Professional Documents
Culture Documents
FATWA
FATWA
جواب -:ازروئے شرع جب کوئی زمین یا جگہ كسى خاص مصرف كے ل يے وق ف كى ج ائے ت و واق ف کی ج انب س ے
وقف کرتے ہی وقف تام ہوجاتاہے،اور وقف تام ہونے کے بع دموقوفہ جگہ قی امت ت ک کے ل یے واق ف کی ملکیت س ے
نکل کر ہللا تعالٰی کی ملکیت میں داخل ہوجاتی ہے ،بع دازاں اس موق وفہ جگہ ک و نہ خری دو ف روخت کرن ا ج ائز ہے ،نہ
کسی کو مالک بنانا جائز ہےاور نہ ہی اس میں وراثت جاری ہ وتی ہے،بلکہ واق ف نے وہ جگہ جس جہت اور مقص د کے
لیے وقف کی ہو ،اسی مقصد کے لیے استعمال کرنا ضروری ہوتا ہے -سابقہ انتظ امیہ مم بران نے مس جد کےل یے وق ف
مذکورہ مکانات و دکانوں کے حوالہ سے پگڑی کے جو غیرشرعی کام کیے ہیں،ان کی پاسداری کرن ا اور ان ک و ج اری
رکھنا شرعًا جائز نہیں ہے ،فریقین پر الزم ہے کہ وہ فی الفور ِان معاہدوں کو ختم ک ردیں،اور ش ریعت کے احکام ات کے
مطابق اپنے معامالت کریں،کرایہ داروں سے کرایہ وصول کریں اور ع دم ادائیگی کی ص ورت میں ق انونی چ ارہ ج وئی
کریں کیوں کہ کسی غیرشرعی معاملہ پر رضامند رہتے ہوئےطاقت رکھتے ہوئے بھی خاموش رہن ا اس ے برق رار رکھن ا
ہے جو کہ ناجائزو ممنوع ہے،یہ رضابالعصیۃ کے زمرے میں آت ا ہے۔لہ ذا مس جد کے مک انوں ک ا ک رایہ وص ول ک رنے
کیلئے پوری کوشش کرنا موجودہ مسجد انتظامیہ کی ذمہ داری ہے
روح المعانی میں ہے:
يا أيها الذين آمنوا ال تأكلواأموالكمبينكمبالباطل بيان لبعض المحرمات المتعلقة باألموال واألنفس إثر بيان تحريم النساء على غ ير الوج وه المش روعة ،وفيه إش ارة إلى
كمال العناية بالحكم المذكور ،والمراد من األكل سائر التصرفات ،وعبر به ألنه معظم المنافع ،والمعنى ال يأكل بعضكم أموال بعض،والم راد بالباط ل م ا يخ الف الش رع
سوال -:03اگر صدر منتظمہ کمیٹی خزانچی کو کہے کہ مسجد فنڈ سے محفل پر رقم خرچ کرے تو اس کLا حکم مLان لینLا
چاہیے یا غیر شرعی کام سے انکار کر دے ،خزانچی کی کیا ذمہ داری ہے؟
جواب -:صورت مسؤلہ میں صدرمنتظمہ کمیٹی کا رویہ عدل وانصاف اور شرعی تقاضوں کے منافی ہے،شرعی طور پہ
خزانچی کا اس کے حکم کو نہ ماننا واجب ہےاور ایسے غیر شرعی کام سے امکار کرن ا ض روری ہے رس ول اﷲ ص لی
ہللا علیہ وسلم نے فرمایا’’ :جس کام میں اﷲ تعالٰی کی نافرمانی ہو ،اس کی بج آاوری کے ل یے کس ی کی ب ات ک و نہ مان ا
جائے بلکہ اس کا انکار کر دیا جائے۔( صحیح بخاری ،کتاب االحکام7144:۔)
سوال -:04مسجد کے فنڈ سے رقم مسجد کے کواٹروں پہ خرچ کی جا سکتی ہے؟
جواب -:واضح رہے کہ جوچندہ مسجد کے کسی خاص مدمیں خرچ کرنے کے لئے مختص کرکے دیاگیا ہ و اس کوت و اس
مد کے سوا کہیں خرچ کرنا جائز نہیں ۔البتہ عمومی چندہ کو مسجد کے تم ام مص ارف میں خ رچ کی ا جاس کتا ہے۔ مس جد
کے لیے جو لوگ پیسہ دیتے ہیں ان کا مقصد مسجد کی ضروریات کی تکمی ل ہ وتی ہے اور مس جد کے ک وارٹرز بھی
فنائے مسجد میں داخل ہیں ،لہذا مسجد کےکوارٹرز پر ضرورت کے مطابق مسجد فن ڈز س ے خ رچ کرن ا ج ائز ہے لیکن
بہتر یہی ہے کہ مسجد کوارٹرز سے جو کرایہ آ رہا ہے اس کا علیحدہ فنڈ قائم کر کے انہیں میں سے کوارٹرز پہ خرچ کیا
جائے
رد المحتار میں ہے:
(إن يحصون جاز) هذا الشرط مبني على ما ذكره شمس األئمة من الضابط وهو أنه إذا ذكر للوقف مصرفا ال بد أن يكون فيهم تنصيص على الحاجة حقيقة". قوله:
(رد المحتار على الدر المختار ،كتاب الوقف)،365/4 ،
الفتاوى الهنديہ میں ہے:
"واألصح ما قال اإلمام ظهير الدين:إن الوقفعلى عمارة المسجد وعلى مصالح المسجد سواء ،كذا في فتح القدير".
( کتاب الوقف ،الباب الحادي عشر في المسجد وما يتعلق به،الفصل الثاني ،462/2 ، ...رشيدية)
سوال -:05کیا مسجد فنڈ سے امام کو قرض دیا جا سکتا ہے؟
جواب -:مسجد کی آمدنی متولی کے پاس امانت ہوتی ہے جن مقاصد کے لئے آمدنی جمع ہ وتی ہے انہیں میں اس تعمال کی
جائے۔ امام صاحب کو قرض دینا اس سے علیحدہ ہے لٰہ ذا متولی کو اس ب ات ک ا اختی ار نہیں۔ام ام احم د رض اقادرؒی ای ک
سوال کے جواب میں لکھتے ہیں ’’:وق ف جس غ رض کے ل یے ہے ُ،اس کی ٓام دنی اگ رچہ اس کے ص رف س ے فاض ل
ہو،دوسری غرض میں َص رف کرنی حرام ہے۔ وقِف مسجد کی ٓامدنی مدرسہ میں صرف ہونی تو درکن ار ،دوس ری مس جد
میں بھی صرف نہیں ہوسکتی ،نہ ایک مدرسہ کی ٓامدنی مسجد یا دوس رے مدرس ہ میں ،درمخت ار میں ہے :ت رجمہ’’:جب
واقف ایک ہو اور جہِت وقف بھی ای ک ہ و اور ٓام دن کی تقس یم بعض موق وف علیہ حض رات پ ر کم پڑج ائے توح اکم ک و
اختیار ہے کہ وہ دوسرے فاضل وقف سے ان پر خرچ کردے ،کیونکہ یہ دونوں وقف ای ک جیس ے ہیں اور اگ ر واق ف ی ا
ِج ہِت وقف دونوں کی مختلف ہو مثًال :دو حض رات نے علیح دہ علیح دہ مس جد بن ائی ی ا ای ک نے مس جد اور دوس رے نے
مدرسہ بنایا اور ہر ایک نے ان کے لیے علیحدہ وقف مقررکیے ،تو پھر ای ک کی ٓام دن س ے دوس رے کے مص ارف کے
لیے خرچ کرنا جائز نہیں‘‘۔چندےکا جو روپیہ کام ختم ہ وکر بچے ،الزم ہے کہ چن دہ دی نے وال وں ک و حص ٔہ رس د واپس
دیاجائے یا وہ جس کام کے لیے اب اجازت دیں ،اس میں صرف ہو۔ان کی اجازت کے بغیرص رف کرن ا ح را م ہے ،ہ اں!
جب ان کا پتانہ چل سکے تواب یہ چاہیے کہ جس طرح کے کام کے لیے چندہ لی ا تھ ا ،اس ی ط رح کے دوس رے ک ام میں
اٹھائیں ،مثًال تعمیِر مسجد کا چندہ تھا ،مسجد تعمیر ہوچکی تو ب اقی بھی کس ی مس جد کی تعم یر میں اٹھ ائیں۔غ یر ک ام مثًال
تعمیِر مدرسہ میں صرف نہ کریں اور اگر اس طرح ک ا دوس را ک ام نہ پ ائیں ت ووہ ب اقی روپیہ فق یروں ک و تقس یم ک ردیں،
درمختار میں ہے ( :کفن کے چندے سے کچھ بچ جائے تو یہ چندہ دینے واال معلوم ہو ت و اس ے لوٹ ا دی ا ج ائے ،ورنہ اس
سے ایسے ہی فقیر کو کفن پہنا دیا جائے ،یہ بھی نہ ہوسکے ،تو کسی فقیر کو ص دقہ کردی ا ج ائے )،اس ی ط رح فت اوٰی
قاضی خان وعالمگیری و غیرہما میں ہے (،فتاوٰی رضویہ ،جلد ،16ص ،206:رضا فأونڈیشن ،الہور)‘‘۔
عالمہ امجد علی اعظمیؒ لکھتے ہیں ’’:عمومًا یہ چندے صدقٔہ نافلہ ہوتے ہیں ،ان ک و وق ف نہیں کیاجاس کتا کہ وق ف کے
لیے یہ ضرور ہے کہ اصل حبس کرکے اس کے منافع کام میں صرف کیے جائیں ،جس کے لیے وقف ہ و ،نہ یہ کہ خ ود
اصل ہی کو خرچ کردیاجائے ،یہ چندے جس خاص غرض کے لیے کیے گ ئے ہیں ،اس کے غ یر میں ص رف نہیں ک یے
جاسکتے ۔ اگر وہ غرض پوری ہوچکی ہو تو جس نے دیئے ہیں اسے واپس کیے جائیں ی ا اس کی اج ازت س ے دوس رے
کام میں خرچ کریں ،بغیر اجازت خرچ کرنا ناجائز ہے ( ،فتاوٰی امجدیہ ،جلد سوم ،ص‘‘)39 :۔مسجدکی انتظامیہ کے پاس
لوگوں کا چندہ امانت تھی ،انہیں یہ رقم امام کی تنخواہ ،دیکھ بھال ،پانی کے انتظام اور اس سے متعلق اش یاء کی م رمت
وغیرہ پر خرچ کرنے کی اجازت تھی ،امین کی ذمہ داری ہے کہ رقم جن مصارف کے لیے دی گ ئی ہےُ ،انہی پ ر خ رچ
کرے۔ اس سے ہٹ کر کسی اور مصرف میں لگائیں گے یا امام یا کسی فرد ک و ق رض دیں گے ،ت ویہ ُان کی ط رف س ے
َتَع ّد ی یعنی حد سے بڑھنا ہوگا اورایسی صورت میں اگر وہ رقم ہالک ہوجائے تو انتظامیہ کے افراد ذاتی ط ورپر اس کے