You are on page 1of 4

‫سائل‪ -:‬محمد بشیر‬

‫شیخ موسی خیل ‪ ،‬عیسی خیل میانوالی‬


‫سوال ‪-:01‬‬
‫کیا مسجد کے فنڈ سے محفل میالد اور مولوی صاحبان کے کھانے پہ خرچ کیا جا سکتا ہے؟‬
‫ِبْس ِم ِہللا الَّرْح ٰم ِن الَّرِح ْیِم‬
‫ّٰل‬
‫َاْلَج َو اُب ِبَعْو ِن اْلَم ِلِک اْلَو َّھاِب َال ُھَّم ِھَداَیَۃ ا َح ِّق َو الَّص َو اِب‬
‫ْل‬
‫جواب‪-:‬مسجد کے چندے سے محفل میالداور مولوی صاحبان پہ خرچ کرنے کے حوالے س ے حکم ش رع یہ ہے کہ اگ ر‬
‫چندہ مسجد کے لیے جمع کیا گیا تو اس سے محفل میالد اور مولوی صاحبان پ ر خ رچ کرن ا ج ائز نہیں کی ونکہ مس جد ک ا‬
‫چندہ مسجد کے مصالح (جیسے تعمیرات‪،‬یوٹیلٹی بلز کی ادائیگی ‪،‬امام و مؤذن ‪،‬خادمین کے وظائف اور ص فائی س تھرائی‬
‫میں ہونے والے اخراجات وغیرہ) کے لیے دیا جاتا ہے اسے کہیں اور صرف کرنا جائز نہیں ہاں اگ ر خ اص محف ل میالد‬
‫کے لیے چندہ اکٹھا کیا گیا تو اس سے محفل کے اخراجات کرنے میں حرج نہیں ۔‬
‫مسجد کا چندہ مسجد کے مصارف معہودہ یعنی عمومی اخراجات جو مسجد میں کیے جاتے ہیں ‪،‬ان کے لیے دیا جات ا‬
‫ہے مثًال‪ :‬تعم یرات‪،‬یوٹیل ٹی بل ز کی ادائیگی ‪،‬ام ام و م ؤذن ‪،‬خ ادمین کے وظ ائف اور ص فائی س تھرائی میں ہ ونے والے‬
‫اخراجات وغیرہ۔اسی چندے سے محفل میالد یا کسی اوردینی محفل کیلئے مسجد میں چراغ اں ک رنے کے ب ارے میں بھی‬
‫یہی حکم ہےکہ اگر چندہ دینے والوں کی َص راحۃً یا َداللًۃ اجازت ہو ‪ ،‬تو کرسکتے ہیں ورنہ نہیں ۔َص راحت س ے م راد یہ‬
‫ہے کہ مسِج د کے لیے چندہ لیتے وقت کہہ دیا کہ ہم آپ کے چندے سے جشِن والدت اور دیگر مب ارک رات وں کے مواق ع‬
‫پرمسِج د میں روشنی بھی کریں گے اور ُاس نے اج ازت دے دی اور داللت یہ ہے کہ چن دہ دی نے والے ک و معل وم ہے کہ‬
‫ِاس مسِج د پر جشِن والدت اور دیگر بڑی راتوں کے مواِقع پر اور رمضان المبارک کی بڑی راتوں میں َچ راغ اں ہوت ا ہے‬
‫اور ُاس میں مسِج د ہی کا چندہ اسِتعمال کیا جات ا ہے۔اور س ب س ے بہ تر ص ورت یہ ہے کہ اب ال گ سےمس جد میں ربی ع‬
‫االول کے ساتھ ساتھ مختلف مواقع پرمحفل کرنے یا چراغاں کرنے کے لیے الئٹیں خریدنے کاچندہ کر لیں ‪،‬یا کسی مخیر‬
‫سے کہیں وہ یہ الئٹیں لے کر مسجد کو دے دے ۔‬
‫صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ سے فتاوی امجدیہ میں سوال ہوا کہ ’’اگر ک وئی ش خص ب ڑی‬
‫رقم یا مکان وغیرہ یا چند لوگ چندہ کر کے ایک معقول رقم مسجد میں اس غرض س ے دیں کہ اس رقم س ے ختِم ت راویح‬
‫کے موقع پر اور ربیع االول میں بعد وعظ شیرینی تقسیم کی جاوے اور واعظ صاحب کو اور تراویح خواں حاف ظ ص احب‬
‫کو کچھ رقم اس میں دی جائے اور رمضان المبارک کی ستائیسویں شب اور شب عیدین وغ یرہ مب ارک رات وں میں خ وب‬
‫روشنی کی جائے‪،‬تو شرعا یہ امور مذکورہ رقم سے کرنا درست ہے یا نہیں ؟“‬
‫آپ نے جواب ارشاد فرمایا‪”:‬یہ امور مذکورہ جائز ہیں ‪ ،‬واعظ یا حافظ کی خدمت ایک پسندیدہ امر ہے ‪ ،‬یونہی بعد ختم‬
‫تراویح یا بعد میالد شریف شیرینی کا تقسیم کرنا بھی جائز ۔ مبارک راتوں میں جہ اں ک ثرت روش نی ک ا رواج ہے ‪،‬ت و اس‬
‫میں بھی کوئی قباحت نہیں کہ اس سے مقصود اظہار شوکت اسالم ہے اور ع وام کے ذہن وں میں ان رات وں کی عظمت ک ا‬
‫متمکن کرناہے ۔ جس طرح حرمین طیبین کی دونوں مسجدوں میں بکثرت روشنی ہوتی ہے اور فقہا بھی اسے جائز بتاتے‬
‫ہیں اور یہ فرماتے ہیں کہ اگر کہیں دوسری جگہ بھی عادت ہو جائے ‪،‬تو ج واز ک ا حکم ہ و گ ا ‪ ،‬ی وں ہی اگ ر دی نے واال‬
‫رات بھر مسجد میں چ راغ جالنے کے ل یے رقم دے ‪،‬ت و رات بھ ر جالئیں گے ‪ ،‬وقت ض رورت ت ک ہی نہ رکھیں گے ۔‬
‫عالمگیری میں ہے ‪”:‬وال يجوز أن يترك فيه كل الليل إال فی موضع جرت العادة فيه بذلك كمسجد بيت المق دس ومس جد الن بي‬
‫صلى ہللا عليه وسلم والمسجد الح رام أو ش رط الواق ف ترك ه فيه ك ل الليل كم ا ج رت الع ادة ب ه فی زمانن ا ‪ ،‬ك ذا في البح ر‬
‫الرائق‪،‬جن لوگوں نے رقوم یا مکان وغیرہ اس لیے دئیے کہ امور م ذکورہ میں ص رف ہ وں ‪،‬ت و ان کی رائے کے مواف ق‬
‫صرف کریں ‪ ،‬ان کے عالوہ دوسرے امور میں وہ رقم صرف نہیں کی جاسکتی ۔ “‬
‫(فتاوی امجدیہ ‪ ،‬جلد‪ ،3‬صفحہ ‪ ،122-120‬مکتبہ رضویہ ‪ ،‬کراچی )‬
‫ایک اور مقام پر لکھتے ہیں‪’’:‬جب عطیہ و چندہ پر آمدنی کا دارومدار ہے تو دی نے والے جس مقص د کے ل یے چن دہ‬
‫دیں یا کوئی اہل خیر جس مقصد کے متعلق اپنی جائیداد وقف کرے اسی مقصد میں وہ رقم ی ا آم دنی ص رف کی جاس کتی‬
‫ہے ‪ ،‬دوسرے میں صرف کرنا ‪،‬جائز نہیں مثال اگر مدرسہ کے لیے ہو‪ ،‬تو مدرسہ پ ر ص ر ف کی ج ائے اور مس جد کے‬
‫لیے ہو‪ ،‬تو مسجد پ ر اور قبرس تان کی ح د بن دی کے ل یے ہ و ت و اس پ ر ‪ ،‬اور اگ ر دی نے والے نے اس ک ا ص رف کرن ا‬
‫متولیوں کی رائے پر رکھا ہو تو یہ اپنی رائے سے جس میں مناسب سمجھیں ‪ ،‬صرف کر سکتے ہیں ۔“‬
‫(فتاوی امجدیہ ‪ ،‬جلد‪ ،3‬صفحہ ‪ ،42‬مکتبہ رضویہ ‪ ،‬کراچی )‬
‫وقار الفتاوی میں سوال ہوا ”مسجد کی انتظامیہ نے الیکٹرک ڈیکوریشن کا سامان تی ار کروای ا ج و کہ جھ الریں اور دیگ ر‬
‫اشیاء کی صورت میں ہے ‪ ،‬ڈیکوریشن کا یہ سامان تیار کرتے وقت نیت یہ تھی کہ یہ اشیاء مسجد کے لیے متبرک راتوں‬
‫میں کام آئیں گی اور اس کے عالوہ مسجد کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے بطور کرایہ جائز ک اموں کے ل یے‪ ،‬مثال‬
‫جلسہ ہائے عید میالد النبی صلی ہللا علیہ وسلم میں دی جائیں گی ‪ ،‬آیا مسجد کی یہ جھالریں اور بورڈ وغیرہ ج و کچھ بھی‬
‫ہیں کرائے پر دینا جائز ہیں یا نہیں ؟“‬
‫جواب ارشاد فرمایا‪”:‬جن لوگوں نے مسجد کے مصارف کے لیے چندہ دیا تھا ‪،‬اس فن ڈ س ے یہ تم ام چ یزیں خری دنا‪،‬ج ائز‬
‫نہیں تھیں ‪ ،‬خاص ان چیزوں کے لیے لوگوں سے چن دہ لے ک ر اگ ر خری دی ج ائیں‪ ،‬ت و س وال م ذکور میں یہ تم ام ام ور‬
‫درست ہوتے۔‬
‫(وقار الفتاوی ‪ ،‬جلد‪ ،2‬صفحہ ‪ ،327‬بزم وقار الدین ‪ ،‬کراچی)‬
‫سوال ‪02‬۔مسجد کا مکان جس پر ایک شخص قابض ہے ہمارے پاس دستاویزی ثبوت نہ ہے لیکن اشٹام ک‪LL‬رایہ داری ج‪LL‬و‬
‫لکھا گیا تھا تین چار گواہ موجود ہیں جنہوں نے اشٹام پڑھا تھا سابقہ انتظامیہ کسی وجہ سے کرایہ وصول نہ کر سکے‬
‫‪ ،‬اب موجودہ انتظامیہ بری الزمہ ہے یا کرایہ دار سے کرایہ وصول کرنے کی ذمہ دار ہے؟‬

‫جواب‪ -:‬ازروئے شرع جب کوئی زمین یا جگہ كسى خاص مصرف كے ل يے وق ف كى ج ائے ت و واق ف کی ج انب س ے‬
‫وقف کرتے ہی وقف تام ہوجاتاہے‪،‬اور وقف تام ہونے کے بع دموقوفہ جگہ قی امت ت ک کے ل یے واق ف کی ملکیت س ے‬
‫نکل کر ہللا تعالٰی کی ملکیت میں داخل ہوجاتی ہے‪ ،‬بع دازاں اس موق وفہ جگہ ک و نہ خری دو ف روخت کرن ا ج ائز ہے ‪،‬نہ‬
‫کسی کو مالک بنانا جائز ہےاور نہ ہی اس میں وراثت جاری ہ وتی ہے‪،‬بلکہ واق ف نے وہ جگہ جس جہت اور مقص د کے‬
‫لیے وقف کی ہو ‪،‬اسی مقصد کے لیے استعمال کرنا ضروری ہوتا ہے‪ -‬سابقہ انتظ امیہ مم بران نے مس جد کےل یے وق ف‬
‫مذکورہ مکانات و دکانوں کے حوالہ سے پگڑی کے جو غیرشرعی کام کیے ہیں‪،‬ان کی پاسداری کرن ا اور ان ک و ج اری‬
‫رکھنا شرعًا جائز نہیں ہے‪ ،‬فریقین پر الزم ہے کہ وہ فی الفور ِان معاہدوں کو ختم ک ردیں‪،‬اور ش ریعت کے احکام ات کے‬
‫مطابق اپنے معامالت کریں‪،‬کرایہ داروں سے کرایہ وصول کریں اور ع دم ادائیگی کی ص ورت میں ق انونی چ ارہ ج وئی‬
‫کریں کیوں کہ کسی غیرشرعی معاملہ پر رضامند رہتے ہوئےطاقت رکھتے ہوئے بھی خاموش رہن ا اس ے برق رار رکھن ا‬
‫ہے جو کہ ناجائزو ممنوع ہے‪،‬یہ رضابالعصیۃ کے زمرے میں آت ا ہے۔لہ ذا مس جد کے مک انوں ک ا ک رایہ وص ول ک رنے‬
‫کیلئے پوری کوشش کرنا موجودہ مسجد انتظامیہ کی ذمہ داری ہے‬
‫روح المعانی میں ہے‪:‬‬
‫يا أيها الذين آمنوا ال تأكلوا‌أموالكم‌بينكم‌بالباطل بيان لبعض المحرمات المتعلقة باألموال واألنفس إثر بيان تحريم النساء على غ ير الوج وه المش روعة‪ ،‬وفيه إش ارة إلى‬

‫كمال العناية بالحكم المذكور‪ ،‬والمراد من األكل سائر التصرفات‪ ،‬وعبر به ألنه معظم المنافع‪ ،‬والمعنى ال يأكل بعضكم أموال بعض‪،‬والم راد بالباط ل م ا يخ الف الش رع‬

‫كالربا والقمار والبخس والظلم‪".‬‬

‫(سورة النساء‪ ،‬ج‪ ،3:‬ص‪ ،16:‬ط‪:‬دارالكتب العلميہ)‬

‫سوال ‪ -:03‬اگر صدر منتظمہ کمیٹی خزانچی کو کہے کہ مسجد فنڈ سے محفل پر رقم خرچ کرے تو اس ک‪L‬ا حکم م‪L‬ان لین‪L‬ا‬
‫چاہیے یا غیر شرعی کام سے انکار کر دے ‪ ،‬خزانچی کی کیا ذمہ داری ہے؟‬
‫جواب‪ -:‬صورت مسؤلہ میں صدرمنتظمہ کمیٹی کا رویہ عدل وانصاف اور شرعی تقاضوں کے منافی ہے‪،‬شرعی طور پہ‬
‫خزانچی کا اس کے حکم کو نہ ماننا واجب ہےاور ایسے غیر شرعی کام سے امکار کرن ا ض روری ہے رس ول اﷲ ص لی‬
‫ہللا علیہ وسلم نے فرمایا‪’’ :‬جس کام میں اﷲ تعالٰی کی نافرمانی ہو‪ ،‬اس کی بج آاوری کے ل یے کس ی کی ب ات ک و نہ مان ا‬
‫جائے بلکہ اس کا انکار کر دیا جائے۔( صحیح بخاری‪ ،‬کتاب االحکام‪7144:‬۔)‬
‫سوال ‪-:04‬مسجد کے فنڈ سے رقم مسجد کے کواٹروں پہ خرچ کی جا سکتی ہے؟‬
‫جواب‪ -:‬واضح رہے کہ جوچندہ مسجد کے کسی خاص مدمیں خرچ کرنے کے لئے مختص کرکے دیاگیا ہ و اس کوت و اس‬
‫مد کے سوا کہیں خرچ کرنا جائز نہیں ۔البتہ عمومی چندہ کو مسجد کے تم ام مص ارف میں خ رچ کی ا جاس کتا ہے۔ مس جد‬
‫کے لیے جو لوگ پیسہ دیتے ہیں ان کا مقصد مسجد کی ضروریات کی تکمی ل ہ وتی ہے اور مس جد کے ک وارٹرز بھی‬
‫فنائے مسجد میں داخل ہیں‪ ،‬لہذا مسجد کےکوارٹرز پر ضرورت کے مطابق مسجد فن ڈز س ے خ رچ کرن ا ج ائز ہے لیکن‬
‫بہتر یہی ہے کہ مسجد کوارٹرز سے جو کرایہ آ رہا ہے اس کا علیحدہ فنڈ قائم کر کے انہیں میں سے کوارٹرز پہ خرچ کیا‬
‫جائے‬
‫رد المحتار میں ہے‪:‬‬

‫(إن يحصون جاز) هذا الشرط مبني على ما ذكره شمس األئمة من الضابط وهو أنه إذا ذكر للوقف مصرفا ال بد أن يكون فيهم تنصيص على الحاجة حقيقة‪".‬‬ ‫قوله‪:‬‬
‫(رد المحتار على الدر المختار‪ ،‬كتاب الوقف‪)،365/4 ،‬‬
‫الفتاوى الهنديہ میں ہے‪:‬‬
‫"واألصح ما قال اإلمام ظهير الدين‪:‬إن الوقفعلى عمارة المسجد وعلى مصالح المسجد سواء‪ ،‬كذا في فتح القدير‪".‬‬

‫( کتاب الوقف ‪،‬الباب الحادي عشر في المسجد وما يتعلق به‪،‬الفصل الثاني ‪ ،462/2 ، ...‬رشيدية)‬
‫سوال ‪ -:05‬کیا مسجد فنڈ سے امام کو قرض دیا جا سکتا ہے؟‬
‫جواب‪ -:‬مسجد کی آمدنی متولی کے پاس امانت ہوتی ہے جن مقاصد کے لئے آمدنی جمع ہ وتی ہے انہیں میں اس تعمال کی‬
‫جائے۔ امام صاحب کو قرض دینا اس سے علیحدہ ہے لٰہ ذا متولی کو اس ب ات ک ا اختی ار نہیں۔ام ام احم د رض اقادرؒی ای ک‬
‫سوال کے جواب میں لکھتے ہیں‪ ’’:‬وق ف جس غ رض کے ل یے ہے ‪ُ،‬اس کی ٓام دنی اگ رچہ اس کے ص رف س ے فاض ل‬
‫ہو‪،‬دوسری غرض میں َص رف کرنی حرام ہے۔ وقِف مسجد کی ٓامدنی مدرسہ میں صرف ہونی تو درکن ار‪ ،‬دوس ری مس جد‬
‫میں بھی صرف نہیں ہوسکتی‪ ،‬نہ ایک مدرسہ کی ٓامدنی مسجد یا دوس رے مدرس ہ میں ‪،‬درمخت ار میں ہے‪ :‬ت رجمہ‪’’:‬جب‬
‫واقف ایک ہو اور جہِت وقف بھی ای ک ہ و اور ٓام دن کی تقس یم بعض موق وف علیہ حض رات پ ر کم پڑج ائے توح اکم ک و‬
‫اختیار ہے کہ وہ دوسرے فاضل وقف سے ان پر خرچ کردے‪ ،‬کیونکہ یہ دونوں وقف ای ک جیس ے ہیں اور اگ ر واق ف ی ا‬
‫ِج ہِت وقف دونوں کی مختلف ہو مثًال ‪:‬دو حض رات نے علیح دہ علیح دہ مس جد بن ائی ی ا ای ک نے مس جد اور دوس رے نے‬
‫مدرسہ بنایا اور ہر ایک نے ان کے لیے علیحدہ وقف مقررکیے‪ ،‬تو پھر ای ک کی ٓام دن س ے دوس رے کے مص ارف کے‬
‫لیے خرچ کرنا جائز نہیں‘‘۔چندےکا جو روپیہ کام ختم ہ وکر بچے‪ ،‬الزم ہے کہ چن دہ دی نے وال وں ک و حص ٔہ رس د واپس‬
‫دیاجائے یا وہ جس کام کے لیے اب اجازت دیں‪ ،‬اس میں صرف ہو۔ان کی اجازت کے بغیرص رف کرن ا ح را م ہے‪ ،‬ہ اں!‬
‫جب ان کا پتانہ چل سکے تواب یہ چاہیے کہ جس طرح کے کام کے لیے چندہ لی ا تھ ا ‪،‬اس ی ط رح کے دوس رے ک ام میں‬
‫اٹھائیں‪ ،‬مثًال تعمیِر مسجد کا چندہ تھا ‪،‬مسجد تعمیر ہوچکی تو ب اقی بھی کس ی مس جد کی تعم یر میں اٹھ ائیں۔غ یر ک ام مثًال‬
‫تعمیِر مدرسہ میں صرف نہ کریں اور اگر اس طرح ک ا دوس را ک ام نہ پ ائیں ت ووہ ب اقی روپیہ فق یروں ک و تقس یم ک ردیں‪،‬‬
‫درمختار میں ہے‪ ( :‬کفن کے چندے سے کچھ بچ جائے تو یہ چندہ دینے واال معلوم ہو ت و اس ے لوٹ ا دی ا ج ائے‪ ،‬ورنہ اس‬
‫سے ایسے ہی فقیر کو کفن پہنا دیا جائے ‪ ،‬یہ بھی نہ ہوسکے‪ ،‬تو کسی فقیر کو ص دقہ کردی ا ج ائے ‪ )،‬اس ی ط رح فت اوٰی‬
‫قاضی خان وعالمگیری و غیرہما میں ہے ‪(،‬فتاوٰی رضویہ ‪،‬جلد‪ ،16‬ص‪ ،206:‬رضا فأونڈیشن ‪،‬الہور)‘‘۔‬

‫عالمہ امجد علی اعظمیؒ لکھتے ہیں‪ ’’:‬عمومًا یہ چندے صدقٔہ نافلہ ہوتے ہیں‪ ،‬ان ک و وق ف نہیں کیاجاس کتا کہ وق ف کے‬

‫لیے یہ ضرور ہے کہ اصل حبس کرکے اس کے منافع کام میں صرف کیے جائیں‪ ،‬جس کے لیے وقف ہ و‪ ،‬نہ یہ کہ خ ود‬

‫اصل ہی کو خرچ کردیاجائے‪ ،‬یہ چندے جس خاص غرض کے لیے کیے گ ئے ہیں‪ ،‬اس کے غ یر میں ص رف نہیں ک یے‬

‫جاسکتے ۔ اگر وہ غرض پوری ہوچکی ہو تو جس نے دیئے ہیں اسے واپس کیے جائیں ی ا اس کی اج ازت س ے دوس رے‬

‫کام میں خرچ کریں‪ ،‬بغیر اجازت خرچ کرنا ناجائز ہے ‪( ،‬فتاوٰی امجدیہ‪ ،‬جلد سوم‪ ،‬ص‪‘‘)39 :‬۔مسجدکی انتظامیہ کے پاس‬

‫لوگوں کا چندہ امانت تھی ‪ ،‬انہیں یہ رقم امام کی تنخواہ ‪ ،‬دیکھ بھال ‪،‬پانی کے انتظام اور اس سے متعلق اش یاء کی م رمت‬

‫وغیرہ پر خرچ کرنے کی اجازت تھی ‪،‬امین کی ذمہ داری ہے کہ رقم جن مصارف کے لیے دی گ ئی ہے‪ُ ،‬انہی پ ر خ رچ‬
‫کرے۔ اس سے ہٹ کر کسی اور مصرف میں لگائیں گے یا امام یا کسی فرد ک و ق رض دیں گے ‪،‬ت ویہ ُان کی ط رف س ے‬

‫َتَع ّد ی یعنی حد سے بڑھنا ہوگا اورایسی صورت میں اگر وہ رقم ہالک ہوجائے تو انتظامیہ کے افراد ذاتی ط ورپر اس کے‬

‫ضامن ہوں گے۔‬


‫سوال ‪-:06‬مولوی صاحب کا معاہدہ ہے کہ ہر سال ‪ %10‬تنخواہ بڑھائی جائے گی‪ ،‬درمیان میں مولوی تنخواہ بڑھانے کا‬
‫مطالبہ کر سکتا ہے؟‬
‫جواب‪-:‬‬
‫جی بالکل کر سکتا ہے‪ ،‬اول تو انتظامیہ کو خود حاالت کو م دنظر رکھ تے ہ وئے ات نی تنخ واہ دی نی چ اہیے ج و ام ام کی‬
‫ضروریات کو پوری کرنے کیلئے کافی ہو‪ ،‬لیکن اگر امام یہ سمجھتا ہے کہ یہ تنخ واہ کم ہے ت و وہ مط البہ ک ر س کتا ہے‬
‫بشرطیکہ معاہدہ امامت میں یہ بات شامل نہ ہو کہ امام مسجد ساالنہ دس فیص د کے اض افی کے عالؤہ مط البہ نہیں ک رے‬
‫گا‪ ،‬اگر ایسا کچھ لکھا ہوا ہے تو امام کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے۔ ن یز ام ام کے مط البہ کی ص ورت میں بھی انتظ امیہ‬
‫مسجد تنخواہ بڑھانے کی پابند نہیں ہے بلکہ مسجد فنڈز اور دیگر معامالت و اخراجات ک و س امنے رکھ تے ہ وئے فیص لہ‬
‫کیا جائے گا‪-‬‬
‫سوال ‪ -:07‬کوئی بھی مسجد کے متعلق فیصلہ کرنے کیلئے تمام ممبران کا موجود ہونا ضروری ہے یا چند ہم خیال لوگ‬
‫بیٹھ کر فیصلہ کر سکتے ہیں؟‬
‫جواب‪-:‬‬
‫مسجد انتظامیہ کا مقصد ہی یہی ہے کہ مختلف المزاج اور متنوع آراء کے ل وگ م ل ک ر ش رعی ح دود و قی ود کی پابن دی‬
‫کرتے ہوئے ایسا فیصلہ کریں جو کہ مسجد کے مفاد میں ہو ‪ ،‬لہذا بہتر یہی ہے کہ تمام ممبران مل ک ر فیص لہ ک ریں اور‬
‫میٹنگ کا ایسا وقت اور مقام رکھا جائے جس میں سب بآسانی پہنچ سکیں لیکن اگ ر ک وئی ایس ا مع املہ درپیش ہ و جس ک ا‬
‫فیصلہ انتہائی جلدی مطلوب ہو ورنہ مسجد کو کسی قسم کا نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو پھر اکثریت کا فیص لہ بھی مان ا‬
‫جائے گا لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ اکثر کا فیصلہ چھوڑ کچھ لوگوں کا من پسند فیصلہ مانا جائے‪ ،‬بہت ح ال ایمرجنس ی کی‬
‫صورت میں اکثریتی فیصلہ قبول کیا جائے گا اس لیے کہ فقہی اصول ہے کہ اکثر کیلئے کل کا حکم ہے۔۔‬

‫ھذا ما عندی وہللا اعلم باالصواب‬


‫حفیظ ارشد ہاشمی۔۔۔۔‬

You might also like