You are on page 1of 43

‫علی‪  

‬اور بہادری تھی جو صرف چھپی ہوئی نہیں تھی بلکہ ظاہر و باہر تھی‪ .‬اگرچہ حضرت‬ ‫حضرت ؓ‬
‫بکر‪‘ ‬بھی یقینا بہت شجاع کی شخصیت میں کمال درجہ کی شجاعت تھے‪ .‬اس خطبہ کے الفاظ یاد‬ ‫ابو ؓ‬
‫ابابکر‪ ! ‬ہم میں سب سے زیادہ‬
‫ؓ‬ ‫اکبر‪ ‬کے انتقال پر دیا تھا کہ ’’اے‬
‫علی‪ ‬نے صدیق ؓ‬‫کیجئے جو حضرت ؓ‬
‫شجاع اور بہادر تم تھے‪ .‬وہ تم تھے جو بدر کی شب محم ٌد رسول ہللاﷺ‪ ‬کی آرام گاہ پر پہرہ دے رہے‬
‫غار ثور اور اثنائے سفر ہجرت کی رفاقت کے لیے تمہیں‬ ‫تھے اور ہللا نے اپنے پیارے رسولﷺ‪ ‬کی ِ‬
‫ابوبکر‪‘ ‬کی شجاعت کا ظہور اس طرح سے نہیں ہوا جس طرح‬ ‫ؓ‬ ‫منتخب فرمایا تھا‪ ‘‘.‬لیکن حضرت‬
‫علی‪ ‬کی شجاعت کا ہوا‪.‬‬
‫حضرت ؓ‬

‫بکر‪ ‬کا کسی‪)۱( ‬سنن الترمذی ‪،‬کتاب المناقب عن رسول ہللاﷺ‪، ‬باب فمن سب اصحاب‬ ‫حضرت ابو ؓ‬
‫النبیﷺ‪ . ‬پہلوان سے مقابلے کا کوئی ذکر سیرت کی کتابوں میں نہیں ملتا‪ .‬ارادہ اور عزم کی بات اور‬
‫آپ‪ ‬کے بیٹے عبدالرحمن نے‘جو غزؤہ بدر تک ایمان نہیں الئے تھے‘ایمان النے کے بعد‬ ‫ہے کہ جب ؓ‬
‫آپ‪‘ ‬کا لحاظ‬
‫آپ‪ ‬میری تلوار کی زد میں آ گئے تھے لیکن میں نے ؓ‬ ‫آپ‪ ‬سے کہا کہ ’’ابا جان‘بدر میں ؓ‬ ‫ؓ‬
‫آپ‪ ‬نے فرمایا‪’’ :‬بیٹے‘تم نے یہ اس لیے کیا تم باطل کے‬
‫کیا اور اپنا ہاتھ روک لیا‘‘ تو جواب میں ؓ‬
‫لیے لڑ رہے تھے‪.‬‬

‫ت‬‫خدا کی قسم اگر تم میری زد میں آ جاتے تو میں تمہیں کبھی نہ چھوڑتا‘‘‪ .‬اسی عزیمت‘اسی‪ i‬قو ِ‬
‫ارادی‘اس استقامت اور اسی شجاعت کا اظہار اُس وقت ہوا جب مسن ِد خالفت پر بیٹھنے کے بعد‬
‫زکوۃ کے خالف فی‬ ‫صحابہ‪ ‬نے یہ کہا تھا کہ مانعی ِن ٰ‬
‫ؓ‬ ‫ؓ‬
‫فاروق‪ ‬اور دوسرے اکابر‬ ‫آپ‪ ‬سے حضرت عمر‬ ‫ؓ‬
‫الوقت محاذ نہ کھو لیے‘اس لیے کہ مسلمانوں کی بیشتر افواج فتنٔہ ارتداد کی سرکوبی میں مصروف‬
‫پیکر عزیمت نے کہا تھا کہ‬
‫ِ‬ ‫تھیں جو بڑے پیمانے پر عرب کے بعض عالقوں میں پھیل گیا تھا‘تو اس‬
‫’’خدا کی قسم اگر مجھے یہ یقین ہو کہ کتے میری الش کو نوچ کھسوٹ ڈالیں گے تب بھی میں ان‬
‫زکوۃ کے خالف اقدام سے باز نہیں آؤں گا اور اگر حضورﷺ‪ ‬کے زمانے میں ٰ‬
‫زکوۃ میں اونٹ‬ ‫مانعین ٰ‬
‫ِ‬
‫کے ساتھ رسی بھی دیتے تھے اور اب رسی نہ دیں تو بھی میں ان کے خالف جہاد کروں گا‪ .‬کسی‬
‫نے میرا ساتھ نہ دیا تو میں اکیال جہاد کروں گا‪ .‬لیکن اسے چھپی ہوئی‪)potential( ‬شجاعت کہا جائے‬
‫حمزہ‪ ‬کی شجاعت اور حضرت‬ ‫ؓ‬ ‫میدان جنگ میں حضرت‬‫ِ‬ ‫گا‪ .‬یہ اس طرح ظاہر نہیں ہوئی جیسے‬
‫آپ‪ ‬نے مکہ سے مدینہ کی‬ ‫عمر‪‘ ‬کی وہ بات یاد کیجئے جو ؓ‬ ‫عمر‪ ‬کی بہادری کا ظہور ہوا‪ .‬حضرت ؓ‬
‫ؓ‬
‫آپ‪ ‬نے پہلے کعبہ کا طواف کیا اور پھر اعالن کیا کہ میں مدینہ ہجرت‬ ‫طرف ہجرت کرتے وقت کہی‪ؓ .‬‬
‫کر رہا ہوں‘جس کی خواہش ہو کہ اس کی ماں اس کو روئے وہ آئے اور میرا راستہ روک لے ‪ .‬سب‬
‫ابوبکر‪ ‬میں آپ کو نظر نہیں آئے گی‪ .‬‬
‫ؓ‬ ‫کے سب مشرک دم بخود رہ گئے‪ .‬یہ بات حضرت‬

‫میں یہاں ایک بات اور بھی عرض کردوں‘لیکن خدارا میری بات کو غلط مفہوم میں نہ لیجئے گا‪ .‬نبی‬
‫اکرمﷺ‪ ‬میں شجاعت اور بہادری بتمام و کمال موجود تھی‘لیکن اس کا بھی اس طور سے ظہور نہیں‬
‫ہوا‘چنانچہ آپ کو یہ بات کہیں نہیں ملے گی کہ حضورﷺ‪ ‬نے کسی سے ُدوب ُدو مقابلہ کیا ہو‪ .‬لیکن‬
‫بالریب و شبہ ساری نوع انسانی میں سب سے زیادہ شجاع اور بہادر جناب محمدﷺ‪ ‬ہیں‪ .‬اگر شجاعت‬
‫اعلی وصف ہے‘اور یقینا ہے‘تو کیا وہ سب سے بڑھ کر حضورﷺ‪ ‬میں نہیں ہو گی؟ ہے‘یقینا‬ ‫ٰ‬ ‫کوئی‬
‫ہے‪ .‬اور اس کا ظہور غزؤہ حنین کے موقع پر ہوا بھی ہے‪ .‬جب ایک عام بھگدڑ مچ گئی‘لوگ منتشر‬
‫ت مبارک میں لیا اور یہ رجز‬ ‫ہو گئے تو حضورﷺ‪‘ ‬اس وقت اپنی سواری سے اترے‘علم اپنے دس ِ‬
‫پڑھا ؎‬

‫ابن عَب ِد ال ُمطَّلب‬


‫اَنَا النّبِ ُّی اَل َک ِذب اَنَا ُ‬
‫(‪)۱‬‬
‫میرا گمان ہے کہ یہ رجز حضورﷺ‪ ‬نے فی البدیہ پڑھا ہے اور گویا یہ واحد شعر ہے جو‬
‫آپ‪‘ ‬کی شجاعت سامنے آئی ہے‪ .‬تو‬ ‫حضورﷺ‪ ‬نے اپنی پوری زندگی میں کہا ہے‪ .‬بہرحال اُس وقت ؐ‬
‫ایک شجاعت چھپی ہوئی ہوتی ہے جبکہ ایک ہوتی ہے ظاہر و باہر شجاعت‪ .‬تو حضرت علی رضی‬
‫ہللا عنہ کی شجاعت صرف چھپی ہوئی نہیں بلکہ ظاہر و باہر اور نمایاں شجاعت ہے‪ .‬وہ شجاعت جو‬
‫علی‪ ‬کے‬
‫بدر میں ظاہر ہو رہی ہے جب کہ شیبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ بن ربیعہ دونوں حضرت ؓ‬
‫آپ‪ ‬کی تلوار نے بجلی کی طرح چمک چمک کر اعدائے اسالم کے‬ ‫واصل جہنم ہوئے‪ .‬پھر ؓ‬
‫ِ‬ ‫ہاتھوں‬
‫خرمن ہستی کو جال دیا‪ .‬غزؤہ احد میں حضرت مصعب بن عمیر رضی ہللا عنہ کے شہید ہونے کے‬ ‫ِ‬
‫علی‪ ‬نے بڑھ کر ؓان‪ ‬کے ہاتھ سے عَلم سنبھاال اور چند صحابیوں کے ساتھ مل کر بے‬
‫بعد حضرت ؓ‬
‫جگری کے ساتھ لڑتے ہوئے مشرکین کا رخ پھیر دیا جو حضورﷺ‪ ‬کی طرف یلغار کی کوشش کر‬
‫رہے تھے‪.‬‬

‫پھر اسی شجاعت کا ظہور‪ ۵ ‬ھ میں غزؤہ احزاب کے موقع پر ہوا‪ .‬چند کفار کبھی کبھی گھوڑوں پر‬
‫سوار ہو کر خندق میں گھس کر حملہ کیا کرتے تھے‪ .‬ایک دفعہ حملہ آوروں میں عمرو بن عب ِد ُود بھی‬
‫شامل تھا جو پورے عرب میں مانا ہوا بہت بڑا پہلوان تھا‪ .‬اُس وقت اس کی عمر نوے برس کی تھی‬
‫لیکن پورے عرب میں کوئی اس کے ساتھ مقابلے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا‪ .‬اس نے مبارزت‬
‫علی‪ ‬مقابلہ کے‬‫طلب کی اور نعرہ لگایا کہ ہے کوئی جو میرا دوبدو مقابلہ کرے؟ اس وقت حضرت ؓ‬
‫لیے آ گے بڑھے‪ .‬وہ ہنسا اور بوال‪ :‬تم میرا مقابلہ کرنے آئے ہو؟ نام کیا ہے تمہارا؟ اس نے بڑے‬
‫استہزائیہ انداز میں کہا کہ میری عادت رہی ہے کہ جب میرا کسی سے مقابلہ ہوتا ہے تو اس کی تین‬
‫علی‪ ‬نے فرمایا‬ ‫خواہشوں میں سے ایک ضرور پوری کرتا ہوں‪ .‬بولو تمہاری کیا خواہش ہے؟ حضرت ؓ‬
‫کہ میری ا ّولین خواہش تو یہ ہے کہ تم ایمان لے آؤ‪ .‬اس نے کہا کہ اس کا کوئی سوال نہیں‪ .‬حضرت‬
‫علی‪ ‬بولے کہ میری دوسری خواہش یہ ہے کہ تم میدا ِن جنگ سے واپس چلے جاؤ‪ .‬وہ ہنسا‘اور بوال‬ ‫ؓ‬
‫علی‪ ‬نے فرمایا تو پھر تیسری خواہش یہ‬‫یہ بزدلی کا کام میں کروں! یہ کبھی نہیں ہو سکتا‪ .‬حضرت ؓ‬
‫علی‪ ‬کی ذہانت و فطانت کا بھی مظہر‬‫ہے کہ آؤ مقابلہ کرو تاکہ میں تمہیں قتل کر دوں‪ .‬یہ حضرت ؓ‬
‫ت‪ )۱( ‬صحیح البخاری‪،‬کتاب‬ ‫ت حق دی‘پھر دعو ِ‬
‫آنجناب‪ ‬نے پہلے اس کو حکمت کے ساتھ دعو ِ‬ ‫ؓ‬ ‫ہے کہ‬
‫الجہادوالسیر‪،‬باب من صف اصحابہ عند الھزیمۃ‪.....‬‬

‫و صحیح مسلم کتاب الجہادوالسیر‪،‬باب فی غزوۃحنین‪ .‬مقابلہ‪ .‬لیکن اس بدبخت کے نصیب میں ایمان‬
‫کی سعادت نہیں تھی‪ .‬حضرت علی‪ h‬کی بات پر وہ بھونچکارہ گیا کہ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ میرے منہ‬
‫پر کوئی مجھے قتل کرنے کی دھمکی دے‪ .‬پھر وہ برہم ہو کر گھوڑے سے کود پڑا‪ .‬تھوڑی دیر تک‬
‫علی‪ ‘ ‬کی تلوار نے اس کو واص ِل جہنم کر دیا‪.‬‬ ‫شجاعانہ مقابلہ کے بعد حضرت ؓ‬
‫علی‪‘ ‬حضورﷺ‪ ‬کے ہمرکاب تھے‪ .‬خیبر میں یہودیوں کے ساتھ‬ ‫غزؤہ خیبر کے موقع پر حضرت ؓ‬
‫ابوبکر‪ ‬اور‬
‫ؓ‬ ‫سات قلعے تھے‪ .‬چھ تو فتح ہو گئے‘لیکن آخری قلعہ قموص زیادہ سخت ثابت ہوا‪ .‬پہلے‬
‫عمر‪ ‬اس کی تسخیر کے لیے مامور ہوئے لیکن کامیابی نہ ہوئی‪ .‬پھر‬ ‫ان کے بعد حضرت ؓ‬
‫حضورﷺ‪ ‬نے فرمایا کہ میں کل ایک ایسے بہادر کو عَلم دوں گا جو خدا اور رسول کا محبوب ہے‬
‫اور اس قلعہ کی فتح اس کے لیے مقدر ہے‪ .‬صبح ہوئی تو ہر جان نثار متمنی تھا کہ کاش اس فخر و‬
‫ب چشم‬ ‫علی‪‘ ‬کو پکارا‪ .‬وہ آشو ِ‬ ‫شرف کا تاج اس کے سر کی زینت بنے‪ .‬حضورﷺ‪ ‬نے دفعتا ً حضرت ؓ‬
‫ب دہن لگایا جس سے ان کی تکلیف جاتی رہی‪ .‬پھر‬ ‫حضور‪ ‬نے ان کی آنکھوں پر لعا ِ‬ ‫ؓ‬ ‫میں مبتال تھے‪.‬‬
‫فنون حرب میں یکتا و یگانہ شمار‬ ‫ِ‬ ‫عَلم مرحمت فرمایا‪ .‬اس قلعہ کا سردار مرحب نامی یہودی تھا جو‬
‫علی‪ ‬نے پوچھا‪:‬‬‫ہوتا تھا‘جثہ کے لحاظ سے بھی بڑا لحیم اور شحیم تھا‪ .‬علَم علم لینے کے بعد حضرت ؓ‬
‫حضورﷺ‪ ‬کیا میں قلعہ والوں کو قتل کروں؟ حضورﷺ‪ ‬نے اس موقع پر یہ تاریخی جملے فرمائے‪:‬‬
‫علی‪ ‬پہلے ان پر اسالم پیش کرو‘ان کو دعوت دو‘کیونکہ تمہاری کوششوں سے اگر ایک‬ ‫’’نہیں ؓ‬
‫شخص بھی مسلمان ہو گیا تو وہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے‪ .‬اس حدیث شریف کے آخری‬
‫ک رجالً واحدًا خیرٌلک ِم ْن ُح ْم ِر النَّ َع ِم‘‘‪ )۱( ‬‬ ‫ہّٰللا‬ ‫ہّٰللا‬
‫حصہ کے الفاظ یہ ہیں‪’’ :‬فَ َو ِ اَل َ ْن یَ ْھ ِدی ُ بِ َ‬
‫(یہ حدیث متفق علیہ ہے اور اس کے راوی حضرت سہل بن ؓ‬
‫سعد‪ ‬ہیں‪).‬‬
‫علی‪ ‬نے جب قلعہ قموص کا محاصرہ کیا تو مرحب آہن پوش ہو کر ہتھیار سجا کر بڑے‬
‫حضرت ؓ‬
‫جوش و خروش کے ساتھ یہ متکبرانہ رجز پڑھتا ہوا مبارزت کے لیے نکال ؎‪ ‬‬

‫ت خَیبُر اَ‘نّی َمرحبُ‬ ‫قَ ْد َعلِ َم ْ‬


‫َشا ِکی السالخ بَط ٌل ُم َجرَّبُ ‪ ‬‬
‫اِذا الحُروبُ اَ ْقبَلَ ْ‬
‫ت تَلَھَّبُ‬

‫(‪ )۱‬صحیح البخاری‪،‬کتاب المناقب‪،‬باب مناقب علی ابن ابی طالب‪.......‬و صحیح مسلم‪ ،‬کتاب فضائل‬
‫الصحابۃ‪،‬باب من فضائل علی بن ابی طالب‪’’ .‬خیبر مجھے جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں‘مسلح‬
‫پوش‘بہادر اور تجربہ کار ہوں‪ .‬جب جنگ میرے سامنے آتی ہے تو بھڑک اٹھتی ہے‘‘‪.‬‬

‫مرتضیؓ‪  ‬نے جواب میں یہ رجز پڑھا ؎‪ ‬‬


‫ٰ‬ ‫فاتح خیبر علی‬

‫اَنا الّذی سمتنی اُ ّمی َحی َد َرہ‬


‫ت کری ِہ ْال َم ْنظَ َرہ‬ ‫ث غابا ٍ‬ ‫کلَی ِ‬
‫اُوفِی ِھ ُم بِالص ِ‬
‫َّاع َکی َْل ال َّس ْند ََرۃ‬

‫’’میں وہ ہوں جس کا نام میری ماں نے‘حیدر رکھا ہے‪ .‬جنگل کے شیر کی طرح مہیب اور ڈراؤنا‪.‬‬
‫میں دشمنوں کو نہایت سرعت سے قتل کرتا ہوں‘‘‪.‬‬

‫آپ‪ ‬نے قلعہ پر حملہ کیا اور حیرت‬


‫اور جھپٹ کر ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کر دیا‪ .‬اس کے بعد ؓ‬
‫انگیز شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کو فتح کر لیا‪.‬‬

‫علی‪ ‬بھی شامل تھے‪ .‬‬


‫غزؤہ حنین میں بھگدڑ کے وقت ثابت قدم رہنے والوں میں حضرت ؓ‬

‫حضرت علی رضی ہللا عنہ کی شجاعت‬


‫ایک جنگ میں لڑائی اپنے عروج پر تھی‘ موت کا رقص جاری تھا اور حضرت علی‬
‫تعالی عنہ شہادت کے شوق میں میدان کارزار میں اپنی جان کی بازی لگاتے‬
‫ٰ‬ ‫رضی ہللا‬
‫ہوئے کسی تردودتامل اور بزدلی کے بغیر جوہرشجاعت دکھارہے تھے اور بہت سے‬
‫یہودیوں کو ٹھکانے لگا چکے تھے‘ قلعہ فتح ہونے کے قریب تھا کہ اچانک قلعہ کے پہرہ‬
‫تعالی‬
‫ٰ‬ ‫داروں کا ایک گروہ نکال اور اس گروہ کے ایک آدمی نے حضرت علی رضی ہللا‬
‫عنہ پر اس زور سے وار کیا کہ ڈھال بھی آپ کے ہاتھ سے گرگئی چنانچہ حضرت علی‬
‫تعالی عنہ نے پکار کر کہا‪ ”:‬اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان‬ ‫ٰ‬ ‫رضی ہللا‬
‫تعالی عنہ نے چکھا‬
‫ٰ‬ ‫ہے یا تو میں بھی شہادت کا وہی مزا چکھوں گا جو حمزہ رضی ہللا‬
‫تعالی میرے لیے ضرور اس قلعہ کو فتح فرمادیگا۔“‬‫ٰ‬ ‫تھا یا ہللا‬
‫تعالی عنہ شیر کی طرح ایک پرانے دروازے کی طرف دوڑے‬ ‫ٰ‬ ‫یہ فرما کر آپ رضی ہللا‬
‫جو قلعہ کے پاس پڑا ہوا تھا آپ نے اس دروازہ کو اٹھایا اور اس کو ڈھال کی جگہ‬
‫استعمال کرتے ہوئے بچائو کا ذریعہ بناتے رہے‘ جب تک آپ دشمنوں سے لڑنے میں‬
‫تعالی عنہ‬‫ٰ‬ ‫مصروف رہے وہ دروازہ آپ کے ہاتھ میں ہی رہا‘ یہاں تک کہ آپ رضی ہللا‬
‫تعالی نے اس قلعہ کو فتح فرمایا تو آپ نے اس دروازہ کو پھینک دیا۔‬ ‫ٰ‬ ‫کے ہاتھ پر ہللا‬
‫تعالی عنہ‬‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ”حضرت علی رضی ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت ابو رافع رضی ہللا‬
‫کے ساتھ موجود لشکر اس بات کا عینی شاہد ہے کہ میں نے اپنے سات آدمیوں سمیت یہ‬
‫تعالی عنہ‬
‫ٰ‬ ‫کوشش کی کہ اس دروازہ کو اٹھائیں یا الٹا کردیں جسے حضرت علی رضی ہللا‬
‫نے اٹھارکھا تھا لیکن ہم ایسا نہ کرسکے۔ “‬
‫مسئلہ تقدیر کی وضاحت‬
‫تعالی عنہ کی خدمت میں‬ ‫ٰ‬ ‫ایک مرتبہ ایک کمزور جسم کا شخص حضرت علی رضی ہللا‬
‫حاضر ہوا اور آپ کے سامنے بیٹھ کر کمزور آواز میں کہنے لگا‪” :‬حضرت رضی ہللا عنہ‬
‫! مجھے تقدیر کے بارے میں بتائیے کہ اس کی حقیقت کیا ہے؟“ اس کے اس سوال کے‬
‫تعالی عنہ نے فرمایا‪” :‬یہ ایک تاریک راستہ ہے تم اس‬ ‫ٰ‬ ‫جواب میں حضرت علی رضی ہللا‬
‫پر نہیں چل سکو گے“”آپ مجھے تقدیر کے بارے میں بتادیجئے“ اس شخص نے دوبارہ‬
‫اپنا سوال دہرایا۔ ”یہ ایک گہرا سمندر ہے تم اس میں داخل نہیں ہوسکتے“‬
‫تعالی عنہ نے اسے سمجھانے کی کوشش فرمائی لیکن وہ شخص‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت علی رضی ہللا‬
‫مسلسل اصرار کرتے ہوئے ان سے تقدیر کے متعلق سوال کرنے لگا تو حضرت‪ i‬علی‬
‫تعالی عنہ نے فرمایا ”یہ ہللا کا راز ہے جو تجھ سے پوشیدہ ہے لہٰذا تم اس راز‬ ‫ٰ‬ ‫رضی ہللا‬
‫کو افشا نہ کرو“ جب اس شخص کا اصرار مزید بڑھا اور اس نے ایک مرتبہ پھر حضرت‬
‫تعالی‬
‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ سے تقدیر کے متعلق سوال کیا تو حضرت علی رضی ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫علی رضی ہللا‬
‫تعالی نے تجھے اپنی منشاءکے‬ ‫ٰ‬ ‫عنہ نے فرمایا ”اے سوال کرنے والے! یہ تو بتا کہ ہللا‬
‫مطابق پیدا کیا یا تیری مرضی کے مطابق؟“ اس نے عرض کیا کہ ”ہللا نے مجھے اپنی‬
‫تعالی عنہ نے‬ ‫ٰ‬ ‫مرضی اور منشاءکے مطابق پیدا کیا ہے“ چنانچہ حضرت علی رضی ہللا‬
‫فرمایا ”تو بس پھر تجھے جس کام کیلئے چاہے استعمال کرے۔“‬
‫ایک یہودی کا قبول اسالم‬
‫تعالی عنہ کے پاس آیا اور خباثت بھرے‬ ‫ٰ‬ ‫ایک مرتبہ ایک یہودی حضرت علی رضی ہللا‬
‫انداز میں پوچھنے لگا ”حضرت! ہمارا رب کب سے ہے؟“ یہ سن کر حضرت علی رضی‬
‫تعالی عنہ کا چہرہ متغیر ہوگیا‘ رخسار سرخ ہوگئے‘ اپنا ہاتھ اس کے شانے پر رکھ کر‬ ‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫اس کو جھنجھوڑا اور فرمایا ”وہ ذات ایسی نہیں ہے کہ ایک زمانہ میں موجود نہیں تھی‬
‫پھر موجود ہوئی‘ بلکہ وہ ابتداءسے موجود ہے‘ وہ ذات بالکیفیت ہے‘ نہ اس سے قبل کچھ‬
‫تھا اور نہ اس کی کوئی انتہا ہے وہ ہر انتہاءکی انتہاءہے“‬
‫اس آدمی نے انکساری کے ساتھ اپنا سر جھکا لیا اور کہنے لگا‪” :‬اے ابوالحسن آپ نے‬
‫سچ فرمایا‘ اے ابوالحسن آپ نے سچ فرمایا۔“ پھر اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے‬
‫تعالی کی معبودیت اور رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کی رسالت کا اقرار‬ ‫ٰ‬ ‫اور اس نے ہللا‬
‫کیا اور مسلمان ہوکر واپس چال گیا۔‬
‫حضرت علی رضی ہللا عنہ کی حضرت عمر رضی ہللا عنہ سے محبت‬
‫تعالی عنہ پرانے وبوسیدہ کپڑوں میں‬ ‫ٰ‬ ‫ایک مرتبہ امیرالمومنین حضرت علی رضی ہللا‬
‫ملبوس شکستہ و خستہ حال بیٹھے تھے اور ذکر وتسبیح میں مشغول تھے کہ ابومریم‬
‫(ایک غالم) حاضر خدمت ہوئے اور متواضعانہ انداز میں دوزانوں بیٹھ کر عرض کیا‬
‫”یاامیرالمومنین! میں آپ کے پاس اپنی ایک درخواست لے کر آیا ہوں“ حضرت علی‬
‫رضی ہللا عنہ نے درخواست کے متعلق پوچھا تو ابومریم کہنے لگے میری درخواست یہ‬
‫ہے کہ آپ اپنے جسم سے یہ چادر اتار دیں کیونکہ یہ بہت پرانی اور بوسیدہ ہے۔“‬
‫یہ سن کر حضرت علی رضی ہللا عنہ نے چادر کا ایک کونا اپنی آنکھوں پر رکھا اور‬
‫زارو قطار رونے لگے یہ منظر دیکھ کر ابومریم بہت شرمندہ ہوئے اور عرض کیا ”اے‬
‫امیرالمومنین! اگر مجھے معلوم ہوتا کہ میری اس بات سے آپ کو تکلیف ہوگی تو میں‬
‫کبھی آپ کو چادر اتارنے کا نہ کہتا“‬
‫”اے ابو مریم! اس چادر سے میری محبت روز بروز بڑھتی جاتی ہے کیونکہ یہ چادر‬
‫مجھے میرے حبیب اور خلیل نے تحفہ دی تھی“۔ حضرت علی رضی ہللا عنہ گویا ہوئے۔‬
‫”اے امیرالمومنین! آپ کے خلیل کون ہیں؟“ ابومریم نے بنظر استعجاب دریافت کیا۔‬
‫”میرے خلیل حضرت عمر بن خطاب رضی ہللا عنہ ہیں بالشبہ عمر رضی ہللا عنہ ہللا کے‬
‫تعالی نے بھی ان کے ساتھ بھالئی کی۔“ یہ فرما کر حضرت‬ ‫ٰ‬ ‫ساتھ تو مخلص تھے اور ہللا‬
‫تعالی عنہ کے سینہ‬
‫ٰ‬ ‫حتی کہ آپ رضی ہللا‬
‫تعالی عنہ دوبارہ رونے لگے ٰ‬ ‫ٰ‬ ‫علی رضی ہللا‬
‫مبارک سے گونج دار آوازیں آنے لگیں۔‬

‫ٰ‬
‫تقوی‬ ‫امام المتقین حضرت علی (ع) کا زہد و‬
‫‪ ‬جوالئی ‪2015 ,7‬‬
‫‪minutes read 21 4‬‬
‫تحریر‪ :‬عالمہ محمد رمضان توقیر‬
‫مصطفی ﷺ نے اپنے جانشین‪ ،‬بھائی‬ ‫ٰ‬ ‫نبی مکرم‪ ،‬نور مجسم‪ ،‬رحمت عالم‪ ،‬حضرت محمد‬
‫اور نائب حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السالم کے لئے اپنی حیات مبارکہ میں بے شمار‬
‫کلمات‪ ،‬ارشادات‪ ،‬فرامین اور احادیث بیان فرمائیں‪ ،‬جن میں حضرت علی ؑ کے اوصاف‪،‬‬
‫خصائل اور فضائل کا احاطہ کیا گیا۔ اگرچہ علم و حکمت اور جرات و شجاعت ایک ہی‬
‫تقوی کی معراج اور ُزہد کا نکتہ‬
‫ٰ‬ ‫وقت میں علی ؑ کے ممتاز اوصاف میں شامل ہیں‪ ،‬لیکن‬
‫عروج بھی علی ؑ کی ذات کے ساتھ منسلک اور مربوط نظر ٓاتا ہے‪ ،‬اسی لئے خاتم االنبیاء‬
‫کی ذات واال صفات نے حضرت علی ؑ کو جہاں امیرالمومنین کا تمغہ عطا فرمایا‪ ،‬وہاں‬
‫انہیں فقط عابد یا زاہد یا متقی کہنے تک محدود نہیں کیا بلکہ انہیں امام المتقین کا اعزاز‬
‫بھی مرحمت فرمایا۔ حضرت علی ؑ کے ُزہد کا نکتہ اول وقت والدت دست نبی ؐ پر تالوت‬
‫قرٓان ہے۔ پھر جب حضور اکرم ؐ نے حکم خدا کے تحت پہلی مرتبہ فریضہ نماز کی‬
‫ادائیگی فرمائی تو حضرت علی ؑ پہلے نمازی قرار پائے‪ ،‬جس نے اقتدائے رسول ؐ میں‬
‫پہلی نماز ادا فرمائی اور اسی تسلسل میں ’’مصلّی الی القبلتین‘‘ کے لقب سے ملقب ہوئے۔‬
‫تقوی کے ٓاخری مدارج پر فائز‬‫ٰ‬ ‫نبی اکرم ؐ کی نگرانی میں پرورش پانا واال علی ؑ یقینا ً ُزہد و‬
‫تھا۔‬

‫زمانے نے یہ بھی دیکھا کہ جب شدت کی جنگوں اور کفار و مشرکین کے ساتھ بڑے‬
‫بڑے معرکوں کو فتح کرنے کے بعد علی ؑ کے جسم اطہر پر زخم ٓاجاتے تھے تو صحابہ‬
‫وہ وقت تالش کرتے تھے کہ علی ؑ کے جسم میں پیوست تیر یا کچھ اور کیسے نکاال‬
‫جائے؟ اس کا حل خود خاتم االنبیاء نے نکاال اور فرمایا جب علی ؑ اپنے خدا کی بارگاہ میں‬
‫حاضر ہو اور عبد و معبود کی گفتگو شروع ہوجائے تو چلے جانا اور تیر نکال کر ٓاجانا‪،‬‬
‫کیونکہ علی ؑ اپنے خدا کے ساتھ گفتگو میں اس قدر منہمک ہوتا ہے اور اس گہرائی سے‬
‫مستغرق ہوتا ہے کہ دنیا و مافیہا سے بے نیاز و بے پرواہ ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ ُزہد کیا‬
‫ہوگا۔ زمانے نے یہ بھی دیکھا کہ کفار و مشرکین یا منافقین کے ساتھ جنگیں جب اپنے‬
‫عروج پر ہوتی تھیں‪ ،‬جب جنگ کا نتیجہ فتح یا شکست کے قریب ہوتا تھا‪ ،‬جب سپہ‬
‫ساالروں کے حملے اپنے نکتہ اختتام پر ہوتے تھے اور کوئی سپاہی بھی جنگ میں کسی‬
‫قسم کی تاخیر یا رکاوٹ قبول کرنے کو اس لئے تیار نہیں ہوتا تھا کہ کہیں میدان ہاتھ سے‬
‫نہ نکل جائے اور ہر سپاہی اس ہدف میں ہوتا تھا کہ تلواریں تب تک نیام میں نہ ڈالی‬
‫جائیں‪ ،‬جب تک دشمن کو شکست دے کر فتح اپنے نام نہ کرلی جائے۔ عین اس وقت اور‬
‫ماحول میں اگر نماز کا وقت ہوجاتا تو علی ؑ ہر قسم کے نتائج کی پرواہ کئے بغیر تلوار کو‬
‫نیام میں ڈال کر بارگاہ صمدیت میں سجدہ ریز ہوجاتے اور ہر اس شخص کو جنت کی‬
‫بشارت دیتے جو جنگ کے دوران یا جنگ کے عروج میں علی ؑ کو نماز کے وقت کی یاد‬
‫دہانی کراتا۔‬

‫تقوی اور ُزہد‬


‫ٰ‬ ‫زمانے نے یہ بھی دیکھا کہ علی نے فقط نماز‪ ،‬روزے یا عبادات کی حد تک‬
‫تقوی اور ُزہد کو مدنظر رکھ کر‬
‫ٰ‬ ‫کو محدود نہیں کیا بلکہ انسانی زندگی کے ہر ہر پہلو میں‬
‫ٰ‬
‫تقوی کو فقط عبادات کی حد تک محدود نہ‬ ‫بیان کیا اور لوگوں کو تاکید کی کہ وہ ُزہد و‬
‫ت زندگی میں بھی اس کا لحاظ رکھیں۔ علی ؑ کا عدل دراصل علی ؑ کا‬ ‫رکھیں‪ ،‬بلکہ معامال ِ‬
‫ُزہد ہے‪ ،‬انہوں نے اپنی زندگی کو عدل کے لئے اس حد تک وقف فرمایا تھا کہ لوگوں کے‬
‫ساتھ دوستی اور دشمنی کا معیار ہی عدل قرار دے دیا تھا۔ ٓاپ خود فرماتے ہیں کہ لوگ‬
‫حکمرانوں کے دشمن ان کے ظلم کی وجہ سے ہوتے ہیں‪ ،‬لیکن میرے دشمن میرے عدل‬
‫کی وجہ سے ہوئے۔ میں واحد حکمران ہوں‪ ،‬لوگ جسکے دشمن اس کے عدل کی وجہ‬
‫سے ہوئے ہیں اور خدا کی قسم میں عدل کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑوں گا‪ ،‬چاہے‬
‫اس کے لئے کتنی ہی قیمتی متاع میرے ہاتھ سے جاتی رہے۔ علی ؑ نے عدل قائم کرکے‬
‫ٰ‬
‫تقوی عدل ہے۔‬ ‫ثابت کر دیا کہ حقیقی ُزہد اور‬

‫تقوی تمام خصلتوں کا سرتاج ہے‪ ،‬یعنی ہزار ہا خصلتیں اور اوصاف‬ ‫ٰ‬ ‫علی ؑ کے نزدیک‬
‫تقوی سے خالی ہے تو سمجھ لیا جائے کہ وہ‬‫ٰ‬ ‫ہونے کے باوجود اگر انسان کی زندگی‬
‫زندگی حقیقت سے خالی ہے اور اوصاف اپنے بادشاہ و سربراہ سے محروم ہیں۔ علی ؑ کے‬
‫تقوی اور ُزہد کی پہلی منزل ترک گناہ ہے‪ ،‬اس لئے ٓاپ فرماتے ہیں کہ ترک گناہ‬‫ٰ‬ ‫نزدیک‬
‫کی منزل بعد میں مدد مانگنے سے زیادہ ٓاسان ہے۔ یعنی انسان اس امید پر گناہ کرتا چال‬
‫جائے کہ گناہ بخشوانے کے لئے قیامت کے دن یا زندگی کے ٓاخری دنوں میں ہللا سے مدد‬
‫مانگ لوں گا یا ہللا کے رسول ؐ سے مدد مانگ لوں گا‪ ،‬یا رسول ؐ کے جانشینوں کے‬
‫وسیلے سے مدد حاصل‪ i‬کرلوں گا تو یہ اس شدید غلطی ہوگی۔ لہذا اس کے لئے الزم ہے‬
‫کہ مدد کی امید رکھنے کی بجائے سب سے پہلے گناہ کو ترک کرے اور اپنے ٓاپ کو‬
‫تقوی کے حصار میں محصور کرلے‪ ،‬پھر معمولی کوتاہی پر مدد‪ ،‬شفاعت اور توسل کی‬ ‫ٰ‬
‫امید رکھے۔‬
‫ٰ‬
‫تقوی کی‬ ‫تقوی اور ُز ہد کے ساتھ معاشرتی‬
‫ٰ‬ ‫زمانے نے یہ بھی دیکھا کہ علی ؑ نے روحانی‬
‫ٰ‬
‫تقوی‬ ‫ٰ‬
‫تقوی کی رسم ڈالی۔ انسانی رویوں میں‬ ‫تقوی ایجاد فرمایا۔ سماجی‬‫ٰ‬ ‫بنیاد ڈالی۔ سیاسی‬
‫کو شامل فرمایا۔ یہ فقط الفاظ یا اصطالحات تک محدود نہیں بلکہ علی ؑ کا طرز زندگی اور‬
‫نہج البالغہ کی شکل میں ان کے فرمودات اس بات کی بین دلیل ہیں کہ وہ صرف عبادی‬
‫تقوی کو کافی نہیں سمجھتے تھے بلکہ تقوی کی دیگر اشکال پر ان کا توجہ زیادہ مرکوز‬ ‫ٰ‬
‫تقوی اور ُزہد کی تلقین فرماتے رہے‪ ،‬چاہے وہ گھریلو‬ ‫ٰ‬ ‫رہی۔ زندگی کے ہر ہر شعبے میں‬
‫زندگی ہو یا خاندانی زندگی۔ چاہے گروہی زندگی ہو یا جماعتی۔ چاہے‬
‫حکومتی زندگی ہو یا حزب مخالف زندگی۔ چاہے مذہبی زندگی ہو یا سیاسی زندگی۔ چاہے‬
‫ٰ‬
‫تقوی اور‬ ‫سماجی زندگی ہو یا انسانی پہلووں پر محیط زندگی۔ ہر ہر مرحلے پر علی ؑ نے‬
‫ُزہد کی تاکید فرمائی۔‬
‫تقوی کی اتنی اہمیت ہے کہ علی ؑ نے دنیا سے رخصت‪i‬‬ ‫ٰ‬ ‫زندگی کے تمام امور میں ُزہد و‬
‫ہوتے وقت اپنے معصوم اور امام بیٹوں یعنی حسن ؑ و حسین ؑ کو جو ٓاخری نصیحت اور‬
‫تقوی ہے‪ ،‬لیکن فقط عبادی نہیں بلکہ اجتماعی۔‬ ‫ٰ‬ ‫وصیت فرمائی‪ ،‬اس کا محوری نکتہ ُزہد و‬
‫تقوی اور اپنے امور میں نظم پیدا کرنے کی وصیت‬ ‫ٰ‬ ‫ٓاپ نے فرمایا ’’میں تمہیں زندگی میں‬
‫کرتا ہوں۔‘‘ امیرالمومنین کی یہ وصیت اور نصیحت ظاہراً حسنین کریمین کے لئے تھی‬
‫لیکن ان کے ذریعے یہ وصیت پوری امت مسلمہ بلکہ پورے عالم انسانیت کو تھی کہ ہر‬
‫ہر انسان اپنی زندگی کو کس نہج اور کس خط پر بسر کرے۔ علی ؑ کی وصیت جہاں ہمیں‬
‫علی ؑ کے امام المتقین ہونے کی یاد دالتی ہے‪ ،‬وہاں پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ ہم اپنی‬
‫تقوی اور ُزہد کو بغیر ریا کاری اور نمود و‬
‫ٰ‬ ‫زندگی کے ہر انفرادی اور اجتماعی پہلو میں‬
‫نمائش کے نافذ کریں‪ ،‬کیونکہ علی ؑ کے نزدیک ’’بہترین ُزہد‪ُ ،‬زہد کو مخفی رکھنا ہے۔‘‘‬

‫اخالق اور حضرت علی‪‬‬


‫از‪ :‬محمد شمیم اختر قاسمی‪ ،‬شعبہ سنی دینیات‪ ،‬اے ایم یو‪ ،‬علی گڑھ‬
‫‪ ‬‬

‫والدت سے وفات تک‪:‬‬


‫حضرت علی کرم ہللا وجہہ بن ابی طالب فاطمہ بنت اسد کے بطن س‪ii‬ے ای‪ii‬ک روایت کے‬
‫مطابق اندرون خانہ کعبہ چھٹی صدی عیسوی میں پی‪ii‬دا ہ‪ii‬وئے۔ صغرس‪ii‬نی میں بعض وج‪ii‬وہ‬
‫کی بنا پر حضور صلی ہللا علیہ وسلم کی کفالت میں آگئے اور دربار نب‪ii‬وت س‪ii‬ے آخ‪ii‬ر ت‪ii‬ک‬
‫جڑے رہے۔ دس سال کی عمر میں اسالم قبول کیا۔ خود فرمایا کرتے تھے کہ میں نے بتوں‬
‫کی پوجا کبھی نہیں کی‪ ،‬اور آنحضرت صلی ہللا علیہ وس‪ii‬لم کے بع‪ii‬د مجھ س‪ii‬ے پہلے کس‪ii‬ی‬
‫نے خدا کی عبادت نہیں کی۔ابتدائی عمر س‪ii‬ے ہی حض‪ii‬ور س‪ii‬ے از ح‪ii‬د زی‪ii‬ادہ محبت ک‪ii‬رتے‬
‫تھے۔ جب کوہ صفا پر چڑھ کر حضور نے اعالن نبوت کیاتو آپکی آواز پ‪ii‬ر کس‪ii‬ی نے بھی‬
‫کان نہیں دھرا‪ ،‬مگر حضرت علی جو اس وقت عمر میں صرف ‪ /۱۵‬س‪ii‬ال کے تھے‪ ،‬کہ‪ii‬ا‪:‬‬
‫”گوکہ میں عمر میں چھوٹا ہوں اور مجھے آشوب چشم ک‪ii‬ا عارض‪ii‬ہ ہے‪ ،‬اورم‪ii‬یری ٹ‪ii‬انگیں‬
‫پتلی ہیں‪ ،‬تاہم آپ کا باور دست و بازو بنوں گا۔ جس وقت آپ کی عمر ‪ ۲۲‬س‪ii‬ال کی تھی آپ‬
‫اپنی جان کی بازی لگاکر حضور صلی ہللا علیہ وسلم کے بستر پ‪ii‬ر پ‪ii‬وری رات لی‪ii‬ٹے رہے‬
‫اور حضور صلی ہللا علیہ وسلم ہجرت کے ل‪ii‬یے نک‪ii‬ل گ‪ii‬ئے۔ اس کے تین دن بع‪ii‬د خ‪ii‬ود بھی‬
‫حضور سے جاملے۔ مدینہ پہنچنے کے بعد جب نبی صلی ہللا علیہ وسلم کا جو مظ‪ii‬اہرہ کی‪ii‬ا‬
‫اور جو کارہائے نمایاں انجام دئ‪i‬یے وہ آپ کی زن‪i‬دگی ک‪i‬ا اہم ب‪i‬اب ہے۔ س‪i‬وائے ای‪i‬ک جن‪i‬گ‬
‫کے آپ نے ہ‪ii‬ر جن‪ii‬گ میں ش‪ii‬رکت کی اور داد ش‪ii‬جاعت دی‪ii‬ا۔ غ‪ii‬زوئہ تب‪ii‬وک کے موق‪ii‬ع پ‪ii‬ر‬
‫حضور صلی ہللا علیہ وسلم نے آپ ک‪ii‬و جن‪ii‬گ میں ش‪ii‬رکت س‪ii‬ے روک دی‪ii‬ا اور اہ‪ii‬ل بیت کی‬
‫حفاظت ونگرانی کے لیے مدینہ ہی میں رہنے کا حکم دی‪i‬ا ت‪i‬و اس ک‪ii‬ا آپ ک‪ii‬و بہت قل‪i‬ق ہ‪i‬وا‪،‬‬
‫مگر حضور صلی ہللا علیہ وسلم نے یہ کہہ کر ان کے اعزاز کو بلند کیا کہ ”علی تم اس‪ii‬ے‬
‫‪i‬ی‪ ‬کے‬ ‫پسند نہیں کرتے کہ میرے نزدیک تمہارا وہ مقام اور درجہ ہو جو ہ‪ii‬ارون‪ ‬ک‪ii‬ا موس‪ٰ i‬‬
‫نزدیک تھا۔ حضرت علی کی اہمیت حضور صلی ہللا علیہ وسلم کے نزدی‪ii‬ک کت‪ii‬نی تھی اس‬
‫کا اندازہ اس ب‪ii‬ات س‪ii‬ے لگای‪ii‬ا جاس‪ii‬کتا ہے کہ حض‪ii‬ور ص‪ii‬لی ہللا علیہ وس‪ii‬لم ب‪ii‬العموم اہم اور‬
‫مشکل ترین امور کی انجام دہی کے لیے حضرت علی کو مامور فرماتے۔ جب تک حضور‬
‫صلی ہللا علیہ وسلم زن‪ii‬دہ رہے‪ ،‬دامے‪ ،‬درمے‪ ،‬ق‪ii‬دمے‪ ،‬س‪ii‬خنے ہ‪ii‬ر لح‪ii‬اظ س‪i‬ے حض‪ii‬ور کی‬
‫فرماں برداری اور اطاعت کرتے رہے۔ اسی جاں نثاری کو دیکھ کر حض‪ii‬ور نے غ‪ii‬دیر خم‬
‫کے خطبہ میں فرمایا کہ‪” :‬جو علی کا دش‪ii‬من ہے وہ م‪ii‬یرا بھی دش‪ii‬من ہے اور ج‪ii‬و علی ک‪ii‬ا‬
‫دوست ہے وہ میرا بھی دوس‪ii‬ت ہے۔ حض‪ii‬ور ص‪ii‬لی ہللا علیہ وس‪ii‬لم کی وف‪ii‬ات کے بع‪ii‬د خلیفہ‬
‫س‪ii‬وم کے زم‪ii‬انے ت‪ii‬ک میں بھی اہم کارن‪ii‬امے اور خ‪ii‬دمات انج‪ii‬ام دیں اور جنگی مع‪ii‬رکے‬
‫سرکیے۔ اور جب خود خلیفہ ب‪ii‬نے ت‪ii‬و ب‪ii‬اوجود پ‪ii‬ورے مل‪ii‬ک میں ب‪ii‬دامنی اور خلفش‪ii‬اری کے‬
‫حاالت پر قابوپائے‪ ،‬مگر دشمنوں نے آپ کو زیادہ دن حکومت ک‪ii‬رنے نہیں دی‪ii‬ا اور آپ ک‪ii‬و‬
‫قتل کردیا۔ آپ ک‪ii‬ا انتق‪ii‬ال ‪۴۰‬ھء میں ہ‪ii‬وا۔ ک‪ii‬ل ‪/۴‬س‪ii‬ال ن‪i‬و مہی‪ii‬نے حک‪ii‬ومت کرس‪i‬کے۔ آپ کی‬
‫تعلیمات‪ ،‬خطبات‪ ،‬وصایا‪ ،‬انشاپردازی اور اخالقی اقدارکا شاہکار مجموعہ نہج البالغہ ہے‪،‬‬
‫جسے شریف رضی نے جمع کیا ہے۔ پیش نظر مض‪ii‬مون میں حض‪ii‬رت علی‪ ‬کے بعض اہم‬
‫اخالقی قدروں پر روشنی ڈالی گئی ہے جو انسانوں کے لیے مینارئہ نور ہیں۔‬
‫نبی کے اخالق کا اثر‬
‫حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم کی بعثت کے مقاصد میں ایک اہم مقص‪ii‬د یہ بھی تھ‪ii‬ا کہ‬
‫آپ خلق خدا کو ادب و احترام اور اخالقی اقدار و تہذیب کی تعلیم دیں۔ چنانچہ آپ ص‪ii‬لی ہللا‬
‫علیہ وسلم نے خود ہی فرمایا‪” :‬انا بعثت التمم مکارم االخالق“ (میں اخالق کی تکمی‪ii‬ل کے‬
‫‪i‬الی نے آپ کی اس خ‪ii‬وبی ک‪i‬و ق‪ii‬رآن ک‪ii‬ریم میں اس‬ ‫لیے بھیجا گیا ہ‪i‬وں) اور ہللا تب‪ii‬ارک و تع‪ٰ i‬‬
‫اعلی مرت‪ii‬بے پ‪ii‬ر‬
‫ٰ‬ ‫انداز میں بیان کیا ہے‪” :‬انک لعلی خلق عظیم“ (اے ن‪ii‬بی ! آپ اخالق کے‬
‫فائز ہیں) جب حض‪ii‬ور ص‪ii‬لی ہللا علیہ وس‪ii‬لم اس دارف‪ii‬انی س‪ii‬ے رخص‪ii‬ت فرم‪ii‬اگئے‪ ،‬ت‪ii‬و کچھ‬
‫لوگ حضرت عائشہ رضی ہللا عنہا کی خدمت میں حاضر ہوکر یہ معل‪i‬وم کرن‪i‬ا چاہ‪i‬ا کہ آپ‬
‫کا اخالق کیساتھا‪ ،‬تو انھوں نے جواب دیا ‪” :‬کان خلقہ القرآن“‪ ‬یعنی جو کچھ قرآن میں بی‪ii‬ان‬
‫کیاگیا ہے وہی آپ صلی ہللا علیہ وسلم کا اخالق تھا۔ اسی پس منظر میں حض‪ii‬رت علی ک‪ii‬رم‬
‫ہللا وجہ کے اخالق و کردار اور ان کی تعلیمات ک‪ii‬ا بھی مط‪ii‬العہ کرن‪ii‬ا چ‪ii‬اہیے۔ چ‪ii‬وں کہ آپ‬
‫در رسالت سے ابتدائی عمر سے آخر تک جڑے رہے‪ ،‬اس لیے ان کے بارے میں یہ کہا‬ ‫‪ِ  ‬‬
‫جاسکتا ہے جو طرز عمل اور اخالق و کردار حضور صلی ہللا علیہ وسلم ک‪ii‬ا تھ‪ii‬ا اس‪ii‬ی ک‪ii‬و‬
‫حضرت علی نے اپنی زندگی میں نافذ کیا۔ چنانچہ عالمہ سید ابوالحسن ندوی‪ ‬اس نکتہ پ‪ii‬ر‬
‫روشنی ڈالتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ‪:‬‬
‫”رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے خاندانی اورنس‪ii‬بی تعل‪ii‬ق‪ ،‬ای‪ii‬ک عم‪ii‬ر کی رف‪ii‬اقت اور‬
‫روز مرہ کی زندگی کو قریب سے دیکھنے کی وجہ سے س‪ii‬یدنا علی ک‪ii‬رم ہللا وجہہ ک‪ii‬و آپ‬
‫کے مزاج افتاد طبع سے اور ذات نب‪ii‬وی کی خ‪ii‬اص ص‪ii‬فات و کم‪ii‬االت س‪i‬ے گہ‪ii‬ری مناس‪ii‬بت‬
‫تعالی نے اپنے نبی برحق صلی ہللا علیہ وسلم کو نوازا تھ‪ii‬ا‪ ،‬وہ آپ‬
‫ٰ‬ ‫ہوگئی تھی‪ ،‬جن سے ہللا‬
‫کے میالن طبع اور مزاج کے رخ کو بہت باریک بینی اور چھوٹی بڑی باتوں کی نزاکت‪ii‬وں‬
‫کو سمجھتے تھے‪ ،‬جن کا آپ کے رجحان پر اث‪ii‬ر پڑت‪ii‬ا ہے‪ ،‬یہی نہیں بلکہ س‪ii‬یدنا علی ک‪ii‬رم‬
‫ہللا وجہہ کو ان کے بیان کرنے اور ایک ای‪ii‬ک گوش‪ii‬ہ کواج‪ii‬اگر ک‪ii‬رکے بت‪ii‬انے میں مہ‪ii‬ارت‬
‫تھی‪ ،‬آپ نے رسول صلی ہللا علیہ وسلم کے اخالق و رجح‪ii‬ان اور طری‪i‬ق تا ّم‪ii‬ل ک‪i‬و بہت ہی‬
‫بلیغ پیرایہ میں بیان کیا ہے۔“‬
‫اعلی مثال‬
‫ٰ‬ ‫اخالق فاضالنہ کی‬
‫حض‪ii‬رت علی ک‪ii‬رم ہللا وجہہ کے اخالق اور ان کی تعلیم‪ii‬ات ک‪ii‬ا مط‪ii‬العہ ک‪ii‬رتے وقت ان‬
‫عوامل ک‪ii‬و بھی اذہ‪ii‬ان و قل‪ii‬وب میں مستحض‪ii‬ر کرن‪ii‬ا چ‪ii‬اہئے کہ جن کی وجہ س‪ii‬ے آپ اپ‪ii‬نے‬
‫اصحاب میں ممت‪ii‬از و منف‪ii‬رد نظ‪ii‬ر آتے ہیں۔ ب‪ii‬اوجود خ‪ii‬انگی ذمہ داری‪ii‬وں کے حب ن‪ii‬بی میں‬
‫سرشار اور حضور صلی ہللا علیہ وس‪ii‬لم کی راحت رس‪ii‬انی کے ل‪ii‬یے ہ‪ii‬ر وقت بے چین اور‬
‫مضطرب نظر آتے ہیں۔ اپنے گھر فاقہ ہے مگر حضور صلی ہللا علیہ وس‪ii‬لم ک‪ii‬و اس ح‪ii‬الت‬
‫میں دیکھنا ایک پل کے لیے گوارہ نہیں۔ یہاں تک کہ محنت و مشقت اور م‪ii‬زدوری ک‪ii‬رکے‬
‫حضور صلی ہللا علیہ وسلم کی راحت رسانی کا انتظام فرماتے۔ ابن عس‪ii‬اکر کی روایت ہے‬
‫کہ‪:‬‬
‫”ایک روز رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے گھ‪ii‬ر میں ف‪ii‬اقہ تھ‪ii‬ا‪ ،‬حض‪ii‬رت علی ک‪ii‬رم ہللا‬
‫وجہہ کو معلوم ہوا تو وہ مزدوری کی تالش میں نکل گئے‪ ،‬تاکہ ات‪ii‬نی م‪ii‬زدوری م‪ii‬ل ج‪ii‬ائے‬
‫کہ رسول خدا کی ضرورت پوری ہوجائے۔ اس تالش میں ایک یہودی کے ب‪ii‬اغ میں پہنچے‬
‫اور اس کے ب‪ii‬اغ کی س‪ii‬ینچائی ک‪ii‬ا ک‪ii‬ام اپ‪ii‬نے ذمہ لی‪ii‬ا‪ ،‬م‪ii‬زدوری یہ تھی کہ ای‪ii‬ک ڈول پ‪ii‬انی‬
‫کھینچنے کی اجرت ایک کھجور‪ ،‬حضرت علی‪ ‬نے س‪ii‬ترہ ڈول کھینچے۔ یہ‪ii‬ودی نے انہیں‬
‫اختیار دیا کہ جس نوع کی کھجور چاہیں لے لیں‪،‬حضرت‪ i‬علی‪ ‬نے س‪ii‬ترہ عج‪ii‬وہ ل‪ii‬یے اور‬
‫رسول خدا کی خدمت میں پیش کردیا۔ فرمایا‪ :‬یہ کہ‪ii‬اں س‪i‬ے الئے؟‪ ،‬ع‪i‬رض کی‪i‬ا‪ :‬ی‪i‬ا ن‪i‬بی ہللا‬
‫مجھے معلوم ہوا ہے کہ آج گھر میں فاقہ ہے اس لیے مزدوری کے لیے نکل گیا ت‪ii‬اکہ کچھ‬
‫کھانے کا سامان کرسکوں۔ رسول نے فرمای‪ii‬ا‪ :‬تم ک‪ii‬و ہللا اور اس کے رس‪ii‬ول کی محبت نے‬
‫اس پر آمادہ کیا تھا۔ عرض کیا ہاں یا رسول ہللا! رس‪i‬ول نے فرمای‪ii‬ا‪ :‬ہللا اور اس کے رس‪i‬ول‬
‫سے محبت کرنے واال ایسا کوئی نہیں جس پر افالس اس تیزی سے آیا ہو جیسے سیالب کا‬
‫پانی اپنے رخ پر تیزی سے بہتا ہے اور جو ہللا اور اس کے رس‪ii‬ول س‪ii‬ے محبت ک‪ii‬رے اس‬
‫کو چاہیے کہ مصائب کے روک کیلئے ایک چھتری بنالے‪ ،‬یعنی حفاظت کا سامان کرلے۔“‬
‫اندرون خانہ اخالق وکردار کا مظاہرہ‬
‫ازدواجی زندگی میں شوہر اور بیوی کی مثال گاڑی کے اس پہیے کی طرح ہے کہ اگ‪ii‬ر‬
‫ان میں سے کوئی ایک اپنا کام کرنا چھوڑ دے ت‪ii‬و تھ‪ii‬وڑی دی‪ii‬ر کے ل‪ii‬یے اس‪ii‬ے گھس‪ii‬یٹا ت‪ii‬و‬
‫جاسکتا ہے مگر چالیا نہیں جاسکتا۔ ازدواجی زندگی کے لیے ضروری ہے کہ دون‪ii‬وں میں‬
‫تال میل ہو‪ ،‬دونوں ایک دوسرے کی محبت میں سرشار ہوں اور دون‪ii‬وں ای‪ii‬ک دوس‪ii‬رے کی‬
‫ضروریات و حقوق کا پاس کرتے ہوں۔ تب ہی دون‪i‬وں کی زن‪ii‬دگی آرام و س‪i‬کون س‪i‬ے بس‪ii‬ر‬
‫ہوسکتی ہے۔ آج کے معاشرہ پر نظر دوڑائیں تو معل‪ii‬وم ہوت‪ii‬ا ہے کہ اس مع‪ii‬املے میں کت‪ii‬نی‬
‫بے چینی اور خلفشاری ہے‪ ،‬بالخصوص موڈرن طبقہ میں تو دونوں ایک دوسرے کو کسی‬
‫خ‪ii‬اطر میں نہیں التے اور مغ‪ii‬رب میں ت‪ii‬و یہ چ‪ii‬یز فیش‪ii‬ن بن گ‪ii‬ئی ہے‪ ،‬جس کے ن‪ii‬تیجہ میں‬
‫خرابیاں ہی خرابیاں نظر آتی ہیں۔ ایسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ حضرت علی کے اخالق و‬
‫کردار کا مطالعہ کریں اور اس پر عمل کریں‪ ،‬ج‪ii‬و مش‪ii‬عل راہ ہیں۔ روایت‪ii‬وں میں آت‪ii‬ا ہے کہ‬
‫حضرت علی باوجود غربت و افالس کے اپنی زوجہ محترمہ خ‪ii‬اتون جنت حض‪ii‬رت ف‪ii‬اطمہ‬
‫رضی ہللا عنہا کی راحت رس‪ii‬انی میں ک‪ii‬وئی کس‪ii‬ر نہیں چھ‪ii‬وڑتے‪ ،‬خ‪ii‬ود بھ‪ii‬وکے رہ ج‪ii‬اتے‬
‫مگر اپنی اہلیہ کے خورد و نوش کا انتظام فرماتے۔ یہاں تک ان کی راحت رسانی کے لیے‬
‫اپنے دونوں بیٹے حضرت حسن اور حسین کو بھی ان سے دن بھر کے ل‪ii‬یے ج‪ii‬دا کردی‪ii‬تے‬
‫تاکہ بچے کی محبت سے ماں کی ممتا متاثر نہ ہوسکے۔ طبرانی کی روایت ہے کہ‪:‬‬
‫”حضرت فاطمہ نے بتایا کہ ای‪ii‬ک روز رس‪ii‬ول خ‪ii‬دا ان کے گھ‪ii‬ر آئے اور فرمای‪ii‬ا م‪ii‬یرے‬
‫بچے کہاں ہیں؟ (یعنی حسن‪ ‬اور حسین‪ )‬فاطمہ نے کہا‪ :‬آج ہم ل‪ii‬وگ ص‪ii‬بح اٹھے ت‪i‬و گھ‪i‬ر‬
‫میں ایک چ‪ii‬یز بھی ایس‪ii‬ی نہ تھی جس ک‪ii‬و ک‪i‬وئی چکھ س‪i‬کے۔ ان کے وال‪i‬د نے کہ‪i‬ا‪ :‬میں ان‬
‫دونوں کو لیکر باہر جات‪ii‬ا ہ‪ii‬وں اگ‪ii‬ر گھ‪ii‬ر پ‪ii‬ر رہیں گے ت‪ii‬و تمہ‪ii‬ارے س‪ii‬امنے روئیں گے اور‬
‫تمہارے پاس کچھ ہے نہیں کہ کھالکر خاموش کرو۔ چنانچہ وہ فالں یہودی کی طرف گ‪ii‬ئے‬
‫ہیں۔ رسول وہاں تشریف لے گئے‪ ،‬دیکھا یہ دونوں بچے ایک صراحی سے کھی‪ii‬ل رہے ہیں‬
‫اور ان کے سامنے بچا کھچا ادھ کٹا قسم کا کھجور ہے۔ رس‪ii‬ول نے فرمای‪ii‬ا‪ :‬علی اب بچ‪ii‬وں‬
‫کو گھر لے چلو‪ ،‬دھوپ بڑھ رہی ہے۔ انھوں نے کہا‪ :‬یا رسول ہللا آج ص‪ii‬بح س‪ii‬ے گھ‪ii‬ر میں‬
‫ایک دانہ نہیں ہے‪ ،‬تو اگر آپ یا رسول ہللا تھ‪ii‬وڑی دی‪ii‬ر تش‪ii‬ریف رکھیں ت‪ii‬و میں ف‪ii‬اطمہ کے‬
‫لیے کچھ بچے کھچے کھجور جمع کرلوں۔ یہ س‪ii‬ن ک‪ii‬ر رس‪ii‬ول ہللا ص‪ii‬لی ہللا علیہ وس‪ii‬لم بیٹھ‬
‫گئے‪ ،‬یہاں تک کہ ف‪ii‬اطمہ کے ل‪ii‬یے کچھ بچے کھچے کھج‪ii‬ور جم‪ii‬ع ہوگ‪ii‬ئے۔ حض‪ii‬رت‪ i‬علی‬
‫‪ ‬نے کھجور ایک کپڑے میں باندھ لیے۔“‬
‫بڑے اور چھوٹے کا دائرہ کار‬
‫ای‪ii‬ک ص‪ii‬الح معاش‪ii‬رہ کی تش‪ii‬کیل میں ب‪ii‬ڑے اور چھ‪ii‬وٹے ک‪ii‬ا ادب و اح‪ii‬ترام اور ش‪ii‬فقت و‬
‫ہمدردی ازحد ضروری ہے۔ ایک باپ کے لیے ضروری ہے کہ وہ نہ ص‪ii‬رف اپ‪ii‬نے بچ‪ii‬وں‬
‫کے س‪i‬اتھ ہی اچھ‪i‬ا برت‪i‬اؤ ک‪i‬رے اور ان کے س‪i‬اتھ ش‪i‬فقت و ہم‪i‬دردی س‪i‬ے پیش آئے اس کی‬
‫دلجوئی اوراس کے کھیل کود‪ ،‬سیر و تفریح کے مواقع بھی فراہم کرے بلکہ سماج کے اور‬
‫دوس‪iii‬رے بچ‪iii‬وں کے بھی اس کے دل میں محبت و ہم‪iii‬دردی ہ‪iii‬ونی چ‪iii‬اہیے۔ اوراس کے‬
‫برعکس چھوٹوں کو چاہیے کہ وہ ادب و احترام کا مظ‪i‬اہرہ ک‪i‬ریں۔ دراص‪i‬ل ای‪i‬ک گ‪i‬ونہ ذمہ‬
‫داری بڑوں کی ہے کہ وہ اپنے چھوٹوں کی زندگی بنانے اور سنوارنے پر متوجہ ہوں۔ اس‬
‫کو اچھی تعلیم دیں اوراس کی عمدہ سے عمدہ تربیت کریں لغویات سے بچ‪ii‬ائے رکھیں اور‬
‫یہ تمام خوبیاں جو سراسر اخالق پ‪ii‬ر مب‪ii‬نی ہیں حض‪ii‬رت علی ک‪ii‬رم ہللا وجہہ میں ب‪ii‬درجہ اتم‬
‫موجود تھی‪ ،‬جس طرح حض‪ii‬ور اک‪ii‬رم ص‪ii‬لی ہللا علیہ وس‪ii‬لم بچ‪ii‬وں کے ح‪ii‬ق میں بہت ش‪ii‬فیق‬
‫تھے‪ ،‬ان سے ہنسی کھیل کرتے‪،‬اور ان کی دل جوئی کرتے‪ ،‬ٹھیک یہی طرز عم‪ii‬ل آپ ک‪ii‬ا‬
‫تھا۔ اور ایسے لوگوں کو پسند کرتے جو بچوں کی دلجوئی اور دل بستگی کی ب‪ii‬اتیں ک‪ii‬رتے‬
‫تھے‪ ،‬اور ان کے سامنے وہی بات اور کام کرتے جس کا مثبت اثر بچوں کی ذات پر پڑے۔‬
‫یہاں تک کہ اپنے اقوال حکیمانہ سے اس امر کی بھی وضاحت کی ہے کہ‪:‬‬
‫”باپ کا بیٹے پر اور بیٹے کا باپ پر حق ہے۔ باپ کا حق یہ ہے کہ بیٹا ہر ح‪ii‬ال میں اس‬
‫کی اطاعت کرے‪ ،‬اال یہ کہ باپ کسی معصیت کی بات کا حکم دے‪ ،‬اس میں اس کا اتباع نہ‬
‫کیا جائے‪ ،‬اور باپ پر بیٹے کا یہ حق ہے کہ اس ک‪ii‬ا اچھ‪ii‬ا ن‪ii‬ام رکھے‪ ،‬اچھی ت‪ii‬ربیت ک‪ii‬رے‬
‫اور قرآن پڑھائے۔“‬
‫آج ہمارے معاشرہ میں باپ اور بی‪ii‬ٹے دون‪ii‬وں ک‪ii‬و ای‪ii‬ک دوس‪ii‬رے س‪ii‬ے ش‪ii‬کایت ہے‪ ،‬اور‬
‫دون‪ii‬وں ای‪ii‬ک دوس‪ii‬رے کے حق‪ii‬وق کی ادائیگی میں کوت‪ii‬اہی ک‪ii‬رتے ہیں اور بعض‪ii‬ے وقت‬
‫صورت حال بہت خراب ہوجاتی ہے۔ اس کی وجہ سوائے اس کے اور کیا ہوس‪ii‬کتی ہے کہ‬
‫ہم نے اس اخالقی تعلیمات کو سرے سے بھالرکھا ہے۔ درخت اپنے پھ‪ii‬ل س‪ii‬ے پہچان‪ii‬ا جات‪ii‬ا‬
‫ہے اور باغبان درخت کو بنانے اور سنورانے میں کتنی محنت اور جاں فشانی کرت‪ii‬ا ہے ہم‬
‫اور آپ سبھی جانتے ہیں۔ آج ہم بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے رجوع کرتے ہیں مغ‪ii‬ربی‬
‫طریقہ تعلیم کی طرف اور قرآن جو سراپا ہدایت ہے اسے پس پشت ڈال رکھا ہے۔‬
‫ٴ‬
‫حقوق النسا‪:‬‬
‫عصر حاضر میں یہ پروپیگنڈہ بڑے پیمانے پر پھیالیا جارہ‪i‬ا ہے اور خ‪ii‬اص ک‪ii‬ر مغ‪ii‬ربی‬
‫ذہن رکھنے والے حضرات‪ i‬کہتے ہیں کہ اسالم میں عورت‪ii‬وں ک‪ii‬و کس‪ii‬ی قس‪ii‬م ک‪ii‬ا ک‪ii‬وئی ح‪ii‬ق‬
‫حاصل نہیں ہے‪ ،‬اسالم نے عورتوں کے ساتھ س‪ii‬ختی ک‪ii‬رنے اور انہیں س‪ii‬تانے ک‪ii‬ا حکم دی‪ii‬ا‬
‫ہے۔ ہم اس سلسلے میں تفص‪ii‬یل میں نہ ج‪ii‬اکر ص‪ii‬رف یہ کہ‪ii‬تے ہیں کہ دنی‪ii‬ا کے جت‪ii‬نے بھی‬
‫مذاہب ہیں اور اس میں عورتوں کو جس قدر حقوق اورآزادی حاصل ہے وہ اس‪ii‬الم ک‪ii‬ا رہین‬
‫منت ہے‪ ،‬اگر اسالم نہ آتا تو آج بھی عورت ذلیل و خ‪i‬وار ہی رہ‪i‬تی اور مغ‪i‬رب نے ع‪i‬ورت‬
‫کو جو آزادی دے رکھی ہے اس سے کہاں اس کی تحسین ہ‪ii‬وتی ہے بلکہ تحق‪ii‬یر ہ‪ii‬وتی ہے۔‬
‫اسالم نے ہرحال میں عورتوں کے حق‪ii‬وق کی حف‪ii‬اظت کی ہے۔ جن‪ii‬گ ہ‪ii‬و ی‪ii‬ا امن کی ح‪ii‬الت‪i‬‬
‫میں‪ ،‬گھر میں ہو یا کسی دینی محفل میں اس کے ساتھ اچھا برتاؤکرنے کا حکم دیاگی‪ii‬ا ہے‪،‬‬
‫جس کے شواہد ق‪ii‬رآن و ح‪ii‬دیث میں موج‪ii‬ود و محف‪ii‬وظ ہیں۔ یہ‪ii‬اں ت‪ii‬ک کہ ”نہج البالغہ“ ج‪ii‬و‬
‫حض‪ii‬رت علی ک‪ii‬رم ہللا وجہہ کی تعلیم‪ii‬ات اور خطب‪ii‬ات ک‪ii‬ا مجم‪ii‬وعہ ہے اس میں بھی ک‪ii‬ئی‬
‫مقامات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ بلکہ حض‪ii‬رت علی نے جن‪ii‬گ ص‪ii‬فین کے موق‪ii‬ع پ‪ii‬ر اپ‪ii‬نے‬
‫لشکروں کو رموز جنگ و حرب بتائے اس میں بھی اس ب‪ii‬ات پ‪ii‬ر زور دی‪ii‬ا کہ ہ‪ii‬ر ح‪ii‬ال میں‬
‫عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جائے۔ آپ نے فرمایا‪:‬‬
‫”لڑائی میں تم پہل نہ کرو‪ ،‬دشمن کو پہل کرنے دو‪ ،‬اس لیے کہ تم بحمدہللا حق و حمایت‬
‫پر استوار ہو‪ ،‬ان کے حملے سے پہلے تمہارا حملہ نہ کرنا ان پر تمہاری طرف س‪ii‬ے ای‪ii‬ک‬
‫اور حجت ہوجائے گا‪ ،‬اگر بحکم خدا دشمن کو شکست ہو تو نہ بھاگنے والے کوقت‪ii‬ل کرن‪ii‬ا‪،‬‬
‫نہ ہتھیار ڈال دینے والے کو‪ ،‬نہ کسی زخمی کو مارنا‪ ،‬نہ کسی عورت ک‪ii‬و س‪ii‬تانا اگ‪ii‬رچہ وہ‬
‫تمہیں گالیاں دیں اور تمہارے افسروں کو کوسیں‪ ،‬عورتیں کمزور ہوتی ہیں اپنے جس‪ii‬م میں‬
‫بھی نفس میں بھی۔ ہمیں عورتوں سے تعرض نہ کرنے کا حکم دی‪ii‬ا جات‪ii‬ا تھ‪ii‬ا‪ ،‬ح‪ii‬االں کہ وہ‬
‫مشرکین تھیں۔ جاہلیت‪ i‬میں بھی اگر کوئی آدمی عورت کو پتھر یا الٹھی سے ماردیتا تھا ت‪ii‬و‬
‫خود بھی رسوا ہوجاتا تھا اور اس کی نسلوں کو بھی نام دھرا جاتا تھا۔“‬
‫احترام مسلم‬
‫آپ نے زمام حکومت س‪ii‬نبھالتے ہی اس ب‪ii‬ات پ‪ii‬ر زور دی‪ii‬ا کہ ہ‪ii‬ر ح‪ii‬ال میں مس‪ii‬لمانوں ک‪ii‬ا‬
‫احترام کیا جائے اور ان کے خون کا ضیاع نہ ہ‪ii‬و۔ ح‪ii‬االں کہ جس خلفش‪ii‬اری اور بے چی‪ii‬نی‬
‫کے عالم میں آپ مسند خالفت پر آراستہ ہوئے اس کا تقاضا تھا کہ ہر طرف جن‪i‬گ و ج‪i‬دال‬
‫کا بازار گرم ہوجائے‪ ،‬مگر آپ نے بڑے ہی دور اندیش‪ii‬ی اور خ‪ii‬یر اندیش‪ii‬ی س‪ii‬ے ک‪ii‬ام لیک‪ii‬ر‬
‫حالت پر کسی حد تک قابو پایا اور اخالق و کردار کا جو مظاہرہ آپ نے اس حالت میں کی‪ii‬ا‬
‫وہ سنہرے حروف سے لکھے ج‪ii‬انے کے الئ‪ii‬ق ہے۔ آپ نے اپ‪ii‬نے ابت‪ii‬دائی خطبہ میں جمعہ‬
‫کے دن منبر پر چڑھ کر لوگوں کو خطاب کی‪ii‬ا اس میں اخالقی ق‪ii‬دروں کی جل‪ii‬وہ نم‪ii‬ائی ہے‬
‫جو دل کی زبانی ہے۔ فرمایا‪:‬‬
‫تعالی اپنی کتاب کو ہادی بن‪ii‬اکر بھیج‪ii‬ا ہے‪ ،‬ج‪ii‬و خ‪ii‬یر و ش‪ii‬ر ک‪ii‬و وض‪ii‬احت کے س‪ii‬اتھ‬ ‫ٰ‬ ‫”ہللا‬
‫تعالی نے بہت س‪ii‬ی‬ ‫ٰ‬ ‫بتاتی ہے‪ ،‬لہٰ ذا خیر کو اختیار کیجئے اور شر سے کنارہ کش رہیے۔ ہللا‬
‫چیزوں کو حرمت کا درجہ دیا ہے‪ ،‬ان میں سب سے فائق حرمت مس‪ii‬لمان کی ہے۔ توحی‪ii‬د و‬
‫اخالص کے ذریعہ مس‪ii‬لمانوں کے حق‪ii‬وق ک‪ii‬و ہللا نے مض‪ii‬بوطی س‪ii‬ے مرب‪ii‬وط کردی‪ii‬ا ہے۔‬
‫مس‪ii‬لمان وہ ہے جس کے ہ‪ii‬اتھ اور زب‪ii‬ان س‪ii‬ے تم‪ii‬ام مس‪ii‬لمان محف‪ii‬وظ رہیں‪ ،‬اال یہ کہ دین و‬
‫احکام شریعت ہی کا تقاضا ہو کہ مس‪i‬لمان ک‪i‬ا احتس‪i‬اب کی‪i‬ا ج‪i‬ائے اوراس پ‪i‬ر ق‪i‬انون ش‪i‬رعی‬
‫جاری کیا جائے‪ i،‬کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ کسی مس‪ii‬لمان ک‪ii‬و ای‪ii‬ذا پہنچ‪ii‬ائے‪،‬‬
‫اال یہ کہ ایسا کرنا واجب ہو‪ ،‬عوام و خواص دون‪ii‬وں کے حق‪ii‬وق ادا ک‪ii‬رنے میں عجلت س‪ii‬ے‬
‫کام لیجیے‪ ،‬لوگ آپ کے سامنے ہیں اور پیچھے قی‪ii‬امت ہے ج‪ii‬و آگے ب‪ii‬ڑھ رہی ہے‪ ،‬اپ‪ii‬نے‬
‫آپ کو ہلکا پھلکا رکھیے کہ م‪ii‬نزل ت‪ii‬ک پہنچ س‪ii‬کیں‪ ،‬آخ‪ii‬رت کی زن‪ii‬دگی لوگ‪ii‬وں کی منتظ‪ii‬ر‬
‫ہے‪ ،‬خ‪ii‬دا کے بن‪ii‬دوں اور ان کی س‪ii‬رزمین کے حق‪ii‬وق کی ادائیگی کے سلس‪ii‬لہ میں ہللا س‪ii‬ے‬
‫ڈرتے رہیے‪ ،‬بہائم اور زمین کے بارے میں بھی (قیامت میں) آپ سے سوال ہوگا‪ ،‬پھر میں‬
‫کہتا ہوں کہ ہللا کی اطاعت کیج‪ii‬یے اور اس کی معص‪ii‬یت و نافرم‪ii‬انی س‪ii‬ے بچ‪ii‬ئے‪ ،‬اگ‪ii‬ر آپ‬
‫خیر کا کام دیکھیں اس کو اختیار کریں اور اگر شر دیکھیں تواس کو چھوڑ دیں‪َ ” :‬و ْاذ ُک‪ ##‬ر ُْوا‬
‫ا ِْذ اَ ْن ُت ْم َقلِ ْی ٌل مُسْ َتضْ َعفُ ْون فِی ااْل َرْ ِ‬
‫ض َت َخافُ ْو َن اَنْ َّی َت َخ َّط َفکُ ُم ال َّناسُ َف ٰا ٰو ُک ْم َواَ َّی َد ُک ْم ِب َن ْ‬
‫ص‪ِ #‬رہ َو َر َز َقکُ ْم‬
‫ُون“ (اور ی‪ii‬اد ک‪ii‬رو جس وقت تم تھ‪ii‬وڑے تھے مغل‪ii‬وب پ‪ii‬ڑے ہ‪ii‬وئے‬ ‫ت َل َعلَّکُ ْم َت ْشکُر َ‬ ‫م َِّن َّ‬
‫الطی ِّٰب ِ‬
‫ملک میں ڈرتے کہ اچک لیں تم کو لوگ پھر اس نے تم کو ٹھکان‪ii‬ا دی‪ii‬ا اور ق‪ii‬وت دی تم ک‪ii‬و‬
‫اپنی مدد سے اور روزی دی تم کو ستھری چیزیں تاکہ تم شکر کرو۔ ”انفال“)‬
‫ارکان سلطنت کی حکم عدولی‬
‫حضرت علی نے ارکان سلطنت اور رعایا کی ان کمزوری‪ii‬وں اور حکم ع‪ii‬دولیوں ک‪ii‬ا بھی‬
‫احتساب کیا ہے جو اولی االمر کی آواز پر ک‪i‬ان نہیں دھ‪i‬رتے اور مسلس‪i‬ل حکم ع‪i‬دولی کے‬
‫مرتکب ہوتے ہیں جس سے سلطنت کے نظ‪ii‬ام میں خل‪ii‬ل واق‪ii‬ع ہوت‪ii‬ا ہے۔ مگ‪ii‬ر آپ یہ‪ii‬اں بھی‬
‫اخالقی اقدار کو ملحوظ رکھتے ہیں اور مش‪ii‬یران س‪ii‬لطنت ک‪ii‬و ب‪ii‬ڑے ہی لطی‪ii‬ف پ‪ii‬یرائے میں‬
‫نصیحت کرتے ہیں کہ ان کے اعمال و افعال سے سلطنت کے لیے مس‪ii‬ائل و مش‪ii‬کالت پی‪ii‬دا‬
‫ہورہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی حکومت میں ج‪ii‬و خلفش‪ii‬ار پی‪ii‬دا ہ‪ii‬وا وہ آپ ک‪ii‬ا ح‪ii‬د س‪ii‬ے‬
‫زیادہ امرا اور ارکان سلطنت کے ساتھ نرمی و مالطفت کا مع‪ii‬املہ رہ‪ii‬ا۔ اور اپ‪ii‬نے دش‪ii‬منوں‬
‫اور مخالفوں کو ہمیشہ معاف اور نظر انداز کرتے رہے‪ ،‬مگر آپ نے اسے بھی اپنے ل‪ii‬یے‬
‫ایک آزمائش ہی سمجھا۔ آپ نے ایک موقع پر فرمایا‪:‬‬
‫”میری ان لوگوں کے ذریعہ آزمائش ہورہی ہے جو اطاعت نہیں ک‪ii‬رتے؛ جب انہیں حکم‬
‫دیتاہوں اور جواب نہیں دیتے جب پکارتاہوں‪ ،‬تمہارا ب‪ii‬اپ مرج‪ii‬ائے تمہیں اپ‪ii‬نے پروردگ‪ii‬ار‬
‫کی مدد کرنے میں کس ب‪ii‬ات ک‪ii‬ا انتظ‪ii‬ار ہے؟ کی‪ii‬ا دین تمہیں اکٹھ‪ii‬ا نہیں کرت‪ii‬ا اور کی‪ii‬ا حمیت‬
‫تمہیں نہیں کھینچتی؟ میں تمہارے اندر کھ‪ii‬ڑے ہ‪ii‬وکر پکارت‪ii‬ا ہ‪ii‬وں اور تمہیں م‪ii‬دد کے ل‪ii‬یے‬
‫بالتا ہوں مگر تم میری بات نہیں سنتے اور نہ میرا حکم مانتے ہو۔“‬
‫دنیا سے بے رغبتی‬
‫آپ کی زندگی کا یہ پہلو بھی بڑا ہی تابناک ہے کہ ان کے اندر دنیا سے بے رغب‪ii‬تی اور‬
‫خشیت ٰالہی کی موجیں ہر وقت ٹھاٹھیں مارتا رہتا تھا۔ انھوں نے پ‪ii‬وری زن‪ii‬دگی اس س‪ii‬ادگی‬
‫سے گزاری اور بسر کی کہ دیکھنے والوں کو تعجب ہوت‪ii‬ا تھ‪ii‬ا۔ آپ کی س‪ii‬ادگی‪ ،‬نفس کش‪ii‬ی‬
‫اور دنیا سے بے رغب‪ii‬تی ک‪ii‬ا ان‪ii‬دازہ ک‪ii‬رنے کے ل‪ii‬یے زی‪ii‬د بن وہب کی من‪ii‬درجہ ذی‪ii‬ل روایت‬
‫مالحظہ فرمائیں‪ ،‬وہ کہتے ہیں کہ‪:‬‬
‫”ایک بار حضرت علی رضی ہللا عنہ اپنے گھر سے اس حال میں نکلے کہ ایک تہہ بند‬
‫باندھے ہوئے تھے اور ایک چادر سے جسم ڈھکے ہوئے تھے‪ ،‬تہ بند کو کپڑے کے ای‪ii‬ک‬
‫چیتھڑے سے (کمربند کی جگہ) باندھ رکھا تھا‪ ،‬ان سے کہا گیا آپ اس لباس میں کس طرح‬
‫رہتے ہیں‪ ،‬تو فرمایا‪ :‬یہ لباس اس لیے پسند کرت‪ii‬اہوں کہ یہ نم‪ii‬ائش س‪ii‬ے بہت دور اور نم‪ii‬از‬
‫میں عافیت دہ ہے اور مومن کی سنت ہے۔“‬
‫ایک دوسری روایت میں ہے جسے ابوعبیدہ نے عنترہ سے سنا ہے‪:‬‬
‫”میں خورنق میں علی ابن ابی طالب کے پاس گیا‪ ،‬وہ ای‪ii‬ک چ‪ii‬ادر اوڑھے ہ‪ii‬وئے س‪ii‬ردی‬
‫س‪ii‬ے ک‪ii‬انپ رہے تھے‪ ،‬میں نے کہ‪ii‬ا امیرالموم‪ii‬نین! ہللا نے آپ اورآپ کے اف‪ii‬راد خ‪ii‬انہ کے‬
‫لیے اس مال میں حصہ رکھا ہے اور آپ سردی سے ک‪ii‬انپ رہے ہیں۔ فرمای‪ii‬ا‪ :‬میں تمہ‪ii‬ارے‬
‫مال میں سے کچھ نہیں لیتا‪ ،‬م‪i‬یری یہی چ‪i‬ادر ہے جس ک‪i‬و میں اپ‪i‬نے گھ‪i‬ر س‪i‬ے لیک‪i‬ر نکال‬
‫تھا۔“‬
‫بیت المال کی رقم سے احتراز‬
‫دنیا کی تاریخ اٹھاکر دیکھی جائے کہ حاکم وقت اپنی ذات پراور اہل و عیال پر کس ق‪ii‬در‬
‫بے جا روپیہ خرچ کرتے ہیں اور اپنی رعیت ک‪ii‬ا بالک‪ii‬ل ہی خی‪ii‬ال نہیں ک‪ii‬رتے اور گوی‪ii‬ا کہ‬
‫پوری زندگی عیش کوشی اور لہو ولعب میں بسر ہوتی ہے۔ بس آخری کوشش ہوتی ہے کہ‬
‫اعلی منص‪i‬ب ک‪i‬و حاص‪i‬ل‪ i‬کی‪ii‬ا ج‪ii‬ائے اور جب اس میں کامی‪i‬اب ہوج‪i‬اتے ہیں ت‪i‬و‬ ‫ٰ‬ ‫کسی ط‪i‬رح‬
‫خوف خدا ان کے دل سے نکل جاتا اور وہ ہر طرح کے اخالقی جرائم اور گن‪ii‬اہ میں مل‪ii‬وث‬
‫ہوجاتے۔ ایسے افراد کے لیے یہ کہ‪ii‬ا ج‪ii‬ائے کہ وہ حض‪ii‬رت علی ک‪ii‬ا اخالق و ک‪ii‬ردار اپ‪ii‬نے‬
‫اندر نافذ کریں اور ان کے طریقہ حکومت پر عمل ک‪ii‬ریں۔حض‪ii‬رت‪ i‬علی‪ ‬نے اپ‪ii‬نے پ‪ii‬ورے‬
‫دور خالفت میں ایک حبہ بھی بیت المال کا اپنی ذات پر خ‪ii‬رچ نہیں کی‪ii‬ا‪ ،‬بلکہ بعض لوگ‪ii‬وں‬
‫نے ان کو ہدایا دئیے اسے بھی خلق خدا کی امانت سمجھ کر بیت المال میں جمع کردی‪ii‬ا۔ آپ‬
‫نے بیت المال کی رقم کی اس طرح حفاظت کی کہ جس کی نظ‪ii‬یر نہیں مل‪ii‬تی۔ آپ ک‪ii‬و ای‪ii‬ک‬
‫صاحب نے ہدیہ دی‪ii‬ا اور وہ ہ‪ii‬دیہ کیاتھ‪ii‬ا وہ حض‪ii‬رت‪ i‬علی ک‪ii‬رم ہللا وجہہ کی زب‪ii‬انی مالحظہ‬
‫فرمائیں مگر اس کو بھی بیت المال میں پہنچادیا۔ آپ نے ایک خطبہ میں صراحت کی ہے‪:‬‬
‫”لوگو! ہللا کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں‪ ،‬میں نے تمہارے م‪ii‬ال س‪ii‬ے نہ تھ‪ii‬وڑا‬
‫لیا‪ ،‬نہ بہت سوائے اس شے کے‪ ،‬اور جیب سے ایک چھوٹی سی شیشی نک‪i‬ال ک‪i‬ر دکھ‪i‬ائی‪،‬‬
‫جس میں عطریا کوئی خوشبو تھی‪ ،‬حضرت علی نے کہا مجھے ایک دہقان نے یہ ہدیہ دی‪ii‬ا‬
‫ہے۔ پھ‪ii‬ر وہ بیت الم‪ii‬ال تش‪ii‬ریف لے گ‪ii‬ئے اور کہ‪ii‬ا یہ ل‪ii‬و۔ (وہ شیش‪ii‬ی بیت الم‪ii‬ال میں جم‪ii‬ع‬
‫کردی) اور یہ شعر پڑھنے لگے‪:‬‬
‫”افلح من کانت لہ قوصرة‪     ‬یأکل منہا کل یوم تمرة“‬
‫حضرت عائشہ اور علی جنگ جمل میں‬
‫حضرت علی کرم ہللا وجہہ کے ابتدائی عہ‪i‬د میں ہی جن‪i‬گ جم‪ii‬ل ک‪ii‬ا وہ اہم واقعہ پیش آی‪i‬ا‬
‫جو تاریخ اسالمی کا ایک اہم باب ہے۔ اس جنگ کی قیادت ایک طرف سے حضرت‪ i‬عائش‪ii‬ہ‬
‫رضی ہللا عنہا کررہی تھیں تواس کی دوسری طرف حضرت علی تھے۔ اس جنگ کے ج‪ii‬و‬
‫بھی اسباب و نتائج رہے ہوں اس سے صرف نظر کرتے ہوئے یہ ضرور کہ‪ii‬ا جاس‪ii‬کتا ہے‬
‫کہ حضرت‪ i‬علی حق پ‪ii‬ر تھے۔ اور یہ بھی ی‪ii‬اد آت‪ii‬ا ہے کہ حض‪ii‬ور ص‪ii‬لی ہللا علیہ وس‪ii‬لم نے‬
‫پیشین گوئی بھی فرمائی تھی کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ حضرت عائش‪ii‬ہ علی س‪ii‬ے ن‪ii‬احق‬
‫جنگ کریں گی‪ ،‬جو اس جنگ میں ظاہر ہوئی‪ ،‬اس جنگ کے ایک خوش کن نتائج یہ برآمد‬
‫ہوئے کہ بقول امام ابوحنیفہ‪:‬‬
‫”حضرت علی حق پر تھے اوراگر حضرت علی ان سے اس ط‪i‬رح ک‪i‬ا مع‪ii‬املہ نہ ک‪i‬رتے‬
‫تو کسی کو معلوم نہ ہوتا کہ مس‪ii‬لمانوں کے درمی‪ii‬ان آپس میں جب اختالف ہ‪ii‬و ت‪i‬و کی‪ii‬ا ط‪i‬رز‬
‫عمل اختیار کیا جائے۔“‬
‫اس جن‪ii‬گ میں حض‪ii‬رت‪ i‬علی‪ ‬نے حض‪ii‬رت عائشہ‪ ‬کے س‪ii‬اتھ ج‪ii‬و اخالق و ک‪ii‬ردار ک‪ii‬ا‬
‫مظاہرہ کیا اس کو دیکھ کر حضرت عائشہ‪ ‬ندامت کا اظہار کرتی تھیں اور کہا کرتی تھیں‬
‫کہ ”کاش میں یوم جمل سے پہلے دنیا سے رخص‪ii‬ت ہوگ‪ii‬ئی ہ‪ii‬وتی“ وہ جب بھی اس دن ک‪ii‬و‬
‫یاد کرتیں تو اس قدر روتیں کہ ان کا دوپٹہ تر ہوجاتا۔‬
‫علی‪ ‬قاضی شریح کی عدالت میں‬
‫حضرت علی کرم ہللا وجہہ کی زرہ اسی جنگ میں گم ہوگئی اوراس‪i‬ے ای‪ii‬ک یہ‪ii‬ودی کے‬
‫ہاتھ میں دیکھی گئی‪ ،‬یہاں تک کہ یہ معاملہ قاضی شریح کی عدالت میں پہنچ‪ii‬ا‪ ،‬قاض‪ii‬ی نے‬
‫امیر المومنین سے گواہ طلب کی‪i‬ا‪ ،‬علی‪ ‬نے حض‪i‬رت حس‪i‬ن اور غالم قن‪i‬بر ک‪i‬و گ‪i‬واہی کے‬
‫لیے پیش کیا مگر قاضی نے دونوں کی گواہی کو رد کردتے ہوئے فیصلہ یہ‪ii‬ودی کے ح‪ii‬ق‬
‫میں کردیا۔‬
‫اس واقعہ سے جو درس ملتا ہے وہ اسالمی تعلیم کا شاہکار ہے ج‪ii‬و حض‪ii‬رت علی‪ ‬کے‬
‫ذریعہ ظہور ہوا۔ وہ خود قاضی کے پاس آئے اور ان کے فیصلہ پر عم‪ii‬ل کی‪ii‬ا ج‪ii‬و اخالق و‬
‫اعلی نمونہ ہے۔ اس سے متاثر ہوکر یہودی نے نہ ص‪ii‬رف زرہ واپس ک‪ii‬ردی بلکہ‬ ‫ٰ‬ ‫کردار کا‬
‫کلمہ شہادت پڑھ ک‪ii‬ر حلقہ اس‪ii‬الم میں داخ‪ii‬ل ہوگی‪ii‬ا‪ ،‬مگ‪ii‬ر پھ‪ii‬ر حض‪ii‬رت علی نے زرہ اس‪ii‬ے‬
‫واپس کردی اور یہ شخص ہمیشہ آپ کے ساتھ رہا اور صفین کے موقع پر شہید ہوا۔‬
‫اشاعت دین میں اخالقی تعلیمات کی جلوہ گری‬
‫حض‪ii‬رت علی ش‪ii‬یر خ‪ii‬دا‪ ‬خلیف‪ii‬ة المس‪ii‬لمین ہیں‪ ،‬رعای‪ii‬ا کی خبرگ‪ii‬یری اور ان کی راحت‬
‫رسانی میں ہمہ وقت مصروف ہیں‪ ،‬مگر ان کا دل ہ‪ii‬ر وقت اس کے ل‪ii‬یے مض‪ii‬طرب ہے کہ‬
‫الی سبیل ربک بالحکمة والموعظة الحسنة‪ ‬اور کنتم خ‪##‬یر ام‪##‬ة اخ‪##‬رجت‬ ‫کسی طرح سے‪ ‬ادع ٰ‬
‫وتومنون باہّٰلل ‪ ‬کی تعلیمات پر عمل ہوسکے۔ آپ‬
‫للناس تأمرون بالمعروف وتنہون عن المنکر ٴ‬
‫نے اس فریضہ کی انجام دہی میں تلوار اور قتل و خوں ریزی کو جائز و بہ‪ii‬تر نہیں س‪ii‬مجھا‬
‫بلکہ آپ نے اپنے اخالق اور مواعظ حسنہ کو ہی اولیت کا مق‪ii‬ام دی‪ii‬ا‪ ،‬جس کے اچھے نت‪ii‬ائج‬
‫برآمد ہوئے۔ آپ کے اس عمل کی وضاحت کرتے ہوئے علی میاں ندوی لکھتے ہیں کہ‪:‬‬
‫اعلی ی‪ii‬ا اس ط‪ii‬رح کے ع‪ii‬رفی خلیفہ نہیں‬ ‫ٰ‬ ‫”حضرت علی‪ ‬کوئی انتظامی امور کے ح‪ii‬اکم‬
‫تھے‪ ،‬جیسے اموی و عباسی خلیفہ تھے‪ ،‬بلکہ وہ شیخین (حضرت ابوبکر و عمررض‪ii‬ی ہللا‬
‫عنہم‪ii‬ا) کے ان‪ii‬داز و نہج کے خلیف‪ii‬ة المس‪ii‬لمین تھے۔ مس‪ii‬لمانوں کے حقیقی معن‪ii‬وں میں ولی‬
‫االمر‪ ،‬معلم‪ ،‬مربی اور عملی مثال ق‪ii‬ائم ک‪ii‬رنے والے اخالقی و دی‪ii‬نی ام‪ii‬ور کی نگ‪ii‬رانی اور‬
‫احتساب کرنے والے تھے‪ ،‬لوگوں کے رجحانات و خیاالت و تصرفات پر نظ‪ii‬ر رکھ‪ii‬تے کہ‬
‫وہ کس حد ت‪ii‬ک اس‪ii‬المی تعلیم‪ii‬ات اور رس‪ii‬و ہللا ص‪ii‬لی ہللا علیہ وس‪ii‬لم کے اس‪ii‬وہ کے مط‪ii‬ابق‬
‫ہیں‪،‬اور کہاں تک اس اسوہ سے دور اور منحرف اور کس حد تک انھوں نے مغل‪ii‬وب اق‪ii‬وام‬
‫اور مفتوحہ عالقوں کی تہذیب و تمدن کا اثر قبول کیا ہے‪ ،‬آپ لوگوں کو نم‪ii‬از پڑھ‪ii‬اتے۔ ان‬
‫کو نصیحتیں فرماتے‪ ،‬دین کے مسائل بتاتے اور دین کا فہم ان کے اندر پی‪ii‬دا ک‪ii‬رتے۔ ان ک‪ii‬و‬
‫تعالی مسلمانوں سے کیا چاہتا ہے‪ ،‬اور کن باتوں کو پسند فرماتا ہے۔ آپ مسجد‬ ‫ٰ‬ ‫بتاتے کہ ہللا‬
‫میں بیٹھتے‪ ،‬لوگ آپ کے پاس آیا کرتے‪ ،‬اپ‪ii‬نے مع‪ii‬امالت میں مش‪ii‬ورہ لی‪ii‬تے ‪ ،‬ک‪ii‬وئی دی‪ii‬نی‬
‫مسئلہ پوچھتا ت‪ii‬و اس ک‪ii‬و بت‪ii‬اتے‪ ،‬دنی‪ii‬اوی ام‪ii‬ور میں ص‪ii‬الح و مش‪ii‬ورہ دی‪ii‬تے‪ ،‬ب‪ii‬ازاروں میں‬
‫چلتے پھرتے کاروباری لوگ‪ii‬وں کی نگ‪i‬رانی ک‪ii‬رتے کہ کس ط‪i‬رح خری‪i‬د و ف‪i‬روخت ک‪ii‬رتے‬
‫ہیں‪ ،‬انکو نصیحت فرماتے اور کہتے‪” :‬ہللا س‪ii‬ے ڈرو اور ن‪ii‬اپ ت‪ii‬ول ک‪ii‬ا پ‪ii‬ورا لح‪ii‬اظ رکھ‪ii‬و‪،‬‬
‫لوگوں کا حق نہ مارو۔“‬
‫قاتل کے ساتھ اخالق عالیہ کا مظاہرہ‬
‫حضرت علی ک‪ii‬رم ہللا وجہہ دش‪ii‬من کے زد س‪ii‬ے محف‪ii‬وظ نہ رہ س‪ii‬کے‪ ،‬یہ‪ii‬اں ت‪ii‬ک کہ ابن‬
‫ملجم نے زہرپالئی ہوئی تلوار سے آپ پر ایسی ضرب لگائی کہ آپ ک‪ii‬ا انتق‪ii‬ال ہوگی‪ii‬ا۔ مگ‪ii‬ر‬
‫مرنے سے قبل ہی ملجم ک‪ii‬و گرفت‪ii‬ار کرلیاگی‪ii‬ا‪ ،‬اور آپ کے س‪ii‬امنے حاض‪ii‬ر کیاگی‪ii‬ا‪ ،‬اس کی‬
‫شکل و صورت کو دیکھتے ہی آپ نے حکم دیا کہ مقتول سے پہلے قاتل کی پی‪ii‬اس بجھ‪ii‬ائی‬
‫جائے۔ اس جملے میں کتنی معنویت اور اخالقی تعلیم‪ii‬ات مض‪ii‬مر ہیں۔ یع‪ii‬نی کہ آپ ک‪ii‬و بھی‬
‫پی‪ii‬اس کی ش‪i‬دت تڑپ‪ii‬ارہی ہے مگ‪ii‬ر حکم دی‪ii‬تے ہیں کہ پہلے م‪ii‬یرے قات‪ii‬ل کی پی‪ii‬اس بجھ‪ii‬ائی‬
‫جائے‪ ،‬آپ کے اس اخالق سے ملجم بہت ش‪ii‬رمندہ ہ‪ii‬وا‪ ،‬اس کے بع‪ii‬د ابن ملجم کے ح‪ii‬ق میں‬
‫اعلی مث‪i‬ال ہے اور یہ‬ ‫ٰ‬ ‫اعلی س‪i‬ے‬
‫ٰ‬ ‫اپنے بیٹے کو وصیت کی وہ حضرت‪ i‬علی کے اخالق کی‬
‫صرف ان ہی کے لیے زیب دیتا ہے کہ آپ اپنے فرزند کو وصیت کرتے ہیں کہ‪:‬‬
‫”اے عب‪ii‬دالمطلب کے فرزن‪ii‬دو! مس‪ii‬لمانوں ک‪ii‬ا بے تکل‪ii‬ف خ‪ii‬ون نہ بہان‪ii‬ا‪ ،‬تم کہ‪ii‬وگے کہ‬
‫امیرالمومنین قتل کردئیے گئے‪ ،‬مگر خبردار سوائے میرے قاتل کے کسی کو قتل نہ کرن‪ii‬ا‪،‬‬
‫دیکھو اگر میں اس وار س‪ii‬ے مرجات‪ii‬اہوں ت‪ii‬واس پ‪ii‬ر بھی ای‪ii‬ک ہی وار کرن‪ii‬ا‪ ،‬اس ک‪ii‬ا مثلہ نہ‬
‫کرنا‪ ،‬کیوں کہ میں نے رس‪ii‬ول ہللا ص‪ii‬لی ہللا علیہ وس‪ii‬لم س‪ii‬ے س‪ii‬نا ہے کہ وہ فرم‪ii‬اتے تھے‪:‬‬
‫خبردار کسی ذی روح کو مارکر اس کا مثلہ نہ کیا جائے خواہ وہ کٹہا کتا ہی کیوں نہ ہو۔“‬
‫بلکہ آپ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ‪:‬‬
‫”اس کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کیا جائے‪ ،‬اگر زندہ رہاتو سوچوں گا‪ ،‬معاف کروں‬
‫یا قصاص لوں اور اگر مرجاؤں تو ایک ج‪ii‬ان ک‪ii‬ا ب‪ii‬دلہ ای‪ii‬ک ہی ج‪ii‬ان لیاج‪ii‬ائے‪ ،‬اس ک‪ii‬ا مثلہ‬
‫ہرگز نہ کیا جائے۔“‬
‫حضرت علی کے اخالق و کردار کے مختلف پہلو اور اس کا اثر‬
‫اس سے پہلے کہ ہم نہج البالغہ کے اقتب‪ii‬اس کی روش‪ii‬نی میں حض‪ii‬رت علی کے افع‪ii‬ال و‬
‫اعلی اخالقی اق‪ii‬دار ک‪ii‬و پیش ک‪ii‬ریں ض‪ii‬روری ہے کہ حض‪ii‬رت‪ i‬علی کے‬ ‫ٰ‬ ‫ک‪ii‬ردار اور ان کے‬
‫معاصر ضرار بن مضمر نے حضرت ابوسفیان‪ ‬کے اصرار پر مندرجہ ذیل تاثر بی‪ii‬ان کی‪ii‬ا‬
‫اور ان کے انتقال کو مسلمانوں کے لیے ایک خطرہ ق‪ii‬رار دی‪ii‬ا اور ان کی حی‪ii‬ات مس‪ii‬لمانوں‬
‫کے لیے نعمت عظمی بت‪ii‬اتے ہ‪ii‬وئے ان کے اخالق و ک‪ii‬ردار پ‪ii‬ر تفص‪ii‬یل س‪ii‬ے روش‪ii‬نی ڈالی‬
‫ہے۔ انھوں نے بیان کیا کہ‪:‬‬
‫قوی انتہائی مضبوط تھے‪ ،‬ب‪ii‬ات دو ٹ‪i‬وک اور‬‫”ان کی نظر انتہائی دور رس تھی‪ ،‬ان کے ٰ‬
‫صاف کہتے اور فیصلے پورے عدل و انصاف کے ساتھ کرتے‪ ،‬ان کی شخصیت س‪ii‬ے علم‬
‫کے چشمے ابلتے تھے‪ ،‬دنیا اور دنیا کی دل آویزیوں سے متوحش رہ‪ii‬تے‪ ،‬رات اوراس کی‬
‫تاریکی سے دل لگاتے تھے‪ ،‬خدا گواہ ہے کہ (راتوں کو عبادت میں) ان کے آنس‪ii‬و تھم‪ii‬تے‬
‫نہ تھے‪ ،‬دیر دیر تک فکرمند اور سوچتے رہتے‪ ،‬اپنے کف دست کو الٹتے پلٹتے اور اپنے‬
‫آپ باتیں کرتے‪ ،‬موٹا جھوٹا پہنتے‪ ،‬روکا سوکھا کھاتے‪ ،‬بخدا بالکل اپ‪ii‬نے ہی س‪ii‬اتھیوں اور‬
‫بے تکل‪i‬ف لوگ‪i‬وں کی ط‪i‬رح رہ‪i‬تے‪ ،‬جب کچھ پوچھ‪i‬ا جات‪i‬ا ج‪i‬واب دی‪i‬تے‪ ،‬جب ان کے پ‪i‬اس‬
‫جاتے تو خ‪ii‬ود ب‪ii‬ڑھ ک‪ii‬ر ب‪ii‬اتیں ش‪ii‬روع ک‪ii‬رتے‪ ،‬جب بالتے ت‪ii‬و حس‪ii‬ب وع‪ii‬دہ آج‪ii‬اتے‪ ،‬لیکن ہم‬
‫لوگوں کو (باوجود اس قربت اور رفاقت اور ان کی سادگی کے ان کا رعب ایسا تھ‪ii‬ا کہ) ان‬
‫کے سامنے بولنے کی ہمت نہ ہوتی اور نہ کوئی گفتگو چھیڑتے‪،‬اگر وہ مس‪ii‬کراتے ت‪ii‬و آپ‬
‫کے دندان ایسے نظر آتے جیسے س‪ii‬فید موتی‪ii‬وں کی ل‪ii‬ڑی ہ‪ii‬و‪ ،‬دین‪ii‬داروں کی توق‪ii‬یر ک‪ii‬رتے‪،‬‬
‫مساکین سے محبت کرتے کسی طاقتور انسان کی یہ ج‪i‬راء ت نہ تھی کہ ان س‪ii‬ے باط‪ii‬ل کی‬
‫تائید میں توقع رکھتا اور کوئی کمزور ان کے عدل و انصاف سے م‪ii‬ایوس نہ ہوت‪ii‬ا۔ اور میں‬
‫ہللا کو گواہ بن‪ii‬اکر کہت‪ii‬ا ہ‪ii‬وں کہ میں نے ان کی رات‪ii‬وں کے چن‪ii‬د من‪ii‬اظر دیکھے ہیں کہ رات‬
‫نے اپنی سیاہ چادر پھیالدی ہے‪ ،‬تارے ڈوب‪ii‬نے لگے ہیں اور علی مح‪ii‬راب مس‪ii‬جد میں اپ‪ii‬نی‬
‫داڑھی ہاتھ سے پکڑے درد بھرے ش‪ii‬خص کی ط‪ii‬رح رورہے ہیں اوراس ط‪ii‬رح ت‪ii‬ڑپ رہے‬
‫ہیں جیسے کوئی ایسا شخص تڑپے جس ک‪ii‬و کس‪ii‬ی زہ‪ii‬ریلے س‪ii‬انپ ی‪ii‬ا بچھ‪ii‬و نے ڈس لی‪ii‬اہو‪،‬‬
‫مجھے ایسا لگتا ہے کہ ان کی آواز اب بھی سنائی دے رہی ہے‪ ،‬اور وہ کہہ رہے ہیں‪:‬‬
‫”اے دنیا کیاتو مجھ سے چھیڑ چھاڑ کررہی ہے یا مجھ سے کوئی امید رکھتی ہے؟ مجھ‬
‫سے کچھ امید نہ رکھ‪ ،‬میرے عالوہ کسی اور کو فریب دے‪ ،‬میں تو تجھے تین طالقیں دے‬
‫چکا ہوں‪ ،‬جس کے بعد تیری طرف رجعت کی گنجائش ہی نہیں‪ ،‬ت‪ii‬یری عم‪ii‬ر کوت‪ii‬اہ‪ ،‬ت‪ii‬یری‬
‫دی ہوئی کامرانی حقیر‪ ،‬تیرے خطرات بھیانک اور بڑے آلودہ‪ ،‬آہ! زاد راہ کتناکم ہے‪ ،‬سفر‬
‫کتنا طویل ہے اور راستہ کس درجہ سنسان ہے۔“‬
‫اس تاثر کو روایت کرنے والے ابوصالح ہیں کہتے ہیں کہ‪:‬‬
‫”یہ س‪ii‬ن ک‪i‬ر مع‪ii‬اویہ‪ ‬کی آنکھ‪ii‬وں س‪i‬ے آنس‪ii‬و ج‪ii‬اری ہوگ‪ii‬ئے اوراس کے قط‪ii‬رے ان کی‬
‫داڑھی پر گرنے لگے‪ ،‬اپنی آستین سے وہ آنسو پونچھ‪ii‬تے‪ ،‬اور رونے س‪ii‬ے آواز حل‪ii‬ق میں‬
‫گھٹنے لگی‪ ،‬پھر معاویہ‪ ‬نے کہا‪ :‬ہللا ابوالحسن پر رحم فرمائے‪ ،‬واقعی ان کا یہی حال تھا‪،‬‬
‫ضرار تم اپنا حال کہو ان کی جدائی سے کیا محسوس ک‪ii‬رتے ہ‪ii‬و؟ کہ‪ii‬ا‪ :‬مجھے ایس‪ii‬ا غم ہے‬
‫جیسا اس ع‪ii‬ورت ک‪ii‬و ہوگ‪ii‬ا جس ک‪ii‬ا بچہ اس کی گ‪ii‬ود میں ذبح کردیاگی‪ii‬ا ہ‪ii‬و‪ ،‬اور نہ اس کے‬
‫آنسو تھمتے ہوں‪ ،‬نہ غم ہلکاہوتا ہو۔“‬
‫‪$ $ $‬‬

‫______________________________‬
‫ت ن‬ ‫ش‬ ‫ش‬
‫ماہ ن امہ دارالعلوم ‪ ،‬مارہ‪ ،11-10‬ج لد‪      ، 89 :‬رمض ان‪ ،‬وال ‪1426‬ہ ج ری م طابق اک وبر‪ ،‬ومب ر ‪2005‬ء‬

‫اردو منظر فورم‪ > ‬مذاہب‪ > ‬دین اسالم‪ > ‬صحابہ کرام اور صحابیات‪ > ‬اخالق وعادات‬


‫حضرت علی ؓ‬
‫‪PDA‬‬
‫‪ : View Full Version‬اخالق وعادات حضرت علی ؓ‬
‫گالب خان‬
‫‪PM 10:08 ,07-15-2012‬‬
‫اخالق‬
‫سرورکائنات صلی ہللا علیہ وسلم کے دامن‬ ‫ِ‬ ‫حضرت علی مرتضی ؓ نے ایام طفولیت ہی سے‬
‫اورحسن تربیت کا نمونہ تھے‪،‬‬
‫ِ‬ ‫عاطفت میں تربیت پائی تھی اس لیے وہ قدرتاًمحاسن اخالق‬
‫ٓاپ کی زبان کبھی کلمہ شرک وکفر سے ٓالودہ نہ ہوئی اورنہ ٓاپ کی پیشانی غیر خدا کے‬
‫ٓاگے جھکی ‪،‬جاہلیت‪ i‬کے ہر قسم کے گناہ سے مبرا اورپاک رہے‪ ،‬شراب کے ذائقہ سے‬
‫جو عرب کی گھٹی میں تھی‪ ،‬اسالم سے پہلے بھی ٓاپ کی زبان ٓاشنانہ ہوئی اور اسالم کے‬
‫بعد تو اس کا کوئی خیال ہی نہیں کیا جاسکتا۔‬
‫امانت ودیانت‬
‫ٓاپ ایک امین کے تربیت یافتہ تھے‪ ،‬اس لیے ابتداء ہی سے امین تھے‪ٓ ،‬انحضرت‪ i‬صلی ہللا‬
‫علیہ وسلم کے پاس قریش کی امانتیں جمع رہتی تھیں‪ ،‬جب ٓاپ صلی ہللا علیہ وسلم نے‬
‫ہجرت فرمائی تو ان امانتوں کی واپسی کی خدمت حضرت‪ i‬علی ؓ کے سپرد فرمائی‪،‬‬
‫(اسدالغابہ ج‪ )۱۹ : ۴‬اپنے عہد خالفت میں ٓاپ نے مسلمانوں کی امانت بیت المال کی‬
‫جیسی امانت داری فرمائی‪ ،‬اس کا اندازہ حضرت ام کلثوم ؓ کے اس بیان سے ہوسکتا ہے‬
‫کہ ایک دفعہ نارنگیاں ٓائیں‪ ،‬امام حسن ؓ‪ ،‬امام حسین ؓ نے ایک نارنگی اٹھالی‪،‬جناب‪ i‬امیر ؓ‬
‫نے دیکھا تو چھین کر لوگوں میں تقسیم کردی۔(ازالۃ الخفاء‪ i‬بحوالہ ابن ابی شیبہ)‬
‫مال غنیمت تقسیم فرماتے تھے تو برابر حصے لگاکر غایت احتیاط میں قرعہ ڈالتے تھے‬
‫کہ اگر کچھ کمی بیشی رہ گئی ہو تو ٓاپ اس سے بری ہوجائیں‪ ،‬ایک دفعہ اصفہان سے‬
‫مال ٓایا‪،‬اس میں ایک روٹی بھی تھی‪ ،‬حضرت علی ؓ نے تمام مال کے ساتھ اس روٹی کے‬
‫بھی سات ٹکڑے کیے اورقرعہ ڈال کر تقسیم فرمایا‪ ،‬ایک دفعہ بیت المال کا تمام اندوختہ‬
‫تقسیم کرکے اس میں جھاڑودی اوردورکعت نماز ادا فرمائی کہ وہ قیامت میں ان کی امانت‬
‫ودیانت کی شاہد رہے۔‬
‫( ایضا ً ابوعمر ‪)۲۶۶ :‬‬

‫زہد‬
‫ٓاپ کی ذات گرامی زہد فی الدنیا کا نمونہ تھی ؛بلکہ حق یہ ہے کہ ٓاپ کی ذات پر زہد کا‬
‫خاتمہ ہوگیا‪ٓ ،‬اپ کےکا شانٔہ فقر میں دنیاوی شان وشکوہ کا درگزرنہ تھا‪،‬کوفہ تشریف‬
‫الئے تو داراالمارت کے بجائے ایک میدان میں فروکش ہوئے اور فرمایا کہ عمر بن‬
‫الخطاب ؓ نے ہمیشہ ہی ان عالی شان محالت کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا‪ ،‬مجھے بھی‬
‫اس کی حاجت نہیں‪ ،‬میدان ہی میرے لیے بس ہے۔‬
‫بچپن سے پچیس چھبیس برس کی عمر تک ٓانحضرت صلی ہللا علیہ وسلم کے ساتھ رہے‬
‫اور شہنشاہ اقلیم زہد وقناعت کے یہاں دنیاوی عیش کا کیا ذکرتھا‪،‬حضرت فاطمہ ؓ کے ساتھ‬
‫شادی ہوئی تو علیحدہ مکان میں رہنے لگے‪ ،‬اسی نئی زندگی کے سازو سامان کا اندازہ‬
‫اس سے ہوسکتا ہے کہ سیدہ جنت جو سازوسامان اپنے میکہ سے الئی تھیں اس میں ایک‬
‫چیز کا بھی اضافہ نہ ہوسکا‪،‬چکی پیستے پیستے حضرت فاطمہ ؓ کے ہاتھوں میں گھٹے‬
‫پڑگئے تھے‪ ،‬گھر میں اوڑھنے کی صرف ایک چادر تھی‪،‬وہ بھی اس قدر مختصر کہ‬
‫پأوں چھپاتے تو سربرہنہ ہوجاتا اور سرچھپاتے تو پأوں کھل جاتا‪،‬معاش کی یہ حالت تھی‬
‫کہ ہفتوں گھر سے دہواں نہیں اٹھتا تھا‪،‬بھوک کی شدت ہوتی تو پیٹ سے پتھر باندھ لیتے‪،‬‬
‫ایک دفعہ شدت گرسنگی میں کاشانٔہ اقدس سے باہر نکلے کہ مزدوری کرکے کچھ‬
‫کماالئیں‪،‬عوالی (مدینہ کے قرب وجوار کی ٓابادی کا نام عوالی تھا)مدینہ میں دیکھا کہ ایک‬
‫ضعیفہ کچھ اینٹ پتھر جمع کررہی ہے‪ ،‬خیال ہوا کہ شاید اپنا باغ سیراب کرنا چاہتی‬
‫ہے‪،‬اس کے پاس پہنچ کر اجرت طے کی اورپانی سینچنے لگے‪ ،‬یہاں تک کہ ہاتھوں میں‬
‫ٓابلے پڑگئے‪ ،‬غرض اس محنت ومشقت کے بعد ایک مٹھی کھجوریں اجرت میں ملیں؛لیکن‬
‫بجنسہ لیے ہوئے بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے‪ٓ ،‬انحضرت‪i‬‬ ‫ٖ‬ ‫تنہا خوری کی عادت نہ تھی‬
‫صلی ہللا علیہ وسلم نے تمام کیفیت سن کر نہایت شوق کے ساتھ کھانے میں ساتھ دیا۔‬
‫(مسند ابن حنبل ص ‪) ۱۳۵‬‬

‫ایام خالفت میں بھی زہد کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹا اورٓاپ کی زندگی میں کوئی فرق نہ ٓایا‪،‬‬
‫ِ‬
‫موٹا چھوٹا لباس اورروکھا پھیکا کھانا ان کے لیے دنیا کی سب سے بڑی نعمت تھی‪ ،‬ایک‬
‫دفعہ عبدہللا بن زریرنامی ایک صاحب شریک طعام تھے‪،‬دسترخوان پر کھانا نہایت‬
‫معمولی اورسادہ تھا‪ ،‬انہوں نے کہا‪ ،‬امیر المومنین! ٓاپ کو پرند کے گوشت سے شوق نہیں‬
‫ہے‪،‬فرمایا ابن زریر!خلیفہ وقت کو مسلمانوں کے مال میں سے صرف دوپیالوں کا حق‬
‫ہے‪ ،‬ایک خود کھائے اور اہل کو کھالئے اوردوسرا خلق خدا کے سامنے پیش کرے‬
‫( مسند احمد ج‪)۷۸ : ۱‬‬

‫دردولت پر کوئی حاجب‪ i‬نہ تھا نہ دربان‪،‬نہ امیرنہ کروفرنہ شاہانہ تزک واحتشام اورعین‬
‫وکسری کی شہنشاہی مسلمانوں کے لیے زروجواہر اگل رہی تھی‪،‬‬ ‫ٰ‬ ‫اس وقت جب قیصر‬
‫اسالم کاخلیفہ ایک معمولی غریب کی طرح زندگی بسر کرتا تھا اوراس پر فیاضی کا یہ‬
‫حال تھا کہ دادودہش کی بدولت کبھی فقروفاقہ کی نوبت بھی ٓاجاتی تھی‪،‬ایک دفعہ منبر‬
‫پرخطبہ دیتے ہوئے فرمایاکہ‪:‬میری تلوار کا کون خریدار ہے؟خدا کی قسم! اگر میرے پاس‬
‫ایک تہہ بند کی قیمت ہوتی تواس کو فروخت نہ کرتا‪،‬ایک شخص نے کھڑے ہوکر کہا‬
‫‘‘امیر المومنین! میں تہہ بند کی قیمت قرض دیتا ہوں۔‬
‫گھر میں کوئی خادمہ نہ تھی‪ ،‬شہنشاہ دو عالم صلی ہللا علیہ وسلم کی بیٹی گھر کا سارا کام‬
‫اپنے ہاتھوں سے انجام دیتی تھی‪ ،‬ایک مرتبہ شفیق باپ کےپاس اپنی مصیبت بیان کرنے‬
‫سرورکائنات صلی ہللا علیہ وسلم موجود نہ تھے اس لیے واپس ٓاکر‬ ‫ِ‬ ‫گئیں‪ ،‬حضرت‬
‫عائشہ کی اطالع پرآنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم خود‬ ‫ؓ‬ ‫سورہی‪،‬تھوڑی دیرکے بعد حضرت‬
‫تشریف الئے اور فرمایا کیا تم کو ایک ایسی بات نہ بتادوں جو ایک خادم سے کہیں زیادہ‬
‫تمہارے لیے مفید ہو‪ ،‬اس کے بعد ٓاپ صلی ہللا علیہ وسلم نے تسبیح کی تعلیم دی۔‬
‫يح ِع ْن َد ْال َمنَ ِام‪،‬حدیث نبمر‪)۵۸۴۳:‬‬ ‫(بخاری‪،‬بَاب التَّ ْكبِ ِ‬
‫ير َوالتَّ ْسبِ ِ‬

‫عبادات‬
‫حضرت علی کرم ہللا وجہہ خدا کے نہایت عبادت گزار بندے تھے‪ ،‬عبادات ان کا مشغلہ‬
‫حیات تھا جس کا شاہد خود قرٓان ہے‪ ،‬کالم پاک کی اس ٓایت ‪:‬‬
‫ُح َما ُء بَ ْینَہُ ْم تَ ٰرئہُ ْم ُر َّکعًا ُس َّجدًا یَّ ْبتَ ُغ ْو َن فَضْ اًل‬ ‫ہللا‪َ o‬والَّ ِذی َْن َم َع ٗ ٓہ اَ ِش َّدا ُء َعلَی ْال ُکفَّ ِ‬
‫ار ر َ‬ ‫" ُم َح َّم ٌد َّرس ُْو ُل ِ‬
‫ِّم َن ہللاِ َو ِرضْ َوانًاْ"‬
‫(الفتح‪)۲۹:‬‬
‫‘‘محمد رسول ہللا اوروہ لوگ جو ان کے ساتھ ہیں کافروں پر سخت ہیں باہم رحمدل ہیں‪،‬تم‬
‫ان کو دیکھتے ہو کہ بہت رکوع اوربہت سجدہ کرکے خدا کا فضل اوراس کی رضا مندی‬
‫کی جستجو کرتے ہیں۔’’‬
‫کی تفسیر میں مفسرین نے نکتہ لکھا ہےکہ َوالَّ ِذی َْن َم َع ٗ ٓہ سے ابوبکر صدیق ؓ‪ ،‬اَ ِش َّدا ُء َعلَی‬
‫ُح َما ُء بَ ْینَہُ ْمسے عثمان بن عفان ؓ‪ُ ،‬ر َّکعًا ُس َّجدًسے حضرت‬ ‫ار سے عمر بن الخطاب‪ ،ؓ i‬ر َ‬ ‫ْال ُکفَّ ِ‬
‫علی ابن ابی طالب ؓ اور یَّ ْبتَ ُغ ْو َن فَضْ اًل ِّم َن ہللاِ َو ِرضْ َوانًاْسے بقیہ صحابہ ؓ مراد ہیں‪(،‬تفسیر‬
‫فتح البیان ج‪): ۹‬اس سے عبادت میں تمام صحابہ پر حضرت علی ؓ کی فضیلت‪ i‬ثابت ہوئی‬
‫ہے کیونکہ رکوع وسجودجو تمام صحابہ ؓ کا مشترک وصف تھا‪ ،‬پھر اس اشتراک میں‬
‫تخصیص سے معلوم ہوا کہ اس اشتراک کے باوجود ان کو اس باب میں کچھ مزید امتیاز‬
‫بھی حاصل تھا۔‬
‫قرٓان مجید کے اس اشارہ کے عالوہ خود صحابہ ؓ کی زبان سے ان کے اس امتیازی‬
‫وصف کی شہادت مذکور ہے ‪،‬حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں‪:‬‬
‫کان ماعلمت صواما قواما‪،‬‬
‫(ترمذی کتاب المناقب فضل فاطمہ)‬

‫جہاں تک مجھے معلوم ہے وہ بڑے روزہ دار اور عبادت گزار تھے۔’’‬
‫زبیر بن سعید قریشی کہتے ہیں‪:‬‬
‫لم ارھا شمیا قط کان اعبد ہللا منہ‬
‫(مستدرک حاکم ج‪)۱۰۸ : ۳‬‬

‫"میں نے کسی ہاشم کو نہیں دیکھا جو ان سے زیادہ خداکا عبادت گزار ہو۔"‬
‫ان حاالت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عبادات میں جس چیز کا التزام کرلیتے تھے اس پر‬
‫ہمیشہ قائم رہتے تھے‪ ،‬ایک موقع پر رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے ان سے اورحضرت‬
‫فاطمہ ؓ سے فرمایا کہ تم دنوں ہر نماز کے بعد دس بار تسبیح‪ ،‬دس بار تحمید اوردس بار‬
‫تکبیر پڑھ لیا کرو اورجب سؤو تو ‪ ۳۳‬بار تسبیح ‪ ۳۳،‬بار تحمید اور‪ ۳۴‬بار تکبیر پڑھ لیا‬
‫کرو‪ ،‬حضرت علی کرم ہللا وجہہ فرماتے ہیں کہ جب سے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم‬
‫مجھ کو اس کی تلقین کی میں نے اس کو چھوڑا نہیں‪،‬ابن کواء نے کہاکہ"صفین کی شب‬
‫میں بھی نہیں؟فرمایا‘صفین کی شب میں بھی نہیں۔"‬
‫(مسند ابن حنبل ج‪)۱۰۷ : ۱‬‬

‫انفاق فی سبیل ہللا‬


‫حضرت علی ؓ گودنیاوی دولت سے تہی دامن تھے؛لیکن دل غنی تھا کبھی کوئی سائل ٓاپ‬
‫کے درسے ناکام واپس نہیں ہوا حتی کہ قوت الیموت تک دے دیتے‪،‬ایک دفعہ رات بھر‬
‫باغ سینچ کر تھوڑے سے جو مزدوری میں حاصل کیے صبح کے وقت گھر تشریف الئے‬
‫تو ایک ایک ثلث پسواکر حریرہ پکوانے کا انتظام کیا‪،‬اب‪ i‬پک کر تیار ہی ہوا تھا کہ ایک‬
‫مسکین نے صدادی‪،‬حضرت‪ i‬علی ؓ نے سب اٹھاکر اس کو دے دیا اورپھر بقیہ میں دوسرے‬
‫ثلث کے پکنے کا انتظار کیا؛لیکن تیارہوا کہ ایک مسکین یتیم نے دست سوال بڑھایا‪،‬اسے‬
‫بھی اٹھا کر اس کی نذر کیا‪،‬غرض اسی طرح تیسرا حصہ بھی جو بچ رہا تھا پکنے کے‬
‫بعد ایک مشرک قیدی کی نذر ہوگیا اوریہ مردخدارات بھر کی مشقت کے باوجود دن‬
‫کوفاقہ مست رہا‪ ،‬خدائے پاک کو یہ ایثار کچھ ایسا بھایا کہ بطور ستائش اس کے صلہ میں‪،‬‬
‫ُط ِع ُم ْو َن الطَّ َعا َم َع ٰلی ُحب ِّٖہ ِم ْس ِک ْینًا َّویَـتِـ ْی ًما َّواَ ِس ْیرًا(دھر‪)۸:‬کی ٓایت نازل ہوئی۔‬
‫َوی ْ‬
‫(بخاری کتاب المناقب‪،‬مناقب علی ؓ)‬

‫تواضع‬
‫دستار فضیلت کا سب سے خوشنما طرہ ہے‪،‬اپنے ہاتھ‬ ‫ِ‬ ‫سادگی اورتواضع حضرت‪ i‬علی ؓ کی‬
‫سے محنت ومزدوری کرنے میں کوئی عارنہ تھا‪،‬لوگ مسائل پوچھنے ٓاتے تو ٓاپ کبھی‬
‫جوتا ٹانکتے ‪،‬کبھی اونٹ چراتے اورکبھی زمین کھودتے ہوئے پائے جاتے‪،‬مزاج میں بے‬
‫تکلفی اتنی تھی کہ فرش خاک پر بے تکلف سوجاتے‪،‬ایک دفعہ ٓانحضرت صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم انہیں ڈھونڈتے ہوئے مسجد میں تشریف الئے‪،‬دیکھا کہ بے تکلفی کے ساتھ زمین پر‬
‫سورہے ہیں‪،‬چادرپیٹھ کے نیچے سے سرک گئی ہے اورجسم ِانور گردوغبار کے اندر‬
‫کندن کی طرح دمک رہا ہے‪ ،‬سرورکائنات صلی ہللا علیہ وسلم کو یہ سادگی نہایت پسند‬
‫ٓائی‪ ،‬خوددست مبارک سے ان کا بدن صاف کرکے محبت ٓامیز لہجہ میں فرمایا‪ :‬اجلس یاابا‬
‫تراب(بخاری کتاب المناقب‪ i‬باب مناقب علی ؓ)مٹی والے اب اٹھ بیٹھ ‪،‬زبان نبوی صلی ہللا‬
‫علیہ وسلم کی عطا کی ہوئی یہ کنیت حضرت علی ؓ کو اس قدر محبوب تھی کہ جب کوئی‬
‫اس سے مخاطب کرتا تو خوشی سے ہونٹوں پر تبسم کی لہر دوڑجاتی۔‬
‫ایام خالفت میں بھی یہ سادگی قائم رہی ‪،‬عموما ً چھوٹی ٓاستین اوراونچے دامن کا کرتہ‬
‫پہنتے اورمعمولی کپڑے کی تہہ بند باندھتے‪،‬بازار میں گشت کرتے پھرتے‪،‬اگر کوئی‬
‫تعظیما ً پیچھے ہولیتا تو منع فرماتے کہ اس میں ولی کے لیے فتنہ اورمومن کے لیے ذلت‬
‫ہے۔‬
‫شجاعت وبسالت حضرت علی ؓ کا مخصوص وصف تھا جس میں کوئی معاصر ٓاپ کا‬
‫حریف نہ تھا‪ٓ ،‬اپ تمام غزوات میں شریک ہوئے اور سب میں اپنی شجاعت کے جوہر‬
‫دکھائے‪ ،‬اسالم میں سب سے پہال غزوہ ٔبدر پیش ٓایا‪،‬اس وقت حضرت علی ؓ کاعنفوان شباب‬
‫تھا؛لیکن اس عمر میں ٓاپ نے جنگ ٓازما بہادروں کے دوش بدوش ایسی دا ِد شجاعت دی‬
‫کہ ٓاپ اس کے ہیرو قرارپائے۔‬
‫ٓاغاز جنگ میں ٓاپ کا مقابلہ ولید سے ہوا‪ ،‬ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کردیا‪ ،‬پھر شیبہ‬
‫ِ‬
‫کے مقابلہ میں حضرت عبیدہ بن حارث ؓ ٓائے اوراس نے ان کو زخمی کیا تو حضرت‬
‫حمزہ اورحضرت علی ؓ نے حملہ کرکے اس کا کام بھی تمام کردیا‪،‬غزوہ ٔاحد میں کفار کا‬
‫جھنڈا طلحہ بن ابی طلحہ کے ہاتھ میں تھا‪ ،‬اس نے مبازرت طلب کی تو حضرت‪ i‬علی‬
‫مرتضی ؓ ہی اس کے مقابلہ میں ٓائے اورسرپر ایسی تلوار ماری کہ سر کے دوٹکڑے‬‫ٰ‬
‫فرط مسرت میں تکبیر کا‬ ‫ہوگئے‪ ،‬رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی تو ِ‬
‫نعرہ بلند کیا اور مسلمانوں نے بھی تکبیر کے نعرے لگائے۔‬
‫غزؤہ خندق میں بھی پیش پیش رہے؛چنانچہ عرب کے مشہور پہلوان عمروبن عبدونے‬
‫جب مبازرت طلب کی توحضرت علی مرتضی ؓ نے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے‬
‫میدان میں جانے کی اجازت‪ i‬چاہی‪ٓ ،‬اپ صلی ہللا علیہ وسلم نے ان کو اپنی تلوار عنایت‬
‫ت مبارک سے ان کے سرپر عمامہ باندھا اوردعا کی خداوندا!تو اس‬ ‫فرمائی‪،‬خود اپنے دس ِ‬
‫کے مقابلہ مین ان کا مددگار ہو‪ ،‬اس اہتمام سے ٓاپ ابن عبدودکے مقابلہ میں تشریف لے‬
‫گئے اور اس کو زیر کرکے تکبیر کا نعرہ مارا جس سے مسلمانوں کو معلوم ہوا کہ انہوں‬
‫نے اپنے حریف پر کامیابی حاصل‪ i‬کرلی۔‬
‫غزوہ ٔخیبر کا معرکہ حضرت علی ؓ ہی کی شجاعت سے سرہوا‪ ،‬جب خیبر کا قلعہ کئی دن‬
‫تک فتح نہ ہوسکا تو ٓانحضرت صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا کہ کل میں جھنڈا ایسے‬
‫شخص کو دوں گا جو خدا اورخدا کے رسول کو محبوب رکھتا ہے اورخدا اورخدا کے‬
‫رسول اس کو محبوب رکھتے ہیں؛چنانچہ دوسرے دن ٓاپ صلی ہللا علیہ وسلم نے حضرت‬
‫علی ؓ کو جھنڈا عنایت فرمایا اورخیبر کا رئیس مرحب تلوار ہالتاہوااوررجز پڑھتا‬
‫ہوامقابلے‪ i‬میں ٓایا‪ ،‬اس کے جواب میں حضرت علی مرتضی رجز خواں ٓاگے بڑھے‬
‫اورمرحب کے سرپر ایسی تلوار ماری کہ سرپھٹ گیا اورخیبر فتح ہوگیا‪،‬خیبر کی فتح کو‬
‫ٓاپ کے جنگی کارناموں میں خاص امتیاز حاصل‪ i‬ہے۔‬
‫قبائل عرب کی متحدہ طاقت‬ ‫ِ‬ ‫غزوات میں غزوہ ہوازن خاص اہمیت رکھتا ہے اس میں تمام‬
‫مسلمانوں کے خالف امنڈ ٓائی تھی؛لیکن اس غزوہ میں بھی حضرت علی ؓ ہر موقع پر‬
‫ممتاز رہے‪،‬رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے جن اکابر کو جھنڈے عنایت فرمائے‪ ،‬ان میں‬
‫مرتضی بھی شامل تھے‪ٓ،‬اغاز جنگ میں جب کفارنے دفعۃتیروں کا مینہ‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت علی‬
‫برسانا شروع کیا تو مسلمانوں کے پأوں اکھڑ گئے اور صر ف چند ممتاز صحابہ کرام‬
‫مرتضی ؓ‬
‫ٰ‬ ‫رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے ساتھ ثبات قدم رہے‪ ،‬ان میں ایک حضرت علی‬
‫بھی تھے‪ ،‬عہد نبوت کے بعد خود ان کے زمانہ میں جو معرکے پیش ٓائے ان میں کبھی ان‬
‫کے پائے ثبات کو لغزش نہیں ہوئی۔‬
‫دشمنوں کے ساتھ حسن سلوک‬
‫حدیث میں ٓایا ہے کہ‘‘بہادروہ نہیں ہے جو دشمن کو پچھاڑدے ؛بلکہ وہ ہے جو اپنے نفس‬
‫کو زیر کرے‪ ،‬حضرت علی مرتضی ؓ اس میدان کے مرد تھے‪ ،‬ان کی زندگی کا اکثر‬
‫حصہ مخالفین کی معرکہ ٓارائی میں گزرا؛لیکن بایں ہمہ انہوں نے ہمیشہ دشمنوں کے ساتھ‬
‫اچھا برتأو کیا‪ ،‬ایک دفعہ ایک لڑائی میں جب ان کا حریف گرکر برہنہ ہوگیا تو اس کو‬
‫چھوڑکر الگ کھڑے ہوگئے کہ اس کو شرمندگی نہ اٹھانی پڑے‪ ،‬جنگ جمل میں حضرت‪i‬‬
‫عائشہ ؓ ان کی حریف تھیں؛لیکن جب ایک ضبی نے ان کے اونٹ کو زخمی کرکے گرایا‬
‫تو خود حضرت علی ؓ نے ٓاگے بڑھ کر ان کی خیرت دریافت کی اوران کو ان کے طرفدار‬
‫بصرہ کے رئیس کے گھر میں اتارا‪،‬حضرت عائشہ ؓ کی فوج کے تمام زخمیوں نے بھی‬
‫اسی گھر کے ایک گوشے میں پناہ لی تھی‪ ،‬حضرت علی ؓ حضرت‪ i‬عائشہ ؓ سے ملنے کے‬
‫لئے تشریف لے گئے؛ لیکن ان پناہ گزین دشمنوں سے کچھ تعرض نہیں کیا۔‬
‫جنگ جمل میں جو لوگ شریک جنگ تھے‪ ،‬ان کی نسبت بھی عام منادی کرادی کہ‬
‫مال‬
‫بھاگنے والوں کا تعاقب نہ کیا جائے‪ i،‬زخمیوں کے اوپر گھوڑے نہ دوڑائے جائیں‪ِ ،‬‬
‫غنیمت نہ لوٹا جائے‪،‬جوہتیارڈال دے اس کو امان ہے۔‬
‫حضرت زبیر ؓ نے ایک حریف کی حیثیت سے ان کا مقابلہ کیا تھا اورجنگ جمل کے سپہ‬
‫ساالروں میں تھے‪ ،‬مگر جب ان کا قاتل ابن جرموز ان کا مقتول سراورتلوار لے کر‬
‫حضرت علی ؓ کے پاس ٓایا تو وہ ٓابدیدہ ہوگئے اورفرمایا‘‘فرزند صفیہ ؓ کے قاتل کو جہنم‬
‫کی بشارت دے دو‪،‬پھر حضرت‪ i‬زبیر ؓ کی تلوار ہاتھ میں لے کر فرمایا‪ ،‬یہ وہی تلوار ہے‬
‫جس نے کئی دفعہ ٓانحضرت‪ i‬صلی ہللا علیہ وسلم کے چہرہ سے مشکالت کا بادل ہٹایا ہے۔‬
‫مستدرک میں ہے کہ حضرت علی کرم ہللا وجہہ کے پاس ان کا سرٓایا تو فرمایا کہ ‘فرزن ِد‬
‫صفیہ ؓ کے قاتل کو جہنم کی بشارت دے دو‪ ،‬میں نے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے‬
‫سنا ہے کہ ہر نبی کے حواری ہوتےہیں اور میرا حواری زبیر ہے۔‬
‫(مستدرک ج‪)۳۶۷ : ۳‬‬

‫جنگ جمل کے میدان میں جب ٓاپ فریق مخالف کی الشوں کا معائنہ کررہے تھے‪،‬تو ایک‬
‫ایک الش کو دیکھ کر افسوس کرتے تھے‪،‬جب حضرت طلحہ ؓ کے صاحبزادے محمد کی‬
‫الش پر نظر پڑی تو ٓاہ سرد بھر کر فرمایا‪:‬اے قریش کا شکرہ!‬
‫ان کا سب سے بڑا دشمن ان کا قاتل ابن ملجم ہوسکتا تھا؛لیکن انہوں نے اس کے متعلق جو‬
‫ٓاخری وصیت کی تھی وہ یہ تھی کہ اس سےمعمولی طورپر قصاص لینا‪ ،‬مثلہ نہ‬
‫کرنا‪،‬یعنی اس کے ہاتھ پأوں اورناک نہ کاٹنا‪ ،‬ابن سعد میں ہے کہ جب وہ ٓاپ کے سامنے‬
‫الیا گیا تو فرمایا کہ اس کواچھا کھانا کھالٔو اور اس کو نرم بستر پر سالٔو اگرمیں زندہ بچ‬
‫گیا تو اس کے معاف کرنے یا قصاص لینے کا مجھے اختیار حاصل ہوگا اوراگر میں‬
‫مرگیا تو اس کو مجھ سے مالدینا‪،‬میں خدا کے سامنے اس سے جھگڑوں گا‪ ،‬دشمنوں کے‬
‫اعلی مثال کیا ہوسکتی ہے؟‬ ‫ٰ‬ ‫ساتھ حسن سلوک کی اس سے‬
‫اصابت رائے‬
‫حضرت علی کرم ہللا وجہہ صائب الرائے بھی تھے اورٓاپ کی ا صابت رائے پر عہد نبوی‬
‫ت امور میں شریک‬ ‫صلی ہللا علیہ وسلم ہی سے اعتماد کیا جاتا تھا؛چنانچہ‪ٓ i‬اپ تمام مہما ِ‬
‫مشورہ کیے جاتے تھے‪،‬واقعہ افک میں رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے اپنے گھر کے‬
‫راز داروں میں جن لوگوں سے مشورہ کیا‪،‬ان میں سے ایک حضرت علی کرم ہللا وجہہ‬
‫بھی تھے‪،‬غزوہ طائف میں ٓاپ صلی ہللا علیہ وسلم نے ان سے اتنی دیر تک سرگوشی‬
‫فرمائی کہ لوگوں کو اس پر رشک ہونے لگا۔‬
‫وعمر دونوں کے مشیر تھے؛چنانچہ‬ ‫ؓ‬ ‫خالفت راشدہ کے زمانہ میں وہ حضرت ابوبکر‬
‫شوری قائم کی تھی‪،‬اس کے‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے مہاجرین وانصار کی جو مجلس‬
‫رکن حضرت علی کرم ہللا وجہہ بھی تھے‪ ،‬حضرت‪ i‬عمر فاروق ؓ نے اس مجلس کے ساتھ‬
‫شوری قائم کی تھی اس کے اراکین کے نام اگرچہ ہم کو‬ ‫ٰ‬ ‫مہاجرین کی جو مخصوص مجلس‬
‫معلوم نہیں ہیں؛لیکن حضرت علی کرم ہللا وجہہ الزمی طورپر اس کے ایک رکن رہے‬
‫عمر کو ان کی رائے پر اتنا اعتماد تھا کہ جب کوئی مشکل‬ ‫ہوں گے‪،‬کیونکہ حضرت ؓ‬
‫معاملہ پیش ٓاجاتا توحضرت علی ؓ سے مشورہ کرتے تھے‪ ،‬ایک موقع پر انہوں نےفرمایا‬
‫تھا۔‬
‫لوال علی لھلک عمر اگر علی نہ ہوتے عمر ہالک ہوجاتا۔‬
‫اس اعتماد کی بنا پر بعض امور میں حضرت عمر ؓ نے حضرت علی کرم ہللا وجہہ کی‬
‫رائے کو اپنی رائے پر ترجیح دی ہے‪،‬معرکہ نہادند میں جب ایرانیوں کی کثرت نے‬
‫عمر کو بے حد مشوش کردیا‪،‬تو انہوں نے مسجد نبوی صلی ہللا علیہ وسلم میں‬ ‫حضرت ؓ‬
‫تمام صحابہ کو جمع کرکے رائے طلب کی‪،‬حضرت طلحہ ؓ نے کہا امیرالمومنین ٓاپ خود‬
‫ہم سے زیادہ سمجھ سکتے ہیں‪ ،‬البتہ ہم لوگ تعمیل حکم کے لیے تیار ہیں‪،‬حضرت عثمان ؓ‬
‫نے مشورہ دیا کہ شام ویمن وغیرہ سے فوجیں جمع کرکے ٓاپ خود سپہ ساالر ہوکر میدا ِن‬
‫عم نے ان کی‬ ‫جنگ تشریف لے جائیں ‪،‬حضرت علی کرم ہللا وجہہ خاموش تھے‪،‬حضرت‪ؓ i‬‬
‫طرف دیکھا تو بولے کہ شام سے اگر فوجیں ہٹیں تو مفتوحہ مقامات پر دشمنوں کا تسلط‬
‫ہوجائے گا اور ٓاپ نے مدینہ چھوڑا تو عرب میں ہر طرف قیامت برپا ہوجائے گی‪ ،‬اس‬
‫لیے میری رائے یہ ہے کہ ٓاپ یہاں سے نہ ہلیں اورشام ویمن وغیرہ میں فرمان بھیج دیئے‬
‫جائیں کہ جہاں جہاں جس قدر فوجیں ہوں ایک ایک ثلث ادھر روانہ کردی جائیں‪،‬حضرت‬
‫عمر ؓ نے اس رائے کو پسند کیا اورکہا کہ میرا بھی یہی خیال ہے۔‬
‫حضرت عثمان ؓ نے بھی ان سے اہم معامالت میں مشورے لیے اور اگر ان کے مشورہ پر‬
‫عمل کیا جاتا تو ان کا عہد نہ صرف فتنہ وفساد سے محفوظ رہتا ؛بلکہ قبائل عرب میں‬
‫ایک ایسا توازن قائم ہوجاتا کہ ٓائندہ جھگڑے کی کوئی صورت ہی نہ پیدا ہوتی۔‬
‫ٓاپ کی اصابت‪ i‬رائے کا سب سے بڑا ثبوت ٓاپ کے فیصلوں میں ملتا ہےاحادیث کی کتابوں‬
‫میں بہت سے ایسے پیچیدہ مقامات‪ i‬مذکورہیں جن کا فیصلہ حضرت علی کرم ہللا وجہہ نے‬
‫کیا اورجب وہ فیصلے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے سامنے پیش کیے گئے تو ٓاپ نے‬
‫فرمایا‪:‬‬
‫مااجد فیھا االماقال علی‬
‫میرے نزدیک بھی اس کا فیصلہ وہی ہے جو علی نے کیا۔‬
‫ان کے ایک اورفیصلہ کا ذکر کیا گیاتوٓاپ صلی ہللا علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اور فرمایا‪:‬‬
‫الحمدہلل الذی جعل فینا الحکمۃ اھل البیت‬
‫(ازالۃ الخفاء‪)۲۶۹ : i‬‬

‫اس خدا کا شکر ہے جس نے ہم اہل بیت کو حکمت سکھائی۔"‬


‫شاہ ولی ہللا صاحب‪ i‬نے ازالۃ الخفاء‪ i‬میں حضرت علی کرم ہللا وجہہ کے محاسن اخالق پر‬
‫ایک نہایت جامع بحث کی ہے‪،‬جس کا خالصہ یہاں مناسب ہوگا۔‬
‫وہ لکھتے ہیں‪:‬‬
‫‘‘بڑے بڑے لوگوں کی سرشت میں جو عظیم الشان اخالق داخل ہوتے ہیں‪ ،‬مثالً‬
‫شجاعت‪،‬قوت‪،‬حمیت‪ i‬اوروفاوہ سب ان میں موجود تھے اور فیض ربانی نے ان سب کو‬
‫فیض ربانی کی‬
‫ِ‬ ‫اپنی مرضی میں صرف کیا اوران کے ایک ایک خلق کے ساتھ اس‬
‫ٓامیزش سے ایک ایک مقام پیدا ہوا‪ ،‬ریاض النضرہ میں ہے کہ جب وہ راہ چلتے تھے تو‬
‫ادھر ادھر جھکے ہوئے چلتے تھے‪ ،‬اورجب کسی کا ہاتھ پکڑ لیتے تھے تو وہ سانس تک‬
‫نہیں لےسکتا تھا‪ ،‬وہ تقریبا ً فربہ اندام تھے‪ ،‬ان کی کالئیاں اور ان کے ہاتھ مضبوط تھے‬
‫اور دل کے مضبوط تھے‪،‬جس شخص سے کشتی لڑتے اس کو پچھاڑ دیتے تھے‪ ،‬بہادر‬
‫تھے اور جس سے جنگ میں مقابلہ کرتے اس پر غالب ٓاتے تھے۔‬
‫ان کے تمام محاسن اخالق میں ایک وفا تھی اورجب فیض ربانی نے اس کو موہبت کیا تو‬
‫مقام محبت ان کے لیے ایک مسلمہ چیز بن گیا‪،‬رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے جیسا کہ‬
‫متواتر طورپر ثابت ہے‪،‬فرمایاکہ میں کل ایسے شخص کو جھنڈادوں گا جو ہللا اوراس کے‬
‫رسول سے محبت کرتا ہے اورہللا اوراس کا رسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں‪ ،‬بآالخر‬
‫ٓاپ صلی ہللا علیہ وسلم نے جھنڈا حضرت علی کرم ہللا وجہہ کو دیا۔‬
‫ان کے محاسن اخالق میں ایک خلق‪ ،‬دشمنوں کی مدافعت ومبارزت تھی جسے فیض ربانی‬
‫نے ان کے سوابق اسالمیہ میں صرف کیا اورٓاخرت میں اس سےعجیب نتیجہ پیداہوا اوریہ‬
‫ٓایت‪:‬‬
‫ھذان خمصان اختصموا‬
‫ان دونوں فریق نے باہم مخاصمت‪ i‬کی۔‬
‫ان کی اوران کے رفقاء کی شان میں نازل ہوئی‪،‬امام بخاری نے حضرت علی بن ابی طالب‬
‫ؓ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ میں پہال شخص ہوں گا جو قیامت کے دن خدا‬
‫کے سامنے خصوصیت کے لیے دوزانوبیٹھے گا‪،‬قیس کہتے ہیں کہ یہ ٓایت‪:‬‬
‫ھذان خصمان اختصموا فی ربھم‬
‫ان دونوں فریق نے اپنے رب کے بارے میں باہم مخاصمت کی۔‬
‫ان ہی لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی اوریہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے بدر کے دن باہم‬
‫مبارزت کی‪،‬یعنی حمزہ ؓ‪،‬علی ؓ اورعبیدہ بن الحارث‪،ؓ i‬شیبہ بن ربیعہ ؓ‪ ،‬عتبہ اورولید بن عتبہ۔‬
‫ان کے محاسن اخالق میں ایک خلق ان کی غیر معمولی دلیری تھی‪،‬وہ کسی کی بھی پرواہ‬
‫نہیں کرتے تھے‪،‬لوگوں کی خاطر مدارت میں اپنی خواہش سے باز نہیں ٓاتے تھے‪ ،‬فیض‬
‫ربانی نے ان کے ان اخالق سے نہی المنکر اوربیت المال کی حفاظت کا کام لیا‪،‬حاکم نے‬
‫حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت کی ہے‪،‬لوگوں نے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے‬
‫حضرت علی کرم ہللا وجہہ کی شکایت کی توٓاپ صلی ہللا علیہ وسلم نے ہم لوگوں کے‬
‫سامنے خطبہ دیا اورفرمایا‘‘لوگو! علی کی شکایت نہ کرو‪،‬خداکی قسم!خداکی ذات اور اس‬
‫عمر سے روایت ہے کہ رسول ہللا‬ ‫کی راہ کے معاملہ میں وہ کسی قدرسخت ہے"حضرت ؓ‬
‫صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا خدا کی ذات کے معاملہ میں علی ؓ سخت ہیں۔"‬
‫ان کے محاسن اخالق میں ایک خلق اپنی قوم اوراپنے چچازاد بھائی (ٓانحضرت صلی ہللا‬
‫علیہ وسلم) کی حمیت تھی‪،‬وہ ان کے کام کی تکمیل میں نہایت اہتمام کرتے تھے اوران کی‬
‫مدد میں نہایت ہمت سے کام لیتے تھے‪،‬یہ وہ وصف ہے جو اکثر شریفوں میں پیدا ہوتا‬
‫ہے‪،‬جب فیض ربانی نے اعالئے کلمۃ ہللا کا جذبہ ان کے دل میں پیدا کیا تو اس خلق سے‬
‫کام لیا اوراس عقلی معنی کی شرح و تفسیر جس سے ایک ایسا عجیب مقام پیدا ہوا جس کی‬
‫تعبیر اخوت رسول ‪،‬وصی اوروارث وغیرہ متعدد الفاظ سے کی جاتی ہے ‪،‬حضرت ابن‬
‫عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے اپنے چچیرے بھائیوں میں‬
‫سے ہر ایک سے فرمایا کہ دنیا وٓاخرت میں تم میں سے کون میرا ولی ہوگا؛لیکن ان سب‬
‫نے اس بار کے تحمل سے انکار کیا‪ ،‬اس وقت ٓاپ صلی ہللا علیہ وسلم نے حضرت علی ؓ‬
‫سے فرمایا کہ تم دنیاوٓاخرت میں میرے ولی ہوئے‪،‬حاکم نے حضرت ابن عباس ؓ سے‬
‫روایت کی ہے کہ حضرت علی کرم ہللا وجہہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کی زندگی میں‬
‫فرماتے تھے کہ خداوند تعالی فرماتا ہے‪:‬‬
‫افائن مات او قتل انقلبتم علی اعقابکم‬
‫اگروہ مرگیے یا مارے گیے تو کیا تم الٹے پأوں پھر جأو گے۔‬
‫خداکی قسم!جب ہم کو خدانے ہدایت دے دی تو اس کے بعد ہم پیٹھ نہ پھیریں گے خداکی‬
‫قسم اگررسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کا وصال ہوا یا ٓاپ صلی ہللا علیہ وسلم شہید ہوگئے‬
‫تو جس چیز کے لیے ٓاپ صلی ہللا علیہ وسلم جنگ کرتے تھے‪،‬ہم بھی اس کے لیے لڑیں‬
‫گے‪،‬یہاں تک کہ مرجائیں‪،‬خداکی قسم ! میں ٓاپ کا بھائی ہوں‪ٓ،‬اپ صلی ہللا علیہ وسلم کا‬
‫ولی ہوں‪ٓ،‬اپ صلی ہللا علیہ وسلم کے چچا کا لڑکا ہوں‪،‬اورٓاپ‪ i‬صلی ہللا علیہ وسلم کے علم‬
‫کا وارث ہوں‪،‬ایسی صورت میں مجھ سے زیادہ ٓاپ صلی ہللا علیہ وسلم کا حق دار کون‬
‫ہے۔‬
‫(مستدرک کی روایت اور ازالۃ الخفاکی روایت میں تھوڑا سافرق ہے‪،‬اس ترجمہ میں اصل‬
‫مستدرک کی روایت کا لحاظ رکھا گیا ہے)‬

‫اسی سے ان دونوں فریق کی جوافراط وتفریط کرتے ہیں غلطی بھی ظاہر ہوگئی‪ ،‬ایک کہتا‬
‫ہے کہ قوم کی حمایت کے لیے غلبہ کا خواستگار ہونا خلوص نہیں‪،‬دوسراکہتا ہے کہ‬
‫استحقاق خالفت کے لیے اخوت نسبتی شرط ہے۔‬
‫محاسن اخالق میں ایک زہداورشہوت نفسانی سے اجتناب ہے‪،‬حضرت‪ i‬امیر معاویہ ؓ‬ ‫ِ‬ ‫ان کے‬
‫نے ضراراسدی سے کہا کہ مجھ سے حضرت علی کرم ہللا وجہہ کے اوصاف بیان کرو‪،‬‬
‫انہوں نے کہا کہ امیرالمومنین اس سے مجھے معاف فرمائیے‪،‬معاویہ ؓ نے اصرار کیا‬
‫ضراربولے‪،‬اگر اصرار ہے تو سنیے وہ بلند حوصلہ اورنہایت قوی تھے‪،‬فیصلہ کن بات‬
‫کہتے تھے‪،‬عادالنہ فیصلہ کرتے تھے‪،‬ان کے ہرجانب سے علم کا سرچشمہ پھوٹتا تھا‪ ،‬ان‬
‫کے تمام اطراف سے حکمت ٹپکتی تھی‪،‬دنیا کی دلفریبی اورشادابی سے وحشت کرتے‬
‫اوررات کی وحشت ناکی سے انس رکھتے تھے‪،‬بڑے رونے والے اوربہت زیادہ‬
‫غوروفکر کرنے والے تھے‪،‬چھوٹالباس اورموٹاجھوٹاکھانا پسندتھا‪،‬ہم میں بالکل ہماری‬
‫طرح رہتے تھے‪،‬جب ہم ان سے سوال کرتے تھے تو وہ ہمارا جواب دیتے تھے اورجب ہم‬
‫ان سے انتظار کی درخواست کرتے تھے تو وہ ہمارا انتظار کرتے تھے‪،‬باوجود یکہ اپنی‬
‫خوش خلقی سے ہم کو اپنے قریب کرلیتے تھے اور وہ خود ہم سے قریب ہوجاتے تھے؛‬
‫لیکن اس کے باوجود خدا کی قسم ان کی ہیبت سے ہم ان سے گفتگو نہیں کرسکتے تھے‪،‬‬
‫وہ اہل دین کی عزت کرتے تھے‪،‬غریبوں کو مقرب بناتے تھے ‪،‬قوی کو اس کے باطل میں‬
‫حرص وطمع کا موقع نہیں دیتے تھے‪،‬ان کے انصاف سے ضعیف ناامید نہیں ہوتا تھا‪،‬میں‬
‫شہادت دیتا ہوں کہ میں نے ان کو بعض معرکوں میں دیکھا کہ رات گزرچکی ہے‪،‬ستارے‬
‫ڈوب چکے ہیں اور وہ اپنی داڑھی پکڑے ہوئے ایسے مضطرب ہیں جیسے مارگزیدہ‬
‫مضطرب ہوتا ہے اوراس حالت‪ i‬میں وہ غمزدہ ٓادمی کی طرح رورہے ہیں اورکہتے ہیں کہ‬
‫اے دنیا مجھ کو فریب نہ دے تو مجھ سے چھیڑ چھاڑ کرتی ہے‪،‬یا میری مشتاق ہوتی ہے‪،‬‬
‫افسوس افسوس! میں نے تجھ کو تین طالقیں دے دی ہیں جس سے رجعت نہیں‬
‫ہوسکتی ‪،‬تیری عمر کم اورتیرا مقصدحقیر ہے‪ٓ،‬اہ!زادراہ کم اورسفر دوردرازکا ہے‪،‬راستہ‬
‫وحشت خیز ہے’’‬
‫یہ سن کر امیر معاویہ ؓ روپڑے اورفرمایا خدا ابوالحسن پر رحم کرے‪،‬خدا کی قسم!وہ‬
‫ایسے ہی تھے۔‬
‫ان کے محاسن اخالق میں ایک چیز شبہات سے اجتناب ہے‪،‬ان کی صاحبزادی حضرت ام‬
‫کلثوم ؓ سے روایت ہے کہ اگر حضرت علی کرم ہللا وجہہ کے پاس لیموں ٓاجاتے تھے‬
‫اورحسن ؓ وحسین ؓ ان میں سے کوئی لیموں لے کر کھانے لگتا تو وہ اس کو ان کے ہاتھ‬
‫سے چھین لیتے اوراس کو تقسیم کرنے کا حکم دیتے تھے‪،‬ابوعمروسے روایت ہے کہ وہ‬
‫فے کی تقسیم میں حضرت ابوبکر ؓ کا طریقہ اختیار کرتے تھے‪ ،‬یعنی جب ان کے پاس ٓاتا‬
‫تھا تو سب تقسیم کردیتے تھے اور فرماتے اے دنیا میرے سوا کسی اورکو دھوکہ دے‬
‫اورخود اس سے اپنے لیے کوئی چیز انتخاب نہ کرتے تھے اور نہ تقسیم میں اپنے کسی‬
‫رشتہ دار یا اورعزیز کی تخصیص کرتے تھے‪،‬حکومت اورامانت صرف متدین لوگوں‬
‫کے سپرد کرتے تھے‪ ،‬اورجب یہ معلوم ہوتا کہ کسی نے اس میں خیانت کی ہے تو اس کو‬
‫لکھتے‪:‬‬
‫قدجاءتکم موعظۃ من ربکم فاو فواالکیل والمیزان بالقسط والتدخسوا الناس اشیاء ھم وال‬
‫تعثوافی االرض مفسدین بقیۃ ہللا خیر لکم ان کنتم مومنین وماانا علیکم بحفیظ‬
‫"تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے نصیحت ٓاچکی ہے تو ناپ جو کھ کر انصاف‬
‫کے ساتھ پورا کرو اورلوگوں کی چیزوں میں کمی نہ کرو اورزمین میں فساد نہ‬
‫پھیالٔو‪،‬خداکا ثواب تمہارے لیے بہتر ہے‪،‬اگر تم ایماندار ہو اورمیں تمہارا نگران نہیں‬
‫ہوں۔"‬
‫جب تمہارے پاس میراخط پہنچے تو تمہارے ہاتھ میں جو کام ہے اس وقت تک تم اس کی‬
‫پوری حفاظت کرو جب تک کہ ہم تمہارے پاس دوسرے شخص کو نہ بھیجیں جو تمہارے‬
‫ہاتھوں سے لے لے‪،‬پھر اپنی نگاہ کو ٓاسمان کی طرف اٹھاتے اورکہتے کہ خداوندتوجانتا‬
‫ہے کہ میں نے ان کو تیری مخلوق پر ظلم کرنے اورتیرے حق کو چھوڑنے کا حکم نہیں‬
‫دیاہے۔‬
‫مجع التمیمی سے روایت ہے کہ بیت المال میں جو کچھ تھا اس کو حضرت علی ؓ نے‬
‫مسلمانوں میں تقسیم کردیا‪ ،‬پھر حکم دیا کہ اس میں جھاڑودے دی جائے اوراس میں نماز‬
‫پڑھی تاکہ قیامت کے دن ان کی گواہ رہے۔‬
‫حضرت کلیب ؓ سے روایت ہے کہ حضرت علی کرم ہللا وجہہ کے پاس اصفہان سے مال‬
‫ٓایا تو انہوں نے اس کے ساتھ حصے کیے‪ ،‬اس میں ایک روٹی بھی تھی اس کے بھی سات‬
‫ٹکڑے کیے اورہر حصے پر ایک ایک ٹکڑاتقسیم کیا‪،‬پھر قرعہ ڈاالکہ ان میں کس کوکون‬
‫ساحصہ دیا جائے۔‬
‫محاسن اخالق میں ایک چیز یہ ہے کہ وہ معاش کی تنگی پر صبر کرتے تھے‬ ‫ِ‬ ‫ان کے‬
‫اوراس کو اپنے لیے گوارہ کرلیتے تھے‪،‬خود ان سے روایت ہے کہ حضرت فاطمہ ؓ‬
‫ہمارے گھر میں ٓائیں تو ہمارے بچھانے کے لیے صرف مینڈھے کی ایک کھال تھی‪،‬‬
‫ضمرہ سے روایت ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے اپنے گھر کا کام اپنی‬
‫صاحبزادی حضرت فاطمہ کے متعلق کیا تھا اوربیرونی انتظامات حضرت علی کرم ہللا‬
‫وجہہ کے سپرد کیے تھے‪ ،‬حضرت علی کرم ہللا وجہہ سے روایت ہے کہ جب رسول ہللا‬
‫صلی ہللا علیہ و سلم نے ان سے حضرت فاطمہ ؓ کا نکاح کیا تو جہیز میں ایک‬
‫چادر‪،‬چمڑے کا ایک گدا جس میں کھجور کی پتیاں بھری ہوئی تھیں‪ ،‬ایک چکی‪ ،‬ایک‬
‫مشک اوردو گھڑے دیے‪ ،‬ایک دن حضرت علی ؓ نے حضرت فاطمہ ؓ سے کہا کہ پانی‬
‫بھرتے بھرتے میرا سینہ درد کرنے لگا‪ ،‬رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے پاس لونڈی‬
‫غالم ٓاتے ہیں‪ٓ ،‬اپ صلی ہللا علیہ وسلم سے ایک خادم کی درخواست کرو‪،‬انہوں نے کہا کہ‬
‫ٓاٹا پیستے پیستے میرے ہاتھوں میں بھی ٓابلے پڑگئے؛چنانچہ وہ ٓاپ کی خدمت میں حاضر‬
‫ہوئیں‪ٓ ،‬اپ صلی ہللا علیہ وسلم نے پوچھا‪،‬بیٹی کس غرض سے ٓائی ہو؟ بولیں سالم کرنے؛‬
‫لیکن سوال کرنے سے ان کو شرم ٓائی اور واپس چلی گئیں‪ ،‬حضرت علی ؓ نے پوچھا‪ ،‬تم‬
‫نے کیا کیا؟ بولیں سوال کرنے میں مجھے شرم ٓائی‪ ،‬دوبارہ دونوں ٓاپ صلی ہللا علیہ وسلم‬
‫کی خدمت میں حاضر ہوئے‪،‬حضرت‪ i‬علی ؓ نے عرض کیا کہ پانی بھرتے بھرتے میرا‬
‫سینہ درد کرنے لگا اورحضرت فاطمہ ؓ نے کہا کہ ٓاٹا پیستے پیستے میرے ہاتھوں میں‬
‫چھالے پڑگئے‪ ،‬خدانے ٓاپ صلی ہللا علیہ وسلم کے پاس لونڈی غالم اورمال بھیجا ہے‪ ،‬ہم‬
‫کو بھی ایک خادم عنایت ہو‪ٓ ،‬اپ صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا نہیں‪ ،‬یہ نہیں ہوسکتا کہ‬
‫میں تم کو دوں اوراہل صفہ کو فاقہ مستی کی حالت میں چھوڑدوں میں ان لونڈی غالموں‬
‫کو فروخت کرکے ان کی قیمت ان پر صرف کروں گا‪،‬یہ جواب پاکر دونوں لوٹ ٓائے‪،‬ان‬
‫کی واپسی کے بعدخود رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے‪،‬‬
‫حضرت علی کرم ہللا وجہہ اورحضرت فاطمہ ؓ چادر اوڑھ کر سوچکی تھیں‪ ،‬یہ چادر اتنی‬
‫چھوٹی تھی کہ جب سرڈھکتے تھے تو پأوں اورجب پأوں ڈھکتے تھے تو سرکھل جاتا‬
‫تھا‪ ،‬رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے تشریف النے پر دونوں اُٹھ گئے‪ٓ،‬اپ صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم نے فرمایا کیا تم کو میں ایسی چیز نہ بتالدوں جو اس چیز سے بہتر ہے جس چیز کو‬
‫تم مجھ سے مانگ سکتے ہو‪،‬دونوں نے کہا‪،‬ہاں!فرمایا‪،‬مجھ کو جبرئیل نے چند کلمے‬
‫سکھائے اورکہا کہ دونوں ہر نماز کےبعد دس بار تسبیح اور دس بار تحمید اوردس بار‬
‫تکبیر کہہ لیا کرو‪ ،‬اس طرح تم دونوں سوتے وقت ‪ ۳۳‬بار تحمید اور‪ ۳۴‬بار تکبیر کہہ لیا‬
‫کرو‪،‬حضرت‪ i‬علی کرم ہللا وجہہ کا بیان ہے کہ جب سے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے‬
‫مجھ کو یہ کلمے سکھائے ‪،‬اس وقت سے میں نے ان کو نہیں چھوڑا‪ ،‬ابن کواء نے کہا کہ‬
‫صفین کی رات میں بھی نہیں؟فرمایا‪ ،‬نہیں۔‬
‫حضرت علی کرم ہللا وجہہ کا بیان ہے کہ مدینہ میں ایک مرتبہ مجھے سخت بھوک لگی‪،‬‬
‫کھانے کو کچھ نہ تھا اس لیے عوالی میں مزدوری کی تالش میں نکال‪ ،‬ایک عورت ملی‪،‬‬
‫جس نے ڈھیلے اکھٹے کیے تھے‪ ،‬میں نے خیال کیا کہ غالبا ان کو وہ بھگوانا چاہتی ہے؛‬
‫چنانچہ میں نے ہر ڈول پر ایک کھجور اجرت طے کی اور ‪ ۱۶‬ڈول پانی بھرے جس سے‬
‫میرے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے‪ ،‬اس نے مجھے سولہ کھجوریں گن کردیں‪ ،‬رسول ہللا‬
‫صلی ہللا علیہ ہوسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اورٓاپ صلی ہللا علیہ وسلم نے ان کھجوروں‬
‫کو میرے ساتھ کھایا۔‬
‫(ازالۃ الخفاء‪ i‬کا خالصہ ختم ہوا)‬
‫‪pervaz khan‬‬
‫‪PM 02:18 ,07-16-2012‬‬
‫جزاک ہللا‬
‫طارق راحیل‬
‫‪PM 02:12 ,11-03-2012‬‬
‫جزاک ہللا خیراً۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫وي بلیٹن® ‪ ,v4.1.12‬حقوق نقل و اشاعت‪ ,2022-2000 :‬اردو منظر ‪ .‬اردو ترجمہ از‪:‬‬
‫سيد شاکرالقادری‬

‫حضرت علی علیہ السالم کے ممتاز اخالق کے چند نمونے‬

‫المومنین علیہ السالم کا واسطہ بننا‬


‫حضرت امیر ٴ‬
‫المومنین علیہ السالم کھجوروں کی دکان سے گزرے ‪ ،‬اچانک‬ ‫ایک دفعہ حضرت امیر ٴ‬
‫ایک کنیز کو روتے ھوئے دیکھا تو اس سے سوال کیا‪ :‬تو کیوں روتی ھے؟ اس نے کہا‪:‬‬
‫میرے آقا نے مجھے ایک درھم دیکر کھجور خریدنے کے لئے بھیجا تھا‪ ،‬میں نے اس‬
‫شخص سےکھجورر خریدے اور اپنے آقا کی خدمت میں لے گئی‪ ،‬لیکن اس کو پسند نھیں‬
‫آئے اور اس نے مجھے واپس کرنے کے لئے بھیجا ھے لیکن یہ شخص واپس نھیں کرتا‬
‫ھے۔‬
‫بندہ خدا! یہ ایک خادمہھے اور اس کا کوئی‬
‫امام علیہ السالم نے دکان والے سے کہا‪ :‬اے ٴ‬
‫اختیار نھیں ھے‪ ،‬اس کا درھم واپس کردے اورکھجورواپس لے لے‪( ،‬یہ سن کر) کھجور‬
‫بیچنے واال اپنی جگہ کھڑا ھوا اور اس نے آپ کو گھونسا مارا۔‬
‫المومنین علیہ السالم‬
‫(یہ دیکھ کر وہاں موجود) لوگوں نے کہا‪( :‬یہ تو نے کیا کیا) یہ امیر ٴ‬
‫ھیں؟ یہ سن کر وہ دکان واال لمبے لمبے سانس لینے لگا اور اس کے چہرے کا رنگ زرد‬
‫پڑگیا‪ ،‬اور اس نے کنیز سےکھجور واپس لئے اور اس کو درھم لوٹا دیااس کے بعد اس‬
‫المومنین ! (مجھے معاف کردیں) اور مجھ سے راضی ھوجائیں‪ ،‬حضرت‬ ‫نے کہا‪ :‬یا امیر ٴ‬
‫المومنین علیہ ا لسالم نے فرمایا‪ :‬اس سے زیادہ اور کون سی چیز مجھے راضی‬ ‫امیر ٴ‬
‫کرسکتی ھے کہ تو نے اپنی اصالح کرلی ھے؟‬
‫المومنین علیہ السالم نے ارشاد فرمایا کہ‪”:‬میں اس صورت میں تجھ سے‬ ‫حضرت امیر ٴ‬
‫راضی ھوتا ھوں کہ تو تمام لوگوں کے حقوق کو مکمل طور پر ادا کردے“۔‬
‫المومنین علیہ السالم نے لبید بن عطارد تمیمی (کچھ باتوں کے کہنے کی‬ ‫حضرت امیر ٴ‬
‫وجہ سے)گرفتار کرنے کے لئے اپنے کارندوں کو بھیجا‪ ،‬کارندے بنی اسد (کی گلی) سے‬
‫گزر رھے تھے کہ نعیم بن دجاجہ اسدی اٹھا اور لبید کو کارندوں کے ہاتھوں سے چھڑا‬
‫دیا ( اور وہ بھاگ نکال)‬
‫المومنین علیہ السالم نے نعیم بن دجاجہ کی گرفتاری کے لئے کچھ کارندوں‬ ‫حضرت امیر ٴ‬
‫کو بھیجا ‪ ،‬جب وہ الیا گیا تو امام علیہ السالم نے اس کی تنبیہ کا حکم دیا‪ ،‬اس موقع پر نعیم‬
‫کہتا ھے‪ :‬جی ہاں‪ ،‬خدا کی قسم آپ کے ساتھ رہنا خواری اور ذلت ھے اور آپ سے دوری‬
‫اختیار کرنا کفر ھے!‬
‫امام علیہ السالم نے فرمایا‪ :‬میں نے تجھے معاف کردیا‪ ،‬اور خداوندعالم فرماتا ھے‪”:‬اور‬
‫آپ بُرائی کو اچھائی کے ذریعہ رفع کیجئے۔“‬
‫لیکن تیرا یہ کہنا کہ ”آپ کے ساتھ رہنا ذلت ھے“‪ ،‬یہ ایک بُرا کام ھے جس کو تو نے‬
‫انجام دیا‪ ،‬لیکن تیرا یہ کہنا کہ ”آپ سے جدائی کفر ھے“‪ ،‬ایک نیکی ھے جس کو تو نے‬
‫انجام دیا ھے‪ ،‬پس یہ اس کے بدلے میں۔‬
‫المومنین علیہ السالم اپنے کچھ کاموں کی وجہ سے مکہ معظمہ میں داخل‬ ‫حضرت امیر ٴ‬
‫ھوئے‪ ،‬وہاں ایک اعرابی کو دیکھا جو خانہ کعبہ کے پردے میں لٹکا ھوا کہہ رہا ھے‪ :‬اے‬
‫گھر کے مالک!گھر تیرا گھر ھے‪ ،‬اور مھمان تیرا مھمان ھے‪ ،‬میزبان اپنے مھمان کی‬
‫خاطر داری کے لئے کچھ سامان مھیا کرتا ھے‪ ،‬آج میری مھمانداری میں میرے گناھوں‬
‫کی بخششفرمادے!‬
‫المومنین علیہ السالم نے اپنے اصحاب سے فرمایا‪ :‬کیا تم اس اعرابی کی‬ ‫حضرت امیر ٴ‬
‫باتوں کو نھیں سن رھے ھو؟ انھوں نے کہا‪ :‬کیوں نھیں‪ ،‬خداوندعالم اس سے زیادہ کریم‬
‫ھے کہ اس کا مھمان اس کی بارگاہ سے خالی ہاتھ واپس لوٹ جائے!‬
‫جب دوسری رات ھوئی اس کو اسی ر‪ ‬کن میں لٹکا ھوا دیکھا جو کہہ رہا تھا‪ :‬اے عزیز‪،‬‬
‫اپنی عزت میں! تجھ سے زیادہ عزیز تیری عزت میں نھیں ھے‪ ،‬تجھے تیری عزت کا‬
‫واسطہ ! مجھے اپنی عزت کے ذریعہ عزیز قرار دے‪ ،‬جس کو کوئی نھیں جانتا کہ وہ‬
‫عزت کیا ھے! میں تیری بارگاہ میں حاضر ھوں اور تجھ سے توسل کرتا ھوں بحق محمد‬
‫و آل محمد‪ ،‬مجھے وہ چیز عطا کردے کہ تیرے عالوہ کوئی بھی وہ چیز عطا نھیں‬
‫کرسکتا‪ ،‬اور مجھ سے اس چیز کو دور کردے کہ تیرے عالوہ کوئی دور نھیں کرسکتا۔‬
‫المومنین علیہ السالم نے اپنے اصحاب‪ i‬سے فرمایا‪ :‬خدا کی‬ ‫راوی کہتا ھے‪ :‬حضرت امیر ٴ‬
‫قسم! یہ جملے خدا کے عظیم نام ھیں جو سریانی زبان میں ھیں۔‬
‫میرے حبیب رسول خدا (صلی هللا علیه و آله و سلم) نے مجھے خبر دی ھے کہ اس رات‬
‫اس عرب نے خدا سے بہشت کی درخواست کی‪ ،‬اور خدا نے اس کو عطا کردی‪ ،‬اور آتش‬
‫دوزخ سے نجات چاھی اور اس کو آتش جہنم سے نجات مل گئی ھے!‬
‫جب تیسری رات ھوئی تو اس کو اسی رکن میں لٹکا ھوا دیکھا جو کہہ رہا ھے‪ :‬اے خدا‬
‫جس کو کوئی جگہ احاطہ نھیں کرسکتی اور کوئی بھی جگہ اس سے خالی نھیں ھے اور‬
‫وہ کیفیت نھیں رکھتا‪ ،‬اس عرب کو چار ہزار‪  ‬روزی عطا فرما۔‬
‫المومنین علیہ السالم آگے بڑھے اور فرمایا‪ :‬اے عرب! تو نے خداوندعالم‬ ‫حضرت امیر ٴ‬
‫کی مھمان نوازی چاھی‪ ،‬تیری مھمان نوازی کردی‪ ،‬جنت کی درخواست کی‪ ،‬تجھے عطا‬
‫کردی‪ ،‬آتش جہنم سے نجات چاھی تجھے نجات مل گئی‪ ،‬آج اس سے چار ہزار کی‬
‫درخواست کرتا ھے؟‬
‫اس عرب نے کہا‪ :‬آپ کون ھیں؟ فرمایا‪ :‬میں علی بن ابی طالب ھوں‪ ،‬عرب نے کہا‪ :‬خدا‬
‫کی قسم! آپ ھی میرے مطلوب و مقصود ھیں آپ کے ہاتھوں میری حاجت روائی ھوگی‪،‬‬
‫امام علیہ السالم نے فرمایا‪ :‬اے اعرابی! سوال کر‪ ،‬اس عرب نے کہا‪ :‬ایک ہزار درھم‪،‬‬
‫مہر کے لئے چاہتا ھوں‪ ،‬ایک ہزار درھم اپنے قرض کی ادائیگی کے لئے‪ ،‬ایک ہزار‬
‫درھم‪ ،‬مکان خریدنے کے لئے اور ایک ہزار درھم اپنے زندگی کے خرچ کے لئے‪ ،‬امام‬
‫علی علیہ السالم نے فرمایا‪ :‬اے عرب! تو نے اپنی درخواست میں انصاف سے کام لیا‬
‫ھے‪ ،‬جب مکہ سے روانہ ھو تو مدینہ رسول میں آنا اور وہاں ھمارا مکان معلوم کرکے‬
‫آجانا۔‬
‫المومنین علیہ السالم کی تالش میں‬‫عرب ایک ہفتہ تک مکہ میں رہا اور پھر حضرت امیر ٴ‬
‫المومنین‬
‫مدینہ منورہ آیا‪ ،‬اور لوگوں سے سوال کیا‪ :‬کون ھے جو مجھے حضرت امیر ٴ‬
‫علیہ السالم کے مکان کا راستہ بتائے‪ ،‬بچوں کے درمیان حضرت حسین بن علی علیہ‬
‫المومنین علیہ السالم کے مکان پر لے جاتا ھوں‪ ،‬میں‬ ‫السالم نے جواب دیا‪ :‬میں تجھے امیر ٴ‬
‫ان کا فرزند حسین بن علی ھوں‪ ،‬عرب نے کہا‪ :‬بہت اچھا‪ ،‬آپ کے والد گرامی کون ھیں؟‬
‫المومنین علی بن ابی طالب‪ ،‬اس نے سوال کیا‪ :‬آپ کی والدہ گرامی کون‬ ‫آپ نے فرمایا‪:‬امیر ٴ‬
‫ھیں؟ آپ نے فرمایا‪ :‬فاطمہ زہرا سیدة نساء العالمین‪ ،‬اس نے کہا؟ آپ کے ج ّدکون ھیں؟ آپ‬
‫نے فرمایا‪ :‬محمد بن عبد هللا بن عبد المطلب‪ ،‬اس نے کہا‪ :‬آپ کی ج ّدہ کون ھیں؟ آپ نے‬
‫فرمایا‪ :‬خدیجہ بن خویلد‪ ،‬اس نے کہا‪ :‬تمہارے بھائی کون ھیں؟ آپ نے فرمایا‪ :‬ابومحمد‬
‫حسن بن علی‪ ،‬اس عرب نے کہا‪ :‬تم نے پوری دنیا کو حاصل کرلیا ھے!جاؤ حضرت امیر‬
‫المومنین علیہ السالم کے پاس جاؤ اور ان سے کھو‪ :‬جس اعرابی کی آپ نے مکہ میں‬ ‫ٴ‬
‫حاجت پوری کرنے کی ضمانت دی تھی وہ آپ کے دروازہ پر کھڑا ھے۔‬
‫حضرت امام حسین علیہ السالم بیت الشرف میں داخل ھوئے اور فرمایا‪ :‬والد گرامی! وہ‬
‫اعرابی جس کو آپ نے مکہ میں وعدہ کیا تھا وہ دروازہ پر کھڑا ھے۔‬
‫المومنین علیہ السالم نے جناب فاطمہ زہرا سالم هللا علیہا سے فرمایا‪ :‬کیا کچھ‬ ‫حضرت امیر ٴ‬
‫کھانا موجود ھے جو اس اعرابی کو کھال دیا جائے؟ جناب فاطمہ زہرا سالم هللا علیہا نے‬
‫فرمایا‪ :‬نھیں‪( ،‬کچھ بھی نھیں ھے) علی علیہ السالم نے اپنا لباس زیب تن کیا اور بیت‬
‫الشرف سے باہر آئے اور فرمایا‪ :‬ابوعبد هللا سلمان‪      ‬فارسی کو بالؤ۔‬
‫چنانچہ جب سلمان آگئے تو ان سے فرمایا‪ :‬اے ابو عبد هللا! پیغمبر اکرم (صلی هللا علیه و‬
‫آله و سلم) نے ھمارے لئے جو باغ لگایا ھے اس کو فروخت کر ڈالو۔‬
‫چنانچہ جناب سلمان بازار گئے اور اس باغ کو بارہ ہزار درھم میں فروخت کردیا‪،‬‬
‫امیرالمومنین علیہ السالم نے اعرابی کو دینے کے لئے پیسہ تیار کیا‪ ،‬اور چار‬
‫ٴ‬ ‫حضرت‬
‫ہزار درھم اس کی ضرورت کے برطرف کرنے کے لئے اور چالیس درھم اس کے خرچ‬
‫کے لئے ادا کئے۔‬
‫حضرت علی علیہ السالم کی عطا و بخشش کی خبر مدینہ کے غریبوں تک (بھی) پہنچی‪،‬‬
‫المومنین علیہ السالم کے پاس جمع ھوگئے۔‬‫وہ بھی حضرت امیر ٴ‬
‫انصار کا ایک شخص حضرت فاطمہ زہرا سالم هللا علیہا کے بیت الشرف گیا اور اس نے‬
‫آپ کو خبر دی‪ ،‬بی بی نے فرمایا‪ :‬خداوندعالم! تجھے راستہ چلنے کا ثواب عطا کرے۔‬
‫حضرت علی علیہ السالم بیٹھے ھوئے تھے اور درھموں کو اپنے سامنے رکھا ھوا تھا‪،‬‬
‫یہاں تک کہ آپ کے اصحاب بھی جمع ھوگئے اور ایک ایک مٹھی بھر کر غریبوں کو‬
‫دیتے رھے یہاں تک کہ ایک درھم بھی باقی نھیں بچا۔۔۔!‬
‫المومنین‬
‫(موسی بن طلحہ) کو حضرت‪ i‬امیر ٴ‬ ‫ٰ‬ ‫جنگ جمل کے خاتمہ کے بعد طلحہ کے بیٹے‬
‫علیہ السالم کی خدمت میں الیا گیا‪ ،‬امام علیہ السالم نے اس سے فرمایا‪ :‬تین بار کھو‪:‬‬
‫”اٴستغفر هللا و اٴتوب إلیہ“ ‪ ،‬اور پھر اس کو آزاد کردیا اور فرمایا‪ :‬جہاں جانا چاھو چلے‬
‫جاؤ‪ ،‬اور لشکر گاہ میں اسلحہ‪ ،‬سواری اور جو چیزیں تمھیں مل جائیں ان کو لے لو‪ ،‬اور‬
‫اپنی مستقبل کی زندگی میں خدا کا پاس و لحاظ رکھو اور گھر میں رھو۔‬
‫المومنین علیہ السالم کا وجود مبارک حاالنکہ ملک اور عوام کے حاالت سے‬ ‫حضرت امیر ٴ‬
‫باخبر تھا مخصوصا ً یتیموں‪ ،‬بیواؤں‪ ،‬غریبوں اور محتاجوں سے پل بھر کے لئے بھی‬
‫غافل نھیں ھوتے تھے‪ ،‬لیکن کبھی اپنی حکومت کے کارندوں اور امت اسالمیہ کو سبق‬
‫دینے کے لئے ایک عام انسان کی طرح کام کیا‪   ‬کرتے تھے۔‬
‫ایک روز آپ نے ایک عورت کو دیکھا جو اپنے شانوں پر پانی کی مشک رکھے جا رھی‬
‫ھے‪ ،‬آپ نے اس سے مشک لی اور اس عورت کی منزل تک پہنچا دی‪ ،‬اور پھر اس‬
‫عورت کے حاالت دریافت کئے‪ ،‬اس عورت نے کہا‪ :‬علی بن ابی طالب نے میرے شوہر‬
‫کو کسی سرحد پر بھیجا جو وہاں قتل ھوگیا‪ ،‬اب میرے یتیم بچے ھیں اور ان کے خرچ‬
‫کے لئے بھی میرے پاس کوئی چیز نھیں ھے‪ ،‬اسی وجہ سے ضرورت کی ماری خود ھی‬
‫کام کرنے پر مجبور ھوں۔‬
‫المومنین علیہ السالم اپنے بیت الشرف پلٹ آئے اور پوری رات پریشانی اور بے چینی‬ ‫امیر ٴ‬
‫کے عالم میں گزاری‪ ،‬جب صبح نمودار ھوئی ‪ ،‬آپ نے کھانے پینے کا کچھ سامان لیا اور‬
‫اس کے گھر کی طرف روانہ ھوئے‪ ،‬آپ کے بعض اصحاب نے کہا‪ :‬الئےے یہ بوجھ‬
‫المومنین علیہ السالم نے‬
‫ھمیں دیدیجئے تاکہ ھم اس کے گھر تک پہنچا دیں‪ ،‬تو امیر ٴ‬
‫فرمایا‪ :‬قیامت کے دن میرا بوجھ کون اٹھائے گا؟‬
‫چنانچہ اس عورت کے گھر کے دروازے پر پہنچے‪ ،‬اور دق الباب کیا‪ ،‬اس عورت نے‬
‫سوال کیا‪ :‬کون ھے جو دروازہ کھٹکھٹاتا ھے؟ امام علیہ السالم نے فرمایا‪ :‬میں وھی بندہ‬
‫ھوں جس نے کل تمہاری پانی کی مشک تمہارے گھر تک پہنچائی تھی‪ ،‬دروازہ کھولو کہ‬
‫میں بچوں کے لئے کھانے پینے کا سامان الیا ھوں‪ ،‬تو اس عورت نے کہا‪ :‬خدا تم سے‬
‫خوش رھے‪ ،‬اور میرے اور علی کے درمیان فیصلہ کرے!‬
‫المومنین علیہ السالم اس کے مکان میں وارد ھوئے اور فرمایا‪ :‬میں تمہاری مدد‬ ‫امیر ٴ‬
‫کرکے ثواب ٰالھی حاصل‪ i‬کرنا چاہتا ھوں ‪ ،‬میںروٹی بنانے اور بچوں کو بھالنے میں سے‬
‫ایک کام میرے حوالہ کردو‪ ،‬اس عورت نے کہا‪ :‬روٹیاں بنانے کی میری عادت ھے اور‬
‫اچھی روٹیاں بنا سکتی ھوں‪ ،‬لہٰ ذا آپ بچوں کو بھالئیں‪ ،‬تاکہ میں آرام سے روٹیاں بنا‬
‫سکوں۔‬
‫وہ عورت کہتی ھے‪ :‬میں نے آٹے کی روٹی بنانا شروع کی اور علی (علیہ السالم) نے‬
‫گوشت بنانا شروع کیا‪ ،‬اور گوشت اور خرما بچوں کو کھالنے لگے‪ ،‬جب بھی بچے لقمہ‬
‫المومنین علیہ السالم بچوں سے فرماتے تھے‪ :‬میرے بیٹو! علی‬ ‫کھاتے تھے حضرت امیر ٴ‬
‫کی وجہ سے تم پر جو مصیبت پڑی ھے‪ ،‬ان کو معاف کردینا!‬
‫جب آٹا گندھ گیا تو اس عورت نے کہا‪ :‬اے بندہ خدا! تنور روشن کرو‪ ،‬حضرت علی علیہ‬
‫السالم تنور کی طرف گئے اور اس کو روشن کیا‪ ،‬اور جب تنور سے شعلہ نکلنے لگے تو‬
‫اپنے چہرے کو اس کے نزدیک لے گئے تاکہ اس کی حرارت آپ کے چہرے تک پہنچے‪،‬‬
‫اور فرماتے جاتے تھے‪ :‬اے علی! بیواؤں اور یتیم بچوں کے حق سے غافل ھونے‬
‫(کااحتمال دینے والے کی جزا) آگ کی حرارت ھے۔‬
‫ناگہاں (پڑوس کی) ایک عورت آئی اور اس نے حضرت علی علیہ السالم کو دیکھ کر‬
‫المومنین علیہ السالم‬ ‫پہچان لیا اور ان بچوں کی ماں سے کہا‪ :‬وائے ھو تجھ پر! یہ تو امیر ٴ‬
‫ھیں‪ ،‬یہ سن کر وہ عورت آپ کی طرف دوڑی اور وہ مسلسل کہتی جاتی تھی‪ :‬یا امیر‬
‫امیرالمومنین علیہ السالم نے فرمایا‪:‬‬ ‫ٴ‬ ‫المومنین ! میں آپ سے بہت شرمندہ ھوں! حضرت‬ ‫ٴ‬
‫اے کنیز خدا! میں تجھ سے زیادہ شرمندہ ھوں کہ تیرے حق میں کوتاھی ‪ ‬کی ھے۔‬
‫حضرت علی علیہ السالم نے شہر کوفہ کے بازار سے کھجور خریدے اور ان کو عبا کے‬
‫دامن میں رکھ کر گھر کی طرف روانہ ھوئے‪ ،‬اصحاب نے اس بھاری بوجھ کو آپ سے‬
‫المومنین ! یہ بوجھ ھم اٹھاتے ھیں‪ ،‬امام علیہ السالم نے فرمایا‪:‬‬ ‫لینا چاہا اور کہا‪ :‬یا امیر ٴ‬
‫اپنے اھل و عیال کا بوجھ اٹھانے کے لئے خود گھر کا مالک زیادہ مناسب ھے۔‬
‫زید بن علی کہتے ھیں‪ :‬حضرت علی علیہ السالم ھمیشہ پانچ موقع پر پابرہنہ چلتے تھے‬
‫اور اپنی نعلین مبارک کو بائیں ہاتھ میں رکھتے تھے‪ ،‬روز عید فطر‪ ،‬روز عید قربان‪ ،‬روز‬
‫جمعہ‪ ،‬بیمار کی عیادت کے لئے اور جنازہ کے ساتھ چلتے وقت‪ ،‬اور آپ فرماتے تھے‪ :‬یہ‬
‫پانچ مقام خدا کے ھیں میں چاہتا ھوں کہ ان مقامات پر پابرہنہ رھوں۔‬
‫المومنین علیہ السالم ھمیشہ بازار میں اکیلے جاتے تھے‬ ‫حضرت امیر ٴ‬
‫اورسرگرداںافرادکوان کی منزل کی رہنمائی فرمایا کرتے تھے اور کمزوروں کی مدد کیا‬
‫کرتے تھے اور جب دکان والوں اور بقالوں کی طرف سے گزرتے تھے تو قرآن پڑھتے‬
‫تھے اور اس آیت کی تالوت کیا کرتے تھے‪:‬‬
‫ض َوالَفَ َسادًا َو ْال َعاقِبَةُ لِ ْل ُمتَّقِ َ‬ ‫َ‬ ‫ک ال َّدا ُر اآْل ِخ َرةُ نَجْ َعلُہَا لِلَّ ِذ َ‬‫< تِ ْل َ‬
‫ین>‬ ‫ون ُعلُ ًّوا فِی ااْل ٴرْ ِ‬
‫ین الَی ُِری ُد َ‬
‫”وہ دار آخرت ھے جسے ھم ان لوگوں کے لئے قرار دیتے ھیں جو زمین میں بلندی اور‬
‫تقوی کے لئے ھے۔“‬ ‫ٰ‬ ‫فساد کے طلبگار نھیں ھوتے ھیں اور عاقبت تو صرف صاحبان‬
‫المومنین علیہ السالم ایک سواری‬ ‫حضرت امام صادق علیہ السالم نے فرمایا‪ :‬حضرت امیر ٴ‬
‫پر سوار اپنے اصحاب کے درمیان پہنچے‪ ،‬اور جب وہاں سے روانہ ھونے لگے تو‬
‫اصحاب آپ کے ساتھ ساتھ چلنے لگے‪ ،‬امام علیہ السالم نے ان کی طرف رخ کرکے‬
‫المومنین! ھم تو آپ کے‬ ‫فرمایا‪ :‬کیا کوئی حاجت‪ i‬ھے؟ انھوں نے جواب دیا‪ :‬نھیں‪ ،‬یا امیر ٴ‬
‫ساتھ چلنے کے مشتاق ھیں‪ ،‬آپ نے فرمایا‪ :‬سوارکے ساتھ پیدل چلنا‪ ،‬سوار کے فساد اور‬
‫پیدل چلنے والوں کی ذلت و خواری کا سبب ھوتا ھے۔‬
‫جب امام علی علیہ السالم کی حکومت کا زمانہ تھا اور قضاوت کا منصب ُشریح کے پاس‬
‫تھا‪ ،‬امام علیہ السالم ایک یھودی کے ساتھ عدالت میں آئے تاکہ ُشریح آپ کے اور اس‬
‫یھودی کے درمیان فیصلہ کرے‪ ،‬آپ نے عدالت میں آنے کے بعد یھودی سے فرمایا‪ :‬یہ‬
‫زرہ جو تیرے ہاتھ میں ھے‪ ،‬میری ھے‪ ،‬میں نے نہ اس کو فروخت کیا ھے اور نہ بخشا‬
‫ھے‪ ،‬یھودی نے کہا‪ :‬زرہ میری ملکیت میں اور میرے اختیار میں ھے۔‬
‫المومنین علیہ السالم سے شاہد اور گواہ طلب کئے‪ ،‬حضرت نے‬ ‫شریح نے حضرت امیر ٴ‬
‫فرمایا‪ :‬یہ قنبر اور حسین (علیہ السالم) گواھی دیتے ھیں کہ زرہ میری ھے‪ ،‬شریح نے‬
‫کہا‪ :‬بیٹے کی گواھی باپ کے حق میں قبول نھیں ھے اور غالم کی گواھی آقا کے حق میں‬
‫مقبول نھیں ھے‪ ،‬کیونکہ یہ دونوں آپ کے فائدہ کی بات کریں گے!‬
‫المومنین علیہ السالم نے فر مایا‪ :‬اے ُشریح! وائے ھو تجھ پر! تو نے چند‬
‫حضرت امیر ٴ‬
‫لحاظ سے خطا کی ھے‪ ،‬تیری پھلی خطا یہ ھے کہ میں تیرا امام ھوں‪ ،‬تو میرے حکم کی‬
‫اطاعت کرتے ھوئے خدا کی اطاعت کرتا ھے اور تو جانتا ھے کہ میں کبھی حق کے‬
‫عالوہ کچھ نھیں کہتا‪ ،‬لیکن پھر بھی تو نے میری بات کو ر ّد کردی اور میرے دعوے کو‬
‫جھٹالدیا! تیری دوسری غلطی یہ ھے کہ تونے قنبر اور حسین (علیہ السالم) کے خالف یہ‬
‫دعوی کیا کہ یہ تو آپ کے فائدے میں گواھی دیں گے! تو نے جو میرے و قنبراور حسین‬‫ٰ‬
‫(علیہ السالم) کے دعوے کو جھٹالیا اس کی کوئی سزا نھیں دیتا مگر یہ کہ تین دن تک‬
‫یھودیوں کے درمیان فیصلہ کرو۔اور پھر شریح کو یھودی عالقہ میں بھیج دیا اور اس نے‬
‫تین دن تک یھودی بستی میں فیصلے کئے اور پھر اپنے اصلی مقام کی طرف پلٹ آیا۔‬
‫جب اس یھودی نے اس واقعہ کو سنا کہ حضرت علی علیہ السالم نے گواھوں کے باوجود‬
‫بھی اپنی قدرت سے ناجائز فائدہ نھیں اٹھایا اور قاضی نے آپ کے خالف فیصلہ سنا دیا‪،‬‬
‫المومنین (علیہ السالم) ھیں جو قاضی کے‬ ‫تو اس یھودی نے کہا‪ :‬تعجب ھے کہ یہ امیر ٴ‬
‫پاس گئے اور قاضی نے ان کے خالف فیصلہ کردیا! تو وہ یھودی مسلمان ھوگیا‪ ،‬اور پھر‬
‫المومنین (علیہ السالم) کی ھے جو جنگ صفین میں آپ کے سیاہ‬ ‫اس نے کہا‪ :‬یہ زرہ امیر ٴ‬
‫و سفید گھوڑے سے زمین پر گر گئی تھی جس کو میں نے اٹھا لیا تھا۔‬

‫امیر المومنین حضرت علی (ع) کی سیاسی‪ ،‬مالی و اخالقی سیرت‬

‫اسالم ٹائمز‪ :‬جب عبدالرحمان ابن ملجم پکڑا گیا اور اسے موال کے سامنے الیا گیا تو موال‬
‫نے اس سے فرمایا! اے عبدالرحمان کیا میں تمہارا اچھا امام نہیں تھا؟؟ جب اس نے کچھ‬
‫بولنا چاہا اور بول نہ پایا تو موال سمجھ گئے کہ اس کا گال خشک ہو گیا ہے‪ ،‬اس لیے بول‬
‫نہیں پا رہا‪ ،‬اسی وقت موال کے لیے ایک شربت آیا تھا جو طبیب نے نسخے کے طور پر‬
‫موال کو دیا تھا تا کہ درد کم ہو‪ ،‬موال نے فرمایا کہ یہ شربت اسے پالؤ۔۔ دیکھیں موال کا‬
‫اخالق کس درجے کا ہے‪ ،‬یاد رکھیں سزا اپنی جگہ ہے‪ ،‬سزا کے لیے موال امام حسن علیہ‬
‫السالم کو وصیت کر چکے ہیں‪ ،‬اس نے مجھے ایک ضرب ماری ہے آپ بھی اسے ایک‬
‫ضرب مارنا‪ ،‬سزا اپنی جگہ ہے لیکن اخالقی رویہ اپنی جگہ ہے۔‬
‫مدرس‪ :‬استاد محترم سید حسین موسوی‬
‫ترتیب‪ :‬عاطف مہدی سیال‬
‫قرآن صامت‬
‫ِ‬ ‫ماہ مبارک رمضان میں انسان خود کو قرآن مجید کے قریب کرے چاہے وہ‬
‫قرآن ہو یا ناطق قرآن‪ ،‬امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السالم ناطق قرآن‬
‫کے حوالے سے ہمیں موال کی سیرت کے قریب جانے کی ضرورت ہے جتنا موال کے‬
‫سیرت کے قریب جائیں گے اتنا ئی قرآن کے قریب جائیں گے۔ قرآن پاک میں جتنے بہی‬
‫اعلی درجے میں موجود‬ ‫اخالق بتائیں گے وہ سب رسول خدا کی طرح امیر المومنین میں ٰ‬
‫ہیں ہمیں اخالق پر زیادہ دھیان دینے کی ضرورت ہے کیوںکہ انسان مومن مومنہ اخالق‬
‫سے بنتا ہے اور کافر بہی کافرانہ اخالق کی وجہ سے بنتا ہے۔۔ہمیں موال کی سیاسی اور‬
‫اخالقی زندگی کو سمجھنے کی ضرورت ہے اگر ہم سمجھ جائیں تو کافی مشکالت حل ہو‬
‫سکتی ہیں۔‬

‫‪1‬۔ امیر المومنین کی سیاسی زندگی‪:‬‬


‫ہماری اکثر سوچ یہ ہے کہ سیاست میں سچ ہوتا ہی نہیں ہے‪ ،‬سیاست صرف جھوٹ ہوتی‬
‫ہے‪ ،‬سیاست چلتی ہے جھوٹ سے ہے‪ ،‬لیکن امیر المومنین نے اس سیاست کے عروج پہ‬
‫ہوتے ہوئے بھی سچ کو اپنایا اور کبھی جھوٹ نہیں بوال اور وہی سیاست کامیاب ہے‬
‫کیوںکہ وہ انسان کو خدا کے قریب التی ہے‪ ،‬ہمارے پاس سیاست کا مقصد ہی الگ ہے‪،‬‬
‫اصل سیاست کا مقصد انسانوں کو خدا کے قریب کرنا ہے اور سچ ہی انسان کو خدا کے‬
‫قریب کرتا ہے‪ ،‬جھوٹ نہیں۔ امیر المومنین نے اپنی سیاست میں صداقت اپنائی ہے اور‬
‫موال نے اس سیاست کو مظلوموں کی خدمت کا ذریعہ سمجھا ہے دراصل حکومت کا‬
‫تعالی نے حکمران بنائے ہی اس لیے ہیں کہ ایک‬ ‫مقصد مظلوموں کی حمایت کرنا ہے‪ ،‬ہللا ٰ‬
‫اعلی ہے‪،‬‬ ‫تعالی کا قانون ٰ‬
‫ٰ‬ ‫طاقتور ظالم سے کمزور مظلوم کو حق دالئیں تاکہ معلوم ہو ہّٰللا‬
‫تعالی کا عدل ہّٰللا کا ہے۔ امیر المومنین جب حکومت پر آئے تو انکا لباس‪ ،‬رھائش اور‬ ‫ٰ‬ ‫ہّٰللا‬
‫کھانا بہت ہی سادہ تھا‪ ،‬موال نھج البالغہ میں فرماتے ہیں‪" ،‬جو امام‪ ،‬حکمران یا رہبر بنتا‬
‫ہے اس کی خدا کی طرف سے ذمہ داری ہے کہ وہ خود کو اس جیسا رکھے جو حکومت‬
‫میں سب سے غریب ہیں‪ ،‬اگر اسکے پاس اپنی ذاتی ملکیت ہے تب بھی وہ اپنے لیے بھتر‬
‫کھانا‪ ،‬بھتر لباس اور رھائش نہیں اپنا سکتا اسالمی حکومت کے حوالے سے یا تو وہ عیش‬
‫و آرام کا انتخاب کرے یا پھر حکومت کا"۔‬

‫الف۔ امیر المومنین کا لباس‪:‬‬


‫ابن مطر روایت کرتا ہے کہ "میں کوفہ گیا ہوا تھا‪ ،‬اتنے میں میرے پاس سے ایک شخص‬
‫گذرا‪ ،‬لوگوں نے کہا کہ یہ امیر المومنین حضرت‪ i‬علی علیہ السالم ہیں‪ ،‬راوی کہتا ہے کہ‬
‫میں انکے پیچھے گیا‪ ،‬موال ایک درزی کے پاس رکے اور اسے کہا کہ آپ کے پاس جو‬
‫دو درھم کا لباس ہے وہ مجھے دیں (اس دور میں ‪ 2‬درھم کا لباس بہت ہی سادہ لباس تھا)‬
‫موال نے وہ لباس پہنا اور دعا کی کہ ہّٰللا کی حمد جس نے میرے اس جسم کو چھپانے لیے‬
‫مجھے ایسا بھترین لباس عطا کیا۔۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ موال کا لباس اس دور کے‬
‫غریبوں جیسا تھا۔۔‬
‫ب۔ امیر المومنین کا کھانا‪:‬‬
‫راوی کہتا ہے کہ میں امیر المومنین سے ملنے گیا ان کے سامنے لسی پڑی ہوئی تھی‪،‬‬
‫جسے دیکھ کے لگ رہا تھا کہ وہ کافی دیر سے پڑی ہوئی ہے‪ ،‬اتنے میں موال نے تھیلی‬
‫میں سے جو کی روٹی نکالی اسے توڑا اور کھانا شروع کیا اور مجھے بھی کہا کہ آئیں‬
‫کھانا کھائیں اور جب میں قریب گیا اور وہ کھانا دیکھ کر خود کو روکا اور سوچا کہ میں‬
‫یہ کھانا نہیں کھا سکتا اور وہ کہتا ہے کہ مین نے جناب فضہ کو کہا آپ کچھ احساس ہونا‬
‫چاہیئے‪ ،‬موال کے لیے کچھ بہتر کھانا رکھیں‪ ،‬تو جناب فضہ کہتی ہیں امیر المومنین خود‬
‫یہ کھانا اور جو کی روٹی تھیلی میں رکھ کر اس پہ مھر لگاتے ہیں تاکہ ہم اس کے اندر‬
‫اور اور کچھ شامل نا کر سکیں۔۔ یہ علی ابن ابی طالب علیہ السالم کا سادہ کھانا تھا۔‬

‫ج۔ امیر المومنین کی رہائش‪:‬‬


‫آپ مسجد کے پاس ہی ایک کچے مکان جو کہ کرائے پہ لیا ہوا تھا پوری فیملی کے ساتھ‬
‫اس میں رہتے تھے۔۔ اس سادگی کے باوجود بھی امیر المومنین نھج البالغہ میں خط نمبر‬
‫‪ 45‬میں جو بصرے کے گورنر عثمان بن عنیف کو لکھا تھا آپ فرماتے ہیں‪" ،‬تمہارے امام‬
‫نے اس دنیا میں دو روٹیوں اور اس لباس پر صبر کیا ہے اور فرماتے ہیں میں ابھی بھی‬
‫خوف میں ہوں کہ ہو سکتا ہے حجاز ہو‪ ،‬یمامہ میں کوئی ایسا شخص ہو جس کو یہ دو‬
‫روٹیاں بھی میسر نہ ہوں"۔‪ ‬امیر المومنین کی یہ سیاسی زندگی ہمارے لیے مثال ہے۔۔‬

‫‪2‬۔ امیر المومنین کی مالی سیرت‪:‬‬


‫ایک دفعہ موال کے پاس کچھ مال آیا اور موال نے حکم دیا کہ اسے تقسیم کیا جائے‪،‬‬
‫کیوںکہ موال بیت المال میں مال جمع نہیں کرتے تھے جو آتا تھا حقدار تک ہہنچا دیتے‬
‫تھے‪ ،‬بیت المال والوں نے کہا کہ موال رات دیر یو گئی ہے رات گذرنے دیں‪ ،‬انشاءہللا‬
‫صبح کو تقسیم کریں گے‪ ،‬موال نے فرمایا آپ ضمانت دیتے ہیں کہ صبح میں زندہ رہوں‬
‫گا؟ کہنے لگے موال ہمارے ہاتھ میں کیا ہے؟ تو موال نے فرمایا پھر آج ہی تقسیم کریں‪،‬‬
‫چراغ الیا گیا اور رات کو ہی وہ مال تقسیم کیا گیا‪ ،‬جب بھی بیت المال میں مال آتا تھا موال‬
‫حقداروں تک پہنچانے کے بعد بیت المال کو صاف کر کہ اور دو رکعت نماز پڑھتے تھے‬
‫اور فرماتے تھے یا ہّٰللا جس کا حق تھا اس حقدار تک پہنچا آیا ہوں۔۔ یہ امیر المومنین علی‬
‫ابن ابی طالب علیہ السالم کی مالی سیرت ہے۔۔‬

‫‪3‬۔ امیر المومنین کی اخالقی سیرت‪:‬‬


‫ضرار موال کی شہادت کے بعد کوفے سے شام گیا تھا تو امیر شام نے اس سے پوچھا علی‬
‫ابن ابی طالب علیہ السالم کے حاالت بتاؤ‪ ،‬تو وہاں پہ ضرار نے جو ایک جملہ کہا "ہّٰللا‬
‫علی ابن ابی طالب پر رحمت فرمائے‪ ،‬موال ہم میں ایسے رہتے تھے جیسے ہمارا ہی کوئی‬
‫حصہ ہوں‪ ،‬موال ہمارے درمیاں ہم جیسے ہی بن کر رہتے تھے"۔ یہ ہم جیسا بن کر رہنا ہی‬
‫علی ابن ابی طالب علیہ السالم کا کمال ہے۔۔ امیر المومنین حضرت علی علیہ السالم نے‬
‫اپنے اس پانچ سالہ دور حکومت میں وہی اخالق ظاہر کیا ہے جو انہوں نے رسول خدا‬
‫سے سیکھا تھا۔ ایک دفعہ آپ کوفہ سے باہر تھے اور کوفہ کی جانب واپس آرہے تھے تو‬
‫ایک غیر مسلم راستے میں آپکا ساتھی بن گیا‪ ،‬اس نے پوچھا آپ کہاں جارہے ہیں؟ موال‬
‫نے فرمایا مجھے کوفہ جانا ہے‪ ،‬اس نے کہا مجھے دوسری جگہ جانا ہے۔‬

‫جہاں پر آکر رستہ الگ ہونا تھا تو موال کوفہ واال رستہ چھوڑ کر اس کے راستے پر اس‬
‫کے ساتھ چل پڑے‪ ،‬تو اس نے کہا آپ شاید بھول گئے ہیں آپکو کوفہ جانا تھا‪ ،‬موال نے‬
‫فرمایا مجھے یاد ہے مجھے کوفہ جانا تھا اور جانا ہے تو اس نے کہا وہ راستہ تو آپ نے‬
‫چھوڑ دیا‪ ،‬موال نے فرمایا! مین نے جان بوجھ کر چھوڑا ہے‪ ،‬کیوںکہ رسول خدا‪(  ‬ص)‬
‫نے ہمیں تاکید فرمائی ہے کہ ہمسفر کا حق یہ ہے کہ کچھ دیر اس کے ساتھ اسکے راستے‬
‫پر چلیں اسے الوداع کریں‪ ،‬اس لیے میں آپ کے ساتھ آیا ہوں تاکہ تمہارے راستے پر چل‬
‫کر تمیں الوداع کہوں‪ ،‬اس نے حیران کو کر کہا کیا آپ کے نبی نے ایسا فرمایا ہے؟ موال‬
‫نے کہا جی ہاں‪ ،‬تو اس شخص نے کہا یہ واقعی انبیاء کا اخالق ہے اس نے امیر المومنین‬
‫کے اس اخالق کو دیکھ کر دین اسالم قبول کیا اور مسلمان ہو گیا۔۔ امیر المومنین نے کبھی‬
‫بھی سنت رسول کو تبدیل نہیں کیا اور ہمیشہ سنت رسول پر ہی عمل کیا ہے۔‬

‫الف۔ امیر المومنین کی یتیموں سے محبت‪:‬‬


‫کوفہ میں جنگ جمل میں‪ ،‬صفیں میں موال کے ساتھی شہید ہوئے ان سب کے یتیم ہوتے‬
‫تھے کوفے میں موال اکثر ان کے ساتھ وقت گذارتے تھے ایک دفعہ شہد کی مشکیں بھر‬
‫کر آئیں تو موال سب کو ایک برتن میں دیتے رہے لیکن یتیموں اپنے پاس بالیا اور مشکوں‬
‫کے منہ کھول کر فرمایا آپ کھائیں جتنا کھا سکتے ہیں‪ ،‬کسی نے پوچھا کہ یا علی ہمیں تو‬
‫حساب کر کہ دیتے ہو اور انہے سارا دے دیا‪ ،‬تو موال نے فرمایا امام یتیموں کا بابا ہوتا‬
‫ہے‪ ،‬اس لیے یہ اپنے بابا کا مال کھا رہے ہیں اور یہ انکا حق ہے۔۔‬
‫اس قدر امیر المومنین یتیموں سے محبت کرتے تھے۔۔‬

‫ب۔ امیر المومنین کا اپنے قاتل سے اخالقی رویہ‪:‬‬


‫جب عبدالرحمان ابن ملجم پکڑا گیا اور اسے موال کے سامنے الیا گیا تو موال نے اس سے‬
‫فرمایا! اے عبدالرحمان کیا میں تمہارا اچھا امام نہیں تھا؟؟ جب اس نے کچھ بولنا چاہا اور‬
‫بول نہ پایا تو موال سمجھ گئے کہ اس کا گال خشک ہو گیا ہے‪ ،‬اس لیے بول نہیں پا رہا‪،‬‬
‫اسی وقت موال کے لیے ایک شربت آیا تھا جو طبیب نے نسخے کے طور پر موال کو دیا‬
‫تھا تا کہ درد کم ہو‪ ،‬موال نے فرمایا کہ یہ شربت اسے پالؤ۔۔ دیکھیں موال کا اخالق کس‬
‫درجے کا ہے‪ ،‬یاد رکھیں سزا اپنی جگہ ہے‪ ،‬سزا کے لیے موال امام حسن علیہ السالم کو‬
‫وصیت کر چکے ہیں‪ ،‬اس نے مجھے ایک ضرب ماری ہے آپ بھی اسے ایک ضرب‬
‫مارنا‪ ،‬سزا اپنی جگہ ہے لیکن اخالقی رویہ اپنی جگہ ہے۔ اھلبیت کا اخالقی رویہ ہمیشہ‬
‫خوبصورت ترین رہا ہے لیکن افسوس ہم نے اھلبیت سے اخالق لیا ہی نہیں ہے ہم نے‬
‫قرآن سے اخالق لیا ہی نہیں ہے‪ ،‬ہمارا اخالق ان جیسا ہے جو اھلبیت کے قاتل ہیں‪ ،‬یا‬
‫انکے مخالف ہے یا تو پھر انکے دشمن ہیں ہمارے کردار میں جھوٹ ہے‪ ،‬بد اخالقی ہے‬
‫یہ کردار اھلبیت کا کردار نہیں ہے اس لیے ہمیں اھلبیت سے اخالق لینے کی ضرورت‬
‫ہے‪ ،‬انسان دنیا و آخرت میں سکون اسی اخالق سے حاصل‪ i‬کر سکتا ہے‪ ،‬ہمیں امیر‬
‫المومنین حضرت علی علیہ السالم کے اخالق اپنی زندگی میں اپنانے ہیں تا کہ ہم بھی علی‬
‫والے بن سکیں۔۔‬

‫خالفت مرتضوی پر ایک نظر‬


‫حضر ت علی کرم ہللا وجہہ کی خالفت کا پورا زمانہ خانہ جنگی اورشورش کی نذر ہوا‬
‫اوراس پنجسالہ مدت میں ٓاپ کو ایک لمحہ بھی سکون واطمینان کا نصیب نہ ہوا‪ ،‬اس لئے‬
‫ٓاپ کے زمانہ میں فتوحات کا دروازہ تقریبا ً بند ہوگیا‪ ،‬ملکی انتظام کی طرف بھی توجہ‬
‫کرنے کی فرصت ان کو نہ مل سکی؛لیکن ان گوناں گوں مشکالت کے باوجود جناب‬
‫مرتضی ؓ کی زندگی عظیم الشان کارناموں سے مملوہے ؛لیکن ان کارماموں پر نظر پڑنے‬ ‫ٰ‬
‫سے پہلے یہ امر قابل غور ہے کہ خالفت مرتضوی میں اس قدر افتراق اختالف‬
‫اورشروفساد کے اسباب کیا تھے؟ حضرت علی ؓ نے کس تحمل‪ ،‬استقالل اورسالمت روی‬
‫کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا۔‬
‫مرتضی نے جس وقت مسند خالفت پر قدم رکھا‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت عثمان ؓ کی شہادت کے بعد جناب‬
‫ہے اس وقت نہ صرف دارالخالفہ ؛بلکہ تمام دنیائے اسالم پر ٓاشوب تھی‪ ،‬حضرت عثمان ؓ‬
‫کی شہادت کوئی معمولی واقعہ نہ تھا‪ ،‬اس نے مسلمانوں کے جذبہ غیض و غضب کو‬
‫مشتعل کردیا‪،‬یہاں تک کہ جو لوگ ٓاپ کے طرز حکومت کو ناپسند کرتے تھے انہوں نے‬
‫بھی مفسدین کی اس جسارت کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا؛چنانچہ حضرت زبیر ؓ ‪،‬طلحہ ؓ‬
‫اورخود ام المومنین حضرت عائشہ ؓ نے حضرت عثمان ؓ کی حکومت سے شاکی ہونے کے‬
‫باوجود قصاص کا علم بلند کیا۔‬
‫دوسری طرف شام میں بنو امیہ امیر معاویہ ؓ کے زیر سیادت خالفت راشدہ کو اپنی سلطنت‬
‫میں تبدیل کرنے کے خواب دیکھ رہے تھے‪،‬ان کے لئے اس سے زیادہ بہتر موقع کیا‬
‫ہوسکتا تھا؛چنانچہ امیر معاویہ ؓ نے بغیر کسی تامل کے ہر ممکن ذریعہ سے تمام شام میں‬
‫خلیفہ ثالث کے انتقام کا جوش پیدا کرکے حضرت علی ؓ کے خالف ایک عظیم الشان قوت‬
‫پیدا کرلی اورحسب ذیل وجہ کو ٓاڑ بنا کر میدان میں اتر ے۔‬
‫‪۱‬۔حضرت‪ i‬علی ؓ نے مفسدین کے مقابلہ میں حضرت عثمان ؓ کو مدد نہیں دی۔‬
‫‪۲‬۔اپنی خالفت میں قاتلین عثمان ؓ سے قصاص نہیں لیا۔‬
‫ت بازو بنایا اوران کو بڑے بڑے عہدے دیئے۔‬ ‫‪۳‬۔محاصرہ کرنے والوں کو قو ِ‬
‫یہ وجوہ تمام جنگوں کی بناء قرارپائے ‪،‬اس لئے غورکرنا چاہئے کہ اس میں کہا ں تک‬
‫مرتضی ؓ کس حد تک اس میں معذور تھے‪،‬پہال سبب یعنی مفسدین‬ ‫ٰ‬ ‫صداقت ہے اورجناب‬
‫کے مقابلہ میں مددنہ دینے کا الزام صرف حضرت علی ؓ ہی پر نہیں ؛بلکہ حضرت طلحہ‬
‫ؓ‪،‬زبیر ؓ‪ ،‬سعدوقاص ؓ اور تمام اہل مدینہ پر عائد ہوتا ہے‪،‬حقیقت یہ ہے کہ حضرت عثمان ؓ‬
‫کو یہ منظور ہی نہ تھا کہ ان کے عہد میں خانہ جنگی کی ابتداہو؛چنانچہ انصار کرام بنو‬
‫امیہ اوردوسرے وابستگان خالفت نے جب اپنے کو جاں نثاری کے لئے پیش کیا تو‬
‫حضرت عثمان ؓ نے نہایت سختی کے ساتھ کشت وخون سے منع کردیا۔‬
‫جناب مرتضی ؓ نے اس باب میں جو کچھ کیا‪ ،‬ان کے لئے اس سے زیادہ ممکن نہ تھا؛‬
‫چنانچہ پہلی مرتبہ ٓاپ ہی نے مفسدین کو راضی کرکے واپس کیا تھا ؛لیکن جب دوسری‬
‫مرتبہ وہ پھر لوٹے تو مروان کی غداری نے ان کی ٓاتش غیظ و غضب کو اس قدر بھڑکا‬
‫دیا تھا کہ کسی قسم کی سفارش کار گر نہیں ہوسکتی تھی‪ ،‬ام المومنین ام حبیبہ ؓ نے‬
‫محاصرہ کی حالت‪ i‬میں عثمان ؓ کے پاس کھانے پینے کا کچھ سامان پہنچانا چاہا‪،‬تو مفسدین‬
‫نے ان کا بھی پاس ولحاظ نہ کیا اور گستاخانہ مزاحمت کی اسی طرح حضرت علی ؓ نے‬
‫سفارش کی کہ ٓاب ودانہ کی بندش نہ کی جائے تو ان شوریدہ سروں نے نہایت سختی سے‬
‫انکار کیا‪ ،‬حضرت علی ؓ کو اس کا اس قدر صدمہ ہوا کہ عمامہ پھینک کر اسی وقت واپس‬
‫چلے ٓائے‪( ،‬طبری ‪ )۳۸۰ :‬اورتمام معامالت سے قطع تعلق کرکے عزلت نشین ہوگئے‪،‬‬
‫پھر یہ بھی ملحوظ رکھنا چاہئے کہ اگر حضرت عثمان ؓ محصور تھے تو دوسرے بڑے‬
‫بڑے صحابہ ؓ بھی ٓازاد نہ تھے اور مفسدین نے ان لوگوں کی نقل وحرکت پر نہایت سخت‬
‫نگرانی قائم کردی تھی؛چنانچہ ایک دفعہ حضرت امام حسن نے اپنے پدر گرامی سے‬
‫عرض کیا کہ اگر ٓاپ میری گذارش پر عمل کرکے محاصرہ کے وقت مدینہ چھوڑدیتے تو‬
‫مطالبہ قصاص کا جھگڑا ٓاپ کے سر نہ پڑتا‪،‬اس وقت جناب امیرنے یہی جواب دیاتھا کہ‬
‫تمہیں کیا معلوم کہ میں اس وقت ٓازاد تھا یا مقید۔‬
‫البتہ قاتلوں کو سزادینے کا الزام ایک حد تک الئق بحث ہے‪ ،‬اصل یہ ہے کہ اگر قاتل سے‬
‫مرادوہ اشخاص ہیں جنہوں نے براہ راست قتل میں حصہ لیا تو بے شک انہیں کیفر کردار‬
‫تک پہنچانا حضرت علی ؓ کا فرض تھا ؛لیکن جیسا کہ پہلے گزرچکا ہے‪،‬پوری تفتیش‬
‫وتحقیقات‪ i‬کے باوجود ان کا سراغ نہ مال‪ ،‬اگر قاتل کا لفظ تمام محاصرہ کرنے والوں پر‬
‫مشتمل ہے جیسا کہ امیر معاویہ ؓ وغیرہ کے مطالبہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک شخص کے‬
‫قصاص میں ہزاروں ٓادمیوں کا خون نہیں بہایا جاسکتا تھا اورنہ شریعت اس کی اجازت‬
‫دیتی تھی‪ ،‬اس بڑی جماعت میں بعض صحابہ کرام اوربہت سے صلحائے‪ i‬روز گار بھی‬
‫شامل تھے جن کا مطمع نظر صرف طلب اصالح تھا‪ ،‬ان لوگوں کو قتل کردینا یا امیر‬
‫معاویہ ؓ کے خنجر انتقام کے نیچے دے دینا صریحا ً ظلم تھا۔‬
‫امر سوم یعنی محاصرہ کرنے والوں کو قوت بازو بنانے اوران کو بڑے بڑے عہدے دینے‬
‫کا الزام ایک حد تک صحیح ہے ؛لیکن حضرت علی ؓ اس میں مجبور تھے‪،‬اس وقت دنیائے‬
‫اسالم مین تین فرقے پیدا ہوگئے تھے‪ ،‬شیعٔہ عثمان ؓ ‪ ،‬یعنی عثمانی فرقہ جو اعالنیہ جناب‬
‫امیر ؓ کا مخالف اور اپنی ایک مستقل سلطنت قائم کرنے کا خواب دیکھ رہا تھا‪،‬دوسرا گروہ‬
‫ٰ‬
‫وتقوی‬ ‫اکابر صحابہ ؓ کا تھا جو اگرچہ حضرت علی ؓ کو برحق سمجھتا تھا؛لیکن اپنے ورع‬
‫کے باعث خانہ جنگی میں حصہ لینا پسند نہیں کرتا تھا؛چنانچہ جب حضرت علی ؓ نے‬
‫مدینہ سے کوفہ کا قصد کیا اور صحابہ کرام سے چلنے کے لئے کہا تو بہت سے محتاط‬
‫صحابہ نے معذرت کی‪،‬حضرت‪ i‬سعد وقاص ؓ نے کہا‘‘مجھے ایسی تلوار دیجئے جو مسلم‬
‫وکافر میں امتیاز رکھے‪ ،‬میں صرف اسی صورت میں جانبازی کے لئے حاضر ہوں’’‬
‫حضرت عبدہللا بن عمر ؓ نے کہا‪ ،‬خدا کے لئے مجھے ایک ناپسندیدہ فعل کے لیےمجبورنہ‬
‫کیجئے‪ ،‬حضرت‪ i‬محمدبن مسلمہ ؓ نے کہا کہ قبل اس کے کہ میری تلوار کسی مسلم کا خون‬
‫گرائے اس زور سے اسے جبل احد پر پٹک ماروں گا وہ ٹکڑ ٹکڑے ہوجائے گی‪،‬حضرت‬
‫اسامہ بن زید ؓ نے عرض کیا امیر المومنین !مجھے معاف کیجئے میں نے عہد کیا کہ کسی‬
‫کلمہ گوکے خون سے اپنی تلوار رنگین نہ کروں گا‪ ،‬غرض یہ گروہ عملی اعانت سے‬
‫قطعی کنارہ کش تھا‪،‬تیسرا گروہ شیعان علی ؓ کا تھا جس میں ایک بڑی جماعت ان لوگوں‬
‫کی تھی جو یا تو خود محاصرہ میں شریک تھے یا وہ ان کے زیر اثر تھے‪ ،‬اس لئے جناب‬
‫امیر خواہ مخواہ بے رخی کرکے اس بڑی جماعت کو قصداً اپنا دشمن نہیں بنا سکتے‬
‫تھے‪ ،‬تاہم ٓاپ نے ان لوگوں کو مقرب خاص بنایا جو درحقیقت اس کے اہل تھے‪،‬حضرت‬
‫عماربن یاسر ؓ ایک بلندپایہ صحابی اورمقبول بارگاہ نبوت تھے‪،‬محمد بن ابی بکر ؓ خلیفہ‬
‫اول کے صاحبزادے اورٓاغوش حیدر ؓ کے تربیت یافتہ تھے‪ ،‬اسی طرح اشترنخعی ایک‬
‫صالح نیک سیرت اورجاں نثار تابعی تھے۔‬
‫غرض اسباب و علل جو بھی رہے ہوں اور ان کی حقیقت‪ i‬کچھ بھی ہو ؛لیکن یہ واقعہ کہ‬
‫مرتضی کی مسند نشینی کے ساتھ ہی یکایک دنیائے اسالم میں افتراق واختالف کی‬ ‫ٰ‬ ‫جناب‬
‫ٓاگ بھڑک اُٹھی اورشیرازہ ملی اس طرح بکھر گیا کہ جناب مرتضی ؓ کی سعی اورجدوجہد‬
‫کے باوجود پھر اوراق پریشاں کی شیرازہ بندی نہ ہوسکی اورروز بروز مشکالت میں‬
‫اضافہ ہوتا گیا‪ ،‬اوراسالم کے سررشتہ نظام میں فرقہ ٓارائی اورجماعت بندی کی ایسی گرہ‬
‫پڑ گئی جو قیامت تک کسی کے ناخن تدبیر سے حل نہیں ہوسکتی۔‬
‫اس میں شک نہیں ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے جب عنان خالفت ہاتھ میں لی تھی تو‬
‫اس وقت دنیائے اسالم نہایت پر ٓاشوب تھی ؛لیکن دونوں حالتوں میں بین فرق ہے‪،‬صدیق‬
‫اکبر کے سامنے گو مصائب کا طوفان امنڈ رہا تھا؛لیکن یہ کفر وارتدااوراسالم کا مقابلہ‬
‫ؓ‬
‫تھا‪ ،‬اس لئے سارے مسلمان اس کے مقابلہ میں متحد تھے‪ ،‬کل صحابہ ان کے معین‬
‫ومددگار تھے ‪،‬پھر خود حریف طاقتوں میں ہوا وہوس اورباطل پرستی کی وجہ سے کوئی‬
‫استقالل نہ تھا اس لئے ان کو زیر کرلینا نسبتا ً ٓاسان تھا‪،‬اس کے برخالف جناب امیر کے‬
‫مقابلہ میں جو لوگ تھے وہ نہ صرف مسلمان تھے ؛بلکہ ان میں ٓانحضرت‪ i‬صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم کی محبوب حرم حضرت‪ i‬عائشہ صدیقہ ؓ‪ٓ ،‬اپ کے پھوبھی زاد اورہم زلف وحواری‬
‫رسول حضرت زبیر بن العوام ؓ مبشر بالجنۃ صحابی اورغزوہ احد کے سپاہی جن‬
‫کآانحضرت صلی ہللا علیہ وسلم کی حفاظت میں سارابدن چھلنی ہوگیا تھا اور اس صلہ میں‬
‫انہیں بارگاہ نبوت سے خیر کا لقب مال تھا‪،‬جیسے اکابر امت تھے ان کے عالوہ امیر‬
‫معاویہ والی ٔشام جیسے مدبر تھے جنہیں ٓانحضرت صلی ہللا علیہ وسلم سے قرابت داری‬
‫کا بھی شرف حاصل تھا اور عمروبن العاص فاتح مصر جیسے سیاست دان تھے جن کی‬
‫اسالم میں بڑی خدمات تھیں اوران میں سے ہر ایک اپنے کو برسرحق سمجھتاتھا ‪،‬ساتھ ہی‬
‫ان کو ایسے جاں نثار ووفاشعار ملے تھے جن کی مثالیں شیعان علی ؓ میں کم تھیں اس لئے‬
‫ان کے مقابلہ میں حضرت علی ؓ کا عہد برٓاہونا بہت دشوار تھا۔‬
‫حضرت علی ؓ کی سیاسی ناکامی کا ایک بڑا سبب یہ بھی تھاکہ وہ جس زہد واتقاء دینداری‬
‫امانت‪،‬عدل وانصاف کے ساتھ حکومت کرنا چاہتے تھے اورلوگوں کو جس راستہ پر لے‬
‫جانا چاہتے تھے زمانہ کے تغیر اورحاالت کے انقالب سے لوگوں کے قلوب میں اس کی‬
‫صالحیت باقی نہیں رہ گئی تھی‪ ،‬ایک طرف امیر معاویہ ؓ اپنے طرفداروں کے لئے بیت‬
‫المال کا خزانہ لٹا رہے تھے‪ ،‬دوسری طرف حضرت علی ؓ ایک ایک خر مہرہ کا حساب‬
‫لیتے تھے‪،‬یہی سبب تھا کہ حضرت علی ؓ کے طرفدار اوران کے بعض اعزہ تک دل‬
‫برداشتہ ہو کر ان سے جدا ہوگئے تھے؛ لیکن بہر حال حق حق ہے اور باطل باطل‪،‬باطل‬
‫کے مقابلہ میں حق کی شکست سے اس کی عظمت میں فرق نہیں ٓاتا‪ ،‬اگر حضرت علی ؓ‬
‫ٰ‬
‫تقوی اوردیانت‬ ‫ایسا نہ کرتے اور سیاسی حیثیت سے وہ کامیاب بھی ہوجاتے تو زہد‬
‫وامانت کی حیثیت میں وہ ناکام ہی ٹھہرتے‪ ،‬ان کی سیاسی ناکامی کا دوسرا سبب یہ بھی‬
‫تھا کہ ان کے طرفداروں اورحامیوں میں پورا اتحاد خیال اورکامل خلوص نہ تھا‪ ،‬اس‬
‫جماعت میں ایک بڑا طبقہ عبدہللا بن سبا کے پیرؤوں کا تھا جس کا عقیدہ تھا کہ جناب‬
‫مرتضی ؓ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے وصی ہیں پھر اس خیال نے یہاں تک ترقی کی‬ ‫ٰ‬
‫کہ سبائی فرقہ کے لوگ حضرت علی ؓ کو انسان سے باالترہستی ؛بلکہ بعض خدا تک‬
‫کہنے لگے‪ ،‬حضرت علی ؓ نے ان لوگوں کو عبرت انگیز سزائیں دیں ؛لیکن جو وباء پھیل‬
‫چکی تھی اس کا دورکرنا ٓاسان نہ تھا‪ ،‬اس فرقہ نے مذہب کے عالوہ سیاسی حیثیت سے‬
‫بھی مسلمانوں کو بڑا نقصان پہنچایا‪،‬واقعہ جمل میں ممکن تھا کہ صلح ہوجاتی ؛لیکن اسی‬
‫جماعت نے پیش دستی کرکے جنگ شروع کردی۔‬
‫دوسری جماعت قراء اورحفاظ قرٓان کی تھی جو ہرمعاملہ میں قرٓان پاک کی لفظی پابندی‬
‫چاہتی تھی‪ ،‬معنی اورمفہوم سے اس کو چنداں سروکار نہ تھا؛چنانچہ واقعہ تحکیم کے بعد‬
‫یہی جماعت خارجی فرقہ کی صورت میں ظاہر ہوئی۔‬
‫حضرت علی ؓ کے حاشیہ نشینوں میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو درحقیقت جاں نثارووفا‬
‫شعار تھے ؛لیکن معرکہ صفین میں کامل جدوجہد کے بعد درمقصود تک پہنچ کر غنیم کی‬
‫چال سے محروم واپس ٓانا نہایت ہمت شکن واقعہ تھا‪ ،‬اس نے تمام جاں نثاروں کے‬
‫حوصلے اورارادے پست کردئے تھے‪،‬غرض ان تمام مشکالت اورمجبوریوں کے باوجود‬
‫مرتضی ؓ نے غیر معمولی ہمت واستقالل اورعدیم النظیر عزم وثبات کے ساتھ ٓاخری‬ ‫ٰ‬ ‫جناب‬
‫لمحہ حیات تک ان مشکالت ومصائب کا مقابلہ کرکے دنیا کے سامنے بے نظیر تحمل‬
‫وسالمت روی کا نمونہ پیش کیا اوراپنی ناکامی کے اسباب کا مشاہدہ کرنے کے باوجود‬
‫دیانت داری اورشریعت سے سرموتجاوز کرنا پسند نہ فرمایا‪،‬اگر ٓاپ تھوڑی سی دنیا داری‬
‫سے کام لیتے تو کامیاب ہوجاتے ؛لیکن دین ضائع ہوجاتا جس کا بچانا ایک خلیفہ راشد‬
‫اورجانشین رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کا سب سے پہال معرکہ اصلی فرض تھا۔‬
‫ملکی نظم ونسق‬
‫حضرت علی رضی کرم ہللا وجہہ انتظام مملکت میں حضرت عمر ؓ کے نقش قدم پر چلنا‬
‫چاہتے تھے اور اس زمانہ کے انتظامات میں کسی قسم کا تغیر کرنا پسند نہیں فرماتے‬
‫تھے‪،‬ایک دفعہ نجران کے یہودیوں نے(جن کو فاروق اعظم ؓ نے حجاز سے جالوطن‬
‫کرکے نجران میں ٓابادکرایا تھا) نہایت لجاجت کے ساتھ درخواست کی کہ ان کو پھر اپنے‬
‫قدیم وطن میں واپس ٓانے کی اجازت دی جائے‪ ،‬حضرت علی ؓ نے صاف انکار کردیا اور‬
‫فرمایا کہ عمر ؓ سے زیادہ کون صحیح الرائے ہوسکتا ہے۔‬
‫( کتاب الخراج‪ i‬قاضی ابو یوسف ومصنف ابن ابی شیبہ کتاب الغزوات)‬

‫عمال کی نگرانی‬
‫ملکی نظم ونسق کے سلسلہ میں سب سے اہم کام عمال کی نگرانی ہے‪،‬حضرت علی ؓ نے‬
‫اس کاخاص اہتمام مدنظر رکھا ‪،‬وہ جب کسی عامل کو مقرر کرتے تھے تو اس کو نہایت‬
‫مفیداورگراں بہانصائح کرتے تھے‪(،‬کتاب الخراج‪ )۷۹ : i‬وقتا فوقتا عمال وحکام کے طرز‬
‫عمل کی تحقیقات‪ i‬کرتے تھے‪ ،‬چنانچہ ایک مرتبہ جب حضرت کعب بن مالک ؓ کو اس‬
‫خدمت پر مامور کیا تو یہ ہدایت فرمائی‪:‬‬
‫اخرت فی طائفۃ من اصحابک حتی تمر بارض السواد کورۃ فتسالھم عن عمالھم وتنظر فی‬
‫سیرتھم‬
‫تم اپنے ساتھیوں کا ایک گروہ لے کر روانہ ہوجأو اور عراق کے ہر ضلع میں پھر‬
‫و‪،‬عمال کی تحقیقات کرو اور ان کی روش پر غائر نظر ڈالو۔’’‬
‫عمال کے اسراف اورمالیات میں ان کی بدعنوانیوں کی سختی سے باز پرس فرماتے‬
‫تھے‪،‬ایک دفعہ اردشیر کے عامل مصقلہ نے بیت المال سے قرض لے کر پانچسو لونڈی‬
‫اورغالم خرید کر ٓازاد کئے‪،‬کچھ دنوں کے بعد حضرت علی ؓ نے سختی کےساتھ اس رقم‬
‫کا مطالبہ کیا‪ ،‬مصقلہ نے کہا خدا کی قسم عثمان ؓ کے نزدیک اتنی رقم کا چھوڑدینا کوئی‬
‫بات نہ تھی؛ لیکن یہ تو ایک ایک حبہ کا تقاضہ کرتےہیں اورناداری کے باعث مجبور‬
‫ہوکر امیر معاویہ ؓ کی پناہ میں چلے گئے‪،‬جناب‪ i‬امیر کو معلوم ہوا تو فرمایا‪:‬‬
‫برحہ ہللا فعل فعل السید وفرفرار العبد وخان خیانۃ الفاجرا ماوہللا لوانہ اقام فعجز ماز دنا‬
‫علی حبس فان وجدنا لہ شیئا اخذناہ وات لم نقتہ علی مال ترکناہ‬
‫خدا اس کا برا کرے اس نے کام تو سید کا کیا ؛لیکن غالم کی طرح بھاگا اورفاجر کی‬
‫طرح خیانت کی خدا کی قسم اگر وہ مقیم ہوتا تو قید سے زیادہ اس کو سزادیتا اوراگر اس‬
‫کے پاس کچھ ہوتا تو لیتا ورنہ معاف کردیتا۔’’‬
‫مستثنی نہ تھے‪ ،‬ایک مرتبہ ٓاپ‬
‫ٰ‬ ‫اس باز پرس سے ٓاپ کے مخصوص اعزہ واقارب بھی‬
‫کے چچیرے بھائی حضرت عبدہللا بن عباس ؓ عامل بصرہ نے بیت المال سے ایک بیش‬
‫قرار رقم لی‪ ،‬حضرت علی ؓ نے چشم نمائی فرمائی تو جواب دیا کہ میں نے ابھی اپنا پورا‬
‫حق نہیں لیا ہے؛ لیکن اس عذر کے باوجود وہ خائف ہوکر بصرہ سے مکہ چلے گئے۔‬
‫(ایضا ً ‪)۳۴۵۳:‬‬

‫صیغٔہ محاصل‬
‫حضرت علی ؓ نے محاصل کے صیغہ میں خاص اصالحات جاری کیں‪ٓ ،‬اپ سے پہلے‬
‫جنگل سے کسی قسم کا مالی فائدہ نہیں لیا جاتا تھا‪ٓ ،‬اپ کے عہد میں جنگالت کو بھی‬
‫محاصل ملکی کے ضمن میں داخل کیا گیا؛چنانچہ برص کے جنگل پر چار ہزار درہم‬
‫مالگذاری تشخیص کی گئی۔( کتاب الخراج‪ i‬ص ‪)۵۰‬‬
‫مستثنی تھے؛لیکن عہد فاروقی میں‬
‫ٰ‬ ‫عہد نبوی صلی ہللا علیہ وسلم میں گھوڑے ٰ‬
‫زکوۃ سے‬
‫زکوۃ مقرر کردی ‪،‬حضرت‬ ‫جب عام طورسے اس کی تجارت ہونے لگی تو اس پر بھی ٰ‬
‫علی ؓ کے نزدیک تمدنی اورجنگی فوائد کے لحاظ سے گھوڑوں کی افزائش نسل میں‬
‫زکوۃ موقوف کردی‪،‬‬ ‫سہولت بہم پہنچانا ضروری تھا اس لئے ٓاپ نے اپنے زمانہ میں ٰ‬
‫(کتاب الخراج‪ )۵۰ : i‬گو ٓاپ محاصل ملکی وصول کرنے میں نہایت سخت تھے ؛لیکن اسی‬
‫کےساتھ رعایا کی فالح وبہبود کا بھی خاص خیال رکھا تھا؛چنانچہ معذور اورنادار ٓادمیوں‬
‫کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی نہیں کی جاتی تھی۔‬
‫( ایضا ً ‪)۴۴ :‬‬

‫رعایا کی ساتھ شفقت‬


‫حضرت علی ؓ کا وجود رعایا کے لئے سایٔہ رحمت تھا‪ ،‬بیت المال کے دروازے غرباء‬
‫اورمساکین کے لئے کھلے ہوئے تھے اور اس میں جو رقم جمع ہوتی تھی نہایت فیاضی‬
‫کے ساتھ مستحقین میں تقسیم کردی جاتی تھی‪،‬ذمیوں کے ساتھ بھی نہایت شفقت ٓامیز برتأو‬
‫تھا‪،‬ایران میں مخفی سازشوں کے باعث بارہا بغاوتیں ہوئیں؛ لیکن حضرت علی ؓ نے ہمیشہ‬
‫نہایت ترحم سےکام لیا‪،‬یہاں تک کہ ایرانی اس لطف وشفقت سے متاثر ہوکر کہتے‬
‫تھے‪،‬خدا کی قسم! اس عربی نے نوشیرواں کی یاد تازہ کردی۔‬
‫فوجی انتظامات‬
‫حضرت علی ؓ خود ایک بڑے تجربہ کار جنگ ٓازما تھے اورجنگی امور میں ٓاپ کو پوری‬
‫بصیرت حاصل‪ i‬تھی‪ ،‬اس لئے اس سلسلہ میں ٓاپ نے بہت سے انتظامات کئے؛چنانچہ شام‬
‫کی سرحد پر نہایت کثرت کے ساتھ فوجی چوکیاں قائم کیں‪۴۰،‬ھ میں جب امیر معاویہ ؓ نے‬
‫عراق پر عام یورش کی تو پہلے انہی سرحدی فوجوں نے ان کو ٓاگے بڑھنے سے‬
‫روکا‪،‬اسی طرح ایران میں مسلسل شورش اوربغاوت کے باعث بیت المال‪،‬عورتوں‬
‫اوربچوں کی حفاظت کے لئے نہایت مستحکم قلعے بنوائے‪،‬اصطخر‪ i‬کا قلعہ حصن زیاد‬
‫اسی سلسلہ میں بنا تھا‪( ،‬طبری ‪ )۳۴۵ :‬جنگی تعمیر کے سلسلہ میں دریائے فرات کا پل‬
‫بھی جو معرکہ صفین میں فوجی ضروریات کے خیال سے تعمیرکیاتھا الئق ذکر ہے۔‬
‫مذہبی خدمات‬
‫امام وقت کا سب سے اہم فرض مذہب کی اشاعت‪،‬تبلیغ اورخود مسلمانوں کی مذہبی تعلیم‬
‫وتلقین ہے‪،‬حضرت علی ؓ عہد نبوت ہی سے ان خدمات میں ممتاز تھے؛چنانچہ یمن میں‬
‫اسالم کی روشنی ان ہی کی کوشش سے پھیلی تھی‪،‬سورہ ٔبرٔاۃ نازل ہوئی تو اس کی تبلیغ‬
‫واشاعت کی خدمت بھی ان ہی کے سپرد ہوئی۔‬
‫مسند خالفت پر قدم رکھنے کے بعد سے ٓاخروقت تک گوخانہ جنگیوں نے فرصت نہ دی‬
‫تاہم اس فرض سے بالکل غافل نہ تھے‪ ،‬ایران اورٓارمینیہ میں بعض نو مسلم عیسائی مرتد‬
‫ہوگئے تھے حضرت‪ i‬علی ؓ نے نہایت سختی کے ساتھ ان کی سرکوبی کی اور ان میں سے‬
‫اکثر تائب ہو کر پھر دائرہ اسالم میں داخل ہوگئے۔‬
‫مرتضی ؓ کو خدا کہنے‬
‫ٰ‬ ‫خارجیوں کی سرکوبی اوران سبائیوں کو جو شدت غلو میں جناب‬
‫لگے تھے‪،‬سزادینے میں بھی دراصل مذہب کی ایک بڑی خدمت تھی۔‬
‫حضرت علی ؓ نے مسلمانوں کی اخالقی نگرانی کا بھی نہایت سختی کے ساتھ خیال‬
‫رکھا‪،‬مجرموں کو عبرت انگیز سزائیں دیں‪،‬جرم کی نوعیت کے لحاظ سے نئی سزائیں‬
‫تجویز کیں جو ان سے پہلے اسالم میں رائج نہ تھیں‪ ،‬مثالً زندہ جالنا‪،‬مکان‬
‫مسمارکرادینا‪،‬چوری کے عالوہ دوسرے جرم میں بھی ہاتھ کاٹنا وغیرہ؛لیکن اس سے‬
‫قیاس نہیں کرنا چا ہئے کہ حضر ت علی ؓ حدود کے اجر ا ءمیں کسی اصول کے پابند نہ‬
‫تھے‪ ،‬زندہ جالدینے کی سزا صرف چند زندیقوں کو دی تھی؛ مگر جب حضرت ابن عباس‬
‫ؓ نے ٓاپ کو بتایا کہ ٓانحضرت‪ i‬صلی ہللا علیہ وسلم نے اس سزا کی ممانعت فرمائی ہے تو‬
‫ٓاپ نے اس فعل پر ندامت ظاہر کی‪(،‬ترمذی حدود مرتد) شراب نوشی کی سزا میں کوڑوں‬
‫کی تعداد متعین نہ تھی‪،‬حضرت علی ؓ نے اس کے لئے اسی کوڑے تجویز کئے۔‬
‫(کتاب الخراج‪ ۹۹ : i‬اور سنن ابی دأود کتاب الحدود)‬

‫درے مارنے والوں کو ہدایت تھی کہ چہرہ اورشرمگاہ کے عالوہ تمام جسم پر کوڑا‬
‫مارسکتے ہیں‪ ،‬عورتوں کے لئے حکم تھا کہ ان کو بٹھا کر سزادیں اورکپڑے سے تمام‬
‫جسم کو اس طرح چھپادیں کہ کوئی عضو بے ستر نہ ہونے پائے‪،‬اسی طرح رجم کی‬
‫صورت میں ناف تک زمین میں گاڑ دینا چاہیے۔‬
‫(کتاب الخراج‪)۹۸ : i‬‬
‫اقرار جرم کی حالت‪ i‬میں صرف ایک دفعہ کا اقرار کافی نہ سمجھتے تھے؛چنانچہ ایک‬
‫مرتبہ ایک شخص نے حاضر ہوکر عرض کیا امیر المومنین! میں نے چوری کی‬
‫ہے‪،‬حضرت علی ؓ نے غضب ٓالود نگاہ ڈال کراس کو واپس کردیا؛لیکن جب اس نے پھر‬
‫مکرر حاضر ہوکر اقرار جرم کیا تو فرمایا اب تم نے اپنا جرم ٓاپ ثابت کردیا اوراس وقت‬
‫اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔‬
‫(ایضا ً ‪)۱۰۳ :‬‬

‫تنہا جرم کا ارادہ اوراس کے لئے اقدام بغیر جرم کئے ہوئے مجرم بنانے کے لئے کافی‬
‫نہیں ہے؛چنانچہ ایک شخص نے ایک مکان میں نقب لگائی اورچوری کرنے سے قبل‬
‫پکڑلیا گیا‪،‬حضرت‪ i‬علی ؓ کے سامنے پیش کیا گیا تو ٓاپ نے اس پر کسی قسم کی حدجاری‬
‫نہیں کی‪،‬‬
‫(کتاب الخراج‪)۱۰۴ : i‬‬

‫جو عورتیں ناجائز حمل سے حاملہ ہوتی تھیں‪ ،‬ان پر حد جاری کرنے کے لئے وضع حمل‬
‫کا انتظار کیا جاتا تھا تاکہ بچہ کی جان کو نقصان نہ پہنچے‪ ،‬جس کا کوئی گناہ نہیں ہے۔‬
‫عام قیدیوں کو بیت المال سے کھانا دیا جاتا تھا ؛لیکن جو لوگ محض اپنے فسق وفجور‬
‫کے باعث نظر بند کئے جاتے تھے‪ ،‬وہ اگر مالدار ہوتے تھے تو خود ان کے مال سے ان‬
‫کے کھانے پینے کا انتظام کیا جاتا تھا‪ ،‬ورنہ بیت المال سے مقرر کردیا جاتا تھا۔‬
‫(ایضا ً ‪)۱۰۰ :‬‬

‫تعزیزی سزا‬
‫حضرت علی ؓ نے جو بعض غیر معمولی سزائیں تجویز کیں وہ دراصل تعزیزی سزائیں‬
‫عمر نے بھی اس قسم کی سزائیں جاری کی تھیں؛چنانچہ ان کے عہد میں‬
‫تھیں‪،‬حضرت‪ؓ i‬‬
‫ایک شخص نے رمضان میں شراب پی تو اسی کوڑوں کے بجائے سوکوڑے‬
‫لگوائے‪،‬کیونکہ اس نے بادہ نوشی کے ساتھ رمضان کی بھی بےحرمتی کی تھی۔‬

You might also like