You are on page 1of 5

‫احتکارواکتنازکی ممانعت‬

‫احتکار(غلہ روکنا)‬
‫حتکار‪ ‬حکرٌ ‪ ‬سے بنا بمعنی ظلم و بد صحبتی‪،‬شریعت میں انسان یا جانور کی غذاؤں کا ذخیرہ‬
‫کرلینا احتکار کہالتا ہے۔‬
‫احتکار‪،‬کھانے کی چیز کو اس لیے روکنا(اسٹاک کرنا )کہ گراں(یعنی مہنگی)ہونے پرفروخت‬
‫کریگا۔ناجائز ذخیرہ کرنے والے کو کہتے ہیں۔ انگریزی میں اس کے لیے ‪ Hoarding‬کا لفظ‬
‫استعمال ہوتا ہے۔ یعنی احتکار کسی‪ ‬جنس‪ ‬کی تمام رسد یا اس کے بیشتر‪ N‬حصے کا ذخیرہ کر لینا‬
‫تاکہ اس کی طلب بڑھ جانے پر صارفین سے منہ مانگی قیمت وصول‪ N‬کی جا سکے۔‬
‫تنگی کے زمانہ میں احتکار نا‪ ‬جائز ہے‪،‬فراخی میں جائز یعنی اگر انسان یا جانور بھوکے مررہے‬
‫ہیں‪،‬بازار میں یہ چیزیں ملتی نہیں مگر یہ ظالم اور زیادہ مہنگائی کے انتظار‪ ‬میں اشیاء ضرورت‬
‫کا ذخیرہ کیے بیٹھا ہے‪ ‬یہ جرم ہے‪،‬ممانعت کی تمام حدیثوں میں احتکار سے یہی مراد ہے۔مطلقًا‬
‫ذخیرہ کرنا حرام نہیں ورنہ مسلمان غلہ بھوسہ وغیرہ کی تجارت نہ کرسکیں گے۔‬
‫ول اللَِّه صلَّى اللَّه علَي ِه وسلَّم‪« :‬م ِن احتَ َكر َفهو خ ِ‬
‫اط ٌئ‬ ‫قَ َال َر ُس ُ‬
‫َ ُ َ ْ َ َ َ َ ْ َ َُ َ‬
‫''رسول اﷲ صلی ہللا علیہ و سلم نے فرمایا جو غلہ روکے وہ خطا کار ہے۔''‬
‫اکتناز‬
‫اکتناز''کنز''سے ہے ‪،‬جمع کرنے یاذخیرہ کرنے کوکہتے ہیں۔کنز سے مراد وہ مال ہے جس کو‬
‫محفوظ کر کے رکھ لیا گیا ہو یا اس مال کو زمین میں دبا کر دفن کر کے رکھ لیا گیا ہو۔‪[ ‬قرآن مجید میں یہ‬
‫لفظ بہت زیادہ دولت کے حوالے سے استعمال ہوا ہے۔اسالم میں کنز سے مراد ایسا مال ہے جس پر زکوۃ ادا‬
‫نہ کی جائے اور اگر کنز پر زکوۃ ادا کر دی جائے تو ایسے مال کو کنز نہیں کہا جا سکتا بلکہ ایسا مال‬
‫پاک و صاف ہو جاتا ہے‬
‫اکتناز کا تذکرہ کرتے ہوئے حیدر زمان صدیقی لکھتے ہیں‪:‬‬
‫اکتناز کے معنی ہیں سونے اور چاندی کے خزانے جمع کرتا مگر اس طرح کہ ان سے حقوق خداوندی اور‬
‫حقوق ملت ادا نہ کیے جائیں‪  ‬اس تعریف کی بنا پر اکتناز اس صورت میں متحقق ہوگا جب کوئی شخص‬
‫جمع دولت بری‬
‫ِ‬ ‫اپنی جمع شدہ دولت سے متذکرہ حقوق ادا نہ کرتا ہو۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسالم میں‬
‫چیز نہیں بلہ اسے اس طرح روک رکھنا کہ اس کے حقوق ادا نہ ہوں اکتناز کے تحت آتا ہے‬
‫کنز ایسا مال ہے جس پر زکوۃ ادا نہ کی جائے اور اگر اس پر زکوۃ ادا کر دی جائے تو وہ مال کنز نہیں‬
‫۔‬
‫ہے‬

‫احتکار و اکتناز کی ممانعت‬


‫قرآن و سنت سے ماخوذ تصور ملکیت کے تحت اگر مملوکہ مال کے تمام حقوق جو‬
‫دوسروں کو منافع میں شریک کرنے سے متعلق ہیں۔ پورے طور پر ادا نہ کئے جائیں تو‬
‫نہ صرف ملکیت ہی ناجائز ہو جاتی ہے بلکہ بجائے خود وہ عذاب آخرت کا باعث بن‬
‫جاتی ہے۔ ارشاد ربانی ہے‪: ‬‬
‫ش ْر ُه ْم ِب َع َذا ٍ‬
‫ب اَلِ ْي ٍم‪.‬‬ ‫ِض َة َواَل ُي ْن ِفقُ ْو َن َها ف ِْي َ‬
‫س ِب ْي ِل اﷲِال َف َب ِّ‬ ‫َب َوا ْلف َّ‬ ‫َوالَّ ِذ ْينَ َيکْ ِن ُز ْونَ َّ‬
‫الذه َ‬
‫التوبۃ‪34 : 9 ،‬‬
‫‘‘اور جو لوگ سونا اور چاندی کا ذخيرہ کرتے ہیں اور اسے ہللا کی راہ میں خرچ نہیں‬
‫کرتے تو انہیں درد ناک عذاب کی خبر سنا دیں‪’’o‬‬
‫ایک حدیث مبارکہ میں بھی ضرورت سے زائد مال کو مستحقین پر خرچ کرنے کا حکم‬
‫ہے۔ حضرت ابو امامہ رضی ہللا عنہ سے روایت ہے حضور نبی اکرم صلی ہللا علیہ وآلہ‬
‫وسلم نے ارشاد فرمايا‪: ‬‬
‫يا ابن آدم‪ ،‬إ ّنک أن تبذل الفضل خير لک وإن تمسکه ّ‬
‫شر لک وال تالم علی کفاف وابدأ‬
‫بمن تعول‪.‬‬
‫‘‘اے ابن آدم! ضرورت سے زائد مال خرچ کر دينا تیرے لیے زيادہ اچھا ہے۔ اور اگر تو‬
‫اس مال کو خرچ کرنے سے روک لے گا تو یہ تیرے لیے باعث شر ہوگا۔ البتہ بقدر‬
‫ضرورت بچا کر رکہنا تمہارے لیے باعث عار نہیں ہوگا اور انفاق کا آغاز اپنے قرابت‬
‫داروں سے کر۔’’‬
‫حضور نبی اکرم صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم نے اس باب میں جو تصور اپنے عمل مبارک‬
‫سے واضح فرمايا ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ رسول ہللا‬
‫صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا‪: ‬‬
‫لسرني أن ال تمر علي ثالث ليال وعندی منه شیء إاّل شيئا‬
‫لو کان لي مثل أحد ذهبا ً ّ‬
‫أرصده لدين‪.‬‬
‫‘‘اگر میرے پاس اُحد پہاڑ جتنا سونا بھی ہوتا تو (ایسی صورت میں بھی) میرے لیے یہی‬
‫باعث راحت ہوتی کہ میں تین راتیں گزرنے تک اسے راہ خدا میں خرچ‪ N‬کر دوں اور اس‬
‫مال میں سے اسی قدر بچا کر رکھتا جو قرض کی ادائیگی کے لیے ضروری ہوتا۔‬
‫مراد یہ کہ اُحد پہاڑ جتنا سونا بھی ہوتا تو سوائے قرض کی ادائیگی جیسی ضرورت کے‬
‫ث مسرت امر ہوتا۔‬ ‫باقی تین دن کے اندر اندر تقسیم کر دينا ہی میرے لیے باع ِ‬
‫یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ دولت خواہ جائز ذرائع سے ہی کمائی گئی ہو ليکن اگر اسے‬
‫جمع کر کے رکھ ديا جاتا ہے اور وہ افراد معاشرہ کے درميان گردش نہیں کرتی تو اس‬
‫ذخيرہ اندوزی‪ )hoarding( ‬پر دردناک عذاب کی وعید سنائی گئی ہے‪: ‬‬
‫ب اَلِ ْي ٍم‪َ  o‬ي ْو َم‬ ‫ش ْر ُه ْم ِب َع َذا ٍ‬
‫س ِب ْي ِل اﷲِال َف َب ِّ‬‫ِض َة َواَل ُي ْن ِف ُق ْو َن َها ف ِْي َ‬
‫َب َوا ْلف َّ‬
‫الذه َ‬ ‫‪َ  .1‬وا َّل ِذ ْينَ َيکْ ِن ُز ْونَ َّ‬
‫ار َج َه َّن َم َف ُتک ْٰوی ِب َها ِج َبا ُه ُه ْم َو ُج ُن ْو ُب ُه ْم َو ُظ ُه ْو ُر ُه ْم ه ََذا َما َک َن ْز ُت ْم اِل َ ْنفُسِ کُ ْم‬ ‫ُي ْح ٰمی َع َل ْي َها ف ِْي َن ِ‬
‫َف ُذ ْوقُ ْوا َما ُک ْن ُت ْم َتکْ ِن ُز ْونَ ‪.‬‬
‫التوبۃ‪35 ،34 : 9 ،‬‬
‫‘‘اور جو لوگ سونا اور چاندی کا ذخيرہ کرتے ہیں اور اسے ہللا کی راہ میں خرچ نہیں‬
‫کرتے تو انہیں دردناک عذاب کی خبر سنا دیں‪ o‬جس دن اس (سونے‪ ،‬چاندی اور مال) پر‬
‫دوزخ کی آگ میں تاپ دی جائے گی پھر اس (تپے ہوئے مال) سے ان کی پیشانياں اور‬
‫ان کے پہلو اور ان کی پیٹھیں داغی جائیں گی‪( ،‬اور ان سے کہا جائے گا) کہ یہ وہی‬
‫(مال) ہے جو تم نے اپنی جانوں (کے مفاد) کے لئے جمع کيا تھا سو تم (اس مال کا) مزہ‬
‫چکھو جسے تم جمع کرتے رہے تھے‪’’o‬‬
‫اﷲ ِب ِه َعلِ ْي ٌم‪.‬‬
‫َ‬ ‫ئ َفاِنَّ‬ ‫‪َ  .2‬لنْ َت َنالُوا ا ْل ِب َّر َح ٰ ّتی ُت ْن ِفقُ ْوا ِم َّما ُت ِح ُّب ْونَ َو َما ُت ْن ِفقُ ْوا مِنْ َ‬
‫ش ْي ٍ‬
‫آل عمران‪92 : 3 ،‬‬
‫‘‘تم ہرگز نیکی کو نہیں پہنچ سکو گے جب تک تم (ہللا کی راہ میں) اپنی محبوب چیزوں‬
‫میں سے خرچ نہ کرو‪ ،‬اور تم جو کچھ بھی خرچ‪ N‬کرتے ہو بیشک ہللا اسے خوب جاننے‬
‫واال ہے‪’’o‬‬
‫احتکار و اکتناز کی نفی اور انفاق فی سبيل ہللا کے حکم کی اہمیت احادیث مبارکہ میں بھی‬
‫متعدد مقامات‪ N‬پر بيان کی گئی ہے۔‬
‫‪1‬۔ حضرت ابو سعید خدری صسے روایت ہے‪: ‬‬
‫من کان عنده فضل زاد فيعد به علی من ال زاد له‪.‬‬
‫‘‘جس کے پاس زيادہ سامان (زیست) ہو تو وہ اس شخص کو لوٹا دے جس کے پاس‬
‫کوئی زاد راہ نہیں ہے۔’’‬
‫‪2‬۔ سلمہ بن اکوع رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ ایک سال لوگ مالی تنگی اور عسرت‬
‫کی حالت میں تھے۔ حضور نبی اکرم صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم نے قربانی کے موقع پر‬
‫فرمايا تم میں سے کوئی شخص تیسری رات کے بعد اس حالت میں نہ اٹھے کہ اس کے‬
‫گھر گوشت کی ایک بوٹی بھی ہو۔ (چنانچہ اس طرح عمل کيا گيا اور صحابہ کرام رضی‬
‫ہللا عنہم نے گوشت ذخيرہ کرنے کی بجائے بانٹ ديا) اگلے سال بھی صحابہ کرام رضی‬
‫ہللا عنہم نے اس حکم کی تعمیل میں سارا گوشت تقسیم کر ديا اور آئندہ ضرورت کے لئے‬
‫بچا کر نہ رکھا اور انہوں نے آپ صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کيا‪: ‬‬
‫يا رسول اﷲ‪ ،‬نفعل کما فعلنا العام الماضی قال کلوا وأطمعوا وادخروا فإنّ ذالک العام کان‬
‫بال ّناس جهد فأردت أن تعينوا‪.‬‬
‫‘‘صحابہ کرام رضی ہللا عنہم نے عرض کيا ‪ :‬يارسول ہللا! ہم اس مرتبہ بھی سابقہ سال‬
‫کی طرح کر رہے ہیں۔ آپ صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا ‪ :‬اس سال کھاؤ بھی اور‬
‫(حسب ضرورت) بچا کر بھی رکھ لو پچھلے سال لوگ پریشان تھے پس میں نے چاہا کہ‬
‫تم ایک دوسرے کی مدد کرو۔‬
‫‪3‬۔ حضرت عمر رضی ہللا عنہ کے معمول کے بارے میں امام بخاری رحمۃ ہللا علیہ بيان‬
‫کرتے ہیں‪: ‬‬
‫کان ابن عمر رضی هللا عنه ال يأکل ح ّتی يؤتی بمسکين يأکل معه‪.‬‬
‫‘‘حضرت ابن عمر کے ساتھ جب تک کوئی حاجت‪ N‬مند مل کر کھانا نہ کھاتا آپ کھانا‬
‫تناول نہ فرماتے تھے۔’’‬
‫‪4‬۔ حضرت عبدہللا بن مسعود رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں‪: ‬‬
‫ک ّنا نعدّ الماعون علی عهد رسول اﷲ صلی هللا عليه وآله وسلم عارية الدلو والقدر‪.‬‬
‫‘‘ہم عہد رسالت مآب صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم میں ڈول اور ہنڈيا تک عاریۃ ضرورت‬
‫مندوں کو دينا ماعون تصور کرتے تھے۔‬
‫‪5‬۔ قحط کے زمانے میں لوگوں کی مشکالت رفع کرنے کے اہتمام کے حوالے سے‬
‫حضرت عمر فاروق رضی ہللا عنہ نے ارشاد فرمايا‪: ‬‬
‫‘‘خدا کی قسم! اگر قحط رفع نہ ہوتا تو میں کوئی بھی ایسا گھر نہ چھوڑتا جس میں کھانا‬
‫موجود ہوتا مگر اس کے افراد کے برابر دیگر مستحقین اور محتاجین کو اس میں کلیتا ً‬
‫داخل نہ کر دیتا کیونکہ ایک شخص کا کھانا یقینا دو افراد کو ہالک ہونے سے بچا لیتا۔‬
‫‪6‬۔ حضرت عمر رضی ہللا عنہ کی اسی نوعیت کی ایک روایت امام ابن حزم رحمۃ ہللا‬
‫علیہ نے بيان کی ہے‪:‬‬
‫لو استقبلت من أمری ما استدبرت ألخذت فضول أموال األغنياء فقسمتها علی فقراء‬
‫المهاجرين‪.‬‬
‫‘‘بے شک مجھ کو اس امر کا خيال پہلے آ جاتا تو میں مالداروں کی زائد دولت لیکر‬
‫فقراء مہاجرین میں تقسیم کردیتا۔‬
‫‪7‬۔ حضرت بالل بن الحارث المزنی رضی ہللا عنہ کو ایک قطع اراضی عطا فرمايا تھا۔‬
‫جب حضرت عمر رضی ہللا عنہ کا زمانہ آيا تو آپ نے انہیں کہا اے بالل! حضور نبی‬
‫اکرم رضی ہللا عنہ نے تمہیں یہ قطع اراضی عطا فرمايا تھا کیونکہ جو بھی آپ کی‬
‫بارگاہ میں سوال لیکر آتا آپ صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم اسے خالی نہ لوٹاتے تھے مگر‬
‫تمہیں یہ عالقہ اس لئے نہیں عطا کيا گيا تھا کہ تم اسے لوگوں سے روک کر بیٹھ جاؤ۔‬
‫بلکہ اس لئے عطا کيا تھا کہ تم اسے آباد کرو۔ لہذا جس قدر زمین کو تم آباد کر سکتے ہو‬
‫رکھ لو اور باقی لوٹا دو۔ اس طرح آپ رضی ہللا عنہ نے حضرت بالل رضی ہللا عنہ سے‬
‫زائد زمین واپس لے کر مسلمانوں میں تقسیم کر دی۔‬

You might also like