You are on page 1of 6

‫وفات النبی ﷺ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں‬

‫وفات النبی ﷺ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں‬


‫‪‎‬الدین الخالص ‪‎The Real Islam -‬‬

‫وفات النبی ﷺ‬

‫‪:‬قرآن مجید میں نبی ﷺ کی وفات کی طرف اشارہ‬

‫َو َم ا َج َع ْلَنا ِل َب َش ٍر ِّم ْن َق ْب ِلَك اْلُخ ْلَد ۭ َاَف ۟ا ِٕىْن ِّم َّت َف ُه ُم اْلٰخ ِل ُد ْو َن ؀‪34‬‬

‫ہم نے آپ سے پہلے بھی کسی کو ہمیشگی نہیں دی‪ ،‬کیا آپ وفات پا گئے تو یہ ہمیشہ ( زندہ ) رہ جائیں ) ؐ اے نبی ( ’’‬
‫گے۔‘‘ ( االنبیائ‪)۳۴ :‬‬

‫ِا َّن َك َم ِّي ٌت َّو ِا َّن ُه ْم َّم ِّي ُت ْو َن ۡ؀‪30‬‬

‫انہیں بھی مرنا ہے اور آپ کو بھی مرنا ہے۔‘‘ ( الزمر‪ ؐ ) ) ۳۰ :‬اے نبی ( ’’‬

‫َو َم ا ُم َح َّم ٌد ِا اَّل َر ُس ْو ٌل ۚ َق ْد َخ َلْت ِم ْن َق ْب ِلِه الُّر ُس ُل ۭ َاَف ۟ا ِٕىْن َّم اَت َا ْو ُق ِت َل اْنَق َلْب ُت ْم َع ٰٓلى َا ْع َق اِب ُكْم ۭ َو َم ْن َّي ْن َق ِل ْب َع ٰل ي َع ِق َبْي ِه َف َلْن َّي ُض َّر‬
‫َهّٰللا َش ـْي ــًٔـ ـا ۭ َو َس َي ْج ِز ي ُهّٰللا الّٰش ِك ِر ْي َن ؁‪١٤٤‬‬

‫محمدمحض ایک رسول ہیں‪ ،‬ان سے پہلے بھی بہت رسول گزرے ہیں‪ ،‬اگر یہ فوت ہو جائیں یا شہید ہو جائیں تو تم الٹے ’’‬
‫پأوں پھر جأوگے‪ ،‬اور جو کوئی الٹے پاٌو ں پھر گیا تو وہ اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا اور اللہ اپنے شکر گزار‬
‫بندوں کا ضرور جزا دے گْا‘‘ ( آل عمران ‪) ۱۴۴ :‬‬

‫‪:‬ہر نبی کو اس کی وفات سے قبل اسے وفات کے بعد ملنے واال مقام دکھا دیا جاتا ہے‬

‫حدثنا أبو اليمان أخبرنا شعيب عن الزهري قال أخبرني عروة بن الزبير إن عائشة قالت کان رسول اهلل صلی اهلل عليه وسلم‬
‫وهو صحيح يقول إنه لم يقبض نبي قط حتی يری مقعده من الجنة ثم يحيا أو يخير فلما اشتکی وحضره القبض ورأسه‬
‫علی فخذ عائشة غشي عليه فلما أفاق شخص بصره نحو سقف البيت ثم قال اللهم في الرفيق األعلی فقلت إذا ال يجاورنا‬
‫فعرفت أنه حديثه الذي کان يحدثنا وهو صحيح‬
‫عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تندرستی کی ’’‬
‫حالت میں فرمایاکہ کسی نبی کی (روح ) نہیں قبض کی جاتی جب تک کہ جنت میں اسے اس کا مقام نہ دکھا دیا جائے۔‬
‫پھر اس کو اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ چاہے تو دنیا میں رہے اور چاہے تو آخرت کو پسند فرمائے نبی ﷺ جب بیمار ہوئے اور‬
‫قبض کا وقت قریب آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غش آ گیا اور فرمایا الَّلُه َّم ِف ي الَّر ِف يِق اَأْلْع َلی میں کہنے لگی اب آپ‬
‫صلی اللہ علیہ وسلم دنیامیں رہنا گوارا نہیں فرما رہے ہیں اور معلوم ہوگیا کہ آپ نے جو بات تندرستی کے زمانہ میں‬
‫فرمائی تھی وہ پوری ہو رہی ہے۔‘‘ ( بخاری‪ ،‬کتاب المغازی‪ ،‬باب‪ :‬مرض النبی ﷺ و وفاتہ )‬

‫‪:‬نبی ﷺ کو وفات سے قبل ہی انہیں وفات کے بعد جنت الفردوس میں ملنے واال مقام دکھا دیا گیا‬

‫حدثنا موسٰی بن إسماعيل حدثنا جرير بن حازم حدثنا أبو رجائ عن سمرة بن جندب قال کان النبي صلی اهلل عليه وسلم‬
‫إذا صلی صالة أقبل علينا بوجهه فقال من رأی منکم الليلة رؤيا قال فإن رأی أحد قصها فيقول ما شائ اهلل فسألنا يوما‬
‫فقال هل رأی أحد منکم رؤيا قلنا ال قال لکني رأيت الليلة رجلين أتياني فأخذا بيدي فأخرجاني إلی األرض المقدسة فإذا‬
‫رجل جالس ورجل قائم بيده کلوب من حديد قال بعض أصحابنا عن موسٰی إنه يدخل ذلک الکلوب في شدقه حتی يبلغ‬
‫قفاه ثم يفعل بشدقه اآلخر مثل ذلک ويلتئم شدقه هذا فيعود فيصنع مثله قلت ما هذا قاال انطلق فانطلقنا حتی أتينا علی‬
‫رجل مضطجع علی قفاه ورجل قائم علی رأسه بفهر أو صخرة فيشدخ به رأسه فإذا ضربه تدهده الحجر فانطلق إليه‬
‫ليأخذه فال يرجع إلی هذا حتی يلتئم رأسه وعاد رأسه کما هو فعاد إليه فضربه قلت من هذا قاال انطلق فانطلقنا إلی ثقب‬
‫مثل التنور أعاله ضيق وأسفله واسع يتوقد تحته نارا فإذا اقترب ارتفعوا حتی کاد أن يخرجوا فإذا خمدت رجعوا فيها‬
‫وفيها رجال ونسائ عراة فقلت من هذا قاال انطلق فانطلقنا حتی أتينا علی نهر من دم فيه رجل قائم علی وسط النهر قال‬
‫يزيد ووهب بن جرير عن جرير بن حازم وعلی شط النهر رجل بين يديه حجارة فأقبل الرجل الذي في النهر فإذا أراد أن‬
‫يخرج رمی الرجل بحجر في فيه فرده حيث کان فجعل کلما جائ ليخرج رمی في فيه بحجر فيرجع کما کان فقلت ما هذا‬
‫قاال انطلق فانطلقنا حتی انتهينا إلی روضة خضرائ فيها شجرة عظيمة وفي أصلها شيخ وصبيان وإذا رجل قريب من‬
‫الشجرة بين يديه نار يوقدها فصعدا بي في الشجرة وأدخالني دارا لم أر قط أحسن منها فيها رجال شيوخ وشباب ونسائ‬
‫وصبيان ثم أخرجاني منها فصعدا بي الشجرة فأدخالني دارا هي أحسن وأفضل فيها شيوخ وشباب قلت طوفتماني الليلة‬
‫فأخبراني عما رأيت قاال نعم أما الذي رأيته يشق شدقه فکذاب يحدث بالکذبة فتحمل عنه حتی تبلغ اآلفاق فيصنع به إلی‬
‫يوم القيامة والذي رأيته يشدخ رأسه فرجل علمه اهلل القرآن فنام عنه بالليل ولم يعمل فيه بالنهار يفعل به إلی يوم القيامة‬
‫والذي رأيته في الثقب فهم الزناة والذي رأيته في النهر آکلوا الربا والشيخ في أصل الشجرة إبراهيم عليه السالم والصبيان‬
‫حوله فأوالد الناس والذي يوقد النار مالک خازن النار والدار األولی التي دخلت دار عامة المؤمنين وأما هذه الدار فدار‬
‫الشهدائ وأنا جبريل وهذا ميکائيل فارفع رأسک فرفعت رأسي فإذا فوقي مثل السحاب قاال ذاک منزلک قلت دعاني أدخل‬
‫منزلي قاال إنه بقي لک عمر لم تستکمله فلو استکملت أتيت منزلک‬

‫سمرہ بن جندبؓ سے روایت کرتے ہیں کہ نبیﷺ جب صلٰو ۃ پڑھ لیتے تھے تو ہماری طرف متوجہ ہوتے اور فرماتے کہ تم’’‬
‫میں سے کسی نے رات کو خواب دیکھا ہے اگر کوئی شخص خواب دیکھتا تو اسے بیان کرتا ٓاپؐ اس کی تعبیر فرماتے جو‬
‫اللہ کو منظور ہوتا‪ ،‬چنانچہ ٓاپ نے ایک دن ہم سے سوال کیا کیا تم میں سے کسی نے کوئی خواب دیکھا ہے ؟ ہم نے جواب‬
‫دیا کہ نہیں‪ٓ ،‬اپ نے فرمایا لیکن میں نے دیکھا ہے کہ دو شخص میرے پاس ٓائے اور میرا ہاتھ پکڑ کر ارض مقدسہ کی‬
‫طرف لے گئے وہاں دیکھا کہ ایک شخص تو بیٹھا ہوا ہے اور دوسرا شخص کھڑا ہے اور اس کے ہاتھ میں (ہمارے بعض‬
‫ساتھیوں نے کہا کہ) لوہے کا ٹکڑا ہے جسے اس (بیٹھے ہوئے ٓادمی) کے گلپھڑے میں ڈالتا ہے‪ ،‬یہاں تک کہ وہ گدی تک پہنچ‬
‫جاتا ہے پھر اسی طرح دوسرے گلپھڑے میں داخل کرتا ہے اور پہال گلپھڑا جڑ جاتا ہے‪ ،‬تو اس کی طرف پھر ٓاتا ہے اور‬
‫اسی طرح کرتا ہے‪ ،‬میں نے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا کہ ٓاگے بڑھو۔ ہم ٓاگے بڑھے یہاں تک کہ ایک شخص کے‬
‫پاس پہنچے جو چت لیٹا ہوا تھا اور ایک شخص اس کے سر پر فہر یا ضحرہ (ایک بڑا پتھر) لئے کھڑا تھا۔ جس سے اس‬
‫کے سر پرمارتاتھا جب اسے مارتا تھا تو پتھر لڑک جاتا تھا۔ اور اس پتھر کو لینے کے لئے وہ ٓادمی جاتا تو واپس ہونے تک‬
‫اس کا سر جڑ جاتا اور ویسا ہی ہوجاتا جیسا تھا وہ پھر لوٹ کر اس کو مارتا‪ ،‬میں نے پوچھا کہ یہ کون ہے ؟ ان دونوں‬
‫نے کہا کہ ٓاگے بڑھو۔ چنانچہ ہم ٓاگے بڑھے تو تنور کی طرح ایک گڑھے تک پہنچے کہ اس کے اوپر کا حصہ تنگ اور نچال‬
‫چوڑا تھا اس کے نیچے ٓاگ روشن تھی جب ٓاگ کی لپٹ اوپر ٓاتی تو وہ لوگ (جو اس کے اندر تھے) اوپر ٓانے کے قریب‬
‫ہوجاتے اور جب ٓاگ بجھ جاتی تو دوبارہ پھر اس میں لوٹ جاتے اور اس میں مرد اور ننگی عورتیں تھیں۔ میں نے کہا کہ‬
‫یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ ٓاگے چلو۔ ہم ٓاگے بڑھے یہاں کہ ہم ایک خون کی نہر کے پاس پہنچے اس میں ایک شخص کھڑا‬
‫تھا اور نہر کے بیچ میں یا جیسا کہ یزید بن ہارون نے اور وہب بن جریر نے جریر بن حازم سے روایت کیا۔ نہر کے کنارے‬
‫ایک شخص تھا جس کے سامنے پتھر رکھے ہوئے تھے جب وہ ٓادمی جو نہر میں تھا سامنے ٓاتا تو (کنارے واال) ٓادمی اس‬
‫کے منہ پر پتھر مارتا اور وہیں لوٹ جاتا جہاں ہوتا میں نے پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ ٓاگے بڑھو ہم ٓاگے چلے‬
‫یہاں تک کہ ہم ایک سرسبز شاداب باغیچے کے قریب پہنچے جس میں بڑے بڑے درخت تھے اور اس کی جڑ میں ایک‬
‫بوڑھا اور چند بچے تھے اور ایک شخص اس درخت کے قریب اپنے سامنے ٓاگ سلگا رہا تھا۔ ان دونوں نے مجھے درخت پر‬
‫چڑھایا اور ہمیں ایسے گھر میں داخل کیا جس سے بہتر اور عمدہ گھر نہیں دیکھا اور اس میں بوڑھے اور جوان ٓادمی اور‬
‫عورتیں اور بچے ہیں پھر مجھے اس سے نکال کرلے گئے اور ایک درخت پر چڑھا دیا اور مجھے ایک گھر میں داخل کیا جو‬
‫بہتر اور عمدہ تھا۔ وہاں بوڑھوں اور جوانوں کو دیکھا‪ ،‬میں نے پوچھا کہ تم نے مجھے رات بھر گھمایا تو اس کے متعلق‬
‫بتأو جو میں نے دیکھا ان دونوں نے کہا بہتر! وہ ٓادمی جسے تم نے دیکھا کہ اس کا گلپھڑا چیرا جارہا ہے وہ شخص جھوٹا‬
‫ہے جو جھوٹی باتیں بیان کرتا تھا اور اس سے سن کر لوگ دوسروں سے بیان کرتے تھے یہاں تک کہ جھوٹی بات ساری‬
‫دنیا میں پھیل جاتی ہے اس کے ساتھ قیامت تک ایسا ہی ہوتا رہے گا اور جس کا سر پھوڑتے ہوئے تم نے دیکھا وہ شخص‬
‫تھا جسے اللہ نے قرٓان کا علم عطا کیا لیکن اس سے غافل ہو کر رات کو سو رہا اور دن کو اس پر عمل نہ کیا قیامت تک‬
‫اس کے ساتھ یہی ہوتا رہے گا تنور میں جن لوگوں کو تم نے دیکھا وہ زانی تھے اور جنہیں تم نے نہر میں دیکھا وہ سود‬
‫خور تھے اور ضعیف جنہیں تم نے درخت کی جڑ میں دیکھا وہ ابراہیم علیہ السالم تھے اور بچے ان کے اردگرد لوگوں کے‬
‫ہیں اور وہ شخص جو ٓاگ سلگا رہا تھا وہ مالک داروغہ دوزخ تھا اور وہ گھر جس میں تم داخل ہویے عام مومنین کا گھر‬
‫تھا اور یہ گھر شہداء کا ہے اور میں جبرییل اور یہ میکاییل ہیں اپنا سر اٹھأو میں نے اپنا سر اٹھایا تو اپنے اوپر بادل کی‬
‫طرح ایک چیز دیکھی ان دونوں نے کہا یہ تمہارا مقام ہے میں نے کہا مجھے چھوڑ دو کہ میں اپنی جگہ میں داخل ہو‬
‫جاوں ان دونوں نے کہا تمہاری عمر باقی ہے جو پوری نہیں ہوئی جب تم اس عمر کو پورا کرلو گے تو اپنے مقام میں ٓاجأو‬
‫‘‘گے۔‬

‫) بخاری ‪ ،‬کتاب الجنائز (‬


‫حدثنا سليمان بن حرب حدثنا حماد بن زيد عن أيوب عن ابن أبي مليکة عن عائشة رضي اهلل عنها قالت توفي النبي صلی‬
‫اهلل عليه وسلم في بيتي وفي يومي وبين سحري ونحري وکانت إحدانا تعوذه بدعائ إذا مرض فذهبت أعوذه فرفع رأسه‬
‫إلی السمائ وقال في الرفيق األعلی في الرفيق األعلی ومر عبد الرحمن بن أبي بکر وفي يده جريدة رطبة فنظر إليه النبي‬
‫صلی اهلل عليه وسلم فظننت أن له بها حاجة فأخذتها فمضغت رأسها ونفضتها فدفعتها إليه فاستن بها کأحسن ما کان‬
‫مستنا ثم ناولنيها فسقطت يده أو سقطت من يده فجمع اهلل بين ريقي وريقه في آخر يوم من الدنيا وأول يوم من اآلخرة‬

‫عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر ’’‬
‫میں‪ ،‬میری باری کے دن میرے سینہ سے ٹیک لگائے ہوئے فوت ہوئے ہمارا دستور تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار‬
‫ہوتے تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دعائیں پڑھ کر شفا طلب کرتے‪ ،‬چنانچہ میں نے یہ کام شروع کردیا رسول اکرم‬
‫نے آسمان کی طرف نظریں اٹھائیں اور فرمایا‪ :‬کہ فی الرفیق االعلٰی ‪ ،‬فی الرفیق االعلٰی ‪ ،‬اتنے میں عبدالرحمن آ گئے ان کے‬
‫ہاتھ میں ہری مسواک تھی‪،‬نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دیکھا‪ ،‬میں جان گئی اور فورا ان سے لے کر چبایا اور نرم‬
‫کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں دیدی‪ ،‬آپ نے اچھی طرح دانتوں میں مسواک کی‪ ،‬پھر وہ مسواک آپ مجھے‬
‫دینے لگے تو وہ آپ کے ہاتھ سے گر پڑی‪ ،‬اللہ کا فضل دیکھو‪ ،‬کہ اس نے آپ کے آخری دن میں میرا لعاب دہن آپ کے لعاب‬
‫دہن سے مال دیا۔‘‘( بخاری‪ ،‬کتاب المغازی‪ ،‬باب‪ :‬مرض النبی ﷺ و وفاتہ )‬

‫عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے واضح ہے کہ نبی ﷺ نےدنیا نہیں بلکہ آخرت کا مقام پسند فرمایا ‪ ،‬یہی عقیدہ‬
‫‪ :‬فاطمہ رضی اللہ عنہا اور دوسرے صحابہ کا ہے‬

‫حدثنا سليمان بن حرب حدثنا حماد عن ثابت عن أنس قال لما ثقل النبي صلی اهلل عليه وسلم جعل يتغشاه فقالت فاطمة‬
‫عليها السالم وا کرب أباه فقال لها ليس علی أبيک کرب بعد اليوم فلما مات قالت يا أبتاه أجاب ربا دعاه يا أبتاه من جنة‬
‫الفردوس مأواه يا أبتاه إلی جبريل ننعاه فلما دفن قالت فاطمة عليها السالم يا أنس أطابت أنفسکم أن تحثوا علی رسول‬
‫اهلل صلی اهلل عليه وسلم التراب‬

‫انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرض کی زیادتی سے بیہوش ہو گئے ’’‬
‫فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے روتے ہوئے کہا افسوس میرے والد کو بہت تکلیف ہے‪ ،‬آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‪:‬‬
‫آج کے بعد پھر نہیں ہوگی‪ ،‬پھر جب آپ کی وفات ہوگئی تو فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا یہ کہہ کر روئیں کہ اے میرے‬
‫والد‪ ،‬آپ اللہ کے بالوے پر اس کے پاس چلے گئے‪ ،‬اے میرے والد آپ جنت الفردوس میں اپنے مقام میں ضو آپ کا ہمیشہ‬
‫کا ٹھکانہ ہے‪ ،‬ہائے میرے ابا جان میں آپ کی وفات کی خبر جبرائیل کو سناتی ہوں۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دفن‬
‫کیا جا چکا تو فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہا تم لوگوں نے کیسے گوارہ کرلیا کہ اللہ کے‬
‫رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مٹی میں چھپا دو۔‘‘ ( بخاری‪ ،‬کتاب المغازی‪ ،‬باب‪ :‬مرض النبی ﷺ و وفاتہ )‬

‫کتنی وضاحت ہے اس حدیث میں کہ نبی ﷺ وفات پاتے ہی جنت الفردوس میں اپنے مقام پر چلے گئے۔‬
‫وفات النبی ﷺ پر ابو بکر کا خظبہ‬

‫حدثنا بشر بن محمد أخبرنا عبد اهلل قال أخبرني معمر ويونس عن الزهري قال أخبرني أبو سلمة أن عائشة رضي اهلل عنها‬
‫زوج النبي صلی اهلل عليه وسلم أخبرته قالت أقبل أبو بکر رضي اهلل عنه علی فرسه من مسکنه بالسنح حتی نزل فدخل‬
‫المسجد فلم يکلم الناس حتی دخل علی عائشة رضي اهلل عنها فتيمم النبي صلی اهلل عليه وسلم وهو مسجی ببرد حبرة‬
‫فکشف عن وجهه ثم أکب عليه فقبله ثم بکی فقال بأبي أنت يا نبي اهلل ال يجمع اهلل عليک موتتين أما الموتة التي کتبت‬
‫عليک فقد متها قال أبو سلمة فأخبرني ابن عباس رضي اهلل عنهما أن أبا بکر رضي اهلل عنه خرج وعمر رضي اهلل عنه يکلم‬
‫الناس فقال اجلس فأبی فقال اجلس فأبی فتشهد أبو بکر رضي اهلل عنه فمال إليه الناس وترکوا عمر فقال أما بعد فمن کان‬
‫منکم يعبد محمدا صلی اهلل عليه وسلم فإن محمدا صلی اهلل عليه وسلم قد مات ومن کان يعبد اهلل فإن اهلل حي ال يموت‬
‫قال اهلل تعالی وما محمد إال رسول قد خلت من قبله الرسل إلی الشاکرين واهلل لکأن الناس لم يکونوا يعلمون أن اهلل أنزلها‬
‫حتی تالها أبو بکر رضي اهلل عنه فتلقاها منه الناس فما يسمع بشر إال يتلوها‬

‫) بخاری‪ ،‬کتاب الجنائز‪ ،‬باب میت کے پاس ۔ ۔ ۔ (‬

‫عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا زوجہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا‪ ،‬ابوبکر رضی اللہ تعالٰی ’’‬
‫عنہ اپنے گھوڑے پر مقام سخ سے آئے یہاں تک کہ گھوڑے سے اترے اور مسجد میں داخل ہوئے کسی سے گفتگو نہ کی‬
‫یہاں تک کہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے پاس پہنچے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گئے ‪ ،‬آپ کو یمنی چادر‬
‫اڑھائی گئی تھی‪ ،‬آپ کے چہرے سے چادر اٹھائی پھر آپ پر جھکے اور آپ کے چہرے کو بوسہ دیا پھر روئے اور فرمایا اے‬
‫اللہ کے نبی آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں‪ ،‬اللہ آپ پر دو موتوں کو جمع نہیں کرے گا‪ ،‬وہ موت جوآپ کے لئے مقدور تھی‬
‫تو وہ آپ پر آچکی۔ ابوسلمہ کا بیان ہے کہ مجھے ابن عباس نے خبر دی کہ ابوبکر باہر نکلے اور عمر لوگوں سے گفتگو کر‬
‫رہے تھے‪ ،‬ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان سے کہا کہ بیٹھ جاؤ انہوں نے انکار کردیا پھر کہا کہ بیٹھ جاؤ انہوں نے پھر‬
‫انکار کیا‪ ،‬چنانچہ ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تشہد پڑھا لوگ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور عمر کو چھوڑ دیا کہا‬
‫امابعد! تم میں سے جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا۔ تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے‬
‫اور جو اللہ کی عبادت کرتا تھا تو اللہ زندہ ہے‪ ،‬نہیں مرے گا‪ ،‬اللہ تعالٰی نے فرمایا‪َ( :‬و َم ا ُم َح َّم ٌد ِا اَّل َر ُس ْو ٌل ۚ َق ْد َخ َلْت ِم ْن َق ْب ِلِه‬
‫ٰٓل‬
‫الُّر ُس ُل ۭ َاَف ۟ا ِٕىْن َّم اَت َا ْو ُق ِت َل اْنَق َلْب ُت ْم َع ى َا ْع َق اِب ُكْم ۭ َو َم ْن َّي ْن َق ِل ْب َع ٰل ي َع ِق َبْي ِه َف َلْن َّي ُض َّر َهّٰللا َش ـْي ــًٔـ ـا ۭ َو َس َي ْج ِز ي ُهّٰللا الّٰش ِك ِر ْي َن‬
‫؁‪ ’’١٤٤‬محمدمحض ایک رسول ہیں‪ ،‬ان سے پہلے بھی بہت رسول گزرے ہیں‪ ،‬اگر یہ فوت ہو جائیں یا شہید ہو جائیں تو‬
‫تم الٹے پأوں پھر جأوگے‪ ،‬اور جو کوئی الٹے پاٌو ں پھر گیا تو وہ اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا اور اللہ اپنے شکر‬
‫گزار بندوں کا ضرور جزا دے گْا‘‘ ( آل عمران ‪) ۱۴۴ :‬واللہ اس سے پہلے لوگ گویا جانتے ہی نہ تھے کہ اللہ نے یہ آیت نازل‬
‫فرمائی ہے‪ ،‬یہاں تک کہ ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس آیت کی تالوت فرمائی لوگوں نے یہ آیت ان سے سن کر اخذ کی‬
‫اور کوئی شخص سنا نہیں جاتا تھا مگر اس کی تالوت کرتا تھا۔‘‘ ( بخاری کتاب المغازی ‪ ،‬باب ‪ :‬مرض النبی ﷺ و وفاتہ‬
‫)‬

‫‪ :‬کسی صحابی کا یہ عقیدہ نہیں تھا کہ نبی ﷺ مدینی والی قبر میں زندہ ہیں‬
‫حدثنا يسرة بن صفوان بن جميل اللخمي حدثنا إبراهيم بن سعد عن أبيه عن عروة عن عائشة رضي اهلل عنها قالت دعا‬
‫النبي صلی اهلل عليه وسلم فاطمة عليها السالم في شکواه الذي قبض فيه فسارها بشيئ فبکت ثم دعاها فسارها بشيئ‬
‫فضحکت فسألنا عن ذلک فقالت سارني النبي صلی اهلل عليه وسلم أنه يقبض في وجعه الذي توفي فيه فبکيت ثم سارني‬
‫فأخبرني أني أول أهله يتبعه فضحکت‬

‫عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قریب وفات ’’‬
‫فاطمہ رضی اللہ عنہما کو بالیا اور آہستہ آہستہ کچھ باتیں کیں جن کو سن کر وہ رونے لگیں اور پھر کچھ اور فرمایا تو‬
‫وہ ہنسنے لگیں میں نے ان سے اس کی وجہ پوچھی (یعنی بعد وفات) تو انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‬
‫نے پہلے تو یہ کہا تھا کہ میں اس بیماری میں ہی وفات پا جاؤں گا تو میں رونے لگی پھر فرمایا کہ میرے اہل بیت سے‬
‫سب سے پہلے تم ہی مجھے ملو گی تو پھر میں خوش ہو گئی۔‘‘ ( بخاری‪ ،‬کتاب المغازی‪ ،‬باب‪ :‬مرض النبی ﷺ و وفاتہ )‬

‫حدثنا محمود بن غيالن أبو أحمد حدثنا الفضل بن موسی السيناني أخبرنا طلحة بن يحيی بن طلحة عن عاشة بنت طلحة‬
‫عن عاشة أم المؤمنين قالت قال رسول اهلل صلی اهلل عليه وسلم أسرعکن لحاقا بي أطولکن يدا قالت فکن يتطاولن أيتهن‬
‫أطول يدا قالت فکانت أطولنا يدا زينب ألنها کانت تعمل بيدها وتصدق‬

‫ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے ’’‬
‫سب سے پہلے مجھ سے وہ ملے گی کہ جس کے ہاتھ سب سے زیادہ لمبے ہوں گے تو ساری ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن‬
‫اپنے اپنے ہاتھ ناپنے لگیں تاکہ پتہ چلے کہ کس کے ہاتھ لمبے ہیں سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں کہ ہم سب‬
‫میں سے زیادہ لمبے ہاتھ زینب رضی اللہ تعالٰی عنہا کے تھے کیونکہ وہ اپنے ہاتھ سے محنت کرتی اور صدقہ خیرات دیتی‬
‫تھیں۔‘‘ ( مسلم ‪،‬فضائل کا بیان‪ ،‬فضائل زینبؓ )‬

‫نبی ﷺ نے فاطمہؓ اور زینبؓ کے لئے فرمایا کہ یہ دونوں سب سے پہلے مجھے ملیں گی۔ صحابہؓ کو نبی ﷺ کے اس بیان‬
‫کا الزمی معلوم تھا‪ ،‬اور ان کا عقیدہ یہی تھا کہ نبی ﷺ مدینہ والی قبر میں نہیں جنت الفردوس میں سب سے اعلی‬
‫مقام پر زندہ ہیں۔ اگر ان کا عقیدہ یہ ہوتا کہ کہ نبیﷺ اس حجرہ عائشہؓ میں زندہ ہیں تو وہ انہیں انہی کیساتھ دفن‬
‫کرتے۔ یہ اس بات کا مکمل ثبوت ہے کہ ان سب کا عقیدہ ہرگز یہ نہیں تھا۔‬

You might also like