You are on page 1of 4

‫گی سیاست دوراں‬

‫نہ جنوں رہا نہ پری رہی ‪ /‬نیرن ٔ‬

‫کسی نے پیر پگارا کے بارے میں کہا۔۔۔وہ کسی انجان سے مصافحہ نہیں کرتے‬
‫تھے۔۔۔اسکی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ان کے خیال میں انسان کا مقدر اسکی‬
‫ہتھیلی میں ہوتا ہے اور پیر صاحب کو واہمہ الحق رہتا تھا کہ کسی اجنبی سے ہاتھ‬
‫مالنے سے مباداان کا مقدر جاتا رہے گااسے مذہبی طور پہ وہم یا وسوسہ سے تعبیر‬
‫کرسکتے ہیں۔۔۔سیاسی طور پہ شاید اسے پینترا یا ٹوٹکا کہیں گے۔۔۔اخالقا اسے‬
‫احتیاط یا شگون کہہ کے جواز دیا جاسکتا ہے۔۔۔‬
‫اسی طرح ہمارے سیاسی مشاہیر سے کئی خاص اوصاف منسوب ہیں۔۔۔ جیسے‬
‫سابق صدر آصف زرداری کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ کسی سے ہاتھ مالئیں تو ان‬
‫سے مصافحہ کرنے والے کو اپنا ہاتھ دیکھ لینا چاہئیے کہ انگلیاں کم تو نہیں‬
‫ہوئیں۔۔۔سابق وزیر اعظم نواز شریف کے لیے مشہور ہے کہ وہ جس کی طرف ہاتھ‬
‫بڑھائیں وہ اپنے گریبان سے ہوشیار رہے۔۔۔گریبان پہ بڑھتا ہوا ہاتھ جو روک لے‪،‬نواز‬
‫شریف اسکے پیر چھونے کے لیے ادب سے اس کے آگے جھک جاتے ہیں۔‬
‫سیاسی زعماء کے کیا کہنے۔۔۔ بقول اردو شاعر‬
‫جو کام ان کا ہے‪ ،‬وہ اہل سیاست جانیں‬
‫اور۔۔۔بقول فارسی شاعر‬
‫رموز مملکت خویش خسرواں دانند‬

‫خیر ۔۔۔۔بڑے لوگوں کی بڑی بات۔۔۔ سو ہم فقیروں کو اس سے کیا‬


‫لیکن ہاں۔۔۔‬
‫فقیر کا مسئلہ اسکی کھال اور اسکا بوریا ضرور ہے۔۔۔یعنی اسے بھی اپنی جان کی‬
‫امان اور اپنی کٹیا کی خیر چاہیے۔۔۔‬

‫‪1‬‬
‫کشف المحجوب میں داتا صاحب شیخ بایزید بسطامیؒ سے اپنی عقیدت اور‬
‫انکے مزار پر حاضری کیلئے اپنی خوش اعتقادی کے تذکرے میں کہتے ہیں کہ‬
‫مجھے جب کوئی مشکل درپیش ہوتی میں انکے مزار پہ حاضری دیتا اور میری‬
‫مشکل آسان ہو جاتی۔‬
‫ایک مرتبہ مجھ پر مشکل آئی ‪،‬‬
‫بڑی کوشش کی مگر مشکل نہ ٹلی۔ میں نے مزارشیخ پہ حاضری کے لیئے خراساں‬
‫کا سفر کیا‪....‬ایک گا ٔوں میں خانقاہ نظر آئی۔۔۔ وہاں صوفیوں کی ایک جماعت‬
‫دوسروں کو حقیر سمجھنے والی موجود تھی۔۔۔ میں وہاں گیا۔ انہوں نے مجھے‬
‫حقارت سے دیکھا اور خوب برا بھال کہا۔۔۔کھانےکو ایک سوکھی روٹی دی اور مجھے‬
‫زمین پر سالدیا۔۔۔خود اعلی کھانےکھارہے تھے۔بڑے آرام سے سو رہے تھے۔۔۔ مجھے ہر‬
‫تکلیف پہنچائی۔۔۔۔خود پھل اور میوے کھاتے مجھ پر چھلکے پھینکتے۔۔۔ لیکن مجھے‬
‫انکی ایذا رسانی سے بہت راحت پہنچی اور یہ تکالیف اٹھانے سے میری وہ مشکل‬
‫جو ٹل نہیں رہی تھی دور ہو گئ۔۔۔منکشف ہوا کہ بعضوں کی جھڑکیاں اور سختیاں‬
‫بھی بعض لوگوں کے حق میں رد بال کا موجب ہوتی ہیں۔‬
‫مجھے بارہا ایسا تجربہ ہوا۔ گئے دنوں۔۔۔میں نے کسی فقیر کے آگے اپنے عیب کھولے‬
‫اور نجات کا رستہ پوچھا۔۔۔۔ جانے کس رمز میں اس بندہء خدا نے کہا " جا مسجد‬
‫کی سیڑھیوں پر ہر نماز کے بعد بھکاریوں کی طرح بیٹھا کر اور نماز بعد مسجد سے‬
‫آنے والوں سے رو رو کے دعا کی بھیک مانگا کر۔۔۔اللہ راضی ہوجائے گا اور تیری توبہ‬
‫قبول ہوگی۔۔۔‬
‫اللہ اللہ۔۔۔۔ اس تصور سے ہی روح لرز گئی اور روتے روتے ہچکیاں بندھ گئیں۔۔۔‬
‫ایک اور اللہ والے سے بہت نوخیز عمر میں اپنی سرکش طبیعت کی شکایت کی‬
‫اور اصالحی عالج کی درخواست کی۔۔۔انہوں نے مسجد کا پانی بھرنے ‪ ،‬اسکی‬
‫صفائی ستھرائی کرنے‪ ،‬اس کے لئے گھر گھر جا کے چندے کے پیسے اور چراغوں کا‬

‫‪2‬‬
‫تیل جمع کرنے کی تلقین کردی ۔۔۔ عہد شباب میں گناہوں سے رغبت اور ان پہ‬
‫اپنی حرص کا کسی درویش سے مداوا پوچھا تو انہوں نے سر پہ ٹوپی لئے رکھنے‪،‬‬
‫نکاح کرنے اور مسجد میں آنے والے نمازیوں کی جوتیاں سیدھی کرنے کی ترغیب‬
‫دی۔‬
‫یہ سب ‪40‬سے ‪50‬سال پرانے سنہری دور کی نسیا"منسییا ہے۔‬
‫اب وہ فقیر ہیں نہ درویش اور نہ ہی وہ من و تو رہے۔۔۔۔‬

‫اب نہ وہ میں ہوں‪ ،‬نہ تو ہے‪ ،‬نہ وہ ماضی ہے فرازؒ‬


‫جیسے دو شخص تمنّا کے سرابوں میں ملیں‬

‫بقول شاعر‬
‫خبر تحیر عشق سن‬
‫نہ جنوں رہا نہ پری رہی‬
‫نہ تو تو رہا‪ ،‬نہ تو میں رہا جو رہی سو بےخبری رہی‬

‫بس نہ وہ عشق۔۔نہ وہ جستجو۔۔۔نہ اعتبار نہ اعتراف۔۔۔۔ وہم و گمان کے پرفریب‬


‫سراب اور شکوک و شبہات کے مہیب سائے۔۔۔!‬
‫سب کچھ بدل گیا۔۔۔شیوخ کی جگہ جعلی پیروں اور مجذوب درویشوں کا روپ بے‬
‫عمل موالیوں نے دھار لیا۔۔۔‬
‫یہاں بے محل ہو سو ہو یہ شعر بے مزا نہ ہوگا‬

‫‪3‬‬
‫موسم بدال رت گدرائی اہل جنوں بے باک ہوئے‬
‫فصل بہار کے آتے آتے کتنے گریباں چاک ہوئے‬

‫سو اب جس کا پیرہن تار تار اور جس کا چہرہ داغدار ہو ۔۔۔۔وہی پہنچا ہوا ہے۔‬
‫بات روا روی میں طول پکڑ گئی۔۔۔مگر یہ سب کچھ صرف آج مجھ پہ گزرے عجیب‬
‫واقعہ پہ یاد آیا۔۔۔‬
‫میرے ایک معاصر جو بہ اصرار خود معاند و مقابل ہو کے میرے نقاد بنے رہے ہیں‪،‬‬
‫آج خانہء خدا کے دروازے پہ مل گئے۔۔۔میں بخوشی ان سے بغلگیر ہو گیا کہ یہی‬
‫اخالق کا تقاضہ بھی تھا اور مسجد میں داخلے کی مناسبت بھی۔‬
‫مگر انہوں نے کمال انکسار سے میری نگاہ اچٹتے ہی میرے جوتے اٹھالئے۔۔۔یہ‬
‫دیکھتے ہی میں نے ان کے ہاتھوں سے جوتے چھڑا کے زمین پہ رکھے اور ان سے اس‬
‫طرح مجھے مزید گنہگار نہ کرنے کی درخواست کی۔۔۔‬
‫یہ ایک عمومی بات ہی رہتی اور کسی طرح باعث تشویش نہ بنتی۔۔۔مگر یہی کرم‬
‫فرما چند روز قبل کچھ اسی طرح اسی مقام پہ ایک ایسے ہی ساتھی کے ساتھ کم‬
‫و بیش اسی انداز میں ایسا ہی کر چکے ہیں جن سے انہیں بہت شکایات ہیں۔۔۔‬
‫میں حیران ہوں اسے انکی مدارات و عنایات سمجھوں؟ کوئی پینترا یا حربہ خیال‬
‫کروں۔۔۔ ٹونایا ٹوٹکا جانوں۔۔۔یا اخالص و خیرسگالی مان لوں۔۔۔اسے اپنے حق میں‬
‫نیک شگون کے طور پر لے لوں کہ میں باال دست رہوں گا یا بد فال سمجھوں کہ‬
‫میرے پیروں تلے سے زمین کھینچی گئی۔۔۔۔‬
‫یہ سب بدگمان سیاست کی الجھن ہے۔۔۔سو دل کہتا ہے جو ہوا اللہ کی طرف سے‬
‫ہوا۔۔۔اس میں انکی‪ ،‬میری اور سب کی خیر ہے۔۔۔یہی حسن ظن ہے اور اللہ حسن‬
‫ظن کو پسند کرتا ہے۔۔۔‬

‫‪4‬‬

You might also like