You are on page 1of 4

‫‪Chapter No 7:- The Role of Masjid and Maktab in Muslims Society.

‬‬

‫مساجداور کی اہمیت و فضیلت‪ :‬ارشاد باری تعالی ہے ‪:‬‬


‫صالَةَ {التوبہ‪{18‬‬ ‫اآلخ ِر َوأَقَا َم ال َّ‬
‫إِنَّ َما يَ ْع ُم ُر َم َسا ِج َد هّللا ِ َم ْن آ َمنَ بِاهّلل ِ َو ْاليَوْ ِم ِ‬
‫خدا کی مسجدوں کو تو وہ لوگ آباد کرتے ہیں جو خدا پر اور روز قیامت پر ایمان التے‬
‫ہیں اور نماز پڑھتے‪:‬‬
‫ہللا کے رسول صلی ہللا علیہ وسلم مدینہ منورہ آنے کے بعد سب سے پہلئے مسجد کا کام‬
‫شروع کیا ہے‪ .‬قبامیں آپ چنددن ٹھرے اور وہاں مسجد کی بنیاد رکھی ۔ پھر جب مدینہ‬
‫منورہ منتقل ہوئے تو اپنے لئے گھر کی تعمیر سے قبل مسجد کی بنیاد رکھی ۔ اور صحابہ‬
‫کے ساتھ آپ خود بھی اسکی تعمیر میں شریک رہے ۔ مسجد کو شریعت میں ہللا تعالی کا‬
‫گھر کہا گیا اور اسکی نسبت ہللا کی طرف کی گئی ‪:‬‬
‫اج َد هَّلِل ِ فَاَل تَ ْد ُعوا َم َع هَّللا ِ أَ َحدًا{الجن‪{18‬‬ ‫َوأَ َّن ْال َم َس ِ‬
‫اور یہ کہ مسجدیں (خاص) خدا کی ہیں تو خدا کے ساتھ کسی اور کی عبادت نہ کرو‬
‫عن ابی ھریرۃ ‪-‬ومااجتمع قوم فی بیت من بیوت ہللا یتلون کتاب ہللا ۔۔۔۔}مسلم {‬
‫اس حدیث میں مسجد کو ہللا کے گھر سے تعبیر کیا گیا ہے ۔‬
‫آپ صلی ہللا علیہ وسلم لوگوں کو مساجد بنانے کا حکم دیتے‬
‫عن عائشہ ‪-‬امرنا رسول ببناء المساجد فی الدور وان تنظف وتطیب}احمد‪ -‬ابوداود {‬
‫"ہمیں رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم محالت میں مسجد تعمیر کریں اور‬
‫اسے پاک وصاف اور معطر رکھیں " ۔‬
‫آپ کے پاس وفود آتے تو آپ انہیں بھی مساجد کی بناء کا حکم دیتے ۔‬
‫عن انس ‪-‬ان النبی صلی ہللا علیہ وسلم اذاغزا بنا قوم لم یکن یغزو بنا حتی یصبح وینظر الیھم‬
‫فان سمع اآلذان کف عنہم وان لم یسمع اغار علیہم }متفق علیہ {‬
‫مسجد بنانے کی فضیلت ‪:‬‬
‫عن عثمان ‪-‬من بنا ہلل مسجدا یبتغی بہ وجہ ہللا بنی ہللا لہ بیتا فی الجنۃ‪ -‬متفق علیہ‬
‫"جس نے ہللا تعالی کی رضا مندی چاہتے ہوئے مسجد کی تعمیر کی ہللا تعالی اس کے لئے‬
‫جنت میں گھر کی تعمیر فرماتا ہے ‪.‬‬
‫عن ابی ھریرۃ‪ -‬ان مما یلحق المئومن من عملہ وحسناتہ بعد موتہ علما علم ونشرہ او ولد ا‬
‫صالحا ترکہ اومصحفا ورثہ اومسجدا بناہ اوبیتاالبن السبیل بناہ اونہر ا اجراہ اوصدقۃ اخرجہا‬
‫من مالہ فی صحتہ وحیاتہ تلحق من بعد موتہ ۔ ابن ماجہ ۔ ابن خزیمہ‬
‫مذکورہ حدیث میں وجہ استشہاد ہے کہ مسجد کی تعمیر صدقہ جاریہ میں سے ہے ۔‬

‫مسجد کی محبت عظیم نیکی ہے ‪:‬‬


‫کیونکہ مسجد سے محبت ہللا سے محبت کی دلیل ہے اور ہللا سے محبت الالہ االہلل کے‬
‫شرائط میں سے ہے ‪،‬‬
‫عن ابی ھریرۃ ‪-‬سبعۃ یظلہم ہللا فی ظلہ یو م الظل االظلہ ‪ ،‬االمام العادل ‪ ،‬وشاب نشا فی‬
‫عبادۃ ہللا عزوجل ‪،‬ورجل قلبہ معلق بالمساجد۔}البخاری {‬
‫حدیث سے مطلوب یہ کہ مسجد کی محبت دل میں بسانے والے کے لئے قیامت والے دن‬
‫عرش کا سایہ نصیب ہوگا ۔‬
‫مسجد کی طرف جانا گویا ہللا کی ضیافت میں جانا ہے ‪:‬‬
‫من غدا الی المسجد اوراح اعد ہللا لہ نزال من الجنۃ کلماغدا اوراح }متفق علیہ {‬
‫" جو کوئی صبح یا شام میں مسجد کی طرف جاتا ہے تو ہللا تعالی اس کے لئے جنت کی‬
‫مہمانی تیار فرماتا ہے "‬
‫‪ -۵‬مسجد کا قصد کرنے والوں کی قیامت کے نرالی شان ‪:‬‬
‫عن بریدۃ ‪-‬بشرالمشائین فی الظلم الی المساجد بالنور التام یوم القیامۃ} الترمذی{‬
‫"خوشخبری ہو تاریکی میں مسجد کی جانب چلنے والوں کے لئے قیامت کے دن مکمل‬
‫روشنی کی‬
‫مسجد کی طرف جانا گناہ کاکفارہ اور درجات کی بلندی ہے‪:‬‬
‫عن ابی ھریرۃ ‪-‬صالۃ الرجل فی الجماعۃ تضعف علی صالتہ فی بیتہ وفی سوقہ خمسا‬
‫وعشرون درجۃ وذلک انہ اذا توضا فاحسن الوضوء† ‪ ،‬ثم خرج الی المسجد الیخرجہ اال‬
‫الصالۃ لم یحط خطوۃ اال رفعت لہ درجۃ وحط عنہ بہا خطیئۃ ۔} مسلم{‬
‫اس حدیث کا وجہ ذکر یہ کہ مسجد کی طرف قدم بڑھانے والے کے گناہ معاف اور درجات‬
‫بلند ہوتے ہیں ۔‬
‫‪-۷‬مسجد میں جانے والوں کی ایک اہم فضیلت ‪:‬‬
‫جو شخص بھی مسجدمیں نماز اور ذکر کیلئے کوئی جگہ بنالیتا ہے تو ہللا تبارک وتعالی‬
‫اسکی آمد پر اسی طرح خشی اور استقبال کا اظہار کرتا ہے جس طرح کسی کا عزیز ایک‬
‫مدت غائب رہنے کے بعد اسکے پاس آئے۔"‬
‫‪ -۸‬مسجدمیں چھاڑو دینے کی فضیلت ‪:‬‬
‫ای ک حدیث میں اس عورت کا ذکر ہے جو غریب اور کالی کلوٹی تھی اور مسجد نبوی کی‬
‫صفائی کا اہتمام کرتی تھی ‪ ،‬اس کی وفات ہوجاتی ہے اور لوگ اس کی تدفین کا انتظام‬
‫فرمادیتے ہیں اور اس عورت کوغیر اہم جانتے ہوئے اس کی اطالع بھی نبی صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم کو نہیں پہنچاتے ‪ ،‬بعدمیں آپ صلی ہللا علیہ وسلم کے استفسار پر اس عورت کی‬
‫وفات کا علم ہوتا ہے ‪ ،‬آپ افسوس ظاہر کرتے ہوئے عدم اطالع کی شکایت کرتے ہیں اور‬
‫قبرستان پہنچ کر اس گمنام عورت کی نماز جنازہ ادا فرماتے ہیں ۔ ) عن عائشہ(‬

‫‪   ‬اسالم میں مکاتب کی امیت‬


‫احادیث وتاریخ اورسیرت کی کتابوں‪  ‬کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ عہدرسالت میں‬
‫مسجد نبوی کے چبوترہ کے عالوہ طلبہ کی تعلیم وتربیت کے لیے کوئی مخصوص شکل‬
‫ت دین سکھال دیاکرتے تھے‪.‬‬‫نہیں تھی بلکہ صحابۂ کرام خود ہی اپنی اوالد کو ضروریا ِ‬
‫سا من أصحاب رسول هللا صلى هللا‬ ‫الصفَّة نا ً‬
‫عن يزيد بن عبد هللا بن قسيط قال‪« :‬كان أهل ُّ‬
‫عليه وسلم ال منازل لهم‪ ،‬فكانوا ينامون على عهد رسول هللا صلى هللا عليه وسلم في‬
‫المسجد‪ ،‬ويظلون فيه ما لهم مأوى غيره‪.‬الطبقات الكبرى‪ ‬‬
‫صفہ کے لوگ صحابہ کرام کے لوگ تھے ‪ ،‬خدا کرے کہ وہ سالمت رکھے ‪ ،‬جن کے گھر‬
‫نہیں تھے ‪ ،‬خدا کے رسول صلی ہللا علیہ وسلم کے دور میں وہ سو تے مسجد میں ‪ ،‬اور وہ‬
‫اس میں قیام پذیر تھے کیونکہ ان کے عالوہ ان کے پاس کوئی پناہ گاہ نہیں تھی‪.‬‬
‫عرب کے مختلف قبیلوں سے آنے والے وفود کے ساتھ بچے بھی ہوتے تھے جو خدمت‬
‫نبوی میں قیام کر کے علم دین حاصل کرتے تھے اور ان کےکھانے پینے کابندوبست مقامی‬
‫صحابۂ کرام کیا کرتے تھے‪ ،‬جس میں انہوں نے بے مثال ایثار وبے لوثی کا ثبوت دیا‪-‬‬
‫(حیاۃالصحابہ جلد)‬
‫‪   ‬پھر عہ ِد صحابہ میں‪  ‬حضرت عمر نے اپنے دور خالفت میں سب سے پہلے بچوں کی‬
‫تعلیم کے لیے مکتب جاری کیے اور معلمین کے لئے ایک رقم بطور وظیفہ کے مقرر‬
‫کردی‪( -‬معلّ ٰی ابن حزم )‬
‫‪         ‬جب اسالمی فتوحات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہونے لگا تو خلیفۂ ثانی نے مزید‬
‫اجرا ِء مکاتب کا حکم دیا اور اپنے ماتحت عمال وامرا کو یہ فرمان جاری کردیا کہ ” تم‬
‫لوگوں کو قرآن کی تعلیم پر وظیفہ دو”‪ (-‬کتاب االموال)‬
‫‪        ‬دینی تعلیم کی ضرورت و اہمیت ہی کے پیش نظر حضرت عبدہللا ابن عباس رضی‬
‫ہّٰللا عنہما فرمایا کرتے تھے کہ ” تین چیزیں لوگوں کے لیے ضروری ہیں۔‬
‫‪)1( ‬حاکم وامیر‪ :‬ورنہ لوگ ایک دوسرے سے برسرپیکار ہو جائیں گے۔‬
‫(‪ )2‬مصحف‪ :‬یعنی قرآن کی خریدوفروخت‪ ،‬ورنہ کتاب ہّٰللا کا پڑھنا پڑھانا بند ہوجائے گا۔‬
‫(‪ )3‬اور تیسری بات یہ ہے کہ عوام النّاس کی اوالد کو تعلیم دینے کے لیے ایسا معلّم‬
‫ضروری ہے جو اجرت لے‪ ،‬ورنہ لوگ جاھل رہ جائیں گے‪( -‬تربیت االوالد فی االسالم )‬
‫ب‬ ‫الذ َه ِ‬‫اد ِن َّ‬‫اد ُن َكمع ِ‬ ‫ول اللَّ ِه صلَّى اللَّهُ َعلَي ِه وسلَّم‪« :‬النَّاس مع ِ‬ ‫ال َر ُس ُ‬ ‫ال‪ :‬قَ َ‬‫ض َي اللَّهُ َع ْنهُ قَ َ‬ ‫‪َ   ‬عن أَبِي ُهر ْيرةَ ر ِ‬
‫ََ‬ ‫ُ ََ‬ ‫ْ ََ َ‬ ‫َ‬ ‫َ َ َ‬ ‫ْ‬
‫ار ُه ْم فِي اإْلِ ْساَل ِم إِذَا فَِق ُهوا» ‪َ .‬ر َواهُ ُمسلم‬ ‫َّة ِخيارهم فِي ال ِ ِ ِ ِ‬ ‫ِ ِ‬
‫ْجاهليَّة خيَ ُ‬ ‫َ‬ ‫َوالْفض ( َ ُ ُ ْ‬
‫لوگ سونے اور چاندی کی طرح معدنیات ہیں ‪ ،‬جاہلیت کے زمانہ میں ان میں سے جو بہتر‬
‫تھے وہ اسالم میں بھی بہتر ہوں گے اگر وہ علم حاصل کریں۔‬
‫ت ِمن بي ِ‬
‫وت اللَّ ِه‬ ‫ٍ‬ ‫ِ‬ ‫ك طَ ِري ًقا يلْتَ ِمس فِ ِيه ِعلْما سهَّل اللَّهُ لَهُ بِ ِه طَ ِري ًقا إِلَى ال ِ‬
‫اجتَ َم َع َق ْو ٌم في َب ْي ْ ُُ‬ ‫ْجنَّة َو َما ْ‬ ‫َ‬ ‫ً َ َ‬ ‫َ ُ‬ ‫َم ْن َسلَ َ‬
‫الس ِكينَةُ َوغَ ِشيَْت ُه ُم َّ‬
‫الر ْح َمةُ َو َح َّف ْت ُه ُم ال َْماَل ئِ َكةُ َوذَ َك َر ُه ُم‬ ‫اب اللَّ ِه َو َيتَ َد َار ُسونَهُ َب ْيَن ُه ْم إِاَّل َن َزل ْ‬
‫َت َعلَْي ِه ُم َّ‬ ‫ِ‬
‫َي ْتلُو َن كتَ َ‬
‫ع بِ ِه نسبه» ‪َ .‬ر َواهُ ُمسلم‬ ‫ِ‬ ‫اللَّه فِ ِ‬
‫يم ْن ع ْن َدهُ َو َم ْن بَطَّأَ بِه َع َملُهُ ل ْ‬
‫َم يُ ْس ِر ْ‬ ‫ُ َ‬
‫یوسف علم کی تالش میں کسی بھی راستے پر چلتا ہے تو ہللا اس کے لیے جنت کا راستہ‬
‫آسان کر دیتے ہیں۔‬
‫جب کوئی قوم ہللا کے گھروں میں سے کسی گھر میں جمع ہوکر قرآن کی تالوت کرتے ہیں‬
‫اور اس کا مذاکرہ کرتے ہیں تو ہللا تعالی ان پر سکینہ نازل کرتا ہے‪ ،‬خدا کی رحمت ان کو‬
‫ڈھانپ لیتی ہے اور فرشتے ان کو گھیر لیتے ہیں۔‬
‫اور ہللا تعالی ان کا ذکر خیر ان لوگوں میں کرتے ہیں جو ان کے پاس ہوتے ہیں۔‬
‫اور جس شخص کو اس کا عمل پیچھے کر دیتا ہے اس کا حسب و نسب اس کو آگے نہیں‬
‫کر سکتا۔‬

‫ان ِم ْن أَل ِ‬
‫ْف َعابِ ٍد» ‪.‬‬ ‫الش ْيطَ ِ‬ ‫ول اللَّ ِه صلَّى اللَّه علَي ِه وسلَّم‪« :‬فَِقيهٌ و ِ‬
‫اح ٌد أَ َش ُّد َعلَى َّ‬ ‫ال َر ُس ُ‬
‫ال‪ :‬قَ َ‬ ‫َع ِن ابْ ِن َعبَّ ٍ‬
‫اس قَ َ‬
‫َ‬ ‫ُ َْ ََ َ‬ ‫َ‬
‫َر َواهُ ابن ماجه‬
‫ایک فقیہ شیطان پر ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہوتا ہے ۔‬
‫ول اللَّ ِه صلَّى اللَّهُ َعلَي ِه وسلَّم‪« :‬من طَلَب ال ِْعلْم لِيجا ِر ِ ِ‬ ‫ب بْ ِن مالِ ٍ‬
‫اء أ َْو‬
‫ي به الْعُلَ َم َ‬
‫ْ َ َ َ َْ َ َ َُ َ‬ ‫َ‬ ‫ال َر ُس ُ‬
‫ال‪ :‬قَ َ‬
‫ك قَ َ‬ ‫َع ْن َك ْع ِ َ‬
‫ِِ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫ي بِ ِه ُّ‬ ‫ِ‬
‫ي‬‫اء أ َْو يصرف بِه ُو ُجوه النَّاس إِل َْيه أَدخل اهلل النَّار» ‪َ .‬ر َواهُ الت ِّْرمذ ّ‬
‫الس َف َه َ‬ ‫ليُ َما ِر َ‬
‫جو شخص علماء سے مقابلہ کرنے کے لئے ‪ ،‬یا اس کے ساتھ بے وقوفوں سے بات چیت‬
‫کرنے یا لوگوں کے چہروں کو اس کی طرف مبذول کروانے کے لئے علم کی تالش کرے‬
‫گا ‪ ،‬اس کو جہنم میں داخل کیا جائے گا۔‬
‫‪  ‬بالشبہ دور حاضر میں مدارس و مکاتب کی سخت ضرورت ہے‪ ،‬یہی مدارس ومکاتب‬
‫ہے کہ جہاں کی خاک سے انسان بنائے جاتے ہیں‪-‬‬

You might also like