You are on page 1of 3

‫سیدمحمد ابو الخیر کشفی مسلم ہندوستان کے آخری دور میں قائم اودھ کی سلطنت سے‬

‫متعلق اپنی کتاب "اردو کا سیاسی اور تاریخی پس منظر" لکھتے ہیں‪:‬‬

‫"امجد علی شاہ کا دور بہت مختصر ہے۔ وہ ‪۱۸۴۲‬ء سے ‪۱۸۴۷‬ء تک فرماں روائے‬
‫اودھ رہے۔ انہیں عام طور پر "مذہبی حکمراں" قرار دیا جاتا ہے۔ مذہب کے رسمی‬
‫ؓ‬
‫حسین‬ ‫غم‬
‫پہلوؤں کی حد تک یہ بات درست ہے۔ امجد علی شاہ مجالس عزا برپا کرتے‪ِ ،‬‬
‫میں سیہ پوش رہتے اور انیس و دبیر کی مجالس میں شرکت کرتے۔ لیکن دوسری طرف‬
‫اسم اعظم‬
‫جنسی لذتوں کے دریا میں پیراکی کرتے اور شرعی پابندیوں پر متعہ کے ِ‬
‫سے قابو پالیتے۔ مذہب کو ذاتی مقاصد کے لئے بادشاہوں نے اکثر استعمال کیا ہے۔ دین‬
‫کو اجتماعی زندگی اور دل و نظر کی گہرائیوں سے الگ کرکے محض رسمی طور‬
‫پر اس کے شعائر کی پابندی سے نہ دنیا بنتی ہے ‪ ،‬نہ آخرت۔ اس نکتہ کو پیش نظر‬
‫رکھنے کے بعد امجد علی شاہ کے مذہبی رجحانات اور ان کے عہد کی اس تصویر میں‬
‫کوئی تضاد نہیں رہتا جو رجب علی بیگ سرور نے فسانہ عبرت میں پیش کی ہے‪:‬‬

‫برادر عزیز‬
‫ِ‬ ‫پیش خدمت ہمشیر ہے تو‬
‫'اس دور ے میں رنڈیوں کا دور ہوا۔۔۔ اگر ِ‬
‫حضرت کا مشیر ہے۔ خالہ‪ ،‬خلوت میں پائیں نشیں‪ ،‬بھانجا جلوت میں صدرامین۔ اُخت‬
‫سرکار میں‪ ،‬اخی اخبار میں اور جس کی اندر جوان لڑکی ہے‪ ،‬اس کی باہر سواری‬
‫بڑے ہلڑ کی ہے۔' (رجب علی بیگ سرور‪ :‬فسانہ عبرت)"‬

‫(اردو کا سیاسی اور تاریخی پس منظر صفحہ ‪)۵۴ – ۵۳‬‬

‫ت اودھ کی اس منظر نگاری کو دیکھ کر آج کا‬ ‫محمد ابو الخیر کشفی صاحب کی سلطن ِ‬
‫بعینہ یہی صورتحال آج ہمارے ملکی معاشرے میں‬ ‫ٖ‬ ‫پاکستان نظروں میں گھوم جاتا ہے۔‬
‫من و عن رائج ہوچلی ہے۔ بحیثیت قوم ہماری بدمذہبی و بے غیرتی اس قدر عروج پر‬
‫ہے کہ اہلسنت اکثریتی ملک ہوتے ہوئے ہمارے ہاں رمضان میں پورے ماہ ٹی وی‬
‫چینلز پر نہ صرف سابقہ مہینوں میں جاری ڈرامے و پروگرام اسی طور سے چلتے‬
‫رہتے ہیں جس طور سے پچھلے مہینوں چلتے آرہے ہوتے ہیں بلکہ مزید کچھ نئے‬
‫پروگرامز بھی اپنی پوری فحاشی و بے حیائی کے ساتھ سحر و افطار جیسے بابرکت‬
‫اوقات میں آن ائیر کئے جاتے ہیں۔ جبکہ اسی اہلسنت اکثریتی ملک میں محرم الحرام‬
‫میں پہلی محرم سے یہی ٹی وی چینلز جو سوگ شروع کرتے ہیں تو ساتویں محرم کے‬
‫بعد سارے چینلز سارے تفریحی پروگرامز اور ڈرامے بند کرکے صرف بدعی افکار پر‬
‫مشتمل بد مذہبی والے پروگرام چالنا شروع کردیتے ہیں اور یہ سلسلہ دس محرم تک‬
‫چلتا رہتا ہے۔ گویا جس ملک میں پورے رمضان ٹی وی چینلز بے حیائی سے لبریز‬
‫پروگرامز دکھاتے رہتے ہیں‪ ،‬اسی ملک میں محرم میں سارے ڈرامے اور ہر طرح کے‬
‫تفریحی پروگرامز بند کرکے صرف مرثیہ گوئی اور ماتم پر مشتمل بدعی پروگراموں‬
‫کو نشر کیا جاتا ہے۔ یہ ہے ہمارے مذہبی زوال کی انتہاء جہاں مغفرت والے مہینے کا‬
‫کوئی اہتمام نہیں‪ ،‬اس کے لئے ہماری جنسی و سفلی خواہشات پر کوئی قدغن نہیں لیکن‬
‫محرم کے مہینے میں بدعی نظریات کی ترویج و اشاعت کے ضمن میں پوری قوم کمر‬
‫بستہ نظر آتی ہے۔ اور افسوس تو ہوتا ہے ہمارے علماء پر جو اس سلسلے میں ایک لفظ‬
‫ادا نہیں کرتے۔ یہ سارے علماء ان دونوں ماہ میں منعقد پروگرامز میں جاکر بیٹھتے‬
‫ہیں لیکن مجال ہے جو اس سلسلے میں کوئی گفتگو کریں۔ میں نے آج تک کسی عالم کو‬
‫نہیں سنا جس نے کہا ہو کہ محرم میں ڈرامے اور پروگرامز کیوں بند کردئیے جاتے‬
‫ہیں جبکہ رمضان میں یہ سب خرافات مزید اضافوں کے ساتھ کیوں نشر کی جاتی‬
‫رہتی ہیں؟‬

‫پھر اسی پر بس نہیں کیا جاتا۔ جس طرح لکھنؤ کے اخالقی زوال سے اٹے معاشرے‬
‫میں جو رنڈیاں سالہا سال متعہ کے نام پر جسم فروشی کرتی نظر آتی تھیں‪ ،‬وہی محرم‬
‫کے مہینے میں نذر و نیاز اور ماتم و مرثیہ خوانی کا سب سے زیادہ اہتمام کرتی پائی‬
‫جاتی تھی بالکل ایسے ہی یہی ٹی وی فنکار جو سالہا سال ٹی وی پر عوام کے اخالق و‬
‫کردار کو بہکانے کا ٹھیکہ اٹھا کر‪ ،‬نیم برہنہ حالت میں اپنے جسم کی نمائش کرکے‬
‫اپنے ناظرین کو محظوظ کرتے پائے جاتے ہیں‪ ،‬یہی سارے فنکار سروں پر ٹوپیاں‪،‬‬
‫ہاتھوں میں تسبیح اور سروں پر دوپٹہ لیے دین کے چیمپئن بنے ٹی وی اپنی شعبدہ‬
‫بازیاں دکھاتے نظر آتے ہیں۔ اور انہیں بے غیرت و بے ضمیر و بدکردار لوگوں کے‬
‫برابر میں بیٹھ کر بغیر ان کی منافقت سے متعلق ایک لفظ ادا کئے ہمارے علماء عامر‬
‫بھائی‪ ،‬بالل بھائی‪ ،‬فالنہ بہن کہہ کر ان کو مخاطب کرکے ان کے سواالت کے جوابات‬
‫دیتے ہیں۔ اس وقت غص بصر اور مخلوط و ہللا کے احکام کا مذاق اڑانے والی محافل‬
‫میں حق بات بیان کرنا یا وہاں سے اٹھ کر چلے جانے کے سارے احکامات رفع ہوجاتے‬
‫ہیں۔ مت کہیئے گا کہ ہم وہاں بیٹھتے ہیں‪ ،‬کیونکہ ہم علماء کی نمائندگی کرنا چاہتے ہیں۔‬
‫آپ نمائندگی نہیں منافقت کرتے ہیں۔ نمائندگی تو یہ ہوتی ہے کہ ایسی محافل میں آپ دو‬
‫ٹوک موقف سامنے رکھیں‪ ،‬غلط باتوں پر ٹوکیں۔ خواتین میزبان سے کرخت لہجے میں‬
‫بات کریں‪ ،‬غص بصر کا حکم بجا الئے نہ کہ میسنے بنے ان کی ہاں میں ہاں مال کر‬
‫میری بہن میرے بھائی کرکے چاپلوسی کا تاثر دیتے نظر آئیں۔‬
‫اور اگر ان سب باتوں پر آپ کے لئے عمل کرنا مشکل ہے تو کہہ دیجئے کہ ہم ایسے‬
‫پروگرامز میں براہ راست شرکت نہیں کرسکتے‪ ،‬ہمارا موقف جاننے کے لئے ہمیں فون‬
‫کالز پر لے لیا کیجئے۔ تاکہ کم از کم اس طریقے سے آپ کسی حد تک شریعت کے‬
‫ملحوظ خاطر رکھ سکیں۔ حیرت تو اس وقت ہوتی ہے جب سحر و‬ ‫ِ‬ ‫تقاضوں کو تو‬
‫افطار کے ٹائم پر موسیقی کی حرمت پر دالئل نقل کئے جارہے ہوتے ہیں اور بریک‬
‫ہونے کے ساتھ ہی کانوں میں موسیقی کی آواز گونجنا شروع ہوجاتی ہے۔ اور اس آواز‬
‫مر کی روایت بیان کرتے نظر آتے‬ ‫کے آنے سے پہلے جو صاحب سیدنا عبدہللا بن ع ؓ‬
‫عمر نے کانوں میں انگلیاں ڈال لی تھیں اور تب‬‫ہیں کہ بانسری کی آواز پر سیدنا ابن ؓ‬
‫تک نہ نکالیں جب تک کہ آواز آنا بند نہ ہوگئی‪ ،‬وہی عالمہ فہامہ صاحب بغیر کانوں‬
‫میں انگلیوں ڈالے "مجبوری" میں بڑے اہتمام کے ساتھ بار بار وہ میوزک سنتے ہیں۔‬
‫نجانے ان کی انگلیاں کس نے پکڑ رکھی ہوتی ہیں کہ جو کانوں تک پہنچ ہی نہیں‬
‫پارہی ہوتیں۔‬

‫خیر بات کافی طویل ہوگئی۔ مختصر یہ کہ ہماری مذہبی حالت اس وقت لکھنؤ کے‬
‫نصیر الدین حیدر جیسی ہوچکی ہے جو کہ اپنی بدمذہبی اور فحاشی میں اس قدر آگے‬
‫بڑھ چکے تھے کہ موالنا عبدالحلیم شرر گزشتہ لکھنؤ میں لکھتے ہیں کہ یہ نواب‬
‫وزیر عورتوں کی سی باتیں کرتے اور عورتوں ہی کا سا لباس پہنتے تھے۔ زنانہ‬
‫مزاجی کے ساتھ مذہبی (اثنا عشری) عقیدت نے یہ شان پیدا کردی تھی کہ ۔۔۔۔ والدت‬
‫ائمہ اثنا عشری کی تقریبوں میں خود حاملہ بن کر زچہ خانے میں بیٹھتے‪ ،‬چہرے اور‬
‫حرکات سے وضع حمل کی تکلیف ظاہر کرتے اور پھر خود ایک فرضی بچہ جنتے‬
‫جس کی والدت‪ ،‬چھٹی اور نہان کے سامان بالکل اصل کے مطابق کئے جاتے۔ سو ہم‬
‫بھی رمضان کے ساتھ اسی طرح کی مذہبی عقیدت رکھتے ہیں کہ اس میں بھانڈ‪،‬‬
‫میراثیوں کے ساتھ بھرپور تعاون کرتے ہوئے ان کے پروگرامز کو نہ صرف ِجال‬
‫بخشتے ہیں بلکہ اسی رمضان میں ان کی برپا کی ہوئی "اندر سبھا" میں اپنا تماشہ‬
‫بھی لگاتے ہیں۔‬

‫تحریر‪ :‬محمد فھد حارث‬

You might also like