You are on page 1of 20

‫‪facebook‬‬

‫‪twitter‬‬

‫‪Google+‬‬

‫‪Linkedin‬‬

‫‪Pinterest‬‬

‫‪Dribble‬‬

‫‪Vimeo‬‬

‫‪RSS‬‬
‫‪URDU SEX STORIES‬‬

‫‪Urdusexstories.Ooo Best Place For Urdu Sex Stories,Urdu Sexy Stories, Story In Urdu,‬‬
‫‪Pakistani Sex Stories In Urdu Font, Urdu Sexy Story And More.‬‬

‫‪Text to search...‬‬
‫‪Search‬‬
‫‪Select Menu‬‬
‫باجی فرزانہ اور ریحانہ » ‪Home » Pakistani Sex Story » sex story » sister sex‬‬
‫باجی فرزانہ اور ریحانہ‬

‫میرا نام زاہد ہے اور میں ساہیوال کا رہنے واال ہو‬


‫یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں بی اے کر کے فارغ تھا‬

‫پڑھنے میں میرا دل نہی لگتا تھا اور سارا دن دوستو کے ساتھ بیٹھ کے گپیں مارنا اور مختلف لڑکیوں کے بارے میں کومنٹس‬
‫پاس کرنا ہمارا پسندیدہ مشغلہ تھا‪ .‬اور اکثر یہ محفلیں کسی سیکسی مووی پے ہی جا کے ختم ہوتی تھیں ‪ .‬اور سونے پے‬
‫سہاگہ یہ کے جو فارغ وقت ملتا تھا وہ جم میں گزرتا تھا ‪ .‬ورزش کر کر کے میں نے اپنے آپ کو کافی متناسب بنا لیا تھا‬
‫گھر والوں کو میرا یہ چال چلن ایک آنکھ نہی بھاتا تھا ‪ .‬ابا حضور نے کچھ دن تو ایسے ہی برداشت کیا اور پھر ایک دن‬
‫‪.‬مری پیشی ہو گئی‬
‫‪ .‬کیوں میاں کچھ کام وام کرنے کا بھی ارادہ ہے یا نہیں‬
‫‪ .‬میں نے عرض کی جی میں نے بہت کوشش کی ہے مگر کوئی نوکری دینے پہ آمادہ نظر نہی آتا‬
‫‪ .‬ابّا حضور نے ٹی شرٹ میں جھانکتے میرے بازوؤں کو دیکھتے ہووے کہا تمہاری کوشش تو نظر آرہی ہے برخور دار‬
‫تمھارے تایا جان سے بات کی ہے میں نے‪ .‬تم اس سوموار کو الہور جا رہے ہو ‪ .‬تیاری پکڑو اور ہاں دھیان رکھنا کوئی‬
‫‪.‬ایسی ویسی حرکت نہ ہو جس سے انھیں شکایات کا موقع ملے‬

‫یہاں تایا جان کا تعارف کرواتا چلوں ‪ .‬میرے تایا جان ساٹھ سال کے سوبر سے بزرگ ہیں ‪ .‬نہایت ہی نرم طبیعت اور حلیم‬
‫انسان ہیں جتنے حلیم مرے تایا جان ہیں اتنی ہی حلیم انکی بیگم ہیں‪ .‬انکی پالسٹک کے برتن بنانے کی ایک بڑی سی فیکٹری‬
‫ہے‪ .‬مگر وہ اوالد سے محروم ہیں‪ .‬میری تائی جان کی ایک بہن کے خاوند کا انکی جوانی میں انتقال ہو گیا تھا انکی دو بیٹیاں‬
‫‪.‬بھی تھی‪ .‬انھوں نے دوسری شادی کی تو اپنی دونوں بیٹیاں تایا جان کو دے دیں‬
‫بڑی بیٹی کا نام فرزانہ اور چھوٹی کا نام ریحانہ تھا‪ .‬فرزانہ کی عمر پچیس سال اور ریحانہ کی عمر بائس سال تھی‪ .‬میں نے‬
‫‪.‬دونوں کو بہت چھوٹی عمر میں ہی دیکھا ہوا تھا‬

‫خیر مجھ میں اتنی مجال نہ تھی کہ میں ابّا حضور کے حکم کی خالف ورزی کر سکتا ‪ .‬لہذا میں نے آگلے دن اپنا سامان‬
‫باندھا اور الہور کے لئے نکل پڑا‪ .‬تایا جان کا گھر بہت ہی خوبصورت تھا ‪ .‬نیچے ایک بہت بڑا ٹی وی ال ونچ کچن اور دو‬
‫کمرے تھے ‪ .‬ایک بیڈروم تایا جان کے استعمال میں تھا اور دوسرا مجہے عنایات کر دیا گیا ‪ .‬اوپر بھی دو بیڈروم تھے وو‬
‫دونوں فرزانہ اور ریحانہ کے استعمال میں تھے‪ .‬تائی جان نے مجہے میرا کمرہ دکھایا اور حال احوال پوچھا‪ .‬شام ہو چکی‬
‫‪ .‬تھی‬
‫تائی جان نے کہا زاہد تم نہا کر فریش ہو جاؤ تو کھانے کے لئے باہر آجانا ‪ .‬میں فریش ہو کے کھانے کی میز پر پوہنچا تو‬
‫‪ .‬پہلی دفعہ میں نے اپنے دل میں ابّا جی کو خراج تحسین پیش کیا ‪ .‬فرزانہ اور ریحانہ کو دیکھ کر میری آنکھیں کھلی رہ گئی‬

‫دونوں بہنیں الزوال حسن کی مالک تھیں‪ .‬فرق صرف اتنا تھا کے فرزانہ کی اپنی عمر کی وجہ سے کچھ پختہ نقوش کی‬
‫‪.‬مالک تھی جبکے ریحانہ ایک ابھرتی ہوئی کلی تھی‬

‫فرزانہ کی بڑی آنکھیں اسکی حسن میں اضافہ کر رہی تھی ‪ .‬اسکی آنکھو کی گہرائی کسی بھی جوان دل کو بھٹکانے کے‬
‫لئے کافی تھی‪ .‬جبکے اس کے برعکس ریحانہ کی آنکھوں میں شوخی بھری تھی اور ویسی ہی شوخی اسکے چہرے کے‬
‫نقوش میں بھی واضح تھی‪ .‬فرزانہ کے ہونٹ رس بھرے اور خوب الل تھے لگتا تھا ابھی ان سے رس ٹپکنے لگے گا ‪.‬‬
‫‪ .‬جبکے ریحانہ کے ہونٹ پتلے مگرپھولوں کی طرح نازک تھے‬

‫فرزانہ کا قد نسبتا ً چھوٹا تھا جس کی وجہ سے اسکی ابھری ہوئی چھاتی اسکے حسن میں اضافہ کر رہی تھی ‪ .‬اسکے‬
‫مخروطی ابھار کپڑوں سے باہر نکلنے کو بے تاب تھے ‪ .‬میرے تجربے کے مطابق اسکی چھٹی کا سائز چھتیس تھا ‪ .‬جبکے‬
‫‪.‬ریحانہ کے کے مموں کا سائز چونتیس تھا‬

‫چونکہ وہ دونوں بیٹھی ہوئی تھی اس لئے میں نیچے کا دھڑ نہی دیکھ پایا تھا مگر مجہے یقین تھا وہ میری امیدوں پر پوری‬
‫اتریں گی ‪ .‬میرے اس طرح گھورنے پر فرزانہ نے خوب برا منایا اور ہلکا سا کھانسی اور مجہے گھورا‪ .‬تو مجہے احساس‬
‫ہوا کے میں تائی جان کو تو بلکل فراموش کر گیا تھا میں نے شرمندگی سے نظریں جھکا لی ‪ .‬تائی جان نے میرا ان دونوں‬
‫‪ .‬سے تعارف کروایا‬
‫بیٹا یہ زاہد ہے ‪ .‬تمھارے انکل عابد کا بیٹا اور یہ اب تمھارے ابو کی فیکٹری میں ان کے ساتھ کام کرے گا ‪ .‬اور زاہد بیٹا یہ‬
‫‪ .‬تمہاری بہنیں ہیں فرزانہ اور ریحانہ‬
‫فرزانہ نے تعارف کے باوجود مجھ سے بات کرتا گوارا نہی کیا جس سے مجہے اندازہ ہوا کے محترمہ کے مزاج آسمانوں‬
‫سے باتیں کرتے ہیں ‪ .‬ریحانہ نے مجہے سالم کرنے کے بعد نہایت اچھے انداز میں مجھ سے چند رسمی باتیں کی ‪ .‬اور یوں‬
‫‪ .‬ہماری پہلی مالقات کا اختتام ہوا‬

‫دن پر لگا کر گزرتے رہے ‪ .‬اور میں آہستہ آہستہ وہاں کے ماحول کا عادی ہوتا چال گیا ‪ .‬فرزانہ کا رویہ مجھ سے کبھی بھی‬
‫اچھا نہی رہا ‪ .‬مجہے اس سے بات کرتے ہوۓ بھی ڈر لگتا تھا ‪ .‬وہ بات بات پے کاٹ کھانے کو دوڑتی تھی اور میں یہ‬
‫سوچنے پر مجبور تھا کے اس کے ساتھ کوئی نہ کوئی مسلہ ضرور ہے ‪ .‬جبکے رہنا اتنی ہی شائستہ تھی یہی وجہ تھی کے‬
‫‪ .‬میرے خیاالت میں ہمیشہ ہی وہ میری سکس پارٹنر بنتی تھی میں نجانے کتنی دفع اسے سوچ سوچ کے مٹھ مار چکا تھا‬
‫ایک دن صبح میرے کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی تو حیران ہوا کے صبح صبح مجہے کون جگانے آگیا ‪ .‬دروازہ‬
‫کھوال توریحانہ سامنے کھڑی تھی ‪ .‬میرا لن جو کے پھلے ہی صبح کے وقت کی وجہ سے کھڑا کچھ اور اکڑگیا ‪ .‬ریحانہ کے‬
‫‪ .‬ہاتھ میں تولیہ تھا‬
‫زاہد بھائی میں اپکا واش روم استعمال کر لوں میرے کمرے میں گرم پانی نہی آرہا ‪ .‬میں نے بنا کچھ کہے راستہ چھوڑ دیا ‪.‬‬
‫ریحانہ نے ایک نائٹی پھنی ہوئی تھی ‪ .‬جبکے نچال حصہ خال تھا ‪ .‬اور کی گوری ٹانگیں دیکھ کے مری آنکھیں کھلی کی‬
‫‪.‬کھلی رہ گئی‬

‫اسکی سڈول گانڈ اور لچکتے ہوے کولھے مرے دل کی دھڑکن کو تیز کر رہے تھے اسکی رانوں پر ذرا بھی فالتو چربی نہی‬
‫تھی لگتا تھا جیسے اسے کسی سانچے میں ڈھال کر بنایا گیا ہو ‪ .‬ریحانہ سیدھی واش روم کی جانب گئی اور پھر مجہے‬
‫تھوڑی ہی دیر میں شا ور کی آواز آنے لگی ‪ .‬نجانے کیوں میرے دل ایک خواہش جاگی کے میں ریحانہ کو ننگا دیکھوں ‪.‬‬
‫میں جلدی سے آگے بڑھا اور واش روم کے کی ہول سے آنکھ لگا دی ‪ .‬وہ کیا حسین منظر تھا ‪ .‬مجہے ریحانہ کی حسین اور‬
‫خوبصورت گانڈ نظر آرہی تھی جس پہ سے پانی ایسے گزر رہا تھا جیسے دشوار گزر گھاٹیوں سے کوئی میٹھے پانی کا‬
‫چشمہ‪ .‬میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کے کاش میں اسی وقت ریحانہ کی گانڈ پر سے گزرنے والی پانی کو منہ لگا کر پی‬
‫جاؤں ‪ .‬اس حسین منظر کو دیکھ کر میرا لن لوہے کی طرح اکڑ گیا تھا ‪ .‬اور مجہے مجبوراً اپنے پاجامے میں ہاتھ دل کر‬
‫اسے سہالنا پڑا‪ .‬میرے منہ کی طرح مرے لن کی ٹوپی بھی پانی سے بھری ہوئی تھی‪ .‬مرے دل سے نے آواز لگائی کے کیا‬
‫ہی اچھا ہو اگر مجہے ریحانہ ہی چوت دیکھنے کا موقع بھی مل جائے ‪ .‬مگر ریحانہ شاور کی طرف ہی منہ کر کے نہاتی‬
‫رہی ‪ .‬میں نے جوش اور مزے کی کیفیت کو بڑھانے کے لئے اپنے لن کو پاجامے سے باہر نکل لیا اور مٹھ مارنے لگا‪ .‬آہ‬
‫کیا منظر تھا میں اپنی بہن کی سڈول گانڈ دیکھ کر مٹھ مار رہا تھا ‪ .‬میں مزے کے عروج پے تھا ‪ .‬کے اچانک میرے کمرے‬
‫کا دروازہ کھال اور فرزانہ اندر آگئی ‪ .‬میں جوش میں دروازہ الک کرنا ہی بھول گیا تھا ‪ .‬میرا ہاتھ جو کے میرے لن پر آگے‬
‫پیچھے تیزی سے گھوم رہا تھا اچانک رک گیا ‪ .‬فرزانہ کی آنکھوں میں مجہے پھلے حیرت اور پھر غصہ نظر آنے لگا‬
‫‪.‬اسے حیرت مرے لن کو دیکھ کر ہوئی اور پھر غصہ مری حالت دیکھ کر ‪ .‬اسے دیکھتے ہی سمجھننے میں دیر نھی لگی‬
‫کے واش روم میں کون ہوگا ‪ .‬میری شرمندگی کی کوئی انتہا نہی تھی ‪ .‬مجہے سمجھ نہی آرہا تھا کے میں کہاں چھپ جاؤں ‪.‬‬
‫میں نے جلدی سے اپنے لن کو واپس اپنے پاجامے میں ڈاال اور کھڑا ہو گیا ‪ .‬ابھی میں کچھ کہنے واال ہی تھا کی واش روم‬
‫کا دروازہ کھال اور ریحانہ باہر نکلی ‪ .‬وہ فرزانہ کو دیکھ کر حیران ہوئی اور پوچھا فرزانہ تم یہاں کیا کر رہی ہو ‪ .‬تو فرزانہ‬
‫‪ .‬نے جواب دیا‬
‫یار مرے کمرے میں گرم پانی نھی آرہا تھا تو سوچا نیچے جا کے نہا لوں ‪ .‬ریحانہ اسکے جواب سے مطمئن ہو کے باہر نکل‬
‫گئی ‪ .‬اب کمرے میں صرف میں اور فرزانہ تھے ‪ .‬فرزانہ مجہے مسلسل گھور رہی تھی اور شرم سے پانی پانی تھا ‪ .‬فرزانہ‬
‫نے مجہے غصے سے کہا تمہیں تو میں بعد میں دیکھتی ہو ‪ .‬اور یہ کہ کر وہ بھی واش روم میں نہانے چلی گئی ‪ .‬میں بے‬
‫‪ .‬دم ہو کر بیڈ پر بیٹھ گیا ‪ .‬دل اتنی زور سے دھڑک رہاتھا جیسے ابھی سینے سے باہر آجاے گا‬
‫پتا نھی کتنی دیر لگی فرزانہ کو نہانے میں ‪ .‬بس مجہے یہ علم ہے کے ایک ایک لمحہ مجھ پر پہاڑ بن کر ٹوٹ رہا تھا‬
‫نجانے میرے ساتھ کیا حشر کیا جائے گا ‪ .‬فرزانہ سے مجہے کسی قسم کی بھلے کی امید نھی تھی ‪ .‬مجہے لگا جیسے آج‬
‫میرا اس گھر میں آخری دن ہے ‪ .‬جیسے ہی فرزانہ نہا کر نکلی میں نے اسے پکارا فرزانہ باجی پلیز مری بات تو سنیں ‪.‬‬
‫فرزانہ باجی نے غصے سے کہا اپنی بکواس بند کرو گھٹیا انسان ‪ .‬وہ بہن تھی تمہاری کچھ تو شرم کی ہوتی ‪ .‬ابھی میں‬
‫‪ .‬جلدی میں ہوں تمہیں میں بعد میں دیکھتی ہوں ‪ .‬تمہیں اس حرکت کی سزا ضرور ملے گی‬
‫میں بے دلی سے بیڈ پے لیٹ گیا ‪ .‬میرا فیکٹری جا نے کا بلکل دل نہی کر رہا ‪ .‬کچھ دیر ایسے ہی لیٹے رہنے کے بعد میں‬
‫نے ہمت کی اور نہا کے بنا ناشتے کے آفس چل پڑا میرے لئے دن کاٹنا عذاب بن گیا دل میں عجیب عجیب خیاالت آتے رہے‬
‫‪ .‬شام کو دیر سے گھر آیا تو آنٹی سے مالقات ہو گئی ‪ .‬انھوں نے حسب عادت کھانے کا پوچھا میں نےانکار کر دیا ‪ .‬مگر‬
‫انکے انداز سے ہرگز نہی لگ رہا تھا کے کوئی غیر معمولی بات ہوئی ہے ‪ .‬یعنی فرزانہ نے اپنی زبان بند رکھی ہے ‪ .‬میں‬
‫چپ چاپ اپنے کمرے میں آگیا ‪ .‬آج کسی چیز میں دل نہی لگ رہا تھا ‪ .‬بے چینی تھی کے ختم ہونے کا نام نہی لے رہی تھی‬
‫‪ .‬تقریبا ً ‪ ١١‬بجے مرے کمرے پے دستک ہوئی میں نے چونک کے دروازہ کھوال تو سامنے ریحانہ اور فرزانہ دونوں موجود‬
‫‪ .‬تھیں ‪ .‬فرزانہ نے مجہے کہا آگے سے ہٹو ‪ .‬میں ایک شریف بچے کی طرح سامنے سے ہٹ گیا‬
‫وہ دونوں اندر آگئی فرزانہ بیڈ پے بیٹھ گئی جبکے ریحانہ نے کمرے میں پڑی کرسی پر قبضہ کر لیا ‪ .‬جبکے میں ان دونوں‬
‫‪ .‬کے درمیان کھڑا تھا ‪ .‬فرزانہ نے کمرہ بند کر لیا‬
‫‪ .‬زاہد بتاؤ ریحانہ کو کے تم صبح کیا کر رہے تھے جب ریحانہ تمھارے واش روم میں نہا رہی تھی‬
‫میں نے پریشان ہو کر فرزانہ کی طرف دیکھا تو اس نے غصہ سے مری طرف دیکھا اور پھر دوہرایا تمہیں مری بات سمجھ‬
‫‪ .‬نہی آ رہی شاید‬
‫بتاؤ اسے کے تمہیں کیا کر رہے تھے ورنہ میں ابھی ممی اور پاپا کو بتاتی ہو ‪ .‬مری حالت ایسے تھی جسیے میں ابھی غش‬
‫‪ .‬کھا کر گر پڑو گا‬
‫‪ .‬معاف کر دیں فرزانہ باجی مجھ سے غلطی ہو گئی ‪ .‬دیکھیں میں کان پکڑتا ہو مگر آپ کسی کو مت بتایے گا یہ بات‬
‫‪ .‬ایسے تمہیں معافی نہی ملے گی زاہد ‪ .‬جو کہا جا رہا ہے وہ کرو زیادہ بہتر ہوگا ‪ .‬بتاؤ تم کیا کر رہے تھے صبح‬
‫‪ .‬دیکھیں فرزانہ باجی میں آپکے پاوں پکڑتا ہوں ایسے نہ کریں ‪ .‬میں آیندہ کبھی ایسا نہی کرونگا‬
‫فرزانہ نے ریحانہ کی طرف دیکھتے ہووے کہا لگتا ہے ہمیں چلنا چاہیے اب یہ بات ممی کو بتا ہی دیں تو اچھا ہے یہ کہ کر‬
‫‪ .‬وہ بیڈ سے اٹھی تو میں نے جلدی سے کہا نہی پلیز میں بتاتا ہوں‬
‫‪ .‬میں نے ہمت کی اور کہا میں صبح ریحانہ باجی کو نہاتے ہووے دیکھ رہا تھا‬
‫‪ .‬تو کیا دیکھا مرے بھائی نے ‪ .‬چلو بتاؤ‬

‫یہ فرمائش پچھلی سے زیادہ خطرناک تھی مجہے سمجھ نہی آرہا تھا کے میں کہاں جا کے چھپ جاوں‪ .‬میں نے پھر کوشش‬
‫‪ .‬کی کے فرزانہ باجی اپنے ارادے سے باز آجائیں مگر وہ اپنی کمینگی آج پوری طرح دکھانے پر آمادہ تھیں‬
‫میں نے کچھ بھی بتانے سے انکار کر دیا ‪ .‬تو فرزانہ باجی نے کہا ٹھیک ہے ایک چونکے تم نے ریحانہ کو ننگا دیکھا ہے‬
‫اس لئے ریحانہ بھی تمہیں ننگا دیکھنے گی ‪ .‬میں نے ریحانہ کی طرف دیکھا تو اس نے شرم سے اپنی آنکھیں نیچی کر لیں ‪.‬‬
‫یہ فرمائش مجھ پر بجلی بن کر گری ‪ .‬اچانک کسی کو ننگا دیکھ لینا یہ کوئی آپکو دیکھ لے وہ الگ بات ہوتی ہے مگر کسی‬
‫کی فرمائش پر ننگا ہو کے دکھانا وہ بھی اپنی بہنوں کے سامنے بہت مشکل کام تھا ‪ .‬میں ابھی سوچ میں ہی پڑا تھا کہ فرزانہ‬
‫باجی کی چنگھاڑتی ہوئی آواز مرے کانوں کو سنائی دی ‪ .‬تم اگر کوئی بات ماننے پر راضی نہی تو تمہارا انجام بلکل اچھا‬
‫‪ .‬نہی ہوگا‬
‫دیکھو ریحانہ اس بہن چود کو اب کتنا غیرت مند بن رہا ہے جب صبح تمہیں نہاتے ہووے دیکھ رہا تو اس وقت اسکی غیرت‬
‫‪ .‬گھاس کھانے گئی ہوئی تھی‬
‫مجہے اپنے کانوں پر یقین نہی آیا ‪ .‬یہ گالی میں نے فرزانہ باجی کی ہی زبان سے سنی تھی میں ایک شاک کی سی کیفیت‬
‫‪ .‬میں تھا‬
‫‪ .‬اسکی گانڈ دیکھتنے ہوتے تمہیں کچھ خیال نہ آیا اور جب تمھارے لنڈ دکھانے کی باری ہے تو تمہاری گانڈ پھٹ گئی ہے‬
‫‪.‬میں ابھی پھلے ہی جملے کے اثر سے باہر نہی آیا تھا کے انکے اگلے الفاظ مجھ سے ایٹم بم بن کر گرے‬
‫مجہے یہ سب کچھ ہضم نہی ہو رہا تھا فرزانہ کا یہ روپ مجھ سے آج تک پوشیدہ تھا مجہے علم نہی تھا کے فرزانہ کی زبان‬
‫‪ .‬سے ایسے الفاظ بھی نکل سکتے ہیں‬
‫در حقیقت میرے لنڈ میں ہلکی سی جنبش پیدا ہوئی ‪ .‬انکے منہ سے ایسے الفاظ سن کے عجیب سا مزہ آیا ‪ .‬اس وقت میں‬
‫‪ .‬خوف اور ہلکے سے مزے کی کیفیت میں تھا‬

‫میری حالت عجیب سی تھی ‪ .‬مجہے امید نہی تھی کے حاالت یہ رخ بھی اختیار کر سکتے ہیں ‪ .‬میں ابھی انہی سوچوں میں‬
‫‪ .‬گم تھا کہہ فرزانہ کی چنگھاڑتی ہوئی آواز سنائی دی ‪ .‬تم اپنی شلوار کھولتے ہو یا ‪ ,‬یہ کام بھی مجہے ہی کرنا پڑے گا‬
‫‪ .‬میں کم از کم اس حرکت کی اجازت اسے دینے کے لئے تیار نہی تھا‬
‫میں نے آخری بار رحم طلب نگاہوں سے فرزانہ کی طرف دیکھا تو اسکی آنکھوں میں ایک شیطانی چمک تھی ‪ .‬میں تقریبا ً‬
‫‪.‬رونے واال تھا‬
‫آخر میں نے مرے مرے انداز میں اپنا ازار بند کھوال اور چھوڑ دیا ‪ .‬احساس شرمندگی سے مری آنکھیں الل ہو چکی تھی ‪.‬‬
‫‪ .‬اپنی تایا زاد بہنوں کے سامنے میں ننگا کھڑا تھا‬
‫میں چونکے صرف شلوار اور بنیان میں تھا اور شلوار تو اب اتر چکی تھی ‪ .‬میرے پاس چھپانے کو کچھ بھی نہی تھا‪.‬‬
‫ریحانہ کے چہرے کے تاثرات ایسے تھے جیسے اس نے لنڈ کو پہلی دفعہ دیکھا ہو ‪ .‬میرے جسم کی لرزش واضح تھی ‪.‬‬
‫فرزانہ نے ریحانہ سے کہا دیکھ ریحانہ ایسا ہوتا ہے اصل کا لنڈ ‪ .‬اس سارے ڈرامے میں بس میں اور ریحانہ ہی شاید گھبرا‬
‫‪ .‬رہے تھے مگر فرزانہ کے چہرے پہ کسی قسم کی کوئی جلدی یا پرشانی نہ تھی‬
‫‪ .‬ریحانہ نے فرزانہ سے کہا باجی چلیں اب ‪ ،‬اب تو ہم نے دیکھ لیا نا‪ .‬چلیں کوئی آ نا جاتے‬
‫فرزانہ نے کہا تم آرام سے بیٹھو میں اسے اتنے آرام سےاسے بخشنے کے لئے تیار نہی ہوں ‪ .‬اور کوئی نہی آنے واال ممی‬
‫‪ .‬اور پاپا جلدی سونے کے عادی ہیں ‪ .‬ویسے بھی انکا کمرہ یہاں سے بہت دور ہے‬
‫‪.‬اب ہمارا پیارا بھائی ہمیں مٹھ مار کے دکھا یے گا ‪ .‬چلو زاہد شروع ہو جاؤ‬
‫فرزانہ کی بات سن کر مرے آنکھوں کے سامنے اندھیرا آگیا ‪ .‬ان حاالت میں جہاں میرا لنڈ ہی کھڑا نہی ہو رہا تھا وہاں مٹھ‬
‫مارنے کا سوال کیسا ؟‬
‫‪ .‬میں نے رونے والے انداز میں کہا یہ نا ممکن ہے باجی ‪ .‬ان حاالت میں ایسا کرنا ممکن نہی‬
‫‪ .‬فرزانہ نے کہا حاالت مجہے پیدا کرنے آتے ہیں ‪ .‬چلو شاباش لو اسے اپنے ہاتھ میں اور شروع ہو جاؤ‬
‫‪ .‬میں نے اپنے لنڈ کو اپنے ہاتھ میں پکڑا اور تھوڑی دیر ہالیا مگر کوئی اثر نہی ہوا‬
‫‪ .‬میں نے پھر فرزانہ باجی کو کہا ‪ .‬مجھ سے نہی ہوگا یہ سب ‪ .‬آپ پلیز مجہے معاف کر دیں‬
‫فرزانہ باجی نے کہا ٹھیک ہے ‪ .‬چلو ریحانہ چلتے ہیں ممی کو کہہ کے اسے یہاں سے فارغ کروائیں ذرا اسکے گھر والوں‬
‫‪ .‬کو بھی تو پتا چلےکہ جناب یہاں کیا گل کھال رہے ہیں‬
‫کمبخت فرزانہ باجی کو بلیک میل کرنے کے سارے گر آتے تھے ‪ .‬جس طرح وہ مجہے ڈیل کر رہی تھی اس سے لگتا تھا‬
‫‪ .‬کے وہ خاصی تجربے کار ہیں اس طرح کے معامالت میں‬
‫مرتا کیا نہ کرتا ‪ .‬مجہے اندازہ ہو گیا تھا کے مری جان بخشی صرف اسی صورت میں ہو سکتی جب میں وہی کروں جو‬
‫‪ .‬فرزانہ باجی کہہ رہیں تھی‬
‫‪ .‬میں نے جلدی سے کہا آپ بار بار یہ دھمکیاں مت دیں میں کوشش کرتا ہوں‬
‫‪ .‬فرزانہ باجی نے کہا شاباش میرے بھائی آج ایک اچھا سا شو دکھاؤ ہمیں اور جی خوش کر دو‬
‫‪ .‬میں نے ساری شرم ایک طرف رکھی اور اپنے ہاتھ پہ تھوک لگا کے لنڈ پہ ہاتھ چالنے لگا‬
‫‪ .‬مجہے تو اس وقت اسے کھڑا کرنا ہی سب سے بڑا مسلہ نظر آرہا تھا مٹھ مارنا تو دور کی بات‬
‫‪.‬یہاں فرزانہ باجی کا تجربہ کام آیا ‪ .‬انھوں نے مجہے پکارا تو بتاؤ مرے بھائی کیا دیکھا صبح ریحانہ کا‬
‫‪ .‬میں نے کوئی جواب نہی دیا‬
‫ابے او بہن چود جواب دے ‪ .‬کیا دیکھا ریحانہ کا بول ننگا دیکھا ریحانہ کو ‪ .‬اسی وقت مرے ذہن میں صبح کا واقعہ تازہ ہو‬
‫‪ .‬گیا ‪ .‬مرے لنڈ میں تھوڑی سی تحریک پیدا ہوئی‬
‫میں نے ہاں میں سر ہالیا ‪ .‬منہ سے بول کیا منہ میں لنڈ لیا ہوا ہے ؟‬
‫‪ .‬فرزانہ باجی کے منہ سے ایسی باتیں سن کر مرا لنڈ تیزی سے سر اٹھا رہا تھا‬
‫‪ .‬میں نے کہا ہاں میں نے ریحانہ باجی کو ننگا دیکھا تھا‬
‫کیا دیکھا تھا اسکی گانڈ ؟ یا‬
‫چوت‬
‫میں نے کہا صرف پچھال حصہ دیکھا تھا فرزانہ باجی نے کہا یہ پچھال حصہ کیا ہوتا ہے ‪ .‬گانڈ کہتے ہووے تیری زبان‬
‫‪ .‬دکھتی ہے‬
‫‪ .‬ہاں باجی میں نے ریحانہ باجی کی گانڈ دیکھی تھی‬
‫اچھا کیسی لگی پھر‬
‫‪ .‬ہے نہ مست گانڈ تیری بہن کی ‪ .‬میں نے کہا جی ہاں بہت مست ہے‬
‫‪ .‬اور ممے دیکھے تھے ریحانہ کے ‪ .‬میں نے کہا نہی صرف گانڈ اور ٹانگیں دیکھی تھی‬
‫کیوں تھی نہ گوری چٹی ٹانگیں ریحانہ کی ؟‬
‫‪ .‬میں نے کہا ہاں بہت سیکسی ٹانگیں تھی ریحانہ باجی کی‬
‫میرا لنڈ اس وقت پورا تن چکا تھا ‪ .‬میں نے یہ بات کہتے ہووے میں نے ریحانہ کی طرف دیکھا تو مری طرف ہی دیکھ رہی‬
‫‪ .‬تھی اسکا چہرہ شرم اور مزے کیفیت سے الل ہو چکا تھا‬
‫ریحانہ اس وقت ایک لمبی سی نائٹی میں تھی جو کے گھٹنوں سے تھوڑا سے آگے جا کے ختم ہو جاتی تھی ‪ .‬اس نے مزے‬
‫کی شدت سے اپنی ٹانگ پے ٹانگ رکھی ہوئی تھی ‪.‬جس سے مجہے لگا کے وہ گیلی ہو چکی ہے ‪ .‬اور اسکی‬
‫چوت کے لب اسکی اس حرکت کی وجہ سے ایک دوسرے سر رگڑ کھا ہونگے جس کی وجہ سے وہ مزے کی حالت میں‬
‫‪ .‬تھی ‪ .‬اس نے اپنا نچال ہونٹ دانتوں کے درمیان دبایا ہوا تھا‬
‫‪ .‬ماحول نے اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا تھا مرے لنڈ کی ٹوپی پر بھی چند چمک دار قطرے ابھر چکے تھے‬
‫دیکھ ریحانہ اس گانڈو کے لن سے منی نکلنا شروع ہو گئی ہے ‪ .‬ایسا بہن چود ہے اپنی بہنوں کے بارے میں سوچ سوچ کے‬
‫‪ .‬گیال ہو رہا ہے‬
‫‪ .‬فرزانہ باجی کی اس بات نے مجہے پھر یاد دال دیا میں میں ان حاالت میں اپنی خوشی سے یہ سب نہی کر رہا‬
‫مرا دماغ دو حصوں میں بٹ چکا تھا ‪ .‬ایک حصہ کہتا تھا کے لنڈ کی بات مانوں جبکے دوسرا حصہ مجہے شرم دالنے کی‬
‫‪ .‬ناکام کوشش کر رہا تھا‬

‫‪ .‬جب ذہن بٹا ہو تو یقین کریں مٹھ مارنا بہت ہی مشکل کام ہے ‪ .‬اس کام کے لئے یکسوئی سے سوچنا پڑتا ہے‬
‫میں اسی طرح پانچ منٹ تک ہاتھ ہالتا رہا مگر منی نہی نکلی ‪ .‬مرا ہاتھ اور لن دونوں درد کر رہے تھے ‪ .‬میں نے تقریبا ً‬
‫‪ .‬روتے ہوۓ کہا فرزانہ باجی مجھ سے نہی ہو گا‬
‫مرا خیال تھا کے وہ مری حاالت کو سمجھتے ہوۓ مجہے جانے دیں گی ‪ .‬مگر اسکے بلکل برعکس انھوں نے کہا میں‬
‫‪ .‬دیکھتی ہو میں کیسے نہی نکلتی منی‬
‫بول دیکھے گا ریحانہ کی سیکسی ٹانگیں ‪ .‬فرزانہ باجی اٹھی اور ریحانہ کے پاسس چلی گئی ‪ .‬ریحانہ ایک دم بولی فرزانہ‬
‫‪ .‬باجی پلیز ایسا نہ کریں ‪ .‬اور اپنی نائٹی کو زور سے پکڑ لیا‬
‫کیا ہو گیا ہے ریحانہ یہ تو پھلے ہی تمہیں ننگا دیکھ چکا ہے اب چھپانے سے فائدہ اور میں کونسا تمہیں ننگا ہونے کو کہہ‬
‫‪ .‬رہی ہو ‪ .‬تم بس اپنی نائٹی اوپر اٹھاؤ‬
‫فرزانہ کے ارادوں سے لگ رہا تھا کہہ اگر ریحانہ نے نائٹی نہ اٹھائی تو وہ خود اٹھا دے گی ‪ .‬ریحانہ نے اسی طرف بیٹھے‬
‫‪ .‬بیٹھے اپنی نائٹی تھوڑی اوپر سرکی تو اسکی سیکسی رانیں نظر آنا شروع ہو گئی‬
‫میں نے یہ منظر دیکھا تو مرے لنڈ نے ایک جھٹکا لیا ‪ .‬یہ وہی رانیں ہیں جنھیں میں سوچ سوچ کے مٹھ مارتا تھا ‪ .‬آج میرے‬
‫‪ .‬سامنے حقیقت کا روپ دھارے موجود تھی‬
‫‪ .‬دیکھ زاہد تیری ریحانہ باجی کی رانیں جنھیں دیکھ کے تم صبح مٹھ مار رہے تھے‬
‫انھوں نے نائٹی کو مزید آگے سرکایا ‪ .‬اب ریحانہ باجی کا سفید انڈر ویر صاف نظر آ سکتا تھا ‪ .‬میرے جسم میں مزے کی‬
‫لہریں دوڑ رہی تھیں‬
‫میرے ہاتھ کی رفتار تیز ہو گئی ‪ .‬جبکے مرا لن مزید گیال ہوتا چال گیا ‪ .‬مجہے اس طرح ہاتھ ہالتے دیکھ کر فرزانہ باجی نے‬
‫‪ .‬اپنی نائٹی کے اوپر سے اپنے چھتیس کے مموں کو دبانا شروع کر دیا‬
‫یہ منظر بھی میری آنکھوں کے لئے نیا تھا ‪ .‬مرے منہ سے اب مزے کی وجہ سے آوازیں نکل رہی تھی ‪ .‬میرے ہونٹ بلکل‬
‫خشک تھے‪ .‬میری آوازوں کو سن کر ریحانہ باجی نے اپنی ٹانگ دوسری ٹانگ سے اٹھائی اور دونوں ٹانگیں کھول کر‬
‫پیچھے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی ‪ .‬انکی پینٹی گلی ہو چکی تھی ‪ .‬انکی چوت کی جگہ پہ بڑا سا گیال دھبہ دور سے ہی نظر آرہا‬
‫‪ .‬تھا‬
‫‪ .‬جبکے فرزانہ باجی نے اپنی پینٹی میں ہاتھ ڈال لیا تھا اور اپنی چوت میں انگلی ڈال کر ہالنا شروع کر دی تھی‬
‫‪ .‬ساتھ ساتھ انکی گندی باتیں بھی جاری تھی ‪ .‬بول زاہد دودھ پیے گا اپنی بہن کا ‪ .‬چوسے گا میرے ممے‬
‫ہاں پیو کا دودھ باجی ‪ .‬خوب پیوں گا اور چوس چوس کے الل کر دونگا ‪ .‬میں نے آج تک اتنے خوبصورت ممے نہی دیکھے‬
‫فرزانہ باجی‬
‫‪ .‬تو نے ابھی دیکھا ہی کیا ہے میرے بھائی میں تجھے اس دنیا کی سیر کراؤں گی کے تم یاد رکھو گے‬
‫فرزانہ باجی کے دیکھا دیکھی ریحانہ باجی نے بھی اپنی پینٹی کے اوپر سے ہی اپنی چوت کو سہالنا شروع کر دیا تھا ‪ .‬ہم‬
‫تینوں اس وقت ایک الگ ہی دنیا میں تھے ‪ .‬میرے کمرے کے تین مختلف کونوں میں تین جوانیاں مزے لوٹ رہی تھیں‬
‫‪.‬فرزانہ باجی اچانک کیا سوجھا کے انھوں نے اپنی نائٹی کے اوپر سے ہی اپنے ممے کو برا سر بھر نکاال اور اپنے نپل کو‬
‫‪ .‬دبانے لگیں‬
‫یہ منظر مرے لئے نا قبل فراموش تھا ‪ .‬چھتیس کے گورے چٹے ممے اور ان سے جھانکتے ہوۓ فرزانہ باجی کے گالبی‬
‫‪ .‬نیپل غضب ڈھا رہے تھے‬
‫‪ .‬ان کے نیپل فل ہارڈ تھے ‪ .‬جنہیں وہ بڑی بے دردی سے مسل رہی تھی‬
‫‪ .‬میں اپنی منزل کے عروج پہ تھا شاید یہی حال باقی دونوں کے ساتھ بھی تھا‬
‫‪ .‬بول زاہد چودے گا مجہے ‪ .‬چودے گا اپنی باجی کو‬
‫‪ .‬ہاں باجی میں تمہیں گھوڑی بنا کے چودوں گا‬
‫میرے منہ سے نکلنے والے الفاظوں کا اثر دونوں پر پڑا اور پھر مری آنکھوں نے عجیب منظر دیکھا کے ‪ .‬فرزانہ باجی کے‬
‫‪ .‬سانس تیز تیز چلنے لگی ‪ .‬انھوں نے مزے کی شدت سے اپنی آنکھیں بند کر لیں‬
‫تھوڑی دیر بعد انکے جسم نے جھٹکے کھانے شروع کر دیے وہ بیڈ پر وہیں لیٹ گئی انکے منہ سے آہیں نکل رہی تھی ‪.‬‬
‫شاید وہ فارغ ہو رہی تھی ‪ .‬انکی اس حالت کو دیکھتے ہوۓ میرے منہ سے ایک بڑی سی آہ نکلی اور یک دم میرے لن نے‬
‫جھٹکا کھایا اور منی کے قطرے سامنے بیٹھی ریحانہ کی ٹانگوں پر گرے ‪ .‬میری منی جونہی ریحانہ کی ٹانگوں پر گری‬
‫‪ .‬ریحانہ کے جسم نے بھی جھٹکے لئے اور اس نے مزے سے اپنی آنکھیں بند کر لی‬
‫کمرے میں آنے واال طوفان تھم چکا تھا ‪ .‬اب صرف ہماری سانسوں کی آوازیں باقی تھی ‪ .‬مجھ میں اب کھڑا ہونے کی ہمت‬
‫نہی تھی ‪ .‬کمزوری کی وجہ سے میں وہیں زمین پر ڈھیر ہو گیا ‪ .‬فرزانہ اور ریحانہ باجی سے اپنے کپڑے درست کیے اور‬
‫‪ .‬کہا میرا خیال ہے اسکے لئے اتنا ہی سبق کافی ہے ‪ .‬چلو ریحانہ چلیں‬
‫یہ کہتے ہوۓ وہ دونوں روانہ ہو گیں ‪ .‬انکے جانے کے بعد میں نے ہمت کی اور جلدی سے دروازہ بند کیا ‪ .‬اور خود کو‬
‫‪ .‬صاف کرنے کیے بعد بستر پر گر گیا ‪ .‬یہ وہی بستر تھا جس پر کچھ دیر پہلے میری بہن اپنے مموں سے کھیل رہی تھی‬

‫صبح آنکھ کھلی تو سمجھ نہی آیا میں کہاں ہو ‪ .‬پھر جیسے ایک دم ریل سی چلی دماغ میں ‪ .‬اور کل کے واقعات دماغ میں‬
‫‪ .‬ایک فلم کی طرح چلنے لگے‪ .‬کل جو کچھ ہوا تھا وہ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا‬
‫جب سے میں الہور آیا تھا میں نے صرف ریحانہ باجی کو ہی سوچا تھا ‪ .‬اور کل جس طرح انھوں نے اپنا بھرم قائم رکھا تھا‬
‫‪.‬وہ مجہے بہت اچھا لگا تھا ‪ .‬جبکہ فرزانہ باجی کے انداز سے لگتا تھا جیسے وہ سیکس کے بارے میں سب جانتی ہوں‬
‫میرا ڈر ابھی تک قائم تھا ‪ .‬اگر وہ کچھ بھی اپنے گھر والوں کو بتا دیتی تو میں ضرور اس نوکری اور گھر سے فارغ ہو جاتا‬
‫‪.‬‬
‫میں اٹھا اور نہا کر فیکٹری چال گیا ‪ .‬شام کو واپسی پر کھانے کی میز پر فرزانہ اور ریحانہ باجی سے مالقات ہوئی ‪ .‬فرزانہ‬
‫باجی ہمیشہ کی طرح خشک مزاج ہی ثابت ہو رہی تھی ‪ .‬جبکے ریحانہ باجی نے مجھ سے آنکھ مالنے کی ہمت نہی کی‬
‫‪ .‬مجہے لگا جیسے وہ مجھ سے شرمندہ ہوں‬
‫مگر وہ مجھ سے شرمندہ کیوں ہوتی شرمندہ تو میں تھا ‪ .‬میں نے حرکت ہی ایسی کی تھی ‪ .‬اس بیچاری نے نجانے کیا سوچا‬
‫‪ .‬ہوگا‬
‫‪ .‬مگر اس سارے کھیل میں اگر کوئی فائدے میں رہا تھا تو وہ فرزانہ باجی تھی‬
‫میرے ذہن سے ابھی تک یہ بات نہی نکل پا رہی تھی کے فرزانہ باجی اس معامله میں اتنی تجربہ کار کیسے ہیں ‪ .‬خیر وقت‬
‫کے ساتھ ساتھ یہ گھتی بھی کھل ہی جاتی ‪ .‬ہم سب نے جلدی جلدی کھانا ختم کیا ‪ .‬اور اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے ‪.‬‬
‫میری جسمانی حالت کوئی اتنی اچھی نہی تھی ‪ .‬میں پچھلی پوری رات سکون سے ںہی سو پایا تھا جبکے سارا دن ڈر کے‬
‫مارے پریشان رہا تھا ‪ .‬میرا خیال تھا کے معامله حل ہو چکا ہے اور اب سکون کا سانس لے سکتا ہو ‪ .‬میرے بیڈ پر گرتے ہی‬
‫کچھ دیر میں میری آنکھ لگ چکی تھی ‪ .‬تقریبا ً رات ایک بجے میرے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا ‪ .‬دوسری یا تیسری‬
‫دستک پہ میں نے دروازہ کھوال تو فرزانہ باجی کھڑی تھی ‪ .‬انھیں دیکھتے ہی میری نیند اڑ گئی میں نے ڈرتے ہووے پوچھا‬
‫‪:‬‬
‫‪ .‬جی فرزانہ باجی ‪ .‬انھوں نے مجہے ہاتھ سے دھکیلتے ہووے کہا کہ کیا باہر ہی بات کرنے کا ارادہ ہے اور اندر آ گئیں‬
‫اندر داخل ہونے کے بعد انھوں نے نیا حکم جاری کیا کے دروازہ بند کر دو اور سکون سے بیڈ پر بیٹھ گئیں‪ .‬میں نے کانپتے‬
‫ہاتھوں سے دروازہ بند کر دیا میرا دل ڈر رہا تھا کے آج پھر میری عزت کی دھجیاں نہ بکھیری جائیں ‪ .‬میرا جرم اتنا شدید‬
‫تو ںہی تھا کے ایسے سزا دی جائے ‪ .‬اور پھر میں تو شرمندہ تھا اپنی حرکت پہ اور معافی کا طلب گار تھا مگر لگتا تھا کے‬
‫میں کمبل کو چھوڑنا چاہتا ہو مگر کمبل مجہے چھوڑنے پر راضی ںہی ہے ‪ .‬اپنی بے بسی پر میری آنکھوں سے آنسوں‬
‫‪ .‬جاری ہوگئے‪ .‬جب میں مڑا تو میرے چہرے کی طرف دیکھ کر فرزانہ باجی حیران رہ گئی‬
‫‪ .‬میں نے روتے ہوۓ ان سے التجا کی کے باجی میرا قصور اتنا بھی ںہی تھا کہ اتنی سزا ملتی پلیز مجہے معاف کر دیں‬
‫باجی کی آنکھوں سے لگا جیسے انھیں مجھ پے ترس آگیا ہو‪ .‬مگر پھر اچانک ان کے اندر کا شیطان جاگا اور انھوں نے گرج‬
‫‪ .‬کے کہا‬
‫‪ .‬ابے گدھے اٹھ اور مرد بن کیا لڑکیوں کی طرح ٹسوے بہاتا ہے‬
‫جب تو اپنی بہنوں کو ننگا دیکھنے چال تھا تب علم ںہی تھا کے پکڑا گیا تو کیا ہوگا ‪ .‬اگر ٹٹوں میں اتنا پانی ںہی تھا تو ایسی‬
‫‪ .‬حرکت کی ہی کیوں تھی‬
‫فرزانہ باجی کے منہ سے ٹٹوں کا لفظ سن کر مجہے کرنٹ لگا اور میری حیرت کی کتاب میں ایک اور باب کا اضافہ ہو گیا‬
‫‪.‬‬
‫ابھی میں حیرت کے ہی سمندر میں غوطہ زن تھا کہ باجی نے کہا چل ادھر آ اور کپڑے اتار اپنے ‪ .‬میں اپنی جگہ کھڑا ہی‬
‫‪ .‬رہ گیا‬
‫‪ .‬تمہیں سنائی ںہی دیا کے میں کیا کہ رہی ہو‬
‫‪ .‬باجی پلیز آج ںہی ‪ .‬میں نے التجائی لہجے میں ان سے کہا‬
‫‪ .‬تو ادھر آئے گا یا میں شور مچاؤ کے تو نے میری عزت لوٹنے کی کوشش کی ہے‬
‫‪ .‬پلیز ایسا نہ کیجیے گا میں آتا ہو‬
‫‪ .‬میری بات سن کے باجی کے لبوں پہ مسکراہٹ دوڑ گئی‬
‫انھوں نے کہا شاباش ‪ .‬چلو اب اپنے کپڑے اتارو ‪ .‬میں نے نفی میں سر ہالیا ‪ .‬شاید یہ پہال واقعہ تھا جس میں ایک لڑکا اپنی‬
‫عزت بچانے کے لئے اتنی تگ و دو کر رہا تھا ‪ .‬میرے مسلسل انکار نے باجی کو جھنجھال دیا ‪ .‬مگر وہ زیادہ سختی ںہی‬
‫کرنا چاہتی تھی ‪ .‬انہو نے مجہے کہا اچھا پھر ایک کام کرو بیڈ پہ لیٹ تو سکتے ہو نہ بے شک کپڑے نہ اتارو ‪ .‬میں نے نہ‬
‫سمجھ آنے والے انداز میں کہا‬
‫‪ .‬آپ چاہتی کیا ہیں‬
‫‪ .‬انھوں نے کہا تم بتاؤ یہ کام کرتے ہو یا میں شور مچاؤ‬
‫مجہے بظاھر اس کام میں کوئی ایسی بات نظر ںہی آرہی تھی جس سے مجہے کوئی مسلہ ہو لہذا میں اس کام کے لئے راضی‬
‫ہو گیا ‪ .‬میں بیڈ پر سیدھا لیٹ گیا ‪ .‬فرزانہ باجی نے کہا اب اپنے ہاتھ اپنے سر کے پیچھے لے جاؤ‪ .‬جو کچھ بھی ہو رہا تھا‬
‫وہ میری سمجھ سے باہر تھا‬
‫خیر میں نے اسی بات میں اپنی خیر سمجھی کے جب تک عزت سالمت ہے میں انکی بات مانتا رہوں ‪ .‬ابھی ہم یہی بات کر‬
‫رہے تھے کہ اچانک دروازے کے دستک ہوئی ‪ .‬میں چونک کے بیٹھ گیا ‪ .‬فرزانہ باجی نے کہا تم ایسے ہی لیٹے رہو ‪ .‬یہ‬
‫ریحانہ ہو گی اسے نہ خود چین ہے نہ یہ مجہے لینے دے گی ‪ .‬انھوں نے آگے بڑھ کر دروازہ کھوال تو ریحانہ اندر آگئی ‪.‬‬
‫اس نے اندر آ کر مجہے دیکھا تو کہا ‪ .‬فرزانہ باجی آپ کیا چاہتی ہیں ‪ .‬کوئی آگیا تو کتنا بڑا مسلہ کھڑا ہو جائے گا اندازہ ہے‬
‫‪ .‬آپکو‬
‫فرزانہ باجی نے اسی لہجے میں جواب دیتے ہوۓ کہا ‪ .‬یار کوئی ںہی آنے واال ‪ .‬تم جیسی ڈرپوک لڑکی میں نے ںہی دیکھی ‪.‬‬
‫اگر تم یہاں رہنا چاہتی ہو تو چپ کر کے اندر آجاؤ ورنہ اپنا لیکچر ختم کرو اور چلتی نظر آو ‪ .‬ریحانہ کے انداز میں‬
‫جھجھک تھی مگر وہ جانے کے لئے بھی تیار نہ تھی ‪ .‬کل کا منظر اسکے لئے بھی ہیجان خیز تھا ‪ .‬آج دونوں بہنوں نے‬
‫شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی ‪ .‬اور گلے میں دوپٹے تھے ‪ .‬دونوں کی چست قمیضوں سے جھلکتی چھاتیاں ایک خوبصورت‬
‫منظر پیش کر رہی تھی ‪ .‬مگر اس وقت مجہے صرف اپنی پڑی تھی ‪ .‬ریحانہ نے کوئی جواب نہ دیا تو فرزانہ باجی نے اسے‬
‫‪ .‬اندر کی طرف دکھیال اور دروازہ پھر سے بند کر لیا‬
‫‪ .‬اب وہ دونوں میری طرف متوجہ ہوئی‬
‫میں ایک ٹراؤزر پہنے سیدھا لیٹا تھا‪ .‬ایسے کے میرے ہاتھ میرے سر کے پیچھے تھے جیسے کسی بچے کو اسکے استاد‬
‫‪ .‬نے سزا کے طور پر ہاتھ اٹھا نے کی سزا دی ہو‬
‫‪.‬میں اگلے حکم کا منتظر تھا ‪ .‬فرزانہ باجی نے اگال حکم صادر کرنے میں دیر ںہی لگائی‬
‫تم اپنی آنکھیں بند کر لو اور تب تک نہ کھولنا جب تک میں نہ کہوں‬
‫مگر فرزانہ باجی ؟‬
‫اگر مگر کچھ ںہی ‪ .‬جو کہا جا رہا ہے وہی کرو‬
‫میں نے اپنی آنکھیں بند کر لی ‪ .‬مجہے قدموں کی آہٹ سے اندازہ ہوا کہ فرزانہ باجی میری طرف بڑھ رہی ہیں ‪ .‬پھر مجہے‬
‫احساس ہوا کے کوئی بیڈ پر چڑھ گیا ہے میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا یہاں تک کے میں اپنے دل کی دھک دھک‬
‫‪ .‬سن سکتا تھا‬
‫پھر اچانک فرزانہ باجی میرے سینے پہ سوار ہو گئی اور میرے ہاتھ پکڑ لئے ‪ .‬میں نے شور مچانا شروع کیا ہی تھا فرزانہ‬
‫باجی نے مجہے خبردار کیا کے شور مچانے سے اگر کوئی آگیا تو وہ یہی سمجھے گا کے میں ان کا ریپ کر رہا ہوں ‪.‬‬
‫میری آواز اپنے ہی حلق میں دب کے رہ گئی اور مری مزاحمت وہیں دم توڑ گئی ‪ .‬کمرے کا منظر ہی ایسا تھا کے سارے‬
‫‪ .‬ثبوت میرے ہی خالف جاتے‬
‫باجی نے حیران ریحانہ کو آواز تھی کے تم یونہی کھڑی رہو گی یا کچھ کام کرنے کا بھی ارادہ ہے ‪ .‬یک دم ریحانہ میں‬
‫‪.‬جیسے جان آگئی اس نے پوچھا جی بتائیں‬
‫‪ .‬اپنا دوپٹہ اتارو اور اسکے ہاتھ باندھو‬
‫‪ .‬فرزانہ باجی پلیز میرے ہاتھ نہ باندھیں جو آپ کہیں گی میں کرنے کو تیار ہوں پلیز ایسا نہ کریں‬
‫‪ .‬میں نے تو کوشش کی تھی مگر تم ہی شرافت سے کپڑے اتارنے پر آمادہ ںہی تھے ‪ .‬فرزانہ باجی نے جواب دیا‬
‫ریحانہ باجی انتظار میں تھی کے ہماری بات چیت کے کیا نتیجہ نکلتا ہے ‪ .‬میں نے ابھی کچھ کہنے کے لئے منہ کھوال ہی‬
‫تھا کے فرزانہ باجی نے ریحانہ کے ڈانٹنے ہوے کہا ‪ .‬تم ہل کیوں ںہی رہی ‪ .‬ریحانہ باجی نے آگے بڑھ کر مرے ہاتھ اپنے‬
‫دوپٹے سے باندھنا شروع کر دیے ‪ .‬وہ میرے اتنے قریب تھیں کے ان کے جسم کی خوشبو میرے حواس پر طاری ہونے لگی‬
‫تھی ‪ .‬انکے کھلے گلے سے جھانکتی انکی چھاتیاں میرے سانس الٹ رہی تھیں ‪ .‬انکے جسم کی حرارت سے میں پگھال جا‬
‫رہا تھا ‪ .‬جتنی دیر وہ میرے ہاتھ باندھتی رہی میں اتنی دیر سب کچھ بھول کے انکے سراپے میں گم رہا ‪ .‬ریحانہ باجی‬
‫‪ .‬گھبراہٹ میں کافی ٹائم لگا رہی تھیں ‪ .‬آخر انھوں نے تنگ آکر کہا مجھ سے ںہی باندھے جاتے تم خود باندھ لو‬
‫‪ .‬فرزانہ باجی نے جھنجال کے کہا یار تم اتنا سا کام ںہی کر سکتی‬
‫‪ .‬ریحانہ باجی نے کہا میں نے کونسا کبھی کسی کے ہاتھ بندھے ہیں جو مجہے تجربہ ہوگا‬
‫‪ .‬اچھا تم ادھر کے بیٹھو اسکے اوپر‪ .‬میں باندھتی ہو‬
‫‪ .‬میں انکار کرنا چاہتا تھا مگر ریحانہ باجی کی قربت سے انکار ممکن ںہی تھا میں چپ رہا ‪ .‬وہ میرے اوپر آکر بیٹھ گئیں‬
‫انکی نرم گرم گنڈ اب میرے سینے پر تھی ‪ .‬یقین کریں اتنی عجیب حالت کے باوجود میرے لن میں حرکت شروع ہو چکی‬
‫‪ .‬تھی‬
‫میرے دل میں ایک دم خواہش پیدا ہوئی کے کاش ریحانہ باجی نے کپڑے نہ پہنے ہوتے اور اسی طرح وہ تھوڑا اور قریب ہو‬
‫‪ .‬کے اپنی چوت مرے منہ پر رکھ دیتی اور میں پاگلوں کی طرح انکی کی چوت کو چوستا‬
‫‪ .‬ریحانہ باجی نے شاید مرے دل خیاالت پڑھ لئے تھے اسی لئے وہ ایک دم تھوڑا پیچھے ہٹ کے بیٹھ گئیں‬
‫‪ .‬میں اس وقت فرزانہ باجی کو بلکل فراموش کر چکا تھا جو کے میرے ہاتھ باندھنے میں مصروف تھیں‬
‫اب ریحانہ باجی میرے پیٹ پر بیٹھی تھی ‪ .‬میرے ذہن میں اچانک ایک خیال آیا ‪ .‬میں نے ریحانہ باجی کو کہا کے پلیز پیٹ‬
‫‪ .‬پر نہ بیٹھیں میں نے کھانا کھایا ہوا ہے‬
‫تھوڑا سا پیچھے ہو جائیں ‪ .‬وہ میری بات سمجھتے ہوۓ تھوڑا پیچھے سرکی تو ایک دم اچھل کے بیڈ سے نیچے اتر گئی ‪.‬‬
‫‪ .‬اتنی دیر میں فرزانہ باجی جو کے میرے ہاتھ باندھ چکی تھیں‬
‫انھوں نے حیرانی سے ریحانہ باجی کی طرف دیکھا اور پوچھا کیا ہوا ‪ .‬تو ریحانہ باجی نے میرے ٹراؤزر کی طرف اشارہ‬
‫‪ .‬کیا جہاں ایک ٹینٹ سا تنا ہوا تھا‬
‫‪ .‬وو جب پیچھے ہوئی تو میرے لنڈ پر بیٹھ گئیں تھیں‬
‫‪ .‬فرزانہ باجی کے منہ سے ایک قہقہہ برآمد ہوا‬
‫‪.‬اور انھوں نے ریحانہ کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا مزا آیا‬
‫‪ .‬ریحانہ باجی نے شرمندگی سے سر جھکا لیا‬
‫‪ .‬انکا تو پتا ںہی مگر میں مزے سے پاگل ہو گیا تھا جب انکی گانڈ میرے لنڈ پر ٹکی تو ایک کرنٹ سا دوڑ گیا تھا جسم میں‬
‫‪ .‬ریحانہ باجی میری شرارت کو سمجھ گئی تھیں‬
‫‪ .‬انھوں نے عجیب سی نظروں سے مجہے دیکھا‬
‫نہ چاھتے ہوۓ بھی میرے لبوں پہ مسکراہٹ آگئی‪ .‬انھوں نے شرما کر منہ دوسری طرف پھیر لیا فرزانہ باجی یہ سب ماجرا‬
‫دیکھ رہی تھیں ‪ .‬انھوں نے میرے تنے ہوۓ ٹرازور پر ہاتھ مرتے ہوۓ کہا ‪ .‬واہ جی واہ آج تو یہ شرافت سے کھڑا ہو گیا‬
‫‪ .‬ہے‬
‫‪ .‬ورنہ کل تو اسے کھڑا کرنا ہی مسلہ بنا ہوا تھا‬
‫‪ .‬انکے ہاتھ لگاتے ہی میرے لن کی تھوڑی بہت مزاحمت بھی دم توڑ گئی اور اس نے تن کے اپنے ہونے کا ثبوت دیا‬
‫‪ .‬یہ سب ریحانہ باجی کی وجہ سے تھا‬
‫ورنہ فرزانہ باجی سے تو مجہے ڈر ہی اتنا لگتا تھا کے لن کی اتنی جرات کہاں کے ان کے سامنے سینہ تن کے کھڑا رہ‬
‫‪ .‬سکے‬
‫اب فرزانہ باجی بیڈ پر بیٹھ گئی اور ہاتھ سے میرے میرے تنے ہوۓ لن کی ٹرازور کے اوپر سے ہی ہلکی ہلکی چپت مرنے‬
‫لگی ‪ .‬میرے لن نے پہلی دفع میرے عالوہ کسی اور کا لمس پایا تھا اسکے لئے یہ سب ناقابل برداشت تھا ‪ .‬وہ ہر لمس پر‬
‫‪ .‬جھٹکے مارنے لگا‬
‫فرزانہ باجی نے وہیں سے ریحانہ باجی کو آواز لگائی‬
‫‪ .‬تم بھی اوپر آجاؤ‬
‫انھوں نے کہا ںہی میں ایسے ہی ٹھیک ہوں ‪ .‬فرزانہ باجی نے کہا یہ تمہیں کھا یے گا ںہی ویسے بھی اسکے ہاتھ بندھے ہوۓ‬
‫ہیں ‪ .‬ریحانہ باجی نے پھر انکار کیا اور وہیں دور کرسی پے بیٹھ کے فرزانہ باجی کو دکیھتی رہی ‪ .‬میری حالت عجیب سی‬
‫تھی ایک بہن مرے لنڈ سے کھل رہی تھی جبکے دوسری اس منظر سے لطف اندوز ہو رہی تھی ‪ .‬میں اس سارے منظر میں‬
‫‪ .‬بے چارہ ہونے کے باوجود خود پر قابو پانے سے قاصر تھا‬
‫تھوڑی دیر فرزانہ باجی میرے لنڈ سے ایسے ہی کھیلتی رہیں ‪ .‬اور اپنے ہونٹوں پے زبان پھیرتی رہیں ‪ .‬انکے انداز سے لگتا‬
‫‪ .‬تھا جیسے ابھی وہ مرے لنڈ کو منہ میں لے کے چوسنا شروع کر دیں گی‬
‫تھوڑی دیر ایسے ہی تھپڑ مارنے کے بعد انھوں نے میرے لنڈ کو ایک ہاتھ سے پکڑ لیا اور پکڑ کر دبانے شروع کر دیا‬
‫‪ .‬میرے منہ سے ایک آہ نکلی ‪ .‬جسے فرزانہ اور ریحانہ باجی نے مزے سے سنا‬
‫اسکے بعد وہ اسی طرح بند مٹھی کو اوپر نیچے کرنے لگیں ‪ .‬اب وہ ٹرازور کے اوپر سے ہی میری مٹھ مار رہی تھی ‪ .‬اور‬
‫میں مزے کی وادیوں میں گم ہوا چال جا رہا تھا ‪ .‬جو تھوڑی بہت مزاحمت کا امکان تھا بھی تو وہ اب ختم ہو گیا تھا ‪ .‬میں‬
‫پوری طرح سے مزے لے رہا تھا ‪ .‬فرزانہ باجی کبھی میرے لنڈ کو دباتی کبھی اسے دبوچتی اور کبھی سہال رہی تھی ‪.‬‬
‫‪ .‬مجہے آج تک اپنے ہاتھ سے مٹھ مارنے کا اتنا مزا ںہی آیا تھا‬
‫میرے ٹرازور کا اوپر کا حصہ گیال ہونا شروع ہو گیا تھا ‪ .‬فرزانہ باجی نے اس گیلے حصے پر انگلی لگائی اور اس کے بعد‬
‫اس انگلی کو منہ میں لے جا کے چوس لیا میرے لئے یہ منظر قتل کرنے واال تھا ‪ .‬جس طرح انھوں نے انگلی کو چوسا تھا‬
‫‪.‬اس سے مجہے اندازہ ہو گیا تھا کے فرزانہ باجی نے یہ تربیت ٹرپل فلموں سے ہی لی ہے‬
‫میرے لنڈ نے مزید جھٹکے لئے اور ٹرازور مزید گیال ہو گیا ‪ .‬ریحانہ باجی نے فرزانہ باجی سے پوچھا باجی آپ کیا چوس‬
‫‪ .‬رہی ہیں‬
‫‪ .‬فرزانہ باجی نے کہا اسکی منی‬
‫تم بھی چکھوں مزے دار ہوتی ہے‬
‫ریحانہ باجی نے انکار میں سر ہالتے ہوۓ انکار کر دیا ‪ .‬میں نے کہا پلیز ریحانہ باجی چکھیں تو سہی ‪ .‬میری اس حرکت پر‬
‫فرزانہ باجی اور ریحانہ باجی دونوں دنگ رہ گئیں ‪ .‬ان دونوں کا تو پتا ںہی مگر میں خود حیران تھا کے یہ اچانک مجہے کیا‬
‫‪ .‬ہوا اور مجھ میں اتنی ہمت پتا ںہی کہاں سے آگئی کے میں نے یہ بات کہ دی انھیں‬
‫فرزانہ باجی نے مسکراتے ہووے ریحانہ باجی کو اب تو آجاؤ یہ تو عاشق ہو چکا ہے تمہارا ‪ .‬تمہارا نام سنتے ہی اسکا لنڈ‬
‫‪ .‬سالمی دینے لگتا ہے‬
‫ریحانہ باجی نے شرم سے آنکھیں نیچے کر لیں ‪ .‬مگر اپنی جگہ سے ہلی نہی ‪ .‬فرزانہ باجی نے مجہے کہا یہاں میری تو‬
‫‪ .‬کوئی بات سنتا ہی نہی نہ تم نہ وہ‬
‫‪ .‬میں نے ڈھیٹ ہو کہ پھر کہا ریحانہ باجی پلیز‬
‫‪ .‬اس دفعہ ریحانہ باجی نے ہمت کی اور بیڈ پر آگئیں‬
‫اب میں درمیان میں لیٹا تھا اور میرے ہاتھ بندھے ہووے تھے جبکے میرے ایک طرف فرزانہ باجی اور دوسری طرف‬
‫‪ .‬ریحانہ باجی تھی ‪ .‬اور ان دونوں کے درمیان میرا تنا ہوا لن تھا ‪ .‬اور میں مزے کے آسمان پہ تھا‬
‫ریحانہ باجی نے ہمت کی ڈرتے ڈرتے میرے لن کی طرف ہاتھ بڑھایا ‪ .‬فرزانہ باجی نے ٹوکا کے ‪ ،‬لگا لو ہاتھ ڈرو نہی ہاتھ‬
‫‪ .‬میں لینے سے کچھ نہی ہوتا ‪ .‬ریحانہ باجی نے آخر میرا لنڈ ہاتھ میں لیا اور آرام سے دبایا‬
‫‪ .‬میرے جسم میں تو کرنٹ دوڑ گیا‬
‫شاید یہ انکا بھی پہال تجربہ تھا لنڈ ہاتھ میں لینے کا ‪ .‬انھوں نے پکڑتے ہی چھوڑ دیا‪ .‬میرے اندازے کے مطابق انھیں بھی‬
‫کرنٹ لگا تھا ‪ .‬فرزانہ باجی نے اپنی انگلی میرے ٹرازور کی گیلی جگہ پے پھیری اور اسے ریحانہ باجی کے منہ کی طرف‬
‫کر دیا ‪ .‬ریحانہ باجی نے ججھکتے ہووے ان کی انگلی کو منہ میں لے لیا ‪ .‬ہر نیا منظر میرے لئے ایک امتحان سے کم نہی‬
‫‪ .‬تھا ‪ .‬میرے خون کی گردش تھی کے کم ہونے کا نام ہی نہی لے رہی تھی ‪ .‬ریحانہ باجی نے کہا یہ تو نمکین ہے‬
‫‪ .‬میں نے جلدی سے پوچھا پھر آپکو اچھا لگا‬
‫انھوں نے میرا دل توڑنا مناسب نہ سمجھا اور سر ہال دیا ‪ .‬مگر جب فرزانہ باجی نے انھیں کہا کے اب تم خود کوشش کرو تو‬
‫‪ .‬انھوں نے انکار کر دیا اور بس لنڈ سے کھیلتی رہیں‬
‫فرزانہ باجی نے زیادہ انتظار کرنا مناسب نہ سمجھا ‪ .‬اب جبکے کمرے کا ماحول سازگار تھا تو انھوں نے اپنی قمیض اتار‬
‫دی ‪ .‬کالے برا میں چھتیس کے ممے بھر نکلنے کو تڑپ رہے تھے ‪ .‬میں نے اتنے خوبصورت ممے کہیں نہی دیکھے تھے‬
‫‪ .‬گول گول گنبد کی طرح سفید جس کی الل الل چوٹی چوٹی رگیں صاف نظر آرہی تھی ‪ .‬باجی نے برا کا ہک کھول دیا اور‬
‫پھر یک دم میری آنکھوں کے سامنے دنیا کے خوبصورت ترین ممے الئٹ براؤن نپل کے ساتھ موجود تھے ‪ .‬جو کے پوری‬
‫‪ .‬طرح تنے ہووے تھے‬
‫‪ .‬فرزانہ باجی میرے سینے پر بیٹھ گئی اور اپنا دایاں نپل میرے منہ میں ڈال دیا‬

‫اور میں بے صبر وں کی طرح انکے مموں کو چوسنے لگا ‪ .‬وہ کیا سین تھا میری زندگی کے حسین لمحات تھے یہ ‪ .‬مجہے‬
‫بلکل امید نہی تھی کے میری سزا اتنا مزے دار موڑ اختیار کر لے گی ‪ .‬یہ میرا پہال تجربہ تھا کسی لڑکی کے مموں کو‬
‫چوسنے کا اور میں جتنا بے صبرا ہو رہا تھا لگتا تھا جیسے میں کچا کھا جاؤں گا ‪ .‬انکا مما اتنا برا تھا کے میرے منہ میں‬
‫پورا نہی آرہا تھا مگر میں پوری کوشش کر آرہا تھا کے جتنا ہو سکے منہ میں لے لوں ‪ .‬ریحانہ باجی ابھی تک میرے لنڈ‬
‫سے کھیل رہی تھیں ‪ .‬مگر اب ان کے انداز میں اعتماد تھا ‪ .‬فرزانہ باجی نے میرے منہ سے مما باہر کھینچا ‪ .‬اور پھر دوسرا‬
‫مما میرے منہ میں ڈال دیا ‪ .‬کمرے میں صرف فرزانہ باجی کی مزے سے بھری آوازیں تھی یا پھر میرے چوسنے کی آوازیں‬
‫‪. .‬میرے ہاتھ ابھی تک بندھے ہووے تھے مگر ہاتھوں کا ہوش کیسے ہوتا‬
‫کتنی دیر بعد کسی نے میرے مموں کو اس طرح چوسا ہے ‪ .‬فرزانہ باجی نے یہ کہتے ہووے مما میرے منہ سے نکاال اور‬
‫اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پہ رکھ دیا ‪ .‬مجہے نہی پتا تھا ہونٹوں کو چوسنے کا مزہ تو شاید مموں کو چوسنے سے بھی زیادہ‬
‫تھا ‪ .‬اور پھر میٹھے اور رسیلے ہونٹ جنھیں چھوڑنے کو دل نہ کرے‪ .‬مجہے سمجھ نہی آرہا تھا کے کس کم میں زیادہ مزہ‬
‫کس کرنے میں یا مموں کو چوسنے میں ‪ .‬اب ہم دونوں پاگلوں کی طرح کس کر رہے تھے کبھی فرزانہ باجی کی زبان میرے‬
‫منہ ہوتی اور میں چوستا اور کبھی میرے زبان انکے منہ میں ‪ .‬ریحانہ باجی اب اٹھ کے میرے سرہانے آگئی تھیں ‪ .‬اور وہ‬
‫‪ .‬حیرت سے ہمارا دیوانہ پن دیکھ رہیں تھی‬
‫تقریبا ً پانچ منٹ تک ہم دونوں کس کرتے رہے پھر اچانک ہمیں ریحانہ باجی کا احساس ہوا تو فرزانہ باجی نے ریحانہ کی‬
‫‪ .‬طرف دیکھتے ہووے پوچھا تم ٹرائی کرنا چاہو گی‬
‫ریحانہ باجی نے کوئی جواب نہی دیا ‪ .‬فرزانہ باجی میرے سینے سے اتر گئیں اور یک دم ریحانہ کو سر کے بلوں سے پکڑ‬
‫کے انکا منہ مرے منہ سے جوڑ دیا ‪ .‬میں تو شاید موقعہ کی تالش میں تھا میں نے جلدی سے انکے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں‬
‫سے جکڑ لیا شروع میں تو انہووں نے مزاحمت کی مگر فرزانہ باجی نے انکا سر نہی چوڑا تھوڑی دیر بعد جب انھیں یقین‬
‫ہو گیا کہ میں اپنا کم کر چکا ہونگا تو انھوں نے ہاتھ ہٹا لیا مگر تب تک ریحانہ باجی کی آنکھیں مزے کی شدت سے بند ہو‬
‫چکی تھی ‪ .‬اور میں پھر جنوں کی حد تک انکے ہوننٹوں کو چوسنے لگ گیا ‪ .‬میری دیوانگی کا عالم یہ تھا کے مجہے ڈر‬
‫‪ .‬تھا جیسے میں ریحانہ باجی کے ہونٹ کاٹ ہی نہ لوں ‪ .‬پھر اسی طرح میں نے اپنی زبان انکے منہ میں دھکیلی‬
‫‪.‬ریحانہ باجی نے تھوڑا ججھکتے ہووے چوسنا شروع کر دیا ‪ .‬پھر ایک دم انکے کے انداز میں تیزی آگئی‬
‫فرزانہ باجی میری ٹانگوں کی طرف بڑھیں اور میرا ٹروزار پکڑ کر کھینچ دیا ‪ .‬میرا آٹھ انچ کا لنڈ جو کے ٹوپی کے پاس‬
‫سے گیال ہو چکا تھا انکے سامنے تنا ہوا کھڑا تھا ‪ .‬اسے دیکھتے ہی فرزانہ باجی کی آنکھوں میں روشنی آگئی ‪ .‬انھوں نے‬
‫ہاتھ بڑھایا اور تھوڑی دیر بعد میرا لنڈ انکے ہاتھوں میں کھیل رہا تھا ‪ .‬میں اپنے لنڈ پے فرزانہ باجی کا لمس محسوس کرتے‬
‫ہی مزے کے ساتویں آسمان پر پہنچ چکا تھا ‪ .‬ریحانہ باجی اب میرے ہونٹوں کو چوس رہی تھیں اور فرزانہ باجی نے میرے‬
‫لنڈ سے اپنے نپل کو رگڑنا شروع کر دیا تھا ‪.‬میری گیلی ٹوپی پر لگی منی اب انکے نپلز پر لگ رہی تھی ‪ .‬فرزانہ باجی نے‬
‫اور غضب ڈھایا اور میرے لنڈ کو اپنے دونوں مموں کے درمیان رکھ کر رگڑنا شروع کر دیا ‪ .‬میرے لئے یہ سب ناقابل‬
‫برداشت تھا ‪ .‬اتنا قرب اتنا مزہ میں اکھڑ کتنا برداشت کرتا ‪ .‬میرے جسم جھٹکے کھانے لگا میں فرزانہ باجی کو روکنا چاہتا‬
‫تھا کے میں چھوٹنے واال ہوں مگر میرے ہونٹوں کو تو ریحانہ باجی نے جکڑا ہوا تھا ‪ .‬پھر اچانک میرے لنڈ سے اکڑ کے‬
‫ایک انگڑائی لی اور منی کی ایک تیز دھار فرزانہ باجی کے منہ پر پڑی ‪.‬اور پھر چند جھٹکوں کے ساتھ ہی میں نے انکے‬
‫‪ .‬چہرے گردن اور مموں کو منی سے بھر دیا‬
‫میرا جسم یک دم ڈھیال پر گیا ‪ .‬فرزانہ باجی کی تو جیسے چاندی ہو گئی انھوں نے جلدی جلدی ساری منی چاٹنی شروع کر‬
‫دی ‪ .‬وہ اتنے سکون سے یہ سب کر رہی تھیں کے میں اور ریحانہ باجی ایک ٹک انھیں ہی دیکھ رہے تھے ‪ .‬مگر انھوں نے‬
‫ذرا پرواہ نہی کی اور ایک ایک قطرہ جو ان کے چہرے پر یا چھاتی پر گرا تھا سب چاٹ لیا ‪ .‬جب وہ اس کم سے فارغ ہوئی‬
‫تو انھوں نے کہا یار مزہ آگیا تمہارا رس تو بہت مزے دار تھا ‪ .‬اتنی دیر میں انکی نظر میرے لنڈ پر پڑی جو کے آہستہ آہستہ‬
‫‪ .‬چھوٹا ہوتا جا رہا تھا‬
‫مگر چند قطرے اس پر ابھی تک موجود تھے ‪ .‬انھوں نے جلدی سے میرے لنڈ کو پکڑا اور منہ میں ڈال لیا ‪ .‬اور چوسنے‬
‫‪ .‬لگیں‬
‫میرے مزے کے گرتے ہووےگراف کو وہیں بریک لگ گئی ‪ .‬ابھی میری حیرتوں میں کمی نہ ہوئی تھی کے مجہے حیرت کا‬
‫ایک اور جھٹکا لگا ‪ .‬فرزانہ باجی اس طرح مرے لنڈ کو چوس رہیں تھی جیسے آئس کریم کو چوستے ہیں ‪ .‬وہ میرے لنڈ پر‬
‫لگے ہر قطرے کو صاف کر گئیں ‪ .‬میں اور ریحانہ انہی کی طرف دیکھ رہے تھے ‪ .‬میں نے ریحانہ باجی کو کہا پلیز مجہے‬
‫کھول دیں تو انھوں نے فرزانہ باجی کی طرف اشارہ کیا ‪ .‬میں نے کہا میرا یقین کریں میں کچھ نہی کروں گا ‪ .‬ریحانہ باجی‬
‫‪ .‬کو شاید مجھ پر ترس اگیا اور انھوں نے آگے بڑھ کر مجہے کھولنا شروع کر دیا‬
‫آہ پھر وہی مزہ ‪ .‬وہی خوشبو وہی گرمائش جو میں پھلے بھی ایک بار محسوس کر چکا تھا جب وہ شروع میں مجہے‬
‫باندھنے کی کوشش کر چکی تھیں ‪ .‬اور اب تو یہ مزہ اس وجہ سے بھی دوباال ہو چکا تھا کے میرا لنڈ اس وقت فرزانہ باجی‬
‫کے منہ میں تھا اور میں خود ریحانہ باجی کے جسم کے نشیب و فراز ناپ رہا تھا ‪ .‬تھوڑی دیر بعد میرے ہاتھ کھل گئے ‪.‬‬
‫میرے ہاتھ کھلتے ہی میں نے ریحانہ باجی کے چہرے کو دونوں ہاتھ سے پکڑا اور ایک بار پھر انھیں اپنے اوپر گھسیٹ لیا ‪.‬‬
‫‪.‬اب میں دیوانوں کی طرح انکے ہونٹوں کو چوس رہا تھا‬
‫چوستے چوستے میں نے غیر محسوس انداز میں اپنا دوسرا ہاتھ ریحانہ باجی کی چھاتی کی طرف بڑھایا ‪ .‬اور کپڑوں کے‬
‫اوپر سے ہی انکے لیفٹ بوب کو دبا دیا ‪ .‬ریحانہ باجی کو تو جیسے کرنٹ لگ گیا انھوں نے فوری طور پر پیچھے ہٹنا چاہا‬
‫‪ .‬مگر میں نے اپنے دوسرے ہاتھ سے انکے سر کو زبردستی اپنے منہ سے ہی جوڑے رکھا‬
‫ریحانہ باجی نے اپنے ہاتھ سے میرا ہاتھ ہٹانا چاہا مگر میری گرفت بہت مضبوط تھی ‪ .‬میں کپڑوں کے اوپر سے بھی انکے‬
‫تنے ہووے نپل کو محسوس کر سکتا تھا ‪ .‬تھوڑی دیر بعد انکی مزاحمت دم طور گئی اور اب وہ مزے لینے لگیں ‪ .‬ہماری‬
‫کس کوئی پانچ منٹ تک جاری رہی ‪ .‬اسی دوران میرا لنڈ دوبارہ کھڑا ہو چکا تھا اور اب فرزانہ باجی میرے ٹٹوں کو اپنی‬
‫زبان سے آشنا کروانے کی تیاری کر رہی تھیں ‪ .‬میرا لنڈ پورا انکے کے تھوک سے گیال تھا ‪ .‬میرے خشک ٹٹوں کو آج پہلی‬
‫دفعہ کوئی انسانی زبان گیال کرنے والی تھی اور وہ کوئی اور نہی میری اپنی بہن کی زبان تھی ‪ .‬ادھر میری بدتمیزی کافی‬
‫بڑھ چکیں تھی ‪ .‬میں نے ریحانہ باجی کی قمیض میں ہاتھ ڈال کر انکی چھاتیوں کو پکڑ لیا تھا ‪ .‬ریحانہ باجی کا مزے سے‬
‫‪ .‬برا حال تھا‬
‫تھوڑی دیر بعد میں نے ریحانہ باجی سے پوچھا ریحانہ باجی میں آپکی قمیض اتار دوں ؟ اور انکے جواب کا انتظار کئے‬
‫بغیر اتارنا شروع کر دی‪ .‬جب میں نے قمیض اتاری تو سفید برا میں انکے چونتیس کے ممے میرے سامنے اپنی پوری آب و‬
‫تاب کے ساتھ موجود تھے ‪ .‬میں نے جلدی سے انکے برا کو اتارنے کے لئے اپنے دونوں ہاتھ انکی کمر کی طرف بڑھائے‬
‫اور انکے برا کے ہک کھولنے کی کوشش کرنے لگا ‪ .‬فرزانہ باجی اب میرے ٹٹوں کے بعد میری گانڈ کی طرف بڑھ چکی‬
‫تھیں ‪ .‬اور اب ان کی انگلی میری گانڈ کے سوراخ پر گردش کر رہی تھی جبکے میری ٹانگیں فرزانہ باجی نے اپنے کاندھوں‬
‫پر رکھی ہوئی تھی ‪.‬انھوں نے اپنی انگلی ایک دفعہ منہ میں ڈالی اور پھر میری گانڈ کے اندر دھکیل دی میں اس وقت ریحانہ‬
‫باجی کے برا کے ہک کھولنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا ‪ .‬میرے منہ سے اوئی کی آواز نکلی اور میں نے اپنی گانڈ کی‬
‫تھوڑا سا اوپر اٹھایا ‪ .‬میری گانڈ کا سوراخ بہت تنگ تھا اور آج تک کسی نے اسکے ساتھ اس قسم کی حرکت کرنا مناسب نہی‬
‫سمجھا تھا ‪ .‬مگر فرزانہ باجی کو کون روک سکتا تھا ‪ .‬فرزانہ باجی نے جب دیکھا کے انگلی اندر نہی جا رہی تو انھوں نے‬
‫اٹھ کر میری ڈریسنگ ٹیبل سے ایک کریم کی بوتل اٹھائی اور اس میں سے کچھ کریم نکالی ‪ .‬انکی حرکتوں سے لگ رہا تھا‬
‫‪ .‬کے آج میری گانڈ کی خیر نہی‬
‫مجھ سے ریحانہ باجی کے برا کا ہک نہی کھل رہا تھا کیوں کے اسی وقت فرزانہ باجی میری گانڈ سے زور آزمائی فرما‬
‫رہیں تھیں ‪ .‬ریحانہ باجی کے چہرے پر ایک مسکراہٹ دوڑ رہی تھی انھوں نے آخر خود اپنے ہاتھ لے جا کے اپنا ہک کھوال‬
‫اور برا کو دوسری طرف اچھل دیا ‪ .‬ریحانہ باجی کے دلکش ممے میرے سامنے تھے ‪ .‬میں نے اپنے ہونٹوں پہ زبان پھیری‬
‫اور اٹھ بیٹھا ‪ .‬فرزانہ باجی اس وقت کریم کی بوتل کے ساتھ مصروف تھی ‪ .‬میں نے ریحانہ باجی کو اپنی جگا لٹا دیا اور‬
‫خود انکے اوپر جھک کے انکے مموں کو پاگلوں کی طرح چوسنے لگا ‪ .‬ریحانہ باجی کی مزے سے بھری آہیں کمرے میں‬
‫‪ .‬گونج رہیں تھیں‬
‫انھوں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے میرے سر کو پکڑ لیا اور اسے اپنے سینے پر دبانے لگیں ‪ .‬اتنی دیر میں فرزانہ باجی‬
‫واپس آچکی تھیں ‪ .‬انھوں نے میرے پیچھے آکے میری گانڈ کو اپنے ہاتھ سے اوپر کی طرف اٹھایا جو اس بات کا اشارہ تھا‬
‫کے میں اپنی گانڈ اوپر اٹھا کے رکھوں ‪ .‬اب میں گھوڑی بن چکا تھا ‪ .‬میری گانڈ کا رخ فرزانہ باجی کی طرف تھا جبکے‬
‫‪ .‬میں خود ریحانہ باجی کے مموں کو چوسنے میں مصروف تھا‬

‫فرزانہ باجی نے تھوڑی سی کریم میری گانڈ کے سوراخ پر لگائی‪ .‬میں نے چونک کے پیچھے دیکھا ‪ .‬تو فرزانہ باجی نے‬
‫مجہے کہا تم اپنا کام کرو لڑکے ‪ .‬میں نے سوچا آج میری گانڈ کی سیل تو کھلی ہی کھلی میں تو اپنا کام کروں ‪ .‬میں نے اس‬
‫دفعہ دوسرے ممے کے اوپر زبان پھیرنی شروع کی ‪ .‬ادھر فرزانہ باجی نے اپنی تھوڑی سی انگلی میری گانڈ میں ڈالی‪ .‬اور‬
‫دوسرے ہاتھ سے میرے لنڈ کو پکڑ لیا ‪ .‬اور پھر زور لگا کے باقی انگلی بھی اندر ڈال دی ‪ .‬تکلیف کی شدت سے میرے منہ‬
‫‪ .‬سے آہ نکل گئی اور میں تھوڑا سا آگے ہوا مگر فرزانہ باجی نے میرے لنڈ سے مجہے واپس کھینچ لیا‬
‫اب فرزانہ باجی کے دونوں ہاتھ چل رہے تھے ایک میری گانڈ میں انگلی اندر باہر کر رہی تھی اور دوسرے سے میرے لنڈ‬
‫‪ .‬کا مساج جاری تھا‪ .‬جبکے میں ریحانہ باجی کے مموں کو ایسے کھا رہا تھا جیسے صدیوں کا بھوکا ہوں‬
‫ان کے نپل الل ہو چکے تھے ‪ .‬تھوڑی دیر بعد میری گانڈ نے درد کرنا بند کر دیا بلکے مجہے تھوڑا تھوڑا مزہ بھی آنے لگا‬
‫‪ .‬تھا جس کی نشانی یہ تھی کے میرے لنڈ کی ٹوپی پہ منی کے چند قطرے پھر سے چمکنے لگے تھے‬
‫شاید فرزانہ باجی کو بھی میرے لنڈ کے قطروں کا پتا چل گیا تھا ‪ .‬انھوں نے اپنی پوزیشن تبدیل کی اور میری دونوں ٹانگوں‬
‫کے درمیان لٹکتے لنڈ کے بلکل نیچے اپنا منہ لے آئیں ‪ .‬اب میں گھوڑی بنا ہوا تھا مگر میرا لنڈ فرزانہ باجی کے منہ میں تھا‬
‫‪ .‬جسے وہ کافی شوق سے چوس رہیں تھی ‪ .‬اور انکا دوسرا ہاتھ انکی چوت پے تھا جسے وہ بری طرح مسل رہیں تھیں ‪.‬میں‬
‫ریحانہ باجی کے مموں کو چھوڑ کے انکے پیٹ کی طرف بڑھ رہا تھا انکے گورے بدن کا ایک ایک انچ چومنا چاہتا تھا ‪..‬‬
‫یہ وہ بدن تھا جسے میں سوچ سوچ کے مٹھ مارا کرتا تھا ‪ .‬آج وہ حقیقت بن کے میرے سامنے موجود تھا ‪ .‬میں چومتا ہوا‬
‫ریحانہ باجی کی ناف تک پہنچا اور انکی شلوار نیچے کرنے کی کوشش کی مگر ریحانہ باجی نے سختی سے اپنی شلوار‬
‫‪.‬پکڑ لی اور مجہے کہا‬
‫‪ .‬نہی پلیز اوپر سے ہی کرو جو کرنا ہے ‪ .‬میں نے زبردستی کرنا مناسب نہی سمجھا‬

‫میں نے ریحانہ باجی کی شلوار کے اوپر سے انکی چوت کی جگہ پہ نظر دوڑائی تو وہ بہت گیلی تھی ‪ .‬لگتا تھا جیسے کسی‬
‫نے پیشاب کر دیا ہو ‪ .‬میں کہا ریحانہ باجی آج تو آپ بہت گیلی ہیں ‪ .‬انھوں نے جواب دینے کی بجانے اپنی دونوں ٹانگیں‬
‫میری کندھوں پہ رکھ کے مجہے اپنی چوت پہ دھکیل دیا ‪ .‬میں نے گیلی جگہ کو سونگھنا شروع کر دیا ‪ .‬انکی منی کی مہکی‬
‫مہکی خوشبو مجہے ایک عجیب نہ مزہ دے رہی تھی ‪ .‬ریحانہ باجی کا دل کر رہا تھا کے میں جلد از جلد انکی چوت پہ اپنا‬
‫‪.‬منہ رکھ دوں ‪ .‬انھوں نے بے صبری سے کہا‬
‫‪ .‬زاہد اب بس کرو اور زبان پھیرو‬
‫‪ .‬میں نے جلدی سے کہا ریحانہ باجی زیادہ مزہ لینا ہے تو شلوار اتاریں‬
‫‪.‬انھوں نے کہا نہی تم ایسے ہی زبان لگاؤ‬
‫‪ .‬خیر میں نے اپنی زبان انکی چوت پہ پھیری اور انکی چوت کو کپڑوں کے اوپر سے ہی چوسنے لگا‬
‫اب کمرے میں ہم تینوں ہی ایک دوسرے کو مزہ دے رہے تھے ‪ .‬فرزانہ باجی میرا لنڈ چوس رہیں تھی ‪ .‬میں ریحانہ باجی‬
‫‪ .‬کی چوت‬
‫‪ .‬اور فرزانہ باجی اپنی چوت میں انگلی کر رہیں تھیں‬
‫ہم تینوں ہی اپنے اپنے عروج کے قریب تھے ‪ .‬میں نے فرزانہ باجی کے منہ کو چودنا شروع کر دیا تھا اب میں زور زور‬
‫سے ہل ہل کے اپنا لنڈ فرزانہ باجی کے منہ میں دھکیل رہا تھا ‪ .‬فرزانہ باجی میری سپیڈ کو اپنے ہاتھ سے کنٹرول کر رہیں‬
‫تھی ‪ .‬ریحانہ باجی مزے ہی شدت سے وہ بار بار اپنی گانڈ اوپر اٹھا رہی تھیں ‪ .‬میں نے انکی چوت کو کھانا شروع کر دیا‬
‫‪ .‬تھا‬
‫ہم تینوں کی رفتار تیز ہو گئی تھی ‪ .‬پھر ایک دم ریحانہ باجی نے اپنی گانڈ اوپر اٹھائی ‪ .‬اور اپنی ٹانگوں سے میرے منہ کو‬
‫‪ .‬جکڑ لیا ‪ .‬مگر میں نے اپنی زبان کو انکی چوت سے نہی ہٹایا‬
‫‪ .‬ریحانہ باجی نے مزے سے بھر پورآواز میں کہا‬
‫‪ .‬بس زاہد بس میری جان نکل جائے گی‬
‫‪ .‬میں نے انکے مزے کو دوباال کرنے کے لئے انکے مموں کو پکڑ لیا اور نپل مسلنے لگا‬
‫‪ .‬میں بھی فارغ ہونے واال تھا‬
‫‪ .‬اس دفعہ میں فرزانہ باجی کے منہ میں فارغ ہونا چاہتا تھا‬
‫‪ .‬میں نے اپنے جھٹکوں کی سپیڈ بڑھا دی‬
‫‪.‬ریحانہ باجی کے جسم نے چند جھٹکے لئے اور وہ فارغ ہو گئیں‬
‫ادھر میں بھی تقریبا ً فارغ ہونے واال تھا میں نے ریحانہ باجی کو چھوڑ دیا سارا دھیان فرزانہ باجی کے منہ کو چودنے میں‬
‫‪ .‬لگا دیا‬
‫‪ .‬میرا لنڈ پوری طرح گیال تھا میں نے فرزانہ باجی نے سر کو بالوں سے پکڑا اور انکے منہ کو زور زور سے چودنے لگا‬
‫تھوڑی دیر بعد میرے لنڈ سے ایک زور دار فوارہ فرزانہ باجی کے حلق سے ٹکرایا‬
‫جیسے ہی میری منی کی پہلی بوند انکے حلق سے ٹکرائی فرزانہ باجی بھی چھوٹ گئیں‪ .‬انھوں نے میری منی کے ایک ایک‬
‫‪ .‬قطرے کو امرت جل سمجھ کے پی لیا‬
‫‪.‬ہم تینوں بیڈ پر بے سدھ ہو کے لیٹ گیے‬
‫ہم تینوں بہت ہی تھک چکے تھے ‪ .‬کمرے میں ہو کا عالم تھا ‪ .‬بس ہمارے سانس چل رہے تھے ‪ .‬پھر فرزانہ باجی اٹھیں اور‬
‫اپنے کپڑے پہننے لگیں ‪ .‬انکی دیکھا دیکھی ریحانہ باجی نے بھی کپڑے پہننا شروع کر دے مگر میں ایسے ہی لیٹا تھا ‪ .‬مجھ‬
‫میں اتنی ہمت نہی تھی کے میں اٹھ سکوں‪ .‬پھر فرزانہ باجی نے ریحانہ باجی کو کہا چلو اور جاتے ہووے مجہے کہا‪ ,‬کچھ‬
‫‪ .‬کھا لینا‬
‫‪ .‬میں ایسے ہی لیٹے لیٹے سو گیا ‪ .‬مجھ میں اتنی ہمت نہی تھی کے خود کو صاف کروں‬
‫صبح اٹھا تو نہا کے ناشتے کی میز پر پہنچا تو صرف میں اور تائی ہی کھانے کی میز پر موجود تھے ‪ .‬میں نے سرسری‬
‫‪ .‬سے انداز میں پوچھا تائی! آج ریحانہ باجی نظر نہی آرہیں‬
‫‪.‬بیٹے آج ان دونوں کی طبیعت خراب ہے‬
‫‪ .‬میں تو دونوں کو اٹھانے گئی تھی مگر دونوں نے اٹھنے سے انکار کر دیا ہے‬
‫‪ .‬خیر چھوڑو تم ان دونوں کو اور ناشتہ کرو ‪ .‬آج کل کی نسل تو ہے ہی ایسی‬
‫‪ .‬ساری ساری رات ٹی وی دیکھنا اور دیر سے اٹھنا عادت بن گئی ہے‬
‫‪.‬میں نے ناشتہ کیا اور آفس کی طرف نکل پڑا‬
‫پچھلے دو دن سے جو ڈر میرے دل میں گھر کر چکا تھا آج اسکا نام و نشان نہی تھا ‪ .‬بلکے میرا موڈ نہایت ہی خوشگوار تھا‬
‫‪.‬‬
‫‪ .‬جو کچھ پچھلی رات ہو چکا تھا اس کے بعد مجہے کوئی ڈر نہی تھا ‪ .‬اب فرزانہ باجی کسی کو کچھ نہی بتا سکتی تھیں‬
‫بلکے اب وہ میرے رحم و کرم پہ تھیں ‪ .‬ڈرنا تو انھیں مجھ سے چاہیے تھا ‪ .‬مجہے امید تھی کے جو مزہ انھیں مجھ سے مال‬
‫‪ .‬تھا اب وہ اس کی بغیر رہ ہی نہی سکتی تھیں‬
‫مجہے امید تھی کے اگر بات آگے چلی تو میں جلد ہی فرزانہ باجی کو چودنے میں کامیاب ہو جاؤں گا ‪ .‬مگر اصل مسلہ‬
‫‪ .‬ریحانہ باجی کا تھا‬
‫‪ .‬وہ کھل کے ہی نہی دے رہیں تھیں ‪ .‬مجہے لگا کے ان پر محنت کرنی پڑے گی‬
‫خیر یہی سوچتے ہووے دن گزر گیا ‪ .‬میں رات کا کھانا باہر سے ہی کھا آیا تھا ‪ .‬گھر پہنچ کے سیدھا اپنے کمرے میں گھس‬
‫‪ .‬گیا‬
‫کمرے میں آتے ہی میں سو گیا ‪ .‬مجہے علم تھا کہ مجہے رات بھر جاگنا ہوگا ‪ٰ .‬لہذا آرام کرنا ضروری تھا ‪ .‬میری آنکھ بارہ‬
‫بجے کے بعد کھلی ‪ .‬میں حیران تھا کے آج کوئی ابھی تک کیوں نہی آیا ‪ .‬خیر میں انتظار کرنے لگا ‪ .‬میں نے کمپیوٹر آن کیا‬
‫‪ .‬اور پورن مووی دیکھنے لگ گیا‬
‫دو بج گیے مگر فرزانہ اور ریحانہ باجی کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہ تھا ‪ .‬مجہے اپنی امیدوں پہ پانی پڑتا نظر آرہا‬
‫‪ .‬تھا‬
‫‪ .‬کوئی ڈھائی بجے میری دروازے پہ ڈری ڈری دستک ہوئی‬
‫میں نے دروازہ کھوال تو ریحانہ باجی سامنے کھڑی تھیں ‪ .‬میں انھیں دیکھ کے حیران ہو گیا ‪ .‬میرے خیال کے مطابق فرزانہ‬
‫‪ .‬باجی کو آنا چاہیے تھا‬
‫‪ .‬خیر میں نے دروازے سے ہٹ کے راستہ دیا‬
‫‪ .‬ریحانہ باجی اندر آکے کھڑی ہو گئیں مگر کچھ بولی نہی‬
‫‪ .‬میں کچھ نہ سمجھ آنے والی انداز میں ان کی طرف دیکھنے لگا‬
‫ریحانہ باجی اپنے دونوں ہاتھ ایک دوسرے سے مل رہی تھیں ‪ .‬میں انکی حالت پہ حیران تھا ‪ .‬ریحانہ باجی نے بڑی مشکل‬
‫‪ .‬سے کہا‬
‫زاہد میں کل کے واقعہ پہ شرمندہ ہوں‬
‫کل جو کچھ ہوا اس میں ہمارا مقصد صرف تمہیں تھوڑا سا تنگ کرنا تھا ‪ .‬مگر ہم کافی آگے نکل گنے‪ .‬مجہے امید ہے تم‬
‫‪ .‬ہمیں معاف کر دو گے اور کل جو کچھ ہوا وو صرف ہم تینوں کے درمیان رہے گا‬
‫‪ .‬میں انکے الفاظ سن کے حیران رہ گیا ‪ .‬پھر یک دم میرے ذہن میں سارا معمہ حل ہو گیا‬
‫‪ .‬کل کے بعد فرزانہ باجی اور ریحانہ باجی دونوں یہ سمجھ رہیں تھی کے انھوں نے مجھ سے زیادتی کی ہے‬
‫‪.‬اور ڈر رہی تھیں کے میں کسی کو بتا نہ دوں‬
‫‪.‬میں نے سوچا اگر یہ ڈر رہیں ہیں تو اچھا ہے ذرا ڈر قائم رہنا چاہیے‬
‫‪.‬میں نے جلدی سے اپنا منہ رونے واال بنایا اور ریحانہ باجی کو کہا‬
‫کل جو کچھ آپ لوگوں نے میرے ساتھ کیا اسکے بعد تو میں خود سے نظریں نہی مال پا رہا‪ .‬میں نے سوچا ہے کے میں یہ‬
‫‪ .‬گھر چھوڑ کے چال جاؤں میرا یہاں رہنا اب مناسب نہی ہے‬
‫‪ .‬مگر کیوں ریحانہ باجی نے پوچھا‬
‫‪ .‬ریحانہ باجی میں جب تک یہاں رہوں گا مجہے احساس ہوتا رہے گا کے میری عزت لوٹی گئی ہے یہاں‬
‫‪ .‬اور اگر تمھارے گھر والوں نے پوچھا کے تم واپس کیوں آ گنے تو کیا کہو گے‬
‫‪ .‬یہ میں نے ابھی سوچا نہی ہے مگر اگر انھوں نے زیادہ زور دیا تو میرے پاسس سچ بولنے کے سوا کوئی راستہ نہی ہے‬
‫‪.‬ریحانہ باجی نے رونے والی انداز میں دیکھو زاہد میں تم سے معافی مانگتی ہو تم مت جاؤ‬
‫‪ .‬میں نے کہا نہی یہ نہی ہو سکتا جو زخم میری روح پہ لگے ہیں وہ اتنی آسانی سے نہی بھر سکتے‬
‫‪ .‬ریحانہ باجی چپ ہو گئیں‪ .‬پھر وہ کرسی پر بیٹھ گئیں اور مجہے کہا بیٹھو‬
‫‪ .‬اور پھر وہ مجھ سے ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگیں ‪ .‬ہم نے کافی دیر باتیں کیں‪ .‬میں نے اچانک ان سے کہا‬
‫‪ .‬ریحانہ باجی میں آپ سے ایک بات پوچھوں ‪ .‬انھوں نے کہا ہاں پوچھو‬
‫‪ .‬کل کے سارے حادثے میں مجہے لگا جیسے فرزانہ باجی کے لئے سیکس کوئی نئی چیز نہی ہے‬
‫ریحانہ باجی کے چہرے پر ایک مسکراہٹ دوڑ گئی ‪ .‬انھوں نے کہا ہاں ! پڑھائی کے دوران فرزانہ باجی کے ایک کالس‬
‫فیلو نے ان سے پیار کا ڈھونگ رچایا تھا ‪ .‬پھر جب فرزانہ باجی نے انھوں نے اپنا سب کچھ ان کے حوالے کر دیا تو وہ‬
‫‪ .‬انھیں یہ کہہ کے چھوڑ گیا کے ہم تو اچھے دوست تھے‬
‫‪.‬بس اسی دن سے فرزانہ باجی ایسی ہو گئی ہیں ‪ .‬پھلے تو بڑی ہنس مکھ تھیں‬
‫میں نے ہاں میں سر ہالیا ‪ .‬پھر میں نے ریحانہ باجی سے کہا اور آپ کا کوئی لڑکا دوست نہی ہے ؟‬
‫‪ .‬انھوں نے شرمانے والی انداز میں کہا ‪ .‬نہیں‬
‫‪ .‬اچھا یہ باتیں کل آپ لوگوں نے مجہے ڈسکس کیا تھا یہاں سے جانے کے بعد‬
‫‪ .‬انھوں نے ایک دم مجہے دیکھا میرا یہ سوال ان کے لئے حیران کن تھا‬
‫‪ .‬پھر انھوں نے کہا ہاں ! سچ بتاؤں تو ہمیں بہت اچھا لگا تھا مگر کہیں دل میں نادم بھی تھے‬
‫‪ .‬اتنی دیرمیں میرے دروازے پہ پھر دستک ہوئی‬
‫میں اٹھنے لگا تو ریحانہ باجی نے مجہے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا اور خود اٹھ کے دروازہ کھوال تو فرزانہ باجی کی‬
‫‪ .‬ایک جھلک دکھائی دی مجھے‬
‫‪.‬ریحانہ باجی باجی بھر نکل گئیں ‪ .‬پھر مجہے ان دونوں کی کھسر پھسر کی آواز سنائی‬
‫اور پھرریحانہ باجی اندر آئیں اور مجھ سے پوچھا ‪ .‬اچھا تو زاہد اب تو تم نہیں جا رہے نہ کہیں اور نہ ہی کسی کو کچھ بتاؤ‬
‫‪.‬گے‬
‫‪ .‬میں نے ریحانہ باجی کو کہا میں آپ سے کوئی وعدہ نہی کر سکتا ‪ .‬مگر میں سوچو گا‬
‫‪ .‬میری بات ابھی ختم نہی ہوئی تھی کے فرزانہ باجی ایک دم کمرے میں داخل ہوئی‬
‫‪ .‬ان کا انداز غصہ واال تھا ‪.‬انھوں نے آتے ہی مجہے دھکا دیتے ہووے بیڈ پر پھینک دیا اور کہا اچھا تو تم واپس جاؤ گے‬
‫‪ .‬اور پھر اسی انداز میں ریحانہ باجی کی طرف دیکھتے ہووے کہا کمرے کو الک کر دو‬
‫‪ .‬مگر فرزانہ باجی ‪ .......‬جو کہا جا رہا ہے وہ کرو ‪ .‬فرزانہ باجی نے چیختے ہووے کہا‬
‫‪ .‬ریحانہ باجی نے دروازہ الک کر دیا ‪ .‬فرزانہ باجی نے اسی طرح میرے بیڈ پر چڑھ آئیں اور میرے سینے پر بیٹھ گئیں‬
‫‪ .‬اور مجہے کہا کیوں میری جان‪ .‬بولو جاؤ گے گھر‬
‫‪ .‬میں نے سہمے سہمے انداز میں سر ہال دیا‬
‫انھوں نے میرے سر کو پکڑا اور اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پہ سبط کر دیے‪ .‬میری آنکھیں بھر ابل پڑیں میں ان سے بلکل‬
‫‪ .‬بھی توقع نہی کر رہا تھا کے میرے ساتھ یہ حشر ہو گا‬
‫تھوڑی دیر کے بعد جب میرے حواس بحال ہوے تو میں نے کس کو محسوس کرنا شروع کیا ‪ .‬تو میرے ہاتھوں نے خود کر‬
‫‪ .‬انداز میں فرزانہ باجی کی کمر پر گھومنا شروع کر دیا تھا‬
‫اور وہ گھومتے گھومتے فرزانہ باجی کی چھاتی پر پہنچ گنے‪.‬جب فرزانہ باجی کو اپنی چھاتی پہ دباؤ محسوس ہوا تو انھوں‬
‫‪ .‬نے اپنے ہونٹ مجھ سے جدا کیے‪ .‬اور کہا‬
‫‪ .‬کیوں منہ میں لو گے انکو ‪ .‬بولو لو گے اپنی بہن کی چھاتی کو اپنے منہ میں‬
‫‪ .‬پیاس مٹاؤ گے نہ اپنی بہن کی‬
‫‪ .‬میں نے ہاں میں سر ہالیا ‪ .‬پھر انھوں نے پوچھا تم گھر جو گے ہمیں چھوڑ کے‬
‫‪.‬میں ابھی کچھ ہوش میں تھا ‪ .‬میں نے پھر ہاں میں سر ہالیا ‪ .‬تو فرزانہ باجی کے چہرے کے تاثرات یک دم تبدیل ہو گۓ‬
‫‪ .‬انھوں نے میرے اوپر بیٹھے بیٹھے اپنی قمیض اتاری اور غصہ سے پھینک دی‬
‫‪.‬انکے چھتیس کے ممے بھر ابل پڑے‪ .‬سکن کلر کے ٹائٹ برا میں وہ مجھ پہ پہلی ہی نظر میں قیامت ڈھا گنے‬
‫میں ہلک خشک ہونے لگا تھا ‪ .‬فرزانہ باجی نے ساتھ ہی اپنا برا بھی اتار پھینکا ‪ .‬انکے سفید ممے پنک نپل کے ساتھ میرے‬
‫‪ .‬سامنے تھے‬
‫انھوں نے اپنا دایاں مما اپنے ہاتھ سے پکڑا اور میرے منہ کے پاس لے کے آئیں‪ .‬میں نے بے صبری سے انکا مما اپنے منہ‬
‫‪.‬میں لینے کے لئے منہ کھوال‬
‫مگر آخری لمحات پہ وہ واپس سیدھی بیٹھ گئی ‪ .‬آپ اندازہ کر سکتے ہیں جب آپ کا دل کسی خوبصورت ممے کو منہ میں‬
‫لینے کو کر رہا ہو اور وہ آپکے سامنے موجود بھی ہو مگر اچانک وہ مما آپکے منہ میں جاتے جاتے واپس ہٹا لیا جاۓ تو‬
‫‪ .‬آپ پر کیا گزرے گی‬
‫‪ .‬میں جھنجھال ہٹ میں برا حال ہو گیا‪ .‬میں نے غصہ سے کہا فرزانہ باجی کیا مسلہ ہے آپکو‬
‫مسلہ تو سامنے ہے زاہد ‪ .‬یہ خوبصورت ممے تمہیں ضرور چوسنے کو ملیں گے ‪ .‬مگر پھلے تمہیں ہم سے وعدہ کرنا ہوگا‬
‫‪ .‬کہ تم نہ تو کہیں جو گے‬
‫‪ .‬اور نہ ہی کسی کو کچھ بتاؤ گے ‪ .‬میں نے کچھ سوچتے ہووے کہا ‪ .‬نہیں میں وعدہ نہی کر سکتا‬
‫‪.‬فرزانہ باجی بھی سمجھ گئیں کے میں اتنی آسانی سے ہاتھ آنے واال نہی‬
‫فرزانہ باجی میرے اوپر سے اٹھ گئیں ‪ .‬اور نیچے کھڑے ہو کے اپنی شلوار اتار دی ‪ .‬میرا ڈھیال پڑتا لنڈ پھر سے حرکت‬
‫‪ .‬کرنے لگا‬
‫‪ .‬فرزانہ باجی کی گانڈ کی جھلک دیکھتے ہی میرے لنڈ نے اکڑ کر اس خوبصورت گانڈ کو سالمی دی‬
‫فرزانہ باجی میری طرف مڑی تو انکی خوبصورت پھدی میرے سامنے تھی ‪ .‬جسکو دیکھ کے میرے لنڈ نے جھٹکے کھانے‬
‫‪.‬شروع کر دیے‬
‫‪ .‬فرزانہ باجی کی نظر میرے لنڈ کی طرف گئی تو انکے چہرے پہ مسکراہٹ دوڑ گئی‬
‫‪ .‬انھوں نے میرے لنڈ کی طرف اشارہ کرتے ہووے کہا یہ تو کچھ اور ہی کہانی سنا رہا ہے‬
‫‪ .‬ریحانہ باجی حیرت سے میرے لنڈ کی حرکتوں کو دیکھ رہیں تھیں‬
‫‪ .‬جب ان سے رہا نہ گیا تو انھوں نے مجھ سے پوچھا زاہد تم اسے کیسے ہالتے ہو‬
‫‪ .‬ریحانہ باجی کی آواز سن کے میں اور فرزانہ باجی دونوں ان کی طرف متوجہ ہوے‬
‫‪ .‬ہم دونوں تو جیسے انھیں بھول ہی چکے تھے‬
‫فرزانہ باجی نے میرے جواب کا انتظار کیے بغیر ہی انھیں کہا ‪ .‬جب لڑکے مزے کے عروج پر پھنچتے ہیں تو انکا لنڈ منی‬
‫‪.‬کے چند قطرے نکالتا ہے‬
‫‪ .‬تو ایسے ہی جھٹکے کھاتا ہے ‪ .‬ادھر آؤ تمہیں دکھاؤں‬
‫‪ .‬فرزانہ باجی نے ریحانہ باجی کا ہاتھ پکڑا اور انھیں میری طرف کھینچ کے لے آئیں‬
‫‪ .‬فرزانہ باجی جب چلتیں تھیں تو انکے ہلتے ہووے ممے اور گانڈ کے زیرو بم میرے دل کو اتھل پتھل کر رہے تھے‬
‫‪ .‬ریحانہ باجی نے قریب آ کر جب دیکھا تو واقعی میرے لنڈ پر منی کے قطرے جھلک رہے تھے‬
‫‪ .‬ریحانہ باجی سے رہا نہ گیا انھوں نے ڈرتے ڈرتے میرے لنڈ کو ہاتھ میں لے لیا‬
‫انکے نرم و مالئم ہاتھوں کا چھونا تھا کے میرے جسم میں جیسے کرنٹ دوڑ گیا ‪ .‬ریحانہ باجی کو لگا جیسے مجہے درد ہوا‬
‫‪ .‬ہو تو انھوں نے گھبرا کے چھوڑ دیا‬
‫‪ .‬تو فرزانہ باجی نے ان سے پوچھا کیا ہوا ‪ .‬پکڑو دیکھا نہی اسے کتنا مزہ آیا تھا‬
‫ریحانہ باجی نے میری طرف دیکھا تو میں نے اثبات میں سر ہال دیا انھوں نے پھر ایک بار میرے لنڈ کو اپنے ہاتھ میں پکڑا‬
‫‪.‬‬
‫میں اس وقت بیڈ پر سیدھا لیٹا تھا ‪ .‬اور لنڈ سیدھا تنا ہوا تھا ‪ .‬فرزانہ باجی بیڈ پر چڑھ آئیں اور ریحانہ باجی کو کہا ذرا زور‬
‫‪ .‬سے دباؤ‪ .‬تمہیں یاد ہے میں نے کل کیسے اسے دبایا تھا‬
‫‪ .‬ریحانہ باجی نے کل کا منظر یاد کرتے ہووے ہاتھ کو حرکت دینا شروع کر دی‬
‫‪ .‬اب وہ میری مٹھ مار رہیں تھیں‬
‫اور میں مزے سے بے حال تھا ‪ .‬فرزانہ باجی نے مجہے بالوں سے پکڑا اور میرا سر اپنی ٹانگوں پہ رکھتے ہووے اپنا بایاں‬
‫‪ .‬مما میرے منہ میں ٹھونس دیا‬
‫یہ سب اتنی تیزی سے ہوا کے کچھ دائر تو میری سمجھ میں کچھ نہی آیا ‪ .‬مگر جب ہوش آیا تو میں نے تیزی سے انکی‬
‫‪ ،‬چھاتی کو پاگلوں کی طرح چوسنا شروع کر دیا‬
‫‪ .‬یہ میری زندگی میں پہلی دفعہ تھا کے کسی لڑکی کے ممے چوس رہا تھا‬
‫‪ .‬فرزانہ باجی کے منہ سے مزے کی آوازیں آنا شروع ہو گیں تھی ‪ .‬جس سے واضح تھا کے انکو بہت مزہ آرہا تھا‬
‫فرزانہ باجی کے ہاتھ کی پکڑ میرے سر پر ختم ہو چکی تھی ‪ .‬تھوڑی دیر بعد انھوں نے اپنا دوسرا مما میرے منہ میں ڈال‬
‫‪ .‬دیا‬
‫‪ .‬میں پاگلوں کی طرح انکے چھتیس کے ممے کو اپنے منہ میں بھرنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا‬

‫ریحانہ باجی کا ہاتھ تیزی سے حرکت کر رہا تھا ‪ .‬مجہے لگا کے اگر انکا ہاتھ اسی طرح چلتا رہا تو میں فارغ ہو جاؤں گا ‪.‬‬
‫‪ .‬میں نے فرزانہ باجی کے ممے کو چھوڑا اور جھٹکے سے ریحانہ باجی کو اپنی طرف کھینچ لیا‬
‫‪ .‬اور اب وہ میرے اوپر تھیں میں نے انکے ہونٹوں کو چوسنا شروع کر دیا‬
‫‪ .‬فرزانہ باجی نے جب یہ سین دیکھا تو انکے چہرے پہ مسکراہٹ دوڑ گئی‬
‫ریحانہ باجی اب کپڑوں سمیت میرے اوپر تھیں ‪ .‬میرا کھڑا ہوا لنڈ انکی پھدی پر تھا ‪ .‬انکی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں‬
‫‪ .‬تھیں‬
‫‪ .‬فرزانہ باجی نے آگے بڑھ کر ایک عجیب حرکت کی ‪ .‬انھوں نے ریحانہ باجی نے کی شلوار کھینچ کر اتار دی‬
‫ریحانہ باجی نے نیچے کچھ نہی پہنا ہوا تھا ‪ .‬میرا لنڈ جب انکی چوت سے ٹچ ہوا تو ہم دونوں کو کرنٹ لگا ‪ .‬اور فرزانہ‬
‫‪ .‬باجی کا قہقہہ چھوٹ گیا‬
‫ریحانہ باجی تڑپ کے میری گرفت سے نکل گئیں‪ .‬فرزانہ باجی کی ہنسی تھی کے رکنے کا نام ہی نہی لے رہی تھی ‪ .‬میرے‬
‫‪ .‬لنڈ اور انکی پھدی نے پہلی دفعہ کسی مخالف شے کو محسوس کیا تھا اس لئے ہمارا ردعمل فطری تھا‬
‫‪ .‬خیر فرزانہ باجی نے میرے لنڈ کو دیکھا اور پھر بغیر کوئی انتظار کے اسے اپنے منہ میں لے لیا‬
‫ریحانہ باجی ابھی بھی مجھ سے دور کھڑیں تھیں ‪ .‬جبکہ فرزانہ باجی مزے سے میرے لنڈ کو اپنے منہ میں لے کر چوس‬
‫‪ .‬رہیں تھیں‬
‫ریحانہ باجی اپنے آپ کو اپنی قمیض سے چھپا رہیں تھیں ‪ .‬میں نےکہا کہ ریحانہ باجی اب چھپانے کو کیا رہ گیا ہے ‪.‬‬
‫‪ .‬چھوڑیں انجواے کرتے ہیں ‪ .‬فرزانہ باجی نے بھی ریحانہ باجی کا حوصلہ بڑھایا‬
‫ریحانہ کب تک یوں اپنی خواہشوں کو دباؤ گی ‪ .‬یہ کہہ کر فرزانہ باجی نے ریحانہ باجی کا ہاتھ پکڑا اور میری طرف دھکیل‬
‫‪ .‬دیا‪ .‬میں نے ریحانہ باجی کو پکڑ کے پھر سے کس کرنا شروع کر دیا‬
‫جبکہ فرزانہ باجی پھر سے میرے لنڈ کو چوسنے لگیں ‪ .‬میں نے تھوڑی دیر بعد ریحانہ باجی کو کہا ‪ .‬پلیز آپ بھی اپنی‬
‫‪ .‬قمیض اتر دیں‬
‫‪ .‬انھوں نے ججھکتے ہونے اپنی قمیض بھی اتار دی‬
‫انکے چونتیس کے ممے سفید کلر کے برا میں بہت ہی حسین نظر آرھے تھے ‪ .‬میں نے بغیر کوئی انتظار کیے ریحانہ باجی‬
‫‪ .‬کا برا بھی اتار پھینکا‬
‫ایک ہی دن میں ‪ ،‬مجہے یہ دوسرے خوبصورت ممے چوسنے کو مل رہے تھے‪ .‬ریحانہ باجی کے سفید ممے اور انکے پنک‬
‫‪ .‬نپل دیکھنے سے تعلق رکھتے تھے‬
‫‪ .‬میں نے دیوانہ وار انکے ممے کو چوسنا شروع کر دیا‬
‫‪ .‬ادھر فرزانہ باجی کا جوش اپنے عروج پہ تھا ‪ .‬انھوں نے میرے لنڈ کو پکڑا اور اپنی پھدی پہ رکھا‬
‫مجہے لگا جیسے انکی پھدی میں پانی کا سیالب آیا ہوا ہو ‪ .‬مگر انھوں نے میرا لنڈ اپنی پھدی پہ رکھا اور خود اوپر بیٹھ‬
‫‪ .‬گئیں‪ .‬گیلے ہونے کے باوجود میرا لنڈ انکی پھدی میں پورا نہ اتر سکا‬
‫‪ .‬مگر جتنا بھی گیا میرے اور فرزانہ باجی کے لئے کافی تھا ہم دونوں مزے کی شدت سے پاگل ہو رہے تھے‬
‫میں نے ریحانہ باجی نے ممے کو چھوڑا اور فرزانہ باجی کو دیکھنے لگا ‪ .‬ریحانہ باجی میرے اس طرح سے الگ ہونے کی‬
‫‪ .‬وجہ سے پیچھے مڑ کے دیکھنے لگیں‬
‫‪.‬انھوں نے حیرت سے دیکھا اور زور سے بولیں فرزانہ باجی یہ کیا کر رہیں ہیں‬
‫‪ .‬ایسا مت کریں ‪ .‬یہ ہمارا کزن ہے ‪ .‬فرزانہ باجی نے جواب دیا‬
‫‪ .‬اور جو ہم باقی سب کچھ کر رہے تھے وہ بھی تو اپنے کزن سے ہی کر رہے تھے‬
‫‪ .‬اور اب مجھ سے برداشت نہی ہوتا ‪ .‬اسکا تنا ہوا لنڈ اب مجھ سے اور برداشت نہی ہوتا‬
‫‪ .‬یہ کہہ کے انھوں نے ایک اور جھٹکا لیا اور اس دفعہ میرا لنڈ انکی چوت کی گہرائیوں میں اترتا چال گیا‬
‫‪ .‬فرزانہ باجی نے درد کی شدت سے اپنا منہ سختی سے بند کر لیا‬
‫‪ .‬انھوں نے سکھ کا سانس لیا اور آنکھیں بند کر کے میرے لنڈ کو محسوس کرنے لگیں‬
‫فرزانہ باجی نے ریحانہ باجی کی ٹانگوں کی طرف دیکھا اور کہا ‪ .‬ریحانہ تم تو بہت گیلی ہو ‪ .‬دیکھو جناب کی منی ٹانگوں‬
‫‪ .‬سے بہ رہی ہے‬
‫‪ .‬انھوں نے اپنی ٹانگیں کھولی تو وہ خود دیکھ کے حیران رہ گئیں کہ انکی چوت بھی پانی سے تر تھی‬
‫میں نے ہاتھ بڑھا کے انکی چوت کو ہاتھ لگا نا چاہا تو انھوں نے جلدی سے اپنی ٹانگیں بند کر لیں ‪ .‬میں نے کہا کچھ نہی‬
‫‪.‬کروں گا‬
‫اور دھیرے دھیرے انکی ٹانگوں کو کھوال تو انکی پنک کلر کی پھدی جو کے پانی سے تر تھی بہت خوبصورت لگ رہی‬
‫‪ .‬تھی ‪ .‬میں نے ہاتھ بڑھا کے انکی چوت کو ٹچ کیا تو انھوں نے پھر سے ٹانگیں بند کر لیں‬
‫میں نے اپنی منی سے تر انگلی کو اپنے منہ میں ڈال لیا اور مزے سے چوسنے لگا ‪ .‬ریحانہ باجی نے یہ منظر دیکھا تو‬
‫‪ .‬حیران رہ گئیں ‪ .‬میں نے نے انھیں کہا بہت مزے کی ہے آپکی منی‬
‫اتنے میں فرزانہ باجی نے آرام آرام سے ہلنا شروع کر دیا تھا ‪ .‬انکی چوت کی تنگی کافی حد تک میرے لنڈ کی عادی ہو‬
‫‪ .‬چکی تھیں ‪ .‬اور اب وہ آرام سے اندر باہر ہو رہا تھا‬
‫میں نے ریحانہ باجی کو اپنی طرف کھینچا اور انھیں کہا میرے اوپر آجائیں ‪ .‬میں اپنی چوت کا سارا پانی چوسنا چاہتی ہوں ‪.‬‬
‫‪.‬وہ ڈرتے ڈرتے میرے اوپر آگئیں ‪ .‬اور اپنی چوت میرے منہ پر ٹکا دی‬
‫میں نے انکی چوت پر ہونٹ رکھے ہی تھے کہ ریحانہ باجی نے مزے کی شدت سے اپنی ٹانگیں بند کر لیں ‪ .‬اب میرا منہ‬
‫‪ .‬انکی ٹانگوں کے درمیان پھنسا ہوا تھا اور میں انکی چوت کے لبوں کو چوس رہا تھا‬
‫‪ .‬جبکے فرزانہ باجی کی سپیڈ تیز ہو چکی تھی ‪ .‬ہم تینوں اس وقت مزے میں پاگل ہو چکے تھے‬
‫‪ .‬میری زبان تیزی سے اپنا کام کر رہی تھی ‪ .‬اور کمرے میں ہم تینوں کی آوازیں گونج رہیں تھیں‬
‫‪ .‬فرزانہ باجی کے میرے لنڈ پے اچھلنے کی وجہ سے تھپ تھپ کی آوازیں ماحول کو مزید سیکسی بنا رہیں تھیں‬
‫‪ .‬فرزانہ باجی نے جوش کی شدت سے مجھ سے پوچھا بولو زاہد اب جاؤ کے ہمیں چھوڑ کے‬
‫‪ .‬میں نے جواب دیا نہیں کہیں نہی جاؤں گا اپنی پیاری کزنز کو چھوڑ کے‬
‫‪ .‬تم ہمیں روز چودو گے نہ زاہد‬
‫‪ .‬ہاں فرزانہ باجی میں آپکو روز چودوں گا‬
‫‪ .‬اب میں بھی اپنی گانڈ کو اٹھا اٹھا کے انکا ساتھ دے رہا تھا‬
‫ریحانہ باجی ایک دفعہ میرے منہ میں فارغ ہو چکی تھیں ‪ .‬اور انکی حرکتوں سے لگ رہا تھا جیسے وہ دوسری دفعہ کے‬
‫‪ .‬لئے تیار ہوں‬
‫‪ .‬وہ اپنے مموں کو اپنے ہاتھوں سے دبا رہی تھیں‬
‫‪ .‬جبکے میں اپنی ہاتھوں سے انکے کمر سہال رہا تھا‬
‫‪.‬تھوڑی دیر بعد میری برداشت جواب دے گئی ‪ .‬اور میں نے آواز لگائی‬
‫فرزانہ باجی میں فارغ ہونے واال ہوں ‪ .‬انھوں نے کہا کوئی فکر نہی ‪ .‬اندر ہی فارغ ہو جاؤ میں بھی بس فارغ ہونے والی ہوں‬
‫‪.‬‬
‫فرزانہ باجی کی سپیڈ میں اضافہ ہو چکا تھا ‪ .‬اب وہ اپنی پھدی کو اندر سے سخت کر کے اچھل رہیں تھی ‪ .‬جس کی وجہ‬
‫‪ .‬سے انکی پھدی کی دیواروں سے میرے لنڈ کو سخت رگڑ لگ رہی تھی‬

‫تھوڑی دیر بعد مجہے لگا کے جیسے میرے خون میں ابال آگیا ہو ‪ .‬ایسا مزہ جو مجھ سے کنٹرول نہی ہو پا رہا تھا ‪ .‬میں نے‬
‫سینکڑوں بار مٹھ ماری تھی مگر ایسا مزہ پوری زندگی میں نہی آیا تھا ‪ .‬میرے لنڈ نے سخت جھٹکوں میں منی نکالنی شروع‬
‫کی ‪ .‬جونہی میری منی کی پہلی پھوار فرزانہ باجی کی چوت میں گئی ‪ .‬انکی برداشت بھی جواب دے گئی ‪ .‬اور انکی پھدی‬
‫میں سیالب آگیا ‪ .‬مگر انکی رفتار میں کوئی کمی نہی آئی ‪ .‬مگر وہ فارغ ہو چکی تھیں اسی کے ساتھ ریحانہ باجی نے بھی‬
‫ایک بار پھر پانی چھوڑ دیا تھا جسے میں پینے میں مشغول تھا‬

‫اگلی صبح اتوار کی وجہ سے میں لیٹ اٹھا ‪ .‬جب میں نہا دھو کے ناشتے کے لئے باہر نکال تو خالف معمول خاموشی تھی ‪.‬‬
‫‪ .‬ورنہ تائی جان اس وقت گھر کے نوکروں کے ساتھ صفائی ستھرائی میں مصروف ہو تی ہیں‬
‫میں کچن میں پہنچا تو میں نے کام کرنے والی ماسی سے پوچھا تو پتا چال کےتائی جان اور تایا جان اسالم آباد گۓ ہیں کسی‬
‫‪ .‬دوست کی شادی میں ‪ .‬اور فرزانہ اور ریحانہ باجی ابھی تک سو رہی ہیں‬
‫‪ .‬میں نے ناشتہ کیا اور چپ چاپ اپنے کمرے میں چال گیا‬
‫‪ .‬ابھی تک جو کچھ ہوا تھا میں اس میں ایک معمول تھا ‪ .‬جو فرزانہ اور ریحانہ باجی کی باتوں پہ چپ چاپ عمل کرتا رہا تھا‬
‫مگر اب میں اپنی مرضی کرنا چاہتا تھا ‪ .‬ایسا نہی تھا کے میں نے مزہ نہی لیا تھا مگر اب میں اپنی مرضی سے سب کچھ‬
‫‪ .‬کرنا چاہتا تھا‬
‫‪ .‬فرزانہ باجی نے اب تک مجھ سے سکس کیا تھا مگر اس دفعہ میں اپنی مرضی سے انکے جسم سے کھیلنا چاہتا تھا‬
‫میں تو فرزانہ باجی کا شکار تھا مگر میرا اصل جوڑ تو ریحانہ باجی تھی ‪ .‬جنھیں سوچ سوچ کے میں نے کافی دن مٹھ مارتا‬
‫‪ .‬رہا تھا ‪ .‬وہ میرے لئے ابھی تک ایک بند کتاب ہی تھیں‬
‫یہی سوچتے سوچتے میرے ذہن میں خیال آیا کے اگر فرزانہ باجی میری مدد کریں تو میں ریحانہ باجی کی پھدی مار سکتا‬
‫‪ .‬ہوں‬
‫‪ .‬میں نے سوچا کے اس معاملے میں فرزانہ باجی سے مدد لیتے ہیں اور ان کے کمرے کی طرف چل پڑا‬
‫اوپر پہنچا تو ریحانہ باجی کے کمرے سے کچھ آوازیں سنائی دیں‪ .‬میں ابھی دروازے پہ دستک دینے ہی واال تھا کے فرزانہ‬
‫‪ .‬باجی نے دروازہ کھوال اور مجھے سامنے دیکھ کے ایک لمحے کو حیران رہ گئیں‬
‫پھر مجھ سے پوچھا تم یہاں کیا کر رہے ہو ؟‬
‫‪ .‬میں نے جواب دیا آپکو ڈھونڈ رہا تھا‬
‫بولیں کیوں ؟ رات دل نہی بھرا کیا ؟‬
‫‪ .‬میں ان سے ایسے سوال کی امید نہی کر رہا تھا مگر ان کا سوال سن کر میرے ہونٹوں پہ مسکراہٹ دوڑ گئی‬
‫‪ .‬آپ جیسی حسین اور خوبصورت لڑکی سے کس کا فر کا دل بھر سکتا ہے فرزانہ باجی‬
‫انکے سوال کی طرح میرا جواب بھی فرزانہ باجی کے لئے حیران کن تھا ‪ .‬کل تک ایک ڈرا اور سہما کزن ہی دیکھا تھا‬
‫‪ .‬انھوں نے‬
‫‪ .‬فرزانہ باجی نے راستہ دیتے ہووے کہا اندر آجاؤ‬
‫‪ .‬میں کمرے میں داخل ہو گیا ‪ .‬واش روم سے پانی گرنے کی آواز بتا رہی تھی کے ریحانہ باجی نہا رہی ہیں‬
‫‪ .‬میں اندر داخل ہو کے بیڈ پر بیٹھ گیا ‪ .‬فرزانہ باجی نے کمرہ بند کر لیا‬
‫تو کیا فرما رہے تھے جناب ؟‬
‫میں یہ اعتراف کر رہا تھا فرزانہ باجی کے آپ میری زندگی میں آنے والی پہلی لڑکی ہیں ‪ .‬اور چاہوں بھی تو ساری عمر‬
‫‪ .‬آپکو بھال نہی پاؤں گا‬
‫‪ .‬تعریف لڑکیوں کی سب سے بڑی کمزوری ہوتی ہے ‪ .‬یہ بات سنی تو تھی مگر اسکا یقین اسی دن ہوا‬
‫‪ .‬فرزانہ باجی میری بات سے کھل اٹھیں‬
‫‪ .‬اچھا تو بتاؤ کیا اچھا لگا مجھ میں تمہیں‬
‫‪ .‬میں نے سامنے کھڑی فرزانہ باجی کا ہاتھ پکڑا اور انھیں اپنے اوپر کھنچ لیا‬
‫‪ .‬میں بیڈ پر ٹیک لگا کر بیٹھا تھا اور فرزانہ باجی آدھی میرے اوپر اور آدھی نیچے تھیں‬
‫‪ .‬فرزانہ باجی کو مجھ سے اس بے تکلفی کی امید نہی تھی‬
‫‪ .‬میں نے فورا ّ اپنے ہونٹ انکے ہونٹوں سے جوڑ دیے‬
‫فرزانہ باجی حیرانگی کی کیفیت سے باہر آئیں تو انھوں نے اپنی زبان میرے منہ میں ڈال دی‪ .‬اب میں انکی زبان چوس رہا‬
‫‪ .‬تھا‬
‫‪ .‬اسی طرح تھوڑی دیر بعد میں نے اپنی زبان انکے منہ میں ڈال دی‬
‫‪ .‬میرے ہاتھ فرزانہ باجی کی کمر پر رینگ رہے تھے ‪ .‬پھر آہستہ آہستہ میں نے انکے کولہوں کو دبانا شروع کر دیا‬
‫‪ .‬واہ کیا نرم نرم گانڈ تھی‬
‫‪ .‬مجھ سے صبر نہ ہوا اور میں نے ہاتھ انکی شلوار میں ڈال دیا‬
‫‪ .‬میں میرا ہاتھ انکی گانڈ کو ہر زاویہ سے محسوس کر رہا تھا‬
‫جب میرا ہاتھ انکے کولہوں کے درمیان کی لکیر سے ہوتا ہوا انکی گانڈ کی اندرونی سطح تک پہنچا تو انکے منہ سے آہ کی‬
‫‪ .‬آواز نکلی‬
‫‪ .‬جس سے صاف ظاہر تھا کے انھیں بہت مزہ آیا ہے‬
‫‪ .‬میں نے مزید پیش قدمی کی اور اپنی انگلی انکی گانڈ کے سوراخ پر پھیرنی شروع کر دی‬
‫‪.‬اس دفعہ فرزانہ باجی کی آہ کافی اونچی تھی ‪ .‬ریحانہ باجی نے شاید انکی آواز سن لی تھی‬
‫! انھوں نے اندر سے ہی آواز لگائی کیا ہوا باجی‬
‫‪ .‬اور ساتھ ہی باہر نکل آئیں‬
‫‪ .‬باہر نکل کر جو منظر انھوں نے دیکھا اور جو منظر میں نے دیکھا وہ ہم دونوں کے لئے حیران کن تھے‬
‫‪ .‬ریحانہ باجی کا سکسی بدن جس سے قطرے ٹپک رہے تھے‬
‫‪ .‬وہ جلدی میں تولیہ النا بھی بھول گئیں تھیں ‪ .‬انھیں یہ اندازہ ہی نہ تھا کے کمرے میں میں بھی ہو سکتا تھا‬
‫‪ .‬ریحانہ باجی کی پھدی جس پر کوئی بال نہی تھا اور انکے چونتیس کے ممے میرا دماغ ماؤف کرنے کے لئے یہی بہت تھا‬
‫‪ .‬ہم دونوں ایک دوسرے کو ٹک گھور رہے تھے‬
‫‪ .‬پھر ایک دم ریحانہ باجی اندر گھس گئیں ‪ .‬فرزانہ باجی نے میرے کان میں سرگوشی کی‬
‫‪ .‬اچھی لگتی ہے نہ تمہیں یہ‬
‫میں نے کہا ‪ ،‬جی ! بہت اچھی لگتیں ہیں ‪ .‬فرزانہ باجی کیا آپ میرے مدد کریں گیں ریحانہ باجی کو سکس کی طرف النے‬
‫‪ .‬میں‬
‫‪ .‬فرزانہ باجی نے فورا ّ کہا ‪ .‬سوچوں گی‬
‫‪ .‬میں نے فورا ّ فرزانہ باجی سے کہا ‪ ،‬میری پیاری باجی میں آپکو بہت خوش کرونگا اگر آپ میرا یہ کم کر دیں تو‬
‫‪ .‬ریحانہ باجی تولیہ لپیٹ کر باہر آ گئیں‬
‫‪ .‬تو فرزانہ باجی نے کہا تم تو ایسے اندر گئیں تھیں جیسے اس نے تمہیں ننگا دیکھا ہی نہ ہو‬
‫‪ .‬نہیں بس میں تو ایسے ہی چلی گئی تھی ‪ .‬تولیہ لینے ! ریحانہ باجی نے کہا‬
‫‪ .‬میں نے فورا ّ ریحانہ باجی کو کہا‬
‫! آپ بہت اچھی لگ رہی ہیں ریحانہ باجی‬
‫‪ .‬ریحانہ باجی کے چہرے پر شرم کے بادل منڈال رہے تھے‬
‫‪ .‬فرزانہ باجی نے بھی کہا‪ .‬آجاؤ یہ مرا جا رہا ہے تمہاری وجہ سے‬
‫‪ .‬نہی میں ابھی نہا کے آئی ہوں ‪ .‬آپ لوگ جاری رکھیں‬
‫‪ .‬فرزانہ باجی نے کہا تمہاری مرضی‬
‫‪ .‬ہم دونوں ایک بار پھر کس کرنے لگے‬
‫‪ .‬اس دفعہ میں نے فرزانہ باجی کی شرٹ اتارنے میں دیر نہی لگائی‬
‫‪ .‬تھوڑی دیر بعد میں فرزانہ باجی کے اوپر تھا ‪ .‬اب میں نے فرزانہ باجی کی گردن پہ کس کرنا شروع کر دی تھی‬
‫‪ .‬انکے سسکنے کی آوازیں کمرے میں گونجنے لگی‬
‫‪ .‬ریحانہ باجی اپنے بال سکھا نے میں مصروف تھیں‬
‫‪ .‬وہ سامنے لگے آئنے میں ہمیں دیکھ رہیں تھیں ‪ .‬انھوں نے کپڑے پہننے میں کوئی جلدی نہی کی تھی‬
‫‪ .‬میں وقفے وقفے سے چور آنکھوں سے ریحانہ باجی کو دیکھ رہا تھا‬
‫‪ .‬فرزانہ باجی بیڈ پہ الٹا لیٹ گئیں تھیں‬
‫اب میں انکی کمرے کے ایک ایک انچ کو چوم رہا تھا ‪.‬پھر میں نے فرزانہ باجی کی گردن پہ ہلکا ہلکا کا ٹنا شروع کر دیا‬
‫‪ .‬تھا‬
‫انھوں نے سسکتی ہوئی آواز میں مجھے کہا‬
‫! آہ ! کیا مار ڈالو گے آج‬
‫‪ .‬میں نے جواب دیا فرزانہ باجی ابھی تو کھیل شروع ہوا ہے‬
‫‪ .‬میں نے انکی برا کا ہک کھوال اور انکی کمر کے ایک ایک انچ کو اپنی زبان سے گیال کرنا شروع کر دیا‬
‫‪ .‬میں فرزانہ باجی کے کولہوں تک پوھنچا چکا تھا‬
‫‪ .‬میں انکی شلوار کو آرام سے انکے گھٹنوں تک سرکا دیا‬
‫‪ .‬اب میرے سامنے فرزانہ باجی کی شاندار گانڈ موجود تھی‬
‫‪ .‬میں نے فورا ّ انکی گانڈ کو چومنا شروع کر دیا‬
‫‪.‬فرزانہ باجی خوب مچل رہیں تھیں ‪ .‬اور میری زبان کے آگے کوئی لگام نہ تھی‬
‫میں کبھی چوم رہا تھا اور کبھی کاٹ رہا تھا ‪ .‬پھر میں نے نیچے کی طرف حرکت کی اور چومتے چومتے انکی رانوں کے‬
‫‪ .‬درمیان پہنچ چکا تھا‬
‫‪ .‬فرزانہ باجی نے تکیوں کو دبوچ لیا تھا اور اپنی سسکیوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرنے لگیں‬
‫میں نے چور نظروں سے دیکھا تو ریحانہ باجی کا کنگھا کرتا ہوا ہاتھ روک چکا تھا اور وہ شیشہ میں سے فرزانہ باجی کو‬
‫‪ .‬دیکھ رہیں تھیں ‪ .‬اور اپنے ہونٹ کاٹ رہیں تھیں‬
‫‪ .‬میں نے فرزانہ باجی کے نچلے حصے کے ایک ایک انچ کو چوم چکا تھا‬
‫‪ .‬میں آج فرزانہ باجی کو ایسے پیار کرنا چاہتا تھا کہ ریحانہ باجی دیکھ کر خود کو چدوا نے کے لئے خود پیش کر دیں‬
‫‪ .‬میں نے فرزانہ باجی کو سیدھا کر دیا اور اسی طرح انکی ٹانگوں کو چومتا ہوا اوپر کی طرف آنے لگا‬
‫‪ .‬آخر کار میں نے فرزانہ باجی کی پھدی تک پہنچ گیا‬
‫‪ .‬میں نے دیوانہ وار انکی پھدی کو چوسنا شروع کر دیا‬
‫‪ .‬فرزانہ باجی مزے سے چیخ رہیں تھیں ‪ .‬اور میں انکی چیخوں کی پرواہ کیا بغیر اپنی زبان انکی چو ت میں گھما رہا تھا‬
‫‪ .‬فرزانہ باجی اپنی گانڈ اٹھا اٹھا کے میرا ساتھ دے رہیں تھیں‬
‫‪ .‬تھوڑی دیر بعد فرزانہ باجی کا جسم جھٹکے کھانے لگا‬
‫‪ .‬اور اچانک میرے منہ میں منی کا سیالب آ گیا ‪ .‬جسے میں سکون سے پی گیا‪ .‬فرزانہ باجی یک دم پر سکون ہو گئیں‬
‫‪ .‬مگر انکا سانس ابھی تک بحال نہی ہوا تھا ‪ .‬لگتا تھا جیسے وہ دور سے دوڑ کے آئیں ہوں‬
‫‪ .‬میں نے جب سر اوپر اٹھایا تو ریحانہ باجی کی طرف دیکھا تو میرے ہونٹوں پہ مسکراہٹ دوڑ گئی‬
‫ریحانہ باجی کا تولیہ ایک طرف پڑا تھا اور وہ اپنی پھدی میں انگلی کر رہیں تھیں ‪ .‬جبکے دوسرے ہاتھ سے وہ اپنی چھاتی‬
‫‪ .‬کو دبوچ رہی تھیں‬
‫‪ .‬فرزانہ باجی نے میری نظروں کے تعاقب میں دیکھا تو انکے چہرے پہ بھی مسکراہٹ آ گئی‬
‫ریحانہ باجی ہم دونوں کی مسکراہٹ کو نہ دیکھ پائیں ‪ .‬کیوں کے وہ یہ سب آنکھیں بند کر کے کر رہیں تھیں‬
‫انکے قریب جا کے میں نے انھیں اپنے بازؤں میں اٹھا لیا ‪ .‬انھیں شاید اسکی امید نہ تھی ‪ .‬وہ مچلنے لگیں ‪ .‬پھر انھیں احساس‬
‫‪ .‬ہوا کے وہ میرے بازوں میں ہیں‬
‫وہ مجھے عجیب نظروں سے دیکھنے لگیں ‪ .‬میں نے انھیں اٹھا کے بیڈ پر لٹا دیا‪ .‬پھر انکی ٹانگوں کے درمیان بیٹھ گیا ‪.‬‬
‫‪ .‬انکی پھدی بہت گیلی تھی‬
‫جسے میں نے چاٹ چاٹ کے صاف کیا اور اپنی زبان سے انھیں بھی چودنے لگا ‪ .‬اب سسکیاں لینے کی باری ریحانہ باجی‬
‫‪ .‬کی تھی‬
‫‪ .‬مجھے پتا ہی نہ چال کب فرزانہ باجی میرے پیچھے آ گئیں ‪ .‬انھوں نے میری گانڈ کو بے تحاشا چومنا شروع کر دیا‬
‫اب ریحانہ باجی لیٹی ہوئی تھیں اور میں انکی ٹانگوں میں بیٹھا انکی پھدی چوس رہا تھا اور فرزانہ باجی میرے پیچھے میری‬
‫‪ .‬گانڈ کو چوم رہی تھیں‬
‫‪ .‬پھر وہ اسی طرح میرے ٹٹوں تک پہنچ گئیں‬
‫‪ .‬فرزانہ باجی میری ٹانگوں کے درمیان لیٹ گئیں ‪ .‬اور میرے ٹٹوں کو چوسنے لگیں میں اس وقت مزے کی انتہا پہ تھا‬
‫‪ .‬میرا لنڈ لوہے کی طرح سخت ہو چکا تھا‬
‫‪ .‬ریحانہ باجی نے اپنی ٹانگیں میرے سر کے گرد لپیٹ رکھیں تھیں ‪ .‬اور مزے کی شدت سے انکا دباؤ بڑھتا جا رہا تھا‬
‫اور پھر اچانک انھوں نے اپنی گانڈ کو ہوا میں اٹھایا اور کافی زور سے جھٹکے لے کے اپنی منی میرے منہ میں چھوڑ دی ‪.‬‬
‫‪ .‬میری دونوں کزن اپنی منی چھوڑ چکیں تھیں‬
‫مگر میں ابھی تک پیا سا تھا ‪ .‬دل کیا کے ابھی ریحانہ باجی کی پھدی میں اپنا لنڈ اتار دوں ‪ .‬ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کے‬
‫‪ .‬فرزانہ باجی نے کہا‬
‫‪ .‬ادھر آجاؤ زاہد ‪ .‬آج جی بھر کے چودو مجھے‬

You might also like