وسلم ہے۔ یہ وہ عظیم خارِق عادت واقعہ ہے جس نے تسخیِر کائنات کے مقّف ل دروازوں کو کھولنے کی ِا بتداء کی۔ ِا نسان نے آگے چل کر تحقیق و جستجو کے بند کواڑوں پر دستک دی اور خالء میں پیچیدہ راستوں کی تالش کا فریضہ سر انجام دیا۔ رات کے مختصر سے وقفے میں جب اللہ رّب العّز ت حضور رحمِت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسجِد حرام سے نہ صرف مسجد اقصٰی تک بلکہ جملہ سماِو ی کائنات کی بے َا نت ُو سعتوں کے ُا س پار ’’َق اَب َق ْو َس ْي ِن ‘‘ اور ’’َأ ْو َأ ْد َن ى‘‘ کے مقاماِت بلند تک لے گیا اور آپ مّد توں وہاں قیام کے بعد ُا سی قلیل مّد تی زمینی ساعت میں ِا س زمین پر دوبارہ جلوہ َا فروز بھی ہو گئے۔
معراج
مسجِد اقصٰی کے قریب قبہ معراج ،جہاں سے
سفِر معراج کی ابتدا ہوئی قرآن کریم میں سورہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں ارشاِد خداوندی ہے کہ
وہ (ذات) پاک ہے جو ایک رات اپنے
بندے کو مسجد الحرام یعنی (خانہ کعبہ) سے مسجد اقصٰی (یعنی بیت المقدس) تک جس کے اردگرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں لے گیا تاکہ ہم اسے اپنی (قدرت کی) نشانیاں دکھائیں۔ بے شک وہ سننے واال (اور) دیکھنے واال ہے۔[]1 رجب کی ستائیسویں شب کو اللہ کے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو معراج کا شرف عطا کیا گیا۔اگرچہ اس واقعہ کے زمان کے بارے میں کئی روایات موجود ہیں لیکن محققین کی تحقیق کے مطابق یہ واقعہ ہجرت سے تین سال قبل پیش آیا،یعنی دسویں ساِل بعثت کو۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ شیعہ سنی علما کا اتفاق ہے کہ نماز جناب ابو طالؑب کی وفات کے بعد یعنی بعثت کے دسویں سال کو واجب ہوگئ تو پانچ وقت کی نماز اسی معراج کی رات امت پہ واجب ہو گئی تھی۔ منقول ہے کہ اس دن کفار نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بہت ستایا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی چچازاد بہن ام ہانی کے گھر تشریف لے گئے اور وہاں آرام فرمانے لگے۔ ادھر اللہ کے حکم سے حضرت جبرئیل پچاس ہزار فرشتوں کی برات اور براق لے کر نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:
اے اللہ کے رسول! آپ کا رب آپ سے مالقات چاہتا ہے۔
چنانچہ سوئے عرش سفر کی تیاریاں ہونے لگیں۔ سفر
معراج کا سلسلہ شروع ہونے واال تھا نبی رحمت کی بارگاہ میں براق حاضر کیا گیا جس پر حضور کو سوار ہونا تھا ،مگر اللہ کے پیارے محبوب نے کچھ توقف فرمایا۔
جبرئیل امین نے اس پس و پیش کی وجہ دریافت کی
تو آپ نے ارشاد فرمایا:
مجھ پر تو اللہ رب العزت کی اس قدر نوازشات ہیں،
مگر روز قیامت میری امت کا کیا ہو گا؟ میری امت پل صراط سے کیسے گذرے گی؟ اسی وقت اللہ تعاٰل ی کی طرف سے بشارت دی گئی :اے محبوب! آپ امت کی فکر نہ کیجیے ،ہم آپ کی امت کو پل صراط سے اس طرح گزار دیں گے کہ اسے خبر بھی نہیں ہو گی۔
اس واضح بشارت کے بعد سر کار دو عالم براق پر
سوار ہو گئے۔ جبرئیل امین نے رکاب تھامی ،میکائیل نے لگام پکڑی ،اسرافیل نے زین سنبھالی جس کے ساتھ ہی پچاس ہزار فرشتوں کے سالم کی صدا سے آسمان گونج اٹھے۔
حدیث میں آیا ہے۔
براق کی تیز رفتاری کا یہ عالم تھا کہ جہاں تک نظر
کی حد تھی ،وہاں وہ قدم رکھتا تھا۔براق کا سفر اس قدر تیزی کے ساتھ ہوا جس تک انسان کی عقل پہنچ ہی نہیں سکتی۔ ایسا لگتا تھا ہر طرف موسم بہار آگیا ہے۔ چاروں طرف نور ہی نور پھیلتا چال گیا۔ اس سفر کے دوران آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مکہ سے مسجد اقصٰی گئے اور وہاں تمام انبیائے کرام کی نماز کی امامت فرمائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آسمانوں میں اللہ تعاٰل ی سے مالقات کرنے تشریف لے گئے۔ وہاں اللہ تعاٰل ی نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جنت اور دوزخ دکھایا۔ وہاں آپ کی مالقات مختلف انبیائے کرام سے بھی ہوئی۔ اسی سفر میں نماز بھی فرض ہوئی۔۔[ ]2معراج جسمانی اور روحانی ایک اختالفی مسئلہ رہا ہے مگر احادیِث صحیحہ اور تفاسیرِ معتبرہ اس بات کی نشان دہی کرتی ہیں کہ معراج جسمانی تھی اور خدا کے رسول نے فرش سے عرش تک بلکہ قاب قوسین او ادنٰی تک کی منزل اپنے اسی جسم نازنین خاکی کے ساتھ طے کی تھی۔ سفِر معراج کا پہال مرحلہ
سفِر معراج کے پہلے مرحلے پر سفر جاری تھا کہ حضور
رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گذر حضرت موسٰی علیہ السالم کی قبِر انور کے قریب سے ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ وہ اپنی قبِر انور میں کھڑے نماز ادا کر رہے تھے۔
انبیا صف بہ صف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے
استقبال کے لیے کھڑے تھے۔
جب یہ مقدس قافلہ بیت المقدس پہنچا تو باِب محمد،
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استقبال کے لیے کھال تھا۔ جبرئیل امین علیہ السالم نے اپنی انگلی سے دروازے کے قریب موجود ایک پتھر میں سوراخ کیا اور براق کو اس سے باندھ دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیت المقدس میں داخل ہوئے تو تمام انبیائے کرام علیہم السالم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیمِ ،ا کرام اور ِا حترام میں منتظر تھے۔ انھیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امامت میں نماز پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔
سفِر معراج کا دوسرا مرحلہ
انبیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتداء میں
نماز ادا کر کے ادب و احتراِم مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشرف ہو چکے تو آسمانی سفر کا آغاز ہوا ،اس لیے کہ ہر زمینی عظمت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں کا بوسہ لے چکی تھی۔ پہلے آسمان پر پہنچ کر آسمان کے دروازے پر دستک دی گئی۔ بّو اب پہلے سے منتظر تھا۔ آواز آئی :کون ہے؟۔۔۔ جبرئیل امین نے جواب دیا :میں جبرئیل ہوں۔۔ ۔۔ آواز آئی :آپ کے ساتھ کون ہے؟۔۔۔ جواب دیا :یہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ آج کی رات انھیں آسمانوں پر پزیرائی بخشی جائے گی۔ آسمان کا دروازہ کھل گیا اور پوچھنے والے نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاِہ بیکس پناہ میں سالم عرض کرنے کی سعادت حاصل کی۔ مرحبا یا سیدی یا مرشدی مرحبا!
فانطلق بی ،حتی أتی السماء الدنيا فاستفتح ،قيل :
من هذا؟ قال :جبرئيل ،و من معک؟ قال :محمد، قيل :قد أرسل إليه؟ قال :نعم ،قيل :مرحبا به فنعم المجيئ جاء۔
(تفسير البغوی)93 : 3 ،
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آسمانوں کی طرف
بڑھے اور جب آسماِن دنیا پر آئے تو دروازہ کھٹکھٹایا۔ آواز آئی :کون؟ جبرئیل امین نے کہا :جبرئیل۔ پھر کہا گیا :آپ کے ساتھ کون ہے؟ انھوں نے کہا :محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ پھر پوچھا گیا :کیا انھیں بالیا گیا ہے؟ جبرئیل نے کہا :ہاں۔ آواز آئی :خوش آمدید، کتنا اچھا آنے واال آیا ہے۔
رحمِت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مالقات
حضرت آدم علیہ السالم سے ہوئی۔ انھیں بتایا گیا کہ یہ آپ کے جلیل القدر فرزند ہیں۔ ختم المرسلین ہیں۔ یہی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دادا جان کہہ کر آدم علیہ السالم کی بارگاہ میں سالم ارشاد فرمایا۔ حضرت آدم علیہ السالم نے سالم کا جواب بھی عرض کیا اور اپنے عظیم فرزند کو دعاؤں سے بھی نوازا۔ اس کے بعد مہماِن عرش حضور ُپ رنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دوسرے آسمان کی طرف اٹھایا گیا۔ پہلے آسمان کی طرح بّو اب نے دوسرے آسمان کا بھی دروازہ کھوال۔ یہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیدنا عیسٰی علیہ السالم اور یحیٰی علیہ السالم سے مالقات ہوئی۔ اس یادگار مالقات اور آسمان کے ملکوتی مشاہدات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تیسرے آسمان کی طرف اٹھایا گیا۔ تیسرے آسمان پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مالقات سیدنا یوسف علیہ السالم سے کرائی گئی۔ تیسرے آسمان کے مشاہداِت نورانی کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چوتھے آسمان پر پہنچایا گیا۔ چوتھے آسمان پر تاجداِر کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مالقات حضرت ادریس علیہ السالم سے کرائی گئی۔ اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفِر معراج طے کرتے ہوئے پانچویں آسمان پر پہنچے تو وہاں حضرت ہارون علیہ السالم سے مالقات ہوئی ،چھٹے آسمان پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مالقات سیدنا موسٰی علیہ السالم سے مالقات ہوئی۔ حضرت موسٰی علیہ السالم کی چشماِن مقدس اشکبار ہو گئیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و رفعت کو دیکھ کر رشک کے آنسو چھلک پڑے۔ آپ کی زباِن اقدس سے بے اختیار نکال کہ خدائے بزرگ و برتر کے یہ وہ برگزیدہ رسول ہیں جن کی امت کو میری امت پر شرف عطا کیا گیا۔ میری امت پر جسے بزرگی عطا ہوئی یہ وہی رسوِل برحق ہیں جن کی امت کو میری امت کے مقابلے میں کثرت کے ساتھ جنت میں داخل کیا گیا۔ مہماِن ذی حشم حضور رحمِت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مالقات ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السالم سے ہوئی۔ اس کے بعد ،حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ،جو تخلیق میں واحد ہستی ہیں، جبریل امین کے ساتھ سدرۃ المنتہٰی تک سفر کیا۔ اس مقام پر الّٰلہ تعالٰی نے انسانوں کو پانچ نمازوں کا تحفہ عنایت کیا۔ کفار کا رد عمل اور رسول اللہ کا جواب
معراج کا واقعہ جس رات پیش آیا اس رات رسول
صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے چچازاد بہن ام ہانی کے گھر مقیم تھے۔ آپ نے یہ بات لوگوں کو بتائی تو سب نے اسے ہلکا لیا اور مشرکین طعنہ دینے لگے کہ رسول اللہ راتوں رات آسمان گئے ہیں۔ سب نے تردید کی پر جب لوگوں نے حضرت ابوبکر کو اس واقعے کے متعلق آگاہ کیا تو ابوبکر نے فورا تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ کیا یہ بات رسول اللہ نے بتائی ہے۔ لوگوں نے کہا ہاں بالکل۔ ابوبکر نے کہا رسول اللہ نے بتائی ہے پھر تو سچ ہے۔ حضرت ابوبکر کے اس بات نے رسول اللہ کو بہت متاثر کیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت ابوبکر کو صدیق کا لقب دیا۔ مکہ کا ایک شخص جو شام اور فلسطین زیادہ سفر کیا کرتا تھا آیا اور بوال اگر آپ واقعی راتوں رات مسجد اقصٰی اور پھر آسمانوں میں گئے ہیں تو مجھے مسجد اقصٰی کا پتہ ہے میں آپ سے سواالت پوچھتا ہوں آپ جواب دیں۔ پھر اس شخص نے رسول اللہ سے مسجد اقصٰی اور اس کے خد و خال کے متعلق بے شمار سواالت کیے اور رسول اللہ نے سب کے ٹھیک ٹھیک جوابات دئے۔ اس شخص نے رسول اللہ کے تمام جوابات کو درست قرار دیا۔
شِب معراج پر اللہ کی خاص عنایت
رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اللہ سے پردے میں
بات کرنے کا شَر ف حاصل کیا جو اور کسی کو حاصل نہیں ہوا ،کائنات کی اس افضل ترین رات میں اللہ تعالٰی نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پچاس نمازیں بطور تحفہ دیں۔ جن کی تعداد بعد میں کم کر کے پانچ کر دی گئی۔
معراج اور اسراء میں فرق
معراج
معراج اس روحانی و جسمانی سفر کا نام ہے جس میں
آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آسمانوں کی سیر کروائی گئی اس کا ذکر سورہ النجم میں ہے۔
اسراء
اسراء ،جسمانی و روحانی سفر کا دوسرا مرحلہ ہے
جو آپ کو مکہ سے بیت المقدس تک کرایا گیا۔ اس کا ذکر سورہ بنی اسرائیل میں ہے۔ حوالہ جات
.1سورہ بنی اسرائیل ،آیت1 :
.2مناقب شہر آشوب جلد اول صفحہ 43
اخذ کردہ از «?https://ur.wikipedia.org/w/index.php
&oldid=5834103معراج=»title
اس صفحہ میں آخری بار مورخہ 15جنوری 2024ء کو 18:31
بجے ترمیم کی گئی۔ • تمام مواد CC BY-SA 4.0کے تحت میسر ہے ،جب تک اس کی مخالفت مذکور نہ ہو۔