You are on page 1of 31

‫محمد بن عبد اللہ‬ ‫اسالم میں آخری نبی‬

‫ابو القاسم محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب (‪12‬‬


‫ربیع االول عام الفیل ‪ 8 /‬جون ‪570‬ء یا ‪571‬ء – ‪12‬‬
‫ربیع االول ‪10‬ھ ‪ 8 /‬جون ‪632‬ء) مسلمانوں کے آخری‬
‫نبی ہیں۔ اہل اسالم کے نزدیک محمد تمام مذاہب کے‬
‫پیشواؤں سے کامیاب ترین پیشوا تھے۔[‪ ]1‬آپ کی‬
‫کنیت ابوالقاسم تھی۔ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق‬
‫حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کی‬
‫طرف سے انسانیت کی جانب بھیجے جانے والے انبیا‬
‫اکرام کے سلسلے کے آخری نبی ہیں جن کو اللہ نے اپنے‬
‫دین کی درست شکل انسانوں کی جانب آخری بار‬
‫پہنچانے کیلئے دنیا میں بھیجا۔ انسائیکلوپیڈیا‬
‫بریٹانیکا کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دنیا‬
‫کی تمام مذہبی شخصیات میں سب سے کامیاب‬
‫شخصیت تھے۔[‪570 ]2‬ء (بعض روایات میں ‪571‬ء)‬
‫مکہ میں پیدا ہونے والے حضرت محمد صلی اللہ علیہ‬
‫و آلہ وسلم پر قرآن کی پہلی آیت چالیس برس کی‬
‫عمرمیں نازل ہوئی۔ ان کا وصال تریسٹھ (‪ )63‬سال‬
‫کی عمر میں ‪632‬ء میں مدینہ میں ہوا‪ ،‬مکہ اور‬
‫مدینہ دونوں شہر آج کے سعودی عرب میں حجاز کا‬
‫حصہ ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم‬
‫بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف کے‬
‫والد کا انتقال ان کی دنیا میں آمد سے قریبا چھ ماہ‬
‫قبل ہو گیا تھا اور جب ان کی عمر چھ سال تھی تو‬
‫ان کی والدہ حضرت آمنہ بھی اس دنیا سے رحلت‬
‫فرما گئیں۔ عربی زبان میں لفظ "محمد" کے معنی ہیں‬
‫'جس کی تعریف کی گئی'۔ یہ لفظ اپنی اصل حمد سے‬
‫ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے تعریف کرنا۔ یہ نام ان کے‬
‫دادا حضرت عبدالمطلب نے رکھا تھا۔ محمد صلی اللہ‬
‫علیہ و آلہ وسلم کو رسول‪ ،‬خاتم النبیین‪ ،‬حضور اکرم‪،‬‬
‫رحمت للعالمین اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے‬
‫القابات سے بھی پکارا جاتا ہے۔ اس کے عالوہ بھی آپ‬
‫کے بہت نام و القاب ہیں۔ نبوت کے اظہار سے قبل‬
‫حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے چچا‬
‫حضرت ابوطالب کے ساتھ تجارت میں ہاتھ بٹانا‬
‫شروع کر دیا۔ اپنی سچائی‪ ،‬دیانت داری اور شفاف‬
‫کردار کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عرب‬
‫قبائل میں صادق اور امین کے القاب سے پہچانے جانے‬
‫لگے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنا کثیر وقت‬
‫مکہ سے باہر واقع ایک غار میں جا کر عبادت میں‬
‫صرف کرتے تھے اس غار کو غار حرا کہا جاتا ہے۔ یہاں‬
‫پر ‪610‬ء میں ایک روز حضرت جبرائیل علیہ السالم‬
‫(فرشتہ) ظاہر ہوئے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ‬
‫وسلم کو اللہ کا پیغام دیا۔ جبرائیل علیہ السالم نے‬
‫اللہ کی جانب سے جو پہال پیغام حضرت محمد صلی‬
‫اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پہنچایا وہ یہ ہے۔‬
‫اْق َر ْأ ِب اْس ِم َر ِّب َك اَّلِذ ي َخ َلَق (‪َ )1‬خ َلَق‬
‫اِإْل نَس اَن ِم ْن َع َلٍق (‪ -- )2‬القرآن‬
‫ترجمہ‪ :‬پڑھو (اے نبی) اپنے رب کا نام‬
‫لے کر جس نے پیدا کیا (‪ )1‬پیدا کیا‬
‫انسان کو (نطفۂ مخلوط کے ) جمے‬
‫ہوئے خون سے (‪)2‬‬
‫سورۃ ‪ ( 96‬اْلَع َلق ) آیات ‪ 1‬تا ‪2‬‬

‫یہ ابتدائی آیات بعد میں قرآن کا حصہ بنیں۔ اس‬


‫واقعہ کے بعد سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ‬
‫وسلم نے رسول کی حیثیت سے تبلیغ اسالم کی ابتدا‬
‫کی اور لوگوں کو خالق کی وحدانیت کی دعوت دینا‬
‫شروع کی۔ انہوں نے لوگوں کو روزقیامت کی فکر‬
‫کرنے کی تعلیم دی کہ جب تمام مخلوق اپنے اعمال کا‬
‫حساب دینے کے لیے خالق کے سامنے ہوگی۔ اپنی‬
‫مختصر مدِت تبلیغ کے دوران میں ہی انہوں نے پورے‬
‫جزیرہ نما عرب میں اسالم کو ایک مضبوط دین بنا‬
‫دیا‪ ،‬اسالمی ریاست قائم کی اور عرب میں اتحاد پیدا‬
‫کر دیا جس کے بارے میں اس سے پہلے کوئی سوچ‬
‫بھی نہیں سکتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی‬
‫محبت مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے اور قرآن کے‬
‫مطابق کوئی مسلمان ہو ہی نہیں سکتا جب تک وہ ان‬
‫کو اپنی جان و مال اور پسندیدہ چیزوں پر فوقیت نہ‬
‫دے۔ قیامت تک کے مسلمان ان کی امت میں شامل‬
‫ہیں۔‬

‫حلیہ‬
‫ابن عباس نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حلیہ‬
‫یوں بیان کیا‪ :‬ڈیل ڈول‪ ،‬قد و قامت دونوں معتدل اور‬
‫درمیانی تھے (جسم نہ زیادہ فربہ اور نہ دبال پتال‪،‬‬
‫ایسے ہی قد نہ زیادہ لمبا اور نہ کوتاہ بلکہ معتدل) آپ‬
‫کا رنگ کھلتا گندمی سفیدی مائل‪ ،‬آنکھیں سرمگیں‪،‬‬
‫خندہ دہن‪ ،‬خوبصوورت ماہ تابی چہرہ‪ ،‬داڑھی نہایت‬
‫گنجان جو پورے چہرہ انور کا احاطہ کئے سینہ کے‬
‫تھی۔[‪]3‬‬ ‫ابتدائی حصہ پر پھیلی ہوئی‬
‫حسن ابن علی‬
‫حسین ابن علی‬
‫ائمہ کرام‬

‫والدت با سعادت‬

‫حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سنہ ایک عام‬
‫الفیل (‪570‬ء) میں ربیع االول کے مبارک مہینے میں‬
‫بعثت سے چالیس سال پہلے مکہ میں پیدا ہوئے۔ ان‬
‫کی پیدائش پر معجزات نمودار ہوئے جن کا ذکر قدیم‬
‫آسمانی کتب میں تھا۔ مثًال آتشکدہ فارس جو ہزار‬
‫سال سے زیادہ سے روشن تھا بجھ گیا۔ مشکٰو ۃ کی‬
‫ایک حدیث ہے جس کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ‬
‫و آلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ' میں اس وقت بھی نبی‬
‫تھا جب آدم مٹی اور پانی کے درمیان میں تھے۔۔۔ میں‬
‫ابراہیم علیہ السالم کی دعا‪ ،‬عیسٰی علیہ السالم کی‬
‫بشارت اور اپنی والدہ کا وہ خواب ہوں جو انہوں نے‬
‫میری پیدائش کے وقت دیکھا اور ان سے ایک ایسا‬
‫نور ظاہر ہوا جس سے شام کے محالت روشن ہو‬
‫گئے'۔[‪]5[]4‬‬

‫جس سال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش‬


‫ہوئی اس سے پہلے قریش معاشی بدحالی کا شکار‬
‫تھے مگر اس سال ویران زمین سرسبز و شاداب ہوئی‪،‬‬
‫سوکھے ہوئے درخت ہرے ہو گئے اور قریش خوشحال‬
‫گئے۔[‪]6‬‬ ‫ہو‬
‫آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تاریخ پیدائش کے‬
‫بارے میں مختلف روایات ہیں۔ اہل سنت کے نزدیک‬
‫زیادہ روایات ‪ 12‬ربیع االول کی ہیں اگرچہ کچھ علما‬
‫‪ 9‬ربیع االول کو درست مانتے ہیں۔ اہِل تشیع ‪ 17‬ربیع‬
‫االول کو درست سمجھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و‬
‫الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان‬
‫(عربی میں‪: ‬محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن‬
‫هاشم بن عبد مناف بن قصي بن كالب بن مرة بن‬
‫كعب بن لؤي بن غالب بن فهر بن مالك بن النضر بن‬
‫كنانۃ بن خزيمۃ بن مدركۃ بن الياس بن مضر بن نزار‬
‫بن معد بن عدنان)‬

‫بچپن‬

‫آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے والد حضرت عبداللہ‬


‫ابن عبدالمطلب آپ کی والدت سے چھ ماہ قبل وفات‬
‫پا چکے تھے اور آپ کی پرورش آپ کے دادا حضرت‬
‫عبدالمطلب نے کی۔ اس دوران میں آپ صلی اللہ علیہ‬
‫و آلہ وسلم نے کچھ مدت ایک بدوی قبیلہ کے ساتھ‬
‫بسر کی جیسا عرب کا رواج تھا۔ اس کا مقصد بچوں‬
‫کو فصیح عربی زبان سکھانا اور کھلی آب و ہوا میں‬
‫صحت مند طریقے سے پرورش کرنا تھا۔ اس دوران‬
‫میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حضرت حلیمہ‬
‫بنت عبداللہ اور حضرت ثویبہ (درست تلفظ‪ُ :‬ث َو یبہ)‬
‫نے دودھ پالیا۔ چھ سال کی عمر میں آپ کی والدہ‬
‫اور آٹھ سال کی عمر میں آپ کے دادا بھی وفات پا‬
‫گئے۔ اس کے بعد آپ کی پرورش کی ذمہ داریاں آپ‬
‫کے چچا اور بنو ہاشم کے نئے سردار حضرت ابو طالب‬
‫نے سر انجام دیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ‬
‫وسلم نے حضرت ابو طالب کے ساتھ شام کا تجارتی‬
‫سفر بھی اختیار کیا اور تجارت کے امور سے واقفیت‬
‫حاصل کی۔ اس سفر کے دوران میں ایک بحیرا نامی‬
‫عیسائی راہب نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں‬
‫کچھ ایسی نشانیاں دیکھیں جو ایک آنے والے پیغمبر‬
‫کے بارے میں قدیم آسمانی کتب میں لکھی تھیں۔ اس‬
‫نے حضرت ابوطالب کو بتایا کہ اگر شام کے یہود یا‬
‫نصارٰی نے یہ نشانیاں پا لیں تو آپ صلی اللہ علیہ و‬
‫آلہ وسلم کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ چنانچہ‬
‫حضرت ابوطالب نے یہ سفر ملتوی کر دیا اور واپس‬
‫مکہ آ گئے۔۔۔[‪ ]7‬اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت‬
‫صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بچپن عام بچوں کی‬
‫طرح کھیل کود میں نہیں گزرا ہوگا بلکہ آپ صلی اللہ‬
‫علیہ و آلہ وسلم میں نبوت کی نشانیاں شروع سے‬
‫موجود تھیں۔ اس قسم کا ایک واقعہ اس وقت بھی‬
‫پیش آیا جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بدوی‬
‫قبیلہ میں اپنی دایہ کے پاس تھے۔ وہاں حبشہ کے‬
‫کچھ عیسائیوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو‬
‫بغور دیکھا اور کچھ سواالت کیے یہاں تک کہ نبوت‬
‫کی نشانیاں پائیں اور پھر کہنے لگے کہ ہم اس بچے‬
‫کو پکڑ کر اپنی سرزمین میں لے جائیں گے۔ اس واقعہ‬
‫کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مکہ لوٹا‬
‫گیا۔[‪]9[]8‬‬ ‫دیا‬
‫بعثت (پہلی وحی)‬
‫حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غور و فکر‬
‫کے لیے مکہ سے باہر ایک غار حرا میں تشریف لے‬
‫جاتے تھے۔ یہ کوہ حرا کا ایک غار ہے جسے کوِہ فاران‬
‫بھی کہا جاتا تھا۔ ‪610‬ء میں فرشتہ جبرائیل علیہ‬
‫السالم پہلی وحی لے کر تشریف الئے‪ ،‬اس وقت سورۃ‬
‫العلق کی وہ آیات نازل ہوئیں جن کا تذکرہ شروع میں‬
‫ہوا ہے۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی‬
‫عمر مبارک تقریبًًا چالیس برس تھی۔ شروع ہی میں‬
‫حضرت خدیجہ َر ضی اللُہ تعالٰی عنہا‪ ،‬آپ کے چچا زاد‬
‫حضرت علی علیہ السالم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ‬
‫وسلم کے قریبی دوست حضرت ابوبکر صدیق رضی‬
‫اللہ تعاٰل ی عنہ اور آپ کے آزاد کردہ غالم اور صحابی‬
‫حضرت زید بن ثابت َر ضی اللُہ تعالٰی عنُہ آپ صلی اللہ‬
‫علیہ و آلہ وسلم پر ایمان لے آئے۔ مکہ کے باہر سے پہلے‬
‫شخص حضرت ابوذر غفاری َر ضی اللُہ تعالٰی عنُہ تھے‬
‫جو اسالم الئے۔ پہلے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم‬
‫نے قریبی ساتھیوں میں تبلیغ کی پھر تقریبًًا پہلی‬
‫وحی کے تین سال بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم‬
‫نے دعوِت ذوالعشیرہ کے بعد سے اسالم کے پیغام کی‬
‫کھلی تبلیغ شروع کی۔ اکثر لوگوں نے مخالفت کی‬
‫مگر کچھ لوگ آہستہ آہستہ اسالم کی دعوت قبول‬
‫کرتے گئے۔‬

‫مخالفت‬
‫جیسے جیسے اسالم قبول کرنے والوں کی تعداد‬
‫بڑھتی جا رہی تھی مقامی قبیلوں اور لیڈروں نے آپ‬
‫صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنے لیے خطرہ سمجھنا‬
‫شروع کر دیا۔ ان کی دولت اور عزت کعبہ کی وجہ‬
‫سے تھی۔ اگر وہ اپنے بت کعبے سے باہر پھینک کر ایک‬
‫اللہ کی عبادت کرنے لگتے تو انہیں خوف تھا کہ‬
‫تجارت کا مرکز ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ آپ صلی‬
‫اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنے قبیلے سے بھی مخالفت‬
‫کا سامنا کرنا پڑا کونکہ وہ ہی کعبے کے رکھوالے تھے۔‬
‫قبائل نے ایک معاہدہ کے تحت مسلمانوں کا معاشی‬
‫اور معاشرتی بائیکاٹ کیا یہاں تک کہ مسلمان تین‬
‫سال شعِب ابی طالب میں محصور رہے۔ یہ بائیکاٹ‬
‫اس وقت ختم ہوا جب کعبہ پر لٹکے ہوئے معاہدے‬
‫میں یہ دیکھا گیا کہ لفظ 'اللہ' کے عالوہ تمام حروف‬
‫دیمک کی وجہ سے کھائے گئے ہیں۔ جب مخالفت حد‬
‫سے بڑھ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے‬
‫ساتھیوں کو حبشہ جہاں ایک عیسائی بادشاہ نجاشی‬
‫حکومت کرتا تھا کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت‬
‫دے دی۔‬

‫‪619‬ء میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیوی‬


‫حضرت خدیجہ اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے‬
‫پیارے چچا حضرت ابوطالب انتقال فرما گئے۔ اسی‬
‫لیے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس سال کو‬
‫عام الحزن یعنی دکھ کا سال قرار دیا۔‬

‫معراج‬

‫مسجِد اقصٰی ‪ ،‬جہاں سے سفِر معراج کی ابتداء ہوئی‬

‫‪620‬ء میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم معراج پر‬


‫تشریف لے گئے۔ اس سفر کے دوران میں آپ صلی اللہ‬
‫علیہ و آلہ وسلم مکہ سے مسجد اقصٰی گئے اور وہاں‬
‫تمام انبیائے کرام کی نماز کی امامت فرمائی۔ پھر آپ‬
‫صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آسمانوں میں اللہ تعاٰل ی سے‬
‫مالقات کرنے تشریف لے گئے۔ وہاں اللہ تعاٰل ی نے آپ‬
‫صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جنت اور دوزخ دکھائی۔‬
‫وہاں آپ کی مالقات مختلف انبیائے کرام سے بھی‬
‫ہوئی۔۔[‪]11‬‬ ‫ہوئی۔ اسی سفر میں نماز بھی فرض‬

‫مدنی زندگی‬

‫ہجرت‬

‫‪622‬ء تک مسلمانوں کے لیے مکہ میں رہنا ممکن نہیں‬


‫رہا تھا۔ کئی دفعہ مسلمانوں اور خود حضرت محمد‬
‫صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تکالیف دیں گئیں۔ اس‬
‫وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسلمانوں‬
‫کو مدینہ ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ آپ صلی‬
‫اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اللہ کے حکم سے حضرت‬
‫ابوبکر کے ساتھ ستمبر ‪622‬ء میں مدینہ کی طرف‬
‫روانہ ہوئے اور مکہ میں اپنی جگہ حضرت علی بن‬
‫ابی طالب علیہ السالم کو امانتوں کی واپسی کے لیے‬
‫چھوڑا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مدینہ‬
‫پہنچنے پر انصار نے ان کا شاندار استقبال کیا اور اپنے‬
‫تمام وسائل پیش کر دیے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ‬
‫وسلم مدینہ پہنچے تو انصار استقبال کے لیے آئے اور‬
‫خواتین چھتوں پر سے دیکھ رہی تھیں۔ اور دف بجا‬
‫کر کچھ اشعار پڑھ رہی تھیں جن کا ترجمہ یہ ہے۔‬

‫ہم پر چودھویں کی رات کا چاند‬


‫طلوع ہو گیا وداع کی پہاڑیوں سے ہم‬
‫پر شکر واجب ہے جب تک کوئی اللہ‬
‫کو پکارنے واال باقی رہے۔‬
‫آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اونٹنی حضرت ابو‬
‫ایوب انصاری کے گھر کے سامنے رکی اور حضور صلی‬
‫اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے گھر قیام فرمایا۔ جس‬
‫جگہ اونٹنی رکی تھی اسے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ‬
‫وسلم نے قیمتًا خرید کر ایک مسجد کی تعمیر شروع‬
‫کی جو مسجد نبوی کہالئی۔ اس تعمیر میں انہوں نے‬
‫خود بھی حصہ لیا۔ یہاں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ‬
‫وسلم نے مسلمانوں کے درمیان میں عقِد مؤاخات کیا‬
‫یعنی مسلمانوں کو اس طرح بھائی بنایا کہ انصار‬
‫میں سے ایک کو مہاجرین میں سے ایک کا بھائی‬
‫بنایا۔ خود حضرت علی علیہ السالم کو اپنا بھائی قرار‬
‫دیا۔ انصار نے مہاجرین کی مثالی مدد کی۔ ہجرت کے‬
‫ساتھ ہی اسالمی تقویم کا آغاز بھی ہوا۔ آپ کے مدینہ‬
‫آنے سے‪ ،‬اوس اور خزرج‪ ،‬یہاں کے دو قبائل جن نے بعد‬
‫میں اسالم قبول بھی کیا میں لڑائی جھگڑا ختم ہوا‬
‫اور ان میں اتحاد اور بھائی چارہ پیدا ہو گیا۔ اس کے‬
‫عالوہ یہاں کچھ یہودیوں کے قبائل بھی تھے جو‬
‫ہمیشہ فساد کا باعث تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ‬
‫وسلم کے آنے کے بعد یہودیوں اور مسلمانوں کے‬
‫درمیان میں ہونے والے معاہدہ 'میثاق مدینہ' نے مدینہ‬
‫میں امن کی فضا پیدا کر دی۔ اسی دور میں‬
‫مسلمانوں کو کعبہ کی طرف نماز پڑھنے کا حکم دیا‬
‫گیا‪ ،‬اس سے پہلے مسلمان بیت المقدس کی طرف منہ‬
‫کر کے نماز ادا کرتے تھے جو یہودیوں کا بھی قبلہ تھا۔‬

‫میثاِق مدینہ‬
‫تفصیلی مضمون کے لیے میثاق مدینہ مالحظہ کریں۔‬

‫میثاق مدینہ کو بجا طور پر تاریخ انسانی کا پہال‬


‫تحریری دستور قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ ‪ 730‬الفاظ‬
‫پر مشتمل ایک جامع دستور ہے جو ریاست مدینہ کا‬
‫آئین تھا۔ ‪622‬ء میں ہونے والے اس معاہدے کی‬
‫‪53‬دفعات تھیں۔ یہ معاہدہ اور تحریری دستور مدینہ‬
‫کے قبائل (بشمول یہود و نصارٰی ) کے درمیان میں‬
‫جنگ نہ کرنے کا بھی عہد تھا۔ معاہدے کا بکثرت‬
‫ثبوت پوری تفصیل کے ساتھ کتِب تواریخ میں ملتا ہے‬
‫مگر اس کے باوجود مغربی مصنفین اسے نظر انداز‬
‫کرنے کی ناکام کوشش کرتے‬
‫ہیں۔[‪]18[]17[]16[]15[]14[]13[]12‬‬

‫یہود و مشرکین کی سازشیں‬

‫میثاِق مدینہ کے بعد یہود مجبور تھے کہ وہ علی‬


‫االعالن حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور‬
‫اسالم کے خالف بات نہ کر سکتے تھے اسی لیے انہوں‬
‫نے خفیہ سازشیں شروع کیں جن میں سے ایک ادب‬
‫اور اظہاِر آزادی کی آڑ میں حضرت محمد صلی اللہ‬
‫علیہ و آلہ وسلم کی ذاِت گرامی حملہ کرنا تھا۔ عرب‬
‫لوگ جو شعر و شاعری کے بڑے خوگر تھے ان کے لیے‬
‫شاعری کے ذریعے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم‬
‫کی ہتک کرنے کی کوشش کی گئی کیونکہ اسالم میں‬
‫ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک حضور‬
‫صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات کی اہمیت و درجہ‬
‫مال و جان و اوالد سے زیادہ نہ ہوجائے۔ اس سلسلے‬
‫میں تین شعرا نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ‬
‫وسلم کے خالف ہجو لکھیں۔ ایک کا نام کعب بن‬
‫االشرف تھا جو یہودی تھا دوسری کا نام اسماء بنت‬
‫مروان تھا اور تیسرے کا نام ابوعفک تھا۔ جب وہ‬
‫شاعر حد سے گزر گئے اور ان کے رکیک اشعار سے‬
‫حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شدید‬
‫رنج پہنچا تو ان تینوں کو انہی کے قبیلے کے افراد نے‬
‫قتل کر ڈاال۔ کعب بن االشرف کو ان کی ایک رشتہ دار‬
‫ابونائلہ نے قتل کیا۔ اسماء بنت مروان کو ان کے ہم‬
‫حکمرانوں کو خطوط‬

‫صلح حدیبیہ کے بعد محرم ‪7‬ھ میں حضور صلی اللہ‬


‫علیہ و آلہ وسلم نے مختلف حکمرانوں کو خطوط‬
‫لکھے اور اپنے سفیروں کو ان خطوط کے ساتھ بھیجا۔‬
‫ان خطوط میں اسالم کی دعوت دی گئی۔ ان میں سے‬
‫ایک خط ترکی کے توپ کاپی نامی عجائب گھر میں‬
‫موجود ہے۔ ان حکمرانوں میں فارس کا بادشاہ خسرو‬
‫پرویز‪ ،‬مشرقی روم (بازنطین) کا بادشاہ ھرکولیس‪،‬‬
‫حبشہ کا بادشاہ نجاشی‪ ،‬مصر اور اسکندریہ کا‬
‫حکمران مقوقس اور یمن کا سردار شامل ہیں۔ پرویز‬
‫نے یہ خط پھاڑ دیا تھا اور بعض روایات کے مطابق‬
‫حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پیشینگوئی کی‬
‫تھی کہ اس کی سلطنت اسی طرح ٹکرے ٹکرے ہو‬
‫جائے گی۔ نجاشی نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ‬
‫وسلم کی نبوت کی تصدیق کی اور کہا کہ ہمیں انجیل‬
‫میں ان کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ مصر اور اسکندریہ‬
‫کے حکمران مقوقس نے نرم جواب دیا اور حضور‬
‫صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں کچھ‬
‫تحائف روانہ کیے اور حضرت ماریہ قبطیہ کو روانہ‬
‫کیا جن سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بیٹے‬
‫ہوئی۔۔[‪]20‬‬ ‫ابراہیم کی والدت‬

‫فتح مکہ‬
‫اگرچہ صلح حدیبیہ کی مدت دس سال طے کی گئی‬
‫تھی تاہم یہ صرف دو برس ہی نافذ رہ سکا۔ بنو قزع‬
‫کا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اتحاد‬
‫تھا جبکہ ان کے مخالف بنو بکر قریش مکہ کے ساتھ‬
‫تھے۔ ایک رات بنو بکر کے کچھ آدمیوں نے شب خون‬
‫مارتے ہوئے بنو قزع کے کچھ لوگ قتل کر دیے۔ قریش‬
‫نے ہتھیاروں کے ساتھ اپنے اتحادیوں کی مدد کی‬
‫جبکہ بعض روایات کے مطابق چند قریش بذات خود‬
‫بھی حملہ آروں میں شامل تھے۔ اس واقعہ کے بعد‬
‫نبی اکرم نے قریش کو ایک تین نکاتی پیغام بھیجا‬
‫اور کہا کہ ان میں سے کوئی منتخب کر لیں‪1 :‬۔‬
‫قریش بنو قزعہ کو خون بہا ادا کرے‪2 ،‬۔ بنو بکر سے‬
‫تعلق توڑ لیں‪3 ،‬۔ صلح حدیبیہ کو کالعدم قرار دیں۔‬

‫قریش نے جواب دیا کہ وہ صرف تیسری شرط تسلیم‬


‫کریں گے۔ تاہم جلد ہی انہیں اپنی غلطی کا احساس‬
‫ہوا اور ابو سفیان کو معاہدے کی تجدید کے لیے روانہ‬
‫کیا گیا لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے‬
‫اس کی درخواست رد کر دی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ‬
‫و آلہ وسلم اس وقت تک قریش کے خالف چڑھائی کی‬
‫تیاری شروع کر چکے تھے۔‬

‫‪630‬ء میں انہوں نے دس ہزار مجاہدین کے ساتھ مکہ‬


‫کی طرف پیش قدمی شروع کر دی۔ مسلمانوں کی‬
‫ہیبت دیکھ کر بہت سے مشرکین نے اسالم قبول کر‬
‫لیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عام‬
‫معافی کا اعالن کیا۔ ایک چھوٹی سے جھڑپ کے عالوہ‬
‫تمام کارروائی پر امن انداز سے مکمل ہو گئی اور نبی‬
‫اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فاتح بن کر مکہ میں‬
‫داخل ہو گئے۔ داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے آپ نے‬
‫کعبہ میں موجود تمام بت توڑ ڈالے اور شرک و بت‬
‫پرستی کے خاتمے کا اعالن کیا۔‬

‫حجۃ الوداع‬
‫تفصیلی مضمون کے لیے حجۃ الوداع مالحظہ کریں۔‬

‫حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زندگی کا‬


‫آخری حج سن ‪10‬ھ میں کیا۔ اسے حجۃ الوداع کہتے‬
‫ہیں۔ آپ ‪ 25‬ذی القعدہ ‪10‬ھ (فروری ‪632‬ء) کو مدینہ‬
‫سے روانہ ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی‬
‫ازواج آپ کے ساتھ تھیں۔ مدینہ سے ‪ 9‬کلومیٹر دور‬
‫ذوالحلیفہ کے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم‬
‫نے احرام پہنا۔ دس دن بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ‬
‫وسلم مکہ پہنچ گئے۔ حج میں مسلمانوں کی تعداد‬
‫ایک الکھ بیس ہزار سے زیادہ تھی۔ عرفہ کے دن ایک‬
‫خطبہ دیا اور اس سے اگلے دن منٰی میں ایک یادگار‬
‫خطبہ دیا جو خطبہ حجۃ الوداع کے نام سے مشہور‬
‫ہے۔ اس خطبہ میں انہوں نے اسالمی تعلیمات کا ایک‬
‫نچوڑ پیش کیا اور مسلمانوں کو گواہ بنایا کہ انہوں‬
‫نے پیغاِم اٰل ہی پہنچا دیا ہے۔ اور یہ بھی تاکید کی کہ‬
‫یہ باتیں ان لوگوں کو بھی پہنچائی جائیں جو اس‬
‫حج میں شریک نہیں ہیں۔ اس خطبہ میں انہوں نے یہ‬
‫فرمایا کہ شاید مسلمان انہیں اس کے بعد نہ دیکھیں۔‬
‫انہوں نے فرمایا کہ مسلمان پر دوسرے مسلمان کا‬
‫جان و مال حرام ہے۔ اور یہ بھی کہ نسل کی بنیاد پر‬
‫کسی کو کسی پر فوقیت نہیں ہے۔ انہوں نے اسالم کے‬
‫حرام و حالل پر بھی روشنی ڈالی۔ خطبہ کے آخر میں‬
‫حضرت خالد بن ولید‬
‫حضرت امیر معاویہ‬
‫حضرت مصعب بن عمیر‬
‫حضرت حمزہ بن عبدالمطلب‬
‫حضرت ابوہریرہ‬
‫حضرت عبداللہ بن عمر‬
‫حضرت حذیفہ بن یمانی‬

‫غصہ‬
‫غصہ غیرت کی عالمت ہے ایک غصہ وہ ہے جو عام‬
‫کوئی بھی بات پر آجاتا ہے‪ ،‬اور بعض ایسا غصہ کرنے‬
‫والے اپنے آپ کو بڑابہادر سمجھتے ہیں‪ ،‬دوسرا غصہ‬
‫وہ ہے جوتلخ بات سن کر آجاتاہے‪ ،‬کڑوے جملے‪ ،‬ناگزیر‬
‫رویوں‪ ،‬لفظ کی تیزی یا زہر بھرے رویے سے آتا ہے آپ‬
‫ﷺ کو کبھی بھی غصہ نہیں آیا کسی بھی بد اخالق‬
‫رویے آپﷺ کی پیشانی پر شکن نہیں ڈال سکے‪ ،‬ایک‬
‫غصہ وہ ہوتا ہے جس کا آنا ایمانی غیرت ہے اور نہ آنا‬
‫بزدلی ہے یہ وہ غصہ ہے جو غیر شرعی امور کو دیکھ‬
‫کرآتاہے جیسے ایک مؤمن گھر میں اللہ کی نافرمانی‬
‫دیکھ کر غصہ کرتا ہے یا تربیتی امور کو متاثر کر نے‬
‫والی چیز کو دیکھ کر آپ کو غصہ آجانا۔‬
‫سیدنا عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں‪:‬‬
‫لقد جلست أنا وأخي مجلسا ما أحب أن لي بہ حمر‬
‫النعم‪ ،‬أقبلت أنا وأخي‪ ،‬وإذا مشيخة من صحابة‬
‫رسول اللہ ‪ -‬صلى اللہ عليہ وسلم ‪ -‬جلوس عند باب‬
‫من أبوابہ‪ ،‬فكرهنا أن نفرق بينهم‪ ،‬فجلسنا حجرة‪ ،‬إذ‬
‫ذكروا آية من القرآن‪ ،‬فتماروا فيها‪ ،‬حتى ارتفعت‬
‫أصواتهم‪ ،‬فخرج رسول اللہ ‪ -‬صلى اللہ عليہ وسلم ‪-‬‬
‫مغضبا‪ ،‬قد احمر وجهہ‪ ،‬يرميهم بالتراب‪ ،‬ويقول‪:‬‬
‫"مهال يا قوم‪ ،‬بهذا أهلكت األمم من قبلكم‪،‬‬
‫باختالفهم على أنبيائهم‪ ،‬وضربهم الكتب‬
‫بعضهاببعض‪ ،‬إن القرآن لم ينزل يكذب بعضہ بعضا‪،‬‬
‫بل يصدق بعضہ بعضا‪ ،‬في عرفتم منہ فاعملوا بہ‪،‬‬
‫[‪]32‬‬ ‫وما جهلتم منہ فردوہ إلى عالمہ‬
‫ترجمہ‪:‬میں اور میرے بھائی ایسی مجلس میں بیٹھے‬
‫ہیں کہ اس کے بدلے مجھے سرخ اونٹ بھی ملنا پسند‬
‫نہیں۔پھر میں نے کچھ بزرگ صحابہ کومسجد نبوی‬
‫کے دروازے کے پاس بیٹھے ہوئے دیکھا۔ہم نے ان کے‬
‫درمیان میں گھس کر تفریق کرنے کو اچھا نہیں‬
‫سمجھا اس لیے ایک کونے میں بیٹھ گئے۔اس دوران‬
‫میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہما نے قرآن ایک آیت کا‬
‫تذکرہ چھیڑااور اس میں ان کے درمیان میں اختالف‬
‫رائے ہوگئی یہاں تک کہ ان کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔‬
‫نبی ﷺ غصہ کی حالت میں باہر نکلے۔آپﷺ کا چہرہ‬
‫مبارک سرخ ہورہا تھااور آپ ﷺ مٹی پھینک رہے تھے‬
‫اور فرمارہے تھے لوگو! رک جاؤ تم سے پہلی ُا متیں‬
‫اسی وجہ سے ہالک ہوئیں کہ انہوں نے اپنے انبیاء کے‬
‫سامنے اختالف کیااور اپنی کتابوں کے حصہ کو‬
‫دوسرے حصے پر مارا۔قرآن اس لیے نازل نہیں ہوا کہ‬
‫تم اس کے ایک حصہ سے دوسرے حصے کی تکذیب‬
‫کرو‪ ،‬بلکہ وہ ایک دوسرے کی تصديق کرتا ہے‪ ،‬اس لیے‬
‫تمہیں جتنی بات کا علم ہو اس پر عمل کرواور جو‬
‫معلوم نہ ہوتو اس کے عالم سے معلوم کرلو۔‬

‫غیر مسلم مشاہیر کے خیاالت‬


‫مغربی مصنف مائیکل ہارٹ نے اپنی مشہوِر زمانہ‬
‫کتاب ‪ The Hundred‬میں دنیا کے ان سو عظیم ترین‬
‫آدمیوں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے دنیا کی تشکیل میں‬
‫بڑا کردار ادا کیا۔ اس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ‬
‫و آلہ وسلم کو سب سے پہلے شمار پر رکھا ہے۔ مصنف‬
‫ایک عیسائی ہوکر بھی اپنے دالئل سے یہ ثابت کرتاہے‬
‫کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پورے‬
‫ہیں۔[‪]33‬‬ ‫نسل انسانی میں سّی دالبشر کہنے کے الئق‬

You might also like