
‫رہا۔ مصنف اس حوالے سے کہتا ہے‬

‫’’اٹھارہویں صدی عیسوی کے اوائل کی بات ہے کہ‬


‫فرانسیسی صاحب علم انطون گالن جسے مشرقی علوم میں‬
‫بڑی دلچسپی تھی اور اس نے قرآن حکیم کاترجمہ فرانسیسی‬
‫زبان میں کیا تھا اور حکومت فرانس میں وہ زیادہ تر انہی‬
‫عہدوں پر فائز رہا تھا جن کا تعلق کسی نہ کسی شکل میں‬
‫مشرق کے ساتھ ہوتا تھا۔ وہ استنبول کے فرانسیسی سفارت‬
‫خانے میں میں سیکرٹری کے عہدے پر تعینات تھا جب ایک‬
‫دن وہاں کے کتب خانے میں اس کے ہاتھ حکایات کا ایک‬
‫چھوٹا سا مجموعہ "سندباد"لگا اس نے یہ کتابچہ استفادے‬
‫کی خاطر لے لیا اور زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ فرانسیسی‬
‫زبان میں ایک نہایت دلچسپ کتا ب "حکایات سند باد"کے‬
‫نام سے منظر عام پر آگئی جو اس کی صاحب زادی مس‬
‫مرکیز کے نام معنون تھی‘‘۔ (ص ‪ ،۱۱،۱۱‬عربی ادب میں‬
‫مطالعے )‬

‫یہ بات قابل غور ہے کہ انطون گالن کا ادبی ذوق با کمال تھا ۔کیونکہ اگر وہ ایک عام‬
‫مستشرق ہوتا تو شاید سرسری نگاہ ڈالنے کے بعد اس کتابچے کو واپس رکھ دیتا لیکن‬
‫وہ ان انوکھے پُر لطف اور مہم جوئی سے لبریز قدیم عربی ادب سے اس قدر متاثر‬
‫ہوا کہ ذوق تجسس بڑھتا ہی گیا اور اس کی تالش میں سر گرداں رہا ۔مصنف اس کے‬
‫ذوق جستجو پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتا ہے‬

‫’’کچھ عرصہ بعد گالن کو پتہ چال کہ ’’حکایات سندباد‬


‫‘‘دراصل ایک ضخیم کتاب "الف لیلہ"کا ایک حصہ ہے جو‬
‫تمام کی تمام اسی انداز کی کہانیوں پر مشتمل ہے ۔اب ایک‬
‫مرتبہ اتفاق کی کارفرمائی ہو ئی اور گالن کو حلب میں ایک‬
‫ایسا شخص مل گیا جس کے پاس "الف لیلہ "کی چار جلدیں‬
‫موجود تھیں گالن نے اس سے یہ چار جلدیں لے لیں‬
‫اور‪۱۹۰۴‬ء میں ان کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ کرنا‬
‫شروع کیا اور تیرہ سال کے عرصے میں اسے بارہ جلدوں‬
‫ضا)‬
‫میں تکمیل کو پہنچایا‘‘۔(ص ‪،۱۱‬ای ً‬

‫اس طرح "الف لیلہ"کے حوالے سے تحقیقات کا سلسلہ جاری رہا اب جسے مکمل‬
‫کتاب سمجھ لیا گیا تھا بعد کی تحقیقات نے ثابت کیا کہ اس فرانسی ہاتھوں انجام پانے‬
‫واال یہ پہال ترجمہ مکمل کتاب کا ترجمہ نہیں تھا ۔یہ چار جلدیں کتاب کے ایک‬
‫چوتھائی حصے سے زیادہ نہیں تھیں اور مزید اس نے ان میں حکایات سند باد کا‬
‫اضافہ کیا اور کچھ کہانیاں جو اس نے حلب کے شخص کی زبانی سنی تھیں وہ بھی‬
‫صع کاری کی‬
‫اس میں شامل کر دیں اور زیب داستان کے لئے اپنی طرف سے بھی مر ّ‬
‫تھی ۔لیکن اس کے باوجود ہم اس ترجمے کی اہمیت سے انکار نہیں کرسکتے کیونکہ‬
‫یہی ترجمہ مستقبل میں دیگر تراجم کے لئے بنیاد ثابت ہوا۔‬

‫’’یہی ترجمہ اٹھارہویں صدی کے اوائل سے لے کر‬


‫انیسویں صدی تک کے آغاز تک تمام یورپ کے لئے واحد‬
‫ماخذومرجع کا کام دیتا رہا ۔ابھی گالن نے اس کتاب کا‬
‫فرانسیسی ترجمہ مکمل نہیں کیا تھا کہ ‪۱۹۱۳‬ء میں اس کے‬
‫شائع شدہ اجزاء کا انگریزی ترجمہ بھی ساتھ ساتھ ہونا‬
‫ضا)‬
‫شروع ہو گیا‘‘ ۔ (ص ‪،۱۳‬ای ً‬
‫بعد ازاں "الف لیلہ"کے حوالے سے تحقیق جاری رہی اورباآلخر‪ ۱۱۱۶‬ء میں نامور‬
‫انگریز فاضل ‪،‬ادیب اور سیاح رچرڈ برٹن کا بے مثال کالسیکی ترجمہ منظر عام پر‬
‫آیا جس نے اسے بقائے دوام بخشا۔‬

‫م شرق میں "الف لیلہ"کی باقاعدہ دریافت کا سہرا بھی اہل مغرب کے سر پر ہے ۔‬
‫اٹھارہویں صدی کے آخر میں پر مصر پرنپولین کے حملے کے بعد یورپین علماء اور‬
‫مستشرقین کی آمد و رفت زیادہ ہوئی تو ان کے اندر یہ خواہش پیدا ہوئی کہ جس‬
‫مشرقی شاہکار سے وہ تراجم کی مدد سے آشناء ہوئے کیوں نہ اس سے اس کی اپنی‬
‫زبان میں لطف لیا جائے یوں تحقیق کا سلسلہ شروع ہوا اور مختلف ممالک سے‬
‫مسودے جمع کئے ۔‬

‫اب یہاں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ ہندوستان میں "الف لیلہ" کا نسخہ کیسے پہنچا اور‬
‫اس پر کس حد اور کس انداز میں کام ہوا اور جو کام ہوا کیااسے مستند قرار دیا‬
‫جاسکتا ہے اس حوالے سے مصنف کہتا ہے۔‬

‫‘‘ الف لیلہ" کا ایک نامکمل اور ادھورا نسخہ ہندوستان کے نئے حاکموں میں سے کس‬
‫کے ہاتھ لگا کہ وہ اسے ہندوستان الئے اور فورٹ ولیم کالج کلکتہ کی زیرنگرانی اس‬
‫کی بنیاد پر "الف لیلہ" کا پہال کلکتہ ایڈیشن ‪۱۱۱۱‬ء میں شائع ہوا ۔ یہ غالبا َ زیور‬
‫طباعت سے مزین ہونے واال پہال نسخہ تھا جو بے حد ناقص تھا کیونکہ اس میں‬
‫صرف پہلی دو سو راتوں کی داستان اور سند بادکی حکایات شامل تھیں’’۔(ص ‪،۱۱‬‬
‫ایضا َ ََ)‬

‫اس کے بعد کافی عرصہ تک اہل مشرق میں سے اس سلسلے میں کسی پیش رفت کی‬
‫دستاویزی شہادت نہیں تجسس کا یہ جذبہ اہل مغرب کو ہی ودیعت ہوا تھا اور وہ مکمل‬
‫نسخے کی تال ش میں سرگرداں رہے۔‬

‫یہ احوال مصنف کی زبانی سنیئے۔‬

‫’’بعدازاں"الف لیلہ" کا ایک دوسرا مکمل نسخہ میجر میکن‬


‫مصر سے ہندوستان الئے اور اسے سامنے رکھ کر مسٹر‬
‫مکناٹن نے ‪۱۱۳۸‬ء سے ‪۱۱۴۱‬ء میں کلکتہ ایڈیشن نمبر‬
‫‪4‬شائع کیا جو ایک مکمل اور مستند چیز تھی۔ ‪ ۱۱۳۶‬ء میں‬
‫مصرسے "الف لیلہ" کا وہ بوالق ایڈیشن شائع ہوا یہ مکمل‪،‬‬
‫صحیح اور مستند نسخوں میں سب سے پہال ایڈیشن تھا‘‘۔ (‬
‫‪ ،۱۱‬ایضا َ(‬

‫بعد کی تحقیق نے یہ ثابت کر دیا کہ مذکورہ باال دونوں ایڈیشن سب سے مستند اور‬
‫جامع ایڈیشن قرار پائے اور گذشتہ صدی میں "الف لیلہ" پر جتنا کام ہوا یہی اس کی‬
‫بنیاد قرار پائے ۔ یہ واحد کتاب ہے جس کی تکمیل میں مہینے اور برس نہیں بلکہ‬
‫صدیاں بیت گئیں ۔ موضوع بحث سوال یہ ہے کہ اس کتاب کا زمانہ تصنیف کیا ہے‬
‫اور وہ کن حاالت میں مرتب ہوئی ہے ‪ ،‬عرب میں اس کی نشووونما کن حاالت میں‬
‫ہوئی ؟‬

‫اس حوالے سے مصنف حقیقت سے پردہ اٹھاتا ہے ۔‬

‫’’تیسری صدی ہجری میں اسالمی فتوحات کے نتیجے میں‬


‫اہل عرب کا عجمی اقوام سے اختالط عمل میں آیا تو اس‬
‫زمانے میں پہلوی زبان کے اندر ہندی اور ایرانی کہانیوں پر‬
‫مشتمل ایک کتاب"ہزار افسانہ" کے نام سے مشہور تھی یہ‬
‫کہانیاں جب عربوں کے کانوں تک پہنچیں تو انہیں ان کا‬
‫اسلوب ایک بالکل انوکھی چیز لگی اور ان کہانیوں کی‬
‫بدولت عرب کے شہروں میں داستان گوئی کی ایک باقاعدہ‬
‫روایت کا آغاز ہوا اور تیسری صدی ہجری کے اواخر میں‬
‫پہلوی زبان کی اس "ہزار افسانہ " کا جو ترجمہ عربی زبان‬
‫میں ہوا اس کا نام اصل کی نسبت سے "الف لیلہ"قرار پایا‬
‫‘‘۔ (ص ‪ ،۱۱‬ایضاَََ )‬

‫" الف لیلہ"درحقیقت تین حصوں پر مشتمل ہے پہال حصہ زیادہ تر فارسی اور ہندی‬
‫کہانیوں کے ترجمے پر مشتمل ہے ‪ ،‬کیونکہ ایک قصے میں سے دوسرا قصہ نکالنا‬
‫قدیم ہندی قصہ گوئی کا خاص انداز تھا اسی اسلوب کو اپنا کر اہل ایران نے اپنی‬
‫کہانیاں تصنیف کیں جنہوں نے بعد ازاں عربی میں منتقل ہو کر "الف لیلہ" کی‬
‫صورت اختیار کی۔کرداروں کے نام (شہرزاد‪ ،‬شہر یار) فارسی ہیں۔‬
‫دوسرا حصہ بغدادی اور خالص عربی حصہ ہے کیونکہ عرب داستان گو کو جب‬
‫ایرانی اور ہندی کہانیوں کا ذخیرہ ختم ہوتا نظر آیا تو اس نے اپنے ماحول اور روایات‬
‫کی آمیزش سے کہانیاں ترتیب دینی شروع کر دیں۔‬

‫تیسرا حصے کی تالیف و تشکیل مصر کے بازاروں میں پانچ سو سال کے عرصے‬
‫میں ہوتی ہے اس میں موضوعات اور شخصیات کاایک عجیب مرکب پندنصیحت اور‬
‫عبرت کی کہانیوں میں یہودکی اسرائیلی روایات سے بہت کچھ لیا گیا ہے‪ ،‬عربی‬
‫قصے اور اسالمی روایات شامل ہیں یہ حصہ علی بابا چالیس چور ‪ ،‬عالؤ الدین اور‬
‫جادو کا چراغ اور اسی طرح کی دوسری کہانیوں پر مشتمل ہے۔‬
‫اس مختصر جائزے کے بعد یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ "الف لیلہ" کا مصنف کسی‬
‫خاص زمانے کا کوئی معروف شخص نہیں ہے بلکہ بغداد اور مصر کے بازاروں میں‬
‫راتوں کو اپنی محفل میں داستان گوئی کی محفل جمانے واال وجود تھا ‪ ،‬قصہ گوئی‬
‫ایک طرح سے اس کا ذریعہ معاش بھی تھا ۔"الف لیلہ" کے ان حصوں سے متعلق‬
‫مشہور عرب مورخین کی آراء تحسین آمیز نہیں ہے وہ انہیں من گھڑت اور خرافات‬
‫قرار دیتے ہیں۔‬

‫اس کی وجہ یہ ہے کہ عربی ذہن تصور و خیال کے مقابلے میں وصف و بیان سے‬
‫مطابقت رکھتا ہے۔ داستان کیلئے لوگوں کا مطالعہ ضرور ی ہوتا ہے لیکن عرب‬
‫انسانوں سے زیادہ فطرت کے قریب ہوتا ہے ‪ ،‬غورو فکر اس کی فطرت سے بعید‬
‫ہے۔‬
‫"الف لیلہ" کی ہر دل عزیزی مغرب میں آج تک برقرار ہے بحیثیت مجموعی دیکھا‬
‫جائے تو اس قسم کے ادب پر کسی ایک ملک یا قوم کی اجارہ داری نہیں ہوتی ۔ یہ‬
‫زمان و مکان کی قیود سے آزاد ہوتا ہے اہل مشرق کو چاہیے کہ اس کا ترجمہ اس‬
‫انداز سے کریں جو کالسیک کا درجہ اختیار کر جائے۔‬

‫’’ایک جاہلی مرثیہ پڑھ کر‘‘‬


‫عنوان باال مرثیہ عرب کی جاہلی شاعرہ خنساء کا ہے مصنف نے ان عوامل اور‬
‫محرکات کا جائزہ لیا ہے جس نے ا س شاعرہ سے اتنے اثر انگیز اور دل دہال دینے‬
‫والے مرثیے کہلوائے ۔ اس مضمون میں مصنف نے اس پہلو کے حوالے سے اپنی‬
‫رائے پیش نہیں کی کہ الم ناک حوادث سے پہلے شاعرہ کی روح شاعری کس نہج پر‬
‫تھی؟ اس حقیقت سے مف ر نہیں کہ غم و اندوہ کے ہجوم نے اس کی زندگی میں یکلخت‬
‫انقالب برپا (‪)۱‬‬

‫کر دیا کہ وہ اپنے زمانے کے ساتھ ساتھ آنے والے زمانے کیلئے ضرب المثل کی‬
‫حیثیت اختیار کر گئی۔‬

‫اس کی مرثیہ نگاری کا محرک اس کے دو جواں سال بھائیوں کی ناگہانی موت بنی۔‬
‫عرب معاشرے میں بہن کی محبت الزوال ہے جس کا ثبوت بعدازاں واقعہ کربال کے‬
‫دوران حضرت زینب نے دیا۔ تکبر ہر ہ ْنر اور عروج کے لئے زوال ثابت ہوتا ہے‪،‬‬
‫یہی معاملہ خنساء کے بھائیوں کے ساتھ پیش آیا۔ کیونکہ اس کے باپ کو اپنے دونوں‬
‫بیٹوں پر بہت فخر تھا۔‬

‫‘‘ان کا باپ"عمر بن حارث جب حج کیلئے جاتا تو وہاں اپنے دونوں بیٹوں کا ہاتھ پکڑ‬
‫کر بڑے فخر کے ساتھ اعالن کرتا میں خاندان مضر کے دو بہترین فرزندوں کا باپ‬
‫ہوں اگر کسی کو میرے اس دعوے میں سخن ہو تو اٹھ کر مجھے جھٹال دے۔ (ص‬
‫‪ ،۳۱‬ایضا َ)‬

‫خنساء کے غم کی ابتداء اس کے بھائی معاویہ کی ہالکت سے ہوئی وہ ایک مرثیے‬


‫میں کہتی ہے‬

‫فخر الشومخ من قتلہ‬

‫ُ‬
‫وزلزلت االرض زلزالھا‬
‫‘‘معاویہ کی موت سے یوں لگتا ہے جیسے کوہسار اوندھے‬
‫گر پڑے ہوں۔ اور زمین کو ایک زلزلے نے آلیا ہو’’۔ (ص‬
‫‪ ،۳۹‬ایضا َ)‬

‫اس واقعے سے تین سال بعد اس کے بڑے بھائی کو موت نے آلیا تو اس کے غم کی‬
‫کوئی انتہا ء نہ رہی اور آنکھوں سے آنسو اس طرح رواں ہوئے کہ ساری عمر نہ‬
‫تھمے ‪ ،‬اس غم نے اسے پْر گو اور پْر اثر شاعرہ بنادیا۔‬

‫ایک مرتبہ جب عکاظ کے مشاعرے میں اس نے اپنا مرثیہ پڑھ کر سنایا تو سننے‬
‫والوں کے دل ہال ڈالے ‪ ،‬عرب کا شاعر اور نقاد نابغہ اس سال مشاعرے کا صدر تھا ‪،‬‬
‫خنساء کا کالم سن کر کہنے لگا ۔‬

‫اعشی اپنا کالم نہ‬


‫ٰ‬ ‫’’اے دختر عرب اگر تجھ سے پہلے‬
‫سنا چکا ہوتا تو میں تمہیں جن وانس کی سب سے بڑی‬
‫شاعرہ قرار دیتا‘‘۔ (ص ‪ ،۳۹‬ایضا َ)‬

‫خنساء کا زمانہ چھٹی اور ساتویں صدی عیسوی کا ہے اور سنہ آٹھ ہجری میں اپنے‬
‫قبیلے کے ساتھ دربار نبوی میں حاضر ہوئی اور اسالم قبول کیا ‪ ،‬یہ زمانہ جاہلیت کے‬
‫اختتام اور اسالم کے آغاز کا تھا ‪ ،‬قبول اسالم کے بعد بھی اس کی تمام تر شاعری‬
‫جاہلی رویے کی نمائندگی کرتی ہے اس لئے اس کا شمار جاہلی شعراء میں ہوتا ہے۔‬

‫مصنف یہاں اس شاعرہ کی فنی خامی کا ذکر کرتا ہے جو دوران مطالعہ کھٹکتی ہے‬
‫وہ یہ ہے کہ ان سارے مرثیوں میں اس کی اپنی جذباتی کیفیت بہت کم اور مرنے‬
‫والے کے اوصاف کا بیان زیادہ ہے۔ کیونکہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی واردات‬
‫قلب بیان کرے‪ ،‬جو مرنے والوں کے جْ دائی میں اس کے دل پر گذرتی ہے اس طرح‬
‫کے مرثیے اس کے ہاں بہت کم ہیں لیکن اس معاملے وہ بالکل مایوس نہیں کرتی۔‬

‫ایک مرثیے میں وہ اپنے بھائی صخر کے حوالے سے اپنی اندرونی کیفیت کا اظہار‬
‫کرتے ہوئے کہتی ہے ۔‬
‫یذکرنی طلوع الشمس صخرا‬
‫" ّ‬

‫واذکرہ لکل غروب شمس‬

‫مجھے ہر طلوع و آفتاب صخر کی یاد دالتا ہے اور ہر غروب آفتاب کے وقت میں‬
‫اسے یادکرتی ہوں۔ (ص ‪ ،۳۸‬ایضا ً)‬

‫مصنف نے اس شعر کی وضاحت نہایت اچھے اسلوب میں اس کی ذہنی کیفیت کو‬
‫جانچتے ہوئے کی ہے‪ ،‬خنساء کے فکر کی سچائی ہے کہ جاہلی شاعری کے انتخاب‬
‫اس کے بغیر نامکمل ہیں۔حضورﷺنے اس کا کالم سْنا تو بہت متاثر ہوئے اس کے‬
‫مرثیے سنتے تھے اور فرماتے تھے ہاں ہاں تْو اے ۔‬

‫خنساء آگے کہو۔‬

‫قبول اسالم کے بعد بھی اس کی گریہ زاری میں کوئی کمی نہ آئی اور کالی اوڑھنی‬
‫ْمر کے زمانے میں بھی اس کی یہی‬
‫اس نے اپنے سر سے جدا نہ کی ۔ حضرت ع ؓ‬
‫صورت حال رہی۔‬

‫’’آپ نے بال کر فرمائش کی کہ دیکھو جو کچھ تم کرتی ہو‬


‫یہ اسالم میں معیوب چیز ہے اس نے جواب دیا ‪:‬پہلے میں‬
‫اس کے بدلے کیلئے روتی تھی اب اس کیلئے دوزخ کی آگ‬
‫دیکھ کر روتی ہوں۔پھر جب اس نے اپنے مرثیے کے کچھ‬
‫عمر کا سخت دل بھی گداز‬
‫اشعار پڑھ کر سنائے تو حضرت ؓ‬
‫ہو گیا کہنے لگے خنساء تم پر کوئی مالمت نہیں جاؤ ہر‬
‫شخص کو اپنا غم رونے کی آزادی ہے‘‘۔ (ص ‪ ،۴۴‬ایضا َ)‬

‫خنساء جس کے آنسو بھائیوں کی وفات کے بعد کبھی خشک ہی نہیں ہوئے اور کبھی‬
‫آنکھوں کاپانی سوکھ جاتا تو وہ کہتی تھی‬
‫’’اے آنکھو! بخل نہ دکھاؤ اور پتھر نہ بن جاؤ کیا تمہارے‬
‫اندر اس صخر سخا پیشہ پر بھی رونے کیلئے آنسو نہیں‬
‫ہیں‘‘۔ (ص ‪ ،۴۶‬ایضا َ)‬

‫جب جنگ قادسیہ میں اس کے چاروں بیٹوں کی شہادت کی روح فرسا خبر اسے‬
‫سنائی جاتی ہے تو وہ بڑے صبر و تحمل سے سنتی ہے کہ اللہ نے اسے ان کی‬
‫شہادت کی ّ‬
‫عزت سے سرفراز کیا۔‬

‫امرؤ القیس (عہد جاہلیت کا "شاہ گم کردہ راہ)‬

‫زیر تبصرہ کتاب میں شامل یہ مضمون "قنون"کے شمارہ ‪ ،۳‬اگست ‪۱۸۹۴‬ء ص ‪ ۹‬تا‬
‫‪ ۱۶‬پر شائع ہوا۔‬

‫جاہلی شاعر ی کا سرخیل جس کا زمانہ حضرت محمد ﷺسے تقریباًایک سو سال پہلے‬
‫کا ہے‪ ،‬اس کی وفات ‪۶۴۰‬ء کے لگ بھگ ہوئی اور ہجرت نبوی کا سال ‪۱۱۱‬ء ہے‬
‫اسالم سے ایک صدی پہلے کا زمانہ جاہلی شاعری کے عروج کا زمانہ تھا اس نے‬
‫کبھی خود کو جاہلی دور کا شاعر اول نہیں کہا۔ بلکہ وہ کہتا ہے‬

‫"عوجا علی الطلل المحیل لعلنا نبکی الدیار کمابکی ابن حذام(‪)۸‬‬

‫’’دوستو! ذرا برس دن پرانے اس کھنڈر پر ُرک جانا کہ ہم‬


‫اس اْجڑے دیار پر آنسو بہالیں جیسے ہم سے پہلے شاعر‬
‫ابن حذام نے بہائے تھے‘‘)ص ‪ ،۴۹‬ایضا َ(‬

‫مصنف نے اس مضمون میں اس کی شاعری کے دو ادوار مقرر کئے ہیں ۔ پہلے دور‬
‫میں اس کے آباؤ اجداد کا تعارف اور ا س کی کھلنڈری زندگی کے پے درپے واقعات‬
‫کی تفصیل ہے اور ان عوامل کا جائزہ لیا ہے جو اس کی شاعری کے لئے محرک‬
‫ثابت ہوئے۔ اس میں دو پہلو زیادہ اہم ہیں ایک یہ کہ وہ ایک فطری شاعر تھا اور‬
‫فطری شاعر ی معاشرتی پابندیوں سے آزاد ہوتی ہے۔ دوسرا اس کا ماحول جس میں‬
‫عیش و نشا ط کے سبھی سامان اس کی دسترس میں تھے۔‬

‫امرؤ القیس کا باپ ح ُجراپنے قبیلے کا سردار تھا اس کا یہ خوش شکل‪ ،‬شراب اور‬
‫شکار کا رسیا بیٹا شاعری کے طرز سخن میں بھی باکمال تھا‪ ،‬اس نے اپنی شاعری‬
‫میں اپنے سب معاشقوں کا برمال ذکر محبوباؤں کے نام لے لے کر کیا۔اگر بحوالہ‬
‫شاعری دیکھا جائے تو تغزل کی ایک نئی روایت نے جنم لیا جہاں پہلے گھوڑی یا‬
‫اونٹ کی توصیف کی۔سفر کے مصائب کا بیان اور اپنے ممدوح سردار کے جھوٹے‬
‫سچے گن گائے جاتے تھے اب محبوب کے عشووہ و ناز کی باتیں ہونے لگیں لیکن‬
‫اس سے قبیلے کی بہو‪،‬بیٹیوں کی عزت سربازار نیالم ہونے لگی۔اور اس نے حد یہ‬
‫کی تھی کہ دوسری عورتوں کے حسن و جمال کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ اپنے باپ کی‬
‫ایک بیوی کے محاسن بیان کرنے سے بھی باز نہیں آیا تھا۔‬

‫اس حوالے سے مصنف کہتا ہے۔‬

‫" بات بڑھتے بڑھتے اس کے باپ امیر حجر تک پہنچی اور اس نے عیاش بیٹے کو‬
‫بال کر بہت سختی سے تنبیہ کی کہ آئندہ وہ اپنی شاعری میں ان فواحش و لغویات کا‬
‫ذکر نہیں الئے گا۔امرؤ القیس اپنی روش پر قائم رہا۔ اُدھر بادشاہ حجر کو بھی اپنا‬
‫منصب اور اس کے تقاضے عزیز تھے چنانچہ اس نے انتہائی اقدام کا فیصلہ کرتے‬
‫ہوئے امرؤ القیس کو گھر سے نکال دیا’’۔ (ص ‪ ،۶۰‬ایضا ً)‬

‫اس کے باپ کو اس کی شاعری پر نہیں بلکہ شاعری کے مضامین پر اعتراض تھا‪،‬‬


‫اس کے چند اشعار بطور نمونہ درج کئے جاتے ہیں۔‬

‫‘‘ایک رات جب اس کے اہل خانہ سو گئے تو میں اس کے باال خانے پر یوں دبے‬
‫پاؤں چڑھا جیسے پانی کا بلبلہ اٹھتا ہے‪ ،‬دھیرے دھیرے بے آواز‘‘!‬

‫’’میں تم جیسی کتنی حاملہ اور دودھ پالتی حسیناؤں کے‬


‫پاس گیا ہوں جب میں ان میں سے کسی محبوبہ کے پاس‬
‫ہوتا تو وہ اپنے تعویز والے ایک سالہ بچے سے بھی غافل‬
‫ہو جاتی‘‘۔ (ص ‪ ،۱۰ ،۱۱‬ایضا َ)‬

‫گھر سے نکلنے کے بعد اس کی زندگی آوارگی کی مستقل راہ پر چل نکلی۔اس نے دَر‬


‫دَر کی خاک چھانی آج ایک مقام پر پڑاؤ ہے تو کل دوسرے پر لیکن جب اس کا باپ‬
‫قبیلہ بنو اسد کے ہاتھوں مارا گیا تو اس کی زندگی کی روش ہی بدل گئی۔ اپنے باپ‬
‫کی موت کا سن کر اس نے کہا کہ‬

‫’’جب میں چھوٹا تھا تو باپ نے مجھے ضائع کر دیا اور اب‬
‫میں بڑا ہوا ہوں تو مجھ پر اپنے خون کے بدلے کا بوجھ الد‬
‫دیا ہے ۔ آج تو نشہ اْترے گا نہیں اور کل نشہ چڑھے گا نہیں‬
‫۔ آج کا دن جام کیلئے ہے اور کل کا دن ایک بڑے کام‬
‫کیلئے‘‘۔ (ص ‪ ،۶۱‬ایضا َ)‬

‫دوسرے دن اس نے ہوش میں آنے کے بعد قسم کھائی کہ جب تک اپنے باپ کے قاتل‬
‫قبیلہ کے سو افراد کو تہہ تیغ کر کے اور سو افراد کی چوٹیاں کاٹ ا ن سے خون کا‬
‫بدلہ نہ لیا نہ گوشت چکھوں گا نہ شراب کو منہ لگاؤں گا اور نہ بالوں میں تیل ڈالوں ‪،‬‬
‫اور نہ اپنا سر پانی س ے دھوؤں گا پھر جب اس کی قسم پوری ہو چکی تھی تو اس نے‬
‫مذکورہ نعمتوں کو خود پرحالل کر لیا تھا‪ ،‬لیکن اس کے انتقام کی آگ ٹھنڈی نہ ہوئی‬
‫تھی ۔‬

‫وہ قسطنطنیہ میں قیصر روم کے پاس بنو اسد کے خالف امداد کا طالب ہوا قیصر نے‬
‫اس کی اچھی خاصی آؤ بھگت کی اور اس کے ساتھ ایک لشکر روانہ کر دیا۔ لیکن‬
‫ابتدائی سفر میں ہی اسے کوئی ایسا عارضہ الحق ہوا کہ اس کا سارا جسم دانوں سے‬
‫بھر گیا اور مرض گھٹنے کی بجائے بڑھتا گیا۔ اور ایک دن وہ زندگی کی۔‬

‫بازی ہار گیا۔ اور عسیب نامی پہاڑی میں دفن ہوا۔ امرؤ القیس جو اپنے معاشقوں اور‬
‫جنسی بے راہ روی کی وجہ سے بدنام زمانہ تھا اس کی ازدواجی زندگی کا یہ پہلو‬
‫تاریک ہے جب کہ ابھی وہ جوان رعنا تھا اور اپنی حسین بیوی کو جنسی طور پر‬
‫آسودہ نہ کر سکا۔مصنف مشہور عرب روای اصمعی کے حوالے سے یہ واقعہ بیان‬
‫کرتا ہے‬

‫’’خلوت کی پہلی رات امرؤ القیس کی کارکردگی کچھ زیادہ‬


‫اچھی نہ رہی اور ا ّم جندب بجائے راغب ہونے کے اس سے‬
‫بیزار ہو گئی۔ابھی رات کا بڑا حصہ باقی تھا کہ وہ اس کو‬
‫بیدار کر کے کہنے لگی ۔ اے جوان رعنا! اب اٹھ بھی جا کہ‬
‫صبح ہو گئی ہے امرؤ القیس اٹھا اور باہر جا کے دیکھا تو‬
‫ابھی نصف کے قریب رات باقی تھی وہ سٹپٹا اور واپس‬
‫آکراُم جندب سے اس حرکت کا سبب پوچھنے لگا تو بولی‬
‫بات یہ ہے کہ مجھے تم سے نفرت ہو گئی ہے‘‘۔(ص ‪، ۱۱‬‬
‫ایضا َ)‬

‫بعدا زاں اْم جندب نے ایسے حاالت پیدا کیے کہ امرؤ القیس کو طالق دیتے ہی‬
‫بنی۔ امرؤ القیس کی دوسرے دور کی شاعری میں موضوعات کا تنوع ملتا ہے جب‬
‫ا پنے باپ کے قاتل قبیلہ سے بدلنے میں اسے اس طرح کامیابی نہ ہوئی جیسے وہ‬
‫چاہتا تھا تو اس کے اشعار اس حاالت کی غمازی کرتے ہیں۔‬

‫’’میں نے سارے آفاق کی خاک چھانی اور جب کچھ بھی‬


‫ہاتھ نہ لگا تو آخر واپس لوٹ آنے کو ہی غنیمت سمجھا‘‘۔‬
‫(ص ‪ ،۱۱‬ایضاَََ )‬

‫زندگی میں پیش آمدہ حاالت انسان کی سوچ اور تخیل کو بدل دیتے ہیں لیکن زندگی‬
‫کی نامرادیوں کا اظہار سچائی سے کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ‪ ،‬امرؤ القیس‬
‫ان پیش اُفتادہ حاالت کی تلخیوں کے سامنے سر جھکا دیتا ہے۔‬

‫’’ناصحا !مجھے زیادہ مالمت نہ کر کہ اس زندگی کے‬


‫تجارب اور میرے حسب و نسب کے الئے‘‘‬

‫ہوئے مصائب میرے لئے کافی ہیں۔‬


‫’’میں حوادث ایام سے کسی نرمی کی امید رکھوں ؟ جبکہ‬
‫انہوں نے ان مہیب اور پْر صالبت چٹانوں کو بھی نہیں‬
‫چھوڑا تھا!‘‘ (ص ‪ ،۹۱‬ایضا ً)‬

‫امرؤ القیس کی شاعری میں خیال کی نزاکت اور احساس کی گہرائی کی تالش بے‬
‫سود ہے‪ ،‬کیونکہ اس کی شاعری بیان واقعہ کی شاعری ہے۔ وہ اپنے اچھے اور بْرے‬
‫دونوں حاالت کو بال مبالغہ اپنی شاعری میں رقم کر دیتا ہے اس کی شاعری میں شب‬
‫و روز کی تصویر ابھرتی ہے۔‬

‫مصنف کہتا ہے انسان کے عمومی مشاہدے میں محبت کی تین اقسام آئی ہیں ۔‬

‫پہلی قسم میں جسم ‪،‬دوسرے جسم میں کشش محسوس کرتا ہے اور اس میں مدغم ہونا‬
‫چاہتا ہے۔ دوسری قسم میں جذبہ اور جسم دونوں اس تعلق میں برابر کے شریک‬
‫رہتے ہیں جبکہ تیسری قسم میں ایک روح دوسری روح کی گرویدہ ہوتی ہے۔ اور‬
‫جسم اس سارے معاملے میں غیر متعلق رہتے ہیں۔‬

‫امرؤ القیس کی اپنی شاعری میں محبت کی پہلی قسم کا برمال اظہار ہے اور اس نے‬
‫چالئی۔‬ ‫ریت‬ ‫کی‬ ‫محبت‬ ‫اسی‬ ‫میں‬ ‫شاعری‬ ‫عربی‬
‫امرؤالقیس کی بیوی اُم جندب کے حوالے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ عرب‬
‫معاشرے میں چھٹی صدی عیسوی میں عرب کی عورتوں کو اپنی جنسی تشفی کا نہ‬
‫صرف شعور تھا بلکہ وہ اسے اپناحق سمجھتی تھیں اور برمال اظہار کرتی تھیں ‪ ،‬اور‬
‫اس کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی دے دیتی تھیں۔ عہد نبویﷺ میں بھی اس طرح‬
‫کے کئی واقعات پیش آئے۔‬

‫عم زاد فاطمہ کا دل جیتنے میں کبھی کامیاب نہ ہو‬


‫محبت کے معاملے میں وہ ا پنی ُ‬
‫سکا اور اس کا قلق اسے ساری عمر رہا اس کا اظہار اس نے اپنے معلقے میں بھی‬
‫بارہا کیا ہے۔‬

‫ایک بار آنحضرت ﷺ کے سامنے امرؤ القیس کا ذکر کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا‬
‫’’وہ شاعروں کا سربراہ اور ان کا علم اٹھائے ہوئے ہے‘‘‬

‫امرؤالقیس کی شاعری کے حوالے سے جو عورت ہمارے سامنے آتی ہے وہ اس‬


‫تصور سے بالکل مختلف ہے جو جاہلی معاشرے کی عورت کے متعلق ہمارے ہاں‬
‫رائج بلکہ راسخ ہو چکا ہے کہ عورت کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا اور وہ ہر طرح‬
‫کی آزادی اور حقوق سے محروم تھی۔‬

‫زمانہ جاہلیت میں عورتیں آزاد نہ پھرتیں اور تاالبوں میں نہاتیں اور قبائلی جنگوں میں‬
‫مردوں کے شانہ بشانہ رہتی تھیں‪ ،‬اور ان کا جنسی شعور آ ج بھی ہماری مشرقی‬
‫عورت کو شرما دے۔(مزید تفصیل کے لیے دارۃ جلجل نامی مقام پر تاالب کا واقعہ‬
‫دیکھیں۔ عربی ادب میں مطالعے ص ‪)۶۹‬‬

‫ابو نواس دور عباسی کا شاعر میناو جام‬

‫زیر تبصرہ کتاب میں شامل یہ مضمون فنون کے شمارہ ‪ ۱،۳‬جوالئی اگست ‪۱۸۹۶‬‬
‫ص ‪ ۱۱‬تا ‪ ۱۰‬پر شائع ہوا اس مضمون میں مصنف نے عباسی دور کے ایک اہم شاعر‬
‫ابو نواس کی شخصیت کے اہم پہلوؤں کے جائزے کے ساتھ اس کی فکر‪ ،‬اسلوب اور‬
‫شعری موضوعات کو اس عہد کے سیاسی و سماجی تقاضوں کے تحت پرکھا ہے‬
‫کیونکہ کسی بھی انسان کی شخصی تعمیر و کردار میں اس کے حاالت سے پہلو تہی‬
‫کرنا ممکن نہیں۔‬

‫ابو نواس کا دور دوسری ہجری کا نصف آخر ہے وہ خلیفہ منصور کے عہد میں پیدا‬
‫اعلی درجے کا ملکۂ شعری لئے بصرہ کو چھوڑ کر‬
‫ٰ‬ ‫ہوا ‪ ،‬وہ تیس برس کی عمر میں‬
‫بغداد آیا جہاں اس کی شہرت اس کی آمد سے پہلے ہی پہنچ چکی تھی‪ ،‬وہ جلد ہی‬
‫خلیفہ وقت ہارون الرشیدکے مقربین میں شامل ہو گیا لیکن اس کے فسق و فجور‪ ،‬مے‬
‫نوشی اور معامالت مذہب کے حوالے سے بے باکی کی وجہ سے شاعر دربار بنانا‬
‫مناسب نہ سمجھا۔ ہارون الرشید کے بعد امین مسند خالفت پرمتمکن ہوا تو ابو نواس‬
‫قصر شاہی کا شاعر قرار پایا۔ اور یہ اس کی زندگی کا بہترین دور تھا۔ امین جب جنگ‬
‫میں مارا گیا تو ابو نواس نے بھی اپنا طرز زندگی تبدیل کر لیا۔‬
‫ابو نواس نے جس معاشرے میں آنکھ کھولی اس کی تصویر مصنف اس طرح پیش‬
‫کرتا ہے۔‬

‫’’اس میں معتزلہ ‪ ،‬قدریہ‪ ،‬جبریہ‪ ،‬اشعریہ‪ ،‬شیعہ اور مرجیہ‬


‫جیسے فرقے موجود تھے ان میں سے جبریہ کا عقیدہ یہ تھا‬
‫کہ اس زندگی میں انسان کے سب اعمال خدا کی مرضی اور‬
‫علم کے تابع ہیں اس لئے وہ خود ان کا ذمہ دار نہیں ہے‬
‫دوسرا فرقہ مرجیہ کہتا تھا کہ ایمان کا تعلق دل سے ہے اور‬
‫انسان کے اعمال اس کے ایمان پر اثر انداز نہیں ہو سکتے‬
‫یہ لوگ اس بات کے بھی قائل نہیں تھے کہ کفار ہمیشہ‬
‫ہمیشہ کیلئے دوزخ میں رہیں گے‘‘ (ص ‪ ،۸۴‬ایضا َ)‬

‫اس معاشرے میں ایک اور اہم رجحان سامنے آیا تھا جو عربوں اور ایرانیوں کے‬
‫تصادم کا نتیجہ تھا یہ درحقیقت ایک ردعمل تھا جو عجمی خصوصا َ ایرانی قوموں میں‬
‫عربوں کے قومی و نسلی تفاخر کے خالف بڑی شدت سے پیدا ہوا تھا ۔ جس سے‬
‫عربوں کو یہ بتانا مقصود تھا کہ انہیں دنیا کی دوسری قوموں پر کوئی برتری حاصل‬
‫نہیں ہے ۔ اور اسالم انہی کے لئے مخصوص نہیں تھا وہ تو ساری دْنیا کے لئے تھا۔‬
‫مذہب کی تاریخ میں صرف گنتی کے چار پیغمبر عرب عالقوں کے اندر آئے تھے‬
‫باقی ہزاروں پیغمبر دوسری قوموں میں سے بھیجے گئے تھے۔‬

‫’’اسالم نے تو سب مسلمان قوموں کے درمیان برابری کا‬


‫اصول قائم کیا تھالیکن اس راہ اعتدال سے ہٹ کر ایک‬
‫طرف وہ عرب تھے جو اپنا جیسا اس روئے زمین پر کسی‬
‫دوسری قوم کو نہیں سمجھتے تھے اور دوسری طرف یہ‬
‫شعوبی تھے جنہیں عربوں میں کسی قسم کی کوئی خوبی‬
‫نظر نہ آتی تھی‘‘۔ (ص ‪ ،۸۶‬ایضا َ)‬

‫ابو نواس کی ماں ایران کے عالقے اہواز کی رہنے والی تھی اور اس کا باپ ایک‬
‫شامی عرب تھا لیکن غالم خاندان سے تھا۔ بہت چھوٹا تھا کہ باپ کا سایہ اس کے سر‬
‫سے اٹھ گیا ماں نے اسے ایک عطار کے ہاں مالزم رکھوا دیا جو غیر شادی شدہ تھا‬
‫اور لڑکوں کی جانب رغبت رکھتا تھا ۔ابو نواس نازک اندام‪ ،‬سرخ و سفید اور خوب‬
‫رو تھا یہ دن اس کے کچھ بننے کے تھے لیکن کردار کی جس دیوار میں بچپن سے‬
‫کجی آئی تو پھر کبھی سیدھی نہ ہو سکی اس کی ماں نے اْسے عطار کے ہاں چھوڑ‬
‫کر دوسری شادی کر لی اور پھر زندگی بھر اس نے اپنی ماں کی شکل نہ دیکھی۔‬

‫ان حاالت کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر ابو نواس کی شخصیت کا جائزہ لیا جائے تو‬
‫شاید وہ قصور وار نہ تھا کیونکہ اس نے بچپن سے ہی زندگی میں محرومیوں کے‬
‫سوا کچھ نہ دیکھا اسے بصرہ اور کوفہ میں جو اساتذہ میسر آئے وہ سب ناؤ نوش کے‬
‫روح رواں تھے۔‬

‫’’چنانچہ آغاز شباب ہی سے ابو نواس نے ان مجالس میں‬


‫جانا شروع کیا اور زندگی کا وہ لطیف اور رنگین پہلو بہت‬
‫قریب سے دیکھا۔اسی زمانے میں اس کے منہ کو شراب‬
‫لگیء جو پھر تمام عمر لگی رہی اور اس وقت تک نہ‬
‫چھوٹی جب تک اس نے موت کو اپنے سر پر منڈالتے نہ‬
‫دیکھ لیا‘‘۔ (ص ‪ ،۸۶‬ایضا َ)‬

‫جب زندگی میں انسان کو حاالت ایسے پیش آئیں کہ اس کے لئے صبح سے شام کرنا‬
‫جوئے شیر النے کے برابر ہو تو اس کے کردار و اطوار میں شائستگی اور پاکیزگی‬
‫کیسے آسکتی ہے۔ اس کی زندگی میں مثبت تبدیلی کے امکانات تو تھے اگر اسے‬
‫محبت میں آسودگی حاصل ہو جاتی لیکن یہ بھی ممکن نہ ہو سکا اس لئے وہ صحت‬
‫مند زندگی کی طرف کبھی نہ لوٹ سکا۔‬

‫اسے ثقفی خاندان کی ایک خو ب صورت لونڈی جنان سے محبت میں ناکامی نے‬
‫عورتوں سے ہمیشہ کیلئے برگشتہ کر دیا۔ اْس نے اْسے اپنی طرف متوجہ کرنے‬
‫کیلئے ہر طرح سے جتن کئے۔‬

‫"ایک دفعہ جنان اپنے مالک کے خاندان کے ساتھ حج کو‬


‫جانے لگی تو ابو نواس نے بھی باوجود اپنی ک ْھلی ہوئی‬
‫مذہب بیزاری کے حج کا فیصلہ کیا اور حرم کعبہ میں عین‬
‫اس وقت جبکہ جنان حجر اسود کو بوسہ دینے کے لئے‬
‫جھکی اس نے بھی مقدس پتھر کو بوسہ دیا۔‬
‫وعاشقین التف خداھما عندالتثام الحجر االسود" دو محبت‬
‫کرنے والے جن کے عارض حجر اسود کو چومتے ہوئے‬
‫باہم مل گئے"(ص ‪،۱۱۴‬ایضا ً)‬

‫ابونواس کی ان حرکتوں کی وجہ سے ثقفی خاندان نے اپنے خاندا ن کے ایک کھاتے‬


‫پیتے نوجوان سے اس کی شادی کر دی اور وہ اس شہر سے دور چلی گئی۔‬

‫اس کی اصل وجہ جنان خود بھی اس کو ناپسند کرتی تھی کیونکہ وہ لڑکپن میں جن‬
‫غلط توجہات کا شکار ہوا تھا اس نے اس کے مردانہ کردار اور طور طریقوں کو کافی‬
‫حد تک متاثر کیا اور اس کی شخصیت میں کوئی ایسی کمی واقع ہو گئی کہ وہ جنان یا‬
‫دوسری عورتوں کو اپنی طرف راغب نہ کر سکا۔‬

‫’’جنان نے بعض موقعوں پر اظہار بھی کیا تھاکہ یہ’’مخنث‬


‫‘‘کیا عشق کرے گا یہ اپنے عشق میں سچا ہو ہی نہیں‬
‫سکتا۔‘‘ (ص ‪ ،۸۱‬ایضا َ)‬

‫ابو نواس کے حاالت اور شخصی جائزے کے بعد اب اس کی شاعری کے موضوعات‬


‫کا جائزہ لیتے ہیں ۔‬

‫مردوں‬
‫اس کی شاعری کے نمایاں پہلوؤں میں شراب‪ ،‬خوب صورت لونڈیوں اورا َ‬
‫سے عشق اور شعوبی رجحان کے زیر اثر عربوں کی روایت سے شعوری بغاوت کا‬
‫رجحان نمایاں ہے۔ کہیں وہ دینی روایات اور اخالقیات کا منکر دکھائی دیتا ہے۔‬
‫اگر اس کی شاعری کا مطالعہ کریں تو وہ ملحدو زندیق نہیں لگتا کیونکہ اللہ تعالی ٰ‬
‫کی غفاری صفات پر اس کا پختہ یقین ہے ۔‬

‫’’ قسم میری جان کی! اگر خدا نے شراب کا یہ گناہ معاف‬
‫نہ کیا تو روز حساب میں ایک دردناک عذاب بھگتوں گا‘‘۔‬
‫(ص‪ ،۸۹‬ایضا َ)‬
‫ابونواس ایک سچا اور کھرا شاعر تھا اس نے اپنی شاعری میں انہی مناظر کی‬
‫عکاسی کی ہے جن میں وہ شب وروز گزارتا تھا ۔ وہ چاہتا تو اپنی ہم جنسی پرستی پر‬
‫عشق مجازی کا پردہ ڈال سکتا تھا لیکن اس نے ایسا نہ کیا۔‬

‫امرد پرستی کے حوالے سے اس کے اشعار مالحظہ کریں۔‬

‫’’ساقی گری پر ایک نوخیز مامور تھا ‪ ،‬نسوانیت سے بھر‬


‫پور اور نرم خو دیکھنے والے کی آنکھ اس پر پڑتی تو پھر‬
‫ہٹتی نہ تھی۔ مالئم جلد کا کہ انسان اس سے گلے مل کر لذت‬
‫پاتا ہے۔چاند کی صورت جب وہ پور ا ہو کر بھر جاتا ہے‬
‫بھاری کولھوں کے ساتھ جب وہ پیٹھ پھیر کر کے جاتا ہے‬
‫تو لگتا ہے جیسے کوئی پاؤں میں زنجیر پہنے پھسلن پر‬
‫چلتا ہو!‘‘(ص ‪ ،۱۰۱‬ایضا َ)‬

‫ایران کی تہذیب و ثقافت کے زیر اثر ابو نواس کی شاعری کا ایک موضوع شعوبیت‬
‫ہے۔عربی قصیدے کے مطلع میں شعراء نے اس روایت کو مذہبی شعار کی طرح‬
‫برقرار رکھا کہ اْجڑے ہوئے دیار کے سامنے کھڑ ے ہو کر محبوبہ کی یاد میں آنسو‬
‫بہانا۔‬
‫عربی قصیدے کی اس روایت کی تضحیک کرتے ہوئے ابو نواس اپنی شرارت بھری‬
‫نظم میں کہتا ہے۔‬

‫’’وہ شاعر جو ایک ویرانے کے سامنے کھڑے ہو کر روتا‬


‫آیا ہے اس سے کہو کہ کیا مضائقہ تھا اگر وہ کبھی بیٹھ بھی‬
‫جاتا‘‘۔ (ص ‪ ،۱۱۱‬ایضا َ)‬

‫امردپرستی اور شعوبیت یہ تینوں رویے اسالم کی رو سے پسندیدہ نہیں‬


‫شراب نوشی‪َ ،‬‬
‫تھے۔مذہب کے بارے میں اس کا موقف کیا رہا ہو گا۔یہ ہم بخوبی سمجھ سکتے ہیں‪،‬‬
‫مذہبی ریاکاروں اور خود ساختہ ناصحوں کے رویے سے بیزار ہو کر اس نے ایک‬
‫ایسی نظم کہی جس میں کھال کھال انکار پایا جاتا تھا۔‬
‫’’میں سمجھتا ہوں کہ میری یہ لذت پسندی‪ ،‬عشق بازی اور اس دْنیا کی اچھی چیزوں‬
‫سے بعجلت لطف اندوز ہونے کی خواہش ‪ ،‬یہ زیادہ مناسب اور دانائی کی بات ہے بہ‬
‫نسبت ایک ایسے آنے والے دن کے انتظار کے جس کے بارے میں میرا علم محض‬
‫سْنی سنائی باتیں ہیں اس لئے کہ ہمیں اب تک کسی نے بھی تو آکر یہ نہیں بتایا کہ‬
‫مرنے واال جنت میں گیا تھا یا دوزخ میں‘‘۔(ص ‪ ،۱۱۶‬ایضا َ)‬

‫آخری ایام میں جب وہ مرض الموت میں مبتال تھا تو عیادت کے لئے آنے والوں کو‬
‫انتہائی کمزوری کے باوجود نصیحت کرتا تھا۔‬

‫’’شراب بے آمیزش کبھی نہ پینا۔ میں نے اسے خالص حالت‬


‫میں پیا تھا تو دیکھ لو اس نے میرا جگر بھون کر رکھ‬
‫دیا‘‘۔ (ص ‪ ،۱۱۱‬ایضا َ)‬

‫اس کے دیوان کے آخری حصے میں ایک چھوٹی سی نظم ہے جس میں اس نے‬
‫زندگی کے آگےہتھیار ڈال دیئے تھے۔‬

‫"شباب تھا تو اپنے نفس کی اطاعت میں گزرتی تھی اب‬


‫ناتواں ہوا ہوں تو خدا کی اطاعت یاد آتی ہے۔" ہم نے ساری‬
‫ہی بْرائیاں کر ڈالی ہیں اے اللہ ! اب تو تیرے عفواور‬
‫درگزر پر نظر ہے" ۔(ص ‪ ،۱۱۱‬ایضا َ)‬

‫مصنف نے ان آخری ایام کے حوالے سے یہ تذکرہ نہیں کیا کہ اس نے یہ دن کس کے‬


‫پاس گزارے کیونکہ اس کا اپنا خونی رشتہ تو کوئی تھا ہی نہیں۔‬

‫اس کی شاعری اور فکر میں ہر صاحب فکر انسان کی طرح ایک کش مکش نظر آتی‬
‫ہے جو اْسے کسی لمحے مطمئن نہیں ہونے دیتی۔ شراب اور مغفرت دونوں رویے‬
‫ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ اس سب کے باوجود بطور انسان اس کے اخالق بہت اچھے تھے‬
‫وہ دوسروں کا مددگار اور ہمہ وقت دکھ درد میں ساتھ دینے واال تھا۔ مذکورہ باال‬
‫رویے اس کے ذاتی تھے جس سے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا۔‬
‫عربی شاعری ‪ ،‬ایک نئے دور میں زیر تبصرہ مضمون فنون کے شمارہ ‪ ۱،۱‬اپریل‬
‫مئی ‪۱۸۱۴‬ء ص ‪ ۴۳۴‬تا ‪۴۴۰‬‬

‫اس مضمون میں مصنف اس سے مراد دوسری عالمی جنگ کے بعد کادور لیتا ہے یہ‬
‫شاعری محض اپنے زمانے کی وجہ سے جدید نہیں ہے بلکہ اس میں ہیئت اور مواد‬
‫دونوں طرح سے تغیر واقع ہوا ہے کہ یہ عربی شاعری کی پندرہ سو سالہ روایت سے‬
‫بالکل مختلف دکھائی دیتی ہے۔عربوں کی جدید نسل آج کل زیادہ تر اسی شاعری کے‬
‫نئے تجربے کر رہی ہے ۔ دوسری طرف ایسے ادبی مجلے بھی ہیں جو اس نئی‬
‫شاعری کو سرے سے شاعری ہی تسلیم نہیں کرتے۔‬

‫دوسری عالمی جنگ نے جو تباہی مچائی اس نے پْرانی قدروں کی جگہ نئی قدریں‬
‫کھڑی کر دیں۔ سامراج کے خالف دلوں میں نفرت آخری حدوں کو پہنچ گئی اس‬
‫صورتحال کو مزید ہوا یہودیوں کے فلسطین۔‬

‫پر قبضے نے دی۔یہودیوں کے خالف پہلی جنگ (‪۱۸۴۱‬ء) میں عرب جن تلخ تجربات‬
‫سے گزرے اْن کی وجہ سے نئی نسل میں بغاوت نے جنم لیا اور ہر شعبہ حیات اس‬
‫کی زد میں آنے لگا۔‬

‫ان بحرانی حاالت میں جس شاعری نے جنم لیا اْسے "الشعر الشوری" (بغاوت کی‬
‫شاعری) کہا جاتا ہے عربی ادب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ قافیے اور وزن کی روایتی‬
‫شکل سے آزاد شاعری تخلیق ہوئی یہ شاعری حقیقت پسندانہ ہے۔‬

‫مصنف اس نئے دور کے شعراء کا تذکرہ کرتے ہوئے نوجوان عراقی شاعرہ نازک‬
‫المالئکہ کی اس نثری نظم کا حوالہ دیتا ہے جو اس نے مصر میں ہیضے کی تباہ‬
‫کاریوں سے متاثر ہو کر اس اْمید کے ساتھ لکھی تھی کہ عربی شاعری میں یہ ایک‬
‫نئے عہد کا آغاز ثابت ہو گی۔ یہ نظم اس شاعرہ نے ‪۱۹‬اکتوبر‪۱۸۴۹‬ء کو اہل خانہ کو‬
‫سنائی جن کا تعلق بھی ادب سے تھا۔ اس نظم پر اْسے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔‬
‫پھر ایک اور شاعر بدر شاکر السیاب کا دیوان شائع ہوا‪،‬تو اس میں اسی طرح کی نظم‬
‫شائع ہوئی۔اس طرح کی شاعری کی تخلیق کا مقصد اپنے جذبات کا بے ساختہ اظہار‬
‫ہے تاکہ قافیوں اور ردیف کی پابندیوں میں اْلجھ کر کہیں اصل مقصد ہی نہ فوت ہو‬
‫جائے ۔‬

‫فدوی طوقان بھی اپنے دل خراش تجربات کو ایک مکالمے کی‬


‫فلسطین کی شاعرہ ٰ‬
‫صورت میں پیش کرتی ہے۔‬

‫سلیمان ٰ‬
‫العیسی باوجو د پابند شاعری کے نئے شعراء میں بڑے احترام سے دیکھا جاتا‬
‫ہے۔‬

‫عربوں میں موجودہ دور میں سب سے مقبول عام جذبہ عربی قومیت کا ہے اس دائرے‬
‫میں ہر وہ شخص سما سکتا ہے جس کی مادری زبان عربی ہو مذہب چاہے کوئی بھی‬
‫ہو۔‬

‫مصنف اس تلخ حقیقت کی طرف توجہ دالتا ہے کہ جب سے عربی قومیت کا سامنا‬


‫اشتراکیت سے ہوا تو یہاں بھی اشتراکیوں نے ظن و تشکیک اور جاسوسی قائم کرنا‬
‫شروع کر دی ہے مسئلہ فلسطین عربوں کے لئے بہت اہم اور سنگین نوعیت کا ہے۔‬

‫آج کی عربی شاعری کے حوالے سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس نے خود کو سیاسی‬


‫اور سماجی مقاصد کا۔‬

‫پابند کر لیا ہے اور اس کی شاعری سے زندگی کے ہلکے پھلکے تفریحی پہلوؤں کے‬
‫حوالے سے داخلی احساسات کا اظہار کم ہوتا جارہا ہے لیکن یہ کلیتا َ ََ ختم نہیں‬
‫ہوا۔جدید شاعرنزارقبانی کی نظم "محبت اور پٹرول"داخلی کیفیت کا اظہارکرتی ہے۔‬
‫"تم کب سمجھو گے ‪ ،‬اے میرے سردار!‬

‫کہ میں تمہاری داشتاؤں کی طرح ایک داشتہ نہیں۔‬

‫اور نہ تمہاری عروسی فتوحات میں ایک اور فتح ہوں۔‬

‫نہ میں ایک ہندسہ ہوں تمہاری شادی کے رجسٹر کا (جو ہر سال اس میں درج ہوتا‬
‫ہے)‬
‫تم کب سمجھو گے اے میرے سردار ‪ ،،‬اے صحرا کے شتر بےمہار !(ص ‪،۱۴۱‬‬
‫ایضا َ)‬

‫ایک عرب شاعرہ کی ڈائری سے‬

‫زیر نظر مضمون "فنون" کے شمارہ ‪۱‬‬

‫ص ‪ ۱۱‬تا ‪ ۱۶‬پر جون ‪۱۸۹۳‬ء میں شائع ہوا۔‬

‫فدوی طوقان کی نثری تحریریں بطور فن‬


‫ٰ‬ ‫اس مضمون میں مصنف فلسطینی شاعرہ‬
‫پارے کے پیش کرتا ہے تاکہ قارئین ان نثری تحریروں کو پڑھیں جو اس نے‬
‫روزنامچہ کی صورت میں تحریر کی ہیں اور اس کا اسلوب دیکھیں کہ وہ قادر الکالم‬
‫شاعرہ ہونے کے ساتھ عربی کی بے مثل نثر نگار بھی ہے یہ ڈائری پرخلوص ‪ ،‬بے‬
‫باک اور اپنی مصنفہ کے حوالے سے بہت کچھ بے نقاب کرتی ہے ۔‬
‫زیر تبصرہ کتاب کے مصنف نے اس ڈائری میں کچھ مخففات کی تفصیل حواشی میں‬
‫دی ہے تاکہ قاری دوران مطالعہ کسی الجھن کا شکار نہ ہو۔‬

‫اس ڈائری کے کچھ صفحات حیفا کے رسالے "الجدید‘‘میں شائع ہوئے تھے ‪ ،‬شاعرہ‬
‫کی نثر بھی کہیں شاعری کا لطف دے جاتی ہے اس ڈائری میں ‪۳۱‬الگ الگ تحریریں‬
‫ہیں ۔‬

‫ان تحریروں میں شاعرہ نے فلسطین کے حاالت کے حوالے سے اپنی داخلی کیفیات‬
‫بیان کی۔‬

‫ہیں۔مختلف شہروں میں اپنے سفر کا ذکر کیا ہے وہ اپنے فکری جمود پر متفکر ہے‬
‫ک یونکہ حاالت کی وجہ سے وہ ایک طرح اپنے گھرمیں بند ہے اس لئے اس کے‬
‫موضوعات ختم ہو چکے ہیں پھر جوان سال بھائی نمر کی موت کے باعث اس کا دل‬
‫زندگی کی دلچسپیوں سے اْچاٹ ہو گیا فلسطین پر اسرائیلی قبضے نے ان کی زندگیاں‬
‫ویراں کر دیں ۔ وہ ایک حوصلہ مند مصنفہ ہے جو حاالت سے فرار کی بجائے وہیں‬
‫رہنے کو ترجیح دیتی ہے ۔ اپنا وطن اس کیلئے زندگی کی سب سے بڑی نعمت ہے‬
‫آخری تحریر میں وہ بتاتی ہے کہ فکری جمود ختم ہو گیا وہ پانچ نظمیں لکھ کر وہ‬
‫خود کو آسودہ محسوس کر رہی ہے۔‬

‫مصنف نے ان تحریروں کا تنقیدی جائزہ نہیں لیا بلکہ اس کا مقصد ہمیں ایسی نثر سے‬
‫متعارف کروانا ہے جو مشکالت میں بھی جینے کا حوصلہ دیتی ہے اس طرح ہمیں‬
‫اس حساس اور چوٹ کھائے ہوئے دل کی عرب شاعرہ کی داخلی کیفیات کو جاننے کا‬
‫موقع ملتا ہے۔‬

‫عربی افسانہ جون ‪۱۸۱۹‬ء کی شکست کے بعد زیرتبصرہ مضمون فنون کے شمارہ‬
‫ہوا‬ ‫شائع‬ ‫پر‬ ‫‪۳۱‬‬ ‫تا‬ ‫‪۹۱‬‬ ‫ص‬ ‫‪۱۸۹۰‬ء‬ ‫فروری‬ ‫‪،۴‬‬
‫زیر موضوع کتاب میں شامل اس مضمون میں مصنف نے عربی افسانے کے حوالے‬
‫سے بات کی ہے یہاں وہ ایک مجلس مذاکرہ کے متعلق بتاتا ہے جو ‪ ۱۱،۱۱‬ستمبر‬
‫‪ ۱۸۱۸‬ء کو" ادب اور معاشرہ " کے موضوع پر ماسکو میں منعقد ہوئی لبنان کے‬
‫ادباء کے اس وفد کو سوویت رائٹر ز یونین نے دعوت دی اس مجلس مذاکرہ کی دو‬
‫نشستیں ہوئیں دوسری نشست میں کچھ مقالے پڑھے جن میں سے ایک مقالے کا‬
‫عنوان مذکورہ باال تھا۔‬

‫جون ‪ ۱۸۱۹‬ء میں اسرائیل کے ہاتھوں عرب جس شکست سے دوچار ہوئے اس سے‬
‫نہ صرف ادب بلکہ ان کی پوری زندگی متاثر ہوئی اس کا اظہار ان کی نظم و نثر‬
‫دونوں میں شدت سے ہوا۔ اس شکست کے بعد عربی افسانے کے اسلوب اور‬
‫موضوعات میں نمایاں تبدیلیاں آئیں۔ افسانہ حقیقت اور واقعے کے اور زیادہ قریب ہو‬
‫گیا اسلوب میں جر ٗات پیدا ہو گئی ادباء کے ایک۔‬

‫خاص گروہ میں اس کا اثر قدرے مختلف انداز میں ہوا ۔ان کی کہانیوں میں تلخی اور‬
‫یاس آمیز احتجاج کی پرچھائیاں دکھائی دینے لگیں۔ فن برائے فن کا نظریہ ختم ہو گیا‬
‫اور اس کا عملی اظہار تخلیقی صورت میں نظر آنے لگا۔‬

‫‪ ۱۸۱۹‬ء کی شکست کے بعد جو افسانے لکھے گئے ان کے موضوعات میں اس کے‬


‫ہیں۔‬ ‫دیتے‬ ‫دکھائی‬ ‫واضح‬ ‫اثرات‬
‫ان افسانوں میں محاذ پر شکست کے واقعات کی تصویریں نظر آتی ہیں ایسے افسانے‬
‫بھی ہیں جو عوامی مسلح مقابلے کی تحریک کے بارے میں ہیں ۔ان میں فنی‬
‫کمزوریوں کے اند ر اس شکست خوردہ قوم کا رزم نامہ بھی ملتا ہے‪ ،‬بعض افسانے‬
‫ایسے ہیں جو اپنے موضوعات عرب ممالک کی داخلی زندگی سے حاصل کرتے‬
‫ہیں۔کچھ افسانے ایسے ہیں جن کے ادباء فلسطین کے مقبوضہ عالقوں کے باشندے‬
‫ہیں۔تجربے کی صداقت اور حرارت ان افسانوں کا بنیادی وصف ہے۔‬

‫آخر میں یہ کہنا چاہوں گی کہ حاالت و واقعات کی تلخیاں جیون دھارے کو یکلخت‬
‫بدل دیتی ہیں اور زندگی ایک ایسی نہج پر چل پڑتی ہے جس کے متعلق کبھی سوچا‬
‫بھی نہیں ہوتا۔‬

‫ایک فلسطینی شاعر کا سفر زندگی محمود درویش‬

‫زیرتبصرہ مضمون فنون کے شمارہ ‪ ۶ ،۴‬ستمبر‪ ،‬اکتوبر ‪ ۱۸۹۳‬ء ص ‪ ۱۱‬تا ‪ ۱۶‬میں‬


‫شائع ہوا۔‬

‫مذکورہ باال مضمون فلسطینی شاعر محمود درویش کی زندگی کے نشیب و فراز کا‬
‫احاطہ کرتا ہے۔ مصنف بتاتا ہے کہ یہ مضمون دراصل ایک انٹرویو ہے جو محمود‬
‫درویش نے اسرائیل کی اشتراکی پارٹی کے ایک رسالے کو عبرانی زبان میں دیا تھا۔‬
‫یہ انٹرویو ایک خود کالمی کی صورت میں شائع کیا گیا حیفا کے رسالے "الجدید" نے‬
‫اسے عربی میں منتقل کیا اور عربی سے یہ اْردو ترجمہ مصنف نے قارئین کے لئے‬
‫کیا ہے۔‬

‫محمود درویش آج کی عربی نسل کے سات یا آٹھ چوٹی کے شعراء میں سے ایک ہیں‬
‫اس کی نظم "سجل ‪:‬انا عربی "(لکھ لو کہ میں عرب ہوں )یہ شاعر کا تعارفی کارڈ‬
‫ہے۔‬

‫اس کی شاعری میں انسانیت کا گہرا شعور ملتا ہے جو اس نے زندگی کے تجربات‬


‫سے ہی حاصل ک یا ہے ۔ اس کی زندگی کیا ہے اور زندگی کے سفر میں اُسے کیا‬
‫سانحات پیش آئے اور وہ کن تجربات کی ب ّھٹی سے گزرکر کندن بنا ۔ مذکورہ انٹرویو‬
‫میں اس نے اسی قسم کے سواالت کے جوابات دیئے ہیں ۔ اس کے حاالت زندگی ہم‬
‫انسانوں کے لئے مشعل راہ ہیں اور حوصلہ دیتے ہیں کہ زندگی کی کٹھن راہوں کا‬
‫جذبہ کامل کے سامنا کرنا چاہیے ۔وہ عرب دنیا سے قطع نظر انسانیت سے محبت‬
‫کرنے واال اور اْن کے دکھوں کو محسوس کرنے واال شاعر ہے۔ وہ اپنے حوالے سے‬
‫بتاتا ہے۔‬

‫’’مجھے اپنی انسانیت پر فخر ہے اور میں پہال عرب شاعر‬


‫ہوں جو ایک اسرائیلی سپاہی کو جون کی جنگ کے بعد بھی‬
‫اپنے انسانی رشتے کے واسطے سے مال تھا۔ اس سپاہی نے‬
‫اپنا دل کھول کر میرے سامنے رکھ دیا اور میں نے اس کا‬
‫یوں سواگت کیا جیسے وہ جنگ سے پہلے کا میرا کوئی‬
‫میت ہو‘‘۔ (ص ‪ ، ۱۸۱‬ایضا ً)‬

‫اس کے اندر ادیبانہ بڑائی اور تفاخر کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔وہ چاہتا ہے کہ قارئین‬
‫‪ ،‬اس کی فکر‪ ،‬موضوعات اور اسلوب کے حوالے سے تنقید کریں۔ وہ کھری اور بے‬
‫ال گ گفتگو کرنے واال ادیب ہے۔‬

‫’’میں اپنے آپ کو ایک پختگی کو پہنچا ہوا شاعر نہیں‬


‫سمجھتا۔میں اپنے فن کے بارے میں قطعا َ مطمئن نہیں ہوں۔یہ‬
‫ٹھیک ہے کہ میں نے اپنی فنی کارکردگی میں کچھ کامیابیاں‬
‫بھی حاصل کی ہیں اور مجھے اپنے تضادات پر غلبہ پانے‬
‫کی توفیق بھی ملی ہے‘‘۔(ص ‪ ،۱۸۹‬ایضا َ)‬

‫سرسبز پہاڑی پر واقع خوب صورت اور پْرسکون قصبہ البروہ کبھی اس کی یادوں‬
‫سے محو نہ ہو سکا جس کا بعد میں وجود ہی ختم ہو گیا تھا پھر وہ اپنے ہی ملک میں‬
‫پناہ گزین بن کر رہ گیا۔‬

‫اپنے شاعرانہ جذبات کے حوالے سے وہ انتہائی دکھ آمیز لہجے میں کہتا ہے۔‬
‫" میری شاعری نے آنکھ کھولتے ہی میری راہ میں کانٹے بچھا دیئے اور مجھے‬
‫فوجی آمروں(‪)۱۴‬‬

‫سامنے ال کھڑا کیا۔ (ص ‪ ،۱۱۸‬ایضا َ)‬

‫وہ اسرائیلی یہودیوں سے شدید نفرت کے باوجود اپنی یہودی استانی شوشنہ کا بہت‬
‫احترام کرتا ہے۔‬

‫’’وہ استانی نہیں تھی ‪ ،‬ایک ماں تھی ‪ ،‬اس نے مجھے نفرت‬
‫کے جہنم سے نکاال وہ پْر خلوص خدمت کی عالمت تھی جو‬
‫ایک نیک سیرت یہودی اپنی قوم کے لئے کر سکتا ہے اس‬
‫نے مجھے ترغیب دی کہ میں تو راۃ کو بطور ایک ادبی‬
‫شاہکار کے پڑھا کروں‘‘۔ (ص ‪ ،۱۸۱‬ایضا َ)‬

‫جون ‪۱۸۱۹‬ء کے بعد کی جدید عربی شاعری زیر تبصرہ مضمون فنون کے شمارہ‬
‫‪ (۱‬اگست ‪ ،‬ستمبر ‪۱۸۹۱‬ء)ص ‪ ۱۳‬تا ‪ ۱۹‬میں شائع ہوا ۔‬

‫زیر موضوع مضمون میں مصنف جون ‪۱۸۱۹‬ء کے بعد تخلیق ہونے والی عربی‬
‫شاعری کا موضوعاتی جائزہ لیتا ہے۔وہ شعراء کی بدلتی ہوئی فکر‪ ،‬اسلوب اور داخلی‬
‫کیفیات پر غور کرتا ہے کہ ‪۱۸۴۱‬ء کی شکست کے بعد وہ دل کو گدگدانے والے‬
‫احساسات سے عاری ہو چکی ہے اس کی جگہ یاس و برہمی کے رویے نے لے لی۔‬
‫خوش آئند اور اْمید افزاء رویے شاعری سے بہت دْور چلے گئے۔‬
‫مصنف اس جنگ کے اثرات کا ذکر اس انداز سے کرتا ہے‬

‫’’جون ‪ ۱۸۱۹‬ء کی چھ روزہ جنگ میں عربوں نے اسرائیل کے مقابلے میں جو‬
‫ہزعیت اْٹھائی ‪ ،‬یوں لگتا ہے جیسے کوئی آفت غیب سے نمودار ہو کر اْن پر ٹوٹ‬
‫پڑی تھی۔یہ تاریخ کا سانحہ تھا ناگہاں‪ ،‬پْر ہول اور اٹل عربوں کا وہ زعم کہ ان کے‬
‫پاس جذبہ ایمان کی طاقت ہے اور جدید روسی اسلحہ بھی ایک فریب نظر سے زیادہ‬
‫کچھ بھی ثابت نہ ہوا‘‘۔ (ص ‪ ،۱۰۰‬ایضا َ ََ)‬
‫اس شکست کے اثرات بعد کی عربی شاعری پر کافی نمایاں ہیں ۔زیادہ مایوس ردعمل‬
‫یہ سامنے آیا کہ شاعر کا خود اپنے وجود کے جواز سے ایمان جاتا رہا۔‬

‫قنوطیت کے اس دور میں حوصلہ مند اور پْرامید شاعری کی آوازیں بھی ہم تک پہنچ‬
‫رہی ہیں جو مقبوضہ فلسطین کے اندر ہی ہو رہی ہیں۔ محمود درویش اور سمیح القاسم‬
‫کی نظموں میں جر ٗات مند انہ رویہ ملتا ہے جو اس قنوطیت کے دور میں خوش آئند‬
‫ہے۔‬ ‫لگتا‬
‫جون ‪۱۸۱۹‬ء کے بعد کی شاعری میں عورت کا وجود خال خال ہی نظر آتا ہے۔‬

‫شاعر حسب الشیخ جعفر کہتا ہے‬

‫بیسو ہے جو اپنی عریانی کے دام وصول کرتی‬


‫’’اب وہ ٹیکسی میں بیٹھی ہوئی ایک ٰ‬
‫ہے جس کے دانت بھی مصنوعی ہیں اور بال بھی مصنوعی‘‘(ص‪ ، ۱۰۱ ،‬ایضا َ ََ)‬

‫ان شعراء نے اپنے تجربات الگ الگ انداز میں پیش کئے ہیں ۔‬

‫ہے‬ ‫کرتا‬ ‫بیان‬ ‫یوں‬ ‫تجربہ‬ ‫اپنا‬ ‫قبانی‬ ‫نزار‬


‫"اس کے جسم کے خطوط آج بیگانہ تھے‬
‫تھا‬ ‫سرد‬ ‫بستر‬ ‫اور‬
‫تھا‬ ‫لگتا‬ ‫ٹھنڈا‬ ‫بہت‬ ‫بھی‬ ‫موسم‬ ‫ٹھنڈا‬ ‫اور‬
‫اْس کا سینہ ایک مرجھائی ہوئی نارنگی تھی"‬

‫‪،‬‬ ‫‪۱۰۳‬‬ ‫(ص‬


‫ایضا َ ََ)‬

‫مصنف یہاں ان شاعروں کے نقطہ نظر سے اختالف کرتا ہے کہ ان کا رویہ عورت‬


‫کے بارے میں غیر محتاط اور قنوطی ہے‪ ،‬یہ شعراء یقیناًایک انتہائی رد عمل کا‬
‫شکار ہیں۔‬

‫وہ کہتا ہے‬


‫’’ان شعراء کی نگاہ اْن پاک دامن دو شیزاؤں کی طرف نہیں‬
‫جاتی جو وطن پر اپنی جان اور آبرو نچھاورکرنے گھر سے‬
‫نکل کر کھڑی ہوتی ہیں اور نہ ان ماؤں اور بہنوں کی‬
‫طرف جاتی ہیں جو اپنے جوانوں کو زاد‘‘ (‪)۱۱‬‬

‫راہ دے کر محاذکی طرف بھیجتی ہیں اور پھر ان کے نیک انجام کی دعا مانگتی‬
‫ہیں"!(ص ‪ ،۱۰۴‬ایضا َ ََ)‬

‫اس المیے کے بعد عربی شاعری میں جو دوسرا رویہ زیادہ عام اور ہمہ گیر ہے وہ‬
‫اپنی ذات کی تحقیر و تذلیل ہے ۔ شاعر کا یہ احساس شدت اختیار کر جاتا ہے وہ اس‬
‫مصیبت میں لفظوں کے تیر چالنے کے سوا کچھ اور نہیں کر سکتا اسے احساس‬
‫ہے۔‬ ‫دیتا‬ ‫کر‬ ‫مبتال‬ ‫میں‬ ‫کمتری‬
‫ایک ممتا ز شاعر ایڈونس حسرت بھرا اعتراف کرتا ہے۔‬

‫ہمیں نہ آسماں نے جنم دیا‪ ،‬نہ اس خاک نے‬


‫ہیں‬ ‫ناپید‬ ‫وجود‬ ‫ایک‬ ‫ہم‬ ‫ہیں‬ ‫نیستی‬ ‫ہم‬
‫ہم آسمان اور اس کی کہکشاؤں سے جھاڑی ہوئی گرد‬
‫ہیں‬
‫ہم زندگی کی اْترن ہیں اس کی دھات کا زنگ ہیں‬

‫(ص ‪۱۰۱‬‬
‫‪ ،‬ایضا َ ََ)‬

‫مصنف کہتا ہے محبت میں اگر دل ساتھ نہ دیں تو جسم ٹھنڈے ‪ ،‬بے جان جسم دو قدم‬
‫بھی نہیں چل سکتے ۔ اس لئے دلوں میں حرارت ہونا ضروری ہے۔‬

‫فلسطینی شاعر محمود درویش اور سمیح القاسم کی شاعری میں اْمید اور زندگی کا‬
‫پیغام ملتا ہے۔‬
‫مذکور االول شاعر کی شاعری میں عورت‪ ،‬شکست اور اس کے ساتھ انقالب کا بھی‬
‫ذکر ہوتا ہے اس لئے وہ کچھ بھی کہتا ہے اس میں توانائی‪ ،‬صفائی اور روشنی ہے۔‬

‫مذکور الثانی شاعر کہتا ہے‬

‫’’اے میری محبت کے چہرے! اے آنسوؤں میں روشن‬


‫چاند!‬
‫اے بارشو‪ ،‬درختو‪ ،‬پھولو! اے روشنیو ‪ ،‬گھنٹیو‪ ،‬موسیقی‬
‫مدھرتانو!‬ ‫کی‬
‫ہر موت کے بعد ایک میالد ہوتا ہے اور میں‬
‫اْس میالد کا منتظر ہوں‪ ،‬اْس نئے جنم کی راہ دیکھ رہا‬
‫ہوں‘‘۔‬

‫‪،‬‬ ‫‪۱۰۱‬‬ ‫(ص‬


‫ایضا َ ََ)‬

‫زندگی میں کسی موسم کو دوام نہیں اس لئے ہر خزاں کے بعد بہار ضرور آتی ہے‪،‬‬
‫رات جتنی بھی تاریک ہو روشن صبح ضرور آتی ہے اس لئے شاعر جس نئے جنم کا‬
‫منتظر ہے وہ ضرور آئے گا۔‬

‫اخوان الصفا ء اور دوسرے مضامین (تحقیقی و تنفیدی جائزہ)‬

‫مذکورہ باالکتاب‪۱۹۶‬صفحات پر مشتمل ہے ۔مصنف محمد کاظم ‪ ،‬سنگ میل پبلی‬


‫کیشنز الہور سے ‪۱۰۰۳‬ء میں شائع ہوئی قیمت ‪ ۱۶۰‬روپے ہے۔یہ مضمون فنون کے‬
‫شمارہ ‪ ،۱۶‬نومبر دسمبر ‪ ۱۸۱۱‬ص ‪ ۹۱‬تا ‪ ۸۳‬میں شائع ہوا۔‬

‫بارہ مضامین پر مشتمل اس کتاب کے گیارہ مضامین ماہنامہ فنون کے مختلف شماروں‬
‫میں شائع ہو ئے اور ایک مضمون "عربوں کی سیرت نگاری ۔گزشتہ ایک صدی میں‬
‫"ماہنامہ"نصرت "میں شائع ہوا۔‬
‫معری"تین حصوں میں قدرے تفصیل‬
‫زیر تبصرہ کتاب میں شامل مضمون "ابو العالء ّ‬
‫سے زیر بحث شخصیت کی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے اور مصنف کی‬
‫فکری بصیرت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔پہلے ُجز میں عربی شاعری میں فکر کے عنصر‬
‫کے حوالے سے مصنف نے ابوالعالء کی شعری فکر کا جائزہ لیا ہے۔یہاں مصنف اس‬
‫حقیقت کو سامنے التاہے کہ سوچ اور فکر کا مکمل اظہار زیادہ تر نثر میں ہوتا ہے‬
‫اس کے برعکس شاعری میں اس کا اظہار نسبتا َ ََ مشکل ہے۔ اردو شاعری میں غالب‬
‫کے ہاں اس کا اظہار بہت موثر اندازمیں ملتاہے اسکے بعد حالی اور اقبال کے کالم‬
‫۔‬ ‫ہے‬ ‫آتی‬ ‫نظر‬ ‫میں‬ ‫صورت‬ ‫کی‬ ‫موتیوں‬ ‫دانائی‬ ‫و‬ ‫حکمت‬ ‫میں‬
‫عنصرکے حوالے سے مصنف کہتا ہے کہ عربی ادب میں‬
‫عربی شاعری میں اس کے ُ‬
‫فکر و تدبرکی کمی ہے اس کی وجہ وہاں کا ماحول اورآب وہوا ہے جو شعراء کے‬
‫مزاج پر اثر اندازرہی ہے۔اس لئے ان کی شاعری میں جوش و جذبہ محرک کے طور‬
‫پنپتا رہا۔ اس شاعر پر اظہار خیال سے پہلے مصنف عربی شاعری کے پانچ ادوار کا‬
‫جائزہ لیتا ہے۔‬

‫پہال دور زمانہ جاہلیت کی شاعری کا ہے اس دورکی شاعری میں سبع معلقا ت کے‬
‫سلمی ‪ ،‬لبید بن ربیع اور طرفہ بن العبد کے ہاں حکمت و‬
‫ٰ‬ ‫تین شعراء ُزہیر ابن ابی‬
‫عنصر نمایاں طور پرنظر آتا ہے۔‬
‫دانائی کا ُ‬

‫دوسرا دور صدر اسالم اور اْموی دور کو کہا جاتا ہے اس دورکے اہم شعراء میں عمر‬
‫بن ربیعہ ‪ ،‬جمیل اور قیس کی شاعری عشقیہ موضوعات کا بہترین نمونہ ہے۔تیسرا‬
‫دور عباسی دور کہالتا ہے اس کے مشہور شعرا میں بشاربن برد ‪،‬ابو نواس ‪،‬‬
‫معری شامل ہیں‪ ،‬چوتھا دور نسبتا َ ویران اور‬
‫ّ‬ ‫ابوتمام‪،‬متبنی اور آخر میں ابوالعالء‬
‫بنجر ہے اس میں کوئی قابل ذکر شاعر منظر عام پر نہیں آتا۔پانچواں اور آخری دور‬
‫جدید دور کہالتا ہے اس میں محمودسامی البارودی ‪ ،‬احمد شوقی ‪ ،‬محمود درویش اور‬
‫نزارقبانی جیسے شعراء شامل ہیں۔فلسطین کی مزاحمتی شاعری بھی اسی دور میں‬
‫تخلیق ہوتی ہے۔‬
‫معرۃ النعمان میں پیدا ہوا اور چھیاسی سال عمر پائی۔‬
‫ابوالعال ء معری شام کے شہر ّ‬
‫اس کا دیوان "لزومیات " تیرہ سو صفحات پر مشتمل ہے اس شاعر کی فکر کے‬
‫خطوط متعین کرنے کے لئے مصنف چند سوال ترتیب دیتا ہے اور پھر اس کی‬
‫شاعری میں اس کے جواب تالش کرتاہے۔‬

‫‪ ۱‬۔"کیا دنیا اپنے تمام مصائب کے باوجود ایک بہترین دنیا ہے جیسا کہ‪ Leibniz‬اور‬
‫اس کی طرح کے دوسرے رجائیت پسند لوگوں کاخیال ہے؟ یا یہ کہ ایک بد ترین دْنیا‬
‫ہے جیسا کہ شو پنہار کی‪ Pessimism‬اسے قرار دیتی ہے؟‬

‫‪۱‬۔کیا اس زندگی میں انسان اپنے اعمال میں مختار ہے یا مجبور؟‬

‫‪۳‬۔ کیا انسان اپنی جبلت میں اچھا ہے یا بْرا ؟‬

‫‪ ۴‬۔کیا معامالت زندگی میں انسان کی بہتر رہنما اس کی عقل ہو سکتی ہے یا اس کا‬
‫عقیدہ اوروجدان؟‬

‫‪ ۶‬۔ کیا عبادات اور مذہبی شعائر مقصودبالذات ہیں یا یہ انسان کی اچھائی اور نیکی کے‬
‫لئے وسیلہ ہیں ؟۔‬

‫(ص ‪،۳۰‬اخوان الصفا ء اور‬


‫دوسرے مضامین)‬

‫یہاں مصنف شاعر کے عربی اشعارمع ترجمہ پیش کرتا ہے جو اس کی فکر کے تمام‬
‫زاویوں کو ہم پر واضح کرتی ہے ۔کیونکہ ایک گروہ نے اسے کافر اور ملحد قرار دیا‬
‫ہے جبکہ دوسرے گروہ نے اسے مومن اور صحیح العقیدہ سمجھا ہے اور اس کے‬
‫ہیں۔معری اپنے اشعار میں طویل العمری کو ناپسند کرتا ہے اور‬
‫ّ‬ ‫حق میں دالئل دیے‬
‫ان لوگوں پر اظہار حیرت کرتا ہے جو طویل عمر کے خواہش مند ہیں ۔‬

‫وہ کہتا ہے ۔‬
‫یہ زندگی تمام کوفت اور تھکن ہے مجھے حیرت اس پہ ہے‬
‫جو اس میں زیادہ کا طلبگار ہوتا ہے۔(ص ‪،۳۱‬ایضا ً )‬

‫ا نسان کے مجبور اور مختار ہونے کے حوالے سے ہر دور کے شعراء نے اپنے‬


‫خیاالت مختلف انداز میں پیش کئے ہیں اس ضمن میں ابو العالء کہتا ہے ۔‬

‫’’جب نہ میرا جنم ‪،‬نہ بڑھاپا اور نہ زندگی میرے اختیار‬


‫میں ہے تو میری مرضی اور پسند کے لئے کیا باقی رہ جاتا‬
‫ہے ؟میرا ٹھہرنا میری تقدیر کے تابع ہے اور میرے چلنے‬
‫کا فیصلہ نہ ہو تو میں چل بھی نہیں سکتا ‘‘۔(ص ‪،۳۱‬ایضا)‬

‫یہ سوال ہر دور میں اہل فکر و فلسفہ اٹھاتے رہے ۔اور اپنے تئیں اس کے جواب بھی‬
‫دیتے رہے لیکن انسان کی فطرت کوسمجھنابہت مشکل ہے اس حوالے سے ہر ایک‬
‫کی رائے مختلف ہے ۔‬

‫ابو العال معّری اس حوالے سے کہتا ہے‬

‫’’انسان کی فطرت میں فساد ہے جو کوئی بھی اپنی دانائی‬


‫کے بل پر اس کی تہذیب و اصالح کا بیڑا اٹھاتا ہے وہ کہیں‬
‫نہیں پہنچ پائے گا ‘‘۔ (ص ‪،۳۱‬ایضا ً )‬

‫عقل اور وجدان کے درمیان جنگ ازل سے ہے اہل فکر حضرات عقل کو ہمیشہ‬
‫فوقیت دیتے رہے ہیں اور اسے رہبر قرار دیتے ہیں ہمارایہ شاعر عوام النا س کو‬
‫سمجھاتا ہے کہ عقل سے بڑھ کر امام کوئی نہیں ۔‬

‫’’لوگ اس امید میں ہیں کہ ایک امام آئے گا جو اُمت بے‬


‫زبان کے درمیان اُٹھ کر حق کا بول بولے گا یہ لوگ جھوٹے‬
‫گمان میں ہیں اس لئے کہ عقل کے سوا کوئی امام نہیں جو‬
‫انسان کی صبح و شام رہنمائی کرے‘‘۔(ص ‪،۳۳‬ایضا ً )‬
‫اعلی مسند پر فائز ہے انسانی‬
‫ٰ‬ ‫ابوالعالء ایک نابینا شاعر ہو کر بھی فکرو دانش کی‬
‫فطرت کے حوالے سے اس کی فکر سند کا درجہ رکھتی ہے اندھا دھند مذہبی عقائد‬
‫کی پیروی کرنے والوں کو وہ عقل سے عاری سمجھتا ہے ۔ وہ فکر کے حوالے سے‬
‫انسانوں کو منقسم کرتے ہوئے کہتا ہے ۔‬

‫’’دنیا میں انسان دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جو عقل‬


‫رکھتے ہیں لیکن ان کامذہب کوئی نہیں ہوتا اور دوسرے وہ‬
‫جو دین دار ہوتے ہیں لیکن عقل سے انہیں کوئی سروکار‬
‫نہیں ہوتا‘‘۔(ص ‪ ،۳۴‬ایضا )‬

‫مذہبی شعائر کی پابندی کا ڈھونگ دنیا ازل سے رچاتی رہی ہے لیکن انسانیت کے‬
‫۔معری کو اس‬
‫ّ‬ ‫حوالے سے ان کے جذبات کی سرد مہری میں کبھی جوش پیدا نہ ہوا‬
‫لئے کافر قرار دیا گیا کہ وہ ایسی دینداری سے منحرف تھا جس میں انسانیت کا احترام‬
‫اور حقوق کی پاسداری شامل نہ ہو ۔‬

‫’’اے مبتالئے فریب!تجھے یہ وہم ہے کہ تو دیندار ہے خدا‬


‫کی قسم دین تو تجھے چھو کر بھی نہیں گیا بڑا عابد و زاہد‬
‫بنا حج کے لئے جاتا ہے اور حال یہ ہے کہ تمھارا غریب‬
‫ہمسایہ اور ساتھی تم سے ناالں ہے‘‘۔(ص ‪،۳۴‬ایضا ً )‬

‫ی کہ کنارہ کشی‬
‫ابو العال معّری نے تمام زندگی اپنی فکر سے سمجھوتہ نہ کیا حت ّٰ‬
‫اختیار کر کے اس نے خود کو گھر کے اندر مقید کر لیا اور خود پر کچھ خود ساختہ‬
‫پابندیاں کر لیں ۔ گوشت ‪،‬انڈے اور دودھ کا استعمال بالکل چھو ڑ دیا شادی کے‬
‫معاملے کو اپنی زندگی سے بالکل خارج کر دیا ۔کچھ محرومیاں اسے ایسی ملیں جن‬
‫کی وجہ سے اس نے گوشہ تنہائی کو ہی عافیت سمجھا وہ ساڑھے تین برس کا تھا کہ‬
‫اس پر چیچک کا حملہ ہوا جس کی وجہ سے اس کی بائیں آنکھ کی بینائی ختم ہو گئی‬
‫اور چھ برس کی عمر میں وہ مکمل طورنابینا ہو گیا اس کے بعد کی طویل زندگی اس‬
‫نے بے نور آنکھوں کے ساتھ گزاردی ۔‬
‫ایک باشعور انسان کے لئے زندگی کی رعنائیاں بے معنی ہوتی ہیں اس لئے اس کے‬
‫اسلوب میں جارحیت کے عناصر ہوتے ہیں کیونکہ اس معاشرے میں اسے وہ پذیرائی‬
‫نہیں ملتی جس کا وہ مستحق ہوتا ہے ۔‬

‫زیر تبصرہ مضمون تبصرہ نگار نے ایک توسیعی لیکچر میں سینٹ ہال الہور میں‬
‫پڑھا تھا ۔ اس کے بعد مصنف نے ابو العالمعّری کی زندگی اور فکر کے حوالے سے‬
‫دو حصوں پر مشتمل مضمون تحریر کیا جو فنون کے شمارہ ‪۳۸‬اپریل ‪،‬جوالئی‬
‫‪۱۸۸۳‬ص ‪۱۱‬تا ‪۱۱‬پرابو العالمعّری "عربی شاعری میں فکر و فلسفہ اور یاس برہمی‬
‫کی آواز"کے عنوان سے شائع ہوا ۔‬

‫معّری کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ اس کی فکر میں یاس و برہمی کے عناصر بدر‬
‫جہ اتم موجو د ہیں لیکن کسی نے اس کے اسباب جاننے کی زحمت نہیں کی ۔ یاس و‬
‫برہمی اس کے اندر سے باہر نہیں آئی بلکہ باہر سے اس کے اندر گئی اور ردّ عمل‬
‫کے طور پر سامنے آئی اس دور کے سیاسی اور سماجی حاالت اور عوام الناس کے‬
‫دیا۔‬ ‫کر‬ ‫متنفر‬
‫ّ‬ ‫سے‬ ‫زندگی‬ ‫مجلسی‬ ‫اْسے‬ ‫نے‬ ‫رویے‬ ‫آمیز‬ ‫تحقیر‬
‫تبصرہ نگار نے اس کی فکر کا جائزہ اس کی شاعری سے اخذ کیا ہے معری کے‬
‫سفر بغداد قیام بغداد نے جہاں اس کی سوچ کے بند دَر وا کئے وہاں اْسے تلخ حقائق‬
‫سے بھی دوچار کیا اور انہی رویوں کے موجب اس نے واپسی کاقصد کیا اور اس‬
‫کے بعد دوبارہ کبھی نہ جانے کا عہد کر لیا اور اْسے مرنے تک بخوبی نبھایا۔اہل فکر‬
‫اور فکر کی نئی طرح ڈالنے والوں کے خالف حاسدین کا گروہ ہمیشہ کارفرما رہا ہے‬
‫جو اْن کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر کے اْن کی فکر کو پس پشت ڈالنے میں منہمک‬
‫رہا۔‬

‫معری نے اپنا نقطہ نظر دلیل کے ساتھ پیش کیا ہے وہ بدنی عبادات کو نیکی کا معیار‬
‫ّ‬
‫نہیں سمجھتا اس کے لئے وہ قلب کی تطہیر کو بنیاد قرار دیتا ہے۔‬

‫’’بے شک تسبیح پھیرو نمازیں پڑھو اور مکے میں سات‬


‫نہیں ستر مرتبہ طواف کرو عابد و زاہد تم پھر بھی نہیں بن‬
‫سکو گے اس لئے کہ وہ شخص دین کے مفہوم سے ہی‬
‫ناآشناء ہے جو اپنی حرص و آز کے سامنے اپنے آپ پر‬
‫قابو نہ رکھ سکتا ہو‘‘‬

‫’’نیکی صرف روزے میں نہیں ہے کہ جس سے روزہ دار‬


‫نڈھال ہو جاتے ہیں اور نہ نیکی نماز اور خرقہ پوشی کا نام‬
‫ہے نیکی تویہ ہے کہ تم ہر طرح کی برائی کو اپنے آپ سے‬
‫جھٹک دو اور اپنے دل کو کینہ اور حسد سے پاک کر‬
‫دو‘‘۔(ص ‪ ،۱۴۶‬ایضا ً)‬

‫اگر ان خیاالت کی بناء پر اسے کافر کہا جائے تو سراسر ظلم ہے کیونکہ اس نے تو‬
‫اسالم کی صحیح رو ح کو پروان چڑھانے کی ترغیب دی ہے اور نیکی کسی چیز کا‬
‫نام نہیں بلکہ ایک عمل ہے جس میں کسی دوسرے کی شرکت الزمی ہے اس کے‬
‫بغیر یہ عمل کارفرما نہیں ہو سکتا اب ہمارے ہاں یہی نیکی رواج پاگئی ہے کہ ہر‬
‫طرح بْرائی کر کے بعد میں عباد ت کر لو اور صدقہ و خیرات دے کر ازالہ کر لو یا‬
‫حج کر کے پاک صاف ہو جاؤ۔دل آزاری کا شمار کسی ُزمرے میں نہیں ہوتا اور نہ‬
‫اس پر کوئی فردجرم عائد ہو تی ہے بلکہ اس موضوع پر بات کرنے والے کو کافر‬
‫قرار دے کر مذہب کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے ۔ حاالنکہ اس طرح کے جبر کی‬
‫مثال قرآن و حدیث میں کہیں نہیں ہے۔زندگی اختالف رائے سے عبارت ہے کیونکہ‬
‫عقیدت مندی سوچ کے دھاروں کو منجمد کر دیتی ہے۔‬

‫اولی میں آزادیء اظہار‬


‫اسالم کے قرون ٰ‬

‫زیرتبصرہ کتا ب میں شامل یہ مضمون فنون کے شمارہ ‪ ،۳۱‬اپریل تا جون ‪۱۸۸۱‬ء‬
‫ص ‪ ۹۶‬تا ‪ ۱۱‬پر شائع ہوا۔ یہ مضمون امیر شکیب ارسالن کی طرف سے ان الزامات‬
‫اولی میں آزادیء‬
‫ٰ‬ ‫طہ حسین نے اسالم کے قرون‬
‫کی تردید کرتا ہے جومصری ادیب ٰ‬
‫اظہار کے حوالے سے لگائے تھے کہ ان دنوں غیر مسلم شعراء کی شاعری اور‬
‫تخلیقات پر پابندی عائد تھی۔ عربی میں ردعمل کے طور پر لکھے گئے اس مضمون‬
‫کا اْردو ترجمہ محمد کاظم نے کیا۔ یہ ترجمہ اس قدر سلیس اور رواں ہے کہ طبع زاد‬
‫محسوس ہوتا ہے۔‬
‫ہمارے بعض ادیب کچھ نیا سامنے النے کی دْھن میں من گھڑت خیاالت پیش کرتے‬
‫ہوئے حقائق سے بھی نظریں چْ رانے لگتے ہیں اور یوں تاریخ کا چہرہ مسخ کرنے‬
‫طہ حسین کا کہنا ہے کہ اسالم نے شاعری کوقابل‬
‫میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ڈاکٹر ٰ‬
‫مذمت قرار دیا ہے۔فاضل مصنف امیر شکیب ارسالن کی اس تحریر کا مقصد دوسروں‬
‫سے اْلجھنا ہرگز نہیں بلکہ حقائق کو سامنے النا ہے۔وہ ان دعوے داروں سے پوچھتا‬
‫ہے وہ اس مسلمان خلیفہ کا نام بتائیں جس نے غیر اسالمی شاعری کو ختم کرنے کا‬
‫حکم دیا تھا۔وہ بتاتا ہے کہ عرب مسلمانوں نے ان تمام طعنوں کو زبانی روایت بھی کیا‬
‫اور قلم بند بھی کیا جو مشرکین آنحضرت ﷺ اور اْن کے صحابہ کو دیتے ہیں۔‬

‫نصاری اور یہود و مشرکین کے نہ صرف اشعار نقل کئے بلکہ وہ‬
‫ٰ‬ ‫مسلمان راویوں نے‬
‫ہجویں بھی نقل کیں جو انہوں نے رسول اللہ اور ان کے صحابہ کرام کے خالف کہی‬
‫تھیں وہ اسالم کے اوائل زمانے کا یہ شعر بطور مثال پیش کرتا ہے۔‬
‫"بنو ہاشم نے دین کا سوانگ رچایا حاالنکہ نہ کوئی خبر آئی ‪ ،‬نہ وحی اُتری ۔کاش‬
‫میرے بڑے بوڑھوں نے بد ر کے میدان میں تیروں کی بوچھاڑ سے خزرج کی‬
‫بوکھالہٹ دیکھی ہوتی۔"!(ص ‪ ،۱۸‬ایضا َ)‬

‫اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسالم نے آزادیء اظہار کا حق کسی سے نہیں چھینا‬


‫بعض محققین نے یہ افواہ پھیالئی کہ نبی ﷺ اور ان کے صحابہ شاعری کو اچھا نہیں‬
‫سمجھتے تھے حاالنکہ یہ محض من گھڑت خیال ہے۔‬

‫اس حوالے سے وہ کہتا ہے۔‬

‫’’آنحضرت ﷺ خود شعر پڑھتے تھے اور اْن کی تحسین‬


‫فرماتے تھے آپ ﷺ کا قول ہے کہ ان من الشعر لحکمۃ‬
‫بعض شعر سراسر دانائی ہوتے ہیں‘‘۔(ص ‪ ،۶۰‬ایضاَََ )‬

‫جب کعب بن زہیر نے آنحضرت ﷺ کو اپنا قصیدہ بانت سْعاَذ سنایا تو آپ ﷺ بہت متاثر‬
‫ہوئے اور اسے اپنی چادر بطور انعام دی۔اسالم کے بعد بھی جاہلی شاعری کی‬
‫پذیرائی میں کوئی کمی بیشی نہ آئی اور اس کی اہمیت اپنی جگہ مسلّم رہی ۔ عباسی‬
‫عہد کے شاعر معری اور اس کے ہم مشرب شاعروں نے اسالمی عقائد کے خالف‬
‫ہیں۔‬ ‫موجود‬ ‫تْوں‬ ‫کے‬ ‫ُجوں‬ ‫بھی‬ ‫آج‬ ‫وہ‬ ‫تھے‬ ‫کہے‬ ‫شعر‬ ‫جو‬
‫مصنف حوالے کے طور پر یہ شعر پیش کرتا ہے۔‬

‫’’اور کچھ لوگ ہیں جو دور دراز عالقوں سے چل کر آئے‬


‫ہیں کنکریاں مارنے اور پتھر کو چومنے کے لئے‘‘۔ (ص‬
‫‪، ۶۳‬ایضا ً)‬

‫مصنف کہتا ہے کہ حاالت کے تقاضوں کے تحت متاخر ادوار میں اْس فلسفے پر‬
‫قدغن لگائی گئی تھی جو الحاد کا باعث بن رہا تھا۔ عباسی دور میں نصرانیوں نے‬
‫اپنے مذہب کی بڑھوتری کے لئے بہت سی تواریخ لکھیں لیکن کسی نے ان سے‬
‫تعرض نہ کیا اور نہ ہی کوئی پابندی عائد کی۔‬

‫مصنف امیر شکیب نے یہ مضمون روم میں قیام کے دوران ‪ ۱‬مارچ ‪ ۱۸۱۱‬میں‬
‫تحریر کیا ان کے پاس حوالے کی کتابوں کی عدم دستیابی تھی اسی حوالے سے اپنے‬
‫مضمون کے آخر میں کہتے ہیں۔‬

‫’’ اگر ہمارے پاس حوالے کی کتابیں موجود ہوتیں تو ہم اتنے شواہد آپ کے سامنے‬
‫لے آتے کہ جن کی کوئی نہایت نہ ہوتی اس کے باوجود اگر آپ محض مخالفت کی‬
‫خاطر اپنے مؤ قف پر اصرار کریں گے تو اس سے آپ کی علمیت پر ہمارا اعتماد کم‬
‫ہی ہو گازیادہ نہیں ہو گا‘‘۔ (ص ‪ ، ۶۶ ،۶۴‬ایضا َ)‬

‫چونکہ یہ مضمون مصنف نے عربی زبان میں تحریر کیا تھا اس لئے اس نے اس کا‬
‫عنوان " التاریخ"ال یکون باال فتراض والبالتحکم (تاریخ نہ الل ٹپ باتوں کا نام ہے اور‬
‫نہ من مانے حکم لگانے کا) لیکن مترجم نے قارئین "فنون"کے لئے اس عنوان کو بدل‬
‫دیا اس مضمون میں مصنف کا یہی نقطہ نظر سامنے آتا ہے کہ تاریخی حقائق کو مسخ‬
‫کرنا ایک قبیح فعل ہے۔‬

‫ادب وفن میں نقطہ عروج‬


‫فنون کے شمارہ ‪ ، ۱۳‬نومبر ‪ ،‬دسمبر ‪ ۱۸۱۶‬ء ص ‪ ۴۴‬تا ‪ ۶۱‬پر شائع ہوا‬

‫جبرا ابراہیم جبرا‬

‫زیر تبصرہ کتاب میں شامل مذکورہ باال مضمون عراق کے ایک ہمہ جہت ادیب جبرا‬
‫ابراہیم جبرا کے تنقیدی مقاالت کی کتا ب "الحریۃ والطوفان"سے لیا گیا ہے جو‬
‫‪ ۱۸۱۰‬ء میں بیروت سے شائع ہوئی۔ مصنف ناول نگار‪ ،‬افسانہ نگار‪ ،‬شاعر اور نقاد‬
‫ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مصوری کا شغل بھی کرتے ہیں زیر نظر مضمون کا‬
‫ترجمہ محمد کاظم نے کیا ہے۔‬

‫مترجم کہتا ہے کہ اس مضمون میں ایک ایسا نظریہ پیش کیا گیا ہے جو مغربی‬
‫موسیقی ‪،‬مصوری اور ادب کے گزشتہ صدیوں پر پھیلے ہوئے ارتقاء کو سامنے رکھ‬
‫کر قائم کیا گیا ہے۔اس لئے وہ چاہتا ہے کہ ہمارے قارئین ادب بھی ایسی چیز سے‬
‫متعارف ہو سکیں جس کے بارے میں ہمارے ہاں زیادہ اظہار خیال نہیں کیا گیا۔‬

‫ادب و فن میں نقطہ عروج اہل یورپ کی اختراع ہے ہر فن پارہ اس کا پابند ہے یہ‬
‫نقطہ عروج انسانی تجربے کی چیز ہے اس کی مثال دیتے ہوئے وہ کہتا ہے۔‬

‫’’اس کی سب سے واضح مثال جنسی آرگزم ہے کہ اس میں‬


‫جذبہ انسانی بڑی شدت سے اپنی انتہا کو پہنچتا ہے اور اس‬
‫کے بعد آرام اور سکون کی ایک کیفیت میں تحلیل ہو جاتا‬
‫ہے‘‘۔ (ص ‪ ، ۹۳‬ایضاَََ )‬

‫موسیقی کے حوالے سے نقطہ عروج دیکھیں تو مشرقی موسیقی اس فن سے نابلد ہے‬


‫کیونکہ اس میں مختلف سازوں سے ایک ہی لحن پیدا ہوتا ہے اس میں کسی قسم کی‬
‫کوئی پیچیدگی نہیں ہے جبکہ باخ اور اس کے پیش روؤں کی موسیقی گہرے دریا کی‬
‫مانند ہے جس کی تہہ کا کوئی پتہ نہیں۔‬

‫مغربی موسیقی میں نقطہ عروج کے حوالے سے وہ کہتا ہے۔‬


‫"مغربی موسیقی میں ہم جونہی انیسویں صدی کے قریب‬
‫آتے ہیں موسیقی کی شکلیں عروجی ترکیب اختیار کرنے‬
‫لگتی ہیں چنانچہ ہیڈن ‪ ،‬موتسارت او ر بیتھوون کے ابتدائی‬
‫کاموں میں نقطہ عروج کی موجودگی رفتہ رفتہ واضح‬
‫ہونے لگتی ہے"۔(ص ‪ ، ۹۶‬ایضاَََ )‬

‫اس کے برعکس مشرقی موسیقی سْروں کی ترکیب کے اعتبار سے فن کارانہ نقطہ‬


‫عروج سے تہی دامن رہتی ہے۔ نہ اس میں جذباتی کشمکش کا اظہار ہے اور نہ شدت‬
‫احساس کا۔‬

‫عروج کی کشمکش‬
‫’’یورپی ناول اٹھارہویں صدی میں نقطہ ُ‬
‫سے عاری تھا لیکن انیسویں صدی کا ناول نقطہ عروج کا‬
‫ناول ہے۔" اس طرح کے ناولوں کی مثالیں گوئٹے کا‬
‫ورترکی داستان الم ‪ ،‬جین آسٹن کا ‘‘کبروتعصب " فلو بیر‬
‫کا "مادام بواری‘‘۔(ص ‪ ،۹۱‬ایضا َ)‬

‫نقطہ عروج کا ایک مظہر انیسویں صدی میں مختصر افسانہ ہے جو اس سے پہلے‬
‫حکایت یا روایت سے مشابہ تھا ۔ مذکورہ صدی میں یہ عروجی ترکیب رکھنے واال‬
‫ایک فن پارہ بن گیا۔‬

‫مصنف کہتا ہے کہ نقطہ عروج کی یہ فن کارانہ صورت انیسویں صدی میں نمو پذیر‬
‫ہوئی لیکن ڈرامے میں یہ دو یا تین صدیاں پہلے ہی مکمل صورت میں موجود تھی۔‬
‫شیکسپئیر کے عہد میں ڈراما اپنے عروجی ُحسن میں بلندیوں پر فائز تھا۔ یونانی دور‬
‫میں وہ ڈرامے میں نقطہ عروج کے حوالے سے کہتا ہے۔‬

‫’’نقطہ عروج یونانی المیے میں ایک اہم عنصر تھا او ر ارسطو نے اپنی کتاب شعر‬
‫میں ایسے قواعد گنوائے ہیں جو المیے کے لئے ضروری ہیں‘‘۔ (ص ‪ ،۱۰‬ایضا َ ََ)‬

‫جہاں عربی ادب کا تعلق ہے وہاں ڈرامہ کا وجود کبھی تھا ہی نہیں کیونکہ عربی‬
‫تخلیق میں نقطہ عروج کا تصور کبھی نہیں رہا ۔ عربی شاعری میں نقطہ عروج کا‬
‫کسی کو علم نہیں اس لئے اگر نظم میں اشعار آگے پیچھے کر لیں یا حذف کر لیں تو‬
‫اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔عربی شاعری کا موضوع زندگی اور اس کے‬
‫متعلقات ہی ہوتے ہیں۔‬

‫اگر شاعری میں نقطہ عروج کے حوالے مغربی ادب کا جائزہ لیا جائے تو صورت‬
‫حال اس کے برعکس ہے۔‬

‫’’مغرب کی شاعری میں ساخت اور بُنت بے حد اہم معاملہ‬


‫ہے اس کی وجہ سے ایک مصرعہ یا شعر اپنے سے پہلے‬
‫اور اپنے بعد کے شعر کے ساتھ جْ ڑا ہوا ہوتا ہے اور ایک‬
‫قطعے سے ہی آگے آنے والے قطعے کا خیال جنم لیتا‬
‫ہے۔اس طرح نظم کا مضمون پھیلتا جاتا ہے اور وہ‬
‫اپنے جذباتی عروج کو جاپہنچتی ہے‘‘۔(ص ‪ ،۱۱،‬ایضا ً)‬

‫مصوری میں نقطہ عروج کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مصنف کہتا ہے کہ اس‬
‫نیارخ دیا۔‬
‫میں یہ تصور بھی یورپ کی ہی مرہون منت ہے جس نے اسے ایک ُ‬

‫’’یورپی مصوری میں چودہویں صدی سے دو ایسے‬


‫عناصر کا استعمال شروع ہو تا ہے جن کا اسالمی فن میں‬
‫کوئی وجود دکھائی نہیں دیتا۔یہ عناصر دھوپ چھاؤں کیفیت‬
‫اور تناظر کے ہیں اور ان دونوں کی مدد سے ایک‬
‫مصوراپنے فن پارے میں وہی چیز حاصل کرتا ہے جو‬
‫تحریر اور موسیقی میں نقطہ عروج کے مماثل ہوتی ہے‘‘۔‬
‫(ص ‪، ۱۴‬ایضا ً)‬

‫جبران خلیل جبران اور اس کے افکار و رومان زیر تبصرہ مضمون فنون کے شمارہ‬
‫ہوا‬ ‫شائع‬ ‫پر‬ ‫‪۱۸‬‬ ‫تا‬ ‫‪۱۴‬‬ ‫میں‬ ‫‪۱۸۸۶‬ء‬ ‫اپریل‬ ‫تا‬ ‫جنوری‬ ‫‪۴۶‬‬
‫زیر تبصرہ مضمون کے حوالے سے مصنف کی معلومات وسیع نقطہ نظر کی حامل‬
‫ہیں وہ زیر موضوع شخصیت کے اسلوب ‪ ،‬موضوعات اور فکر کا جائزہ لیتا ہے وہ‬
‫اس کی شخصیت کے اُن گوشوں کو موثر انداز میں سامنے التا ہے جو شاید‬
‫بیشترقارئین کی نظروں سے اوجھل تھے‪ ،‬وہ اس کاتعارف کرواتے ہوئے کہتا ہے۔‬

‫’’ جبران اصالً ایک عرب تھا جو ‪۱۱۱۳‬ء میں لبنان کے‬
‫ایک گاؤں بشری میں پیدا ہوا جس میں وہ جنگالت آ ج بھی‬
‫موجود ہیں جن کے مقدس صنوبروں کی لکڑی سے‬
‫حضرت سلیمان ؑ نے پروشلم میں اپنا معبد تعمیر کروایا تھا‬
‫لبنانی رواج کے مطابق بچے کا نام اس کے دادا کے نام پر‬
‫جبران رکھا گیا اور مارونی کلیسا میں اسے بپتسمہ دیا‬
‫گیا‘‘۔ (ص ‪ ،۱۰۱‬ایضا ً)‬

‫جبران خلیل جبران ایک جامع الحیثیث مصنف تھا ۔ وہ شاعر‪ ،‬افسانہ نگار اور مصور‬
‫تھا ۔ اس کا تخلیقی عمل عربی اور انگریزی دو زبانوں میں ہے ملک میں آمرانہ‬
‫حکومت کی وجہ سے حاالت ناسازگار ہوئے تو بہت سے افراد کے ساتھ اس نے بھی‬
‫ہجرت کا فیصلہ کیا اور ‪۱۸۰۱‬ء میں امریکہ جا بسا ۔‬

‫مصنف جبران کی کی فکر کے حوالے سے کہتا ہے کہ جبران کو مسیح ؑ سے گہری‬


‫عقیدت تھی لیکن وہ مذہب کی بناء پر انسانیت میں تفریق کا ہرگز قائل نہ تھا۔ اپنے ان‬
‫نظریات کی وجہ سے عیسائیت اور اسالم دونوں کے لئے قابل قبول نہ تھا اور ہر‬
‫طرف اسے طعن و تشنیع کا نشانہ بننا پڑا اور کافر و بے دین قرار دیا گیا۔ وہ عورتوں‬
‫پر مردوں کے تسلط کا ہرگز قائل نہ تھا۔وہ محبت کا علم بردار تھا اس کا عکس اس‬
‫کی تحریروں میں بھی ملتا ہے۔‬

‫مصنف کہتا ہے جبران کے اسلوب پر رومانیت چھائی ہوئی ہے جوقاری کو فوراَ اپنی‬
‫گرفت میں لے لیتی ہے لیکن اگر فکر پر غور کیا جائے تو نام نہاد فلسفے کے باوجود‬
‫مضحکہ خیز کہانی لگتی ہے وہ اس کی طویل مختصر کہانی "النبی" کا جائزہ لیتا ہے‬
‫جو درحقیقت جبران کا اپنا خواب تھا۔‬
‫محبت کے معاملے میں جبران کوئی زیادہ خوش قسمت واقع نہیں ہوا تھا۔ اس کی‬
‫آئیں۔‬ ‫عورتیں‬ ‫کئی‬ ‫دیگرے‬ ‫بعد‬ ‫یکے‬ ‫میں‬ ‫زندگی‬
‫اس حوالے سے تبصرہ نگار کی رائے مالحظہ ہو۔‬

‫’’صنف مخالف کے کسی فرد کے ساتھ بھرپور محبت یا‬


‫جنسی تعلق کا کوئی نشان اس کی زندگی میں نہیں ملتا‬
‫جبران کے تعلقات میں وہ گرمی اور شدت دکھائی نہیں دیتی‬
‫جو ایسے حاالت میں ایک صحت مند مرد میں پائی جانی‬
‫چاہیئے۔ جبران کی کتاب "النبی" میں اس کی مصوری کے‬
‫کچھ نمونے بھی شامل ہیں جن میں لباس سے عاری‬
‫مردوزن ہوا میں تیرتے پھرتے ہیں لیکن اْن کے جنسی‬
‫اعضاء پر اس طرح بُرش پھرا ہوا کہ وہ بالکل دکھائی نہیں‬
‫دیتے‘‘(ص ‪ ، ۱۳۰‬ایضا ً)‬

‫اگر غور کریں تو محسوس ہوتا ہے کہ اس کی کہانیوں میں جسمانی حقیقتوں سے فرار‬
‫کی وجہ شاید اس کی اسی نوع کی کوئی کمزوری ہو۔ کیونکہ یہ حقیقت مسلم ْہ ہے کہ‬
‫اسلوب شخصیت کے اظہار کا دوسرا نام ہے۔‬

‫جبران کی تحریروں میں حقیقت سے فرار کا تذکرہ بار بار ملتا ہے لیکن حقیقت پسندی‬
‫اور عملی طور پر حاالت کے سامنے سینہ سپر ہونے کا پیغام کہیں نہیں ملتا۔ اس لئے‬
‫مصنف اس کی تحریروں کے حوالے سے اس کے قریبی دوست امین الریحانی کی‬
‫رائے کو حرف آخر قرار دیتا ہے۔‬

‫’’اس نے صرف دو انگریزی لفظ بول کر جبران کے ادب‬


‫کی حقیقت بیان کردی اور وہ لفظ تھے ‪Mawkish‬‬
‫‪Sentimentalism‬مراد یہ کہ جبران کے ہاں سوائے ایک‬
‫بدمزہ اور رقت آمیز جذباتیت کے اور کچھ نہیں‘‘۔ (ص‬
‫‪ ،۱۳۱‬ایضا َ)‬
‫تبصرہ نگار جبران کے حوالے تین باتیں وثوق سے کہتا ہے ایک یہ کہ وہ رومان پسند‬
‫اور تخیل پرست انسان تھا دوسرے باغیانہ میالن رکھنے واال ایک مفکر تھا اور‬
‫تیسرے اس نے اپنے عربی اسلوب کی کمزوری کا مداوا بڑی ہوشیاری سے کیا‬
‫اورانجیل کے خاص اسلوب کو اپنے لئے نمونہ ٹھہرایا اور پیغمبرانہ لہجے میں بات‬
‫کی اس لئے اس کے انداز اور ٹھہراؤ سے انسان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ‬
‫سکتا۔ عربوں کی سیرت نگاری گذشتہ ایک صدی میں مذکورہ باال مضمون محمد‬
‫توفیق حسین کی تحریر ہے تلخیص و ترجمہ محمد کاظم نے کیا ۔ یہ زیر موضوع‬
‫مضامین میں سب سے پْرانا ہے اور ماہنامہ "نصرت " میں شائع ہوا تھا۔‬

‫اس کا موضوع وہ عظیم انقالبی شخصیت ہے جس نے انسانیت کو جاہلیت کے‬


‫اندھیروں سے نکال کر اتحاد کا سبق دیا اور انہیں زندگی بسر کرنے کا سلیقہ سکھایا‬
‫تاکہ انسانی تہذیب کے ارتقاء میں وہ اپنا بھرپور کردار اد ا کریں۔ یہ اُن کی تعلیمات کا‬
‫اثر تھا کہ عربوں اور مسلمانوں نے پیغمبر پاکﷺ کی سیرت پاک اور اسالم کے‬
‫زمانہ پر خصوصی توجہ مبذول رکھی ۔‬

‫تبصرہ نگار نے ان سیرت نگاروں کو زبانی اعتبار سے تین گروہوں میں تقسیم کیا‬
‫ہے۔‬

‫’’ پہال گروہ‪ :‬ابان بن عثمان بن عفان ‪ ،‬عروہ بن الزبیر بن‬


‫العوام‪ ،‬شرجیل بن سعد اور وہب ابن ْمنبہ جیسے لوگوں پر‬
‫مشتمل ہے۔ دوسرا گروہ‪ :‬عبداللہ بن ابی بکر بن خرم ‪،‬‬
‫عاصم بن عمر بن قتادہ اور محمد ابن مسلم ابن شہاب الزہری‬
‫قابل ذکر ہیں۔تیسراگروہ‪ :‬اس میں سب ممتا ز لوگ شامل ہیں‬
‫موسی بن عقبہ ‪ ،‬معمر ابن رشید‪ ،‬محمد ابن اسحاق‪ ،‬محمد‬
‫ٰ‬ ‫۔‬
‫ابن عمر الواقدی‘‘(ص ‪ ،۱۳۴ ،۱۳۳‬ایضا ً)‬

‫ابن اسحاق اور الواقدی کی سیرت نگاری کی تصنیفات سب سے مستند سمجھی جاتی‬
‫ہیں۔‬ ‫گئی‬ ‫ہو‬ ‫ملط‬ ‫خلط‬ ‫تاریخیں‬ ‫میں‬ ‫کتب‬ ‫ان‬ ‫لیکن‬ ‫ہیں‬
‫سیرت النبی ﷺ کے موضوع پر گزشتہ صدی کی قدیم ترین تصنیف مکہ کے شافعی‬
‫مذہب کے مفتی السید احمد ابن زینی ضحالن کی کتاب السیرۃ النبویۃ واال ثار المحمدی َۃ‬
‫ہے اس میں موضوع اور اسلوب کے اعتبار سے کچھ نیا نہیں ہے قدیم و جدید کتب کا‬
‫مواد اختصار سے شامل کر کے کتا ب مرتب کر لی گئی ہے۔‬

‫اس زمانے میں لکھی جانے والی تمام کتب کے اسلوب اور موضوعات میں مماثلت‬
‫ہے۔‬

‫سیرت نگاری کے نئے انداز میں کوئی انوکھا انداز دیکھنے میں نہیں آتا۔ اس میں‬
‫طہ حسین کا نام سرفہرست ہے۔وہ آنحضرت کا صرف‬
‫مصر کے نابینا ادیب ڈاکٹر ٰ‬
‫ایک ہی معجزہ قرآن کریم قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے سوائے‬
‫طہ حسین کا اسلوب افسانوی ہے۔‬
‫دعوی نہیں کیا۔ ٰ‬
‫ٰ‬ ‫قرآن کے اور کسی معجزے کا‬

‫سیرت نگاری کے حوالے سے ایک اور مصنف عبدالباقی سرور ہیں انہوں نے سیر ت‬
‫طیبہ سے متعلق واقعات کا تجزیہ کرتے ہوئے جو نتائج اخذ کئے ہیں وہ مورخین کی‬
‫اکثریت کے خیاالت سے ہم آہنگ نہیں ہیں وہ کہتے ہیں‬

‫’’جب حضرت خدیجہ کی شادی آنحضرت ﷺ کے ساتھ ہوئی‬


‫تو ام المومنین کی عمراُس وقت چالیس سال تھی وہ کہتے‬
‫ہیں کہ یہ عقلی اور طبی نقطہ نظر سے کیوں کر ممکن ہو‬
‫سکتا ہے کہ ایک چالیس برس کی عورت شادی کر کے‬
‫دے۔حتی کہ ایک بچہ‬
‫ٰ‬ ‫یکے بعد دیگرے سات بچوں کو جنم‬
‫ان کے ہاں ستاون سال کیعمر میں پیدا ہوا۔ طبقات ابن سعد‬
‫میں بیان کی گئی حدیث کو حوالہ بنا کر کہتے ہیں کہ شادی‬
‫کے وقت حضرت خدیجہ کی عمر دراصل بائیس برس تھی‬
‫نہ کہ چالیس برس‘‘!(ص ‪ ، ۱۴۴‬ایضا ً)‬

‫سیر ت نگاری کے موضوع میں عربوں کی دلچسپی ہمیشہ قائم رہی ہے اس مقصد‬
‫کے تحت بے شمار کتابیں زمانہ قریب میں لکھی گئی ہیں۔ جن اہل قلم نے سیرت کو‬
‫جدید ترین انداز میں مرتب کرنے کی طرح ڈالی ہے ان میں "حیاۃ محمد" کے مصنف‬
‫ڈاکٹر محمد حسین ہیکل بہت ممتاز ہیں۔انہوں نے حضور ﷺ کے معجزات کے بارے‬
‫میں کافی اختالف کا اظہار کیا ہے۔‬

‫’’وہ کہتے ہیں محمد ﷺ کی زندگی ایک انسان کی زندگی ہی‬


‫تھی البتہ وہ عظمت کی بلند معراج پر پہنچے ہوئے تھے‬
‫جہاں ایک انسان کے لئے پہنچنا ممکن ہے اور خود‬
‫آنحضرت کو اس بات کی فکر تھی کہ اہل اسالم جان لیں کہ‬
‫وہ انہی کی طرح کے ایک انسان ہیں اس فرق کے ساتھ کہ‬
‫آپ پر وحی نازل ہوتی ہے‘‘۔(ص ‪ ،۱۶۰‬ایضا َ)‬

‫تبصرہ نگار کہتا ہے مشہور عرب مصنف محمد عزہ دروزہ کی کتاب "سیرۃ الرسول"‬
‫قرآن مجید سے اخذ کردہ مرقعوں پر مشتمل ہے اس سیرت نگاری میں قرآن کریم ہی‬
‫اصل اور اہم ماخذ قرار دیا جاتا ہے ۔ حدیث اور سیرت کی کتابوں سے محض اضافی‬
‫معلومات حاصل کی جاتی ہیں۔‬

‫"مصنف کا نقطہ نظریہ ہے کہ حدیث میں چونکہ ہر قسم کا سچ اور جھوٹ شامل ہو‬
‫گیا ہے اور بعض احادیث یہاں تک بھی دیکھنے میں آتی ہیں کہ ان کے اور قرآن کے‬
‫درمیان صریح تضاد پایا جاتا ہے۔ (ص ‪۱۶۱‬ایضا ً)‬

‫سیرت کے موضوع پر لکھنے کے لئے کتاب اللہ کا سہارا سب سے مستند ہے جو ہر‬


‫لحاظ سے محکم اور معتبر ہے ۔عہد نبوت کے بارے میں قرآن کریم کی شہادت سب‬
‫سے مستند ہے ۔‬

‫محمود درویش کی ایک گفتگو اور طویل نظم‬

‫عنوان باال مضمون فنون کے شمارہ‪ ۱۱‬جون جوالئی ‪۱۸۱۸‬ء میں ص ‪ ۴۴‬تا ‪ ۶۰‬میں‬
‫شائع ہوا یہ گفتگو محمود درویش کا طویل انٹرویو ہے لیکن مصنف نے یہاں اس کے‬
‫اہم نکات پیش کیے ہیں تاکہ قارئین ادب فلسطین کی مزاحمتی شاعری کے علم بردار‬
‫اس شاعر کے خیاالت سے مستفید ہو سکیں ۔ ‪۱۸۹۰‬ء میں محمود درویش کو ایک‬
‫سوال نامہ دیا گیا جس میں اْس نے اپنا موقف قدر تفصیل کے ساتھ بیان کیا ان دنوں‬
‫فلسطینی شعراء جس طرح کی شاعری کر رہے تھے اس پر عرب قارئین کا ردعمل‬
‫مدح و محبت کا تھا لیکن یہ شعراء چاہتے تھے کہ ان کی شاعری پر معروضی انداز‬
‫میں بحث کی جائے۔‬

‫وہ خود کو عالمتی شاعر نہیں سمجھتا بلکہ وہ کہتا ہے کہ قارئین کا یہ اعتراض‬
‫محض غلط فہمی کی بناء پر ہے ۔وہ کہتا ہے کہ وہ ایک مبہم شاعر نہیں ہے نئی نظم‬
‫زیادہ پیچیدہ اس لئے ہے کہ خود زندگی آج بہت پیچیدہ ہو گئی ہے اسے یاس اور‬
‫نومیدی کا شاعر کہا جاتا ہے۔ لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کا موجودہ احوال دیکھ‬
‫اُسے کوئی زیادہ خوشی نہیں ہوتی۔‬

‫محمود درویش کی طویل نظم "ایک فلسطینی عاشق " یہ فلسطینی باشندے کی اپنے‬
‫وطن سے محبت کے حوالے سے ہے جو رومانوی انداز میں اپنے وطن سے مخاطب‬
‫ہے اس نظم کا پور پور وطن کی محبت میں ڈوبا ہوا ہے۔‬

‫محمود درویش کا ایک پیش لفظ اور چار نظمیں‬

‫یہ مضمون فنون کے شمارہ ‪ ،۱۹۰‬اکتوبر نومبر ‪ ۶۳‬تا ‪۱۸۱۸ ، ۶۹‬ء میں شائع ہوا ۔ یہ‬
‫پیش لفظ اس لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے کہ اس سے شاعر کی انقالبی فکر قارئین‬
‫کے سامنے آتی ہے اور وہ اپنے قارئین کے لئے اظہار مسرت کرتا ہے کہ اْن کی‬
‫تائید ہی اس کے اندر لکھنے کی تحریک پیدا کرتی ہے۔ اور اس وجہ سے وہ تجربات‬
‫کا محاکمہ کرتا ہے جب اس کے قارئین کہتے ہیں کہ اس کی شاعری کبھی ضائع نہیں‬
‫ہو گی تو وہ کہتا ہے کہ اسی صورت میں ممکن ہے اگر میرے اسلوب میں کوئی نئی‬
‫بات پیدا ہو۔‬

‫اس کی چار نظمیں فلسطینی حاالت کے پس منظر میں لکھی گئی ہیں جن کے اسلوب‬
‫اور موضوعات میں پنہاں کرب ناکی قاری کا دل دہال دیتی ہے‪ "،‬وہ کفن میں لپٹا آیا "‬
‫شاعری کے بارے میں " "لورکا " "ڈینیوب نیال نہیں ہے "اخوان الصفاء عباسی دور‬
‫میں مسلم اہل فکر کی ایک خفیہ تنظیم زیر تبصرہ مضمون فنون کے شمارہ ‪۱۱۱‬‬
‫ہوا‬ ‫شائع‬ ‫میں‬ ‫‪۶۳‬‬ ‫تا‬ ‫‪۳۱‬‬ ‫ص‬ ‫‪۱۰۰۰‬ء‬ ‫جون‬ ‫تا‬ ‫جنوری‬
‫مذکو رہ باال مضمون مصنف کی فطری اور تحقیقی و تنقیدی بصیرت کا منہ بولتا ثبوت‬
‫ہے اْردو ادب کے قارئین کے لئے اس سے قبل ایسی تخلیقی کاوش کم ہی دیکھنے میں‬
‫آئی ہے۔مصنف اس مضمون کا آغاز ڈرامائی انداز سے کرتا ہے اور قاری اس‬
‫متجسس فضاء میں دم سادھے اس کے ہمراہ چلتا جاتا ہے ماسوائے جماعت کے نام‬
‫اور چند ضروری باتوں کے دیگر معلومات کے حوالے سے اہل تحقیق میں اختالف‬
‫پایا جاتا ہے اس لئے اظہار رائے کے لئے یقینی کلمات کے بجائے غالبا َ کے الفا ظ‬
‫استعمال کئے گئے !۔‬

‫اہل فکروفلسفہ کی اس جماعت کا تعارف مصنف اس طرح کرواتا ہے‬

‫’’اس جماعت کا پورا نام "اخوان الصفاء و خالن الوفاء و اہل‬


‫العدل و ابناء الحمد و ارباب الحقائق و اصحاب المعانی " تھا‬
‫جو انہوں نے اپنے مکاتیب میں اپنے لئے بعض مواقع پر‬
‫خود استعمال کیا اس پورے نام کا سلیس اُردو میں ترجمہ ہو‬
‫گا۔" پاکیزگی پسند اور وفا شعار لوگ " عدل کے خواہاں اور‬
‫حمد و ثناء کے خوگر‪ ،‬عارفین حقائق و واقفان معانی" اس‬
‫جماعت کا ایک مختصر نام جو زیادہ تر استعمال ہوتا ہے‬
‫الخوان الصفاء و خالن الوفاء ہے اور مختصر ترین نام جس‬
‫سے یہ جماعت عام طور پر جانی پہچانی جاتی ہے وہ‬
‫اخوان الصفاء ہی ہے۔‘‘(ص ‪" ۱۶۱‬اخوان الصفاء اور‬
‫دوسرے مضامین)‬

‫اس جماعت کے حوالے سے اغلب خیال یہی ہے کہ ان لوگوں کو زندگی میں اپنے‬
‫مقاصد کے حوالے سے گہر ا شعور تھا اس لئے ان کے نام کے اجزاء مختلف لوگوں‬
‫اور فرقوں سے اپنا تعلق جوڑتے تھے ۔‬

‫’’اپنے آپ کو اہل العدل کہہ کر وہ معتزلہ کی طرف اپنا‬


‫میالن ظاہر کرتے تھے اسی طرح ارباب الحقائق کہہ کر وہ‬
‫اپنے سامنے صوفیاء کا نمونہ رکھتے تھے جن کا کہنا یہ تھا‬
‫کہ ہمیشہ حقائق کی جستجو میں رہتے ہیں۔ اصحاب المعانی‬
‫کااشارہ اسماعیلی تحریک کی طرف تھا جن کے نظام میں‬
‫دو طرح کے معانی یعنی ظاہر اور باطن مروج تھے‘‘۔(ص‬
‫‪ ، ۱۶۱‬ایضا َ)‬

‫تاریخ کے مطالعہ سے یہی حقیقت سامنے آتی ہے دسویں صدی عیسوی میں عباسی‬
‫حکومت اپنے وسطی دور میں تھی جب بصر ہ میں اہل فکر وفلسفہ کی ایک جماعت‬
‫کے افراد نہایت رازداری کے ساتھ خالص علمی اور فکری مسائل پر سوچ بچا ر کے‬
‫لئے ہر بارہویں روز مجلس منعقد کرتے تھے اپنی اس گفتگو کو وہ بعد ازاں مفصل‬
‫مکتوب کی شکل میں لکھ لیتے ۔ یہ مکاتیب ان لوگوں تک نہایت خاموشی سے‬
‫پہنچائے جاتے جو بوجوہ شریک نہیں ہو پاتے تھے۔‬

‫یہ صورتحال حیران کن ہے کہ اخوان الصفاء کے ان افراد کے متعلق آج تک حتمی‬


‫طور پر کسی کو علم نہیں ہو سکا کہ یہ لوگ تعداد میں کتنے تھے اور ان کے نام کیا‬
‫تھے اور ان کی پہچان کیا تھی محض قیاس آرائیاں ہیں۔ شہر سے متعلق بھی اہل‬
‫تحقیق میں اختالف ہے کہ یہ بصرہ تھا یا کوئی اور ؟ لیکن یہ بات کتنی عجیب معلوم‬
‫ہوتی ہے کہ وہ خطوط آج بھی اپنی اصل حالت میں پوری تعداد میں موجود ہیں۔‬
‫دستبرد زمانہ سے بھی محفوظ رہے"۔‬

‫’’اس جماعت نے جو مفصل مکاتیب مختلف اوقات اور‬


‫مختلف موضوعات پر قلم بند کئے ان کی تعداد مال کر باون‬
‫ہوتی ہے نوسو سال بعد آج بھی اصل حالت میں محفوظ اور‬
‫آسانی سے دستیاب ہیں‘‘۔(ص ‪ ، ۱۶۹‬ایضا َ)‬

‫ان خطوط میں اپنے عہد کے تمام علوم و فنون کا احاطہ کیا گیا ہے اس جماعت کا‬
‫موقف تھا کہ شریعت کو طرح طرح کی جہالتوں نے گدال کر کے رکھ دیا ہے اس کی‬
‫تطہیر صرف فلسفے سے ممکن ہے۔‬

‫اخوان الصفاء نے اپنے اصحاب کے نام پردہ اخفاء میں کیوں رکھے تھے اس کی وجہ‬
‫یہ تھی کہ ان سے تقریبا سو سال پہلے مسلم خلفاء نے فکر و فلسفہ اور آزاد خیالی پر‬
‫کڑی پابندیاں عائد کی ہوئی تھیں۔ اب جب یہ رسائل منظر عام پر آئے تو لوگوں میں‬
‫تجسس پیدا ہوا کہ آخر ان رسائل کے پیچھے کون ہے؟ مختلف قیاس آرائیاں ہوتی‬
‫رہیں۔‬

‫مشہور عرب دانش ور اور ادیب ابو حیان التوحیدی نے ان رسائل کی تصنیف میں جن‬
‫پانچ افراد کے نام گنوائے ہیں وہ یہ ہیں‬

‫’’ابو سلیمان محمد بن معشر البستی المقدسی‪ ،‬ابو الحسن علی‬


‫بن ہارون الزنجانی ‪ ،‬ابو احمد المہر جانی‪ ،‬ابو الحسن العوفی‬
‫‪ ،‬زید بن رفاعہ ۔ ان رسائل کی تصنیف و تدوین میں جن‬
‫لوگوں نے عملی حصہ لیا وہ یہی پانچ افراد تھے رسائل قلم‬
‫بند کون کرتا تھا ؟ وہ انہی میں سے ایک شخص تھا یا دو یا‬
‫تین ۔ اس ضمن میں ابو سلیمان البستی اور ابوالحسن العوفی‬
‫کے نام دوسروں سے زیادہ اعتما د کے ساتھ لئے جاتے‬
‫ہیں‘‘۔ (ص ‪) ،۱۱۱ ،۱۱۰‬‬

‫اخوان کا مطمئح نظر تھا کہ خدا سے اس دنیا نے اس طرح صدور کیا جیسے سورج‬
‫سے اس کی شعاعیں نکل کر پھیلتی ہیں اور وہ اپنی جگہ موجود رہتا ہے لیکن یہ‬
‫مادی دنیا خدا سے براہ راست صادر نہیں ہوتی ۔ یہ مختلف واسطوں سے گزر کر‬
‫وجود میں آتی ہے ۔ ان واسطوں کا روحانی نظام مرتب ہے یہ روحانی اخوان الصف ٗا‬
‫کے ساتھ خاص ہے ۔ اس کے کچھ عناصر انہوں نے فالطینوس سے اور کچھ پہلے‬
‫عرب فالسفہ سے لیے ہیں ۔‬

‫اخوان الصفاء کا مربوط نظام ان کا اپنا ہی ہے جو ان کے سارے فلسفے کی بنیاد ہے‬


‫یہاں پر دیکھنا یہ ہے کہ یہ نظام کیا ہے اور یہ کائنات خدا سے صدور کر کے کن‬
‫مراحل سے گزر کر وجود میں آئی ۔ خدا اور کائنات کے حوالے سے ان کے نظریات‬
‫کچھ اس طرح سے ہیں ۔‬

‫’’وہ کہتے ہیں کہ خدا واحد اور یکتا ہے اس کے حوالےسے یہ تصور بالکل غلط‬
‫ہے کہ اس کے ہاتھ پاؤں ہیں اور وہ انسانوں کی طرح اٹھتا بیٹھتا ہے ۔ اس کا کام‬
‫محض تخلیق کا ارادہ کرنا ہے ۔ جب ذات باری سے صدور ہوتا ہے تو عقل کلی وجود‬
‫میں آتی ہے یہ بھی خدا کی طرح واحد ہے لیکن عقلی کلی میں اس نے صدور فکر‬
‫کی گنجائش رکھ دی ہے جو اختیارات بھی خدا کی طرف منسوب ہوتے ہیں ان کا تعلق‬
‫عقل کلی سے ہے ۔ اسی عقل کلی سے نفس کلی صادر ہوتا ہے ۔ یہ اپنی قوت عقل‬
‫سے حاصل کرتا ہے اس کا ایک مظہر وہ سورج کو قرار دیتے ہیں جوزمینی اور‬
‫آسمانی دنیا کو زندگی بخشتا ہے دنیا میں کسی چیز کی تخلیق کا تعلق نفس کلی سے‬
‫۔‬ ‫ہے‬
‫ہیولی اولی کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ اس اولین مادے میں کوئی قوت موجود نہ تھی‬
‫ٰ‬
‫اس لیے یہ خود صدور نہیں کر سکتا تھا چنانچہ عقل کلی کے اہتمام سے یہ نفس کلی‬
‫سے صادر ہوا ۔ اس سلسلے میں نفس کلی کو بہت جدوجہد کرنی پڑی کہ یہ مادہ اس‬
‫سے باہر نکل کر مختلف صورتیں اختیار کرے ۔ طبعی قوانین نفس کلی کی قوتوں میں‬
‫سے ایک قوت ہے یہی زندگی اور تغیر کا سبب ہے یہ بڑی حکمت سے کام کرتی ہے‬
‫یہ خدا کا فلسفیانہ نام ہے اہل مذہب اسے خدا اور اہل فلسفہ اسے نیچر کہتے ہیں‘‘۔‬

‫ہیولی ثانیہ جب نفس کلی نے اس مادے کو تین اطراف میں حرکت دینی‬
‫ٰ‬ ‫جسم مطلق یا‬
‫شروع کی تو مادے میں تین بُعد یں لمبائی ‪ ،‬چوڑائی اور گہرائی پیدا ہوئیں اور بتدریج‬
‫وہ جسم مطلق یا ہیولی ثانیہ بن گیا ۔ یہ مادہ اب کوئی تصور نہیں رہا بلکہ ایک خاص‬
‫مقدار بن جاتا ہے جس سے ہماری دنیا بنائی گئی ہے اس کی صورت مدور ہوتی ہے‬
‫۔‬

‫اجرام فلکی یہ صدور کے ساتویں مرحلے میں ظاہر ہوئے جو خیالی نہیں بلکہ‬
‫روحانی ہیں ۔ کرے کی شکل کے ہیں ۔ یہ تعداد میں گیارہ اپنے خول کی موٹائی اور‬
‫حجم میں مختلف ہیں ۔ ان میں ثابت سیاروں کے عالوہ زحل‪ ،‬مشتری ‪ ،‬مریخ ‪ ،‬سورج‬
‫‪ ،‬زہرہ ‪ ،‬عطارد اور چاند شامل ہیں ۔ یہ چوتھے عنصر اثیر سے بنے ہیں ان پر نہ‬
‫تخلیقی عمل ہو سکتا ہے اور نہ انہیں بگاڑا جا سکتا ہے ۔ آٹھویں درجے پر چار‬
‫عناصر پانی ‪،‬ہوا‪ ،‬مٹی اور آگ صادر ہوئے ۔ پھر وجود کی وہ صورتیں جو عالم تحت‬
‫القمری میں واقع ہیں جہاں تخلیق اور تخریب کا عمل ہوتارہتاہے ۔ اخوان کہتے ہیں یہ‬
‫چاروں عناصر ایک دوسرے میں تبدیل ہو سکتے ہیں ۔‬
‫’’نواں درجہ اقالیم ثالثہ ہے جب نظام صدوراختتام پذیر ہوا‬
‫تو اس میں تین اقلیمیں ظاہر ہوئیں یعنی معدنیات ‪ ،‬نباتات اور‬
‫حیوانات جو چار عناصر کے باہمی امتزاج اور ایک‬
‫دوسرے میں تبدیل ہونے کے نتیجے میں پیدا ہوئیں ‘‘۔ (ص‬
‫‪)۱۱۶،۱۱۱ ،۱۱۴‬‬

‫یہاں مجھے ان کے دو نظریات زیر تحت عقل کلی یا عقل فعال اور المولدات (اقالیم‬
‫ثالثہ ) میں تضاد محسوس ہوتا ہے ۔ ایک طرف تو وہ کہتے ہیں کہ خدا نے عقل کلی‬
‫میں یہ گنجائش رکھ دی ہے کے بعد کے جملہ عناصر کا صدور اسی سے ہو لیکن‬
‫مذکورا آلخر میں یہ نظریہ ہے کہ جب صدور کا نظام اختتام کو پہنچا ۔ صدور کا نظام‬
‫تو نہ اختتام کو پہنچ سکتا ہے اور نہ ہی کبھی مکمل ہو سکتا ہے کیونکہ جب تک‬
‫کائنات جاری و ساری یہ سلسلہ بھی رواں دواں رہے گا البتہ یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ‬
‫نظام صدور درجہ کمال کو پہنچا تواس میں تین اقلیمیں ظاہر ہوئیں ۔‬

‫علمائے شریعت نے ان رسائل کو ملحدانہ قرار دیا اور عباسی خلیفہ مستنجد کے حکم‬
‫سے انہیں جال ڈاال گیا لیکن چند نسخے جال دینے سے کیا ہونا تھا یہ ڈیڑھ سو سال‬
‫سے زیادہ عرصہ اہل فکر و نظر کے درمیان گردش کرتے رہے۔‬

‫اخوان الصفاء کے نام کے حوالے سے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ نام ہندی‬


‫حکایتوں کی کتا ب کلیلہ و دمنہ کی ایک کہانی سے لیا گیا۔ اخوان الصفاء کے رسائل‬
‫میں کن علوم کا احاطہ کیا گیا ہے اس حوالے سے مصنف ان علوم کے نام گنواتا ہے۔‬

‫’’ چودہ رسائل ریاضیات اور منطق پر اور دس رسائل مابعد الطبیعات پر ‪ ،‬گیارہ‬
‫تصوف ‪،‬علم نجوم اور سحر پر‪ ،‬سترہ قدرتی علوم پر ‪،‬یہ دسویں صدی عیسوی میں‬
‫ترتیب پانے والی پہلی دائرۃ المعارف تھی‘‘۔(ص ‪ ،۱۱۸‬ایضا)‬

‫اب وہ اہم بات جس کی بناء پر اخوان الصفا ء کا نام آج تک موجود ہے اور آئندہ بھی‬
‫رہے گا وہ اُن کے نظریات ہیں جن کی بناء پر انہیں تخصص حاصل ہوا۔ انہوں نے‬
‫اپنے ان نظریات کا پرچار نہایت رازداری سے جاری رکھا ۔‬
‫مناسب یہی ہے ان کے نظریات کا جائزہ انہی کی زبانی لیا جائے ۔ پہال تاثر ہی آخری‬
‫ہوتا ہے اس کی مثال ان کے نظریات میں بہت عمدہ ہے ۔‬

‫’’چنانچہ ہمارے بھائیوں کو خدا ان کا حامی ہو چا ہئیے کہ‬


‫وہ کسی علم کو بھی اپنے سے دور نہ رکھیں ۔ ہمارا نقطہ‬
‫نظر سبھی مذاہب کا احاطہ کرتا ہے ‪ ،‬ہمارا طریقہ یہ ہے کہ‬
‫تمام اشیاء کوچاہے ان کا تعلق حس سے ہو یا عقل سے ‪،‬‬
‫چاہیے وہ ظاہر ہوں یا باطن ‪ ،‬حقیقت کی نگاہ سے دیکھا‬
‫جائے۔‬
‫اور جان لو کہ انسان کی فکر کسی بھی علم یا عقیدے سے‬
‫پہلے سفید کاغذ کی مانند ہوتی ہے کہ جس پر کچھ لکھا نہیں‬
‫ہوتا ۔چنانچہ انسان کی فکر میں جو عقیدہ اور رائے پہلے‬
‫ڈال دی جاتی ہے وہ اس میں جڑ پکڑ جاتی ہے ‘‘۔(ص‬
‫‪)۱۹۱ ،۱۹۰‬‬

‫اخوان الصفاء کے خیاالت پختہ اور مبنی بر حقیقت تھے۔ وہ آج تک بھی مسلم‬
‫سمجھے جاتے ہیں صدیاں گذرنے کے بعد بھی اْن میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔‬

‫’’اے بھائی!تمیں چاہیئے کہ بوڑھے اور عمر رسیدہ لوگوں‬


‫کی اصالح کے پیچھے نہ جاؤ ان کی اصالح کرنے لگو‬
‫گے تو وہ تمہیں زچ کر دیں گے تمہیں چاہیے کہ ایسے‬
‫نوجوانوں کے پیچھے جاؤ جن کے دل سالم ہوتے ہیں وہ‬
‫مذاہب کے خالف تعصب نہیں رکھتے ۔اللہ تعالی نے جو‬
‫بھی نبی بھیجا وہ جوان تھا اور جب کسی بندے کو دانائی‬
‫عطاکی وہ بھی جوان تھا‘‘۔(ص ‪)۱۹۱‬‬

‫انسانی دوستی کے حوالے سے ان کے خیاالت فکر و تدبر کی عمدہ مثال ہیں اسی لئے‬
‫بعض نے سمجھا کہ یہ حضرت علی ؑ کی نسل میں سے کسی امام کا کالم ہے ۔‬
‫’’پس تمہیں چاہیے کہ جب کوئی دوست یا بھائی بنانے لگو‬
‫تو اُسے اس طرح سے پرکھو جیسے درہم و دینا ر پر کھے‬
‫جاتے ہیں اس لئے کہ سچے دوست دین و دنیا دونوں کے‬
‫امور میں ساتھی اور پشت پناہ ہوتے ہیں۔ جب انسان کے‬
‫احوال میں تبدیلی آتی ہے تو اس کے مزاج اور اخالق میں‬
‫بھی تبدیلی آجاتی ہے اپنے دوستوں سے اس کا رویہ بدل‬
‫جاتا ہے دوستیاں عموما ً کسی سبب کی بنیاد پر ہوتی ہیں اور‬
‫جب وہ سبب ہی باقی نہ رہے تو دوستیاں بھی ختم ہو جاتی‬
‫ہیں‪ ،‬لیکن اخوان الصفاء کی دوستی خونی رشتے کی طرح‬
‫ہوتی ہے وہ ایک دوسرے کے لئے جیتے ہیں وہ یہ‬
‫سمجھتے ہیں کہ وہ ایک ہی نفس ہیں جو مختلف جسموں‬
‫میں بٹا ہوا ہے اس لئے اجسام پر کچھ بھی گذرے نفس ایک‬
‫ہی رہتا ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں آتی‘‘۔ (ص ‪۱۹۱‬‬
‫ایضا ً)‬

‫اخوان ا لصفاء یونانی فلسفے سے بہت متاثر تھے ہر فلسفے سے جو باتیں انہیں متاثر‬
‫کرتی تھیں وہ انہیں اپنی فکر کا حصہ بنا لیتے تھے وہ اپنی فکر کو اس کے اہل افراد‬
‫تک پہنچانے میں کسی قسم کے بُخل سے کام نہیں لیتے تھے ۔ وہ کہتے ہیں۔‬

‫’’اور جان لو اے نیک طنیت اور مشفق بھائی کہ ہم اپنے یہ‬


‫راز لوگوں سے اس لئے نہیں چھپاتے کہ ہمیں ان حکمرانوں‬
‫کا ڈر ہے جو اس ارضی سلطنت کے مالک ہیں اور نہ اس‬
‫لئے کہ ہم عوام کے شوروہنگامہ سے ڈرتے ہیں بلکہ اس‬
‫لئے کہ اللہ تعالی نے ہمیں جو صالحیتیں اور طاقتیں عطاء‬
‫کی ہیں ہم ان کی حفاظت کر سکیں جیسا کہ مسیح علیہ‬
‫السالم نے نصیحت کی تھی کہ اپنی دانائی ایسے لوگوں پر‬
‫ضائع نہ کرو جو اس کے اہل نہیں اس لئے کہ وہ اس کے‬
‫ساتھ بے انصافی کریں گے اور نہ اُسے اہل لوگوں سے بچا‬
‫کر رکھو اس لئے کہ اس صورت میں تم ان کے ساتھ بے‬
‫انصافی کروگے‘‘۔(ص ‪ ،۱۹۹‬ایضا ً)‬

‫اخوان الصفاء کے ان نظریات سے جان کاری کے بعد ان کے فلسفہ زندگی اور مابعد‬
‫الطبیعات پر گفتگو ضروری ہے تاکہ ان سواالت کا جواب ڈھونڈا جائے جو اخوان کے‬
‫حوالے سے متقاضی ہیں کہ ان کا حل تالش کیا جائے۔‬

‫اخوان الصفاء کے رسائل میں چند باتیں ایسی ہیں جو عام قاری کے لئے غیر دلچسپ‬
‫ہیں ۔‬

‫اخوان الصفاء نے بالشبہ سائنس اور طبی علوم کو مدون کرنے میں اہم کردار ادا کیا‬
‫لیکن ان کے رسائل میں کوئی ربط نہیں ملتا اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے مختلف‬
‫مذاہب سے استفادہ کیا جب سوچ اور فکر کے لئے ماخذ ایک سے زیادہ ہوں تو فکری‬
‫نظام میں ربط پیدا کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔‬

‫باون رسائل کا بہت بڑ ا حصہ سائنس ریاضی اور فلسفیانہ علوم سے بحث کرتا ہے ۔‬
‫اس میں شک نہیں کہ اْن کی باتیں استدالل پر مبنی ہیں لیکن موجود ہ دور میں وہ‬
‫حاالت سے مطابقت نہیں رکھتیں ۔ اخوان کا اسلوب بہت طوالنی اور اکتاہٹ آمیز ہے۔‬

‫مصنف کہتا ہے کہ اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود ان کا اُردو ترجمہ نہیں ہوا حاالنکہ‬
‫عربی زبان کی داستانی کتاب الف لیلہ و لیلہ کا ایک سے زیادہ مرتبہ اردو ترجمہ ہو‬
‫چکا ہے۔‬

‫اخوان الصفاء اپنی انوکھی اور غیر روایتی فکر کے موجب سب سے الگ دکھائی‬
‫دیتے ہیں کیونکہ ان کی فکر معتزلہ‪ ،‬اشاعرہ ‪ ،‬صوفیہ اور فالسفہ سے مکمل طور پر‬
‫مماثل نہیں ہے بہت سے لوگوں نے انہیں اسماعیلی شیعہ سمجھا لیکن وہ اس سے بھی‬
‫دور ہیں کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ وہ سیاسی عزائم رکھنے واال گروہ ہے جو عباسی‬
‫سلطنت کے زوال کا خواہاں ہے ان کے رسائل کے مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ‬
‫ان عزائم سے بہت د َُْور تھے۔‬
‫خدا کے بارے میں اخوان الصفاء کے نظریات معتزلہ سے مماثل ہیں۔‬

‫اعلی و ارفع ہے کہ انسانوں کی طرح‬


‫ٰ‬ ‫’’اللہ اس سے بہت‬
‫اس کا چہرہ ہو ‪ ،‬ہاتھ ہوں‪ ،‬آنکھیں ہوں اور وہ عرش پر‬
‫جلوس کرے‘‘۔ (ص ‪ ، ۱۱۱‬ایضا ً)‬

‫وہ کہتے تھے کہ قرآن میں خدا کے بارے میں استعاراتی انداز بیان ہے اسے لفظی‬
‫معنوں میں نہیں لینا چاہیے۔ خدا کے بارے میں عام لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ ایک‬
‫خاص جگہ پر الگ تھلگ موجود ہے اور بہت اوپر آسمانوں میں اپنے عرش پرمتمکن‬
‫ہے اور ساری مخلوقات پر اس کی نظر ہے۔‬

‫اس حوالے سے اخوان کا خیال ہے‬

‫’’خدا کے بارے میں اس طرح کا ایمان عام لوگوں کے لئے‬


‫بہت اچھی چیز ہے جن میں عورتیں ‪ ،‬بچے اور ناخواندہ‬
‫افراد ہوتے ہیں اور وہ لوگ بھی جو ریاضیاتی‪ ،‬سائنسی اور‬
‫عقلی علوم سے نابلد ہوتے ہیں اس لئے کہ خدا پر اس طرح‬
‫کا ایمان ا نہیں اچھے کام کرنے کی ترغیب دیتا ہے ۔ اور‬
‫بْرے کاموں سے روکتا ہے اور اس میں ان کے اور ان کے‬
‫معاشرے دونوں کے لئے بھالئی ہے۔ اس گروہ کے اُوپر‬
‫ایک او ر طبقہ ہے وہ کہتا ہے کہ اللہ کوئی وجود نہیں ہے‬
‫بلکہ ایک روحانی پیکر ہے زمان و مکان کی قید سے آزاد‬
‫تمام موجودات میں جاری و ساری ہے پھر اس سے بھی‬
‫اُوپر ایک اور طبقہ ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ اللہ کسی قسم‬
‫کا پیکر نہیں ہے وہ روحانی انوار میں سے ایک نور‬
‫ہے‘‘۔ (ص ‪ ، ۱۱۱‬ایضا ً)‬

‫خدا کے اس تصور کے بارے میں اخوان الصفاء کے نظریہ پر بہت اعتراض ہوئے‬
‫کہ خدا جب نور ہے تو کیونکر اس سے مادے کا صدور ہوا اور خدا جو کامل ہے اس‬
‫سے ناقص چیزوں نے صدور کیا اور خدا خیر محض ہے اس سے صدور کرنے‬
‫والے جہان میں بُرائی اور بدامنی کا غلبہ ہو لیکن اس طرح کے اعتراضات تو تمام‬
‫مذاہب پر ہوتے رہے ہیں کہ انسانیت کی اصالح کے لئے اتنے پیغمبر اور رسول آتے‬
‫رہے ہیں لیکن پھر بھی بُرائی کی قوتیں ہر دور میں موجود رہی ہیں۔‬

‫اخوان الصفاء اخالق پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انسان کے اخالق اور مزاج کا‬
‫ہوتاہے۔‬ ‫پر‬ ‫عوامل‬ ‫مختلف‬ ‫چار‬ ‫انحصار‬
‫’’ پہال یہ کہ انسان کے جسم میں چار مزاجوں کی مقدار اور تناسب کیا ہے یعنی‬
‫پیدائشی طور پر اس کے اندر صفرا زیادہ ہے یا خون یا بلغم ! دوسرے یہ کہ وہ جس‬
‫ملک کا باشندہ ہے اس کی آب و ہوا کیسی ہے اور زمین کی ساخت کس طرح کی ہے‬
‫تیسرے یہ کہ اس کی نشوونما میں ا س کے آبائی مذہب اور روایات اور اساتذہ کی‬
‫تعلیم و تلقین کا کتنا ہاتھ ہے اور چوتھے یہ کہ جب وہ ماں کے پیٹ میں تھا تو اس پر‬
‫ستاروں کے اثرات کی کیا کیفیت تھی‘‘۔ (ص ‪ ، ۱۸۴‬ایضا ً)‬

‫وہ انسانی شخصیت کی تشکیل میں چوتھے عوامل کو زیادہ موثر اور کارگر سمجھتے‬
‫ہیں ان کے خیال میں سائنس ‪ ،‬فلسفہ ‪،‬ریاضیاتی اور طبیعاتی علوم سے آگاہی شخصی‬
‫تعمیر کے لئے بہت ضروری ہے۔‬

‫رو ز قیامت اس دنیا میں جو تباہی آئے گی اور سب کچھ مکمل طور پر نیست و نابود‬
‫ہو جائے گا اخوان اس حوالے سے کہتے ہیں۔‬

‫’’یہ عقیدہ صحیح نہیں ہے کہ قیامت اس دنیا اور زمین‬


‫وآسمان کی مکمل تباہی کے بعد آئے گی اور اللہ انسانوں کو‬
‫پھر سے ایک نئی صورت میں پیدا کرے گا اور لوگوں کو‬
‫ان کے اعمال کے مطابق بدلہ دے گا یہ سب عامتہ الناس‬
‫کے لئے ٹھیک ہے جو سوچنے کی صالحیت نہیں رکھتے‬
‫لیکن اہل علم و فکر آسمان و زمین کی تباہی کو تسلیم نہیں‬
‫کرتے اور شدت سے اس کا انکار کرتے ہیں ۔ آخرت کے‬
‫بارے میں یہ عقیدہ رکھنا چاہیئے کہ اس کا وجود اس دنیا‬
‫کے بعد کی چیز ہے اور یہ ایسے احوال پر مبنی ہو گی جو‬
‫نفس انسانی کو اپنے جسد سے الگ ہوجانے کے بعد پیش‬
‫آئیں گے‘‘۔(ص ‪ ،۱۸۱‬ایضا ً)‬

‫وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے بارے میں یہ گمان بہت بر ا ہے کہ وہ کافروں کو ہمیشہ کے‬
‫لئے دوزخ میں ڈال دے گا کیونکہ اس کی صفت رؤف و رحیم ہے۔‬

‫اب یہانیہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اخوان جو اپنے رسائل مین جابجا آیات قرآنی کا حوالہ‬
‫دیتے ہیں ان کے نظریات دیگر موضوعات پر قرآن کے خالف کیسے جاتے ہیں ؟‬

‫اس کا جواب یہ ہے کہ اخوان الصفاء تمام آسمانی کتابوں کے بیانات کو ان کے ظاہری‬


‫معنوں میں لینے کی بجائے عقل کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں ان کے مطابق آسمانی‬
‫صحیف وں اور آیات کے ظاہری معنی عام لوگوں کے لئے ہیں اہل فکر و فلسفہ سے‬
‫متعلق لوگ اس کے باطنی معنی مراد لیتے ہیں۔‬

‫جنوں ‪ ،‬شیطانوں اور فرشتوں کے حوالے سے وہ کہتے ہیں‬

‫' جنوں اور شیطانوں کا ٹھکانہ منافق انسانوں کے سینے ہوتے ہیں جہاں وہ گمراہ کر‬
‫نے کے لئے رہتے ہیں اور فرشتوں کے ٹھکانے مومن لوگوں اور ان سے برتر‬
‫رسولوں اور انبیا ء کے سینے ہوتے ہیں۔ (ص ‪ ،۱۸۱‬ایضا ً)‬

‫اخوان الصفاء کا نقطہ نظریہ ہے کہ انسان کو نہ کسی مذہب کے حق میں اور نہ کسی‬
‫چاہیے۔‬ ‫ہونا‬ ‫متعصب‬ ‫خالف‬ ‫کے‬ ‫مذہب‬
‫اخوان الصفاء کے نظریات جاننے کے بعد یہ سوال اٹھتا ہے کہ یہ جماعت کیا تھی‬
‫‪،‬کیا چاہتی تھی‪ ،‬اور کیا کرکے گئی؟‬

‫اس حوالے سے یہی کہا جاسکتا ہے کہ اخوان الصفاء اہل فکر و دانش کا ایک ایسا‬
‫گروہ تھا جو بہت روادار اور صلح جو قسم کے لوگ تھے ان کا رہن سہن بہت سادہ‬
‫تھا۔ فراخ دل اور کشادہ ذہن کے مالک تھے مسلمانوں کے روایتی اور قدامت پسندانہ‬
‫عقائد کے ساتھ ان کی ہم آہنگی بہت مشکل تھی لیکن باوجود اس رائے کے ہر مذہب‬
‫میں کوئی نہ کوئی سچائی موجود ہوتی ہے وہ اسالم کو سب سے اچھا اور قابل عمل‬
‫دین سمجھتے تھے ان کے رسائل میں قرآنی آیات کے اقتباسات اتنے زیادہ آتے ہیں کہ‬
‫لگتا ہے قرآن انہیں ازبر تھا انہوں نے اسالم کے نظام عقائد اور فلسفے کے درمیان ہم‬
‫آہنگی پیدا کرنے کی بہت کوشش کی لیکن راسخ العقیدہ لوگوں نے ان کے خالف محاذ‬
‫قائم کر کے خلیفہ وقت کو ان کے رسائل کے نسخے نذر آتش کرنے مجبور کر دیا‬
‫اگر وہ خود لوگوں کی نگاہ سے چھپ کر زیر زمین نہ رہے ہوتے تو ان کا بچنا بہت‬
‫مشکل تھا۔‬

‫مصنف آخر میں اس صورتحال پر اظہار افسوس کرتا ہے کہ اس جماعت اور اس کے‬
‫رسائل پر بہت کم لوگوں نے توجہ سے کام کیا ہے‪ ،‬جن لوگوں نے کیا ہے وہ بھی‬
‫محض سرسری انداز سے۔‬

‫اس حوالے سے مصنف کہتا ہے‬

‫'نامور مستشرق فلپ کے حتی نے اپنی کتاب ‪ History of the Arabs‬میں اخوان پر‬
‫صرف ایک صفحہ لکھا ہے اوراس میں تین غلطیاں کی ہیں۔ مشہور مصری ادیب‬
‫طہ حسین نے اخوان کے رسائل کے ایک ایڈیشن میں مقدمہ لکھا ہے جس میں‬
‫ڈاکٹر ٰ‬
‫وہ عالوہ بے سرو پا باتوں کے فرماتے ہیں‬

‫’’مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ اخوان کی جو شاخ بغداد میں قائم تھی اس کی‬
‫مجالس میں نابینا شاعر ابوالعالء معّری باقاعدگی سے شریک ہوتا تھا"ڈاکٹر صاحب‬
‫کی یہ بات واقعتاًبھی غلط ہے اور تاریخی اعتبار سے بھی صحیح نہیں ہو سکتی۔‬
‫مستشرق آر ۔اے نکلسن اپنی کتاب عربوں کی ادبی تاریخ میں اخوان کے رسائل کی‬
‫تعداد پچا س بتاتے ہیں جبکہ وہ ہمیشہ سے باون چلے آتے ہیں اور دوسروں کی دیکھا‬
‫دیکھی وہ ان کا تعلق اسماعیلی تحریک کے ساتھ جوڑتے ہیں ۔ایک اطالع البتہ وہ بہت‬
‫اچھی دیتے ہیں کہ جرمن سکالر ڈیٹریسی جس نے اخوان کے تقریبا َ تمام رسائل کا‬
‫جرمن زبان میں ترجمہ کیا تھا اس نے ا ن کے اس پورے انسائیکلو پیڈیا کا خالصہ‬
‫بھی مرتب کیا جو اس کی تصنیف ‪philosopheidor araber in X‬‬
‫‪jahrhundert‬میں دیکھا جاتا ہے‘‘۔ (ص ‪ ۱۰۴‬ایضا َ)‬
‫آخر میں میں یہ کہنا چاہوں گی کہ اخوان الصفاء کی یہ جماعت اپنے فکر و فلسفہ کے‬
‫باوجود اس عہد کے تہذیبی و سماجی حاالت اور وہاں موجود لوگوں کی فکر میں‬
‫انقالب النے کے لئے کوئی مثبت اثرات مرتب نہ کر سکی ۔ شاید اس کی وجہ وہ‬
‫سیاسی حاالت تھے جو اْن کی فکر کوپننے نہیں دے رہے تھے کیونکہ اُن کے فکر‬
‫انگیز نظریات سے اسالمی عقائد پر براہ راست زد پڑتی تھی جو کہ عوام الناس کے‬
‫لئے ُکفر سے کم نہ تھے۔وہ لوگوں میں منطق و دالئل سے بات کرنے کا شعور پیدا‬
‫کرنا چاہتے تھے ۔ اُن کا یہ نقطہ نظر بہت اہمیت کا حامل تھا کہ انہوں نے عامتہ الناس‬
‫کی درجہ بندی کر دی اور کسی کو بزور قلم مجبور نہ کیا ۔ اُن کے اسلوب بیان میں‬
‫عنصر غالب ہے۔‬
‫جارحیت نہیں بلکہ رواداری کا ُ‬

‫‪ .‬اگر دیکھا جائے تو جب سے یہ کائنات معرض وجود میں آئی ہے نظریات میں‬
‫اختالف کسی نہ کسی حوالے سے موجود رہا ہے اسی اختالف رائے سے کائنات کی‬
‫رعنائیاں برقرارر ہیں ورنہ چاروں اور جمود اور یکسانیت طار ی ہوجائے اور فضا‬
‫گھٹن کا شکار ہو کر دم ُکشی کی آماجگاہ بن جائے گی اور انسانیت سے فکر‬
‫کے سوتے ختم ہو جائیں گے اس لئے اہل فکر اور روایت پرستوں میں نظریاتی جنگ‬
‫جاری رہنی چاہیے۔‬

‫اسالم اور جدیدیت‬

‫زیر تبصرہ کتاب ‪ ۱۶۳‬صفحات پر مشتمل ہے ‪ ،‬مشعل بْکس کی طرف سے مکتبہ‬


‫جدید پریس الہور سے دوسری مرتبہ ‪۱۸۸۱‬ء میں شائع ہوئی قیمت ‪ ۱۱۰‬روپے ہے‬
‫اشاعت اول ‪ ۱۸۱۱‬ء یونیورسٹی آف شکاگو پریس سے ہوئی مصنف ‪ ،‬ڈاکٹر فضل‬
‫کاظم‬ ‫محمد‬ ‫‪:‬‬ ‫مترجم‬ ‫‪،‬‬ ‫الرحمن‬
‫زیر موضوع کتاب کے مندرجات میں پیش لفظ‪ ،‬تعارف اور چارابواب ‪ :‬ورثہ ‪،‬‬
‫کالسیکی اسالمی تجدید پسندی‪ ،‬معاصر تجدید پسندی‪ ،‬امکانات اور کچھ تجاویز شامل‬
‫ہیں۔اس کا اردو ترجمہ مصنف کا قابل تحسین کارنامہ ہے ورنہ اْردو داں طبقہ اس‬
‫اعلی پائے کے تحقیقی منصوبے سے محروم رہ جاتا ہے۔ڈاکٹر فضل الرحمن (‪۱۸۱۸‬ء‬
‫ٰ‬
‫تا ‪۱۸۱۱‬ء ) کا اسلوب ایک عالم اور محقق کا ہے اس لئے اْن کی تحریروں میں ادبی‬
‫چاشنی کا فقدان ہے۔ وہ حقائق کو اختصار اور جامعیت کے ساتھ بیان کرنے کے حق‬
‫میں تھے اس سے اْن کی تحریر کی سالست بھی متاثر ہوتی ہے اور وہ ُگنجلُک‬
‫محسوس ہوتی ہے۔‬

‫یہ کتاب ایک تحقیقی کام کے نتیجے میں روبہ عمل میں الئی گئی اس کی وجہ شکاگو‬
‫یونیورسٹی کا تحقیقی منصوبہ تھا جس کا موضوع "اسالم اور معاشرتی تغیرات" تھا‬
‫اس حوالے سے مختلف سکالرز نے‪ ،‬دیگر اسالمی ممالک کے بارے میں الگ تحقیقی‬
‫مقالے تیار کئے ۔مصنف اس یونیورسٹی میں پروفیسر تھے انہوں نے اپنے ذمے یہ‬
‫کام لیا کہ وہ تفصیل سے اس موضوع پر روشنی ڈالیں گے ۔ ان کے پیش نظر یہ‬
‫سواالت تھے کہ قرون وسطی میں اسالم کا تعلیمی نظام کیوں کر وقوع پذیر ہوا ؟ وہ‬
‫کس طرح کا تھااور اس میں کیا خوبیاں اور کمزوریاں تھیں؟ گذشتہ صدی سے اس کو‬
‫جدید بنانے کیلئے کیا کوشش کی گئیں اور ان کے نتائج کیا رہے؟‬
‫وسطی‬
‫ٰ‬ ‫" اسالم اور جدیدیت"کے عنوان سے یہ کتا ب اسالم کے تعلیمی نظام اور قرون‬
‫سے لے کر آج تک اس کی عہد بعہد تبدیلیوں کا احاطہ کرتی ہے لیکن مصنف کہتا‬
‫ہے چونکہ اسالمی تعلیم کی ابتداء قرآن اور اس کے فہم سے ہوتی ہے اس لئے اس‬
‫نے قرآن کی تفسیر کے موضوع پر بہت اہم نکات اٹھائے ہیں کہ قرآنی تفسیر کے‬
‫صحیح طریقہ کار سے استفادہ نہیں کیا گیا۔ فاضل مصنف کہتا ہے کہ قرآن کا نزول‬
‫وقفے وقفے سے تقریباَتئیس سال میں حاالت کے تقاضوں کے مطابق ہوا۔ اس کے‬
‫احکامات کسی خاص صورتحال کے ردعمل کے طور پر تھے سلسلہ وحی کی تکمیل‬
‫کے بعد یہی احکامات اسالمی نظاموں کے لئے قوانین کی بنیاد ٹھہرے۔‬
‫مصنف کہتا ہے کہ قرآن میں واضح سمت کا شعور ہے اور اس حوالے سے کوئی‬
‫مغالطہ نہیں ہونا چاہیے ۔ قرآن کی تفسیر اور اس کی ہدایات اور احکامات پر روزمرہ‬
‫زندگی میں عمل کرتے وقت یہ بات ذہن میں رکھنی بہت ضروری ہے کہ کس معاملے‬
‫میں قرآن کا بنیادی اصول کیا ہے۔قرآن کے اصل مقصد کو نظر انداز کر کے اپنے‬
‫مطلب کی بات نکالنا صحیح نہیں اور قرآن کے مقصد کی نفی ہو گی۔ اس کی مثال‬
‫دیتے ہوئے وہ کہتا ہے کہ غالم کو آزاد کرنا بہت بڑی نیکی ہے اور یہ بعض گناہوں‬
‫کیلئے کفارہ ہے اب اگر ان آیات کو حوالہ بنا کر ہم کہیں کہ غالم کا نظام موجودہ دور‬
‫میں ہونا چاہیے تاکہ غالم آزاد کر کے ہم اپنے گناہوں کا کفارہ کر سکیں تو یہ قرآنی‬
‫مقصد کے منافی ہے۔قرآن تو یہی چاہتا ہے کہ غالمانہ نظام ختم ہونا چاہیئے ایک آزاد‬
‫ہوا۔‬ ‫پیدا‬ ‫آزاد‬ ‫وہ‬ ‫جبکہ‬ ‫بنانا‬ ‫زنجیر‬ ‫پابۂ‬ ‫کیوں‬ ‫کو‬ ‫انسان‬
‫زکوۃ کے حوالے سے مسلمانوں کی کثیر تعداد اور اس میں علماء بھی‬
‫اسی طرح ٰ‬
‫شامل ہیں جو سمجھتے ہیں کہ معاشرے میں غریب لوگ ضرور رہنے چاہیں تاکہ وہ‬
‫سب اسالمی ْرکن کی تعمیل کر سکیں ۔اور اللہ کا ْقرب حاصل کر سکیں حاالنکہ قرآن‬
‫کا مقصد یہ ہے کہ اْمت مسلمہ میں ایسا معاشرتی اور اقتصادی نظام قائم ہو جس سے‬
‫غربت کا خاتمہ ہو‪ ،‬ان لوگوں کا اخالقی رویہ قرآن کے اصل مقصد کے خالف ہے۔‬

‫قرآن کی تفسیر اور موجود حاالت میں اس سے صحیح رہنمائی حاصل کرنے کے لئے‬
‫دوباتیں انتہائی اہم ہیں۔‬

‫پہلی یہ کہ کسی بھی آیت کا مفہوم سمجھنے کیلئے اُس تاریخی صورت حال کو‬
‫سامنے رکھا جائے جس کے جواب میں وہ آیت نازل ہوئی اس لئے موجود عہد کے‬
‫تقاضوں کو بحیثیت مجموعی اُس صورتحال میں دی ہوئی ہدایت کی روشنی میں‬
‫جائے۔‬ ‫سمجھا‬
‫دوسری یہ کہ قرآن کے ان اخالقی مقاصد کو موجودہ زمانے میں ال کر ان کا اطالق‬
‫آج کے مسلمانوں کو درپیش مسائل سے کیا جائے اس طرح قرآنی احکامات پھر سے‬
‫مؤثر ہو جائیں گے۔‬

‫قرآن کے واضح احکامات کے باوجود مکہ میں کوئی واضح نظام قائم نہ ہو سکا تھا‬
‫اس کی وجہ حاالت کی ناساز گاری تھی جس کا سامنا آنحضرت ﷺ اور اْن کے‬
‫رفقائے کار کو تھا ۔ اْن حاالت میں لوگوں کو اسالم کی طرف قائل کرنا سب سے اہم‬
‫مسئلہ تھا اس لئے اس دوران جو آیات نازل ہوئیں ان میں اخوت و بھائی چارے کی‬
‫تلقین کی گئی تھی۔لیکن ہجرت مدینہ کے بعد حاالت ایک نہج پر آگئے تھے اس لئے‬
‫قرآنی احکامات کے مطابق معاشرے میں معاشی انصاف کے حوالے سے اصالحات‬
‫کی گئیں۔‬
‫زیر تبصرہ کتاب کا پہال باب "ورثہ" کے عنوان سے ہے اس میں مصنف نے قرآن‬
‫کی بنیادی تعلیمات ‪ ،‬تفسیر کے صحیح طریقے اور ان سے قوانین اخذ کرنے کے‬
‫مسائل پر مختلف انداز میں بات کی ہے۔اس ضمن میں وہ بتاتا ہے کہ اسالم میں مختلف‬
‫علوم کے شعبوں کا وجود کیسے عمل میں آیا۔ ان میں اضافوں اور تبدیلیوں کی نوعیت‬
‫کیا ہے‪ ،‬مختلف مدارس کے وجود سے اسالمی نظام تعلیم کا معیار برقرار نہ رہ سکا۔‬
‫یہ طویل دور ساتویں صدی عیسوی سے اٹھارویں صدی تک چلتا ہے اس دوران‬
‫معتزلہ اور اشاعرہ علم کالم کے مختلف سکول کی صورت میں سامنے آئے ۔‬

‫معتزلہ اسالمی تعلیمات کو عقلیت کی بنیادوں پر پرکھتے تھے اس لئے اُن کے خالف‬
‫محاذ آرائی شروع ہو گئی اور اسالمی تعلیمات پر آنکھ بند کر کے عمل کرنے واال‬
‫روایت پرست اشاعرہ مسلط ہو گیا۔ اس دور میں فارابی ‪ ،‬ابن سینا اور غزالی جیسے‬
‫فالسفہ بھی تھے ان سب فالسفہ نے اپنے انداز سے اسالمی علوم پر اثرات چھوڑے ۔‬

‫اس ضمن میں مصنف بتاتا ہے کہ مدارس کی وجہ سے تعلیمی میدان میں جو تبدیلیاں‬
‫آئیں ان کے اثرات خاطر خواہ ثابت نہیں ہوئے اور ان کی تالفی آج تک ممکن نہ ہو‬
‫سکی۔ ان مدارس کی تنظیم کے دوران شرعی اور غیر شرعی علوم کی تقسیم کی گئی۔‬
‫شرعی علوم میں تفسیر‪ ،‬حدیث‪ ،‬فقہ‪ ،‬الہیات اور ادب شامل تھے جبکہ غیر شرعی‬
‫علوم میں طب ‪ ،‬فلسفہ ا ور حکمت کے علوم شامل تھے ۔ان علوم کے اصل متون ایک‬
‫طرف رکھ کر شرحیں اپنے اپنے انداز میں لکھی گئیں اور اُن سے ہی استفادہ کیا‬
‫جانے لگا۔‬

‫یہ باب چونکہ کئی صدیوں کا احاطہ کرتا ہے۔ اس لئے مواد کی کمی کے پیش نظر‬
‫موضوعات کا خاطرخواہ جائزہ نہیں لیا جاسکا اس کے باوجود مصنف کی تحقیق الئق‬
‫تحسین ہے کہ اس نے اس اہم اور طویل دور کے حوالے سے قارئین تک مفید اور‬
‫مستند معلومات پہنچانے کی سعی کی ہے۔ قرون وسطی کے اس دور میں تجسس کا‬
‫رویہ بْری طرح مجروح ہوا اور ان اثرات سے دامن چ ْھڑانا اتنا آسان نہیں ہے۔‬

‫اس حوالے سے مصنف کہتا ہے۔‬


‫’’اسالمی تعلیم" سے میری مراد تعلیم کا ظاہری ڈھانچہ نہیں‬
‫ہے بلکہ وہ چیز ہے جسے میں اسالمی دانشوریت کہتا ہوں۔‬
‫اعلی اسالمی تعلیم کا جوہر ہے ۔ یہ خالص اسالمی‬
‫ٰ‬ ‫یہی چیز‬
‫فکر کی نشوونما ہے جو ایک اسالمی تعلیمی نظام کی‬
‫کامیابی یا ناکامی کو جانچنے کیلئے صحیح کسوٹی مہیا کر‬
‫سکتی ہے قاری کو اس بات سے بھی اچنبھا ہو گا کہ میں‬
‫قرآن کی تفسیر کے صحیح طریقے کے بارے میں ایک‬
‫خاص میالن رکھتا ہوں‘‘۔(ص ‪ ،۱۱ ،۱۱‬اسالم اور جدیدیت)‬

‫مصنف کہتا ہے کہ انیسویں صدی میں پانچ نمایاں مسلم تجدید پسند نے سائنس اور‬
‫فطرت کی پیہم تالش و جستجو کے حوالے سے اسالم کا مثبت رویہ تشکیل دیا اور‬
‫اسے دوسروں کے سامنے پیش کیا۔ہندوستان میں سرسید احمد خاں‪ ،‬امیر علی‪ ،‬جمال‬
‫الدین افغانی ‪ ،‬ترکی کے نامق کمال اور مصر کے شیخ محمد عبدہ۔‬

‫شیخ محمد عبدہ کہتے ہیں قرون وسطی کی مسلم کونیات اور نظریہ کائنات کو سائنس‬
‫چیلنج کرسکتی ہے لیکن عقائد کو نہیں کر سکتی اس معاملے میں سائنس کچھ نہیں کر‬
‫سکتی دونوں کے مدار جدا ہیں ۔ نامق کمال کا کہنا ہے کہ کوئی بھی شخص فطرت‬
‫کے قوانین کے غیر متبدل ہونے کو ثابت نہیں کر سکتا۔ یہ قوانین خدا نے بنائے ہیں‬
‫وہی انہیں توڑ سکت ا ہے ۔سرسید احمد خاں نے پہلے علم کالم کو نئے سرے سے‬
‫مرتب کیا ‪ ،‬ان کے نزدیک جدید سائنسی روح ہی وہ کسوٹی معین کر سکتی ہے جس‬
‫سے کسی عقیدے کے قابل قبول ہونے کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔اس طرح دیکھیں تو‬
‫اسالم سب سے زیادہ فطرت کے قوانین کے مطابق ثابت ہوتا ہے اور عقل کو مطمئن‬
‫کرنے واال ہے۔مسلمانوں نے قرآن نظریہ کائنات کی غلط تعبیر کی ۔ وہ کہتے ہیں کہ‬
‫قدیم طرز کا علم کالم آج بر محل نہیں ہے اس لئے قرآن سے نیا علم کالم نکال کے‬
‫پیش کرنا چاہیئے ان کے نظریات میں انتہا پسندی تھی اس لئے وہ انہیں علی گڑھ کالج‬
‫میں الگو نہ کر سکے ۔‬

‫دوسرے باب "کالسیکی اسالمی جدیدیت پسندی میں مصنف اس زمانے کے حوالے‬
‫سے بات کرتا ہے کہ جب مسلم ممالک مغرب کے سیاسی غلبے میں آچکے تھے ۔ان‬
‫کی وجہ سے تعلیم کے دو نظام قائم ہو گئے ایک انگریزی تعلیم کا اور دوسرا مدارس‬
‫کی تعلیم کا‪ ،‬اس دور کے تجدید پسندوں نے ان دو نظاموں کو مدغم کرنے کی ناکام‬
‫کوششیں کیں جو پوری نہ ہو سکیں۔‬

‫سرسید کے حوالے سے عمومی رائے یہی ہے کہ وہ خواتین کو جدید تعلیم دینے کے‬
‫حق میں نہیں تھے۔‬

‫اس حوالے سے فاضل مصنف اپنی رائے پیش کرتا ہے۔‬

‫’’سرسید کو مسلم خواتین پنجاب نے جو سپاسنامہ پیش کیا‬


‫اس کے جواب میں انہوں نے عورتوں کی روایتی اور عملی‬
‫تعلیم کی پُر زور حمایت کی۔انہوں نے خواتین کی تین‬
‫نسلوں"میری ماں " میری اپنی نسل اور میری بیٹیوں کے‬
‫لئے اس تعلیم کے طریقے اور پڑھائے جانے والے مواد کو‬
‫بہت وضاحت کے ساتھ بیان کیا‘‘۔ (ص ‪ ،۱۱۱‬ایضاَََ )‬

‫مصنف نے ترکی ‪ ،‬مصر اور ایران کے نظام تعلیم میں تجدید کے حوالے سے بات کی‬
‫ہے۔ایران کے حوالے سے وہ کہتا ہے‬

‫’’ایران میں روایتی مذہبی تعلیم کے مواد میں تجدید کی اتنی‬


‫کمی کیوں ہے اور علماء اس کے خالف اتنی مزاحمت کیوں‬
‫کرتے ہیں ایک طرح سے یہ بھی صحیح ہے کہ وہاں اس‬
‫روایتی تعلیم میں غالبا َ اتنی توڑ پھوڑ نہیں ہوئی تھی اور‬
‫اسے اتنا زوال نہیں آیا تھا جتنا باقی مسلم دْنیا میں دیکھا گیا۔‬
‫رضا خاں کے عہد میں دوسرے ممالک کی طرح ایران کے‬
‫اندر بھی تعلیم کا نظام درست کرنے کے لئے متعدد اقدامات‬
‫کا اعالن کیا گیا لیکن شیعی نظام اپنے روایتی مزاج و‬
‫خصوصیات کو کم و بیش اپنی اصل حالت میں محفوظ‬
‫رکھنے میں کامیاب رہا ہے‘‘۔ (ص ۔‪ ،۱۳۱ ،۱۳۰‬ایضاَََ )‬
‫اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شیعی علماء جدید علم سے آگاہ نہیں ہیں اس وجہ سے تعلیم کو‬
‫الدینی بنانے کے روزافزوں عمل کے مقابلے میں علماء کا معیار کافی نقصان میں رہا‬
‫ہے۔‬

‫تیسرا باب" معاصر تجدید پسندی" جو بیسویں صدی کے نصف کا احاطہ کرتا ہے ۔اس‬
‫زمانے میں قریبا َ مسلم ممالک نے مغرب کے سیاسی تسلط سے آزادی حاصل کر لی‬
‫تھی اور اس سیاسی آزادی کا مطلب مسلمانوں کو اپنے معاشروں کی جدید طرز تعمیر‬
‫کے لئے تعلیم کے مسائل پر نئے سرے سے غور کرنا چاہیے اور اس کے لئے‬
‫ضروری اہتمام کرنا چاہیئے ۔ بعض ممالک نے یہ سیاسی آزادی بہت کش مکش کے‬
‫بعد حاصل کی۔‬

‫مسلم معاشروں میں تخلیقی تعلیم کی جو کمی اب تک رہی ہے مصنف اس کی دو‬


‫وجوہات بیان کرتا ہے۔‬

‫’’ایک غالمانہ اور بے تکے طریقے سے نو آبادیاتی دور‬


‫کے تعلیمی نظاموں کو جاری رکھے چلے جانا جیسا کہ‬
‫ترکی میں ہوا۔دوسرے وہ جادو جومادی ترقی کے نظریے‬
‫نے منصوبہ بندوں پر کیا اس کی وجہ سے یہ حقیقت آ‬
‫نکھوں سے اوجھل رہی کہ جب تک انسان کا ذہن تبدیل نہ‬
‫ہو ٹیکنالوجی انسان کو بہتر بنانے میں کامیاب نہیں ہو‬
‫سکتی‘‘۔ (ص ‪ ، ۱۴۱‬ایضا ً)‬

‫مصنف گنّرمرڈل کی ایشین ڈراما کے حوالے سے کہتا ہے کہ ان تمام ملکوں کی‬


‫حکومتیں چاہے وہ آمرانہ ہو یا جمہوری ۔ان کی معیشت سوشلسٹ ہو یا آزاد ترقی کو‬
‫بہت جلد اور بہت آگے لے جانے کی اہلیت نہیں رکھتیں اس لئے وہ نرم و ناتواں‬
‫ریاستیں ہیں وہ اپنے عوام کو تیز رفتار اقتصادی ترقی کے لئے آمادہ عمل نہیں کر‬
‫سکتیں۔‬

‫اس حوالے سے مصنف اپنے خیاالت کو چند نکات کی صورت میں پیش کرتا ہے۔‬
‫’’ان ملکوں کی حکومتیں چاہے وہ جمہوری ہو یا آمرانہ‬
‫زیادہ تر عوام کی جانب سے خود ساختہ ایجنٹ بنی ہوئی‬
‫ہیں۔خود کو ترقی کی ایجنسیاں سمجھتی ہیں ترقی سے ان‬
‫کی مراد صرف معاشی ترقی ہے یہ نظریہ کم و بیش مغربی‬
‫نمونے کے مطابق ہے جہاں ذہنی اور اخالقی اقدار بہت‬
‫پیچھے چلی گئی ہیں۔ مشرق میں یہ مسئلہ زیادہ پیچیدہ ہو‬
‫گیا ہے کہ یہاں بہت سے اہل فکر نے یہ نعرہ اپنے لوگوں‬
‫کو دیا ہوا تھا کہ کہ مشرق کا تعلق رواج سے ہے جبکہ‬
‫مغرب سراسر مادہ پرست ہے۔۔ اگر مشرق کی اپنی روحانی‬
‫خاصیت کے بدلے مغرب سے کچھ تکنیکی علم درآمد کر‬
‫لے تو دنیا میں سب سے اچھا ہو جائے گا۔ ان ملکوں میں‬
‫عوام اَن پڑھ اور بے خبر ہیں وہ حکومتی معامالت میں‬
‫شریک نہیں ہوتے‘‘۔(ص ‪ ،۱۴۴ ،۱۴۳‬ایضا َ)‬

‫مصنف اس آگاہی کو خوش آ ئند قرار دیتا ہے جو ترقی پسند ممالک میں پائی جانے‬
‫لگی ہے کہ موجودہ صورتحال کو زیادہ دیر تک جاری نہیں رکھا جا سکتا ۔بہت سے‬
‫ذہنوں میں اس امر کا شعور پیدا ہو چکا ہے کہ روایتی اور جدید کے درمیان کوئی‬
‫ہے۔‬ ‫نہیں‬ ‫مطابقت‬
‫مصر کا جامعہ ازہر ایک سرکاری ادارہ ہے جو گزشتہ صدیوں سے اپنے عقلی و‬
‫روحانی موقف میں کم و بیش ایک جگہ پر جما ہوا ہے اس کو جدید بنانے میں انیسویں‬
‫صدی کے علماء میں شیخ محمد عبدہ نمایاں تھے لیکن اس کے اثرات صرف نئی‬
‫تنظیم ‪ ،‬امتحانوں کے نظام اور نئے مضامین کے اجراء تک محدود رہے۔ پاکستان میں‬
‫تعلیم کے حوال ے سے مصنف کہتا ہے کہ یہاں نجی حلقے میں مدارس کے عالوہ ایک‬
‫بہت اہم اسالمی فینا مینا "جماعت اسالمی" ہے اس کے بانی موالنا مودودی (متوفی‬
‫‪۱۸۹۸‬ء) نے نوجوانوں کو روایت پسند علماء سے برگشتہ کر دیا تھا لیکن وہ کسی‬
‫طرح بھی دقیق قسم کی تحقیق کرنے والے سکالر نہ تھے وہ مدارس کی پیدا کردہ‬
‫گھٹن میں ہوا کے تازہ جھونکے کی طرح تھے لیکن وہ کوئی اہم نظریاتی انقالب نہ ال‬
‫سکے۔‬
‫اس حوالے سے مصنف کہتا ہے‬

‫’’مودودی نے کہیں بھی دْنیا میں اسالم کے رول کا کوئی‬


‫وسیع تر اور گہرا تصور پیش نہیں کیا ۔ وہ سنجیدہ سکالر‬
‫سے زیادہ ایک صحافی تھے انہوں نے مسلسل اور پے در‬
‫پے لکھا لیکن کسی تعلیمی ادارے کی بنیاد نہ رکھی اور نہ‬
‫اصالح یافتہ اسالمی تعلیم کے لئے کوئی نصاب تجویز کیا۔‬
‫اگر اس طرح کے ترقی کے کام کر لئے جاتے تو ان کے‬
‫پیرو کار ایک روشن فکر اور سنجیدہ اسالمی تعلیم کے‬
‫طفیل ذہنی طور پر زیادہ آزاد ہو جاتے لیکن موالنا کے‬
‫معتقدین میں سے کوئی ایک بھی کبھی اسالم کا سنجیدہ‬
‫طالب علم نہ بن پایا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ موالنا مودودی‬
‫نے جو لکھ دیا اور کہہ دیا وہ اسالم پر حرف آخر سمجھا‬
‫جانے لگا قطع نظر اس کے کہ انہوں نے وقتا َ فوقتا َ اقتصادی‬
‫پالیسی یا سیاسی نظریے جیسے بنیادی امور پر کس قدر‬
‫اوراور کتنی بے باکی سے آپ اپنی تردید کی تھی‘‘۔ (ص‬
‫‪ ،۱۱۳‬ایضاَََ )‬

‫مصنف اپنی رائے کے اظہار میں بغیر لگی لپٹی کہنے کا قائل ہے لیکن وہ مذکورہ‬
‫شخصیت کے حوالے سے حد ادب کا خیال رکھتا ہے کراچی یونیورسٹی کے وائس‬
‫چانسلر اشتیاق حسین قریشی سے سوال کرتے ہوئے کہتا ہے‬

‫’’انہوں نے دس سال سے بھی زیادہ عرصے میں جس طرح‬


‫سے جمعیت طلبہ کی سرپرستی کی اس کو وہ کیا جواز پیش‬
‫کر سکتے ہیں ؟ وہ ایک سنجیدہ دانشور تھےء اور اپنی‬
‫موت تک دانشورانہ سطح پر ذرخیز رہے تھے یہ سوال یہ‬
‫بطور سربراہ ان کی پالسیوں سے متعلق ہے انہوں نے اپنے‬
‫دفاع میں جو یہ کہا ہے کہ یہ جمعیت طلبہ ہی تھی جو‬
‫نوجوان طالب علموں کو انتہا پسند بائیں بازو والوں سے بچا‬
‫سکتی تھی ۔تو جانچنے پر بات کچھ بنتی نہیں ‪ ،‬کیا اس وقت‬
‫جمعیت طلبہ کے طالب علم بائیں بازو کے زیادہ چوکنے‬
‫اور ذہنی طور پر چْ ست لوگوں کا کوئی جوڑ تھے؟ پروفیسر‬
‫قریشی نے اسالمیات میں زیادہ روشن فکر اور ترقی پذیر‬
‫نصاب شامل کر کے اسے اسی نام کے شعبے میں کیوں نہ‬
‫رائج کیا ؟‘‘(ص ‪ ، ۱۱۶‬ایضاَََ )‬

‫مصنف اسالم کا پرچا ر کرنے والے جنرل ضیاء الحق کے حوالے سے کہتا ہے کہ‬
‫اس کے نزدیک انتخابات والی جمہوریت غیر اسالمی ہے لیکن فرماں روائی حکومت‬
‫اسالمی طور پر قابل قبول ہے جبکہ یہ نظریہ کسی بھی قابل احترام اسالمی مفکر کا‬
‫نہیں رہا۔ انڈونیشیا کے نظام کے متعلق مصنف ایک طرح سے کسی حد تک اچھی‬
‫توقع رکھتا ہے۔‬

‫’’انڈونیشیا ئی اسالم اگرچہ فی الوقت ازہر پر بہت زیادہ‬


‫انحصار کئے ہوئے ہے رفتہ رفتہ ایک ایسی با معنی اور‬
‫مقامی اسالمی روایت کی تشکیل کرے گا جو صحیح معنوں‬
‫میں اسالمی اور تخلیقی ہو گی ۔اگر چہ موجودہ صورت حال‬
‫بہت اصالح چاہتی ہے مستقبل کے لئے امید کی عالمات‬
‫دیکھی جا سکتی ہیں‘‘( ص ‪ ،۱۰۱‬ایضا ً)‬

‫کتاب کے چوتھے اور آخری باب "امکانات اور کچھ تجاویز"میں مصنف پھر اس‬
‫موضوع کا احاطہ کرتا ہے کہ مسلمانوں میں تعلیم کے جو مختلف نظام اس وقت چل‬
‫رہے ہیں انکو مناسب صورت میں اگر یکجا کر دیا ہے تو یہ کوئی ناقابل بیان بات‬
‫نہیں ہے ۔ایسا علم جو انسان کی بصیرت اور اس کی عملی سرگرمی کے آفاق کو‬
‫وسیع نہیں کرتاایک محدود اور مضرت رساں علم ہے۔‬

‫مصنف اس حوالے کہتا ہے‬

‫’’انسان اصل حقیقت کو جانے بغیر زندگی کے مقاصد کا‬


‫یعنی اعلی اقدار کا علم کیسے رکھ سکتا ہے؟ مسلم تجدید‬
‫پسندوں نے اگر اور کچھ نہیں کیا اتنا تو کم از کم کیا ہی ہے‬
‫کہ قرآن سے اتنی زور دار شہادت اس بات کے لئے الئے‬
‫ہیں کہ ایمان کے لیے کائنات انسان اور تاریخ کا علم بے حد‬
‫ضروری ہے یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ اب تمام مسلمان کم از‬
‫کم زبانی طور پر اس کا اقرار کرتے ہیں ‘‘۔(ص ‪، ۱۱۱‬‬
‫ایضا َ)‬

‫مصنف کے مطابق روایتی اور جدید کو آپس میں یکجا کرنے میں دورکاوٹیں ہیں ایک‬
‫نو بنیاد پرست یا نو احیا ء پسند ان لوگوں کا نظریہ ہے کہ ذہنی طور پر مغرب سے‬
‫تعلق توڑ لیا جائے جب تک مسلمان مغرب کے ساتھ کسی نہ کسی شکل میں جْ ڑے‬
‫رہتے ہیں وہ آزادی اور خود مختاری کے ساتھ کبھی کچھ نہیں کر سکیں گے ۔نواحیاء‬
‫پسند کے حوالے سے مصنف کہتا ہے۔‬

‫’’نواحیاء پسند ایک اتھال اور سطحی انسان ہے جس کی‬


‫جڑیں نہ تو قرآن میں ہیں ‪ ،‬نہ روایتی دانشورانہ ثقافت میں‬
‫جس کے بارے میں اسے کچھ بھی معلوم نہیں ہے چونکہ‬
‫اس میں زیادہ ذہنی گہرائی یا وسعت نہیں پائی۔ اصل بات یہ‬
‫ہے کہ نواحیاء پسندی نے برائے نام بھی کوئی اسالمی‬
‫تعلیمی نظام پیدا نہیں کیا‘‘۔(ص ‪ ۱۱۱ ، ۱۱۶‬ایضا َ)‬

‫دوسری بڑی رکاوٹ تعلیم یافتہ اور ایسے دانش ور اساتذہ کی کمی ہے جو تعلیم کے‬
‫قدیم اور جدید نظام کو یکجا کرسکیں ۔تعلیم کے نئے اور متحد نظام کے نصاب کا تعین‬
‫اور اس کے مطابق کتابوں کا لکھا جانا ان امور کے لئے ماہرین اور اساتذہ ضروری‬
‫ہیں لیکن ان کا دستیاب ہونا آسان نہیں۔مصنف یہ تجویز کرتا ہے کہ معاشرتی سائنس‬
‫دان جو معاصر معاشروں کا مطالعہ کرتے ہیں انہیں تاریخ کے حکمت آمیز اسباق‬
‫سے آشناء کیا جائے اس لئے کہ بنی نوع انسان کی تاریخ ناقابل تقسیم ہے اس لحاظ‬
‫سے انسانی قوتیں تمام روئے زمین پر ایک جیسی ہیں وہ کہتا ہے کہ جب تک قرآن کا‬
‫مواد پوری طرح نظم اور قاعدے میں نہیں الیا جاتا اس کی انفرادی آیات کو حاالت کی‬
‫صورتوں پر منطبق کرنا ‪ ،‬جیسا کہ اکثر مسلم واعظین اور دانشور لوگ کرتے ہیں‬
‫خطرناک حد تک گمراہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔‬
‫معاشرتی علوم کا مطالعہ بھی ایک سلسلہء عمل ہے نہ کہ کوئی ایسی چیز جسے بس‬
‫ایک ہی دفعہ ہمیشہ کیلئے قائم کر دیا جائے بلکہ یہ دوسرے کسی بھی میدان سے‬
‫زیادہ تسلسل کا متقاضی ہے۔‬

‫مصنف اقبال کی فکر کے حوالے سے کہتا ہے۔‬

‫’’یہ فلسفی اور شاعر اقبال ہی تھے جنہوں نے اپنی‬


‫کتاب ‪Reconstruction of Religious thought in‬‬
‫‪Islam‬میں اسالمی علم کالم تک رسائی کے ایک نئے‬
‫طریقے کی کوشش کی اقبال جدید مغربی فلسفے اور اسالمی‬
‫تصوف کے ایک شوقین طالبعلم تھے لیکن وہ اسالم کی‬
‫کالمی روایت کے عالم نہ تھے اور نہ قرآں کے ‪ ،‬جس کو‬
‫اگرچہ وہ روح کی رفعت کے لئے بہت زیادہ پڑھا کرتے‬
‫تھے ۔اقبال نے قرآن کی تعلیمات کے بارے میں کوئی‬
‫باقاعدہ تحقیقات نہیں کیں بلکہ اس کی آیات سے حسب منشاء‬
‫جو لینا تھا لے لیا‘‘۔ (ص‪)۱۳۸‬‬

‫مصنف کا نقطہ نظر بہت وسیع ہے اور فلسفے کے بعض پہلوؤں پر اس کی نظر اتنی‬
‫گہری ہے کہ وہ اقبال جیسے مفکر کی قلعی کھول کر رکھ دیتا ہے لیکن اس دوران‬
‫اس کے اسلوب میں تحقیر آمیز رویے کی آمیزش کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ وہ اختالف‬
‫کی معقول وجہ ضرور بیان کرتا ہے۔‬

‫’’اقبال کے ساتھ میرا اختالف ا ن کے خدا کے بارے میں‬


‫اس تصورکی وجہ سے نہیں ہے کہ وہ تخلیقی قوت کا ایسا‬
‫انتہائی اور آخری منبع ہے جسے افراد اور معاشرے بعض‬
‫صورتوں میں اپنا سکتے ہیں بلکہ تصور کی کلیہ سازی کی‬
‫وجہ سے ہے اور اس طریقے کی وجہ سے جس سے وہ‬
‫اسے قرآن سے اخذ کرتے ہیں‘‘(ص ‪ ، ۱۴۰‬ایضا ً)‬
‫مختصر یہ کہ ڈاکٹر فضل الرحمن جیسا عالم ‪ ،‬مفکر اور محقق اسالم کو شاید ہی میسر‬
‫آئے ہمارے معاشرے میں انتہاء پسند علماء کی وجہ سے یہ المیہ رہا ہے کہ وہ خرد‬
‫پسند فکر کو پننے نہیں دیتے اور سادہ لوح عوام کو گمراہی میں ہی مبتال رکھتے ہیں‬
‫اس سے ان کا مقصد جو بھی ہو لیکن یہ رویہ صحت مند فکر کی نفی کرتا ہے۔‬

‫مترجم ڈاکٹر فضل الرحمن کے حوالے سے بتاتا ہے ۔‬

‫’’جب وہ پاکستان آئے تو پہلے کراچی میں رہے اور پھر‬


‫اسالم آباد میں ‪۱۸۱۱‬ء سے ‪۱۸۱۱‬ء تک وہ چھ سال اسالمی‬
‫تحقیق کے مرکزی ادارے سے بطور ڈاکٹر منسلک رہے ۔‬
‫یہ ایوب خاں کا دور تھا اْس زمانے میں انہوں نے اجماع‪،‬‬
‫اجتہاد اور سود جیسے موضوعات پر کچھ مقاالت لکھے‬
‫جن پر قدامت پرست علماء کو اعتراض ہوا اور وہ ان کے‬
‫دشمن ہو گئے جب ان کے خال ف پروپیگنڈہ زیادہ ہونے لگا‬
‫تو وہ پاکستان چھوڑ کر امریکہ چلے گئے ۔جہاں ‪۱۸۱۸‬ء‬
‫سے ‪۱۸۱۱‬ء تک اْنیس برس کا طویل عرصہ انہوں نے‬
‫یونیورسٹی آف شکاگو میں پروفیسر کے عہدے پر کام کیا‬
‫اور یہیں ‪۱۸۱۱‬ء میں وفات پائی ۔ اس وقت وہ ایک کتاب‬
‫‪Revival & Rerform in Islam‬پر کام کررہے تھے جو‬
‫ادھوری رہ گئی‘‘۔ (ص ‪ ،۱۱‬ایضاَََ )‬

‫اعلی تحقیقی شاہکار سے محروم رہ‬


‫ٰ‬ ‫اہل فکر طبقے کے لئے یہ بہت المیہ ہے کہ وہ‬
‫گئے جو ان کی فکر کے بند کواڑ کھولنے کے لئے باد صبا کا تازہ جھونکا ثابت ہونا‬
‫تھا۔‬

‫سفر ناموں کے محرکات میں جاسوسی تجارت ‪،‬سفارت اور سیاحت نمایاں ہیں پرا نہیں‬
‫جرائد نے بھی قبول عام دیا ۔سفر نامے کو فکشن میں ڈھالنے کی روش ہمارے ہاں‬
‫مرد سفر نامہ نگاروں میں عام ہے‪ ،‬محمد کاظم نسبتا َ ََ سنجیدہ اور بردبار ہیں‪ ،‬مگر ان‬
‫کاہیولی تشکیل دیا‬
‫ٰ‬ ‫کی طرف سے یہ کوشش ہوئی ہے کہ سفر نامے میں ایک ہیروئن‬
‫جائے اوربین السطور یہ بھی بتا دیا کہ یہ وہ مسافر نہیں کہ گھر میں موجود بیوی کو‬
‫بھول جائے یا اپنی مالزمت کے تقاضے۔‬

‫سفر نامے کا شمار قدیم اصناف ادب میں ہوتا ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کی‬
‫ہئیت میں تبدیلیاں آتی گئیں ۔زمانے کے ساتھ ذرائع آمدورفت کی نوعیت میں تبدیلی اس‬
‫کا بڑا سبب بنی ۔ایک وقت تھا جب سفر نامے کا موضوع کسی ملک کے شہر کی‬
‫دیواریں‪ ،‬ساحل ‪،‬کتب خانے ‪،‬مکانات اور درس گاہیں تھیں لیکن شادی و غمی کی‬
‫تقریبات اور اس سے متعلقہ تفریحات موضوع سے خارج سمجھی جاتی تھیں ۔بیشتر‬
‫سفر نامے اسی تکنیک کے تحت لکھے گئے ۔‬

‫مغربی جرمنی میں ایک برس (سفر نامہ) تحقیقی و تنقیدی جائزہ‪:‬‬

‫ایک انگریز سفر نامہ نگار نے اس ضمن میں ایک نئی روایت کی طرح ڈالی جس کی‬
‫آج تک پیروی کی جارہی ہے اور اس سحر انگیز اسلوب کی ہر دل عزیزی میں برابر‬
‫اضافہ ہو رہا ہے ۔‬

‫’’چارلس ایم ڈاؤٹی نے صحرائے عرب میں بیس مہینے‬


‫پر خطر سیاحت اور مہم جوئی میں‬
‫کا طویل عرصہ ُ‬
‫گزارا ۔عرب کے بدوؤں کی زندگی ‪ ،‬ان کے کردار اور‬
‫عادات کا مطالعہ ان کے اندر رہ کر کیا اس نے اپنے‬
‫اس مطالعے کی داستان جب اپنی کتاب "ٹریولزان عریبیا‬
‫ڈیزرٹا "میں بیان کی تو پڑھنے والے سفر نامہ کی ایک‬
‫انوکھی اور دلچسپ صورت سے آشنا ہوئے ‘‘۔(ص ‪94‬‬
‫‪ ,‬کل کی بات )‬

‫سفر نامہ لکھ نے کی خواہش ہر ادیب کے اندر پنہاں ہوتی ہے یہ الگ بات ہے کہ‬
‫مکروہات حیات میں الجھ کر وہ اس سے صرف نظر کر جاتا ہے اپنے تجربات و‬
‫مشاہدات کو لفظوں کا روپ دینا اور انہیں کرداروں میں اس طرح سمونا کہ وہ آپ‬
‫بیتی کے ساتھ ساتھ ناول کا بھی تاثر دیں ایسا سفر نامہ لکھنا ہی سفر نامے کی اصل‬
‫معراج ہے ۔‬

‫سفر نامہ کی تکنیک میں روزنامچے اور خطوط کو بنیادی اہمیت حاصل رہی ہے یہ‬
‫الگ بات ہے کہ خطوط میں تصنّع کی آمیزش کا اندیشہ رہتا ہے کچھ سفر نامہ نگار‬
‫ایسے بھی ہیں جو اپنی یادداشتوں کو ذہن کے کسی گوشے میں محفوظ کرتے جاتے‬
‫ہیں اور پ ھر فرصت کے اوقات میں اپنی یادداشت کے بل بوتے پر مشاہدات و واقعات‬
‫کو بیانیہ انداز میں احاطہ تحریر میں التے ہیں بیانیہ تکنیک میں اگر کرداروں کی‬
‫مکالماتی گفتگو کی رنگ آمیزی بھی شامل ہو جائے تو سفر نامہ حقیقت کا مظہر‬
‫ہے‬ ‫دیتا‬ ‫دکھائی‬
‫زیر موضوع سفر نامہ "مغربی جرمنی میں ایک برس "کے سفر نامہ نگار محمد کاظم‬
‫کا یہ سفر بطور تخلیق کار یامحض تفریح کے نقطہ نگاہ سے نہیں تھا ۔ بلکہ ‪6791‬ء‬
‫میں ان کے محکمے )واپڈا(کی طرف سے انہیں ایک سال کے تر بیتی پروگرام کے‬
‫لئے منتخب کیا گیا تھا ۔ یہ ان کا کمال فن تھا کہ انہوں نے اپنے مشاہدات کو لفظوں کی‬
‫زبان دی ۔اس سفر میں وہ اکیلے نہیں تھے ۔بلکہ ان کے دو ساتھی (شیخ اور شہزادہ )‬
‫بھی ہمراہ تھے محکمے کے قواعد و ضوابط کی وجہ سے اْ ن پر کچھ پابندیاں عائد‬
‫تھیں جن کے تحت ان کے قیام کے اوقات مقرر تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے‬
‫اس سفر اور وہاں قیام سے ایک مسافر کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک سیاح کے طور‬
‫پر لطف اٹھایا اپنے مطالعے اور مشاہدے میں جزئیات نگاری کو خاص طور پر پیش‬
‫نظر رکھا۔‬
‫زیر موضوع مذکورہ باال سفر نامہ ‪ ۳۱۰‬صفحات پر مشتمل سنگ میل پبلی کیشنز‬
‫الہور سے شائع ہوا ۔ اس کا انتساب کچھ اس طرح سے ہے ۔‬

‫’’بھائی اور دوست احمد ندیم قاسمی کے نام ‪ ،‬جن کے‬


‫رسالے "فنون "کی روح پر ور فضاء نے اس سفری‬
‫کہانی کی آبیاری کی‘‘۔‬

‫یہ سفر نامہ دو پیش لفظ پر مشتمل ہے پہلے پیش لفظ میں دوسرے ایڈیشن کا مختصر‬
‫تعارف ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ یہ سفری سرگذشت "مغربی جرمنی میں ایک‬
‫برس" کے عنوان سے ادبی مجلہ "فنون" میں قسط وار شائع ہوتی رہی بعد ازاں اسے‬
‫کتابی صورت میں ‪۱۸۱۱‬ء میں "دامن کوہ میں ایک موسم" کے نئے عنوان سے سنگ‬
‫میل پبلی کیشنز نے شائع کیا اور اب دوسرا ایڈیشن ‪۱۰۰۱‬ء میں سنگ میل پبلی کیشنز‬
‫الہور کی طرف سے شائع ہوا۔‬

‫دوسرے پ یش لفظ میں پہلے ایڈیشن کے حوالے سے اس سفرنامے کا مختصر تعارف‬


‫ہے۔‬ ‫کہتا‬ ‫نگار‬ ‫نامہ‬ ‫سفر‬ ‫ہوئے‬ ‫کرواتے‬
‫" اس سفر نامے میں اور ہر طرح کی خامیاں ہو سکتی ہیں لیکن یہ ایک خامی سے‬
‫بالکل مبرا ہے۔ وہ یہ کہ میں نے اسے کسی مقام پر بھی جھوٹ افسانے سے آلودہ نہیں‬
‫ہونے دیا۔یہاں تک کہ اس کا کوئی مکالمہ بھی خالی اور فرضی نہیں ہے اس کی وجہ‬
‫یہ ہے کہ سفر نامہ ‪ ،‬خود نوشت اور یاد ایام وغیرہ ایسی اصناف ہیں جن کا حْ سن سب‬
‫سے زیادہ اْن کے سچے اور مبنی برحقیقت ہونے میں ہوتا ہے"(ص ‪ ، ۱۰‬مغربی‬
‫جرمنی میں ایک برس)‬

‫کچھ کتابیں اپنے موضوع اور اسلوب کی وجہ سے اتنی دلچسپ ہوتی ہیں کہ دل چاہتا‬
‫ہے انہیں بار بار پڑھاجائے لیکن وہ شائع ہوتے ہی ہاتھوں ہاتھ بک جاتی ہیں لہذا‬
‫قارئین کی خواہش کے پیش نظر انہیں دوبارہ شائع کیا جاتا ہے لیکن ضروری نہیں ان‬
‫میں کوئی تبدیلی بھی ضرور کی جائے۔‬

‫اس کتاب کے حوالے سے مصنف کی رائے ہے۔‬


‫’’کتاب پر نظر ثانی کرتے ہوئے اس میں کوئی خاص‬
‫تبدیلی نہیں کی گئی بس کچھ ایسے الفاظ یا جملے جو‬
‫ذوق پر گراں محسوس ہوئے اْن کی اصالح کر دی گئی‬
‫ہے۔‘‘(ص ‪ ، ۹‬ایضا َ)‬

‫اس سفر نامے کے چند عنوانات میں کتابی صورت میں اشاعت کے دوران اس طرح‬
‫تبدیلی کی گئی۔‬

‫ص ‪۱۹‬تا‪۱۱‬‬ ‫اپریل‪،‬مئی‪۱۸۹۱‬ء‬ ‫‪۱‬۔‬

‫"مغربی جرمنی میں ایک برس"‬ ‫فنون میں عنوان‬

‫"کراچی تک"‬ ‫کتاب میں عنوان‬

‫ص ‪۶‬تا‪۱۱‬‬ ‫جون ‪،‬جوالئی ‪۱۸۹۱‬ء‬ ‫‪۱‬۔‬

‫ص ‪۴۳‬تا ‪۶۳‬‬ ‫اگست ‪،‬ستمبر ‪۱۸۹۱‬ء‬ ‫‪۳‬۔‬

‫ص‪۴۶‬تا ‪۶۳‬‬ ‫اکتوبر‪ ،‬نومبر ‪۱۸۹۱‬ء‬ ‫‪۴‬۔‬

‫"من ہائیم"‬ ‫فنون میں عنوان‬

‫"من ہائیم ۔ وائن ہائیم"‬ ‫کتاب میں عنوان‬

‫ص ‪ ۴۱‬تا ‪۶۳‬‬ ‫اپریل ‪،‬مئی ‪۱۸۹۳‬ء‬ ‫‪۶‬۔‬

‫من ہائیم (مسلسل )‬ ‫فنون میں عنوان‬

‫ہائیڈل برگ ۔ من ہائیم‬ ‫کتاب میں عنوان‬

‫ص‪۳۸‬تا‪۴۱‬‬ ‫جوالئی ‪،‬اگست ‪۱۸۹۳‬ء‬ ‫‪۱‬۔‬

‫ص‪۶۱‬تا‪۱۱‬‬ ‫ستمبر ‪،‬اکتوبر ‪۱۸۹۳‬ء‬ ‫‪۹‬۔‬


‫ص ‪۱۱‬تا‪۸۶‬‬ ‫اگست ‪۱۸۹۴‬ء‬ ‫‪۱‬۔‬

‫(‪)۱‬‬ ‫فنون میں عنوان‬

‫آخن میوہلے۔ روس ہولزن۔ آخن میوہلے۔‬ ‫کتاب میں عنوان‬

‫ص ‪ ۱۱۱‬تا ‪۱۱۱‬‬ ‫اپریل مئی ‪۱۸۹۶‬ء‬ ‫‪۸‬۔‬

‫آخن میوہلے (‪)۴‬‬ ‫فنون میں عنوان‬

‫آخن میوہلے (‪ )۴‬۔ ایک مجلس موسیقی ۔۔۔۔۔سے‬ ‫کتاب میں عنوان‬
‫اون‬

‫ص ‪ ۱۹۱‬تا ‪۱۱۱‬‬ ‫جوالئی ‪ ،‬اگست ‪۱۸۹۶‬ء‬ ‫‪۱۰‬۔‬

‫آخن میوہلے (‪)۶‬‬ ‫فنون میں عنوان‬

‫رابندن ۔۔۔بْرگ ہاؤزن ۔۔۔۔۔آخن میوہلے (‪)۶‬‬ ‫کتاب میں عنوان‬

‫ص ‪ ۱۱۱‬تا ‪۱۱۱‬‬ ‫مارچ اپریل ‪۱۸۹۹‬ء‬ ‫‪۱۱‬۔‬

‫آخن میوہلے (‪)۱‬‬ ‫فنون میں عنوان‬

‫آخن میوہلے‪)۱( ،‬۔۔۔۔ہوہن موس کا جنگالتی میلہ‬ ‫کتاب میں عنوان‬

‫ص ‪ ۱۹۱‬تا ‪۱۸۰‬‬ ‫اکتوبر ‪ ،‬نومبر ‪۱۸۹۹‬ء‬ ‫‪۱۱‬۔‬

‫ص ‪ ۸۳‬تا ‪۱۰۶‬‬ ‫ستمبر‪ ،‬اکتوبر ‪۱۸۹۸‬ء‬ ‫‪۱۳‬۔‬

‫ص ‪ ۴۹۱‬تا ‪۴۱۸‬‬ ‫جنوری ‪ ،‬فروری ‪۱۸۱۱‬ء‬ ‫‪۱۴‬۔‬

‫مغربی جرمنی میں ایک برس‬ ‫فنوان میں عنوان‬


‫زالٹس بْرک ‪ ،‬مغربی کالسیکی موسیقی اور‬ ‫کتاب میں عنوان‬
‫موتسارت‬

‫ص ‪ ۴۱۱‬تا ‪۴۹۹‬‬ ‫مئی‪ ،‬جون ‪۱۸۱۶‬ء‬ ‫‪۱۶‬۔‬

‫زیر موضوع سفر نامہ ‪ ۱۶‬ابواب پر مشتمل ہے پہلے چھ ابواب میں سفر نامہ نگار کا‬
‫اسلوب بیانیہ تکنیک میں ہے لیکن قاری کی دلچسپی برقرار رکھنے کے لئے اس نے‬
‫کافی غوروفکر کے بعد روزنامچے کا اسلوب اختیار کیا۔‬

‫اس سفر نامے کا عنوان مغربی جرمنی اس لئے رکھا گیا کہ اس وقت کے حاالت کے‬
‫پیش نظر جرمنی مشرقی اور مغربی دو حصوں میں منقسم تھا اور اب صورتحال‬
‫مختلف ہے کیونکہ وہ جرمنی میں مدغم ہو کر ایک ہی ملک بن گیا ہے مغربی جرمنی‬
‫میں مصنف نے ایک سال گزارا لیکن یہ سرگزشت کوہ الپس کے دامن میں واقع ایک‬
‫چھوٹے سے گاؤں آخن میوہلے میں گزارے ہوئے صرف دو ماہ کا احاطہ کرتی ہے۔‬
‫ّ‬
‫جرمن زبان سیکھنے میں گزارا۔ اپنے قیام کے باقی دس ماہ کی‬ ‫یہ عرصہ اس نے‬
‫کہانی کے متعلق مصنّف کہتا ہے۔‬

‫’’اپنے قیام جرمنی کے باقی دس مہینوں کی کہانی‬


‫صل نہیں ہو گی‬
‫مجھے ابھی کہنی ہے لیکن یہ اتنی مف ّ‬
‫اور اس کا انداز اور اسلوب بھی دوسرا ہو گا۔ اس کے‬
‫لئے میں مناسب وقت اور موقع کی تالش میں ہوں‘‘۔‬
‫(ص ‪ ،۸‬مغربی جرمنی میں ایک برس)‬

‫صنف کو کاروبار حیات نے بقیہ کہانی کہنے کی فرصت نہ دی اور یوں‬


‫افسوس کہ م ّ‬
‫وہ یہ تمنا دل میں لئے ہی سفر آخرت کو سدھار گیا اور ہم اسلوب کی اس نئی جہت‬
‫سے متعارف ہو ئے بناء رہ گئے۔‬

‫سفرنامہ نگار نے اس سفر نامے میں مغربی جرمنی (آخن میوہلے) کے لوگوں کی‬
‫زندگی ‪ ،‬کردار اورعادات کا مطالعہ ان کے اندر رہ کیااور اسی طرح یہاں پر آئے‬
‫ہوئے مختلف ممالک کے طالبعلموں کا مطالعہ جس ژ رف نگاہی سے کیا اس سے‬
‫سفرنامہ ایک دلچسپ اسلوب سے آراستہ ہو گیا۔‬

‫کر داروں کا مطالعہ مصنف کا پسندیدہ موضوع رہا ہے۔ دوران تعلیم علی گڑھ کالج کی‬
‫یادوں کو تازہ کرتے ہوئے بھی وہ ہماری مالقات کئی دلچسپ کرداروں سے کرواتا‬
‫ہے اس ضمن میں وہ اْن کی نفسیات کا بہت گہرائی سے جائزہ لیتا ہے۔‬

‫زیر نظر سفر نامے کا پہال باب "کراچی تک"‬

‫اس مختص ر سفر کے دوران مصنف کا مشاہدہ ال جواب ہے وہ معمولی سے واقعے کو‬
‫بھی نظر انداز نہیں کرتا ۔ وہ اس غریب اور دیہاتی جوتشی کے متعلق سوچ رہا تھا‬
‫جس نے ہاتھ دیکھ کر اسے مالزمت میں ترقی اور سمندر پار سفر کی خوش خبری‬
‫سنائی لیکن وہ اسے محض مذاق سمجھا تھا اَب وہ سوچ رہا ہے کہ کیا واقعی ایسا‬
‫ممکن ہو سکتا ہے؟ اس کے دماغ میں ماضی اور حال کے واقعات ایک فلم کیطرح‬
‫چل رہے ہیں۔‬

‫یہاں جہاز میں موجود ایئر ہوسٹس کے حوالے سے اس کے تاثرات اس طرح سے‬
‫ہیں۔‬

‫’’ایک ٹھنڈی‪ ،‬کاروباری مسکراہٹ اور پُرتصنع خوش‬


‫اخالقی جس کے پیچھے ایک بیزاری تھکن اور سرد‬
‫مہری کا چہرہ چھپائے نہیں چھپتا تھا ‘‘۔(ص ‪،۱۹‬‬
‫مغربی جرمنی میں ایک برس)‬

‫میڈ اِن جرمنی‬

‫یہاں مصنف اپنے ملک میں جرمنی کے متعلق رائج تصورات کا ذکر کرتا ہے وہ اپنے‬
‫بچپن کے دور کو یاد کرتا ہے جب جرمنی صنعتی لحاظ سے بہت ترقی یافتہ تھا‬
‫دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر نے دیگر ممالک کو اپنے مقبوضات میں شامل کر کے‬
‫اپنی سلطنت کو وسیع کر لیا۔ لیکن دوسری جنگ عظیم میں اتحادیوں نے اس ملک کو‬
‫مکمل طور پر نیست و نابود کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تاکہ یہ دوبارہ کبھی سر‬
‫نہ اْٹھا سکے۔ مصنف اس قوم کی استقامت اور قوت ارادی کو سالم کرتا ہے کہ بہت‬
‫جلد اس نے اپنی ساری قوتیں‪،‬مجتمع کیں۔ اور ایک نئے عزم کے ساتھ دوبارہ دنیا کے‬
‫نقشے پر اُبھر آئی۔‬

‫مصنف اس خیال کی تائید کرتا ہے کہ حاالت کی گردش اور پیٹ کی بھوک انسان سے‬
‫وہ کام کرواتی ہے جو کبھی اس کے لئے ناممکنات میں شامل ہوتے ہیں۔ کسی ملک‬
‫کے اقتصادی اور سماجی حاالت اس کے باشندوں کی طرز بودوباش کی نمائندگی‬
‫کرتے ہیں جہاں عورتیں خود کو سامان زینت بنالیتی ہیں اور مرد خاموش تماشائی بن‬
‫کر رہ جاتے ہیں اس رویے کے حوالے سے سفر نامہ نگار اپنے تاثرات کو پیش کرتا‬
‫ہے جو اس نے مختلف جرائد کی وساطت سے جرمنی جانے سے بہت پہلے پڑھے‬
‫تھے۔‬

‫’’ جرمن عورتیں اور دو شیزائیں بعض اوقات مجبورہو‬


‫کر محض اشیائے خوردنی کے عوض اپنے آپ کو‬
‫امریکی فوجیوں کے حوالے کردیتی تھیں اور ایسے‬
‫واقعات اْن دنوں شاذ اور غیر معمولی نہ تھے‘‘۔ (ص ‪۹‬‬
‫‪ ، ۱‬ایضا َ)‬

‫اب جرمنی جانے سے پیشتر مصنف کے ذہن میں جرمنی سے متعلق تصورات سے‬
‫گڈ مڈ تھے کہ درحقیقت جرمنی کیسا ہو گا؟‬

‫فرینکفرٹ کو پرواز‬

‫اس باب میں دوران سفر ملنے والے کرداروں کا تجزیہ ایک دلچسپ پہلورکھتا ہے۔‬
‫چونکہ عربی مصنف کا پسندیدہ مضمون ہے اس لئے وہ اس کے اظہار کے لئے موقع‬
‫کی تالش میں رہتا ہے۔ جہازمیں ملنے والی ایک لڑکی کا نام سعاد تھا اس مناسبت سے‬
‫اْسے کعب بن زہیر کا مشہور قصیدہ بانت سعاد یاد آگیا۔ اور اس کی گفتگو اس ْرخ پر‬
‫چل پڑی۔‬
‫من ہائیم ۔وائن ہائیم ۔ ہائیڈل برگ ۔من ہائیم‬

‫چوتھا اور پانچواں باب مغربی جرمنی کے شہروں من ہائیم ‪،‬وائن ہائیم اور ہائیڈل برگ‬
‫کے قدرتی منظر اور تفریح گاہوں اور بازاروں کی سیر کے حوالے سے ہے ۔‬

‫تحیرکے ساتھ دیکھ‬


‫ّ‬ ‫من ہائیم کی خوبصورتی اور دلکش نظاروں کو وہ طالب علمانہ‬
‫رہے تھے جرمنی میں جنگالت کی کثرت تھی ۔ یہاں پر ان تینوں کا قیام جدید سہولتوں‬
‫سے آراستہ ہوٹل میں تھا جہاں صبح کے ناشتے کا انتظام تھا ۔دوپہر اور رات کا کھانا‬
‫باہر جاکر کھانا تھا ۔ کمرے کی آرائش مصنف کو حد درجہ متاثر کرتی ہے۔‬

‫یہاں آکر مصنف نے ایک اہم کارنامہ سرانجام دیا جو وہ پچھلے کچھ عرصے سے‬
‫ٹالتا چال آرہا تھا زمانے کی اْونچ نیچ نے اس کے ذہن کے بند دریچے کھول دیئے اور‬
‫مروجہ طریقوں سے برگشتہ کر دیا۔ اس نے اپنے ارادوں کو عملی‬
‫اسے گھسے پٹے ّ‬
‫جامہ پہنانے کا تہ یہ کر لیا۔ اور آتے ہی شیو کا سامان نکال کر داڑھی صاف کر‬
‫لی۔ایسا کرنے پر اْسے کوئی دکھ اور ندامت نہیں ہوئی کیونکہ وہ کسی مذہبی ٹولے‬
‫سے اپنی‬

‫وابستگی تو بہت عرصے سے ختم کرنا چاہتا تھا۔ لیکن چونکہ کسی تعلق کو ختم‬
‫ہوتے بھی کچھ وقت درکار ہوتا ہے اس لئے وہ بھی مناسب وقت اور مواقعے کی‬
‫تالش میں سرگرداں تھا جو آخر مل گیا۔‬

‫اس حوالے سے وہ کہتا ہے‬

‫’’آئینے میں اب میرا چہرہ صاف اور روشن نکل آیا‬


‫تھا۔میں نے محسوس کیا کہ اپنی داڑھی کے کھچڑی‬
‫بالوں کے ساتھ میں نے اپنی عمر کے چند ایک سال بھی‬
‫پانی کی راہ میں بہا دیئے تھے۔ مجھے شیشے میں اپنے‬
‫مسرت‬
‫ّ‬ ‫اس جواں تر روپ سے مالقات کر کے بہت‬
‫ہوئی‘‘۔ (ص ‪ ، ۶۱‬ایضا َ)‬
‫انسان زندگی میں کبھی مطمئن اور خوش نہیں ہوتا شاید یہ طرزعمل اسے مصروف‬
‫رکھتا ہے اسی کو کشمکش حیات کہتے ہیں‪ ،‬مصنف کی خواہش ہے کہ وہ اپنی عمر‬
‫کا باقی حصہ اس خوبصورت سرزمین میں گزاردے جبکہ ہرشمسکی کی خواہش ہے‬
‫کہ وہ اپنی عمر کا باقی حصہ الہور میں گزار سکتا؟‬

‫اس کے بعد وہ وائن ہائیم سے ہائیڈل برگ روانہ ہوتے ہیں راستے میں آنے والے‬
‫دیہات بھی شہروں سے کم نہ تھے کیونکہ وہ جدید سہولیات سے آراستہ تھے ۔‬

‫ہائیڈل برگ کے حوالے سے وہ کہتا ہے۔‬

‫’’ہائیڈل برگ ایسا شہر ہے جو اپنی پہچان آپ کرواتا‬


‫ہے اس پر نظر پڑتے ہی تمہارے ذہن میں گھنٹی بجتی‬
‫ہے اور تمہارا دل اپنے آپ کہتا ہے کہ یہ کوئی دوسرا‬
‫شہر نہیں ہو سکتا ۔ جہاں ملک جرمنی کی قدیم ترین‬
‫یونیورسٹی ہے اور جس کے گیت ہر زمانے کے‬
‫شہروں اور بھاٹوں نے گائے ہیں جہاں ہماری سرزمین‬
‫کے شاعر اقبال نے فلسفے کی انتہائی تعلیم کے ساتھ‬
‫ساتھ کتاب عشق کے بھی کچھ سبق لئے تھے!‘‘(ص‬
‫‪ ،۱۸‬ایضا َ ََ)‬

‫’’اظہار محبت کا اتنا ذاتی ‪ ،‬اتنا مخفی اور اتنا بے خود‬


‫کردینے واال فعل اور یوں رسوا سر بازار ! لیکن طویل‬
‫عرصہ وہاں رہتے رہتے مجھے محسوس ہونے لگا کہ‬
‫یہ کوئی ایسی ناروا بات بھی نہیں ہے‘‘۔ ( ص ‪، ۹۹‬‬
‫ایضا َ ََ)‬

‫’’ نہ سٹور کے کونوں پر محافظ تعینات ہیں ‪ ،‬نہ چیزیں زنجیروں سے بندھی ہوئی ہیں‬
‫اس کے باوجود سٹور کا نظام چل رہا ہے اور کسی کو یہ تحریص نہیں ہوتی کہ مطلب‬
‫کی چیز اْٹھا کر کوٹ کی جیب میں ڈال لے اور بجائے کاؤنٹر کا ْرخ کرنے کے باہر‬
‫کا راستہ لے۔میں سوچتا ہوں کہ ایسا کوئی سٹور ہم مسلمانوں کے کسی ملک میں چل‬
‫سکتا ہے؟‘‘‬

‫یہاں مصنف بحیثیت مجموعی مسلمانوں کی اس فکر کو سامنے التا ہے کہ ہم ایمان ‪،‬‬
‫اخالق ‪ ،‬گناہ اور ثواب کا راگ تو ہر وقت االپتے ہیں اللہ اور روز آخرت پر پختہ‬
‫ایمان رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود جرمن لوگوں کا عمل خیر ہم سے بہتر ہے جو‬
‫بظاہر کسی عقیدے اور ایمان کے پابند بھی نہیں ہیں۔‬

‫وہ جرمن عورتوں کی خوب صورتی کے ساتھ ان کی خوب سیرتی کا بھی قائل نظر‬
‫آتا ہے اس کی فکر اور اسلوب سے ظاہر ہوتا ہے کہ عورت کو جتنا چ ْھپا کر رکھو‬
‫گے اْتنے ہی مسائل پیدا ہوں گے اور معاشرے کی بنیادیں کمزور ہوں گی جو عورت‬
‫اعتماد سے عاری ہو گی وہ اگلی نسل کی کیا تربیت کرے گی اور زندگی سے فطری‬
‫پن دُور ہو جائے گا۔‬

‫سرت کو ہی اصل خوشی سمجھتے ہیں‬


‫کچھ مردوں کا وطیرہ ہوتا ہے کہ وہ جنسی م ّ‬
‫اس کی خاطر وہ ہر جتن کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ‪،‬۔ مصنف ان کی‬
‫عجیب سوچ کی نفی کرتے ہوئے کہتا ہے۔‬

‫سرت حاصل کرنے کی‬


‫’’ایک نسوانی شخصیت سے م ّ‬
‫صرف ایک ہی سطح تو نہیں ہوتی نا! ہم اس کی باتوں‬
‫سے محظوظ ہو سکتے ہیں اس کی حس مزاح کا لطف‬
‫بھی اٹھا سکتے ہیں اوراگر وہ کوئی فنکار ہے تو اس کا‬
‫فن بھی ہمیں اْتنی م ّ‬
‫سرت او ر لذت پہنچا سکتا ہے جتنا‬
‫اس کا جسمانی حْ سن!‘‘(ص ‪ ، ۱۱‬ایضا َ ََ)‬

‫آخن میوہلے‬

‫یہ وہ گاؤں ہے جہاں کے گوئٹے انسٹیٹیوٹ میں مصنف اور اس کے ساتھیوں نے‬
‫جرمن زبان سیکھنی تھی۔‬
‫مصنف بیانیہ اسلوب میں آخن میوہلے کا تعارف کرواتا ہے اور اس کا محل وقوع بیان‬
‫کرتا ہے ۔‬

‫’’ یہ اتنا چھوٹا اور گمنام سا گاؤں ہے کہ ملک جرمنی‬


‫کے کسی نقشے پر یہ اپنے لئے ایک نقطے جتنی جگہ‬
‫پانے کا استحقاق بھی نہیں رکھتا ۔ باالئی بواریا کے اس‬
‫عالقے میں جو میونشن اور آسٹریا سے ملنے والی‬
‫مشرقی سرحد کے درمیان واقع ہے یہ گاؤں سرسبز‬
‫پہاڑیوں کے درمیان گھرا ہوا چین سے پڑا سوتا ہے‘‘۔‬
‫(ص ‪ ، ۱۸‬ایضا َ ََ)‬

‫اس تعارف میں مصنف جزئیات نگاری سے کام لیتا ہے اس لئے محسوس ہوتا ہے کہ‬
‫صنف کے تخیل کی‬
‫ہم بھی مصنف کے ساتھ آخن میوہلے کی سیر کر رہے ہیں م ّ‬
‫کارفرمائی قاری کو ایک خوش گوار احساس سے دوچار کرتی ہے یہ تینوں دوست‬
‫آخن میوہلے میں واقع گوئٹے انسٹیٹیوٹ پہنچتے ہیں ۔ پیر کا دن اور جوالئی کی ایک‬
‫معتدل دوپہر تھی اْن کے شوفر ہر بروننگ نے پرنسپل سے اْن کا تعارف کروایا اور‬
‫واپس چال گیا ۔ یہ ان کے آٹھ ہفتوں کے جرمن زبان کے کورس کا پہال دن تھا طلبہ‬
‫اور طالبات آچکے تھے اور کچھ ابھی آرہے تھے ۔‬

‫مصنف کالس کے تعارف کے دوران کہتا ہے۔‬

‫’’ سوائے الجزائر کے مسخرے بلیلی کے ‪ ،‬جو فرانس‬


‫کی کسی یونیورسٹی میں اپنی تعلیم کا سلسلہ ملتوی‬
‫کرکے یہاں آیا تھا اور کوئی فرد ہماری جماعت میں‬
‫ایسا نہ تھا جو اپنے ُچلبلے پن اور شخصیت کی چمک‬
‫دمک سے کالس کے ماحو ل کو زندہ اور بشاش رکھے۔‬
‫امریکہ کی ریاست ٹیکساس کی ڈورو تھی ولیمنز اور‬
‫پیرس کے مضافات کی رہنے والی ڈانیل الونے دونوں‬
‫سنبھلے اور ٹھہرے ہوئے مزاج کی لڑکیاں تھیں جو‬
‫تمام چیزوں سے زیادہ اپنی پڑھائی کے بارے میں‬
‫سنجیدہ تھیں۔ڈوروتھی تو کالس کے لڑکوں سے گپ‬
‫شپ کر لیتی تھی لیکن ڈانیل ایسی شرمیلی اور چھوئی‬
‫موئی تھی کہ ہم اس سے مخاطب ہوتے تو وہ اپنے آپ‬
‫میں سمٹتی چلی جاتی ۔ جاپان کے ہیروشی تاکی گوچی‬
‫اور اس کے لمبے سیاہ بالوں والی بیوی تامیکو کبوتروں‬
‫کی ایک پیاری سی جوڑی تھی ۔طبیعت کے بہت میٹھے‬
‫اور مشرقی رکھ رکھاؤ اور ملنساری کا عمدہ نمونہ !‬
‫جاپانی کے عالوہ کوئی دوسری زبان نہیں بولتے تھے ‪،‬‬
‫ترکی کا سْرخ و سفید اور پیارے خدوخال واال‬
‫الکرباطوم بھی کچھ زیادہ کم گو اور بھالمانس تھا۔ یہی‬
‫حال پیرس کے لمبے اور چھریرے جسم والے ڈی کاتھا‬
‫۔ ایران کے عالقے اہواز کی پروانہ سانولی سلونی ‪،‬‬
‫لمبے گون میں ایک سیدھے تنے ہوئے متناسب االعضاء‬
‫جسم کے ساتھ اس کی شخصیت میں اور چال ڈھال میں‬
‫شہزادیوں کی سی آن بان تھی۔فارسی کے عالوہ کچھ‬
‫نہیں جانتی تھی‘‘۔ ( ص ‪ ،۸۱ ،۸۹‬ایضا َ ََ)‬

‫پھر مصنف اپنی ایک کالس فیلو کا تعارف مختلف اور ڈرامائی انداز میں تعارف‬
‫کرواتا ہے جو پوری کالس ہوا کا تازہ جھونکا ثابت ہوئی اور اس کے آنے سے کالس‬
‫کا ماحول یکلخت تبدیل ہو جاتا ہے یوں جیسے اس نے کالس کے مردہ تن میں نئی‬
‫روح پھونک دی ہو ۔ سب اس کی پر اعتماد اور چلبلی شخصیت کے زیر اثر آگئے اور‬
‫مصنف بھی خود کو اس کے سحر سے نہ بچا سکا ۔ وہ وقتا َ ََ فوقتا َ ََ اس کے حواسوں‬
‫پر چھائی رہی۔‬

‫اس کا تعارف وہ قدرے تفصیل سے کرواتا ہے۔‬


‫’’ ایسے میں ایک دن خدا کا کرنا کیا ہوا کہ ہماری‬
‫کالس کا دروازہ ُکھال اوراس میں ایک نوواردیوں داخل‬
‫ہوئی جیسے کسی ْپر سکون اور اونگھتی ہوئی محفل‬
‫میں کوئی پاؤں میں گھنگھرو باندھے چال آئے ۔ ہماری‬
‫کالس کی منجمد فضاء میں اچانک زندگی اور حرارت‬
‫کی لہر دوڑ گئی۔ اس نے پیازی رنگ کا ایک باریک‬
‫اور گھاگرے دار منی فراک پہن رکھا تھا اور آدھی ران‬
‫سے نیچے اس کی گوری اور ہر ی بھری سڈول ٹانگوں‬
‫میں ایک ایسی کشش تھی کہ نگاہیں بار بار ادھر کو‬
‫اُٹھتی تھیں ‪ ،‬یہ لڑکی جس کے بال گہرے سنہری تھے‬
‫اور جس نے آنکھوں پر سنہرے فریم کی عینک لگا‬
‫رکھی تھی بے جھجک جرمن بولتی تھی اور ہمارے‬
‫لئے یہ بات بڑی اچنبھے کی تھی ۔اسے اوپر کے کسی‬
‫درجے سے اْتار کر ہماری اس ابتدائی کالس میں بھیج‬
‫دیا گیا تھا ۔فروالئن واکس نے حسب معمول ہماری کال‬
‫س کی اس نئی شخصیت کا تعارف تختہ سیاہ پر لکھ کر‬
‫کرایا وہ ترکی سے آئی تھی اور اس کا نام ہجراں بوئیک‬
‫مرزا‘‘!( ص ‪ ۸۱‬ایضا َ ََ)‬

‫آخن میوہلے‬

‫یہاں مصنف روز نامچے کا اسلوب اختیار کرتا ہے وہ قاری کو ایک عالمی برادری کا‬
‫رہن سہن‪،‬گفتگو ‪ ،‬دلچسپیاں دوستیاں ‪،‬بد گمانیاں اور رقابتیں تفصیل سے دکھانا چاہتا‬
‫ہے‬

‫‪ ۹‬جوالئی سے ان کی کالسوں کا آغاز ہوتا ہے ٹیچر کا نام فروالئن الزبتھ واکس ہے‬
‫چالیس سے اوپر ادھیڑ عورت ہے اس نے خود کو شادی کے بندھن سے آزاد رکھا۔‬
‫مصنف اس کا تعارف کرواتے ہوئے کہتا ہے‬

‫’’کشیدہ قامت ‪،‬اکہرا بدن ‪،‬ہاتھ پاؤں میں جوانوں کی سی‬


‫چْ ستی اور مستعدی ‪ ،‬آدھی پیشانی پر چھوٹی بچیوں کے‬
‫انداز میں سیدھے کترے ہوئے بال ‪ ،‬سامنے سے‬
‫دیکھنے پر جیسے ایک سنہری ٹوپی سر پر دھری ہو ‪،‬‬
‫آگے کے ذرا اْبھرے ہوئے دانتوں اور کھلے دہانے میں‬
‫بچوں کا سا بھولپن ! بات کرنے کا لہجہ حد درجہ مالئم‬
‫اور شائستہ آج پہلے دن کے لیکچر میں ہی اس نے ہمیں‬
‫یہ احساس دال دیا کہ فروالئن کوئی عام ٹیچر نہیں ہے وہ‬
‫اْن لوگوں میں سے ہے جو اپنے پیشے میں اپنی ساری‬
‫شخصیت کھپا دیتے ہیں ‘‘۔ (ص ‪ ۱۰۳‬ایضا َ ََ)‬

‫ہمارا ہاں یہ تصو ر رائج ہے کہ امریکہ یا دیگر ممالک میں بَسنے والے لوگ بہت‬
‫خوشحال ہیں انہیں کسی قسم کا مالی مسئلہ درپیش نہیں ہے اور وہ بے فکر آزاد‬
‫زندگی گذار رہے ہیں مصنف گول چہرے ٹھیک ‪ ،‬خدوخال اور بھاری کولہوں والی‬
‫بہت ذہین اور پڑھی لکھی امریکی لڑکی ڈورو تھی کے حوالے ہمارے اس فرسودہ‬
‫تصور کی نفی کرتا ہے۔‬

‫’’معلوم نہیں دْنیا میں یہ غلط فہمی کیوں عام ہے کہ‬


‫امریکہ میں جوانسان بھی بستا ہے امیر کبیر ہوتا ہے‬
‫میرے متعلق بھی یہاں لوگوں کو اسی طرح کا خیال ہے‬
‫حاالنکہ میں ایک غریب خاندان کی لڑکی ہوں۔ میرا باپ‬
‫ایک ٹیوب ویل ڈرائیور ہے جس کی آمدنی اتنی محدود‬
‫ہے کہ گھر کے اخراجات چالنے کے لئے ہم لڑکیوں کو‬
‫جزوقتی کام کرنا پڑتا ہے۔ میں یونیورسٹی آف کیلے‬
‫فورنیا میں ٹیچر ہوں اور گرامر اور زبان کی تعلیم دیتی‬
‫ہوں اس کے ساتھ میراڈاکٹریٹ کرنے کا ارادہ بھی‬
‫ہے۔جس کے لئے یورپی زبانوں میں سے کسی ایک‬
‫زبان کا جاننا ضروری ہوتا ہے میں نے اس مقصد کے‬
‫لئے جرمن زبان کا انتخاب کیا ہے‘‘۔ (ص ‪،۱۰۸ ،‬‬
‫ایضا َ ََ)‬

‫مصنف شخصیات کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ عربوں کی نسبت ترک اور ایرانی‬
‫زیادہ اپنائیت اور بھائی چارے کے ساتھ ملتے ہیں پڑھائی کے ساتھ ساتھ سیر و تفریح‬
‫کو خاص اہمیت دی جاتی تھی اس لئے سب طالبات کو خوبصورت شہر روزن ہائیم‬
‫گیا۔‬ ‫جایا‬ ‫لے‬
‫مصنف اس شہر کا مختصر ا َ ََ تعارف کرواتا ہے۔(ص ‪ ،۱۱۱‬ایضا َ ََ)‬

‫یہاں مصنف پر اپنے ساتھیوں کی شخصیتیں کتاب کی طرح ک ْھلتی جارہی ہیں ۔ اپنے‬
‫ساتھی شیخ کے حوالے سے کہتا ہے ۔‬

‫’’عینک لگانے واال شیخ جو اپنے ڈیل ڈول اور کھلے‬


‫ڈھیلے سوٹ میں ریاضیات کا سینئر پروفیسر لگتا ہے‬
‫ایک منکسرمزاج‪ ،‬اعتدال پسند اور کفایت شعار انسان‬
‫ہے‘‘۔ (ص ‪ ،۱۱۳‬ایضا َ ََ)‬

‫مصنف ہمیں مختلف تہذیبوں کے افراد سے متعارف کرواتا ہے اس طرح اس ایک فرد‬
‫سے ہم پورے ملک کی ثقافت سے واقف ہو جاتے ہیں۔‬

‫آخن میوہلے ‪ ،‬روس ہولزن‪ ،‬آخن میوہلے‬

‫اس باب میں مصنف بتاتا ہے کہ ان کا جرمن زبان کا کورس اب دوسرے ہفتے میں‬
‫داخل ہو چکا ہے جو ردوبدل ہونی تھی وہ ہو چکی۔ اب وہ ماحول سے بھی قدرے‬
‫مانوس ہو چکے ہیں۔ پانچ چھ جملوں میں جرمن زبان میں گفتگو بھی کر لیتے ہیں۔‬

‫وہ بتاتا ہے کہ اس صوبے بواریا کے لوگ بہت مذہبی‪ ،‬روایت پسند اور آن کے پکے‬
‫وواقع ہوئے ہیں ۔ عقیدے کے اعتبار سے بوارین لوگ زیادہ رومن کیتھولک ہیں‬
‫۔قبرستانوں کی رونق‪ ،‬سجاوٹ اور تروتازگی دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ موت اور اس‬
‫کے بعد کی زندگی کا خیال ان کے ذہنوں میں کتنا مستحضر رہتا ہے۔‬

‫’’جگہ جگہ مسیح مصلوب کے مجسمے ٹنگے دکھائی‬


‫دیں گے کسی نکڑ والی عمارت کے محراب میں یا کسی‬
‫درخت کے تنے پر ایک نحیف و نزار مسیح ‪ ،‬ایک‬
‫مختصر سی لنگوٹی کمر کے گرد لپیٹے صلیب پر‬
‫کیلوں سے جڑا ہو گا سردائیں جانب کو ڈھلکا ہوا اور‬
‫کیلوں کی جگہ پر ہاتھوں اور پاؤں سے الل خون رستا‬
‫ہوا۔‘‘(ص ‪ ،۱۱۴‬ایضا َ ََ)‬

‫مصنف بتاتا ہے کہ بوارین لوگوں کا اپنا کلچر اپنے لوک گیت اور عالقائی رقص ہیں‬
‫اس حوالے سے وہ خود کو دوسروں سے کم تر نہیں سمجھتے اپنا جنگالتی میلہ جو‬
‫وہ موسم گرما کی راتوں کو کھلے آسمان تلے مناتے ہیں اپنی رونق اور دلکشی کا‬
‫جواب نہیں رکھتا۔‬

‫ُ‬
‫جرمن و شیزائیں اپنے مردوں کی جسمانی قوت پر‬ ‫’’‬
‫نازاں اپنا عالقائی لباس پہنے اوراور بیئر کے پانچ پانچ‬
‫جگ ایک ہاتھ کی انگلیوں میں اٹکائے تماشائیوں کے‬
‫درمیان گھوم پھر کر میزبانی کے فرائض انجام دیتی‬
‫ہیں۔ پھر جونہی رقص سیارگان کی دْھن بجتی ہے وہ‬
‫فورا َ ََ سٹیج پر پہنچ جاتی ہیں اور دوسرے ہی لمحے‬
‫اپنے مردوں کے ہاتھ میں ہاتھ دیئے موسیقی کی لہروں‬
‫پر جھولتی دکھائی دیتی ہیں‘‘۔ (ص ‪ ، ۱۱۴‬ایضا َ ََ)‬

‫مصنف اپنی کالس فیلو لڑکی ہجراں کے لئے اپنے دل میں ایک خاص گوشہ رکھتا‬
‫ہے لیکن اس کی حد درجہ خود اعتمادی اور چْ لبال پن اس کے حوصلے پست کر دیتا‬
‫ہے وہ اظہار تمنا ّ کی ہمت نہیں کر پاتا کیونکہ طبعی بزدلی اور کم سخنی آڑے آجاتی‬
‫ہے۔ وہ اپنی شخصیت کا تجزیہ کرتے ہوئے خود کالمی کے اندا ز میں کہتا ہے۔‬
‫’’ وہ مجھے بہت اچھی لگتی تھی میں اپنے کمرے کی‬
‫تنہائی میں اکثر اس کے بارے میں سوچا کرتا تھا لیکن‬
‫مجھے کبھی یہ توفیق نہ ہوئی کہ پہل کر کے اس سے‬
‫کوئی بات کر لوں۔اس کی کسی چیز کی تعریف کر دوں‬
‫(جبکہ اس میں اتنی چیزیں سچ ْمچ قابل تعریف تھیں!‬
‫اس کے شہد رنگ بال ‪ ،‬اس کی خوبصورت بادامی‬
‫آنکھیں ‪ ،‬اس کے جسم کے ہیجان خیز پیچ و خم‪ ،‬اس کی‬
‫حس مزاح ‪ ،‬اس کا چلبال پن!) یا اس سے اتنا ہی پوچھ‬
‫لوں کہ اسے جرمن گرائمر پڑھتے ہوئے کوئی ایسی‬
‫مشکل تو پیش نہیں آرہی جس میں َمیں اس کی کوئی مدد‬
‫کرسکوں‘‘۔ (ص ‪ ، ۱۱۱‬ایضا َ ََ)‬

‫اس سفر نامے میں جب وہ کرداروں کا تجزیہ کرتا ہے تو ایک ناول کا تاثر آتا ہے‬
‫جب تمام کالس فیلوز مل کر تفریح کے لئے جاتے ہیں اور گانے گاتے ہیں تو بڑا پْر‬
‫لطف منظر ہو جاتا ہے اس دوران ہجراں قدم قدم پردوست بدلتی رہتی ہے۔۔ مصنف‬
‫کے اسلوب میں بہت سادگی ہے وہ اشاروں‪ ،‬کنایوں کے بغیر سیدھے سادے انداز میں‬
‫اپنی بات قاری تک پہنچا دیتا ہے۔ اسلوب کا تاثر قاری کو مکمل طور پر اپنی گرفت‬
‫میں لے لیتا ہے۔‬

‫آخن میوہلے (‪ )۲‬ایک مجلس موسیقی ۔۔۔۔۔۔۔سے اون‬

‫مصنف گوئٹے انسٹی ٹیوٹ کے کامن روم میں ہونے والی محفل موسیقی کی ایک شام‬
‫کا قصہ سناتا ہے اور یہ خیال سچ ثابت ہوتا ہے موسیقی ہر رنگ میں روح جاں اور‬
‫لطف دیتی ہے اس کا زبان سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ان کی ٹیچر فروالئن واکس اس‬
‫کا اہتمام کرتی ہے وہ اطالوی موسیقار "ویوالدی" کا تعارف کرواتی ہے کہ لوگ اسے‬
‫سْرخ بالوں واال پادری کہتے تھے اور جرمن موسیقی کا بڑا یوہن سبسطین باخ بھی‬
‫اس کا دلدادہ تھا۔‬
‫یہ پروگرام ڈیڑھ گھنٹے جاری رہا اس دوران میں کامن روم سے کوئی بھی فرد اْٹھ‬
‫کر باہر نہیں گیا ۔ یہاں وہ قاری کو یہ بتانا چاہتا ہے کہ یورپ میں کالسیکی موسیقی‬
‫کی کیا قدرو منزلت ہے اور موسیقی سْننے کے آداب کیا ہیں اور اگر ان آداب کا خیال‬
‫رکھا جائے تو دل کی اُجاڑ دنیا بارونق ہو جاتی ہے۔ موسیقی کے درمیان بات چیت‬
‫ایک گھٹیا اور شرمناک حرکت سمجھی جاتی ہے۔‬
‫را بندن ____برگ ہا ؤ زن ________آخن میو ہلے‬

‫جرمن قوم کی تر قی کا را ز شاید اسی میں مضمر ہے کہ تعلیم کے سا تھ سا تھ تفر یح‬


‫بھی ضروری ہے جو دما غ کو چا ک و چو بند رکھتی ہے۔ ان آ ٹھ ہفتو ں کے کو رس‬
‫کے دورا ن انہیں مختلف مقامات کی سیر کر ائی گئی تاکہ طلبہ و طا لبا ت گردو نو اح‬
‫کی دنیا سے بھی متعارف ہو سکیں او ر ان کی قو ت مشا ہد ہ مزید بہتر ہو ۔‬

‫اس شہر میں آنے کی وجہ مصنف بتا تا ہے۔‬

‫’’بْرگ ہاؤ زن کا شہر دریا کے بائیں کنا رے پر تھا اور‬


‫اس میں ایک پہا ڑی پر وا قع گیا رہ سو میٹر لمبا جر‬
‫منی کا سب سے بڑا قلعہ تھا ۔گیا رہو یں صدی کے آغا‬
‫زمیں تعمیر ہو نے والے اس قلعے میں پہلے مقا می‬
‫امرا ء رہتے تھے اور اس شہر کو کا فی عر صے تک‬
‫عال قائی دارالحکو مت کی حیثیت حا صل‬
‫تھی’’۔(ص‪ ،691‬ایضا ً)‬

‫آخن میو ہلے‪،‬ہو ہن مو س کا جنگال تی میلہ‬

‫مصنف کو ایک نو جو ان ملتا ہے جو ہو ہن مو س کے گرجے میں عبا دت کے لیے‬


‫جا رہا ہے وہ اسے اپنے ساتھ چلنے کی دعو ت دیتا ہے ۔ مصنف نے بتا یا کہ وہ‬
‫مسلما ن ہے لیکن وہ کہتا ہے کہ آپ اپنے طر یقے سے خدا کو یا د کیجیئے وہ با زو‬
‫تھا م کر اسے ساتھ لے جا تا ہے وہ گرجے میں جا کر وہا ں کی اندرونی پر سکو ن ‪،‬‬
‫خو ف اور حزن میں ڈوبی فضا سے بہت متا ثر ہو تا ہے۔اسے زند گی کے مسیحی‬
‫رویے میں صبر و ر ضااور حلم اور عدم تشدد کا یہ پہلو بہت دل آویز لگتا ہے عبا‬
‫دت ختم ہو نے کے بعد وہ سب آمن کہہ کر ہا ل سے باہر آگئے اس کے بعد وہ لڑکا‬
‫اپنا تعا ر ف کر واتے ہو ئے کہتا ہے۔‬
‫’’میر ا نام یو سپے تورتوراہے۔ میں اٹلی سے آیا ہو ں‬
‫اور یہاں دوسرے درجے میں پڑھتا ہو ں ‘‘(ص‪،411‬‬
‫ایضا ً)‬

‫اس کے ساتھ اس کی نو جوان بیو ی را کیلے بھی تھی ۔چلتے چلتے اچانک مصنف کو‬
‫پتہ چال کہ وہ ای ک جنگال تی میلے میں آنکلے ہیں پہا ڑی جنگال ت سے گھر ی ہوئی‬
‫اس جگہ میں بے شما ر لو گ چلے آرہے ہیں ۔وہا ں مصنف ان لو گو ں سے مختلف‬
‫مو ضو عات کے حوالے سے باتیں کر تا ہے ان کے رقص اور خو شی سے لطف‬
‫اٹھا تا ہے ۔وہ خوشی سے ایک دو سرے کو پیا ر کرنا معیو ب نہیں سمجھتے اسے‬
‫باہمی اْلفت کا ذریعہ سمجھتے ہیں ۔‬

‫’’گال پر پیا ر لینا ان ملکو ں میں ایک معصوم اور‬


‫قطعی طور پر غیر جنسی فعل ہے اس لیے کو ئی اسے‬
‫معیو ب نہیں سمجھتا اور ایسے میلو ں میں اسے باہمی‬
‫انسا نی محبت بڑھا نے کے لیے استعمال کیا جا تا‬
‫ہے‘‘۔(ص‪،،464,466‬ایضا ً)‬

‫آخن میو ہلے‬

‫زیر نظر با ب آخن میو ہلے کے گو ئٹے انسٹی ٹیو ٹ کا احا طہ کر تا ہے۔یہاں مصنف‬
‫مختلف کر داروں اور ان کے رویے کا جا ئزہ لیتا ہے۔جس سے ان ممالک کی تہذیب‬
‫اور معا شرت ایک زندہ شکل میں ہمیں چلتی پھرتی محسوس ہو تی ہے۔‬

‫وہ فرانسیسی طالبہ ڈانیل الونے کی خاموش طبیعت ‪ ،‬سادگی اور شرم و حیاکی بہت‬
‫تعریف کرتا ہے۔‬

‫وہ کہتا ہے۔‬


‫’’پیرس کے مضافات کی یہ لڑکی میرے لئے فرانس‬
‫کی سب شرمیلی اور گھریلو قسم کی لڑکیوں کی‬
‫نمائندگی کرتی ہے‘‘۔ (ص ‪ ، ۱۱۱‬ایضا َ ََ)‬

‫یہاں پر کچھ طالب علم بھی ہیں جو دوسروں کو خوش رکھتے اور ادارے کی فضا کو‬
‫خوش گواررکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں تاکہ اس مختصر عرصے میں سب‬
‫اچھی یادوں کے ساتھ رخصت ہوں ایسا ہی ایک لڑکا الجزائر کا راشد بلیلی ہے عرب‬
‫ہو کربھی فرانسیسی کو اپنی مادری زبان سمجھتا ہے۔‬

‫اس حوالے سے مصنف لکھتا ہے۔‬

‫"اونچے چٹیل ماتھے اور بڑے کلے جبڑے کی وجہ‬


‫سے اس کے چہرے میں کوئی ایسی چیز ہے جو مجھے‬
‫گھوڑے کی یاد دالتی ہے اور وہ اپنی حرکتوں اور‬
‫مضحکہ خیز باتوں سے مکمل مسخرہ جان پڑتا ہے۔‬
‫"(ص ‪ ، ۱۱۱‬ایضا َ ََ)‬

‫وہ ان رنگا رنگ کرداروں کو زندگی کے کھیل کا ایک حصہ سمجھتا ہے اور ان کا‬
‫مطالعہ بڑی گہرائی سے کرتا ہے۔‬

‫اس اپنائیت اور لگاؤ کے باوجود مصنف کے ذہن میں ایک سوال بار بار اْبھرتا ہے۔‬

‫"انہی انسانی اکائیوں سے جب قومی اور سیاسی ہیئتیں‬


‫تشکیل پاتی ہیں تو وہ ایک دوسرے کے لئے اتنی اجنبی‬
‫اور اتنی ٹھنڈی اور بے مہر کیوں ہوتی ہیں؟ اور ایک‬
‫دوسرے کی اتنی دشمن کس لئے؟"!(ص ‪ ، ۱۴۱‬ایضا َ ََ)‬

‫زالٹس ْبرک کی طرف‬


‫زیر نظر باب میں آسٹریا کے خوبصورت سرحدی شہر اور موسیقار موتسارت کی‬
‫جائے سکونت زالٹس بْرک دیکھنے کے لئے لڑکے اور لڑکیوں میں ایک عجیب طرح‬
‫کا جوش و خروش تھا۔‬

‫مصنف اس کا تعارف کرواتا ہے۔‬

‫"زالٹس بُرک صوبہ بواریا کے صدر مقام میونشن سے‬


‫تقریبا َ ایک سو بیس کلومیٹر جنوب مشرق میں واقع ہے‬
‫اور میونشن سے زالٹس بْرک جانے والی آٹو بان جو‬
‫ہمارے گاؤں آخن میوہلے کے پچھواڑےسے گزرتی‬
‫تھی‪ ،‬مغربی جرمنی کی شاندار اور خوش منظر‬
‫شاہراہوں میں سے ایک ہے۔"(ص ‪ ، ۱۴۶‬ایضا َ ََ)‬

‫‪.‬زالٹس بْرک دْنیا کے تین خوبصورت ترین شہروں میں ایک ہے یہاں مصنف اس‬
‫شہر کے اندرونی حصوں کے حوالے سے کچھ نہیں کہتا ۔راستے میں سفر کے دوران‬
‫مختلف مناظر کی تصویر کشی کرتا ہے وہ راستے میں آنے والے ایک پْرانے شہر‬
‫برخٹس گاڈن کا محل وقوع بتا تا ہے کہ یہ ایک اچھا پْرانا شہر ہے ۔‬

‫زالٹس ْبرک ‪ ،‬مغربی کالسیکی موسیقی اور موتسارت‬

‫اب وہ آسٹریا کے سرحدی شہر زالٹس بْرک کے تاریخی قلعے "ہوہن زالٹس بْرک‬
‫"پہنچتے ہیں۔ یہاں انہیں شہر کے مختلف حصوں میں پھرنے کے لئے چھوڑدیا گیا‬
‫پھر دو بجے سب نے مل کر شہر کے اس پرانے قلعے کی سیاحت کے لئے جانا تھا۔‬

‫مصنف زالٹس بْرک کا تعارف کرواتے ہوئے کہتا ہے۔‬

‫"زالٹس بْرک اس نام کا لفظی ترجمہ' نمک کا قلعہ‬


‫'کیونکہ اس پورے عالقے میں نمک کی کانوں کی بڑی‬
‫فراوانی ہے آٹھویں صدی کے اوائل میں ایک قدیم رومی‬
‫بستی کے کھنڈرات پر اس شہر کی بنیاد پڑی۔ ایک ہزار‬
‫برس تک یہ شہر اسا قفہ اعظم کا دارالحکومت بنا رہا۔‬
‫جو مقدس سلطنت روما کے بہت طاقت ور حکمران‬
‫شمار ہوتے تھے مذہبی اقتدار کا صدیوں پر پھیال ہوا یہ‬
‫دور اس وقت ختم ہوا جب ‪۱۱۰۱‬ء میں ایک عہد نامے‬
‫کی رو سے اس شہر کو الدینی نظام کے تحت دے دیا‬
‫گیا۔"(ص ‪ ۱۹۶،۱۹۱‬ایضا َ ََ)‬

‫مصنف زالٹس برک کے تعمیراتی حسن اور قدرتی حسن کی تعریف کرتا ہے کہ اسے‬
‫دنیا کے تین خوبصورت شہروں میں سے ایک قرار دینا غلط نہیں ہے اس شہر کو‬
‫زمانہ قدیم سے موسیقی سے خاص نسبت چلی آتی ہے‪ ،‬مشہور موسیقار موتسارت‬
‫(‪ ۱۹۶۱‬ء تا ‪ ۱۹۸۱‬ء ) اسی شہر میں پیدا ہوا اور اپنی عمر کے پہلے پچیس سال اس‬
‫نے یہیں بسر کئے وہ جن حاالت میں یہ شہر چھوڑ کر گیا وہ اس کے لئے باعث فخر‬
‫نہ تھی ا س لئے اس کے بعد وہ یہاں واپس نہ آیا اور آسٹریا کے دارالحکومت وی آنا‬
‫میں ہی انتقال کیا۔اس حوالے سے مصنف کہتا ہے‬

‫’’لیکن عجیب بات ہے کہ جس شہر سے اسے ایک دن‬


‫بے آبرو ہو کر نکلنا پڑا اب اسی شہر میں سب زیادہ اس‬
‫موسیقار کی یاد منائی جاتی ہے اس سے متعلق دو‬
‫عجائب گھر بھی اس شہر میں موجود ہیں اور اس کے‬
‫نام سے منسوب ایک چوک میں اس کا مجسمہ بھی‬
‫نصب ہے‘‘۔ (ص ‪،۱۹۱‬ایضا ً)‬

‫اس کے بعد وہ زالٹس برک کے اس تاریخی قلعے کی سیر کو گئے ۔ قلعے سے نیچے‬
‫اترنے سے پہلے انہوں نے نیچے شہر کو دیکھا تو جیسے سانس لینا بھول گئے کہ‬
‫اپنی تاریخی عمارتوں اور سبز اور بنفشی رنگ کی ڈھلواں چھتوں ‪،‬گنبدوں اور‬
‫نوکیلے میناروں کے ساتھ کسی مصور کے عمل کی طرح خوب صورت ‪ ،‬متناسب‬
‫اور مکمل دکھائی دیتا ہے ۔‬
‫قلعے کے نیچے انہیں ایک چھوٹا سا قبر ستان نظر آیا وہ اس میں چلے گئے قبرستان‬
‫کی اس رونق ‪،‬تروتازگی ‪،‬مہک اور خوبصورتی دیکھ کر مصنف نے اپنے ساتھیوں‬
‫سے کہا ۔‬

‫’’اگر مجھے یقین ہو کہ میں مرنے کے بعد اسی اسی‬


‫قبرستان میں دفن کیا جاؤں گا تو میں اسی وقت مرنے‬
‫کے لئے تیار ہوں‘‘ (ص ‪ ،۱۸۱‬ایضا ً)‬

‫آخن میوہلے کو الواداع‬

‫زیرموضوع اس سفر نامے کا آخری باب ہے جس میں اس چھوٹے سے سر سبز گاؤں‬


‫آخن میوہلےکے گوئٹے انسٹی ٹیوٹ میں آخری ایام کے واقعات کا تذکرہ ہے جو سب‬
‫دوستوں کے لئے ایک تکلیف دہ مرحلہ تھا ۔وہ دوست جو پہلے اجنبی محسوس ہوتے‬
‫تھے اب ان کے ساتھ ایک الفت کا رشتہ قائم ہو گیا تھا اور ماحول کے ساتھ بھی‬
‫شناسائی کا تعلق پیدا ہو گیا تھا۔‬

‫آخر کار وہ دن بھی آگیا جب انہیں اپنی کارکردگی کے نتیجوں کے کارڈ ملے ۔کالس‬
‫کی اکثریت نے کامیابی حاصل کی تھی ۔اس دن کالس میں الوداعی پارٹی کا اہتمام تھا‬
‫‪ ،‬اس تقریب کے آغاز میں ساری کالس نے اپنی ٹیچر فروالئن واکس کو اس کے‬
‫محبوب موسیقار یوہن سبسطین باخ کی وائلن اور آرگن موسیقی پر مشتمل تین ریکارڈ‬
‫کا تحفہ پیش کیا۔ یہ دیکھ کر مارے حیرت کے اس کا منہ کھال تھا اورگویائی اس کا‬
‫ساتھ چھوڑگئی تھی۔‬

‫"یہ آپ نے کیا کیا؟ وہ باآلخر اپنے آپ میں آئی اور دھیمی آواز میں بولنے لگی اتنا‬
‫نادر تحفہ! باخ کی آرگن اور وائلن میوزک ! اوہ میرے خدا! میں کیسے آپ لوگوں کا‬
‫شکریہ ادا کروں گی لیکن پھر اس نے سب کا بہت دل آویز انداز میں شکریہ ادا کیا‬
‫اور بہت اچھی گفتگو کی۔ پھر اس نے جذبات سے لدی ہوئی آواز میں ْرک ْرک کر‬
‫بولنا شروع کیا۔‬
‫"میں اس انسٹی ٹیوٹ میں خدا جانے کب سے پڑھا رہی‬
‫ہوں اور اسی طرح پڑھاتی رہی ہوں گی۔طالبعلم آتے ہیں‬
‫اور چلے جاتے ہیں ہمارے ہاں یہ روز ّمرہ کا معمول‬
‫ہے لیکن میں سچ کہتی ہوں کہ ایک خاص شخصیت کا‬
‫طالبعلم صرف ایک ہی بار آتاہے اور ویسی شخصیت‬
‫پھر کبھی نہیں آتی لیکن یقین کرو کہ ڈوروتھی ‪ ،‬بلیلی‪،‬‬
‫الونے کاظم اور ڈی پھر کبھی نہیں آئیں گے۔ میں تم‬
‫لوگوں کو ہمیشہ یاد رکھوں گی۔"(ص ‪ ، ۳۱۴‬ایضا َ ََ)‬

‫اس کے بعد موسیقی کا دور چال الوداعی تقریب کے اس میلے میں ہجراں کے سوا‬
‫باقی سب شریک تھے ۔اسے امتحان میں اپنی ناکامی کا پتا چل گیا تھا اور وہ صبح‬
‫ہوتے ہی اپنی جرمن سہیلی کے ساتھ آخن میوہلے کو خیر آباد کہہ کے چلی گئی تھی۔‬

‫اس حوالے سے مصنف کا یہ اسلوب مالحظہ ہو‬

‫’’انسٹی ٹیوٹ میں ہم کوئی ستر کے قریب طالبعلم تھے‬


‫جو اس پھیلی ہوئی دْنیا کے سترہ ملکوں سے دور دراز‬
‫کا سفر کر کے آئے تھے۔ ہماری نہ زبان ایک تھی ‪،‬نہ‬
‫تہذیب‪ ،‬ہمارا رہن سہن بھی ایک جیسا نہیں تھا‪ ،‬رنگ و‬
‫نسل بھی ایک نہیں تھے ۔ ہم میں سے بعض کا تعلق‬
‫ایسے ملکوں سے تھا جو سیاسی طور پر ایک دوسرے‬
‫کے دوست نہیں تھے لیکن یہاں رہتے رہتے ہم یوں ایک‬
‫رشتے میں بندھ گئے تھے جیسے ایک ہی قبیلے کے‬
‫فرد ہوں ایک ماں باپ کی اوالد‘‘!( ص ‪ ، ۳۱۱‬ایضا َ ََ)‬

‫بحیثیت مجموعی اس سفرنامے کے اچھوتے اور منفرد اسلوب سمیت کرداروں کی جا‬
‫بجا کارفرمائی نے اسے منفرد بنادیا اور اس کے انمٹ نقوش ہمیشہ قاری کے دل پر‬
‫ثبت رہیں گے کیونکہ مصنف نے ان عمارات ‪ ،‬جنگالت ‪ ،‬راستوں ‪ ،‬ریستورانوں کی‬
‫منظر کشی اس انداز سے کی ہے کہ وہ زندہ جاوید ہو گئے اور آنے والے سفرنامہ‬
‫نگاروں کو ایک ایسا نشان دے گئے جس پر چل کر انہیں اپنی منزل بہت قریب دکھائی‬
‫دے گی۔‬

‫بیچ میں کچھ مواقع ایسے بھی آتے ہیں جہاں واقعات کی تکرار یکسانیت کا تاثر دیتی‬
‫ہے اور قاری کچھ لمحوں کے لئے ذہنی کوفت محسوس کرتا ہے لیکن جلد ہی مصنف‬
‫اس اکتاہٹ کو بھانپ لیتا ہے اور اس کے قلم کی روانی دوسرے ْرخ پر چل پڑتی ہے۔‬
‫باب پنجم‬

‫خورشید رضوی (تحقیقی و تنقیدی جائزہ(‬

‫مذکورہ باب میں خورشید رضوی کی ان تحاریر کا جائزہ پیش کیا جائے گا جو‬
‫مصنف نے مختلف موضوعات پر مختلف عنوانات کے تحت مختلف اوقات میں لکھی‬
‫ہیں۔ ان میں تنوع کی رنگا رنگی پائی جاتی ہے ۔ اس سے مصنف کا موضوعات کے‬
‫حوالے سے چناؤ‪ ،‬فکراور اسلوب بیان سامنے آتا ہے۔ اس حقیقت سے مفر نہیں کہ‬
‫مصنف کا پی ایچ ڈی کا مقالہ عربی متن کی تحقیق سے متعلق تھا اور یوں وہ بطور‬
‫محقق سامنے آتا ہے لیکن اس کے باوجود اس کی بنیادی حیثیت بطور شاعر ہے اور‬
‫ثانوی حیثیت بطور محقق اور نثر نگار ہے ۔ اس کی تمام ادبی جہات قارئین ادب کے‬
‫لیے نمونے کی حیثیت رکھتی ہیں۔‬

‫بطور مترجم اس کی صالحیتوں کا اعتراف عالمی سطح پر کیا گیا ہے ۔ عربی‬


‫زبان و ادب کو سمجھنے والے معدود ے چند افراد میں اس فاضل مصنف کا شمار ہو‬
‫تا ہے لیکن یہ صورتحال خوش آئند قرار نہیں دی جا سکتی کہ عقیدت مندوں کا ایک‬
‫انبوہ کثیر اسے گھیرے ہوئے ہے ۔ عقیدت مندی اپنی جگہ الئق تحسین ہے لیکن یہ‬
‫تنقیدی رویے کو پنپنے نہیں دیتی جو کہ ادبی دنیا کے لیے محرک ثابت ہوتا ہے اور‬
‫مہمیز کا کام دیتا ہے۔‬

‫اس سے مرادمصنّف کے تنقیدی شعور اور تنقیدی بصیرت میں کمی نہیں بلکہ‬
‫وہ اف راد جو ان کی کتب کا جائزہ عقیدت مندانہ نقطہ نظر سے لیتے ہیں تو توازن‬
‫برقرار رکھنا ان کے لیے ممکن نہیں رہتا اور وہ تنقید کی اصل روح سے غیردانستہ‬
‫طور پر انحراف کرجاتے ہیں۔‬

‫اطراف(مجموعہ مضامین)‪:‬‬
‫زیر موضوع کتاب ‪426‬صفحات پر مشتمل مغربی پاکستان اُردو اکیڈمی الہور‬
‫سے طبع دوم ‪ 4164‬؁ء میں اور طبع ّاول ‪ 4111‬؁ء میں شائع ہوئیں قیمت ‪-/111‬‬
‫روپے ہے ۔‬

‫زیر نظر کتاب کے مندرجات میں آٹھ مضامین اُردو میں اور چار انگریزی میں‬
‫شامل ہیں۔ پیش لفظ ڈاکٹر تحسین فراقی نے تحریرکیا ہے۔‬

‫‪1‬۔ حجرہ نبویہ پر نعتیہ اشعار ‪4‬۔ قصیدہ شمسیہ ۔ ایک نادر نعتیہ دستاویز‪1‬۔‬
‫ال ّخل‪2‬۔ دیوان غالب پر موالنا حامد علی خان کے حواشی ‪9‬۔ غالب اور سرسیّد‪1‬۔ سیّد‬
‫نذیر نیازی سے ایک مکالمہ ‪9‬۔ مجید امجد۔ ایک اہم شاعر‪8‬۔ عبدالعزیزخالد کی ایک‬
‫نظم‬

‫‪1-The Status of the poet in Jahiliyyah‬‬

‫‪2-An Idiosyneraray of Ibn Khallikan‬‬

‫‪3-The Tomb of al-Buriri‬‬

‫‪4-Contribution of Muslims to the field of Mathematics‬‬

‫حجرہ نبویہ پر نعتیہ اشعار ‪ :‬یہ مضمون ان نعتیہ اشعار کے متن اور مطالب پر‬
‫مشتمل ہے جو مصنف نے انتہائی تگ و دو سے حاصل کیے ۔ یہ حجرہ نبویہ کی‬
‫بیرونی دیواروں پر کندہ کیے ہوئے تھے کیونکہ حجرہ پاک کے اندر جانے کی‬
‫سعادت مصنف کو حاصل نہیں ہوئی۔‬

‫اس حوالے سے وہ کہتا ہے۔‬

‫"امکان غالب یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ اشعار بیرونی‬


‫حاشیے پر ہی درج ہیں اور اس قیاس کی گنجائش بہت‬
‫کم نظر آتی ہے کہ اندر اور باہر دونوں جگہ درج ہوں‬
‫اور عین ایک سی تفصیالت کے ساتھ"۔ (ص ‪،42‬‬
‫اطراف)‬

‫یہ اشعار سلطان عبدالحمید خاں ّاول کی تخلیق تھے جو ترکان عثمانی میں‬
‫ستائیسواں سلطان تھا ۔‪ 6949‬ء میں پیدا ہوا ۔ پچاس برس کی عمر میں تخت نشین ہوا‬
‫اور ‪6987‬ء میں وفات پائی۔‬

‫مصنف کو یہ اشعار بالترتیب نہیں ملے کیونکہ متعدد اشعار پر روغن پھرا ہوا‬
‫تھا ۔ یہاں مصنف سعودی باشندوں کے رویے کا ذکر کرتا ہے جسے ہم تعصب یا‬
‫شاعرانہ بدذوقی پر کہہ سکتے ہیں کیونکہ یہ اشعار ترک بادشاہ کی مساعی جمیلہ کا‬
‫تھے۔‬ ‫نتیجہ‬
‫"سعودی دور میں جب گنبد پر روغن کی تجدید کی گئی تو اسی روغن سے ان اشعار‬
‫کو بھی دبا دیا گیا ہو جو سعودی مسلک کے اعتبار سے مناسب معلوم نہ ہوئے‬
‫ہوں"۔(ص‪)68‬‬

‫پاکستان واپس آکر مصنف نے کافی چھان بین کے بعدان اشعار کا متن دریافت‬
‫کر لیا ۔ زیر موضوع مضمون میں مکمل متن اردوترجمہ کے ساتھ شامل کیا ہے۔‬

‫دوسرا مضمون۔ قصیدہ شمسیہ (ایک نادر نعتیہ دستاویز)‬

‫یہ قصیدہ شاعر کے لقب شمس الدین کی رعایت سے "قصیدہ شمسیہ"کہالیا۔ یہ‬
‫مورخ ابن الشعار کی وساطت سے اہل فکر طبقہ تک پہنچا۔‬
‫ساتویں صدی ہجری کے ّ‬

‫ابن الشعار اپنے تذکرے "قالئدالجمان"کے حوالے سے اس شاعر کے بارے‬


‫میں بتاتا ہے۔‬

‫"اچھے انشا پرداز ‪ ،‬پاکیزہ گفتار اور خوش کالم وپُرگو‬


‫شا عرتھے ۔ مجھے ان کا کالم انہی کی زبانی سننے کا‬
‫اتفاق ہوا۔ دمشق کے مضافات میں سہم اعلی کے مقام پر‬
‫دریاے تورا کے کنارے ‪49‬ذی الحجہ ‪117‬ھ کو بدھ کے‬
‫روز خود ابن الشعار کو سنایا ۔ قصیدہ ایک اور اڑتیس‬
‫اشعار پر مشتمل ہے"۔(ص ‪)11‬‬

‫سب سے اہم بات یہ کہ ابن الشعار نے سارے کا سارا قالئدالجمان میں محفوظ‬
‫کر دیا ہے۔ یہ قصیدہ نادر ہے ۔ اس لیے یہ مکمل عربی متن مع تدوینی حواشی کے‬
‫ضمیمہ اس مضمون کے آخر میں شامل ہے ۔ زمانی اعتبار سے یہ قصیدہ بُردہ سے‬
‫ہے۔‬ ‫متقدم‬
‫حضورکے ساتھ انتہائی عقیدت کا اظہار کیا گیا ہے اور ان کے حوالے سے‬
‫ؐ‬ ‫اس میں‬
‫معجزات کا بیان ہے ۔ آخر میں حواشی اور ماخذ دیے ہیں۔‬

‫تیسرامضمون ۔ النّحل‬

‫زیر تبصرہ مضمون مصنف کی ژرف نگاہی اور تحقیقی نقطہ نظر کی بھرپور‬
‫نمائندگی کرتا ہے ۔ اس نے جس موضوع کا انتخاب کیا ہے وہ حیرت انگیز ہونے کے‬
‫ساتھ ساتھ معلوماتی بھی ہے۔‬

‫"النحل"قرآن پاک کی سولہویں سورت کا نام ہے ۔ نحل عربی میں شہد کی‬
‫مکھی کو کہتے ہیں۔‬

‫اس حوالے سے مصنف ان آیات کا ذکر کرتا ہے جن میں شہد کی مکھی کا‬
‫ذکر ہے۔‬

‫"اور تیرے پالنے والے نے شہد کی مکھیوں کو یہ الہام‬


‫کر دیا کہ تم پہاڑوں میں گھر بنالو اور درختوں میں اور‬
‫ان چھپروں وغیرہ میں جنہیں لوگ ڈالتے ہیں۔ بعدازاں‬
‫ہر طرح کے ثمرات کو چکھو پھر اپنے رب کے ہموار‬
‫راستوں پر گامزن ہو جاؤ ۔ ان مکھیوں کے بطون سے‬
‫ایک مشروب نکلتا ہے جس کے مختلف رنگ ہو تے ہیں‬
‫اس میں لوگوں کے لیے شفاء ہے ۔ بے شک اس‬
‫(صورتحال) میں ایک نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو‬
‫غوروفکرکرتے ہیں"۔ (ص ‪،91‬ایضا ً)‬

‫مصنف نے اس آیت کو بنیاد بنا کر مذکورہ مضمون انتہائی دلچسپ اندازمیں‬


‫تحریر کیا ہے ۔ اس میں مکھیوں کے اندرون اور بیرون خانہ کی تفصیل ہے۔‬

‫وہ کہتا ہے قرآن پاک کو اس کی جامعیت کے سبب غیر مسلم مفکرین نے بھی‬
‫استجاب کی نظروں سے دیکھا اور وہ اس کے متعلق غوروفکر کرتے ہیں۔‬

‫مکھیوں کے حوالے سے وہ بتاتا ہے۔‬

‫"ایک عام شہد کے چھتے میں کم و بیش ساٹھ ہزار‬


‫مکھیاں ہوتی ہیں جن میں صرف ایک مکھی پوری مادہ‬
‫ہوتی ہے اس کو رانی کہا جاتا ہے ۔ یہ پورے چھتے کی‬
‫ماں ہوتی ہے ۔ اس کا کام صرف انڈے دینا ہے ۔ چارپانچ‬
‫سو کے لگ بھگ نرہوتے ہیں ۔ یہ مکمل طورپر نکھٹو‬
‫ہوتے ہیں ۔ باقی ہزاروں مکھیاں کارکن مکھیاں کہالتی‬
‫ہیں۔ یہ جنس کے اعتبار سے نامکمل ہوتی ہیں۔ باقی تمام‬
‫جبلتوں میں مونث ہوتی ہیں۔ شدید اور ان تھک محنت‬
‫کرتی ہیں ۔ کچھ مکھیاں رانی کی داسیاں ہوتی ہیں جو‬
‫ہمہ وقت اس کے ناز اٹھاتی ہیں ۔ شہد کی رانی عمر بھر‬
‫میں فقط ایک بار نر سے مالپ کر تی ہے اور کروڑوں‬
‫انڈے دینے کے الئق ہو جاتی ہے لیکن اس کا پرتھوی‬
‫راج مالپ کے فوراًبعد ہالک ہو کر جھڑجاتاہے"۔ (ص‬
‫‪96,94,99‬ایضا ً)‬

‫مصنف نے یہ کہانی طویل بیان کی ہے لیکن زیر موضوع تبصرہ میں اس کی‬
‫۔‬ ‫پڑا‬ ‫لینا‬ ‫کام‬ ‫سے‬ ‫اختصار‬ ‫لیے‬ ‫اس‬ ‫نہیں‬ ‫گنجائش‬
‫‪4‬۔ دیوان غالب پر موالنا حامد علی خاں کے حواشی‬
‫جامعہ پنجاب کی مطبوعات کے وسیع سلسلہ کے تحت دیوان غالب کی دیدہ‬
‫زیب اشاعت ‪ 6717‬ء میں ہوئی ۔ تحقیقی متن و ترتیب کا کام موالنا حامد علی خاں‬
‫صاحب نے انجام دیا۔‬

‫زیر تبصرہ مضمون میں مصنف نے موالنا کے طریقہ تحقیق کا جائزہ لیا ہے ۔‬
‫وہ کہتا ہے کہ موالنا کے حسن ذوق اور محنت میں کوئی شک نہیں تاہم بعض حواشی‬
‫ایسے بھی ملتے ہیں جنہیں مختصر رکھنے کی کوشش میں تشنۂ ابالغ رہ گیا یاپھر‬
‫مصروفیت کی وجہ سے موالنا کو ضروری تحقیق کا وقت نہیں مل سکا اس لیے وہ‬
‫اشاعت دوم میں ضروری ترمیم کی توقع رکھتا ہے۔ شعر کے اوزان اور کتابت کی‬
‫اغالط کی طرف نشاندہی کی ہے ۔ آخرمیں مصنف نے حواشی تفصیل سے دیے ہیں۔‬
‫‪5‬۔ غالب اور سرسیّد‬

‫مصنف نے یہ ‪6779‬ء میں تحریر کیا کیونکہ ‪6779‬ء غالب کے دوسوسالہ یوم‬
‫والدت اور ‪6778‬ء سرسیّد کے صدسالہ یوم وفات کا سال ہے اس لیے مذکورہ باال‬
‫سنین دونوں نابغہ کو یاد کرنے کے سلسلے کی کڑی ہے۔‬

‫مذکورہ مضمون میں مصنف ان دونوں اصحاب کے تعلقات دیرینہ کا تذکرہ‬


‫کرتا ہے وہ کہتا ہے کہ سرسید نے اپنی مشہور تصنیف "آثارالصنادید"میں سب سے‬
‫پہلے غالب کا تذکرہ رقم کیا ہے۔‬

‫ومقفی عبارات سے ان کی طبیعت بالکل‬


‫ٰ‬ ‫سرسیّد کا اسلوب بیان سادہ ہے ۔مسجع‬
‫لگا نہیں کھاتی تھی ۔ مذکورہ کتاب میں جہاں یہ اسلوب ہے وہ ان کا اپنا نہیں۔‬

‫اس کی وضاحت شبلی نے فرمائی ہے۔‬

‫"سرسیّد نے مجھ سے خود بیان کیا کہ آثار الصنادیدکے‬


‫بعض مقامات بالکل موالنا امام بخش صہبائی کے لکھے‬
‫ہوئے ہیں جو انہوں نے میری طرف سے اور میرے نام‬
‫سے لکھ دئیے تھے"۔ (ص ‪617‬اطراف)‬

‫اس وقت کوئی شخص لکھتا تو اسی طرز کو انشاپردازی سمجھا جاتا تھا ۔سادہ‬
‫تھی۔‬ ‫جاتی‬ ‫دی‬ ‫نہیں‬ ‫اہمیت‬ ‫کوئی‬ ‫کو‬ ‫زبان‬
‫سید کے تعلق خاطر یہ صورت تھی کہ غالب آثار الصنادید کے تقریظ‬
‫غالب اور سر ّ‬
‫نگاروں میں شامل تھے انہوں نے پُرتکلف فارسی میں تقریظ لکھی ۔ سرسیّدکی تعریف‬
‫اس انداز سے کی ۔‬

‫"اسے میرے ساتھ وہ پیمان محبت ہے کہ دل نشینی میں‬


‫خونی رشتے کے مانند ہے"۔ (ص ‪)666‬‬
‫سرسیّد نے غالب سے "آئین اکبری"کی تقریظ لکھنے کے لیے کہا لیکن یہ‬
‫تقریظ خالف توقع تھی فارسی زبان میں منظوم تقریظ تھی جسے سرسیّد نے واپس‬
‫بھیج دیا کہ مجھے ایسی تقریظ درکار نہیں ۔ اس سے تعلقات میں سرد مہری آگئی‬
‫لیکن بعد میں معامالت ٹھیک ہو گئے ۔‬

‫مصنف نے ان کے درمیان نوک جھونک کو موثر اسلوب میں بیان کیا ہے۔ زیر‬
‫تبصرہ مضمون میں مصنف نے غالب اور سرسیّد کی شخصیت کے کئی پہلو بحوالہ‬
‫حالی بیان کیے ہیں۔ آخرمیں حواشی میں مزید وضاحت کی ہے۔‬
‫‪6‬۔ سیّد نذیر نیازی سے مکالمہ‬

‫زیر موضوع مضمون مصنف نے ‪4111‬ء میں تحریر کیا ۔ آغاز میں وہ عالمہ‬
‫اقبال کے دیرینہ دوست سید نذیر نیازی سے مالقات کا احوال بیان کرتے ہیں۔ ان کا‬
‫شخصی خاکہ اس طرح بیان کیا ہے ۔‬

‫"جناب عبدالرحمن سورتی مرحوم کے کمرے میں ایک‬


‫بزرگ بیٹھے ملے ۔ سوٹ پہنے ہوئے ‪ ،‬داڑھی مونچھ‬
‫صاف ‪ ،‬عمر خاصی مگر چاق و چوبند ‪ ،‬سورتی‬
‫صاحب نے تعارف کرایا کہ یہ ہیں سیّد نذیر نیازی"۔(ص‬
‫‪،641‬ایضا ً)‬

‫مصنف نے اُن کے انکسار کا ذکر عقیدت مندی سے کیا ہے۔ عالمہ اقبال کے‬
‫حوالے سے ان کی گفتگو ریکارڈ کی ۔ زیر نظر مضمون میں مصنف نے یہ گفتگو‬
‫مکالمہ کے عنوان سے پیش کی ہے۔‬

‫اس مکالمے میں عالمہ اقبال کے حوالے سے مختلف موضوعات پر گفتگو‬


‫ہوئی جس میں اُن کے روزمرہ معموالت سے لے کر ان کے فکر وفلسفہ اورشاعری‬
‫کے اوقات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ عالمہ کی حس مزاح کے واقعات کا بیان ہے ‪ ،‬لباس‬
‫اور خوراک کے معموالت پر بات کی۔‬

‫ان سب باتوں سے مصنف کا مقصد اس عظیم شاعرکی زندگی کے اُن پہلوؤں‬


‫کو سامنے النا تھا جو بوجوہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل تھے۔ آخرمیں حواشی بہت‬
‫تفصیل سے دیے ہیں۔‬

‫‪7‬۔ مجید امجد ۔ایک اہم شاعر‬

‫زیرموضوع مضمون میں مصنف نے حمید نسیم کے مضمون "مجید امجدایک‬


‫اہم شاعر"کا جائزہ لیا ہے جو سوغات (بنگلور) میں مارچ ‪6771‬میں شائع ہوا جسے‬
‫عالمت (الہور) کے مارچ اپریل ‪6771‬ء کے شماروں میں بھی شائع کیا گیا ۔‬
‫مصنف کہتا ہے کہ مضمون نگار نے مجید امجد کی نظموں اور ان کی طویل‬
‫نظم 'نہ کوئی سلطنت غم ہے نہ اقلیم طرب' کو بالتفصیل سراہا ہے ۔ اس میں اس نے‬
‫اس شاعر کی اہمیت کو اُجاگر کرنے پر توجہ دی ہے ۔ اس مضمون کا مقصد یہ تھا کہ‬
‫حمید نسیم کو اپنے بھائی سے یہ معلوم ہوا تھا کہ مجید امجد ان کے کسی ناقدانہ‬
‫آزردہ تھے ٰلہذا یہی اتنے عرصے بعد مجید امجد کی کلیات کا مطالعہ‬
‫جائزے سے ُ‬
‫محرک بنا۔‬
‫ّ‬ ‫کرنے کا‬

‫چنانچہ اس تالفی کا اختتام وہ یوں کر تا ہے۔‬

‫"میں اس خاموش طبع ‪ ،‬آزادہ رو ‪ ،‬درویش شاعر کی‬


‫طمانیت میں شریک ہوں کہ اسے اُردو ادب میں پائندہ‬
‫جگہ مل گئی ۔ مجھے امید ہے اب وہ جنت الفردوس میں‬
‫جہاں بھی ہے میری طرف سے اس کی آزردگی بڑی‬
‫حد تک ختم ہو جائے گی "۔ (ص ‪)691 ،699‬‬

‫اس مضمون میں بین السطور وہ پرانے زخموں پر مرہم رکھتے ہوئے کئی‬
‫نئے زخم بھی لگاتا چال گیا۔‬

‫ایک جگہ وہ کہتا ہے۔‬

‫"مجھے معلوم نہیں کہ کون ادب دوست نادانستہ مجید‬


‫امجد سے نادان دوستی کے مرتکب ہورہے ہیں "۔ (ص‬
‫‪)699‬‬

‫روزمرہ کے‬
‫ّ‬ ‫مصنف کہتا ہے یہ حقیقت بجاہے کہ مجید امجد کے ہاں تلفظ اور‬
‫جھول ملتے ہیں لیکن مضمون نگار کا لہجہ الئق تاسف ہے ۔ وہ تعریف کم لیکن شاعر‬
‫کی لفظیات پر کڑی تنقید کرتا ہے۔‬
‫نظم "ایک پرنشاط جلوس کے ساتھ"مبصر کا اس نظم کو بے ہنری کی مثال‬
‫قرار دینا خود بے دردی کی ایک مثال سے کم نہیں کیونکہ مبصر نے اس نظم کا‬
‫بنیادی تصور سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔‬

‫مصنف نے اس مضمون میں تبصرہ نگار کے اعتراضات کا جواب بدلیل‬


‫معقول انداز میں دیا ہے اور اس کے لہجے کی سختی پر اظہار تاسف کیا ہے لیکن اس‬
‫کے ساتھ وہ تعجب کا شکار ہے کہ مبصر ایسے مجموعہ نقائص شاعر کو برصغیر‬
‫میں ہم عصر شعراء میں سب سے اہم اور برتر شاعر کیوں تسلیم کرتا ہے۔‬

‫‪8‬۔ عبدالعزیز خالد کی ایک نظم‬

‫اس مضمون میں مصنف نے عبدالعزیز خالد کی پندرہ اشعار پر مشتمل نظم کا‬
‫جائزہ لیا ہے ۔ اس نظم پر عربی ادب کے اثرات ہیں یوں تو اقبال کے کالم میں عربی‬
‫ادب کے اثرات نمایاں طور پر دیکھے جاسکتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اُردو کا‬
‫مزاج عجم کی وساطت سے بناتھا اس لیے خالص عربی آہنگ کو اُردو میں ڈھالنا بہت‬
‫مشکل عمل ہے ۔ اس میں ناکامی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ عبدالعزیز خالد کو بھی‬
‫بہت سے اعتراضات کا سامنا کرنا پڑا ۔‬

‫اس حوالے سے مصنف کہتا ہے۔‬

‫’’عبدالعزیز خالد بھی اس ناکامی سے اپنے دامن کو‬


‫یکسر بچاکر نہیں لے جاسکے ۔ ان کی بات بسااوقات‬
‫بہت بوجھل ہو گئی اور ان کے نامانوس لہجے ‪،‬‬
‫تلمیحات کی اجنبیت اور ذخیرہ الفاظ کی غرابت نے ان‬
‫کے قارئین کا حلقہ بہت تنگ کر دیا‘‘ ۔(ص ‪)696‬‬

‫اس شاعری پر اعتراضات کیے گئے کہ دوسرے شعراء کے کالم کا ترجمہ‬


‫کرنے کے ساتھ خود اپنے کالم کا ترجمہ بھی کر ڈالیں ۔ اعتراضات اپنی جگہ پر‬
‫درست تھے لیکن شاعر کے لیے منفرد ہونا بھی ایک المیہ ہے۔‬
‫مصنف کہتا ہے‬

‫"خالد کا جانکاہ سفر رفتہ رفتہ ایک ایسا آہنگ نکال رہا‬
‫ہے جو ممکن ہے کسی روز عرب اور عجم کے درمیان‬
‫ایک پُل کا کام دے سکے"۔ (ص ‪)694‬‬

‫نمونہ کالم کے لیے چند اشعار دیکھیں۔‬

‫نہیں ہے ُ‬
‫طرفہ زمانے میں ماجرا طرفہ‬
‫کا‬
‫تم آل عمرہ ہو ہم پر بھی یونہی‬
‫وارکروگے‬
‫ہم اہلیان سخن نغمہ سنج ُحسن رہیں گے‬
‫بزورحیلہ ہمیں تم ذلیل و خوار کروگے‬
‫کسی بھی حرف جنون فسوں کو آڑ بنا‬
‫کر‬
‫ہمیں مقید و مصلوب و سنگسار کروگے‬

‫اس نظم میں عرب شعراء کا ذکر بطور تلمیح آیا ہے ۔ مصنف شاعر کے آہنگ‬
‫کی تعریف کرتا ہے کہ اس سے ارتقاء کا سراغ مل گیا ہے ۔ تاہم وہ کہتا ہے۔‬

‫"عربی ادب کے اثرات براہ راست اُردو میں منتقل‬


‫کرنے کا ان کا یہ عظیم الشان شعری تجربہ ہنوز ایک‬
‫یک جان تخلیق میں نہیں ڈھل سکا ۔ یہ لخت لخت‬
‫عناصر کا ایک مجموعہ دکھائی دیتا ہے"۔ (ص ‪)681‬‬

‫مصنف اس منفرد شاعر سے اس منزل تک رسائی کی توقع رکھتا ہے ۔‬


‫یادرہے کہ مصنف نے یہ مضمون ‪6799‬ء میں تحریر کیا تھا۔‬

‫‪The status of the Poet in Jahiliyyah‬‬


‫جاہلی معاشرے میں شاعر کا مقام‪:‬‬

‫مصنف نے یہ مضمون ‪ 6781‬میں تحریر کیا۔ اس میں زمانہ جاہلیت میں کسی‬
‫قبیلے میں جب شاعر کا ظہور ہوتا ہے تو ان کے احساسات کیا ہوتے وہ اپنی خوشی‬
‫کا اظہار کس طرح کرتے؟ مصنف ابن رشیق کے حوالے سے بتاتا ہے۔‬
‫عرب کے کسی قبیلے میں جب کوئی شاعر ابھرتا تو دیگر قبائل آکر اسے مبارک باد‬
‫دیتے کھانے پکائے جاتے اور شادی بیاہ کے انداز میں عورتیں اکٹھی ہو کر سارنگیاں‬
‫بجاتیں۔ مرد اور بچے باہم نوید مسرت سناتے کیونکہ شاعر ان سب کی عزت و آبرو‬
‫کے تحفظ ‪ ،‬شرافت خاندانی کے دفاع ‪ ،‬ان کے کارہائے نمایاں کو دوام بخشنے اور ان‬
‫کے ذکر خیر کو عام کرنے کا ذریعہ تھا۔ تین ہی باتیں ایسی تھیں جن پر مبارکباد پیش‬
‫کیا کرتے تھے۔ لڑکے کی پیدائش ‪ ،‬شاعر کا ابھرنا اور گھوڑی کا بیاہنا۔(ص‪)۳‬‬

‫مصنف کہتا ہے کہ ابن رشیق نے اس رسم کے حوالے سے کسی شعر کا ثبوت‬


‫نہیں پیش کیا۔ جب کوئی ایسی رسم ہوتی تھی تو یہ کیسے ممکن ہے۔ اس میں اس دور‬
‫کے کسی شاعر نے حصہ نہ لیا ہو۔‬

‫جاہلی شاعری اثر و رسوخ اور غیرمعمولی مرتبے کے ثبوت میں مشہور‬
‫مستشرق نکلسن اس نوجوان کی مثال دیتا ہے۔ جسے اپنی محبوبہ کا رشتہ صرف اس‬
‫بناء پر نہ مل سکا کہ نہ وہ شاعر تھا نہ عائف اور پانی کے چشموں کا علم رکھتا تھا۔‬
‫(‪)۱۱‬‬

‫اس مضمون کے حوالے سے مزید تفصیل کے لیے‪ ،‬عربی ادب از قبل کا ص‬


‫‪ ۱۱۱‬سے ‪ ۱۳۱‬دیکھیں۔‬

‫‪An Idiosyncrasy of Ibn Khalikan‬‬

‫ابن خلکان کا میالن خاص‪:‬‬

‫‪In his article the author describes some main points of Ibn Khalikan's writings.‬‬
‫‪"He says: When working on Uqud - al- Juman of Ibe-al-Shaar(595-654) a senior‬‬
contemporary of Ibn Khlikan, I had the opportunity to have access to certain MSS,
which had been amongest the sources of Ibn e Khlikan, while compling his maganum
opus, Whafayat-al-Ayan. This comparative study through sporadic and currsory
bought to light a general tendency in Ibn Khalikan, to feel shy of recording any
adverse remarks and some times to deliberately expunge then from the biographies of
renowned persons. (pg25)

In his article he says I wait to stress is Ibn Khalkan's avoidance who has been
equally genereous to Ahmad Al-Ghazzali as well as his critcis, Bashar b. Burd the
famous bling poet of the Abbasid period, is generally accused of being a heretic. Abn
Khlikan too could not help alluding to this common opinion. He has however,
folowed it up immediately with a banlancing reports that exonerates Bashar of all that
he is changed with and creates a soft corner for him.

In the end, he says that it is however always useful for the research scholor to
be aware of the personal learnings and idiosyncrasies of the leading savants in order
to the able to draw balanced conclusions from their works.

The author gives many notes and references to make his view athentic.
The tomb of Al Busiri.

‫ء میں‬۱۱۸۱ ‫امام بوصیری کے مزار کے حوالے سے یہ مضمون مصنف نے‬


‫تحریر کیا۔ زیر موضوع میں امام بوصیری کے مزار کے متعلق مختلف آراء کا جائزہ‬
‫لیا گیا ہے۔‬

‫پنجاب یونیورسٹی الہور سے اردو میں اسالم کا انسائکلوپیڈیا شائع ہوا۔ اس میں‬
‫ہے۔‬ ‫گیا‬ ‫کیا‬ ‫دعوی‬
ٰ ‫یہ‬
‫ء میں انتقال کیا ور امام الشافعی کے مقبرے کے‬۱۸۱ ‫قاہرہ میں قیام پذیر ہوئے ۔ وہیں‬
)۴۱‫جوارمیں مدفون ہوئے۔ (ص‬

‫وہ بتاتا ہے کہ دوسری طرف مختلف ذرائع سے ایک مستند رائے یہ بھی ہے‬
‫کہ البوصیری کا مزار قاہرہ میں نہیں سکندر یہ میں ہے۔ سادات علی باشا اپنے وسیع‬
‫کا م الخطاط التو فیقیہ میں وضاحت کرتا ہے کہ مسجد البوصیری سکندریہ کی مساجد‬
‫کے درمیان واقع ہے۔‬

‫مختلف آراء کی وجہ مصنف بیان کرتا ہے کہ نام کی غلط فہمی ہے۔‬

‫‪A much senior Scholor, Abdul Qasim Hibat Allah b. Ali b. Masud al- Ansari‬‬
‫‪al - Khazraji, al- Munastiri. (D AH 598) is commonly knows as as al Busire, because‬‬
‫‪his grandfather, Masud migrated from Munastir to Busir Quridis, Yaqut has‬‬
‫‪mentioned him in Mujam al - Buldan under Busir and Munastir and Ibn Khlikan has‬‬
‫‪noticed him in cnuijam al- Buldan under busir andcnunartis and Ibn Khalikan hs‬‬
‫‪noticed him in hiswafayat al-Ayan. About his death and burial he says.‬‬

‫‪He died on the second night of Safar in the year 598 and was buried at the foot‬‬
‫)‪of al Mulqattam. (Pg 44‬‬

‫آخر میں مصنف کہتا ہے کہ یہی رائے صائب ہے کہ امام ابوصیری کا مزار‬
‫امام شافعی کے مقبرے کے جوار میں ہے یہ سوال بھی غالبا ً غلط فہمی کی بناء پر اٹھا‬
‫تھا۔‬

‫‪Contribution of Muslims to the filed of mathematics.‬‬

‫زیر موضوع مضمون مصنف نے ‪۱۸۱۱‬ء میں تحریر کیا۔ زیر تبصرہ مضمون‬
‫میں مصنف نے علم ریاضی میں مسلمانوں کے کماال ت کو سراہا ہے۔‬

‫وہ کہتا ہے کہ سائنس کی تاریخ میں خصوصا ً مغر ب میں سائنس کی مختلف‬
‫شاخو ں کا تعلق یونانیوں سے جوڑا جاتا ہے یا براہ راست نشاۃ تانیہ سے جوڑا جاتا‬
‫ہے۔ ان قوموں کو شامل کیے بغیر جو یونانیوں کی پیش رو تھیں۔ خصوصا ً مسلمانوں‬
‫کا کردار جو درحقیقت یونانیوں اور نشاۃ ثانیہ کے درمیان خال کو پر کر تا ہے عموما ً‬
‫نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔‬
‫مصنف بتاتا ہے درحقیقت عربوں کا درثہ مخطو طات کی شکل میں پوری دنیا‬
‫میں موجود ہے۔ ترکی میں مخطوطات کی شاید سب سے زیادہ تعداد ہے اور ان کی‬
‫بہت زیادہ مقدار یورپ کی مخلتف الئبریریوں میں پائی جاتی ہے۔ ایک ایسی حقیقت‬
‫جس سے متاثر ہو کر اقبال نے یہ شعر کہا۔‬

‫مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبا کی‬


‫جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا‬
‫سیپارا‬ ‫ہے‬

‫مسلمانوں نے صفر کا تصور پیش کیا جس نے الجبرا میں مثبت اور منفی کا تصور‬
‫دیا۔‬

‫مصنف الخوازمی کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے۔‬

‫‪Perhaps the greatest name to be mentioned on this stage is al -Khawarizme's‬‬


‫‪whose momenental works Kitab al Jabr wal muqablah gone Algelera its name. This‬‬
‫‪work translated into latin and the tables were named after al Khawarizme which took‬‬
‫)‪the corrupted form of Logarithms, (Pg 53‬‬

‫مصنف عباسی خلیفہ کے متعلق کہتا ہے کہ وہ علم ریاضی‪ ،‬علم فلکیات اور‬
‫دست کاری میں سبقت لے گئے۔ وہ دبستان ترجمہ کے طور پر پہنچا نے جاتے تھے۔‬
‫جنہوں نے یونان ی سائنسی مخطوطات کا عربی ترجمہ کیا۔ یہ تراجم سائنس کی ترقی‬
‫میں بہت معاون ثابت ہوئے۔ کچھ اہم یونانی علوم اب صرف عربی تراجم کی وجہ سے‬
‫جانے جاتے ہیں۔‬

‫عیسی ماہانی ریاضی کے شعبے میں ایک‬


‫ٰ‬ ‫تیسری صدی عیسوی میں محمد بن‬
‫اہم نام تھا۔‬

‫خیام کے حوالے سے مصنف کہتا ہے۔‬

‫‪Khayyam also persented a plan for calendar reform about 1079 A.D. His‬‬
‫‪proposed calendar known as Jalali or Maliki was much more precise than the present‬‬
Gregorian Calendar. In Khayyam's plan a difference of one day is accumulated over a
span of 5,000 years as compared to its accumulations over 3,333 years in the
Gregorian Calendar. (Pg 56)

‫مصنف کہتا ہے کہ یہ مضمون علم ریاضی کی تمام شاخوں کااحاطہ نہیں کرتا۔‬
‫اس کا مقصد صرف مسلمانوں کے اس ابتدائی قابل تعریف کردار کا تصور پیش کرنا‬
‫ہے جو انہوں نے عمومی طور پر سائنس اور بالخصوص ریاضی کی ترقی میں ادا کیا‬
‫ہے۔‬

In the end the author gives a quoation from an address of Eisehower, delivered
as president of the United States of America before the U.N General (Assembly may
be well in place here. He said:

As I look into the future I see the emergen ce of moderen Muslims states that
would bring to this century contributions surpassing those we cannot forget from the
past. We remember that western artthenetic and algebra owe much to Muslims
mathematicians and that much of the Foundation of the world's medical science and
astronomy was laid by Muslims Scholars. (Pg 58)

‫عربی ادب قبل از اسالم‬

‫ء‬۱۰۱۰ ‫ صفحات پر مشتمل ادارہ اسالمیات پبلشرز الہور سے‬۹۰۳ ‫زیر نظر کتاب‬
‫ پر مصادر و مآ‬۹۰۳ ‫ تا‬۱۳۰ ‫ قیمت درج نہیں ہے۔ ص‬، ‫میں شائع ہوئی۔ اشاعت اول‬
‫خذ اور اشاریہ حروف تہجی کی ترتیب سے دیا گیا ہے۔‬

‫انتساب " والدہ مرحومہ" کے نام ہے۔ پیش گفتار میں مصنف نے عربی ادب کی چند‬
‫تواریخ اور مذکورہ باال کتاب کے حوالے سے اپنے تا ثرات مختصرا ً قلم بند کیے ہیں‬
‫زیر موضوع کتاب کے مندرجات کی ابواب بندی نہیں کی بلکہ عنوانات دیے گئے ہیں‬
‫اور ہر عنوان کے تحت ذیلی موضوعات ہیں۔‬
‫کسی بھی قوم کے ادب کا جائزہ لینے کے لیے اس عہد کے سیاسی حاالت‪ ،‬تہذیبی و‬
‫ثقافتی عوامل کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ ان کے بغیر تاریخ محض معلومات اور‬
‫الفاظ کا بیش بہا خزانہ تو ہو سکتی ہے۔ لیکن ادبی تقا ضوں کو پورا نہیں کرتی۔‬

‫ادبی تاریخ الفاظ و معانی پر بے جا مباحث کا نام نہیں بلکہ اس عہد کے تقاضوں کو‬
‫پورا کرتے ہو ئے جامع اور مدمل انداز میں اپنے نظریات کو اس طرح پیش کر نا کہ‬
‫وہ موضوع سے متعلقہ قارئین کے عالوہ عام قارئین ادب کی ضروریات کو پورا‬
‫کرتے ہوئے ان کی ذہنی تشفّی کرے کیونکہ ادبی تاریخ کا معیار اس کی ضخامت نہیں‬
‫بلکہ تنقیدی شعور‪ ،‬اسلوب اور موضوعات ہوتے ہیں۔‬

‫زیر تبصرہ کتا ب کے مطالعہ سے چند سواالت سامنے آتے ہیں۔‬

‫سامی اقوام میں عرب قوم اور عربی زبان کی کیا حیثیت تھی؟‬ ‫‪‬‬
‫عرب اقوام کس قسم کے جغرافیائی خط و خال سے دو چار تھی؟‬ ‫‪‬‬
‫عرب خطے کی نباتی و حیوانی زندگی کس قسم کی تھی ؟‬ ‫‪‬‬
‫عربوں کے معاشرتی کوائف کیا تھے؟‬ ‫‪‬‬
‫قدیم عربوں کا دیگر عالمی اقوام سے ربط کس نوعیت کا تھا اور کیا عربوں‬ ‫‪‬‬
‫نے ان کی ثقافتوں کے اثرات کو قبول کیا؟‬
‫عربوں میں قدیم نسب و روایات کی صورتحال کیا تھی؟‬ ‫‪‬‬
‫عرب ریاستوں اور قبائل کا عربی ادب پر کیا اثر مرتب ہوا؟‬ ‫‪‬‬
‫عرب مستعربہ کی اہمیت کی وجہ کیا تھی؟‬ ‫‪‬‬
‫حرب بسوس‪ ،‬حرب دا حس و الغبراء کس رد عمل کا نتیجہ تھے اور ادب پر‬ ‫‪‬‬
‫اس کے اثرات کس نوعیت کے تھے؟‬
‫عرب میں اسواق کی کیا اہمیت تھی؟‬ ‫‪‬‬
‫قدیم عربوں کے عقائد و تصورات کیا تھے اس سے ان کی عملی و فنی‬ ‫‪‬‬
‫صالحیتوں پر کیا اثرات مرتب ہوئے؟‬
‫عربی زبان کی امتیازی خصوصیات کیا تھیں؟‬ ‫‪‬‬
‫عربوں کا ذہنی میالن کیا تھا اور اس کے ادب پر کیا اثرات تھے؟‬ ‫‪‬‬
‫دور جاہلیت میں نثر اور شاعری کا کیا مقام تھا؟‬ ‫‪‬‬
‫کیا جاہلی شاعری واقعی حقیقت ہے یا محض افسانہ؟‬ ‫‪‬‬
‫جاہلی شاعری کے اہم مآ خذ کو ن سے ہیں؟‬ ‫‪‬‬
‫معلقات کی اہمیت کیوں اور کس وجہ سے ہے اور اس کے شعر اء کون ہیں؟‬ ‫‪‬‬
‫ان سواالت کی روشنی میں زیر مو ضوع کتاب کے حوالے سے عربی ادب کا جائزہ‬
‫پیش کیا جائے گا۔‬

‫مصنف عرب قوم اور عربی زبان کو سامی اقوام اور سامی زبانوں میں سے بہترین‬
‫قرار دیتا ہے۔ اس کے حق میں وہ یہ دالئل دیتا ہے۔‬

‫عرب کے جغرافیائی ماحول میں یک رنگی کی کیفیت پائی جاتی تھی ۔ جس میں تغیر‬
‫و تبدل کی رفتار بہت سست تھی اور زبان اور نسلی خصائص کا زیادہ دیر تک خالص‬
‫حالت میں باقی رہنا ممکن تھا اور دوسرے اس پہلو سے کہ اسالم کی بدولت عرب‬
‫اپنی روایات کو دور دور تک پھیال سکے اور دنیا کے ایک بڑ ے حصے پر ان کی‬
‫ثقافت کی مہر ثبت ہو گئی۔ یہ سعادت کسی اور سامی قوم کے حصے میں نہ‬
‫آسکی۔(ص ‪ ،۱۱‬عربی ادب قبل از اسالم)‬

‫سامی اقوام کے اصل وطن اور تمام سامی زبانوں کی جڑ کے حوالے سے وہ کوئی‬
‫حتمی رائے نہیں دیتا۔ مختلف قیاسی نظریات پیش کرتا ہے کیونکہ کسی بھی نظریے‬
‫کے حق میں قطعی ثبوت مہیا نہیں ہو سکا۔‬

‫عرب اقوام کو درپیش جغرافیائی خط و خال کے حوالے سے پہلے مصنف جزیرہ نما‬
‫عرب کا حدود اربعہ بیان کر تا ہے اور مختلف خطو ں کی آب و ہوا سے متعلق طویل‬
‫مباحث پیش کر تا ہے لیکن یہ سلسلہ عربی ادب سے متصل ہو تا نظر نہیں آتا محض‬
‫جغرافیائی معلومات ہی دکھا ئی دیتی ہیں۔‬

‫’’عرب کے تمام عالقوں کی آب و ہوا بھی یکساں نہیں‬


‫مثالً مکہ کی آب و ہوا شدید گرم ہے طائف گرمیوں کے‬
‫لیے ایک خنک مقام ہے۔ جزیرہ نما کے بعض حصوں‬
‫کی آب و ہوا سال بھر صحت بخش اور خوش گوار رہتی‬
‫ہے۔ سردیوں میں شمالی نجد میں کہر اور دھند عام ہوتی‬
‫ہے۔ صحرا کی زمستانی ‪ ،‬راتیں سخت یخ بستہ ہوتی ہیں‬
‫کیونکہ ریت جتنی گرم ہوتی ہے۔ اتنی ہی تیزی سے‬
‫ٹھنڈی بھی ہوتی ہے۔ شمال کی طرف سے آنے والی ہوا‬
‫حددرجہ سرد ہوتی ہے‘‘۔(ص ‪ ،۱۶‬ایضا ً)‬

‫ان جغرافیائی حاالت کا وہاں کے باشندوں کے ذہنوں اور مزاج پر مرتب ہونے والے‬
‫چاہیے۔‬ ‫نا‬ ‫ہو‬ ‫السطور‬ ‫بین‬ ‫تذکرہ‬ ‫کا‬ ‫اثرات‬
‫عرب خطے کی نباتی و حیوانی زندگی کی نوعیت کے حوالے سے مصنف جانوروں‬
‫اور پودوں کی مختلف انواع کا جائزہ لیتا ہے کہ وہ کس دور میں کہا ں کہاں کہاں‬
‫پائے جاتے تھے اور ان کی مختلف نسلیں کب معدوم ہوئیں؟ شتر مرغ‪ ،‬نیل گائے ‪ ،‬ببر‬
‫شیر ‪ ،‬چیتے ‪ ،‬پہاڑی بکرے ‪ ،‬لومڑی ‪ ،‬گیدڑ ‪ ،‬خرگوش جنگلی چوہے‪ ،‬پرندوں میں‬
‫عقاب ‪ ،‬باز‪ ،‬کوے ‪ ،‬چڑیاں ‪ ،‬الو‪ ،‬گدھ‪ ،‬فاختہ‪ ،‬کبوتر‪ ،‬چکور‪ ،‬بٹیر‪ ،‬بلبل‪ ،‬ابابیل‪،‬‬
‫حشرات میں سانپ ‪ ،‬بچھو ‪ ،‬مکڑیاں ‪ ،‬کنکجھورے ‪ ،‬شہد کی مکھیاں ‪ ،‬ٹڈی دل وغیرہ‬

‫پالتو جانوروں میں اونٹ ‪ ،‬گھوڑا‪ ،‬بھیڑ‪ ،‬بکریاں ‪ ،‬خچر ‪ ،‬گدھا‪ ،‬بلی‪ُ ،‬کتّا وغیرہ پھر‬
‫مصنف اونٹ اور گھوڑے کی عرب معاشرے میں اہمیت بتائے ہوئے کہتا ہے۔‬

‫’’اونٹ کو عرب معاشرے میں ہزاروں سال سے‬


‫مرکزی اہمیت حاصل رہی ہے ۔ جوصرف موجودہ دور‬
‫کے مشینی وسائل کے مقابلے میں آکر ختم ہوئی ہے‬
‫مگر آج بھی اندرون صحرا کا سفرا ونٹ کے بغیر‬
‫ممکن نہیں۔ اونٹ کے بعد گھوڑا اہم رہا ہے۔ عربی ادب‬
‫میں بھی اس کا ذکرعام ہے۔ اپنی اصل اعتبار سے یہ‬
‫عرب کا جانور نہیں بلکہ بہت قدیم زمانوں میں باہر سے‬
‫یہاں پہنچا‘‘۔(ص ‪)۳۱ ،۱۸‬‬

‫اب عربوں کی نباتی زندگی میں مصنف کھجو ر کا حدود اربعہ بیان کرتے ہوئے اس‬
‫کی افادیت پر روشنی ڈالتا ہے۔‬

‫کھجور غذائیت سے بھرپور ایک بنابنایا کھا جاہے جو دودھ کے ہمراہ ہزاروں سال‬
‫تک عربوں کی مستقل روزمرہ غذا میں شامل رہا ہے۔ اس کی گٹھلیاں کو ٹ کر‬
‫اونٹوں کو کھالئی جاتی ہیں ۔ تنے مکانات کی تعمیر میں کام آتے ہیں۔ خراب اور‬
‫کھاری پانی بھی اس کی نشوونما کے لیے کافی ہے۔(ص‪)۳۱‬‬

‫اس کے بعد مصنف پھولوں کی مختلف اقسام اور دیگر پھلوں کا ذکر کرتا ہے۔ مختلف‬
‫تر کاریوں کے فوائد گنواتا ہے۔ رنگ‪ ،‬دینے والے پودوں میں قہوہ اور کافی کی اہمیت‬
‫بتاتا ہے۔‬

‫’’قہوے کو روزمرہ کے سامان تواضع میں اہم ترین حیثیت حاصل ہے خورونوش کی‬
‫محفل اس کے بغیر مکمل نہیں ہوتی اور قہوے کی تعریف میں صحرا نشینوں میں‬
‫اُسی طرح کے اشعار رائج پائے گئے ہیں جیسے جاہلی ادب میں شراب کی تعریف‬
‫میں نظم کئے جاتے ہیں۔ (ص ‪)۳۶‬‬

‫مذکورہ باال معلوماتی دائرہ معارف میں عربی ادب کے حوالے سے کوئی تذکرہ نہیں‬
‫ملتا۔ حیونات و نباتات سے حاصل ہونے والے فوائد کا ذکر بخوبی ملتا ہے۔ اس لحاظ‬
‫سے زیر نظر کتاب کا یہ حصہ خاصا دلچسپ ہے۔‬

‫زیر تبصرہ کتا ب میں مصنف عربوں کے معاشرتی کوائف کے حوالے سے بتاتے‬
‫ہوئے ان کی تہذیب و ثقافت اور عادات و خصائل کا جائزہ لیتا ہے۔‬

‫’’عرب معاشرہ مختلف اقوام اور قبائل پر مشتمل تھا‬


‫لیکن بنیادی طور پر دو واضح حصوں میں منقسم تھا‬
‫ایک اہل البدو دوسر ا اہل االحضر وہ ان دونوں کی‬
‫تہذیب و ثقافت پر بحث کر تا ہے کہ یہ کیسے وجود میں‬
‫آئے ۔ ان کی تقسیم نسلی نہیں بلکہ معاشی اور جغرافیائی‬
‫ہے۔بدوی حضری گروہوں کی یہ تقسیم اگرچہ اصوالً‬
‫معاشی اور جغرافیائی بنیادوں پر استوار ہے تا ہم دونوں‬
‫کے طرز زندگی میں ایسا عنصری فرق ہے کہ دونوں‬
‫کی ثقافت بالکل جداگانہ خطوط پر آگے بڑھتی ہے اور‬
‫دونوں کے مزاج ‪ ،‬خیاالت‪ ،‬طرز فکر غرض زندگی‬
‫کے تمام تر سانچے ایک دوسرے سے یکسر مختلف‬
‫ہیں‘‘۔ (ص ‪)۳۹‬‬

‫بدو کے لئے حضری زندگی کسی بوجھ سے کم نہیں وہ اس زندگی سے سخت‬


‫گھبراتے ہیں وہ آزادانہ بودوباش کے شیدائی ہیں جبکہ اہل حضر کے لیے خانہ بدوش‬
‫زندگی کا تصور ہی سوہان روح اور جانکاہ ہے۔‬

‫بدو لوگ طبعا ً ورشت اور اکھڑطبیعت کے ہوتے ہیں لیکن عہد کی پاسداری ‪ ،‬مہمان‬
‫نوازی اور عشق و محبت کے لطیف احساسات بھی ان کی سرشت میں شامل ہیں ۔‬
‫لیکن اب وقت کے ساتھ بداوت کی روایات تیزی سے دم توڑتی جارہی ہیں وہ شہروں‬
‫کے قریب قریب صحرائی کناروں میں سمٹتے چلے آرہے ہیں۔‬

‫بدوی لوگوں کے متعلق مصنف حتمی رائے دیتے ہوئے کہتاہے۔‬

‫الغرض صحرا کی وہ سخت جان روایات جو صدیوں اپنی اصل پر باقی رہیں اور جن‬
‫کی مدد سے دور جدید میں بھی قدیم عربی ادب کو سمجھنا آسان تھا اب کوئی دن کی‬
‫مہمان نظر آتی ہیں۔(ص ‪)۴۱‬‬

‫قدیم عربوں کا دیگر عالمی اقوام سے ربط کس نوعیت کا تھا اور انہوں نے ان کے‬
‫کیا؟‬ ‫قبول‬ ‫تک‬ ‫حد‬ ‫کس‬ ‫کو‬ ‫اثرات‬ ‫ثقافتی‬
‫سرز مین عرب کا رابطہ مختلف اقوام سے ہر دور میں کسی نہ کسی صورت میں رہا‬
‫ہے۔ اس لیے ثقافتی اثرات سے وہ چاہتے ہوئے بھی دامن نہ چھڑا سکی۔ مصنف تین‬
‫وسائل کا ذکر کر تا ہے۔‬

‫‪1‬۔ حیرہ اور غسان کی ریاستیں‪:‬‬

‫یہ ایرانی اور رومی ثقافتوں کے نفوذ کا ذریعہ تھیں اور ان کا عرب معاشرے پر کئی‬
‫اعتبار سے اثر تھا۔‬

‫‪2‬۔ تجار ت ‪:‬‬


‫صحرا نشین قبائل تجارتی سرگرمیوں سے التعلق نہ تھے ۔ تجارتی قافلے لوٹ مار‬
‫سے محفوظ رہنے نیز راستہ معلوم کرنے کی غرض سے ان قبائل کو اُجرت پر رہنما‬
‫یا محافظ بنالیتے تھے۔ ان پڑھ اور لوٹ کھسوٹ کے عادی ہونے کے باوجود یہ لوگ‬
‫اس لیے قابل اعتماد تھے کہ اپنی بات کے پکے تھے۔ اگر کسی زیادہ طاقتور قبیلے‬
‫کے حملے کے باعث وہ خود کو قافلے کی حفاظت سے قاصر پاتے تھے۔ تو اجر ت‬
‫لوٹا دیتے تھے۔ ان تجارتی سرگرمیوں کے باعث عربوں کا دوسری اقوام سے جو‬
‫اختالط رہتا تھ ا۔ اس کے نتیجے میں بیرونی ثقافتوں کا نقش عربوں کی عقلی زندگی پر‬
‫بیٹھتا رہتا تھا ۔ عربی میں ایرانی ‪ ،‬رومی‪ ،‬مصری‪ ،‬حبشی زبانوں کے جو دخیل الفاظ‬
‫ہیں ۔ ان کے عربی میں داخل ہونے کاایک سبب یہ تجارتی ربط ضبط بھی تھا۔‬

‫‪3‬۔ یہودیت اور نصرانیت‪:‬‬

‫اجنبی ثقافتوں کو عرب میں راہ دینے واال تیسرا اہم وسیلہ یہودیت اور نصرانیت تھی ۔‬
‫ظہور اسالم سے کئی صدی پہلے کچھ یہودی اسکندر یہ اور روم سے یہاں آکر آباد‬
‫ہوئے اور بعدازاں ان کے اثرسے بعض عرب قبائل نے بھی یہودیت قبول کر لی۔‬
‫یثرب یہود کا مرکز تھا۔ بنو نضیر ‪ ،‬بنو قینقاع اور بنو قریظہ مشہور یہودی قبائل تھے۔‬
‫یہودیوں کی وساطت سے قدیم عرب معاشرے میں دنیا کی پیدائش مرنے کے بعد کی‬
‫زندگی اور حساب و میزان سے متعلق روایات و تفاسیر کے سلسلے نے شہرت پائی ۔‬

‫اس طرح نصرانیت نے عربوں میں حبشی‪ ،‬رومی اور یونانی اثرات کی نمائندگی کی‬
‫عیسائیت کے اثر سے عربوں میں کائنات کے مظاہر پر غور کرنے اور رہبانیت کی‬
‫زندگی بسر کرنے کا میالن پیدا ہوا۔(ص ‪)۴۶ ،۴۴ ،۴۳‬‬

‫عربی زبان میں مختلف الفاظ اور تراکیب کا اضافہ بھی نصرانی میالنات کے وسیلے‬
‫سے ہوا۔‬

‫عربوں میں قدیم نسب روایات کی صورتحال کیا تھی؟‬


‫اگر چہ موجودہ دور میں نسب و روایات کی وہ اہمیت نہیں رہی کیونکہ اسالم نے‬
‫تقوی قرار دیا لیکن موجودہ نسل کے ارتقاء کے لیے ان‬
‫عظمت کا معیار صرف ٰ‬
‫روایات سے آشنائی ضروری ہے۔‬

‫مصنف نے ان روایات کی تقسیم کچھ اس طرح کی ہے۔‬

‫عرب بائدہ‪:‬‬

‫وہ قدیم قبائل ہیں جو یکسر نابود ہوگئے اور ان کی محض کہانیاں باقی رہ گئیں۔ ان میں‬
‫عاد‪ ،‬ثمود‪ ،‬طسم‪ ،‬اور جدیس شامل ہیں ۔ ان کے عالوہ چند قبائل مثالً عمالیق ‪ ،‬امیم‪،‬‬
‫عبیل‪ ،‬اہل وبار‪ ،‬اہل مدین اور ُجر ہم کو عرب بائدہ میں شمار کرتے ہیں۔‬

‫عرب باقیہ‪:‬‬

‫بائدہ کے مقابلے میں عرب باقیہ آتے ہیں یعنی وہ قبائل جو بچ رہے ان کی دو قسمیں‬
‫ہیں۔‬

‫عرب عاربہ ‪:‬‬

‫اعلی قحطان کی نسبت سے قحطانی‬


‫ٰ‬ ‫جنوبی عرب یعنی اہل یمن مراد ہیں جن کو جد‬
‫بھی کہا جاتا ہے۔‬

‫عرب مستعربہ‪:‬‬

‫’’ ا س سے شمالی عرب مراد ہیں یہ عدنان کی اوالد ہیں اس لیے عدنانی کہالتے‬
‫ہیں‘‘۔(ص ‪)۴۹ ،۴۱‬‬

‫مصنف بتاتا ہے کہ قوم عاد اور ثمود کا ذکر قرآن پاک میں بطور عبر ت بار بار آیا‬
‫ہود کی قوم تھی۔ ان لوگوں کا مسکن احقاف کی سرزمین تھی ثمود‬
‫ہے ۔ عاد حضر ت ؑ‬
‫القری کا عالقہ تھا۔‬
‫ٰ‬ ‫حضر ت صالح ؑ کی قوم تھی۔ ان کا مسکن وادی‬
‫ان اقوام کی تہذیب و ثقافت سے متعلق مصنف نے طویل مباحث کیے ہیں جو عربی‬
‫ادب کے موضوع سے خارج ہیں ٰلہذا ان کی تفصیل سے گریز کیا جاتا ہے۔‬

‫عرب ریاستوں اور قبائل کا عربی ادب پر اثر‪:‬‬

‫عرب ریاستوں حیرہ ‪ ،‬غسان اور کندہ ان تینوں کو اپنے عالقے میں شاہا نہ رسوخ‬
‫حاصل رہا جس سے دور جاہلیت میں عربوں کی ثقافت اور ادب پر گہرے اثرات‬
‫مرتب ہوئے لیکن یہاں مصنف نے ان کی تہذیبی و ثقافتی زندگی پر تفصیالً بات کی‬
‫ہے جس سے ان کا عربی ادب پر کوئی براہ راست اثر نظر نہیں آتا۔‬

‫عرب مستعربہ کے ضمن میں عدنانی قبیلے کی دو شاخوں ربیعہ اور مضر کا ذکر‬
‫کرتا ہے ۔ چونکہ عربی ادب کے پس منظر کو سمجھنے کے لیے یہ قبائل مدد دیں‬
‫گے۔ دور جاہلیت میں عرب معاشرے کی مرکزی نمائندگی یہی لوگ کرتے ہیں۔‬

‫مصنف لفظ جاہلیت کے حوالے سے بتاتا ہے۔‬

‫’’جاہلیت کی اصطالح عربوں کی تاریخ میں تمام تر‬


‫زمانہ ما قبل اسالم کو محیط ہے اور اس سے مراد عمو‬
‫ما ً جہالت یعنی ال علمی کا زمانہ تصور کر لیا جاتا ہے۔‬
‫تاہم گولڈز یہرنے بجا طور پر یہ وضاحت کر دی ہے کہ‬
‫اس اصطال ح میں جہل مقابلہ حلم ہے نہ کہ بمقابلہ‬
‫علم‘‘۔(ص ‪)۱۱۸‬‬

‫مصنف اس کی وضاحت کرتا ہے کہ جاہلیت کی اصطالح سے اصل مراد علمی بے‬


‫بضاعتی یا تمدن و ثقافت سے محرومی نہیں بلکہ اناینت ‪ ،‬تند خوئی اور نا مناسب‬
‫طرز فکروعمل کی وہ مجموعی صورت حال ہے جو اس دور کی قبائلی زندگی میں‬
‫رچی بسی ہو ئی تھی اور اسالم میں امتیاز کی اسا سی جہت اخالقی ہے نہ کہ علمی۔‬

‫ثقافتی اعتبار سے جاہلی عرب ایران اور روم کے ہم پلہ نہ تھا لیکن اس سے مراد یہ‬
‫نہیں کہ مکمل طور وحشی اور پس ماندہ تھے ۔ ان کا سرمایہ شعر و ادب ‪ ،‬فلسفیانہ و‬
‫حکیمانہ اقوال ‪ ،‬ضرب االمثال ‪ ،‬مناظر فطرت سے اثر پذیری عشق و محبت سے‬
‫آگہی ‪ ،‬انسانیت ‪ ،‬جواں مردی اور سخت کو شی کے تصورات ان کی ذہنی پختگی کے‬
‫آئینہ دار ہیں۔ ان کی زندگیوں میں ترتیب و تنظیم کی کمی تھی اس وجہ باہمی تشدد اور‬
‫ماردھاڑ کے سلسلے جاری رہے۔‬

‫عرب مستعاربہ کے اہل الوبر قبیلہ کے اثرات عربی ادب کی جاہلی شاعری میں زیادہ‬
‫نظر آتے ہیں۔‬

‫مصنف ان کا ذکر اس طرح کرتا ہے۔‬

‫’’ان کی زندگی چلنا چلنا مدام چلنا کی تفسیر تھی۔ دور‬


‫قبیلے کہیں قریب قریب خیمہ زن ہو جاتے اور محب و‬
‫محبوب کے تعلق کا سبب بنتے بعد ازاں دونوں قبیلے‬
‫اپنی اپنی منزل کا رخ کرتے اوردو دھڑکتے ہوئے دل‬
‫ایک دوسرے سے جدا ہواجاتے ۔ البتہ خیمے کے‬
‫کھونٹے ‪ ،‬چولھے کے پتھر ‪ ،‬آگ بجھی ہوئی ادھر ٹوٹی‬
‫ہوئی طناب ادھر عہد رفتہ کی یاد دالنے کے لیے باقی‬
‫رہ جاتے مدتوں بعد عاشق کا پھر ادھر سے گزرتا ہو تا‬
‫تو وہ ان آثار کو پہچان کر اپنی اونٹنی کو روک لیتا اور‬
‫ساتھیوں سے بھی رک جانے کی درخواست کر تا ۔ رقت‬
‫جذبات سے بے خود ہو کراشک فشانی کرتا ۔ یہی سارا‬
‫ماحول جاہلی قصیدے کے حصہ تشبیب میں بار بار‬
‫جلوہ گر ہوتا ہے‘‘۔ (ص ‪)۱۱۱ ،۱۱۱‬‬

‫جاہلی ادب کی بدولت عرب مستعربہ کی اہمیت آج تک مسلم ہے۔ دیگر قبائل کا تو‬
‫محض نام ہی رہ گیا۔‬

‫حرب بسوس ‪ ،‬حرب داحس و االغبرء کس ردعمل کا نتیجہ تھے اور ادب پر اس کے‬
‫اثرات کس نوعیت کے تھے؟‬
‫حرب بسوس ‪ ،‬حرب داحس الغبراء ‪ ،‬چالیس چالیس تک جاری رہنے والی طویل‬
‫جنگیں ہیں۔ ان کی اہمیت اس وجہ سے ہے کہ شاعری میں ان واقعات کو بطور خاص‬
‫پیش کیا گیا ہے۔‬

‫مصنف نے مذکورہ باال دونوں لڑائیوں کو کافی تفصیل سے بیان کیا جو تقریبا ً چالیس‬
‫سال جاری رہیں۔‬

‫یہ لڑائی دو قبائل بکر اور تغلب کے درمیان ایک اونٹنی کو تیر مارنے کی بناء پر‬
‫شروع ہوئی ۔ اس کے بدلے دوسرے قبیلے بنو بکر نے بنو تغلب کے سردار کو جوکہ‬
‫اس کا بہنوئی بھی تھا قتل کر دیا۔ بسوس بنو بکر کے قاتل جساس بن مرہ کی خالہ کا‬
‫نام تھا اس نے جساس کو بھڑ کانے کے لیے کافی آہ و پکار کی ۔ اس جنگ کے‬
‫نتیجے میں کئی قتل ہوئے۔‬

‫قتل کر نے کے بعد جساس نے اپنے باپ سے شاعر ی میں گفتگو کی‬

‫’’اپنے دفاع کا پورا پورا سامان کر لے‬

‫کیونکہ معاملہ بحث و تکرار سے آگے گزر چکا ہے‬

‫میں نے ایک ایسی جنگ کا بوجھ تجھ پر الدڈاالہے‘‘۔ (ص ‪)۱۱۱‬‬

‫اس جنگ میں بنو بکر کی عورتوں نے بھی بھر پور شرکت کی ۔ انہوں رجز خوانی‬
‫سے مردوں کو جو ش دالیا۔‬

‫حرب بسوس کے کچھ ہی عرصے بعد عبس اور ذیبان قبیلوں کے مابین ایک اور‬
‫طویل جنگ کا آغاز ہو گیا۔ داحس بنو عبس کے سردارقیس بن زہیر کا گھوڑاتھا اور‬
‫غ برا بنو ذبیان کے حمل بن بدر کی گھوڑی کا نام تھا گھوڑا اور گھوڑی کے درمیان‬
‫دوڑ کا مقابلہ ہوا تو گھوڑے کو آگے بڑھتا ہو دیکھ کر بدکا دیا اور گھوڑی غبراء کو‬
‫فاتح قرار دے دیا گیا۔ اس پر گھوڑے کے مالک نے غم و غصے میں گھوڑی والوں‬
‫دوڑ جیتنے پر سواونٹ طلب کر نے پر نیز ہ مار کر ہالک کر دیا۔ پھر جنگ کی آگ‬
‫دونوں طرف بھڑک اٹھی۔‬

‫قیس بن زہیر کے دو شعرا س صورتحال کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں‬

‫میں نے حمل بن بدر کو مار کر اپنے جی کی بھڑاس نکال لی اور میری تلوار نے‬
‫حذیفہ (کے خون) سے بھی میرے دل کو ٹھنڈک پہنچا دی۔اگرچہ میں نے ان لوگوں‬
‫(کے قتل) سے اپنی تشنگی انتقام کو سرد کر لیا ہے۔ تاہم انہیں کاٹ کر میں نے خود‬
‫اپنے ہی ہاتھ کاٹے ہیں۔(ص ‪)۱۳۴‬ان جنگوں کے نتائج بہت المنا ک تھے ۔ قتل و‬
‫غارت کا بازار گرم ہو گیا لیکن شعراء کے دلوں کو گرما دیا۔ معلقہ زہیر کا مرکزی‬
‫موضوع یہی جنگ ہے‬

‫یہ شعر اسی واقعے کے ایک قتل کی طرف اشارہ کر تا ہے۔‬

‫’’اور اس نے دل میں ایک پوشیدہ ارادہ چھپا رکھا تھا۔‬

‫سو نہ تو اس نے اُس کا اظہار کیا اور نہ (قبل از وقت)‬


‫پیش قدمی کی‘‘۔ (ص ‪)۱۳۶‬‬

‫عرب میں اسواق کی کیا اہمیت تھی؟‬

‫اسواق سوق کی جمع ہے اس کا مطلب بازار یا منڈی ہے۔قدیم عرب میں تجارتی مقاصد‬
‫کے لیے مختلف اسواق منعقد ہوتے تھے ان میں نہ صرف مقامی لوگ شرکت کرتے‬
‫تھے بلکہ جزیرہ نما کے اطراف سے مختلف میں قبائل شرکت کرتے تھے ان میں اہم‬
‫فیصلے اور مقابلے ہوتے تھے۔‬

‫اس دور کے اہم اسواق عکاظ ‪ ،‬جمنہ‪،‬ذوالمجاز ہیں۔‬

‫یہ عموما ً حج کے موسم میں منعقد ہو تے تھے ۔ ان میں سب سے زیادہ اہمیت عکاظ‬
‫کو حاصل تھی۔‬
‫اس حوالے سے مصنف بتاتا ہے۔‬

‫’’عربوں کی قدیم ادبی ‪ ،‬معاشرتی اور سیاسی زندگی‬


‫کے بہت سے اہم واقعات کے پس منظر میں عکاظ کا‬
‫نقش ابھر تا ہے عکاظ ہی میں نابغہ ذبیانی کا سرخ‬
‫چرمی خیمہ نصب کیا جا تا تھا اور بڑے بڑے شعراء‬
‫اپنا کالم اس کے سامنے پیش کرتے تھے ۔ یہیں سال بھر‬
‫کے بہترین قصیدے کا فیصلہ ہو تا تھا جس کے نتیجے‬
‫میں سبع معلقات ‪ ،‬وجود میں آئے ‪ ،‬عکاظ میں ہی‬
‫آنحضر ت ؐ نے عرب کے معروف خطیب قس بن ساعدہ‬
‫کوایک خاکستری اونٹ پر سوار اپنا وہ مشہور خطبہ‬
‫دیتے ہوئے سنا جس کے مرصع الفاظ آپ ؐ کی خاطر‬
‫عاطر پر نقش ہو گئے‘‘۔(ص ‪)۱۳۱‬‬

‫قدیم عربوں کے عقائد و تصورات کیا تھے اس سے ان کی علمی و فنی صالحیتوں پر‬
‫کیا اثرات مرتب ہوئے؟‬

‫دور جاہلیت میں عرب مختلف مذہبی عقائد کا شکار تھے قرآن پاک میں بھی ان مختلف‬
‫عقائد کا ذکر ملتا ہے۔ مجوس‪ ،‬صابئین ‪ ،‬آتش پرست مصنف بتاتا ہے کہ کچھ لوگ‬
‫خالص دہر یت کے حامل تھے اور زندگی کو محض قوائے فطرت کا عطیہ سمجھتے‬
‫تھے اور موت کو گردش زمانہ کا منطقی نتیجہ اور ایک گروہ خالق کا اقرار کرتا تھا‬
‫لیکن بعد از موت حیات کا قائل نہ تھا اور اکثریت ان لو گوں کی تھی جنہیں رسالت‬
‫تسلیم نہ تھی ان کے لیے بت ہی سب کچھ تھے۔‬

‫دراصل عرب جاہلیت کے بڑے شبہات انہی دو امور پر تھے یعنی ایک تو حشر و نشر‬
‫کا مسئلہ ان کے ذہن میں خلجان پیدا کر تا تھا اور وہ اکثر سوال کرتے تھے کہ جسم‬
‫کو گل سڑ جانے کے بعد کو ن پھر سے زندہ کر سکتاہے۔ اور دوسرے یہ کہ انسان‬
‫رسول کیوں کر ہو سکتے ہیں۔ ان کی بجائے وہ یا تو مالئکہ ‪ ،‬کا تقاضا کرتے تھے یا‬
‫پھر بتوں کو وسی لہ جانتے تھے انسان کی رسالت پر ان کا دل مطمئن نہ ہو تا تھا۔ (ص‬
‫‪)۱۴۰ ،۱۳۸‬‬

‫دور جاہلیت میں دین ابراہیمی پر قائم لو گو ں کی تعداد بہت قلیل تھی دور جاہلیت کے‬
‫بہت سے عقائد کی تصدیق اسالم نے کردی مثالً سگی ماؤں ‪ ،‬بیٹیوں ‪،‬خاالؤں‪،‬‬
‫پھوپھیوں ‪ ،‬بہنوں سے شاد ی نہ کر نا ‪،‬خانہ کعبہ کا طوائف کرنا اور لبیک کہنا ‪،‬‬
‫مردوں کو غسل اور کفن دینا۔‬

‫قدیم عربوں کے یہ عقائد و تصورات اپنی جگہ مسلم ہیں ان کی اہمیت سے انکار نہیں‬
‫ان میں بعض عقائد کی نفی اسالم نے کی لیکن مصنف نے ان عقائد کی مثال جاہلی‬
‫شعراء کے حوالے سے نہیں پیش کی اموی عہد کے شاعر تو بہ بن الحمیر کا شعر دیا‬
‫ہے یا مثال دیتے ہوئے یہ کہا ہے کہ کسی کا شعر ہے۔‬

‫فوق الفطرت مخلوق کے حوالے سے ایک شعر تابط شرا کا دیا ہے۔‬

‫اس (غول) نے کہا ایک وار اور کرمیں نے کہا ذرا ٹھہر اور اپنی جگہ پر قائم رہ کہ‬
‫میں مضبوط دل کا مالک ہوں۔(ص ‪)۱۴۴‬‬

‫تیر آلہ جنگ ہونے کے عالوہ وہ آلہ قمار بھی تھے اشک محبوب کی تاثیر کے بارے‬
‫ہے۔‬ ‫سے‬ ‫حوالے‬ ‫اسی‬ ‫شعر‬ ‫یہ‬ ‫کا‬ ‫القیس‬ ‫امرؤ‬ ‫میں‬
‫تیری آنکھوں نے آنسو صرف اس لیے ٹپکائے ہیں کہ تو اپنے (ان) دو تیروں سےایک‬
‫دل پاش پاش کی دس (کی دس) قاشوں پر ہاتھ مارے۔ (ص ‪)۱۴۶‬‬

‫مصنف نے علم طب کے حوالے سے عربوں کے عقائد کا جائزہ لیا ہے علم االاساطیر‬


‫ابشر‬ ‫قیافتہ‬ ‫اور‬ ‫االثر‬ ‫قیافتہ‬ ‫القیافہ‪،‬‬ ‫علم‬ ‫‪،‬‬
‫اس سلسلے میں عربوں کے ہاں ایک چھٹی حس پیدا ہو گئی تھی اور وہ بوڑھے‬
‫جوان‪ ،‬مرد ‪ ،‬عورت کے نقوش قدم میں فرق کر سکتے تھے اور مفرور انسان یا گم‬
‫شدہ جانور کا سراغ لگا لیتے تھے۔ (ص ‪)۱۶۱‬‬
‫انسان کے عقائد اس کی علمی و فنی صالحیتوں پر ضرور اثر انداز ہو تے ہیں۔ عہد‬
‫جاہلیت کے حوالے سے ان عقائد کے اثرات عربی ادب پر مرتب ہوتے نظر نہیں آتے۔‬

‫عربی زبان امتیازی خصوصیات کیا تھیں؟‬

‫دور جاہلیت میں عربی مختلف لہجوں میں منقسم تھی ۔ عربی زبان سے مصنف کی‬
‫مراد صرف شمالی عربی ہوگی کیونکہ عربی زبان میں محفوظ رہ جانے واال تمام تر‬
‫ادبی سرمایہ اسی زبان میں ہے دیگر قبائل کی زبانیں اُن کے ساتھ معدوم ہو گئیں۔‬
‫عربی زبان میں ایسی کیا خصوصیت تھی جو آج تک اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے‬
‫ہے۔ اس کی وجہ قدیم عربی زبان کی غیر معمولی وسعت ہے۔ یہ زبان ذخیرہ الفاظ ہی‬
‫میں باثروت نہیں بلکہ قواعد صرف و نحومیں بھی با کمال ہے۔‬

‫عربی کے نظام اعراب کا بھی اسکی وسعت کو نمایاں کرنے میں اہم کردار ہے ۔ قرآن‬
‫مجید کے تحفظ کی غرض سے مسلمانوں کی توجہ صرف و نحو کی طرف بھی‬
‫مبذول ہوئی۔‬

‫مصنف نے عربی زبان میں کثرت مترادفات کو بھی عربی زبان کی خصوصیت میں‬
‫شامل کیا ہے۔ مثال کے طور پر کئی الفاظ بھی دئیے ہیں متضاد الفاظ کی کثرت کو‬
‫بھی خصوصیت قرار دیا ہے۔‬

‫عربوں کا ذہنی میالن کیا تھا؟‬

‫اس حوالے سے مصنف نے کچھ مبہم سے مباحث پیش کیے ہیں اس سلسلے میں وہ‬
‫ہے۔‬ ‫دیتا‬ ‫حوالہ‬ ‫کا‬ ‫مثال‬ ‫ہوئی‬ ‫دی‬ ‫کی‬ ‫امین‬ ‫احمد‬
‫اگر وہ کسی باغ کے سامنے ہو تو بیک نگاہ اس کا احاطہ نہیں کر پاتا اور اس کا ذہن‬
‫کیمرے کی طرح اس کی کلیت کو گرفت میں نہیں لیا بلکہ شہد کی مکھی کی طرح‬
‫ایک پھول سے دوسرے پھول تک اڑتا پھرتا ہے اور ہر ایک کا رس چوستا ہے۔ (ص‬
‫‪)۱۱۰‬‬

‫مصنف اس حوالے سے کوئی حتمی رائے پیش کرنے سے گریزاں ہے و ہ کہتا ہے۔‬
‫اس کے پس منظر میں زندگی اپنی تمام تر قدامت اسرار‪ ،‬پیچیدگی اور بو قلمونی کے‬
‫ساتھ موجود ہے اسی طرح کلیت اور جزئیت ‪ ،‬تسلسل اور ریزہ کاری کے بارے میں‬
‫یہ فیصلہ کرنا دشوار ہے۔ (ص ‪)۱۱۱‬‬

‫مصنف نے اس حوالے سے جو نظریات پیش کیے ہیں ان سے ادب پر تو کوئی خاص‬


‫ہوئے۔‬ ‫نہیں‬ ‫مرتب‬ ‫اثرات‬
‫دور جاہلیت میں نثر اور شاعری کا کیا مقام تھا؟‬

‫مصنف ابو عمر و بن العالء کے حوالے سے کہتا ہے کہ قبل از اسالم عربی ادب کا‬
‫بہت سا سرمایہ ضائع ہو گیا جو حصہ ہم تک پہنچا ہے وہ بہت کم ہے اور اس کا‬
‫غالب حصہ شاعری پر مشتمل ہے۔‬

‫زیر تبصرہ کتاب کے مصنف کی یہ رائے قابل غور بھی ہے۔ اور دیگر نثر نگاروں‬
‫سے مختلف بھی وہ کہتا ہے۔‬

‫کیونکہ شعر نثر کی نسبت جلد یا دہو جاتا ہے اور تادیر یا د ر ہ سکتا ہے چنانچہ ایک‬
‫ایسے معاشرے میں جس میں تحریر کا رواج کم کم ہو ‪ ،‬شعر فطری طور پر نثر سے‬
‫بڑھ کر محفوظ رہ سکتا تھا۔(ص ‪)۱۱۱‬‬

‫اس کی وجہ یہ ہے کہ مصنف کی پہلی حیثیت بطور شاعر ہے اور ثانوی حیثیت بطور‬
‫نثر نگار ہے۔‬

‫جاہلی نثر کے مختصر سرمایے کو وہ امثال ‪ ،‬حکیمانہ اقوال ‪ ،‬پہیلیوں کا ہنوں کی‬
‫سجع ‪ ،‬قصے کہانیوں ‪ ،‬خطبوں اور وصیتوں میں تقسیم کر تا ہے‬

‫امثال ‪ ،‬حکم‪ ،‬نوادر‪:‬‬

‫یہاں مصنف پہلے ان تینوں کے صیغوں پر بات کرتا ہے اور پھر خاص عالمانہ‬
‫اسلوب میں ان کی تعریفات بیان کرتا ہے یہ ہیں تو معلوماتی مباحث لیکن اس قدر‬
‫طویل ہیں کہ قاری لفظوں کی ان بھول بھلیوں میں کھو کر اصل موضوع سے دور ہو‬
‫ہے۔‬ ‫جاتا‬
‫ذیل میں مصنف کی چند مثال پیش کی جاتی ہیں۔‬

‫اسمع جعحجۃ وال ار ی طحنا ً‬

‫اولوں نے جو کچھ بربا د کیا تھا بارش نے اس کی تالفی‬


‫کر دی‬

‫الیوم خمر و غدا ً امر‬

‫آج شراب اور کل معاملے کی بات۔ یہ امر ؤ القیس کا‬


‫قول ہے‬

‫خر قاء وجدت صوفا ً‬

‫پھو ہڑ عورت کے ہاتھ اون آگئی گو یا گنجے کو ناخن‬


‫مل گئے‬

‫یجری بلیق ُو یذّم‬

‫بلیق دوڑتا بھی ہے اور اس کی مذمت بھی کی جاتی ہے۔‬


‫بلیق گھوڑے کا نام ہے ایسے شخص کے حق میں‬
‫بولتے ہیں جو بھالئی کرنے کے باوجود برابنے۔‬

‫سہ الضر‬
‫الحر حران م ّ‬

‫شریف زادہ شریف زادہ ہی ہوتا ہے خواہ بد حالی کا‬


‫شکار ہو۔‬

‫حکیمانہ اشعار‪:‬‬

‫خامیوں کو برداشت کیے بغیر‬


‫تو کسی بھی دوست کو باقی نہیں رکھ سکتا‬

‫بھال خامیوں سے پاک کون ہے؟ (نابغہ)‬

‫کتنے ہی خاموش لوگوں کو تو دیکھتا ہے۔‬

‫جو تجھے بھلے لگتے ہیں‬

‫ان کی کمی بیشی کا احوا ل تو گفتگو کے وقت ہی کھلتا‬


‫ہے۔ (زہیر)‬

‫مصنف ان امثال کا سیاق و سباق بھی بیان کرتاہے اور مزید کچھ نمونے بھی پیش کرتا‬
‫ہے بوجہ طوالت ان سب کا بیان ممکن نہیں۔‬

‫قصے کہانیاں‪:‬‬

‫ابتدا ء میں مصنف داستان گوئی کے لیے استعمال ہونے والے لفظ قصص کے حوالے‬
‫سے کافی تفصیل بیان کرتا ہے پھر بتا تا ہے قصے چار اقسام میں منقسم ہیں۔‬

‫ایام العرب‪:‬‬

‫اس میں عربوں کی لڑائیوں کی تفصیل ہے۔‬

‫الہوی ‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫احادیث‬

‫عشقیہ داستانیں مثالً منخل یشکری اور ملکہ متجردہ کا قصہ اس کے لیے روایات‬
‫واشعار کا ذخیرہ ملتا ہے۔‬

‫’’ نعمان بن المنذر بادشاہ حیرہ کی ملکہ متجردہ بدکردار تھی اور معروف شاعر منخل‬
‫یشکری کے ساتھ بد نام تھی ۔ منخل خوبرو آدمی تھا جبکہ نعمان پست قد‪ ،‬بدصورت‬
‫اور کَبرا تھا۔ نعمان کا ایک دن گھڑ سواری کے لیے مقرر تھا جس سے وہ بہت‬
‫دیرسے واپس آیا کرتا تھا۔ منخل نعمان کا مصاحب تھا۔ اس روز خوش وقتی کے لیے‬
‫متجردہ کے پاس جا پہنچتا تھا۔ نعمان کی واپسی پر ایک کنیز متجردہ کے حکم مطابق‬
‫خبردار کر دیتی اور منخل کو نعمان کی آمد سے قبل نکال دیا جاتا ایک روز راز و‬
‫نیاز کے عالم میں متجردہ نے بیٹری کا حلقہ اپنے اور دوسرا منخل کے پاؤں میں ڈاال‬
‫۔ بعض روایات کے مطابق اپنی ایک پازیب اسے پہنائی اور عالم وارفتگی میں اپنے‬
‫بال لٹکا کر اس کے پاؤں کو اپنے پاؤں سے جکڑلیا۔ نعمان اس روز قبل از وقت آپہنچا‬
‫اور کنیز کو علم نہ ہو سکا ۔ متجردہ اور منخل کو اس عالم میں دیکھ کر نعمان نے‬
‫منخل کو اپنے داروغہ زندان کے سپرد کر دیا جس نے اسے تکلیفیں دے دے کر مار‬
‫‪)۱۱۴،۱۱۶‬‬ ‫(ص‬ ‫ڈاال‘‘۔‬
‫اب اس واقعے سے بعض عورتوں کی عیاش طبیعت کھل کر سامنے آتی ہے ہمارے‬
‫ہاں یہ تصور اتنا پختہ ہو چکا ہے کہ عرب معاشرے میں عورتوں پر بہت ظلم ہو تا‬
‫تھا اور اب یہاں اس واقعے سے ظاہر ہو تا ہے کہ ملکہ کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں‬
‫ہوئی ہوگی۔ اس دور کی عورت جذباتی اور جنسی شعور سے مکمل طور پر آگاہ تھی۔‬

‫اس کے عالوہ نثر کے حوالے سے مصنف دیگر اقوام سے ماخوذ کہانیوں اور‬
‫جانوروں کی کہانیوں کا ذکر کرتا ہے۔ اس کے بعد مصنف سجع کے عنوان سے لفظ‬
‫سجع کے لغوی واصطالحی مفہوم اور گرائمر کی رو سے اس کے استعمال پر کافی‬
‫بحث کرتا ہے پھر دور جاہلیت کی سجع کے نمونوں کا ذکر کرتا ہے۔‬

‫خطب و وصایا‪:‬‬

‫یہاں مصنف بتاتا ہے کہ خطب خطبہ کی اور وصایا وصیہ کی جمع ہے اور پھر اردو‬
‫میں ان دونوں کے معنی میں تخصیص کے حوالے سے بات کرتا ہے اور بطور نمونہ‬
‫مختلف خطبوں کے اقتباسات پیش کرتا ہے۔‬

‫خدیجہ سے حضور ؐ کے ازدواج کے موقع پر جناب ابو طالب نے جو خطبہ‬


‫ؓ‬ ‫حضرت‬
‫نکاح دیا جسے قبل از اسالم کے سب سے زیادہ متوازن اور جچے تلے خطبوں میں‬
‫سے ایک قرار دیا ہے۔‬
‫اسماعیل کی نسل سے بنایا اور‬
‫ؑ‬ ‫ابراہیم کی اوالد‬
‫ؑ‬ ‫’’تعریف اس خدا کی جس نے ہمیں‬
‫ہمارے لیے ایک عزت واال شہر اور ایک ایسا گھر مقرر کیا جو مرجع خالئق ہے اور‬
‫ہمیں لوگوں کا حاکم بنایا ۔ بعد ازاں کہنا یہ ہے کہ میرا بھتیجا محمد ؐ بن عبداللہ وہ‬
‫شخص ہے کہ قریش کے کسی بھی نوجوان کا اس سے موازنہ کیا جائے تو نیکی اور‬
‫فضلیت اور کرم اور عقل اور بزرگی اور شرافت میں اسی کا پلہ بھاری رہے گا اور‬
‫مال میں اگر کمی کیسی بھی ہو تو یاد رہے کہ مال تو محض ایک ڈھلتی چھاؤں ہے‬
‫اور ایک متاع مستعار جو واپس لے لی جائے گی اور وہ خدیجہ بنت خویلد کی طرف‬
‫میالن رکھتا ہے اور وہ بھی اس کی طرف ویساہی میالن رکھتی ہے اور جس قد ر حق‬
‫مہر تم چاہو میں اس کا ذمہ لیتا ہوں‘‘۔ (ص ‪)۱۸۱‬‬

‫مصنف جاہلی خطابت کی نمائندگی کے لیے قس بن ساعدہ اور اکثم ابن صیفی کا تذکرہ‬
‫کر تاہے۔‬
‫قس بن ساعدہ االیادی ‪:‬‬

‫مصنف وضاحت و بالغت کے حوالے سے قس بن ساعدہ کے مختلف اقوال روایت کر‬


‫تا ہے وہ کہتا ہے کہ قس وہ پہال شخص ہے جس نے بلندی ہر کھڑے ہو کر خطاب‬
‫الی فالن کے الفاظ استعمال کیے اور‬
‫کرنے کی رسم نکالی اور اما بعد اور من فالن ٰ‬
‫دوران تقریر میں تلوار یاال ٹھی پر ٹیک لینے کا طریقہ اختیار کیا ۔‬

‫’’ قس کا شمار عرب کے معمرین میں ہوتا ہے اس نے بہت طویل عمرپائی اور بعثت‬
‫اکرم نے اسے سوق‬
‫ؐ‬ ‫سے کچھ عرصہ قبل اس کی وفات ہوئی ۔ روایت ہے کہ نبی‬
‫عکاظ میں ایک خاکستری رنگ کے اونٹ پر بیٹھ کر خطبہ دیتے سنا اور اس کے‬
‫حسن کالم اور سالمت طبع نے آپ ؐ کی خاطر عاطر پر اچھا تاثر چھوڑا جس کاذکر‬
‫آپ نے بعدکے زمانے میں بھی فرمایا ۔ (ص ‪)۱۰۱‬‬
‫ؐ‬

‫اس کے خطبے کا یہ اقتباس مال حظہ کریں‬

‫’’ لوگو ! سنو اور دامن دل میں محفوظ کر لو جو جیتا ہے وہ مرتا اور جو مر جاتا ہے‬
‫وہ ہات ھ نہیں آتا اور ہونی ہو کر رہتی ہے ۔ یہ شب تاریک‪ ،‬یہ روز پر سکون ‪ ،‬برجوں‬
‫سے مزین آسمان چمکتے ہوئے ستارے ‪ ،‬امڈتے ہوئے سمندر‪ ،‬پاتال میں گڑے ہوئے‬
‫کہسار‘‘۔ (ص ‪)۱۰۳‬‬

‫اکثم بن صیفی‪:‬‬

‫جاہلی دور کے دوسرے بڑے خطیب کے حوالے سے مصنف کہتا ہے کہ دانائی ‪،‬‬
‫منصفانہ بصیرت ‪ ،‬فصاحت‪ ،‬بالغت ‪ ،‬شجرہ ہائے نسب پر عبور اور قوت استدالل میں‬
‫اکثم بن صیفی کو بہت بلند مر تبہ دیا جاتا ہے۔ اور دور جاہلیت کی معزز شخصیات‬
‫ہے۔‬ ‫ہوتا‬ ‫شمار‬ ‫میں‬
‫مصنف اس کے خطبے کا اقتباس پیش کرتا ہے۔‬

‫’’ بال شبہ بہترین چیزیں وہ ہیں جو بلند ترین ہوں اور لوگوں میں بلند ان کے بادشاہ‬
‫ہوتے ہیں اور بادشاہوں میں افضل وہ ہیں جن کی نفع رسانی زیادہ عام ہو اور اوقات‬
‫میں بہترین وہ ہیں جو شاداب ترین ہوں اور خطیبوں میں سب سے زیادہ فضیلت وہ‬
‫رکھتا ہے جو سب سے پڑھ کر سچا ہو۔ سچائی سامان نجات ہے۔ اور جھوٹ قعر‬
‫ہالکت میں گراتا ہے۔ شر کی بنیاد ا َڑنا اور جھگڑنا ہے‘‘۔ (ص ‪)۱۰۸‬‬

‫مزید برآں مصنف نے اکثم کے حوالے سے اور معلومات دی ہیں قبول اسالم سے‬
‫متعلق واقعہ بھی درج کیا ہے لیکن طوالت کے پیش نظر یہاں بیان کر نا ممکن نہیں‬
‫ہے کیونکہ اصل موضوع نثر کے حوالے سے اس کے خطبے کا جائزہ لینا ہے۔‬
‫شاعری‪:‬‬

‫مصنف شاعری کو جاہلی ادب کاا ہم ترین حصہ قرار دیتے ہوئے شعر اور شاعری‬
‫کے معنی و مفہوم کا عالمانہ اسلوب میں جائزہ لیتا ہے وہ لفظ شعر پر بحث کرتے‬
‫ہوئے اس کے لغوی و اصطالحی مفہوم بیان کرتا ہے ۔ شعر کے وزن و قافیہ پر بات‬
‫کر تاہے۔‬

‫’’یہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ شعریت وزن و قافیہ سے الگ ایک جو ہر لطیف‬
‫سے عبارت ہو بہر حال آہنگ نظم میں زیادہ دل نشین اور موثر ہوتی ہے کیونکہ آہنگ‬
‫موسیقی کی اساس ہے اور شاعری اور موسیقی کا چولی دامن کا ساتھ ہے چنانچہ‬
‫عمالً عربوں کے ہاں شاعری لباس نظم ہی میں جلوہ گر ہوتی تھی‘‘۔ (ص ‪)۱۱۳‬‬

‫مصنف ق دیم عربی شاعری پر بات کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس کی بنیادی اقسام دو ہی‬
‫ہیں رجز اور قصیدہ لیکن شاعری پر بحث کے دوران عموما ً رجز کو نظر انداز کر‬
‫دیا جاتا ہے پھر وہ اس کے عروضی تغیرات اور اوزان پر بات کرتا ہے۔‬

‫بطور مثال وہ دور جز پارے پیش کر تا ہے۔‬

‫پہال قدیم ترین شعراء میں سے دو ید بن نہد سے منسوب ہے جواس نے بستر مرگ پر‬
‫کہا‬

‫آج دوید کے لیے اس کا گھربنایا جائے گا‬

‫اگر زمانے کی بوسیدگی ممکن ہوتی تو میں اسے بو‬


‫سیدہ کر ڈالتا‬

‫یا میرا مدمقابل کو ئی ایک ہوتا تو میں اس سے نپٹ لیتا۔‬


‫(ص ‪)۱۱۴‬‬

‫علی کا مستند مانا جاتا ہے۔‬


‫دوسرا رجز پارہ حضر ت ؓ‬
‫میں وہ ہوں کہ میری ماں نے میرانام حید رکھا‬

‫جنگلوں کے فربہ گردن والے شیر کی مانند‬

‫میں تلوار سے تمہیں کانٹے کی تول تول دوں گا۔ (ص‬


‫‪)۱۱۶‬‬

‫رجز کے بعد مصنف دوسری قسم قصیدہ کے معانی و مفہوم ‪،‬بحر اور قافیہ پر بات کر‬
‫تا ہے کہ عربی میں اس سے مراد محض نظم ہے خواہ موضوع کچھ ہی کیوں نہ ہو۔‬

‫اس کے بعد مصنف عربی شاعری کا آغاز کے عنوان سے عربی شعر کے اوزان پر‬
‫بات کرتا ہے کہ کب اور کیوں کر وجود میں آئے؟ عربی شاعری کی انواع بتاتا ہے‬
‫کہ یہ تین ہیں رزمیہ‪ ،‬غنائی‪ ،‬تمثیلی۔‬

‫رزمیہ اورتمثیلی شاعری عربوں کے ہاں کیوں پروان نہ چڑھ سکی ؟‬

‫اس کے جواب میں وہ احمد حسن زیات کا تجزیہ پیش کرتا ہے۔‬

‫رزمیہ اور تمثیلی شاعری کے لئے سوچ بچار اور غو روفکر کی ضرورت ہوتی ہے‬
‫جبکہ عربوں کی طبیعت میں خود مرکز یت پائی جاتی تھی ۔ ان کے ہاں دین کی‬
‫سادگی دائرہ خیال کی تنگی اور توحید پر اعتقاد نے انہیں اساطیری سرمائے سے‬
‫محروم رکھا اور وہی رزمیہ شعر کی جان ہے۔(ص ‪)۱۱۰‬‬

‫لیکن مصنف اس رائے سے خود ہی متفق نہیں ہوتا اور مختلف حوالوں سے اس کی‬
‫نفی میں دالئل دیتا ہے۔ پھر وہ کہتا ہے کہ عربی شاعری کا ارتقاء جس طرح بھی ہوا‬
‫ہو۔ قصصی اور تمثیلی شعر کی عدم موجودگی کے جو بھی اسباب ہوں بہر حال غنائی‬
‫شاعری میں قدیم عربوں کو دنیا کے عظیم شعراء کی صف میں شامل پاتے ہیں۔‬

‫عربی شاعری کے جو قدیم نمونے ملتے ہیں ان کا زمانہ زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ سو‬
‫برس قبل تک کا قرار دیا جا سکتا ہے۔ خود جاہلی شعراء کے نمونہ کالم سے یہ ثبوت‬
‫م لتا ہے۔کہ شاعری کا آغاز ان سے پہلے ہو چکا ہے۔ یہ اسلوب ان کی اختراع نہیں‬
‫ہے۔‬
‫امرؤالقیس اس کی مثال پیش کر تا ہے۔‬

‫’’ دوستو! (خیمہ گاہ کے) برسوں پرانے آثار پر رکو کہ ہم بھی گھروں پر اسی طرح‬
‫گر یہ کر سکیں جس طرح ابن حذام نے کیا‘‘۔(ص ‪)۱۱۱‬‬

‫عنترہ اور کعب بن زہیر کے ہاں بھی کچھ ایسا کال م ملتا ہے۔‬

‫شعر کی تاثیر اور جاہلی معاشر ے میں شاعر کا مقام‪:‬‬

‫شعر کی تاثیر کے حوالے سے مصنف کہتا ہے عرب معاشرے میں نشر و اشاعت کا‬
‫موثر ترین ذریعہ تھا۔ ادبی اہمیت کے عالوہ اس کی معاشرتی اہمیت بھی بہت زیادہ‬
‫تھی۔‬

‫اعشی کے اشعار‬
‫ٰ‬ ‫شعر کی تاثیر کے حوالے سے وہ محلق کا واقعہ بیا ن کرتا ہے کہ‬
‫کی تاثیر کا اثر تھا کہ محلق کی آٹھ بیٹیوں کے رشتے فی الفور اچھے گھروں میں ہو‬
‫گئے۔‬

‫بنو قریع کی ایک شاخ بنو انف النا قتہ (اونٹنی کی ناک کی اوالد) کے حوالے شعر کی‬
‫تاثیر کا ذکر کرتا ہے کہ وہ اپنے اس نام سے کھسیا تے تھے لیکن مشہور شاعرحطئیہ‬
‫کے اس شعر کے بعد وہ اس نام کو اپنے لیے باعث فخر سمجھنے لگے ۔‬

‫یہ وہ لوگ ہیں‬

‫کہ نا ک ہیں تو بس یہ ہیں‬

‫باقی سب تو دم چھلے ہیں‬

‫بھال کو ن ہے جو دم کو اونٹنی کی ناک کے برابر‬


‫سمجھے ؟ (ص ‪)۱۱۴‬‬
‫ؓ‬
‫ثابت کے شعر کی تاثیر کا واقعہ بیان کرتا ہے‬ ‫مزید برآں مصنف حضر ت حسان‬
‫جوقبیلہ بنو عبدالمدان کے حوالے سے ہے۔‬

‫شعر کی تاثیر کا اثر دیکھ کر شاعر کا مقام اور اہمیت کا اندازہ از خود ہو جاتا ہے۔‬
‫مصنف ایک مشہور روایت کا ذکر کرتا ہے۔‬

‫’’ عرب کے کسی قبیلے میں جب کوئی شاعر ابھرتا تو دیگر قبائل آکر اسے مبارکباد‬
‫دیتے ۔ کھانے پکائے جاتے اور شاد ی بیاہ کے انداز میں عورتیں اکٹھی ہو کر‬
‫سارنگیاں بجاتیں۔ مرد اور بچے باہم نوید مسرت سناتے کیونکہ شاعر ان سب کی‬
‫عزت و آبرو کے تحفظ ‪ ،‬شرافت خاندانی کے دفاع ‪ ،‬ان کے کارہائے نمایاں کو دوام‬
‫بخشنے اور ان کے ذکر خیر کو عام کرنے کا ذریعہ تھا۔ تین ہی باتیں ایسی تھیں جن‬
‫پر وہ مبارک باد پیش کیا کرتے تھے لڑکے کی پیدائش ‪ ،‬شاعر کا ابھر نا‪ ،‬گھوڑی کا‬
‫بیاہنا‘‘۔ (ص ‪)۱۱۱‬‬

‫مصنف اس روایت سے مکمل طور پر اتفاق نہیں کرتا اس کی وجہ وہ بیان کرتا ہے‬
‫کہ عربوں کی قدیم شاعری میں اس رسم کا کوئی سراغ نہیں ملتا کیونکہ کسی نئے‬
‫شاعر کے ابھرنے پر دیگر شعراء کا اس موقع پر حصہ لینے اور قابل ذکر اشعار‬
‫کہنے کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ یہ روایت سب سے پہلے ابن رشیق (‪۱۰۰۰‬ء‪۱۰۹۱‬ء)‬
‫کی ’’روایت العمدۃ‘‘ میں نظر آتی ہے ۔‬

‫موالنا حالی نے بھی مقدمہ شعر و شاعری میں اس روایت کی طرف اشارہ کیا ۔ (ص‬
‫‪)۱۱۹ ،۱۱۱‬‬

‫مصنف کہتا ہے کہ عربوں کے کسی قدیم دستور کے بارے میں ابن رشیق کی کوئی‬
‫ذاتی رائے تو ہو نہیں ہوسکتی کیونکہ ان کا زمانہ دور جاہلیت سے کوئی پانچ سو‬
‫برس بعد کا ہے ۔ اور انہوں نے کچھ ذکر نہیں کیا کہ یہ روایت ان تک کہاں سے‬
‫پہنچی۔ وہ کہتا ہے بعض مستشر قین نے قدیم عرب شاعر کی ایک فوق الفطرت اور‬
‫ساحرانہ حیثیت متعین کرنے کی کوشش کی ہے اور اس ضمن میں محض قیاسات کو‬
‫طول دیا ہے دوسرا خیال کہ قبل از اسالم عرب شاعر کو اپنے قبیلے میں ایک غیبی‬
‫رہنما اور ایک فوق الفطرت حیثیت حاصل تھی۔‬

‫مصنف اس کی نفی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ایسی مثالیں بکثرت ہیں۔‬

‫جن میں شعراء کی تحقیر اپنے قبیلے کے ہاتھوں ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر وہ چند‬
‫شعرا کا ذکر کر تاہے۔‬

‫امرؤالقیس کو اس کے باپ نے شعر گوئی کے سبب گھر سے نکا ل دیا تھا کیونکہ وہ‬
‫شاہی خاندان سے تھا اور شعر گوئی رتبہ شاہانہ سے فروتر سمجھی جاتی تھی طرفہ‬
‫کو اپنے بھائی کے اونٹوں کا چرواہا بننا پڑا جس نے اسے شاعر ی کی دھن میں غرق‬
‫دیکھ کر طنز کہا کہ اگر یہ اونٹ ضائع ہو گئے تو کیا اپنی شاعری سے انہیں لوٹا‬
‫سکے گا؟ طرفہ کا یہ مشہور شعر ضرب المثل بن گیا۔‬

‫اپنوں کا ستم ‪،‬انسان کے لیے‬

‫تیز تلوار کے وار سے بڑھ کر تکلیف دہ ہو تاہے۔ (ص‬


‫‪)۳۳۱‬‬

‫اسی طرح دریدبن الصمتہ کا یہ شعر اس کی شاعرانہ‬


‫حیثیت واضح کرتا ہے‬

‫میری حیثیت ہی کیا ہے‬

‫بخز اس کے کہ میں قبیلہ غزیہ کاایک فرد ہوں‬

‫اگر غزیہ راہ سے بھٹکے تو مجھے بھی بھٹکنا ہوگا۔‬

‫اور اگر وہ راہ پر لگ جائے تو میں بھی لگ جاؤں گا۔‬


‫(ص ‪)۱۳۱‬‬
‫اس کے بعد قصیدے کے اجزا ئے ترکیبی اور فنی روایات پر بات کرتا ہے۔ اس‬
‫سلسلے میں وہ بدوی ‪ ،‬مضری اور اسالمی عباسی دور کے اسلوب پر بات کر تا ہے‬
‫کہ ہر قصیدے کا آغاز عشقیہ اشعار سے ہوتا ہے جو تشبیب کہالتا ہے اس کے بعد‬
‫گریز کے شعر الئے جاتے ہیں جن کے ذریعے شاعر اصل موضوع کی طرف بڑھتا‬
‫ہے ۔ موضوع کی کوئی پابندی نہیں۔‬

‫مصنف دستور روایت کا ذکر کرتا ہے کہ لکھنے کا رواج کم ہونے کی بناء پر قبل از‬
‫اسالم شاعری زبانی روایت کے وسیلے سے منتقل ہوئی۔ ہر اہم شاعر کے ساتھ کو ئی‬
‫نہ کو ئی راوی ضرور ہوتا تھا۔ چونکہ عربوں کو شعر سے فطری مناسبت تھی۔ ایسے‬
‫لوگ جنہوں نے کبھی کبھی شعر کہے بے شمار ہیں بہت سا شعری سرمایہ ضائع ہو‬
‫جانے کے باوجود بھی ان کے اشعار کی تعداد دیگر اقوام کی نسبت بہت زیادہ ہے۔‬

‫مصنف کہتا ہے کہ شعراء کو حسن کالم کے اعتبار سے مختلف طبقات میں تقسیم‬
‫کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے ۔ بعض روایات میں شعراء کو چار طبقوں میں‬
‫تقسیم کیا گیاہے۔‬

‫شاعر خنذیر‪ ، ،‬جس کے اپنے اشعار بھی نہایت عمدہ‬


‫ہوں اور دوسرے کے اچھے اشعار کا راوی بھی ہو۔‬

‫شاعر مفلق ‪ ،‬جو حسن کالم میں خنذیر کا ہم پلہ ہو مگر‬


‫خود روایت نہ کرتا ہو ۔‬

‫شاعر فقط‪ ،‬معمولی شاعر جو گھٹیانہ ہو۔‬

‫شعرور‪ ،‬جو کسی شمار قطار میں نہ ہو۔ (ص ‪)۱۳۱‬‬

‫کیا جاہلی شاعری واقعی حقیقت ہے یا محض افسانہ ؟‬

‫جاہلی شاعری کے متعلق اس قسم کے طرز عمل کی اصل وجہ اس کی قدامت ہے‬
‫کیونکہ ایک ہی بات کو جب مختلف لوگ بیان کرتے ہیں تو اس کے لہجے اور معافی‬
‫میں فرق ہو جاتا ہے جاہلی شاعری کا زمانہ اسالم سے ڈیڑھ سو سال قبل ہے جب‬
‫تحریر کے لیے کوئی مناسب انتظام ہی نہیں تھا محض روایات پر ہی انحصار تھا۔ اب‬
‫معاملہ راوی کی ذہانت اور دیانت کے سپر د تھا کہ وہ اس حوالے سے کتنا مخلص تھا‬
‫۔ یہ قدیم دور کی بات ہو رہی ہے اگر موجودہ جدید دور میں بھی دیکھیں بیان بدلنے‬
‫میں دیر نہیں لگتی یہ تو جدید ذرائع نشرو اشاعت اور مواصالت کی کرم فرمائی ہے‬
‫کہ بیان آن ریکارڈ سامنے آجاتا ہے۔‬

‫محبت اور نفرت کے جذبات ہر انسان میں ایک جیسے ہوتے ہیں فرق صرف نوعیت‪،‬‬
‫شدت اور بیان کا ہوتا ہے اس لیے تحریر میں مماثلت ہونا اچنبھے کی بات نہیں‬
‫کیونکہ انسان ازل سے ایک دوسرے کااثر قبول کرتے آئے ہیں اور خیاالت بھی‬
‫ماخوذ ہوتے رہ ے ہیں یہ بحث علیحدہ ہے کہ کچھ لوگ حوالہ دے دیتے ہیں اور کچھ‬
‫خود سے منسوب کر لیتے ہیں اور حوالہ دینا ضروری نہیں سمجھتے ہیں‬
‫جاہلی شاعری کے حوالے سے مصنف کہتا ہے۔‬

‫’’دوسری اور تیسری صد ی ہجری ہی سے خود عرب ناقدین اپنے پرانے شعری‬
‫ورثے میں وضع و نحل کی نشاندہی کرتے چلے آئے ہیں ۔ مشہور راویوں میں سے‬
‫حماد الراویہ اور خلف االحمر پر بہت تہمتیں لگیں کہ وہ خود شعر کہہ کر قد ماء سے‬
‫منسوب کر دیتے ہیں اور اس کمال سے کہتے ہیں کہ ادب کے بڑے بڑے پار کھ‬
‫شناخت نہیں کر سکتے۔ شعر گھڑنے کے محرکات بھی گنائے گئے ۔ مثالً قبائلی‬
‫ترج یحات کے لیے تفسیری و نحوی مسائل میں استشہادکے لیے فکری ومسلکی‬
‫اختالفات میں اپنے مطلب کی با ت ثابت کرنے کے لیے تاریخی معلومات ظاہر کرنے‬
‫کے لیے ‪ ،‬نایاب ذخیرہ اشعار میں دوسرے راویوں پر برتری ثابت کرنے کے لیے یا‬
‫محض دل لگی کے لیے‘‘۔ (ص ‪)۱۴۳ ،۱۴۱‬‬

‫مصنف کہتا ہے کہ حماد اور خلف پرالزامات کا سبب گروہی تعصبات بھی ہیں لیکن‬
‫نقل کے لیے بھی تو اصل کی ضرورت ہو تی ہے ۔ اگر کوئی راوی من گھڑ ت شعر‬
‫کسی قدیم شاعر سے اس طرح منسوب کر تا ہے کہ شناخت بھی نہ ہو سکے تو اس‬
‫سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس قدیم شاعر کا رنگ کالم معروف تھا اور اسی کے‬
‫مطابق نقل تیار کی جاتی تھی۔ لیکن اس سے بھی قدیم شعری ورثے کا وجود ثابت ہوتا‬
‫ہے۔ روایت کی بنیاد مذکورہ باال دو راویوں پر نہ تھی بلکہ ابو عمر بن العال ء المفضل‬
‫الضبی اور االصمعی جیسے لوگ بھی راویان شعر کی صف میں موجود تھے جنہیں‬
‫اتفاق رائے سے مستند تصور کیاجاتا ہے۔ بہر حال عربی شاعری میں آمیزش کا مسئلہ‬
‫آغازسے ہی ناقدین کی نظر میں رہا ہے۔‬

‫شاعری میں موضوعات میں تبدیلی تو حاالت کے تغیر کے ساتھ ہی آتی ہے دور‬
‫جاہلیت میں حاالت تقریبا ً یکساں نوعیت کے ہی رہے تو نئے موضوعات کہاں سے‬
‫آتے ۔ موجودہ دور میں عرب ممالک جن حاالت سے دو چار ہیں اس کا عکس ان کے‬
‫ادب میں بہت واضح نظر آرہا ہے۔‬

‫جاہلی شاعری کے حوالے سے شکوک و شبہات میں گذشتہ ایک ڈیڑھ صدی سے‬
‫شدت سے کام لیا گیا۔مصنف کہتا ہے کہ اس رجحان کے آغاز کا سراغ نولد کے اور‬
‫آلورد جسے مستشر قین کے ہاں بھی ملتا ہے لیکن زیادہ تفصیلی جائزہ لینے میں‬
‫نمایاں ترین نام پروفیسر ارگو لیتھ(‪ )6721-6898‬کا ہے اس حوالے سے ‪ ۳۳‬صفحات‬
‫پر محیط ان کا مفصل مقالہ ‪ The origins of Arabic Poetry‬اپریل ‪۱۸۱۶‬ء میں‬
‫شائع ہوا۔‬

‫اس کی تحریر کے بنیادی نکات کچھ اس طرح سے ہیں۔‬

‫وہ کہتا ہے کہ قرآن میں الشعرا کی ایک سورت ہے اس میں شعر اور شاعر کا ذکر ہو‬
‫اہے ٰلہذا یہ ماننا پڑتا ہے کہ قبل از اسالم شاعری موجود تھی۔ اس سے وہ یہ نکتہ‬
‫نکالتا ہے کہ پیغمبر اسال م تو فن شعر سے ناواقف ہو نے کے باوجود اپنی وحی کے‬
‫شعر ہونے کی نفی کرتے ہیں اور کفار جو شاعری سے خوب واقف ہیں وہ قرآن کو‬
‫شعر قراردیتے ہیں حاالنکہ ہونااس کے برعکس چاہیے تھا اور قبل از اسالم کتبوں‬
‫میں کہیں شعر نہیں ملتا۔‬
‫حماسہ میں شعراء کی جوزندگی نظر آتی ہے اس کے مطابق وہ بڑے دھن کے پکے‬
‫اور سچے دکھائی دیتے ہیں مگر قرآن کا یہ تبصرہ کہ شعراء وہ کہتے ہیں جو کرتے‬
‫نہیں ان پر صادق نہیں آسکتا۔‬

‫یہ بھی نہیں پتا چلتا کہ عربی شاعری کا آغاز کب ہوا۔ کیونکہ حضرت اسماعیل ؑ کے‬
‫آدم سے منسوب عربی شعر نقل کیے جاتے ہیں اور‬
‫زمانے تک عربی اشعار بلکہ خود ؑ‬
‫حمیری اور یمنی قبائل جن کے کتبات کی زبان بالکل الگ ہے ان سے بھی قرآنی‬
‫عربی میں شاعری منسوب ملتی ہے۔‬

‫وہ کہتا ہے کہ مہلہل کو عموما ً اولین شاعر قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد جن جاہلی‬
‫شعراء کے دیوان ہم تک پہنچے ہیں ان کی تعداد بہت زیادہ ہے اور ان کے کالم میں‬
‫حرف شناسی اور فن تحریر سے واقفیت کی داخلی شہادت ملتی ہے۔ اس اعتبار سے‬
‫تو عربوں کو جو قرآ نی عربی استعمال کرتے تھے ایک پڑھا لکھا معاشرہ ہونا چاہیے‬
‫تھا۔‬

‫پھر وہ یہ نکتہ اٹھاتا ہے قرآن شعراء کے بارے میں تحقیر آمیز تبصرہ کرتا ہے اس‬
‫لحاظ سے قبل از اسالم کی شاعری کو ذہنوں سے مٹا دینے کا رجحان پید ہونا چاہیے‬
‫تھا ۔ یہ ادب کیوں کر محفوظ رہ سکا؟‬

‫وہ کہتا ہے اگر چہ قرآن کی رو سے پیغمبر اسال م سے قبل اہل مکہ میں کوئی نذیر‬
‫نہیں آیا تھا لیکن ورقہ بن نوفل جیسے لوگوں کے اشعار سے ان کا نذیر ہونا ثابت ہوتا‬
‫ہے ۔ وہ کہتا ہے گو ہم پیغمبر اسالم کی پیغمبری کے قائل نہیں تاہم چونکہ قرآن میں وہ‬
‫کسی سابق نذیر کی نفی کر رہے ہیں ٰلہذا دیگر لوگوں کی نسبت انہی کو زیادہ قابل‬
‫اعتماد تصور کر نا چاہیے ۔ مارگو لیتھ قرآن پاک کو محمد ؐکی تصنیف سمجھتا ہے ۔‬
‫وہ کہتا ہے چونکہ راویوں کو درباروں سے انعام و اکرام ملتا تھا اس سے انہیں جعلی‬
‫شعر گھڑنے کی تحریک ملتی تھی۔ بعض راویوں کو دیانتدار تسلیم کیا جاسکتا ہے۔‬
‫لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خود ان راویوں کا ماخذ کیا تھا؟‬
‫وہ کہتا ہے اسالم کا رویہ قبل از اسالم کی تہذیب کے بارے میں شدید مخاصمانہ تھا‬
‫تو پھر قدیم عربی جو اس تہذیب کی نمائندگی کرتی تھی اس کو یاد رکھنے اور آگے‬
‫روایت کرنے والے کو ن لوگ ہو سکتے تھے پھر وہ اپنا چونکا دینے واال نظریہ پیش‬
‫کرتا ہے کہ حقیقت میں اسالم سے قبل شاعری کا کوئی وجود نہ تھا اور یہ تمام‬
‫شاعری جو جاہلی شاعری سے منسوب کی جاتی ہے بعد کے زمانے میں مسلمانوں‬
‫نے خود گھڑی ہے ۔‬

‫وہ طنزیہ لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ان جاہلی شعراء کا اگر کوئی مذہب‬
‫قرار دیا جاسکتا ہے تو وہ مذہب محمدی ؐ ہے کیونکہ ان کی شاعری میں جابجا قرآنی‬
‫اصطالحات اور اسالمی تصورات ملتے ہیں۔ اس طرح کے اور بہت سے دالئل وہ‬
‫جاہلی شاعری کو غیر حقیقی ثابت کرنے کے حوالے سے پیش کرتا ہے۔ (ص‬
‫‪)۱۴۴،۱۴۸‬‬

‫مصنف بتاتا ہے کہ مارگولیتھ کے دالئل پر آربری کا مفصل تبصرہ اس کی کتاب ‪The‬‬


‫‪Seven Odes‬میں دیکھا جاسکتا ہے۔ تاہم چند نکات یہاں درج کیے جاتے ہیں۔‬

‫وہ کہتا ہے اگر پروفیسر مارگولیتھ کتبات کے حوالے سے بات کرتا ہے تو کیا وہ ہو‬
‫مر سے پہلے کے کچھ منظوم یونانی کتبات قبور کی نشان دہی کر سکتے ہیں؟‬

‫یہ اعتراض کہ قبل از اسالم اس ایک زبان پر جسے عموما ً لہجہ قریش یا قرآنی عربی‬
‫سے تعبیر کیا جاتا ہے سب قبائل کا متفق ہو جانا کیوں کر ممکن ہے یہ ایک علمی‬
‫سوال اٹھا تا ہے۔ لیکن پھر اس اعتراض کا جواب دیتا ہے۔‬

‫قصہ کوتاہ جو نظریہ آج عموما ً قابل قبول سمجھا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ قدیم عرب میں‬
‫بول چال کے مختلف لہجوں کے پہلو بہ پہلو ایک ادبی عربی وجود رکھتی تھی جو‬
‫ایک معیاری زبان کی حیثیت سے بین القبائلی ابالغ کاکام دیتی تھی اور عام بول چال‬
‫کی زبان کے مقابلے میں زیادہ پر شکوہ ساخت رکھتی تھی۔(‪)۱۶۶‬‬

‫وہ کہتا ہے کہ قدیم شعراء کے صخیم دواوین پر اعتراض اگر اس اعتبار سے ہے کہ‬
‫یہ سب کی سب شاعری حقیقی نہیں ہو سکتی اس میں بہت کچھ مالوٹ اور ردوبدل ہو‬
‫چکا ہے تو یہ بات نئی نہیں تا ہم اس کثرت مقدار کے نتیجے میں عربوں کو پڑھا لکھا‬
‫معاشرہ ہونا چاہیے زبر دستی کی نتیجہ بر آری ہے۔‬

‫اب رہا جاہلی ادب میں اسالمی عقائد کی جھلک کا پایا جاناخالف توقع نہیں یہودیوں‬
‫اور نصرانیوں کی صحبت اور خود دین ابراہیمی کے باقیات کے اثر سے بعض بنیادی‬
‫عقائد کا معروف ہونا عین فطری ہے وہ کہتا ہے کہ ان اکا دُکا الحاقات کی بنا پر یہ‬
‫موقف اختیار کرنا سراسر غیر ذمہ داری کی بات ہے کہ جاہلی شعراء کا اگر کوئی‬
‫محمدی ہے۔ (ص‪)۱۶۴،۱۶۶‬‬ ‫ؐ‬ ‫مذہب قرار دیا جاسکتا ہ تو وہ مذہب‬
‫مصنف کہتا ہے کہ پروفیسر مارگولیتھ کے اس مفروضے کو تسلیم کر لیا جائے کہ‬
‫اسالم سے پہلے شاعری کاکوئی وجود نہ تھا تو وہ تاریخی دور کے لوگ جیسے‬
‫حضرت حسان بن ؓ‬
‫ثابت‪ ،‬خنساء اور کعب بن زہیر جیسے شعراء جن کے شعر خود نبی‬
‫کریم ﷺ نے سنے ہیں تو ان کے بارے میں بھی یہی فرض کرنا پڑے گا کہ یہ ڈھلی‬
‫ڈھالئی شاعری بغیر کسی سابقہ روایت کے کیسے وجود میں آگئی اس طرح حضور ؐ‬
‫کے معاصر شعراء کا انکار بھی الزم آتا ہے۔‬

‫آرب ری کے تبصرہ کے مطابق پروفیسر مارگولیتھ کے دالئل خاصے ناقص ہیں تاہم ان‬
‫کے دالئل کی گونج دور تک اور دیر تک سنی گئی اور مشرق میں بھی ان کے ہم نوا‬
‫پیدا ہوئے۔‬

‫طہ حسین (‬
‫سب سے نمایاں مشرقی آواز مصر کے مشہور و معروف ادیب ڈاکٹر ٰ‬
‫‪۱۱۱۸،۱۸۹۳‬ء) کی تھی ۔‬

‫طہ حسین نے مارگولیتھ کے خیاالت کا اعادہ اس سے اگلے سال ‪۱۸۱۱‬ء میں فی‬
‫ٰ‬
‫الشعراء الجاہلی (قبل از اسالم کی شاعر ی پر) کے عنوان سے اپنی کتاب میں کیا۔ اس‬
‫کے خالف مذہبی حلقوں میں اعتراضا ت کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا تاہم اگلے برس‬
‫‪۱۸۱۹‬ء میں یہ ایک نئے نام فی االدب الجاہلی سے سامنے آئی ۔ اسے بھی سخت تنقید‬
‫کا سامنا کرنا پڑا اور اسکے جواب میں متعدد کتا بیں ‪ ،‬بے شمار مضامین اور‬
‫تبصرے شائع ہوئے۔‬
‫مصنف کہتا ہے کہ یہ کتا ب اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس کے ردعمل کے طور پر‬
‫جاہلی ادب کا ایک باقاعدہ اور گہرا تجزیہ ہو گیا اور وہ نکات سامنے آگئے جو اس‬
‫سے قبل نگا ہوں سے اوجھل تھے۔‬

‫طہ حسین کا یہ اقتباس دیکھیں۔‬


‫ڈاکٹر ٰ‬

‫’’ آپ کو اور دیگر قارئین کو علی االعالن یہ سناد ینے میں مجھے باک نہیں جو کچھ‬
‫آپ یہ سمجھ کر پڑھتے ہیں کہ امرؤ القیس یا طرفہ یا ابن کلثوم یا عنترہ کا کالم ہے‬
‫اس کاان لوگوں سے کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ اہل روایت کی گھڑنت یا صحرا نشینوں‬
‫کی ایجاد یا نحویوں کی کار گزاری یا داستاں گو حضرات کا تکلف یا مفسرین ‪،‬‬
‫محدثین اور متکلمین کی اختر اع ہے‘‘۔ (ص ‪)۱۴۱‬‬

‫طہ حسین خطبات کو اسالمی فن تصور کرتے ہیں اور دور جاہلیت سے منسوب‬
‫ٰ‬
‫خطبوں کو مستند نہیں مانتے ۔‬

‫طہ‬
‫’’مارگولیتھ نے جن مباحث کو اپنے تنتیس صفحات کے مقالے میں اٹھایا تھا۔ ٰ‬
‫حسین نے انہیں تین سو تنتیس صفحات پر پھیال دیا ور مارگولیتھ کا نام نہیں لیا چنانچہ‬
‫ان کے نکتہ چینیوں نے اسے ان کے ادبی سرقات میں شمار کیا ہے‘‘۔ (ص ‪)۱۱۱‬‬

‫طہ حسین کے رد میں بہت کثرت سے لکھا‬


‫مصنف بتاتا ہے کہ عرب دنیا میں ڈاکٹر ٰ‬
‫گیا ۔‬

‫ان میں مصادر الشعراء الجاہلی سب سے آخر میں آئی اور پی ایچ ڈی کے مقالے کے‬
‫طور پر پیش کی گئی ۔ اس میں سابقہ کتابوں کے مباحث کا نچوڑ علمی و تحقیقی‬
‫ترتیب کے ساتھ مل جاتا ہے۔ فاضل محقق ناصر الدین االسد نے جاہلی ادب کو وسیع‬
‫تر تناظر میں کھنگال کر نہایت فکر انگیز معلومات کا اضافہ کیا ہے۔‬

‫’’ ڈاکٹر ناصر الدین االسد نے تیسری ‪ ،‬چوتھی اور چھٹی صدی عیسوی کے آٹھ کتبات‬
‫نیز آغاز اسالم کے زمانے کے بعض کتبات ‪ ،‬دستاویزات اور دیگر شواہد کے حوالے‬
‫سے بحث کرتے ہوئے یہ نتیجہ نکاال ہے کہ قدیم عرب میں تحریر کا رواج اس سے‬
‫کہیں زیادہ تھا جتنا بالعموم خیال کیا جا تاہے ۔ اسی طرح قرآن و حدیث میں تحریر کا‬
‫ذکر جس سے بالواسطہ دور جاہلیت میں لکھنے کا وجود ثابت ہو تا ہے گو اس دور‬
‫میں غالب اکثریت تحریر پر قادر نہیں تھی تاہم لکھ سکنے والوں کا تناسب بھی اچھا‬
‫خاصا تھا چنانچہ جاہلی شاعری میں بھی کتاب اور تحریر کا ذکر عام ملتا ہے‘‘۔(ص‬
‫‪)۱۱۱ ،۱۱۱‬‬

‫جاہلی شاعری کے اہم ماخذ‪:‬‬

‫مصنف جاہلی شاعری کے ماخذات کے حو الے سے متعدد ماخذات کے نام لیتا ہے ۔‬


‫مثالً انفرادی دیوان‪ ،‬قبائلی دیوان‪ ،‬منتخبات شعری کے تحت منتخب شعری مجموعوں‬
‫کے حوالے سے بتا تاہے۔‬

‫‪1‬۔ معلقات‪:‬‬

‫یہ قبل از اسالم کی نظموں پر مشتمل ہے۔‬


‫‪2‬۔ مفضلیات‪:‬‬

‫معلقات کے بعد عربی شاعری کا قدیم ترین انتخاب المفضل بن محمد االضبی کے نام‬
‫کی نسبت سے المفضلیات کے عنوان سے مشہور ہوا۔ مصنف نے اس حوالے سے‬
‫بہت طویل بحث کی ہے۔ جس کا ذکر یہاں غیر ضروری ہے۔ اس میں جاہلی زندگی‬
‫کی بھرپور عکاسی ملتی ہے۔‬

‫‪3‬۔ اصمعیات‪:‬‬

‫اعلی اصمع کی نسبت سے‬


‫ٰ‬ ‫یہ ابو سعید عبد الملک بن قریب کا انتخاب ہے جو اپنے جد‬
‫االصمعی مشہور ہوا۔ اس میں بھی دور جاہلیت کی عکاسی ملتی ہے۔ اصمعی نے‬
‫ہارون الرشید کے بیٹے امین کے لیے مفضل کی تقلید میں یہ قصائد منتخب کیے۔‬

‫‪4‬۔ دیوان الحماسہ‪:‬‬

‫یہ انتخاب عباسی دور کے صاحب دیوان شاعر ابو تمام نے کیا۔ یہ جاہلی اور اسالمی‬
‫شاعری کا قابل قدر انتخاب ہے۔ مصنف نے بہت تفصیل سے اس کے بارے میں لکھا‬
‫ہے۔‬

‫‪5‬۔ حماسی بحتری‪:‬‬

‫یہ مجموعہ ابو تمام کے شاگرد اور ہم قبیلہ ابوعبادہ ‪ ،‬الولید بن عبید الطائی کا ہے۔ جو‬
‫بنو طے کی شاخ بحتر کی نسبت سے البحتری مشہور ہوا۔ اس میں چھوٹے بڑے‬
‫منتخبات کی تعداد ایک ہزار چار سو چون ہے‬

‫ان کے عالوہ مصنف نے مزید سولہ انتخاب کا ذکر کیا ہے۔ پھر دیگر مآخذ کے عنوان‬
‫سے بہت سے انتخاب کا جائزہ لیا ہے۔‬

‫‪6‬۔ معلقات‪:‬‬
‫اس میں مصنف نے لفظ معلقہ کے لفظی اصطالحی معنی‪ ،‬اس کے صیغے ‪ ،‬وجہ‬
‫تسمیہ ‪ ،‬روایت‪ ،‬تعلیق ‪ ،‬مخالفانہ موقف ‪ ،‬مستشرقین کا نقطہ نظر اور قیاسات ‪ ،‬تردیدی‬
‫دالئل‪ ،‬حماد الروایہ‪ ،‬معلقات کے مختلف نام ‪ ،‬تعداد متن ‪ ،‬اہمیت ‪ ،‬تراجم شروح کے‬
‫عنوانات کے تحت بہت طویل مباحث بیان کیے ہیں۔ جن کی تفصیل اتنی ضروری نہیں‬
‫ہے۔ تاہم وجہ تسمیہ کے حوالے سے مختصرا ً جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔‬

‫وجہ تسمیہ‪:‬‬

‫مصنف معلقات کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے کہتا ہے۔ ہر سال ماہ ذی قعدہ میں مکہ‬
‫مکرمہ کے قریب مقام عکاظ پر منعقد ہونے والی سوق عکاظ جہاں اور طرح طرح‬
‫کی سرگرمیوں کا مرکز تھی وہاں اس موقع پر شاعری کا مقابلہ بھی ہوتا تھا۔ کسی‬
‫نامور شاعر کو من صف مقرر کر کے تمام قبائل کے شعراء اپنا پنا کالم سناتے تھے‬
‫اور آخر میں وہ فیصلہ کرتا تھا کہ کو ن سی نظم اس سال کی بہترین نظم ہے۔ منصف‬
‫با لعموم قریش سے ہ وتا تھا تا ہم نابغہ ذیبانی کا نام بھی بحیثیت منصف نمایاں طور پر‬
‫مذکور چال آتا ہے کہا جاتا ہے کہ اس کے لیے سوق عکاظ میں چرمی خیمہ نصب کیا‬
‫جاتا تھا جہاں وہ شعراء کا کالم سن کر فیصلہ صادر کر تا تھا۔ جو قصیدہ بہترین قرار‬
‫پا تا اسے آب زر سے قماش مصری پر لکھا جا تا اور خانہ کعبہ پر لٹکا دیا جا تا تا کہ‬
‫مشتہر ہو جائے یہ گو یاصالئے عام کی ایک صورت تھی کہ زمانہ حج کے سبب‬
‫مختلف عالقوں اور قبیلوں سے آئے ہوئے لوگ اسے پڑھ سن لیں اور اس کا چرچا‬
‫تمام عرب میں ہو جائے اور آئندہ برس شعراء اس کی ٹکڑکا قصیدہ کہہ کر النے کی‬
‫کوشش کریں۔(ص ‪)۳۱۸ ،۳۱۱‬‬

‫اب اصحاب معلقات اور ان کے کالم کا جائزہ لیا جائے گا فاضل مصنف نے اس کتاب‬
‫کے ہر موضوع کا جائزہ بہت تفصیل سے لیا ہے یہی صورت حال سبع معلقات کے‬
‫شعراء کی ہے لیکن یہاں ضروری تفصیل سے اجتناب کرتے ہوئے جائزہ لیا جائے گا۔‬

‫‪1‬۔ امرؤ القیس‪:‬‬


‫نام حندج بن حجر کنیت ابو الحارث ‪ ،‬امرؤ القیس کے لقب سے مشہور ہے ۔ مجموعی‬
‫ہے۔‬ ‫تا‬ ‫جا‬ ‫شاعرسمجھا‬ ‫بڑا‬ ‫سب‬ ‫کا‬ ‫عربوں‬ ‫سے‬ ‫اعتبار‬
‫امرؤالقیس کی شاعری سے رغبت اس کے باپ حجر کی نظر میں نا پسندیدہ تھی۔‬
‫حجر قبائل اسدو کنانہ و غطفان کا حاکم تھا ۔ شعر گوئی مرتبہ شاہی سے فروتر‬
‫سمجھی جاتی تھی۔ آوارگی کی داستا نیں شعر گوئی میں بیان کرتا حجر کو خود‬
‫آوارگی سے بڑھ کر نا گوار تھا۔ بعض روایات کے مطابق امرؤالقیس نے اپنی سوتیلی‬
‫ماں یا باپ کی کنیز پر عشقیہ شعر کہنے شروع کر دیے تھے اور باپ نے بآالخر‬
‫بیٹے کو گھر سے نکال دیا۔ اس سے اس کی بے لگام طبیعت اور بھی بے لگام ہوگئی۔‬

‫اس نے ہم مشربوں کی ایک ٹولی کے ساتھ گھومنے پھرنے ‪ ،‬سیر و شکار اور شراب‬
‫و کباب میں مست رہنے اور رانگ رنگ کی محفلیں سجانے کو اپنا مستقل شیوہ بنا لیا۔‬
‫جہاں پانی اور سبزہ نظر آتا یہ لوگ ڈیرے ڈال دیتے اور جب ختم ہو جاتا تا کسی اور‬
‫طرف چل کھڑے ہوتے۔(ص ‪)۳۴۱ ،۳۴۶‬‬

‫سخت مزاجی کی وجہ سے اس کے باپ کی اپنی رعایا سے بھی کشیدگی چلی آرہی‬
‫تھی چنانچہ بنو اسد نے موقع پا کر سوتے میں حجر کا گال کاٹ دیا۔ جب قاصد نے اس‬
‫کے بڑے بیٹوں کو خبر دی تو انہوں نے سن کر سر میں خاک ڈال لی۔ امرؤالقیس سب‬
‫سے چھو ٹا تھا جب وہ اس کے پاس پہنچا تو وہ اپنے ایک ساتھی کے ساتھ شراب اور‬
‫نرد کھیلنے میں مصروف تھا اس نے کہا حجر کا خون ہو گیا ۔ امرؤالقیس نے کوئی‬
‫توجہ نہ دی البتہ اس کاساتھی ر ک گیا۔ امرؤالقیس نے کہا پانسہ پھینکو‪ ،‬جب وہ اپنی‬
‫چال چل چکا تو امرؤالقیس نے قاصد سے تفصیل معلو م کی یہ خبر اسے دمون کے‬
‫مقام پر ملی جسے سن کر اس نے یہ رجز کہی‬

‫’’اے دمون! آج کی رات ہم پر بہت دراز ہوگئی‬

‫اے دمون ! ہم یمنی خانوادے کے لوگ ہیں‬

‫اور بالیقین ہمیں اپنے خانوادے سے محبت ہے۔‘‘‬

‫پھر اس نے یہ یاد گار جملے کہے۔‬


‫’’اس نے کم سنی میں مجھے گنوادیا اور اب جب میں بڑا ہو تواپنے خون کا بوجھ‬
‫مجھ پر الد کر چال گیا۔ آج ہوش کا کچھ کام نہیں اور کل سے نشہ جام نہیں آج شراب‬
‫اور کل معاملے کا حساب‘‘۔ (ص‪)۳۴۱‬‬

‫امرؤالقیس اخالق سے گری ہوئی حرکتیں کر تا تھا یہاں پر اس کی طبیعت کا ایک نیا‬
‫رنگ سامنے آتا ہے کہ وہ اندر سے کس قد ر حساس تھا اور اپنے باپ کے اس رویے‬
‫کی وجہ سے خود کو سزادی اور جگہ جگہ بھٹکنے لگ گیا۔ لیکن باپ کے قتل کی‬
‫خبر سن کر بظاہر پر سکون رہا لیکن اس کی طبیعت کا گداز اس کی شاعری سے‬
‫عیاں ہو تا ہے۔‬

‫’’رات کو کوند تی ہوئی بجلی نے مجھے سونے نہ دیا‬

‫اس کی چمک قلہ کہسار پر روشنی کر تی رہی‬

‫ایک خبر مجھے ملی جس پر مجھے یقین نہ آیا‬

‫ایک ایسے معاملے کی خبر جس سے پہاڑوں کی چوٹیاں ڈانواں ڈول ہو جائیں۔‬

‫یہ کہ بنو اسد نے اپنے آقا کا خون کر دیا۔‬

‫سنو ! اس کے سوا کچھ بھی ہو جاتا اہم نہ تھا ‘‘(ص ‪)۳۴۱‬‬

‫جی بھر کر شراب پینے کے بعد امرؤالقیس نے قسم کھائی جب تک باپ کا بدلہ نہیں‬
‫لے لیتا نہ گوشت کھائے گا نہ شراب پیے گا نہ سرد ھوئے گا نہ تیل ڈالے گا اور نہ‬
‫کسی نازنین کے قرب سے لطف اندوز ہوگا۔‬

‫امرؤالقیس نے بنو بکر اور تغلب سے مدد مانگی اور بنو اسد کے خالف جا سوس‬
‫حتی کہ ایک روز کامیابی سے ان پر حملہ‬
‫چھوڑے اس نے بنو اسد کا پیچھا نہ چھوڑا ٰ‬
‫آور ہو ا اور ایک بڑی تعداد کو قتل کر ڈاال اس کے بعد بکر اور تغلب کے مددگار نے‬
‫یہ کہہ کر ساتھ چھوڑ دیا کہ تم نے اپنا بدلہ لے لیا لیکن وہ باز نہ آیا۔‬
‫آکر وہ قیصر روم سے مدد کا طالب ہوا۔ قسطنطنیہ جانے سے پہلے اس نے اپنے‬
‫ہتھیار اور خاندانی زرہیں اور ہتھیار سموء ل کے پاس امانت رکھ دیے تھے ۔ منذر کو‬
‫خبر ہوئی تو اس نے سموء ل کے قلعے کا محاصرہ کرالیا کہ امرؤالقیس کی امانتیں‬
‫حوالے کر دے ورنہ اس کے بیٹے کو قتل کر دیا جائے گا۔ لیکن سموئل خیانت پر‬
‫آمادہ نہ ہوا چنانچہ اس کے بیٹے کو مارڈاال گیا او راس کا نام پاسداری عہد میں‬
‫ضرب المثل بن گیا۔‬

‫مصنف بتاتا ہے کہ قیصر روم نے امرؤالقیس کی بڑی عزت و تکریم کی اور ایک‬
‫بھاری لشکر اس کے ہمراہ کر دیا۔ بعد میں اس کے مصاحبوں نے امرؤالقیس کے‬
‫خالف اس کے کان بھر دیے کہ امرؤالقیس بدکردار شخص ہے ۔ واپس جا کر آپ کی‬
‫بیٹی سے تعلقات کی کہانیاں سنائے گا۔‬

‫’’یہ بھی کہا جاتا ہے کہ امرؤالقیس نے قیصر کو حمام میں عریاں دیکھ لیا تھا اور اس‬
‫کے غیر مختون ہونے پر فحش اشعار کہہ ڈالے تھے‘‘۔(ص‪)۳۶۴ ،۳۶۱‬‬

‫بہر حال قیصر اس سے بدگمان ہو گیااور اس نے زہر میں بچھا ہوا خلعت اس کے‬
‫پیچھے روانہ کیا اور پیغام دیا کہ اسے ضرور پہننا تمہاری عزت افزائی کے لیے ہے۔‬
‫یونہی اس نے وہ پہنا زہرفوری طورپر اس کے جسم میں سرایت کر گیا اور اس کی‬
‫جلد گل گل کر گرنے لگی اس سبب سے اسے ذولقروح (زخموں واال) کا لقب مال۔‬

‫دوسری رائے اس کے متضاد ہے کہ امرؤالقیس کسی جلدی بیماری میں مبتال ہو گیا‬
‫تھا جس کا تعلق بے راہ روی سے بھی ہو سکتا ہے۔ بہر حال وہ انقرہ پہنچا تو اس کی‬
‫حالت غیر ہو گئی اور عسیب نامی پہاڑ کے دامن میں آخری سانس لیا۔‬

‫مصنف ابن الکلبی کے حوالے سے بتاتا ہے۔‬

‫اس کے آخری الفاظ رجز کے یہ مصرعے تھے‬

‫’’نیز ے کے کتنے ہی بھرپور وار‬


‫اور کتنے ہی لبریز پیالے‘‘‬

‫کل انقرہ میں دھرے رہ جائیں گے۔ (ص ‪)۳۶۱ ،۳۶۶‬‬

‫امرؤالقیس انقرہ ہی میں دفن ہوا جب قیصر کو اس کی موت کا علم ہوا تو اس نے اس‬
‫کا ایک مجسمہ تراش کر اس کی قبر پر نصب کرنے کا حکم دیا ۔ اور یہ مجسمہ‬
‫مامون کے عہد تک موجود تھا جسے مامون نے خود دیکھا۔‬

‫کچھ باتیں یا حقیقتیں بعیداز عقل ہوتی ہیں اور انسان کو انہیں تسلیم کرنا پڑتا ہے ۔‬
‫جسے امرؤالقیس کے آخری رجز کا ذکر ہے ۔ لیکن اس وقت اس کے پاس کون تھا‬
‫جس نے ان کو اپنے ذہن میں محفوظ کر لیا اس بارے میں تاریخ خاموش ہے اور یہ‬
‫روایات ایسے ہی چلی آرہی ہیں جن ایام میں وہ آوارہ پھر رہا تھا اس کی بیوی اور‬
‫اوالد کہاں تھی؟ اس کے مذہب کے حوالے سے بھی محض قیاس آرائیاں ہیں کوئی‬
‫ٹھوس دلیل سامنے نہیں آتی ۔ اس کے رکھ رکھاؤ سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ نظریاتی‬
‫بندھنوں سے آزاد البتہ معاشرتی قیود کا پابند نظر آتا ہے۔‬

‫شاعری‪:‬‬

‫امرؤالقیس کی شخصیت آوارہ مزاجی‪ ،‬مضبوط قوت ارادی اور جہد مسلسل کامرکب‬
‫تھی۔ اس کی زندگی کا نصف اول رنگینیوں اور نصف ثانی سنگینیوں اور در بدر کی‬
‫ٹھوکروں میں گزرا ۔ یہی حاال ت اس کی شاعری کے موضوعات بنے۔ وہ فحش نگار‬
‫کی حیثیت سے پہنچانا جاتا ہے۔ اس حوالے سے زیر موضو ع کتا ب کا مصنف کہتا‬
‫ہے۔‬

‫’’عالمی ادب کی قدیم و جدید فحش نگاری کے مجموعی‬


‫تناظر میں امرؤالقیس کو امتیازی طور پر فحش گو قرار‬
‫دینا قرین انصاف معلوم نہیں ہوتا ۔ یوں بھی اس کے دیوا‬
‫ن میں اس نوع کے اشعار کا تناسب کچھ زیادہ‬
‫نہیں‘‘۔(ص ‪)۳۶۹‬‬
‫مصنف چونکہ خود ایک قادر الکالم شاعر اور شاعرانہ باریک بینوں کو سمجھنے‬
‫واال لطیف ذہن رکھتا ہے۔ وہ امرؤالقیس کی شاعری سے اس کی شخصیت کا تجزیہ‬
‫بھر پور اور موثر انداز میں کر تاہے۔‬

‫’’ یہ نکتہ دلچسپی سے خالی نہیں کہ ایک طرف تو امرؤالقیس اپنی مردانگی اور‬
‫مردانہ کشش کے بیان میں الف و گزاف کی حدود کو پہنچتا ہے لیکن وہ اپنے حسن و‬
‫جمال کے باوجود عورتوں میں نا مقبول تھا۔ اور جن عورتوں کو اس سے سابقہ پڑا وہ‬
‫اس سے نا آسودہ رہیں ۔ اس نے کئی عورتوں سے شادی کی جن میں سے صرف ہند‬
‫نے اس کے ساتھ نباہ کیا۔ ممکن ہے کہ وہ ایک عورت کے لیے بہت کم اور بہت سی‬
‫عورتوں کے لیے بہت زیادہ ہو ااور شناسا قربتوں میں نامقبولیت کا شعور اسے انجانی‬
‫قربتوں کے لیے مہمیز کر تا رہتا ہو۔ شاید یہی سبب ہے کہ نسوانیت سے اس کا رابطہ‬
‫ایک صحت مند لطیف الحس مرد کی طرح سوزوگداز اور الفت و محبت کا رابطہ‬
‫ہونے کے بجائے عموما ً فاتحانہ اور جارحانہ رنگ لیے ہوئے ہے اوراکثر وبیشتر‬
‫جسم کی سطح سے بلند نہیں ہونے پاتا۔ اس کی تمثا لوں ‪ ،‬تشبیہوں اور استعاروں کی‬
‫لطافت جذبے پر نہیں جسمانیت پر استوارہے‘‘۔ (ص ‪)۳۶۱ ،۳۶۹‬‬

‫نمونہ کالم‪:‬‬

‫’’وہ دونوں حسینائیں جب اٹھتی ہیں‬

‫تو ان (کے بدن) سے مشک کی لپٹیں آتی تھیں۔‬

‫تو جیسے موج صبا‬

‫لونگ کی مہک لے کر آئے۔ ‘‘(ص ‪)۳۱۱‬‬

‫میں ایسی گھڑی میں اس کے پاس پہنچا‬

‫کہ وہ سو نے کے لیے‬

‫پردے کی اوٹ میں لبا س اتار چکی تھی‬


‫بس شب خو ابی کا اکہرا جامہ بدن پر تھا‬

‫کہنے لگی‬

‫بخدا تیرے آگے ایک نہیں چلتی‬

‫اور تیری بے راہ روی کا سلسلہ‬

‫ختم ہوتا نظر نہیں آتا (ص ‪)۳۱۱‬‬

‫امرؤالقیس کا معلقہ اکیاسی سے اکانوے اشعار پر مشتمل ایک المیہ ہے۔ جس کا آغاز‬
‫یوں ہو تا ہے۔‬

‫اللوی بین الدخول‬


‫ٰ‬ ‫قفانبک من ذکرای جیب و منزل بسقط‬
‫فحومل‬

‫ساتھیو! ٹھہرو کہ ہم گریہ کریں محبوب اور منزل‬


‫محبوب کی یاد میں (مقامات ) دخومل و حومل کے مابین‬
‫خمید ہ ریگ تو د ے کے اختتام پر (ص ‪)۳۱۴‬‬

‫امرؤالقیس کے یہ اشعار اس کی بنت عم عنیزہ کے حوالے سے ہیں مدتوں اس کے‬


‫پاسکا۔‬ ‫بارنہ‬ ‫مگر‬ ‫رہا‬ ‫خواہاں‬ ‫کا‬ ‫وصال‬
‫مصنف نے اس کے معلقے سے متعدد اشعار بطور حوالہ پیش کیے ہیں ۔ اور پھر اس‬
‫حضور ‪ ،‬حضرت‬
‫ؐ‬ ‫کے دیوان کی اہمیت بیان کرتا ہے پھر چند روایات کے حوالے سے‬
‫علی کے قول امرؤالقیس کے بارے میں بیان کرتا ہے۔ اس کے فنی‬
‫عمر‪ ،‬حضرت ؓ‬
‫ؓ‬
‫خصائص بہت تفصیل سے بیان کرتا ہے یہاں تفصیل بیان کرنا ممکن نہیں امرؤالقیس‬
‫ہے۔‬ ‫کا‬ ‫قبل‬ ‫برس‬ ‫سو‬ ‫کوئی‬ ‫سے‬ ‫ہجرت‬ ‫زمانہ‬ ‫کا‬
‫طرفہ ‪)۶۱۴ ،۶۳۱( :‬‬
‫دوسر ا معلقہ بنو بکر کے شاعر طرفہ بن العبد کا ہے اس کا نام عمر و اور کنیت ابو‬
‫عمرو شہرت طرفہ کے لقب سے پائی جوانمردی کے سبب قتیل بن بکر ابن العشر ین‬
‫اور الخالم القیتل کے القاب سے بھی معروف ہے۔‬
‫بحرین میں اس کی پیدائش ہوئی اوائل عمر ہی میں باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا تھا‬
‫ہوگئی۔‬ ‫لگام‬ ‫بے‬ ‫طبیعت‬ ‫لیے‬ ‫اسی‬ ‫شاید‬
‫باپ کے مرنے کے بعد چچوں نے آنکھیں پھیر لیں اور طرفہ کی ماں وردہ کا حق دبا‬
‫لیا ۔‬

‫اس حوالے سے طرفہ کا یہ شعر ہے۔‬

‫حقوق ادا کرو۔‬

‫تمہاری آبرو میں اضافہ ہوگا‬

‫یاد رہے کہ شریف آدمی کو‬

‫جب غصہ دالیا جاتا ہے‬

‫تو وہ غصے میں آہی جاتا ہے۔ (ص ‪)۳۸۱‬‬

‫طرفہ عتاب شاہی کا نشانہ بنا اور قتل کر دیا گیا۔ اس کی دو وجوہات بیان کی جاتی ہیں‬
‫ایک یہ کہ طرفہ نے بادشاہ کی ہجو کہی تھی۔‬

‫عمرو بادشاہ کے ہونے سے تو اچھا تھا‬

‫کہ کاش ہمارے پاس ایک ددھیلن بھیڑ ہوتی‬

‫جو ہمارے خیمے کے گرد ممیاتی پھرتی‬

‫(دودھیل گائے کی دو التیں بھی بھلی( )ص ‪)۳۸۶‬‬

‫دوسری یہ کہ‬

‫ایک روز طرفہ بادشاہ کی محفل شراب میں شریک تھا‬


‫کہ بادشاہ کی بہن نے کہیں اوپر سے جھانکا ۔ پیالے میں‬
‫اس کا عکس رخ دیکھ کر طرفہ نے برجستہ کہہ دیا۔‬
‫قربان جائیے اس غزل رعناپر‬

‫جس کے کانوں میں بالیاں دمک رہی ہیں‬

‫اگر بادشاہ سامنے نہ بیٹھا ہوتا‬

‫تو وہ مجھے اپنے بوسۂ دہن سے کامیاب کر چکا ہوتا‬


‫(ص ‪)۳۸۹‬‬

‫طرفہ کا زمانہ چھٹی صدی عیسوی کا اواخر سمجھا جاتا ہے۔ فنی اعتبار سے وہ نو‬
‫عمری کے باوجود امرؤالقیس سے لگا رکھتا ہے۔‬
‫معلقہ‪:‬‬

‫طرفہ کا معلقہ معلقات میں طویل ترین ہے ۔ ایک سو بیس اشعار پر مشتمل بحر طویل‬
‫میں ایک دالیہ قصیدہ ہے ۔ آغاز عربی قصیدے کی روایت کے مطابق محبوبہ خولہ‬
‫کی خیمہ گاہ کے بچے کھچے آثار کے ذکر سے ہوتا ہے۔‬

‫نمونہ کالم‪:‬‬

‫صبح دم‬

‫مالکیہ (خولہ) کے کجاوے‬

‫یوں معلوم ہوتے تھے جیسے‬

‫وادی دد کی آب راہوں میں‬

‫بڑی بڑی کشتیاں‬

‫(چل رہی ہوں( )ص ‪)۴۰۱‬‬

‫مصنف نے طرفہ کی شاعری اور معلقے کی کافی تفصیل بیان کی ہے طرفہ کے‬
‫اشعار زندگی کے گہرے اور براہ راست ترجمے پر مشتمل ہو نے کی وجہ سے‬
‫ضرب المثل کی حیثیت رکھتے ہیں۔‬

‫قرابت داروں کا ظلم‬

‫آدمی کے لیے‬

‫تیز تلوار کی کاٹ سے بڑھ کر‬

‫باعث اذیت ہو تاہے۔ (ص ‪)۴۱۳‬‬


‫طرفہ کا کالم مدتوں صرف راویوں کے حافظوں یا کتب ادب میں منتشر رہا۔ تیسری‬
‫تھا۔‬ ‫چکا‬ ‫ہو‬ ‫مدون‬ ‫دیوان‬ ‫یہ‬ ‫تک‬ ‫ہجری‬ ‫صدی‬
‫معلقے کے عالوہ طرفہ کے چند اشعار‬

‫بھالئی مدتیں گزرنے پر بھی‬

‫بھالئی ہی رہتی ہے‬

‫اور برائی برائی ہی رہتی ہے‬

‫اور برائی بد ترین زاد ہے‬

‫جسے تو بہم کر سکتا ہے۔ (ص ‪)۴۱۶‬‬

‫طرفہ کے معلقے کا یہ شعر اس کی ذات کی ترجمانی کرتا ہے۔‬

‫میری بادہ نو شی ولذت کو شی‬

‫اور ذاتی و موروثی مال کو لٹانے اور بیچ کھانے‬

‫کا سلسلہ دراز رہا‬

‫حتی کہ ساری برادری نے‬


‫ٰ‬

‫مجھ سے کنارہ کشی اختیار کر لی‬

‫اور میں خارش زدہ اونٹ کی طرح الگ کر دیا گیا۔ (ص‬
‫‪)۳۸۱‬‬

‫مصنف طرفہ کے مذہب پر بات کرتے ہوئے کہتا ہے۔‬

‫’’ طرفہ کو بھی نصرانی شعراء میں شمار کیا گیا ہے اس کے کالم سے دور جاہلیت‬
‫کی مروجہ جبریت کے سوا کسی مذہبی نظریے کا سراغ نہیں ملتا طرفہ نہ یہودی تھا‬
‫نہ عیسائی نہ زرتشتی وہ منکر خدا بھی نہیں بلکہ ایک یاایک سے زیادہ دیوتاؤں کا‬
‫ماننے واال تھا جنہیں پریشانی میں پکارنا ممکن ہو وہ آخرت یا جزائے اعمال کا قائل‬
‫نہ تھا ۔اس کا خدا فقط زندوں کا خدا ہے ۔ ُمردوں کو نہیں‘‘۔(ص ‪)۴۰۱‬‬

‫آخر میں مصنف کہتا ہے کہ طرفہ کے صرف معلقے ہی کو پیش نظر رکھا جائے تو‬
‫بھی اس کے زمانے اور اس کی عمر کو سامنے رکھتے ہوئے اسے انتہائی غیر‬
‫معمولی اور حیران کن شاعر تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں۔‬

‫سلمی‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫‪3‬۔ زہیر بن ابی‬

‫یہاں مصنف کہتا ہے۔‬

‫سلمی کے‬
‫ٰ‬ ‫امرؤالقیس اور طرفہ کے معلقوں سے گزر تے ہوئے جب ہم زہیر بن ابی‬
‫معلقے پر پہنچتے ہیں تو اچانک فضا کی زبردست تبدیلی کا احساس ہوتا ہے۔ اب ہمیں‬
‫جوش کے بجائے ہوش ‪ ،‬نعرہ مستانہ کی جگہ پندو مو عظت‪ ،‬شباب کے بجائے پیرا‬
‫نہ سالی اور سیمابیت کے بجائے ٹھہراؤ نظر آتا ہے۔‬

‫وہ اپنے معلقے میں یوں کہتا دکھائی دیتا ہے۔‬

‫’’میں زندگی کی مشقتوں سے اکتا چکا ہوں‬

‫اور جو شخص اسی برس تک جی لے‬

‫وہ اکتا ہی جایاکرتا ہے‘‘۔ (ص ‪)۴۱۱‬‬

‫زہیر کے کے گھرانے کی قابل ذکر خصوصیت ملکہ شاعری ان کے ہاں موروثی‬


‫صورت اختیار کیے ہوئے تھا۔ اس کا باپ ‪ ،‬ماموں ‪ ،‬بہنیں ‪ ،‬بیٹے ‪ ،‬پوتا ‪ ،‬پڑ پوتا سب‬
‫شاعر تھے۔‬

‫اوفی او ر ام‬
‫ٰ‬ ‫اس کے معلقے میں عورت کے حقیقی وجود کا سراغ اس کی بیویوں ام‬
‫کعب کی صورت ہی میں ملتا ہے ۔ مذکوراالول اس کی پہلی بیوی تھی اس سے کئی‬
‫بچے ہوئے مگر کوئی زندہ نہ رہا شائد اسی سبب سے زہیر نے کبشہ بنت عمار سے‬
‫کعب اور بجیر ؓ جو شرف صحابیت سے سرفراز ہوئے اسی کے‬
‫ؓ‬ ‫دوسری شاد ی کی ۔‬
‫بطن سے تھے۔‬

‫اوفی کا رویہ بہت تلخ ہو گیا اور شاید اسی کی ضد پر زہیر نے‬
‫ٰ‬ ‫سوکن کے آنے سے ام‬
‫اسے طالق دے د ی اور پھر اس پر بہت متاسف رہا۔ چنانچہ معلقے کے اشعار اسی‬
‫حوالے سے ہیں۔‬

‫’’تیری زندگی کی قسم‬

‫حادثات زمانہ سب کچھ زیر وزیر کیے ڈالتے ہیں‬

‫اور طویل یکجائی باہمی نفرت کو جنم ڈالتی ہے‬

‫اوفی کے کوچ کر جانے کو‬


‫ٰ‬ ‫بالیقین میں نے تو ام‬

‫دل پر لیا ہے‬

‫مگر ام اوفی اسے کچھ اہمیت نہیں دیتی‬

‫سو اگر تو دور ہو ہی گئی ہے۔‬

‫تو اب کسی قرابت دار سے یہ شکوہ نہ کرنا‘‘۔‬

‫چار شعر کے ایک اور قطعے میں دوسر ی بیوی ام کعب کے شکوے شکایت کا بھی‬
‫ذکر ملتا ہے۔ بیوی کو گلہ ہے کہ تو مجھ میں عیب نکالتا ہے اور مجھ سے گریز کر تا‬
‫ہے مگر میں تیر ے بچوں کی ماں ‪ ،‬تیری عزت کو سنبھالے بیٹھی ہوں ۔آخری شعر‬
‫زہیر کے جواب پر مشتمل ہے۔‬

‫"اے ام کعب ! بیٹھی رہ‬

‫اور اطمینان سے بیٹھی رہ‬


‫کہ تو جب تک بیٹھی ہے‬

‫بہترین گھر میں بیٹھی ہے‘‘۔ (ص ‪)۴۳۱،۴۳۱‬‬

‫بنو غطفان جن میں زہیر کی پرورش ہوئی قبل از اسالم کے دیگر عرب قبائل کی‬
‫طرح بت پرست تھے۔ مصنف نے اس کے مذہب کے حوالے سے طویل بحث کی ہے۔‬
‫جس کا بیان خارج از موضوع ہے تاہم اس نے زمانہ جاہلیت ہی میں شراب اور جوئے‬
‫کو خود پر حرام کر لیا تھا۔‬

‫زہیر کا شمار قدیم عربی کے عظیم ترین اساتذہ میں ہوتا ہے۔ زہیر کے اس مشہور‬
‫عمر نے فرمایا کہ اگر وہ میرے زمانے میں ہوتا تو میں اس‬
‫شعر کی بناء پر حضر ت ؓ‬
‫کے فہم کی خوبی اور حکم لگانے کی باریکی کے سبب ضرور اسے قاضی‬
‫مقررکرتا۔‬

‫"سچائی کے (ثبوت کے) لیے‬

‫فیصلہ کن صورتیں تین ہیں‬

‫قسم کھانا‬

‫یا کسی ثالث کے سامنے (ْقضیہ ) پیش کرنا‬

‫یا (اصلیت کا) ا زخود واضح ہو جانا۔" (ص ‪)۴۴۱‬‬

‫معلقہ‪:‬‬

‫زہیر کا معلقہ انسٹھ سے چونسٹھ شعر تک ایک میمیہ قصیدہ ہے اس کا پس منظر دا‬
‫حس و غبراء کی جنگ ہے لیکن اس کا آغاز کال سیکی روایت کے مطابق تشبیب سے‬
‫اوفی کو یاد کرتا ہے۔‬
‫ٰ‬ ‫ہو تا ہے جس میں و ہ اپنی پہلی بیوی ام‬

‫معلقے کا آغاز ان اشعار سے ہوتا ہے۔‬


‫" دراج کی پتھر یلی زمین سے متثلم کے عالقے سکونت گاہوں کے یہ بچے کھچے‬
‫ام اوفی کی یادگار ہیں؟‬
‫نشانات جو منہ سے کچھ نہیں بولتے کیا ی ُہ ّ‬

‫اس کا ایک گھر رقمتین میں بھی ہے یوں جیسے کالئی کی رگوں میں گود نے کے‬
‫نشان جنہیں بار بار تازہ کیا گیا ہو۔ (ص ‪)۴۶ ،۴۴۸‬‬

‫مصنف بتاتا ہے کہ شاعر طبعا ً برہنگی کی طرف میالن نہیں رکھتا تھا‬

‫اس لیے اس نے حسیناؤں کے چشمے میں نہانے کے منظر کو بھی رمزوایما میں بیان‬
‫کیا ہے‬

‫’’وہ کنار آب آئیں جہاں گہرائیاں نیلگوں تھیں تو انہیں نے ترک سفر کرتے ہوئے ہاتھ‬
‫سے یوں عصار کھ دیے جیسے مسافر گھر آپہنچاہو‘‘۔(ص ‪)۴۶۱‬‬

‫وہ اس جنگ کے دو سرداروں ہرم اور حارث کو الئق تحسین سمجھتا ہے کہ انہوں‬
‫نے ایثار و تحمل سے کا م لیتے ہوئے صلح کو شیوہ بنایا۔ وہ انہیں اور دیگر لوگو ں‬
‫کو اس جنگ میں شریک ہونے کی تلقین کرتا ہے اور خوف خدا دالنے کا یہ انداز‬
‫جاہلی شاعری میں سب سے منفرد ہے۔‬

‫’’ سنو تم ہر گز ہرگز اللہ سے اپنے دلوں کا بھید چھپانے کی کوشش نہ کرو اس خیال‬
‫سے کہ وہ چھپا رہے گا جو کچھ اللہ سے چھپا یا جائے گا وہ اسے جا ن لے گا‘‘۔(ص‬
‫‪)۴۶۳‬‬

‫زہیر کے معلقے کے بعض اشعار ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں کہ اس‬
‫نے کتنی گہرائی سے انسانی فطرت کو لفظوں کی ماال میں پرویا ہے۔‬

‫’’ کتنے ہی خاموش لوگ ہیں جنہیں دیکھ کر تم بڑے متاثر ہوتے ہو (جبکہ ) ان کی‬
‫ہے۔‬ ‫پنہاں‬ ‫میں‬ ‫گفتار‬ ‫کی‬ ‫ان‬ ‫حساب‬ ‫کا‬ ‫بیشی‬ ‫کمی‬
‫انسان کا نصف تو اُس کی زبان سے عبارت ہے اور نصف اس کا دل ہے ان کے‬
‫عالوہ بس گوشت اور خون کا ایک پتال باقی بچتا ہے‘‘۔(ص ‪)۴۶۱‬‬
‫زہیر کے اشعار نے ہرم کو امر کر دیا۔ ایک روایت میں اس کی طرف اشارہ ملتا ہے۔‬

‫عمر نے زہیر کے بیٹے سے پوچھا تھا کہ وہ پوشا کیں کیا ہوئیں جو ہرم نے‬
‫حضرت ؓ‬
‫تمہارے باپ کو پہنائیں؟ کہا وقت نے انہیں بوسیدہ کر دیا فرمایا مگر وہ پوشا کیں جو‬
‫تمہارا باپ ہرم کو پہنا گیا ہے۔ وقت انہیں بوسیدہ نہیں کر سکا ۔‬

‫مصنف زہیر کے دیوان کے متعلق بتاتا ہے کہ دبستان بصرہ میں ابو عبیدہ اور‬
‫اصمعی کی روایت سے منتقل ہواہے ۔ اصمعی کی روایت مختصر اور محتاط تھی اور‬
‫زیادہ بھرپور طور پر آگے چلی۔‬

‫مصنف زہیر کے دیوان کی مختلف اشاعتوں کا ذکر حوالوں سے کرتا ہے۔‬

‫زہیر سے منسوب بہت سا کالم مشکوک تصور کیا جاتا ہے اور اس کی صحت کو‬
‫ہے۔‬ ‫اختالف‬ ‫میں‬ ‫راویوں‬ ‫میں‬ ‫کرنے‬ ‫تسلیم‬
‫طہ حسین کی رائے میں‬
‫ڈاکٹر ٰ‬

‫اموی دور کے سربر آوردہ شاعر اخطل کے کالم پر زہیر کے اثرات بہت نمایاں ہیں۔‬
‫(ص ‪)۴۱۱‬‬
‫لبید بن ربیعہ‪:‬‬

‫بنو عامر کا نام ور فرند ابو عقیل ‪ ،‬لیبد بن ربیعہ عامری زمانی اعتبار سے مخضرم‬
‫(جاہلیت اور اسالم دونوں زمانوں کا)ہے اس کی شاعری کا بیشتر حصہ دور جاہلیت‬
‫کی یادگار ہے۔ اس لیے اس کا شمار جاہلی شعراء میں ہوتا ہے اس کے قبول اسال م‬
‫کے حوالے سے مصنف کہتا ہے۔‬

‫حضور نے‬
‫ؐ‬ ‫’’ َٖغزوہ حنین کے بعد سنہ ‪۱‬ھ میں جب‬
‫جعرانہ کے مقام پر تالیف قلب کی غرض سے بیشتر‬
‫مال غنیمت ان لوگوں میں تقسیم فرمایا جنہوں نے تازہ‬
‫تازہ بیعت کی تھی تو انہی کے ضمن میں بنو عامر کی‬
‫شاخ بنو کالب سے لبیدؓ کا نام بھی ملتا ہے۔ اس اعتبار‬
‫سے سنہ ‪۱‬ھ کو لبید کے قبول اسالم کا سال سمجھنا‬
‫چاہیے۔ ‘‘(ص ‪)۴۱۱‬‬

‫لبید کی زندگی روایتی صحرانشین کی زندگی تھی وہ نہایت خوب رو‪ ،‬معزز ‪ ،‬سخی‬
‫اور حلیم الطبع تھا۔ جاہلیت میں اس کی شاعری اور شاہ سواری مشہور تھی اس کا‬
‫شمار عرب کے معمر ین میں ہوتا ہے۔ اس کی عمر ایک سو دس سے ایک سو ساٹھ‬
‫برس تک قیاس کی گئی ہے۔ تقریبا ً نوے سا ل دور جاہلیت میں بسر ہوئے ۔‬

‫باپ کی وفات کے وقت لبید ابھی بچہ تھا۔ ماں کا تعلق بنو عبس سے تھا ددھیال اور‬
‫ننھیال میں چپقلش چلی آتی تھی جس میں لبید نے ددھیال کا ساتھ دیا اور اسی سلسلے‬
‫میں اس کی شاعرانہ صالحتیں سامنے آئیں دونو ں قبائل میں حاالت اس نہج پر پہنچ‬
‫گئے کہ بادشاہ نعمان بن منذر کے دربار میں آمنے سامنے ہوئے تو دیکھا بادشاہ بنو‬
‫عبس کے ربیع بن زیاد کے ساتھ کھانا کھانے میں مصروف تھا بنو عامر نے دربار‬
‫میں جاکر اپنی معروضات کا آغاز کیا ربیع کی مداخلت پر لبید جو ابھی چھوٹا تھا یہ‬
‫رجز پڑھی۔‬

‫’’ہم خانوادہ ام البنین کے چار فرزند ہیں‬


‫براں شمشیر یں اور چھلکتے ہوئے پیالے‬

‫ہم قبیلہ عامر بن صعصعہ کے بہترین لوگ ہیں‬

‫جن کی تلوار وں کی ضرب مغفروں کو چیر کر سروں‬


‫تک پہنچتی ہے‬

‫اور جو لوگوں کو پیالے بھر بھرکر کھال تے ہیں‬

‫تو قف کیجئے‪ ،‬جہاں پناہ!‬

‫اس شخص کے ساتھ کھانہ نہ کھائیے (ص ‪)۴۹۱‬‬

‫اس کے بعد بادشاہ نعمان کا دل ربیع بن زیاد سے متنفرہو گیا ۔‬

‫قبول اسالم کے بعد لبید کی طبیعت یکسر بدل گئی ۔ فخر یہ مضامین طبیعت پر گراں‬
‫گزرنے لگے کبھی تعلی کا کوئی کلمہ زبان پر آجاتا تو باربار استغفار کرتا۔‬

‫لبید کا معلقہ بحر کامل میں اٹھا سی یا نواسی اشعار پر مشتمل ہے ایک میمیہ قصیدہ‬
‫ہے۔‬ ‫آخری‬ ‫معلقہ‬ ‫یہ‬ ‫سے‬ ‫اعتبار‬ ‫زمانی‬ ‫۔‬ ‫ہے‬
‫اس کا متن باقی تمام معلقوں سے زیادہ قابل اعتماد تصور کیا جاتا ہے۔‬

‫معلقے کا آغاز روایت کے مطابق اجڑے دیار سے ہوتا ہے۔‬

‫منی کے مقا م پر ( وہ پرانے) دیار مٹ گئے جہاں کبھی عارضی پڑاؤ رہا اور کبھی‬
‫ٰ‬
‫طویل اقامت اور غول سے لے کر رجام تک کا سارا عالقہ اجاڑ ہو گیا۔‬

‫لبید کے ہاں رقت سے زیادہ حقیقت پسندی کارجحان ملتا ہے ۔ چند اشعار کے بعد‬
‫محبوبہ نوار کی یاد میں بھی ہوش مندی کا غلبہ ملتا ہے۔‬

‫بھال اب نوار کی یاد کیا معنی‬

‫جب کہ وہ دور جا چکی ہے‬


‫اور اس کے پختہ و نا پختہ‬

‫سب بندھن ٹوٹ چکے ہیں۔ (ص ‪)۴۸۴‬‬

‫محبت کے حوالے سے دو ٹوک اصول یوں بیان کرتا ہے۔‬

‫’’جس کسی کے وصل میں بگاڑ کی بو آنے لگے اس سے اپنی حاجت منقطع کرے‬
‫بہترین دوستی جوڑنے واال وہی ہے جو (وقت پڑنے پر) اسے توڑنے میں بھی سبک‬
‫دست ہو اور جو کوئی تیرے ساتھ خوش اسلوبی سے پیش آئے اس پر تو بھی بڑھ چڑھ‬
‫کر عنایات کر مگر دوستی کا توازن بگڑنے کی صورت میں ترک تعلق کی گنجائش‬
‫باقی رہنی چاہیے‘‘۔ (ص ‪)۴۸۴،۴۸۶‬‬

‫لبید کی وفات کے متعلق مصنف بیان کرتا ہے۔‬

‫’’لبید کے ٰقوی مضمحل ہو چکے تھے سماعت میں فرق آگیا تھا وقت آپہنچنے پر‬
‫احساس ہوا تو بیٹے سے کہا ۔ بیٹا تیرا باپ ابھی مر ا تو نہیں مگر فنا ہو چکا ہے سو‬
‫جب اس کی روح قبض ہو جائے تو آنکھیں بند کر دینا اور منہ قبلے کی طرف پھیر کر‬
‫چادر سے ڈھانک دینا ۔ خیال رہے کہ کوئی بین کرنے والی اس پر بین نہ کرنے‬
‫پائے‘‘۔ (ص ‪)۴۱۱‬‬

‫لبید کے دیوان سے متعلق مصنف نے مختلف آراکا حوالہ دیا ہے اور اس کے معلقے‬
‫ہے۔‬ ‫کی‬ ‫پیش‬ ‫رائے‬ ‫کی‬ ‫ناقدین‬ ‫مختلف‬ ‫متعلق‬ ‫سے‬
‫آخر میں لبید کے چند حقیقت پسندی کے عکاس اشعار بطور نمونہ۔‬

‫’’ انسان سالمت رہنے کی دعائیں کرتا ہے حاالنکہ درازی عمر‪ ،‬بسا اوقات اس کے‬
‫لیے باعث ضرر ہوتی ہے۔ اس کی خوش دلی رخصت ہوجاتی ہے اور شیر ینی حیات‬
‫کی جگہ تلخی لے لیتی ہے‘‘۔ (ص ‪)۶۱۱‬‬

‫لبید نے بعد کے شعراء پر گہرااثر چھوڑا۔‬

‫عمرو بن کلثوم‪:‬‬
‫بنو تغلب کے نمائندہ ترجمان عمر و بن کلثوم کی حقیقی شخصیت ماضی کے‬
‫دھندلکوں میں فنا ہو چکی ہے۔ اب اس کے حاالت زندگی کے نام پر چند افسانوی سی‬
‫روایات سے زیادہ کچھ نہیں ملتا۔ عمر وبن کلثوم مہلہل کا نواسا تھا ۔ مصنف نے اس‬
‫کے حوالے سے چند روایات کا ذکر کیا ہے۔‬

‫جب مہلہل کے ہاں بیٹی کی والدت ہوئی تو اس نے دور جاہلیت کی حمیت کے مطابق‬
‫بیوی کو حکم دیا کہ اسے مار ڈالے مامتا نے گوارنہ کیا اور بچی کو پوشیدہ طور پر‬
‫ایک مالزمہ کی تحویل میں دے دیا گیا ۔ ادھر مہلہل نے خواب میں کسی کو پکار پکار‬
‫کر یہ کہتے ہوئے سنا‬

‫کتنے ہونہار جوان‬

‫اور نوخیز ‪ ،‬قوی سردار‬

‫اور کتنے جتھے‪ ،‬جنہیں نظر انداز کرنا ممکن نہ ہوگا‬

‫مہلہل کی بیٹی کے بطن میں پوشیدہ ہیں‬

‫’’ آنکھ کھلی تو بیوی سے پوچھا میری بیٹی کہاں ہے اس نے کہا میں نے اسے مار‬
‫ڈاال کہا ہر گز نہیں ۔ سچ سچ بتاؤ ۔ بیوی نے حقیقت بیان کی تو مہلہل نے کہا خوب‬
‫لیلی تھا‘‘۔ (ص‪)۶۱۶ ،۶۱۴‬‬
‫اچھی غذادے کر اس کی پرورش کرو۔ اس لڑکی کا نام ٰ‬

‫لیلی کی شادی مشہور شاہ سوار کلثوم بن مالک سے ہوئی ۔ اور وہ عمرو کی ماں بنی ۔‬
‫ٰ‬
‫روایت ہے کہ جب وہ امید سے ہوئی تو خواب میں کوئی شخص یوں کہتا ہوا دکھائی‬
‫دیا۔‬

‫لیلی ! کیا کہنے تیرے بیٹے کے‬


‫واہ ٰ‬

‫جو شیر کی طرح اقدام کرنے واال ہوگا‬

‫جشم کی اوالد سے‬


‫اس کی نسل میں بڑھو تری ہوگی‬

‫میں جو کچھ کہہ رہا ہوں خرافات نہیں۔ (ص ‪)۶۱۶‬‬

‫اس سے ملتی جلتی ایک اور روایت بھی مصنف نے بیان کی ہے۔ جس کا بیان باعث‬
‫تکرار ہوگا۔عمرو بن کلثوم کی بہادری ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر گئی۔‬

‫افتک من عمر و بن کلثوم (عمروبن کلثوم سے بھی بڑھ کر قاتالنہ حملہ کرنے وال)‬
‫عمرو کی یہ نسبت شاہ حیرہ عمرو بن ہند کو قتل کر ڈالنے کے باعث قائم ہوئی ۔‬

‫اس حوالے سے مصنف ایک روایت بیان کر تا ہے۔‬

‫عمرو بن ہند نے اپنے ہم نشینوں سے کہا کیا تم عربوں میں کسی ایسے شخص کو‬
‫جانتے ہو جس کی ماں میری ماں کی خدمت کرنے میں عار محسوس کرے انہوں نے‬
‫کہا ہاں! عمرو بن کلثوم کی ماں ۔ کہا کیوں؟ انہوں نے کہا اس کا باپ مہلہل بن ربیعہ ‪،‬‬
‫شوہر کلثوم اپنے قبیلے کا سردار ہے۔ عمر وبن ہند نے عمرو بن کلثوم کو اپنی والدہ‬
‫کے ہمراہ اپنے ہاں آنے کی دعوت دی ۔ عمرو بن کلثوم بنو تغلب کی ایک جماعت کے‬
‫لیلی کچھ خواتین کی معیت میں آئی۔ عمروبن‬
‫ہمراہ حیرہ کی طرف آیا اور اسکی ماں ٰ‬
‫لیلی سے کہا‬
‫ہند کی ماں نے ہدایت کے مطابق کھانے کے بعد مالزموں کو ہٹا دیا اور ٰ‬
‫لیلی نے کہا جسے ضرورت ہے خود اٹھالے ہند نے‬
‫کہ مجھے وہ تھالی تو اٹھا دینا ۔ ٰ‬
‫لیلی نے چال کر کہا ہائے توہین ! مدد اے‬
‫پھر وہی بات دہرائی اور اصرار کیا۔ اس پر ٰ‬
‫بنو تغلب ۔ عمرو بن کلثوم نے آواز سنی تو اس نے عمرو بن ہند کی اپنی ہی تلوار سے‬
‫اس پروار کیا اور بنو تغلب کو صدا دی سو انہوں نے شامیانے کا سب سازو سامان‬
‫اعلی نسل کے اونٹ ہانک کر الجزیرہ کی طرف چل کھڑے‬
‫ٰ‬ ‫لوٹ لیا اور بادشاہ کے‬
‫ہوئے بنو تغلب نے عمر و بن کلثوم کی اس خودداری کو وجہ فخر تصور کیا۔‬

‫اس قصیدے کا متحرک بالعموم عمر وبن ہند کے قتل کا واقعہ تصور کیا جاتا ہے۔‬
‫عمرو بن کلثوم نے یہ فخر یہ قصیدہ کہا جسے سوق عکاظ میں جا کر سنایا اور مکہ‬
‫جا کر حج کے موقع پر بھی پیش کیا ۔ اس پس منظرکی توثیق معلقے کے ان‬
‫اشعارسے ہوتی ہے۔‬
‫کس بنا پر یہ خواہش کی جاتی ہے‬

‫کہ تم جس کسی کو ہمارا حاکم مقرر کر دو‬

‫ہم اس کے تابع فرمان ہو جائیں‬

‫اے عمرو بن ہند‬

‫آخر کس لیے‬

‫تو ہمارے خالف لگائی بجھائی کرنے والوں کی بات‬


‫مانتا ہے‬

‫اور ہمیں نگاہ حقارت سے دیکھتا ہے‬

‫تو ہمیں ڈراتا ہے۔‬

‫اور تو دھمکاتا ہے‬

‫ٹھہر تو سہی‬

‫بھال ہم کس دن تیری ماں کے خدمت گار تھے۔ (ص‬


‫‪)۶۳۰‬‬

‫مصنف متن کا جائزہ لیتے ہوئے کہتا ہے کہ اس معلقے کا آغاز قدیم عربی قصیدے‬
‫کی عام روایت سے اجڑے دیار کے ذکر سے نہیں ہو تا اور ہمیں صبوحی پال اور‬
‫اندرین کی شرابوں کو (کل کے لیے)بچا کر نہ رکھ۔ (ص ‪)۶۳۴‬‬

‫معلقے میں وہ قبیلے کی بہادر اور غیرت مند خواتین کے کردار اور احساسات کا‬
‫تذکرہ کرتا ہے۔ اس دور کی عورت اہم ‪ ،‬باشعور اور باوقار ہستی کے طور پر سامنے‬
‫آتی ہے۔‬
‫’’ہمارے پیچھے پیچھے (میدان جنگ میں ) درخشاں‬
‫ُرو‪ ،‬خوبصورت عورتیں ہوتی ہیں جن کے بارے میں ہم‬
‫یہ گوارا نہیں کرسکتے کہ وہ ( اسیر بنا کر ) تقسیم کر‬
‫لی جائیں یا اہانت کا سامنا کریں ۔ وہ ہمارے گھوڑ وں‬
‫کو چارہ ڈالتی جاتی ہیں ۔ اور کہتی جاتی ہیں کہ اگر تم‬
‫نے ہمار ا دفاع نہ کیا تو پھر تم ہمارے شوہر نہیں‬
‫ہو۔‘‘(ص ‪)۶۴۴‬‬

‫یہ معلقہ عربوں کی اجتماعی نفسیات کا بڑا زور دار اظہار تھا۔ تاہم خالص فنی سطح‬
‫پر اس میں فلسفیانہ گہرائی نہیں ہے۔ شاعر نے اپنی انفرادیت کو قبیلے کی اجتماعیت‬
‫میں ضم کر دیا ہے۔‬

‫ان اشعار سے عمر وبن کلثوم کی جو شخصیت سامنے آتی ہے جو ایک ایسے بہادر‬
‫انسان کی ہے جو انتہائی خودار ہے۔ بال وجہ دوسروں کے معامال ت میں دخل اندازی‬
‫نہیں کرتا لیکن عمل کا جواب ردعمل کے طور پر بھر پور انداز میں دیتا ہے۔‬

‫عمر و بن کلثوم کی شہرت کا تمام تر انحصار اس معلقے پر ہے معلقے کی زبان بہت‬


‫سلیس اور سہل ہے۔‬

‫طہ حسین کی رائے بیان کر تا ہے‬


‫مصنف اس حوالے سے ڈاکٹر ٰ‬

‫’’معلقے کی سہولت و سالست کے سبب اسے مشکوک سمجھتے ہیں کہ الفاظ اتنے‬
‫نرم و سبک ہیں کہ زمانہ حال کا معمولی طور پر عربی جاننے واال بھی انہیں آسانی‬
‫سے سمجھ سک تا ہے۔ اور یہ زبان عرب میں ظہور اسالم سے کوئی نصف صدی قبل‬
‫تک بھی نہیں بولی جاتی تھی بلکہ بنو تغلب ہی کا شاعر اخطل جو ایک صدی بعد ہوا‬
‫وہ بھی یہ زبان استعمال نہیں کرتا‘‘۔ (ص‪)۶۶۰‬‬

‫مصنف کہتا ہے کہ زبان کے معاملے میں شعراء کی روش انفرادی ہوتی ہے ہر دور‬
‫ہیں۔‬ ‫جاتے‬ ‫پائے‬ ‫گو‬ ‫آسان‬ ‫اور‬ ‫گو‬ ‫مشکل‬ ‫میں‬
‫عمروبن کلثوم کے دیوان کے حوالے سے مصنف مختلف روایات کا ذکرکرتا ہے‬
‫قدماء میں سے کسی نے اس کا دیوان بہم کرنے کو کوشش نہیں کی البتہ پروفیسر‬
‫کرنکو نے استنبول کی جامع سلطان فاتح میں ایک مخطوطہ دریافت کیا جس میں عمر‬
‫و بن کلثوم اور ا س کے حریف حارث بن حلزہ کے کالم کو یکجا کیا گیا تھا اور جا بجا‬
‫کچھ تشریحات بھی درج تھیں ۔‬

‫عمرو بن کلثوم کا دیوان الگ سے بیروت سے ‪۱۰۰۴‬ء میں شائع ہوا۔ اس میں معلقہ‬
‫بھی شامل ہے۔ اس کی بنیاد پروفیسر کرنکو کے ‪۱۸۱۱‬ء کے تحقیق شدہ متن پر ہے۔‬

‫عنترہ بن شداو‪:‬‬

‫عنترہ کا تعلق قبیلہ بنو عبس سے تھا اس کانام شجاعت و جواں مروی میں ضرب‬
‫المثل ٹھہرا اور آگے چل کر اس کی شخصیت عربوں کی مقبول عوامی داستان سیرۃ‬
‫عنترہ کا مرکزی کردار بنی۔‬

‫وہ ایک حبشی کنیز زیبیہ کے بطن سے تھا جو ایک جنگ میں اس کے باپ کے ہاتھ‬
‫آئی تھی اور پہلے سے بچوں والی تھی۔ عنترہ کو سیاہ رنگت ماں سے ورثے میں ملی‬
‫تھی ۔ عنترہ قبیلے میں غالمانہ حیثیت سے زندگی کا آغاز کیا۔‬

‫عنترہ کا ظاہر جتنا میال نظر آتا تھا باطن اتنا ہی اجال تھا ۔ طبیعت میں وقار اور متانت‬
‫‪ ،‬دل کا جری ‪ ،‬تلوار کا دھنی ‪ ،‬اہل قبیلہ اس سے متاثر ضرور تھے۔ مگر برابری کا‬
‫معاملہ کرنے کو تیار نہ تھے۔‬

‫کسی نے قبیلے بنو عبس پر حملہ کر دیا اور ان کے اونٹ ہانک لیے۔ بنو عبس نے‬
‫پیچھا کیا اور معرکہ گرم ہوگیا۔ عنترہ موجودتھا باپ نے پکار کر کہا عنترہ حملہ کر۔‬
‫عنترہ نے جواب دیا ۔ غالم کو حملے سے کیا کام؟ وہ تو دودھ دوہنا اور تھنوں کو‬
‫باندھنا جانتا ہے۔ باپ نے کہا حملہ کر آج سے تو آزاد ہے ۔ یہ سن کر عنترہ رجز‬
‫پڑھتے ہوئے حملہ آور ہو ا جان توڑ کر لڑا اور دشمن سے لوٹا ہو ا مال واپس‬
‫دھروالیا ۔ اس روز سے باپ نے اسے اپنابیٹا کہا اور مصنف بتاتا ہے کہ قبل از اسالم‬
‫کے بیشتر مشاہیر کی طرح عنترہ کے زمانہ حیات کی بھی ٹھیک ٹھیک تعین ممکن‬
‫نہیں ۔ مختلف قرائن سے مختلف قیاسات قائم کیے گیے محتاط اندازے کے مطابق‬
‫عنترہ کی مدت عمر نوے برس کے لگ بھگ تصور کی جا سکتی ہے۔حرب داحس و‬
‫الغبر میں عنترہ کی شمولیت کی داخلی شہادت اس کے معلقے میں ملتی ہے۔‬

‫عنترہ ک ی زندگی کا ایک پہلو جس میں داستان اور حقیقت گڈ مڈ ہو گئے ہیں وہ اس کا‬
‫عشق ہے اس کے کالم میں چار نسوانی ناموں کا تذکرہ ملتا ہے۔ ایک سمیہ ‪ ،‬دوسرا‬
‫نام رقاش اور قطام اور اہم ترین عبلہ کا نام ہے ۔ جو اس کے دیوان میں کثرت سے‬
‫ہے۔‬ ‫ملتا‬
‫عبلہ اس کے چچا کی بیٹی تھی جس سے اسے محبت تھی اور وہ اس سے شادی کا‬
‫خواہش مند تھا مگر کنیزک زادگی راہ کا پتھر بنی رہی۔ باپ کا نسب ملنے کے باوجود‬
‫اس کے ساتھ امتیازی سلوک ختم نہ ہوا۔ جنگ کے موقع پر تو اسے ایک آزاد فرد کی‬
‫حیثیت حاصل ہو جاتی لیکن بعد میں وہ پھر سے ابن السوداء (کالی عورت کا بیٹا) ہو‬
‫جاتا۔‬

‫غترہ کے مذہب کے بارے میں بعض محققین کی رائے میں دیگر مضری قبائل کی‬
‫طرح بنو عبس بھی بت پرست تھے ۔ چنانچہ عنترہ کامذہب بھی یہی تصور کیا جاسکتا‬
‫ہے۔ عنترہ گو کسی باقاعدہ دین سے وابستہ نہیں مگر اس کے ہاں عفت و حیا داری‬
‫کے مضامین ملتے ہیں‬

‫فرانسیسی مشرق لولیس شیخو نے دیگر جاہلی شعراء کی طرح عنترہ کو نصرانی‬
‫قرار دیا ہے۔ اور ایک دلیل یہ دی ہے کہ عنترہ کی ماں حبشی تھی اور اہل حبشہ کی‬
‫نصرانیت معروف ہے۔‬

‫عنترہ کی وفات کے متعلق مصنف مختلف روایات بیان کر تا ہے ۔ پہلی روایت کے‬
‫مطابق اس نے بڑھاپے میں قبیلہ طے کی شاخ بنی بنہان پر حملہ کیا اور ان کے کچھ‬
‫جانور ہانک کر لے چال ۔ اپنی دھن میں رجز پڑھتا ہوا جا رہا تھا کہ بنی بنہان کے‬
‫ایک جوان ورز بن جابر نے تاک کر تیر مارا اور کہا یہ لو! اور یاد رہے کہ میں ابن‬
‫سلمی ہوں۔ تیر عنترہ کی پشت کو چیر گیا ۔ تکلیف سے نڈھال وہ بمشکل تمام اپنے‬
‫ٰ‬
‫قبیلے میں پہنچا اور یہ شعر پڑھے۔‬
‫یاد رہے کہ میراخون‬

‫سلمی کے ذمے ہے‬


‫ٰ‬ ‫ابن‬

‫دستر س سے دور‬

‫سلمی کے قابو میں آنے کی کچھ امید ہے‬


‫ٰ‬ ‫نہ ابن‬

‫نہ میرے خون کے قصاص کی‬

‫’’ دوسری روایت کے مطابق عنترہ سال خوردہ ہو گیا تھا۔ ہاتھ تنگ تھا اور لوٹ مار‬
‫میں حصہ لینے کے الئق نہ رہا تھا۔ قبیلہ غطفان کے ایک شخص کے ذمے اس کا‬
‫ایک اونٹ نکلتا تھا اس کا تقاضا کرنے کو چال ‪ ،‬شرج اور ناظرہ کے درمیان تھا کہ‬
‫لو لگ جانے سے اس کی موت واقع ہوگئی‘‘۔(ص ‪)۶۹۳ ،۶۹۱‬‬

‫معلقہ‪:‬‬

‫عنترہ کا معلقہ بحر کامل میں ایک میمیہ قصیدہ ہے اشعار کی تعداد پچھتر سے ایک‬
‫سو پانچ تک پہنچتی ہے۔‬

‫روایت مشہور ہے کہ قبیلے کے ایک شخص نے عنترہ سے بدکالمی کی اور ایک‬


‫عیب یہ بھی گنا د یا کہ تو شعر گوئی پر قادر نہیں اس پر عنترہ نے کہا تین ہی پہلو‬
‫فخر کے ہوتے ہی ں ۔ شجاعت ‪ ،‬سخاوت ‪ ،‬بصیرت ‪ ،‬باقی رہی شاعری سو اس کا ابھی‬
‫پتا چال جا تا ہے اس کے بعد اس نے معلقہ کہا جسے قبول عام نے ’’المذھبہ‘‘ سنہری‬
‫نظم قرار دیا۔‬

‫مصنف اس معلقے سے متعلق بحث کرتا ہے کہ کیا واقعی یہ اس کی پہلی باقاعدہ نظم‬
‫ہوتی۔‬ ‫نہیں‬ ‫ثابت‬ ‫بات‬ ‫یہ‬ ‫سے‬ ‫حاالت‬ ‫لیکن‬ ‫تھی‬
‫معلقے کا آغاز ایک بجائے دو مطلعوں سے ہو تا ہے۔‬
‫کیا شعر اء نے پیوند کاری کی کوئی گنجائش چھوڑی ہے؟ (جو تیری کاوش شعر کا‬
‫جواز ہو سکے) یا (پرانے مقامات سے گزرتے ہوئے) شک و تردد کے بعد (باآلخر)‬
‫تو نے دیار محبوب کو پہچان لیا ہے ( اور فرط جذبات سے شعر گوئی پر مجبور‬
‫ہے(‬ ‫ہوگیا‬
‫مقام جو اء پر واقع تیری صبحیں خوشگوار ہوں‬

‫اے عبلہ کے گھر اور تو سالمت رہے‬

‫کچھ منہ سے بول اے عبلہ کے گھر (ص ‪)۶۹۶‬‬

‫مصنف بتاتا ہے کہ روایان شعر مطلع اول کو عنترہ کا شعر تسلیم نہیں کرتے کیونکہ‬
‫ابتدائے قصیدہ میں یکے بعد دیگرے دو مطلع النا جاہلی قصائد کی عمومی روش سے‬
‫بعید ہے۔ وہ مطلع ثانی کو ہی اصل مطلع قرار دیتے ہیں۔‬

‫معلقے میں چودہ اشعار تشبیب کے ہیں۔ ان میں عبلہ کے فراق ووصال کا تذکرہ بڑی‬
‫حد تک روایتی ہے۔ اور شاعر کا خود پر احساس تفاخر بھی سامنے آیاہے۔‬

‫نمونہ کالم‪:‬‬

‫اے محبوبہ!‬

‫جو کچھ تجھے معلو م ہے‬

‫اس پر مجھے داددے‬

‫یعنی یہ کہ‬

‫جب تک میرے ساتھ زیادتی نہ کی جائے‬

‫میں بڑا روادار اور خوش خلق ہوں‬

‫اے بنت مالک‬


‫اگر تجھے (میرے اوصاف سے)‬

‫ال علمی و بے خبری تھی‬

‫تو شہسواروں سے پوچھ کر دیکھ لیا ہوتا‬

‫جو لوگ شریک جنگ تھے‬

‫وہ تجھے بتا سکیں‬

‫کہ میں جنگ میں تو چھایا رہتا ہوں‬

‫اور مال غنیمت (کی تقسیم) کے وقت دست کش ہو جاتا‬


‫ہوں(ص ‪)۶۱۱،۶۱۳‬‬

‫معلقے کے آخری اشعار میں عنترہ اپنے گھوڑے اوہم کی صفات کا ذکر انسانوں کی‬
‫طرح کر تا ہے۔‬

‫اگر وہ گفتگو سے آشنا ہوتا‬

‫تو مجھ سے درد دل روتا‬

‫اگر تا ب سخن ہوتی‬

‫تو میرا سخن ہوتا (ص ‪)۶۱۹‬‬

‫عنترہ پر تبصرہ کرتے ہوئے مصنف کہتا ہے کہ تمام تر شاعر انہ کمال کے باوجود‬
‫اس کی شخصیت کا حوالہ شاعری سے بڑھ کر شاہ سواری اور جنگ آزمائی رہا۔‬

‫عمر اور مشہور شاعر‬


‫اس کا اندازہ اس مکالمے سے کیاجا سکتا ہے جو حضر ت ؓ‬
‫عمر کے ایک استفسار پر حطیئہ نے بنو عبس کی‬
‫حطیئہ کے درمیان ہوا۔ حضرت ؓ‬
‫ممتاز شخصیات کا ذکر کر تے ہوئے شاعری میں عروہ بن الورد اور شہسواری اور‬
‫جنگی حکمت عملی کے حوالے سے عنترہ کا نام لیا۔(ص ‪)۶۸۱‬‬
‫اس کے عالوہ مصنف اس طرح کی اور روایات کا بھی ذکر کر تا ہے۔‬

‫عنترہ کی شاعری میں جنگی واقعات سے قطع نظر لب و رخسار کا ذکر بھی ملتا‬
‫میں‬ ‫ے‬ ‫د‬ ‫پر‬ ‫کے‬ ‫حیاداری‬ ‫اور‬ ‫وقار‬ ‫ہے۔مگر‬
‫(فرار کے لیے)‬

‫اونٹ کو کاوے دینے والی‬

‫کیسی کیسی خاتون تھی‬

‫جس نے‬

‫(باآلخر مزاحمت ترک کر کے)‬

‫سپر دگی کا ارادہ کر لیا تھا‬

‫مگر میں نے اس سے کہا‬

‫کہ اس ارادے سے باز رہ اور چلی چل (ص ‪)۶۸۴‬‬

‫بنو عبس کا یہ مرد آہن نہ صرف شاعری میں اپنانقش ثبت کر گیا بلکہ اپنی جراّت و‬
‫شجاعت کی وجہ سے حقائق کی دنیا سے نکل کر داستانی کردار بن گیا ۔‬

‫عربوں کے لوک ادب میں الف لیلہ کے عالوہ متعدد داستانیں معروف ہیں۔ انہی میں‬
‫سے ایک سیرۃ عنترہے ۔ عنترہ کی ذات کے حوالے سے یہ خیالیے کب اور کس کے‬
‫ہاتھوں کہانی میں ڈھلے ۔ اس کے بارے یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔‬

‫حارث ابن حلزہ‪:‬‬

‫معلقات کے شعراء میں حارث کا ذکر اکثر چھٹے نمبر کیا جاتا ہے۔اور عنترہ کا‬
‫ساتویں اور آخری نمبر پر ہوتا ہے۔ لیکن مصنف نے یہ ترتیب کس بنیاد پر دی یقین‬
‫سے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔‬
‫عمرو بن کلثوم کے حریف ‪ ،‬طرفہ کے ہم نسب قبیلہ بنو بکر کی شاخ بنو یشکر کے‬
‫شاعر ابو ظلیم‪ ،‬الحارث بن حلزہ کی شہرت بھی ایک ہی قصیدے پر مبنی ہے۔‬

‫حارث کے سوانح بھی چند الجھی ہوئی روایات سے عبارت ہیں جو معلقے کے پس‬
‫منظر کے طور پر بیان ہوتی چلی آئی ہیں۔ جو واقعہ حارث کے معلقے کا محرک ثابت‬
‫ہوا اس کا خالصہ مختصرا ً یوں ہے۔‬

‫’’ ایک موقع پر بنو بکر کی سرد مہری کے باعث بنو تغلب کے ستر آدمی پیاسے مر‬
‫گئے اور یہ مقدمہ بادشاہ حیرہ عمرو بن ہند کے دربار میں پیش ہوا۔ بنو تغلب کوخبر‬
‫ہوئی تو وہ غضب ناک ہو کر عمرو بن ہند کے پاس آئے اور بنو بکر کے خالف‬
‫استغاثہ دائر کیا۔ بنو بکر نے الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے تغلبی سواروں‬
‫کو پانی بھی پالیا تھا اور رخصت ہوتے وقت راستہ بھی بتا دیا تھا ۔ اب اگر وہ بھٹک‬
‫گئے تو ہمارا کیا قصور ہے؟ بنو تغلب کا نمائندہ عمر وبن کلثوم تھا جبکہ بنو بکر نے‬
‫نعمان بن ہرم کو نمائندہ بنایا۔ جب دربار میں آمنا سامنا ہوا تو عمرو دبن کلثوم نے کہا ۔‬
‫اوبہر ے! اپنی وکالت کے لیے ثعلبہ کی اوالد تجھے لے تو آئی ہے مگر وہ خود تجھ‬
‫پر بھی فخر جتاتی ہے۔نعمان نے کہا۔ زیر آسمان جو کوئی بھی ہے وہ اس پر فخر جتا‬
‫سکتے ہیں اور کسی کو دم مارنے کی مجال بھی نہیں ہوتی ۔‬

‫عمر وبن کلثوم نے کہا‪ :‬بخدا اگر میں تیرے ایک تھپڑ رسید کردوں تو وہ تجھے اس کا‬
‫بدلہ نہیں دلوا سکیں گے۔‬

‫نعمان جواب میں فحش کالمی پر اتر آیا جس سے بادشاہ ناراض ہوا نعمان نے پوری‬
‫بے لحاظی سے بادشاہ کو ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ مارے غصے کے بادشاہ نعمان‬
‫کو جان سے مار ڈالنے کے درپے ہو گیا مگر اس نازک موقع پر حلزہ نے اٹھ کر اپنا‬
‫معلقہ سنایا اور حاالت رخ پلٹ کر رکھ دیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت اس کے ہاتھ میں‬
‫کمان یا چھوٹا نیزہ تھا اس پر زور ڈال پر جوش کے عالم میں فی البدیہہ شعر پر شعر‬
‫کہتا چال جارہا تھا اور ایسی غضب کی کیفیت اس پر طاری تھی کہ ہتھیلی چھد کر رہ‬
‫گئی مگر اسے احساس تک نہ ہوا۔‬
‫شاعر کی شخصیت کے متعلق مصنف نے چند دلچسپ روایات کا ذکر بھی کیا ہے۔‬

‫حارث کے حاالت زندگی پر دے میں ہیں ۔ اس حوالے سے کوئی تفصیل نہیں ملتی ۔‬
‫اصمعی سے منسوب روایت میں کہا گیا کہ جب حارث نے اپنا معلقہ پیش کیا تو اس‬
‫کی عمر ایک سو پینتس بر س کی تھی‘‘۔ (ص ‪)۱۰۱‬‬

‫’’تاہم عمرو بن کلثوم کے جو شیلے پن اورحارث کی سوجھ بوجھ دیکھ کر یہ قیاس‬


‫ضرور پیدا ہوتا ہے کہ حارث ابن کلثوم کے مقابلے میں زیادہ سن رسیدہ تھا۔ شیخو‬
‫الیسوعی نے اپنے عمومی رجحان کے مطابق حارث کو بھی نصرانی شعراء میں‬
‫شمار کیاہے‘‘۔ (ص ‪)۱۰۸‬‬

‫معلقہ‪:‬‬

‫حارث کا معلقہ جس نے مقدمے کا پانسہ ہی پلٹ کر رکھ دیا اور بادشاہ کو بنو بکر‬
‫کے حق میں فیصلہ سنا نے پر مجبور کر دیا۔ یہ بیاسی سے پچاسی اشعار پر مشتمل‬
‫ایک ہمزیہ قصیدہ ہے۔ بیشتر قدیم مآخذ میں اسے ایک فی البدیہہ نظم بتایا گیاہے۔ تاہم‬
‫اس کے حوالے سے اختالف پایا جاتا ہے۔‬

‫معلقے کا آغاز روایت کے مطابق تشیبیب سے ہوتا ہے ۔ پس منظروہی ہے کہ ایک‬


‫روز محبوبہ کا قبیلہ کوچ کا فیصلہ کر لیتا ہے۔ اور وہ آخری مالقات میں جو بڑی‬
‫عاجالنہ ہے عاشق کو اس کی خبر سنانے آتی ہے۔‬

‫اسماء نے (آکر )‬

‫ہمیں اپنی جدائی کی خبر سنائی (سو دل ڈوب کر رہ گیا)‬

‫وہ مقیم اور ہوتے ہیں‬

‫جن کی اقامت سے جی اکتا جا یا کرتا ہے۔‬

‫اسماء کے قرب سے بھال کہاں جی بھر تا ہے۔ (ص ‪)۱۱۱‬‬


‫آئندہ شعروں میں چند مقامات کا ذکر کیا ہے جہاں محبوبہ سے مالقاتیں ہوتی تھیں۔ اس‬
‫کے بعد اسماء کی جگہ اور ایک نام ہند کا ذکر ہو تا ہے ۔‬

‫اس کے بعد شاعر اپنی اونٹنی کا ذکر کرتا ہے جس سے وہ یہ ثابت کر تا ہے وہ بے‬


‫کار بیٹھے واال نہیں بلکہ محبوبہ کی تالش میں نکل جاتا ہے۔ پھر اچانک موضوع بدل‬
‫جاتا ہے اور بنو بکر کی وکالت شروع ہو جاتی ہے جس سے محسوس ہوتا ہے کہ‬
‫اوپر والے چند اشعار محض روایت کی غرض سے تھے۔‬

‫نمونہ کالم‪:‬‬

‫ہمارے بھائی اراقم‬

‫ہم پر زیادتی کر رہے ہیں‬

‫اور اپنی بات پر بضد ہیں‬

‫وہ ہمارے بے قصور آدمی کو‬

‫(اصل ) قصوروار کے ساتھ یکساں کر رہے ہیں‬

‫اور بے گناہ کو بے گناہی کچھ فائدہ نہیں دے رہی‬

‫لچھے دار باتوں سے‬

‫عمرو بن ہند کے ہاں‬

‫ہمارے خالف لگائی بجھائی کرنے والے‬

‫بھال! اس (کاوش بے سود) کو‬

‫کچھ بھی پائیداری حاصل ہو سکتی ہے؟ (ص ‪)۱۱۱‬‬

‫معلقے کے دوسرے اشعار بھی اسی طرح کے موضوعات پر مشتمل ہیں۔‬


‫مصنف نے حارث کی منظر نگاری پر تفصیالً روشنی ڈالی ہے۔‬

‫لفظ و معنی کے زیر و بم پر بحث کی ہے۔‬

‫حارث کا دیوان نہایت مختصر ہے اس میں یہ معلقہ شامل نہیں ہے ۔ دیگر اشعار سیاق‬
‫و سباق سے کٹے ہوئے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ حارث کا کچھ کالم ضائع ہو گیا‬
‫ہے۔‬

‫صرف اس ایک معلقے کے حوالے سے حارث کا شمار بہترین شعراء میں ہوتا ہے۔‬

‫مصنف نے اس کے مقام و مرتبے کے تعین کے حوالے سے مختلف ناقدین کی آراء‬


‫بھی پیش کی ہیں۔‬

‫آخر میں وہ کہتا ہے۔‬

‫’’ناقدین کے موافق و مخالف اقوال سے قطع نظر اس‬


‫شاعر کے کمال میں کیا کالم ہو سکتا ہے جس نے‬
‫صرف ایک نظم کی بنیاد پر عالمی کالسیکی ادب میں‬
‫اپنا مقام خود متعین کر لیا ہو۔ ‘‘(ص ‪)۱۱۸‬‬

‫مصنف نے اس کتا ب میں شاعری کے تناظر میں سبع معلقات کا تفصیلی جائز ہ لیا‬
‫ہے زمانہ جاہلیت کے دیگر شعراء کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ موجودہ دور کے ادب سے‬
‫متعلق بھی کوئی اشارہ نہیں ملتا اسلوب سے اندازہ ہو تا ہے کہ کتاب سے بہت استفادہ‬
‫وہی قارئین کر سکتے ہیں جو عربی گرائمر سے واقف ہوں گو کہ مصنف نے حواشی‬
‫میں تفصیل دی ہے اور اپنے ماخذ کا حوالہ بھی دیا ہے۔‬

‫زیر تبصرہ کتا ب سویرا میں باالقساط ‪۱۰۰۳‬ء سے ‪ ۱۰۰۱‬ء تک شائع ہوئی ۔‬

‫ارمغان خورشید ( نذر پروفیسر ڈاکٹر خورشید رضوی )‬


‫زیر موضوع تالیف ‪ ۶۱۰‬ء صفحات پر مشتمل ہے مولف ڈاکٹر زاہد منیر عامر ‪،‬‬
‫پنجاب یونیورسٹی الہور سے ‪۱۰۱۶‬ء میں شائع ہونے والی اس کتا ب کی قیمت‬
‫‪۱۰۰۰‬روپے ہے۔‬

‫مذکورہ باال تالیف زیرموضوع شخصیت کی زندگی ‪ ،‬کماالت اور خدمات کے اعتراف‬
‫میں لکھے ج انے والے مقاالت کا مجموعہ ہے۔ اس کے لیے مختلف عنوانات ترتیب‬
‫دیے گئے ہیں عنوانات کی ترتیب اس طرح سے ہے۔‬

‫‪1‬۔ فتح باب‪:‬‬

‫اس میں ایک یاد گار تحریر کے عنوان سے خور شید رضوی کے نام ان کے استاد‬
‫ہیں۔‬ ‫شامل‬ ‫تحاریر‬ ‫کی‬ ‫الحق‬ ‫ضیاء‬ ‫محمد‬ ‫صوفی‬ ‫ڈاکٹر‬
‫دوسرا عنوان جھوٹی تہذیب اور سچا آدمی ہیں زاہد منیر عامر نے زیر موضوع‬
‫شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو اس کی تحریروں کے آئینے میں نہایت عقیدت مندی‬
‫سے پیش کیا ہے۔‬
‫‪2‬۔ سوانحی خطوط‪:‬‬

‫اس میں خود نوشت کے عنوا ن سے خورشید رضوی کی اپنی تحریر شامل ہے۔‬
‫’’کارنامہ‘‘ کے تحت مؤلف نے خوشید رضوی کی تعلیمی ‪ ،‬تدریسی اور ادبی‬
‫تحریروں کاتعارف پیش کیا ہے کہ کب اور کہاں شائع ہوئیں جامعاتی تحقیق کے تحت‬
‫دیگر یونیورسٹیز میں خورشید رضوی پر کیے جانے والے تحقیقی و تنقیدی کا م کا‬
‫مختصر تعارف دیا ہے۔‬

‫‪3‬۔ شخص‪:‬‬

‫اس عنوان کے تحت بطور نقاد‪ ،‬محقق ‪،‬شخصیت نگار اور مترجم خورشید رضوی پر‬
‫احمد ندیم قاسمی ‪ ،‬اسلم انصاری اور جمیل یوسف کے مقاالت شامل ہیں۔‬

‫‪4‬۔ شاعر‪:‬‬

‫بطور شاعر زیر موضوع شخصیت کے شعری اسلوب اور موضوعات پر مختلف‬
‫ادیبوں اور شاعروں کے چودہ مقاالت ہیں ۔‬

‫‪5‬۔ محقق‪:‬‬

‫بطور محقق دو تحقیقی کتب قالئد الجمان اور عربی ادب قبل از اسالم پر مختلف‬
‫شخصیات کے چھ مقاالت شامل ہیں ۔‬

‫‪6‬۔ نثر نگار‪:‬‬

‫بطور نثر نگار مصنف کی کتاب تالیف کے حوالے سے اس کی شخصیت کو دو‬


‫حوالوں (نثر ‪ +‬خاکہ نگار) سے پیش کیا گیا ہے دوسری تصنیف اطراف کے حوالے‬
‫سے ان مقالوں میں کوئی ذکر نہیں ملتا۔‬

‫‪7‬۔ مترجم‪:‬‬
‫مصنف نے ترک سکالر ڈاکٹر فواد سیز گین کے تیرہ خطبات کا ترجمہ ’’تاریخ علوم‬
‫میں تہذیب اسالمی کا مقام‘‘ اور دیگر چند مضامین کا ترجمہ کیا ہے۔ ان تراجم کے‬
‫حوالے سے مصنف کی شخصیت پر بطور مترجم دو مقالے شامل ہیں۔‬

‫‪8‬۔ خطبات‪:‬‬

‫اس میں گورنمنٹ کالج سرگودھا ‪ ،‬حلقہ ارباب ذوق الہور‪ ،‬حلقہ ارباب ذوق اسالم میں‬
‫مصنف کے دیے گئے تین خطبات ہیں۔‬

‫‪9‬۔ مصاحبے‪:‬‬

‫اس میں مختلف جرائد کے تحت لیے گئے مصنف کے سات اردو مصاحبے اور ایک‬
‫عربی مصاحبہ شامل ہے ان میں مصنف کی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا‬
‫ہے۔‬

‫‪10‬۔ مکاتیب‪:‬‬

‫اس میں تین شخصیات جمیل یوسف ‪ ،‬چودھری عبدالمجید اور زاہد منیر کے نام‬
‫مصنف کے خطوط شامل ہیں۔‬

‫ادب کی ہر صنف کو انسانوی رنگ میں ڈھاال جا سکتا ہے۔ انسانی شخصیت ایک‬
‫گہرے سمندر کی مانند ہے جس کی گہرائیوں کا کھوج لگانا بہت مشکل ہے لیکن‬
‫خطوط وہ واحد صنف ہے جس کے بین السطور شخصیت کا عکس واضح طور پر‬
‫دکھائی دیتا ہے اور شخصیت کے خفیہ گوشے بھی کسی نہ کسی طور سامنے آکے‬
‫رہتے ہیں اسی طرح ان خطوط کے پس منظر میں بھی شخصیت نظر آتی ہے۔‬

‫‪11‬۔ رنگ سخن‪:‬‬

‫اس عنوان کے تحت مصنف کی اردو ‪ ،‬فارسی ‪ ،‬عربی ‪ ،‬پنجابی اور انگریزی شاعری‬
‫کا نمونہ کالم شامل ہے۔‬
‫‪12‬۔ تحریروں کے عکس‪:‬‬

‫اس میں مختلف اہل فکر شخصیات کی خورشید رضوی کے نام تحاریر کے عکس اور‬
‫خورشید کے اپنے مکتوب بنام یوسف جمیل کا عکس شامل ہے۔‬

‫‪13‬۔ انگریزی حصہ‪:‬‬

‫کتاب میں شامل اس حصے میں خورشید رضوی کی شاعری اور نثر کے حوالے سے‬
‫ہے۔‬ ‫شامل‬ ‫انٹرویو‬ ‫ایک‬ ‫اور‬ ‫مقاالت‬ ‫پانچ‬
‫مختصر یہ کہ یہ کتا ب خورشید رضوی کے فن و شخصیت کا تنقیدی جائزہ نہیں بلکہ‬
‫تحسینی انداز میں ان کے کماالت اور خدمات مقاالت کی صورت میں نذرانہ عقیدت‬
‫کے طور پر پیش کی گئی ہیں۔‬

‫عربی شاعری ایک تعارف ( آغاز تا عہد بنی امیہ)‬

‫زیر نظر ‪ ۳۴۱‬صفحات پر مشتمل ایک کتاب کی اشاعت اول ‪۱۰۰۱‬ء اور‬
‫اشاعت دوم ‪ ۱۰۱۳‬ء میں شیخ زاہد اسالمک سینٹر ‪ ،‬جامعہ پنجاب الہور سے ہوئی۔‬
‫قیمت ‪ ۱۸۰‬روپے ہے۔ مولف ڈاکٹر خورشید رضوی‬

‫حرف اول (بار اول) کے عنوان سے ڈاکٹر جمیلہ شوکت نے کتاب کا مختصر‬
‫تعارف کروایا ہے۔ حرف اول (بار اول) کے عنوان سے ڈاکٹر محمد اعجاز نے اس‬
‫کتاب کی اہمیت مختصر ا ً بیان کی ہے۔‬

‫مصنف نے عرصہ قبل طلبہ کے لیے یہ اسباق ترتیب دیے تھے۔ اس کی اہمیت‬
‫کے پیش نظر اسے کتابی صورت میں محفوظ کر لیا گیا اس لیے اس کااسلوب سلیس‬
‫اور عام فہم ہے۔ عربی کے طلبہ سے قطع نظر عام قاری بآسانی اس سے استفادہ کر‬
‫سکتا ہے۔ ہر سبق کے آخر میں مشق دی گئی ہے۔ جس میں اس سبق کے حوالے سے‬
‫سواالت پوچھے گئے ہیں ۔‬

‫مصنف نے عربی کو دوحصوں میں تقسیم کیا ہے۔‬


‫‪1‬۔ جاہلی ادب ‪2‬۔ اسالمی ادب‬

‫جاہلی ادب کے تحت قبل از اسالم کے ادب کو موضوع بنایا ہے جس میں‬


‫صرف شعر کے حوالے سے بحث کی گئی ہے۔ اس میں دو شعری مجموعوں معلقات‬
‫اور دیوان الحماسہ کا تعارف کروایا ہے۔ معلقات میں سبع معلقات کی وجہ تسمیہ اس‬
‫طرح بیان کر تا ہے۔‬

‫’’سب سے بڑا میلہ مکہ معظمہ سے چند میل کے‬


‫فاصلے پر مقام عکاظ میں منعقد ہو تا تھا اور سوق‬
‫عکاظ کہال تا تھا۔ یہ ہر سال ذی قعدہ کی یکم سے بیس‬
‫تاریخ تک قائم رہتا ۔ مشہور شاعر نابغہ ذیبانی سوق‬
‫عکاظ میں آتا تو اس کے لیے سرخ خیمہ نصب کر دیا‬
‫جاتا ۔ بڑے بڑے شعراء اس کے سامنے اپنا کالم پیش‬
‫کرتے وہ ان کے نقص و کمال پر اپنی رائے دیتا۔ ہر‬
‫سال جو قصیدہ بہترین قرار پاتا اسے مصری کپڑے پر‬
‫سونے کے پانی سے لکھ کر خانہ کعبہ پر لٹکا دیا‬
‫جاتا۔‘‘(ص ‪ ۸‬عربی شاعری ایک تعارف)‬

‫مصنف نے معلقات کے سات شعراء کا تعارف طلبہ کی ذہنی سطح پر مد نظر‬


‫رکھتے ہوئے کروایا ہے۔ زیر موضوع کتاب میں فحش اشعار سے دانستہ طور پر‬
‫گریز کیا گیا ہے۔‬

‫دوسرا مجموعہ شاعری دیوان الحماسہ ہے اس میں جاہلی ‪ ،‬مخضرمی اور‬


‫صدر اسالم کی شاعری کے بھی عمدہ نمونے محفوظ ہیں یہ انتخاب عباسی دور کے‬
‫صاحب دیوان شاعر ابو تمام نے ترتیب دیا۔ جس میں اس نے پنا کالم شامل نہیں کیا۔‬

‫المخضرمون کے تحت ان شعراء کا تعارف نمونہ کالم شامل ہے جن کی‬


‫زندگی کا کچھ حصہ دور جاہلیت میں اور کچھ زمانہ اسالم میں بسر ہوا۔ ان شعراء میں‬
‫کعب بن‬
‫ؓ‬ ‫خنساء ‪،‬‬
‫ؓ‬ ‫رسول ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔‬
‫ؐ‬ ‫ؓ‬
‫حسان بن ثابت آپ کو شاعر‬
‫زہیر شامل ہیں۔‬

‫مذکورہ باال شعراء کا تفصیلی جائزہ عربی ادب قبل از اسالم کے تحت لیا جا چکا ہے۔‬

‫اال سالمیون کے تحت ان شعراء کا تعارف اور نمونہ کالم ہے۔ جو عہد بنی‬
‫امیہ میں نامور تھے۔ ان میں درج ذیل شعراء شامل تھے۔‬
‫جمیل بن معمر‪:‬‬

‫اس کا تعلق قبیلہ عذرہ سے تھا۔ اس قبیلے کے لوگ سچی محبت اور پاکیزگی‬
‫جذبات میں ضرب المثل تھے۔ جمیل کو اپنے قبیلے کی لڑکی بثینہ سے ایسی ہی محبت‬
‫تھی ۔ وہ لڑکپن ہی سے اس کے عشق میں گرفتار ہو گیا ور جمیل بثینہ کے نام سے‬
‫مشہور ہوا بثینہ کو بھی جمیل سے سچا عشق تھا۔ بثینہ کے لیے اس کا رشتہ قبول نہ‬
‫کیا گیا۔ ان کی مالقات چوری چھپے ہی ہوتی تھی۔ جب حاالت نے شدت اختیار کی تو‬
‫وہ مصر چال گیا اور وہیں انتقال کیا۔‬

‫نمونہ کالم‪:‬‬

‫میں اس کی محبت م یں اس وقت گرفتار ہوا جب میں ابھی بچہ ہی تھا سو اس‬
‫کی محبت آج تک مسلسل بڑھتی اور پھلتی پھولتی رہی۔اور میں نے اس کی عطا کے‬
‫انتظار میں اپنی ساری عمر فنا کر ڈالی سوا س نے زمانے کو جو نیا تھا اسی انتظار‬
‫میں پرانا اور بوسیدہ کر ڈاال۔ (ص‪)۱۰۸ -۱۰۱‬‬

‫عمر بن ابی ربیعہ‪:‬‬

‫قریش کی شاخ بنو مخزوم سے تعلق تھا۔ اموی دور کے شعراء الغزل میں اسے‬
‫عمر کا انتقال ہوا اسی رات اس نے مدینہ کے‬
‫منفرد مقام حاصل تھا جس رات حضرت ؓ‬
‫معزز اور خوشحال گھرانے میں آنکھ کھولی۔‬

‫اس کی شاعری کا مرکزی موضوع ہمیشہ حسن نسوانی رہا جس کے بیان میں‬
‫اسے خاص صالحیت حاصل تھی۔ عورتوں کے مخصوص احساسات‪ ،‬ان کے باہمی‬
‫میل جول اور چھیڑ چھاڑ اور انکے محاورہ‪ ،‬کالم کو جس بے تکلفی اور بے حجابی‬
‫سے وہ شعر کا جامہ پہنادیتا تھا۔ اس سے پہلے کوئی نہ پہنا سکا تھا عمالً وہ بدقماش‬
‫نہ تھا مگر اس کی ظاہری روش شریف زادیوں کے لیے بڑی مصیبت بن گئی۔ آخر‬
‫کار حضرت عمر بن عبد العزیز نے اپنے دور خالفت میں اس پر گرفت کی اور جال‬
‫وطن کر کے جزیرہ دھلک بھجوا دیا ۔ جب اس نے اپنی کج روی سے باز آنے کی قسم‬
‫کھائی تو اسے واپسی کی اجازت مل گئی تھی۔ (ص‪)۱۱۱‬‬

‫اپنی بنت عم عائشہ کے لیے اس نے اپنے جذبات کا اظہار اس طرح کیا ہے۔‬

‫نمونہ کالم‪:‬‬

‫تیمی کی بیٹی عائشہ کے لیے میرے ہاں دل کے اندر ایک محفوظ چراگاہ ہے۔‬
‫جس کے مخصوص احاطے میں چرنے چرانے کی کسی کواجازت نہیں۔ (ص ‪)۱۱۳‬‬

‫‪۳۸‬ھ میں عمر جہاد کی ایک سمندری مہم میں شامل ہوا کشتی میں آگ لگنے کی وجہ‬
‫سے جل کر مر گیا۔‬

‫اموی دور کے تین اہم شاعر اخطل ‪،‬فرزدق اور جریر تھے۔‬

‫اخطل ‪:‬‬

‫بنو تغلب کاعیسائی شاعرتھا۔ شعر گوئی کاآغاز لڑکپن ہی سے کیا ۔ اصل‬
‫عروج امرائے بنی امیہ سے وابستہ ہوکر پا یا۔ یزید کے دورمیں اس کی خوب پذیرائی‬
‫ہوئی ۔ عبدالملک بن مروان نے اسے شاعر الخلیفہ کا خطاب دیا۔ کیفیات شراب کے‬
‫بیان میں اسے غیر معمولی مہارت حاصل تھی ۔ شراب کی خاطر اس نے اسالم قبول‬
‫نہ کیا۔‬

‫بنو امیہ کی مدح میں اس کا یہ شعر دیکھیں۔‬

‫وہ حق کی پکار پر لپک کر آنے والے فحش گفتاری سے نفرت کرنے والے‪،‬‬
‫غیرت مند خودار لوگ ہیں۔ جب کوئی نا پسندیدہ صورتحال ان پر اترتی ہے۔ تو وہ‬
‫صبر اختیار کرتے ہیں۔ (ص ‪)۱۱۴‬‬

‫فرزدق‪:‬‬
‫قبیلہ بنو تمیم کی شاخ بنو دارم سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کا دادا صعصعہ عرب‬
‫کانامور آدمی ہو گزرا تھا۔ اس کے بارے میں مشہور ہے کہ جاہلیت میں کوئی عرب‬
‫جب اپنی لڑکی کوزندہ درگورکرنے کا ارادہ کرتا تو صعصہ اسے خرید کر زندہ‬
‫رہنے دیتا۔ فرزدق کاباپ بڑا معزز سردارتھا۔ فرزدق کی پرورش بصرہ کے ادبی‬
‫ماحول میں ہوئی۔‬

‫فرزدق کی شاعری کاآغاز بصرہ و کوفہ کے حکام کی مدح وہجو سے ہوا۔‬


‫جس کے نتیجے میں کبھی اسے قید و بند کی صعو بت جھیلنی پڑی اور کبھی راہ فرار‬
‫اختیار کرنی پڑی ۔عملی زندگی میں وہ امرؤالقیس کی طرح آوارہ مزاجی و عیش‬
‫کوشی کا دلدادہ تھا۔(ص‪)۱۱۸ -۱۱۱‬‬

‫مصنف بتاتا ہے کہ فرزدق کے کالم میں رقت ‪ ،‬لطافت اور گداز کی بہت کمی‬
‫ہے۔ منظر نگاری اور بیان واقعہ میں اس کی طبیعت خوب رواں ہے۔ ‪۰۱۱‬ھ میں سو‬
‫برس کے لگ بھگ عمر پا کر وفات پائی۔‬

‫علی کے خاندان کی جانب تھا۔ دینوی سطح پر‬


‫فرزدق کادلی رجحان حضرت ؓ‬
‫اس نے بنو امیہ کی مدح بھی کہی۔ امام زین العابدین کے بارے میں اس کا یہ شعر‬
‫دیکھیں ۔‬

‫’’ یہ وہ شخص ہے کہ وادی مکہ اس کے لمس قدم کو پہچانتی ہے ا ور بیت اللہ اور‬
‫حدود حرم کے باہر اور اندر کاسب عالقہ بھی اس سے آشناہے’’۔ (ص ‪)۱۳۰‬‬

‫جریر‪:‬‬

‫اس کا تعلق بنو تمیم کی شاخ بنو کلیب سے تھا۔ یمامہ کے عالقے میں پیدا ہوا‬
‫اور صحرائی ماحول میں نشو و نما پائی۔ جب شعر پر اس کی گرفت مضبوط ہوگئی تو‬
‫بصرہ آنے جانے لگا جو فرزدق کا ٹھکانہ تھا۔‬

‫مصنف بتا تا کہ رفتہ رفتہ ا ُسے حجاج بن یوسف کے ہاں پذیرائی ہوئی اور‬
‫اسکی شاعری کی ہر طرف دھوم مچ گئی اس نے جب حجاج کے زور دار قصیدے‬
‫کہے تو خلیفہ عبدالملک کو بھی رشک محسوس ہوا۔ حجاج رمز شناس تھا۔ اس نے‬
‫جریر کو عبدالملک کے دربار میں بھجوا دیا۔ جریر نے خلیفہ کی مدح میں اپنا یہ شعر‬
‫کہا۔‬

‫’’ کیا تم لوگ ان سب سے بہتر نہیں ہو جو کبھی سواریوں پر سوار ہوئے اور‬
‫تمہاری ہتھیلیاں کل عالم سے بڑھ کر سخی نہیں ہیں۔‘‘ تو خلیفہ مسکرایا اور پھول کر‬
‫کہا۔ ہم ایسے ہی ہیں اور سدا کے ایسے ہیں۔( ص ‪)۱۳۶ -۱۳۴‬‬

‫جری ر کی وفات فرزدق سے چند ماہ بعد ہوئی۔ اس کا دیوان بھی چھپ چکا ہے۔‬
‫بیوی کی موت پر گریہ وزاری عربوں کے ہاں شیوہ مردانگی کے خالف سمجھا جا تا‬
‫تھا۔ جریر نے اپنی بیوی کی وفات پر جو مرثیہ کہا وہی فرزدق کی بیوی کی وفات‬
‫گیا۔‬ ‫پڑھا‬
‫یہ شعر دیکھیں‬

‫’’اگر حیا کی جھجک نہ ہوتی تواشکوں کی روانی‬


‫ضرور مجھے ہیجان میں لے آتی اور میں ضرور تیری‬
‫قبر کی زیارت کو آتا اور محبوب کی زیارت کی ہی‬
‫جاتی ہے۔‘‘‬

‫’’تو نے میرے دل کو صدمے کی شدت سے سرگشتہ‬


‫کر ڈاال جبکہ بڑھاپا مجھ پر طاری ہو چکا ہے اور تیری‬
‫اوالد میں سے تعویزوں والے (کم سن) بچے ابھی‬
‫چھوٹے چھوٹے ہیں‘‘۔(ص ‪)۱۳۱‬‬

‫مصنف جریر کے حوالے سے بتاتا ہے کہ ذاتی زندگی میں وہ ایک پاک باز و‬
‫متدیّن انسان تھا۔ تاہم ہجو کے باب میں فحش گوئی سے بھی گریز نہ کر تا تھا۔ اس کے‬
‫مقام سے جل کر شعراء نے اس کے خالف ہجو گوئی شروع کر دی مگر یہ اکیال سب‬
‫سے چو مکھی لڑ تا رہا ۔ کسی سے مغلوب نہ ہوا حاالنکہ فرزدق کی طرح فخر‬
‫کرنے کے لیے اس کے پاس آباء و اجداد کے کارناموں کا سرمایہ نہ تھا۔مصنف نے‬
‫چونکہ یہ کتا ب نصابی نقطہ نظر سے طلبہ کے لیے لکھی تھی اس لیے ہر شعر کے‬
‫معنی ‪،‬ترجمہ اور تشریح دی ہے او راسلوب میں سال مت کو پیش نظر رکھا ہے۔‬

‫تالیف‪:‬‬

‫زیر موضوع کتاب مضامین کا مجموعہ ہے ۔ ‪412‬صفحات پر مشتمل یہ کتاب‬


‫شہ تاج مطبوعات الہور سے ‪6779‬ء میں شائع ہوئی ۔ قیمت ‪-/411‬روپے ہے۔‬

‫انتساب والد مرحوم کے نام اس شعر کے ساتھ ہے۔‬

‫ہم تجھے بھول کر خوش بیٹھے ہیں‬


‫ہوگا!‬ ‫کیا‬ ‫کوئی‬ ‫درد‬ ‫سابے‬ ‫ہم‬

‫پیش لفظ "تقدیم"کے عنوان سے ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا نے لکھا ہے۔ کتاب‬
‫کے مندرجات میں جو مضامین شامل ہیں ان کا فرداًفردا ً مختصرا ً جائزہ ذیل میں‬
‫لیاجائے گا۔‬

‫انور مسعود ‪:‬‬

‫فارسی کا استاد اور پنجابی اور اُردو کا قابل قدر شاعر ہے ۔ شاعری کے ساتھ‬
‫وہ گہرے تنقیدی شعور اور تحقیقی لگن رکھنے واال فن کار ہے ۔ عطاء الحق قاسمی‬
‫کی رائے اُن کے بارے میں حرف حرف حقیقت ہے۔‬

‫"یہ شخص صوفی ہے جو دنیا میں رہتے ہوئے دُنیا کا‬


‫طلب گار نہیں ہے جو بازار سے گزرا ہے لیکن خریدار‬
‫اعلی‬
‫ٰ‬ ‫اعلی درجے کے شاعر اور‬
‫ٰ‬ ‫نہیں ہے ۔ مجھے اس‬
‫درجے کے انسان سے محبت ہے"۔ (ص‪99‬فنون اپریل‬
‫۔اگست ‪4114‬ء )‬
‫زیر موضوع مضمون مصنف نے ‪6776‬ء میں تحریر کیا تھا ۔ اس میں مصنف‬
‫نے زیر بحث شخصیت کے مختلف پہلوؤں اور ادبی جہتوں کا جائزہ لیا ہے۔ وہ چند‬
‫سطروں میں اس کی شخصیت کا خالصہ پیش کر تا ہے۔‬

‫"انور فریب کاربھی ہے نظر کچھ آتا ہے دیکھنے میں‬


‫کچھ اور بہت ہنسوڑ اور چونچال ہے مگر اندرسے‬
‫دکھی ہے ۔ دیکھنے میں طرار اور آزادہ رولگتا ہے‬
‫مگر اندر سے اپنی وضع اور اقدار کا بہت پابند ہے ۔‬
‫مشرق و مغرب کے بہت سے میخانے جھانک آیا لیکن‬
‫نہ ا ُ ّم الخبائث کو منہ لگایا نہ بنت الخبائث کو حاالنکہ ان‬
‫دونوں کی اس کے آس پاس خاصی فراوانی رہی"۔ (ص‬
‫‪41‬تالیف )‬

‫جیالنی صاحب ۔‬

‫زیر تبصرہ مضمون مصنف نے ‪6776‬میں تحریر کیا ۔ یہ اس شخصیت کے‬


‫بارے میں ہے جس کے متعلق وہ یہ گمان رکھتا ہے۔‬

‫"اب پیچھے مڑکر دیکھتا ہوں تو پروفیسر غالم جیالنی‬


‫ان معدودے چند افراد میں نظر آتے ہیں جن کے بارے‬
‫میں مجھے گمان ہے کہ وہ مجھے مجھ سے بڑھ کر‬
‫سمجھ سکتے ہیں"۔ (ص ‪)41‬‬

‫زیر تبصرہ شخصیت گورنمنٹ کالج سرگودھا کے پرنسپل تھے ۔ ان کے‬


‫حوالے سے مضمون نگار ماضی کے جھروکوں میں جھانکتے ہوئے بیتے ہوئے‬
‫لمحوں کی یادیں تازہ کر تے ہوئے قارئین کو بھی شامل کرتا ہے ۔ یہ بھی حقیقت ہے‬
‫کہ حال چاہے کتنا بھی تلخ ہو لیکن جب وہ ماضی بن جاتا ہے تو حسین ہی لگتا ہے‬
‫لیکن اس کے برعکس مصنف کا ماضی تو مذکورہ شخصیت کے ساتھ شیریں یادوں‬
‫سے جڑا ہوا ہے۔‬
‫ناصر کاظمی۔‬

‫دعوی نہیں کیا ۔ ان‬


‫ٰ‬ ‫زیر موضوع شخصیت سے مصنف نے دوستانہ مراسم کا‬
‫چند مالقاتوں کا ذکر کیا ہے جو اُس کے دوست اسلم انصاری کے توسط سے ہوئی‬
‫اعلی درجے کا شاعر ہے اس لیے اس نے ان مالقاتوں کے‬
‫ٰ‬ ‫تھیں۔ چونکہ مصنف خود‬
‫دوران وہ اُس کی شخصیت وفن کا تجزیہ اس طرح کرتا ہے۔‬

‫"ناصر کاظمی کی شخصیت ‪ ،‬گفتگو اور فن سے لے کر‬


‫ان کے انداز دستخط تک جو ایک رشتہ مشترک مجھے‬
‫نظر آیا وہ ایک مہر بلب کر دینے والی گہری گھمبیر ‪،‬‬
‫دیرپا اور غم انگیز کیفیت ہے ۔ روایت اور انفرادیت ان‬
‫کے ہاں ایک ایسے اتحاد میں ڈھل گئی ہیں جس میں‬
‫کہیں جوڑ نظر نہیں آتا "۔ (صف ‪18‬۔ایضا ً)‬

‫وہ ناصر کاظمی کے اشعار بطور نمونہ پیش کر تا ہے اور اس کی فکری‬


‫جہات کا جائزہ لیتا ہے ۔ یہ مضمون مصنف نے ‪6791‬ء میں تحریر کیا ۔‬

‫میں نے اس کو دیکھا ہے‪:‬‬

‫مذکورہ مضمون مجید امجد کی ایک نظم کا مصرع ہے جو اس نے منٹو پر‬


‫لکھی تھی ۔ زیر نظرمضمون مصنف نے ‪44‬مئی ‪6799‬کو جوحلقہ ارباب ذوق‬
‫سرگودھا کی خصوصی نشست بیاد مجید میں پڑھا ۔ بعدازاں یہ ستمبر ‪،‬اکتوبر ‪6799‬ء‬
‫میں اوراق کے شمارہ میں ص ‪414‬تا‪418‬پر شائع ہوا۔‬

‫مجید امجد کی زندگی کا زیادہ عرصہ ساہیوال میں بسلسلہ مالزمت گزرا ۔‬
‫مصنف نے بھی بی۔اے تک ساہیوال میں تعلیم حاصل کی اور اس دوران مجید امجد‬
‫سے چند مالقاتیں رہیں لیکن اس دوران بطور شاعر مصنف کا اتنا بڑا حوالہ نہیں تھا‬
‫لیکن شعری مجلسوں میں قریب سے دیکھنے کا موقع ضرور مال۔‬

‫اس حوالے سے مصنف کہتا ہے۔‬


‫"ان مجلسوں میں جناب مجید امجد کو بہت قریب سے‬
‫دیکھا ۔ اگرچہ بے شعوری کے عالم میں دیکھا وہ ادھیڑ‬
‫عمر کے کم گو ‪ ،‬دھیمے لہجے میں بات کرنے والے ‪،‬‬
‫مٹے ہوئے سے انسان تھے تاہم تمام تر متانت ووقار کے‬
‫باوجود وہ مریضانہ قسم کی سنجیدگی کا شکار نہ تھے ۔‬
‫کچھ اپنے طبعی حجاب کی بناء پر کچھ ان کی خاموش‬
‫‪،‬گھمبیرطبیعت اور کچھ عمر اور مرتبے کے بے اندازہ‬
‫تفاوت کے باعث مجھے کبھی ان سے کھل کر بات کر‬
‫نے کی ہمت نہ ہوسکی"۔ (ص ‪)21،27‬‬

‫مصنف نے مجید امجد کے حوالے سے اپنی بہت سی یادوں کے گالب کھالئے‬


‫ہیں جس سے اُن کی شخصیت کے وہ گوشے سامنے آئے ہیں جو اس سے پہلے‬
‫گوشہء گمنامی میں تھے ۔‬

‫عالمہ عبدالعزیز میمن۔‬

‫زیر تبصرہ شخصیت کے حوالے سے یہ مضمون مصنف نے ‪6781‬ء میں‬


‫لکھا ۔ مذکورہ شخصیت شعبہ عربی اورئینٹل کالج کے صدر تھے ۔ مصنف نے ان کی‬
‫چلتی پھرتی تصویر اس طرح پیش کی محسوس ہوتا ہے کہ ہم انہیں دیکھ رہے ہیں۔‬
‫مضمون نگار کی ان سے یادگار مالقاتیں رہیں ہیں جن کی تفصیل اس مضمون میں‬
‫مختلف مواقع کے ساتھ موجود ہے۔‬
‫پیر صاحب (ڈاکٹر پیر محمد حسن)‪:‬‬

‫عربی کے ماہر اور انتہائی باضابطہ شخصیت تھے ۔ مصنف کی ان سے‬


‫مالقات ادارہ تحقیقات اسالمی میں ہوئی ۔ عربی میں تحقیق متن کا کام انہوں نے انتہائی‬
‫جانفشانی سے کیا۔ ایک ٹیم کا کام فرد واحد نے انجام دیا ۔ پیرانہ سالی کے باوجود کام‬
‫سے لگن اورعربی ادب سے متعلق ان کی معلومات کو مصنف نے اس مضمون میں‬
‫قدرے تفصیل سے بتایاہے ۔ یہ مضمون ‪6774‬ء میں احاطہ تحریرمیں الیا گیا۔‬

‫ڈاکٹر سہیل بخاری ۔‬

‫مصنف نے زیر موضوع خاکہ ‪6774‬ء میں تحریر کیا ۔ مذکورہ شخصیت پی‬
‫۔اے ۔ایف کالج سرگودھا میں شعبہ اُردو کے صدرتھے ۔ اس میں مصنف نے ان کی‬
‫علمی و ادبی اور شخصی خوبیوں کا ذکر کیا ہے ۔ وہ کہتا ہے ۔‬

‫"میں جب انہیں یاد کرتا ہوں تو ان کی ذات یاد آتی ہے‬


‫جو ان کی صفات پر بھاری تھی"۔ (ص ‪)86‬‬

‫سیّد ضمیر جعفری کی مزاح نگاری‬

‫زیر نظر مضمون مصنف نے ‪6789‬ء میں تحریر کیا جبکہ ضمیر جعفری‬
‫صاحب حیات تھے ۔ اس میں جعفری صاحب کے فن مزاح کو خراج تحسین پیش کیا‬
‫ہے اور اس ضمن میں ان کا نمونہ کالم بھی پیش کیا ہے۔‬

‫ان کا شعر مالحظہ ہو۔‬

‫ان کا دروازہ تھا مجھ سے بھی سوا‬


‫دید‬ ‫مشتاق‬
‫میں نے باہر کھولنا چاہا تو وہ اندر کھال‬

‫ڈاکٹر طہ ٰ حسین ۔‬
‫زیر نظرمضمون مصنف نے معروف مصری ادیب طہ ٰ حسین کے حوالے‬
‫سے ‪ 6791‬ء میں تحریر کیا ۔ اس مضمون میں طہ ٰ حسین کے بچپن کے واقعات سے‬
‫اعلی مقام کے حصول تک کے واقعات کو جامع انداز میں احاطہ‬
‫ٰ‬ ‫لے کر ادبی دنیا میں‬
‫تحریر میں الیا گیا ہے ۔ بچپن میں آشوب چشم سے نابینا ہونے کی وجہ سے اس کی‬
‫۔‬ ‫ہواتھا‬ ‫اضافہ‬ ‫بجائے‬ ‫کی‬ ‫کمی‬ ‫میں‬ ‫صالحیتوں‬ ‫علمی‬

‫اقبال (ایک شاعر جس نے دُنیا زمانے پر اپنا سکّہ بٹھا دیا)‬

‫زیر موضوع مضمون عربی میں ڈاکٹر طہ ٰ حسین نے لکھا اور اس کا‬
‫اُردوترجمہ مصنف زیر تبصرہ کتاب نے ‪6799‬ء میں کیا۔مضمون کی ابتدائی دوسطور‬
‫اقبال کے تعارف اور فن و شخصیت کے حوالے سے کلیدی حیثیت رکھتی ہیں۔‬

‫"اہل اسالم میں دوشاعر ایسے گزرے ہیں جنہوں نے‬


‫اسالمی ادب کا پایہ آسمان تک پہنچادیا اور اس عظمت‬
‫کا نقش جبین وقت پر ثبت کر دیا ۔ ایک ہندوپاک کا اقبال‬
‫اور دوسرے دنیائے عرب کا شاعرابواالعالء "۔‬
‫(ص‪611‬تالیف)‬

‫زیر نظرمضمون میں دونوں کا تقابلی انداز میں جائزہ لیا گیا ہے۔‬

‫اقبال ‪ ،‬عربی اور دُنیائے عرب‪:‬‬

‫زیر نظر مضمون مصنف نے ‪6774‬ء میں تحریر کیا ۔ اس میں اقبال کے‬
‫عربی ادب سے لگاؤ اور عرب دنیا میں اس کے مقام و مرتبے کا تعین کیا گیا ہے۔ اگر‬
‫اقبال کو سرزمین حجاز سے عشق تھا تو دُنیائے عرب میں اقبالیات کا چرچا‬
‫روزافزوں ہے ۔اس ضمن میں مصنف نے مختلف عرب ادباء کا ذکر کیا ہے جنہوں‬
‫نے اقبال کے حوالے سے کام کیا ہے۔ آخر میں مصنف نے حواشی تفصیالًدیے ہیں۔‬

‫نجیب محفوظ ‪:‬‬


‫زیر نظر مضمون مصنف نے ‪6788‬ء میں تحریر کیا ۔ نوبل انعام یافتہ مصری‬
‫ادیب جو اپنے پچاس سالہ ادبی سفر کے دوران دنیائے عرب کا بڑا معتبر نام رہا ہے۔‬
‫زیر موضوع مضمون میں مصنف نے اس کی زندگی کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا ہے‬
‫۔ اسے اپنے کام سے عشق کی حد تک لگاؤ ہے ۔ اس حوالے سے اس کا کہنا ہے۔‬

‫"اگر کسی روز لکھنے کی اُمنگ مجھ سے چھن جائے‬


‫تو میری خواہش ہو گی کہ وہ دن میری زندگی کا آخری‬
‫دن ہو"۔ (ص‪)696‬‬

‫آخر میں حواشی تفصیل سے درج ہیں۔‬


‫حادثہ ‪:‬‬

‫یہ نجیب محفوظ کا عربی افسانہ ہے جس کا اردوترجمہ مصنف نے ‪6771‬ء‬


‫میں کیا ۔ اس کا موضوع معمول کا ہے لیکن اسلوب اور وحدت تاثر نے اسے الئق‬
‫مطالعہ بنا دیا ۔ اس میں اس بے حسی کو دکھایا گیا ہے جو معمول کے حادثات دیکھ‬
‫کر انسانوں پر طاری ہو چکی ہے۔‬

‫عربی شاعری اندلس میں (ایک طائرانہ جائزہ)‪:‬‬

‫زیر موضوع مضمون مصنف نے ‪6771‬ء میں تحریر کیا جس میں اندلس میں‬
‫عربوں کی آمد اوروہاں تخلیق ہونے والی عربی شاعری کا جائزہ لیا گیا ہے اور عرب‬
‫حکمرانوں کی ایک دوسرے پر لشکر کشی اور ظلم کی داستانیں بھی بین السطور بیان‬
‫کی گئی ہیں۔‬

‫غرناطہ میں مسلم دور حکومت کے خاتمے کے حوالے سے مصنف کہتا ہے ۔‬

‫’’روایت ہے کہ ‪4‬جنوری ‪6274‬ء کو جب غرناطہ پر‬


‫ہالل کی جگہ صلیب سایہ فگن ہو گئی اور اندلس کا‬
‫آخری مسلمان حکمران ابوعبداللہ بوجھل دل اوربوجھل‬
‫قدموں کے ساتھ اپنے اہل خانہ اور جان نثار ہمراہوں‬
‫کے جلو میں ہمیشہ کے لیے غرناطہ کو چھوڑ کر چال‬
‫گیا ‘‘۔ (ص ‪)411‬‬

‫مصنف نے اندلس میں عربی شاعری کے مختلف ادوار کا سیاسی پس منظر‬


‫کے ساتھ جائزہ لیا ہے۔ آخر میں حواشی تفصیالًدرج کیے ہیں۔‬

‫پنچ تنتر(کلیلہ و دمنہ کی سنسکرت اصل)‪:‬‬

‫زیر موضوع مضمون میں مصنف نے مذکورہ باال کتاب کی حقیقی تاریخ کے‬
‫چند بنیادی خدوخال اس طرح بیان کیے ہیں۔‬
‫"یہ کتاب اصل میں ہندوستان کے کسی راجہ کے لیے‬
‫کسی عالم نے سنسکرت زبان میں ترتیب دی ۔ نوشیرواں‬
‫نے برزویہ نامی ایک طبیب کو اس کے حصول کے‬
‫لیے ہندوستان بھیجااور اس نے اسے پہلوی زبان میں‬
‫منتقل کیا ۔ پہلوی سے ابن المقفح نے عربی میں ترجمہ‬
‫کیا"۔ (ص ‪)468‬‬

‫مصنف بتاتا ہے کہ کلیلہ ودمنہ کا قدیم پہلوی ترجمہ معدوم ہوگیا اس لیے بعض‬
‫محققین کو یہ غلط فہمی بھی رہی کہ اس کی سنسکرت اصل بھی ضائع ہو گئی لیکن‬
‫یہ خیال درست نہیں۔ سنسکرت میں یہ کہانیاں برابر موجود چلی آتی ہیں البتہ مختلف‬
‫ناموں اورقدرے ردوبدل کے ساتھ ظاہر ہوتی ہیں ۔زیادہ معروف روپ یہ تین ہیں۔ پنچ‬
‫ساگر‬ ‫سرت‬ ‫کتھا‬ ‫۔‬ ‫ہتوپدیش‬ ‫تنتر۔‬
‫اس کتاب کو عالمی ادب میں بہت اہمیت حاصل ہے ۔ یہ ہندوافسانوی ادب کا قدیم ترین‬
‫شاہکارہے اور عالمی ادب پر جتنا اثر اس کتاب نے مرتب کیا ۔ ہندوستان کی کسی اور‬
‫کتاب نے نہیں کیا۔‬

‫مصنف نے زیر تبصرہ مضمون میں اس کتاب کے کچھ حصوں کا اردو‬


‫ترجمہ پیش کیا ہے تاکہ اصل کتاب کا اسلوب واضح ہو سکے ۔ آخر میں حواشی‬
‫تفصیالًدرج ہیں۔‬

‫حیات انسانی کامقام (روح اورنیچر کے تناظر میں )‬

‫مذکورہ مضمون ڈبلیو ۔ہٹیلر (پروفیسر ایمریطس طبیعیات نظری یونیورسٹی‬


‫آف زیورچ سوئٹیزر لینڈ) نے تحریر کیا ۔ اردوترجمہ خورشید رضوی نے ‪6799‬ء‬
‫میں کیا۔‬

‫اس میں مصنف نے حیات انسانی کے مختلف پہلوؤں پر بات کی ہے کیونکہ‬


‫انسان اپنی فطرت کے بارے میں اتنا متردد نہ تھا جتناآج ہے ۔ اس حوالے سے مصنف‬
‫کہتا ہے۔‬
‫"سائنس کے مستند زعماء ہمیں باور کراچکے ہیں کہ ہم‬
‫ایک پیچیدہ طبیعاتی و کیمیاوی نظام سے عبارت ہیں یا‬
‫یہ کہ ہمارا ظہور عمل ارتقاء کے دوران محض ایک‬
‫اتفاقی حادثہ تھا"۔ (ص ‪)426‬‬

‫انسان کو سمجھنے کے لیے اشیائے فطرت سے آغاز کر نا ناگزیر ہے۔ زیر‬


‫نظر مضمون میں مصنف نے فطرت کے مختلف حوالوں سے بحث کی ہے۔ نباتات و‬
‫حیوانات کے ارتقاء پر بات کرنے کے بعد وہ کہتا ہے ۔‬

‫"ہنوزبہت کچھ باقی ہے جو بنیادی طور پر انسان کو‬


‫حیوانوں سے متّمیزکرتا ہے ۔ ہم صرف چیدہ چیدہ‬
‫خصوصیات پر ہی بات کر سکتے ہیں ۔ کم ازکم‬
‫دوخصوصیات قابل ذکر ہیں۔ ایک یہ کہ صرف انسان ہی‬
‫کو ضمیر عطا ہوا ہے وہ جان سکتا ہے کہ اچھاکیا ہے‬
‫اور بُرا کیا ہے اس کے برعکس جانور اس ضمیر سے‬
‫محروم ہیں۔ دوسرا وصف شعورذات ہے۔ اس بات کی‬
‫کوئی شہادت نہیں کہ حیوانوں کوبھی ایسا کوئی شعور‬
‫حاصل ہے"۔ (ص‪)491‬‬

‫آخر میں مصنف کہتا ہے کہ علوم فطرت دہریہ پن کے لیے کوئی جوازمہیا‬
‫نہیں کرتے بلکہ حقیقت اس کے برعکس ہے بلکہ سائنس آگے بڑھنے کے ساتھ ہمیں‬
‫ایک ایسی کیفیت کی طرف لے جاتی ہے جو ارضیت سے ‪ ،‬حسیت سے باالترہے‬
‫جوالوہی ہے۔‬

‫تنقید اور تقلید‪:‬‬

‫یہ عنوان کل پاکستان اہل قلم کانفرنس ‪6789‬میں پڑھے جانے والے مقاالت‬
‫کے لیے اکادمی ادبیات پاکستان کی طرف سے دیا گیا تھا۔‬
‫زیر نظر مضمون میں مصنف تنقید اور تقلید کے حوالے سے بات کرتے ہوئے‬
‫کہتا ہے کہ اسے مناسب بھی قرار دیا جاسکتا ہے اور نامناسب بھی کیونکہ یہ مبہم‬
‫بھی ہے اور خوشگوار ابہام بھی رکھتا ہے ۔ یہ سوال ایسا ہے جس کا جواب مختلف‬
‫مکتبہ ہائے فکر نے مختلف طریقوں سے دیا ہے جن میں تنقید کی گنجائش بھی ہے‬
‫اور تقلید کی بھی ۔‬

‫"تاہم اس کا معتدل اور حقیقت پسندانہ جواب غالبا ً صرف‬


‫یہ ہے کہ" تنقید محض یا تقلید محض "ممکن ہی نہیں"۔‬
‫(ص ‪)411‬‬

‫’’اگر اس موضوع کو محض ادب تک محدود کر لیا‬


‫جائے تو بڑا تخلیق کاراس نقطے پرکھڑا ہوتا ہے جہاں‬
‫وہ ماضی ‪ ،‬حال اور مستقبل کا جائزہ لیتا ہے کیونکہ‬
‫کسی تحریرسے نتائج و ثمرات محض کسی ایک زمانے‬
‫سے کشید نہیں کیے جاسکتے ۔ جب وہ تینوں زمانوں پر‬
‫نظر رکھتے ہوئے کوئی فن پارہ تخلیق کرتا ہے تو اس‬
‫کی حیثیت بیک وقت مقلد ‪ ،‬مبصراور نقاد کی ہوتی ہے ۔‬
‫وہ اپنے ماضی سے ڈھلے ڈھالئے مواد کا ورثہ مقلدانہ‬
‫انداز میں قبول بھی کرتا ہے اسے حال کی روشنی میں‬
‫جانچتا پرکھتا بھی ہے اور مستقبل کے شعور کے تحت‬
‫اس میں جدت طرازی بھی کرتا ہے گویا تخلیقی عمل‬
‫بیک وقت تقلید اورتنقید پر حاوی ہے‘‘۔ (ص ‪)414‬‬
‫تاریخ علوم میں تہذیب اسالمی کا مقام‪:‬‬

‫مذکورہ باالکتاب ‪428‬صفحات پر مشتمل ہے ۔ ادارہ تحقیقات اسالمی اسالم آباد‬


‫ہوئی۔‬ ‫شائع‬ ‫میں‬ ‫‪6772‬ء‬ ‫سے‬
‫زیر موضوع کتاب نامور مسلمان ترک محقق ڈاکٹر فواد سیزگین کے تیرہ خطبات پر‬
‫مشتمل ہے ان عربی خطبات کا ترجمہ ڈاکٹر خورشید رضوی نے کیاہے ۔ ڈاکٹر فواد‬
‫معروف جرمن مستشرق ہلمٹ ریٹر کا شاگرد ہے اس لیے اس کا بیشتر کام جرمن‬
‫زبان ہی میں ہے۔‬

‫یہ خطبات متنوع موضوعات کا احاطہ کر تے ہیں۔‬

‫’’تاریخ التراث العربی"چھ جلدوں پر مشتمل اپنی اس‬


‫کتاب میں مصنف موضوعات کا تعارف کرواتا ہے جن‬
‫میں علوم قرآن و حدیث ‪،‬تاریخ ‪،‬فقہ ‪ ،‬عقائد‪،‬‬
‫توحیداورتصوف شامل ہیں۔ دوسری جلد کا موضوع شعر‬
‫ہے ۔ اس میں علم لغت ‪ ،‬نحو‪ ،‬بالغت اور نثر کے‬
‫مسودے ہیں۔ تیسری جلد کا موضوع طب اور علم‬
‫الحیوان ہے۔ چوتھی جلد میں کیمیا‪ ،‬نباتات اور زراعت‬
‫ہے ۔ پانچویں جلد کا موضوع ریاضیات ہے ۔ چھٹی جلد‬
‫علم الفلک ‪ ،‬احکام النجوم اور آثارعلویہ سے متعلق ہے۔‬
‫ساتویں جلد کا موضوع علم لغت ‪ ،‬نحواور بالغت ہے ۔‬
‫آٹھویں جلد فلسفہ ‪ ،‬منطق‪ ،‬نفسیات‪ ،‬اخالق اور سیاست پر‬
‫مشتمل ہے ۔ نویں جلد جغرافیہ ‪ ،‬فزکس‪ ،‬جیالوجی اور‬
‫موسیقی سے متعلق ہے ۔ دسویں جلد اس کا موضوع‬
‫علوم اسالمیہ کی اٹھان اور ارتقائی مراحل ہیں‘‘۔ (ص‬
‫‪)9,8‬‬

‫تاریخ علوم میں مسلمانوں اور عربوں کا مقام‪:‬‬


‫دیگر مورخین کے برعکس مصنف کہتا ہے کہ اسالم میں فکری و عملی‬
‫بیداری پہلی صدی ہجری میں شروع ہو گئی تھی۔ وہ کہتا ہے ایک گروہ ایسا ہے جس‬
‫کے خیال میں قبل ازاسالم عرب بہت سادہ تھے اس لیے وہ ان حاالت پر کوئی ردعمل‬
‫پیدا نہیں کر سکتے تھے جن سے وہ دوچار ہوئے ۔ مصنف کہتا ہے ان کے تعلقات ارد‬
‫گرد کی متمدن اقوام سے تھے ۔ اس طرح ہم دور جاہلیت کی شاعری کے ارتقاء کو‬
‫نہیں سمجھ سکیں گے ۔‬
‫تاریخ طب میں مسلمانوں اور عربوں کا مقام‪:‬‬

‫رازی پہالطیب تھا جس نے یہ رائے قائم کی کہ آنکھ کی پتلی اس میں داخل‬


‫ہونے والی روشنی کی نسبت سے سکڑتی اور پھیلتی ہے۔ مزیدبرآں وہ اور نامور‬
‫عرب مسلمانوں کے بارے میں بتاتا ہے جنہوں نے اس سلسلے میں کارہائے نمایاں‬
‫سرانجام دیے۔‬

‫علم کیمیا کی تاریخ میں مسلمانوں اور عربوں کا مقام‪:‬‬

‫مصنف کہتا ہے علم کیمیاکے مورخین اس کے ظہور کا تعلق اہل یونان سے‬
‫ہے‬ ‫کہتا‬ ‫وہ‬ ‫سے‬ ‫حوالے‬ ‫اس‬ ‫۔‬ ‫سکتے‬ ‫جوڑ‬ ‫نہیں‬
‫" دورجدید میں تاریخ کیمیا پیش کرنے کی اولین کوشش کا سہرا سویڈن کے عالم‬
‫‪Torbern Bergman‬کے سرہے جس نے ‪6997‬تا‪6984‬کے درمیانی وقفے میں اس‬
‫موضوع پر دوکتابیں شائع کیں ۔ اس کی رائے میں حضرت آدم ؑ پہلے کیمیادان تھے‬
‫اور اس شعبہ ء علم کے پھلنے پھولنے اور ترقی پانے میں اہل مصر کا خصوصا ً‬
‫ہرمس کا بہت بڑا حصہ تھا "۔ (ص ‪)11‬‬

‫ریاضیات کی تاریخ میں مسلمانوں اور عربوں کا مقام‪:‬‬

‫ماقبل اسالم اور صدراسالم کے دور میں دیگر اقوام کی نسبت عربوں کا حصہ‬
‫حساب میں بہت کمزور تھا ۔ غالب امکان یہ ہے کہ وہ انگلیوں پر حساب لگایا کرتے‬
‫تھے ۔ مسلمان دوسری صدی ہجری میں ہندوستانی ہندسوں سے متعارف ہوئے۔‬
‫مصنف بتاتا ہے۔‬

‫"تیسری صدی ہجری کے آغاز میں عرب ریاضی دان‬


‫اس معیار پر پہنچ گئے جہاں اُن کے لیے پوری مہارت‬
‫کے ساتھ یونانی ریاضی دانوں کے تمام نتائج پر تصرف‬
‫ممکن ہو گیا"۔ (ص ‪)81‬‬

‫فلکیات کی تاریخ میں مسلمانوں اور عربوں کا مقام‪:‬‬


‫اس حوالے سے مصنف بتاتا ہے ۔‬

‫"یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ عرب اسالمی علم الفلک‬


‫جو دسویں صدی ہجری میں یورپ منتقل ہوا اور یورپین‬
‫ممالک میں اسے جذب کرنے کا سلسلہ سولھویں صدی‬
‫عیسوی کے اوائل تک جاری رہا"۔ (ص ‪)71‬‬

‫عربوں کے علم الفلک کا یورپ پر اثر‬

‫عربوں کے علم الفلک نے اہل یورپ پر دُوررس اثرات مرتب کیے۔ مصنف‬
‫اس حوالے سے بتاتا ہے۔‬

‫"پیرس کے فلک شناس حلقے کے لوگوں نے تیرہویں‬


‫صدی عیسوی کے اختتام سے لے کر چودہویں صدی‬
‫عیسوی تک کے عرصے میں عرب بطلمیوسیوں کی‬
‫آراء قبول کر کے خود کو تذبذب سے نجات دال دی اور‬
‫یہ ھئیت پر ابن الھیثم کی کتاب کے ترجمے کے بعد ہی‬
‫ممکن ہو سکا"۔ (ص ‪)642‬‬

‫آثارعلویہ کی تاریخ میں مسلمانوں اور عربوں کا مقام‪:‬‬

‫اس موضوع سے لوگوں کی اکثریت کو واسطہ نہیں رہا ہوگا ۔ یہ موضوع‬


‫توجہ سے بھی محروم رہا ہے۔ اس علم کے مورخین نے اس کے الگ الگ‬
‫موضوعات پر تحقیقات کی ہیں۔‬

‫اس حوالے سے مصنف کہتا ہے ۔‬

‫"آثار علویہ کی اصطالح کا تعلق عربی سے ہے جس کا‬


‫مفہوم وہ اشیاء یاتغیرات جن کی نمود زمین سے اوپر‬
‫اوپر ہوتی ہے ۔ اس اصطالح کا آغاز چوتھی صدی قبل‬
‫مسیح میں ہوا۔اتناثابت ہے کہ قدیم ہی سے ان کی رسائی‬
‫اہل بابل و مصر سے منقول جغرافیائی جائزوں تک رہی‬
‫جن میں کچھ سادہ سی فضائی معلومات بھی شامل‬
‫تھیں"۔ (ص ‪)611‬‬

‫مسلمان علماء کی حیثیت معلوم کرنا ممکن نہیں رہا کیونکہ اس میدان میں ان‬
‫کی تمام اہم کتب ضائع ہو چکی ہیں ۔ الکندی کے رسائل کی حیثیت اس حوالے اہم‬
‫دستاویز کی ہے۔‬

‫قدیم عربی شاعری ۔۔۔۔۔حقیقت یا افسانہ‪:‬‬

‫قدیم عربی شاعری میں اصل اور نقل کے مسئلے کو کئی مستشرقین نے‬
‫موضوع بنایا ۔ اس حوالے سے جرمن مستشرق نلڈ کے اپنی رائے پیش کرتا ہے۔‬

‫"عربی ورثے کی تدوین پہلی صدی ہجری کے اواخر‬


‫میں جاکر ہوئی اور یہ کہ روایان شعر اس شاعری کو‬
‫جو جاہلیت اور صدر اسالم سے منسوب کی جاتی ہے‬
‫کسی بھی بدّو سے جو انہیں مل جائے اخذ کر لیتے تھے‬
‫اس طرح ایک ہی قصیدے کی مختلف روایات میں‬
‫تفاوت پیدا ہو گیا "۔ (ص ‪)417‬‬

‫مصنف کہتا ہے کہ جاہلی شاعری کی ایک مقدار کے بارے میں نلڈکے اور‬
‫اھلوارد اپنے شکوک کو اسی بنیاد پر استوار کرتے ہیں کہ اس شاعری کی تدوین جلد‬
‫عمل میں نہ آسکی اور راویوں نے اسے چھ نسلوں تک زبانی روایت میں رکھا۔‬
‫اس حوالے سے مصنف متضاد آراء پیش کر تا ہے۔‬

‫’’ یورپین محققین کے ہاں اس تصور کی تصحیح کا‬


‫آغاز مشہور مستشرق سپرنگر کے ہاتھوں ہوا ۔‬
‫سپرنگرنے انیسویں صدی کے نصف ثانی میں کئی‬
‫تحقیقی مطالعے کر کے اس رائے کو غلط ثابت کیا کہ‬
‫حدیث نبوی تدوین کے بغیر محض زبانی روایت میں‬
‫جاری رہی تھی۔پھر میور نے اس امر کے ثبوت فراہم‬
‫کیے کہ قدیم عربی شاعری بہت قدیم دور میں بھی مدّون‬
‫کی جاتی رہی تھی اور اس کا نسل درنسل چلنا محض‬
‫زبانی کے وسیلے سے نہ تھا‘‘۔ (ص ‪)461,466‬‬

‫اس سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ قدیم عربی شاعری میں تحریر کا رواج‬
‫موجود تھا ۔ اس دوران روایت کا طریقہ کا ر کیا تھا اس کی کوئی وضاحت نہیں ملتی ۔‬
‫جاہلی شاعری کی روایت پر توجہ خلفائے راشدین کے دورمیں جاری رہی۔‬

‫مصنف کہتا ہے کہ اموی دور میں جاہلی شاعری کے مدّون مجموعوں کا‬
‫سراغ ملتا ہے چنانچہ فرزدق کے پاس دیوان لبید اور جاہلیت کے بعض اور دواوین‬
‫موجود تھے ۔ جاہلیت اور صدر اسالم میں شاعری کی تدوین حدیث نبوی کی تدوین‬
‫۔‬ ‫ہے‬ ‫مشابہ‬ ‫سے‬
‫قدیم عربی شاعری کی تدوین کے حوالے سے مصنف بتاتا ہے ۔‬

‫"قدیم عربی شاعری کی تدوین ظہوراسالم کے بعد تین‬


‫مرحلوں سے گزری ۔ پہال مرحلہ ‪ :‬محدود پیمانے پر‬
‫تحریر کو جاری رکھنا جس طرح دورجاہلیت سے‬
‫چالآتا تھا۔‬

‫دوسرا مرحلہ‪ :‬مدون شاعری اور زبانی متداول شاعری‬


‫کو جمع کرنا۔‬

‫تیسرامرحلہ‪ :‬علمائے لغت کی تالیفات میں شعری‬


‫مجموعوں کی بہم آوری "۔ (ص ‪)469‬‬
‫اسناد کے سلسلے میں حدیث اور شعر کی تدوین کے حوالے سے جو ابہام پایا‬
‫جاتا ہے اس کا سبب غالبا ً یہ بھی ہے کہ جاہلی شاعری حدیث نبوی سے قدیم تر ہے‬
‫اس لیے قدیم عربی شاعری کے سارے سرمائے کو مشکوک تصور کرنا درست نہیں۔‬

‫آخر میں مصنف اسالمی تہذیب کے وابستگان سے کہتا ہے کہ وہ جمود کے‬


‫اسباب کا ٹھیک طرح سے سراغ لگائیں۔‬

‫"ورثے میں ملنے والے اداروں کا حقیقت پسندانہ تجزیہ‬


‫کریں اور تقلید محض سے دامن بچاتے ہوئے دورحاضر‬
‫کی میراث انسانی کے صالح عناصر کو جرات مندی‬
‫کے ساتھ اخذ کریں ۔ یہ نہایت مشکل ہے جو ازخود عمل‬
‫میں نہیں آسکتا اس کا عمل میں آنا حقیقی معنوں میں‬
‫منجھے ہوئے ذہن اور نہایت عالی مرتبہ علماء کے‬
‫وجود پر موقوف ہے"۔ (ص ‪)417‬‬

‫حکیم نیر واسطی‬

‫مذکورہ مضمون فنون کے شمارہ ‪669‬اپریل ۔اگست ‪4114‬میں ص ‪91‬تا‪11‬پر‬


‫شائع ہوا ۔ یہ مضمون مصنف کے مجموعہ اطراف اور تالیف میں موجود نہیں ہے اس‬
‫کی وجہ صرف نظر ہی ہو سکتی ہے۔‬

‫زیر نظر مضمون میں مشہور نبض شناس حکیم نیر واسطی کے طبی کماالت‬
‫اور عربی زبان وادب سے اُن کے لگاؤ کا ذکر بڑی محبت سے کیا گیا ہے۔ مصنف‬
‫حکیم صاحب کے حوالے سے ایک واقعہ بیان کرتا ہے ۔‬

‫"یہ ‪6711‬ء کی بات ہو گی ایم اے عربی کے طالب علم‬


‫کی حیثیت سے میں اورنیٹل کالج کے ہاسٹل میں رہائش‬
‫پذیر تھا ۔ دوترک طالبعلم ایم اے اسالمیات کے سلسلے‬
‫میں یہاں مقیم تھے ۔ عارف بک اورشوکت بُولو۔ شوکت‬
‫بُولوکرسی پر دونوں ٹانگیں پھیالئے مسلسل کئی کئی‬
‫گھنٹے مطالعے میں غرق رہا کرتا ۔ حکیم صاحب کو‬
‫ترکی اور ترکوں سے والہانہ محبت تھی چنانچہ وہ‬
‫دونوں سے ملنے آتے رہتے تھے ۔ امتحان نزدیک آئے‬
‫تو شوکت بُولو بیمار پڑگیا ۔اسے اسہال کی شکایت ہوئی‬
‫جس پر دواؤں کے باوجود قابو نہ پایا جاسکا ۔ معلوم ہوا‬
‫کہ حکیم صاحب نے اس کی نبض دیکھی اور کہا کہ‬
‫میز پر ٹانگیں رکھنے کی جس وضع سے وہ مسلسل‬
‫بیٹھا رہتا ہے اس کے باعث اس کی ریڑھ کی ہڈی کا‬
‫ایک مہرہ اپنی جگہ سے ٹل گیا ہے اور وہی اس تکلیف‬
‫کا باعث ہے ۔ ایکس رے کرایا گیا تو حکیم صاحب کی‬
‫بات صحیح ثابت ہوئی ۔ اسے پلستر میں جکڑ کر کافی‬
‫دنوں تک سیدھا لٹائے رکھا گیا تب کہیں جاکر اُس کے‬
‫مہرے کی چال درست ہوئی"۔ (ص ‪)91‬‬

‫زیر موضوع مضمون میں مصنف نے حکیم صاحب کی شخصی خوبیوں کے‬
‫حوالے سے بات کی ہے ۔ تاریخ طب سے متعلق اُن کی مطبوعہ تحریروں کا ذکر کیا‬
‫ہے ۔ مصنف حکیم صاحب سے اپنے ربط خاطر کو زندگی کا قیمتی اثاثہ قرار دیتا ہے‬
‫اور ان کی اچانک وفات پر گہرے دُکھ کا اظہار کرتا ہے۔‬

‫حکیم صاحب کے حوالے سے مصنف کا یہ شعر مالحظہ ہو۔‬

‫ذرہ نوازی سے ہے ممنوں‬


‫خورشید تیری ّ‬

‫ہے ربط اُسے مدح سرائی سے بہت کم‬

‫َّ‬
‫ھذالزمان‬ ‫قالئد الجمان فے فَرائد شعراء‬

‫المشھورب‬
‫عقودالجمان فے شعراء ھذالزمان‬

‫البن الشعار‬

‫کمال الدین ابی البرکات المبارک بن ابی بکر الموصلی‬

‫تحقیق ‪ :‬ڈاکٹر خورشید رضوی‬

‫پبلشرز ‪ :‬شیخ زید اسالمک سنٹر یونیورسٹی آف پنجاب الہور ۔ اشاعت اول‬
‫‪4116‬ء ‪6244/‬ھ ۔ یہ کتاب ‪829‬صفحات پر مشتمل عربی متن میں ہے ۔ اس کا تعارف‬
‫مصنف نے انگریزی میں ص ‪7‬تا‪41‬تک تعارف کروایا ہے۔‬

‫قالئدالجمان پر یہ تحقیقی کام انتہائی مشکل اور صبرآزما تھا ۔ یہ ڈاکٹر خورشید‬
‫رضوی کی تحقیق و تدوین کا بے مثال کارنامہ ہے۔‬

‫"قالئدالجمان "پر تفصیلی مضمون محمد کاظم نے فنون کے شمارہ ‪،669‬‬


‫جوالئی تا ستمبر‪4116‬ء میں ص ‪16‬تا ‪21‬پر تحریر کیا ہے۔‬

‫یہ ایک افسوس ناک اعتراف ہے کہ ہمارے ہاں عربی ادب کی جانچ پرکھ‬
‫کرنے والے معدودے چند سکالرہیں ۔ انہی میں دواہم نام خورشید رضوی اور محمد‬
‫کاظم ہیں۔ زیر موضوع کتاب پر بات کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ بتایا جائے‬
‫کہ ڈاکٹر خورشید رضوی نے اس کتاب پر کا م کیوں کر کیا ۔اس حقیقت سے انکار‬
‫نہیں کہ وہ عربی کے مستند عالم ہیں ۔اس حوالے سے محمد کاظم لکھتے ہیں۔‬

‫’’‪ 1970‬کے بعد کی دہائی میں انہیں اس مجموعے "قالئد الجمان "کی پہلی جلد‬
‫کے م خطوطے کے ساٹھ اوراق اس مقصدسے دیے گئے کہ وہ ان اوراق کی تحقیق و‬
‫تصحیح کریں ۔ ان کے مصنف ابن الشعار کی زندگی کے حاالت معلوم کر کے لکھیں۔‬
‫متن کے نیچے جہاں ضروری ہو حواشی دیں اور یہ کام ایک تھیسز کی صورت میں‬
‫پیش کریں جس پر انہیں ڈاکٹریٹ کی سند مل سکتی ہے ۔ کام اگرچہ مشکل اور محنت‬
‫طلب تھا لیکن خورشید رضوی نے اس پر پانچ سال کا عرصہ لگا کر اسے بحسن و‬
‫خوبی انجام دیا اور ‪6786‬ء میں اس پر ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کرلی ‘‘۔ (ص‬
‫‪416‬ارمغان خورشید)‬

‫اس سے مصنف کا اصل مقصد تو پورا ہو گیا تھا لیکن ابن الشعار کی شخصیت‬
‫اور دوسرے اس مخطوطے پر تحقیقی کام کے دوران جو مشکالت پیش آئیں اس نے‬
‫مصنف کے جذبہ شوق کو مہمیز دی اور اس نے "قالئدالجمان"کی بقیہ آٹھ جلدوں کی‬
‫مائیکروفلموں کے حصول کی کوشش شروع کر دی ۔ ایک عرصے کی تگ و دو کے‬
‫بعد مقصد میں کامیابی ہوئی تو اس ذخیرہ معلومات کی مدد سے مصنف نے عربی‬
‫زبان میں دو مقاالت تحریر کیے ایک "ابن الشعاراور اس کی تصنیفات"اور دوسرا‬
‫"عقودالجمان (قالئدالجمان) کا دوسرا نام ۔ یہ اسالم آباد کی بین االقوامی اسالمی‬
‫یونیورسٹی کے رسالے "الدراسات االسالمیہ"میں شائع ہوئے۔ خالص علمی اور تحقیقی‬
‫اسلوب کی بناء انہیں اندرون ملک کے ساتھ عراق کی موصل یونیورسٹی میں بھی‬
‫پذیرائی ملی۔‬

‫مضمون نگار ابن الشعار اور اس کی تحقیق کے حوالے سے بتاتا ہے ۔‬

‫"مورخ اور ادیب ابن الشعار ‪6678‬ء میں موصل‬


‫(عراق) میں پیدا ہوکر اور اٹھاون برس کی عمر کو پہنچ‬
‫کر ‪6491‬ء میں بمقام حلب فوت ہوا ۔ وہ لڑکپن ہی سے‬
‫یہ چاہنے لگا کہ اپنے وقت کے شاعروں سے مل کر ان‬
‫کا کالم سنے اور حاالت معلوم کرے ۔ اس شوق کی‬
‫تکمیل میں اس نے تقریباًپچاس برس صرف کر دیے جو‬
‫کچھ اکٹھا کیا تھا اسے اس نے دومجموعوں میں ترتیب‬
‫دیا۔ "تحفۃ الوزراء "اور دوسرا "قالئد الجمان" موخر‬
‫الذکران شعراء کا تذکرہ ہے جو ‪6414‬ء سے تیرھویں‬
‫صدی کے وسط تک زندہ رہے ۔ یہ دس جلدوں پر‬
‫مشتمل تذکرہ تھا ۔ ابن الشعار کی وفات کے دوسال بعد‬
‫ہی تاتاریوں کے حملے کی صورت میں ادب وفن کے‬
‫سارے خزانے مٹی میں مل گئے ۔ اس افراتفری میں‬
‫قالئدالجمان کے مخطوطے کی دوسری نقل بھی نہ تیار‬
‫کی جاسکی بلکہ دس جلدوں میں سے دو جلدیں (دوسری‬
‫اور آٹھویں) بھی ضائع ہو گئیں۔ اس مخطوطے کی باقی‬
‫آٹھ جلدیں ترکی میں استنبول کی عثمانیہ الئبریری میں‬
‫موجود پوری دنیا میں اس مجموعے کا واحد مخطوطہ‬
‫ہے"۔ (ص ‪411‬تا‪416‬ایضا ً)‬

‫مضمون نگار بتاتا ہے کہ خورشید کے مذکورہ دومقالے موصل یونیورسٹی‬


‫پہنچے تو قالئدالجمان کی آٹھ جلدوں میں سے چھ پر کام کا آغاز ہو چکا تھا ۔ دوجلدیں‬
‫(چوتھی اور چھٹی ) رہ گئی تھیں اس وجہ سے کہ ان کے مخطوطات کا خط بہت‬
‫خراب تھا اور کوئی انہیں لینے کے لیے تیار نہ تھا ۔ چنانچہ کچھ مراسلت کے بعد‬
‫متعلقہ یونیورسٹی کے استاد نے ڈاکٹر خورشید کو مخطوطے کی چھٹی جلد پر کام‬
‫کے لیے آمادہ کر لیا ۔ خورشید رضوی نے سات آٹھ سال کی تھکا دینے والی محنت‬
‫اور عرق ریزی سے اس مخطوطے کی عبارتوں کو کئی عدسوں اور لغت و ادب کی‬
‫کئی کتابوں کی مدد سے روشن کر کے پڑھنے کے قابل بنا دیا ۔ ابن الشعار کی‬
‫بدقسمتی دیکھیے کی جب تدوین و اشاعت کا وقت آیا خلیج کی جنگ چھڑ گئی اور‬
‫سارے منصوبے دھرے رہ گئے لیکن جب جامعہ پنجاب کے شیخ زید اسالمی مرکز‬
‫کی مدیر ڈاکٹر جمیلہ شوکت کو جب اس کا علم ہوا تو انہوں نے اسے مرکز کی طرف‬
‫سے شائع کروادیا یوں قالئدالجمان کی چھٹی جلد منظر عام پر آگئی۔‬

‫تبصرہ نگار کہتا ہے کہ تیرھویں صدی میں عرب قوم کی ادبی زندگی کا‬
‫منظرکیا تھا اس کتاب میں اس کا مفصل احوال ملتا ہے ۔ اس زمانے کے فکری و‬
‫جذباتی میالنات کا پتہ چلتا ہے۔‬

‫مبصر خورشید رضوی کے حوالے سے کہتا ہے۔‬

‫"اگر رقم السطور نے ان کے اس کام کا "فنون "میں‬


‫تعارف نہ کرایا ہوتا تو پاکستان میں کسی کو پتا بھی‬
‫نہیں چلتا کہ انہوں نے کتنا بڑا کام کیا ہے اور اس کے‬
‫لیے کتنی جان ماری ہے۔ اس اعتبار سے میں انہیں‬
‫پاکستانی معاشرے میں بہت اونچا مقام دیتا ہوں اور امید‬
‫کرتاہوں کہ ایک نہ ایک ان کے علم و فضل کی ضرور‬
‫مناسب قدر افزائی ہو گی اور انہیں وہ مقام دیا جائے گا‬
‫جس کے وہ مستحق ہیں "۔ (ص ‪678‬ایضا ً)‬

‫مزید تفصیل کے لیے ارمغان خورشید کے ص ‪679‬تا‪461‬پر دیکھیں۔‬

‫جہاں تک میری ذاتی رائے ہے کہ اس مجموعے کو پذیرائی نہ ملنے کی وجہ‬


‫زبان کا بُعد ہے کیونکہ ہمارے ہاں عربی تعلیم و تربیت کا کوئی مناسب انتظام نہیں‬
‫ہے ۔ اس کتاب کی اہمیت سے انکار نہیں لیکن اس کا مطالعہ اُردوادب کے قاری کے‬
‫لیے بہت مشکل ہے بلکہ عربی زبان کے عالم ہی پڑھ سکتے ہیں ۔ عام عربی کے‬
‫طالب علم کے لیے بھی یہ جان جوکھم سے کم نہیں۔ ٰلہذا اسے قابل مطالعہ کتاب بنانے‬
‫کے لیے اس کا اُردو ترجمہ ضروری ہے ۔ درحقیقت اُردو ادب کی صحیح خدمت ہی‬
‫یہ ہو گی ۔ یہ کام مصنف کے عالوہ کوئی اورانجام دے سکتا ہے۔‬

‫خورشید رضوی کی شاعری‪:‬‬

‫زندگی کے گوناگوں تجربات و مشاہدات نہ صرف انسان کی تعمیر سیرت میں‬


‫مرکزی کردار اداکرتے ہیں بلکہ شاعری میں بھی بنیاد گزار ثابت ہوتے ہیں۔ اس لیے‬
‫شخصیت و شاعری ایک دوسرے کے ترجمان بن جاتے ہیں ۔اگر بنظر غائر دیکھیں تو‬
‫شاعری بھی آپ بیتی ہی ایک قسم ہے اور خوش آئند بات یہ ہے کہ یہ قارئین‬
‫کوخودبیتی محسوس ہونے لگتی ہے ۔ ایک سچا شاعر عصری حاالت سے متاثرہوئے‬
‫نہیں رہ سکتا اور انہیں نشیب و فراز کو وہ اپنی شاعری میں سمودیتا ہے۔‬

‫خورشید رضوی کی شاعری کو پرکھنے کے لیے اس کا نظریہ شاعری ہی‬


‫سب سے بڑا پیمانہ ہے ۔ اب یہ قاری کے تنقیدی شعور پر ہے کہ وہ اس سے کیا نتائج‬
‫اخذ کرتا ہے جو کچھ شاعر نے کہا ہے وہ سخن وری کے معیار پر کہاں تک پورا‬
‫۔‬ ‫ہے‬ ‫اُترتا‬
‫خورشید رضوی نے نازونعم میں پرورش نہیں پائی ۔ زندگی کے تلخ حقائق کے بارے‬
‫میں اُس کا تجربہ اور مشاہدہ براہ راست ہے لیکن شاعر اس لحاظ سے خوش قسمت‬
‫ہے کہ باوجود معاشی تنگ دستی کے اس کی پرورش علمی و ادبی ماحول میں ہوئی‬
‫اس کی وجہ اس کے ماموں صاحبان تھے ۔ والد کے سایہ شفقت سے بچپن ہی سے‬
‫محرومی نے اس کی شخصیت کا یہ خالکبھی پُرنہ کیا ۔ والد سے محبت کی کَلی شاعر‬
‫کے دل میں ہمیشہ مہکتی رہی اس کا ثبوت یہ شعر ہے۔‬

‫ہم تجھے بھول کے خوش بیٹھے ہیں‬


‫ہم سابے درد کوئی کیا ہو گا‬

‫خورشید رضوی کی شاعری دردمندی اور انسان دوستی کے اوصاف سے‬


‫مزیّن نظر آتی ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ اپنے عہد کا کتنابڑا نباض ہے ۔‬
‫خورشید رضوی کے شعری اثاثے میں درج ذیل مجموعے شامل ہیں۔‬

‫شاخ تنہا۔‪641‬صفحات پر مشتمل یہ کتاب ‪6792‬میں شائع ہوئی ۔ دوسری‬


‫اشاعت‪6792‬ء‪،‬تیسری اشاعت ‪4119‬اور چوتھی اشاعت یکجا(کلیات) کی صورت میں‬
‫‪4164‬میں شائع ہوئی۔‬

‫انتساب مجید امجد کے نام ہے ۔ پیش لفظ ڈاکٹر وزیر آغا کا تحریر کردہ ہے‬
‫۔سخن ہائے گفتی کے عنوان سے شاعر نے کتاب کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار‬
‫کیا ہے ۔ زیر موضوع کتاب کا نام شاعر نے اپنے اس شعر سے اخذکیا ہے۔‬
‫تم صباکی طرح آئے اور رخصت ہو گئے‬

‫ہم مثال شاخ تنہا دیر تک لرزاں رہے‬

‫ادب کی ہر صنف روایت اور جدت کی مظہر ہے ۔ کسی ایک سلسلے سے‬
‫انحراف کر کے صرف ایک ہی کو ترجیح دینا مثبت نتائج سامنے نہیں التا ۔ خورشید‬
‫رضوی کی شاعری کو دیکھیں تو ان کا شمار جدید شعراء میں ہوتا ہے لیکن انہوں نے‬
‫غزل کے کالسیکی سرمایے سے بھی روگردانی نہیں کی۔‬

‫زیر نظر مجموعے میں مذکورہ باال رجحانات کا سنگم پہلو بہ پہلو دکھائی دیتا‬
‫ہے جو احساسات کو ایک اچھوتے تاثر سے روشناس کراتا ہے ۔ اسلوب میں سادگی‬
‫اور برجستگی اس قدرباکمال ہے کہ بڑے سے بڑا مضمون بھی باآسانی کہہ جاتے‬
‫ہیں۔ اس مجموعے میں شامل غزلوں میں رومانیت کے ساتھ زمانے کے مجموعی‬
‫رویے پر بات کرتے ہوئے خود اپنی تالش کا عمل بھی جاری ہے۔‬

‫ہزاروں فلسفوں کی خاک اڑائی تب کہیں‬


‫جاکر‬
‫طبیعت میں خیال پیش پا افتادہ بیٹھا ہے‬
‫چاردن کو ہے یہاں شرط اقامت کیا کیا‬
‫فرصت زیست میں شامل ہے مصیبت کیا‬
‫کیا‬

‫بعض اوقات زندگی میں تمام تر آسائشوں کے باوجود ایسا مقام آتا ہے کہ انسان‬
‫پر عجیب بے بسی اور جھنجھالہٹ کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے ۔ اپناوجود ہی اس‬
‫کے لیے کسی مصیبت سے کم نہیں ہوتا ۔‬

‫فرصت کہاں کہ غیر سے ہم دشمنی کریں‬


‫اپنا وجود ایک مصیبت ہے تہ بہ تہ‬

‫حقیقت سے فرار کا رویہ تخیل اور رومانیت میں پناہ لینے پر آمادہ کرتا ہے‬
‫۔ایسا رویہ بے عملی کا آئینہ دار ہے۔‬

‫آنکھ کھلنے پر ملے شائد مرادوں کا‬


‫جہاں‬
‫چند صدیوں تک کہیں غاروں میں سونا‬
‫چاہیے‬

‫شاعر کی رومانیت میں معصومیت کا رویہ ایک نئے پہلو سے سامنے آتا ہے‬
‫جس میں وہ کہتا ہے۔‬

‫دو حرف تسلی کے جس نے بھی کہے‬


‫کو‬ ‫اُس‬
‫افسانہ سنا ڈاال ‪،‬تصویر دکھا ڈالی‬
‫لبوں پہ آج سربزم آگئی تھی بات‬
‫مگر وہ تیری نگاہوں کی التجا کہ "نہیں"‬

‫کالسیکی روایت کی عکاسی کرتے ہوئے یہ اشعار‬


‫مالحظہ ہوں۔‬

‫خود اپنا حال سناتے حجاب آتا ہے‬


‫ہے بزم میں کوئی دیرینہ آشناکہ نہیں‬
‫پڑونہ عشق میں خورشید ہم نہ کہتے‬
‫تھے‬
‫تمہی بتاؤ کہ جی کا زیاں ہوا کہ نہیں‬

‫انسانی مزاج یکسانیت سے ہمیشہ نفوررہاہے کب کیا ہوجائے کچھ پتا نہیں ۔‬
‫اسی کیفیت کا اظہار شاعر اس شعر میں کرتا ہے۔‬

‫دوستو! میری طبیعت کابھروسہ کچھ نہیں‬


‫ہنستے ہنستے آنکھ میں رنگ مالل‬
‫گا‬ ‫آجائے‬

‫شاعر ایسے عشق کا قائل ہے جو سربازار رسوائی کا باعث نہ بنے ۔ایک‬


‫سرورانگیز کیفیت اندرہی اندر گھائل کرتی رہے لیکن اس دھڑکن کی آواز کوئی‬
‫دوسرا نہ سنے۔‬
‫یہی ہے عشق کہ سردو‪،‬مگر دہائی نہ دو‬
‫وفورجذب سے ٹوٹو مگر سنائی نہ دو‬
‫یہ دوروہ ہے کہ بیٹھے رہوچراغ تلے‬
‫سبھی کو بزم میں دیکھو مگر دکھائی نہ‬
‫دو‬

‫شعروں کا انتخاب واردات قلبی کو آشکاراکرنے کے لیے کافی ہے جیسے لب‬


‫نہ بھی ہلیں آنکھیں سب بیان کر دیتی ہیں ۔ اسی طرح شاعر کے اشعار بھی اس کے‬
‫تجربات عشق اور دلی کیفیات کے غماز ہیں ۔محبت کا جاں گسل جذبہ انسان کو اندرہی‬
‫اندر گھالئے رکھتا ہے۔‬

‫کب نکلتا ہے کوئی دل میں اُتر جانے کے‬


‫بعد‬
‫اس گلی کے دوسری جانب کوئی رستا‬
‫نہیں‬
‫یوں تراشوں گا غزل میں تیرے پیکر کے‬
‫نقوش‬
‫وہ بھی دیکھے گا تجھے جس نے تجھے‬
‫نہیں‬ ‫دیکھا‬

‫مختصر یہ کہ خورشید رضوی کے اس اولین شعری مجموعے میں‬


‫موضوعات کے تنوع کی جو رنگا رنگی ملتی ہے اس سے اس کے شعری سفر کے‬
‫روشن مستقبل کا اندازہ ہو تا ہے۔‬

‫سرابوں کے صدف‪:‬‬

‫خورشید رضوی کا دوسرا شعری مجموعہ پہلی بار ‪6786‬ء اور دوسری بار‬
‫‪6779‬ء میں شائع ہوا ۔ تیسری بار ‪4119‬ء اور چوتھی بار ‪4164‬ء میں شائع ہوا‬
‫۔انتساب والدہ صاحبہ کے نام ہے۔‬
‫اس مجموعے میں ‪17‬غزلیں اور ‪11‬نظمیں جن میں نوحے بھی شامل ہیں اس‬
‫میں "شاخ تنہا"سے پہلے کی کاوشیں بھی شامل ہیں ۔ مجموعے کی ترتیب میں زمانی‬
‫ترتیب کو پیش نظر نہیں رکھاگیا ۔ آغاز مناجات اور نعت سے ہوتا ہے ۔ مجموعے کا‬
‫نام اس شعر سے مستعار ہے۔‬

‫گرد صحرا کے ہدف ہیں ہم سرابوں کے‬


‫صدف‬
‫ہم پہ دوآنسوبہا اے ابر نیساں ایک دن‬

‫اس مجموعے کی غزلوں میں دل کا لفظ مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے۔‬

‫نام ایسا ہے تیرا ‪ ،‬جب بھی زباں پر آئے‬


‫دل میں اک خنجرتصدیق اُترتا جائے‬

‫چند غزلیں ایسی ہیں جن کی ردیف میں دل کا لفظ موجود ہے۔‬

‫کوئی نہیں ہے جوان سیپیوں کو کھول‬


‫سکے‬
‫پڑے ہیں الکھ سخن ہائے گفتنی دل میں‬

‫ناسٹلجیاکی کیفیت ہر شاعر کے ہاں مختلف اندازمیں ملتی ہے لیکن ملتی‬


‫ضرورہے ۔ خورشید کے ہاں اس کا اظہار اس طرح سے ہے۔‬

‫میں شب وروز کا حاصل اسے لوٹا دوں‬


‫گا‬
‫وقت اگر میرے کھلونے مجھے واپس‬
‫کردے‬

‫محبت میں ناکامی انسان کو دنیا سے بیگانہ اور تنہاکردیتی ہے ۔ جب محبوب‬


‫بوجوہ کہیں دور جابساہوتو عجب بے بسی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔‬
‫‪1‬‬

‫مجموعے کے آخر میں چند نوحے دنیا سے اچانک منہ موڑنے والے ان‬
‫پیاروں کی یادمیں ہیں جو درحقیقت ہر انسان کو اپنے دل کی آواز محسوس ہو تے‬
‫ہیں۔‬

‫اکیس اپریل کے حوالے سے نظم نوحہ نہیں بلکہ موت کی کیفیت کا بیان ہے‬
‫کہ وہ کس طرح شاعر مشرق سے اجازت طلب کرتی ہے ۔‬

‫عبدالنبی کو کب کے نام سے نوحہ ہے جو شاعر کا بے تکلف دوست اور‬


‫جواں سال عالم دین تھا ۔ اچانک حادثے میں آناًفانا ً جاں بحق ہو گیا ۔ اس نوحے کی‬
‫تفصیل یکجا(کلیات) سرابوں کے صدف کے حوالے سے ص ‪612‬پر مالحظہ ہو ۔‬
‫مزید برآں دیگر نوحے بھی مذکورہ مجموعے کے ص ‪611‬تا‪622‬پر دیکھے جاسکتے‬
‫ہیں۔‬

‫سرابوں کے صدف کے لیے مزید تفصیل ارمغان خورشید ص ‪617‬تا ‪621‬پر‬


‫دیکھیں۔‬

‫رائگاں‪:‬‬

‫یہ مجموعہ ‪648‬صفحات پر مشتمل ہے ۔ اشاعت اول ‪6771‬ء اور اشاعت دوم‬
‫‪4119‬ء ‪ ،‬اشاعت سوم ‪4164‬ء میں الحمد پبلی کیشنز الہور سے شائع ہوئی (مذکورہ‬
‫دوم اور سوم یکجا(کلیات) میں شائع ہوئے ۔ انتساب ثریا کے نام اس شعر کے ساتھ‬
‫ہے۔‬

‫میں ساتھ تیرے شورش طوفاں کے لیے‬


‫ہوں‬
‫توساتھ میرے راحت ساحل کے لیے ہے‬

‫پیش لفظ منیرنیازی نے تحریر کیاہے ۔ آغاز مناجات اور نعت سے ہوتا ہے ۔‬
‫مذکورہ مجموعہ غزل ‪ ،‬نظم اور رباعیات پر مشتمل ہے ۔‬
‫خورشید رضوی کے حوالے سے منیرنیازی کی رائے ہے۔‬

‫"وہ نمائش شعرسے زیادہ تخلیق شعر میں مبتالرہتے‬


‫ہیں"۔ (ص ‪،66‬یکجا)‬

‫خورشید رضوی کی شعری فکر مزاجاًرومانویت پسند ہے لیکن اس کا مطلب‬


‫یہ نہیں کہ وہ حقیقت پسندی سے دور ہیں۔‬

‫یہ زمانہ کیا ہے تیرے سمندرکی گرد ہے‬


‫نہیں انکسار سے مانتا تو غرورکر‬

‫زندگی میں کوئی انسان ایسا نہیں جو مشکالت اورغموں سے دوچار نہ ہوا‬
‫لیکن احاطہ تحریرمیں الکر اس طرح پیش کرنا وہ ہر انسان کو اپنے ہی دل کی آواز‬
‫محسوس ہو یہ بھی کمال فن ہے۔‬

‫اپنے‬ ‫تھے‬ ‫نہیں‬ ‫خدوخال‬ ‫یہ‬


‫عجیب‬ ‫حاالت‬ ‫ہمیں‬ ‫آئے‬ ‫پیش‬

‫کالسیکی روایت کی جھلک اس کے ہاں کسی نہ کسی صورت میں اپنی جھلک‬
‫دکھاجاتی ہے۔‬

‫ہم کبھی چاک گریباں تھے کبھی خاک‬


‫بسر‬
‫کرگزرتے رہے جو عشق میں بن آتی‬
‫رہی‬

‫شخصیت کے اظہار اور گریز کی کشمکش خورشید رضوی کی شاعری میں‬


‫بارہانظرآتی ہے۔‬

‫اب سے پہلے وہ میری ذات پہ طاری‬


‫تھا‬ ‫تونہ‬
‫دل میں رہتاتھا مگر خون میں جاری تونہ‬
‫تھا‬

‫زیرنظر مجموعے میں ’’سات سمندر پار وطن کی یاد‘‘ ‪ ،‬اور’’ افغانستان کے‬
‫لیے ایک نظم ‘‘ افغانستان پر روسی حملے کی چھٹی یلغار کے حوالے سے ہے جس‬
‫میں وہ عہد رفتہ کے فاتحین کو یادکرتا ہے۔‬

‫موسم ہمیشہ ہر انسان کے اندرہوتا ہے ۔باہر کا موسم اس وقت تک اثر پذیر‬


‫نہیں جب تک دل اسے قبول نہ کرے۔‬

‫حاالت کی گردش شخصیت کا منظر نامہ‬


‫ہے۔‬ ‫دیتی‬ ‫رکھ‬ ‫کر‬ ‫بدل‬ ‫ہی‬
‫کلی دل کی کہاں کھلتی ہے باہر کی‬
‫سے‬ ‫بہاروں‬
‫کہ اب اندرسے سب منظرہمارے بدلے‬
‫ہیں‬ ‫بدلے‬

‫شاعر اپنی طبیعت کے ایک اور رنگ سے متعارف کرواتا ہے کہ محفلوں کو‬
‫رونق بخشنے کے باوجود تنہائی اس کے وجود کا حصہ بن چکی ہے۔‬

‫تم کو میری افتاد کا اندازہ نہیں ہے‬


‫تنہائی صلہ ہے میرا خمیازہ نہیں ہے‬

‫یہ مجموعہ موضوعات کے تنوع سے بھرپورہے ۔ مزید تفصیل کے لیے فنون‬


‫کا شمارہ ‪661‬اپریل تا جوالئی ‪6777‬ء ص ‪166‬تا ‪161‬پر دیکھیں۔‬

‫امکان‪:‬‬

‫زیر نظر مجموعہ الحمد پبلی کیشنز الہور سے ‪4112‬ء میں شائع ہوا ۔ یہ‬
‫مجموعہ اس امر کا بین ثبوت ہے کہ شاعر کا تخلیقی عمل جمود کا شکار نہیں ہوا‬
‫بلکہ ارتقاء کا عمل جاری ہے ۔وہ غزل کی روایت میں تغزل سے بھرپور نبھاکرتا ہوا‬
‫نظر آتا ہے ۔ مذکورہ مجموعے کا انتساب عابد صدیق کے نام ہے ۔ پیش لفظ اعجاز‬
‫حسین بٹالوی نے تحریر کیا ہے ۔ حرف سپاس کے عنوان سے شاعر نے مختصراًچند‬
‫باتیں کی ہیں۔ آغاز حمد و نعت سے ہوتا ہے۔‬

‫عشق و محبت کے موضوعات شاخ تنہا سے امکان تک‬


‫پھیلے ہوئے ہیں۔‬

‫دل وہ پاگل ہے کہ ہوجائے گا غرقاب‬


‫وہیں‬
‫جھیل کی تہ میں اگر عکس قمر پیداہو‬

‫کائنات کے اسرارورموز ہمیشہ سے انسان کی سمجھ سے باال تر رہے ہیں اس‬


‫کے لیے مختلف شعراء اور مفکرین نے اپنے اپنے نظریات پیش کیے ہیں۔ شاعر بھی‬
‫اسی کیفیت کا شکار نظر آتا ہے۔‬

‫ہم نے بھی بہت غور کیا رازجہاں پر‬


‫حکمت نہ ُکھلی کوئی ‪ ،‬مشیئت کے‬
‫عالوہ‬

‫گردش دوران کا اثر انسان کی شخصیت پر کسی نہ کسی حوالے سے‬


‫ضروراثرانداز ہو تا ہے ۔ دلی ٰقوی اور فکری صالحیتیں اس کا تاثر ضرورقبول کرتی‬
‫ہیں۔ کالسیکی روایت کا عکاس یہ شعر‬

‫زبان سے میں بھی لگایا کیا بہت پیوند‬


‫کسی طرح میرے دل کی شکستگی نہ‬
‫گئی‬
‫اس مجموعے میں غزلوں کے عالوہ نظمیں بھی شامل ہیں جن کی انفرادیت‬
‫شاعر کے فکری ارتقاء کی دلیل ہیں ۔ اس مجموعے میں شامل نظم "تہ دل "ہشت‬
‫پہلونظم ہے جس میں شاعر ذات کے پہلو سے شناسا ہونا چاہتا ہے۔‬

‫زندگی کی بے ثباتی اور موت کے حوالے سے ایک غزل میں شاعر اپنے‬
‫تاثرات اس طرح پیش کرتا ہے۔‬

‫غرض حیات کے سب امتحان ختم ہوئے‬


‫بس اب تو موت مجھے آزمانے آئے گی‬

‫شاعر زندگی کی تلخیوں اور معاشرتی ناہمواریوں کو برداشت کرتے کرتے‬


‫تھک چکا ہے ۔اب خیاالت کو لفظوں کاروپ دے کر وہ کیتھا رسس کرتا ہے اور‬
‫دعوت عمل دیتا ہے۔‬

‫وہ بھی ہیں بہت عقل پہ نازاں کہ جنہوں‬


‫نے‬
‫خلقت پہ نئے ظلم کے انداز نکالے‬

‫تعالی کی نعمتوں کا ذکر اور شکر کرتا‬


‫ٰ‬ ‫مجموعے کے آخری شعر میں حق‬
‫ہے۔‬

‫تیرے کرم سے قدم کو سہارتی ہے زمیں‬


‫میراغرورسالمت تیرے کرم سے ہے‬

‫شاعر کے ہاں مجھے کہیں کہیں تضاد کی کیفیت نظر آتی ہے مثالً یہ اشعار۔‬

‫صلہ تو میرے سخن کا کسی کے پاس‬


‫کہاں‬
‫مجھے خدا نے طلب گار دادبھی نہ کیا‬
‫ہو‬ ‫مالحظہ‬ ‫شعر‬ ‫یہ‬ ‫اب‬
‫مجھ سے محروم رہا ‪ ،‬میرا زمانہ‬
‫خورشید‬
‫مجھ کو دیکھا ‪ ،‬نہ کسی نے مجھے جانا‬
‫خورشید‬

‫مختصر یہ کہ شاعر نے اس مجموعے میں زندگی کے تمام پہلوؤں اور تلخ و‬


‫شیریں حقائق کو واشگاف انداز میں بیان کیا ہے ۔‬

‫مجموعے کا عنوان اس سے شعر مستعار‬


‫ہے۔‬
‫رہا‬ ‫ماتم‬ ‫یہ‬ ‫پیہم‬ ‫میں‬ ‫پیادل‬
‫رہا‬ ‫غم‬ ‫کا‬ ‫امکان‬ ‫اپنے‬ ‫مجھے‬

‫دیریاب‪:‬‬

‫زیر نظر مجموعہ القاپبلی کیشنز سے ‪4161‬ء میں پہلی بار شائع ہوا ۔ انتساب‬
‫ڈاکٹر توصیف تبسم کے نام ہے ۔ مجموعے کا عنوان اس سے شعر سے مستعار ہے ۔‬

‫گزرا کرے سفید و سیہ سیل روزوشب‬


‫اک ُکنج دیریاب میں سوئے ہوئے ہیں ہم‬

‫پیش لفظ ڈاکٹر اسلم انصاری نے تحریر کیا ہے ۔ مجموعہ غزلوں ‪،‬نظموں اور‬
‫متفرق اشعار پر مشتمل ہے ۔ آغاز حمد اور نعت سے ہوتا ہے۔‬

‫خورشید رضوی کی شاعری کی یہ خصوصیت کہ اس نے زندگی کے خارجی‬


‫عناصر کو داخلی تجزیے کے حوالے سے دیکھا ہے جس میں ہر قاری کو آپ بیتی‬
‫کی صورت نظر آتی ہے اور داخلیت و خارجیت کا ایک خوب صورت امتزاج بھی پیدا‬
‫ہے۔‬ ‫جاتا‬ ‫ہو‬
‫خورشید رضوی کی غزل تغزل کے آہنگ سے بھر پور ہے ۔ اس کے ہاں احساس کی‬
‫شدت کے ساتھ خیال کی ندرت بھی نظر آتی ہے۔‬
‫تصویر لب یار سے ‪ ،‬سوکھے ہوئے ُگل‬
‫سے‬
‫سرخی بھی چلی جائے تو خوشبو نہیں‬
‫جاتی‬

‫خورشید رضوی کی شاعری اس کی دلی کیفیتوں کی غماز ہے ۔دل سے‬


‫صرف نظر کر کے جو شاعری تخلیق کی جائے وہ اسے باطل سمجھتا ہے۔‬

‫سخن سے ہے خموشی‬
‫بے سبب مشق ُ‬
‫اچھی‬
‫حرف باطل ہیں اگر دل سے اجازت نہیں‬
‫لی‬

‫خورشید رضوی کے ہاں عشق ومحبت اور پھر اس میں ناکامی کے تجربے کا‬
‫اظہار پہلو بہ پہلو ملتا ہے۔‬

‫شوق نے تیرے رکھاسب سے ُگریزاں‬


‫ایسا‬
‫رفتہ رفتہ مجھے مغرورکہاجانے لگا‬

‫انسان زندگی میں کچھ چیزوں کو بھولنا بھی چاہتا ہے لیکن جب وہ حافظے‬
‫سے نکل جاتی ہیں تو بھی وہ حیران و پریشان ہوتا ہے اسی کیفیت کا عکاس یہ‬
‫شعرہے۔‬

‫وقت نے آخر تیری صورت بھالئی کس‬


‫طرح‬
‫کیسے جابر حافظے نے مات کھائی کس‬
‫طرح‬
‫اس مجموعے میں شامل دونظمیں "ماں کے لیے ایک نظم "اور ماں کی یاد‬
‫میں ایک نظم "ص ‪662‬تا‪661‬تاثرسے بھرپور اور ہر دل کی صدا ہیں۔‬
‫چنداشعارمالحظہ ہوں ۔‬

‫راستہ بندجو ہو ‪،‬ماں کی دعاؤں سے‬


‫کھلے‬
‫ماں کے اشکوں سے میرا نامہ اعمال‬
‫دُھلے‬

‫مختصر یہ کہ "دیریاب"زندگی کے داخلی و خارجی عناصر کا رنگا رنگ ُگل‬


‫دستہ ہے جس میں تمام جذبے پھولوں کی مانند مہکتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔‬

‫نسبتیں (حمد و نعت ‪ ،‬سالم ‪ ،‬منقبت ‪ ،‬مجموعہ نعت)‬

‫زیر موضوع مجموعہ نعت ‪ ۱۱۸‬صفحات پر مشتمل انٹرنیشنل نعت مر کز‬


‫الہور سے ‪۱۰۱۶‬ء میں شائع ہوا ۔ قیمت ‪ ۱۱۰‬روپے ہے۔ شاعر ‪ ،‬ڈاکٹر خورشید‬
‫رضوی ‪ ،‬ترتیب ارسالن احمد ارسل ۔ دیباچہ ڈاکٹر ریاض مجید نے تحریر کیا ہے۔‬

‫زیر نظر کتاب کے مندرجات میں حمد و منا جات ‪ ،‬نعتیں ‪ ،‬سالم و مرثیہ اور‬
‫مناقب شامل ہیں مجموعہ ہذا میں پنجابی اور فارسی کالم بھی شامل ہے۔‬

‫شاعری کا ارفع تصور قائم کرنے کے لیے شاعری کے معیار کو مد نظر‬


‫اعلی معیار کے لیے فکر کی بلندی اور الفاظ کے چناؤ میں‬
‫ٰ‬ ‫رکھنا ضروری ہے ۔‬
‫ترتیب و تنظیم ہی شا عری کی اصل روح ہے۔ ہر دور میں شعراء نے نعت گوئی کے‬
‫لیے اپنے اپنے انداز میں طبع آزمائی کی ہے۔ اپنی فکر اور اسلوب کی بناء پر فن کی‬
‫بلندیوں کوچھونے والے شعراء کی تعداد زیادہ نہیں ہے۔ موجودہ دور میں نعت گوئی‬
‫کے حوالے سے خورشید رضوی کا مقام متعین کرنے کے لیے قاری کو کسی کوہ‬
‫گراں سے نہیں گزرنا پڑتا کیونکہ اس کا ثبوت شاعر کے اشعار کی لفظی و معنوی‬
‫ہئیت خود ہی دیتی ہے۔ اس کے ساتھ شاعر نے شعری روایات کی پاسداری کو بھی‬
‫رکھا۔‬ ‫خاطر‬ ‫ملحوظ‬
‫تعالی کی شان‬
‫ٰ‬ ‫زیر تبصرہ مجموعے کے پہلے حصے حمدو مناجات میں شاعر اللہ‬
‫کبریائی بیان ک رتا ہے اور اس کی ذات کو اپنی تنہائی کی جان اور دل کی رونق‬
‫سمجھتا ہے۔ کائنات کی ہر شے میں اسے خدا کی ذات کا ر فرما نظر آتی ہے۔‬

‫نمونہ کالم‪:‬‬

‫تجھ سے جی لگتا ہے میرا‪ ،‬جان تنہائی‬


‫تو‬ ‫ہے‬
‫میرے اندر کا جہاں ہے‪ ،‬دل کی گہرائی‬
‫تو‬ ‫ہے‬
‫ہے میرے ظرف سے باہر تیری عظمت‬
‫تضاد‬ ‫کا‬
‫چھوڑ دے میرے لئے اپنے تنوع کا‬
‫جالل‬

‫زیر نظر مجموعے کا دوسرا حصہ نعتیں کے عنوان سے ہے۔ جس میں شاعر‬
‫حضور سر ور کونین ﷺ کی ذات اقد س کو اپنے سب دکھوں کا مداوا اور راحت جاں‬
‫حضور کی آخری آرام گاہ روضہ مبارک اورمدینہ کو اپنے لیے رحمت‬
‫ؐ‬ ‫قرار دیتا ہے۔‬
‫کا سایہ قرار دیتا ہے۔ مدینہ سے دوری کو شاعر اپنے لیے مصیبت قرار دیتا ہے۔ یہ‬
‫دوری اس پر گراں گزرتی ہے۔ دررسالت سے فیض یابی اس کے لیے دنیا کی سب‬
‫سے بڑی سعادت ہے اور وہ اس سعادت پر نازاں ہے کہ اسے اس قابل سمجھا گیا وہ‬
‫خواہش کرتا ہے جس طرح کعب بن زہیر کو مشہور قصیدہ بانت سعاد سنانے پر‬
‫حضور نے اپنی چادر عنایت فرمائی اور امام بوصیری کو قصیدہ بردہ کے بدلے‬
‫ؐ‬
‫خواب میں چادر عنایت فرمائی اسی طرح وہ بھی ردائے رسول ؐ کا متمنی ہے۔ وہ‬
‫حضور نے نہایت سادگی سے زندگی‬
‫ؐ‬ ‫مدینہ جا کر اسی دور سادہ کا متالشی جس میں‬
‫گزاری ۔ وہ کہتا ہے کہ دشمنوں کے لیے بھی ان کی ذات ؐ باعث رحمت ثابت ہوئی۔‬
‫آپ کا اسم مبارک تمام بالؤں کو رد کر دیتا ہے۔‬
‫ؐ‬
‫نمونہ کالم ‪:‬‬

‫دشمنوں تک بھی فیض رسانی اس کی‬


‫احمد‬
‫ؐ‬ ‫سارے عالم کے لیے رحمت سر مد‪،‬‬
‫ہے یہ وہ نام کہ ظلمت میں اجاال کردے‬
‫پڑھ کے پھونکیں تو بالؤں کو کر دے‬
‫احمد‬
‫ؐ‬ ‫رد‪،‬‬

‫مجموعے کا تیسرا حصہ سالم و مرثیہ پر مشتمل ہے۔ جس میں وہ آل حسین‬


‫کی عظمت کو سالم پیش کرتا ہے اور امام حسین ؑ کو راہ حق میں شہادت کا رتبہ پانے‬
‫پر سالم پیش کرتا ہے ۔ ابن علی کی الم ناک شہادت پر مرثیہ شاعر کا ہل بیت کو زبر‬
‫دست خراج عقیدت ہے۔‬

‫نمونہ کالم‪:‬‬

‫کیا کیا ُگہر لُٹے سر میدان کربال‬


‫حسین کی‬
‫ؑ‬ ‫ہے یاد آسماں کو سخاوت‬
‫پائے یزید کو نہ رہاچاردن ثبات‬
‫حسین ہے‬
‫ؑ‬ ‫برپا ہے آج تک وہ قیامت‬

‫زیر تبصرہ مجموعہ کالم کا چوتھا حصہ مناقب پر مشتمل ہے جس میں شاعر‬
‫تین بزرگان دین حضرت علی ہجویری گنج بخش ‪ ،‬بابا فرید گنج شکر اور اپنے جد ّ‬
‫امجد شاہ ابن المعروف بدر چشتی کو نذرانہ عقید ت پیش کرتا ہے۔ علم معرفت کو‬
‫پھیالنے میں ان کے نمایاں کردار کا تذکرہ کر تا ہے۔‬

‫نمونہ کالم‪:‬‬

‫لٹار ہے ہیں گہر معرفت کے صدیوں‬


‫سے‬
‫ہجویر‬ ‫‪،‬سید‬ ‫بار‬ ‫گہر‬ ‫ابر‬ ‫مثال‬
‫کہاں وہ آپ کے اوصاف آسماں آثار‬
‫کہاں یہ مجھ سا سیہ کار ‪ ،‬سید ہجویر‬

‫خورشید رضوی عہد حاضر کا شاعر ہے لیکن روایات کی پاسداری کے‬


‫تقاضے بھی وہ بخوبی نبھا تا ہے۔ اس مجموعے کے سارے کالم میں شاعر نے صیغہ‬
‫متکلم استعمال کیا ہے گو کہ یہ کالم ہر مسلمان کے دل کی آرزو ہے۔‬
‫باب ششم‬
‫عربی ادبیات میں محمد کاظم اور خورشید رضوی کا تخصص‬
‫کوئی بھی ادیب یا شاعر جب لکھتا ہےتو اس کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہوتا ہے۔ عموما ً لکھنے کی‬
‫وجہ اپنی ذات سے معرفت کا حصول بھی ہوتا ہے۔ یہ عمل اپنے اندر ایسی مسرت اور سرشاری کی کیفیت رکھتا ہے‬
‫کہ اپنے ہونے کا احساس پانےا ور صالحیتوں کو جانچنے کے لیے وہ تخلیقی عمل سے باربار گزرتا ہے۔ یوں تو ہر‬
‫انسان کچھ خاص رجحانات لے کر پیدا ہوتا ہے اور خود پر گزرنے والے حاالت کو اپنے مخصوص نقطہ نظر سے‬
‫احاطہ تحریر میں التا ہے۔ باشعور فرد اپنے ماحول اور عہد حاضر کے تقاضوں سے ضرور متاثر ہوتا ہے۔ کیونکہ‬
‫معاشرہ اجتماعی شعور سے تشکیل پاتا ہے ۔ تنہا فرد اس قطرے کی مانند ہے جو دریا سے الگ ہونے کی بناء پر‬
‫خاک کا رزق بن جاتا ہے۔ وہی تخلیقات حیات دوام پاتی ہیں جو اپنے عہد کے سماجی و سیاسی رجحانات کی نمائندگی‬
‫کرتی ہیں۔ چاہے نظم ہو یا نثر ان کے مطالعے سے اس عہد اور معاشرے کے شعراء و ادباء کے ساتھ دیگر افراد کی‬
‫چلتی پھرتی تصویریں ہمارے سامنے آ جاتی ہیں۔‬
‫عربی زبان کے حوالے سے اگر دیکھیں تو عربی ادب بھی ہمہ گیر تہذیب و تمدن کی دین ہے۔ اس کے‬
‫ارتقاء میں ایک سے زیادہ نسلی و لسانی قومیتوں اور ثقافتوں نے حصہ لیا ہے۔ کسی بھی زبان کی قدامت کا تعین اس‬
‫کے ادب کے قدیم ترین باقیات سے کرنے کا رجحان تسلی بخش قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ ادب کی تخلیق سے‬
‫پہلے زبان کو ادبی اظہار کی سطح پر پہنچنے کے لیے بڑا کٹھن اور طویل صبر آزما سفر کرنا پڑتا ہے۔‬
‫موجودہ دور کے جدت پسند تقاضوں نے ہمارے معاشرے کے بیشتر افراد کی عربی ادب سے دلچسپی کو‬
‫ختم کر دیا ہے ۔ عربی علوم اور زبان و ادب سے دلچسپی محض ضرورت یا پھر چند لوگوں کے ذوق کی حد تک‬
‫ہے۔ ایسے میں وہ افراد یقینا ً الئق تحسین ہیں جنہوں نے عربی ادب کے فروغ اور اردو داں طبقے کو اس سے‬
‫متعارف کران ے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ان میں محمد کاظم اور ڈاکٹر خورشید رضوی کی ادبیات عربی کے حوالے‬
‫سے تحقیق و تنقید کا جائزہ نہ لینا اور ان کی محنت شاقہ کا اعتراف نہ کرنا گویا ادبی بددیانتی کے مترادف ہے۔‬
‫گزشتہ ابواب میں لیا گیا جائزہ متقاضی ہے کہ قبل از اسالم ادبیات عربی اور موجودہ دور میں عربی ادب‬
‫پر اسالمی تہذیب و تمدن کے اثرات کے حوالے سے ان محققین کے مآخذات ‪ ،‬موضوعات‪ ،‬اسلوب اور فکر کا جائزہ‬
‫قارئین کے سامنے پیش کیا جائے۔‬
‫محمد کاظم نے عربی ادبیات کا جائزہ لیتے ہوئے جن مآخذات کو حوالہ بنایا ان میں سے چند یہ ہیں۔‬
‫ڈاکٹر عبدالحلیم ندوی‬ ‫عربی ادب کی تاریخ (جلد اول و جلد دوم)‬
‫ڈاکٹر خور شید رضوی‬ ‫عربی شاعری ‪ :‬ایک تعارف (آغاز تا عہد بنی امیہ)‬
‫ابن المقفع‬ ‫کلیۃ ودمنۃ‬
‫سید ضیا الحسن ندوی‬ ‫عربی ادب دیار غیر میں‬
‫ڈاکٹر خورشید رضوی‬ ‫تالیف (مجموعہ مضامین)‬
‫محمد کاظم‬ ‫اردو دائرہ معارف اسالمیہ‬
‫احمد حسن زیات‬ ‫تاریخ االدب العربی‬
‫مصطفی عنانی و احمد االسکندری‬
‫ٰ‬ ‫وتاریخہ‬ ‫العربی‬ ‫الوسیط فی االدب‬
‫ابن قتیبہ‬ ‫الشعر والشعراء‬
‫للزوزنی‬ ‫شرح المعلقات السبع‬
‫مصنف نے عربی ادب کی تاریخ کی چند کتب کے بارے میں بتایا ہے جنہیں وہ بوجوہ نہیں دیکھ سکا۔ ڈاکٹر‬
‫خورشید رضوی نے عربی ادبیات کا جائزہ لینے کے دوران جن کتب سے استفادہ کیا ان میں سے چند یہ ہیں‪:‬‬
‫ابن االثیر‪ ،‬عز الدین‪ ،‬علی‪ ،‬الکامل فی التاریخ‬ ‫ابن اثیر‬
‫بطرس البستانی‬ ‫ادباء العرب‬
‫اشرف علی تھانوی‬ ‫بیان القرآن‬
‫خواجہ الطاف حسین حالی‬ ‫مقدمہ شعر و شاعری‬
‫ناصر الدین االسد‬ ‫مصادر الشعر الجاہلی‬
‫محمد کاظم‬ ‫عربی ادب میں مطالعے‬
‫ٰط ٰہ حسین‬ ‫فی االدب الجاہلی‬
‫احمد حسن الزیات‬ ‫تاریخ االدب العربی‬
‫مصنف نے ان کے عالوہ کثیر تعداد میں عربی ‪ ،‬فارسی اور اردو کتب کی بطور مآخذ و مصادر فہرست‬
‫دی ہے جن کا یہاں فردا ً فردا ً تذکرہ ممکن نہیں۔‬
‫محمد کاظم کا براہ راست عربی ادب سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔ بلحاظ پیشہ ورانہ مصروفیت دیکھا جائے تو‬
‫اس کی دنیا بالکل مختلف ہے لیکن عربی زبان و ادب کے حوالے سے اس کے کام کی نوعیت کو دیکھا جائے جس‬
‫سے اس نے اردو دان طبقے کو متعارف کروایا ۔ وہ ادب ہے جس پر صرف ان ادباء نے کام کیا ہے جن کا اوڑھنا‬
‫بچھونا ہی عربی ہے۔ میرا موضوع اس کی وہ تحاریر ہیں جو اس نے عربی ادبیات کے تعارف کے حوالے سے اردو‬
‫میں لکھیں۔ اس س ے پہلے وہ مختلف عربی رسائل میں عربی زبان میں لکھتا تھا۔ وہ زمانہ طالب علمی سے ہی‬
‫جماعت اسالمی سے وابستہ ہو گیا تھا۔‬
‫جب‪۱۸۵۴‬ء میں جماعت کے رویے میں سرد مہری آئی اور اس کے بیٹے کی وفات پر کسی نے اظہار‬
‫تعزیت نہ کیا اس رویے سے دل برداشتہ ہو کر اس نے آہستہ آہستہ ‪ ۱۸۵۵‬ء میں جماعت سے مکمل طور پر‬
‫علیحدگی اختیار کر لی۔ اس کی فکر میں تبدیلی اس وقت آئی جب وہ ’’فنون‘‘ سے قلمی اور فکری طور پروابستہ ہوا‬
‫۔ فنون کے مدیر احمد ندیم قاسمی جو ترقی پسند فکر اور متوازن شخصیت کے مالک تھے اور نئے آنے والوں کی‬
‫بہت حوصلہ افزائی کرتے اور انہیں کھلے دل سے خوش آمدید کہتے تھے۔ فنون میں لکھنے والوں میں ترقی پسند‬
‫اور خرد افروز شخصیات شامل تھیں۔ جن کی صحبت نے محمد کاظم کی فکر کے دھارے ہی بدل دیے۔‬
‫محمد کاظم کا فنون میں پہال مضمون ’’الف لیلہ عربی ادب‘‘ شمارہ نمبر ‪ ۴‬میں جنوری ‪۱۸۵۴‬ء میں شائع‬
‫ہوا ۔ جس پر مدیر فنون کی طرف سے بے حد پذیرائی نے اسے مزید ہمت دالئی۔‬
‫محمد کاظم نے عربی ادب قبل از اسالم کے شعراء کا جائزہ لیتے ہوئے ان کے نمونہ کالم کے متعلق اپنی‬
‫فکر کے سارے در وار کھے صرف ایک حوالے پر اکتفا نہ کیا جیسے سبع معلقات کے سرخیل اول امرؤالقیس پر‬
‫بات کرتے ہوئے اس نے دو احادیث کا حوالہ دیا ہے۔ آ ؐپ نے فرمایا ’’وہ شاعروں کا سربراہ اور ان کا علم اٹھائے‬
‫ہوئے ہے‘‘۔‬
‫دوسری روایت میں ہے‪:‬‬
‫’’وہ شاعر آوارہ ہے ‪ ،‬شاعروں کا علم بردار اور انہیں جہنم کی طرف لے‬
‫جانے واال‘‘ اس حوالے سے وہ نقاد ادب ابوا لخیر مودودی کا خیال پیش‬
‫کرتا ہے کہ اس روایت میں ’’النار‘‘ سے جہنم ہی کیوں مراد لی جائے۔‬
‫’’نار‘‘ کے معنی آگ کے ہیں اور یہ آگ عشق و محبت کی بھی ہو سکتی‬
‫ہے۔ ہواوہوس کی بھی اور تخلیق کی بھی‘‘!(ص ‪ ۱۶ ،۱۴‬عربی ادب میں‬
‫مطالعے‪ ،‬سنگ میل پبلی کیشنز‪ ،‬الہور)‬
‫وہ کہتا ہے کہ مجھے ذاتی طور پر کوئی اعتراض نہ ہو گا اگر ایسا ہو۔ میرے نزدیک جناب ابو الخیر‬
‫مودودی کا ذوق عربیت بہت معتبر ہے۔ اس کا اسلوب عربی قارئین کے لیے بلکہ اردو قارئین کے باذوق حلقہ فکر‬
‫کے لیے ہے۔ اس میں علمیت کے احساس کی جگہ عاجزی ‪ ،‬حلم اور منکسر المزاجی ہے۔‬
‫محمد کاظم نے عربی ادب کا جائزہ لیتے ہوئے عرب قوم کی تاریخ‪ ،‬عالقے مشہور قبائل اور قبل از اسالم‬
‫عربوں کی معاشرتی ‪ ،‬سیاسی‪ ،‬مذہبی اور فکری زندگی کا تعارف مختصر مگر جامع انداز میں دیا ہے۔ اس کے بعد‬
‫اصل موضوع عربی ادب کا جائزہ لیتا ہے۔ اس کے مختلف ادوار کا سیاسی تذکرہ محض پس منظر میں لیتا ہے لیکن‬
‫وہ اصل موضوع عربی ادبیات میں شاعر ی اور نثر کا مختلف حوالوں سے جائزہ لیتا ہے۔‬
‫شاعری میں سبع معلقات کے ساتھ شعرا اور ان کے سرخیل اول امرؤ القیس کی شاعری کے فکری پس‬
‫منظر پر بحث کرتا ہے۔ وہ الملک الضلیل (شاہ گم کردہ راہ) کے لقب سے کیوں مشہور ہوا۔ وہ اس کردار کو تمام‬
‫عیش و طرب کے باوجود اس طرح پیش کرتا ہے کہ اس سے نفرت کی بجائے ترحم کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔‬
‫’’ناصحا! مجھے زیادہ مالمت نہ کر کہ اس زندگی کے تجارب اور میرے‬
‫حسب نسب کے الئے ہوئے مصائب میرے لئے کافی ہیں‘‘۔‬
‫’’میری رگوں کا رشتہ یہ میری روح اور میرا جسم بھی لے لے گی اور میں‬
‫خاک میں مل جاؤں گا میں حوادث ایام سے کسی نرمی کی امید رکھوں؟‬
‫جبکہ انہوں نے ان مہیب ادوار میں پر صالبت چٹانوں کو بھی نہیں چھوڑا‬
‫تھا!‘‘۔ (ص ‪ ،۱۱‬عربی ادب میں مطالعے)‬
‫مصنف جاہلی شاعری کی خصوصیات پر بحث کرتا ہے معلقات کے عالوہ جاہلی دور کے اہم شعراء‬
‫اعشی کی شاعری اور فکر پر بحث کی ہے۔ جاہلی شاعری کے وہ شعراء جنہیں ’’صعالیک شعراء‘‘‬ ‫ٰ‬ ‫نابغہ ذیبانی اور‬
‫شنفری کے حاالت زندگی اور کالم کا جائزہ لیا ہے کہ یہ لوگ حیوانیت کے قریب‬ ‫ٰ‬ ‫کہا جاتا ہے ۔ ان میں تأبط شرا اور‬
‫زندگی گزارنے کے باوجود قادر الکالم شاعر تھے۔ جاہلی نثر میں خطبات و ضرب االمثال کا ذکر کرتا ہے۔ خطبات‬
‫میں دو اہم نام قس بن ساعدہ اور عمر بن معد یکرب ہیں۔‬
‫صدر اسالم اور اموی خالفت کے دور کا جائزہ لیتے ہوئے مصنف ان کی معاشرتی زندگی کے مختلف‬
‫نظاموں کا مختصرا ً حال بیان کرتے ہوئے عربی ادب پر اسالم کے اثرات کا جائزہ لیتا ہے۔ پھر مخضرم شعراء میں‬
‫کعب بن زہیر‪ ،‬خنساء ‪ ،‬حسان بن ثابت اور حطیہ کے حاالت زندگی اور کالم کے کچھ نمونے پیش کرتا ہے۔‬
‫اموی دور کے شاعر جمیل بن معمر کے حاالت زندگی اور کالم کا جائزہ لیتا ہے جس کی محبت کا مقصد‬
‫محبوب کے ساتھ جنسی مالپ نہیں بلکہ اس کی روح اور شخصیت سے گہری وابستگی تھی۔ اس دور میں اس محبت‬
‫کو پاکیزہ محبت ’’الھوی العذری‘‘ کہا جاتا تھا۔ اس عشاق قبیلے کے چند اور افراد جن میں کثیر اس کی محبوبہ ّ‬
‫عزہ‬
‫لیلی مجنوں اسی طرح ایک اور عاشق‬ ‫لیلی کے نام سے ٰ‬ ‫جو کثیر عزہ کی نسبت سے مشہور ہوا۔ قیس بن الملوح اپنی ٰ‬
‫لیلی مجنوں دونوں حقیقی کردار تھے بعد میں ان کے‬ ‫لبنی مشہور ہوا۔ ٰ‬
‫لبنی کے نام سے قیس ٰ‬ ‫قیس بن ذریع محبوبہ ٰ‬
‫حوالے سے اکثر واقعات من گھڑت تھے۔‬
‫اموی دور کی غزل کا ایک اور نمائندہ شاعر عمر بن ابی ربیعہ تھا۔ اس نے اموی دور کی شاعری کا‬
‫دستور بدل دیا تھا۔ اس کا شمار اونچے طبقے کے شعراء میں نہیں ہوتا تھا لیکن اس نے غزل کے موضوع پر ایسی‬
‫شاعری کی کہ اکابر شعراء نے بھی اس کو تسلیم کیا۔‬
‫مصنف اس دور کی مناسباتی شاعری کے حوالے سے اخطل ‪ ،‬فرزدق‪ ،‬جریر اور نصیب کا ذکر کرتا ہے۔‬
‫مذکور االول تین شعراء کے حاالت زندگی‪ ،‬شاعری اور فکر کا جائزہ تفصیل سے لیتا ہے۔‬
‫مصنف نے صدر اسالم اور اموی دور کی نثر میں خطبات کی بالغت کا ذکر کرتے ہوئے سب سے موثر‬
‫عمر‪ ،‬حضرت‬ ‫خطیب حضرت محمدﷺ کو قرار دیا ہے ۔ اس کے بعد صحابہ میں حضرت ابو بکر صدی ؓق‪ ،‬حضرت ؓ‬
‫اعلی نمونے پیش کیے۔ اسی زمانے میں سحبان بن وائل‪ ،‬زیاد بن ابیہ جو ایک کسبی لونڈی سمیہ‬ ‫ٰ‬ ‫علی نے خطابت میں‬ ‫ؓ‬
‫عمر کے خوف سے اسے اپنا نسب نہ دے سکا۔ اس کے بعد‬ ‫ؓ‬ ‫حضرت‬ ‫وہ‬ ‫لیکن‬ ‫تھا‬ ‫بیٹا‬ ‫کا‬ ‫سفیان‬ ‫کے بطن سے ابو‬
‫حجاج بن یوسف کا نام بطور خطیب نمایاں ہے اموی دور میں عربی زبان میں انشاء پردازی میں نثر کے ارتقاء میں‬
‫اہم کردار ادا کرنے واال عبدالحمید الکاتب ہے۔ مصنف نے اس کے حاالت زندگی اور نثر کے نمونے پیش کیے ہیں۔‬
‫عباسی دور کے ادب کا جائزہ لیتے ہوئے مصنف نے پہلے اس دور کے نثر نگاروں کا تذکرہ جامع انداز‬
‫میں کیا ہے۔ اس حوالے سے مصنف نے مختلف طبقات کے چند اہم نثر نگاروں کے حاالت زندگی اور نثر کے‬
‫نمونے پیش کیے ہیں۔ ان میں ابن المقفع‪ ،‬جاحظ‪ ،‬ابن العمید‪ ،‬صاحب بن عباد‪ ،‬خوارزمی نمایاں ہیں۔ اس کے عالوہ‬
‫عربی نثر کی نئی صنف‘‘مقامہ’’ جو ایک مختصر حکایت یا ڈرامائی واقعہ ہوتا ہے کے دو اہم نام بدیع الزمان ہمذانی‬
‫اور حریری کے حاالت زندگی اور نمونہ نثر کا جامع انداز میں جائزہ لیا ہے۔‬
‫مصنف عباسی دور کے دو ان اکابر ادباء کا ذکر کرتا ہے جنہوں نے شاعری کے انتخاب ‪ ،‬تنقید اور علم و‬
‫ادب کی متعدد شاخوں میں قابل قدر کام کیا اور ایسی تصانیف چھوڑیں جو کالسیک کا درجہ رکھتی ہیں۔ ان میں ابن‬
‫قتیبہ اور ابو العباس المبر و نمایاں نام ہیں۔ مصنف نے مختصر مگر جامع انداز میں ان کا جائزہ لیا ہے۔‬
‫عباسی دور کی شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے مصنف اس دور کی شاعری کے مقاصد‪ ،‬موضوعات ‪،‬‬
‫مضامین اور خیاالت میں تبدیلی‪ ،‬لفظیات اور اسلوب کی تبدیلی کا تنقیدی اور تحقیقی انداز میں جائزہ لیتا ہے ۔ اس دور‬
‫کے شعراء کو دو گروہوں میں تقسیم کرتا ہے۔ شعرائے بغداد‪ ،‬شعرائے شام ۔ شعرائے بغداد کے اہم شعراء میں سب‬
‫سے پہلے بشار بن برد کے حاالت زندگی زیر کی اور حس مزاح‪ ،‬اس کی شعری فکر اور نمونہ کالم کا تفصیلی‬
‫جائزہ لیتا ہے۔ اس کے بعد ابو العتاہیہ کے حاالت زندگی ‪ ،‬شاعری اور نمونہ کالم کا جائزہ لیتا ہے‪ ،‬ابو نواس (دور‬
‫عباسی کا شاعر مینا و جام )کے حاالت زندگی‪ ،‬اس کی شعری فکر‪ ،‬شاعرانہ خصوصیات‪ ،‬شاعری کے موضوعات‬
‫جس میں سب سے اہم موضوع ’’شعوبیت‘‘ ہے۔ جو عربوں کے نسلی تفاخر کے رد عمل میں عجمی قوموں خصوصا‬
‫ایرانیوں میں شدت سے پیدا ہوا اور اس کا اظہار شاعری میں بھی ہوا۔‬
‫ابو نواس عربی قصیدے کی روایت کا تمسخر اڑاتے ہوئے کہتا ہے ‪:‬‬
‫’’وہ شاعر جو ایک ویرانے کے سامنے کھڑے ہو کر روتا آیا ہے اس سے‬
‫کہو کیا مضائقہ تھا اگر وہ کبھی بیٹھ بھی جاتا‘‘۔‬
‫(ص ‪ ،۱۱۱‬عربی ادب کی تاریخ ‪ ،‬محمد‬
‫کاظم)‬
‫اس کے شعری موضوعات میں شراب‪ ،‬امر د پرستی اور مذہب کے بارے میں آزادہ روی مرکزی حیثیت‬
‫رکھتے ہیں ۔ اس کی باوجود مصنف اس کے انسان دوستی کے رویے کا ذکر بڑے احترام سے کرتا ہے اور زندگی‬
‫تعالی سے اس طرح عفو و درگزر کا طلب گار ہے۔‬ ‫ٰ‬ ‫کے آخری ایام میں وہ اللہ‬
‫’’ہم نے ساری ہی برائیاں کر ڈالی ہیں۔ اے اللہ! اب تو تیرے عفو اور‬
‫درگزر پر نظر ہے‘‘۔‬
‫(ص ‪ ،۱۱۱‬عربی ادب میں مطالعے‪ ،‬محمد کاظم)‬
‫اس کے بعد مصنف ابن الرومی‪ ،‬ابن المعتز‪ ،‬الشریف الرضی‪ ،‬طغرائی کے حاالت زندگی‪ ،‬شعری فکر اور‬
‫نمونہ کالم کا جائزہ لیتا ہے۔‬
‫شعرائے شام کے حوالے سے شام میں شاعری کا مختصر جائزہ لیتے ہوئے اس دور کے شعراء میں ابو‬
‫تمام جس نے اپنا مشہور انتخاب ’’حماسہ‘‘ مرتب کیا۔ بحری ‪ ،‬متنبی‪ ،‬ابو فراس الحمدانی‪ ،‬ابو العال معری کے حاالت‬
‫زندگی ‪ ،‬شاعری اور نمونہ کالم کاجائزہ لیا ہے۔ عربی شاعری میں فکر کے عنصر کے حوالے سے ابو العال معری‬
‫کی شاعری کا تفصیلی و تنقیدی جائزہ لیا ہے۔‬
‫مصنف نے اندلسی دور کی شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے اندلس میں اموی حکومت کے عروج و زوال کے‬
‫سیاسی حاالت کا جائزہ لیتے ہوئے اندلسی شعراء کے حاالت زندگی ‪ ،‬شاعری اور نمونہ کالم کا جائزہ لیا ہے۔ ان کی‬
‫شعری اصناف اور موضوعات کا ذکر کیا ہے۔‬
‫اندلسی عہد کے آٹھ اہم شعراء کی شاعری اور نثر کا جائزہ لیا ہے۔ ان میں ابن عبدریہ‪،‬ابن ہانی االندلسی‪،‬‬
‫ابن حزم‪ ،‬ابن زیدون‪ ،‬معتمد بن عباد‪ ،‬ابن حمدیس الصقلی ‪ ،‬ابن خفاجہ االندلسی اور آخری ادیب اور شاعر لسان الدین‬
‫بن الخطیب نمایاں ہیں۔‬
‫ان میں معتمد ابن عباد جو اشبیلیہ وقرطبہ کا فرماں روا اور باہمت سخی حکمران تھا۔اپنی ملکہ‬
‫’’اعتماد‘‘ کے ساتھ اس کا تعارف ادب کے وسیلے سے ہوا ۔ شاہان اندلس میں وہ سب سے بڑا شاعر تھا لیکن مراکش‬
‫کے طاقتور سربراہ یوسف بن تاشفین کے ہاتھوں اس کا انجام انتہائی درد ناک ہوا اس کی قید سے رہائی اسے وفات‬
‫کے بعد ہوئی۔ دوران قید اس کی شاعری حسرت و یاس اور المناکی کا ثبوت ہے۔‬
‫مصنف فاطمی دور میں مصر میں نثر نگاری اور شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے چوتھے فاطمی خلیفہ المعز‬
‫لدین اللہ کے سپہ ساالر جوہر صقلی کے بارے میں بتایا ہے کہ اس نے مصر فتح کرنے کے بعد دیگر تعمیرات کے‬
‫ساتھ اللہ کے لئے جامع االزہر کی بنیاد رکھی۔‬
‫مصر کے اہم شعراء جن میں انشاء پرداز بھی تھے ان میں کمال الدین ابن النبیہہ ‪ ،‬ابن الفارض‪ ،‬ابن عربی‬
‫اور بہاء الدین زہیر نمایاں ہیں۔ ان میں ابن عربی نے تصوف و عرفان کی دنیا کو اپنے افکار سے بہت متاثر کیا۔‬
‫مصنف نے ان کی شاعری ا ور نمونہ کالم پر بحث کی ہے۔ ترکی دور کا جائزہ لیتے مصنف بتاتا ہے کہ سقوط بغداد‬
‫کے بعد قاہر ہ نے بغداد اور قرطبہ کی جگہ کیسے سنبھالی۔ پھر وہ ترکی دور کے تین اہم شعراء کے حاالت زندگی‪،‬‬
‫شاعری اور نمونہ کالم کا مختصرا ً جائزہ لیتا ہے۔‬
‫ان میں امام بوصیری جن کا قصیدہ بردہ اور ہمزیہ قصیدہ بہت مشہور ہیں۔ صفی الدین الحلی‪ ،‬ابن نباتہ کی‬
‫شاعری اور انشا پردازی کا جائزہ لیتا ہے۔‬
‫جاہلی شاعری اور ادب اس کے بعد صدر اسالم اور بنو امیہ کا سارا ادب مختلف راویوں کے مضبوط‬
‫استناد کی بدولت آنے والے ادوار تک منتقل ہوا۔ مصنف پانچ اہم راویوں کا تذکرہ کرتا ہے۔ ان میں حماد الراویہ کا مقام‬
‫اس لیے زیادہ ہے کہ اس نے سبع معلقات جمع کی تھیں اور ان کی روایت کی تھی۔ اس کے بعد دوسرے راویوں میں‬
‫خلف االحمر‪ ،‬اصمعی‪ ،‬ابو عبیدہ معمر بن المثنی‪ ،‬ابو زید االنصاری نمایاں نام ہیں۔‬
‫علم نحو کی اہمیت اور ا س کے حوالے سے اہم کتب تحریر کرنے والوں میں مصنف جن نمایاں اشخاص‬
‫کے حاالت زندگی اور علم وفضیلت کا ذکر کرتا ہے ان میں سیبویہ‪ ،‬کسائی‪ ،‬فرا‪ ،‬ابن الحاجب‪ ،‬ابن مالک‪ ،‬ابن ہشام۔‬
‫لغت کی اہمیت ہمیشہ مسلم رہی ہے۔ اس لیے عربی ادب کے حوالے سے اسے نظر انداز نہیں کرتا اور علم لغت کی‬
‫مختصرا ً اہمیت کا ذکر کرنے کے بعد اہم مؤلفین لغات کے حاالت زندگی اور ان کے علم سے بحث کرتا ہے۔ ان میں‬
‫الخلیل بن احمد‪ ،‬ابن درید‪ ،‬ابو علی القالی‪ ،‬ازہری اس کے عالوہ دیگر اہم نام ہیں۔‬
‫عربی زبان میں ادب و شعر کے مجموعے اور انتخاب ترتیب دینے کا سلسلہ عباسی دور کے اوائل سے‬
‫شروع ہوا اور وقت کے ساتھ مزید بڑھتا گیا۔ مصنف ان مرتبین اور ان کے مجموعوں اور انتخاب کے بارے میں بتاتا‬
‫ہے۔ ان میں ابن قتیبہ کی ’’ادب الکاتب‘‘ اور ابو الفرج اصفہانی کی ’’کتاب االغانی‘‘ قابل ذکر ہیں علم تاریخ اور اس‬
‫کے اہم مؤرخین ‪ ،‬علم حدیث اور علم فقہ اور حدیث اہم مجموعوں کے بارے میں بتاتا ہے۔‬
‫عربی ادب میں قصے کہانیوں کی روایت کہاں سے آئی اور ’’الف لیلہ و لیلہ ‘‘کی اہمیت اور روایت پر‬
‫بات کرتا ہے‪ ،‬موجودہ دور میں عربی ادب کی کیا روایت ہے اور عربوں کی بیداری میں کن وسائل نے اہم کردار ادا‬
‫کیا؟۔ مشہور عرب اہل قلم اور ادباء کون تھے اور عربی زبان و ادب کی ترویج میں ان کے علم و کردار کے حوالے‬
‫طہ حسین‪ ،‬احمد حسن زیات ‪،‬شیخ محمد عبدہ‪ ،‬احمد امین اور دیگر نمایاں نام ہیں۔‬ ‫سے جائزہ لیا ہے۔ ان میں ٰ‬
‫جدید عربی شاعری کے نمائندہ شاعروں میں عربی شاعری کے تن مردہ میں نئی روح پھونکنے میں اور‬
‫اس کا رنگ روپ سنوارنے کا سہرا قاہرہ کے شاعر محمود سامی البارودی کے سر جاتا ہے۔ مزید برآں جدید شعراء‬
‫میں مصنف احمد شوقی‪ ،‬خلیل مطران‪ ،‬حافظ ابراہیم اور دیگر شعراء کے فن شاعری کا جائزہ لیتا ہے۔‬
‫شاعری کے بعد مصنف قدیم نثر ک و پس منظر بناتے ہوئے جدید عربی ادب میں افسانہ‪ ،‬ناول اور ڈرامہ کے‬
‫فن کا جائزہ لیتے ہوئے چند اہم افسانوں اور افسانہ نگاروں ‪ ،‬ناولوں اور ناول نگاروں‪ ،‬ڈراموں اور ڈرامہ نگاروں‬
‫کے فکر و فن پر اظہار خیال کرتا ہے۔‬
‫جدید شعراء کی شاعری کو تقریباتی شاعری کہہ کر ان ک ا خاکہ اڑنے کی کوشش میں پیش پیش شعراء میں‬
‫ابراہیم ناجی‪ ،‬علی محمود طہ‪ ،‬ابو القاسم شابی اور کچھ ایسے شعراء جو بیرون ممالک ہجرت کر گئے۔ ان میں جبران‬
‫خلیل جبران‪ ،‬میخائیل نعیمہ اور ایلیا ابو ماضی کا گروہ شامل ہے۔‬
‫جبران خلیل جو کہ جامع الحیثیت شخصیت ہے لیکن مصنف اس کی حیثیت کا دل سے معترف نہیں ہوتا اس‬
‫کی وجہ کوئی ذاتی تعصب نہیں بلکہ وہ اس کی نثر اور شاعری میں سے اس کے اسلوب اور موضوعات میں سے‬
‫ایسے نکات پیش کرتا ہے کہ قائل ہوئے بغیر چارہ نہیں۔ اس میں خوبی یہ تھی کہ مذہب کی بنیاد پر انسانیت میں‬
‫تفریق کا قائل نہ ت ھا اس کا یہ نظریہ کسی بھی مذہب کے لیے قابل قبول نہ تھا۔ اس لیے اسے کافر اور بے دین قرار‬
‫دیا گیا۔‬
‫مصنف کہتا ہے کہ جبران خلیل جبران نے اپنے عربی اسلوب کی کمزوری کو بہت ہوشیاری اور دانش‬
‫مندی سے اپنے اسلوب بیان میں چھپا لیا اور انجیل کے خاص اسلوب کو اپنے لئےنمونہ ٹھہرایا اور انجیلی پیغمبروں‬
‫کے سے لہجے میں بات کی ۔ جسے پڑھتے ہوئے انسان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔‬
‫جبران کی طویل مختصر کہانی (النبی) جو انگریزی میں ‪The Prophet‬کے نام سے لکھی ہوئی ہے‬
‫۔ اس میں وہ سوال جواب کا اسلوب اختیار کرتا ہے اور شادی کو کامیاب اور دیر پابنانے کے کچھ نسخے بتاتا ہے۔‬
‫جو مصنف کے خیال میں بہت صحیح اور کارآمد ہیں۔‬
‫’’یہ کہ میاں بیوی ایک دوسرے سے کچھ عرصے کے لیے الگ بھی ہو‬
‫جایا کریں تاکہ ہجر کے بعد جو وصل ہوتا ہے اس کالطف اٹھا سکیں اور‬
‫دوسرے یہ کہ محبت کے معاملے اپنے ساتھی کو آزاد چھوڑ دو اسے باندھ‬
‫کر نہ رکھو ورنہ اس کا دم گھٹنے لگے گا۔ ایک دوسرے کے ساتھ گاؤ ناچو‬
‫اور خوشیاں مناؤ لیکن ایک دوسرے سے آزاد بھی رہو‘‘۔‬
‫(ص ‪ ،۱۱۶‬عربی ادب میں مطالعے‪ ،‬محمد کاظم)‬
‫خلیل جبران خلیل کے اشعار دیکھیں جو اس کی نظم ’’المواکب‘‘ سے لیے گئے ہیں اس میں شاعری کا‬
‫اعلی معیار سامنے نہیں آتا۔‬
‫ٰ‬ ‫کوئی‬
‫’’مجھے اس جنگل کی آرزو ہے جہاں فتنوں کی آگ بجھی ہوئی ہے‘‘۔‬
‫’’مجھے ایسے جہاں کی آرزو ہے جہاں غداری اور وفاداری ایک دستر‬
‫خوان پر جمع نہیں ہوتے‘‘۔‬
‫طہ حسین کی رائے پیش کرتا ہے‬‫ان اشعار کو سامنے رکھتے ہوئے مصنف ہجر کے شعر کے بارے میں ٰ‬
‫جو اس کے خیال میں جبران خلیل جبران کے حوالے سے زیادہ صحیح لگتی ہے۔‬
‫’’ان لوگوں کا ذہن زرخیز ہے ان کے اندر جوہر بھی ہے۔ ان کے تصور کی‬
‫پرواز بھی دور تک ہے اور ان میں اچھا شاعر بننے کے سارے لوازم‬
‫موجود ہیں۔ لیکن انہوں نے اس وسیلے (یعنی لفظ) میں کوئی مہارت پیدا نہیں‬
‫کی۔ جس کے بغیر شاعری ہو ہی نہیں سکتی یا تو وہ عربی شاعری سے‬
‫نابلد ہیں یا پھر انہوں نے جان کر اسے نظر انداز کیا ہے اور اس معاملے‬
‫میں اپنی کوتاہی کو ایک جدید اسلوب کا نام دے کر دنیا کے سامنے پیش کیا‬
‫ہے‘‘(ص ‪ ،۱۱۳ ،۱۱۱‬عربی ادب میں مطالعے‪ ،‬محمدکاظم)‬
‫مصنف عربی شاعری میں غالب آنے والے چار بڑے رجحانات کے حوالے سے ذکر کرتا ہے کہ یہ کس‬
‫پس منظر کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوئے۔‬
‫اس دور میں آزاد شاعری کے رجحان نے تحریک پائی کیونکہ عراق کےسیاسی اور سماجی مسائل نے ان‬
‫کے شعور و آگہی کو تیز و تند کر دیا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ شاعری کی نوعیت ایسی ہو جو عام لوگوں کے مسائل‬
‫کی عکاسی کرے۔ اس کی پا داش میں انہیں حکومتی ظلم و ستم کا نشانہ بننا پڑا۔ ان شعراء میں نازک المالئکہ‪ ،‬بدر‬
‫شاکر السیاب‪ ،‬عبدالوہاب البیاتی اور بلند الحیدری کے نام نمایاں ہیں۔‬
‫مصنف شامی شاعر یوسف الخال کی زیر ادارت مجلہ ’’شعر‘‘ کا ذکر کرتا ہے جس سے وابستہ شعراء نے‬
‫اپنے مخصوص نقطہ نظر سے عربی شاعری کے میدان میں کچھ وسعت پیدا کی لیکن بوجوہ یہ ‪۱۸۶۶‬ء تا ‪۱۸۱۰‬ء‬
‫تک جاری رہا اور پھر ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔ آزادی شاعری کے نمائندہ شعراء اس میں باقاعدگی سے لکھتے‬
‫تھے۔‬
‫اسرائیل کے ہاتھوں جون ‪۱۸۵۱‬ء کی شکست کے بعد‪ ،‬عربی افسانہ اور عربی شاعری کے رجحانات میں‬
‫نمایاں تبدیلیاں ہوئیں۔ اس کے نتیجے میں مزاحمتی ادب منظر عام پر آیا۔ ان میں محمود درویش‪ ،‬سمیح القاسم اور‬
‫توفیق زیاد کی شاعری ان کے جذبات اور امنگوں کی ترجمان ہے۔ اس کی پاداش میں انہیں بہت ظلم اور زیادتی کا‬
‫نشانہ بننا پڑا۔‬
‫’’ایک عرب شاعرہ کی ڈائری سے‘‘ اس عنوان کے تحت مصنف ہمیں اس فلسطینی شاعرہ کی نثر سے‬
‫متعارف کرواتا ہے جس کی شاعری اور نثر میں اسرائیلی قبضے کے بعد مزاحمتی رنگ پیدا ہو گیا۔ کس طرح اس‬
‫کی امنگیں لہو رنگ ہوئیں۔‬
‫مصنف عربی شاعری کے حوالے سے ’’عربی کی الوارث نظم‘‘ کے عنوان سے ایک خوبصورت اور‬
‫بے مثال نظم ’’الیتیمۃ‘‘ سے متعارف کرواتا ہے۔ اس کے سیاق و سباق اور پس منظر پر گزشتہ ابواب میں جائزہ لیا‬
‫جا چکا ہے۔ لیکن اس نظم کےماخذ کے بارے میں کچھ ذکر نہیں کرتا کہ اسے کہاں سے اورکب ملی؟ یہ نظم قدرے‬
‫طویل ہے اس کے اسلوب کے حوالے سے محض قیاس آرائیاں ہیں کہ یہ نظم کس عہد کی تخلیق ہے۔‬
‫عربی ادب کے حوالے سے محمد کاظم کا ایک کارہائے نمایاں ‘‘اخوان الصفاء’’ ہے یہ مضمون دو‬
‫حصوں میں پہلے فنون میں شائع ہوا اور بعد میں کتابی شکل میں ‪۱۰۰۳‬ء میں سامنے آیا۔ یہ عباسی دور میں مسلم اہل‬
‫فکر کی ایک خفیہ تنظیم تھی۔ اس جماعت نے خفیہ طور پر جو مکاتیب قلم بند کیے ان کی تعداد ‪ ۶۱‬ہے۔ نو سو سال‬
‫بعد آج بھی اپنی اصل حالت میں محفوظ اور بآسانی دستیاب ہیں۔ اس دور میں خفیہ رہنے کی وجہ اہل اقتدار کا دباؤ‬
‫تھا۔‬
‫اخوان الصفاء پر اس سے پہلے کسی نے اس طرح تفصیل سے قلم نہیں اٹھایا۔ مصنف اپنے مآخذات کا‬
‫حوالہ نہیں دیتا لیکن وہ کہتا ہے کہ افسوسناک صورتحال یہ سامنے آئی کہ اس پر بہت ہی کم لوگوں نے جم کر کام‬
‫کیا ہے۔ اگر کسی نے کیا بھی ہے تو محض رسمی انداز میں۔‬
‫طہ اخوان الصفاء کے حوالے سے جو رائے دیتا ہے کہ بغداد میں اس کی مجالس میں نابینا شاعر ابو‬ ‫ڈاکٹر ٰ‬
‫العالء معری باقاعدگی سے شریک ہوتا تھا۔ مصنف بتاتا ہے کہ یہ واقعت ًہ اور تاریخی اعتبار سے بھی صحیح نہیں ہو‬
‫سکتا۔‬
‫اخوان الصفاء کی فکر کے حوالے سے مصنف نے جو جائزہ لیا ہے اس پر اسے تنقید کا بھی سامنا کرنا‬
‫پڑا۔‬
‫’’مصنف کہتا ہے کہ ان کی طبع زاد فکر ہے۔ اپنی اس انوکھی اور غیر‬
‫روایتی فکر کے ساتھ وہ نہ معتزلہ کے ساتھ کھڑے دکھائی دیتے ہیں اور نہ‬
‫اشاعرہ کے ساتھ۔۔ ان کا رجحان نہ پوری طرح صوفیہ کی طرف ہے اورنہ‬
‫فالسفہ کی طرف! بہت سے لوگوں نے انہیں شیعہ سمجھا ہے لیکن وہ شیعہ‬
‫بھی نہیں ہیں۔ کچھ لوگوں کے نزدیک وہ سیاسی عزائم رکھنے واال ایک‬
‫گروہ تھا جو عباسی سلطنت کا زوال چاہتا تھا لیکن ان کے رسائل کے‬
‫مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ اس طرح کے عزائم سے وہ بہت دور تھے‘‘۔‬
‫(ص ‪ ،۱۱۰‬اخوان الصفاء‪ ،‬محمد کاظم)‬
‫مصنف کی پہلی رائے سے اتفاق مشکل ہے کیونکہ اخوان کے افکار و نظریات کے ماخذ بے شمار تھے‬
‫جس کو ان کی عقل قبول کرتی تھی۔ وہ اسے لے لیتے تھے جہاں تک معتزلہ اور اشاعرہ والی بات ہے اس میں‬
‫معتزلہ سے اثر قبول کرتے ہوئے وہ ان سے بھی آگے نکل جاتے ہیں ۔ سیاسی عزائم سے وہ اس لیے دور نظر آتے‬
‫ہیں کہ وہ سائنس اور فلسفہ کے طالب علم تھے۔ ان کے رسائل کے اسلوب سے یہ محسوس نہیں ہوتا کہ وہ سیاسی‬
‫عزائم بھی رکھتے ہوں گے۔‬
‫مصنف اگرچہ شاعر نہیں ہے لیکن شاعری کو پرکھنے کا تنقیدی شعور اس کے اندر بدرجہ اتم موجود ہے۔‬
‫مقبول (ایک عہد بہ عہد سرسری جائزہ) مقالہ تحریر کیا۔ اس مقالے میں مصنف‬ ‫ؐ‬ ‫اس کے حوالے اس نے ’’نعت رسول‬
‫نے اردو نعت کا عربی‪ ،‬اردو اور پنجابی شعراء کے نمونہ کالم کے حوالے سے جائزہ لیا ہے۔‬
‫عربی ’’قصیدہ بردہ‘‘ اور ’’بانت سعاد‘‘ کا بطور خاص ذکر کیا ہے۔ اردو شعراء میں حالی‪ ،‬امیر مینائی‪،‬‬
‫اقبال‪ ،‬احمد ندیم قاسمی‪ ،‬حفیظ تائب کا نمونہ کالم پیش کیا ہے۔ پنجابی شاعری میں میاں محمد بخش اور پیر مہر علی‬
‫گولڑوی کے کالم کا جائزہ لیا ہے۔‬
‫مصنف نے عربی زبان باقاعدہ درسی طورپر نہیں پڑھی محض اپنے شوق کی خاطر اس میں بقدر خاطر‬
‫استعداد حاصل کی ۔ اس ضمن اس نے جاہلی شعراء کے کالم کا جو ترجمہ کیا ہے وہ بہت سادہ اور آسان زبان میں‬
‫کیا ہے۔‬
‫منزل‬ ‫و‬ ‫حبیب‬ ‫من‬ ‫نبک‬ ‫قفا‬
‫فحومل‬ ‫الدخول‬ ‫بین‬ ‫اللوی‬
‫ٰ‬ ‫بسقط‬
‫جاہلی شاعر امرؤ القیس کے اس شعر کا ترجمہ مصنف اس طرح کرتا ہے‪:‬‬
‫ذرا ٹھہرو دوستو کہ ہم ایک محبوبہ اور اس کے مسکن کی یاد میں آنسو بہا‬
‫لیں جو دخول اور حومل کے درمیان ٹوٹتی ریت واقع ہے۔‬
‫طرفہ بن العبد کا یہ شعر اور ترجمہ دیکھیں‪:‬‬
‫ولذتی‬ ‫الخمور‬ ‫تشرابی‬ ‫زال‬ ‫وما‬
‫ومتلدی‬ ‫طریفی‬ ‫وانفاقی‬ ‫وبیعی‬
‫کلھا‬ ‫العشیرۃ‬ ‫تحامتنی‬ ‫ان‬ ‫الی‬
‫المعبد‬ ‫البعیر‬ ‫افراد‬ ‫وافردت‬
‫ترجمہ‪ :‬میری شراب نوشی اور لطف اندوزی کا عالم وہی رہا ہے اسی طرح‬
‫میں اپنی نئی اور موروثی جائیداد کو خریدتا اور بیچتا رہا ہوں یہاں تک کہ‬
‫میرے اہل خاندان نے مجھ سے کنارہ کشی کر لی اور مجھے ایک ایسے‬
‫اونٹ کی طرح الگ کر دیا جسے خارپشت کا روگ لگ گیا ہو۔‬
‫سلمی کے اس شعر کا ترجمہ دیکھیں‪:‬‬ ‫ٰ‬ ‫زہیر بن ابی‬
‫صدورکم‬ ‫فی‬ ‫ما‬ ‫اللہ‬ ‫تکتمن‬ ‫فال‬
‫یعلم‬ ‫اللہ‬ ‫یکتم‬ ‫ومھما‬ ‫لیخفی‬
‫فیدخر‬ ‫کتاب‬ ‫فی‬ ‫فیوضع‬ ‫یؤخر‬
‫فینقم‬ ‫یعجل‬ ‫او‬ ‫حساب‬ ‫لیوم‬
‫جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے وہ اللہ سے ہرگز نہ چھپاؤ اس خیال سے کہ‬
‫وہ مخفی رہے اس لیے کہ جو کچھ بھی اللہ سے چھپایا جائے وہ اسے جان‬
‫لے گا۔‬
‫یا تو اسے تاخیر میں ڈاال جائے گا اور ایک کتاب میں لکھ کر یوم حساب تک‬
‫محفوظ کر دیا جائے گا یا پھر اس سے جلد ہی نمٹا جائے گا اور یہیں اس کی‬
‫سزا دی جائے گی۔‬
‫بید کا شعر اور اس کا ترجمہ دیکھیں‪:‬‬
‫فمقامھا‬ ‫محلھا‬ ‫الدیار‬ ‫عفت‬
‫فرجامھا‬ ‫غولھا‬ ‫تابد‬ ‫بمنی‬
‫ؐ‬
‫منی کے دیار جن میں کچھ دن ٹھہرے تھے اور پھر زیادہ عرصہ بھی‬ ‫مقام ٰ‬
‫وہاں قیام رہا سب مٹ گئے اور غول اور رجام کے پہاڑی ڈیرے بھی اجاڑ‬
‫ہو گئے۔‬
‫عمرو بن کلثوم کے فخریہ معلقے نے اس کے قبیلے کو اتنا مگن کر دیا کہ اس کے قبیلے بنو تغلب کے‬
‫لوگوں نے اسے بار بار پڑھا تو ایک شاعر یہ کہہ اٹھا‬
‫مکرمۃ‬ ‫کل‬ ‫عن‬ ‫تغلب‬ ‫بنی‬ ‫الھی‬
‫کلثوم‬ ‫بن‬ ‫عمرو‬ ‫قالھا‬ ‫قصیدۃ‬
‫اولھم‬ ‫کان‬ ‫بھامذ‬ ‫یفاحرون‬
‫مسؤم‬ ‫غیر‬ ‫لشعر‬ ‫للرجال‬ ‫یا‬
‫بنو تغلب کو عمرو بن کلثوم کے ایک قصیدے نے اتنا مگن کر دیا کہ اب وہ‬
‫سارے اچھے کام چھوڑ چکے ہیں۔‬
‫اس قصیدے کی وجہ سے وہ اپنے اسالف پر فخر کرتے ہیں ۔ اے لوگو ذرا اس کالم کو دیکھنا کہ جس سے‬
‫ان کا جی ہی نہیں بھرتا۔‬
‫ً‬
‫محمد کاظم نے عربی ادب کی تاریخ میں قبائل کی تاریخ کا تعارف مختصرا کروانے کے بعد عربی ادبیات‬
‫پر توجہ مرکوز رکھی کیونکہ اس کا اصل موضوع ہی یہ تھا۔ اس نے شعراء و ادباء کے اسلوب اور فکر کو جانچا۔‬
‫’’مسلم فکر و فلسفہ عہد بعہد‘‘ میں اسالم سے قبل عربوں کی تہذیبی و فکری زندگی کے حوالے سے کہتا‬
‫ہے۔‬
‫’’عربوں کے ہاں باقاعدہ فکر و فلسفے کی کوئی روایت تو نہ پنپ سکی البتہ‬
‫ان کی حکیمانہ سوچ اور زندگی کے بارے میں علمی رویہ ان کی اچھی‬
‫شاعری میں جا بجا بکھرا ہوا ملتا ‘‘۔ (ص ‪ ،۵۵‬مسلم فکر و فلسفہ عہد بعھد‪،‬‬
‫محمد کاظم‪ ،‬مشعل بکس الہور)‬
‫جاہلی دور میں شاعری کے موضوعات کے حوالے سے مصنف دو شعراء کی فکر بیان کرتا ہے لیکن وہ‬
‫شاعر کا نام نہیں بتاتا۔ اس شعر کا پس منظر وہ بیان کرتا ہے ‪:‬‬
‫’’عربوں میں بت پرستی بہت سطحی قسم کی تھی۔ اس میں ایمان و یقین کی‬
‫کوئی گہرائی نہیں تھی۔ ان بتوں کا نہ تو ان لوگوں کی شاعری میں اور‬
‫روایات میں زیادہ ذکر آتا ہے اور نہ ان کے ماننے سے انہیں اپنی فکری‬
‫اورمعاشرتی زندگی میں کوئی رہنمائی ملتی ہے۔ بعض عرب تو جب ان بتوں‬
‫سے ان کا مقصد پورا نہ ہوتا ان کی اہانت کرنے سے بھی باز نہیں آتے‬
‫تھے۔ قبیلہ کنانہ کا ایک بت ‘‘سعد’’ نام کا تھا وہ اس کے پاس یہ مراد لے‬
‫کر آئے کہ وہ ان سب کو متحد کر دے لیکن جب یہ نہ ہو سکا تو شاعر کہتا‬
‫ہے‪’’ :‬اور’’سعد‘‘ سوائے اس کے کیا ہے کہ ایک ویرانے میں کھڑی چٹان‬
‫ہے جس کا کام نہ ہدایت دینا نہ گمراہ کرنا’’۔ ایک اور جاہلی شاعر نے دیکھا‬
‫کہ اس کے بت پر دو لومڑیاں پیشاب کر رہی ہیں تو شاعر مایوسی میں بول‬
‫پڑا‪’’ :‬کیا وہ خدا ہے جس پر دو لومڑیاں پیشاب کر رہی ہیں وہ تو کوئی ذلیل‬
‫چیز ہو گی جس پر لومڑیوں نے یہ حرکت کی‘‘۔ (ص ‪ ،۵۱ ،۵۱‬مسلم فکر و‬
‫فلسفہ عہد بہ عہد‪ ،‬محمد کاظم)‬
‫محمد کاظم نے عربی ادبیات کے حوالے سے سر زمین حجاز کے عالوہ دیگر عرب شعراء کی فکر و فن‬
‫کو بھی موضوع بنایا اور ان کے اسلوب‪ ،‬موضوعات کا جائزہ وسیع الذہنی کے ساتھ لیا ہے۔ ان کے کالم میں فحش‬
‫نگاری کو بھی اس عہد کی روایت کے طور پر لیا ہے۔‬
‫عربی زبان کی اہمیت کے پیش نظر مصنف نے ’’عربی سیکھیے‘‘ کے نام سے جو کتاب لکھی اس میں‬
‫عربی قواعد کی ترتیب کا خاص طور پر خیال رکھا گیا ہے۔ یہ مصنف کا عربی زبان سے قلبی لگاؤ کا ثبوت ہے کہ‬
‫مصروف ترین زندگی اور دیگر مسائل حیات سے نبرد آزما ہونے کے ساتھ ساتھ محض ذاتی شوق کی بناء پر اس نے‬
‫عربی ادبیات کے فروغ کیلئے جان جوکھم کا کام کیا۔‬
‫عربی ادبیات کا اہم محقق اور نقاد ڈاکٹر خورشید رضوی جس کے لیے عربی زبان مادری زبان کی حیثیت‬
‫رکھتی ہے۔ ایک ذکی الحس ادیب بیک وقت تحقیق اور تنقید کی خصوصیات سے متصف ہوتا ہے۔ خورشید رضوی‬
‫نے ابتدائی کالسوں میں عربی کو بطورمضمون اختیار کر لیا۔ اس کے حصول کے لیے بے مثال لگن کا ثبوت دیا۔‬
‫انسان ابتدائی عمر میں کوئی چیز سیکھتا ہے تو وہ تاحیات ذہن کے نہاں خانوں میں نقش ہو جاتی ہے اور وقت کی‬
‫گرد سے کبھی نہیں دھندالتی۔ خورشید رضوی نے اپنی عملی زندگی کا آغاز بھی عربی کے استاد کے طور پر کیا‬
‫اور یوں وہ آج تک عربی زبان و ادب سے وابستہ ہیں۔‬
‫اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ عربی ادبیات کے حوالے سے اس فاضل مصنف کے کام کی کیا نوعیت ہے؟‬
‫اسلوب‪ ،‬موضوعات اور فکر کا دائرہ کار کیا ہے۔‬
‫مصنف نے درسی نوعیت کے اسباق عربی کے طلبہ کے لیے ترتیب دیے تھے۔ طلبہ کی ذہنی صالحیتوں‬
‫کو مد نظر رکھتے ہوئے اسلوب آسان اور سادہ ہے ۔ موضوعات میں عربی شاعری کے دیوان ‪ ،‬معلقات کے شعراء‬
‫کا تعارف اور مختصر نمونہ کالم ‪ ،‬مخضرم شعرا کا تعارف اورنمونہ کالم‪ ،‬اموی دور کے شعراء کو دو گروہوں میں‬
‫منقسم کیا ہے اور ہر سبق کے آخر میں طلبہ کے معیار کو جانچنے کے لیے سبق میں سے حل طلب مشقیں دی ہیں۔‬
‫فکر کا دائرہ دانستہ طورپر محدود رکھا گیاہے۔‬
‫عربی ادب کا احاطہ کیے ہوئے مصنف کی ضخیم کتاب ’’عربی ادب قبل از اسالم‘‘ کی نوعیت عربی ادب‬
‫سے زیادہ عرب اقوام اور قبائل کی تفصیل سے بھرپور ہے ۔ عربی ادب کی تاریخ کے حوالے سے تحریر کی گئی‬
‫کتب کا آغاز میں ذکر کیا ہ ے۔ مصنف کی مذکورہ باال عربی ادب کی کتاب جلد اول ہے۔ جلد دوم تا حال شائع نہیں‬
‫ہوئی۔ کتاب ھذا اس قدر تفصیل سے لکھی گئی ہے جو اردو داں طبقے کے لیے بلحاظ اسلوب اور موضوعات قدرے‬
‫مشکل ہے ۔ دور جاہلیت کے ادبی سرمایے میں نثر کے حوالے سے لفظوں پر گرائمر کے لحاظ سے بہت بحث کی‬
‫گئی ہے جو اگر نہ بھی دی جاتی تو بات سمجھ میں آ سکتی تھی۔ ضرب االمثال کے سلسلے میں جو واقعہ ساتھ دیا‬
‫ہے وہ معلوماتی ہے اس سے ضرب المثل کا سیاق و سباق سمجھنا آسان ہے ۔ ص ‪ ۱۱۱‬پر سجع نثر پر بات کرنے‬
‫سے پہلے لفظ ’’سجع‘‘ پر طویل رائے غیر ضروری ہے ۔ اس لیے عربی ادب کی تاریخ جو سات سو سے اوپر‬
‫صفحات کا احاطہ کیے ہوئے ہے لیکن معلقات اور اصحاب معلقات پر اختتام پذیر ہو جاتی ہے۔‬
‫جاہلی شاعر ی حقیقت یا افسانہ پر بحث میں مصنف عالمانہ اسلوب میں بات کرتا ہے اس پر شکوک کا رد‬
‫عمل اس پر بھی مستزاد قدیم جاہلی شاعری کے منتخب مجموعوں کا ذکر کرتے ہوئے ان کی بے جا تفصیل بیان کی‬
‫گئی ہے۔ دیوان الحماسہ کے ضمنی ابواب کی تفصیل دی ہے معلقات کی تفصیل تو کسی حد تک روا ہے۔‬
‫معلقات کے شعراء میں محمد کاظم نے عنترہ کو آخر میں جگہ دی ہے جبکہ خورشید رضوی نے حارث‬
‫بن حلزہ کو آخر میں رکھا ہے۔ اس کے حوالے سے ان دونوں اصحاب نے کوئی تذکرہ نہیں کیا۔ اصحاب معلقات کا‬
‫جائزہ خورشید رضوی نے بہت تفصیل سے لیا ہے اور مزید تفصیل حواشی میں بھی دی ہے۔ مذکورہ مصنف نے‬
‫حواشی میں امرؤ القیس کے حوالے سے دوروایات بیان کی ہیں۔‬
‫’’امرؤ القیس نے بعض عورتوں سے یہ سوال بھی کیا کہ میری کون سی بات عورتوں کو ناپسند ہوتی ہے‬
‫ایک کا جواب تھا کہ جب تجھے پسینہ آتا ہے تو کتے کی سی بو آتی ہے دوسری کا تبصرہ اور بھی بلیغ تھا جس نے‬
‫کہا کہ تیرا سینہ بھاری ہے اور کولھے ہلکے ہیں۔ نکاسی جلد اور بحالی دیر سے ہوتی ہے‘‘۔‬
‫’’دوسری روایت بھی قابل ذکر ہے کہ امرؤ القیس اوالد نرینہ سے محروم‬
‫تھا اور لڑکی کا باپ بننا اسے گوارا نہ تھا چنانچہ وہ اپنی بیٹیوں کو زندہ گاڑ‬
‫دیا کرتا تھا۔ اس کی اس عادت کو دیکھتے ہوئے اس کی بیویوں نے بچیوں‬
‫کو در پردہ مختلف قبائل میں پہنچانا شروع کر دیا مگر امرؤ القیس کو علم ہو‬
‫گیا اور اس نے سراغ لگا کر انہیں قتل کیا۔ ایک اور روایت کے مطابق امرؤ‬
‫القیس کی ددربدری میں اس کی بیٹی ہند بھی اس کے ہمراہ تھی جو زر ہوں‬
‫اور زرومال کے ساتھ سموءل کی حفاظت میں رہی ۔ اس کے لئے ‘‘المرأۃ’’‬
‫(عورت) کا لفظ داللت کرتا ہے کہ وہ کم سن نہیں تھی‘‘۔ (ص ‪ ،۳۶۱‬قبل‬
‫عرب قبل از اسالم‪ ،‬خورشید رضوی)‬
‫مذکورہ اول روایت کو محمد کاظم نے حواشی میں یوں بیان کیا ہے‪:‬‬
‫’’تمہارا سینہ بھاری ہے اور سرین ہلکے ہیں ۔ تمہارا نکاس بہت جلد ہو جاتا‬
‫ہے اور تم دیر میں بحال ہوتے ہو‘‘۔ (ص ‪ ،۱۱‬عربی ادب میں مطالعے ‪،‬‬
‫محمد کاظم)‬
‫امرؤ القیس کا لقب ’’الملک الضلیل ‘‘ کا ترجمہ خورشید رضوی نے ‘‘شاہ گم راہ’’ کے نام کیا ہے جبکہ‬
‫محمد کاظم نے ’’دربدر پھرنے واال بادشاہ‘‘ اور ’’شاہ گم کردہ راہ‘‘ کے نام سے کیا ہے۔ عربی زبان میں دونوں کی‬
‫حیثیت مسلمہ ہے۔‬
‫معلقات کے تمام شعراء کے حاالت زندگی ‪ ،‬نمونہ کالم‪ ،‬دواوین کا جائزہ خورشید رضوی نے تفصیالً لیا‬
‫ہے۔مزید تفصیل حواشی میں دی ہے ان کے نمونہ کالم پر بعض آراء کا بھی ذکر کیا ہے۔‬
‫طہ حسین پر مصنف کا مضمون قدرے مفصل انداز میں ہے۔ اسلوب بھی سلیس ہے لیکن اس‬ ‫مصری ڈاکٹر ٰ‬
‫میں عربی ادب کے حوالے سے اس کی تحریروں کا کوئی خاص حوالہ نہیں ہے۔ اس کی تصنیف ’’فی االدب‬
‫طہ حسین کے‬ ‫الجاہلی‘‘ کا مختصر تذکرہ ہے اور اس کی خود نوشت ’’االیام‘‘ کا ذکر مذکورہ مضمون میں ڈاکٹر ٰ‬
‫حاالت زندگی کا بیان اس خود نوشت کے حوالے سے دیا گیا ہے۔‬
‫طہ حسین نے ’’اقبال‘‘ پر عربی زبان میں مضمون لکھا۔ خورشید رضوی نے اس کااردو ترجمہ کر‬ ‫ڈاکٹر ٰ‬
‫طہ حسین کے نظریات سے متعارف کروانے کی کوشش کی ہے۔‬ ‫کے اردو ادب کے قارئین کو اقبال کے بارے میں ٰ‬
‫طہ حسین نے اقبال کو عرب شاعر ابو العال معری کے مماثل قرار دیا ہے۔ دوسرا مضمون مصنف نے‬ ‫اس میں ٰ‬
‫‘‘اقبال‪ ،‬عربی اور دنیائے عرب’’ کے عنوان سے تحریر کیا ہے۔ اس میں عربی شاعری اور عرب ثقافت سے اقبال‬
‫کے لگاؤ اور عربوں کی اقبال سے عقیدت مندی کو بیان کیا ہے۔‬
‫طہ حسین کے حوالے سے کہتا ہے‪:‬‬ ‫مصنف ڈاکٹر ٰ‬
‫’’ابو العال معری اپنے ایام حیات میں ہندوستان کی طرف نظر جمائے رہا‬
‫وہیں سے اخذ کرتا رہا اور اثر قبول کرتا رہا یہاں تک کہ اپنی زندگی میں‬
‫تارک الدنیا برہمنوں کی سی روش اختیار کر لی۔ اقبال عربوں کی طرف‬
‫دیکھتا تھا‪ ،‬انہی کے گن گاتا تھا‪ ،‬انہی کی مداحی کرتا تھا اور انہی کو اس‬
‫انسانیت کا مثالی نمونہ تصور کرتا تھا جو وجود ‪ ،‬حیات اور بقا کا حق‬
‫رکھتی تھی‘‘۔‬
‫(ص ‪ ،۱۱۱ ،۱۱۵‬تالیف‪ ،‬ڈاکٹر خورشید رضوی)‬
‫مصنف نے پنج تنتر ’’کلیلہ ودمنہ‘‘ پر جو مضمون تحریر کیا ہے اس میں اس کے ہندی االصل ہونے اور‬
‫ایران تک جانے کا قصہ بیان کیا ہے اسکے بعد یہ دنیائے عرب میں کب اور کیسے پہنچی اس حوالے سے کچھ نہیں‬
‫بتایا۔‬
‫’’عربی شاعری اندلس میں‘‘( ایک طائرانہ جائزہ) خاصا مفصل مضمون ہے۔ اندلس میں تخلیق ہونے والی‬
‫عربی شاعری کے اولین قابل ذکر محفوظ رہ جانے والے نمونے کا ذکر کیا ہے۔ اندلس میں عہد بہ عہد اموی‬
‫حکمرانوں اور ان کے دور حکومت میں عربی ادب کے ارتقاء پر بحث کی ہے۔ اندلسی شاعری بھی عربی شاعری‬
‫کی روایت کی گرفت میں ہے۔مصنف نے اب و نواس کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس نے جاہلی شاعری کی فرسودہ‬
‫روایت پر پھبتی کسی ہےکہ نشانات دیار پر کھڑاہو کر رونے کی بجائے بیٹھ کر روئے لیکن ابو نواس کا پس نظر‬
‫بیان نہیں کیا کہ اس پر اپنی ماں کی وجہ سے ایرانی اثرات کا غلبہ تھا اور اس لیے اس کی شاعری میں ’’شعوبیت‘‘‬
‫کا رجحان ملتا ہے۔‬
‫مصنف نے اندلس کے مختلف شعراء کے بارے میں بتایا ہے کہ شاعری کا ذوق اندلسی ثقافت کی رگ و‬
‫پے میں سرایت کر گیا تھا۔ یہانمرثیے کی روایت تو مشرق سے ہی آئی تھی اور اموات پر انہی روایتی اسالیب میں‬
‫اظہار رنج و غم کیا جاتا تھا۔ اندلس کے دیگر شعراء کے عالوہ مصنف دوسیاستدان شعراء کا ذکر کرتا ہے۔ ان میں‬
‫ابو القاسم محمد بن عباد المعتمد جو اشبیلہ و قرطبہ کا فرماں روا ہونے کے ساتھ شاعر آدمی تھا۔ اس کی شاعری کے‬
‫نمونہ کالم کا تفصیل سے ذکر کرتا ہے۔ دوسرا ابن الخطیب جو ’’ذوالعمرین‘‘ ’’دو زندگیوں واال‘‘ کے خطاب سے‬
‫مشہور تھا۔ اس کا دن سیاسی امور میں اور رات پڑھنے لکھنے میں بسر ہوتی تھی۔ لیکن دونوں کا انجام انتہائی‬
‫المناک ہوا۔ بعض لفظوں کی گرائمر کی رو سے تصحیح کی تفصیل مصنف نے حواشی میں دی ہے۔‬
‫عربی ادب کے حوالے سے مصنف کا تحقیقی مضمون ’’حجرہ نبویہ پر نعتیہ اشعار‘‘ کے عنوان ہے۔‬
‫مصنف نے ان اشعار کے شاعر اور انہیں کندہ کروانے والے فرماں روا کا تحقیقی نقطہ نظر سے جائزہ لیا ہے۔‬
‫عربی شعراء کا تذکرہ ’’قالئد الجمان‘‘ مورخ اور ادیب ابن الشعار کا ہے مصنف کی یہ بے مثال تحقیق‬
‫درحقیقت اس کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے۔ مذکورہ مجموعے کی پہلی جلد کے مخطوطے کے ساٹھ اوراق پر محنت‬
‫طلب کام مصنف نے عرصہ پانچ سال میں مکمل کر کے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی ۔ اس کام کے بعدمصنف کو اس‬
‫مجموعے کی خستہ حال چھٹی جلد کی تحقیق و تدوین کا کام موصل یونیورسٹی کے ایک استاد سے مال جو اس نے‬
‫بہت محنت سے خوش اسلوبی سے پایہ تکمیل تک پہنچا دیا اور اسے پنجاب یونیورسٹی نے شائع کیا۔‬
‫خورشید رضوی کا یہ تحقیقی کام عربی زبان میں ہے۔ اس لیے اگر محمد کاظم نے اس کا فنون میں تعارف‬
‫نہ کرایا ہوتا تو شاید کسی کو پتہ بھی نہ چلتا۔ محمد کاظم نے آسان فہم اسلوب میں اردو زبان میں اس تذکرے کے‬
‫مورخ ابن الشعار کا تعارف کروایا ہے اور پھر اس کے تحقیقی کام کی نوعیت کی مکمل تفصیل دی ہے۔‬
‫خورشید رضوی نے نامور ترکی محقق ڈاکٹر فواد سیزگین کے تیرہ عربی خطبات کا اردو ترجمہ کیا ہے۔‬
‫لیکن ان کا تعلق عربی ادبیات سے نہیں ہے۔ صرف ایک تیرہواں خطبہ ’’قدیم عربی شاعری۔۔۔۔ حقیقت یا افسانہ‘‘ اہم‬
‫ہے جس میں مختلف مستشرقین کی آراء کو حوالہ بنایا ہے۔‬
‫مصنف ڈاکٹر فواد کی یہ رائے پیش کرتا ہے۔‬
‫’’تدوین حدیث اور تدوین شعر میں یہ فرق ضرور ہے کہ حدیث میں وہ اسناد‬
‫بھی موجود ہوتا ہے جو مصادر کی نشاندہی کرتا ہے جبکہ شعر میں راویوں‬
‫کی کڑیوں کا ذکر نظر انداز کر دیا جاتا ہے تاہم بعض دستاویزوں میں قصائد‬
‫کے راویوں کا سلسلہ اسناد بھی مذکور ہے جو جاہلی دور کے قدیم ترین‬
‫راوی تک پہنچتا ہے‘‘۔ (ص ‪ ،۱۱۱‬تاریخ علوم میں تہذیب اسالمی کا مقام‪،‬‬
‫خطبات‪ ،‬ڈاکٹر فواد سیزگین‪ ،‬ترجمہ‪ :‬ڈاکٹر خورشید رضوی)‬
‫خورشید رضوی کی عربی دانی سے انکار نہیں لیکن اسلوب میں تفصیل پسندی اور تکرار معنوی کھٹکتی‬
‫ہے مگر یہ ایک طرح سےمصنف کی مجبوری ہے کہ اس نے تمام عمر ایک معلم کی حیثیت سے گزاری ہے۔‬
‫چنانچہ چھوٹی سے چھوٹی اور عام فہم بات کے لیے تشریح میں الجھ جانا استاد کی فطرت بن جاتی ہے۔ وہ اپنے‬
‫قاری کی ذہنی سطح کو طالب علم کے مساوی قرار دیتے ہوئے مختلف حوالوں سے ذہن نشین کرانا چاہتا ہے حاالنکہ‬
‫عام قارئین ادب کی ذہنی سطح میں فرق ہوتا ہے وہ اس اسلوب سے ذہنی کوفت محسوس کرتے ہیں۔‬
‫خورشید رضوی نے جاہلی شعراء کے کالم کا اردو ترجمہ کیا ہے اس کی تفصیل ذیل میں دی جاتی ہے۔‬
‫امرؤ القیس کے معلقے کا یہ شعر مالحظہ ہو۔‬
‫منزل‬
‫ٖ‬ ‫و‬ ‫حبیب‬ ‫ذکری‬
‫ٰ‬ ‫من‬ ‫نبک‬ ‫قفا‬
‫فحومل‬
‫ٖ‬ ‫الدخول‬ ‫بین‬ ‫اللوی‬
‫ٰ‬ ‫بسقط‬
‫’’ساتھیو! ٹھیرو کہ ہم گریہ کریں محبوب اور منزل محبوب کی یاد میں‬
‫(مقامات) دخول و حومل کے مابین خمیدہ ریگ تو دے کے اختتام پر‘‘۔‬
‫ولذتی‬ ‫الخمور‬ ‫تشرابی‬ ‫زال‬ ‫وما‬
‫ومتلدی‬ ‫طریفی‬ ‫واتفاقی‬ ‫وبیعی‬
‫کلھا‬ ‫العشیرہ‬ ‫تحامتنی‬ ‫ان‬ ‫الی‬
‫المعبد‬ ‫البعیر‬ ‫افراد‬ ‫وافردت‬
‫میری بادہ نوشی و لذتکوشی اور ذاتی و موروثی مال کو لٹا نے اور بیچ‬
‫حتی کہ ساری برادری نے مجھ سے کنارہ کشی‬ ‫کھانے کا سلسلہ دراز رہا ٰ‬
‫اختیار کر لی اور میں خارش زدہ اونٹ کی طرح الگ کر دیا گیا۔‬
‫صدورکم‬ ‫فی‬ ‫ما‬ ‫اللہ‬ ‫تکتمن‬ ‫فال‬
‫یعلم‬ ‫للہ‬ ‫یکتما‬ ‫ومھما‬ ‫لیحفی‬
‫ٰ‬
‫فیدخر‬ ‫کتاب‬ ‫فی‬ ‫فیوضع‬ ‫یوخر‬
‫فینقم‬ ‫یعجل‬ ‫او‬ ‫الحساب‬ ‫لیوم‬
‫سو تم ہرگز ہر گز اللہ سے دلوں کا بھید چھپانے کی کوشش نہ کرو اس خیال سے کہ وہ چھپا رہے گا جو‬
‫کچھ اللہ سے چھپایا جائے گا وہ اسے جان لے گا پھر یا تو اسے موخر کیا جائے گا اور ایک نوشتے میں درج کر‬
‫کے روز حساب تک کے لیے ذخیرہ کر دیا جائے گا یا پھر جلدی کی جائے گی اور فوری سزا دے دی جائے گی۔‬
‫فمقامھا‬ ‫محلھا‬ ‫الدیار‬ ‫عفت‬
‫فرجامھا‬ ‫تابدغولھا‬ ‫بمعنی‬
‫منی کے مقام پر (وہ پرانے) دیار مٹ گئے جہاں کبھی عارضی پڑاؤ رہا اور کبھی طویل اقامت اور غول‬ ‫ٰ‬
‫سے لے کر رجام تک کا سار اعالقہ اجاڑ ہو گیا۔‬
‫مکرمۃ‬ ‫کل‬ ‫عن‬ ‫تغلب‬ ‫بنی‬ ‫الھی‬
‫ٰ‬
‫کلثوم‬ ‫بن‬ ‫عمرو‬ ‫قالھا‬ ‫قصیدۃ‬
‫اولھم‬ ‫مذکان‬ ‫بھا‬ ‫یفاخرون‬
‫مسؤم‬ ‫غیر‬ ‫لشعر‬ ‫للرجال‬ ‫یا‬
‫بنو تغلب کو ہر شریفانہ کام سے اس ایک قصیدے نے غافل کر رکھا ہے جو عمر بن کلثوم کہہ گیا ہے ۔ یہ‬
‫اعلی کے زمانے سے مسلسل اسے پڑھتے چلے آ رہے ہیں دہائی ہے اے لوگو یہ بھی کیا نظم ہوئی کہ اس‬ ‫ٰ‬ ‫اپنے جد‬
‫سے (کسی صورت) انکا جی ہی نہیں بھرتا۔‬
‫عربی ادب کے ان محققین و ناقدین کے تقابل کےبارے میں( اشعار کے تراجم کے حوالے سے) ڈاکٹر‬
‫عذرا افضل (ایسوسی ایٹ پروفیسر‪ ،‬شعبہ عربی بہاء الدین زکریا یونیورسٹی‪ ،‬ملتان) نے یہ رائے دی ہے۔‬
‫’’محمد کاظم اور ڈاکٹر خورشید رضوی جن کا شمار اردو ادب کے ممتاز‬
‫ادباء میں ہوتا ہے اور ان کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اردو ادب‬
‫کے ساتھ ساتھ عربی ادب سے بھی گہری وابستگی رکھتے ہوئے کئی ایک‬
‫کتب کا ترجمہ اور تالیف کا کام کیا ہے۔‬
‫جہاں تک اس تحقیقی کام میں دونوں ادباء کا تعلق ہے جو انہوں نے زمانہ‬
‫جاہلیت کے مشہور شعراء کے قصائد کا ترجمہ کیا ہے جن کا شمار سبع‬
‫معلقات میں ہوتا ہے تو محمد کاظم کا ترجمہ اصل متن کے زیادہ قریب ہے۔‬
‫مترجم نے عربی اشعار میں موجود تمام کلمات کے معانی و مطالب اور‬
‫خاص طور پر صرفی و نحوی باریکیوں کو مد نظر رکھا ہے جبکہ ڈاکٹر‬
‫خورشید رضوی نے بعض اشعار میں صرف مفہوم بیان کیا ہے جو قاری‬
‫کےلیے ناکافی ہے۔ بہر حال دونوں ادیبوں کا اسلوب سادہ اور آسان فہم ہے‬
‫یہ علمی و ادبی کام نہ صرف اردو کے طالب علموں کے لیے گراں قدر‬
‫اضافہ ہے بلکہ عربی ادب کے طالب علم اس سے بھرپور مستفید ہو سکتے‬
‫ہیں‘‘۔‬
‫کتابیات‬
‫(ا) خورشید رضوی‬

‫بنیادی ما ٓخذ‪:‬‬
‫‪ 76‬خورشید رضوی‪ ،‬ڈاکٹر‪ ،‬عربی ادب قبل از اسالم‪ ،‬جلد اول‪ ،‬الہور‪ ،‬ادارہ‬
‫اسالمیات پبلشرز‪ ،‬بک سیلرز‪ ،‬ایکسپورٹرز‪ ،‬اشاعت اول‪۱۰۱۰ ،‬ء‬
‫‪ 74‬خورشید رضوی‪ ،‬ڈاکٹر (مترجم) تاریخ علوم میں تہذیب اسالمی کا مقام‪،‬‬
‫خطبات‪ ،‬ڈاکٹڑ فواد سیزگین‪ ،‬اسالم آباد‪ ،‬ادارہ تحقیقات اسالمی الجامعہ‬
‫االسالمیۃ العالیۃ‪ ،‬اشاعت اول ‪۱۸۸۴‬ء۔‬
‫‪ 71‬خورشید رضوی‪ ،‬ڈاکٹر‪ ،‬عربی شاعری ایک تعارف (آغاز تاعہد بنی اُمیہ)‪،‬‬
‫الہور شیخ زاید اسالمک سینٹر‪ ،‬جامعہ پنجاب‪ ،‬سال اشاعت ‪۱۰۱۳‬ء‬
‫‪ 72‬خورشید رضوی‪ ،‬ڈاکٹر‪ ،‬اطراف‪ ،‬الہور‪ ،‬مغربی پاکستان اُردو اکیڈمی‪،‬‬
‫‪۱۰۱۱‬ءطبع دوم‬
‫‪ 79‬خورشید رضوی‪ ،‬ڈاکٹر‪ ،‬تالیف‪ ،‬الہور‪ ،‬شہ تاج مطبوعات‪۱۸۸۶ ،‬ء‬
‫‪ 71‬خورشید رضوی‪ ،‬ڈاکٹر‪ ،‬قالئد الجمان فے فرائد شعراء ہذاالزمان‪ ،‬الہور‪ ،‬شیخ‬
‫اسالمک زید سنٹر یونیورسٹی آف پنجاب‬
‫‪ 79‬خورشید رضوی‪ ،‬ڈاکٹر‪ ،‬دیریاب‪ ،‬الہور‪ ،‬القا پبلی کیشنز‪ ،‬اشاعت اول ‪۱۰۱۳‬ء‬
‫‪ 78‬خورشید رضوی‪ ،‬ڈاکٹر‪ ،‬نسبتیں‪ ،‬الہور‪ ،‬انٹرنیشنل نعت مرکز‪۱۰۱۶ ،‬ء‬
‫‪ 77‬خورشید رضوی‪ ،‬ڈاکٹر‪،‬یکجا (شاخ تنہا‪ ،‬سرابوں کے صدف‪ ،‬رائگاں‪ ،‬امکان)‬
‫الہور‪ ،‬الحمد پبلی کیشنز‪ ،‬اشاعت دوم ‪۱۰۱۱‬ء‬
‫خورشید رضوی‪ ،‬ڈاکٹر‪ ،‬حکم المحکمۃ الشرعیۃ (انگریزی سے عربی‬ ‫‪761‬‬
‫ترجمہ)‪ ،‬بابر وفاقی شرعی عدالت کے انگریزی فیصلے کا عربی ترجمہ‪،‬‬
‫اہتمام اسالمی ترقیاتی بنک جدہ‪۱۸۸۶ ،‬ء‬

‫(ب) محمد کاظم (بنیادی ما ٓخذ)‬


‫محمد کاظم‪ ،‬عربی ادب کی تاریخ (دور جاہلیت سے موجودہ دور تک) الہور‪،‬‬ ‫‪76‬‬
‫سنگ میل پبلی کیشنز‪۱۰۰۴ ،‬ء‬
‫محمد کاظم‪ ،‬عربی ادب میں مطالعے‪ ،‬الہور‪ ،‬سنگ میل پبلی کیشنز‪۱۰۱۱ ،‬ء‬ ‫‪74‬‬
‫محمد کاظم‪ ،‬جنید بغداد‪ ،‬الہور‪ ،‬سنگ میل پبلی کیشنز‪۱۰۰۱ ،‬ء‬ ‫‪71‬‬
‫محمد کاظم‪ ،‬اخوان الصفاء اور دوسرے مضامین‪ ،‬الہور‪ ،‬سنگ میل پبلی‬ ‫‪72‬‬
‫کیشنز‪۱۰۰۳ ،‬ء‬
‫محمد کاظم‪ ،‬مسلم فکرو فلسفہ عہد بعہد‪ ،‬الہور‪ ،‬مشعل بکس‪۱۰۰۱ ،‬ء‬ ‫‪79‬‬
‫‪ 71‬محمد کاظم‪ ،‬کل کی بات (جائزے اور تبصرے)‪ ،‬الہور القا پبلی کیشنز‪ ،‬اشاعت‬
‫اول ‪۱۰۱۰‬ء‬
‫‪ 79‬محمد کاظم‪ ،‬یادیں اور باتیں (خاکے اور منتخب مضامین) الہور‪ ،‬سنگ میل‬
‫پبلی کیشنز‪۱۰۱۰ ،‬ء‬
‫‪ 78‬محمد کاظم‪ ،‬مغربی جرمنی میں ایک برس (سفرنامہ) الہور‪ ،‬سنگ میل پبلی‬
‫کیشنز‪,۱۰۰۵ ،‬‬
‫‪ 77‬محمد کاظم‪ ،‬قرآن کے بنیادی موضوعات‪ ،‬الہور‪ ،‬مشعل بکس‪۱۰۰۸ ،‬ء‬
‫محمد کاظم‪ ،‬اسالم‪ ،‬الہور‪ ،‬مشعل بکس ‪۱۰۰۵‬ء‬ ‫‪761‬‬
‫محمد کاظم‪ ،‬اسالم اور جدیدیت‪ ،‬الہور‪ ،‬مشعل بکس‪۱۸۸۱ ،‬ء‬ ‫‪766‬‬
‫محمد کاظم‪ ،‬عربی سیکھیے‪ ،‬الہور‪ ،‬سنگ میل پبلی کیشنز‪۱۰۰۵ ،‬ء‬ ‫‪764‬‬
‫محمد کاظم‪ ،‬قرآن کریم کا سلیس اور رواں اُردو ترجمہ‪ ،‬الہور‪ ،‬سنگ‬ ‫‪761‬‬
‫میل پبلی کیشنز‪۱۰۱۱ ،‬ء‬

‫(ج) ثانوی ما ٓخذ (کتب)‬


‫‪ 76‬امیر علی‪،‬سید‪ ،‬تاریخ اسالم‪ ،‬مترجم‪ ،‬باری علیگ‪ ،‬الہور‪۱۸۸۱ ،‬ء‬
‫‪ 74‬انتظار حسین‪ ،‬جستجو کیا ہے‪ ،‬الہور‪ ،‬سنگ میل پبلی کیشنز‪۱۰۱۱ ،‬ء‬
‫‪ 71‬انور سدید‪ ،‬ڈاکٹر‪ ،‬پاکستان میں ادبی رسائل کی تاریخ‪ ،‬اسالم آباد‪ ،‬اکادمی‬
‫ادبیات‪ ،‬اشاعت اول ‪۱۸۵۱‬ء‬
‫‪ 72‬برج‪ ،‬موہن‪ ،‬دتاتریہ کیفی‪ ،‬پنڈت ‪،‬کیفیہ‪ ،‬کراچی‪ ،‬فضلی بک سپر مارکیٹ‪،‬‬
‫‪۱۰۱۵‬ء‬
‫‪ 79‬جمیل جالبی‪ ،‬ڈاکٹر‪ ،‬تاریخ ادب اُردو جلد دوم‪ ،‬الہور‪ ،‬مجلس ترقی ادب‪،‬‬
‫‪۱۰۰۸‬ء‬
‫‪ 71‬رابعہ سرفراز‪ ،‬ڈاکٹر‪ ،‬ترجمہ‪ ،‬فن اور اہمیت‪ ،‬اسالم آباد‪ ،‬ہائرایجوکیشن کمیشن‪،‬‬
‫‪۱۰۱۱‬ء‬
‫‪ 79‬زاہد منیر عامر‪(،‬مولف ) ڈاکٹر‪ ،‬ارمغان خورشید‪ ،‬الہور‪ ،‬پنجاب یونیورسٹی‪،‬‬
‫اشاعت اول ‪۱۰۱۶‬ء‬
‫‪ 78‬زبید احمد‪،‬ڈاکٹر‪ ،‬عربنی ادبیات میں پاک وہند کا حصہ‪ ،‬مترجم‪ ،‬شاہد حسین‬
‫رزاقی‪ ،‬الہور ادارہ ثقافت اسالمیہ‪ ،‬طبع اول ‪۱۸۱۳‬ء‬
‫‪ 77‬زیات‪ ،‬احمد حسن‪ ،‬تاریخ ادب عربی‪ ،‬مترجم‪ ،‬عبد الرحمن طاہر سورتی‪ ،‬الہور‪،‬‬
‫شیخ غالم علی سنز پبلشرز‪ ،‬اشاعت دوم ‪۱۸۱۱‬ء‬
‫عفت سرفراز‪ ،‬سہ ماہی‪ ،‬الزبیر‪ ،‬بہاول پور‪ ،‬خصوصی شماروں کا ادبی‬ ‫‪761‬‬
‫وتحقیقی جائزہ‪ ،‬الہور ‪۱۰۱۶‬ء‬
‫غالم رسول‪ ،‬مہر‪ ،‬مطالب اسرار و رموز‪ ،‬الہور‪ ،‬شیخ غالم علی اینڈ‬ ‫‪766‬‬
‫سنز پبلشرز‪۱۸۵۰ ،‬ء‬
‫فتح محمد‪ ،‬ملک‪ ،‬انتظار حسین کا خواب نامہ‪ ،‬الہور‪ ،‬سنگ میل پبلی‬ ‫‪764‬‬
‫کیشنز‪۱۰۱۵ ،‬ء‬
‫کامران اعظم‪ ،‬سوہدروی‪ ،‬تذکرہ شہدائے کربالء‪ ،‬اسالم آباد‪ ،‬اشاعت‬ ‫‪761‬‬
‫دوم‪۱۰۱۰ ،‬ء‬
‫گیان چند‪ ،‬ڈاکٹر‪ ،‬اُردو کی نثری داستانیں‪ ،‬کراچی‪ ،‬انجمن ترقی اُردو‪،‬‬ ‫‪762‬‬
‫اشاعت ثانی ‪۱۸۵۸‬ء‬
‫گیان چند‪ ،‬ڈاکٹر‪ ،‬لسانی جائزے‪ ،‬الہور‪۱۰۰۶ ،‬ء‬ ‫‪769‬‬
‫محمد انصار اللہ‪ ،‬تاریخ ارتقاء زبان و ادب‪ ،‬الہور‪ ،‬مغربی پاکستان اُردو‬ ‫‪761‬‬
‫اکیڈمی‪۱۰۰۵‬ء‬
‫محمد علی‪ ،‬عالمہ‪ ،‬فاضل‪ ،‬کاروان شہادت مدینہ تامدینہ‪ ،‬منزل بہ منزل‪،‬‬ ‫‪769‬‬
‫الہور‪ ،‬مکتبہ ہادی‪۱۰۱۰ ،‬ء‬
‫محمد یعقوب کلینی‪ ،‬الشافی‪ ،‬مترجم‪ ،‬سید ظفر حسن‪ ،‬اصول کافی‬ ‫‪768‬‬
‫(جلدسوم) کراچی‪ ،‬ظفر شمیم پبلی کیشنز‪ ،‬گلستان جوہر‪۱۰۱۱،‬ء‬
‫محی الدین قادری‪ ،‬ہندوستانی لسانیات‪ ،‬کراچی‪ ،‬فضلی بک سپر‬ ‫‪767‬‬
‫مارکیٹ‪۱۰۱۵ ،‬ء‬
‫مسعود علی‪ ،‬ندوی‪ ،‬موالنا‪ ،‬ہندوستان عربوں کی نظر میں‪ ،‬دارالمصنفین‬ ‫‪741‬‬
‫اعظم گڑھ‪ ،‬جلد دوم ‪۱۸۵۱‬ء‬
‫ندوی‪ ،‬سید سلیمان‪ ،‬عرب وہند کے تعلقات‪ ،‬کراچی‪ ،‬کریم سنز پبلشرز‪،‬‬ ‫‪746‬‬
‫اشاعت اول ‪۱۸۱۵‬ء‬
‫یونس حسنی‪ ،‬ڈاکٹر‪ ،‬اختر شیرانی اور جدید اُردو ادب‪ ،‬کراچی‪ ،‬انجمن‬ ‫‪744‬‬
‫ترقی اُردو‪ ،‬اشاعت ثانی ‪۱۰۰۸‬ء‬

‫(د) رسائل وجرائد‪ ،‬مقاالت‪ ،‬اخبارات‬

‫(‪ )۶‬الحمرا‪ ،‬الہور(مدیر‪ ،‬حامد علی خان)‬


‫چند روز اُردن میں (‪ )۱‬فروری ‪۱۰۱۳‬ء خورشید رضوی‬ ‫‪76‬‬
‫چند روز اُردن میں (‪ )۱‬مارچ‪۱۰۱۳‬ء خورشید رضوی‬ ‫‪74‬‬
‫دن جو علی گڑھ میں گزرے‪ ،‬جنوری ‪۱۰۱۱‬ء محمد کاظم‬ ‫‪71‬‬
‫دن جو علی گڑھ میں گزرے‪ ،‬دسمبر ‪۱۰۱۱‬ء محمد کاظم‬ ‫‪72‬‬
‫کاظم صاحب کی یاد میں مئی ‪۱۰۱۴‬ء خورشید رضوی‬ ‫‪79‬‬
‫مدینہ خیبر اور مدائن صالح فروری ‪۱۰۱۴‬ء خورشید رضوی‬ ‫‪71‬‬
‫مدینہ خیبر اور مدائن صالح مارچ‪۱۰۱۴‬ء خورشید رضوی‬ ‫‪79‬‬

‫(‪ )۹‬اوراق‪ ،‬الہور (مدیر‪ ،‬ڈاکٹر وزیر آغا)‬


‫‪ 76‬پنج تنتر (مشہور عربی داستان کلیلہ و دمنہ کے سسنکرت مآخذ کا مطالعہ)‬
‫جوالئی‪ ،‬اگست ‪۱۸۱۵‬ء‬
‫‪ 74‬میں نے اس کو دیکھا ہے (مجید امجد کی یاد میں) ستمبر‪ ،‬اکتوبر ‪۱۸۱۶‬ء‬
‫‪ 71‬ناصر کاظمی‪ ،‬مارچ‪ ،‬اپریل ‪۱۸۱۳‬ء‬

‫(‪ )۳‬پیلھوں‪ ،‬ملتان (مدیر‪ ،‬ڈاکٹر انور احمد)‬


‫‪ 76‬محمد کاظم کا خط مدیر پیلھوں کے نام‪ ،‬جنوری تا مارچ ‪۱۰۱۴‬ء‬
‫‪ 74‬محمد کاظم وفات پر اظہار تعزیت‪ ،‬شاکر حسین شاکر‪ ،‬اپریل تا جون ‪۱۰۱۴‬ء‬

‫الرحمن)‬
‫(‪ )۴‬سویرا‪ ،‬الہور (مدیر ‪ ،‬محمد سلیم ّ‬
‫‪ 76‬عربی ادب قبل از اسالم (‪ )۱‬ستمبر‪ ،‬اکتوبر ‪۱۰۰۳‬ء خورشید رضوی‬
‫‪ 74‬عربی ادب قبل ازاسالم (‪ )۱‬نومبر‪ ،‬دسمبر ‪۱۰۰۳‬ء خورشید رضوی‬
‫‪ 71‬عربی ادب قبل ازاسالم (‪ )۳‬جنوری‪ ،‬فروری ‪۱۰۰۴‬ء خورشید رضوی‬
‫‪ 72‬عربی ادب قبل ازاسالم (‪ )۴‬مارچ‪ ،‬اپریل ‪۱۰۰۴‬ء خورشید رضوی‬
‫‪ 79‬عربی ادب قبل ازاسالم (‪ )۶‬مئی‪ ،‬جون ‪۱۰۰۴‬ء خورشید رضوی‬
‫‪ 71‬عربی ادب قبل ازاسالم (‪ )۵‬جوالئی‪ ،‬اگست‪۱۰۰۴‬ء خورشید رضوی‬
‫‪ 79‬عربی ادب قبل ازاسالم (‪ )۱‬ستمبر‪ ،‬اکتوبر ‪۱۰۰۴‬ء خورشید رضوی‬
‫‪ 78‬عربی ادب قبل ازاسالم (‪ )۱‬نومبر‪ ،‬دسمبر‪۱۰۰۴‬ء خورشید رضوی‬
‫‪ 77‬عربی ادب قبل ازاسالم (‪ )۸‬جنوری‪ ،‬فروری ‪۱۰۰۶‬ء خورشید رضوی‬
‫عربی ادب قبل ازاسالم (‪ )۱۰‬مارچ‪ ،‬اپریل ‪۱۰۰۶‬ء خورشید رضوی‬ ‫‪761‬‬
‫عربی ادب قبل ازاسالم (‪ )۱۱‬مئی ‪ ،‬جون ‪۱۰۰۶‬ء خورشید رضوی‬ ‫‪766‬‬
‫عربی ادب قبل ازاسالم (‪ )۱۱‬جوالئی‪ ،‬اگست‪۱۰۰۶‬ء خورشید رضوی‬ ‫‪764‬‬
‫عربی ادب قبل ازاسالم (‪ )۱۳‬ستمبر‪ ،‬اکتوبر‪۱۰۰۶‬ء خورشید رضوی‬ ‫‪761‬‬
‫عربی ادب قبل ازاسالم (‪ )۱۴‬نومبر‪ ،‬دسمبر‪۱۰۰۶‬ء خورشید رضوی‬ ‫‪762‬‬
‫عربی ادب قبل ازاسالم (‪ )۱۶‬جنوری‪ ،‬فروری ‪۱۰۰۵‬ء خورشید‬ ‫‪769‬‬
‫رضوی‬
‫عربی ادب قبل ازاسالم (‪ )۱۵‬مارچ‪ ،‬اپریل‪۱۰۰۵‬ء خورشید رضوی‬ ‫‪761‬‬
‫عربی ادب قبل ازاسالم (‪ )۱۱‬مئی ‪ ،‬جون ‪۱۰۰۵‬ء خورشید رضوی‬ ‫‪769‬‬
‫عربی ادب قبل ازاسالم (‪ )۱۱‬جوالئی‪ ،‬اگست ‪۱۰۰۵‬ء خورشید رضوی‬ ‫‪768‬‬
‫عربی ادب قبل ازاسالم (‪ )۱۸‬ستمبر‪ ،‬اکتوبر‪۱۰۰۵‬ء خورشید رضوی‬ ‫‪767‬‬
‫عربی ادب قبل ازاسالم (‪ )۱۰‬نومبر‪ ،‬دسمبر ‪۱۰۰۵‬ء خورشید رضوی‬ ‫‪741‬‬

‫(‪ )۰‬فنون‪ ،‬الہور (مدیر ‪ ،‬احمد ندیم قاسمی)‬


‫‪ )۱( 76‬الف لیلہ عربی ادب میں (‪ )۱‬مثنوی سراالسرار‪ ،‬جنوری ‪۱۸۵۴‬ء محمد‬
‫کاظم‬
‫‪ )۱( 74‬عرب ادب زمانہ حال‪ )۱( ،‬خواجہ غالم فرید (تبصرہ) اپریل‪ ،‬مئی‬
‫‪۱۸۵۴‬ء محمد کاظم‬
‫‪ )۱( 71‬امانت ڈرامہ (تبصرہ) (‪ )۱‬شہرت کی خاطر (تبصرہ) اکتوبر‪ ،‬نومبر‬
‫‪۱۸۵۴‬ء محمد کاظم‬
‫‪ 72‬ماڈرن قلندر‪ ،‬جوالئی‪ ،‬اگست ‪۱۸۵۵‬ء‬
‫‪ )۱( 79‬دوپاٹن کے بیچ (‪ )۱‬جرمنی نامہ (‪ )۳‬اسالمی ریاست (ایک تاریخی جائزہ)‬
‫مئی‪ ،‬جون ‪۱۸۵۱‬ء محمد کاظم‬
‫‪ )۱( 71‬مکاتیب بہادریار جنگ (‪ )۱‬خالفت راشدہ اور جمہوری قدریں‪ ،‬جنوری‪،‬‬
‫فروری ‪۱۸۵۱‬ء محمد کاظم‬
‫‪ 79‬دربار ملی‪ ،‬مئی‪،‬جون ‪۱۸۵۸‬ء محمد کاظم‬
‫‪ )۱( 78‬اسالم پاکستان (‪ )۱‬دبستان غالب‪ ،‬نومبر‪ ،‬دسمبر ‪۱۸۵۸‬ء محمد کاظم‬
‫‪ )۱( 77‬الہمزیۃ النبویۃ (‪ )۱‬االخبار الطوال (‪ )۳‬عربی افسانہ جون ‪۱۸۵۱‬ء کی‬
‫شکست کے بعد‪ ،‬فروری ‪۱۸۱۰‬ء محمد کاظم‬
‫دھنک پر قدم‪ ،‬مئی‪ ،‬جون ‪۱۸۱۰‬ء محمد کاظم‬ ‫‪761‬‬
‫مغربی جرمنی میں ایک برس (‪ )۱‬اپریل ‪ ،‬مئی ‪۱۸۱۱‬ء محمد کاظم‬ ‫‪766‬‬
‫مغربی جرمنی میں ایک برس (‪ ،)۱‬جون ‪ ،‬جوالئی ‪۱۸۱۱‬ء محمد کاظم‬ ‫‪764‬‬
‫مغربی جرمنی میں ایک برس (‪ )۳‬اگست‪ ،‬ستمبر ‪۱۸۱۱‬ء محمد کاظم‬ ‫‪761‬‬
‫من ہائیم (‪ )۴‬اکتوبر‪ ،‬نومبر ‪۱۸۱۱‬ء محمد کاظم‬ ‫‪762‬‬
‫اقبال کا علم کالم ایک جائزہ‪ ،‬جنوری‪ ،‬فروری ‪۱۸۱۳‬ء محمد کاظم‬ ‫‪769‬‬
‫فدوی طوقان (‪ )۱‬من ہائیم (‪ )۶‬اپریل ‪ ،‬مئی ‪۱۸۱۳‬ء محمد کاظم‬‫(‪ٰ ) ۱‬‬ ‫‪761‬‬
‫من ہایئم (‪ )۵‬جوالئی‪ ،‬اگست ‪۱۸۱۳‬ء محمد کاظم‬ ‫‪769‬‬
‫(‪ )۱‬ایک فلسطینی شاعر کا سفر زندگی۔۔۔ محمود درویش (‪ )۱‬من ہائیم‬ ‫‪768‬‬
‫(‪ )۱‬ستمبر‪ ،‬اکتوبر ‪۱۸۱۳‬ء محمد کاظم‬
‫سولثرے نتسن اور اس کی سات مختصر کہانیاں‪ ،‬جنوری‪ ،‬فروری‬ ‫‪767‬‬
‫‪۱۸۱۴‬ء محمد کاظم‬
‫پابلو نیرودا سے ایک گفتگو (‪ )۱‬اپریل‪ ،‬مئی ‪۱۸۱۴‬ء محمد کاظم‬ ‫‪741‬‬
‫پابلو نیرودا سے ایک گفتگو (‪ )۱‬جون ‪ ،‬جوالئی ‪۱۸۱۴‬ء محمد کاظم‬ ‫‪746‬‬
‫(‪ )۱‬امرؤ القیس (عہد جاہلیت کا شاہ گم کردہ راہ) (‪ )۱‬من ہائیم (‪)۱‬‬ ‫‪744‬‬
‫اگست ‪۱۸۱۴‬ء محمد کاظم‬
‫آخن میوہلے (‪ )۴‬اپریل‪ ،‬مئی ‪۱۸۱۶‬ء محمد کاظم‬ ‫‪741‬‬
‫(‪ )۱‬ابو نواس (دور عباسی کا شاعر مینا وجام) (‪ )۱‬آخن میوہلے (‪)۶‬‬ ‫‪742‬‬
‫(‪ )۳‬ماہنامہ افکار (ندیم نمبر) جوالئی‪ ،‬اگست ‪۱۸۱۶‬ء‬
‫جون ‪۱۸۵۱‬ء کے بعد کی جدید شاعری‪ ،‬اگست‪ ،‬ستمبر ‪۱۸۱۵‬ء محمد‬ ‫‪749‬‬
‫کاظم‬
‫آخن میوہلے (‪ )۵‬مارچ‪ ،‬اپریل ‪۱۸۱۱‬ء‬ ‫‪741‬‬
‫(‪ )۱‬حسن الجرودہ فی شرح القصیدہ (اُردو) (‪ )۱‬آخن میوہلے (‪)۱‬‬ ‫‪749‬‬
‫اکتوبر‪ ،‬نومبر ‪۱۸۱۱‬ء محمد کاظم‬
‫(‪ )۱‬عربی ادب میں مطالعے (تبصرہ) خورشید رضوی (‪ )۱‬آخن‬ ‫‪748‬‬
‫میوہلے (‪ )۱‬ستمبر‪ ،‬اکتوبر ‪۱۸۱۸‬ء محمد کاظم‬
‫(‪ )۱‬محمد درویش کی تین نظمیں (‪ )۱‬مغربی جرمنی میں ایک برس‪،‬‬ ‫‪747‬‬
‫جنوری‪ ،‬فروری ‪۱۸۱۱‬ء محمد کاظم‬
‫مغربی جرمنی میں ایک برس‪ ،‬مئی‪ ،‬جون ‪۱۸۱۶‬ء محمد کاظم‬ ‫‪711‬‬
‫ادب و فن میں نقطہ عروج‪ ،‬جبرا ابراہیم‪ ،‬نومبر‪ ،‬دسمبر ‪۱۸۱۶‬ء محمد‬ ‫‪716‬‬
‫کاظم‬
‫معر َّی‪ ،‬نومبر‪ ،‬دسمبر‬
‫عربی شاعری میں فکر کا عنصر اور ابو العال ّ‬ ‫‪714‬‬
‫‪۱۸۱۵‬ء محمد کاظم‬
‫سائن بورڈ (افسانہ) نومبر‪ ،‬دسمبر ‪۱۸۱۱‬ء خورشید رضوی‬ ‫‪711‬‬
‫محمود درویش کی ایک طویل گفتگو اور ایک طویل نظم‪ ،‬جون‪،‬‬ ‫‪712‬‬
‫جوالئی ‪۱۸۱۸‬ء محمد کاظم‬
‫محمود درویش کا ایک پیش لفظ اور چار نظمیں‪ ،‬اکتوبر‪ ،‬نومبر ‪۱۸۱۸‬ء‬ ‫‪719‬‬
‫محمد کاظم‬
‫مشاہیر بہاول پور پر ایک نظر‪ ،‬نومبر‪ ،‬دسمبر ‪۱۸۱۸‬ء محمد کاظم‬ ‫‪711‬‬
‫اولی میں آزادی اظہار (تبصرہ) اپریل تا جون ‪۱۸۸۱‬ء‬
‫اسالم کے قرون ٰ‬ ‫‪719‬‬
‫محمد کاظم‬
‫دل سے کب اُس کی یاد جاتی ہے (اختر حسین جعفری) مئی‪ ،‬اگست‬ ‫‪718‬‬
‫‪۱۸۸۱‬ء محمد کاظم‬
‫العالمعری‪ ،‬اپریل تا جوالئی ‪۱۸۸۳‬ء محمد کاظم‬
‫ّ‬ ‫ابو‬ ‫‪717‬‬
‫روزن در‪ :‬موالنا محمد علی جوہر اور ان کے انتقال پر کہے گئے دو‬ ‫‪721‬‬
‫مرثیے‪ ،‬جوالئی تا دسمبر ‪۱۸۸۳‬ء محمد کاظم‬
‫دریا باد کے مزاج دار موالنا‪ ،‬جنوری تا اپریل ‪۱۸۸۴‬ء محمد کاظم‬ ‫‪726‬‬
‫جبران خلیل جبران اور اس کے افکار رومان جنوری تا اپریل ‪۱۸۸۶‬ء‬ ‫‪724‬‬
‫محمد کاظم‬
‫شاہ جالل پور‪ ،‬جوالئی ‪۱۸۸۱‬ء تا مارچ ‪۱۸۸۸‬ء محمد کاظم‬ ‫‪721‬‬
‫کبھی کبھی (افسانہ) اپریل تا جوالئی ‪۱۸۸۸‬ء خورشید رضوی‬ ‫‪722‬‬
‫(‪ )۱‬اخوان الصفاء (‪ )۱‬کیسر کیاری (کالموں کا مجموعہ) جنوری تا‬ ‫‪729‬‬
‫جون ‪۱۰۰۰‬ء محمد کاظم‬
‫کچھ دوسری طرح کی یادیں‪ ،‬جنوری تا جون ‪۱۰۰۱‬ء محمد کاظم‬ ‫‪721‬‬
‫حکیم نیر واسطی‪ ،‬اپریل تا اگست ‪۱۰۰۱‬ء خورشید رضوی‬ ‫‪729‬‬
‫چند ادیبوں کے خوابیدہ خطوط‪ ،‬محمد خالد اختر بنام ڈاکٹر انور محمود‪،‬‬ ‫‪728‬‬
‫اپریل ‪۱۰۱۴‬ء‬

‫الرحمن شامی)‬
‫(‪ )۶‬قومی ڈائجسٹ‪ ،‬الہور (مدیر‪ ،‬مجیب ّ‬
‫‪ 76‬خورشید رضوی کا انٹرویو‪ ،‬خالد ہمایوں‪ ،‬جنوری ‪۱۰۰۴‬ء‬
‫مقاالت‬
‫‪ 76‬محمد کاظم کی علمی اور ادبی خدمات‪ ،‬مقالہ نگار‪ ،‬شازیہ جبیں ‪ ،‬اورینٹل کالج‬
‫پنجاب یونیورسٹی الہور‪ ،‬سیشن ‪ ۱۸۸۱‬تا ‪۱۸۸۸‬ء مقالہ برائے ایم۔اے (اُردو)‬
‫‪ 74‬محمد کاظم کے سفر نامہ‪‘‘ ،‬مغربی جرمنی میں ایک برس کا تجزیاتی‬
‫مطالعہ’’‪ ،‬مقالہ نگار‪ ،‬محمد شکیل‪ ،‬سیشن ‪ ۱۰۰۸‬تا ‪۱۰۱۱‬ء مقالہ برائے ایم‬
‫اے (اُردو)‬

‫اخبارات‬
‫محمد کاظم کی وفات کے حوالے سے مندرجہ ذیل اخبارات کی فائلیں بھی دیکھی گیئں‬
‫جن میں تعزیتی کالم تحریر کیے گئے‬

‫روزنامہ ‪ ،‬ایکسپریس‪ ،‬الہور‪ ۱۰ ،‬اپریل ‪۱۰۱۴‬ء امجد اسالم امجد‬ ‫‪76‬‬


‫روزنامہ‪ ،‬ایکسپریس‪ ،‬الہور‪ ۱۱ ،‬اپریل ‪۱۰۱۴‬ء انتظار حسین‬ ‫‪74‬‬
‫روزنامہ‪ ،‬جنگ‪ ،‬ملتان ‪ ۱۰‬اپریل ‪۱۰۱۴‬ء عطاء الحق قاسمی‬ ‫‪71‬‬
‫روزنامہ‪ ،‬جنگ‪ ،‬ملتان‪ ۱۶ ،‬اپریل ‪۱۰۱۴‬ء مسعود اشعر‬ ‫‪72‬‬
‫روزنامہ‪ ،‬جنگ‪ ،‬ملتان‪ ۳۰ ،‬اپریل ‪۱۰۱۴‬ء علی تنہا‬ ‫‪79‬‬

You might also like