You are on page 1of 49

‫‪2/12/22, 7:15 PM - Messages and calls are end-to-end‬‬

‫‪encrypted. No one outside of this chat, not even‬‬


‫‪WhatsApp, can read or listen to them. Tap to learn‬‬
‫‪more.‬‬
‫"‪2/12/22, 7:15 PM - You created group "M|J WATTO‬‬

‫‪* :‬حصہ اول* ‪2/12/22, 7:15 PM - M|J WATTO:‬‬

‫رسول پاکﷺ* نے گستاخان کے قتل کےلیئے صحابہ کو حکم دے کر*‬


‫بھیجا ؟؟‬

‫فتح مکہ* کے موقع پر عام معافی کا اعالن کردیا گیا تھا‪ ،‬لیکن شاتم* ‪1:‬‬
‫*رسولﷺ* ابن خطل کو معافی نہیں دی گئی‪ ،‬اس نے خانہ کعبہ کا پردہ‬
‫پکڑا تھا اور اسی حالت میں اسے واصل جہنم کیا گیا‪ ،‬ابن خطل کی دو‬
‫لونڈیوں کا خون بھی *حضور ﷺ* نے رائیگاں قرار دیا تھا‪ ،‬کیونکہ وہ‬
‫بھی *حضور ﷺ* کی شان میں ہجویہ اشعار گایا کرتی تھیں۔‬

‫)الکامل البن اثیر‪ ،۲/۱۶۹:‬صحیح بخاری‪،‬کتاب المغازی‪ ،‬رقم‪(۴۰۳۵:‬‬

‫مدینہ منورہ* میں ابو عفک نامی ایک شخص نے بارگاہ رسالت میں* ‪2:‬‬
‫ہجویہ نظم لکھی‪* ،‬حضرت سالم بن عمیؓر * نے *حضور ﷺ* کے ارشاد پر‬
‫جاکر اسے واصل جہنم کیا۔‬

‫)سیرۃ ابن ہشام‪(۴/۲۸۲:‬‬

‫کعب بن اشرف مشہور یہودی رئیس تھا‪* ،‬حضور ﷺ* کی شان میں‪3:‬‬


‫گستاخی کرتا اور ہجویہ اشعار کہتا‪* ،‬حضرت محمد بن مسلمؓہ * نے‬
‫*حضور ﷺ* کی خواہش پر جاکر اس کی سرکوبی کی۔‬
‫)صحیح بخاری‪ ،‬کتاب المغازی‪ ،‬رقم ‪(۴۰۳۷ :‬‬

‫انس بن زنیم الدیلمی نے *رسول الّٰلہﷺ* کی ہجو کی‪ .‬واقدؒی نے لکھا‪4:‬‬


‫ہے کہ *عمرو بن سالؓم * خزاعی قبیلہ خزاعہ کے چالیس سواروں کو لے کر‬
‫*رسول الّٰلہﷺ* کے پاس مدد طلب کرنے آیا اور وہ واقعہ سنایا جو پیش‬
‫آیا تھا اور کہا کہ اس نے *آپﷺ* کی ہجو کی تھی تو *آپﷺ* نے اس‬
‫کے خون کو رائیگاں قرار دیا‬

‫)بخاری‪ ,‬رقم حدیث‪(۴۲۷۴ ,‬‬

‫حضرت عبدالّٰلہ ابن عباؓس * سے روایت ہے کہ مشرکین میں سے ایک*‪5:‬‬


‫آدمی *رسول الّٰلہﷺ* کو سب و شتم کرتا تھا‪* .‬رسول الّٰلہﷺ* نے‬
‫‪:‬فرمایا‬

‫*"میرے دشمن کی خبر کون لے گا"*‬

‫حضرت زبیر بن عواؓم * نے کھڑے ہو کر عرض کی میں حاضر ہوں*‬


‫*حضرت زبیؓر * نے اسے قتل کر دیا تو *رسولﷺ* نے اس کا سامان‬
‫*حضرت زبیؓر * کو عطا فرما دیا‬

‫)الصارم المسلول صفحہ نمبر ‪(١٣٣‬‬

‫حویرث بن نقیذ *رسول الّٰلہﷺ* کو ایذاء دیا کرتا تھا *آپﷺ* نے اس‪6:‬‬
‫کا خون رائیگاں قرار دیا یوم فتح کو اپنے گھر میں چھپ کر اس نے‬
‫دروازہ بند کر لیا *حضرت علی المرتضٰؓی * نے آ کر اس کے بارے میں‬
‫پوچھا تو کہا گیا وہ گاؤں میں ہے پس حویرث کو بتایا گیا کہ تجھے‬
‫تالش کیا جا رہا ہے *حضرت علی المرتضٰؓی * دروازہ کے ساتھ ہو کر کھڑے‬
‫ہو گئے حویرث ایک گھر سے دوسرے گھر بھاگنے کے ارادے سے نکال‬
‫*حضرت علی المرتضٰؓی * نے اسے پکڑ کر اس کی گردن مار دی‬
‫)الصارم المسلول صفحہ‪(١۲۸‬‬

‫ابو رافع یہود کا سردار اور عرب کے مالدار لوگوں میں سے تھا وہ‪7:‬‬
‫*غزوۂ خندق* کےلیئے اس نے مشرکین کو ابھارا اور ان کی مالی امداد‬
‫بھی کی اسی کے اکسانے پر آئے ‪ ,‬یہ *سّی د عالمﷺ* کی ہجو کر کے‬
‫*آپﷺ* کو تکلیف پہنچاتا تھا‪* ,‬آپﷺ* نے اس کے قتل کا فیصلہ‬
‫فرمایا‬

‫حضرت براء بن عازؓب * فرماتے ہیں‪* " :‬رسول الّٰلہﷺ* نے ابو رافع*‬
‫یہودی کی جانب *انصار کراؓم * کے کچھ لوگوں کو بھیجا اور ان پر‬
‫*عبدالّٰلہ بن عتیؓق * کو امیر بنایا‪ .‬ابو رافع *رسول الّٰلہﷺ* کو ایزا دیتا‬
‫"تھا اور *حضورﷺ* کے مخالفین کی مدد کرتا تھا‬

‫وہ سرزمیِن حجاز میں اپنے ایک قلعہ میں رہتا تھا‪ ,‬جب وہ لوگ اس کے‬
‫قریب پہنچے تو سورج ڈوب چکا تھا اور لوگ اپنے مویشی لے کر آ چکے‬
‫تھے‪* ,‬عبدالّٰلؓہ * نے اپنے ساتھیوں سے کہا تم لوگ اپنی جگہ بیٹھو اور میں‬
‫جا کر دربان سے کوئ حیلہ کرتا ہوں ہو سکتا ہے کہ میں اندر داخل ہو‬
‫جاؤں‪ ,‬وہ آگے بڑھے یہاں تک کہ وہ دروازے کے قریب پہنچ گئے‪ ,‬اور اپنے‬
‫آپ کو کپڑے میں اس طرح چھپایا گویا کہ وہ رفع حاجت کر رہے ہیں‬
‫سب لوگ اندر داخل ہو چکے تھے دربان نے آواز دی‪ :‬اے *الّٰلہ* کے بندے!‬
‫اگر تو اندر آنا چاہتا ہے تو آ جا میں دروازہ بند کرنے جا رہا ہوں‪ .‬پس میں‬
‫قلعہ کے اندر چال گیا اور چھپ گیا جب لوگ اندر آ گئے تو دربان نے دروازہ‬
‫بند کر کے چابیاں ایک کیل پر لٹکا دیں‪* ( ,‬حضرت عبدالّٰلؓہ * فرماتے ہیں)‬
‫جب لوگ سو گئے میں نے ان کنجیوں کو لے لیا اور دروازہ کھوال‪ ,‬ابو رافع‬
‫کے یہاں رات میں بات چیت کی جاتی تھی ابورافع اپنے باال خانے میں تھا‬
‫جب وہ بات چیت کرنے والے لوگ چلے گئے تو میں اوپر چڑھا اور جو‬
‫دروازہ کھولتا اسے اندر سے بند کر لیتا تاکہ اگر لوگوں کو میرا علم ہو‬
‫جائے تو بھی مجھ تک اس وقت تک نہ پہنچ پائیں جب تک میں اسے قتل‬
‫نہ کر لوں‪* ,‬میں* ابو رافع تک پہنچا وہ ایک تاریک کمرے میں اپنے اہل و‬
‫عیال کے پاس سو رہا تھا مجھے اندازہ نہ ہو سکا کہ وہ کہاں ہے میں نے‬
‫بلند آواز سے کہا ابو رافع‪ .‬اس نے کہا یہ کون ہے؟ تو میں نے آواز کی‬
‫طرف نشانہ درست کر کے تلوار سے ضرب لگائ میں گھبرایا ہوا تھا میں‬
‫کچھ نہیں کر سکا اور وہ چیخا میں کمرے سے باہر نکل آیا تھوڑی دیر رکا‬
‫رہا پھر اس کے پاس اندر گیا اور آواز بدل کر کہا‪ :‬یہ کیسی آواز ہے‪ ,‬اے‬
‫ابو رافع‪ .‬اس نے کہا تیری ماں کےلیئے خرابی ہو کچھ دیر پہلے ایک‬
‫شخص نے گھر کے اندر مجھ پر تلوار سے حملہ کیا‪* ,‬عبدالّٰلؓہ * نے کہا میں‬
‫نے اب اس کو پھر مارا جس سے وہ زخمی ہوگیا لیکن وہ مرا نہیں پھر‬
‫میں نے تلوار کی نوک اس کے پیٹ پر رکھ کر دبائ جو س کی پیٹھ تک‬
‫پہنچ گئ اب مجھے یقین ہوا کہ میں نے اسے قتل کر دیا ہے اب میں ایک‬
‫ایک دروازہ کھولتا جاتا یہاں تک میں سیڑھی تک پہنچ گیا میں نے اپنا‬
‫پاؤں رکھا میں سمجھا میں زمین تک پہنچ گیا ہوں میں گر گیا‪ .‬چاندنی‬
‫رات تھی میری پنڈلی ٹوٹ گئ جس کو میں نے عمامہ سے باندھا پھر چال‬
‫یہاں تک کہ دروازے پر آ کر کے بیٹھ گیا اور اپنے دل میں سوچا آج رات‬
‫اس وقت تک نہیں نکلوں گا جب تک یہ معلوم نہ کر لوں کہ میں نے اسے‬
‫قتل کر دیا یے‪ ,‬جب مرغ بوال تو قلعہ کی دیوار پر ایک پکارنے والے نے‬
‫اعالن کیا کہ میں اہل حجاز کے تاجر ابورافع کی موت کا اعالن کرتا ہوں‬
‫اب میں اپنے ساتھیوں کے پاس آیا اور میں نے کہا نجات حاصل ہوئ‬
‫*الّٰلہ* نے ابو رافع کو قتل کر دیا چنانچہ میں *نبی کریمﷺ* کی خدمت‬
‫میں حاضر ہوا اور قصہ بیان کیا *آپﷺ* نے فرمایا اپنا پاؤں پھیال میں‬
‫نے پاؤں پھیالیا *حضورﷺ* نے اپنا دست مبارک پھیرا تو وہ ایسے ہوگیا‬
‫‪.‬گویا اس میں کبھی کوئ تکلیف نہیں تھی‬

‫)بخاری شریف‪ ,‬کتاب المغازی‪ ,‬جلد‪ , ۲‬صفحہ ‪(٥۷۷‬‬


‫ابو رافع جب اہانت *رسولﷺ* اور اسالم دشمنی کا مرتکب ہوا تو‬
‫*رسول کائناتﷺ* نے اس کے قتل کا فیصلہ فرمایا اور صحابہ کرام کو‬
‫‪ :‬اس کے قتل کےلیئے بھیجا عالمہ بدرالدین عینؒی فرماتے ہیں‬

‫جو شخص اپنی رائے‪ ,‬مال اور ہاتھ سے *رسول الّٰلہﷺ* کے خالف مدد"‬
‫کرے (یہ حدیث) اس کے قتل کے جواز پر دلیل ہے ابو رافع *رسول‬
‫" الّٰلہﷺ* کا دشمن تھا اور لوگوں کو بھی اس دشمنی پر ابھارتا تھا‬

‫ایک شخص *رسول الّٰلہﷺ* کو سب و شتم کیا کرتا تھا *آپﷺ* نے‪8:‬‬
‫*"فرمایا‪"* :‬میرے دشمن کی خبر کون لے گا‬

‫حضرت خالؓد * نے عرض کی " *یارسول الّٰلہﷺ* میں حاضر ہوں" تو*‬
‫*نبی کریمﷺ* نے انہیں بھیجا اور *حضرت خالؓد * نے اس شخص کو‬
‫‪.‬قتل کر دیا‬

‫)شفاء شریف ‪(٣۷٣‬‬

‫امام نسائی‪ ‬نے روایت کیا ہے حضرت مصعؓب اپنے والد محترم سے بیان ‪9:‬‬
‫‪:‬کرتے ہیں کہ‬

‫فتح مکہ* کے دن *حضور نبی کریمﷺ* نے تما م لوگوں کیلئے عام* ’’‬
‫معافی کا اعالن فرمایا سوائے چار (گستاخ) مردوں اور دو عورتوں کے‪-‬‬
‫‪(:‬ان کے بارے میں) *آپ ﷺ* نے اپنی زبان گوہرفشاں سے ارشادفرمایا‬

‫*‘ُاْق ُت ُلوُه ْم ‪َ ،‬و ِإْن َو َج ْد ُت ُم وُه ْم ُم َت َع ِّلِق يَن ِب َأ ْس َت اِر اْلَكْع َب ِة ’’*‬

‫وہ جہاں کہیں بھی ملیں ) انہیں قتل کر دو اگرچہ انہیں کعبہ شریف (’’*‬
‫*‘‘کے پردوں سے ہی چمٹے ہوئے پاؤ‬

‫انہی چارمردوں میں سے ) ابن خطل (یہ پرلے درجے کا گستاخ تھا اس نے(‬
‫دو گانے والی (معاذالّٰلہ) *حضور نبی رحمتﷺ* کی ہجو کیلیے رکھی‬
‫ہوئی تھیں) کعبہ کے پردوں میں لپٹاہوا پایا گیا‪-‬اسے قتل کرنے کیلئے‬
‫*حضرت عمار بن یاسؓر * اور *حضرت سعید بن حریؓث * اس کی طرف‬
‫بڑھے‪* -‬حضرت سعید بن حریؓث حضرت عماؓر * سے زیادہ نوجوان تھے‬
‫*آپ (حضرت سعید بن حریؓث )* نے آگے بڑھ کر اسے قتل کر دیا اسی‬
‫طرح ’’َم ِق يُس ْبُن ُص َب اَب َة ‘‘ کو صحابہ کراؓم نے بازار میں پایا اور قتل کر دیا‬
‫‪‘‘-‬‬
‫یاد رہے کہ اس دن مکہ میں گستاخوں کے ساتھ ساتھ اسالم کے بدترین‬
‫دشمن موجود تھے‪ ،‬سب کو معافی ملی لیکن ابن خطل ملعون کو کعبہ کے‬
‫پردوں میں چھپنے کے باوجود واصِل جہنم کیا گیا‪-‬حاالنکہ عقًال تو اسے‬
‫حرم پاک سے دور واصِل جہنم کیا جاتا لیکن *حضور رسالت مآبﷺ* کی‬
‫بارگاِہ اقدس سے حکم مبارک ملتا ہے کہ اس کو وہیں قتل کر دو‪ -‬ہمارے‬
‫قلوب و اذہان میں یہ بات راسخ رہے کہ *حضور نبی کریمﷺ* کے اقوال‬
‫و افعال مبارکہ منشاء خداوند ہیں کیونکہ الّٰلہ رب العزت نے خود ارشاد‬
‫‪:‬فرمایا‬

‫]َو َم ا َی ْنِط ُق َع ِن اْلَه ٰو ى ط ِاْن ُه َو ِا اَّل َو ْح ٌی ُّی ْو ٰح ى‘‘[‪’’27‬‬

‫اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتےوہ تو نہیں مگر وحی جو’’‬
‫‪ُ‘‘-‬ا نہیں کی جاتی ہے‬

‫)سنن النسائی‪ ،‬کتاب تحریم الدم(‬

‫)اصح السیر ۔صفحہ ‪10:(۲۶۶‬‬

‫ترجمہ‪ :‬حضرت انؓس سے روایت ہے کہ *نبیﷺ* جب فتح مکہ کے موقع‬


‫پر مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو *آپﷺ* نے سر مبارک پر خود پہنا ہوا‬
‫تھا۔جب *آپﷺ* نے خود اتارا تو ایک آدمی اس وقت حاضر ہوا ور‬
‫عرض کیا کہ ابن خطل کعبہ کے پردوں کے ساتھ لٹکا ہوا ہے‪* ،‬آپﷺ* نے‬
‫)فرمایا کہ اسکو قتل کردو۔(بخاری‬

‫ابن تیمیہ نے الصارم المسلول میں لکھا ہے کہ ابن خطل اشعار کے زریعے‬
‫سے *رسول الّٰلہﷺ* کی ہجو کرتا تھا اور اپنی باندی کو وہ اشعار گانے‬
‫کیلئے کہا کرتا تھا‪،‬تو اسکے ُکل تین جرم تھے جس کی وجہ سے وہ مباح‬
‫الدم قرار پایا ‪ ،‬اول ارتداد دوسرا قتل اور تیسرا حضور صل اللہ علیہ‬
‫وسلم کی ان میں گستاخی۔‬

‫اور ابن خطل کے ان دونوں باندیوں کے قتل کانبی صل اللہ علیہ وسلم‬
‫نےحکم دیا تھا۔‬

‫دراصل اشعار ابن خطل کے ہوتے تھے اور اسکو عوام کے سامنے گانے والی‬
‫اسکی دو باندیاں تھیں۔‬

‫تو اس سے معلوم ہوا کہ گستاخی ناموس رسالت کی اشاعت میں مدد‬


‫کرنے والے کو بھی قتل کا جائے گا۔‬

‫بعث رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم الٰی ابی رافع الیھودی رجاال من ‪11:‬‬
‫االنصاروامر علیھم عبد اللہ بن عتیق وکان ابو رافع یؤذی رسول اللہ صل‬
‫اللہ علیہ وسلم و یعین علیہ ۔‬

‫)بخاری(‬

‫‪:‬ترجمہ‬

‫رسول الّٰلہﷺ* نے ابو رافع یہودی کو قتل کرنے کیلئے چند انصار کا*‬
‫انتخاب فرمایا ‪ ،‬جن کا امیر *عبد اللہ بن عتیؓق * مقرر کیا ۔یہ ابو رافع‬
‫*نبی پاکﷺ* کو تکالیف دیتا تھا اور آپ صل اللہ علیہ وسلم کے خالف‬
‫لوگوں کی مدد کرتا تھا۔‬
‫اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ گستاخ *رسولﷺ* کے قتل کیلئے‬
‫باقاعدہ آدمی مقرر کئے جاسکتے ہیں اور نیز یہ بڑے اجر و ثواب کا کام ہے‬
‫نہ کہ باعث سزا و مالمت۔کیونکہ یہ لوگ ایک بہت ہی بڑا کارنامہ اور‬
‫دینی خدمت انجام دے رہے ہیں۔‬

‫َق اَل َع ْم ٌر و َس ِم ْع ُت َج اِب َر ْبَن َع ْب ِد الَّلِه َرِض َي الَّلُه َع ْنُه َم اَي ُق وُل َق اَل َرُس وُل ‪12:‬‬
‫الَّلِه َص َّلى الَّلُه َع َلْي ِه َو َس َّلَم َم ْن ِل َكْع ِب ْب ِن اَأْلْش َر ِف َف ِإ َّن ُه َق ْد آَذ ى الَّلَه َو َرُس وَلُه‬
‫َص َّلى الَّلُه َع َلْي ِه َو َس َّلَم َف َق اَل ُم َح َّم ُد ْبُن َم ْس َلَم َة َأ َن ا َف َأ َت اُه َف َق اَل َأ َر ْد َن ا َأ ْن ُت ْس ِل َف َنا‬
‫َو ْس ًق ا َأ ْو َو ْس َق ْي ِن َف َق اَل اْر َهُنوِني ِن َس اَء ُكْم َق اُلوا َكْي َف َن ْر َه ُنَك ِن َس اَء َن ا َو َأ ْن َت‬
‫َأ ْج َم ُل اْلَع َر ِب َق اَل َف اْر َهُنوِني َأ ْبَناَء ُكْم َق اُلوا َكْي َف َن ْر َه ُن َأ ْبَناَء َن ا َف ُي َس ُّب َأ َح ُد ُه ْم‬
‫َف ُي َق اُل ُر ِه َن ِب َو ْس ٍق َأ ْو َو ْس َق ْي ِن َه َذ ا َع اٌر َع َلْي َنا َو َلِك َّنا َن ْر َه ُنَك الْأَّل َم َة َق اَل ُس ْف َي اُن‬
‫َي ْع ِني الِّس اَل َح َف َو َع َد ُه َأ ْن َي ْأ ِت َي ُه َف َق َت ُلوُه ُث َّم َأ َت ْو ا الَّن ِب َّي َص َّلى الَّلُه َع َلْي ِه َو َس َّلَم‬
‫َف َأ ْخ َب ُر وُه‬

‫)بخاری‪،‬باب الرھن(‬

‫‪:‬مختصرترجمہ‬

‫حضرت عمرو بن العاؓص * روایت کرتے ہیں کہ میں نے *جابر بن عبداللؓہ **‬
‫سے سنا کہ *حضورﷺ* نے فرمایا کہ کون کھڑا ہوگا کعب بن اشرف‬
‫کیلئے کیونکہ اس نے *الّٰلہ* اور اسکے *رسولﷺ* کو تکلیفیں دی ہیں تو‬
‫*محمد بن مسلمؓہ * اٹھ کھڑے ہوے اور پھر جا کر اسکو قتل کردیا۔اور‬
‫پھر *حضورﷺ* کو اطالع دی کہ میں نے اسکو قتل کردیا۔‬

‫اس حدیث کے ذیل میں فتح الباری نے لکھا ہے کہ یہاں *الّٰلہ* اور اسکے‬
‫*رسولﷺ* کو اذیت پہنچانے سے مراد یہ ہے کہ اس نے اپنے اشعار کے‬
‫ذریعے *نبی پاکﷺ* کو تکالیف دی تھیں اور مشرکوں کی مدد کی تھی۔‬
‫حضرت عمرو سے روایت ہے کہ یہ کعب بن اشرف *نبی کریمﷺ* کی‬
‫ہجو کرتا تھا اور قریش کومسلمانوں کے خالف ابھارتا تھا۔ یہ یہودی‬
‫*نبیﷺ* کو اور انکے واسطے سے *الّٰلہ* کو اذیت دیتا تھا تو *نبیﷺ*‬
‫نے اسکے قتل کا اعالن کیا اور *محمد بن مسلمؓہ * نے اسکو قتل کرکے‬
‫*حضورﷺ* کو اسکےقتل کی اطالع دےدی۔‬

‫فتح مکہ کے موقع پر عام معافی کا اعالن کردیا گیا تھا‪ ،‬لیکن شاتم‪13:‬‬
‫*رسولﷺ* ابن خطل کو معافی نہیں دی گئی‪ ،‬اس نے خانہ کعبہ کا پردہ‬
‫پکڑا تھا اور اسی حالت میں اسے واصل جہنم کیا گیا‪ ،‬ابن خطل کی دو‬
‫لونڈیوں کا خون بھی *حضور ﷺ* نے رائیگاں قرار دیا تھا‪ ،‬کیونکہ وہ‬
‫بھی *حضور ﷺ* کی شان میں ہجویہ اشعار گایا کرتی تھیں۔‬

‫)الکامل البن اثیر‪ ،۲/۱۶۹:‬صحیح بخاری‪،‬کتاب المغازی‪ ،‬رقم‪(۴۰۳۵:‬‬

‫مدینہ منورہ* میں ابو عفک نامی ایک شخص نے بارگاہ رسالت میں*‪14:‬‬
‫ہجویہ نظم لکھی‪* ،‬حضرت سالم بن عمیؓر * نے *حضور ﷺ* کے ارشاد پر‬
‫جاکر اسے واصل جہنم کیا۔‬

‫)سیرۃ ابن ہشام‪(۴/۲۸۲:‬‬

‫کعب بن اشرف مشہور یہودی رئیس تھا‪* ،‬حضور ﷺ* کی شان میں‪15:‬‬


‫گستاخی کرتا اور ہجویہ اشعار کہتا‪* ،‬حضرت محمد بن مسلمؓہ * نے‬
‫*حضور ﷺ* کی خواہش پر جاکر اس کی سرکوبی کی۔‬

‫صحیح بخاری‪ ،‬کتاب المغازی‪ ،‬رقم ‪)۴۰۳۷ :‬٭(‬

‫رسول الّٰلہﷺ* نے اپنی گستاخی کی وجہ سے ایک جماعت کے قتل*‪16:‬‬


‫کرنے کا حکم ارشاد فرمایا اور اسی بنا پر ایک جماعت کو موت کے گھاٹ‬
‫اتارا بھی گیا باوجود کہ *آپﷺ* نے ان لوگوں‪ ,‬جو ان کے قائم مقام کافر‬
‫اور جنگجو تھے‪ ,‬سے چشم پوشی بھی فرما‪ ,‬جس طرح کہ پہلے حضرت‬
‫ابن المسیب کے حوالے سے گزر چکا ہے کہ *آپﷺ* نے *فتح مکہ* کے‬
‫‪.‬روز ابن الزبعری کے قتل کا حکم ارشاد فرمایا‬

‫)الطبقات (‪١۴١/۲‬‬

‫امام ابن اسحاؒق رقمطرز ہیں‪" :‬جب *رسول الّٰلہﷺ* *طائف* سے پلٹ کر‬
‫*مدینہ* تشریف الئے تو بجیر بن ُز بیر نے اپنے بھائ کعب بن ُز بیر کو خط‬
‫لکھا کہ *رسول الّٰلہﷺ* نے مکہ میں ان لوگوں کو قتل کروا دیا ہے‬

‫)السیرئ النبویہ البن ھشام (‪٥۰١/۲‬‬

‫جنہوں نے *رسول الّٰلہﷺ* کی ہجو کی اور *آپﷺ* کو اذیت پہنچائ‬


‫اور قریش کے جو شعرا مثًال ابن البزعری اور ہبیرۃ بن ابی وہب وہ ِادھر‬
‫ُا دھر بھاگ چکے ہیں‪ ,‬ابن الزبعری نے تو نجران کا رخ کیا‪ ,‬پھر اسالم قبول‬
‫کر کے *رسول الّٰلہﷺ* کے پاس آیا اور س نے اپنی توبہ اور معزرت میں‬
‫انتہائ عمدہ اشعار کہے *آپﷺ* نے گستاخی کی وجہ سے اس کے خون‬
‫کو رائیگاں قرار دیا‪ ,‬باوجود یہ کہ *آپﷺ* نے سبھی اہِل مکہ کو امان‬
‫‪,‬دی ہے ہاں وہ شخص جس کا جرم اسی کے مثل تھا‬

‫ان لوگوں میں سے عبدالّٰلہ بن ابئ‪ ,‬عبدالّٰلہ بن ابی امیہ بن اور المغیرہ اور‬
‫ابو سفیان بن بن الحارث بن عبدالمطلب تھے اور اس کا *رسول الّٰلہﷺ*‬
‫کی ہجو میں واقعہ مشہور ہے المغازی للواقدی (‪,)۷۰۹/۲,۷١۰‬‬
‫)والسیرۃ(‪۴۰۰/۴۰١‬‬

‫حاالنکہ ابو سفیان *آپﷺ* کا رضاعی بھائ تھا‪* ,‬حضرت حلیمہ* نے‬
‫اسے بھی دودھ پالیا تھا‪ ,‬مگر *رسول الّٰلہﷺ* اپنی ہجو اور اپنے صحابؓہ‬
‫کے ہجو کی وجہ سے اس کے خون کو بھی رائیگاں قرار دیا ہے‪ ,‬یہاں تک‬
‫وہ آیا اور معزرت کی اور اسالم قبول کیا‪* ,‬حضرت عباس* جو *رسول‬
‫الّٰلہﷺ* کے چچا کو اور *حضرت علی رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ* اور دیگر‬
‫صحابہ کو اپنا سفارشی بنایا‪ ,‬پھر *رسول الّٰلہﷺ* اپنے اسالم اور معزرت‬
‫کے حوالے سے اشعار کہے یہاں تک کہ *رسول الّٰلہﷺ* کا دل پسیج گیا‪.‬‬
‫ایک روایت میں یوں ہے کہا‪" :‬ہم نے *رسول الّٰلہﷺ* سے اندر آنے کی‬
‫اجازت چاہی تو *آپﷺ* نے اجازت نہ دی‪* ,‬رسول الّٰلہﷺ* کی بیوی *ام‬
‫سلمہ* نے عبدالّٰلہ بن ابی امیہ اور ابو سفیان بن الحارث کے بارے میں‬
‫گفتگو کی کہا‪* :‬یا رسول الّٰلہﷺ* آپ کا ازدواجی رشتہ ہے‪* ,‬آپﷺ* کی‬
‫پھوپھی کا بیٹا ہے‪ ,‬آپ کے چچا کا بیٹا ہے‪ ,‬اور آپ کا بھائ ہے‪* ,‬الّٰلہ‬
‫تعالٰی * ان دونوں کو مسلمان بنا کر الیا ہے اور *آپﷺ* کے کے ساتھ مل‬
‫لر بدبخت نہیں ہو سکتے‪* ,‬آپﷺ* نے ان لوگوں کو بھی معافی دی ہے‬
‫جن کا جرم ان دونوں کے جرم سے سنگین تھا اور *آپﷺ* نے لوگوں‬
‫میں سب سے زیادہ ان کے جرم کو معاف کرنے والے ہیں‪* ,‬آپﷺ* نے‬
‫‪:‬فرمایا‬

‫*"اس نے مجھے بے عزت کیا ہے‪ ,‬مجھے اس کی کوئ ضرورت نہیں"*‬

‫جب یہ بات ابو سفیان تک پہنچی‪ ,‬اس کے ساتھ اس کا بیٹا تھا‪ ,‬تو کہنے‬
‫لگا‪* " :‬الّٰلہ* کی قسم! وہ میتی معزرت کو قبول کرے گا یا پھر میں اپنے‬
‫بیٹے کے ہمراہ صحرا میں بھوکا اور پیاسا تڑپ تڑپ کر جان دے دوں گا‪,‬‬
‫*آپﷺ* تو لوگوں میں سب سے زیادہ بردبار ہیں‪ ,‬سب سے زیادہ احترام‬
‫"کرنے والے ہیں‬

‫رسول الّٰلہﷺ* کا دل اسی وقت پسیج گیا‪*,‬آپﷺ* نے اجازت مرحمت*‬


‫‪.‬فرما دی اور وہ دونوں مسلمان ہو گئے اور ان کا اسالم انتہائ عمدہ رہا‬

‫عبدالّٰلہ بن ابی امیہ طائف میں مقتول ہو گئے اور ابوسفیان *خالفت عمر‬
‫رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ* میں *مدینہ منورہ* میں انتقال فرمایا *رضی الّٰلہ‬
‫عنہما* ‪ ,‬وجہ داللت یہ ہے کہ *رسول الّٰلہﷺ* نے ابو سفیان بن الحارث کا‬
‫خون رائیگاں قرار دیا‪ ,‬حاالنکہ دیگر سرداران قریش جو جہاد کے خالف‬
‫اپنی جانوں اور اموال کے خوب پیش پیش کرتے تھے‪ ,‬کا خون رائیگاں‬
‫قرار نہ دیا‪ .‬ابو سفیان کا جرم *رسول الّٰلہﷺ* کی گستاخی اور ہجو کے‬
‫عالوہ اور کچھ نہ تھا‪ ,‬پھر وہ مسلمان ہوگئے اور *آپﷺ* پھر بھی اس‬
‫سے اعراض کرنے لگے‪ ,‬حاالنکہ *آپﷺ* کا یہ طرز عمل تو یہ تھا کہ‬
‫*آپﷺ* کنارہ کشی کرنے والوں سے الفت ڈالنے کی کستجو کرتے‪ ,‬ابو‬
‫سفیان تو *آپﷺ* کے خاندان کا آدمی تھا! معلوم ہوا کہ اس نفرت کا‬
‫‪.‬سبب توہین رسالت تھا‪ ,‬جیسا کہ حدیث میں اس کی تفصیل موجود ہے‬

‫)المغازی (‪۸١۰/۲‬‬

‫رسول الّٰلہ ﷺ* *فتح مکہ* کے سال *مکہ مکرمہ* میں داخل ہوئے‪17:*,‬‬
‫*آپﷺ* کے سر پر لوہے کا خود (ٹوپی) تھی‪ ,‬جب *آپﷺ* نے اسے اتارا‪,‬‬
‫ایک آدمی آیا اور کہنے لگا‪" :‬ابن خطل کعبہ کے پردے سے لٹکا ہوا ہے"‬
‫‪:‬ارشاد فرمایا‬

‫*"اسے قتل کر ڈالو"*‬

‫یہ واقعہ بھی انتہائ معروف ہے‪ ,‬صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں‬
‫موجود ہے اور وہ مقتول ہوگیا‬

‫)البخاری‪ ,‬رقم‪ ,)١۸۴٦( ,‬و مسلم‪ ,‬رقم‪١١٥۸( ,‬‬

‫اس کا جرم یہ تھا کہ *رسول الّٰلہﷺ* نے اسے عامل زکٰو ۃ بنا کر بھیجا‬
‫اور اس کی خدمت میں ایک خادم بھی روانہ کیا‪ ,‬اسے اپنے ساتھی پر اس‬
‫وجہ سے غصہ آ گیا کہ اس نے اس کےلیئے کھانا تیار نہیں کیا تو اس نے‬
‫اپنے خادم کو قتل کر دی‪ ,‬پھرسے اندیشہ الحق ہوا کہ اسے بھی قصاصًا‬

‫قتل کیا جائے گ‪ ,‬اسی لیئے یہ مرتد ہوگیا اور اونٹوں کو ہانک کر لے گیا‬
‫اور *رسول الّٰلہﷺ* کی ہجو کرنے لگا‪ ,‬اپنی لونڈیوں کو حکم دیتا وہ‬
‫اسکے ہجو کو گاتیں‬

‫گویا تین جرائم اس کے خون کو مباح کر گئے‪ ,‬جان کا قتل‪ ,‬ارتداد اور ہجو‬

‫اسے قتل کرنا ممکن نہیں تھا کیونکہ اس پر قصاص تھا‪ ,‬اس لیئے چاہیئے‬
‫یہ تھا کہ وہ مقتول کے اولیاء‪ ,‬قبیلہ خزاعہ کے سپرد کر دیا جاتا‪ ,‬یا تو وہ‬
‫اسے قتل کرتے‪ ,‬یا معاف کردیتے یا دیت لے لیتے‬

‫محض ارتداد کی بنا پر بھی قتل درست نہیں تھا کیونکہ مرتد سے توبہ‬
‫کروائ جائے گی اور اگر وہ مہلت مانگے تو اسے مہلت بھی دی جائے گی‬
‫اور یہ ابن خطل اپنے گھر سے بھاگا پناہ طلب کرتے ہوئے‪ ,‬اسلحہ پھینکتے‬
‫ہوئے مگر ان سب چیزوں کے جاننے کے باوجود *رسول الّٰلہﷺ* نے اس‬
‫کے قتل کا حکم دیا اور جو صرف مرتد ہوتا تھا تو *آپﷺ* کا یہ طریقہ‬
‫نہ ہوتا کہ اسے قتل کر دیا جائے لٰہ زا ثابت ہوا کہ یہ قتل کا حکم ہجو اور‬
‫گستاخی کی وجہ سے تھا‬

‫دو لونڈیاں جو *رسول الّٰلہﷺ* اور بنی ہاشم کے خالف ہجو کرتی‪18:‬‬
‫تھیں‬

‫)مغازی الواقدی (‪ ,)۷۰۹/۲‬سیرۃ ابن ھشام (‪۴١۰-۴۰۹/۲‬‬

‫اہِل سیرت کے ہاں یہ مشہور و معروف ہے‪* ,‬رسول الّٰلہﷺ* نے ابن خطل‬
‫کی دو لونڈیاں‪ ,‬جو *رسول الّٰلہﷺ* کی ہجو کرتی تھیں‪ ,‬کے قتل کا حکم‬
‫صادر فرمایا‪ ,‬ان میں سے ایک قتل کی گئ اور دوسری روپوش ہوگئ‪,‬‬
‫یہاں تک کہ اسے جان کی امان دی گئ‪ ,‬اسے محمد بن عائؒد ‪ ,‬ابن اسحاؒق‬
‫‪.‬اور عبدالّٰلہ بن حزؒم نے نقل کیا ہے‬
‫ایک قول یہ بھی ہے کہ دونوں لونڈیاں ابن خطل کی تھیں‪* ,‬رسول‬
‫‪:‬الّٰلہﷺ* نے فرمایا‬

‫*"ابن خطل کے ساتھ ان کا بھی کام تمام کر دیا جائے"*‬

‫اور دونوں کے واقعہ پر اہِل سیرت کا اتفاق ہے اور مشہور واقعہ ہے‪ ,‬اس‬
‫سے معلوم ہوتا ہے کہ محض کفر اصلی کی بنیاد پر کسی عورت کو جان‬
‫بوجھ کر قتل کرنا باالجماع جائز نہیں ہے اور *رسول الّٰلہﷺ* کی یہ‬
‫سنت بھی معروف ہے کہ *آپﷺ* نے عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع‬
‫‪.‬فرمایا‬

‫)صحیح بخاری حدیث (‪ ,)٣۰١۴‬مسلم حدیث (‪١۷۴۴‬‬

‫اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں عورتوں کو اس وجہ سے قتل کا حکم‬


‫دیا کہ یہ اپنے اشعار میں ہجو کیا کرتی تھیں اور جو *رسول الّٰلہ* کی‬
‫ہجو کرے اور *آپﷺ* کی گستاخی کرے وہ ہر حالت میں واجب القتل‬
‫ہے‬

‫عصماء بنت مروان کا واقعہ ہے‪ ,‬جسے *حضرت عبدالّٰلہ بن عباؓس * ‪19:‬‬
‫بیان کرتے ہیں کہ قبیلہ خطمہ کی ایک عورت نے *رسول الّٰلہ ﷺ* کی‬
‫‪:‬ہجو کی تو *رسول الّٰلہ ﷺ* نے پوچھا‬

‫*"اس عورت سے میرا انتقام کون لے گا؟"*‬

‫اس کی قوم کے ایک آدمی نے کہا‪" :‬میں اس کا کام تمام کروں گا"‪ ,‬وہ‬
‫آدمی گئے اور اس کو قتل کر ڈاال تو *رسول الّٰلہﷺ* کو اطالع دی‪,‬‬
‫‪*:‬آپﷺ* نے فرمایا‬

‫*"اس معاملہ میں دو رائے نہیں ہے"*‬

‫)االکامل ‪(١۴٥۰/٦‬‬
‫اہل المغازی کے ہاں اس کا واقعہ بڑی تفصیل سے بیان ہوا ہے‪ ,‬اس عورت‬
‫کے قاتل کا نام *عمیر بن عدؓی * تھا تو *حضرت حساؓن * نے چند اشعار‬
‫میں ان کی مدح سرائ کی‬

‫)الدیوان ‪ ۴۴۹/١‬و سیرۃ ابن حشام ‪(٦٣۸/۲‬‬

‫اس کا قتل *رمضان المبارک* کے ختم ہونے سے پانچ دن پہلے جب‬


‫‪*.‬رسول الّٰلہﷺ* *معرکہ بدر* سے واپس پلٹے ہوا‬

‫)األموال ألبی عبیدالّٰلہ ‪ ,١۹۴/۲‬حدیث‪(۴۸٥ ,‬‬

‫حضرت براؓء * سے روایت ہے کہ *حضورﷺ* نے ابو رافع کے ہاں چند*‪20:‬‬


‫انصاری بھیج کر اسے قتل کرایا‪ ,‬کیوں؟ اس لیئے کہ‪ ,‬ابو رافع‬
‫*حضورﷺ* کو ایذا دیتا تھا‬

‫)صحیح بخاری جلد‪ ,۲‬ص ‪(٥۷۷‬‬

‫اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ *حضورﷺ* کو سّب کرنا(نعوذبالّٰلہ)‬


‫صرف *حضورﷺ* کو ایذا پہنچانا نہیں بلکہ *الّٰلہ تعالٰی * کو بھی ایذا‬
‫‪:‬پہنچانا ہے‪ ,‬کعب نے *حضورﷺ* کو سّب کیا تو *حضورﷺ* نے فرمایا‬

‫*"اس نے الّٰلہ اور رسولﷺ کو ایذا دی"*‬

‫یہ بھی ثابت ہوا کہ *رسول الّٰلہﷺ* کا گستاخ مستحِق قتل ہےلیکن یہ‬
‫کام صرف حکومت کر سکتی ہے عوام اس کے مجاز نہیں‬

‫حضرِت جابؓر * سے مروی ہے کہ *رسول الّٰلہ ﷺ* نے فرمایا*‪21:‬‬

‫ترجمہ‪"* :‬کعب بن اشرف کو قتل کرنے کون جاتا ہے اس لیئے کہ اس نے‬


‫*"الّٰلہ اور اس کے رسولﷺ کو ستایا ہے‬
‫حضرت محمد بن مسلمؓہ * کھڑے ہوگئے‪ ,‬عرض کی‪* ,‬یا رسول الّٰلہﷺ**‬
‫کیا آپ کو یہ پسند ہے کہ میں اسے قتل کروں‪* ,‬آپﷺ* نے فرمایا‬
‫*"ہاں"* اس پر *محمد بن مسلمؓۃ * نے عرض کی کہ "مجھے اجازت‬
‫دیجیئے کہ میں اس سے ہیرا پھیری کی بات کروں(یعنی ڈھنگ کی بات‬
‫*"کروں)‪* ,‬حضورﷺ* نے فرمایا *"ہاں اجازت ہے‬

‫تو *محمد بن مسلمؓۃ * کعب کے پاس آئے اور اس سے کہنے لگے کہ اس مرد‬
‫نے ہم سے صدقہ مانگا ہے اور ہمیں مشقت میں ڈال دیا ہے اور میں تیرے‬
‫پاس قرضہ مانگنے آیا ہوں‪ ,‬کعب نے کہا‪ :‬الّٰلہ کی قسم! تم اس سے اور‬
‫بھی زیادہ مالل میں پڑو گے‬

‫محمؓد * نے کہا‪ :‬ہم چونکہ اس کی اتباع کر چکے ہیں لٰہ زا ہم نہیں چاہتے*‬
‫کہ اس کو چھوڑ دیں حتٰی کہ دیکھیں کہ اس کا کیا انجام ہوگا‪* ,‬محمؓد *‬
‫نے کہا کہ میں نے ارادہ کیا ہے کہ تو مجھے قرض دے دے‪ ,‬کعب نے کہا‬
‫(گروی) کیا رکھے گا؟‪ ,‬انہوں نے کہا تیرا کیا ارادہ ہے‪ ,‬کعب نے کہا تم اپنی‬
‫عورتیں میرے ہاں گروی رکھو‪ ,‬انہوں نے جواب دیا تم عرب کے حسین‬
‫ترین شخص ہو‪ ,‬ہم تمہارے پاس اپنی عورتیں کیسے گروی رکھ سکتے‬
‫‪,‬ہیں‪ ,‬کعب نے اس سے کہا‪ :‬تو اپنی اوالد میرے ہاں گروی رکھو‬

‫محمؓد * نے جواب دیا کہ ہمارے بیٹوں کو یہ طعنہ دیا جائے گا کہ فالں*‬


‫گروی رکھا گیا تھا تو یہ ہم پہ عار ہے‪ ,‬ہاں ہم تیرے ہاں ہتھیار گروی‬
‫رکھیں گے‪ ,‬کعب نے کہا‪ ,‬اچھا ٹھیک ہے‪* ,‬محمد بن مسلمؓۃ * نے ان سے‬
‫وعدہ کیا کہ وہ اس کے پاس *حارؓث ‪ ,‬ابوعبؓس اور عباد بن بشؓر * کو بھی‬
‫‪,‬لے کہ آئے گا‬

‫راوی نے کہا کہ یہ سب رات کو کعب کے پاس پہنچے اور اس کو بالیا‪ ,‬وہ‬


‫ان کی طرف اترا‪ .‬کعب کی بیوی نے اس سے کہا کہ میں ایسی آواز سنتی‬
‫ہوں کہ گویا وہ خون بہانے والے کی آواز ہے‪ ,‬کعب نے جواب دیا کہ یہ تو‬
‫*محمد بن مسلمؓہ * اور اس کا رضاعی بھائ *ابو نائلؓہ * ہے‪ ,‬بےشک کریم‬
‫کو اگر رات کے وقت اگر نیزے کی ضرب کے لیئے بھی پالیا جائے تب بھی‬
‫جواب دے گا‪* ,‬محمؓد * نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ جب وہ آئے گا میں‬
‫اپنا ہاتھ اس کے سر کی طرف بڑھاؤں گا ‪ ,‬پھر جب میں اس پر قابو پا‬
‫‪,‬جاؤں تو تم ہوشیاری سے اپنی تلواریں لے کر اس کو مار دینا‬

‫راوی نے کہا کہ جب وہ اترا اس حال میں کہ بغل سے نیچے کپڑا نکال کر‬
‫کندھے پر ڈالے ہوئے تھا تو انہوں نے کہا "ہم تیرے سے خوشبو محسوس‬
‫کرتے ہیں"‪ ,‬کہنے لگا کہ مستوراِت عرب میں سب سے زیادہ سے زیادہ‬
‫خوشبو والی میرے نیچے ہے‪* ,‬محمؓد * نے کہا‪ :‬کیا مجھے اجازت ہے کہ‬
‫میں تیرے سر کو سونگھ لوں‪ ,‬اس نے کہا‪ :‬ہاں‪ ,‬تو *محمؓد * نے اس کے سر‬
‫کو سونگھا اور قابو پا گئے‪ ,‬ساتھیوں سے کہا‪ :‬اسے قتل کر دو تو انہوں نے‬
‫‪,‬قتل کر دیا‬

‫‪.‬پھر *حضورﷺ* کے پاس آ کر اس واقعہ کی خبر دی‬

‫)صحیح بخاری جلد‪ ,۲‬ص ‪ ٥۷٦‬و صحیح مسلم جلد‪ ,۲‬ص ‪(١١۰‬‬

‫اس واقعہ کو امام ابوالقاسم عبدالّٰلہ بن محمد البغوؒی اور ابو احمد ‪22:‬‬
‫ابن عدؒی نے الکامل میں بیان کیا ہے‪ .‬کہ مدینہ منورہ سے دو میل کے‬
‫فاصلے پر بنو لیث کا کا قبیلہ تھا‪ُ .‬ا ن میں سے ایک آدمی نے زمانۂ جاہلیت‬
‫میں ان کی کسی عورت کے ساتھ منگنی کی تھی مگر انہوں نے اسے‬
‫شادی نہ کرنے دی یہ ان کے پاس ایک قیمتی جوڑا(ُح ّلہ) لے کر گیا اور کہا‬
‫کہ *رسول الّٰلہ ﷺ* نے مجھے یہ ُح ّلہ پہنا کر بھیجا ہے اور مجھے ارشاد‬
‫بھی فرمایا ہے کہ میں تمہارے خون (قتل) اور اموال کا فیصلہ کروں‪ ,‬پھر‬
‫یہ اس عورت کے گھر والوں کے پاس گیا‪ ,‬جس سے محبت کرتا تھا تو ان‬
‫لوگوں نے *رسول الّٰلہ ﷺ* کی طرف قاصد روانہ کر کہ حقیقت معلوم‬
‫کرنے کی کوشش کی تو *رسول الّٰلہ ﷺ* نے فرمایا‬

‫*"الّٰلہ تعالٰی کے دشمن نے جھوٹ بوال"*‬

‫‪:‬پھر ایک آدمی کو اس کی طرف روانہ کیا اور فرمایا‬

‫اگر وہ تجھے مل جائے تو اسے قتل کر ڈالنا اور اگر وہ مر جائے تو اسے"*‬
‫*"آگ میں جال دینا‬

‫‪:‬پھر ارشاد فرمایا‬

‫جو شخص جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولتا ہے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم"*‬
‫*"میں بنا لے‬

‫اس کی سند صحیح کی شرط پر ہے‪ ,‬اس کی کوئ علت بھی معلوم نہیں‪.‬‬
‫اس واقعہ کا ایک شاہد(تائیدی روایت) بھی ہے ‪ ,‬مگر اس میں ہے‬

‫‪".‬آگ سے مت جالنا کیونکہ آگ سے عزاب آگ کا پروردگار ہی دے سکتا ہے"‬

‫اس حدیث کے متعلق لوگوں کے دو اقوال ہیں‬

‫الکامل ال بن عدی (‪ )٥۴-٥٣/۴‬ابن عدی نے یہ واقعہ بیان کیا ہے اور اسے ‪.‬‬
‫صالح بن حیان قرشی کوفی کی مناکیر میں شامل کیا ہے اور اس کے بعد‬
‫کہا "یہ قصہ میں اسے صرف اسی سند جانتا ہوں" یعنی حجاج الشاعر‬
‫کی سند سے کہ حدثنا زکریا بن عدی حدثنا علی بن مسھر از صالح بن‬
‫حیان از از ابن بریدۃ از أبیہ‬

‫یہ شیخ االسالم کا وہم ہے اس کی وجہ صالح بن حیان قرشی اور صالح ‪.‬‬
‫بن حیی کے درمیان تفریق نہ کرنے کا نتیجہ ہے‪ ,‬بعض نے حیان کہا ہے ثقہ‬
‫راوی ہے‪ ,‬اس وہم کی نشاندہی زمانۂ قدیم میں حافظ ذہبی نے سیر أعالم‬
‫النبالء (‪ )٣۷۴-٣۷٣/۴‬میں کی ہے کہا ‪ :‬ہمارے شیخ ابو العباس نے اپنی‬
‫کتاب "الصارم المسلول" میں صالح بن حیان کی اس حدیث پر اعتماد کیا‬
‫ہے اور اسے قوی قرار دیا ہے اس میں ان کا وہم ہے دیکھیئے‪ :‬المیزان‬
‫‪۷/٣().‬‬

‫اس واقعہ کا ایک شاہد(تائیدی روایت) بھی ہے ‪ ,‬مگر اس میں ہے‬

‫‪".‬آگ سے مت جالنا کیونکہ آگ سے عزاب آگ کا پروردگار ہی دے سکتا ہے"‬

‫المعھانی النھر و انی نے الجلیس الصالح (‪ )١۷٣-١۷۲/١‬میں روایت کیا ہے‪,‬‬


‫اس کی سند سے ابن الجوزی نے اموضوعات (‪ )۸٣/١‬میں بیان کیا ہے اس‬
‫کی سند میں داود بن زبرقان مترک راوی ہیں اس حدیث کے دیگر ضعیف‬
‫شواہد بھی ہیں جن کی بدولت یہ مقبول درجے میں پہنچ جاتی ہے‪ ,‬اما‬
‫ذہبی رحمتہ الّٰلہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ "اس کی کوئ سند صحیح‬
‫)نہیں" قصص ال تثبت للعتیق (‪۲۴-١٣/۴‬‬

‫‪.‬صحیح بخاری‪ ,‬حدیث (‪ )١۲۹١‬و صحیح مسلم‪ ,‬حدیث (‪ )۴‬ان المغعیرۃ ‪.‬‬

‫‪*:‬حصہ دوم* ‪2/12/22, 7:16 PM - M|J WATTO:‬‬

‫وہ واقعات کہ جب صحابہ کراؓم نے *رسوِل پاکﷺ* سے فیصلہ لیئے بغیر‬


‫‪.‬گستاخان کو قتل کر دیا‬

‫امام شعبؒی * *حضرت علؓی * سے روایت کرتے ہیں کہ ایک یہودن*‪1:‬‬


‫*رسول الّٰلہ ﷺ* کی گستاخی اور الزام تراشی کرتی تھی‪ ,‬ایک‬
‫آدمی(خاوند) نے اس کا گال گھونٹ دیا یہاں تک کہ وہ مر گئ تو *رسول‬
‫‪.‬الّٰلہ ﷺ* نے اس کے خون کو رائیگاں قرار دیا‬

‫اسے ابو داؤد ‪ ,‬ابِن بطہ نے روایت کیا ہے‪ .‬امام احمد نے اس سے استدالل‬
‫کیا ہے‪ .‬یہ بھی مروی ہے کہ یہ آدمی نابینا تھا یہ عمدہ حدیث ہے‬
‫اورمتصل ہے کیونکہ شعبؒی نے *حضرت علیؓ* کو دیکھا ہے اگرچہ یہ‬
‫مرسل ہے مگر مکمل طور پر حجت ہے کیونکہ محدثین کے ہاں شعبی‬
‫صحیع المراسیل ہیں اس کی ہر مرسل صحیع ہے یہ قصہ گستاِخ *رسول‬
‫‪.‬ﷺ* کے قتل میں صریح ہے‬

‫اور یہ اس کی بھی دلیل ہے کہ ذمی واجب القتل ہے‪ ,‬مسلمان مرد و‬


‫‪.‬عورت گستاخی کریں گے تو باالولٰی واجب القتل ہونگے‬

‫)‪ :١‬رقم (‪۴٣٦۲‬‬

‫سنن ابِن بطۃ جیسا کہ شیخ االسالم نے زکر کیا ہے‪ ,‬یہ کتاب طبقات ‪۲:‬‬
‫الحنابلہ (‪ )۲۷۰/٣‬میں ان کی سوانح عمری میں موجود ہے‪ .‬یہ کتاب گمشدہ‬
‫‪.‬کتب کے زمرے میں ہے‬

‫‪ :٣‬عبدالّٰلہ نے ان (احمد) سے بیان کیا ہے جیسا کہ الخالل نے الجامع‬


‫(‪ )٣۴١/۲‬میں زکر کیا ہے‬

‫خالل نے الجامع األحکام أھل الملل (‪ )٣۴١/۲‬میں شعبی سے مرسًال بیان ‪۴:‬‬
‫‪.‬کیا ہے‬

‫‪ :٥‬جامع التحصیل (ص‪ )۲۰۴:‬و تحفۃ التحصیل (‪١٦۷:١‬ب) شعبی کی‬


‫حضرت علی سے روایت صحیع بخاری (‪ )٦۸١۲‬میں ہے‪ ,‬بعض محدثین نے‬
‫اس کی تردید کی ہے‪ .‬امام دارطقنی نے صراحت کی ہے کہ شعبی نے‬
‫)حضرت علی سے صرف یہی حدیث سنی ہے‪ .‬فتح الباری(‪١۲١/١۲‬‬

‫‪ ):٦‬اسے عجلی نے زکر کیا ہے‪ ,‬ابن المدینی نے قوت میں شعبی کی‬
‫مراسیل کو ابن المسیب کی مراسیل سے مالیا ہے‪ .‬شرح علل ترمذی البن‬
‫)رجب (‪٥۴٣/١‬‬
‫حضرت عبدالّٰلہ بن عباؓس * فرماتے ہیں ایک نابینے آدمی کی لونڈی*‪2:‬‬
‫تھی جس کے بطن سے اس کا بیٹا بھی تھا *رسول الّٰلہ ﷺ* کو دشنام‬
‫دیتی اور *آپ ﷺ* پر تنقید کے نشتر چالتی تو اس نابینے نے باریک تیز‬
‫دھار نوک والی چھڑی پکڑی اور اسے عورت کے پیٹ پر رکھ کر اس پر اتنا‬
‫زبردست دباؤ ڈاال کہ اسے قتل کر ڈاال پھر یہ قصہ *نبی اکرم ﷺ* سے‬
‫زکر کیا گیا تو *آپ ﷺ* نے اس کے خون کو رائیگاں قرار دیا‪ .‬اسے امام‬
‫ابوداؤد اور امام نسائ نے روایت کیا ہے‪ .‬امام احمد نے اس سے استدالل‬
‫‪.‬کیا ہے‬

‫‪:‬سند‬

‫ابو داؤد (‪ ,)۴٣٦١‬نسائ (‪ )١۰۷/۷‬دارقطنی (‪ )١١۲/٣‬نے بیان کیا ہے‪ .‬الحاکم‬


‫(‪ )٣۰۴/۴‬بیہقی (‪ )٦۰/۷‬سبھی عثمان الشحام از عکرمۃ از ابِن عباس بہ‪,‬‬
‫امام حاکم نے اس کی تصحیح کی ہے‪ .‬ابِن حجر بلوغ المرام (‪ )١٣۸/٦‬میں‬
‫‪".‬فرماتے ہیں "اس کے راوی ثقہ ہیں‬

‫)الجامع االحکام اھل الملل للخال (‪٣۴١/۲‬‬

‫ابو عفک یہودی کا قصہ ہے جسے اہِل مغازی اور سیرت نے نقل کیا ہے‪3:.‬‬
‫اس کا طریقہ یہ تھا کہ *رسول الّٰلہ ﷺ* کی ہجو کیا کرتا تھا یہاں تک کہ‬
‫جب *آپ ﷺ* میداِن بدر کی طرف نکلے اور *الّٰلہ* نے *آپﷺ* کو‬
‫زبردست کامرانی عطا فرمائ تو اس نے حسد کیا اور *آپ ﷺ* کے‬
‫متبعین کی مذمت کی اور انتہائ قبیح جملہ یہ کہا‪ ,‬ان کا معاملہ ایک‬
‫سوار چھین گیا خواہ حرام ہو یا حالل ہر دو صورتوں میں ہے‬

‫حضرت سالم بن عمیؓر * نے کہا میں نے اسے قتل کرنے کی نذر مانی ہے*‬
‫اور امام احمد بن سعد نے ذکر کیا ہے کہ وہ یہودی تھا مگر اہِل مغازی کی‬
‫یہ روایت ہے لیکن یہ درست ہے کہ یہ قصہ تقویت پہنچانے واال‪ ,‬تنقید‬
‫کرنے واال اور موید ہو‬

‫واقدی نے المغازی (‪ )١۷۴/١‬نے روایت کیا ہے‪.‬‬

‫)سیرِت ابِن حشام (‪٦٣٦-٦٣٥/۴‬‬

‫حضرت ابِن عباؓس * سے روایت ہے کہ ایک *نابینا صحابؓی * کی لونڈی*‪4:‬‬


‫ُا م ولد تھی‪* ,‬حضورﷺ* کو سّب و شتم کرتی تھی‪ ,‬وہ باز نہ آئ‪* ,‬نابینا‬
‫صحابؓی * نے اسے جھڑکا‪ ,‬وہ نہ رکی‪ ,‬ایک رات وہ لونڈی *حضورﷺ* کی‬
‫شان میں گستاخی و بے ادبی کرنے لگی تو اس لونڈی کے پیٹ پر تلوار‬
‫‪,‬رکھ کر دبایا اور اسے قتل کر دیا‬

‫پس جب صبح ہوئ تو *رسول الّٰلہﷺ* کی خدمت میں یہ واقعہ زکر کیا‬
‫‪:‬گیا‪* ,‬حضورﷺ* نے لوگوں کو جمع کیا پھر فرمایا‬

‫میں اس کو قسم دیتا ہوں کہ کھڑا ہو جائے جس نے کیا جو کچھ کیا‪*",‬‬


‫*"میرا اس پر حق ہے کہ میری اطاعت کرے‬

‫تو *نابینا صحابؓی * کھڑے ہوگئے‪ ,‬لوگوں کو پھالنگتے ہوئے اس حال میں‬
‫آیا کہ خوف سے کانپتے تھے‪ ,‬حتٰی کہ *رسول الّٰلہﷺ* کے سامنے بیٹھ‬
‫گئے‪ ,‬عرض کرنے لگا‪* :‬یا رسول الّٰلہﷺ* میں اس لونڈی کا مالک ہوں اور‬
‫میں نے اس کا کام تمام کیا ہے‪ ,‬وہ *آپﷺ* کو گالیاں دیتی تھی‪ ,‬میں نے‬
‫اسے روکا نہ رکی میں نے اسے جھڑکا وہ باز نہ آئ' اس سے میرے دو بیٹے‬
‫ہیں اور وہ میری رفیقہ تھی‪ ,‬گذشتہ رات *آپﷺ* کی شان میں‬
‫گستاخی شروع ہوئ' میں نے تلوار اٹھائ اور اس کو اس کے پیٹ میں‬
‫‪,‬رکھا اور خود اور چڑھ گیا حتٰی کہ اسے قتل کر دیا‬
‫حضور ﷺ نے فرمایا‪ :‬اے حاضریِن مجلس! خبردار تم گواہ ہو جاؤ!"*‬
‫اس عورت کا خون رائیگاں ہے"*‪( ,‬یعنی *نابینا صحابؓی * نے ٹھیک کیا‬
‫ماذی *رسولﷺ* قتل کرنے کے ہی قابل ہے‪ ,‬اس کے خون کا بدلہ نہیں لیا‬
‫)جائے گا‪ ,‬اس لعین کا خون ضائع جائے گا‬

‫سنن ابی داؤد‪ ,‬کتاب الحدود باب الحکم فی َم ن َس َّب الَّن ِب َّی ﷺ‪ ,‬سنن(‬
‫)نسائ کتاب المحاربۃ باب الحکم فیمن سب النبی ﷺ‬

‫حضرت علؓی * سے روایت ہے کہ ایک یہودیہ *حضورﷺ* کی شاِن *‪5:‬‬


‫اقدس میں گستاخی و بے ادبی کرتی تھی تو ایک *صحابؓی * نے اس کا‬
‫گلہ گھونٹا یہاں تک کہ وہ مر گئ‪* ,‬حضورﷺ* نے اس کا خون باطل کیا‬
‫‪.‬کہ وہ رائیگاں گیا‪ ,‬بدلہ نہیں لیا جائے گا‬

‫)سنن ابی داؤد‪ ,‬ص‪ ,۲۴۴‬مشکٰو ۃ شریف ص‪(٣۰۸‬‬

‫حضرت عمؓر * نے اس آدمی کو قتل کیا جس نے *رسول الّٰلہﷺ* کے*‪6:‬‬


‫‪,‬حکم پر رضا مندی کا اظہار نہیں کیا‬

‫)الدر المنشور (‪٣۲۲/۲‬‬

‫َح َّد َث َنا اْبُن َع َّب اٍس اناْع َم ى َكاَن ْت َلُه ُأ ُّم َو َلٍد َتْش ُت ُم الَّن ِب َّي َص َّلى الَّلُه َع َلْي ِه ‪7:‬‬
‫َو َس َّلَم َو َتَق ُع ِف يِه َف َي ْنَه اَها َف اَل َت ْنَت ِه ي َو َي ْز ُج ُر َها َف اَل َت ْن َز ِج ُر َق اَل َف َلَّم ا َكاَن ْت َذ اَت‬
‫َلْي َلٍة َج َع َلْت َتَق ُع ِف ي الَّن ِب ِّي َص َّلى الَّلُه َع َلْي ِه َو َس َّلَم َو َتْش ُت ُم ُه َف َأ َخ َذ اْلِم ْغ َو َل‬

‫َف َو َض َع ُه ِف ي َبْط ِن َه ا َو اَّت َكَأ َع َلْي َه ا َف َق َت َلَه ا َف َو َق َع َب ْي َن ِرْج َلْي َه ا ِط ْف ٌل َف َلَّط َخ ْت َم ا‬


‫ُه َناَك ِب الَّد ِم َف َلَّم ا َأ ْص َب َح ُذ ِك َر َذ ِلَك ِلَر ُس وِل الَّلِه َص َّلى الَّلُه َع َلْي ِه َو َس َّلَم َف َج َم َع‬
‫الَّناَس َف َق اَل َأ ْنُش ُد الَّلَه َرُج اًل َف َع َل َم ا َف َع َل ِلي َع َلْي ِه َح ٌّق ِإ اَّل َق اَم َف َق اَم اَأْلْع َم ى‬
‫َي َت َخ َّط ى الَّناَس َو ُه َو َي َت َز ْلَز ُل َح َّت ى َق َع َد َب ْي َن َي َد ْي الَّن ِب ِّي َص َّلى الَّلُه َع َلْي ِه َو َس َّلَم‬
‫َف َق اَل َي ا َرُس وَل الَّلِه َأ َن ا َص اِح ُب َه ا َكاَن ْت َتْش ُت ُم َك َو َتَق ُع ِف يَك َف َأ ْن َه اَها َف اَل َت ْنَت ِه ي‬
‫َو َأ ْز ُج ُر َها َف اَل َت ْن َز ِج ُر َو ِلي ِم ْنَه ا اْبَناِن ِم ْث ُل الُّلْؤ ُلَؤ َت ْي ِن َو َكاَن ْت ِب ي َرِف يَق ًة َف َلَّم ا َكاَن‬
‫اْلَب اِرَح َة َج َع َلْت َتْش ُت ُم َك َو َتَق ُع ِف يَك َف َأ َخ ْذ ُت اْلِم ْغ َو َل َف َو َض ْع ُت ُه ِف ي َبْط ِن َه ا‬
‫َو اَّت َكْأ ُت َع َلْي َه ا َح َّت ى َق َت ْلُت َه ا َف َق اَل الَّن ِب ُّي َص َّلى الَّلُه َع َلْي ِه َو َس َّلَم َأ اَل اْش َه ُد وا َأ َّن‬
‫َد َم َه ا َهَد ٌر‬

‫)ابوداؤد‪ ،‬باب الحکم فی من سب(‬

‫‪:‬ترجمہ‬

‫حضرت ابن عباؓس * سے روایت ہے کہ ایک نابینا کی ام ولد باندی تھی*‬


‫جو کہ *نبیﷺ* کو گالیاں دیتی تھی اور *آپﷺ* کے شان میں‬
‫گستاخیاں کرتی تھی‪ ،‬یہ نابینا اسکو روکتا تھا مگر وہ نہ رکتی تھی ۔ یہ‬
‫اسے ڈانٹتا تھا مگر وہ نہیں مانتی تھی۔راوی کہتا ہے کہ جب ایک رات‬
‫پھر *نبیﷺ* کی شان میں گستاخیاں کرنی اور گالیاں دینی شروع کیں‬
‫تو اس نابینا نے ہتھیار(خنجر) لیا اور اسکے پیٹ پر رکھا اور اس پر اپنا‬
‫وزن ڈال کر دبا دیا اور مار ڈاال‪ ،‬عورت کی ٹانگوں کے درمیان بچہ نکل پڑا‪،‬‬
‫جو کچھ وہاں تھا خون الود ہوا ۔‬

‫جب صبح ہوئی تو یہ واقعہ *نبی پاکﷺ* کے ہاں ذکر ہوا۔آپ نے لوگوں‬
‫‪:‬کو جمع کیا ‪ ،‬پھر فرمایا کہ‬

‫اس آدمی کو الّٰلہ کی قسم دیتا ہوں جس نے کیا جو کچھ میرا اس پر "*‬
‫*"حق ہے کہ وہ کھڑا ہوجاے‬

‫تو نابینا کھڑا ہوا‪ ،‬لوگوں کو پھالنگتا ہوا اس حالت میں آگے بڑا کہ وہ‬
‫کانپ رہا تھا‪،‬حتی کہ *حضورﷺ* کے سامنے بیٹھ گیا اور عرض کیا کہ‬

‫یا رسول الّٰلہﷺ* میں ہوں اسے مارنے واال‪ ،‬یہ آپ کو گالیاں دیتی تھی*‬
‫اور گستاخیاں کرتی تھی میں اسے روکتا تھا وہ نہ رکتی تھی ‪ ،‬میں‬
‫دھمکاتا تھا وہ باز نہیں آتی تھی اور اس سے میرے دو بچے ہیں جو‬
‫موتیوں کی طرح ہیں اور وہ مجھ پر مہربان بھی تھی‪ ،‬لیکن آج رات جب‬
‫اس نے آپکو گالیاں دینی اور برا بھال کہنا شروع کیا تو میں نے خنجر لیا‬
‫اور اسکی پیٹ پر رکھا اور زور لگا کر اسے مار ڈاال۔ *نبیﷺ* نے فرمایا‬
‫‪:‬کہ‬

‫لوگوں گواہ رہو اسکا خون بے بدلہ (بے سزا) ہے"*۔ "*‬

‫حضرت شعبؒی حضرت علی المرتضٰی شیِر خداؓ* سے روایت بیان* ‪8:‬‬
‫‪:‬فرماتے ہیں‬

‫َأ َّن َي ُه وِد َّي ًة َكاَن ْت َتْش ُت ُم الَّن ِب َّي (ﷺ) َو َتَق ُع ِف ْي ِه ‪َ ،‬ف َخ َن َق َه ا َرُج ٌل َح َّت ى َم اَت ْت ‪’’،‬‬
‫]َف َأ ْبَط َل الَّن ِب ُّي (ﷺ) َد َم َه ا‘‘[‪21‬‬

‫ایک یہودیہ *حضور نبی کریم ﷺ* کو سب و شتم کرتی تھی اور *آپ’’‬
‫ﷺ* کی ذاِت اقدس میں عیب تالش کرتی تو ایک شخص نے اس کا گال‬
‫گھونٹ دیا حتی کہ وہ مر گئی تو *حضور نبی کریم ﷺ* نے اس کے‬
‫خون کو رائیگاں قرار دیا (یعنی بدلہ قصاص و دیت کی صورت میں بدلہ‬
‫‪)‘‘-‬نہیں دلوایا‬

‫‪:‬حضرت عبداللہ بن عباؓس * سےروایت ہے* ‪9:‬‬

‫ایک آدمی کی لونڈی تھی جس سے اس کے موتیوں جیسے دو بیٹے تھے’’‬


‫اور وہ *حضور نبی کریم ﷺ* کو (معاذ اللہ) ُبرا بھال کہتی ‪-‬وہ اسے منع‬
‫کرتا اور جھڑکتا لیکن وہ نہ رکتی اور نہ باز آتی‪ -‬ایک رات وہ اسی طرح‬
‫*رحمِت کائنات ﷺ* کا (نا مناسب الفاظ میں) ذکرکرنے لگی جس پر اس‬
‫*صحابی رسول ﷺ* کو صبر نہ ہوا تو اس نے ایک خنجر اٹھا کر اس کے‬
‫پیٹ میں مارا اور اس پرٹیک لگائی یہاں تک وہ اس (ملعونہ) کے آرپار‬
‫‪:‬ہوگیا تو *رسول الّٰلہ ﷺ* نے ارشادفرمایا‬
‫]َأ ْش َه ُد َأ َّن َد َم َه ا َهَد ٌر‘‘*[‪*’’22‬‬

‫‪‘‘* -‬میں گواہی دیتاہوں کہ اس کا خون رائیگاں ہے’’*‬

‫‪ ) -‬بالفاِظ دیگر *خاتم النبّی ین ﷺ* نے عمِل صحابی کی تائید فرمائی(‬

‫مشہور سیرت نگار *امام محمد بن سعؒد * اس بد بخت عورت کے قتل‪10:‬‬


‫‪:‬کے بارے میں اپنی کتاب *طبقات ابن سعد* میں رقم طرز ہیں‬

‫عصماء یزید بن زید بن حصن الخطمی کے پاس تھی اسالم میں عیب"‬
‫نکالتی‪* ,‬نبی کریمﷺ* کی ہجو کرتی‪* ,‬آپﷺ* کی مخالفت برانگیختہ‬
‫کرتی اور شعر کہتی تھی‪* ,‬عمیر بن عدؓی * رات کے وقت آئے اور مکان‬
‫میں داخل ہو کر اس کے پاس آئے عصماء کے اردگرد اس کے بچوں کی‬
‫ایک جماعت سو رہی تھی اس کے پاس چھوٹا دودھ پینے واال بچہ سو رہا‬
‫تھا *حضرت عمیؓر * نابینا تھے ہاتھ سے ٹٹول کر بچے کو ماں سے علیحدہ‬
‫کیا تلوار اس کے سینے پر رکھ دی جو اس کے جسم کے پار ہو گئ‬
‫*حضرت عمیؓر * نے صبح کی نماز *مدینہ طیبہ* میں *نبی کریمﷺ* کے‬
‫‪:‬ساتھ پڑھی *رسول الّٰلہﷺ* نے پوچھا‬

‫*"کیا تم نے دختر مروان کو قتل کر دیا؟"*‬

‫انہوں نے عرض کی‪" :‬ہاں"‪ ,‬اس بارے میں میرے زمہ کچھ اور ہے؟‬
‫‪*:‬آپﷺ* نے فرمایا‬

‫*"نہیں اس کے بارے میں دو بھیڑیں لڑیں گی"*‬

‫یہ کلمہ وہ تھا جو سب سے پہلے *رسول الّٰلہﷺ* سے سنا گیا *رسول‬


‫"الّٰلہﷺ* نے ان کا نام *عمیر بصیر(بینا)* رکھا‬

‫‪:‬اور *رسول الّٰلہﷺ* نے فرمایا‬


‫‪:‬رسول الّٰلہﷺ* نے فرمایا*‬

‫جب تم ایسے شخص کو دیکھنا چاہو جس نے الّٰلہ اور اس کے رسولﷺ"*‬


‫*کی غیبی مدد کی ہے تو عمیر بن عدی کو دیکھ لو‬

‫)طبقات ابن سعد‪ ,‬جلد‪ ,۲‬صفحہ ‪(۲۷‬‬

‫ابو عفک یہودی کے قتل کا واقعہ بیان کرتے ہوئے ابن سعؒد لکھتے ہیں‪11:‬‬
‫‪:‬کہ‬

‫ابو عفک *عمرو بن عوؓف * سے ایک سو بیس سال کا بوڑھا شخص تھا"‬
‫یہودی تھا لوگوں کو *رسول الّٰلہﷺ* کی مخالفت پر برانگیختہ کرتا اور‬
‫شعر کہا کرتا تھا *حضرت سالم بن عمیؓر * نے جو بکثرت رونے والوں میں‬
‫سے تھے اور بدر میں حاضر ہوئے تھے کہا کہ مجھے پر یہ نظر ہے میں ابو‬
‫عفک کو قتل کروں گا یا اس کےلیئے مر جاؤں گا وہ ٹھہرے ہوئے اس کی‬
‫غفلت کے انتظار میں تھے یہاں تک کہ گرمی کی ایک رات کو ابو عفک‬
‫میدان میں سویا *سالم بن عمیؓر * کو اس کا علم ہو گیا وہ آئے اور تلوار‬
‫اس کے جگر پر رکھ دی پھر اسے دبا کر کھڑے ہوگئے یہاں تک کہ وہ بستر‬
‫میں گھس گئ *الّٰلہ* کا دشمن چیخا تو اس کے ماننے والے دوڑ کر آئے‬
‫" پس وہ اسے اٹھا کر اس کے گھر لے گئے اور اس کی الش کو دفن کر دیا‬

‫)طبقات ابن سعد‪ ,‬جلد‪ ,۲‬صفحہ‪(۲۸‬‬

‫۔ ایک *نابینا صحابؓی * کی باندی *حضور ﷺ* کی شان میں گستاخی‪12:‬‬


‫کرتی تھی‪ ،‬وہ ایک رات اٹھے اور اسے اس کے منطقی انجام تک پہنچایا۔‬
‫*حضور ﷺ* کو خبر ملی تو فرمایا کہ اس کا خون ہدر اور رائیگاں ہے۔‬
‫)(بلوغ المرام فی احادیث االحکام‪ ،‬ص ‪۱۲۳:‬‬
‫ایک منافق اور ایک یہودی کا جھگڑا ہوا یہودی نے کہا میرے اور‪13:‬‬
‫تمہارے درمیان *ابوالقاسمﷺ* فیصلہ کریں گے منافق نے کہا‪ :‬کعب بن‬
‫اشرف فیصلہ کرے گا کیونکہ کعب بن اشرف بہت رشوت خور تھا یہودی‬
‫اس مقدمہ میں حق پر تھا اور منافق باطل پر تھا اس لیئے یہودی *رسول‬
‫الّٰلہﷺ* کے پاس اور منافق کعب بن اشرف کے پاس مقدمہ لے کے جانا‬
‫چاہتا تھا یہودی نے اس بات پر اصرار کیا تو دونوں *رسول الّٰلہﷺ* کے‬
‫پاس گئے‪* ,‬رسول الّٰلہﷺ* نے یہودی کے حق میں فیصلہ کر دیا‪ ,‬منافق‬
‫اس فیصلہ سے راضی نہ ہوا اور کہا میرے اور تمہارے درمیان *حضرت‬
‫عمؓر * فیصلہ کریں گے جب وہ *حضرت عمؓر * کے پاس آئے تو یہودی نے‬
‫بتایا کہ *رسول الّٰلہﷺ* اس کے حق میں فیصلہ کر چکے مگر یہ شخص‬
‫مانتا نہیں‪* .‬حضرت عمؓر * نے اس منافق سے پوچھا‪" :‬کیا ایسا ہی ہے"‬
‫اس نے کہا ہاں *حضرت عمؓر * نے کہا‪ :‬ٹھرو انتظار کرو میں ابھی آتا ہوں‬
‫گھر گئے‪ ,‬تلوار لے کر آئے اور منافق کا سر قلم کر دیا پھر اس منافق کے‬
‫گھر والوں نے *نبی کریمﷺ* سے *حضرت عمؓر * کی شکایت کی‪* .‬رسول‬
‫الّٰلہﷺ* نے *حضرت عمؓر * سے تفصیل معلوم کی *حضرت عمؓر * نے‬
‫عرض کی‪* " :‬یا رسول الّٰلہﷺ* اس نے *آپﷺ* کے فیصلے کو مسترد‬
‫کیا تھا اسی وقت *جبریل امین علیہ السالم* حاضر ہوئے اور کہا‪" :‬یہ‬
‫*فاروؓق * ہیں انہوں نے حق اور باطل کے درمیان فرق کیا *نبی کریمﷺ*‬
‫‪:‬نے *حضرت عمؓر * سے فرمایا‬

‫*"تم فاروؓق ہو"*‬

‫حضرت عمؓر * کے اس فیصلے سے بات مترشح اور واضح ہو گئ کہ*‬


‫*رسول الّٰلہﷺ* کے فیصلے کو تسلیم نہ کرنا بھی اہانِت *رسولﷺ* ہے‬
‫اور توہیِن *رسولﷺ* کے مرتکب شخص کی سزا وہی یے جو *فاروق‬
‫اعظؓم * نے تجویز فرمائ اور *رسول الّٰلہﷺ* نے اس فیصلے پر مہر‬
‫‪.‬تصدیق ثبت فرما کر اس کی توثیق فرما دی‬

‫عمیر بن امیہ رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ* کی ایک بہن تھی‪* ,‬عمیر* جب* ‪14:‬‬
‫*نبی کریمﷺ* کی طرف جاتے تو وہ انہیں *رسول الّٰلہﷺ* کے بارے‬
‫میں تکلیف دیتی اور *نبی کریمﷺ* کو گالیاں دیتی تھی اور یہ تھی‬
‫بھی مشرکہ‪ ,‬ایک دن انہوں نے تلوار اٹھائ‪ ,‬پھر اس کے پاس آئے اور اسے‬
‫تلوار کا وار کر کے قتل کر دیا‪ ,‬اس کے بیٹے اٹھ کھڑے ہوئے‪ ,‬انہوں نے‬
‫چیخ و پکار شروع کر دی اور کہنے لگے‪" :‬ہمیں معلوم ہے کہ کس نے اسے‬
‫قتل کیا ہے‪ ,‬کیا ہمیں امن و امان دے کر قتل کیا گیا ہے؟ اور اس قوم کے‬
‫آباؤ اجداد اور مائیں مشرک ہیں"‪ ,‬جب *عمیر* کو خوف پیدا ہوا کہ وہ‬
‫لوگ اپنی ماں کے بدلے کسی کو ناجائز قتل کر دیں گے تو وہ(عمیر) *نبی‬
‫‪:‬کریمﷺ* کے پاس گئے اور *آپﷺ* کو خبر دی تو *آپﷺ* نے فرمایا‬

‫*"کیا تو نے اپنی بہن قتل کر دی ہے؟"*‬

‫‪:‬انہوں نے کہا‪" :‬ہاں"! *آپﷺ* نے فرمایا‬

‫*"کیوں؟"*‬

‫کہنے لگے‪" :‬یہ مجھے سے *آپﷺ* سے متعلق اذیت دیتی تھی" تو *نبی‬
‫کریمﷺ* نے ان کے بیٹوں کی طرف پیغام بھیجا اور ان سے پوچھا تو‬
‫انہوں نے کسی اور کو قاتل ٹھہرایا‪ ,‬تو *نبی کریمﷺ* نے ان کو خبر دی‬
‫اور اس کا خون رائیگاں قرار دیا‪ ,‬تو انہوں نے جواب میں کہا‪" :‬ہم نے سنا‬
‫"اور مان لیا‬

‫مجمع الزوائد‪ ,‬کتاب الحدود‪ ,‬باب فی من سب نبیًا أو غیرہ‪(۲۸۷/٦ :‬‬


‫)ح‪ ,١۰٥۸۰:‬المعجم الکبیر‪ ,١٦٥-١٦۴/١۸ ,‬ح‪١۲۴:‬‬
‫سبحان الّٰلہ! یہ ہے *رسول الّٰلہﷺ* سے محبت کی اعلٰی مثال اور عمدہ‬
‫دلیل کہ بھائ نے گستاخ بہن کو قتل کر دیا اور بیٹوں نے بھی گستاخ ماں‬
‫‪.‬کی پروا تک نہیں کی جو *الّٰلہ کے رسولﷺ* کی بے ادبی کرتی تھی‬

‫‪:‬حصہ سوئم ‪2/12/22, 7:16 PM - M|J WATTO:‬‬

‫وہ واقعات کہ جب گستاِخ *رسولﷺ* کو خود صحابؓہ نے برائے عدالت‬


‫‪.‬اور ماورائے عدالت قتل کیا‬

‫حضرت عمؓر * کے پاس ایک آدمی الیا گیا جو شاتم *رسولﷺ* تھا*‪1:‬‬
‫آپ نے اسے قتل کروا دیا پھر *حضرت عمؓر * نے فرمایا‪"* :‬جو الّٰلہ یا انبیاء‬
‫*"‪.‬کرام علیہم السالم میں سے کسی کو گالی دے اسے قتل کر دو‬

‫)الصارم المسلول صفحہ ‪(١۷۰‬‬

‫حضرت حسان بن عطیؓہ * بیان کرتے ہیں کہ *رسول الّٰلہﷺ* نے ایک*‪2:‬‬


‫لشکر روانہ کیا جس میں *حضرت عبدالّٰلہ بن رواحؓہ اور حضرت جابؓر *‬
‫بھی شامل تھے جب صف آرائ ہوئ تو مشرکین میں سے ایک آدمی نے آگے‬
‫بڑھ کر *رسول الّٰلہﷺ* کو برا بھال کہنا شروع کر دیا تو مسلمانوں میں‬
‫سے ایک آدمی آگے بڑھا اور کہا‪" :‬میں فالں بن فالں ہوں اور میری ماں‬
‫فالں عورت ہے تو مجھے اور میری ماں کو گالی دے لے مگر *رسول‬
‫الّٰلہﷺ* کو برا بھال کہنے سے اپنی زبان کو روک لے اس سے وہ کافر‬
‫مشتعل ہو گیا اور پھر زبان درازی کرنے لگا مسلمان نے اپنے پہلے کلمات‬
‫دہرائے پھر تیسری مرتبہ اس کافر کو کہا‪" :‬اگر اب تو نے زبان درازی کی تو‬
‫میں تجھ پر تلوار سے حملہ کر دوں گا" اس نے پھر وہی بات کی تو وہ‬
‫اس پر حملہ آور ہوا پس وہ مشرک پیچھے ہٹا مسلمان نے اس کا تعاقب‬
‫کیا اور مشرکین کی صفوں کو چیرتے ہوئے اس پر تلوار سے وار کیا‬
‫مشرکوں نے اس مسلمان کو گھیرے میں لے کر شہید کر دیا تو *رسول‬
‫‪:‬الّٰلہﷺ* نے فرمایا‬

‫کیا تمہیں ایسے آدمی پر تعجب ہے جس نے الّٰلہ اور اسکے رسولﷺ کی"*‬
‫‪"*.‬مدد کی‬

‫)الصارم المسلول صفحہ ‪(١٣٣‬‬

‫حضرت ُح َص ين بن عبدالرحٰم ؓن * سے مروی ہے کہ *عبداللہ بن عمؓر ** ‪3:-‬‬


‫ایک راہب کے پاس سے گزرے تو *آؓپ * کوعرض کی گئی کہ یہ(بدبخت)‬
‫*حضور نبی کریم ﷺ* کو سب و شتم کرتا تھا اس پر *حضرت عبد اللہ‬
‫‪:‬بن عمؓر * نے فرمایا‬

‫]َلْو َس ِم ْع ُت ُه َلَق َت ْلُت ُه ِإ َّن ا َلْم ُن ْع ِط ِه ُم الِّذ َّم َة ِل َي ُس ُّب وا َن ِب َّي َنا (ﷺ)[‪’’30‬‬

‫اگر میں اس سے *حضور نبی کریم ﷺ* کے حق میں سب و شتم سنتا’’‬


‫تو اسے قتل کر دیتا کیونکہ ہم نے ذمیوں کو اس بات پر عہد و اماں نہیں‬
‫‪ ‘‘-‬دیا کہ وہ *حضور ﷺ* کی گستاخی و بے ادبی کرتے پھریں‬

‫حضرت خالد بن ولیؓد * کا واقعہ بھی ہے کہ انہوں نے گستاِخ *‪4:‬‬


‫*رسولﷺ* عورت کو قتل کر دیا‬

‫))الجامع (‪ ,)٣۴۲/۲‬بہھقی (‪(۲۰٣-۲۰۲/۸‬‬

‫حضرت عبدالّٰلہ بن عمؓر * سے مروی ہے کہ وہ ایک راہب کے پاس سے*‪5:‬‬


‫گزرے تو *حضرت عبدالّٰلؓہ * کو بتالیا گیا کہ یہ *رسول اقدسﷺ* کی‬
‫شان کی گستاخی کرتا ہے‪* ,‬حضرت عبدالّٰلہ بن عمؓر * نے ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫""اگر میں اسے سن لیتا تو اس کی گردن تن سے جدا کر دیتا‬

‫صحیح بخاری اور صحیح مسلم اس آدمی کا واقعہ موجود ہے جس نے‪6:‬‬


‫‪.‬سونے کی تقسیم میں *رسول الّٰلہﷺ* پر کیچڑ اچھاال‬
‫) )صحیح بخاری‪ ,‬رقم‪ ,)٣٣۴۴( ,‬مسلم‪ ,‬رقم‪(١۰٦۴( ,‬‬

‫‪:‬تو *آپﷺ* نے ارشاد فرمایا‬

‫اس کی اوالد میں سے ایسے لوگ جنم لیں گے جو قرآن مجید کی"*‬
‫تالوت انتہائ احسن انداز میں کریں گے مگر وہ (قران) ان کے حلقوں سے‬
‫تجاوز نہیں کرے گا‪ ,‬دین سے وہ اس طرح نکلیں گے جیسے تیر کمان سے‬
‫نکلتا ہے‪ ,‬مسلمانوں کا قتل کریں گے اور بتوں کی پرستش کرنے والوں کو‬
‫پروٹوکول دیں گے اگر میں نے ان کو پا لیا تو عاد کے قتل کی طرح انہیں‬
‫*"قتل کر دوں گا‬

‫‪:‬نیز فرمایا‬

‫عنقریب زمانے کے آخر میں ایسے لوگ ظہور پزیر ہوں گے جو نوعمر"*‬
‫ہوں گے‪ ,‬عقلوں کے اعتبار سے بےوقوف ہوں گے‪ ,‬مخلوق سے سب سے‬
‫زیادہ عمدہ کالم ان کا ہوگا‪ ,‬ان کا ایمان ان کی ہنسلیوں سے تجاوز نہیں‬
‫کرے گا‪ ,‬دین میں ایسے نکلیں گے جیسے تیر کمان سے نکلتا ہے‪ ,‬تم جہاں‬
‫بھی انہیں پاؤ انہیں قتل کرو‪ ,‬جو انہیں قتل کرے گا قیامت کے دن اسے‬
‫*"اس قتل کا بدلہ دیا جائے گا‬

‫))اخرجہ البخاری‪ ,‬رقم (‪ )٣٦١١‬و مسلم‪ ,‬رقم‪(١۰٦٦( ,‬‬

‫یہ سبھی اس پر داللت کرتی ہیں کہ *رسول الّٰلہﷺ* عیب جوئ کرنے‬
‫والی اس جماعت کو قتل کرنے کا ارشاد فرمایا ہے اور یہ بھی اطالع دی‬
‫کہ جو انہیں قتل کرے گا اسے اس کے عوض میں اجر و ثواب سے نوازا‬
‫‪,‬جائے گا‬

‫‪:‬نیز فرمایا‬

‫*"آسمان کے چھت تلے یہ بدترین مقتول ہیں"*‬


‫اسے امام احمد (‪ ,)۲٥۰/٥‬ان کے بیٹے نے السنۃ (‪ ,)٦۴٣/۲‬امام ترمزی نے(‬
‫‪).‬حدیث (‪ )٣۰۰۰‬اور امام ابن ماجہنے حدیث (‪ )١۷٦‬میں بیان کیا ہے‬

‫مسجد نبوی شریف* کی تعمیر کےلیئے *حضرت عمر بن عبدالعزیؓز * نے*‪7:‬‬


‫انگریز مستری بھی لگائے‪ ,‬کسی مستری نے شرارت کرتے ہوئے قبلہ کی‬
‫جانب میں پانچ دریچوں اور صحن میں خنزیر کی تصویر بنا دی‪,‬‬
‫*حضرت عمر بن عبدالعزیؓز * کو معلوم ہوا تو *آپ* نے اس نامراد کا سر‬
‫‪.‬قلم کر دیا‬

‫)مدینۃ الرسول ص ‪(۲۰۲‬‬

‫شیخ محقق عبدالحق محدث دہلوؓی * فرماتے ہیں کہ *عالمہ ابن*‪8:‬‬


‫النجاؒر * نے *تاریِخ بغداد* میں بیان کیا ہے کہ بعضے زندیق جو بعض امراء‬
‫عبیدیہ سے ہیں‪ ,‬یہی مصر کے حاکم تھے اور *حرمین طیبین* کی والیت‬
‫بھی انہیں کے قبضہ و تصرف تھی‪ ,‬ان بدبختوں کی حالت تاریخ دانوں پر‬
‫واضح ہے‪ ,‬اس وقت *خلفائے فاطمیہ* میں سے خلیفہ حاکم بامرالّٰلہ‬
‫حکمران تھا' جس کی تاریخ سفاکیت اور طاغوّی ت کا ایک عبرت انگیز‬
‫افسانہ ہے‪ ,‬مؤرخین نے ُا سے مصر کا فرعون ثانی لکھا ہے کیونکہ اس نے‬
‫‪.‬بھی خدائ کا دعوٰی کیا تھا‬

‫غرض یہ کہ زندیق چاہتا تھا *نبی ﷺ* اور *شیخیؓن * کے *اجسام* کو‬


‫مدینہ سے مصر میں منتقل کرا لے تاکہ اس کا پایۂ تخت مقبول عام اور‬
‫زیارت گاِہ خاص و عام بن جائے‪ ,‬اس کام کےلیئے اس نے ایک درباری‬
‫ابوالفتوح کو مدینہ میں بھیجا‪ ,‬اہل مدینہ مضطر و بےقرار ہو کر اس کے‬
‫پاس جمع ہوئے اور اس کو اس کام سے باز رکھنے کےلیئے منت سماجت‬
‫کی لیکن شاہی حکم تھا وہ اس پر مصر رہا‪ ,‬اس مجمع میں ایک *قاری‬
‫‪:‬زلیائ* نامی تھا‪ ,‬اس نے قرآن کی آیت سنائ‬
‫ترجمہ‪"* :‬تم ان لوگوں سے کیوں نہیں لڑتے جنہوں نے اپنی قسمیں توڑ‬
‫ڈالیں اور رسول کو نکالنے کا ارادہ کیا‪ ,‬انہوں نے تمہارے ساتھ پہلے چھیڑ‬
‫چھاڑ شروع کی‪ ,‬کیا تم ان لوگوں سے ڈرتے ہ‪ ,‬بس اگر ایمان رکھتے ہو تو‬
‫‪"*.‬الّٰلہ زیادہ حقدار ہے کہ تم اس سے ڈرو‬

‫)پ‪ ,١۰‬سورہ التوبہ‪ ,‬آیت نمبر ‪(١٣‬‬

‫اس کے سننے کا بعد مجمع میں اس قدر جوش پیدا ہوگیا کہ اگر وہ‬
‫مصری حکومت کے ماتحت نہ ہوتے تو یقینًا ابو الفتح کو مار ڈالتے‪ ,‬اس‬
‫سے اس کی آنکھیں کُھ ل گئیں کہ وہ کس قدر سخت مہم پر بھیجا گیا ہے‬
‫کیونکہ جب ابھی یہ حالت ہے تو جب قبر کھدنی شروع ہوگی اس وقت‬
‫کیا ہوگا‪ ,‬اس لئے ڈر گیا‪ ,‬اسی روز شام کے وقت ایک نہایت خطرناک‬
‫آندھی آئ‪ ,‬جس کو لوگوں نے اس ناپاک ارادہ کی نحوست قرار دیا‪,‬‬
‫ابوالفتوح ان سب باتوں سے مرعوب ہو کر واپس چال گیا اور حاکم‬
‫بامرالّٰلہ کو اس فعل شنیع سے ڈرایا مگر ابن سعدون نے لکھا کہ عوام نے‬
‫‪.‬اسے قتل کر دیا‬

‫)جذب القلوب ص‪ ,١۲٦,١۲٥‬وفاءالوفاء‪ ,‬تاریخ بغدادالنجار(‬

‫ابن ابی سرح کا واقعہ ہے‪ ,‬یہ بھی ان واقعات میں سے ایک ہے جن پر‪9:‬‬
‫اہِل علم کا اتفاق ہوا ہے اور یہ ان کے ہاں اس قدر شہرت یافتہ ہے کہ احاد‬
‫راویوں کی روئت سے مستثنٰی ہے‬

‫قصہ یہ ہے کہ فتح مکہ کے روز عبدالّٰلہ بن سعد بن ابی سرح *حضرت‬


‫عثمان بن عفاؓن * کے پاس چھپ گئے *حضرت عثماؓن * نے انہیں اچانک‬
‫*رسول الّٰلہ ﷺ* کے سامنے ال کھڑا کیا‪ ,‬عرض کی *یا رسول الّٰلہ ﷺ*!‬
‫عبدالّٰلہ سے بیعت کیجیئے *رسول الّٰلہ ﷺ* نے سر اوپر اٹھایا‪ ,‬تین بار‬
‫دیکھا‪ ,‬ہر مرتبہ انکار کر رہے تھے تین بار کے بعد بیعت کر لی پھر اپنے‬
‫*صحابؓہ * کی طرف متوجہ ہوئے اور ارشاد فرمایا‬

‫کیا تم میں کوئ دانشمند آدمی نہیں‪ ,‬جس وقت میں نے اس سے بیعت"*‬
‫*"لینے سے اپنے ہاتھ کو روک رکھا تو وہ اسے قتل کر دیتا‬

‫صحابہ کراؓم * گویا ہوئے کہ ہمیں کیا معلوم *آپ ﷺ* کے دل میں کیا*‬
‫ہے؟ *آپﷺ* ذرا آنکھ سے اشارہ فرما دیتے؟ تو *رسول الّٰلہ ﷺ* نے‬
‫فرمایا‬

‫‪"*.‬نبی کے یہ الئق نہیں کہ اس کی آنکھ خیانت کرنے والی ہو"*‬

‫امام ابو داؤد نے اسے سنن میں صحیح سند سے بیان کیا ہے‪ ,‬اسی طرح‬
‫امام نسائ نے بھی‬

‫رسول الّٰلہﷺ* نے اسکا خون بھی رائیگاں قرار دیا یہ *حضرت عثماؓن **‬
‫کا رضاعی بھائ تھا‪ ,‬جب *حضرت عثماؓن * نے *رسول الّٰلہﷺ* کے پاس‬
‫اس کی سفارش کی تو *رسول الّٰلہﷺ* نے اسے چھوڑ دیا‬

‫یہ بات بھی دُر ست ہے کہ ابن ابی سرح فتح مکہ سے پہلے اسالم کی‬
‫طرف پلٹ آیا تھا‪ .‬اور *حضرت عثماؓن * کو کہنے لگا "میرا جرم بہت‬
‫سنگین ہے اور میں توبہ تائب ہو کہ آیا ہوں"‪ .‬پھر فتِح مکہ کے بعد‬
‫*حضرِت عثماؓن * اسے *رسوِل اکرم ﷺ* کے پاس لے آئے لوگ اس کی‬
‫‪.‬توبہ کے بعد ٹھنڈے پڑ گئے‬

‫حاالنکہ *رسول الّٰلہ ﷺ* چاہتے تھے کہ کوئ مسلمان اسی وقت اس کا‬
‫کام تمام کر دے‪* ,‬آپﷺ* تھوڑی دیر اس کے مقتول ہونے کا انتظار کرتے‬
‫رہے‪ ,‬بعض لوگوں نے خیال کیا کہ عنقریب یہ موت کے گھاٹ اتار دیا جائے‬
‫گا یہ سب سے واضح دلیل ہے کہ اس کے اسالم النے کے بعد اسے قتل کیا‬
‫‪.‬جائے گا‬

‫ابو داؤد حدیث (‪ )۲٦۸٣,۴٣٥۹‬سنن نسائ (‪ )١۰٦-١۰٥/۸‬الحاکم (‪. )۴٥/٣‬‬


‫بیہقی (‪ )۴۰/۸‬سبھی احمد بن المفضل کی سند سے اور وہ از اسباط بن‬
‫نصر الہمدانی زعم السدی از مصعب بن سعد از أبیہ بہ‬

‫اس حدیث کو حاکم نے صحیح کہا ہے‪ ,‬ذہبی نے موافقت کی ہے‪ ,‬اسے‬
‫شیخ االسالم اور البانی رحمتہ الّٰلہ تعالٰی نے صحیح کہا ہے دیکھیئے‬
‫)السلسلۃ الصحیحۃ حدیث (‪١۸۲٣‬‬

‫شیخ االسالم نے الصارم (‪ )۲٣٥/۲‬میں قطعی طور پر اس کی صحت کو‬


‫ثابت نہیں کیا ہے بلکہ فرمایا عکرمۃ سے مروی ہے اور مزید فرمایا کچھ‬
‫‪.‬نے یہ بھی زکر کیا کہ ابن ابی سرح دوبارہ مسلمان ہو گئے تھے‬

‫المغازی (‪ )١٥٥/۲‬میں اس کا واقعہ موجود ہے‪.‬‬

‫‪:‬بخاری شریف میں ہے‪10:‬‬

‫حضرت ابو سعید خدرؓی * فرماتے ہیں کہ ایک بار ہم لوگ *رسول*‬
‫الّٰلہﷺ* کے پاس حاضر تھے اور *حضرتﷺ* کچھ مال تقسیم فرما رہے‬
‫تھے ذوالخویسرہ آیا جو بنی تمیم قبیلہ سے تھا اور کہا‪* :‬یا رسول‬
‫الّٰلہﷺ*! عدل کیجیئے‪* ,‬حضرتﷺ* نے فرمایا‪ :‬تیری خراب ہو جب‬
‫*میں* ہی عدل نہ کروں تو پھر کون عدل کرے گ‪ ,‬اور جب میں نے عدل‬
‫نہ کیا تو تو محروم اور بےنصیب ہوگیا‪* ,‬حضرت عمؓر * نے عرض کیا *یا‬
‫رسول الّٰلہﷺ* حکم دیجیئے! کہ اس کی گردن ماروں‪ ,‬فرمایا‪ :‬جانے دو‪,‬‬
‫اس کے رفقاء ایسے لوگ ہیں کہ ان کی نماز اور روزوں کے مقابلہ میں تم‬
‫لوگ اپنی نماز اور روزوں کو حقیر سمجھو گے‪ ,‬وہ قرآن پڑھیں گے لیکن‬
‫ان کے گلہ سے نیچے نہ اترے گا‪ ,‬وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے‬
‫تیر کمان سے نکل جاتا ہے باوجودیکہ اس جانور کے پیٹ کی آالئش و‬
‫خون میں سے پار ہوتا ہے مگر نہ اس کے پیکان میں کچھ لگا ہوتا ہے' نہ‬
‫اسے کے بندن میں جس سے پیکان باندھا جاتا ہے' نہ لکڑی میں' نہ پر میں‪,‬‬
‫نشانی ان کی یہ ہے کہ ُا ن میں ایک شخص سیاہ فام ہوگا جس کا ایک‬
‫بازو مثِل عورت کے پستان یا مثِل گوشت پارہ کے حرکت کرتی ہوگی‪ ,‬وہ‬
‫‪.‬لوگ اس وقت نکلیں گے جب لوگوں میں تفرقہ ہوگا‬

‫حضرت ابو سعیؓد * کہتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اس حدیث کو*‬
‫میں نے خود *رسول الّٰلہ ﷺ* سے سنا ہے اور یہی گواہی دیتا ہوں کہ‬
‫*حضرت علؓی * نے ان لوگوں کو قتل کیا اور میں بھی *حضرت علؓی * کے‬
‫ساتھ تھا'انہوں نے بعد فتح کہ حکم کیا کہ اس شخص کی تالش کی‬
‫جائے جس کی خبر *حضرتﷺ* نے دی تھی ‪ ,‬چنانچہ جب اس کی الش‬
‫الئ گئ' دیکھا *میں* نے کہ جتنی نشانیاں اس کی *حضرتﷺ* نے کہی‬
‫‪.‬تھیں'سب اس میں موجود تھیں‬

‫غور فرمائیئے کہ احمق کے ذہن میں آیا کہ عدل ایک عمدہ شے ہے‪ ,‬اگر‬
‫صاف صاف حضرت *سروِر عالمﷺ* کو کہہ دیا جائے تو کیا مضائقہ ہے‪,‬‬

‫اس بےوقوف نے یہ خیال نہ کیا بات تو چھوٹی ہے مگر بہ نسبت *شاِن‬


‫نبویﷺ* کہ کتنی بڑی بے ادبی ہوگی اور انجام اس کا کیا ہوگا‪ ,‬چنانچہ‬
‫اس بے ادبی پر واجب القتل ہو گیا تھا مگر چونکہ *آنحضرتﷺ* کو‬
‫منظور تھا کہ *حضرت علؓی * کے ہاتھ سے اپنے تمام ہم مشنریوں کے ساتھ‬
‫مارا جائے اس لیئے باوجود *حضرت عمؓر * کی درخواست کے منع فرما دیا‬

‫گستاِخ نبوت کتنا ہی اعلٰی سے اعلٰی قسم کا زاہد و عابد ہو‪ ,‬ہمارے‪11:‬‬
‫نزدیک ہمارے جوتے کی نوک کے برابر بھی نہیں ہے‪ .‬بلکہ ہمارے *اسالف*‬
‫‪:‬تو ایسے بدبختوں کہ قتل کرنے سے بہت خوش ہوتے‪ .‬چنانچہ مالحظہ ہو‬
‫نبیط ابن شریؓط * سے کہ جب فارغ ہوئے *حضرت علؓی * اہل نہروان کے*‬
‫قتل سے کہا کہ کشتوں میں اس شخص کو تالش کرو‪ ,‬جب ہم نے خوب‬
‫ڈھونڈا تو سب کے کر میں ایک شخص سیاہ فام نکال‪ ,‬جس کے شانہ پر‬
‫ایک گوشت پارہ مثل پستان کے تھا‪ ,‬یہ دیکھتے ہی *حضرت علؓی * نے‬
‫کہا‪* :‬الّٰلہ اکبر*! قسم ہے خدا کی‪ ,‬نہ مجھے جھوٹی خبر دی گئ' نہ میں‬
‫اس کا مرتکب ہوا‪ ,‬ایک بار ہم *حضور نبی اکرمﷺ* کے ساتھ تھے اور‬
‫*حضرتﷺ* غنیمت کا مال تقسیم فرما رہے تھے کہ ایک شخص آیا اور‬
‫‪,‬کہا‪ :‬اے *محمدﷺ*! عدل کیجیئے کہ آج آپ نے عدل نہیں کیا‬

‫حضرتﷺ* نے فرمایا‪ :‬تیری ماں تجھ پر روئے‪ ,‬جب *میں* عدل نہ*‬
‫کروں تو پھر کون عدل کرے گا‪* ,‬حضرت عمؓر * نے عرض کی‪* :‬یارسول‬
‫الّٰلہﷺ*! اس کو قتل نہ کروں‪ ,‬فرمایا‪ :‬نہیں‪ ,‬اس کو چھوڑ دو‪ ,‬اس کے‬
‫قتل کرنے والے کوئ اور شخص ہیں‪* ,‬حضرت علؓی * نے یہ کہ کر کہا‪:‬‬
‫"!"صدق الّٰلہ‬

‫اس حدیث سے ظاہر ہے کہ سب سے پہلے وہی شخص قتل کیا گیا اس لئے‬
‫‪,‬کی اس کی الش تمام الشوں کے نیچے تھی‬

‫نتیجہ ظاہر ہے کہ اس ایک گستاخی نے اس شخص کو کہاں پہنچا دیا اور‬


‫!!کثرت عبادت و ریاضت اس کے کس کام آئ‬

‫‪ ::‬ازالۂ وہم‬

‫نیکی اور عبادت بہرحال بہت اچھا کام ہے لیکن جس نیکی اور عبادت‬
‫میں نبوت و رسالت کی تنقیص مطلوب ہو وہ نیکی بھی کفر بن جاتی ہے‪,‬‬
‫‪:‬اس شخص کا مطلب بھی تنقیِص رسالت تھا‪ ,‬چنانچہ مالحظہ ہو‬

‫حضرت ابی برذؓہ * نے فرمایا کہ کہیں سے دینار *آنحضرتﷺ* کے پاس*‬


‫آ گئے تھے‪* ,‬آپﷺ* نے ان کو تقسیم فرمانا شروع کیا اور *حضرتﷺ*‬
‫کے پاس ایک شخص سیاہ فام تھا‪ ,‬سر کے بال کترایا ہوا اور سفید کپڑے‬
‫پہنا ہوا' جس کی دونوں آنکھوں کے بیچ میں اثر سجدہ کا نمایا تھا‪ ,‬چاہتا‬
‫تھا کہ *حضرتﷺ* کچھ عنایت فرما دیں مگر کچھ نہ دیا‪ ,‬روبرو آ کر‬
‫سوال کیا‪ :‬کچھ عنایت فرمایا' داہنے طرف سے آ کر سوال کیا جب بھی‬
‫کچھ نہ مال‪ ,‬بائیں طرف سے آ کر مانگا کچھ نہ مال‪ ,‬پیچھے سے آ کر‬
‫سوال کیا جب بھی کچھ نہ پایا کہا‪ :‬اے *محمدﷺ*! آج آپ نے تقسیم‬
‫میں عدل نہ کیا‪* ,‬حضرتﷺ* اس بات پر بہت خفا ہوئے اور شدت‬
‫‪:‬غضب سے تین بار فرمایا‬

‫*"خدا کی قسم مجھ سے زیادہ عدل کرنے واال تم کسی کو نہ پاؤ گے"*‬

‫‪:‬پھر فرمایا‬

‫یہ ان لوگوں سے ہے جو تم پر مشرق کی طرف سے نکلیں گے‪ ,‬وہ دین"*‬


‫سے ایسے نکل جائیں گے جیسا کہ تیر شکار سے نکل جاتا ہے‪ ,‬پھر نہ لوٹیں‬
‫*"گے دین کی طرف‬

‫‪:‬اور پھر دسِت مبارک سینہ پر رکھ کر فرمایا‬

‫*"نشانی ان کی یہ ہے کہ سر کے بال منڈوایا کریں گے"*‬

‫‪:‬پھر فرمایا کہ ‪,‬‬

‫جب تم ان کو دیکھو تو قتل کر ڈالو‪ ,‬وہ لوگ تمام مخلوقات سے بدتر"*‬


‫*"ہیں‬

‫‪.‬یہ جملہ تین فرمایا‬

‫)روایت کیا اس کو اما نسائ و ابن جریر‪ ,‬طبرانی اور حاکم نے(‬
‫اس حدیث سے ظاہر ہے کہ وہ شخص نہایت عابد تھا کہ کثرِت صلٰو ۃ سے‬
‫پیشانی میں اس کی گھٹا پڑ گیا تھا‪ ,‬غرض کہ ان احادیث میں تامل کرنے‬
‫کے بعد ہر شخص معلوم کر سکتا ہے کہ باوجود کثرت عبادت اور ریاضت‬
‫شاقہ کے وہ شخص اور اس کے ہم خیال واجب القتل اور بدترین مخلوق‬
‫ٹھہرے‪ ,‬وہ اس کی سوائے بے ادبی اور گستاخ طبعی کے اور کوئ نہ نکلے‬
‫‪,‬گی‬

‫اس سے ثابت ہوا کہ عبادت کیسی ہی اعلٰی ہو لیکن اگر ادب نہ ہو تو وہ‬
‫عبادت ہی بیکار ہے اور اگر ادب ہو تو بڑی غلطی بھی معاف ہو سکتی ہے‬
‫‪:‬کیونکہ یہی کلمہ تو انصار نے بھی کہا تھا‪ ,‬مثًال‬

‫عکرمہ* سے روایت ہے کہ مال غنیمت کےلیئے لشکر اسالم میں جھگڑے*‬


‫ہونے لگے‪ ,‬شدہ شدۂ یہ خبر *آنحضرتﷺ* تک پہنچی‪ ,‬آپ نے حکم دیا‬
‫کہ سارا ماِل غنیمت *حضور* میں حاضر کر دیا جائے‪ ',‬کسی کے پاس‬
‫ایک دانہ بھی نہ رہا‪ ,‬اس وقت اہِل شجاعت اور لڑنے والے سمجھے کہ یہ‬
‫مال صرف ہم لوگوں کو ملے گا مگر *آنحضرتﷺ* سب کو بحصۂ‬
‫مساوی دینے لگے‪* ,‬حضرت سعد* نے عرض کیا *یارسول الّٰلہﷺ*! جن‬
‫لوگوں نے صف کارزار میں بڑھ بڑھ کر تلواریں چالئ ہیں اور داِد شجاعت‬
‫دے دے کر اپنی جانیں گنوانے میں زرا بھی دریغ نہ کیا' کیا آپ ان کو ان‬
‫‪,‬ضعیف اور عاجز لوگوں کے برابر دیں گے جو قابل جنگ نہ تھے‬

‫‪:‬قربان اس غریب نوازی اور مسکین پروری کہ ارشاد ہوا کہ‬

‫تم لوگ یہ فخر نہ کرو کہ ہم اپنی قوت بازو سے فیروزمند اور ظفریاب"*‬
‫*"ہوئے ہیں بلکہ یہ انہیں ضعفاء کی دعا تھی‬

‫دیکھیئے اس روایت میں *صحابہ* نے وہی کہا جو منافق نے کہا تھا ‪,‬‬
‫‪.‬لیکن انہیں کچھ نہ کہا گیا‬
‫مالک بن نویرہ کو *حضرت خالد بن ولیؓد * نے اسی بناء پر قتل کیا‪12:‬‬
‫‪.‬اس نے *رسول الّٰلہﷺ* کو *'تمہارے صاحب'* کہا‬

‫)‪,‬شفاء‪ ,‬جلد‪ ,۲‬ص ‪ ۲۰۸‬اور نسیم الریاض‪ ,‬جلد ‪ ,۴‬ص ‪ ٣٣٥‬میں ہے(‬

‫حاالنکہ کسی کو تمہارا صاحب کہنا بظاہر کوئ غلطی نہیں لیکن چونکہ‬
‫کہنے والے نے *حضورﷺ* کو معمولی سمجھ کر کہا تو *سیف الّٰلؓہ (خدائ‬
‫‪.‬تلوار)* نے اسے زندہ نہ چھوڑا‬

‫غزوۂ احد* کےلیئے جب *حضور ﷺ* حرۃ بنی حارثہ اور ان کے*‪13:‬‬


‫اموال کے پاس سے گزرتے ہوئے مربع بن قینطی منافق کے باغ کے پاس‬
‫‪.‬پہنچے وہ نابینا تھا‬

‫اس نے جب لشکِر اسالم کی آہٹ سنی تو ان پر خاک پھینکنے لگا‬


‫*حضورﷺ* سے کہنے لگا کہ اگر تو *الّٰلہ کا رسولﷺ* ہے‪ ,‬میں تجھے‬
‫اپنے باغ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتا‪ .‬یہ سن کر *صحابہ کراؓم *‬
‫اسے قتل کرنے دوڑے *حضورﷺ* نے فرمایا کہ اسے قتل نہ کرو‪ ,‬یہ آنکھ‬
‫کا اندھا‪ ,‬دل کا بھی اندھا ہے‪ ,‬مگر *حضورﷺ* کے منع کرنے سے پہلے ہی‬
‫*سعد بن ذید اشہلؓی * نے اس پر کمان ماری اور سر توڑ دیا‬

‫صاحِب تفسیر روح البیان* نے اسی *َع َبَس َو َت َّو َّلٰی * کی تفسیر میں*‪14:‬‬
‫لکھا ہے کہ *حضرت عمر فاروؓق * کے زمانہ میں ایک امام ہر نماز میں یہ‬
‫ہی سورۃ پڑھا کرتا تھا‪* ,‬حضرت عمر فاروؓق * کو خبر ہوئ تو آپ نے اس‬
‫امام کو بال کر قتل کرا دیا کیونکہ ہر نماز میں سورۃ پڑھنے سے معلوم ہوا‬
‫کہ یہ منافق ہے اور اس کے دل میں *حضور ﷺ* سے بغض ہے اس لئے‬
‫‪.‬اس سورۃ ہی کو ہر نماز میں پڑھتا ہے جو بظاہر عتاب معلوم ہوتی ہے‬

‫حضرت علؓی * سے مروی ہے کہ *سیدی رسول الّٰلہﷺ* نے* ‪15:-‬‬


‫‪:‬ارشادفرمایا‬
‫]َم ْن آَذ ى َش ْع َر ًة ِم ِّن ي َف َق ْد آَذ اِني َو َم ْن آَذ اِني َف َق ْد آَذ ى الله ‘‘* [‪*’’ 20‬‬

‫جس نے میرے ایک بال کو ایذا پہنچائی اس نے مجھ کو ایذا دی اور ’’*‬
‫*‘‘جس نے مجھ کو ایذا دی یقینًا اس نے اللہ تعالٰی کو ایذا دی‬

‫‪:‬حضرت شیخ شہاب الدیؒن اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ‪16:‬‬

‫بحرین کے لڑکے باہر میدان میں ہاکی کھیل رہے تھے اور ساتھ بحرین کا"‬
‫پادری بیٹھا ہوا تھا‪ ,‬گیند اس کے سینے پر لگی اور اس نے اٹھا لی لڑکوں‬
‫نے اس سے گیند طلب کی اس نے انکار کر دیا ان میں سے ایک لڑکے نے‬
‫کہا‪ :‬میں تجھے *حضورﷺ* کا واسطہ دیتا ہوں گیند واپس کر دو اس نے‬
‫انکار کیا اور *حضور کریمﷺ* کی توہین کی‪ ,‬وہ لڑکے اس پر ٹوٹ پڑے‬
‫اور اسے اتنا مارا کہ وہ لعنتی مر گیا‪* .‬حضرت عمؓر * کی بارگاہ میں یہ‬
‫مقدمہ پیش ہوا (راوی کہتے ہیں) خدا کی قسم *حضرت عمؓر * فتوحات‬
‫اور ماِل غنیمت سے اتنا خوش کبھی نہ ہوئے تھے جتنا اس پادری کے قتل‬
‫پر خوش ہوئے اور فرمایا‪" :‬اسالم کی عزت یہ ہے کہ چھوٹے بچے بھی‬
‫*نبی کریمﷺ* کی توہین پر غضبناک ہوگئے اور بدلہ لے لیا آپ نے اس‬
‫"پادری کے خون کو ضائع قرار دے دیا‬

‫)المستطرف‪ ,‬جلد‪ ,۲‬صفحہ ‪(۲٣٣‬‬

‫بدوی کا واقعہ جس نے *رسول الّٰلہﷺ* کو عطیات کی فراہمی کے‪17:‬‬


‫موقع پر کہا‪* :‬آپﷺ* نے اچھا نہیں کیا اور نہ ہی *آپﷺ* نے‬
‫خوبصورت کیا ہے‬

‫تو مسلمانوں نے اس کو قتل کرنے کا پروگرام بنایا تو *رسول الّٰلہﷺ* نے‬


‫‪:‬ارشاد فرمایا‬

‫*"اگر تم اسے قتل کر دیتے تو وہ آگ میں داخل ہوتا"*‬


‫عن علی بن ابی طالب قال قال رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم من‪18:‬‬
‫)سب نبیا قتل و من سب اصحابہ جلد(الصارم المسلول صفحہ‪۹۲،۲۹۹‬‬

‫‪:‬ترجمہ‬

‫حضرت علؓی * سے روایت ہے کہ *نبی ﷺ* نے فرمایا کہ جو کسی*‬


‫*نبی* کو برا کہے اسے قتل کیا جاے اور جو صحابہ کو برا کہے اسکو‬
‫کوڑے لگائے جائیں۔‬

‫ان تمام دالئل سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ناموس رسالت کی گستاخی‬


‫آدمی کو واجب القتل بنادیتی ہے اور اسکا خون مباح ہوجاتا ہے۔اور یہ‬
‫حکم حضرت آدم سے لے کر *نبی پاکﷺ* تک سب کو شامل ہے‪ ،‬یعنی‬
‫*آدم علیہ السالم* سے لے کر *نبیﷺ* تک جتنے بھی انبیاء ہیں‪،‬تو ان‬
‫میں سے کسی ایک کی توہین سے بھی آدمی واجب القتل بن جاتا ہے۔‬

‫‪:‬خالصۂ تحریر ‪2/12/22, 7:16 PM - M|J WATTO:‬‬

‫آخر میں اس تحریر کا خالصہ کچھ یوں بنتا ہے کہ جو کہ ان صحیح و‬


‫‪:‬سنن احادیث و روایات سے دیکھنے کو ملتا ہے‬

‫گستاخِی رسولﷺ* اتنا بڑا جرم ہے کہ ابِن خطل خانہ کعبہ کا پردہ*‪1:‬‬
‫تھامے ہوئے تھا یعنی ہتھیار ڈال چکا تھا اور امان چاہتا تھا پھر بھی اس‬
‫)کو قتل کیا گیا(حاالنکہ یہ جگہ داراالمان ہے‬

‫کئ گستاخاِن *رسولﷺ* کو *صحابہ کراؓم * نے *حضورﷺ* کے حکم‪2:‬‬


‫پر قتل کیا‬

‫گستاِخ *رسولﷺ* کا خون مباح‪ ,‬ضائع اور رائیگاں متصور کیا گیا ہے‪3:‬‬
‫یعنی اس کے قتل پر نہ تو قصاص لیا جائے گا نہ دّی ت مانگی جائے گی نہ‬
‫سزا دی جائے گی کیونکہ گستاخی کا ارتکاب کر کے وہ مباح الدم اور‬
‫واجب القتل ہو جاتا ہے تو اس کا زندہ رہنا اس زمین پر فساد کھڑا کرتا ہے‬

‫گستاخاِن *رسولﷺ* کو قتل کرنے پر *رسول الّٰلہﷺ* نے *صحابہ‪4:‬‬


‫کراؓم * کو انعامات سے نوازا‪ ,‬ان کے حق میں دعائیں کی اور ان کو آخرت‬
‫کی بھالئ کی خوشخبریاں سنائیں‬

‫گستاخاِن *رسولﷺ* کو ماورائے عدالت قتل کرنے کےلیئے *صحابؓہ *‪5:‬‬


‫نے نذریں مانیں‬

‫صحابؓہ * نے گستاخان کو قتل کرنے کےلیئے جان کی بھی پرواہ نہیں*‪6:‬‬


‫کی‬

‫گستاِخ *رسولﷺ* کافر ہو یا مسلم‪ ,‬مرد ہو یا عورت توبہ تائب بھی‪7:‬‬


‫ہوجائے ہر حالت میں قتل کیا جائے گا‬

‫گستاخی کی اشاعت میں گستاِخ *رسولﷺ* کا ساتھ دینے والے کو‪8:‬‬


‫بھی قتل کیا جائے گا‬

‫گستاِخ *رسولﷺ* کو قتل کرنا حاکم کی زمہ داری ہے‪9:‬‬

‫اگر گستاِخ *رسولﷺ* کو کوئ جذبۂ ایمان سے قتل کر دیتا ہے تو‪10:‬‬


‫اس کو سزا نہیں دی جا سکتی نہ ہی *ریاسِت مدینہ* میں ایسے لوگوں‬
‫کو برا بھال کہا گیا‪ ,‬یہاں تک کہ اصالحًا بھی بات نہیں کی گئ کہ تمہارا‬
‫حق تھا کہ اس کو حاکم کے حوالے کرتے‬

‫گستاخان کے قتل (برائے عدالت اور ماورائے عدالت دونوں صورتوں‪11:‬‬


‫میں) پر *رسول الّٰلہﷺ* ‪*,‬صحابہ کراؓم*‪* ,‬آئمہ فقہاؒء * اور *امت* کو‬
‫ہمیشہ خوشی ہوئ اور ان کے کلیجوں کو ٹھنڈک پہنچی‬
‫برائے عدالت یا ماورائے عدالت قتل ہونے واال گستاخ جہنم میں داخل‪12:‬‬
‫کر دیا جاتا ہے‬

‫گستاخ کو قتل کرنے کےلیئے حاکم باقاعدہ آدمی مقرر کر سکتا ہے‪13:‬‬

‫عام معافی کے اعالن کے باوجود بھی گستاخ کو معاف نہیں کیا جائے‪14:‬‬
‫گا‬

‫حاکم سمیت امت میں سے کسی کے پاس بھی یہ اختیار نہیں ہے کہ‪15:‬‬
‫وہ گستاخ کو معافی دیں یا موت کے عالوہ کوئ سزا دیں‬

‫گستاِخ *رسولﷺ* کی توبہ اس کو اس دنیا میں کوئ فائدہ نہیں‪16:‬‬


‫دے سکتی یعنی توبہ کے بعد بھی اسے قتل کیا جائے گا‬

‫اگر کوئ کافر اہانِت *رسولﷺ* کارتکب ہو‪ ,‬پھر وہ مکمل خشوع و‪17:‬‬
‫خزوع سے توبہ کرے اور اسالم قبول کرے‪ ,‬پھر بھی اس کی سزا معاف‬
‫نہیں کی جائے گی‬

‫اس زمین پر گستاخ کو معاف کرنے کا حق صرف *رسول الّٰلہﷺ* کے‪18:‬‬


‫پاس ہے جو کہ *آپﷺ* نے اپنے وقت میں چند گستاخوں کو معاف کیا‬
‫*آپﷺ* کے پردہ فرما جانے کے بعد اب کسی کے پاس گستاخ کو معاف‬
‫کرنے کا حق نہیں ہے‬

‫صحابؓہ * نے کئ ایک گستاخان کو ماورائے عدالت قتل کیا جس پر*‪19:‬‬


‫*رسول الّٰلہﷺ* نے ان کی حوصلہ افزائ کی‬

‫گستاخ *رسولﷺ* کو ماورائے عدالت قتل کرنے پر *رسول الّٰلہﷺ*‪20:‬‬


‫نے *عمیر بن عدؓی * کے متعلق فرمایا کہ اس نے *الّٰلہ* اور اسکے‬
‫*رسولﷺ* کی ماورائے عدالت مدد کی ہے‬
‫حضورﷺ* کے فیصلے کو تسلیم نہ کرنا یا شق کی نگاہ سے دیکھنا*‪21:‬‬
‫یا اس میں رّد و بدل کی صورت پیدا کرنا یا اس کی تضحیق کرنا بھی‬
‫گستاخی تصور ہوگی‬

‫سعد بن ذید اشہلؓی * کے ہاتھوں جلد بازی میں مربع بن قینطی کا*‪22:‬‬
‫قتل حاالنکہ *حضورﷺ* اس کو قتل نہ کرنے کہ نیت کر چکے تھے اور‬
‫زبان سے کلمات ادا کر رہے تھے‬

‫لیکن اسی دوران وہ مقتول ہوگیا تو اس *جذبۂ ایمانی* کو *رسول‬


‫الّٰلہﷺ* نے تنبیہ کا نشانہ نہ بنایا‬

‫عبدالّٰلہ ابن ابی سرح کے واقعہ سے علم ہوتا ہے کہ *رسول الّٰلہﷺ* یہ‪23:‬‬
‫خواہش کر رہے تھے کہ میرے کہے بغیر ابھی کوئ ان کو قتل کر دے گا‬
‫مگر *صحابؓہ * *آپﷺ* کے یعنی *حاکِم وقت* کے فیصلے کا انتظار کر‬
‫رہے تھے بعد میں *حضورﷺ* نے ان پر تنقید کی کہ انہوں نے اسے کیوں‬
‫نہ مارا اور میرے فیصلے تک رکے رہے‬

‫بچوں کے ہاتھوں گستاخ پادری کے قتل پر *حضرے عمؓر * کو بہت ہی ‪24:‬‬


‫زیادہ خوشی ہوئ اور کہا کہ‪" :‬اسالم کی عزت اسی میں ہے کہ بچے بھی‬
‫*نبی کریمﷺ* کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کرتے" اور پادری کے‬
‫‪.‬مقدمے کو خارج کردیا کہ اس کا خون رائیگاں گیا‬

‫جبکہ آج لوگ علماء سے لے کر مقتداء اور سمجھداروں سے لے کر(‬


‫مجذوبوں سمیت سبھی کو برداشت کا سبق دیتے ہیں) قربان جائیں‬
‫*فاروق اعظؓم * ایمان و اسالم کا فیصلہ فرما دیا‬

‫‪*:‬تحریِک پاکستان* ‪2/12/22, 7:17 PM - M|J WATTO:‬‬


‫ء سے چلنے والی *آذادی کی تحریک* کئ مشکل اور کٹھن راستوں‪1856‬‬
‫سے ہوتی ہوئ ‪1906‬ء میں *تحریِک پاکستان* بن گئ اور مسلمانوں کی‬
‫الکھوں قربانیوں سے یہ تحریک ‪1947‬ء کو کامیابی کو پہنچی جب ‪14‬‬
‫اگست ‪1947‬ء کو دنیا کے نقشے پر ایک سبز ہاللی پرچم واال ملک‬
‫*پاکستان* معرِض وجود میں آیا‪ .‬تحریک کے ان ‪ 90‬سالوں میں‬
‫مسلمانوں کو بڑی بڑی مشکالت کا سامنا کرنا پڑا‪ .‬لیکن اس سے بھی بڑا‬
‫سونامی یہ ثابت ہوا کہ مسلمانوں کے ایمان کو سرد کرنے کےلیئے توہین‬
‫آمیز تیر *رسول الّٰلہﷺ* کی طرف رخ کرنے لگے‪ .‬علماء نے مسلمانوں کا‬
‫خون گرم کیا اور کئ ایک ستارے ان تیراندازوں کو کاٹتے ہے آسمان کی‬
‫بلندیوں کو پہنچے‪ .‬اس نوے سالہ تاریخ میں ان *عاشقاِن مصطفٰی ﷺ*‬
‫کے کارناموں کی فہرست بنائ جائے تو شاید ‪ 180‬سال درکار ہوں‬

‫بہر حال میں ان کا صرف نام بتانا ہی فی الحال ضرورت سمجھوں گا ان‬
‫پر علمی و تحقیقی نظر *تحریِک پاکستان* میں ایک گہری چھاپ رکھتی‬
‫ہے اس وقت کے بڑے بڑے *محدثین*‪* ,‬علماء*‪* ,‬شیوخ التفاسیر* ‪,‬‬
‫*شیوخ االحادیث* اور *بانیاِن تحریِک پاکستان* *موالنا ظفر علی خاؒں *‬
‫سے لے کر *قائِد اعظؒم * اور محترم *قائِد اعظؒم * سے لے کر *عالمہ اقباؒل *‬
‫تک سب نے ان *عاشقاِن مصطفیٰﷺ* کے ہاتھوں ہونے والے گستاخان کے‬

‫قتل کے عمل کو خوب صراحا‪ ,‬ان کی تائید کی اور ان کو اس پر خراِج‬


‫عقیدت پیش کیا اور ہمیشہ ان کو دلوں کی دھڑکن میں محسوس کرتے‬
‫‪:‬رہے‪ .‬چند ایک کا نام بیان کیئے جاتا ہوں‬

‫*غازی علم الدین شہید*‬

‫*غازی عبدالقیوم شہید*‬

‫*غازی مرید حسین شہید*‬


‫*غازی میاں محمد شہید*‬

‫*غازی عبدالرشید شہید*‬

‫*غازی عبدالّٰلہ شہید*‬

‫*غازی محمد صدیق شہید*‬

‫*غازی بابو معراج دین شہید*‬

‫*غازی امیر احمد شہید*‬

‫*غازی عبدالّٰلہ شہید*‬

‫*غازی حاجی محمد مانک*‬

‫*غازی عبدالمنان*‬

‫*غازی منظور حسین شہید*‬

‫*غازی محمد اسحاق شہید*‬

‫*غازی فاروق احمد*‬

‫*غازی عبدالرحمان شہید*‬

‫*غازی احمد دین شہید*‬

‫*غازی ذاہد حسین*‬

‫‪:‬یہ ستارے ہم ایک ہی درس دے کر گئے ہیں کہ‬

‫*نماز اچھی‪ ,‬روزہ اچھا‪ ,‬حج اچھا‪ ,‬زکٰو ۃ اچھی*‬

‫*مگر میں باوجود اس کے مسلماں ہو نہیں سکتا*‬


‫*نہ جب تک کٹ مروں میں خواجۂ بطحاﷺ کی حرمت پر*‬

‫*خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا*‬

‫اور پھر ان *عاشقاِن مصطفٰی ﷺ* کو شہید کیا گیا تا کہ *تحریِک آزادی*‬


‫اور *تحریِک پاکستان* دم توڑ جائے لیکن ان عظیم قربانیوں نے مسلمانوں‬
‫‪.‬کے حوصلے بلند کیئے‬

‫‪.‬اور پھر *الّٰلہ تعالٰی * نے ہمیں *پاکستان* جیسی عظیم نعمت سے نوازا‬

‫الّٰلہ* ہم سب کو اس سر زمین پر *دیِن مصطفیٰﷺ* نافذ کروانے کا اہل*‬


‫بنائے‬

‫الّٰلہ عزوجل* ہم سب کو اپنے فضل و کرم کے صدقے عزت و حرمِت *‬


‫*رسالت مآبﷺ* سمجھنے اور *آپﷺ* کے قدموں میں سب کچھ‬
‫*!قربان کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے‪* -‬آمین‬

You might also like