Professional Documents
Culture Documents
حلیہ
ابن عباس نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حلیہ
یوں بیان کیا :ڈیل ڈول ،قد و قامت دونوں معتدل اور
درمیانی تھے (جسم نہ زیادہ فربہ اور نہ دبال پتال،
ایسے ہی قد نہ زیادہ لمبا اور نہ کوتاہ بلکہ معتدل) آپ
کا رنگ کھلتا گندمی سفیدی مائل ،آنکھیں سرمگیں،
خندہ دہن ،خوبصوورت ماہ تابی چہرہ ،داڑھی نہایت
گنجان جو پورے چہرہ انور کا احاطہ کئے سینہ کے
تھی۔[]3 ابتدائی حصہ پر پھیلی ہوئی
حسن ابن علی
حسین ابن علی
ائمہ کرام
والدت با سعادت
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سنہ ایک عام
الفیل (570ء) میں ربیع االول کے مبارک مہینے میں
بعثت سے چالیس سال پہلے مکہ میں پیدا ہوئے۔ ان
کی پیدائش پر معجزات نمودار ہوئے جن کا ذکر قدیم
آسمانی کتب میں تھا۔ مثًال آتشکدہ فارس جو ہزار
سال سے زیادہ سے روشن تھا بجھ گیا۔ مشکٰو ۃ کی
ایک حدیث ہے جس کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ
و آلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ' میں اس وقت بھی نبی
تھا جب آدم مٹی اور پانی کے درمیان میں تھے۔۔۔ میں
ابراہیم علیہ السالم کی دعا ،عیسٰی علیہ السالم کی
بشارت اور اپنی والدہ کا وہ خواب ہوں جو انہوں نے
میری پیدائش کے وقت دیکھا اور ان سے ایک ایسا
نور ظاہر ہوا جس سے شام کے محالت روشن ہو
گئے'۔[]5[]4
بچپن
مخالفت
جیسے جیسے اسالم قبول کرنے والوں کی تعداد
بڑھتی جا رہی تھی مقامی قبیلوں اور لیڈروں نے آپ
صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنے لیے خطرہ سمجھنا
شروع کر دیا۔ ان کی دولت اور عزت کعبہ کی وجہ
سے تھی۔ اگر وہ اپنے بت کعبے سے باہر پھینک کر ایک
اللہ کی عبادت کرنے لگتے تو انہیں خوف تھا کہ
تجارت کا مرکز ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ آپ صلی
اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنے قبیلے سے بھی مخالفت
کا سامنا کرنا پڑا کونکہ وہ ہی کعبے کے رکھوالے تھے۔
قبائل نے ایک معاہدہ کے تحت مسلمانوں کا معاشی
اور معاشرتی بائیکاٹ کیا یہاں تک کہ مسلمان تین
سال شعِب ابی طالب میں محصور رہے۔ یہ بائیکاٹ
اس وقت ختم ہوا جب کعبہ پر لٹکے ہوئے معاہدے
میں یہ دیکھا گیا کہ لفظ 'اللہ' کے عالوہ تمام حروف
دیمک کی وجہ سے کھائے گئے ہیں۔ جب مخالفت حد
سے بڑھ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے
ساتھیوں کو حبشہ جہاں ایک عیسائی بادشاہ نجاشی
حکومت کرتا تھا کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت
دے دی۔
معراج
مدنی زندگی
ہجرت
میثاِق مدینہ
تفصیلی مضمون کے لیے میثاق مدینہ مالحظہ کریں۔
فتح مکہ
اگرچہ صلح حدیبیہ کی مدت دس سال طے کی گئی
تھی تاہم یہ صرف دو برس ہی نافذ رہ سکا۔ بنو قزع
کا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اتحاد
تھا جبکہ ان کے مخالف بنو بکر قریش مکہ کے ساتھ
تھے۔ ایک رات بنو بکر کے کچھ آدمیوں نے شب خون
مارتے ہوئے بنو قزع کے کچھ لوگ قتل کر دیے۔ قریش
نے ہتھیاروں کے ساتھ اپنے اتحادیوں کی مدد کی
جبکہ بعض روایات کے مطابق چند قریش بذات خود
بھی حملہ آروں میں شامل تھے۔ اس واقعہ کے بعد
نبی اکرم نے قریش کو ایک تین نکاتی پیغام بھیجا
اور کہا کہ ان میں سے کوئی منتخب کر لیں1 :۔
قریش بنو قزعہ کو خون بہا ادا کرے2 ،۔ بنو بکر سے
تعلق توڑ لیں3 ،۔ صلح حدیبیہ کو کالعدم قرار دیں۔
حجۃ الوداع
تفصیلی مضمون کے لیے حجۃ الوداع مالحظہ کریں۔
غصہ
غصہ غیرت کی عالمت ہے ایک غصہ وہ ہے جو عام
کوئی بھی بات پر آجاتا ہے ،اور بعض ایسا غصہ کرنے
والے اپنے آپ کو بڑابہادر سمجھتے ہیں ،دوسرا غصہ
وہ ہے جوتلخ بات سن کر آجاتاہے ،کڑوے جملے ،ناگزیر
رویوں ،لفظ کی تیزی یا زہر بھرے رویے سے آتا ہے آپ
ﷺ کو کبھی بھی غصہ نہیں آیا کسی بھی بد اخالق
رویے آپﷺ کی پیشانی پر شکن نہیں ڈال سکے ،ایک
غصہ وہ ہوتا ہے جس کا آنا ایمانی غیرت ہے اور نہ آنا
بزدلی ہے یہ وہ غصہ ہے جو غیر شرعی امور کو دیکھ
کرآتاہے جیسے ایک مؤمن گھر میں اللہ کی نافرمانی
دیکھ کر غصہ کرتا ہے یا تربیتی امور کو متاثر کر نے
والی چیز کو دیکھ کر آپ کو غصہ آجانا۔
سیدنا عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں:
لقد جلست أنا وأخي مجلسا ما أحب أن لي بہ حمر
النعم ،أقبلت أنا وأخي ،وإذا مشيخة من صحابة
رسول اللہ -صلى اللہ عليہ وسلم -جلوس عند باب
من أبوابہ ،فكرهنا أن نفرق بينهم ،فجلسنا حجرة ،إذ
ذكروا آية من القرآن ،فتماروا فيها ،حتى ارتفعت
أصواتهم ،فخرج رسول اللہ -صلى اللہ عليہ وسلم -
مغضبا ،قد احمر وجهہ ،يرميهم بالتراب ،ويقول:
"مهال يا قوم ،بهذا أهلكت األمم من قبلكم،
باختالفهم على أنبيائهم ،وضربهم الكتب
بعضهاببعض ،إن القرآن لم ينزل يكذب بعضہ بعضا،
بل يصدق بعضہ بعضا ،في عرفتم منہ فاعملوا بہ،
[]32 وما جهلتم منہ فردوہ إلى عالمہ
ترجمہ:میں اور میرے بھائی ایسی مجلس میں بیٹھے
ہیں کہ اس کے بدلے مجھے سرخ اونٹ بھی ملنا پسند
نہیں۔پھر میں نے کچھ بزرگ صحابہ کومسجد نبوی
کے دروازے کے پاس بیٹھے ہوئے دیکھا۔ہم نے ان کے
درمیان میں گھس کر تفریق کرنے کو اچھا نہیں
سمجھا اس لیے ایک کونے میں بیٹھ گئے۔اس دوران
میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہما نے قرآن ایک آیت کا
تذکرہ چھیڑااور اس میں ان کے درمیان میں اختالف
رائے ہوگئی یہاں تک کہ ان کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔
نبی ﷺ غصہ کی حالت میں باہر نکلے۔آپﷺ کا چہرہ
مبارک سرخ ہورہا تھااور آپ ﷺ مٹی پھینک رہے تھے
اور فرمارہے تھے لوگو! رک جاؤ تم سے پہلی ُا متیں
اسی وجہ سے ہالک ہوئیں کہ انہوں نے اپنے انبیاء کے
سامنے اختالف کیااور اپنی کتابوں کے حصہ کو
دوسرے حصے پر مارا۔قرآن اس لیے نازل نہیں ہوا کہ
تم اس کے ایک حصہ سے دوسرے حصے کی تکذیب
کرو ،بلکہ وہ ایک دوسرے کی تصديق کرتا ہے ،اس لیے
تمہیں جتنی بات کا علم ہو اس پر عمل کرواور جو
معلوم نہ ہوتو اس کے عالم سے معلوم کرلو۔