You are on page 1of 6

‫فتح مکہ‬ ‫شہر مکہ پر مسلمانوں کی فتح‬

‫فتح مکہ (جسے فتح عظیم بھی کہا جاتا ہے)[‪ ]1‬عہد نبوی کا ایک غزوہ ہے جو ‪ 20‬رمضان سنہ ‪ 8‬ہجری بمطابق ‪10‬‬
‫جنوری سنہ ‪ 630‬عیسوی کو پیش آیا‪ ،‬اس غزوے کی بدولت مسلمانوں کو شہر مکہ پر فتح نصیب ہوئی اور اس کو‬
‫اسالمی قلمرو میں شامل کر لیا گیا۔ اس غزوہ کا سبب قریش مکہ کی جانب سے اس معاہدہ کی خالف ورزی تھی جو ان‬
‫کے اور مسلمانوں کے درمیان میں ہوا تھا‪ ،‬یعنی قریش مکہ نے اپنے حلیف قبیلہ بنو دئل بن بکر بن عبد منات بن کنانہ (اس‬
‫کی ایک خاص شاخ جسے بنو نفاثہ کہا جاتا ہے) نے بنو خزاعہ کے خالف قتل و غارت میں مدد کی تھی اور چونکہ بنو‬
‫خزاعہ مسلمانوں کا حلیف قبیلہ تھا اس لیے اس حملے کو قریش مکہ کی جانب سے اس معاہدہ کی خالف ورزی سمجھا‬
‫گیا جو مسلمانوں اور قریش کے درمیان میں ہوا تھا‪ ،‬یہ معاہدہ "صلح حدیبیہ" کے نام سے معروف ہے۔ اسی معاہدہ کی‬
‫خالف ورزی کے جواب میں محمد بن عبد اللہ نے ایک عظیم الشان لشکر تیار کیا جو دس ہزار مجاہدین پر مشتمل تھا؛‬
‫لشکر آگے بڑھتا رہا یہاں تک کہ مکہ پہنچ گیا اور بغیر کسی مزاحمت کے مکہ میں پر امن طریقے سے داخل ہو گیا سوائے‬
‫ایک معمولی سی جھڑپ کے جس کا سپہ ساالر خالد بن ولید کو اس وقت سامنا ہوا جب قریش کی ایک ٹولی نے عکرمہ‬
‫بن ابی جہل کی قیادت میں مسلمانوں سے مزاحمت کی اور پھر خالد بن ولید کو ان سے قتال کرنا پڑا جس کے نتیجے‬
‫میں بارہ کفار مارے گئے اور باقی بھاگ گئے‪ ،‬جبکہ دو مسلمان بھی شہید ہوئے۔‬
‫مکہ کی فتح‬

‫بسلسلہ مسلمان–قریش چنگیں‬

‫‪ 11‬جنوری ‪630‬‬ ‫تاریخ‬

‫مکہ‬ ‫مقام‬

‫بغیر جنگ کیے مسلمانوں کی فتح‪ ،‬قریش نے ہتھیار ڈال دیئے‪ ،‬مقابلہ نہیں کیا۔‬ ‫نتیجہ‬

‫محارب‬

‫قریش‬ ‫مسلمان‬

‫کمانڈر اور رہنما‬

‫ابو سفیان بن حرب‬ ‫پیغمبر محمد بن عبد اللہ‬

‫طاقت‬

‫نامعلوم‬ ‫‪10,000‬‬

‫ہالکتیں اور نقصانات‬

‫‪12‬‬ ‫‪2‬‬

‫جب محمد بن عبد اللہ مکہ میں داخل ہوئے اور لوگوں کو اطمینان ہو گیا تو کعبہ کے پاس آئے اور اس کا طواف کیا۔‬
‫اثنائے طواف کعبہ کے ارد گرد موجود بتوں کو اپنے پاس موجود تیر سے گراتے اور پڑھتے جاتے‪َ « :‬ج اَء ا ْل َح ُّق َو َز َه َق ا ْل َب اِط ُل‬
‫ِإَّن ا ْل َب اِط َل َكاَن َز ُه وًق ا»[‪ ]2‬و« َج اَء ا ْل َح ُّق َو َم ا ُي ْب ِد ُئ ا ْل َب اِط ُل َو َم ا ُي ِع يُد »‪" ]3[ ،‬جاء الحق و زھق الباطل ان الباطل کان زھوقا"‬
‫(ترجمہ‪ :‬حق آن پہنچا اور باطل مٹ گیا اور یقینًا باطل ایسی ہی چیز ہے جو مٹنے والی ہے) اور پڑھتے "جاء الحق وما‬
‫يبدئ الباطل وما يعيد" (ترجمہ‪ :‬حق آچکا ہے اور باطل میں نہ کچھ شروع کرنے کا دم ہے‪ ،‬نہ دوبارہ کرنے کا)۔ کعبہ میں‬
‫بتوں کی تصویریں آویزاں اور ان کے مجسمے نصب تھے محمد بن عبد اللہ نے ان کو بھی ہٹانے اور توڑنے کا حکم دیا جس‬
‫کی تعمیل کی گئی‪ ،‬جب نماز کا وقت ہوا تو محمد بن عبد اللہ نے بالل ابن رباح کو حکم فرمایا کہ کعبہ کے اوپر چڑھ‬
‫جائیں اور اذان دیں؛ بالل کعبہ کے اوپر چڑھے اور اذان دی۔‬

‫فتح مکہ کے بعد ایک کثیر تعداد حلقہ بگوش اسالم ہوئی جن میں سرفہرست سردار قریش و کنانہ ابو سفیان اور ان کی‬
‫بیوی ہند بنت عتبہ ہیں۔ اسی طرح عکرمہ بن ابو جہل‪ ،‬سہیل بن عمرو‪ ،‬صفوان بن امیہ اور ابوبکر صدیق کے والد ابو‬
‫قحافہ کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں۔‬
‫پس منظر‬

‫صلح حدیبیہ دس سال کے لیے ہوئی تھی مگر ‪630‬ء کے بالکل شروع میں مشرکیِن مکہ کے اتحادی قبیلہ بنو بکر نے‬
‫مسلمانوں کے اتحادی قبیلہ بنو خزاعہ پر حملہ کیا اور کئی آدمی قتل کر دیے۔ اس دوران مکہ کے مشرک قریش نے چہرے‬
‫پر نقاب ڈال کر بنو بکر کی مدد بھی کی مگر یہ بات راز نہ رہ سکی۔ یہ صلح حدیبیہ کا اختتام تھا۔ مسلمان اس وقت تک‬
‫بہت طاقتور ہو چکے تھے۔ ابوسفیان نے بھانپ لیا تھا کہ اب مسلمان اس بات کا بدلہ لیں گے اس لیے اس نے صلح کو‬
‫جاری رکھنے کی کوشش کے طور پر مدینہ کا دورہ کیا۔ ابوسفیان اپنی بیٹی اِم حبیبہ کے گھر پہنچا‪ ،‬جو اسالم لے آئی‬
‫تھیں اور محمد بن عبد اللہ کی زوجہ تھیں۔ جب اس نے بستر پر بیٹھنا چاہا تو محمد بن عبد اللہ اِم حبیبہ نے بستر اور‬
‫چادر لپیٹ دی اور ابوسفیان کو بیٹھنے نہ دیا۔ اس نے حیران ہو کر پوچھا کہ بستر کیوں لپیٹا گیا ہے تو محمد بن عبد‬
‫اللہ ام حبیبہ نے جواب دیا کہ 'آپ مشرک ہیں اور نجس ہیں اس لیے میں نے مناسب نہ سمجھا کہ آپ محمد بن عبد اللہ‬
‫جب ابوسفیان نے صلح کی تجدید کے لیے محمد بن عبد اللہ سے رجوع کیا تو انہوں نے کوئی‬ ‫پر بیٹھیں۔۔[‪]4‬‬ ‫کی جگہ‬
‫جواب نہیں دیا پھر اس نے کئی بزرگوں کی وساطت سے کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہوا۔ سخت غصے اور مایوسی میں‬
‫اس نے تجدیِد صلح کا یکطرفہ اعالن کیا اور مکہ واپس چال گیا۔[‪ ]5‬قبیلہ بنو خزاعہ نے محمد بن عبد اللہ سے فریاد کی‬
‫تو انہوں نے مکہ فتح کرنے کا فیصلہ کیا۔ بنو خزاعہ نے اپنے ایک شاعر عمرو ابن خزاعہ کو بھیجا تھا جس نے دردناک‬
‫اشعار پڑھے اور بتایا کہ وہ 'وتیرہ' کے مقام پر رکوع و سجود میں مشغول تھے تو قریش نے ان پر حملہ کر دیا اور ہمارا‬
‫قتِل عام کیا۔ محمد بن عبد اللہ نے اس کو کہا کہ ہم تمہاری مدد کریں گے۔
محمد بن عبد اللہ نے روانگی کا مقصد بتائے‬

‫بغیر اسالمی فوج کو تیار کیا اور مدینہ اور قریبی قبائل کے لوگوں کو بھی ساتھ مالیا۔ لوگوں کے خیال میں صلِح‬
‫حدیبیہ ابھی قائم تھی اس لیے کسی کے گمان میں نہ تھا کہ یہ تیاری مکہ جانے کے لیے ہے۔ محمد بن عبد اللہ نے مدینہ‬
‫سے باہر جانے والے راستوں پر نگرانی بھی کروائی تاکہ یہ خبریں قریش کا کوئی جاسوس باہر نہ لے جائے۔ محمد بن عبد‬
‫اللہ نے دعا بھی کی کہ اے خدایا آنکھوں اور خبروں کو قریش سے پوشیدہ کر دے تاکہ ہم اچانک ان کے سروں پر ٹوٹ‬
‫پڑیں۔[‪ 10
]6‬رمضان ‪8‬ھ کو روانگی ہوئی۔ کسی کو معلوم نہ تھا کہاں جانا ہے۔ ایک ہفتہ میں مدینہ سے مکہ کا فاصلہ‬
‫طے ہو گیا۔ مکہ سے کچھ فاصلہ پر 'مرالظہران' کے مقام پر لشکِر اسالم خیمہ زن ہو گیا۔ لوگوں کو معلوم ہو چکا تھا کہ‬
‫مکہ کا ارادہ ہے۔‬

‫جنگ‬

‫جنگ تو ہوئی نہیں مگر احوال کچھ یوں ہے کہ مر الظہران کے مقام پر محمد بن عبد اللہ نے تاکید کی کہ لشکر کو بکھیر‬
‫دیا جائے اور آگ جالئی جائے تاکہ قریِش مکہ یہ سمجھیں کہ لشکر بہت بڑا ہے اور بری طرح ڈر جائیں اور اس طرح شاید‬
‫بغیر خونریزی کے مکہ فتح ہو جائے۔ یہ تدبیر کارگر رہی۔ مشرکین کے سردار ابوسفیان نے دور سے لشکر کو دیکھا۔ ایک‬
‫شخص نے کہا کہ یہ شاید بنو خزاعہ کے لوگ ہیں جو بدلہ لینے آئے ہیں مگر اس نے کہا کہ اتنا بڑا لشکر اور اتنی آگ بنو‬
‫خزاعہ کے بس کی بات نہیں۔ اس کے بعد ابوسفیان محمد بن عبد اللہ سے امان پانے کے لیے لشکِر اسالم کی طرف محمد‬
‫بن عبد اللہ کے چچا عباس کی پناہ میں چل پڑا۔ کچھ مسلمانوں نے اسے مارنا چاہا مگر چونکہ عباس بن عبدالمطلب نے‬
‫پناہ دے رکھی تھی اس لیے باز آئے۔ رات کو قید میں رکھ کر صبح ابوسفیان کو محمد بن عبد اللہ کی خدمت میں پیش‬
‫کیا گیا۔ محمد بن عبد اللہ نے ابو سفیان کو دیکھا تو فرمایا 'کیا ابھی اس کا وقت نہیں آیا کہ تو یہ سمجھے کہ ایک خدا‬
‫کے عالوہ اور کوئی خدا نہیں ہے؟' ابوسفیان نے کہا کہ اگر خدائے واحد کے عالوہ کوئی خدا ہوتا تو ہماری مدد کرتا۔ یہ‬
‫دیکھ کر کہ اس نے ایک خدا کو تسلیم کیا ہے‪ ،‬محمد بن عبد اللہ نے پوچھا کہ 'کیا اس کا وقت نہیں آیا کہ تم جانو کہ‬
‫میں خدا کا پیغمبر ہوں؟' اس پر ابوسفیان نے کہا کہ 'مجھے آپ کی رسالت میں تردد ہے' اس پر ان کو پناہ دینے والے‬
‫عباس بن عبد المطلب سخت ناراض ہوئے اور کہا کہ اے ابوسفیان اگر تو اسالم نہ الیا تو تمہاری جان کی کوئی ضمانت‬
‫نہیں۔ اس پر ابوسفیان نے اسالم قبول کر لیا۔ مگر محمد بن عبد اللہ نے اسے رہا نہ کیا بلکہ ایک جگہ رکھ کر مسلمانوں‬
‫کے دستوں کو اس کے سامنے گزارا۔ وہ بہت مرعوب ہوا اور عباس بن عبد المطلب کو کہنے لگا کہ 'اے عباس تمہارے‬
‫بھتیجے نے تو زبردست سلطنت حاصل کر لی ہے'۔ محمد بن عبد اللہ عباس بن عبد المطلب نے کہا کہ 'اے ابوسفیان یہ‬
‫سلطنت نہیں بلکہ نبوت ہے جو خدا کی عطا کردہ ہے'۔ اس کے بعد محمد بن عبد اللہ عباس بن عبد المطلب نے محمد بن‬
‫عبد اللہ کو کہا کہ 'اے اللہ کے رسول۔ ابوسفیان ایسا شخص ہے جو ریاست کو دوست رکھتا ہے اسے اسی وقت کوئی‬
‫مقام عطا کریں' اس پر محمد بن عبد اللہ محمد بن عبد اللہ نے فرمایا کہ 'ابوسفیان لوگوں کو اطمینان دال سکتا ہے کہ جو‬
‫کوئی اس کی پناہ میں آجائے گا امان پائے گا۔ جو شخص اپنے ہتھیار رکھ کر اس کے گھر میں چال جائے اور دروازہ بند کر‬
‫لے یا مسجد الحرام میں پناہ لے لے وہ سپاِہ اسالم سے محفوظ رہے گا'۔[‪ ]7‬اس کے بعد ابوسفیان کو رہا کر دیا گیا جس کا‬
‫فائدہ یہ ہوا کہ اس نے مکہ جا کر اسالمی لشکر کی عظمت بتا کر ان لوگوں کو خوب ڈرایا۔

‫محمد بن عبد اللہ محمد بن عبد اللہ نے لشکر کو چار دستوں میں تقسیم کیا اور مختلف سمتوں سے شہر میں داخل ہونے‬
‫چاروں طرف سے شہر گھر گیا‬ ‫کرنا۔۔[‪]8‬‬ ‫کا حکم دیا اور تاکید کی کہ جو تم سے لڑے اس کے عالوہ اور کسی سے جنگ نہ‬
‫اور مشرکین کے پاس ہتھیار ڈالنے کے عالوہ کوئی راستہ نہ رہا۔ صرف ایک چھوٹے گروہ نے لڑائی کی جس میں صفوان‬
‫بن امیہ بن ابی خلف اور عکرمہ بن ابی جہل شامل تھے۔ ان کا ٹکراؤ محمد بن عبد اللہ خالد بن ولید کی قیادت کردہ‬
‫دستے سے ہوا۔ مشرکین کے ‪ 28‬افراد انتہائی ذلت سے مارے گئے۔[‪ ]9‬لشکر اسالم انتہائی فاتحانہ طریقہ سے شہِر مکہ میں‬
‫داخل ہوا جہاں سے آٹھ سال پہلے محمد بن عبد اللہ کو ہجرت کرنا پڑی تھی۔ کچھ آرام کے بعد محمد بن عبد اللہ‬
‫مجاہدین کے ہمراہ کعبہ کہ طرف روانہ ہوئے۔ کعبہ پر نظر پڑتے گھوڑے پر سواری کی ہی حالت میں حجِر اسود کو بوسہ‬
‫دیا۔ محمد بن عبد اللہ تکبیر بلند کرتے تھے اور لشکِر اسالم محمد بن عبد اللہ کے جواب میں تکبیر بلند کرتے تھے۔
کعبہ‬
‫میں داخل ہونے کے بعد محمد بن عبد اللہ نے تمام تصاویر کو باہر نکال دیا جن میں محمد بن عبد اللہ ابراہیم علیہ السالم‬
‫کی تصویر بھی شامل تھی اور تمام بتوں کو توڑ دیا۔ بتوں کو توڑنے کے لیے محمد بن عبد اللہ نے محمد بن عبد اللہ علی‬
‫بن ابوالعاص کو اپنے مبارک کاندھوں پر سوار کیا اور بتوں کو اپنے ہاتھوں سے بھی توڑتے رہے۔ یہاں تک کہ کعبہ کو شرک‬
‫کی تمام عالمتوں سے پاک کر دیا۔‬

‫نتائج‬

‫فتِح مکہ ایک شاندار فتح تھی جس میں چند کے عالوہ کوئی قتل نہ ہوا۔ فتح کے بعد محمد بن عبد اللہ نے سب کو عام‬
‫معافی دے دی۔ کافی لوگ مسلمان ہوئے۔ محمد بن عبد اللہ نے ان سے شرک نہ کرنے‪ ،‬زنا نہ اور چوری نہ کرنے کی تاکید پر‬
‫بیعت لی۔ اور انہیں اپنے اپنے بتوں کو توڑنے کا حکم دیا۔ مکہ کی فتح عرب سے مشرکین کے مکمل خاتمے کی ابتدا ثابت‬
‫ہوئی۔‬

‫پیش منظر‬
‫مکہ کی فتح کے بعد محمد بن عبد اللہ نے سابقہ مشرکین کو مکہ کے اطراف میں بتوں کو توڑنے کے لیے بھیجا۔ مکہ کے‬
‫فتح کے بعد ارد گرد کے مشرکین پریشان ہو گئے اور ایک اتحاد قائم کیا جس وجہ سے فتِح مکہ کے اگلے ہی ماہ غزوہ‬
‫حنین پیش آیا۔‬

‫حوالے‬

‫‪ .1‬زاد المعاد فی هدی خير العباد‪ ،‬ابن قیم الجوزیہ‪ ،‬مؤسسة الرسالة‪ ،‬بيروت ‪ -‬لبنان‪ ،‬مكتبة المنار اإلسالمية‪ ،‬الكويت‪ ،‬الطبعة السابعة‬
‫والعشرون‪1415 ،‬هـ‪1994/‬م‬

‫‪ .2‬سورة اٍإل سراء‪ ،‬اآلية‪81 :‬‬

‫‪ .3‬سورة سبأ‪ ،‬اآلية‪49 :‬‬

‫‪ .4‬السیرۃ النبویۃ از ابن ھشام صفحہ ‪38‬‬

‫‪ .5‬السیرۃ النبویۃ از ابن ھشام صفحہ ‪39-38‬‬

‫‪ .6‬السیرۃ النبویۃ از ابن ھشام صفحہ ‪39‬‬

‫‪ .7‬السیرۃ النبویۃ از ابن ھشام جلد ‪ 4‬صفحہ ‪46-45‬‬

‫‪ .8‬المغازی (واقدی) جلد ‪ 2‬صفحہ ‪825‬‬

‫‪ .9‬السیرۃ النبویۃ از ابن ھشام جلد ‪ 4‬صفحہ ‪49‬‬

‫اخذ کردہ از «?‪https://ur.wikipedia.org/w/index.php‬‬


‫‪&oldid=4574543‬فتح_مکہ=‪»title‬‬

‫آخری ترمیم ‪ 12‬مہینے قبل بدست ‪


Obaid Raza‬‬ ‫

You might also like