Professional Documents
Culture Documents
بات سمجھنے کی ہے اُلجھنے کی نہیں
بات سمجھنے کی ہے اُلجھنے کی نہیں
وفات النبی ﷺ
َو َم ا َج َع ْلَنا ِل َب َش ٍر ِّم ْن َق ْب ِلَك اْلُخ ْلَد ۭ َاَف ۟ا ِٕىْن ِّم َّت َف ُه ُم اْلٰخ ِل ُد ْو َن 34
ہم نے آپ سے پہلے بھی کسی کو ہمیشگی نہیں دی ،کیا آپ وفات پا گئے تو یہ ہمیشہ ( زندہ ) رہ جائیں ) ؐ اے نبی ( ’’
گے۔‘‘ ( االنبیائ)۳۴ :
انہیں بھی مرنا ہے اور آپ کو بھی مرنا ہے۔‘‘ ( الزمر ؐ ) ) ۳۰ :اے نبی ( ’’
َو َم ا ُم َح َّم ٌد ِا اَّل َر ُس ْو ٌل ۚ َق ْد َخ َلْت ِم ْن َق ْب ِلِه الُّر ُس ُل ۭ َاَف ۟ا ِٕىْن َّم اَت َا ْو ُق ِت َل اْنَق َلْب ُت ْم َع ٰٓلى َا ْع َق اِب ُكْم ۭ َو َم ْن َّي ْن َق ِل ْب َع ٰل ي َع ِق َبْي ِه َف َلْن َّي ُض َّر
َهّٰللا َش ـْي ــًٔـ ـا ۭ َو َس َي ْج ِز ي ُهّٰللا الّٰش ِك ِر ْي َن ١٤٤
محمدمحض ایک رسول ہیں ،ان سے پہلے بھی بہت رسول گزرے ہیں ،اگر یہ فوت ہو جائیں یا شہید ہو جائیں تو تم الٹے ’’
پأوں پھر جأوگے ،اور جو کوئی الٹے پاٌو ں پھر گیا تو وہ اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا اور اللہ اپنے شکر گزار
بندوں کا ضرور جزا دے گْا‘‘ ( آل عمران ) ۱۴۴ :
:ہر نبی کو اس کی وفات سے قبل اسے وفات کے بعد ملنے واال مقام دکھا دیا جاتا ہے
حدثنا أبو اليمان أخبرنا شعيب عن الزهري قال أخبرني عروة بن الزبير إن عائشة قالت کان رسول اهلل صلی اهلل عليه وسلم
وهو صحيح يقول إنه لم يقبض نبي قط حتی يری مقعده من الجنة ثم يحيا أو يخير فلما اشتکی وحضره القبض ورأسه
علی فخذ عائشة غشي عليه فلما أفاق شخص بصره نحو سقف البيت ثم قال اللهم في الرفيق األعلی فقلت إذا ال يجاورنا
فعرفت أنه حديثه الذي کان يحدثنا وهو صحيح
عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تندرستی کی ’’
حالت میں فرمایاکہ کسی نبی کی (روح ) نہیں قبض کی جاتی جب تک کہ جنت میں اسے اس کا مقام نہ دکھا دیا جائے۔
پھر اس کو اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ چاہے تو دنیا میں رہے اور چاہے تو آخرت کو پسند فرمائے نبی ﷺ جب بیمار ہوئے اور
قبض کا وقت قریب آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غش آ گیا اور فرمایا الَّلُه َّم ِف ي الَّر ِف يِق اَأْلْع َلی میں کہنے لگی اب آپ
صلی اللہ علیہ وسلم دنیامیں رہنا گوارا نہیں فرما رہے ہیں اور معلوم ہوگیا کہ آپ نے جو بات تندرستی کے زمانہ میں
فرمائی تھی وہ پوری ہو رہی ہے۔‘‘ ( بخاری ،کتاب المغازی ،باب :مرض النبی ﷺ و وفاتہ )
:نبی ﷺ کو وفات سے قبل ہی انہیں وفات کے بعد جنت الفردوس میں ملنے واال مقام دکھا دیا گیا
حدثنا موسٰی بن إسماعيل حدثنا جرير بن حازم حدثنا أبو رجائ عن سمرة بن جندب قال کان النبي صلی اهلل عليه وسلم
إذا صلی صالة أقبل علينا بوجهه فقال من رأی منکم الليلة رؤيا قال فإن رأی أحد قصها فيقول ما شائ اهلل فسألنا يوما
فقال هل رأی أحد منکم رؤيا قلنا ال قال لکني رأيت الليلة رجلين أتياني فأخذا بيدي فأخرجاني إلی األرض المقدسة فإذا
رجل جالس ورجل قائم بيده کلوب من حديد قال بعض أصحابنا عن موسٰی إنه يدخل ذلک الکلوب في شدقه حتی يبلغ
قفاه ثم يفعل بشدقه اآلخر مثل ذلک ويلتئم شدقه هذا فيعود فيصنع مثله قلت ما هذا قاال انطلق فانطلقنا حتی أتينا علی
رجل مضطجع علی قفاه ورجل قائم علی رأسه بفهر أو صخرة فيشدخ به رأسه فإذا ضربه تدهده الحجر فانطلق إليه
ليأخذه فال يرجع إلی هذا حتی يلتئم رأسه وعاد رأسه کما هو فعاد إليه فضربه قلت من هذا قاال انطلق فانطلقنا إلی ثقب
مثل التنور أعاله ضيق وأسفله واسع يتوقد تحته نارا فإذا اقترب ارتفعوا حتی کاد أن يخرجوا فإذا خمدت رجعوا فيها
وفيها رجال ونسائ عراة فقلت من هذا قاال انطلق فانطلقنا حتی أتينا علی نهر من دم فيه رجل قائم علی وسط النهر قال
يزيد ووهب بن جرير عن جرير بن حازم وعلی شط النهر رجل بين يديه حجارة فأقبل الرجل الذي في النهر فإذا أراد أن
يخرج رمی الرجل بحجر في فيه فرده حيث کان فجعل کلما جائ ليخرج رمی في فيه بحجر فيرجع کما کان فقلت ما هذا
قاال انطلق فانطلقنا حتی انتهينا إلی روضة خضرائ فيها شجرة عظيمة وفي أصلها شيخ وصبيان وإذا رجل قريب من
الشجرة بين يديه نار يوقدها فصعدا بي في الشجرة وأدخالني دارا لم أر قط أحسن منها فيها رجال شيوخ وشباب ونسائ
وصبيان ثم أخرجاني منها فصعدا بي الشجرة فأدخالني دارا هي أحسن وأفضل فيها شيوخ وشباب قلت طوفتماني الليلة
فأخبراني عما رأيت قاال نعم أما الذي رأيته يشق شدقه فکذاب يحدث بالکذبة فتحمل عنه حتی تبلغ اآلفاق فيصنع به إلی
يوم القيامة والذي رأيته يشدخ رأسه فرجل علمه اهلل القرآن فنام عنه بالليل ولم يعمل فيه بالنهار يفعل به إلی يوم القيامة
والذي رأيته في الثقب فهم الزناة والذي رأيته في النهر آکلوا الربا والشيخ في أصل الشجرة إبراهيم عليه السالم والصبيان
حوله فأوالد الناس والذي يوقد النار مالک خازن النار والدار األولی التي دخلت دار عامة المؤمنين وأما هذه الدار فدار
الشهدائ وأنا جبريل وهذا ميکائيل فارفع رأسک فرفعت رأسي فإذا فوقي مثل السحاب قاال ذاک منزلک قلت دعاني أدخل
منزلي قاال إنه بقي لک عمر لم تستکمله فلو استکملت أتيت منزلک
سمرہ بن جندبؓ سے روایت کرتے ہیں کہ نبیﷺ جب صلٰو ۃ پڑھ لیتے تھے تو ہماری طرف متوجہ ہوتے اور فرماتے کہ تم’’
میں سے کسی نے رات کو خواب دیکھا ہے اگر کوئی شخص خواب دیکھتا تو اسے بیان کرتا ٓاپؐ اس کی تعبیر فرماتے جو
اللہ کو منظور ہوتا ،چنانچہ ٓاپ نے ایک دن ہم سے سوال کیا کیا تم میں سے کسی نے کوئی خواب دیکھا ہے ؟ ہم نے جواب
دیا کہ نہیںٓ ،اپ نے فرمایا لیکن میں نے دیکھا ہے کہ دو شخص میرے پاس ٓائے اور میرا ہاتھ پکڑ کر ارض مقدسہ کی
طرف لے گئے وہاں دیکھا کہ ایک شخص تو بیٹھا ہوا ہے اور دوسرا شخص کھڑا ہے اور اس کے ہاتھ میں (ہمارے بعض
ساتھیوں نے کہا کہ) لوہے کا ٹکڑا ہے جسے اس (بیٹھے ہوئے ٓادمی) کے گلپھڑے میں ڈالتا ہے ،یہاں تک کہ وہ گدی تک پہنچ
جاتا ہے پھر اسی طرح دوسرے گلپھڑے میں داخل کرتا ہے اور پہال گلپھڑا جڑ جاتا ہے ،تو اس کی طرف پھر ٓاتا ہے اور
اسی طرح کرتا ہے ،میں نے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا کہ ٓاگے بڑھو۔ ہم ٓاگے بڑھے یہاں تک کہ ایک شخص کے
پاس پہنچے جو چت لیٹا ہوا تھا اور ایک شخص اس کے سر پر فہر یا ضحرہ (ایک بڑا پتھر) لئے کھڑا تھا۔ جس سے اس
کے سر پرمارتاتھا جب اسے مارتا تھا تو پتھر لڑک جاتا تھا۔ اور اس پتھر کو لینے کے لئے وہ ٓادمی جاتا تو واپس ہونے تک
اس کا سر جڑ جاتا اور ویسا ہی ہوجاتا جیسا تھا وہ پھر لوٹ کر اس کو مارتا ،میں نے پوچھا کہ یہ کون ہے ؟ ان دونوں
نے کہا کہ ٓاگے بڑھو۔ چنانچہ ہم ٓاگے بڑھے تو تنور کی طرح ایک گڑھے تک پہنچے کہ اس کے اوپر کا حصہ تنگ اور نچال
چوڑا تھا اس کے نیچے ٓاگ روشن تھی جب ٓاگ کی لپٹ اوپر ٓاتی تو وہ لوگ (جو اس کے اندر تھے) اوپر ٓانے کے قریب
ہوجاتے اور جب ٓاگ بجھ جاتی تو دوبارہ پھر اس میں لوٹ جاتے اور اس میں مرد اور ننگی عورتیں تھیں۔ میں نے کہا کہ
یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ ٓاگے چلو۔ ہم ٓاگے بڑھے یہاں کہ ہم ایک خون کی نہر کے پاس پہنچے اس میں ایک شخص کھڑا
تھا اور نہر کے بیچ میں یا جیسا کہ یزید بن ہارون نے اور وہب بن جریر نے جریر بن حازم سے روایت کیا۔ نہر کے کنارے
ایک شخص تھا جس کے سامنے پتھر رکھے ہوئے تھے جب وہ ٓادمی جو نہر میں تھا سامنے ٓاتا تو (کنارے واال) ٓادمی اس
کے منہ پر پتھر مارتا اور وہیں لوٹ جاتا جہاں ہوتا میں نے پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ ٓاگے بڑھو ہم ٓاگے چلے
یہاں تک کہ ہم ایک سرسبز شاداب باغیچے کے قریب پہنچے جس میں بڑے بڑے درخت تھے اور اس کی جڑ میں ایک
بوڑھا اور چند بچے تھے اور ایک شخص اس درخت کے قریب اپنے سامنے ٓاگ سلگا رہا تھا۔ ان دونوں نے مجھے درخت پر
چڑھایا اور ہمیں ایسے گھر میں داخل کیا جس سے بہتر اور عمدہ گھر نہیں دیکھا اور اس میں بوڑھے اور جوان ٓادمی اور
عورتیں اور بچے ہیں پھر مجھے اس سے نکال کرلے گئے اور ایک درخت پر چڑھا دیا اور مجھے ایک گھر میں داخل کیا جو
بہتر اور عمدہ تھا۔ وہاں بوڑھوں اور جوانوں کو دیکھا ،میں نے پوچھا کہ تم نے مجھے رات بھر گھمایا تو اس کے متعلق
بتأو جو میں نے دیکھا ان دونوں نے کہا بہتر! وہ ٓادمی جسے تم نے دیکھا کہ اس کا گلپھڑا چیرا جارہا ہے وہ شخص جھوٹا
ہے جو جھوٹی باتیں بیان کرتا تھا اور اس سے سن کر لوگ دوسروں سے بیان کرتے تھے یہاں تک کہ جھوٹی بات ساری
دنیا میں پھیل جاتی ہے اس کے ساتھ قیامت تک ایسا ہی ہوتا رہے گا اور جس کا سر پھوڑتے ہوئے تم نے دیکھا وہ شخص
تھا جسے اللہ نے قرٓان کا علم عطا کیا لیکن اس سے غافل ہو کر رات کو سو رہا اور دن کو اس پر عمل نہ کیا قیامت تک
اس کے ساتھ یہی ہوتا رہے گا تنور میں جن لوگوں کو تم نے دیکھا وہ زانی تھے اور جنہیں تم نے نہر میں دیکھا وہ سود
خور تھے اور ضعیف جنہیں تم نے درخت کی جڑ میں دیکھا وہ ابراہیم علیہ السالم تھے اور بچے ان کے اردگرد لوگوں کے
ہیں اور وہ شخص جو ٓاگ سلگا رہا تھا وہ مالک داروغہ دوزخ تھا اور وہ گھر جس میں تم داخل ہویے عام مومنین کا گھر
تھا اور یہ گھر شہداء کا ہے اور میں جبرییل اور یہ میکاییل ہیں اپنا سر اٹھأو میں نے اپنا سر اٹھایا تو اپنے اوپر بادل کی
طرح ایک چیز دیکھی ان دونوں نے کہا یہ تمہارا مقام ہے میں نے کہا مجھے چھوڑ دو کہ میں اپنی جگہ میں داخل ہو
جاوں ان دونوں نے کہا تمہاری عمر باقی ہے جو پوری نہیں ہوئی جب تم اس عمر کو پورا کرلو گے تو اپنے مقام میں ٓاجأو
‘‘گے۔
عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر ’’
میں ،میری باری کے دن میرے سینہ سے ٹیک لگائے ہوئے فوت ہوئے ہمارا دستور تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار
ہوتے تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دعائیں پڑھ کر شفا طلب کرتے ،چنانچہ میں نے یہ کام شروع کردیا رسول اکرم
نے آسمان کی طرف نظریں اٹھائیں اور فرمایا :کہ فی الرفیق االعلٰی ،فی الرفیق االعلٰی ،اتنے میں عبدالرحمن آ گئے ان کے
ہاتھ میں ہری مسواک تھی،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دیکھا ،میں جان گئی اور فورا ان سے لے کر چبایا اور نرم
کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں دیدی ،آپ نے اچھی طرح دانتوں میں مسواک کی ،پھر وہ مسواک آپ مجھے
دینے لگے تو وہ آپ کے ہاتھ سے گر پڑی ،اللہ کا فضل دیکھو ،کہ اس نے آپ کے آخری دن میں میرا لعاب دہن آپ کے لعاب
دہن سے مال دیا۔‘‘( بخاری ،کتاب المغازی ،باب :مرض النبی ﷺ و وفاتہ )
عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے واضح ہے کہ نبی ﷺ نےدنیا نہیں بلکہ آخرت کا مقام پسند فرمایا ،یہی عقیدہ
:فاطمہ رضی اللہ عنہا اور دوسرے صحابہ کا ہے
حدثنا سليمان بن حرب حدثنا حماد عن ثابت عن أنس قال لما ثقل النبي صلی اهلل عليه وسلم جعل يتغشاه فقالت فاطمة
عليها السالم وا کرب أباه فقال لها ليس علی أبيک کرب بعد اليوم فلما مات قالت يا أبتاه أجاب ربا دعاه يا أبتاه من جنة
الفردوس مأواه يا أبتاه إلی جبريل ننعاه فلما دفن قالت فاطمة عليها السالم يا أنس أطابت أنفسکم أن تحثوا علی رسول
اهلل صلی اهلل عليه وسلم التراب
انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرض کی زیادتی سے بیہوش ہو گئے ’’
فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے روتے ہوئے کہا افسوس میرے والد کو بہت تکلیف ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
آج کے بعد پھر نہیں ہوگی ،پھر جب آپ کی وفات ہوگئی تو فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا یہ کہہ کر روئیں کہ اے میرے
والد ،آپ اللہ کے بالوے پر اس کے پاس چلے گئے ،اے میرے والد آپ جنت الفردوس میں اپنے مقام میں ضو آپ کا ہمیشہ
کا ٹھکانہ ہے ،ہائے میرے ابا جان میں آپ کی وفات کی خبر جبرائیل کو سناتی ہوں۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دفن
کیا جا چکا تو فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہا تم لوگوں نے کیسے گوارہ کرلیا کہ اللہ کے
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مٹی میں چھپا دو۔‘‘ ( بخاری ،کتاب المغازی ،باب :مرض النبی ﷺ و وفاتہ )
کتنی وضاحت ہے اس حدیث میں کہ نبی ﷺ وفات پاتے ہی جنت الفردوس میں اپنے مقام پر چلے گئے۔
وفات النبی ﷺ پر ابو بکر کا خظبہ
حدثنا بشر بن محمد أخبرنا عبد اهلل قال أخبرني معمر ويونس عن الزهري قال أخبرني أبو سلمة أن عائشة رضي اهلل عنها
زوج النبي صلی اهلل عليه وسلم أخبرته قالت أقبل أبو بکر رضي اهلل عنه علی فرسه من مسکنه بالسنح حتی نزل فدخل
المسجد فلم يکلم الناس حتی دخل علی عائشة رضي اهلل عنها فتيمم النبي صلی اهلل عليه وسلم وهو مسجی ببرد حبرة
فکشف عن وجهه ثم أکب عليه فقبله ثم بکی فقال بأبي أنت يا نبي اهلل ال يجمع اهلل عليک موتتين أما الموتة التي کتبت
عليک فقد متها قال أبو سلمة فأخبرني ابن عباس رضي اهلل عنهما أن أبا بکر رضي اهلل عنه خرج وعمر رضي اهلل عنه يکلم
الناس فقال اجلس فأبی فقال اجلس فأبی فتشهد أبو بکر رضي اهلل عنه فمال إليه الناس وترکوا عمر فقال أما بعد فمن کان
منکم يعبد محمدا صلی اهلل عليه وسلم فإن محمدا صلی اهلل عليه وسلم قد مات ومن کان يعبد اهلل فإن اهلل حي ال يموت
قال اهلل تعالی وما محمد إال رسول قد خلت من قبله الرسل إلی الشاکرين واهلل لکأن الناس لم يکونوا يعلمون أن اهلل أنزلها
حتی تالها أبو بکر رضي اهلل عنه فتلقاها منه الناس فما يسمع بشر إال يتلوها
عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا زوجہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا ،ابوبکر رضی اللہ تعالٰی ’’
عنہ اپنے گھوڑے پر مقام سخ سے آئے یہاں تک کہ گھوڑے سے اترے اور مسجد میں داخل ہوئے کسی سے گفتگو نہ کی
یہاں تک کہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے پاس پہنچے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گئے ،آپ کو یمنی چادر
اڑھائی گئی تھی ،آپ کے چہرے سے چادر اٹھائی پھر آپ پر جھکے اور آپ کے چہرے کو بوسہ دیا پھر روئے اور فرمایا اے
اللہ کے نبی آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں ،اللہ آپ پر دو موتوں کو جمع نہیں کرے گا ،وہ موت جوآپ کے لئے مقدور تھی
تو وہ آپ پر آچکی۔ ابوسلمہ کا بیان ہے کہ مجھے ابن عباس نے خبر دی کہ ابوبکر باہر نکلے اور عمر لوگوں سے گفتگو کر
رہے تھے ،ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان سے کہا کہ بیٹھ جاؤ انہوں نے انکار کردیا پھر کہا کہ بیٹھ جاؤ انہوں نے پھر
انکار کیا ،چنانچہ ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تشہد پڑھا لوگ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور عمر کو چھوڑ دیا کہا
امابعد! تم میں سے جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا۔ تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے
اور جو اللہ کی عبادت کرتا تھا تو اللہ زندہ ہے ،نہیں مرے گا ،اللہ تعالٰی نے فرمایاَ( :و َم ا ُم َح َّم ٌد ِا اَّل َر ُس ْو ٌل ۚ َق ْد َخ َلْت ِم ْن َق ْب ِلِه
ٰٓل
الُّر ُس ُل ۭ َاَف ۟ا ِٕىْن َّم اَت َا ْو ُق ِت َل اْنَق َلْب ُت ْم َع ى َا ْع َق اِب ُكْم ۭ َو َم ْن َّي ْن َق ِل ْب َع ٰل ي َع ِق َبْي ِه َف َلْن َّي ُض َّر َهّٰللا َش ـْي ــًٔـ ـا ۭ َو َس َي ْج ِز ي ُهّٰللا الّٰش ِك ِر ْي َن
’’١٤٤محمدمحض ایک رسول ہیں ،ان سے پہلے بھی بہت رسول گزرے ہیں ،اگر یہ فوت ہو جائیں یا شہید ہو جائیں تو
تم الٹے پأوں پھر جأوگے ،اور جو کوئی الٹے پاٌو ں پھر گیا تو وہ اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا اور اللہ اپنے شکر
گزار بندوں کا ضرور جزا دے گْا‘‘ ( آل عمران ) ۱۴۴ :واللہ اس سے پہلے لوگ گویا جانتے ہی نہ تھے کہ اللہ نے یہ آیت نازل
فرمائی ہے ،یہاں تک کہ ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس آیت کی تالوت فرمائی لوگوں نے یہ آیت ان سے سن کر اخذ کی
اور کوئی شخص سنا نہیں جاتا تھا مگر اس کی تالوت کرتا تھا۔‘‘ ( بخاری کتاب المغازی ،باب :مرض النبی ﷺ و وفاتہ
)
:کسی صحابی کا یہ عقیدہ نہیں تھا کہ نبی ﷺ مدینی والی قبر میں زندہ ہیں
حدثنا يسرة بن صفوان بن جميل اللخمي حدثنا إبراهيم بن سعد عن أبيه عن عروة عن عائشة رضي اهلل عنها قالت دعا
النبي صلی اهلل عليه وسلم فاطمة عليها السالم في شکواه الذي قبض فيه فسارها بشيئ فبکت ثم دعاها فسارها بشيئ
فضحکت فسألنا عن ذلک فقالت سارني النبي صلی اهلل عليه وسلم أنه يقبض في وجعه الذي توفي فيه فبکيت ثم سارني
فأخبرني أني أول أهله يتبعه فضحکت
عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قریب وفات ’’
فاطمہ رضی اللہ عنہما کو بالیا اور آہستہ آہستہ کچھ باتیں کیں جن کو سن کر وہ رونے لگیں اور پھر کچھ اور فرمایا تو
وہ ہنسنے لگیں میں نے ان سے اس کی وجہ پوچھی (یعنی بعد وفات) تو انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے پہلے تو یہ کہا تھا کہ میں اس بیماری میں ہی وفات پا جاؤں گا تو میں رونے لگی پھر فرمایا کہ میرے اہل بیت سے
سب سے پہلے تم ہی مجھے ملو گی تو پھر میں خوش ہو گئی۔‘‘ ( بخاری ،کتاب المغازی ،باب :مرض النبی ﷺ و وفاتہ )
حدثنا محمود بن غيالن أبو أحمد حدثنا الفضل بن موسی السيناني أخبرنا طلحة بن يحيی بن طلحة عن عاشة بنت طلحة
عن عاشة أم المؤمنين قالت قال رسول اهلل صلی اهلل عليه وسلم أسرعکن لحاقا بي أطولکن يدا قالت فکن يتطاولن أيتهن
أطول يدا قالت فکانت أطولنا يدا زينب ألنها کانت تعمل بيدها وتصدق
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے ’’
سب سے پہلے مجھ سے وہ ملے گی کہ جس کے ہاتھ سب سے زیادہ لمبے ہوں گے تو ساری ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن
اپنے اپنے ہاتھ ناپنے لگیں تاکہ پتہ چلے کہ کس کے ہاتھ لمبے ہیں سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں کہ ہم سب
میں سے زیادہ لمبے ہاتھ زینب رضی اللہ تعالٰی عنہا کے تھے کیونکہ وہ اپنے ہاتھ سے محنت کرتی اور صدقہ خیرات دیتی
تھیں۔‘‘ ( مسلم ،فضائل کا بیان ،فضائل زینبؓ )
نبی ﷺ نے فاطمہؓ اور زینبؓ کے لئے فرمایا کہ یہ دونوں سب سے پہلے مجھے ملیں گی۔ صحابہؓ کو نبی ﷺ کے اس بیان
کا الزمی معلوم تھا ،اور ان کا عقیدہ یہی تھا کہ نبی ﷺ مدینہ والی قبر میں نہیں جنت الفردوس میں سب سے اعلی
مقام پر زندہ ہیں۔ اگر ان کا عقیدہ یہ ہوتا کہ کہ نبیﷺ اس حجرہ عائشہؓ میں زندہ ہیں تو وہ انہیں انہی کیساتھ دفن
کرتے۔ یہ اس بات کا مکمل ثبوت ہے کہ ان سب کا عقیدہ ہرگز یہ نہیں تھا۔