You are on page 1of 28

‫ویکی شیعہ‬

‫صلح حدیبیہ‬
‫‪  ‬میں شائع کریں‬ ‫‪  ‬‬ ‫‪  ‬‬ ‫‪  ‬‬

‫منطقۂ حدیبیہ کا نقشہ‬


‫صلح ُح َد یبیہ اس صلح کو کہا جاتا ہے جو سنہ ‪6‬‬
‫ہجری کو حدیبیہ کے مقام پر رسول خدؐا اور مشرکین‬
‫مکہ کے درمیان منعقد ہوا۔ سورہ فتح میں اس کا‬
‫تذکرہ آیا ہے۔‬

‫رسول خدؐا مسلمانوں کے ہمراہ حج کی نیت سے مکہ‬


‫روانہ ہوئے لیکن انہیں مشرکین قریش کی مزاحمت اور‬
‫ممانعت کا سامنا کرنا پڑا۔ آؐپ نے قریش کے یہاں‬
‫مذاکرات کے لئے ایک شخص کو بھیجنے کا فیصلہ کیا۔‬
‫اس مقصد کے لئے ابتداء میں حضرت عمر کو منتخب‬
‫کیا گیا تھا لیکن انھوں نے جانے سے انکار کرتے ہوئے‬
‫حضرت عثمان کا نام تجویز کیا۔ حضرت عثمان چلے‬
‫گئے تو ابتداء میں ان کے قتل کی خبر آئی جس کے بعد‬
‫مسلمانوں نے رسول خدؐا کے ہاتھ پر از سر نو بیعت کی‬
‫جو بیعت رضوان سے مشہور ہوئی۔ آخر کار فریقین کے‬
‫درمیان مذاکرات کے نتیجے میں دس سالہ صلح کا‬
‫معاہدہ طے ہوا جو صلح حدیبیبہ کے نام سے مشہور ہے‬
‫جس کے تحت مسلمان اس سال حج انجام دئے بغیر‬
‫مدینہ واپس لوٹ آئے اور اگلے سال عمرہ کے لئے مکہ‬
‫روانہ ہوئے۔‬

‫تاریخ‬
‫غزوہ حدیبیہ تاریخ اسالم کے اہم واقعات میں شمار‬
‫ہوتا ہے جو سنہ ‪ 6‬ہجری میں[‪ ]1‬میں رونما ہوا اور‬
‫باآلخر مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان صلح نامے پر‬
‫منتج ہوا۔ رسول خدؐا نے اس سال ماہ ذوالقعدہ میں‬
‫عمرہ بجا النے کا ارادہ کیا اور تمام مسلمانوں ـ حتی کہ‬
‫غیر مسلموں ـ کو عمرہ بجا النے کی ترغیب دالئی۔‬
‫رسول اللؐہ خود بھی گھر تشریف لے گئے غسل کیا اور‬
‫دو لباس پہنے اور اپنی ناقہ "قصواء" پر سوار ہوکر باہر‬
‫آئے۔ یہ دوشنبہ (= سوموار)[‪ ]2‬اور یکم ذوالقعدہ کا دن‬
‫تھا۔[‪ ]3‬اس سفر میں ام المؤمنین ام سلمہ بھی آؐپ کے‬
‫ہمراہ تھیں۔ رسول اللؐہ نے ابن ام مکتوم کو مدینہ میں‬
‫جانشین مقرر فرمایا۔[‪]4‬‬

‫مقام‬
‫حدیبیہ ایک قریہ ہے جو مکہ سے ایک منزل (‪24‬‬
‫کلومیٹر) اور مدینہ سے ‪ 9‬منازل کے فاصلے پر واقع ہے۔‬
‫اس قریئے کو اہلیان حجاز تشدید کے ساتھ "حدیبّی ہ"‬
‫اور اہلیان عراق تشدید کے بغیر تلفظ کرتے ہیں۔ اس‬
‫قریئے کی حدود کچھ حرم میں واقع ہیں اور کچھ‬
‫ِح ّل میں پھیلی ہوئی ہیں اور اس کا نام حدیبیہ نامی‬
‫کنویں یا حدباء نامی درخت سے ماخوذ ہے جو اس‬
‫عالقے میں تھا۔[‪ ]5‬آج کل یہ عالقہ شمیسی کہالتا‬
‫ہے۔[‪]6‬‬
‫مسلمانوں کا عزم حج‬
‫ماہ ذوالقعدہ میں رسول خدؐا نے خواب دیکھا کہ گویا‬
‫آؐپ اپنے اصحاب کے ہمراہ مکہ تشریف فرما ہوکر‬
‫مناسک عمرہ بجا النے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ مذکورہ‬
‫خواب کو خداوند متعال نے قرآن میں بیان فرمایا ہے‪:‬‬

‫َلَق ْد َص َد َق الَّلُہ َر ُس وَلُہ الُّر ْؤ َي ا ِب اْلَح ِّۖق َلَت ْد ُخ ُلَّن اْلَم ْس ِج َد‬
‫اْلَح َر اَم ِإ ن َش اء الَّلُہ آِم ِن يَن ُم َح ِّلِق يَن ُر ُؤ وَس ُكْم‬
‫َو ُم َق ِّص ِر يَن اَل َت َخ اُف وَۖن َف َع ِلَم َم ا َلْم َت ْع َلُم وا َف َج َع َل ِم ن‬
‫ُد وِن َذ ِلَك َف ْت حًا َق ِر يبًا۔

‫ترجمہ‪ :‬اللہ نے اپنے رسول کو حقیقتًا بالکل ہی سچا‬
‫خواب دکھایا [جو آؐپ نے دیکھا تھا‪ ]:‬کہ تم لوگ‬
‫انشاء اللہ ضرور مسجد حرام میں داخل ہو گے‬
‫اطمینان کے ساتھ اپنے سروں کو منڈوائے اور اپنے‬
‫کچھ بال یا ناخن کترے ہوئے تمہیں کچھ خوف نہ‬
‫ہو گا‪ ،‬پھر بھی اس نے جانا وہ جو تم نہیں جانتے‬
‫تھے تو اس کے پہلے اس نے [آپ کے لئے] ایک دوسری‬
‫دی۔[‪]7‬‬ ‫فتح عطا کر‬

‫پیغمبر اکرؐم نے مسلمانوں کے لئے اپنا رؤیائے صادقہ‬


‫بیان فرمایا اور انہیں فتح کی نوید سنائی[‪ ]8‬اور انہیں‬
‫مکہ عزیمت کرنے اور اعمال عمرہ بجا النے کی دعوت‬
‫دی اور چونکہ آؐپ قریش کی کینہ پروری اور جنگ‬
‫افروزی یا ممانعت سے فکرمند تھے؛ چنانچہ آؐپ نے‬
‫مدینہ کے نواح میں سکونت پذیر اعراب (= بادیہ‬
‫نشینوں) کو اس سفر میں ساتھ جانے کی دعوت دی؛‬
‫پس اعراب کی اکثریت نے دعوت رسالت کو لبیک کہنے‬
‫میں میں سستی سے کام لیا؛۔[‪ ]9‬چنانچہ آؐپ کا ساتھ‬
‫صرف مدینہ کے مہاجرین اور انصار نے دیا جو عزیمت‬
‫کے لئے تیار ہوئے اور آؐپ کے ساتھ مکہ کی جانب روانہ‬
‫ہوئے۔‬
‫مسلمانوں کی تعداد‬
‫مہاجرین ‪،‬انصار اور کچھ اعراب پر مشتمل مسلمانوں‬
‫کا قافلہ مؤرخہ یکم ذوالقعدہ پیر سنہ ‪ 6‬ہجری کو‬
‫ہوا۔[‪]10‬‬ ‫مدینہ چھوڑ کر مکہ کی جانب روانہ‬

‫اس سفر میں رسول خدؐا کے ساتھیوں کی تعداد کے‬


‫بارے میں اقوال مختلف ہیں[‪ ]11‬اور جابر عبداللہ‬
‫انصاری کا قول ـ جنہوں نے کہا ہے کہ ہم اصحاب‬
‫حدیبیہ ‪ 1400‬افراد تھے ـ زیادہ مشہور ہے۔[‪ ]12‬اس‬
‫قافلے میں ‪ 4‬خواتین بھی شامل تھیں جن میں سے‬
‫ایک زوجۂ رسوؐل ام سلمہ تھیں۔[‪ ]13‬رسول خدؐا نے‬
‫کو[‪]15‬‬ ‫عبداللہ بن ام مکتوم[‪ ]14‬یا نمیلہ بن عبداللہ لیثی‬
‫مدینہ میں جانشین مقرر کیا۔‬
‫وہ راستہ جس سے گذر کر پیغمبر اکرم حدیبیہ پہنچے‬

‫مسلمانوں کا ُم حِر م ہوجانا‬


‫مسلمانوں نے رسول خدؐا کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے‬
‫اسلحۂ مسافر (نیام میں رکھی ہوئی تلوار) کوئی‬
‫اسلحہ نہیں اٹھایا۔ اور "ذوالحلیفہ" نامی مقام پر ـ جو‬
‫وہاں تعمیر ہونے والی مسجد کی وجہ سے "مسجد‬
‫شجرہ" کے نام سے مشہور ہے ـ پہنچے اور محرم ہوئے‬
‫اور ان ‪ 70‬اونٹوں پر قربانی کے نشانات لگائے اور‬
‫انہیں آگے ہانک لیا تا کہ قریش کے لئے خبر پہنچانے‬
‫والوں کو سمجھایا جائے کہ آؐپ جنگ کے لئے نہیں نکلے‬
‫بلکہ آؐپ کا مقصد صرف عمرہ کی بجاآوری اور خانۂ‬
‫ہے۔[‪]16‬‬ ‫خدا کا طواف انجام دینا‬

‫مروی ہے کہ قربانی کے ان ‪ 70‬اونٹوں میں – عالمتی‬


‫طور پر ‪ --‬ابو جہل کی وہ اونٹنی بھی شامل تھی جو‬
‫جنگ بدر میں بطور غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ لگی‬
‫تھی۔[‪]17‬‬

‫پیغمبر اسالؐم اور آؐپ کے اصحاب نے لبیک کہتے ہوئے‬


‫"عسفان" تک کا سفر کیا جو مکہ سے دو منزلوں کے‬
‫فاصلے پر اواقع تھا۔ اس مقام پر آؐپ کو اطالع ملی کہ‬
‫مشرکین قریش آؐپ اور مسلمانوں کی عزیمت کی خبر‬
‫مل چکی ہے اور مشرکین نے قسم اٹھائی ہے کہ‬
‫گے۔[‪]18‬‬ ‫مسلمانوں کے مکہ میں داخلے کا سّد باب کریں‬
‫قریش نے اپنے جنگجؤوں کو مکہ کے باہر تعینات کیا‬
‫اور خالد بن ولید کو ‪ 200‬سواروں کا لشکر دے‬
‫کیا۔[‪]19‬‬‫مسلمانوں کا مقابلہ کرنے "کراع الغمیم" روانہ‬
‫رسول خدؐا قریش کے اس اقدام سے باخبر ہوئے تو‬
‫فرمایا‪ :‬يا ويح قريش‪ ! ‬لقد أكلتہم الحرب۔۔۔ یعنی وا‏ئے بحال ہو قریش‬
‫کے‪ ،‬جنہیں جنگ نابود کر گئی۔۔۔ اور پوچھا‪ :‬کیا ہے‬
‫کوئی جو ہمیں ایسے راستے سے لے جائے کہ ہمیں‬
‫پڑے؟[‪]20‬‬ ‫قریش کا سامنا نہ کرنا‬

‫رسول خدؐا نے بنو اسلم کے ایک فرد کی راہنمائی سے‬


‫ایک ذیلی راستے سے مکہ کی جانب اپنا سفر جاری‬
‫رکھا تا کہ قریش کے جنگجؤوں کا مقابلہ نہ کرنا‬
‫پڑے۔[‪ ]21‬رسول اللؐہ نے پہلی بار اسی راستے میں نماز‬
‫خوف ادا کی۔[‪ ]22‬تا کہ اطراف ميں موجود ممکنہ‬
‫ہوں۔[‪]23‬‬ ‫دشمنوں کی طرف سے ہوشیار‬

‫منطقۂ حدیبیہ میں داخلہ‬


‫مسلمانوں کا قافلہ منطقۂ حدیبیہ میں داخل ہوا تو آؐپ‬
‫کی اونٹنی "قصواء" زمین پر بیٹھ گئی۔ مسلمین نے‬
‫رسول اللؐہ کے فرمان پر اسی عالقے میں پڑاؤ ڈال دیا۔‬
‫رسول خدؐا کے معجزے سے وہاں موجود ایک خشک‬
‫کنواں پانی سے بھر گیا اور سب اس کنویں سے سیراب‬
‫ہوئی۔[‪]24‬‬ ‫ہوئے اور کئی مرتبہ بارش بھی‬

‫رسول خدؐا حدیبیہ میں اترے تو ُبَد یل بن َو رقاء ُخ زاعی‬


‫اور قبیلۂ خزاعہ کی ایک جماعت آؐپ کی خدمت میں‬
‫حاضر ہوئی۔ آؐپ نے فرمایا کہ جنگ کے ارادے سے نہیں‬
‫آئے ہیں اور خانۂ خدا کی زیارت کی غرض سے آئے‬
‫ہیں۔ خزاعیوں نے یہ پیغام قریش تک پہنچایا لیکن‬
‫قریش نے کہا‪ :‬کہ خواہ محمد جنگ کی نیت سے نہ‬
‫بھی آئے ہوں وہ ہرگز انہیں مکہ میں زبردستی داخل‬
‫نہیں ہونے دیں گے کہ اس کے نتیجے میں عرب ان پر‬
‫لعنت مالمت کرے۔[‪ ]25‬بعدازاں قریش نے چند نمائندے‬
‫مسلمانوں کے پاس روانہ کئے لیکن فریقین کے درمیان‬
‫ہوسکا۔[‪]26‬‬ ‫کسی بات پر اتفاق حاصل نہ‬

‫حقیقت یہ تھی کہ ابو سفیان سمیت قریش کے تمام‬


‫زعماء (سنہ ‪ 5‬ہجری کے دوران جنگ احزاب میں کوئی‬
‫کامیابی حاصل نہیں کرسکے تھے اور عربوں کے‬
‫درمیان خجلت زدہ تھے اور وہ) مسلمانوں کی مکہ آمد‬
‫کو اپنی تذلیل اور عربوں کی طرف سے زیادہ سے‬
‫زيادہ طعن و تشنیع کا سبب گردانتے تھے۔‬

‫کچھ افراد کی گرفتاری‬


‫قریش عجیب مخمصے میں پڑ گئے تھے چنانچہ انھوں‬
‫نے مکرز بن حفص کو ـ جو شجاعت اور بےباکی کے‬
‫حوالے سے مشہور تھا ـ ‪ 40‬یا ‪ 50‬سواروں کا ایک‬
‫دستہ دے کر مسلمانوں کی طرف روانہ کیا تاکہ وہ‬
‫مسلمانوں کے گرد ایک جوالن دے اور اگر ہو سکے تو‬
‫ان میں چند افراد کو گرفتار کرکے الئے تاکہ مسلمانوں‬
‫کے چند یرغمالی ان کے ہاتھ میں ہوں اور یوں اپنی‬
‫تجاویز مسلمانوں پر مسلط کرسکیں۔ لیکن مکرز اور‬
‫اس کے ساتھی نہ صرف کسی کو گرفتار نہ کرسکے‬
‫بلکہ وہ سب مسلمان پہرےداروں کے ہاتھوں گرفتار‬
‫ہوئے۔ انہیں رسول خدؐا کی خدمت میں حاضر کیا گیا‬
‫تو آؐپ نے ـ اسی سبب کہ جنگ پر مامور نہ تھے ـ ان‬
‫کی رہائی کا فرمان جاری کیا؛ حاالنکہ مکرز اور اس کے‬
‫ساتھیوں نے گرفتاری سے قبل مسلمانوں کی طرف تیر‬
‫پھینکے تھے اور مسلمانوں کو آزار و اذیت پہنچائی‬
‫تھی اور حتی کہ بعض روایات کے مطابق ابن زنیم‬
‫نامی مسلمان کو قتل بھی کیا تھا۔ بہر حال وہ رسول‬
‫اللؐہ کے حکم پر رہا کئے گئے اور قریش کی طرف پلٹ‬
‫گئے۔[‪]27‬‬

‫نمائندے کی روانگی‬
‫رسول اللؐہ نے قریش کی طرف نمائندہ روانہ کرنے کا‬
‫فیصلہ کیا۔ ابتداء میں عمر کو اس مہم کے لئے منتخب‬
‫کیا لیکن عمر نے کہا‪ :‬مکہ میں میرے اعزاء اور اقارب‬
‫طاقتور نہیں ہیں جو مجھے قریش کی دست درازی‬
‫سے تحفظ دیں اور میری حمایت کریں اور قریش‬
‫جانتے ہیں کہ میں ان کے ساتھ کس قدر دشمنی رکھتا‬
‫ہوں لہذا عین ممکن ہے کہ وہ مجھے قتل کریں!؛‬
‫چنانچہ انھوں نے جانے سے انکار کیا اور عثمان کے‬
‫بطور نمائندہ بھیجنے کی تجویز دی؛ کیونکہ عثمان کا‬
‫تعلق بنو امیہ سے تھا اور قریش کے درمیان ان کے‬
‫تھے۔[‪]28‬‬ ‫اعزاء و اقارب با اثر‬

‫پیغمبر اکرؐم نے عثمان کو مکہ روانہ کیا اور مکیوں کو‬


‫ایک بار پھر اپنے ارادے (یعنی خانۂ خدا کی زیارت اور‬
‫مدینہ واپس جانے) سے آگاہ کیا؛ لیکن وہ پھر بھی نہ‬
‫مانے اور عثمان کو واپس نہیں جانے دیا جس کے‬
‫نتیجے میں افواہ اڑی کہ عثمان کو قریش نے قتل‬
‫کردیا ہے۔ یہ خبر آنے کے بعد رسول خدؐا نے اصحاب کو‬
‫بیعت کے لئے بالیا جو بیعت رضوان کے نام سے مشہور‬
‫ہوئی۔[‪َ ]29‬ج ّد بن َق یس کے سوا حدیبیہ میں موجود‬
‫باقی تمام اصحاب نے رسول خدؐا کے ہاتھ پر بیعت‬
‫کی۔[‪]30‬‬

‫صلح کی قرارداد‬
‫کچھ عرصہ بعد معلوم ہوا کہ عثمان قتل نہیں ہوئے‬
‫تھے بلکہ مکہ میں قید تھے۔[‪ ]31‬قریش نے ایک نمائندہ‬
‫مسلمانوں کی طرف روانہ کیا تاکہ ان کے ساتھ صلح‬
‫کے معاہدے پر دستخط کرے جس کے تحت مسلمان‬
‫اس سال خانۂ خدا کی زیارت کئے بغیر مدینہ واپس‬
‫چلے جائیں اور اگلے سال مکہ کا سفر کریں تا کہ قریش‬
‫کو دوسرے عربوں کی مالمت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔‬
‫اس شخص کا نام "سہیل بن عمرو" تھا اور رسول خدؐا‬
‫نے سہیل کو دیکھ کر فرمایا‪" :‬قریش اس شخص کو‬
‫بھیج کر‪ ،‬مصالحت کا ارادہ رکھتے ہیں"۔[‪ ]32‬فریقین کے‬
‫درمیان قیدیوں کے تبادلے پر اتفاق ہونے کے بعد‪ ،‬صلح‬
‫نامے پر رسول اللؐہ اور قریش کے نمائندے نے دستخط‬
‫کئے۔ رسول خدؐا ـ جو صلح کے فوائد سے بخوبی آگاہ‬
‫تھے ـ نے زیادہ لچکدار رویہ اپنایا۔ اس لچکدار رویئے کا‬
‫ایک نمونہ یہ تھا کہ آؐپ نے سہیل بن عمرو کے اس‬
‫مطالبے سے اتفاق کیا کہ "بسم اللہ الرحمن الرحیم" کو‬
‫معاہدے کے سرنامے سے حذف کیا جائے اور اس کے‬
‫بجائے "باسمک اللہم" لکھا جائے؛ نیز آؐپ نے سہیل کا یہ‬
‫مطالبہ بھی قبول کیا کہ رسول اللہ کا عنوان حذف کیا‬
‫جائے اور اس کے بجائے محمد بن عبداللہ لکھا‬
‫جائے۔[‪]33‬‬

‫بعض صحابہ کی مخالفت‬


‫رسول خدؐا کا لچکدار رویہ بعض صحابہ کی تنقید اور‬
‫غیظ و غضب کا سبب بنا!! اور بعض صحابہ نے درشت‬
‫لہجہ استعمال کیا اور ان کی زبان سے طعن آمیز‬
‫سواالت سنے گئے؛ ان صحابہ میں سے ایک عمر بن‬
‫خطاب بھی تھے جنہوں نے آؐپ کے ساتھ تند رویہ روا‬
‫رکھا![‪ ]34‬عمر نے اس صلحنامے کو مسلمانوں کی‬
‫حقارت کا سبب قرار دیا‪ ]35[،‬اور اپنی رائے پر اس قدر‬
‫اصرار کیا کہ ابو عبیدہ جراح نے جاکر ان سے کہا‪:‬‬
‫"شیطان کے شر سے خدا کی پناہ مانگو اور اپنی رائے‬
‫کو غلط سمجھو"‪ ]36[،‬عمر خود بھی معترف ہیں اور‬
‫کہتے ہیں‪ :‬خدا کی قسم میں نے اسالم قبول کرنے سے‬
‫لے کر واقعۂ حدیبیہ تک آؐپ کی رسالت میں اس قدر‬
‫شک نہیں کیا تھا؛ چنانچہ میں آؐپ کی خدمت میں‬
‫ہیں؟![‪]37‬‬ ‫حاضر ہوا اور عرض کیا "کیا آپ پیغمبر نہیں‬
‫نیز عمر کا کہنا تھا‪" :‬میں اپنی تشخیص سے رسول اللؐہ‬
‫کے احکامات کی کو رد کیا کرتا تھا۔[‪]38‬‬
‫صلح نامے کے نکات‬

‫سہیل بن عمرو کے ساتھ مذاکرات کے بعد رسول خدؐا‬


‫نے علی(ع) کو طلب کیا اور فرمایا‪ :‬لکھو‪" :‬بسم اللہ‬
‫الرحمن الرحیم"۔‬

‫سہیل نے کہا‪ :‬میں اس عنوان کو تسلیم نہیں کرتا؛ آپ‬


‫کو ہمارا وہی مرسوم عنوان تحریر کرنا چاہئے‪" :‬باسمک‬
‫اللہم"؛ اور علی(ع) نے رسول خدؐا کے حکم پر وہی‬
‫عنوان تحریر کیا۔‬

‫بعد ازاں رسول اللؐہ نے فرمایا‪ :‬لکھو‪" :‬یہ ہے وہ عہدنامہ‬


‫جس پر رسول اللہ نے سہیل بن عمرو کے ساتھ اتفاق‬
‫کیا۔‬

‫سہیل نے کہا‪ :‬اگر ہم آپ کو پیغمبر خدا کے عنوان سے‬


‫تسلیم کرتے تو آپ کے ساتھ اس قدر جنگ و جدل نہ‬
‫کرتے؛ اس عنوان کو مٹنا چاہئے اور اس کے بجائے‬
‫"محمد بن عبداللہ" لکھنا چاہئے۔ آؐپ نے اس کا یہ‬
‫مطالبہ بھی قبول کیا اور جب آؐپ متوجہ ہوئے کہ علی‬
‫بن ابی طالب کے لئے "رسول اللہ" کا عنوان مٹانا دشوار‬
‫ہے تو آؐپ نے اپنی انگلی آگے بڑھا دی اور فرمایا‪ :‬یا‬
‫علی! مجھے یہ عنوان دکھا دو تاکہ میں خود اس کو‬
‫مٹا دوں۔‬

‫صلح حدیبیہ کے نکات حسب ذیل تھے‪:‬‬

‫‪ 10 .1‬سال تک فریقین کے درمیان صلح برقرار ہو تاکہ‬


‫کریں؛[‪]39‬‬ ‫لوگ امن و سکون میں زندگی بسر‬
‫‪ .2‬مسلمان ُا س سال خانۂ خدا کی زیارت کئے بغیر‬
‫مدینہ پلٹ کر چلے جائیں اور اگلے سال عمرہ کی بجا‬
‫آوری کے لئے مکہ آئیں بشرطیکہ اسلحۂ مسافر کے سوا‬
‫کوئی ہتھیار اٹھا کر نہ آئیں اور مکہ میں ‪ 3‬دن سے‬
‫زائد عرصہ نہ گذاریں؛ قریش بھی ان ایام میں شہر‬
‫چھوڑ کر چلے جائیں گے؛‬
‫‪ .3‬مسلمانوں نے عہد کیا کہ ان افراد کو پلٹا دیں گے‬
‫جو مکہ سے بھاگ کر مدینہ چلے جاتے ہیں لیکن فریق‬
‫مخالف مدینہ سے فرار ہوکر مکہ آنے والوں کی نسبت‬
‫اس قسم کے اقدام کے پابند نہ ہونگے؛‬
‫‪ .4‬دوسرے قبائل کو پوری آزادی حاصل ہوگی کہ وہ‬
‫کریں۔[‪]40‬‬ ‫قریش یا مسلمانوں کے ساتھ معاہدے منعقد‬

‫صحیح مسلم میں منقول ہے کہ جب سورہ فتح نازل‬


‫ہوئی تو رسول خدؐا نے عمر بن خطاب کو بلوایا اور اللہ‬
‫کی طرف سے نازل ہونے والی وحی انہیں سنا دی۔ عمر‬
‫نے کہا‪ :‬کیا واقعی یہ صلح‪ ،‬فتح ہے؟! فرمایا‪ :‬ہاں یہ‬
‫ہے۔[‪]41‬‬ ‫فتح‬

‫مدینہ واپسی‬
‫مختلف روایات کے مطابق مسلمانوں نے ‪ 10‬سے کچھ‬
‫زیادہ دن اور ایک قول کے مطابق ‪ 20‬دن سرزمین‬
‫حدیبیہ میں قیام کیا۔[‪ ]42‬رسول خدؐا نے اپنا خیمہ حرم‬
‫کی حدود سے باہر نصب کیا تھا لیکن نماز حرم کی‬
‫حدود میں بجا التے تھے۔ جب معاہدے پر دستخط ہوئے‬
‫اور مسلمانوں اور مشرکین میں سے بعض افراد اس کے‬
‫انعقاد کے گواہ بنے تو رسول خدؐا نے حکم دیا کہ اپنے‬
‫اونٹوں کو قربانی کے عنوان سے نحر کریں اور اپنے سر‬
‫منڈوا دیں۔ زیادہ تر مسلمانوں نے ـ جو صلح حدیبیہ‬
‫کے انعقاد اور مناسک حج بجا نہ النے سے ناراض تھے‬
‫اور اس کو مسلمانوں کی شکست سمجھتے تھے ـ‬
‫رسول اللؐہ کی حکم عدولی کی؛ لیکن جب آؐپ نے بذات‬
‫خود ان مناسک کے بجا النے کا اہتمام کیا تو مسلمانوں‬
‫نے بھی پیروی کی۔[‪ ]43‬بعذ ازاں مسلمان مدینہ واپس‬
‫آئے۔[‪]44‬‬
‫حدیبیہ کے معاہدہ صلح کے مطابق‪ ،‬اگلے سال (سنہ ‪7‬‬
‫ہجری میں) رسول اللؐہ اور مسلمان مکہ چلے گئے اور‬
‫تین روز تک قریش کی عدم موجودگی میں وہیں قیام‬
‫کیا اور عمرہ کے اعمال انجام دیئے۔ یہ واقعہ عمرۃ‬
‫ہے۔[‪]45‬‬ ‫القضاء کے نام سے مشہور‬

‫حدیبیہ سے مدینہ واپسی کے دوران راستے میں ہی‬


‫سورہ فتح نازل ہوئی اور اس سورت میں خداوند‬
‫متعال نے صلح حدیبیہ کو "فتح مبین" کا نام عطا کیا‬
‫اور بیعت کرنے والوں سے اپنی رضا اور خوشنودی کا‬
‫اعالن فرماتے ہوئے مسلمانوں کو عظیم فتوحات اور‬
‫بہت سے اموال غنیمت کا وعدہ دیا۔[‪ ]46‬اکثر مفسرین‬
‫کی رائے کے مطابق اس وعدے کا تعلق فتح خیبر سے‬
‫ہے جو سنہ ‪ 7‬ہجری میں انجام پایا اور بہت سے اموال‬
‫غنیمت مسلمانوں کے نصیب ہوئے۔[‪ ]47‬تاہم بعض‬
‫مفسرین نے آیت فتح مبین کی آیت کو فتح مکہ سے‬
‫ہے۔[‪]48‬‬ ‫متعلق سمجھا‬

‫معاہدے کی خالف ورزی‬


‫صلح حدیبیہ سے کچھ ہی عرصہ بعد مکہ سے ایک‬
‫شخص بھاگ کر مدینہ پہنچا۔ رسول اللؐہ نے معاہدے‬
‫کی رو سے اس کو مکہ واپس بھجوایا؛ لیکن متذکرہ‬
‫مسلمان بیچ راستے قریشیوں کے نرغے سے نکل کر‬
‫بھاگ گیا اور چند دیگر افراد سے مل کر قریشیوں پر‬
‫حملہ کیا اور حملوں کا یہ سلسلہ جاری رکھا۔ یہاں تک‬
‫کہ قریش نے رسول خدؐا سے درخواست کی کہ ان چند‬
‫مسلمانوں کو مدینہ میں بسا دیں؛ اور یوں قریش نے‬
‫بھاگنے والوں کے لوٹانے کی یک طرفہ پابندی والے نکتے‬
‫کو خود ہی منسوخ کردیا۔[‪ ]49‬گوکہ اس سے کچھ‬
‫عرصہ پہلے ہی سورہ ممتحنہ کی دسویں آیت کی رو‬
‫سے ان مؤمنہ خواتین کا واپس بھجوانا ممنوع ہوچکا‬
‫تھیں۔[‪]50‬‬ ‫تھا جو مکہ سے مدینہ فرار ہوکر آتی‬

‫ابھی صلح حدیبیہ کو دو سال کا عرصہ نہیں گذرا تھا‬


‫کہ مشرکین نے اس کو پامال کیا اور اس کے پہلے نکتے‬
‫یعنی جنگ بندی کی خالف ورزی کرتے ہوئے سنہ ‪8‬‬
‫ہجری میں مسلمانوں کے حلیف قبیلے بنو خزاعہ کے‬
‫ساتھ اپنے حلیف قبیلے بنو بکر کی جنگ میں شرک‬
‫ہوئے اور قریش کے افراد نے بنو خزاعہ کے کئی افراد‬
‫کو قتل کیا۔ قریش کا یہ اقدام صلح حدیبیہ کی کھلی‬
‫خالف ورزی سمجھا جاتا تھا۔ اس واقعے کے بعد ابو‬
‫سفیان ذاتی طور پر مسلمانوں سے معافی مانگنے‬
‫مدینہ چال گیا لیکن اس کی معذرت مسترد ہوئی اور‬
‫کچھ ہی عرصہ بعد رسول اللؐہ نے‪ ،‬ایک عظیم لشکر کے‬
‫ساتھ ـ جو صلح کے ایام اور اسالم کے فروغ کے زمانے‬
‫میں فراہم ہوا تھا ـ فتح مکہ کی غرض سے‪ ،‬عزیمت‬
‫فرمائی۔[‪]51‬‬

‫صلح حدیبیہ کی برکات‬


‫صلح حدیبیہ تاریخ کی گواہی اور رسول خدؐا کی‬
‫پیشنگوئیوں اور قرآن کے وعدوں کے عین مطابق‪،‬‬
‫مسلمانوں کے لئے بہت سی برکات کا سبب ہوئی۔‬
‫مؤرخین کے مطابق‪ ،‬اسالم کے صدر اول میں فتح‬
‫حدیبیہ سے عظیم تر کوئی فتح مسلمانوں کے نصیب‬
‫نہیں ہوئی کیونکہ اس کی روشنی میں جنگ کے بادل‬
‫چھٹ گئے اور دعوت اسالم کو فروغ مال اور اسالم‬
‫پورے جزیرۃ العرب میں پھیل گیا؛ یہاں تک کہ معاہدہ‬
‫صلح سے اس کی پامالی تک صرف ‪ 22‬مہینوں کے‬
‫عرصے میں اسالم قبول کرنے والے افراد کی تعداد اس‬
‫زمانے تک اسالم قبول کرنے والے افراد سے کہیں زیادہ‬
‫تھی۔ چنانچہ سنہ ‪ 8‬ہجری میں فتح مکہ کے لئے‬
‫عزیمت کرتے وقت رسول اللؐہ کی سپاہ ‪ 10000‬افراد‬
‫پر مشتمل تھی اور قریش کے عمائدین ـ منجملہ ابو‬
‫سفیان‪ ،‬خالد بن ولید اور عمرو عاص نے ان ہی ایام‬
‫میں اسالم قبول کیا۔[‪
]52‬گوکہ ابو سفیان کے قبول‬
‫اسالم کے بارے میں اختالف ہے اور زیادہ مستند قول‬
‫یہ ہے کہ اس نے رسول خدؐا اور اسالم کے خالف بےحد‬
‫وحساب ریشہ دوانیوں کے بعد‪ ،‬سنہ ‪ 8‬ہجری میں فتح‬
‫مکہ کے دوران عباس بن عبد المطلب کی وساطت سے‬
‫رسول خدؐا کی خدمت میں حاضر ہوکر اسالم قبول‬
‫کرنے کا اعالن کیا[‪ ]53‬اور آؐپ نے اس کے گھر کو پرامن‬
‫دیا۔[‪]54‬‬ ‫پناہ گاہ قرار‬

‫اسی اثناء میں‪ ،‬صلح حدیبیہ سے حاصل ہونے والے امن‬


‫و سکون کے نتیجے میں رسول اللؐہ نے جزیرۃ العرب‬
‫میں اپنی تبلیغی فعالیت کو شدت بخشی اور بیرونی‬
‫سرزمینوں کی طرف بھی اپنی توجہ مبذول فرمائی۔‬
‫سنہ ‪ 7‬ہجری میں آؐپ نے ارد گرد کے بادشاہوں اور‬
‫سربراہوں کو بھی اسالم کی دعوت دی؛ لیکن صلح کا‬
‫سب سے اہم فائدہ فتح مکہ کے لئے ماحول اور اسباب‬
‫کی فراہمی سے عبارت تھا جو صلح حدیبیہ کے بعد‬
‫مختصر سے عرصے میں انجام پائی۔‬

‫متعلقہ صفحات‬
‫واقعات‬ ‫سنہ ‪ 6‬ہجری‬ ‫حدیبیہ‬
‫قمری کے‬ ‫بیعت رضوان‬

‫حوالہ جات‬
‫‪ .1‬ابن عقبۃ‪ ،‬المغازی النبویۃ‪ ،‬ص‪320‬۔‬
‫‪ .2‬بالذری‪ ،‬انساب االشراف‪ ،‬ج‪ ،3‬ص‪463‬۔‬
‫‪ .3‬ابن سعد‪ ،‬الطبقات الکبری‪ ،‬ج‪ ،2‬ص‪95‬۔‬
‫‪ .4‬ابن سعد‪ ،‬وہی ماخذ۔‬
‫مآخذ‬
‫ابن اثیر‪ ،‬علی بن محمد‪ ،‬الکامل فی التاریخ‪ ،‬بیروت‪،‬‬
‫دارالکتاب العربی‪۱۹۶۶ – ۱۹۶۵ / ۱۳۸۶ – ۱۳۸۵ ،‬۔‬
‫ابن سعد‪ ،‬کتاب الطبقات الکبیر‪ ،‬تحقیق ادوارد زاخاو‪،‬‬
‫لیدن ‪ ،۱۹۴۰ – ۱۹۰۴ / ۱۳۴۷ – ۱۳۲۱‬چاپ افست تہران‬
‫[بی‌تا۔]‬
‫ابن ہشام‪ ،‬عبدالملک بن ہشام‪ ،‬السیرۃ النبویۃ‪ ،‬تحقیق‬

‫اخذ کردہ از «?‪https://ur.wikishia.net/index.php‬‬


‫‪&oldid=166292‬صلح_حدیبیہ=‪»title‬‬

‫آخری ترمیم ‪ 6‬مہینے قبل از ‪Hakimi‬‬

You might also like