You are on page 1of 19

‫[‪ :Prof.Dr.

syed Naeem Bukhri ]pm, 26/10/2023 9:10‬وہ بدر کا واقعہ || غزوہ‬


‫بدر کے اسباب و واقعات اور پِس منظر‬
‫‪admin‬‬
‫‪person‬‬
‫‪admin‬‬
‫‪share‬‬

‫غزوہ بدر کا واقعہ || غزوہ بدر کے اسباب و واقعات اور پِس منظر‬

‫غزوہ بدر کا واقعہ || غزوہ بدر کے اسباب و واقعات اور پِس منظر‬

‫قریش مکہ اسالم اور پیغمبر اسالم صلی ہللا علیہ و سلم کے سخت دشمن تھے مکے میں‬
‫انہوں نے خدا کے سچے دین کو برباد کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی یہاں تک کہ‬
‫مسلمانوں کو مجبورًا ہجرت کرکے مدینہ آنا پڑا ۔مدینہ میں اسالم تیزی سے پھیلنے لگا اور‬
‫مسلمانوں کی چھوٹی سی باقاعدہ ریاست قائم ہو گی ۔یہ بات قریش کے لیے ناقابل برداشت‬
‫تھی ۔وہ رات دن یہ منصوبے بنانے لگے کہ کسی طرح مدینہ کی اس نئی حکومت کا خاتمہ‬
‫کردیا جائے مسلمانوں کو قریش کے ان ارادوں کا عالم تھا اس لئے انہوں نے یہود کے‬
‫ساتھ دفاعی معاہدے بھی کر لیا تھے ۔مدینہ میں عبدہللا بن ابی نام کا ایک سردار تھا حضور‬
‫صلی ہللا علیہ وسلم کی مدینہ تشریف آوری سے پہلے مدینہ کے لوگ اسے اپنا حکمران‬
‫بنانے پر آمادہ تھے لیکن حضور صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ کے بعد سب لوگوں نے‬
‫آپ صلی ہللا علیہ وسلم کو اپنا حکمران مان لیا اس لئے مجبور عبدہللا بن ابی بظاہر مسلمان‬
‫بن گیا لیکن دل میں مسلمانوں سے سخت بغض رکھتا تھا قریش مکہ نے اسے لکھا کہ ‪:‬‬

‫تم نے ہمارے آدمی کو اپنے یہاں پناہ دی ہے یا تو اسے قتل کردو یا اسے اپنے یہاں سے‬
‫نکال دو ورنہ ہم مدینے پر حملہ کرکے تمہیں فنا کر دیں گے "‬
‫حضور صلی ہللا علیہ وسلم کو اس بات کا علم ہو گیا تھا تو آپ نے عبدہللا بن ابی کو‬
‫سمجھایا کہ اکثر اہل مدینہ مسلمان ہوچکے ہیں اس لئے تو اپنے بھائیوں بھتیجوں سے‬
‫کیسے لڑو گے چنانچہ عبدہللا قریش کی خواہش پر عمل نہ کر سکا اس پر قریش مکہ کا‬
‫غصہ اور بھی بڑھ گیا ۔‬

‫قریش مکہ کے تجارتی قافلے شام کو جاتے ہوئے مدینہ کے نواح سے گزرتے تھے‬
‫مسلمان کو خدشہ تھا کہ کہیں یہ قافلے نقصان نہ پہنچائیں اس لئے مدینہ کے نواح میں‬
‫رہنے والے قبائل سے معاہدے کیے تھے ۔‬

‫اسی اثناء میں مکہ کے ایک سردار کرز بن جابر فہری نے مدینہ کی چراگاہ پر حملہ کیا‬
‫اور مسلمانوں کے مویشی ہانگ کر لے گیا اسی دوران اطالع مدینہ پہنچ گئی اور مسلمانوں‬
‫نے تعاقب کرکے مویشی چھین لیے لیکن کرز بن جابر فہری بچ کر نکل گیا مسلمانوں نے‬
‫قریش کے تجارتی قافلوں کی نقل و حرکت کا جائزہ لینا شروع کر دیا ۔رجب ‪ 2‬ہجری میں‬
‫رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے عبدہللا بن جحش کو ‪ 12‬آدمیوں کی مختصر جماعت کے‬
‫ساتھ قریش کے تجارتی قافلے کا سراغ لگانے بھیجا ۔اتفاق سے وہ قریش کی ایک چھوٹی‬
‫سی جماعت سے دوچار ہوئے جو مال تجارت ال رہی تھی حضرت عبد ہللا بن جحش نے‬
‫حضور پاک صلی ہللا علیہ وسلم کی اجازت کے بغیر اس پر حملہ کردیا اور مال و اسباب‬
‫لوٹ لیا ۔اس حملے میں قریش کا ایک شخص عمرو بن حضرمی مارا گیا حضور صلی ہللا‬
‫علیہ وسلم کی اس کی اطالع ملی تو آپ عبدہللا بن جحش پر بہت ناراض ہوئے کہ میں نے‬
‫تمہیں اس بات کی اجازت نہیں دی تھی ۔لیکن قریش کو بہانہ ہاتھ آ گیا اور عمر بن‬
‫حضرمی کا بدلہ لینے کے نام پر جنگ کی تیاری شروع کر دی ۔‬

‫‪:‬جنگ بدر کے فوری اسباب‬


‫عمر بن حضرمی کے قتل کے بعد کا واقعہ ہے کہ قریش کا ایک تجارتی قافلہ جو ایک‬
‫ہزار اونٹوں پر مشتمل تھا ابو سفیان کی قیادت میں شام سے آ رہا تھا ۔ابوسفیان کو مدینہ‬
‫کے نواح میں کوئی خطرہ محسوس ہوا اور اس نے اہل مکہ سے مدد طلب کی اس پر مکہ‬
‫کے سردار ابو جہل نے مسلمانوں کے خالف لشکر جمع کیا اور مدینہ کو روانہ ہوا ۔‬

‫حضور پاک صلی ہللا علیہ وسلم کو کفار کی تیاریوں کی اطالع ملی تو آپ صحابہ کرام‬
‫رضی ہللا تعالی عنہما سے مشورہ کیا مہاجرین نے جوشیلی تقریریں کی اس طرح انصار‬
‫کی جانب سے حضرت سعد بن عبادہ نے اپنی وفاداری کا یقین دالیا ۔اب حضور صلی ہللا‬
‫علیہ وسلم ‪ 313‬جانثاروں کے ساتھ شہر سے باہر نکلے اور مدینہ سے تقریبا ‪ 30‬میل کے‬
‫فاصلے پر بدر کے میدان میں پہنچے ۔اسی اثنا میں قریش کی امدادی فوج مکہ سے روانہ‬
‫ہوکر بدر کے نواح میں پہنچ گئی یہیں انہیں اطالع ملی کہ ابو سفیان کا قافلہ بخیریت مکہ‬
‫پہنچ گیا ۔اس لیے بعض سرداروں کا خیال تھا کہ اب جنگ کرنے کی بجائے مسلمانوں سے‬
‫صلح کر لینی چاہیے اور عمر بن حضرمی کا خون بہا لینا چاہیے لیکن اس تجویز کی‬
‫ابوجہل نے مخالفت کی دراصل مسلمانوں کی انتہائی کم تعداد کے مقابلے میں اسے اپنے‬
‫ایک ہزار جنگجو جوانوں پر ناز تھا اس کے پاس اسلحہ بھی بہت سا تھا اس لیے اس نے‬
‫لڑائی کی حمایت کی ۔‬

‫جنگ بدر کے واقعات‬

‫قریش مکہ کی آمد کی خبر سن کر حضور پاک صلی ہللا علیہ وسلم نے اپنے بعض صحابہ‬
‫کرام کے پڑاو کو بدال۔ پانی پر اپنی بہتر …‬
‫[‪ :Prof.Dr.syed Naeem Bukhri ]pm, 26/10/2023 9:15‬غزوہ احد‪ ،‬پس منظر‪،‬‬
‫حقائق اور نتائج‬
‫جرات ڈیسک جمعه‪ ۵ ,‬مئی ‪۲۰۲۳‬‬
‫شیئر کریں‬

‫موالنا محمد الیاس گھمن‬


‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫‪ 3‬ہجری ‪ 15‬شوال المکرم میں ”غزوہ احد“پیش آیا۔غزوہ بدر میں قریش مکہ کو شکست‬
‫ہوئی تو بدلہ لینے کے لیے فیصلہ کن اور منظم جنگ کی منصوبہ بندی کرنے میں‬
‫مصروف ہو گئے‪ ،‬افرادی اور معاشی قوت کو جمع کرنے کے لیے مسلسل محنت شروع‬
‫کر دی۔بدر میں مسلمان جس قافلے کے لیے نکلے تھے وہ ابوسفیان کی معیت میں بچ نکال‬
‫اور مکہ پہنچ گیا یہ قافلہ جو مال تجارت لے کر آیا تھا قریش مکہ کو اس میں بہت نفع ہوا‬
‫انہوں نے اس بات پر مشورہ کیا کہ جتنا نفع ہوگا وہ سب اس جنگ میں لگائیں گے۔‬
‫قریش مکہ کی تیاریاں‬
‫مشورہ کی مخصوص جگہ ”دارالندوہ“ میں اجالس ہوا اور یہ طے ہوا کہ ارد گرد کے‬
‫قبائل کو ساتھ مالیا جائے تاکہ فیصلہ کن جنگ ہو‪،‬خوب تیاری کی گئی۔ ‪ 3000‬افراد پر‬
‫مشتمل لشکر تیار ہوا جن میں سات سو زرہ پوش (جنگی لباس جو لوہے کا بنا ہوا ہوتا ہے)‬
‫‪ 3000‬اونٹ‪ 200 ،‬گھوڑے شامل تھے۔ قریش اپنے ساتھ ‪ 15‬خواتین بھی الئے تھے اور ان‬
‫کو النے کا مقصد یہ تھا کہ یہ عورتیں جنگی اشعار پڑھ کر اپنے نوجوانوں کو جنگ کے‬
‫لیے بھڑکائیں گی۔کچھ اونٹ کھانے کے لیے کچھ باربرداری کے لیے جبکہ کچھ اونٹ اس‬
‫نیت سے الئے تھے کہ واپسی پر مسلمانوں کے ا موال چھین کر ان پر الد کر لے جائیں‬
‫گے۔ ‪ 5‬شوال المکرم کو قریشی لوگ مکہ مکرمہ سے روانہ ہوئے۔‬
‫حضرت عباس کا قاصد‬
‫حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی ہللا عنہ مکہ میں موجود تھے‪ ،‬انہوں نے ایک تیز‬
‫رفتار قاصد کو خط دے کر بھیجا کہ وہ جلدی پہنچ کر نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کو کفار‬
‫کے عزائم سے آگاہ کرے‪،‬وہ قاصد خفیہ راستوں سے ہوتا ہوا آپ صلی ہللا علیہ وسلم کے‬
‫پاس مدینہ منورہ پہنچا۔آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے لشکر قریش کے حاالت معلوم کرنے‬
‫کے لیے دو انصاری صحابی حضرت انس اور حضرت مونس رضی ہللا عنہما کو بھیجا‬
‫اور ان کے ساتھ حضرت حباب بن منذر رضی ہللا عنہ کو لشکر کے افراد کی تعداد معلوم‬
‫کرنے کے لیے بھیجا۔ انہوں نے واپس آ کر اطالع دی کہ ان کی تعداد ‪3‬ہزار کے لگ بھگ‬
‫ہے۔‬
‫رسول ہللا ﷺ کا خواب مبارک‬
‫دوسرے دن نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی ہللا عنہم کو اپنا ایک‬
‫خواب سنایا کہ ایک مضبوط قلعہ ہے‪ ،‬اس میں ایک گائے ہے‪ ،‬میرے ہاتھ میں تلوار ہے‪،‬‬
‫میں نے اپنی تلوار کو ہالیا تو اس کا آگے کا حصہ ٹوٹ گیا‪،‬پھر میں نے دوبارہ ہالیا تو وہ‬
‫صحت مند اور اچھی بھلی ہو گئی۔‬
‫خواب کی تعبیر‬
‫پھر آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے اپنے اس خواب کی تعبیر یہ بیان فرمائی کہ قلعہ سے مراد‬
‫مدینہ ہے‪ ،‬گائے سے مراد مسلمانوں کا لشکر ہے اس کے ایک حصہ گرنے سے مراد‬
‫مسلمانوں کی شہادت ہے۔تلوار کا ہلنا جنگ سے کنایہ ہے۔ اگلے حصے کا گرنا اس سے‬
‫مراد جنگ کے حاالت خراب ہونا‪/‬نقصان ہونا ہے‪،‬پھر گائے کا ٹھیک ہونا اس سے مراد‬
‫ہے جنگ کے حاالت کا دوبارہ ٹھیک ہوناہے۔‬
‫میدان جنگ کے بارے میں مشاورت‬
‫نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی ہللا عنہم سے مشورہ فرمایا کہ مدینہ‬
‫سے باہر نکل کر مقابلہ کیا جائے یا مدینہ کے اندر رہ کر؟بعض صحابہ کرام رضی ہللا‬
‫عنہم کی رائے یہ تھی کہ مدینہ کے اندر رہ کر ہی مقابلہ کیا جائے جبکہ باقی صحابہ کرام‬
‫رضی ہللا عنہم(اکثر وہ حضرات تھے جو غزوہ بدر میں شریک نہیں ہو سکے تھے)کی‬
‫رائے یہ تھی کہ باہر نکل کر جنگ لڑی جائے۔ مدینہ کے اندر رہ کر لڑنے سے کفار‬
‫قریش ہمیں کمزور سمجھیں گے۔اکثر صحابہ کرام رضی ہللا عنہم کی یہی خواہش تھی‪،‬‬
‫حضرت حمزہ رضی ہللا عنہ نے قسم اٹھائی‪:‬اس ہللا کی قسم جس نے آپ پر کتاب نازل‬
‫فرمائی‪ ،‬میں اس وقت تک کھانا نہیں کھاؤں گا جب تک مدینہ سے باہر نکل کر ان کو مار‬
‫نہ ڈالوں۔‬
‫منافقین کی رائے‬
‫اس موقع پر رئیس المنافقین عبدہللا بن ُاَبّی ابن سلول بھی اپنے ساتھ ‪ 300‬افراد لے کر اپنے‬
‫غلط مقاصد حاصل کرنے کی غرض سے شریک ہوا۔ اس کی رائے یہ تھی کہ مدینہ کے‬
‫اندر رہ کر جنگ کی جائے کیونکہ یہ مدینہ کی تاریخ ہے کہ مدینہ کے رہنے والوں نے‬
‫جب بھی اندر رہ کر جنگ لڑی ہے ان کو فتح ملی ہے۔‬
‫ُاحد کی طرف روانگی‬
‫نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے جمعہ کے دن عصر کے بعد فیصلہ فرمایا کہ مدینہ سے‬
‫باہر نکل کر دشمن کا مقابلہ کریں گے۔نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم گھر تشریف لے گئے‬
‫اور جنگ کی تیاری فرمائی چنانچہ‪ 1000‬کا لشکر نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کی قیادت‬
‫میں مدینہ سے ُاُحد کی طرف نکال۔ جس میں صرف‪2‬گھوڑے تھے‪ ،‬ایک نبی کریم صلی ہللا‬
‫علیہ وسلم کے پاس جبکہ دوسرا حضرت ابو بردہ رضی ہللا عنہ کے پاس تھا۔ نبی کریم‬
‫صلی ہللا علیہ وسلم نے حضرت عبدہللا بن ُاّم مکتوم رضی ہللا عنہ کو مدینہ منورہ کا قائم‬
‫مقام حاکم بنایا۔لشکرِ اسالم مغرب سے پہلے مدینہ سے نکال‪ ،‬شیخین کے مقام پر پڑاؤ ڈاال۔‬
‫منافقین کی غداری‬
‫اس موقع پر عبدہللا بن ُاَبّی منافق اپنے ساتھ ‪ 300‬افراد لے کر یہ کہتے ہوئے واپس چال گیا‬
‫کہ جنگ ہمارے مشورے کے مطابق نہیں ہے‪ ،‬اس لیے ہم اس میں اپنا نقصان نہیں کرنا‬
‫چاہتے۔‬
‫صف بندی اور دو بدو لڑائی‬
‫نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے صف بندی فرمائی۔سامنے مدینہ پشت کی جانب ُاُحد پہاڑ‬
‫تھا‪ ،‬محفوظ طریقہ پر صفیں بنائی گئیں۔ مشرکین کی طرف سے سب سے پہلے‬
‫مبارزت(میدان میں مقابلے کے لیے اپنے فریق کو للکار کرلڑنے کی دعوت دینا)کرتے‬
‫ہوئے میدان میں طلحہ بن ابی طلحہ اترا‪،‬مقابلے میں حضرت علی رضی ہللا عنہ میدان میں‬
‫اترے اور اس کو قتل کیا‪ ،‬اس کے بعد عثمان بن ابی طلحہ میدان میں آیا تو اس کے مقابلے‬
‫میں حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی ہللا عنہ میدان میں اترے اور اسے قتل کیا پھر ابو‬
‫سعد بن ابی طلحہ آیا تو اس کے مقابلے میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی ہللا عنہ‬
‫میدان میں اترے اور اسے قتل کر دیاپھر اس کے بعد عمومی جنگ شروع ہوئی اور‬
‫افراتفری مچ گئی۔‬
‫جبِل رماۃ پر مقرر دستہ‬
‫ُاحدپہاڑ کی ایک طرف َدَّرہ ہے جو جبِل رماۃ کے نام سے معروف ہے۔ یہ وہ جگہ ہے‬
‫جہاں نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے حضرت عبدہللا بن جبیر رضی ہللا عنہ اور ان کے‬
‫ساتھ پچاس تیر اندازوں کو مقرر فرمایا اور تاکید کی کہ جب تک میرا حکم نہ ہو آپ لوگوں‬
‫نے یہاں سے ہٹنا نہیں‪ ،‬چاہے فتح ہو یا شکست۔ تمام صحابہ کرام رضی ہللا عنہم انتہائی‬
‫جانثاری اور جوانمردی کے ساتھ کفار سے لڑتے رہے اور مشرکین بھاگنے پر مجبور‬
‫ہوگئے کچھ مسلمان ان کو بھگا رہے تھے اور کچھ مال غنیمت اکٹھا کر رہے تھے۔َدَّرہ پر‬
‫مقرر تیر انداز صحابہ کرام رضی ہللا عنہم میں سے اکثر نیچے اتر کر اپنے دوسرے‬
‫بھائیوں کے ساتھ مل کر غنیمت اکٹھی کرنے لگے۔ دوسری طرف خالد بن ولید جو ابھی‬
‫تک مسلمان نہیں ہوئے تھے انہوں نے درہ خالی دیکھا اور اچانک حملہ کردیا جس کی‬
‫وجہ سے مسلمانوں کو سخت نقصان اٹھانا پڑا۔‬
‫صحابہ کرام کا دّرے سے نیچے اترنا‬
‫نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کا حکم تھا کہ جب تک میں نہ کہوں آپ نے یہاں سے نہیں‬
‫ہلنا چاہے‪ ،‬فتح ہو یا شکست۔اس کے باوجود وہ نیچے کیوں اترے؟ پہلی بات یہ ہے کہ یہ‬
‫صحابہ کرام رضی ہللا عنہم کا اجتہاد تھا اور اس میں خطا سرزد ہوگئی۔ ہللا رب العزت نے‬
‫ان کی اس اجتہادی خطا کو معاف فرما دیا ہے۔ لٰہ ذا ہمیں یہ حق حاصل نہیں کہ ان پر‬
‫اعتراض کریں۔قرآن کریم میں ہے‪:‬دو فوجوں کی باہمی لڑائی(غزوہ ُاحد) والے دن جو لوگ‬
‫تم میں سے پیچھے ہٹ گئے‪ ،‬شیطان نے انہیں ُان کے بعض (پہلے والے)گناہوں کی وجہ‬
‫سے بہکایا۔ یقینًا ہللا تعالٰی نے ُانہیں اس کی بھی معافی دے دی۔ بے شک ہللا تعالٰی کی ذات‬
‫بخشنے والی اور بردبار ہے۔(سورۃ آل عمران‪ ،‬رقم اآلیۃ‪)155 :‬‬
‫فائدہ‪:‬ہمارا عقیدہ ہے کہ صحابہ کرام رضی ہللا عنہم اجمعین محفوظ ہیں۔ محفوظ ہونے کا‬
‫معنی یہ ہے کہ اگر ان میں سے کسی ایک سے بشری تقاضوں کے مطابق کبھی کوئی گناہ‬
‫ہو جائے تو ہللا تعالٰی ان کے ذمے میں وہ گناہ باقی نہیں رہنے دیتے یعنی دنیا میں اس گناہ‬
‫سے معافی اور اس گناہ کی وجہ سے ملنے والے ُاخروی عذاب سے ان کو محفوظ فرما‬
‫لیتے ہیں۔ ہللا تعالٰی کے معاف فرما دینے کے بعد صحابہ کرام رضی ہللا عنہم پر الزام‬
‫درست نہیں۔‬
‫دوسری وجہ یہ ہے کہ جو صحابہ کرام رضی ہللا عنہم جنگ کی ابتداء سے مورچے‬
‫پرمامور تھے‪ ،‬انہیں میدان میں اتر کر لڑائی کا موقع ہی نہ مال‪ ،‬اگرچہ مورچہ سنبھالنے کا‬
‫اور پہرے کا ثواب مال ہے لیکن انہوں نے یہ سمجھا کہ ہمیں میدان میں اتر کر بہادری کے‬
‫ساتھ لڑنے اور کفار کو بھگانے والی شجاعت کا ثواب نہیں مل رہا۔ اب جب انہیں دشمن‬
‫کے بھاگ جانے کا اور لشکر اسالم کے فتح یاب ہونے کا یقین ہو ا تو وہ نیچے اتر آئے‬
‫تاکہ دونوں اجر حاصل کر سکیں۔ مورچہ پر پہرے دینے واال بھی اور میدان میں جہاد و‬
‫قتال کرنے واال بھی۔جب کفار میدان چھوڑ کر بھاگنے لگے تو صحابہ کرام رضی ہللا عنہم‬
‫اس مبارک جذبے کے تحت درے سے نیچے اترے اور اپنے بھائیوں کے ساتھ مال غنیمت‬
‫جمع کرنا شروع کر دیا‪ ،‬اس بابرکت کام میں ان کی مدد کرنے لگے۔اس وجہ سے بھی‬
‫صحابہ کرام رضی ہللا عنہم پر تنقید درست نہیں۔‬
‫صحابہ کرام سے ہللا کی بے پناہ محبت‬
‫یہ حضرات ُقرِب خدا اور ُقرِب پیغمبر صلی ہللا علیہ وسلم کے اس مقام پر فائز تھے کہ‬
‫جہاں ان کی صورتًا لغزش پر بھی محبوبانہ عتاب نازل ہوا۔ لیکن جہاں یہ محبوبانہ عتاب‬
‫نازل ہوا اسی کے متصل بعد ہللا تعالٰی نے ان کی معافی کا اعالن بھی کر دیا اور محبت کی‬
‫شدت اور انتہاء کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ تسلی پر اکتفا نہ فرمایا بلکہ فورًا ساتھ دوسری‬
‫مرتبہ بھی ازراہ شفقت مزید فرمایا کہ بخش دیا ہے۔ اور یہ وہاں ہوتا ہے جہاں محبت بہت‬
‫زیادہ ہو تاکہ کمال محبت کا اظہار ہو جائے۔‬
‫فائدہ‪:‬یہ واقعہ تکوینی طور پر صحابہ کرام رضی ہللا عنہم سے کرایا گیا تاکہ خدا تعالٰی کی‬
‫ان سے محبت سب کے سامنے آشکار ہو سکے‪،‬ان سے محبت خداوندی کا اظہار ان کے‬
‫لیے اعزاز ہے‪ ،‬ان پر الزام نہیں۔‬

‫جنگ ہاتھ سے نکل گئی‬


‫خالد بن ولید جو کہ ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے انہوں نے شدید حملہ کر دیا جس کے بعد‬
‫مسلمانوں کا بہت نقصان ہوا۔ صرف دس افراد درہ پر باقی بچے تھے اور گیارہویں‬
‫حضرت عبدہللا بن جبیر رضی ہللا عنہ تھے سب شہید ہو گئے۔ اب جیتی ہوئی جنگ بظاہر‬
‫ہاتھ سے نکل گئی۔اس افراتفری کی شدید کیفیت میں نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کی‬
‫حفاظت کے لیے چند مہاجرین و انصار صحابہ کرام رضی ہللا عنہم موجود تھے۔‬
‫حضرت حمزہ کی شہادت‬
‫نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی ہللا عنہ بن عبدالمطلب بھی اس‬
‫جنگ میں شریک تھے‪،‬آپ کو نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے َاَس ُد ِہللا َو َاَس ُد َر ُسْو ِلہ(یعنی‬
‫ہللا اور اس کے رسول کا شیر)قرار دیا تھا۔غزوہ بدر میں جبیر بن مطعم کے چچا ُطَع ْیمہ بن‬
‫عدی کو حضرت حمزہ رضی ہللا عنہ نے قتل کیا تھا جبیر کو اس کا بہت صدمہ تھا۔ انتقام‬
‫کے طور پر جبیر نے اپنے غالم وحشی بن حرب سے کہا‪ :‬اگر تو میرے چچا کے قاتل‬
‫حمزہ (رضی ہللا عنہ)کو قتل کرے تو تو آزاد ہے چنانچہ جب کفارقریش غزوہ احد کے‬
‫لیے مکہ سے روانہ ہوئے تو وحشی بھی ان کے ہمراہ چل پڑے۔ حضرت حمزہ رضی ہللا‬
‫عنہ جنگ ُاحد میں بڑی جوانمردی سے لڑ رہے تھے‪ ،‬جب جنگ ُاحد شروع ہوئی تو کفار‬
‫کی طرف سے سباع بن عبدالعزٰی میدان میں للکارتا ہوا آیا تو اس کے مقابلہ کے لیے‬
‫حضرت حمزہ رضی ہللا عنہ یہ کہتے ہوئے اترے۔ اے سباع!اے عورتوں کے ختنے‬
‫کرنے والی عورت کے بیٹے! تو ہللا اور اس کے رسول سے مقابلہ کرے گا پھر اس پر‬
‫تلوار سے وار کیا اور ایک ہی وار سے اسے واصل جہنم کردیا۔ وحشی حضرت حمزہ‬
‫رضی ہللا عنہ کی تاک میں ایک پتھر کے پیچھے چھپا ہوا تھا جب حضرت حمزہ رضی ہللا‬
‫عنہ اس کے قریب سے گزرے تو اس نے پیچھے کی طرف سے حملہ کردیا اور نیزہ مارا‬
‫جو کہ ناف کی طرف سے پار ہو گیا حضرت حمزہ رضی ہللا عنہ اس حملے کی شدت کی‬
‫وجہ سے تھوڑی ہی دیر بعد شہید ہوگئے۔‬
‫آپ ﷺ کا دندان مبارک شہید‬
‫ُع تبہ بن ابی وقاص جو کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی ہللا عنہ کے بھائی تھے۔ انہوں‬
‫نے اس افرا تفری کی حالت میں نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم پر حملہ کردیا اور پتھر‬
‫پھینکا جس سے آپ صلی ہللا علیہ وسلم کے دندان مبارک شہید اور نچال ہونٹ مبارک ہو‬
‫زخمی ہو گیا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں کہ جتنا حریص اپنے‬
‫بھائی کے قتل کا ہوں اتنا کسی کے قتل کا نہیں۔‬
‫آپ ﷺ کے رخسار اور سر مبارک زخمی‪:‬‬
‫عبدہللا بن َقِم َء ہ نے بھی رحمِت عالم صلی ہللا علیہ وسلم پر حملہ کیا یہ قریش کا مشہور‬
‫پہلوان تھا اس نے اتنی شدت سے حملہ کیا کہ آپ صلی ہللا علیہ وسلم کے ُرخسار مبارک‬
‫زخمی ہوگئے اور َخ ود(لوہے کی بنی ہوئی جنگی ٹوپی) کے دو حلقے آپ صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم کے مبارک چہرے میں گھس گئے۔عبد ہللا بن شہاب (جو بعد میں مسلمان ہو گئے) نے‬
‫پتھر مارا جس سے پیشانی مبارک زخمی ہوئی آپ صلی ہللا علیہ وسلم کے زخموں سے‬
‫خون بہنے لگا جس کو حضرت مالک بن سنان رضی ہللا عنہ(جو حضرت ابو سعید خدری‬
‫رضی ہللا عنہ کے والد ہیں) نے چوس کر نگل لیا۔ نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے‬
‫فرمایا‪:‬جس کے خون میں میرا خون بھی شامل ہو جائے اس پر جہنم کی آگ اثر نہیں کرے‬
‫گی۔‬
‫تیر چالؤ!میرے ماں باپ قربان‬
‫حضرت سعد بن ابی وقاص رضی ہللا عنہ بڑے ماہر تیر انداز تھے۔ ُاُحد کے دن نبی کریم‬
‫صلی ہللا علیہ وسلم نے اپنے ترکش سے تیر نکال کر ان کو دیے اور فرمایا‪ :‬تیر چالؤ‬
‫میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔اس دن حضرت سعد رضی ہللا عنہ نے ایک ہزار تیر‬
‫چالئے۔‬
‫ابی بن خلف کا قتل‬
‫دشمِن اسالم ابی بن خلف جس نے ایک گھوڑا اس نیت سے پاال تھا کہ اس پر سوار ہو کر‬
‫محمد صلی ہللا علیہ وسلم کو قتل کروں گا (نعوذ باہلل) نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کو اس‬
‫بات کی خبر پہنچی تو آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا اس کو میں ہی قتل کروں گا ان‬
‫شاء ہللا تعالٰی ۔ احد والے دن جنگ کے دوران آمناسامنا ہوا تو نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم‬
‫نے اپنے پاس کھڑے ایک صحابی سے نیزہ لیا اور اس کی گردن پر دے مارا جس سے وہ‬
‫چیختا چالتا وہاں سے دوڑا اور وہ دوڑتے ہوئے یہ کہہ رہا تھا کہ ہللا کی قسم محمد صلی‬
‫ہللا علیہ وسلم نے مجھے قتل کر ڈاال ہے۔ اس کے ساتھیوں نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا‬
‫کہ اتنا معمولی سا زخم ہے اس پر اتنا چیخ رہا ہے‪ ،‬یہ کوئی اتنا بڑا اور گہرا زخم بھی‬
‫نہیں۔ تو وہ کہنے لگا کہ کیا تم جانتے نہیں کہ محمد صلی ہللا علیہ وسلم نے مکہ میں کہا‬
‫تھا کہ میں تجھے قتل کروں گا اور ہللا کی قسم اگر یہ تکلیف تمام عرب میں تقسیم کر دی‬
‫جائے تو سب لوگ مر جائیں گے مقام َس ِر ف میں اسی تکلیف سے مر گیا۔‬
‫نوٹ‪:‬دنیا کے دو انسان سب سے زیادہ بد بخت اور بد نصیب ہیں ایک وہ جوکسی نبی کو‬
‫شہید کرے‪،‬دوسرا وہ جسے نبی اپنے ہاتھوں سے قتل کرے۔اس غزوہ میں ابتدًا مسلمان فاتح‬
‫ہوگئے اور پھر درمیان میں کچھ نقصان ہوا‪ ،‬اس کے بعد ہللا تعالی نے فضل فرمایا اور‬
‫مسلمان سنبھل گئے مزید نقصان نہ ہوا۔ہللا تعالٰی ہمیں صحابہ کرام رضی ہللا عنہم سے‬
‫عقیدت‪ ،‬محبت اور ان کی اطاعت نصیب فرمائے۔آمین بجاہ النبی الصادق االمین صلی ہللا‬
‫علیہ وسلم‬
‫غزوہ ُاحد ‪,‬پس منظر ‪,‬واقعات‪ ,‬نتائج‬
‫بعدالحمد والصلوۃ‬
‫برادران اسالم‬
‫ارشاِد باری تعالٰی ہے‪:‬‬
‫َو ِاْذ َغ َدْو َت ِم ْن َاْھِلَک ُتَبِّو ُی اْلُم ْؤ ِمِنیَن َم َقاِع َد ِلْلِقَتاِل َو ُہّٰللا َسِم یٌع َعلیٌم ۔ ( سورۃ آل عمران۔‪) 121‬‬
‫ترجمہ‪ :‬اور یاد کرو (اے محبوب صلی ہللا علیہ وآلٖہ وسلم) جب صبح سویرے اپنے در‬
‫دولت سے روانہ ہو کر مسلمانوں کو (غزوہ ُاحد کے موقع پر اہِل مکہ کی جارح فوجوں‬
‫کے خالف دفاعی) جنگ کے لئے مورچوں پر ٹھہرارہے تھے اور ہللا خوب سننے واال‬
‫جاننے واال ہے۔‬
‫مندرجہ باال آیت کریمہ میں غزوہ ُاحد کی طرف اشارہ ہے جو عالِم اسالم اور تاریِخ اسالم‬
‫کی دوسری بڑی جنگ تھی۔ یہ جنگ بغیر کسی نتیجہ کے اختتام پذیر ہوئی اور مسلمانوں‬
‫کو کافی حد تک مشکالت کا سامنا کرنا پڑا۔‬
‫غزوہ ُاحد کا معرکہ ‪ 17‬شوال ‪ 3‬ہجری میں ُاحد کے پہاڑ کے عقب میں واقع میدان میں‬
‫وقوع پذیر ہوا۔‬
‫پس منظر‬
‫غزوہ بدر میں شکست کھانے کا کفار کو بڑا رنج و مالل تھا۔ معرکہ بدر میں کفاِر مکہ کو‬
‫شکست و ہزیمت اور اشراف کے قتل کا جو صدمہ برداشت کرنا پڑا اس کے سبب وہ‬
‫مسلمانوں کے خالف غیظ و غضب سے کھول رہے تھے۔ بدر کی شکست کے بعد انہوں‬
‫نے متفقہ فیصلہ کیا کہ مسلمانوں سے ایک بھر پور جنگ لڑ کر اپنا کلیجہ ٹھنڈ ا کریں اور‬
‫اپنے جذبہ غیظ و غضب کو تسکین دیں اور اس کے ساتھ ہی معرکہ آرائی کی تیاریاں بھی‬
‫شروع کر دیں۔ اس معاملے میں سرداراِن قریش میں سے عکرمہ بن ابوجہل‪ ،‬صفوان بن‬
‫ُامیہ‪ ،‬ابو سفیان بن حرب اور عبدہللا بن ابی ربیعہ زیادہ پر جوش اور پیش پیش تھے۔‬
‫اہِل مکہ کی تیاریاں‬
‫اہِل مکہ نے سب سے پہلے یہ کام کیا کہ ابوسفیان کا وہ قافلہ جو جنِگ بدر کا باعث بنا تھا‬
‫اور جسے ابو سفیان بچا کر نکال لے جانے میں کامیاب ہو گیا تھا‘ اس کا سارا مال جنگی‬
‫اخراجات کے لئے روک لیا اور جن لوگوں کا مال تھا ان سے کہا‪:‬‬
‫’’ اے قریش والو! تمہیں محمدصلی ہللا علیہ وآلٖہ وسلم نے سخت دھچکا لگایا ہے اور‬
‫تمہارے منتخب سرداروں کو قتل کر ڈاال ہے لٰہ ذا ان سے جنگ کرنے کے لئے اپنے مال‬
‫کے ذریعے مدد کرو‪ ،‬ممکن ہے کہ ہم بدلہ چکا لیں۔‘‘‬
‫قریش کے لوگوں نے اسے منظور کر لیا۔ چنانچہ یہ سارا مال‪ ،‬جس کی مقدار ایک‬
‫ہزاراونٹ اور پچاس ہزار دینار تھی‪ ،‬جنگ کی تیاری کیلئے بیچ ڈاال ۔پھر انہوں نے‬
‫رضاکارانہ جنگی خدمت کا دروازہ کھول دیا۔ اس کے عالوہ اہِل مکہ نے اشعار کے‬
‫ذریعے لوگوں کی غیرت و حمیت کو جگایا۔ ایک مشہور شاعر ابو عزہ جو جنگ بدر میں‬
‫قید ہوا تھا اور جس کو رسوِل کریم صلی ہللا علیہ وآلٖہ وسلم نے یہ عہد لے کر کہ وہ آپ‬
‫صلی ہللا علیہ وآلٖہ وسلم کے خالف کبھی نہ ُاٹھے گابال فدیہ چھوڑ دیا تھا‪ ،‬اس کو صفوان‬
‫بن ُامیہ نے ابھارا کہ وہ قبائل کو مسلمانوں کے خالف بھڑکانے کا کام کرے۔ چنانچہ ابو‬
‫عزہ نے حضور علیہ الصلٰو ۃ والسالم سے کیے ہوئے عہد و پیمان کو بھال دیا اور ایک بار‬
‫پھر سے اہِل مکہ کے جذبات کو ابھارنا شروع کردیا۔‬
‫خواتین کی تیاریاں‬
‫خواتین کی جانب سے ابو سفیان کی بیوی ہندہ نے اپنے گھر پر محفلیں شروع کر دیں جن‬
‫میں خواتین کو اشعار کے ذریعے جنگ کے لیے ابھارا جاتا جس کے نتیجے میں خواتین‬
‫نے اپنے زیورات بھی جنگ کی تیاری کے لئے خیرات کر دئیے۔‬
‫قریش کا لشکر اور ساماِن جنگ‬
‫قریش کی تیاری کو مکمل ہوتے ہوتے ایک سال پورا ہوگیا۔تمام مشرکیِن مکہ کو مال کر کل‬
‫تین ہزارکی فوج تیار ہوئی۔ قائدیِن قریش اس رائے پر متفق ہوئے کہ اپنے ساتھ عورتیں‬
‫بھی لے چلیں تاکہ حرمت و ناموس کی حفاظت کا کچھ احساس ہو۔ لٰہ ذا پندرہ خواتین بھی‬
‫قریش کے قافلے میں شامل ہوگئیں جن میں ابو سفیان کی بیوی ہندہ بھی شامل تھی۔ مشرکین‬
‫کے دستے کی کمان ابو سفیان کر رہا تھا ۔‬
‫مدینے میں اطالع اور ہنگامی صورتحال‬
‫حضور علیہ الصلٰو ۃ والسالم کے چچا حضرت عباس رضی ہللا عنٗہ قریش کی اس ساری‬
‫نقل و حرکت کا بغور جائزہ لے رہے تھے۔ آؓپ نے تمام تفصیالت ایک قاصد کے ذریعے‬
‫خط کی صورت حضور علیہ الصلٰو ۃ والسالم کی بارگاہ میں بھیجی۔ یہ خط حضرت ابی‬
‫کعؓب نے نبی اکرم صلی ہللا علیہ وآلٖہ وسلم کو پڑھ کر سنایا۔ آپ صلی ہللا علیہ وآلٖہ وسلم‬
‫نے انہیں رازداری برتنے کی تاکید کی ۔ اس کے بعد مدینہ منورہ میں ہنگامی صورتحال‬
‫نافذ کر دی گئی ۔لوگ کسی بھی ناگہانی صورتحال سے نمٹنے کے لئے ہمہ وقت ہتھیار بند‬
‫رہنے لگے یہاں تک کہ دوراِن نماز بھی ہتھیار جدا نہیں کیے جاتے تھے۔ حضرت سعد بن‬
‫معاذ ‪ ،‬حضرت اسید بن حضیؓر اور سعد بن عبادؓہ پر مشتمل یہ مختصر سا دستہ رسول ہللا‬
‫صلی ہللا علیہ وآلٖہ وسلم کی نگرانی پر تعینات ہو گیا۔ یہ صحابہ کراؓم ہتھیار پہن کر ساری‬
‫ساری رات حضور علیہ الصلٰو ۃ والسالم کے دروازے پر گزار دیتے تھے۔‬
‫صحابہ کرام کی یہ سنت امت مسلمہ کے لئے ایک سبق ہے‬
‫مدینے کی دفاعی حکمِت عملی کے لئے‬
‫مجلِس شورٰی کا اجالس‬
‫اس ہنگامی صورتحال کے پیِش نظر حضور نبی اکرم صلی ہللا علیہ وآلٖہ وسلم نے مجلِس‬
‫شورٰی کا اجالس منعقد فرمایا اور ممبراِن شورٰی کو ایک خواب سنایا۔آپ صلی ہللا علیہ‬
‫وآلٖہ وسلم نے بتایا کہ میں نے ایک بھلی چیز دیکھی میں نے دیکھا کہ کچھ گائیں ذبح کی‬
‫جارہی ہیں اور میں نے دیکھا کہ میری تلوار کے سرے پر کچھ شکستگی ہے اور یہ بھی‬
‫دیکھا کہ میں نے اپناہاتھ ایک محفوظ زرہ میں داخل کیا ہے پھر آپ صلی ہللا علیہ وآلٖہ‬
‫وسلم نے گائے کہ یہ تعبیر بتالئی کہ آپ صلی ہللا علیہ وآلٖہ وسلم کے گھر کا کوئی آدمی‬
‫شہید ہوگا اور محفوظ زرہ سے مراد شہر مدینہ ہے ۔‬
‫صحابہ کراؓم سے مشاورت اور‬
‫عبدہللا بن ابی‬
‫حضور علیہ الصلٰو ۃ والسالم نے جنگی حکمت عملی وضع کرنے کے لئے صحابہ کراؓم‬
‫سے مشاورت کی۔ اس مشاورتی اجالس میں انصار اور مہاجر دونوں شامل تھے۔ آپ صلی‬
‫ہللا علیہ وآلٖہ وسلم نے عبدہللا بن ابّی رئیس المنافقین کو بھی مدعو کیا۔ عبدہللا بن ابّی کو‬
‫پہلی مرتبہ کسی مشاورت میں شامل کیا گیا تھا ۔اس کا تعلق قبیلہ خزرج سے تھا۔ کچھ‬
‫صحابہ کراؓم نے شہر کے اندر رہ کر ہی لڑائی کرنے کا مشورہ دیا کیونکہ اس حکمِت‬
‫عملی کے تحت اگر مشرکیِن مکہ اپنے کیمپ میں مقیم رہتے ہیں تو بے مقصد اور برا قیام‬
‫ہوگا اور اگر مدینے میں داخل ہوتے ہیں تو مسلمان گلی کوچے کے ناکوں پر ان سے جنگ‬
‫کریں گے یہی صحیح رائے تھی اور رئیس المنافقین عبد ہللا بن ابی نے بھی اس رائے سے‬
‫اتفاق کیا لیکن اس کے اتفاق کی وجہ یہ نہ تھی کہ جنگی نقطہ نظر سے یہی درست موقف‬
‫تھا بلکہ اس کا مقصد یہ تھا کہ وہ جنگ سے دور بھی رہے اور اس کے اس قبیح فعل کا‬
‫کسی کو احساس بھی نہ ہو مگرہللا پاک کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ہللا پاک اس کی منافقت‬
‫اور دوغلے پن سے پردہ ُاٹھانا چاہتا تھا تاکہ مسلمانوں کو اپنے مشکل ترین وقت میں منافق‬
‫اور کافر کی پہچان ہو جائے۔ کچھ صحابؓہ نے ‘جوبدر میں شرکت سے رہ گئے تھے‘ بڑھ‬
‫کر نبی اکرم صلی ہللا علیہ وآلٖہ وسلم کو مشورہ دیا کہ کھلے میدان میں چل کر مقابلہ کیا‬
‫جائے انہوں نے اپنی رائے پر سخت اصرار کیا۔ ان گرم جوش حضرات میں خود رسول‬
‫کریم صلی ہللا علیہ وآلٖہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ بن عبدالمطلؓب سِر فہرست تھے۔ آؓپ‬
‫معرکہ بدر میں اپنی تلوار کا جوہر دکھا چکے تھے پھر آپ صلی ہللا علیہ وآلٖہ وسلم اپنے‬
‫حجرۂ مبارک میں تشریف لے گئے اور زرہ بکتر زیب تن کی اور تلوار تھام کر باہر‬
‫تشریف الئے۔ جو سچے طالباِن مولٰی ہوتے ہیں وہ اپنے مرشد کا ایک ایک اشارہ سمجھ کر‬
‫اس کی رضا کے مطابق ہی عمل کرتے ہیں سو صحابہ کراؓم نبی اکرم صلی ہللا علیہ وآلٖہ‬
‫وسلم۔‬
‫اسالمی لشکر کی ترتیب‬
‫نبی اکرم صلی ہللا علیہ وآلٖہ وسلم نے لشکِر اسالم کو تین حصوں میں تقسیم فرمایا‪:‬‬
‫‪ 1‬۔مہاجرین کا دستہ۔‬
‫اس کا پرچم حضرت مصعب بن عمیؓر کو عطا کیا۔‬
‫‪ 2‬۔ قبیلہ اوس (انصار) کا دستہ۔‬
‫اس کا علم حضرت ُاسید بن حضیؓر کو عطا فرمایا۔‬
‫‪ 3‬۔ قبیلہ خزرج(انصار) کا دستہ۔‬
‫اس کا َع َلم حباب بن ُم نِذ ؓر کو عطا فرمایا۔‬
‫اسالمی لشکر ایک ہزار(‪ ) 1000‬مرداِن جنگی پر مشتمل تھا جن میں ایک سو زرہ پوش‬
‫اور پچاس شہسوار تھے۔ حضرت ُاِّم مکتوؓم کو اس کام پر مقرر فرمایا گیا کہ وہ مدینے کے‬
‫اندر رہ جانے والے لوگوں کو نماز پڑھائیں گے۔‬
‫ُاحد اور مدینے کے درمیان شب گزاری‬
‫ُاحد اور مدینہ کے درمیان’’ شیخان‘‘ نامی ایک مقام پر حضور نبی اکرم صلی ہللا علیہ‬
‫وآلٖہ وسلم نے رات گزارنے کا حکم فرمایا ۔پہرے کے لئے پچاس صحابہ کراؓم کو منتخب‬
‫کیا گیا جو کیمپ کے اردگرد گشت کرتے رہتے تھے۔ ان کے قائد محمد بن مسلمہ انصارؓی‬
‫تھے۔‬
‫عبدہللا بن ُابی اوراس کے ساتھیوں کی سرکشی‬
‫طلوع فجر سے کچھ پہلے قافلہ چل پڑا اور پھر مقام ’’اشواط‘‘ پہنچ کر نماِز فجر ادا کی‬
‫گئی۔ آپ صلی ہللا علیہ وآلٖہ وسلم دشمن کے بالکل قریب تھے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں عبدہللا‬
‫بن ُابی رئیس المنافقین نے بغاوت کر دی اور ایک تہائی لشکر یعنی تین سو افراد کو لے کہ‬
‫یہ کہتا ہوا واپس چال گیا کہ اس کی بات نہیں مانی گئی اور دوسروں کی بات مان لی۔‬
‫یقینًااس کی علیحدگی کا سبب وہ نہیں تھا جو اس منافق نے کہا کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ‬
‫وآلٖہ وسلم نے اس کی بات نہیں مانی۔ اگر یہ وجہ ہوتی تو وہ مدینہ منورہ سے مقام اشواط‬
‫تک کبھی نہ آتا بلکہ وہیں سے الگ ہو جاتا بلکہ حقیقت یہ تھی کہ وہ اس نازک موڑ پر‬
‫الگ ہو کر اسالمی لشکر میں ایسے وقت اضطراب اور کھلبلی مچانا چاہتا تھا جب دشمن‬
‫اس کی ایک ایک نقل و حرکت دیکھ رہا تھا تاکہ اسالمی لشکر کے حوصلے ٹوٹ جائیں‬
‫اور دوسری طرف یہ منظر دیکھ کرکفار کی ہمت بندھ جائے لٰہ ذا یہ کاروائی نبی کریم‬
‫صلی ہللا علیہ وآلٖہ وسلم اور ان کے مخلص ساتھیوں کے خاتمے کی ایک تدبیر تھی جو‬
‫اس منافق نے اپنائی اور اس کے کفرو نفاق سے ہللا پاک نے پردہ ُاٹھا دیا۔‬
‫غزوہ احد میں منافق کی اس حرکت کے بارے میں ہللا تعالٰی نے قرآن میں ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫ترجمہ‪ :‬اور ایسے لوگوں کی بھی پہچان کرا دے جو منافق ہیں اور جب ان سے لکہا گیا کہ‬
‫آؤ ہللا کی راہ میں جنگ کرو یا (وضاحتًا کہا گیا کہ دشمن کے حملے کا ) دفاع کرو تو‬
‫کہنے لگے اگر ہم جانتے کہ (واقعتا) لڑائی ہوگی (یا ہم اسے ہللا کی راہ میں جنگ جانتے)‬
‫تو ضرور تمہاری پیروی کرتے‪ ،‬اس دن وہ (ظاہری) ایمان کی نسبت کھلے کفر سے زیادہ‬
‫قریب تھے‪ ،‬وہ اپنے منہ سے وہ باتیں کہتے ہیں جوان کے دلوں میں نہیں ہیں اور ہللا (ان‬
‫باتوں) کو خوب جانتا ہے جو وہ چھپا رہے ہیں۔ (سورہ آِل عمران۔‪) 167‬‬
‫اس کے بعد اسالمی لشکر کی تعداد ‪ 700‬رہ گئی۔‬
‫اس منافق کی یہ حرکت دیکھ کر مزید دو جماعتوں یعنی قبیلہ اوس میں سے بنو حارثہ اور‬
‫قبیلہ خزرج میں سے بنو سلمہ کے قدم بھی لڑکھڑا چکے تھے اور وہ واپسی کی سوچ‬
‫رہے تھے لیکن ہللا پاک نے ان کی دستگیری کی اور یہ دونوں جماعتیں اضطراب اور‬
‫ارادہ واپسی سے باز رہیں۔ انہیں کے متعلق ہللا تعالٰی نے سورہ آِل عمران‪ ،‬آیت ‪ 122‬میں‬
‫ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫ترجمہ‪ :‬اور جب تم میں سے دو جماعتوں نے فیصلہ کیا کہ بزدلی اختیار کریں اور ہللا ان‬
‫کا ولی ہے اور مومنوں کو ہللا ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔‬
‫دفاعی منصوبہ‬
‫ُاحد کے مقام پر پہنچ کر آپ صلی ہللا علیہ وآلٖہ وسلم نے لشکر کی ترتیب و تنظیم فرمائی‬
‫اور جنگی نقطۂ نظر سے اسے کئی صفوں میں تقسیم فرمایا۔ آپ صلی ہللا علیہ وآلٖہ وسلم‬
‫نے صف بندی اس بہترین انداز میں فرمائی کہ جبِل احد لشکر کی پشت پرتھا اور دشمن‬
‫سامنے۔ تاہم پیچھے کی طرف ایک گھاٹی ایسی تھی جہاں سے دشمن اچانک حملہ آور ہو‬
‫سکتا تھا۔‬
‫ماہر تیر اندازوں کا دستہ‬
‫نبی اکرم صلی ہللا علیہ وآلٖہ وسلم نے اپنی بہترین جنگی حکمِت عملی کے تحت ماہر تیر‬
‫اندازوں کا ایک دستہ منتخب کیا جو پچاس صحابہ کراؓم پر مشتمل تھا۔ اس دستے کی کمان‬
‫حضرت عبد ہللا بن جبیؓر (انصاری) کے سپرد کی اور وادی قناۃ کے جنوبی کنارے پر واقع‬
‫اس گھاٹی پر تعینات کیا جس کے ذریعے کفار مسلمانوں پر حملہ آور ہو سکتے تھے جب‬
‫صحابہ کرام کا مستعد دستہ اس پہاڑی پر اپنے فرائض کی غرض سے تعینات ہوگیا تو‬
‫رسول ہللا صلی ہللا علیہ وآلٖہ وسلم نے تیر اندازوں کو ہدایات دیتے ہوئے ارشاد فرمایا‬
‫’’شہسواروں کو تیر مار کرہم سے دور رکھو۔ہم جیتیں یا ہاریں تم اپنی جگہ پر ڈٹے رہنا۔‘‘‬
‫پھر آپ صلی ہللا علیہ وآلٖہ وسلم نے تیر اندازوں کو مخاطب کر کے فرمایا ’’ہماری پشت‬
‫کی حفاظت کرنا ۔ اگر دیکھو کہ ہم مارے جا رہے ہیں تو ہماری مدد کو نہ آنا اور اگر‬
‫دیکھو کہ ہم مال غنیمت سمیٹ رہے ہیں تو ہمارے شریک نہ بننا‘‘ ان سخت احکامات کے‬
‫ساتھ آپ صلی ہللا علیہ وآلٖہ وسلم نے اپنے خطاب کا اختتام فرمایا۔ اس جنگی منصوبہ سے‬
‫حضور اکرم صلی ہللا علیہ وآلٖہ وسلم کی فوجی قیادت کی صالحیت کا بخوبی اندازہ ہوتا‬
‫ہے۔ حضرت ُز بیر بن عواؓم کو یہ مہم سونپی گئی کہ وہ خالد بن ولید(جو ابھی مسلمان نہیں‬
‫ہوئے تھے) کے شہسواروں کی راہ روکیں گے۔‬
‫جنگ کا آغاز‬
‫دونوں جماعتیں آمنے سامنے آگئیں سب سے پہلے کفار کی جانب سے علمبردار طلحہ بن‬
‫ابی طلحہ عبدری میدان میں اترا اور اسالمی صف سے حضرت زبیؓر آگے بڑھے اور ایک‬
‫ہی جست میں اس مشرک کا کام تمام کر کے اسے واصِل جہنم کر دیا۔ اس کے بعد گھمسان‬
‫کی جنگ شروع ہوگئی ۔ کفار کا علم طلحہ بن ابی طلحہ کی ہالکت کے بعد اس کے بھائی‬
‫عثمان بن ابی طلحہ نے تھام لیا اس شخص پر حضرت حمزہ بن عبدالمطلب نے حملہ‬
‫کیااورتلوارکے ایک ہی وار سے اس کے بازو کو تن سے جدا کر دیا۔پھر میدان میں قتل‬
‫وخونریزی شروع ہوگئی۔ اسالمی صفوں میں عشِق رسول کی شمع روشن تھی اس لئے وہ‬
‫اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر کافروں کو جہنم رسید کر رہے تھے۔جبل رماۃ پر جن تیر‬
‫اندازوں کو رسول ہللا صلی ہللا علیہ وآلٖہ وسلم نے متعین فرمایا تھا انہوں نے بھی جنگ کی‬
‫رفتار مسلمانوں کے موافق چالنے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے خالد بن ولید کے‬
‫شہسوار وں کو روکے رکھا۔کچھ دیر جنگ اسی طرح جاری رہی اور مسلم لشکر مشرکین‬
‫کی بھاری فوج پر حاوی رہا اور مشرکین کے حوصلے ٹوٹ گئے۔ مسلمانوں کے سات سو‬
‫کے لشکر نے کفار کے تین ہزار کے دستہ کو تھکا کر رکھ دیا اور صواب (مشرکین کا‬
‫علمبردار) کے قتل کے بعد کفار ہمت ہار گئے اور پسپا ہو کر راہ فرار اختیار کرنا شروع‬
‫کر دی۔ اسالمی تاریخ کے اوراق میں ایک اور شاندار فتح کے الفاظ ثبت ہونے والے تھے۔‬
‫تیر اندازوں کی غلطی‬
‫جیسے ہی کفار میدان چھوڑ کر بھاگنے لگے تو مسلمانوں نے مال غنیمت اکٹھا کرنا شروع‬
‫کر دیا گویا یہ اشارہ تھا کہ ہم فتح یاب ہوگئے ہیں۔ گھاٹی پر تعینات تیر اندازوں نے جب یہ‬
‫دیکھا کہ مسلم لشکر ماِل غنیمت اکٹھا کرنے میں مصروف ہوگئے ہیں تو وہ تیرانداز بھی‬
‫پہاڑی سے نیچے اتر آئے اور حضور علیہ الصلٰو ۃ والسالم کے اس فرمان ’’ جب تک میں‬
‫نہ کہوں نیچے نہ اترنا چاہے ہم ہار جائیں یا جیت کر مال غنیمت سمیٹنے لگیں ‘‘کو پِس‬
‫پشت ڈال کر مال اکٹھا کرنے لگے۔ پہاڑی پر صرف حضرت عبد ہللا بن جبیؓر کے عالوہ نو‬
‫صحابہ رہ گئے جو ڈٹے رہے۔‬
‫اسالمی لشکر پر اچانک حملہ‬
‫خالد بن ولید نے جب مسلمانوں کو پہاڑی سے اترتے دیکھا تو اس سنہرے موقع کو ضائع‬
‫نہ کیا اور اسالمی لشکر کی پشت پر جاپہنچے۔ پہاڑی پر موجود صحابہ کو شہید کرتے‬
‫ہوئے میدان میں اتر آئے مشرکین نے جب خالد بن ولید کو دیکھا تو وہ بھی مسلمانوں کے‬
‫گرد اکٹھا ہونا شروع ہوگئے اب مسلم فوج ہر طرف سے ِگ ھر چکی تھی۔مشرکیِن مکہ کی‬
‫نظر جب حضور علیہ الصلٰو ۃ والسالم پر پڑی تو آپ صلی ہللا علیہ وآلٖہ وسلم کے طرف‬
‫لپکے ۔اس وقت آپ صلی ہللا علیہ وآلٖہ وسلم کے ساتھ نو صحابہ کراؓم تھے۔ مسلمانوں کی‬
‫صفوں میں انتشار پھیل گیا مسلمانوں کو شدید مشکالت کا سامنا کرنا پڑا اور ایک جیتی‬
‫ہوئی جنگ وقتی شکست میں تبدیل ہوگئی۔ آپ صلی ہللا علیہ وآلٖہ وسلم نے جب مشرکین‬
‫کے ہاتھوں مسلمانوں کو شہید کرتے دیکھا تو بلند آواز میں فرمایا ’’لوگو! ادھر آؤ‘‘ یعنی‬
‫کفار کو اپنی جانب بالنا چاہا کیونکہ آپ صلی ہللا علیہ وآلٖہ وسلم نے بطور مرشد اپنے‬
‫صحابہ کی جان بچانے کی خاطر اپنی مبارک جان کو مشرکین کے حوالے کرنے سے بھی‬
‫دریغ نہ کیا۔ حتٰی کہ اہِل مدینہ میں یہ بات بھی پھیل گئی کہ حضور اکرم صلی ہللا علیہ وآلٖہ‬
‫وسلم شہید ہوگئے ہیں ۔(نعوذ باہلل)‬
‫درحقیقت حضرت مصعب بن عمیؓر حضور علیہ الصلٰو ۃ والسالم کی حفاظت کرتے ہوئے‬
‫شہید ہو گئے تھے۔‬
‫حضرت مصعب بن عمیؓر کی شکل و صورت آنحضرت صلی ہللا علیہ وآلٖہ وسلم سے بہت‬
‫مشابہ تھی اس لیے کفار یکایک پکارنے لگے کہ محمؐد (نعوذ باہلل) قتل کر دیئے گئے ہیں۔‬
‫نبی پاک صلی ہللا علیہ وآلٖہ وسلم کی شہادت کی خبر سنتے ہی صحابہ کراؓم کے حوصلے‬
‫پست ہو گئے اور بعض تو میداِن جنگ سے ہی روانہ ہو گئے لیکن بعض صحابہ کراؓم مزید‬
‫جرأت و شجاعت سے لڑے کہ جس عظیم مقصد کے لیے نبی اکرم صلی ہللا علیہ وآلٖہ وسلم‬
‫شہید ہو گئے ہمیں بھی اس مقصد کے لیے اپنی جان قربان کر دینی چاہیے۔ حضور اکرم‬
‫صلی ہللا علیہ وآلٖہ وسلم کے جانثاروں کی جرأت و شجاعت کے باوجود اب شکست یقینی‬
‫نظر آرہی تھی کہ اتنے میں حضرت کعب بن مالؓک نے آپ صلی ہللا علیہ وآلٖہ وسلم کو‬
‫دیکھا اور دیکھتے ہی پکار اٹھے ’’مبارک ہو! یہ ہیں حضور‘‘۔ یہ سننا تھا کہ منتشر‬
‫صحابہ کراؓم ہر طرف سے آپ صلی ہللا علیہ وآلٖہ وسلم کی جانب دوڑے اور آپ صلی ہللا‬
‫علیہ وآلٖہ وسلم کے گرد حصار بنا لیا۔ مشرکیِن مکہ صحابہ کراؓم کو ایک مرتبہ پھر متحد‬
‫ہوتادیکھ کر بھاگ نکلے۔‬
‫اس غزوہ کے آغاز میں مسلمان اپنی تعداد پر نازاں تھے۔ ان کا توکل ہللا کی ذات کے‬
‫عالوہ اپنے ساز و سامان اور تیاری پر تھا۔ اس لیے مسلمانوں کی اصالح کے لیے ہللا پاک‬
‫کی طرف سے یہ عارضی شکست ضروری تھی۔ لیکن جب مسلمانوں نے حضور علیہ‬
‫الصلٰو ۃ والسالم کے دوبارہ پکارنے پر اپنی ہمتوں کو جمع کیا اور واپس پلٹے تو ہللا تعالٰی‬
‫نے بھی مدد فرمائی اورمسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔‬
‫ایک اہم نصیحت‬
‫غزوہ احد میں مسلمانوں کو شدید مشکالت اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا اس جنگ میں‬
‫آپ صلی ہللا علیہ وآلٖہ وسلم کے چچا حضرت حمزؓہ بن عبدالمطلب کے عالوہ ستر (‪)70‬‬
‫صحابہ شہید ہوئے۔ ابوسفیان کی بیوی ہندہ اور دیگر مشرکین نے شہدا کے ناک اور کان‬
‫کاٹے اور الشوں کی برحرمتی کی۔ اس کے عالوہ ہندہ نے حضرت حمزؓہ کا کلیجہ چبایا‬
‫جس کا حضور علیہ الصلٰو ۃ والسالم کو بہت دکھ ہوا۔‬
‫تیر اندازوں کے پہاڑی سے نیچے اترنے اور رسوِل کریم صلی ہللا علیہ وآلٖہ وسلم کے‬
‫فرماِن مبارک کو پس پشت ڈالنے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں تمام سچے‬
‫مسلمانوں کے لئے اہم سبق اور نصیحت ہے ‪:‬‬
‫برادران ملت‬
‫کہچ باتیں احد پہاڑسے متعلق سماعت فرمالیں‬
‫جبل احد ‪ ,‬کی فضیلت‪,‬‬
‫پہاڑ ہلنے لگا مگر کیوں؟‬
‫مدینٔہ منّو رہ زاد َہاہللا شرفًا َّو تعظیمًا کے مقّد س پہاڑوں میں سے ایک مبارک و ُم حِّب رسول‬
‫پہاڑ جبِل ُاُح د ہے جو دور سے دیکھنے میں سرخ رنگ کا معلوم ہوتا ہے۔حضور نبِّی‬
‫رحمت صَّلی ہللا تعاٰل ی علیہ وٰا لٖہ وسَّلم نے اس کی طرف اشارہ کرکے فرمایا‪:‬‬
‫َهَذ ا َجَبٌل ُيِح ُّبَنا َو ُنِح ُّبُه ‪,,‬‬
‫ترجمہ‪ :‬یہ پہاڑ ہے جو ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ (بخاری‪،‬ج‬
‫‪،3‬ص‪ ،45‬حدیث‪)4083 :‬‬
‫اس َم حَّبت کا اسے انعام یہ مال کہ نبِّی کریم صَّلی ہللا تعاٰل ی علیہ وٰا لٖہ وسَّلم نے فرمایا‪ُ :‬اُح ٌد‬
‫ُر ْك ٌن ِم ْن َاْر َك اِن اْلَج َّنِة یعنی ُاُحد جّنت کے ُس ُتونوں میں سے ایک ستون ہے۔‬
‫(معجِم کبیر‪،‬ج ‪،6‬ص‪ ،151‬حدیث‪)5813:‬‬
‫جبِل ُاُحد کو تاریِخ اسالم میں خصوصی اہمیت حاصل ہے‪ ،‬اس کے دامن میں غزؤہ ُاُحد‬
‫جیسا تاریخی َم ْع ِر کہ ُروُنما ہوا نیز سّیُد الّش ہداء حضرت سّیدنا امیرحمزہ اور دیگر‬
‫شہدائےُاُحد رضوان ہللا تعاٰل ی علیہم َاْج معین کے مزارات بھی ِاسی کے دامن میں ہیں۔‬
‫ُاُحد کہنے کی وجہ جبِل ُاُحد کی وجٔہ تسمیہ‪,,‬‬
‫اس کا یکتا َپن (‪ )Stand Alone‬اور مدینہ کے سلسلہ ہائے کوہسار سے ِبالکل علیحدہ ہونا‬
‫ہے۔‬
‫محِّل ُو ُقوع سطِح َسُم ندر سے ‪ 100‬میٹر بلندی پر مدینٔہ طّیبہ زاد َہا ہللا شرفًا َّو تعظیمًا کے‬
‫ِش مالی جانب شہِر َنَبوی سے تقریبًا ساڑھے‪ 3‬کلومیٹر دور واقع ہےاور تقریبًا ‪5‬میل کے‬
‫رقبے میں مشرق سے مغرب تک سیدھا پھیال ہوا ہے۔فضائل مدینُۃ الَّرسول سے نسبت کے‬
‫عالوہ َم حّبِت رسول صَّلی ہللا تعاٰل ی علیہ وٰا لٖہ وسَّلم بھی اس پہاڑ کا ایک خاص َو ْص ف ہے‬
‫جو اسے دیگر جمادات (بے جان چیزوں) سے ممتاز کرتا ہے۔‬
‫(‪)1‬حضرت سّیدنا انس رضی ہللا تعاٰل ی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبِّی کریم صَّلی ہللا‬
‫تعاٰل ی علیہ وٰا لٖہ وسَّلم‪ ،‬حضرت ابوبکر صّد یق‪ ،‬حضرت عمر اور حضرت عثمان رضوان‬
‫ہللا تعاٰل ی علیہم َاْج معین ُاُح د پر تشریف لے گئے تو وہ ہلنےلگا۔ (بخاری‪،‬ج ‪،2‬ص‪،524‬‬
‫حدیث‪)3675:‬‬
‫حضرت سّيدنا عاّل مہ علی قاری علیہ رحمۃ ہللا الباِر ی فرماتے ہیں‪ :‬اس کا ُجھومنا فرحت و‬
‫ُسرور(یعنی خوشی) کی وجہ سے تھا۔ (مرقاۃ المفاتیح‪،‬ج ‪،10‬ص‪ ،448‬تحت الحدیث‪)6083:‬‬
‫حکیُم االّم ت رحمۃ ہللا علیہ رحمۃ ہللا فرماتے ہیں‪:‬‬
‫پہاڑ خوشی میں َو جد کرنے اور ہلنے لگا کہ آج مجھ پر ایسے قدم آئے۔ معلوم ہوا کہ ہللا‬
‫کے مقبول بندے‪ ،‬ولی ساری َخ ْل قت کے محبوب ہوتے ہیں ان کی تشریف آوری سے سب‬
‫خوشیاں مناتے ہیں۔‬
‫(مرٰا ۃ المناجیح‪،‬ج ‪،8‬ص‪408‬‬
‫(‪)2‬حضرت سّیدنا انس بن مالک رضی ہللا تعاٰل ی عنہ فرماتے ہیں‪ :‬بے شک ُاُحد جّنت کے‬
‫دروازوں میں سے ایک دروازے پر واقع ہے۔ جب تم اس پر گزرو تواس کے درخت سے‬
‫کچھ کھالو اگرچہ اس کے کانٹے ہی ہوں۔(مصّنف عبد الّرزاق‪،‬ج ‪،9‬ص‪ ،176‬حدیث‪:‬‬
‫‪)3()17485‬حضور نبِّی کریمصَّلی ہللا تعاٰل ی علیہ وٰا لٖہ وسَّلم نے فرمایا‪ :‬جب تم ُاُحد پر ٓاؤ تو‬
‫اس کے ُش َہدا کو سالم کیا کرویہ ِقیامت تک سالم کا جواب دیتے رہیں گے‪,‬‬
‫۔(تاریخ المدینۃ المنورۃ‪ ،‬ص‪)132‬‬
‫اس کے درختوں سے میوہ کھایا جائے اور اگر نہ ملے تو اس کے صحرا کی گھاس ہی‬
‫بطوِر َتَبُّر ک حاصل کرلی جائے کہ حضرت سّیدتنا زینب (زوجٔہ حضرت َانس بن مالک‬
‫رضی ہللا تعالٰی عنھما) اپنی اوالد سے کہا کرتی تھیں کہ تم ُاُحد پر جاؤ اور میرے لئے‬
‫وہاں کی جڑی بوٹیاں الیا کرو اور اگر نباتات نہ ہوں تو گھاس ہی لے آیا کرو ۔‬
‫(تاریخ المدینہ المنورہ‪ ،‬ص ‪84‬ملخصًا)‬
‫ہللا کریم ہم سب کو حرمین شریفین کی حاضری اورجبل احد کی زیارت نصیب فرمادیں‬
‫آمین‬

You might also like