ابو الطفیل عامر بن واثلہ رضی ہللا عنہ صحابہ کرام میں
وفات پانے والے آخری صحابی تھے۔ آپ جنگ احد کے
سال میں پیدا ہوئے اور حضور علیہ السالم کے دنیا سے پردہ فرمانے کے وقت آپ کی عمر 8برس تھی۔ محدثین کے نزدیک سیدنا ابو الطفیل عامر بن واثلہ رضی ہللا عنہ کے بعد روئے زمین پر کسی صحابی کے زندہ رہنے کا کوئی ثبوت نہیں اور جن لوگوں نے اس دور کے بعد صحابی ہونے کا دعوٰی کیا ،وہ جھوٹے تھے۔صحیح یہ ہے کہ ابو الطفیل عامر بن واثلہ 110ھ میں فوت ہوئے اور تمام صحابۂ کرام میں آخری وفات پانے والے آپ ہی تھے۔ آپ کا انتقال مکہ مکرمہ میں ہوا تھا۔ ابو الطفیل عامر بن وائلہ بن عبد ہللا بن عمر واللیثی،مکہ کے رہنے والے تھے اور جس سال جنگ احد ہوئی اس سال یہ پیدا ہوئے انہوں پیغمبر اکرم(صلی ہللا علیہ و آلہ ) کی زندگی کے آٹھ سال درک کئے ہیں۔ عالمہ ابن قتیبہ نے انہیں اول درجہ کے غالی شیعوں میں شمار کیا ہے نیز ذکر کیا ہے کہ مختار کے علمدار لشکر اور مختار کے ٓاخری وقت تک رفیق تھے ۔ یہ آخری صحابی ہیں جن کا سب سے بعد میں انتقال ہوا۔ عالمہ ابن عبد البر استیعاب میں ان کے متعلق لکھتے ہیں: یہ کو فہ میں وارد ہو ئے اور حضرت علی کے ساتھ ہر معرکہ میں شریک رہے جب حضرت علی شہید ہو گئے تو یہ مکہ چلے گئے بڑے عالم وفاضل ،زیر ک و دانا ،فصیح بلیغ حاضر جواب تھے حضرت علی کے پیرو خاص تھے ۔ حضرت امیر المومنین علی (علیہ السالم)کی شہادت کے بعد ابو طفیل ایک مرتبہ معاویہ کے پاس پہنچے معاویہ نے پو چھا تم اپنے دوست ابو الحسن (علی ) کی وفات پر کتنے رنجیدہ ہو ؟انہوں نے کہا اتنا ہی جتنا مادر موسٰی ، موسٰی کے انتقال پر رنجیدہ تھیں خدا وند امیری اس کو تاہی کو معاف کرنا (یعنی امیر المومنین سزاوار تھے کہ ان کا غم اس بھی زیادہ کیا جائے )۔ معاویہ نے پوچھا عثمان کا محاصرہ کرنے والو میں تم بھی تھے ؟انہوں نے کہا محاصرہ کرنے والوں میں نہیں تھا البتہ میں ان کے قریب ضرور موجودتھا معاویہ نے پو چھا تم نے ان کی مدد کیوں نہ کی ؟ ابو طفیل نے پو چھا اور تم ؟تم نے کیوں مدد سے جان چرائی ؟تم تو شام میں تھے اور شام والے سب کے سب تمہارے تابع تھے۔ معاویہ نے کہا میرا خون عثمان کا انتقام لینا کیا ان کی مدد نہ تھی ؟ ابو طفیل نے کہا .تمہاری مثال تو ایسی ہے جیسا کہ شاعر :نے کہا ہے اللقینک بعد الموت تندبنی و فی حیاتی ما زودتنی زادا میری موت کے بعد مجھ پر آنسوںبہاتے ہو اور تم نے” میری زندگی میں میری زرہ برابر مدد نہ کی “۔ زہری ،ابوزبیر ،جریری ،ابن ابی حصین ،عبدالملک بن ابجر ،قتادہ ،معروف ،ولید بن جمیع ،منصور بن حیان، قاسم بن ابی بردہ ،عمرو بن دینار ،عکرمہ بن خالد ،کلثوم بن حبیب ،فرات قزار و عبدالعزیز بن رفیع نے ان سے حدیثیں نقل کی ہیں اور یہ سب حدیثیں صحیح مسلم میں موجود ہیں۔ مسلم کے بقول ابوطفیل نے نے حج کے سلسلہ میں پیغمبر اکرم(صلی ہللا علیہ و آلہ)سے حدیث نقل کی ہے اور انہوں نے پیغمبر اکرم(صلی ہللا علیہ و آلہ) کے صفات کو بھی بیان کیا ہے۔ انہوں نے نماز اور نبوت کی نشانیوں کے متعلق معاذ بن جبل سے اور قضا وقدر کے متعلق عبدہللا بن مسعود سے روایتیںنقل کی ہیں۔ انہوں نے حضرت علی(علیہ السالم)،حذیفہ بن اسید ،حذیفہ بن یمان ،عبدہللا بن عباس ،عمربن خطاب سے حدیثیں نقل کی ہیں۔ ابوطفیل کامکہ میں ۱۰۰ہجری ،ایک قول کے مطابق ۱۰۲ہجری اور ایک قول کے مطابق ۱۰۷ہجری اور چوتھے قول کی بناء پر ۱۱۰ہجری میں انتقال ہوا ،اگر چہ ابن قیسرانی نے ان کے انتقال کو ۱۲۰ہجری میں بیان کیا ہے()۱۔ حوالہ جات۱ :۔ سید عبدالحسین شرف الدین موسوی، » المراجعات ،ص ۱۴۶۔تاریخ انتشار1402/09/03 « : منسلک صفحات ابو عبد ہللا جدلی سے استناد یزید بن ابی زیاد کوفی سے استناد یحیٰی بن سعید قطان سے استناد یحیٰی بن جزار عرنی کوفی سے استناد وکیع بن جراح بن ملیح بن عدی سے استناد ہشیم بن بشیر بن قاسم سے استناد