Professional Documents
Culture Documents
اس ی ط رح ج ابر رض ی ہللا عنہ کے ق ول کی ط رح ب ات کہ” :قض ى رس ول هللا ص لى هللا عليه وس لم بالش فعة في ك ل
شيء“ نبی کریمﷺ نے ہر چیز میں شفعہ کا فیصلہ دیا ہے اس حدیث کے ساتھ« :فإذا وقعت الح دود وص رفت الط رق فال
شفعة» جب حدیں واقع ہوجائیں اور راستے الگ الگ ہوجائیں تو پھر کوئی شفعہ نہیں ہے۔عام کے بعض افراد پر عام ک ا
حکم لگانے کا فائدہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ اس طرح اس فرد کے ع ام س ے نک ل ج انے کے احتم ال کی نفی ک ردی ج اتی
ہے۔
ان الفاظ کا بیان جو عام کے درجے پر ہوتے ہیں یا عام کے قائمقام ہوتے ہیں:
عموم کے قائمقام کے بارے میں اصولیوں کے ہاں ایک مسجع عبارت مش ہور ہے ج و ام ام ش افعی رحمہ ہللا کی ط رف
منسوب ہے۔ عبارت یہ ہے« ” :ترك االستفصال في حكاية الحال مع قيام االحتمال ينزل منزلة العموم في المقال ويحس ن ب ه
االستدالل» “ حال کی حکایت میں احتمال ہونےکے باوجود تفصیل طلب کرنے کو ترک کردینا بات میں عموم کے قائمقام
ہے اور اس سے استدالل کرنا درست ہے۔
اس قاعدے کی مثالوں میں سے ایک مثال ن بی ﷺ کی غیالن ثقفی ک و کہی گ ئی یہ ب ات ہے جب وہ مس لمان ہ وئے تھے
اور اس وقت ان کے پاس دس بیویاں تھیں« ” :أمسك منهن أرب ًع ا وف ارق س ائرهن» “ ان میں س ے چ ار ک و رکھ لے اور
باقیوں کو جدا کردے۔
آپ ﷺ نے غیالن ثقفی سے یہ نہیں پوچھا کہ اس نے ان عورتوں سے اکٹھی ہی شادی کی تھی یا ترتیب سے۔ تو یہ ب ات
دون وں ح التوں میں ف رق کے نہ ہ ونے پ ر داللت ک رتی ہے۔لف ظ ع ام میں اص ول یہ ہے کہ اس کی داللت کلی ہ ونی
چاہیےیعنی اس پر لگایا جانے واال حکم اس کے تحت آنے والے افراد میں سے ہر فرد پر ہونا چاہیے۔ ایسا اس وقت ہوت ا
ہے جس اس میں تخصیص داخل نہ ہو ،یہ وہ عام ہوت ا ہے ج و اپ نے عم وم پ ر ب اقی رہت ا ہے اور ایس ا بہت کم ہوت ا ہے
(یعنی یہ کہ اس عموم کی تخصیص نہ آئے) اس (باقی رہنے والے عام)کی چند مثالیں درج ذیل ہیں: