You are on page 1of 10

ASSIGNMENT NO:2

CORSE CODE: 1904


NAME: Najma Mubarak
ROLL NO: ca476438
REG.NO: 17PNL02069
LEVEL: BS islamic study
Spring 2022 SEMESTER:
‫‪ANS 01‬‬
‫عمر اور ابن مس ؓ‬
‫عود کے درمی ان اختالف رہ ا ہے‪،‬‬ ‫عالمہ ابن قیم کے بیان کے مطابق سو سے زیادہ مسائل میں حضرت ؓ‬
‫لیکن اس کے ب اوجود ب اہمی رب ط و ض بط اور عقی دت ومحبت میں ک وئی کمی نہ تھی‪ ،‬ای ک م رتبہ حض رت عب دہللا بن‬
‫عمر نے فرمایاکہ علم و فقہ کا خ زانہ ٓارہ ا ہے۔ اور جب ابن مس ؓ‬
‫عود کے س امنے‬ ‫مسعود کو ٓاتے ہوئے دیکھ کر حضرت ؓ‬
‫عمر کا تذکرہ ہوتا تو فرماتے کہ وہ اسالم کا ایسا قلعہ تھے کہ جس میں لوگ داخل ہوکر ب اہر نہیں نکل تے تھے‬
‫حضرت ؓ‬
‫کرام کے درمیان یہ اختالف صرف فروعی مسائل میں ہی‬
‫لیکن ان کی شہادت کی وجہ سے اس میں شگاف پڑگیا۔صحابہ ؓ‬
‫نہیں تھا بلکہ اعتقادی نوعیت کے ضمنی مسئلوں میں بھی اختالف رہاہے‪ ،‬چنانچہ عالمہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ صحابہ‬
‫کرام میں جن مسائل میں اختالف تھا اس میں ان کے درمیان اس بات پر اتفاق تھاکہ ہرفریق اپنے اجتہاد پر عمل کرس کتا‬
‫ہے جیسے عب ادات‪ ،‬نک اح اور م یراث وغ یرہ کے مس ائل۔۔۔ اور بعض اعتق ادی مس ائل میں بھی ان کے درمی ان اختالف‬
‫رہاہے جیسے میت کا زندہ ٓادمی کی ٓاواز سننا اور اس کے اہل و عیال کے رونے کی وجہ س ے اس ے ع ذاب کاہون ا اور‬
‫ٰ‬
‫فتاوی ابن تیمیہ‪)۱۲۲/۱۹ ‬‬ ‫معراج کے موقع پر ٓانحضورصلی ہللا علیہ وسلم کا اپنے رب کو دیکھنا (دیکھئے‬
‫فرق صرف یہ ہے کہ فقہی میدان کا اختالف وسیع ہے اور عقیدہ ک ا اختالف بہت مح دود ہے‪ ،‬لیکن ہرط رح کے اختالف‬
‫کے باوجود ایک دوسرے کےخیرخواہ تھے‪ ،‬اخوت ومحبت کے وسیع میدان میں کبھی تنگی محسوس نہیں ہوتی تھی‪ ،‬ان‬
‫کے دل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے اور ہللا کی مضبوط رسی سے بندھے ہوئےتھے۔‬
‫تابعین اور ائمہ مجتہدین‬
‫تابعین میں بھی باہم متعددمسائل میں اختالف تھ ا‪ ،‬کچھ ل وگ نم از میں بس م ہللا نہیں پڑھ تے تھے‪ ،‬اور بعض ل وگ ٓاہس تہ‬
‫پڑھتے اور دوسرے لوگ ٓاواز سے‪ ،‬کچھ لوگ نکس یر اور قے س ے وض و کے قائ ل تھے‪ ،‬کچھ نہیں تھے لیکن اس کے‬
‫باوجود باہم احترام وتوقیر میں کوئی فرق نہیں تھا وہ ایک دوسرے کی اقتدا میں کس ی جھج ک کے بغ یر نم ازادا ک رتے‬
‫تھے‪ ،‬اسی طرح سے ائمہ مجتہدین میں سے ہر ایک سے دوسرے کے متعلق تعریفی کلمات منق ول ہیں۔ ح االنکہ ان کے‬
‫درمیان جو اختالف ہے وہ محتاج بیان نہیں ہے۔‬
‫ایک مرتبہ ہارون رشید نے وضو کے بعد اپنے جسم سے فاسدخون نکلوایا اور دوبارہ وضو کیے بغیر نماز پڑھ ائی اور‬
‫امام ابویوسف نے ان کی اقتدا میں نماز ادا کی‪ ،‬حاالنکہ ان کے نزدیک جسم سے خون ک ا نکلن ا ن اقص وض و ہے‪ ،‬حنفیہ‬
‫کی طرح امام احمد بن حنبل بھی خون نکل نے کی وجہ س ے وض و ٹ وٹ ج انے کے قائ ل ہیں‪ ،‬لیکن جب ان س ے پوچھ ا‬
‫گیاکہ اگر امام کو خون نکل ٓائے اور وہ وضو نہ کرے تو کیا ٓاپ اس کے پیچھے پڑھیں گے؟ انھوں نے جواب دیااورکہا‬
‫میں امام مالک اور سعید بن مسیب کی اقتدار میں نماز پڑھوںگا۔ یعنی یہ دونوں حض رات بھی خ ون کی وجہ س ے وض و‬
‫ٹوٹنے کے قائل نہ تھے تو کیا اگریہ موجود ہوتے اور نماز‪ ‬پڑھاتے ت و میں ان کے س اتھ ش ریک نہ ہوت ا۔(ادب الخالف ‪/‬‬
‫‪)۴۳‬‬
‫امام احمد بن حنبل اور امام بخاری وغیرہ کے مایہ ناز استاذ علی بن مدینی میں ایک مس ئلے میں اختالف ہ وا اور بحث و‬
‫تکرار کی نوبت ٓاگئی‪ ،‬اندیشہ تھ ا کہ اس کی وجہ س ے ب دمزگی پی دا ہوج ائے گی لیکن جب ابن م دینی واپس ج انے کے‬
‫لئے سواری پر بیٹھے تو امام احمد بن حنبل نے اس درجہ احترام کامعاملہ کیاکہ سواری کی رک اب تھ ام لی۔ (ج امع بی ان‬
‫العلم‪)۱۰۷/۲ ‬‬
‫امام شافعی اور ان کے شاگرد یونس حالفی کے درمی ان ای ک مس ئلے ک و لے ک ر خ وب بحث وتک رار ہ وئی‪ ،‬لیکن جب‬
‫دوبارہ مالقات ہوئی تو امام شافعی نے ان کاہاتھ پکڑکر کہا اگرچہ ہم ایک مسئلے میں متف ق نہ ہوس کے ت و کی ا ٓاپس میں‬
‫بھائی بن کر نہیں رہ سکتے۔ (سیراعالم النبال‪)۱۶/۱۰ ‬‬
‫یعنی ایمانی اخوت و محبت اور باہمی احترم و قدردانی بہرحال ضروری ہے‪ ،‬اور ایسے عمل سے پرہیز کرنا الزمی ہے‬
‫جو ٓاپسی انتشار اور فرقہ بندی اور نفرت و کدورت کا ذریعہ بنے۔ اگرچہ اس کے لئے کسی پسندیدہ اور مستحب ک ام ک و‬
‫چھوڑنا پڑے۔ چنانچہ عالمہ ابن تیمیہ نے لکھاہے کہ اگر کہیں مسلمانوں کا کسی بات پرعمل نہ ہ وں کی ونکہ وہ اس کے‬
‫قائل نہیں ہیں اور دوسرا کوئی شخص اسے مستحب اور بہتر سمجھتاہوتو اسے وہ اں ج اکر اس مس تحب عم ل ک و ت رک‬
‫کردینا چاہیے کیونکہ مسلمانوں کے درمیان باہمی الفت ومحبت اور دل جوئی اس طرح کےمستحبات س ے زی ادہ اہم ہے۔‬
‫ٰ‬
‫(فتاوی ابن تیمیہ‪)۴۰۶/۲۲ ‬‬
‫اختالف رحمت وسہولت کاباعث ہے‬
‫تعالی کی طرف سے ایک رحمت اور نعمتہے۔ جس میں رہتی دنیا تک ب اقی رہ نے والی امت‬
‫ٰ‬ ‫مخلصانہ اختالف رائے ہللا‬
‫کے لئے بڑی سہولت ہے‪ ،‬اس لئے کہ اجتہادات کے نتائج مختلف ہونے کی وجہ سے زمان ومکان اور حاالت و واقع ات‬
‫کے بدلنے کے نتیجے میں پیش ٓانے والے مسائل کے حل میں ان سے بڑی مدد ملتی ہے۔ اگر صرف ایک ہی رائےہوتی‬
‫تو ایسی صورت میں بڑی پریشانی اور دقت محسوس ہوتی‪ ،‬اور اس کے برخالف عمل کرنے میں بڑی تنگی اور کراہت‬
‫رام کے اختالف ک و‬
‫ابوبکر کے پوتے حضرت قاسم بن محمد کہ تے ہیں کہ ص حابہ ک ؓ‬
‫ؓ‬ ‫ہوتی‪ ،‬چنانچہ خلیفہ راشد حضرت‬
‫تعالی نے اس امت کے لئے بڑا نف ع بخش بنای ا ہے‪ ،‬اگ ر ک وئی ان میں س ے کس ی کے ق ول وعم ل ک و اپن الے ت و وہ‬
‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫محسوس کرے گا کہ اس کی گنجائش ہے اور اسے اطمینان رہے گ ا کہ اس پ ر مجھ س ے بہ تر لوگ وں ک ا عم ل رہ اہے۔‬
‫(جامع بیان العلم‪)۸۰/۲ ‬‬
‫اور حضرت عمر بن عبدالعزیز کہاکرتے تھے اگر صحابہ کرام میں تمام باتوں میں اتف اق ہوت ا ت و اس س ے ہمیں خوش ی‬
‫نہیں ہوتی بلکہ ان کا اختالف میرے لئے باعث مسرت ہے کیونکہ اگر ان سے صرف ایک قول منقول ہوتا تو ل وگ تنگی‬
‫میں پڑجاتے۔ (حوالہ مذکور) ان سے کس ی نے درخواس ت کی کہ کی ا ہی اچھ ا ہوت ا کہ ٓاپ یکس اں ق انون ناف ذ کردی تے‪،‬‬
‫انھوں نے جواب دیاکہ مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ اختالفات ختم ہوجائیں۔ (سنن دارمی باب اختالف الفقہاء‪)۱۵۱/۱‬‬
‫امام مالک سے بعض عباسی خلفاء نے خواہش ظ اہر کی کہ ٓاپ کی کت اب موط ا ک و ملکی ق انون ک ا درجہ دے دیاج ائے‬
‫ٰ‬
‫فتوی دیں اور عمل کریں اور اس ط رح س ے اختالف ختم ہوج ائے۔ لیکن ام ام مال ک نے‬ ‫تاکہ تمام لوگ اسی کے مطابق‬
‫اس سے یہ کہتے ہوئے انکارکردیاکہ مختلف جگہوں پر الگ الگ حدیثیں پہنچ چکی ہیں۔ اور فقہا کی رایوں میں اختالف‬
‫ہے اس ل ئے لوگ وں ک و ان کے چھ وڑنے پ ر مجب ور نہ کیاج ائے۔ (دیکھ ئے طبق ات ک بری‪ ۴۴۰/۱ ‬س یراعالم النبالء‬
‫‪ )۷۸/۸‬بعض لوگوں نے اس موقع پر امام مالک کا یہ قول نقل کیا ہےکہ‪:‬‬
‫اس امت کے لئے علما کااختالف رحمت ہے۔ (کشف الخفا للعجلونی‪)۶۵/۱ ‬‬
‫اور عالمہ ابن قدام حنبلی صحابہ کرام کے اختالف کے متعلق لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ان کاکسی مسئلے میں اتفاق ایک قطعی دلیل ہے اور اختالف ایک بڑی رحمت ہے۔ (المغنی‪)۲۹/۱ ‬‬
‫عالمہ ابن تیمیہ نے لکھاہے کہ ایک صاحب نے فقہاء کے اختالفی مسائل ک و کت ابی ش کل میں جم ع کی ا اور اس ک ا ن ام‬
‫’’کتاب اختالف‘‘رکھا۔ امام احم د نے ان س ے کہ اکہ اس کے بج ائے اس ک ا ن ام کت اب الس عۃ (س ہولت اور گنج ائش کی‬
‫ٰ‬
‫(فتاوی ابن تیمیہ‪)۷۹/۳۰ ‬‬ ‫کتاب) رکھو۔‬
‫اس لئے اختالف سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہر ایک فطری اور طبعی چ یز ہے‪ ،‬ص رف ض رورت اس‬
‫بات کی ہے کہ اسے برداشت کرنے کی عادت ڈالی جائے اور اختالفی مسائل پ ر گفتگ و ک رتے ہ وئے اس کے ٓاداب کی‬
‫رعایت رکھی جائے۔ جس نقطہ نظر سے مطمئن ہواس پر قائم رہے اور اس کے برخالف لوگوں کے عمل کو باط ل اور‬
‫گناہ قرار نہ دے‪ ،‬اور نہ ان کی نیتوں پ ر حملہ ک رے اور اس کی عیب ج وئی اور لغزش وں کی تالش میں نہ رہے کہ یہ‬
‫ایمانی اخوت اور انسانی مروت کے خالف ہے۔ عالمہ صالح بن عبدہللا لکھ تے ہیں کہ اختالفی مس ائل میں غل و ک ا ای ک‬
‫پہلو یہ بھی ہے کہ اس سے متاثر شخص متقدمین کی بعض ایسی عبارتوں کو ڈھونڈ کر التا ہے جس س ے بعض‪ ‬ام اموں‬
‫کی تنقیص ہوتی ہے‪ ،‬یہ شخص اس طرح کی چیزوں ک و مختل ف جگہ وں س ے تالش ک رکے جم ع ک رتی اور پھ ر انہیں‬
‫پھیالت ا ہے اور بغض ع داوت کی تخم ری زی ک رتی ‪ ،‬علمی لغزش وں اور فقہی ش ذوذکو ڈھون ڈنے اور انھیں ع وام میں‬
‫پھیالنے سے صرف مخصوص مسلک ہی نہیں بلکہ پورے دین پر اعتماد مجروح اور متزلزل ہوجات ا ہے‪ ،‬یہ ک ام نہ ایت‬
‫بدترین اوراسالم سے عداوت پر مبنی ہے‪ ،‬ایسا کرنا بیمار دل اور بدنیت شخص کا کام ہے۔ (ادب الخالف‪)۵۴ ‬‬
‫‪ANS 02‬‬
‫لغت‪ ‬میں ع ام ش امل ک و کہ تےہیں۔ اور عم وم کہ تے ہیں مطل ق ط ور پ ر ای ک چ یز ک ا دوس ری چ یز میں ش امل ہون ا۔‬
‫اصطالح‪ ‬میں اس لفظ کو عام کہتے ہیں جو اپنے اندران تمام چیزوں ک و س مو لے جن ک ا اس ع ام کے ان در بغ یر حص ر‬
‫کے ایک ہی وض ع اور ای ک ہی م رتبہ میں س مویا جان ا ص حیح ہ و۔ ت و ہم اری اس ب ات‪« ‬دفعة»‪ ‬س ے اثب ات کے س یاق‬
‫میں’ ِرجل‘‪( ‬ٹانگ یا پاؤں) جیسے الفاظ نک ل گ ئے ہیں‪ ،‬اس کی وجہ یہ ہے کہ اگ رچہ یہ لف ظ ان چ یزوں ک و اپ نے ان در‬
‫سمولینے واال ہے جو اس کے اندر شامل ہوجانے کی صالحیت رکھتی ہیں لیکن یہ شمولیت بدلیت کے اعتبار س ے ہ وتی‬
‫رتبہ۔‬ ‫ک ہی م‬ ‫ہے نہ کہ ای‬
‫اسی طرح ہماری اس بات‪« ‬بوضع واحد»‪ ‬سے مشترک المعنی قسم کے الف اظ نک ل گ ئے ہیں۔ مث ال کے ط ور پ ر‪« ‬الق رء‬
‫والعين»‪ ‬ان میں سے ہر ایک وضع دو یا دوسے زی ادہ مع انی کےل یے ہے۔ اور ہم اری اس ب ات‪« ‬في غ ير حصر»‪ ‬س ے‬
‫اسماء االعداد نکل گئے ہیں‪ ،‬جیسے کہ دس اور سو ہے۔یہ آخری بات ان لوگوں کے نزدی ک ہے ج و اع داد ک و ع ام کے‬
‫یغے‪:‬‬ ‫ام کے ص‬ ‫رتے۔ع‬ ‫مار نہیں ک‬ ‫یغوں میں ش‬ ‫ص‬
‫ب ذی ل ہیں‪:‬‬
‫عام پر داللت کرنے والے چند الفاظ ہیں جن کو عموم کے صیغ کے نام سے جان ا جات ا ہے۔ ان میں چن د حس ِ‬
‫س َذاِئقَةُ ْال َموْ ِ‬
‫ت ﴾‪[ ‬األنبياء‪ “ ]35:‬ہر جان موت ک و چکھ نے والی‬ ‫‪1‬۔‪ ‬کل۔ جیسا کہ ہللا رب العالمین کا فرمان ہے‪ُ ﴿ ” :‬كلُّ نَ ْف ٍ‬
‫وتعالی کا یہ فرم ان‪ُ ﴿ ” :‬ك ٌّل آ َمنَ بِاهَّلل ِ َو َمالِئ َكتِ ِه ﴾‪[ ‬البق رة‪( “ ]285:‬رس ولوں اور مؤمن وں میں‬
‫ٰ‬ ‫ہے۔ اسی طرح ہللا سبحانہ‬
‫ا ہے۔‬ ‫ان الی‬ ‫ر ایم‬ ‫توں پ‬ ‫الی اور اس کے فرش‬
‫ٰ‬ ‫ک ہللا تع‬ ‫ر ای‬ ‫ے )ہ‬ ‫س‬
‫‪2‬۔‪ ‬جمیع۔جیسا کہ ‪ ” :‬جاء القوم جميعهم “‪ ‬ساری کی ساری قوم آئی۔جب کسی ایسے عام کو ذکر کیا ج ائے جس پ ر ک وئی‬
‫حکم لگایا گیا ہو‪ ،‬پھر یہ حکم اس عام کے بعض افراد پر لگادیا جائے تو اس طرح اس عام کا حکم گر نہیں جائے گا۔ اس‬
‫میں اب و ث ور نے اختالف کی ا ہے۔اس حکم لگ انے میں براب ر ہے کہ ع ام کے اف راد اکٹھے ذک ر ک یے گ ئے ہ وں—‬
‫جیسے‪ ﴿ :‬تَنَ َّز ُل ْال َمالِئ َكةُ َوالرُّ و ُح ﴾‪[ ‬القدر‪ ]4:‬روح (جبریل امین) اور فرش تے ن ازل ہ وتے ہیں—ی ا پھ ر علیح دہ علیح دہ ۔‬
‫جیس ا کہ یہ ح دیث ہے‪« :‬أيم ا إهاب دب غ فق د طهر»‪ ‬ج و کھ ال بھی رن گ لی ج ائے وہ پ اک ہوج اتی ہے۔‬
‫اس مسلم کی اس حدیث کےساتھ کہ نبیﷺ ایک مردہ بکری کے پاس سے گزرے ت و فرمایا‪« :‬هال أخ ذتم إهابها ف انتفعتم‬
‫الیتے۔‬ ‫دہ اُٹھ‬ ‫ڑلی کہ اس کے ذریعے تم فائ‬ ‫وں نہ پک‬ ‫ال کی‬ ‫به»‪ ‬تم نے اس کی کھ‬
‫اسی طرح یہ حدیث‪« :‬من وجد متاعه عند رجل قد أفلس فهو أحق به من الغرماء»‪ ‬جو ش خص اپ نے م ال ک و ای ک دی والیہ‬
‫ق دار ہے ۔‬ ‫ادہ ح‬ ‫ا زی‬ ‫بت وہی اس ک‬ ‫وں کے نس‬ ‫رض خواہ‬ ‫اقی ق‬ ‫وب‬ ‫الے ت‬ ‫اس پ‬ ‫آدمی کے پ‬
‫اس حدیث کے ساتھ ‪« :‬إذا ابتاع الرجل سلعة ثم أفلس وهي عنده فهو أحق بها من الغرم اء»‪ ‬ج و آدمی ک وئی س ودا خری دے‬
‫پھر دیوالیہ(مفلس) ہوجائے اور وہ مال اس کے پاس ویسے ہی پڑا ہو تو مال کا مالک باقی قرض خواہ وں کی نس بت اس‬
‫ق دار ہے۔‬ ‫ادہ ح‬ ‫ا زی‬ ‫ال ک‬ ‫م‬

‫اس ی ط رح ج ابر رض ی ہللا عنہ کے ق ول کی ط رح ب ات کہ‪” :‬قض ى رس ول هللا ص لى هللا عليه وس لم بالش فعة في ك ل‬
‫شيء“‪ ‬نبی کریمﷺ نے ہر چیز میں شفعہ کا فیصلہ دیا ہے اس حدیث کے ساتھ‪« :‬فإذا وقعت الح دود وص رفت الط رق فال‬
‫شفعة»‪ ‬جب حدیں واقع ہوجائیں اور راستے الگ الگ ہوجائیں تو پھر کوئی شفعہ نہیں ہے۔عام کے بعض افراد پر عام ک ا‬
‫حکم لگانے کا فائدہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ اس طرح اس فرد کے ع ام س ے نک ل ج انے کے احتم ال کی نفی ک ردی ج اتی‬
‫ہے۔‬
‫ان الفاظ کا بیان جو عام کے درجے پر ہوتے ہیں یا عام کے قائمقام ہوتے ہیں‪:‬‬
‫عموم کے قائمقام کے بارے میں اصولیوں کے ہاں ایک مسجع عبارت مش ہور ہے ج و ام ام ش افعی رحمہ ہللا کی ط رف‬
‫منسوب ہے۔ عبارت یہ ہے‪« ” :‬ترك االستفصال في حكاية الحال مع قيام االحتمال ينزل منزلة العموم في المقال ويحس ن ب ه‬
‫االستدالل» “‪ ‬حال کی حکایت میں احتمال ہونےکے باوجود تفصیل طلب کرنے کو ترک کردینا بات میں عموم کے قائمقام‬
‫ہے اور اس سے استدالل کرنا درست ہے۔‬
‫اس قاعدے کی مثالوں میں سے ایک مثال ن بی ﷺ کی غیالن ثقفی ک و کہی گ ئی یہ ب ات ہے جب وہ مس لمان ہ وئے تھے‬
‫اور اس وقت ان کے پاس دس بیویاں تھیں‪« ” :‬أمسك منهن أرب ًع ا وف ارق س ائرهن» “‪ ‬ان میں س ے چ ار ک و رکھ لے اور‬
‫باقیوں کو جدا کردے۔‬
‫آپ ﷺ نے غیالن ثقفی سے یہ نہیں پوچھا کہ اس نے ان عورتوں سے اکٹھی ہی شادی کی تھی یا ترتیب سے۔ تو یہ ب ات‬
‫دون وں ح التوں میں ف رق کے نہ ہ ونے پ ر داللت ک رتی ہے۔لف ظ ع ام میں اص ول یہ ہے کہ اس کی داللت کلی ہ ونی‬
‫چاہیےیعنی اس پر لگایا جانے واال حکم اس کے تحت آنے والے افراد میں سے ہر فرد پر ہونا چاہیے۔ ایسا اس وقت ہوت ا‬
‫ہے جس اس میں تخصیص داخل نہ ہو‪ ،‬یہ وہ عام ہوت ا ہے ج و اپ نے عم وم پ ر ب اقی رہت ا ہے اور ایس ا بہت کم ہوت ا ہے‬
‫(یعنی یہ کہ اس عموم کی تخصیص نہ آئے) اس (باقی رہنے والے عام)کی چند مثالیں درج ذیل ہیں‪:‬‬

‫۔‪ ‬ہللا رب العزت کا یہ فرمان ‪َ ﴿ :‬و َما ِمن دَابَّ ٍة فِي اَألرْ ِ‬


‫ض إالَّ َعلَى هَّللا ِ ِر ْزقُهَا ﴾‪[ ‬هود‪ ]6:‬زمین پ ر ج و بھی جان دار ہے ‪ ،‬اس‬
‫کا رزق ہللا کے ذمے ہے۔‬
‫تعالی ہر چ یز ک و خ وب اچھی ط رح‬
‫ٰ‬ ‫وتعالی کا یہ فرمان‪َ ﴿ :‬وهَّللا ُ بِ ُكلِّ َشي ٍء َعلِي ٌم ﴾‪[ ‬البقرة‪ ]282:‬ہللا‬
‫ٰ‬ ‫۔‪ ‬اسی طرح ہللا سبحانہ‬
‫جاننے والے ہیں۔‬
‫ت َعلَي ُك ْم ُأ َّمهَاتُ ُك ْم ﴾‪[ ‬النساء‪ ]23:‬تم پر اپنی ماؤں سے نکاح کرنا حرام کردی ا‬
‫۔‪ ‬اور ہللا رب العالمین کا یہ فرمان بھی‪ ﴿ :‬حُرِّ َم ْ‬
‫ا ہے۔‬ ‫گی‬
‫بعض اوقات عام کا لفظ بول کر اس سے عام کے بعض افراد م راد ہ وتے ہیں۔ یہ وہ ع ام ہوت ا ہے جس س ے کچھ خ اص‬
‫افراد مراد ہوتے ہیں۔ جیسا کہ رب کائنات ک ا یہ فرم ان مب ارک ہے‪ ﴿ :‬الَّ ِذينَ قَ ا َل لَهُ ُم النَّاسُ ﴾‪[ ‬آل عم ران‪ ]173:‬جب انہیں‬
‫ا۔‬ ‫وں نے کہ‬ ‫لوگ‬
‫یہ اں پر‪’ ‬ن اس‘‪ ‬یع نی لوگ وں س ے م راد ص رف نعیم بن مس عود ی ا اس کے عالوہ ک وئی ش خص ہے۔‬
‫اسی طرح ہللا رب العزت کا یہ فرمان عالیشان بھی ‪َ ﴿ :‬أ ْم يحْ ُس ُدونَ النَّ َ‬
‫اس َعلَى َما آتَاهُ ُم هَّللا ُ ِمن فَضْ لِ ِه ﴾‪[ ‬النساء‪ ]54:‬یا پھر وہ‬
‫الی نے ان (لوگ وں )ک و اپ نے فض ل س ے ن وازا ہے۔‬
‫لوگ وں س ے اس ب ات پ ر حس د ک رتے ہیں کہ ہللا س بحانہ وتع ٰ‬
‫تو یہاں پر‪’ ‬ناس‘‪ ‬سے مراد نبی کریمﷺ ہیں۔ اور کبھی لفظ عام ک ا ب وال جات ا ہے پھ ر اس میں تخص یص داخ ل ہوج اتی‬
‫رامی ہے‪:‬‬ ‫ان گ‬ ‫ا یہ فرم‬ ‫الی ک‬
‫ٰ‬ ‫ارک وتع‬ ‫ا کہ ہللا تب‬ ‫ا ہے۔جیس‬ ‫ام ہوت‬ ‫وص ع‬ ‫ہے‪ ،‬یہ مخص‬
‫ات يتَ َربَّصْ نَ بَِأنفُ ِس ِه َّن ثَالثَةَ قُرُو ٍء ﴾‪[ ‬البقرة‪ ]228:‬اور طالق یافتہ ع ورتیں اپ نے نفس وں کے س اتھ تین حیض ت ک‬
‫﴿ َو ْال ُمطَلَّقَ ُ‬
‫زاریں)۔‬ ‫دت گ‬ ‫نی ع‬ ‫ریں (یع‬ ‫ار ک‬ ‫انتظ‬
‫تو یہاں پر لفظ‪’ ‬مطلقات‘‪ ‬عام ہے جس کی تخصیص ہللا رب العالمین کے اس فرم ان کے ذریعے کی گ ئی ہے‪َ ﴿ :‬وُأوْ ُ‬
‫الت‬
‫اَألحْ َما ِل َأ َجلُه َُّن َأن َ‬
‫يض ْعنَ َح ْملَه َُّن ﴾‪[ ‬الطالق‪ ]4:‬اور حیض والی (طالق ی افتہ) عورت وں کی ع دت کی م دت ان کے وض ع‬
‫ک ہے۔‬ ‫لت‬ ‫حم‬
‫تو اس طرح ان حاملہ مطلقات کی عدت وضع حمل تک ہے نہ کہ تین حیض تک۔‬
‫‪ANS 03‬‬
‫امام شافعی� کے فقہی مسلک کو مذہب شافعی کہتے ہیں۔ آپ ک ا ن ام محم د بن ادریس الش افعی ہے۔ ام ام ابوح نیفہ � ک ا‬
‫سال وفات اور امام شافعی�کا سال والدت ایک ہی ہے آپ ‪150‬ھ میں فلسطین کے ایک گاؤں غزہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی‬
‫زمانہ بڑی تنگدستی میں گزرا‪ ،‬آپ کو علم حاصل کرنے کا بڑا شوق تھا۔ ‪ 7‬سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کر لیا تھ ا‪،‬‬
‫ٰ‬
‫فتوی دینے کی اجازت مل گئی تھی۔ آپ امام مال ک کی ش اگردی میں رہے اور ان کی وف ات ت ک‬ ‫‪ 15‬برس کی عمر میں‬
‫ان سے علم حاصل کیا۔ آپ نے اصو ِل فقہ پ ر س ب س ے پہلی کت اب ’’الرس الہ‘‘ لکھی ’’االم‘‘ آپ کی دوس ری اہم کت اب‬
‫ہے۔ آپ نے مختلف مکاتیب کے افکار و مسائل کو اچھی طرح سمجھا اور پرکھا پھر ان میں سے جو چ یز ق رآن و س نت‬
‫کے مطابق پائی اسے قبول ک ر لی ا۔ جس مس ئلے میں اختالف ہوت ا تھ ا اس پ ر ق رآن و س نت کی روش نی میں م دلل بحث‬
‫کرتے۔ آپ صحیح احادیث کے مل جانے سے قیاس و اجتہاد کو چھوڑ دیتے تھے۔ فقہ شافعی کے ماننے والوں کی تع داد‬
‫فقہ حنفی کے بعد سب سے زیادہ ہے اور آج کل ان کی اکثریت مالئشیا‪ ،‬انڈونیشیا‪ ،‬حجاز‪ ،‬مصر و شام اور مشرقی افریقہ‬
‫میں ہے۔ فقہ حنفی کی طرح فقہ شافعی بھی کافی وسیع ہے۔ فقہ شافعی کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ب ڑے‬
‫بڑے محدثین پید ا ہوئے انہوں نے اپنی تحریر سے اس دبستان فقہ کی خوب خوب خدمت کی اور فقہی تالیفات کے ڈھ یر‬
‫لگا دیئے۔امام شافعی نے ‪204‬ھ میں مصر میں وفات پائی۔ زیر تبص رہ کت اب ’’فقہ ش افعی ت اریخ وتع ارف‘‘ فقہ اکی ڈمی‬
‫انڈیا کی طرف سے ‪2013‬ء میں امام شافعی اور فقہ شافعی کے تعارف کے سلسلے میں منعق د ک یے گ ئے ای ک س یمینار‬
‫کی روداد ہے اس سیمینار میں اچھی خاصی تعداد میں اہل علم نے اپنے مق االت پیش ک یے ۔یہ مجم وعہ انہی مق االت پ ر‬
‫مشتمل ہے۔ جس میں امام شافعی کے حاالت وخصوص یات ‪،‬فقہ ش افعی کی ت اریخ‪ ،‬اس کے امتی ازات اور فقہ ش افعی کی‬
‫توضیح کرنے والی تالیفات نیز اس سلسلے میں علما ہند کی خدمات پر تفصیل سے روشنی ڈالی گ ئی ہے ۔اردو زب ان پ ر‬
‫اپنے موضوع پر اولین منفرد کتاب ہے۔ اس کتاب کو مفتی سراج الدین قاسمی نے م رتب کی ا ہے اور فقہ اکی ڈمی ہن د نے‬
‫حس ِن طباعت سے آراستہ کیا ہے۔‬
‫حنفی‪(( ‬عربی‪ :‬حنفي))‪ ‬اہل سنت‪ ‬کے چار‪ ‬فقہی مذاہب‪ ‬میں سے ای ک ہے۔[‪ ]1‬یہ‪ ‬اب و ح نیفہ النعم ان بن ث ابت‪( ‬م ‪150‬ھ) کے‬
‫ن ام پ ر ہے‪ ،‬جن ک ا ش مار‪ ‬ت ابعین‪ ‬ی ا‪ ‬تب ع ت ابعین‪ ‬میں ہوت ا ہے‪ ،‬ان کے ش رعی نظری ات ان کے دو ش اگردوں‪ ‬اب و‬
‫رے اہم‬ ‫ریعت کے دوس‬ ‫نت میں ش‬ ‫لس‬ ‫یے تھے۔ اہ‬ ‫وظ ک‬ ‫یبانی‪ ‬نے محف‬ ‫د الش‬ ‫یوسف‪ ‬اور‪ ‬محم‬
‫[‪]3[]2‬‬
‫مذاہب‪ ‬مالکی‪ ،‬شافعی‪ ‬اور‪ ‬حنبلی‪ ‬ہیں۔‬
‫اہل سنت میں حنفی فقہ کے پیروکار س ب س ے زی ادہ تع داد میں ہیں۔[‪ ]4‬یہ ت اریخی ریاس توں ک ا بنی ادی م ذہب تھا‪ :‬عثم انی‬
‫سلطنت‪ ،‬مغل سلطنت‪ ،‬برصغیر‪ ‬میں ترک حکمراں کی سلطنتیں‪ ،‬شمال مغربی چین‪ ‬اور‪ ‬وسطی ایشیا۔‬
‫امام ابو حنیفہ‪ ‬قرآن‪ ‬مجید اور‪ ‬حدیث‪ ‬مبارکہ کی روشنی میں قیاس اور رائے سے ک ام لے ک ر‪ ‬اجتہ اد‪ ‬اور اس تنباط مس ائل‬
‫کرتے ہیں۔ امام اعظم اپنا طریق اجتہاد و استنباط یوں بیان کرتے ہیں‪:‬‬
‫إني آخذ بكتاب هللا إذا وجدته‪ ،‬فما لم أجده فيه أخذت بسنة رسول هللا صلى هللا عليه وسلم واآلثار الصحاح عن ه ال تي فش ت في‬
‫أيدي الثقات‪ ،‬فإذا لم أجد في كتاب هللا وسنة رسول هللا صلى هللا عليه وسلم أخ ذت بق ول أص حابه‪ ،‬آخ ذ بق ول من ش ئت‪ ،‬ثم ال‬
‫أخرج عن قولهم إلى قول غ يرهم۔ ف إذا انتهى األم ر إلى إب راهيم والش عبي وابن المس يب (وع ّدد رج االً)‪ ،‬فلي أن أجتهد كم ا‬
‫اجتهدوا‪ ‬۔ سبحان هللا اإلمام األعظم أبي حنيفة رحمہ هللا کے م ذهب کے اس عظیم اص ول ک وپڑهیں‪ ،‬فرمای ا میں س ب س ے‬
‫پہلے کتاب هللا سے ( مسئلہ وحکم ) لیتا ہوں‪ ،‬اگرکت اب هللا میں نہ ملے ت و پھ ر س نة رس ول هللا ص لى هللا عليه وس لم اور‬
‫احادیث صحیحہ کی طرف رجوع کرتا ہوں اور اگر كتاب هللا وسنة رسول هللا صلى هللا عليه وسلم میں بھی نہ ملے تو پھر‬
‫میں اقوال صحابہ کرام کی طرف رجوع کرتا ہوں اور میں صحابہ کرام کے اقوال سے ب اهر نہیں نکلت ا اور جب مع املہ‬
‫إبراهيم‪ ،‬والشعبي والحسن وابن سيرين وسعيد بن المسيب تک پہنچ جائے تو پھر میں بھی اجتهاد کرتا ہوں جیس ا کہ انهوں‬
‫نے اجتهاد کیا ۔ یہ ہے وه عظیم الشان اصول وبنیاد جس کے اوپر فقہ حنفی ق ائم ہے‪ ،‬ام ام اعظم کے نزدی ک ق رآن مجی د‬
‫فقہی مسائل کا پہال مصدر ہے‪،‬پھردوسرا مصدر سنة رسول هللا صلى هللا عليه وسلم اور احادیث صحیحہ هیں حتی کہ امام‬
‫اعظم دیگرائمہ میں واحد امام هیں جو ض عیف ح دیث ک و بھی قی اس ش رعی پرمق دم ک رتے هیں جب کہ دیگ رائمہ ک ا یہ‬
‫اصول نہیں ہے‪ ،‬پھر تیسرا مصدرامام اعظم کے نزدیک صحابہ ک رام اق وال وفت اوی هیں ‪،‬اس کے بع د جب ت ابعین ت ک‬
‫معاملہ پہنچتا ہے تو امام اعظم اجتهاد کرتے هیں ‪،‬کیونکہ امام اعظم خود بھی تابعی هیں۔ام ام اعظم کے م اننے والے اس‬
‫وقت پوری دنیا میں موجود ہیں۔حنفی مذہب ایک مکمل ضابطہ حیات ہے‬
‫امام ابوحنیفہ اور ان کے شاگردوں امام قاضی ابو یوسف اور امام‪ ‬محمد بن حسن شیبانی‪ ‬نے حنفی فقہ کی باضابطہ تدوین‬
‫کی۔‪ ‬قاضی ابو یوسف‪ ‬کو ہارون نے مملکت کا‪ ‬قاضی القضاۃ‪ ‬بنا دیا تھا۔‪ ‬فقہ حنفی‪ ‬کو یہ فض یلت حاص ل ہے کہ ام ام اعظم‬
‫ابو حنیفہ خود تابعین میں سے تھے۔ اس لحاظ سے امام شافعی‪ ،‬امام احمد بن حنبل اور امام مالک کی نسبت امام اعظم ابو‬
‫مصطفی صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ کے قریب تر ہے۔ یہ ایک بڑی وجہ ہے کہ‬
‫ٰ‬ ‫حنیفہ کا زمانہ رسول کریم محمد‬
‫آپ کے پیروکار دنیا میں سب سے زیادہ ہیں۔‬
‫آپ کے اجتہادی مسائل تقریبًا بارہ س و س ال س ے تم ام اس المی ملک وں میں پھیلے ہ وئے ہیں۔ اس ل یے ب ڑی ب ڑی عظیم‬
‫اسالمی سلطنتوں میں آپ ہی کے مسائل‪ ،‬ق انون س لطنت تھے اور آج بھی اس المی دنی ا ک ا بیش تر حص ہ آپ ہی کے فقہی‬
‫مذہب کا پیرو کار ہے۔‬
‫عباسی‪ ‬خلف ا کے عہ د میں س رکاری فقہ حنفی تھی۔ یہ فقہ مش رقی ملک وں بالخص وص غ یر عرب وں میں زی ادہ مقب ول‬
‫ہوئی۔‪ ‬عثمانی‪ ‬ترک بھی حنفی تھے۔‪ ‬بخارا‪ ،‬خراسان‪ ‬اور‪ ‬بغداد‪ ‬ان کے خاص مرکز تھے۔‬
‫‪ANS 04‬‬
‫دنیا بھر میں انسان بحیثیت انسان کے پریشان کن حاالت سے دوچار ہے‪ ،‬پوری دنیا میں نہ کسی کی ج ان محف وظ ہے نہ‬
‫مال‪ ،‬عزت و ٓابرو سمیت ہر چیز دائو پر لگی ہوئی ہے اور انسان اپنے مسائل کیلئے اپنے خ الق کی ط رف دیکھ نے کی‬
‫بجائے اپنے ہی جیسے انسانوں کے بنائے ہوئے ناقص نظام ہائے حیات کے جال سے نہیں نک ل رہ ا۔ اس الم کے ن ام پ ر‬
‫حاصل کردہ ہمارا وطن عزیز بھی اس وقت جن مسائل و مصائب میں مبتال ہے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں‪ ،‬سیاس ی‬
‫و معاشی عدم استحکام‪ ،‬خاندانی اور کاروب اری پریش انیاں‪ ،‬س ماجی ح االت میں ٓائے روز خوفن اک قس م کی تب دیلیاں اور‬
‫انسان کے ذاتی حاالت اور اس کی پریشانیاں اس قدر ب ڑھ چکی ہیں کہ م اں اپ نی ممت ا کے ج ذبے ک و س ال ک ر اپ نی ہی‬
‫کوکھ سے جنم لینے والے بچوں کو مار رہی ہے‪ ،‬باپ اپنے بچوں کی دودھ نہ لے کر دے سکنے کو ایک جرم سمجھتے‬
‫ہوئے ان کو بھی اور خود کو بھی موت کی وادی دھکیل رہا ہے‪ ،‬زندگی جیسی قیمتی نعمت ات نی ارزاں ہ و چکی ہے کہ‬
‫جب جس وقت اور جس کا جی چاہتا ہے وہ اپنی یا کسی بھی دوسرے کی جان لینے کو تیار بیٹھا ہے۔ ان ح االت میں ذمہ‬
‫داری ت و تھی ح اکم وقت کی کہ وہ اپ نی رعای ا کی زن دگیوں میں س کون مہی ا ک رنے کی کوشش یں کرت ا مگ ر یہ اں بھی‬
‫بدقسمتی ٓاڑے ٓائی کہ وہ حکومتی منصب جو ذمہ داری سے کندھوں کو جھک ا دے اور رات وں کی نین د اُڑا دے وہ ب اعث‬
‫فخر سمجھا جانے لگ ا اور اس اقت دار کے حص ول کیل ئے ج انیں لی اور دی ج انیں لگیں۔ جب لیالئے اقت دار س ے ب زور‬
‫معانقہ کیا جائیگا تو کہاں کی ذمہ داری اور کہاں کا احساس‪ ،‬حاکم وقت کے بعد یہ ذمہ داری والدین اور اس اتذہ پ ر عائ د‬
‫ہوتی ہے کہ وہ اپنی نوجوان نسل کو زندگی کی مشکالت میں صبر کی تلقین کریں اور معاشی تنگدستی کی بن ا پ ر م وت‬
‫کو گلے لگانے کے کلچر کو مس ترد ک رتے‪ ،‬ی ا علم اء وقت اپ نی ذمہ داری وں ک ا احس اس ک رتے اور اپ نی تق اریر میں‪،‬‬
‫خطبات جمعہ میں یا دروس کی محفلوں میں قومی و ذاتی مسائل کا تجزیہ اس انداز میں کرتے کہ یہ مسائل اتنے بڑے نہ‬
‫لگتے کہ قوم اجتماعی خودکشی کے راستے پر نکل پڑتی بلکہ حکمت و دانائی سے انہیں راستہ بتایا جات ا اور ص بر کی‬
‫عزیمت سے ٓاشنا کروایا جاتا۔‬
‫ملک کے بیشتر عالقوں میں آج سے بارشوں کی ‪ ‬پیش گوئی‪: ‬محکمہ موسمیات‬
‫ان حاالت میں مرکزی جمعیت اہلحدیث پنجاب کے قائدین موالنا محم د نعیم بٹ‪ ،‬پروفیس ر حاف ظ عبدالس تار حام د‪ ،‬موالن ا‬
‫اعلی ڈاک ٹر حاف ظ عب دالکریم کی‬
‫ٰ‬ ‫میاں محم ود عب اس اور دیگ ر نے ام یر مرک زیہ عالمہ پروفیس ر س اجد م یر اور ن اظم‬
‫بیداری ملت‘‘ کا ٓاغاز کیا اور اس تحریک کے ذریعے ملت کو اپنے مسائل کے ح ل کیل ئے اص ل‬
‫ٔ‬ ‫رہنمائی میں’’تحریک‬
‫ماخذ کی طرف رجوع کرنے کا درس دیا۔ دنیا کو یہ باور کروایا کہ ہم اری بق ا اور اس تحکام ص رف اور ص رف ہللا کے‬
‫دئیے ہوئے نظام سے منسلک ہے‪ ،‬اس نظام کو چھوڑا تو نہ دنیا میں عزت ملے گی اور نہ ٓاخرت کی کامیابی ک ا تص ور‬
‫’’دار ارقم‘‘ کی بھی ہے (کہ یہاں دنیا بھر کے ظ الموں کے ظلم وس تم‬
‫ِ‬ ‫کیا جا سکتا۔ پاکستان ہمارے وطن عزیز کی مثال‬
‫کو سہنے والے ڈرے سہمے مسلمان پناہ کیلئے ٓاتے ہیں) اور یہی ملک دنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے مثل م دینہ بھی ہے‬
‫(کہ خالص نظریہ اسالم کے نام پر بنا اور دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کی جائے امن بھی ہے) حضرت قائداعظم محمد‬
‫علی جناح نے بھی اسے اسالم کی تجربہ گاہ ہی بنانے کامنصوبہ بنایا تھا‪ ،‬اسی وطن عزیز کے باسیوں کو یہ سبق دی نے‬
‫کیلئے پاکستان اور اسالم الزم و ملزوم ہیں‪ ،‬استحکام اور بقا اسالم سے وابستہ ہے‪ ،‬مشکالت سے نج ات دامن اس الم میں‬
‫پناہ لینے سے ہی ملے گی‪ ،‬بحرانوں سے نکلنے کا واحد راستہ اسالم ہے۔ ٓاج دنیا بھر کا کف ر ص لیبی و ص یہونی قوت وں‬
‫وی کے‬
‫کے ٓالہ کار اس ملک کی سالمتی کے درپے ہیں‪ ،‬ان عناصر کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمیں قرٓانی حکم اور اس ؤہ نب ؐ‬
‫بیداری ملت کے مقاصد بھی یہی ہی‬
‫ٔ‬ ‫مطابق اپنی صفوں میں اتحاد و یگانگت پیدا کرنا ہوگی اور تحریک‬
‫ت مسلمہ نے اپنی پہنچان کھو دی ہے اور اپنی اُ س روشن تاریخ سے چشم پوشی کی ہے جس میں اُم ِ‬
‫ت مسلمہ کی سر‬ ‫اُم ِ‬
‫بلندی کے لیے جانبازوں کے کار ہائے نمایاں درج ہیں۔ مگر مغربی تہذیب ‪،‬ف رقہ پرس تی اور م ادہ پرس تی نے ہمیں دین‬
‫کے تناور درخت سے اُس پتے کی طرح کاٹ دیا ہے جو مغربی یا کسی بھی بیرونی ہواکے معمولی جھونکوں سے اُڑت ا‬
‫ا ہے۔‬ ‫ر آت‬ ‫وا نظ‬ ‫ہ‬
‫اب بھی وقت بگڑا نہیں ہے‪ ،‬اب بھی ہم وہی شجاعت ‪ ،‬وہی دلیری پیدا کر سکتے ہیں کہ کسی مس لمان کے خالف اُٹھ نے‬
‫والی آواز کا جواب دیا جاسکتا ہے‪ ،‬ظلم کے خالف آواز بلند کر سکتے ہیں‪،‬متحد ہو کر اور قرآنی تعلیمات و دیگ ر س نت‬
‫ب غفلت س ے بی دار ہ و کے ظ الموں ک و منہ‬
‫اعلی منصب کو پا سکتے ہیں ۔ اب بھی خوا ِ‬
‫ٰ‬ ‫و احادیث کی روشنی میں اپنے‬
‫توڑ جواب دیا جاسکتا ہے‪ ،‬تاریکی سے روشنی کا ظہور ہوسکتا ہے‪ ،‬س یاہ ب ادل ک و اپ نے س ر س ے ہٹ ا ی ا جاس کتا ہے۔‬
‫اب اُم ِ‬
‫ت مسلمہ کی اولین کوشش یہ ہونی چ اہیے کہ اپ نی اس المی تہ ذیب ک و تخری بی اور ش ر پس ند عناص ر اور فاس د و‬
‫ت مسلمہ ہی آسمانی پیغ ام کی حام ل ای ک اب دی اُمت اور انس انیت کی مرک ز اُمی د‬
‫مہلک رجحانات سے بچائے رکھیں۔ اُم ِ‬
‫ہے۔ اس لیے اسے اپنے پیغام کو سینے سے لگائے رکھنا چاہیے اور قافلہ انسانیت اور دنیاکی نگرانی اور عقائد و اخالق‬
‫اس ذمہ داری‪،‬ہمہ دم‬
‫اور انفرادی و بین االقوامی تعلیمات پر نظر رکھنا چاہیے ۔ کیوں کہ جہد مسلسل ‪ ،‬دائمی مستقل احس ِ‬
‫ت افادیت و صالحیت کی بدولت ہی قوم آگے نکل سکتی ہے۔ اس کے ب ر عکس اگ ر ہم اپ نے‬
‫قربانی کے لیے آمادگی‪ ،‬قو ِ‬
‫تر پ ارینہ ک ا حص ہ بن ج ائیں گے اور‬
‫منصب و مقام کو چھوڑ کر گوشۂ عافیت میں چلے جائیں گے تو ہم ت اریخ کے دف ِ‬
‫سر نو اپ نے دع وتی‪ ،‬تہ ذیبی‬ ‫طاق نسیاں پر رکھ دے گا۔ اس لیے اُم ِ‬
‫ت مسلمہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ از ِ‬ ‫ِ‬ ‫زمانہ ہمیں‬
‫فررہے۔‬ ‫رم س‬
‫ِ‬ ‫رگ‬ ‫اتھ س‬ ‫ردار کے س‬ ‫دانہ ک‬ ‫اور قائ‬

You might also like