Professional Documents
Culture Documents
ناموسِ رسالت
ناموسِ رسالت
فتح مکہ* کے موقع پر عام معافی کا اعالن کردیا گیا تھا ،لیکن شاتم* 1:
*رسولﷺ* ابن خطل کو معافی نہیں دی گئی ،اس نے خانہ کعبہ کا پردہ
پکڑا تھا اور اسی حالت میں اسے واصل جہنم کیا گیا ،ابن خطل کی دو
لونڈیوں کا خون بھی *حضور ﷺ* نے رائیگاں قرار دیا تھا ،کیونکہ وہ
بھی *حضور ﷺ* کی شان میں ہجویہ اشعار گایا کرتی تھیں۔
مدینہ منورہ* میں ابو عفک نامی ایک شخص نے بارگاہ رسالت میں* 2:
ہجویہ نظم لکھی* ،حضرت سالم بن عمیؓر * نے *حضور ﷺ* کے ارشاد پر
جاکر اسے واصل جہنم کیا۔
حویرث بن نقیذ *رسول الّٰلہﷺ* کو ایذاء دیا کرتا تھا *آپﷺ* نے اس6:
کا خون رائیگاں قرار دیا یوم فتح کو اپنے گھر میں چھپ کر اس نے
دروازہ بند کر لیا *حضرت علی المرتضٰؓی * نے آ کر اس کے بارے میں
پوچھا تو کہا گیا وہ گاؤں میں ہے پس حویرث کو بتایا گیا کہ تجھے
تالش کیا جا رہا ہے *حضرت علی المرتضٰؓی * دروازہ کے ساتھ ہو کر کھڑے
ہو گئے حویرث ایک گھر سے دوسرے گھر بھاگنے کے ارادے سے نکال
*حضرت علی المرتضٰؓی * نے اسے پکڑ کر اس کی گردن مار دی
)الصارم المسلول صفحہ(١۲۸
ابو رافع یہود کا سردار اور عرب کے مالدار لوگوں میں سے تھا وہ7:
*غزوۂ خندق* کےلیئے اس نے مشرکین کو ابھارا اور ان کی مالی امداد
بھی کی اسی کے اکسانے پر آئے ,یہ *سّی د عالمﷺ* کی ہجو کر کے
*آپﷺ* کو تکلیف پہنچاتا تھا* ,آپﷺ* نے اس کے قتل کا فیصلہ
فرمایا
حضرت براء بن عازؓب * فرماتے ہیں* " :رسول الّٰلہﷺ* نے ابو رافع*
یہودی کی جانب *انصار کراؓم * کے کچھ لوگوں کو بھیجا اور ان پر
*عبدالّٰلہ بن عتیؓق * کو امیر بنایا .ابو رافع *رسول الّٰلہﷺ* کو ایزا دیتا
"تھا اور *حضورﷺ* کے مخالفین کی مدد کرتا تھا
وہ سرزمیِن حجاز میں اپنے ایک قلعہ میں رہتا تھا ,جب وہ لوگ اس کے
قریب پہنچے تو سورج ڈوب چکا تھا اور لوگ اپنے مویشی لے کر آ چکے
تھے* ,عبدالّٰلؓہ * نے اپنے ساتھیوں سے کہا تم لوگ اپنی جگہ بیٹھو اور میں
جا کر دربان سے کوئ حیلہ کرتا ہوں ہو سکتا ہے کہ میں اندر داخل ہو
جاؤں ,وہ آگے بڑھے یہاں تک کہ وہ دروازے کے قریب پہنچ گئے ,اور اپنے
آپ کو کپڑے میں اس طرح چھپایا گویا کہ وہ رفع حاجت کر رہے ہیں
سب لوگ اندر داخل ہو چکے تھے دربان نے آواز دی :اے *الّٰلہ* کے بندے!
اگر تو اندر آنا چاہتا ہے تو آ جا میں دروازہ بند کرنے جا رہا ہوں .پس میں
قلعہ کے اندر چال گیا اور چھپ گیا جب لوگ اندر آ گئے تو دربان نے دروازہ
بند کر کے چابیاں ایک کیل پر لٹکا دیں* ( ,حضرت عبدالّٰلؓہ * فرماتے ہیں)
جب لوگ سو گئے میں نے ان کنجیوں کو لے لیا اور دروازہ کھوال ,ابو رافع
کے یہاں رات میں بات چیت کی جاتی تھی ابورافع اپنے باال خانے میں تھا
جب وہ بات چیت کرنے والے لوگ چلے گئے تو میں اوپر چڑھا اور جو
دروازہ کھولتا اسے اندر سے بند کر لیتا تاکہ اگر لوگوں کو میرا علم ہو
جائے تو بھی مجھ تک اس وقت تک نہ پہنچ پائیں جب تک میں اسے قتل
نہ کر لوں* ,میں* ابو رافع تک پہنچا وہ ایک تاریک کمرے میں اپنے اہل و
عیال کے پاس سو رہا تھا مجھے اندازہ نہ ہو سکا کہ وہ کہاں ہے میں نے
بلند آواز سے کہا ابو رافع .اس نے کہا یہ کون ہے؟ تو میں نے آواز کی
طرف نشانہ درست کر کے تلوار سے ضرب لگائ میں گھبرایا ہوا تھا میں
کچھ نہیں کر سکا اور وہ چیخا میں کمرے سے باہر نکل آیا تھوڑی دیر رکا
رہا پھر اس کے پاس اندر گیا اور آواز بدل کر کہا :یہ کیسی آواز ہے ,اے
ابو رافع .اس نے کہا تیری ماں کےلیئے خرابی ہو کچھ دیر پہلے ایک
شخص نے گھر کے اندر مجھ پر تلوار سے حملہ کیا* ,عبدالّٰلؓہ * نے کہا میں
نے اب اس کو پھر مارا جس سے وہ زخمی ہوگیا لیکن وہ مرا نہیں پھر
میں نے تلوار کی نوک اس کے پیٹ پر رکھ کر دبائ جو س کی پیٹھ تک
پہنچ گئ اب مجھے یقین ہوا کہ میں نے اسے قتل کر دیا ہے اب میں ایک
ایک دروازہ کھولتا جاتا یہاں تک میں سیڑھی تک پہنچ گیا میں نے اپنا
پاؤں رکھا میں سمجھا میں زمین تک پہنچ گیا ہوں میں گر گیا .چاندنی
رات تھی میری پنڈلی ٹوٹ گئ جس کو میں نے عمامہ سے باندھا پھر چال
یہاں تک کہ دروازے پر آ کر کے بیٹھ گیا اور اپنے دل میں سوچا آج رات
اس وقت تک نہیں نکلوں گا جب تک یہ معلوم نہ کر لوں کہ میں نے اسے
قتل کر دیا یے ,جب مرغ بوال تو قلعہ کی دیوار پر ایک پکارنے والے نے
اعالن کیا کہ میں اہل حجاز کے تاجر ابورافع کی موت کا اعالن کرتا ہوں
اب میں اپنے ساتھیوں کے پاس آیا اور میں نے کہا نجات حاصل ہوئ
*الّٰلہ* نے ابو رافع کو قتل کر دیا چنانچہ میں *نبی کریمﷺ* کی خدمت
میں حاضر ہوا اور قصہ بیان کیا *آپﷺ* نے فرمایا اپنا پاؤں پھیال میں
نے پاؤں پھیالیا *حضورﷺ* نے اپنا دست مبارک پھیرا تو وہ ایسے ہوگیا
.گویا اس میں کبھی کوئ تکلیف نہیں تھی
جو شخص اپنی رائے ,مال اور ہاتھ سے *رسول الّٰلہﷺ* کے خالف مدد"
کرے (یہ حدیث) اس کے قتل کے جواز پر دلیل ہے ابو رافع *رسول
" الّٰلہﷺ* کا دشمن تھا اور لوگوں کو بھی اس دشمنی پر ابھارتا تھا
ایک شخص *رسول الّٰلہﷺ* کو سب و شتم کیا کرتا تھا *آپﷺ* نے8:
*"فرمایا"* :میرے دشمن کی خبر کون لے گا
حضرت خالؓد * نے عرض کی " *یارسول الّٰلہﷺ* میں حاضر ہوں" تو*
*نبی کریمﷺ* نے انہیں بھیجا اور *حضرت خالؓد * نے اس شخص کو
.قتل کر دیا
امام نسائی نے روایت کیا ہے حضرت مصعؓب اپنے والد محترم سے بیان 9:
:کرتے ہیں کہ
فتح مکہ* کے دن *حضور نبی کریمﷺ* نے تما م لوگوں کیلئے عام* ’’
معافی کا اعالن فرمایا سوائے چار (گستاخ) مردوں اور دو عورتوں کے-
(:ان کے بارے میں) *آپ ﷺ* نے اپنی زبان گوہرفشاں سے ارشادفرمایا
*‘ُاْق ُت ُلوُه ْم َ ،و ِإْن َو َج ْد ُت ُم وُه ْم ُم َت َع ِّلِق يَن ِب َأ ْس َت اِر اْلَكْع َب ِة ’’*
وہ جہاں کہیں بھی ملیں ) انہیں قتل کر دو اگرچہ انہیں کعبہ شریف (’’*
*‘‘کے پردوں سے ہی چمٹے ہوئے پاؤ
انہی چارمردوں میں سے ) ابن خطل (یہ پرلے درجے کا گستاخ تھا اس نے(
دو گانے والی (معاذالّٰلہ) *حضور نبی رحمتﷺ* کی ہجو کیلیے رکھی
ہوئی تھیں) کعبہ کے پردوں میں لپٹاہوا پایا گیا-اسے قتل کرنے کیلئے
*حضرت عمار بن یاسؓر * اور *حضرت سعید بن حریؓث * اس کی طرف
بڑھے* -حضرت سعید بن حریؓث حضرت عماؓر * سے زیادہ نوجوان تھے
*آپ (حضرت سعید بن حریؓث )* نے آگے بڑھ کر اسے قتل کر دیا اسی
طرح ’’َم ِق يُس ْبُن ُص َب اَب َة ‘‘ کو صحابہ کراؓم نے بازار میں پایا اور قتل کر دیا
‘‘-
یاد رہے کہ اس دن مکہ میں گستاخوں کے ساتھ ساتھ اسالم کے بدترین
دشمن موجود تھے ،سب کو معافی ملی لیکن ابن خطل ملعون کو کعبہ کے
پردوں میں چھپنے کے باوجود واصِل جہنم کیا گیا-حاالنکہ عقًال تو اسے
حرم پاک سے دور واصِل جہنم کیا جاتا لیکن *حضور رسالت مآبﷺ* کی
بارگاِہ اقدس سے حکم مبارک ملتا ہے کہ اس کو وہیں قتل کر دو -ہمارے
قلوب و اذہان میں یہ بات راسخ رہے کہ *حضور نبی کریمﷺ* کے اقوال
و افعال مبارکہ منشاء خداوند ہیں کیونکہ الّٰلہ رب العزت نے خود ارشاد
:فرمایا
اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتےوہ تو نہیں مگر وحی جو’’
ُ‘‘-ا نہیں کی جاتی ہے
ابن تیمیہ نے الصارم المسلول میں لکھا ہے کہ ابن خطل اشعار کے زریعے
سے *رسول الّٰلہﷺ* کی ہجو کرتا تھا اور اپنی باندی کو وہ اشعار گانے
کیلئے کہا کرتا تھا،تو اسکے ُکل تین جرم تھے جس کی وجہ سے وہ مباح
الدم قرار پایا ،اول ارتداد دوسرا قتل اور تیسرا حضور صل اللہ علیہ
وسلم کی ان میں گستاخی۔
اور ابن خطل کے ان دونوں باندیوں کے قتل کانبی صل اللہ علیہ وسلم
نےحکم دیا تھا۔
دراصل اشعار ابن خطل کے ہوتے تھے اور اسکو عوام کے سامنے گانے والی
اسکی دو باندیاں تھیں۔
بعث رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم الٰی ابی رافع الیھودی رجاال من 11:
االنصاروامر علیھم عبد اللہ بن عتیق وکان ابو رافع یؤذی رسول اللہ صل
اللہ علیہ وسلم و یعین علیہ ۔
)بخاری(
:ترجمہ
رسول الّٰلہﷺ* نے ابو رافع یہودی کو قتل کرنے کیلئے چند انصار کا*
انتخاب فرمایا ،جن کا امیر *عبد اللہ بن عتیؓق * مقرر کیا ۔یہ ابو رافع
*نبی پاکﷺ* کو تکالیف دیتا تھا اور آپ صل اللہ علیہ وسلم کے خالف
لوگوں کی مدد کرتا تھا۔
اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ گستاخ *رسولﷺ* کے قتل کیلئے
باقاعدہ آدمی مقرر کئے جاسکتے ہیں اور نیز یہ بڑے اجر و ثواب کا کام ہے
نہ کہ باعث سزا و مالمت۔کیونکہ یہ لوگ ایک بہت ہی بڑا کارنامہ اور
دینی خدمت انجام دے رہے ہیں۔
َق اَل َع ْم ٌر و َس ِم ْع ُت َج اِب َر ْبَن َع ْب ِد الَّلِه َرِض َي الَّلُه َع ْنُه َم اَي ُق وُل َق اَل َرُس وُل 12:
الَّلِه َص َّلى الَّلُه َع َلْي ِه َو َس َّلَم َم ْن ِل َكْع ِب ْب ِن اَأْلْش َر ِف َف ِإ َّن ُه َق ْد آَذ ى الَّلَه َو َرُس وَلُه
َص َّلى الَّلُه َع َلْي ِه َو َس َّلَم َف َق اَل ُم َح َّم ُد ْبُن َم ْس َلَم َة َأ َن ا َف َأ َت اُه َف َق اَل َأ َر ْد َن ا َأ ْن ُت ْس ِل َف َنا
َو ْس ًق ا َأ ْو َو ْس َق ْي ِن َف َق اَل اْر َهُنوِني ِن َس اَء ُكْم َق اُلوا َكْي َف َن ْر َه ُنَك ِن َس اَء َن ا َو َأ ْن َت
َأ ْج َم ُل اْلَع َر ِب َق اَل َف اْر َهُنوِني َأ ْبَناَء ُكْم َق اُلوا َكْي َف َن ْر َه ُن َأ ْبَناَء َن ا َف ُي َس ُّب َأ َح ُد ُه ْم
َف ُي َق اُل ُر ِه َن ِب َو ْس ٍق َأ ْو َو ْس َق ْي ِن َه َذ ا َع اٌر َع َلْي َنا َو َلِك َّنا َن ْر َه ُنَك الْأَّل َم َة َق اَل ُس ْف َي اُن
َي ْع ِني الِّس اَل َح َف َو َع َد ُه َأ ْن َي ْأ ِت َي ُه َف َق َت ُلوُه ُث َّم َأ َت ْو ا الَّن ِب َّي َص َّلى الَّلُه َع َلْي ِه َو َس َّلَم
َف َأ ْخ َب ُر وُه
)بخاری،باب الرھن(
:مختصرترجمہ
حضرت عمرو بن العاؓص * روایت کرتے ہیں کہ میں نے *جابر بن عبداللؓہ **
سے سنا کہ *حضورﷺ* نے فرمایا کہ کون کھڑا ہوگا کعب بن اشرف
کیلئے کیونکہ اس نے *الّٰلہ* اور اسکے *رسولﷺ* کو تکلیفیں دی ہیں تو
*محمد بن مسلمؓہ * اٹھ کھڑے ہوے اور پھر جا کر اسکو قتل کردیا۔اور
پھر *حضورﷺ* کو اطالع دی کہ میں نے اسکو قتل کردیا۔
اس حدیث کے ذیل میں فتح الباری نے لکھا ہے کہ یہاں *الّٰلہ* اور اسکے
*رسولﷺ* کو اذیت پہنچانے سے مراد یہ ہے کہ اس نے اپنے اشعار کے
ذریعے *نبی پاکﷺ* کو تکالیف دی تھیں اور مشرکوں کی مدد کی تھی۔
حضرت عمرو سے روایت ہے کہ یہ کعب بن اشرف *نبی کریمﷺ* کی
ہجو کرتا تھا اور قریش کومسلمانوں کے خالف ابھارتا تھا۔ یہ یہودی
*نبیﷺ* کو اور انکے واسطے سے *الّٰلہ* کو اذیت دیتا تھا تو *نبیﷺ*
نے اسکے قتل کا اعالن کیا اور *محمد بن مسلمؓہ * نے اسکو قتل کرکے
*حضورﷺ* کو اسکےقتل کی اطالع دےدی۔
فتح مکہ کے موقع پر عام معافی کا اعالن کردیا گیا تھا ،لیکن شاتم13:
*رسولﷺ* ابن خطل کو معافی نہیں دی گئی ،اس نے خانہ کعبہ کا پردہ
پکڑا تھا اور اسی حالت میں اسے واصل جہنم کیا گیا ،ابن خطل کی دو
لونڈیوں کا خون بھی *حضور ﷺ* نے رائیگاں قرار دیا تھا ،کیونکہ وہ
بھی *حضور ﷺ* کی شان میں ہجویہ اشعار گایا کرتی تھیں۔
مدینہ منورہ* میں ابو عفک نامی ایک شخص نے بارگاہ رسالت میں*14:
ہجویہ نظم لکھی* ،حضرت سالم بن عمیؓر * نے *حضور ﷺ* کے ارشاد پر
جاکر اسے واصل جہنم کیا۔
)الطبقات (١۴١/۲
امام ابن اسحاؒق رقمطرز ہیں" :جب *رسول الّٰلہﷺ* *طائف* سے پلٹ کر
*مدینہ* تشریف الئے تو بجیر بن ُز بیر نے اپنے بھائ کعب بن ُز بیر کو خط
لکھا کہ *رسول الّٰلہﷺ* نے مکہ میں ان لوگوں کو قتل کروا دیا ہے
ان لوگوں میں سے عبدالّٰلہ بن ابئ ,عبدالّٰلہ بن ابی امیہ بن اور المغیرہ اور
ابو سفیان بن بن الحارث بن عبدالمطلب تھے اور اس کا *رسول الّٰلہﷺ*
کی ہجو میں واقعہ مشہور ہے المغازی للواقدی (,)۷۰۹/۲,۷١۰
)والسیرۃ(۴۰۰/۴۰١
حاالنکہ ابو سفیان *آپﷺ* کا رضاعی بھائ تھا* ,حضرت حلیمہ* نے
اسے بھی دودھ پالیا تھا ,مگر *رسول الّٰلہﷺ* اپنی ہجو اور اپنے صحابؓہ
کے ہجو کی وجہ سے اس کے خون کو بھی رائیگاں قرار دیا ہے ,یہاں تک
وہ آیا اور معزرت کی اور اسالم قبول کیا* ,حضرت عباس* جو *رسول
الّٰلہﷺ* کے چچا کو اور *حضرت علی رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ* اور دیگر
صحابہ کو اپنا سفارشی بنایا ,پھر *رسول الّٰلہﷺ* اپنے اسالم اور معزرت
کے حوالے سے اشعار کہے یہاں تک کہ *رسول الّٰلہﷺ* کا دل پسیج گیا.
ایک روایت میں یوں ہے کہا" :ہم نے *رسول الّٰلہﷺ* سے اندر آنے کی
اجازت چاہی تو *آپﷺ* نے اجازت نہ دی* ,رسول الّٰلہﷺ* کی بیوی *ام
سلمہ* نے عبدالّٰلہ بن ابی امیہ اور ابو سفیان بن الحارث کے بارے میں
گفتگو کی کہا* :یا رسول الّٰلہﷺ* آپ کا ازدواجی رشتہ ہے* ,آپﷺ* کی
پھوپھی کا بیٹا ہے ,آپ کے چچا کا بیٹا ہے ,اور آپ کا بھائ ہے* ,الّٰلہ
تعالٰی * ان دونوں کو مسلمان بنا کر الیا ہے اور *آپﷺ* کے کے ساتھ مل
لر بدبخت نہیں ہو سکتے* ,آپﷺ* نے ان لوگوں کو بھی معافی دی ہے
جن کا جرم ان دونوں کے جرم سے سنگین تھا اور *آپﷺ* نے لوگوں
میں سب سے زیادہ ان کے جرم کو معاف کرنے والے ہیں* ,آپﷺ* نے
:فرمایا
جب یہ بات ابو سفیان تک پہنچی ,اس کے ساتھ اس کا بیٹا تھا ,تو کہنے
لگا* " :الّٰلہ* کی قسم! وہ میتی معزرت کو قبول کرے گا یا پھر میں اپنے
بیٹے کے ہمراہ صحرا میں بھوکا اور پیاسا تڑپ تڑپ کر جان دے دوں گا,
*آپﷺ* تو لوگوں میں سب سے زیادہ بردبار ہیں ,سب سے زیادہ احترام
"کرنے والے ہیں
عبدالّٰلہ بن ابی امیہ طائف میں مقتول ہو گئے اور ابوسفیان *خالفت عمر
رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ* میں *مدینہ منورہ* میں انتقال فرمایا *رضی الّٰلہ
عنہما* ,وجہ داللت یہ ہے کہ *رسول الّٰلہﷺ* نے ابو سفیان بن الحارث کا
خون رائیگاں قرار دیا ,حاالنکہ دیگر سرداران قریش جو جہاد کے خالف
اپنی جانوں اور اموال کے خوب پیش پیش کرتے تھے ,کا خون رائیگاں
قرار نہ دیا .ابو سفیان کا جرم *رسول الّٰلہﷺ* کی گستاخی اور ہجو کے
عالوہ اور کچھ نہ تھا ,پھر وہ مسلمان ہوگئے اور *آپﷺ* پھر بھی اس
سے اعراض کرنے لگے ,حاالنکہ *آپﷺ* کا یہ طرز عمل تو یہ تھا کہ
*آپﷺ* کنارہ کشی کرنے والوں سے الفت ڈالنے کی کستجو کرتے ,ابو
سفیان تو *آپﷺ* کے خاندان کا آدمی تھا! معلوم ہوا کہ اس نفرت کا
.سبب توہین رسالت تھا ,جیسا کہ حدیث میں اس کی تفصیل موجود ہے
)المغازی (۸١۰/۲
رسول الّٰلہ ﷺ* *فتح مکہ* کے سال *مکہ مکرمہ* میں داخل ہوئے17:*,
*آپﷺ* کے سر پر لوہے کا خود (ٹوپی) تھی ,جب *آپﷺ* نے اسے اتارا,
ایک آدمی آیا اور کہنے لگا" :ابن خطل کعبہ کے پردے سے لٹکا ہوا ہے"
:ارشاد فرمایا
یہ واقعہ بھی انتہائ معروف ہے ,صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں
موجود ہے اور وہ مقتول ہوگیا
اس کا جرم یہ تھا کہ *رسول الّٰلہﷺ* نے اسے عامل زکٰو ۃ بنا کر بھیجا
اور اس کی خدمت میں ایک خادم بھی روانہ کیا ,اسے اپنے ساتھی پر اس
وجہ سے غصہ آ گیا کہ اس نے اس کےلیئے کھانا تیار نہیں کیا تو اس نے
اپنے خادم کو قتل کر دی ,پھرسے اندیشہ الحق ہوا کہ اسے بھی قصاصًا
قتل کیا جائے گ ,اسی لیئے یہ مرتد ہوگیا اور اونٹوں کو ہانک کر لے گیا
اور *رسول الّٰلہﷺ* کی ہجو کرنے لگا ,اپنی لونڈیوں کو حکم دیتا وہ
اسکے ہجو کو گاتیں
گویا تین جرائم اس کے خون کو مباح کر گئے ,جان کا قتل ,ارتداد اور ہجو
اسے قتل کرنا ممکن نہیں تھا کیونکہ اس پر قصاص تھا ,اس لیئے چاہیئے
یہ تھا کہ وہ مقتول کے اولیاء ,قبیلہ خزاعہ کے سپرد کر دیا جاتا ,یا تو وہ
اسے قتل کرتے ,یا معاف کردیتے یا دیت لے لیتے
محض ارتداد کی بنا پر بھی قتل درست نہیں تھا کیونکہ مرتد سے توبہ
کروائ جائے گی اور اگر وہ مہلت مانگے تو اسے مہلت بھی دی جائے گی
اور یہ ابن خطل اپنے گھر سے بھاگا پناہ طلب کرتے ہوئے ,اسلحہ پھینکتے
ہوئے مگر ان سب چیزوں کے جاننے کے باوجود *رسول الّٰلہﷺ* نے اس
کے قتل کا حکم دیا اور جو صرف مرتد ہوتا تھا تو *آپﷺ* کا یہ طریقہ
نہ ہوتا کہ اسے قتل کر دیا جائے لٰہ زا ثابت ہوا کہ یہ قتل کا حکم ہجو اور
گستاخی کی وجہ سے تھا
دو لونڈیاں جو *رسول الّٰلہﷺ* اور بنی ہاشم کے خالف ہجو کرتی18:
تھیں
اہِل سیرت کے ہاں یہ مشہور و معروف ہے* ,رسول الّٰلہﷺ* نے ابن خطل
کی دو لونڈیاں ,جو *رسول الّٰلہﷺ* کی ہجو کرتی تھیں ,کے قتل کا حکم
صادر فرمایا ,ان میں سے ایک قتل کی گئ اور دوسری روپوش ہوگئ,
یہاں تک کہ اسے جان کی امان دی گئ ,اسے محمد بن عائؒد ,ابن اسحاؒق
.اور عبدالّٰلہ بن حزؒم نے نقل کیا ہے
ایک قول یہ بھی ہے کہ دونوں لونڈیاں ابن خطل کی تھیں* ,رسول
:الّٰلہﷺ* نے فرمایا
اور دونوں کے واقعہ پر اہِل سیرت کا اتفاق ہے اور مشہور واقعہ ہے ,اس
سے معلوم ہوتا ہے کہ محض کفر اصلی کی بنیاد پر کسی عورت کو جان
بوجھ کر قتل کرنا باالجماع جائز نہیں ہے اور *رسول الّٰلہﷺ* کی یہ
سنت بھی معروف ہے کہ *آپﷺ* نے عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع
.فرمایا
عصماء بنت مروان کا واقعہ ہے ,جسے *حضرت عبدالّٰلہ بن عباؓس * 19:
بیان کرتے ہیں کہ قبیلہ خطمہ کی ایک عورت نے *رسول الّٰلہ ﷺ* کی
:ہجو کی تو *رسول الّٰلہ ﷺ* نے پوچھا
اس کی قوم کے ایک آدمی نے کہا" :میں اس کا کام تمام کروں گا" ,وہ
آدمی گئے اور اس کو قتل کر ڈاال تو *رسول الّٰلہﷺ* کو اطالع دی,
*:آپﷺ* نے فرمایا
)االکامل (١۴٥۰/٦
اہل المغازی کے ہاں اس کا واقعہ بڑی تفصیل سے بیان ہوا ہے ,اس عورت
کے قاتل کا نام *عمیر بن عدؓی * تھا تو *حضرت حساؓن * نے چند اشعار
میں ان کی مدح سرائ کی
یہ بھی ثابت ہوا کہ *رسول الّٰلہﷺ* کا گستاخ مستحِق قتل ہےلیکن یہ
کام صرف حکومت کر سکتی ہے عوام اس کے مجاز نہیں
تو *محمد بن مسلمؓۃ * کعب کے پاس آئے اور اس سے کہنے لگے کہ اس مرد
نے ہم سے صدقہ مانگا ہے اور ہمیں مشقت میں ڈال دیا ہے اور میں تیرے
پاس قرضہ مانگنے آیا ہوں ,کعب نے کہا :الّٰلہ کی قسم! تم اس سے اور
بھی زیادہ مالل میں پڑو گے
محمؓد * نے کہا :ہم چونکہ اس کی اتباع کر چکے ہیں لٰہ زا ہم نہیں چاہتے*
کہ اس کو چھوڑ دیں حتٰی کہ دیکھیں کہ اس کا کیا انجام ہوگا* ,محمؓد *
نے کہا کہ میں نے ارادہ کیا ہے کہ تو مجھے قرض دے دے ,کعب نے کہا
(گروی) کیا رکھے گا؟ ,انہوں نے کہا تیرا کیا ارادہ ہے ,کعب نے کہا تم اپنی
عورتیں میرے ہاں گروی رکھو ,انہوں نے جواب دیا تم عرب کے حسین
ترین شخص ہو ,ہم تمہارے پاس اپنی عورتیں کیسے گروی رکھ سکتے
,ہیں ,کعب نے اس سے کہا :تو اپنی اوالد میرے ہاں گروی رکھو
راوی نے کہا کہ جب وہ اترا اس حال میں کہ بغل سے نیچے کپڑا نکال کر
کندھے پر ڈالے ہوئے تھا تو انہوں نے کہا "ہم تیرے سے خوشبو محسوس
کرتے ہیں" ,کہنے لگا کہ مستوراِت عرب میں سب سے زیادہ سے زیادہ
خوشبو والی میرے نیچے ہے* ,محمؓد * نے کہا :کیا مجھے اجازت ہے کہ
میں تیرے سر کو سونگھ لوں ,اس نے کہا :ہاں ,تو *محمؓد * نے اس کے سر
کو سونگھا اور قابو پا گئے ,ساتھیوں سے کہا :اسے قتل کر دو تو انہوں نے
,قتل کر دیا
)صحیح بخاری جلد ,۲ص ٥۷٦و صحیح مسلم جلد ,۲ص (١١۰
اس واقعہ کو امام ابوالقاسم عبدالّٰلہ بن محمد البغوؒی اور ابو احمد 22:
ابن عدؒی نے الکامل میں بیان کیا ہے .کہ مدینہ منورہ سے دو میل کے
فاصلے پر بنو لیث کا کا قبیلہ تھاُ .ا ن میں سے ایک آدمی نے زمانۂ جاہلیت
میں ان کی کسی عورت کے ساتھ منگنی کی تھی مگر انہوں نے اسے
شادی نہ کرنے دی یہ ان کے پاس ایک قیمتی جوڑا(ُح ّلہ) لے کر گیا اور کہا
کہ *رسول الّٰلہ ﷺ* نے مجھے یہ ُح ّلہ پہنا کر بھیجا ہے اور مجھے ارشاد
بھی فرمایا ہے کہ میں تمہارے خون (قتل) اور اموال کا فیصلہ کروں ,پھر
یہ اس عورت کے گھر والوں کے پاس گیا ,جس سے محبت کرتا تھا تو ان
لوگوں نے *رسول الّٰلہ ﷺ* کی طرف قاصد روانہ کر کہ حقیقت معلوم
کرنے کی کوشش کی تو *رسول الّٰلہ ﷺ* نے فرمایا
اگر وہ تجھے مل جائے تو اسے قتل کر ڈالنا اور اگر وہ مر جائے تو اسے"*
*"آگ میں جال دینا
جو شخص جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولتا ہے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم"*
*"میں بنا لے
اس کی سند صحیح کی شرط پر ہے ,اس کی کوئ علت بھی معلوم نہیں.
اس واقعہ کا ایک شاہد(تائیدی روایت) بھی ہے ,مگر اس میں ہے
الکامل ال بن عدی ( )٥۴-٥٣/۴ابن عدی نے یہ واقعہ بیان کیا ہے اور اسے .
صالح بن حیان قرشی کوفی کی مناکیر میں شامل کیا ہے اور اس کے بعد
کہا "یہ قصہ میں اسے صرف اسی سند جانتا ہوں" یعنی حجاج الشاعر
کی سند سے کہ حدثنا زکریا بن عدی حدثنا علی بن مسھر از صالح بن
حیان از از ابن بریدۃ از أبیہ
یہ شیخ االسالم کا وہم ہے اس کی وجہ صالح بن حیان قرشی اور صالح .
بن حیی کے درمیان تفریق نہ کرنے کا نتیجہ ہے ,بعض نے حیان کہا ہے ثقہ
راوی ہے ,اس وہم کی نشاندہی زمانۂ قدیم میں حافظ ذہبی نے سیر أعالم
النبالء ( )٣۷۴-٣۷٣/۴میں کی ہے کہا :ہمارے شیخ ابو العباس نے اپنی
کتاب "الصارم المسلول" میں صالح بن حیان کی اس حدیث پر اعتماد کیا
ہے اور اسے قوی قرار دیا ہے اس میں ان کا وہم ہے دیکھیئے :المیزان
۷/٣().
.صحیح بخاری ,حدیث ( )١۲۹١و صحیح مسلم ,حدیث ( )۴ان المغعیرۃ .
اسے ابو داؤد ,ابِن بطہ نے روایت کیا ہے .امام احمد نے اس سے استدالل
کیا ہے .یہ بھی مروی ہے کہ یہ آدمی نابینا تھا یہ عمدہ حدیث ہے
اورمتصل ہے کیونکہ شعبؒی نے *حضرت علیؓ* کو دیکھا ہے اگرچہ یہ
مرسل ہے مگر مکمل طور پر حجت ہے کیونکہ محدثین کے ہاں شعبی
صحیع المراسیل ہیں اس کی ہر مرسل صحیع ہے یہ قصہ گستاِخ *رسول
.ﷺ* کے قتل میں صریح ہے
سنن ابِن بطۃ جیسا کہ شیخ االسالم نے زکر کیا ہے ,یہ کتاب طبقات ۲:
الحنابلہ ( )۲۷۰/٣میں ان کی سوانح عمری میں موجود ہے .یہ کتاب گمشدہ
.کتب کے زمرے میں ہے
خالل نے الجامع األحکام أھل الملل ( )٣۴١/۲میں شعبی سے مرسًال بیان ۴:
.کیا ہے
):٦اسے عجلی نے زکر کیا ہے ,ابن المدینی نے قوت میں شعبی کی
مراسیل کو ابن المسیب کی مراسیل سے مالیا ہے .شرح علل ترمذی البن
)رجب (٥۴٣/١
حضرت عبدالّٰلہ بن عباؓس * فرماتے ہیں ایک نابینے آدمی کی لونڈی*2:
تھی جس کے بطن سے اس کا بیٹا بھی تھا *رسول الّٰلہ ﷺ* کو دشنام
دیتی اور *آپ ﷺ* پر تنقید کے نشتر چالتی تو اس نابینے نے باریک تیز
دھار نوک والی چھڑی پکڑی اور اسے عورت کے پیٹ پر رکھ کر اس پر اتنا
زبردست دباؤ ڈاال کہ اسے قتل کر ڈاال پھر یہ قصہ *نبی اکرم ﷺ* سے
زکر کیا گیا تو *آپ ﷺ* نے اس کے خون کو رائیگاں قرار دیا .اسے امام
ابوداؤد اور امام نسائ نے روایت کیا ہے .امام احمد نے اس سے استدالل
.کیا ہے
:سند
ابو عفک یہودی کا قصہ ہے جسے اہِل مغازی اور سیرت نے نقل کیا ہے3:.
اس کا طریقہ یہ تھا کہ *رسول الّٰلہ ﷺ* کی ہجو کیا کرتا تھا یہاں تک کہ
جب *آپ ﷺ* میداِن بدر کی طرف نکلے اور *الّٰلہ* نے *آپﷺ* کو
زبردست کامرانی عطا فرمائ تو اس نے حسد کیا اور *آپ ﷺ* کے
متبعین کی مذمت کی اور انتہائ قبیح جملہ یہ کہا ,ان کا معاملہ ایک
سوار چھین گیا خواہ حرام ہو یا حالل ہر دو صورتوں میں ہے
حضرت سالم بن عمیؓر * نے کہا میں نے اسے قتل کرنے کی نذر مانی ہے*
اور امام احمد بن سعد نے ذکر کیا ہے کہ وہ یہودی تھا مگر اہِل مغازی کی
یہ روایت ہے لیکن یہ درست ہے کہ یہ قصہ تقویت پہنچانے واال ,تنقید
کرنے واال اور موید ہو
پس جب صبح ہوئ تو *رسول الّٰلہﷺ* کی خدمت میں یہ واقعہ زکر کیا
:گیا* ,حضورﷺ* نے لوگوں کو جمع کیا پھر فرمایا
تو *نابینا صحابؓی * کھڑے ہوگئے ,لوگوں کو پھالنگتے ہوئے اس حال میں
آیا کہ خوف سے کانپتے تھے ,حتٰی کہ *رسول الّٰلہﷺ* کے سامنے بیٹھ
گئے ,عرض کرنے لگا* :یا رسول الّٰلہﷺ* میں اس لونڈی کا مالک ہوں اور
میں نے اس کا کام تمام کیا ہے ,وہ *آپﷺ* کو گالیاں دیتی تھی ,میں نے
اسے روکا نہ رکی میں نے اسے جھڑکا وہ باز نہ آئ' اس سے میرے دو بیٹے
ہیں اور وہ میری رفیقہ تھی ,گذشتہ رات *آپﷺ* کی شان میں
گستاخی شروع ہوئ' میں نے تلوار اٹھائ اور اس کو اس کے پیٹ میں
,رکھا اور خود اور چڑھ گیا حتٰی کہ اسے قتل کر دیا
حضور ﷺ نے فرمایا :اے حاضریِن مجلس! خبردار تم گواہ ہو جاؤ!"*
اس عورت کا خون رائیگاں ہے"*( ,یعنی *نابینا صحابؓی * نے ٹھیک کیا
ماذی *رسولﷺ* قتل کرنے کے ہی قابل ہے ,اس کے خون کا بدلہ نہیں لیا
)جائے گا ,اس لعین کا خون ضائع جائے گا
سنن ابی داؤد ,کتاب الحدود باب الحکم فی َم ن َس َّب الَّن ِب َّی ﷺ ,سنن(
)نسائ کتاب المحاربۃ باب الحکم فیمن سب النبی ﷺ
َح َّد َث َنا اْبُن َع َّب اٍس اناْع َم ى َكاَن ْت َلُه ُأ ُّم َو َلٍد َتْش ُت ُم الَّن ِب َّي َص َّلى الَّلُه َع َلْي ِه 7:
َو َس َّلَم َو َتَق ُع ِف يِه َف َي ْنَه اَها َف اَل َت ْنَت ِه ي َو َي ْز ُج ُر َها َف اَل َت ْن َز ِج ُر َق اَل َف َلَّم ا َكاَن ْت َذ اَت
َلْي َلٍة َج َع َلْت َتَق ُع ِف ي الَّن ِب ِّي َص َّلى الَّلُه َع َلْي ِه َو َس َّلَم َو َتْش ُت ُم ُه َف َأ َخ َذ اْلِم ْغ َو َل
:ترجمہ
جب صبح ہوئی تو یہ واقعہ *نبی پاکﷺ* کے ہاں ذکر ہوا۔آپ نے لوگوں
:کو جمع کیا ،پھر فرمایا کہ
اس آدمی کو الّٰلہ کی قسم دیتا ہوں جس نے کیا جو کچھ میرا اس پر "*
*"حق ہے کہ وہ کھڑا ہوجاے
تو نابینا کھڑا ہوا ،لوگوں کو پھالنگتا ہوا اس حالت میں آگے بڑا کہ وہ
کانپ رہا تھا،حتی کہ *حضورﷺ* کے سامنے بیٹھ گیا اور عرض کیا کہ
یا رسول الّٰلہﷺ* میں ہوں اسے مارنے واال ،یہ آپ کو گالیاں دیتی تھی*
اور گستاخیاں کرتی تھی میں اسے روکتا تھا وہ نہ رکتی تھی ،میں
دھمکاتا تھا وہ باز نہیں آتی تھی اور اس سے میرے دو بچے ہیں جو
موتیوں کی طرح ہیں اور وہ مجھ پر مہربان بھی تھی ،لیکن آج رات جب
اس نے آپکو گالیاں دینی اور برا بھال کہنا شروع کیا تو میں نے خنجر لیا
اور اسکی پیٹ پر رکھا اور زور لگا کر اسے مار ڈاال۔ *نبیﷺ* نے فرمایا
:کہ
لوگوں گواہ رہو اسکا خون بے بدلہ (بے سزا) ہے"*۔ "*
حضرت شعبؒی حضرت علی المرتضٰی شیِر خداؓ* سے روایت بیان* 8:
:فرماتے ہیں
َأ َّن َي ُه وِد َّي ًة َكاَن ْت َتْش ُت ُم الَّن ِب َّي (ﷺ) َو َتَق ُع ِف ْي ِه َ ،ف َخ َن َق َه ا َرُج ٌل َح َّت ى َم اَت ْت ’’،
]َف َأ ْبَط َل الَّن ِب ُّي (ﷺ) َد َم َه ا‘‘[21
ایک یہودیہ *حضور نبی کریم ﷺ* کو سب و شتم کرتی تھی اور *آپ’’
ﷺ* کی ذاِت اقدس میں عیب تالش کرتی تو ایک شخص نے اس کا گال
گھونٹ دیا حتی کہ وہ مر گئی تو *حضور نبی کریم ﷺ* نے اس کے
خون کو رائیگاں قرار دیا (یعنی بدلہ قصاص و دیت کی صورت میں بدلہ
)‘‘-نہیں دلوایا
عصماء یزید بن زید بن حصن الخطمی کے پاس تھی اسالم میں عیب"
نکالتی* ,نبی کریمﷺ* کی ہجو کرتی* ,آپﷺ* کی مخالفت برانگیختہ
کرتی اور شعر کہتی تھی* ,عمیر بن عدؓی * رات کے وقت آئے اور مکان
میں داخل ہو کر اس کے پاس آئے عصماء کے اردگرد اس کے بچوں کی
ایک جماعت سو رہی تھی اس کے پاس چھوٹا دودھ پینے واال بچہ سو رہا
تھا *حضرت عمیؓر * نابینا تھے ہاتھ سے ٹٹول کر بچے کو ماں سے علیحدہ
کیا تلوار اس کے سینے پر رکھ دی جو اس کے جسم کے پار ہو گئ
*حضرت عمیؓر * نے صبح کی نماز *مدینہ طیبہ* میں *نبی کریمﷺ* کے
:ساتھ پڑھی *رسول الّٰلہﷺ* نے پوچھا
انہوں نے عرض کی" :ہاں" ,اس بارے میں میرے زمہ کچھ اور ہے؟
*:آپﷺ* نے فرمایا
ابو عفک یہودی کے قتل کا واقعہ بیان کرتے ہوئے ابن سعؒد لکھتے ہیں11:
:کہ
ابو عفک *عمرو بن عوؓف * سے ایک سو بیس سال کا بوڑھا شخص تھا"
یہودی تھا لوگوں کو *رسول الّٰلہﷺ* کی مخالفت پر برانگیختہ کرتا اور
شعر کہا کرتا تھا *حضرت سالم بن عمیؓر * نے جو بکثرت رونے والوں میں
سے تھے اور بدر میں حاضر ہوئے تھے کہا کہ مجھے پر یہ نظر ہے میں ابو
عفک کو قتل کروں گا یا اس کےلیئے مر جاؤں گا وہ ٹھہرے ہوئے اس کی
غفلت کے انتظار میں تھے یہاں تک کہ گرمی کی ایک رات کو ابو عفک
میدان میں سویا *سالم بن عمیؓر * کو اس کا علم ہو گیا وہ آئے اور تلوار
اس کے جگر پر رکھ دی پھر اسے دبا کر کھڑے ہوگئے یہاں تک کہ وہ بستر
میں گھس گئ *الّٰلہ* کا دشمن چیخا تو اس کے ماننے والے دوڑ کر آئے
" پس وہ اسے اٹھا کر اس کے گھر لے گئے اور اس کی الش کو دفن کر دیا
عمیر بن امیہ رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ* کی ایک بہن تھی* ,عمیر* جب* 14:
*نبی کریمﷺ* کی طرف جاتے تو وہ انہیں *رسول الّٰلہﷺ* کے بارے
میں تکلیف دیتی اور *نبی کریمﷺ* کو گالیاں دیتی تھی اور یہ تھی
بھی مشرکہ ,ایک دن انہوں نے تلوار اٹھائ ,پھر اس کے پاس آئے اور اسے
تلوار کا وار کر کے قتل کر دیا ,اس کے بیٹے اٹھ کھڑے ہوئے ,انہوں نے
چیخ و پکار شروع کر دی اور کہنے لگے" :ہمیں معلوم ہے کہ کس نے اسے
قتل کیا ہے ,کیا ہمیں امن و امان دے کر قتل کیا گیا ہے؟ اور اس قوم کے
آباؤ اجداد اور مائیں مشرک ہیں" ,جب *عمیر* کو خوف پیدا ہوا کہ وہ
لوگ اپنی ماں کے بدلے کسی کو ناجائز قتل کر دیں گے تو وہ(عمیر) *نبی
:کریمﷺ* کے پاس گئے اور *آپﷺ* کو خبر دی تو *آپﷺ* نے فرمایا
*"کیوں؟"*
کہنے لگے" :یہ مجھے سے *آپﷺ* سے متعلق اذیت دیتی تھی" تو *نبی
کریمﷺ* نے ان کے بیٹوں کی طرف پیغام بھیجا اور ان سے پوچھا تو
انہوں نے کسی اور کو قاتل ٹھہرایا ,تو *نبی کریمﷺ* نے ان کو خبر دی
اور اس کا خون رائیگاں قرار دیا ,تو انہوں نے جواب میں کہا" :ہم نے سنا
"اور مان لیا
حضرت عمؓر * کے پاس ایک آدمی الیا گیا جو شاتم *رسولﷺ* تھا*1:
آپ نے اسے قتل کروا دیا پھر *حضرت عمؓر * نے فرمایا"* :جو الّٰلہ یا انبیاء
*".کرام علیہم السالم میں سے کسی کو گالی دے اسے قتل کر دو
کیا تمہیں ایسے آدمی پر تعجب ہے جس نے الّٰلہ اور اسکے رسولﷺ کی"*
"*.مدد کی
]َلْو َس ِم ْع ُت ُه َلَق َت ْلُت ُه ِإ َّن ا َلْم ُن ْع ِط ِه ُم الِّذ َّم َة ِل َي ُس ُّب وا َن ِب َّي َنا (ﷺ)[’’30
اس کی اوالد میں سے ایسے لوگ جنم لیں گے جو قرآن مجید کی"*
تالوت انتہائ احسن انداز میں کریں گے مگر وہ (قران) ان کے حلقوں سے
تجاوز نہیں کرے گا ,دین سے وہ اس طرح نکلیں گے جیسے تیر کمان سے
نکلتا ہے ,مسلمانوں کا قتل کریں گے اور بتوں کی پرستش کرنے والوں کو
پروٹوکول دیں گے اگر میں نے ان کو پا لیا تو عاد کے قتل کی طرح انہیں
*"قتل کر دوں گا
:نیز فرمایا
عنقریب زمانے کے آخر میں ایسے لوگ ظہور پزیر ہوں گے جو نوعمر"*
ہوں گے ,عقلوں کے اعتبار سے بےوقوف ہوں گے ,مخلوق سے سب سے
زیادہ عمدہ کالم ان کا ہوگا ,ان کا ایمان ان کی ہنسلیوں سے تجاوز نہیں
کرے گا ,دین میں ایسے نکلیں گے جیسے تیر کمان سے نکلتا ہے ,تم جہاں
بھی انہیں پاؤ انہیں قتل کرو ,جو انہیں قتل کرے گا قیامت کے دن اسے
*"اس قتل کا بدلہ دیا جائے گا
یہ سبھی اس پر داللت کرتی ہیں کہ *رسول الّٰلہﷺ* عیب جوئ کرنے
والی اس جماعت کو قتل کرنے کا ارشاد فرمایا ہے اور یہ بھی اطالع دی
کہ جو انہیں قتل کرے گا اسے اس کے عوض میں اجر و ثواب سے نوازا
,جائے گا
:نیز فرمایا
اس کے سننے کا بعد مجمع میں اس قدر جوش پیدا ہوگیا کہ اگر وہ
مصری حکومت کے ماتحت نہ ہوتے تو یقینًا ابو الفتح کو مار ڈالتے ,اس
سے اس کی آنکھیں کُھ ل گئیں کہ وہ کس قدر سخت مہم پر بھیجا گیا ہے
کیونکہ جب ابھی یہ حالت ہے تو جب قبر کھدنی شروع ہوگی اس وقت
کیا ہوگا ,اس لئے ڈر گیا ,اسی روز شام کے وقت ایک نہایت خطرناک
آندھی آئ ,جس کو لوگوں نے اس ناپاک ارادہ کی نحوست قرار دیا,
ابوالفتوح ان سب باتوں سے مرعوب ہو کر واپس چال گیا اور حاکم
بامرالّٰلہ کو اس فعل شنیع سے ڈرایا مگر ابن سعدون نے لکھا کہ عوام نے
.اسے قتل کر دیا
ابن ابی سرح کا واقعہ ہے ,یہ بھی ان واقعات میں سے ایک ہے جن پر9:
اہِل علم کا اتفاق ہوا ہے اور یہ ان کے ہاں اس قدر شہرت یافتہ ہے کہ احاد
راویوں کی روئت سے مستثنٰی ہے
کیا تم میں کوئ دانشمند آدمی نہیں ,جس وقت میں نے اس سے بیعت"*
*"لینے سے اپنے ہاتھ کو روک رکھا تو وہ اسے قتل کر دیتا
صحابہ کراؓم * گویا ہوئے کہ ہمیں کیا معلوم *آپ ﷺ* کے دل میں کیا*
ہے؟ *آپﷺ* ذرا آنکھ سے اشارہ فرما دیتے؟ تو *رسول الّٰلہ ﷺ* نے
فرمایا
امام ابو داؤد نے اسے سنن میں صحیح سند سے بیان کیا ہے ,اسی طرح
امام نسائ نے بھی
رسول الّٰلہﷺ* نے اسکا خون بھی رائیگاں قرار دیا یہ *حضرت عثماؓن **
کا رضاعی بھائ تھا ,جب *حضرت عثماؓن * نے *رسول الّٰلہﷺ* کے پاس
اس کی سفارش کی تو *رسول الّٰلہﷺ* نے اسے چھوڑ دیا
یہ بات بھی دُر ست ہے کہ ابن ابی سرح فتح مکہ سے پہلے اسالم کی
طرف پلٹ آیا تھا .اور *حضرت عثماؓن * کو کہنے لگا "میرا جرم بہت
سنگین ہے اور میں توبہ تائب ہو کہ آیا ہوں" .پھر فتِح مکہ کے بعد
*حضرِت عثماؓن * اسے *رسوِل اکرم ﷺ* کے پاس لے آئے لوگ اس کی
.توبہ کے بعد ٹھنڈے پڑ گئے
حاالنکہ *رسول الّٰلہ ﷺ* چاہتے تھے کہ کوئ مسلمان اسی وقت اس کا
کام تمام کر دے* ,آپﷺ* تھوڑی دیر اس کے مقتول ہونے کا انتظار کرتے
رہے ,بعض لوگوں نے خیال کیا کہ عنقریب یہ موت کے گھاٹ اتار دیا جائے
گا یہ سب سے واضح دلیل ہے کہ اس کے اسالم النے کے بعد اسے قتل کیا
.جائے گا
اس حدیث کو حاکم نے صحیح کہا ہے ,ذہبی نے موافقت کی ہے ,اسے
شیخ االسالم اور البانی رحمتہ الّٰلہ تعالٰی نے صحیح کہا ہے دیکھیئے
)السلسلۃ الصحیحۃ حدیث (١۸۲٣
حضرت ابو سعید خدرؓی * فرماتے ہیں کہ ایک بار ہم لوگ *رسول*
الّٰلہﷺ* کے پاس حاضر تھے اور *حضرتﷺ* کچھ مال تقسیم فرما رہے
تھے ذوالخویسرہ آیا جو بنی تمیم قبیلہ سے تھا اور کہا* :یا رسول
الّٰلہﷺ*! عدل کیجیئے* ,حضرتﷺ* نے فرمایا :تیری خراب ہو جب
*میں* ہی عدل نہ کروں تو پھر کون عدل کرے گ ,اور جب میں نے عدل
نہ کیا تو تو محروم اور بےنصیب ہوگیا* ,حضرت عمؓر * نے عرض کیا *یا
رسول الّٰلہﷺ* حکم دیجیئے! کہ اس کی گردن ماروں ,فرمایا :جانے دو,
اس کے رفقاء ایسے لوگ ہیں کہ ان کی نماز اور روزوں کے مقابلہ میں تم
لوگ اپنی نماز اور روزوں کو حقیر سمجھو گے ,وہ قرآن پڑھیں گے لیکن
ان کے گلہ سے نیچے نہ اترے گا ,وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے
تیر کمان سے نکل جاتا ہے باوجودیکہ اس جانور کے پیٹ کی آالئش و
خون میں سے پار ہوتا ہے مگر نہ اس کے پیکان میں کچھ لگا ہوتا ہے' نہ
اسے کے بندن میں جس سے پیکان باندھا جاتا ہے' نہ لکڑی میں' نہ پر میں,
نشانی ان کی یہ ہے کہ ُا ن میں ایک شخص سیاہ فام ہوگا جس کا ایک
بازو مثِل عورت کے پستان یا مثِل گوشت پارہ کے حرکت کرتی ہوگی ,وہ
.لوگ اس وقت نکلیں گے جب لوگوں میں تفرقہ ہوگا
حضرت ابو سعیؓد * کہتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اس حدیث کو*
میں نے خود *رسول الّٰلہ ﷺ* سے سنا ہے اور یہی گواہی دیتا ہوں کہ
*حضرت علؓی * نے ان لوگوں کو قتل کیا اور میں بھی *حضرت علؓی * کے
ساتھ تھا'انہوں نے بعد فتح کہ حکم کیا کہ اس شخص کی تالش کی
جائے جس کی خبر *حضرتﷺ* نے دی تھی ,چنانچہ جب اس کی الش
الئ گئ' دیکھا *میں* نے کہ جتنی نشانیاں اس کی *حضرتﷺ* نے کہی
.تھیں'سب اس میں موجود تھیں
غور فرمائیئے کہ احمق کے ذہن میں آیا کہ عدل ایک عمدہ شے ہے ,اگر
صاف صاف حضرت *سروِر عالمﷺ* کو کہہ دیا جائے تو کیا مضائقہ ہے,
گستاِخ نبوت کتنا ہی اعلٰی سے اعلٰی قسم کا زاہد و عابد ہو ,ہمارے11:
نزدیک ہمارے جوتے کی نوک کے برابر بھی نہیں ہے .بلکہ ہمارے *اسالف*
:تو ایسے بدبختوں کہ قتل کرنے سے بہت خوش ہوتے .چنانچہ مالحظہ ہو
نبیط ابن شریؓط * سے کہ جب فارغ ہوئے *حضرت علؓی * اہل نہروان کے*
قتل سے کہا کہ کشتوں میں اس شخص کو تالش کرو ,جب ہم نے خوب
ڈھونڈا تو سب کے کر میں ایک شخص سیاہ فام نکال ,جس کے شانہ پر
ایک گوشت پارہ مثل پستان کے تھا ,یہ دیکھتے ہی *حضرت علؓی * نے
کہا* :الّٰلہ اکبر*! قسم ہے خدا کی ,نہ مجھے جھوٹی خبر دی گئ' نہ میں
اس کا مرتکب ہوا ,ایک بار ہم *حضور نبی اکرمﷺ* کے ساتھ تھے اور
*حضرتﷺ* غنیمت کا مال تقسیم فرما رہے تھے کہ ایک شخص آیا اور
,کہا :اے *محمدﷺ*! عدل کیجیئے کہ آج آپ نے عدل نہیں کیا
حضرتﷺ* نے فرمایا :تیری ماں تجھ پر روئے ,جب *میں* عدل نہ*
کروں تو پھر کون عدل کرے گا* ,حضرت عمؓر * نے عرض کی* :یارسول
الّٰلہﷺ*! اس کو قتل نہ کروں ,فرمایا :نہیں ,اس کو چھوڑ دو ,اس کے
قتل کرنے والے کوئ اور شخص ہیں* ,حضرت علؓی * نے یہ کہ کر کہا:
"!"صدق الّٰلہ
اس حدیث سے ظاہر ہے کہ سب سے پہلے وہی شخص قتل کیا گیا اس لئے
,کی اس کی الش تمام الشوں کے نیچے تھی
::ازالۂ وہم
نیکی اور عبادت بہرحال بہت اچھا کام ہے لیکن جس نیکی اور عبادت
میں نبوت و رسالت کی تنقیص مطلوب ہو وہ نیکی بھی کفر بن جاتی ہے,
:اس شخص کا مطلب بھی تنقیِص رسالت تھا ,چنانچہ مالحظہ ہو
*"خدا کی قسم مجھ سے زیادہ عدل کرنے واال تم کسی کو نہ پاؤ گے"*
:پھر فرمایا
)روایت کیا اس کو اما نسائ و ابن جریر ,طبرانی اور حاکم نے(
اس حدیث سے ظاہر ہے کہ وہ شخص نہایت عابد تھا کہ کثرِت صلٰو ۃ سے
پیشانی میں اس کی گھٹا پڑ گیا تھا ,غرض کہ ان احادیث میں تامل کرنے
کے بعد ہر شخص معلوم کر سکتا ہے کہ باوجود کثرت عبادت اور ریاضت
شاقہ کے وہ شخص اور اس کے ہم خیال واجب القتل اور بدترین مخلوق
ٹھہرے ,وہ اس کی سوائے بے ادبی اور گستاخ طبعی کے اور کوئ نہ نکلے
,گی
اس سے ثابت ہوا کہ عبادت کیسی ہی اعلٰی ہو لیکن اگر ادب نہ ہو تو وہ
عبادت ہی بیکار ہے اور اگر ادب ہو تو بڑی غلطی بھی معاف ہو سکتی ہے
:کیونکہ یہی کلمہ تو انصار نے بھی کہا تھا ,مثًال
تم لوگ یہ فخر نہ کرو کہ ہم اپنی قوت بازو سے فیروزمند اور ظفریاب"*
*"ہوئے ہیں بلکہ یہ انہیں ضعفاء کی دعا تھی
دیکھیئے اس روایت میں *صحابہ* نے وہی کہا جو منافق نے کہا تھا ,
.لیکن انہیں کچھ نہ کہا گیا
مالک بن نویرہ کو *حضرت خالد بن ولیؓد * نے اسی بناء پر قتل کیا12:
.اس نے *رسول الّٰلہﷺ* کو *'تمہارے صاحب'* کہا
),شفاء ,جلد ,۲ص ۲۰۸اور نسیم الریاض ,جلد ,۴ص ٣٣٥میں ہے(
حاالنکہ کسی کو تمہارا صاحب کہنا بظاہر کوئ غلطی نہیں لیکن چونکہ
کہنے والے نے *حضورﷺ* کو معمولی سمجھ کر کہا تو *سیف الّٰلؓہ (خدائ
.تلوار)* نے اسے زندہ نہ چھوڑا
صاحِب تفسیر روح البیان* نے اسی *َع َبَس َو َت َّو َّلٰی * کی تفسیر میں*14:
لکھا ہے کہ *حضرت عمر فاروؓق * کے زمانہ میں ایک امام ہر نماز میں یہ
ہی سورۃ پڑھا کرتا تھا* ,حضرت عمر فاروؓق * کو خبر ہوئ تو آپ نے اس
امام کو بال کر قتل کرا دیا کیونکہ ہر نماز میں سورۃ پڑھنے سے معلوم ہوا
کہ یہ منافق ہے اور اس کے دل میں *حضور ﷺ* سے بغض ہے اس لئے
.اس سورۃ ہی کو ہر نماز میں پڑھتا ہے جو بظاہر عتاب معلوم ہوتی ہے
جس نے میرے ایک بال کو ایذا پہنچائی اس نے مجھ کو ایذا دی اور ’’*
*‘‘جس نے مجھ کو ایذا دی یقینًا اس نے اللہ تعالٰی کو ایذا دی
:حضرت شیخ شہاب الدیؒن اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ16:
بحرین کے لڑکے باہر میدان میں ہاکی کھیل رہے تھے اور ساتھ بحرین کا"
پادری بیٹھا ہوا تھا ,گیند اس کے سینے پر لگی اور اس نے اٹھا لی لڑکوں
نے اس سے گیند طلب کی اس نے انکار کر دیا ان میں سے ایک لڑکے نے
کہا :میں تجھے *حضورﷺ* کا واسطہ دیتا ہوں گیند واپس کر دو اس نے
انکار کیا اور *حضور کریمﷺ* کی توہین کی ,وہ لڑکے اس پر ٹوٹ پڑے
اور اسے اتنا مارا کہ وہ لعنتی مر گیا* .حضرت عمؓر * کی بارگاہ میں یہ
مقدمہ پیش ہوا (راوی کہتے ہیں) خدا کی قسم *حضرت عمؓر * فتوحات
اور ماِل غنیمت سے اتنا خوش کبھی نہ ہوئے تھے جتنا اس پادری کے قتل
پر خوش ہوئے اور فرمایا" :اسالم کی عزت یہ ہے کہ چھوٹے بچے بھی
*نبی کریمﷺ* کی توہین پر غضبناک ہوگئے اور بدلہ لے لیا آپ نے اس
"پادری کے خون کو ضائع قرار دے دیا
:ترجمہ
گستاخِی رسولﷺ* اتنا بڑا جرم ہے کہ ابِن خطل خانہ کعبہ کا پردہ*1:
تھامے ہوئے تھا یعنی ہتھیار ڈال چکا تھا اور امان چاہتا تھا پھر بھی اس
)کو قتل کیا گیا(حاالنکہ یہ جگہ داراالمان ہے
گستاِخ *رسولﷺ* کا خون مباح ,ضائع اور رائیگاں متصور کیا گیا ہے3:
یعنی اس کے قتل پر نہ تو قصاص لیا جائے گا نہ دّی ت مانگی جائے گی نہ
سزا دی جائے گی کیونکہ گستاخی کا ارتکاب کر کے وہ مباح الدم اور
واجب القتل ہو جاتا ہے تو اس کا زندہ رہنا اس زمین پر فساد کھڑا کرتا ہے
گستاخ کو قتل کرنے کےلیئے حاکم باقاعدہ آدمی مقرر کر سکتا ہے13:
عام معافی کے اعالن کے باوجود بھی گستاخ کو معاف نہیں کیا جائے14:
گا
حاکم سمیت امت میں سے کسی کے پاس بھی یہ اختیار نہیں ہے کہ15:
وہ گستاخ کو معافی دیں یا موت کے عالوہ کوئ سزا دیں
اگر کوئ کافر اہانِت *رسولﷺ* کارتکب ہو ,پھر وہ مکمل خشوع و17:
خزوع سے توبہ کرے اور اسالم قبول کرے ,پھر بھی اس کی سزا معاف
نہیں کی جائے گی
سعد بن ذید اشہلؓی * کے ہاتھوں جلد بازی میں مربع بن قینطی کا*22:
قتل حاالنکہ *حضورﷺ* اس کو قتل نہ کرنے کہ نیت کر چکے تھے اور
زبان سے کلمات ادا کر رہے تھے
عبدالّٰلہ ابن ابی سرح کے واقعہ سے علم ہوتا ہے کہ *رسول الّٰلہﷺ* یہ23:
خواہش کر رہے تھے کہ میرے کہے بغیر ابھی کوئ ان کو قتل کر دے گا
مگر *صحابؓہ * *آپﷺ* کے یعنی *حاکِم وقت* کے فیصلے کا انتظار کر
رہے تھے بعد میں *حضورﷺ* نے ان پر تنقید کی کہ انہوں نے اسے کیوں
نہ مارا اور میرے فیصلے تک رکے رہے
بہر حال میں ان کا صرف نام بتانا ہی فی الحال ضرورت سمجھوں گا ان
پر علمی و تحقیقی نظر *تحریِک پاکستان* میں ایک گہری چھاپ رکھتی
ہے اس وقت کے بڑے بڑے *محدثین** ,علماء** ,شیوخ التفاسیر* ,
*شیوخ االحادیث* اور *بانیاِن تحریِک پاکستان* *موالنا ظفر علی خاؒں *
سے لے کر *قائِد اعظؒم * اور محترم *قائِد اعظؒم * سے لے کر *عالمہ اقباؒل *
تک سب نے ان *عاشقاِن مصطفیٰﷺ* کے ہاتھوں ہونے والے گستاخان کے
*غازی عبدالمنان*
.اور پھر *الّٰلہ تعالٰی * نے ہمیں *پاکستان* جیسی عظیم نعمت سے نوازا