Professional Documents
Culture Documents
حضرت علی
حضرت علی
اور بہادری تھی جو صرف چھپی ہوئی نہیں تھی بلکہ ظاہر و باہر تھی .اگرچہ حضرت حضرت ؓ
بکر‘ بھی یقینا بہت شجاع کی شخصیت میں کمال درجہ کی شجاعت تھے .اس خطبہ کے الفاظ یاد ابو ؓ
ابابکر ! ہم میں سب سے زیادہ
ؓ اکبر کے انتقال پر دیا تھا کہ ’’اے
علی نے صدیق ؓکیجئے جو حضرت ؓ
شجاع اور بہادر تم تھے .وہ تم تھے جو بدر کی شب محم ٌد رسول ہللاﷺ کی آرام گاہ پر پہرہ دے رہے
غار ثور اور اثنائے سفر ہجرت کی رفاقت کے لیے تمہیں تھے اور ہللا نے اپنے پیارے رسولﷺ کی ِ
ابوبکر‘ کی شجاعت کا ظہور اس طرح سے نہیں ہوا جس طرح ؓ منتخب فرمایا تھا ‘‘.لیکن حضرت
علی کی شجاعت کا ہوا.
حضرت ؓ
بکر کا کسی)۱( سنن الترمذی ،کتاب المناقب عن رسول ہللاﷺ، باب فمن سب اصحاب حضرت ابو ؓ
النبیﷺ . پہلوان سے مقابلے کا کوئی ذکر سیرت کی کتابوں میں نہیں ملتا .ارادہ اور عزم کی بات اور
آپ کے بیٹے عبدالرحمن نے‘جو غزؤہ بدر تک ایمان نہیں الئے تھے‘ایمان النے کے بعد ہے کہ جب ؓ
آپ‘ کا لحاظ
آپ میری تلوار کی زد میں آ گئے تھے لیکن میں نے ؓ آپ سے کہا کہ ’’ابا جان‘بدر میں ؓ ؓ
آپ نے فرمایا’’ :بیٹے‘تم نے یہ اس لیے کیا تم باطل کے
کیا اور اپنا ہاتھ روک لیا‘‘ تو جواب میں ؓ
لیے لڑ رہے تھے.
تخدا کی قسم اگر تم میری زد میں آ جاتے تو میں تمہیں کبھی نہ چھوڑتا‘‘ .اسی عزیمت‘اسی iقو ِ
ارادی‘اس استقامت اور اسی شجاعت کا اظہار اُس وقت ہوا جب مسن ِد خالفت پر بیٹھنے کے بعد
زکوۃ کے خالف فی صحابہ نے یہ کہا تھا کہ مانعی ِن ٰ
ؓ ؓ
فاروق اور دوسرے اکابر آپ سے حضرت عمر ؓ
الوقت محاذ نہ کھو لیے‘اس لیے کہ مسلمانوں کی بیشتر افواج فتنٔہ ارتداد کی سرکوبی میں مصروف
پیکر عزیمت نے کہا تھا کہ
ِ تھیں جو بڑے پیمانے پر عرب کے بعض عالقوں میں پھیل گیا تھا‘تو اس
’’خدا کی قسم اگر مجھے یہ یقین ہو کہ کتے میری الش کو نوچ کھسوٹ ڈالیں گے تب بھی میں ان
زکوۃ کے خالف اقدام سے باز نہیں آؤں گا اور اگر حضورﷺ کے زمانے میں ٰ
زکوۃ میں اونٹ مانعین ٰ
ِ
کے ساتھ رسی بھی دیتے تھے اور اب رسی نہ دیں تو بھی میں ان کے خالف جہاد کروں گا .کسی
نے میرا ساتھ نہ دیا تو میں اکیال جہاد کروں گا .لیکن اسے چھپی ہوئی)potential( شجاعت کہا جائے
حمزہ کی شجاعت اور حضرت ؓ میدان جنگ میں حضرتِ گا .یہ اس طرح ظاہر نہیں ہوئی جیسے
آپ نے مکہ سے مدینہ کی عمر‘ کی وہ بات یاد کیجئے جو ؓ عمر کی بہادری کا ظہور ہوا .حضرت ؓ
ؓ
آپ نے پہلے کعبہ کا طواف کیا اور پھر اعالن کیا کہ میں مدینہ ہجرت طرف ہجرت کرتے وقت کہیؓ .
کر رہا ہوں‘جس کی خواہش ہو کہ اس کی ماں اس کو روئے وہ آئے اور میرا راستہ روک لے .سب
ابوبکر میں آپ کو نظر نہیں آئے گی .
ؓ کے سب مشرک دم بخود رہ گئے .یہ بات حضرت
میں یہاں ایک بات اور بھی عرض کردوں‘لیکن خدارا میری بات کو غلط مفہوم میں نہ لیجئے گا .نبی
اکرمﷺ میں شجاعت اور بہادری بتمام و کمال موجود تھی‘لیکن اس کا بھی اس طور سے ظہور نہیں
ہوا‘چنانچہ آپ کو یہ بات کہیں نہیں ملے گی کہ حضورﷺ نے کسی سے ُدوب ُدو مقابلہ کیا ہو .لیکن
بالریب و شبہ ساری نوع انسانی میں سب سے زیادہ شجاع اور بہادر جناب محمدﷺ ہیں .اگر شجاعت
اعلی وصف ہے‘اور یقینا ہے‘تو کیا وہ سب سے بڑھ کر حضورﷺ میں نہیں ہو گی؟ ہے‘یقینا ٰ کوئی
ہے .اور اس کا ظہور غزؤہ حنین کے موقع پر ہوا بھی ہے .جب ایک عام بھگدڑ مچ گئی‘لوگ منتشر
ت مبارک میں لیا اور یہ رجز ہو گئے تو حضورﷺ‘ اس وقت اپنی سواری سے اترے‘علم اپنے دس ِ
پڑھا ؎
پھر اسی شجاعت کا ظہور ۵ ھ میں غزؤہ احزاب کے موقع پر ہوا .چند کفار کبھی کبھی گھوڑوں پر
سوار ہو کر خندق میں گھس کر حملہ کیا کرتے تھے .ایک دفعہ حملہ آوروں میں عمرو بن عب ِد ُود بھی
شامل تھا جو پورے عرب میں مانا ہوا بہت بڑا پہلوان تھا .اُس وقت اس کی عمر نوے برس کی تھی
لیکن پورے عرب میں کوئی اس کے ساتھ مقابلے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا .اس نے مبارزت
علی مقابلہ کےطلب کی اور نعرہ لگایا کہ ہے کوئی جو میرا دوبدو مقابلہ کرے؟ اس وقت حضرت ؓ
لیے آ گے بڑھے .وہ ہنسا اور بوال :تم میرا مقابلہ کرنے آئے ہو؟ نام کیا ہے تمہارا؟ اس نے بڑے
استہزائیہ انداز میں کہا کہ میری عادت رہی ہے کہ جب میرا کسی سے مقابلہ ہوتا ہے تو اس کی تین
علی نے فرمایا خواہشوں میں سے ایک ضرور پوری کرتا ہوں .بولو تمہاری کیا خواہش ہے؟ حضرت ؓ
کہ میری ا ّولین خواہش تو یہ ہے کہ تم ایمان لے آؤ .اس نے کہا کہ اس کا کوئی سوال نہیں .حضرت
علی بولے کہ میری دوسری خواہش یہ ہے کہ تم میدا ِن جنگ سے واپس چلے جاؤ .وہ ہنسا‘اور بوال ؓ
علی نے فرمایا تو پھر تیسری خواہش یہیہ بزدلی کا کام میں کروں! یہ کبھی نہیں ہو سکتا .حضرت ؓ
علی کی ذہانت و فطانت کا بھی مظہرہے کہ آؤ مقابلہ کرو تاکہ میں تمہیں قتل کر دوں .یہ حضرت ؓ
ت )۱( صحیح البخاری،کتاب ت حق دی‘پھر دعو ِ
آنجناب نے پہلے اس کو حکمت کے ساتھ دعو ِ ؓ ہے کہ
الجہادوالسیر،باب من صف اصحابہ عند الھزیمۃ.....
و صحیح مسلم کتاب الجہادوالسیر،باب فی غزوۃحنین .مقابلہ .لیکن اس بدبخت کے نصیب میں ایمان
کی سعادت نہیں تھی .حضرت علی hکی بات پر وہ بھونچکارہ گیا کہ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ میرے منہ
پر کوئی مجھے قتل کرنے کی دھمکی دے .پھر وہ برہم ہو کر گھوڑے سے کود پڑا .تھوڑی دیر تک
علی ‘ کی تلوار نے اس کو واص ِل جہنم کر دیا. شجاعانہ مقابلہ کے بعد حضرت ؓ
علی‘ حضورﷺ کے ہمرکاب تھے .خیبر میں یہودیوں کے ساتھ غزؤہ خیبر کے موقع پر حضرت ؓ
ابوبکر اور
ؓ سات قلعے تھے .چھ تو فتح ہو گئے‘لیکن آخری قلعہ قموص زیادہ سخت ثابت ہوا .پہلے
عمر اس کی تسخیر کے لیے مامور ہوئے لیکن کامیابی نہ ہوئی .پھر ان کے بعد حضرت ؓ
حضورﷺ نے فرمایا کہ میں کل ایک ایسے بہادر کو عَلم دوں گا جو خدا اور رسول کا محبوب ہے
اور اس قلعہ کی فتح اس کے لیے مقدر ہے .صبح ہوئی تو ہر جان نثار متمنی تھا کہ کاش اس فخر و
ب چشم علی‘ کو پکارا .وہ آشو ِ شرف کا تاج اس کے سر کی زینت بنے .حضورﷺ نے دفعتا ً حضرت ؓ
ب دہن لگایا جس سے ان کی تکلیف جاتی رہی .پھر حضور نے ان کی آنکھوں پر لعا ِ ؓ میں مبتال تھے.
فنون حرب میں یکتا و یگانہ شمار ِ عَلم مرحمت فرمایا .اس قلعہ کا سردار مرحب نامی یہودی تھا جو
علی نے پوچھا:ہوتا تھا‘جثہ کے لحاظ سے بھی بڑا لحیم اور شحیم تھا .علَم علم لینے کے بعد حضرت ؓ
حضورﷺ کیا میں قلعہ والوں کو قتل کروں؟ حضورﷺ نے اس موقع پر یہ تاریخی جملے فرمائے:
علی پہلے ان پر اسالم پیش کرو‘ان کو دعوت دو‘کیونکہ تمہاری کوششوں سے اگر ایک ’’نہیں ؓ
شخص بھی مسلمان ہو گیا تو وہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے .اس حدیث شریف کے آخری
ک رجالً واحدًا خیرٌلک ِم ْن ُح ْم ِر النَّ َع ِم‘‘ )۱( ہّٰللا ہّٰللا
حصہ کے الفاظ یہ ہیں’’ :فَ َو ِ اَل َ ْن یَ ْھ ِدی ُ بِ َ
(یہ حدیث متفق علیہ ہے اور اس کے راوی حضرت سہل بن ؓ
سعد ہیں).
علی نے جب قلعہ قموص کا محاصرہ کیا تو مرحب آہن پوش ہو کر ہتھیار سجا کر بڑے
حضرت ؓ
جوش و خروش کے ساتھ یہ متکبرانہ رجز پڑھتا ہوا مبارزت کے لیے نکال ؎
( )۱صحیح البخاری،کتاب المناقب،باب مناقب علی ابن ابی طالب.......و صحیح مسلم ،کتاب فضائل
الصحابۃ،باب من فضائل علی بن ابی طالب’’ .خیبر مجھے جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں‘مسلح
پوش‘بہادر اور تجربہ کار ہوں .جب جنگ میرے سامنے آتی ہے تو بھڑک اٹھتی ہے‘‘.
’’میں وہ ہوں جس کا نام میری ماں نے‘حیدر رکھا ہے .جنگل کے شیر کی طرح مہیب اور ڈراؤنا.
میں دشمنوں کو نہایت سرعت سے قتل کرتا ہوں‘‘.
ٰ
تقوی امام المتقین حضرت علی (ع) کا زہد و
جوالئی 2015 ,7
minutes read 21 4
تحریر :عالمہ محمد رمضان توقیر
مصطفی ﷺ نے اپنے جانشین ،بھائی ٰ نبی مکرم ،نور مجسم ،رحمت عالم ،حضرت محمد
اور نائب حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السالم کے لئے اپنی حیات مبارکہ میں بے شمار
کلمات ،ارشادات ،فرامین اور احادیث بیان فرمائیں ،جن میں حضرت علی ؑ کے اوصاف،
خصائل اور فضائل کا احاطہ کیا گیا۔ اگرچہ علم و حکمت اور جرات و شجاعت ایک ہی
تقوی کی معراج اور ُزہد کا نکتہ
ٰ وقت میں علی ؑ کے ممتاز اوصاف میں شامل ہیں ،لیکن
عروج بھی علی ؑ کی ذات کے ساتھ منسلک اور مربوط نظر ٓاتا ہے ،اسی لئے خاتم االنبیاء
کی ذات واال صفات نے حضرت علی ؑ کو جہاں امیرالمومنین کا تمغہ عطا فرمایا ،وہاں
انہیں فقط عابد یا زاہد یا متقی کہنے تک محدود نہیں کیا بلکہ انہیں امام المتقین کا اعزاز
بھی مرحمت فرمایا۔ حضرت علی ؑ کے ُزہد کا نکتہ اول وقت والدت دست نبی ؐ پر تالوت
قرٓان ہے۔ پھر جب حضور اکرم ؐ نے حکم خدا کے تحت پہلی مرتبہ فریضہ نماز کی
ادائیگی فرمائی تو حضرت علی ؑ پہلے نمازی قرار پائے ،جس نے اقتدائے رسول ؐ میں
پہلی نماز ادا فرمائی اور اسی تسلسل میں ’’مصلّی الی القبلتین‘‘ کے لقب سے ملقب ہوئے۔
تقوی کے ٓاخری مدارج پر فائزٰ نبی اکرم ؐ کی نگرانی میں پرورش پانا واال علی ؑ یقینا ً ُزہد و
تھا۔
زمانے نے یہ بھی دیکھا کہ جب شدت کی جنگوں اور کفار و مشرکین کے ساتھ بڑے
بڑے معرکوں کو فتح کرنے کے بعد علی ؑ کے جسم اطہر پر زخم ٓاجاتے تھے تو صحابہ
وہ وقت تالش کرتے تھے کہ علی ؑ کے جسم میں پیوست تیر یا کچھ اور کیسے نکاال
جائے؟ اس کا حل خود خاتم االنبیاء نے نکاال اور فرمایا جب علی ؑ اپنے خدا کی بارگاہ میں
حاضر ہو اور عبد و معبود کی گفتگو شروع ہوجائے تو چلے جانا اور تیر نکال کر ٓاجانا،
کیونکہ علی ؑ اپنے خدا کے ساتھ گفتگو میں اس قدر منہمک ہوتا ہے اور اس گہرائی سے
مستغرق ہوتا ہے کہ دنیا و مافیہا سے بے نیاز و بے پرواہ ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ ُزہد کیا
ہوگا۔ زمانے نے یہ بھی دیکھا کہ کفار و مشرکین یا منافقین کے ساتھ جنگیں جب اپنے
عروج پر ہوتی تھیں ،جب جنگ کا نتیجہ فتح یا شکست کے قریب ہوتا تھا ،جب سپہ
ساالروں کے حملے اپنے نکتہ اختتام پر ہوتے تھے اور کوئی سپاہی بھی جنگ میں کسی
قسم کی تاخیر یا رکاوٹ قبول کرنے کو اس لئے تیار نہیں ہوتا تھا کہ کہیں میدان ہاتھ سے
نہ نکل جائے اور ہر سپاہی اس ہدف میں ہوتا تھا کہ تلواریں تب تک نیام میں نہ ڈالی
جائیں ،جب تک دشمن کو شکست دے کر فتح اپنے نام نہ کرلی جائے۔ عین اس وقت اور
ماحول میں اگر نماز کا وقت ہوجاتا تو علی ؑ ہر قسم کے نتائج کی پرواہ کئے بغیر تلوار کو
نیام میں ڈال کر بارگاہ صمدیت میں سجدہ ریز ہوجاتے اور ہر اس شخص کو جنت کی
بشارت دیتے جو جنگ کے دوران یا جنگ کے عروج میں علی ؑ کو نماز کے وقت کی یاد
دہانی کراتا۔
تقوی تمام خصلتوں کا سرتاج ہے ،یعنی ہزار ہا خصلتیں اور اوصاف ٰ علی ؑ کے نزدیک
تقوی سے خالی ہے تو سمجھ لیا جائے کہ وہٰ ہونے کے باوجود اگر انسان کی زندگی
زندگی حقیقت سے خالی ہے اور اوصاف اپنے بادشاہ و سربراہ سے محروم ہیں۔ علی ؑ کے
تقوی اور ُزہد کی پہلی منزل ترک گناہ ہے ،اس لئے ٓاپ فرماتے ہیں کہ ترک گناہٰ نزدیک
کی منزل بعد میں مدد مانگنے سے زیادہ ٓاسان ہے۔ یعنی انسان اس امید پر گناہ کرتا چال
جائے کہ گناہ بخشوانے کے لئے قیامت کے دن یا زندگی کے ٓاخری دنوں میں ہللا سے مدد
مانگ لوں گا یا ہللا کے رسول ؐ سے مدد مانگ لوں گا ،یا رسول ؐ کے جانشینوں کے
وسیلے سے مدد حاصل iکرلوں گا تو یہ اس شدید غلطی ہوگی۔ لہذا اس کے لئے الزم ہے
کہ مدد کی امید رکھنے کی بجائے سب سے پہلے گناہ کو ترک کرے اور اپنے ٓاپ کو
تقوی کے حصار میں محصور کرلے ،پھر معمولی کوتاہی پر مدد ،شفاعت اور توسل کی ٰ
امید رکھے۔
ٰ
تقوی کی تقوی اور ُز ہد کے ساتھ معاشرتی
ٰ زمانے نے یہ بھی دیکھا کہ علی ؑ نے روحانی
ٰ
تقوی ٰ
تقوی کی رسم ڈالی۔ انسانی رویوں میں تقوی ایجاد فرمایا۔ سماجیٰ بنیاد ڈالی۔ سیاسی
کو شامل فرمایا۔ یہ فقط الفاظ یا اصطالحات تک محدود نہیں بلکہ علی ؑ کا طرز زندگی اور
نہج البالغہ کی شکل میں ان کے فرمودات اس بات کی بین دلیل ہیں کہ وہ صرف عبادی
تقوی کو کافی نہیں سمجھتے تھے بلکہ تقوی کی دیگر اشکال پر ان کا توجہ زیادہ مرکوز ٰ
تقوی اور ُزہد کی تلقین فرماتے رہے ،چاہے وہ گھریلو ٰ رہی۔ زندگی کے ہر ہر شعبے میں
زندگی ہو یا خاندانی زندگی۔ چاہے گروہی زندگی ہو یا جماعتی۔ چاہے
حکومتی زندگی ہو یا حزب مخالف زندگی۔ چاہے مذہبی زندگی ہو یا سیاسی زندگی۔ چاہے
ٰ
تقوی اور سماجی زندگی ہو یا انسانی پہلووں پر محیط زندگی۔ ہر ہر مرحلے پر علی ؑ نے
ُزہد کی تاکید فرمائی۔
تقوی کی اتنی اہمیت ہے کہ علی ؑ نے دنیا سے رخصتi ٰ زندگی کے تمام امور میں ُزہد و
ہوتے وقت اپنے معصوم اور امام بیٹوں یعنی حسن ؑ و حسین ؑ کو جو ٓاخری نصیحت اور
تقوی ہے ،لیکن فقط عبادی نہیں بلکہ اجتماعی۔ ٰ وصیت فرمائی ،اس کا محوری نکتہ ُزہد و
تقوی اور اپنے امور میں نظم پیدا کرنے کی وصیت ٰ ٓاپ نے فرمایا ’’میں تمہیں زندگی میں
کرتا ہوں۔‘‘ امیرالمومنین کی یہ وصیت اور نصیحت ظاہراً حسنین کریمین کے لئے تھی
لیکن ان کے ذریعے یہ وصیت پوری امت مسلمہ بلکہ پورے عالم انسانیت کو تھی کہ ہر
ہر انسان اپنی زندگی کو کس نہج اور کس خط پر بسر کرے۔ علی ؑ کی وصیت جہاں ہمیں
علی ؑ کے امام المتقین ہونے کی یاد دالتی ہے ،وہاں پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ ہم اپنی
تقوی اور ُزہد کو بغیر ریا کاری اور نمود و
ٰ زندگی کے ہر انفرادی اور اجتماعی پہلو میں
نمائش کے نافذ کریں ،کیونکہ علی ؑ کے نزدیک ’’بہترین ُزہدُ ،زہد کو مخفی رکھنا ہے۔‘‘
______________________________
ت ن ش ش
ماہ ن امہ دارالعلوم ،مارہ ،11-10ج لد ، 89 :رمض ان ،وال 1426ہ ج ری م طابق اک وبر ،ومب ر 2005ء
زہد
ٓاپ کی ذات گرامی زہد فی الدنیا کا نمونہ تھی ؛بلکہ حق یہ ہے کہ ٓاپ کی ذات پر زہد کا
خاتمہ ہوگیآ ،اپ کےکا شانٔہ فقر میں دنیاوی شان وشکوہ کا درگزرنہ تھا،کوفہ تشریف
الئے تو داراالمارت کے بجائے ایک میدان میں فروکش ہوئے اور فرمایا کہ عمر بن
الخطاب ؓ نے ہمیشہ ہی ان عالی شان محالت کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا ،مجھے بھی
اس کی حاجت نہیں ،میدان ہی میرے لیے بس ہے۔
بچپن سے پچیس چھبیس برس کی عمر تک ٓانحضرت صلی ہللا علیہ وسلم کے ساتھ رہے
اور شہنشاہ اقلیم زہد وقناعت کے یہاں دنیاوی عیش کا کیا ذکرتھا،حضرت فاطمہ ؓ کے ساتھ
شادی ہوئی تو علیحدہ مکان میں رہنے لگے ،اسی نئی زندگی کے سازو سامان کا اندازہ
اس سے ہوسکتا ہے کہ سیدہ جنت جو سازوسامان اپنے میکہ سے الئی تھیں اس میں ایک
چیز کا بھی اضافہ نہ ہوسکا،چکی پیستے پیستے حضرت فاطمہ ؓ کے ہاتھوں میں گھٹے
پڑگئے تھے ،گھر میں اوڑھنے کی صرف ایک چادر تھی،وہ بھی اس قدر مختصر کہ
پأوں چھپاتے تو سربرہنہ ہوجاتا اور سرچھپاتے تو پأوں کھل جاتا،معاش کی یہ حالت تھی
کہ ہفتوں گھر سے دہواں نہیں اٹھتا تھا،بھوک کی شدت ہوتی تو پیٹ سے پتھر باندھ لیتے،
ایک دفعہ شدت گرسنگی میں کاشانٔہ اقدس سے باہر نکلے کہ مزدوری کرکے کچھ
کماالئیں،عوالی (مدینہ کے قرب وجوار کی ٓابادی کا نام عوالی تھا)مدینہ میں دیکھا کہ ایک
ضعیفہ کچھ اینٹ پتھر جمع کررہی ہے ،خیال ہوا کہ شاید اپنا باغ سیراب کرنا چاہتی
ہے،اس کے پاس پہنچ کر اجرت طے کی اورپانی سینچنے لگے ،یہاں تک کہ ہاتھوں میں
ٓابلے پڑگئے ،غرض اس محنت ومشقت کے بعد ایک مٹھی کھجوریں اجرت میں ملیں؛لیکن
بجنسہ لیے ہوئے بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئےٓ ،انحضرتi ٖ تنہا خوری کی عادت نہ تھی
صلی ہللا علیہ وسلم نے تمام کیفیت سن کر نہایت شوق کے ساتھ کھانے میں ساتھ دیا۔
(مسند ابن حنبل ص ) ۱۳۵
ایام خالفت میں بھی زہد کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹا اورٓاپ کی زندگی میں کوئی فرق نہ ٓایا،
ِ
موٹا چھوٹا لباس اورروکھا پھیکا کھانا ان کے لیے دنیا کی سب سے بڑی نعمت تھی ،ایک
دفعہ عبدہللا بن زریرنامی ایک صاحب شریک طعام تھے،دسترخوان پر کھانا نہایت
معمولی اورسادہ تھا ،انہوں نے کہا ،امیر المومنین! ٓاپ کو پرند کے گوشت سے شوق نہیں
ہے،فرمایا ابن زریر!خلیفہ وقت کو مسلمانوں کے مال میں سے صرف دوپیالوں کا حق
ہے ،ایک خود کھائے اور اہل کو کھالئے اوردوسرا خلق خدا کے سامنے پیش کرے
( مسند احمد ج)۷۸ : ۱
دردولت پر کوئی حاجب iنہ تھا نہ دربان،نہ امیرنہ کروفرنہ شاہانہ تزک واحتشام اورعین
وکسری کی شہنشاہی مسلمانوں کے لیے زروجواہر اگل رہی تھی، ٰ اس وقت جب قیصر
اسالم کاخلیفہ ایک معمولی غریب کی طرح زندگی بسر کرتا تھا اوراس پر فیاضی کا یہ
حال تھا کہ دادودہش کی بدولت کبھی فقروفاقہ کی نوبت بھی ٓاجاتی تھی،ایک دفعہ منبر
پرخطبہ دیتے ہوئے فرمایاکہ:میری تلوار کا کون خریدار ہے؟خدا کی قسم! اگر میرے پاس
ایک تہہ بند کی قیمت ہوتی تواس کو فروخت نہ کرتا،ایک شخص نے کھڑے ہوکر کہا
‘‘امیر المومنین! میں تہہ بند کی قیمت قرض دیتا ہوں۔
گھر میں کوئی خادمہ نہ تھی ،شہنشاہ دو عالم صلی ہللا علیہ وسلم کی بیٹی گھر کا سارا کام
اپنے ہاتھوں سے انجام دیتی تھی ،ایک مرتبہ شفیق باپ کےپاس اپنی مصیبت بیان کرنے
سرورکائنات صلی ہللا علیہ وسلم موجود نہ تھے اس لیے واپس ٓاکر ِ گئیں ،حضرت
عائشہ کی اطالع پرآنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم خود ؓ سورہی،تھوڑی دیرکے بعد حضرت
تشریف الئے اور فرمایا کیا تم کو ایک ایسی بات نہ بتادوں جو ایک خادم سے کہیں زیادہ
تمہارے لیے مفید ہو ،اس کے بعد ٓاپ صلی ہللا علیہ وسلم نے تسبیح کی تعلیم دی۔
يح ِع ْن َد ْال َمنَ ِام،حدیث نبمر)۵۸۴۳: (بخاری،بَاب التَّ ْكبِ ِ
ير َوالتَّ ْسبِ ِ
عبادات
حضرت علی کرم ہللا وجہہ خدا کے نہایت عبادت گزار بندے تھے ،عبادات ان کا مشغلہ
حیات تھا جس کا شاہد خود قرٓان ہے ،کالم پاک کی اس ٓایت :
ُح َما ُء بَ ْینَہُ ْم تَ ٰرئہُ ْم ُر َّکعًا ُس َّجدًا یَّ ْبتَ ُغ ْو َن فَضْ اًل ہللاَ oوالَّ ِذی َْن َم َع ٗ ٓہ اَ ِش َّدا ُء َعلَی ْال ُکفَّ ِ
ار ر َ " ُم َح َّم ٌد َّرس ُْو ُل ِ
ِّم َن ہللاِ َو ِرضْ َوانًاْ"
(الفتح)۲۹:
‘‘محمد رسول ہللا اوروہ لوگ جو ان کے ساتھ ہیں کافروں پر سخت ہیں باہم رحمدل ہیں،تم
ان کو دیکھتے ہو کہ بہت رکوع اوربہت سجدہ کرکے خدا کا فضل اوراس کی رضا مندی
کی جستجو کرتے ہیں۔’’
کی تفسیر میں مفسرین نے نکتہ لکھا ہےکہ َوالَّ ِذی َْن َم َع ٗ ٓہ سے ابوبکر صدیق ؓ ،اَ ِش َّدا ُء َعلَی
ُح َما ُء بَ ْینَہُ ْمسے عثمان بن عفان ُؓ ،ر َّکعًا ُس َّجدًسے حضرت ار سے عمر بن الخطاب ،ؓ iر َ ْال ُکفَّ ِ
علی ابن ابی طالب ؓ اور یَّ ْبتَ ُغ ْو َن فَضْ اًل ِّم َن ہللاِ َو ِرضْ َوانًاْسے بقیہ صحابہ ؓ مراد ہیں(،تفسیر
فتح البیان ج): ۹اس سے عبادت میں تمام صحابہ پر حضرت علی ؓ کی فضیلت iثابت ہوئی
ہے کیونکہ رکوع وسجودجو تمام صحابہ ؓ کا مشترک وصف تھا ،پھر اس اشتراک میں
تخصیص سے معلوم ہوا کہ اس اشتراک کے باوجود ان کو اس باب میں کچھ مزید امتیاز
بھی حاصل تھا۔
قرٓان مجید کے اس اشارہ کے عالوہ خود صحابہ ؓ کی زبان سے ان کے اس امتیازی
وصف کی شہادت مذکور ہے ،حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں:
کان ماعلمت صواما قواما،
(ترمذی کتاب المناقب فضل فاطمہ)
جہاں تک مجھے معلوم ہے وہ بڑے روزہ دار اور عبادت گزار تھے۔’’
زبیر بن سعید قریشی کہتے ہیں:
لم ارھا شمیا قط کان اعبد ہللا منہ
(مستدرک حاکم ج)۱۰۸ : ۳
"میں نے کسی ہاشم کو نہیں دیکھا جو ان سے زیادہ خداکا عبادت گزار ہو۔"
ان حاالت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عبادات میں جس چیز کا التزام کرلیتے تھے اس پر
ہمیشہ قائم رہتے تھے ،ایک موقع پر رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے ان سے اورحضرت
فاطمہ ؓ سے فرمایا کہ تم دنوں ہر نماز کے بعد دس بار تسبیح ،دس بار تحمید اوردس بار
تکبیر پڑھ لیا کرو اورجب سؤو تو ۳۳بار تسبیح ۳۳،بار تحمید اور ۳۴بار تکبیر پڑھ لیا
کرو ،حضرت علی کرم ہللا وجہہ فرماتے ہیں کہ جب سے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم
مجھ کو اس کی تلقین کی میں نے اس کو چھوڑا نہیں،ابن کواء نے کہاکہ"صفین کی شب
میں بھی نہیں؟فرمایا‘صفین کی شب میں بھی نہیں۔"
(مسند ابن حنبل ج)۱۰۷ : ۱
تواضع
دستار فضیلت کا سب سے خوشنما طرہ ہے،اپنے ہاتھ ِ سادگی اورتواضع حضرت iعلی ؓ کی
سے محنت ومزدوری کرنے میں کوئی عارنہ تھا،لوگ مسائل پوچھنے ٓاتے تو ٓاپ کبھی
جوتا ٹانکتے ،کبھی اونٹ چراتے اورکبھی زمین کھودتے ہوئے پائے جاتے،مزاج میں بے
تکلفی اتنی تھی کہ فرش خاک پر بے تکلف سوجاتے،ایک دفعہ ٓانحضرت صلی ہللا علیہ
وسلم انہیں ڈھونڈتے ہوئے مسجد میں تشریف الئے،دیکھا کہ بے تکلفی کے ساتھ زمین پر
سورہے ہیں،چادرپیٹھ کے نیچے سے سرک گئی ہے اورجسم ِانور گردوغبار کے اندر
کندن کی طرح دمک رہا ہے ،سرورکائنات صلی ہللا علیہ وسلم کو یہ سادگی نہایت پسند
ٓائی ،خوددست مبارک سے ان کا بدن صاف کرکے محبت ٓامیز لہجہ میں فرمایا :اجلس یاابا
تراب(بخاری کتاب المناقب iباب مناقب علی ؓ)مٹی والے اب اٹھ بیٹھ ،زبان نبوی صلی ہللا
علیہ وسلم کی عطا کی ہوئی یہ کنیت حضرت علی ؓ کو اس قدر محبوب تھی کہ جب کوئی
اس سے مخاطب کرتا تو خوشی سے ہونٹوں پر تبسم کی لہر دوڑجاتی۔
ایام خالفت میں بھی یہ سادگی قائم رہی ،عموما ً چھوٹی ٓاستین اوراونچے دامن کا کرتہ
پہنتے اورمعمولی کپڑے کی تہہ بند باندھتے،بازار میں گشت کرتے پھرتے،اگر کوئی
تعظیما ً پیچھے ہولیتا تو منع فرماتے کہ اس میں ولی کے لیے فتنہ اورمومن کے لیے ذلت
ہے۔
شجاعت وبسالت حضرت علی ؓ کا مخصوص وصف تھا جس میں کوئی معاصر ٓاپ کا
حریف نہ تھآ ،اپ تمام غزوات میں شریک ہوئے اور سب میں اپنی شجاعت کے جوہر
دکھائے ،اسالم میں سب سے پہال غزوہ ٔبدر پیش ٓایا،اس وقت حضرت علی ؓ کاعنفوان شباب
تھا؛لیکن اس عمر میں ٓاپ نے جنگ ٓازما بہادروں کے دوش بدوش ایسی دا ِد شجاعت دی
کہ ٓاپ اس کے ہیرو قرارپائے۔
ٓاغاز جنگ میں ٓاپ کا مقابلہ ولید سے ہوا ،ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کردیا ،پھر شیبہ
ِ
کے مقابلہ میں حضرت عبیدہ بن حارث ؓ ٓائے اوراس نے ان کو زخمی کیا تو حضرت
حمزہ اورحضرت علی ؓ نے حملہ کرکے اس کا کام بھی تمام کردیا،غزوہ ٔاحد میں کفار کا
جھنڈا طلحہ بن ابی طلحہ کے ہاتھ میں تھا ،اس نے مبازرت طلب کی تو حضرت iعلی
مرتضی ؓ ہی اس کے مقابلہ میں ٓائے اورسرپر ایسی تلوار ماری کہ سر کے دوٹکڑےٰ
فرط مسرت میں تکبیر کا ہوگئے ،رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی تو ِ
نعرہ بلند کیا اور مسلمانوں نے بھی تکبیر کے نعرے لگائے۔
غزؤہ خندق میں بھی پیش پیش رہے؛چنانچہ عرب کے مشہور پہلوان عمروبن عبدونے
جب مبازرت طلب کی توحضرت علی مرتضی ؓ نے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے
میدان میں جانے کی اجازت iچاہیٓ ،اپ صلی ہللا علیہ وسلم نے ان کو اپنی تلوار عنایت
ت مبارک سے ان کے سرپر عمامہ باندھا اوردعا کی خداوندا!تو اس فرمائی،خود اپنے دس ِ
کے مقابلہ مین ان کا مددگار ہو ،اس اہتمام سے ٓاپ ابن عبدودکے مقابلہ میں تشریف لے
گئے اور اس کو زیر کرکے تکبیر کا نعرہ مارا جس سے مسلمانوں کو معلوم ہوا کہ انہوں
نے اپنے حریف پر کامیابی حاصل iکرلی۔
غزوہ ٔخیبر کا معرکہ حضرت علی ؓ ہی کی شجاعت سے سرہوا ،جب خیبر کا قلعہ کئی دن
تک فتح نہ ہوسکا تو ٓانحضرت صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا کہ کل میں جھنڈا ایسے
شخص کو دوں گا جو خدا اورخدا کے رسول کو محبوب رکھتا ہے اورخدا اورخدا کے
رسول اس کو محبوب رکھتے ہیں؛چنانچہ دوسرے دن ٓاپ صلی ہللا علیہ وسلم نے حضرت
علی ؓ کو جھنڈا عنایت فرمایا اورخیبر کا رئیس مرحب تلوار ہالتاہوااوررجز پڑھتا
ہوامقابلے iمیں ٓایا ،اس کے جواب میں حضرت علی مرتضی رجز خواں ٓاگے بڑھے
اورمرحب کے سرپر ایسی تلوار ماری کہ سرپھٹ گیا اورخیبر فتح ہوگیا،خیبر کی فتح کو
ٓاپ کے جنگی کارناموں میں خاص امتیاز حاصل iہے۔
قبائل عرب کی متحدہ طاقت ِ غزوات میں غزوہ ہوازن خاص اہمیت رکھتا ہے اس میں تمام
مسلمانوں کے خالف امنڈ ٓائی تھی؛لیکن اس غزوہ میں بھی حضرت علی ؓ ہر موقع پر
ممتاز رہے،رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے جن اکابر کو جھنڈے عنایت فرمائے ،ان میں
مرتضی بھی شامل تھےٓ،اغاز جنگ میں جب کفارنے دفعۃتیروں کا مینہ ٰ حضرت علی
برسانا شروع کیا تو مسلمانوں کے پأوں اکھڑ گئے اور صر ف چند ممتاز صحابہ کرام
مرتضی ؓ
ٰ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے ساتھ ثبات قدم رہے ،ان میں ایک حضرت علی
بھی تھے ،عہد نبوت کے بعد خود ان کے زمانہ میں جو معرکے پیش ٓائے ان میں کبھی ان
کے پائے ثبات کو لغزش نہیں ہوئی۔
دشمنوں کے ساتھ حسن سلوک
حدیث میں ٓایا ہے کہ‘‘بہادروہ نہیں ہے جو دشمن کو پچھاڑدے ؛بلکہ وہ ہے جو اپنے نفس
کو زیر کرے ،حضرت علی مرتضی ؓ اس میدان کے مرد تھے ،ان کی زندگی کا اکثر
حصہ مخالفین کی معرکہ ٓارائی میں گزرا؛لیکن بایں ہمہ انہوں نے ہمیشہ دشمنوں کے ساتھ
اچھا برتأو کیا ،ایک دفعہ ایک لڑائی میں جب ان کا حریف گرکر برہنہ ہوگیا تو اس کو
چھوڑکر الگ کھڑے ہوگئے کہ اس کو شرمندگی نہ اٹھانی پڑے ،جنگ جمل میں حضرتi
عائشہ ؓ ان کی حریف تھیں؛لیکن جب ایک ضبی نے ان کے اونٹ کو زخمی کرکے گرایا
تو خود حضرت علی ؓ نے ٓاگے بڑھ کر ان کی خیرت دریافت کی اوران کو ان کے طرفدار
بصرہ کے رئیس کے گھر میں اتارا،حضرت عائشہ ؓ کی فوج کے تمام زخمیوں نے بھی
اسی گھر کے ایک گوشے میں پناہ لی تھی ،حضرت علی ؓ حضرت iعائشہ ؓ سے ملنے کے
لئے تشریف لے گئے؛ لیکن ان پناہ گزین دشمنوں سے کچھ تعرض نہیں کیا۔
جنگ جمل میں جو لوگ شریک جنگ تھے ،ان کی نسبت بھی عام منادی کرادی کہ
مال
بھاگنے والوں کا تعاقب نہ کیا جائے i،زخمیوں کے اوپر گھوڑے نہ دوڑائے جائیںِ ،
غنیمت نہ لوٹا جائے،جوہتیارڈال دے اس کو امان ہے۔
حضرت زبیر ؓ نے ایک حریف کی حیثیت سے ان کا مقابلہ کیا تھا اورجنگ جمل کے سپہ
ساالروں میں تھے ،مگر جب ان کا قاتل ابن جرموز ان کا مقتول سراورتلوار لے کر
حضرت علی ؓ کے پاس ٓایا تو وہ ٓابدیدہ ہوگئے اورفرمایا‘‘فرزند صفیہ ؓ کے قاتل کو جہنم
کی بشارت دے دو،پھر حضرت iزبیر ؓ کی تلوار ہاتھ میں لے کر فرمایا ،یہ وہی تلوار ہے
جس نے کئی دفعہ ٓانحضرت iصلی ہللا علیہ وسلم کے چہرہ سے مشکالت کا بادل ہٹایا ہے۔
مستدرک میں ہے کہ حضرت علی کرم ہللا وجہہ کے پاس ان کا سرٓایا تو فرمایا کہ ‘فرزن ِد
صفیہ ؓ کے قاتل کو جہنم کی بشارت دے دو ،میں نے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے
سنا ہے کہ ہر نبی کے حواری ہوتےہیں اور میرا حواری زبیر ہے۔
(مستدرک ج)۳۶۷ : ۳
جنگ جمل کے میدان میں جب ٓاپ فریق مخالف کی الشوں کا معائنہ کررہے تھے،تو ایک
ایک الش کو دیکھ کر افسوس کرتے تھے،جب حضرت طلحہ ؓ کے صاحبزادے محمد کی
الش پر نظر پڑی تو ٓاہ سرد بھر کر فرمایا:اے قریش کا شکرہ!
ان کا سب سے بڑا دشمن ان کا قاتل ابن ملجم ہوسکتا تھا؛لیکن انہوں نے اس کے متعلق جو
ٓاخری وصیت کی تھی وہ یہ تھی کہ اس سےمعمولی طورپر قصاص لینا ،مثلہ نہ
کرنا،یعنی اس کے ہاتھ پأوں اورناک نہ کاٹنا ،ابن سعد میں ہے کہ جب وہ ٓاپ کے سامنے
الیا گیا تو فرمایا کہ اس کواچھا کھانا کھالٔو اور اس کو نرم بستر پر سالٔو اگرمیں زندہ بچ
گیا تو اس کے معاف کرنے یا قصاص لینے کا مجھے اختیار حاصل ہوگا اوراگر میں
مرگیا تو اس کو مجھ سے مالدینا،میں خدا کے سامنے اس سے جھگڑوں گا ،دشمنوں کے
اعلی مثال کیا ہوسکتی ہے؟ ٰ ساتھ حسن سلوک کی اس سے
اصابت رائے
حضرت علی کرم ہللا وجہہ صائب الرائے بھی تھے اورٓاپ کی ا صابت رائے پر عہد نبوی
ت امور میں شریک صلی ہللا علیہ وسلم ہی سے اعتماد کیا جاتا تھا؛چنانچہٓ iاپ تمام مہما ِ
مشورہ کیے جاتے تھے،واقعہ افک میں رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے اپنے گھر کے
راز داروں میں جن لوگوں سے مشورہ کیا،ان میں سے ایک حضرت علی کرم ہللا وجہہ
بھی تھے،غزوہ طائف میں ٓاپ صلی ہللا علیہ وسلم نے ان سے اتنی دیر تک سرگوشی
فرمائی کہ لوگوں کو اس پر رشک ہونے لگا۔
وعمر دونوں کے مشیر تھے؛چنانچہ ؓ خالفت راشدہ کے زمانہ میں وہ حضرت ابوبکر
شوری قائم کی تھی،اس کے ٰ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے مہاجرین وانصار کی جو مجلس
رکن حضرت علی کرم ہللا وجہہ بھی تھے ،حضرت iعمر فاروق ؓ نے اس مجلس کے ساتھ
شوری قائم کی تھی اس کے اراکین کے نام اگرچہ ہم کو ٰ مہاجرین کی جو مخصوص مجلس
معلوم نہیں ہیں؛لیکن حضرت علی کرم ہللا وجہہ الزمی طورپر اس کے ایک رکن رہے
عمر کو ان کی رائے پر اتنا اعتماد تھا کہ جب کوئی مشکل ہوں گے،کیونکہ حضرت ؓ
معاملہ پیش ٓاجاتا توحضرت علی ؓ سے مشورہ کرتے تھے ،ایک موقع پر انہوں نےفرمایا
تھا۔
لوال علی لھلک عمر اگر علی نہ ہوتے عمر ہالک ہوجاتا۔
اس اعتماد کی بنا پر بعض امور میں حضرت عمر ؓ نے حضرت علی کرم ہللا وجہہ کی
رائے کو اپنی رائے پر ترجیح دی ہے،معرکہ نہادند میں جب ایرانیوں کی کثرت نے
عمر کو بے حد مشوش کردیا،تو انہوں نے مسجد نبوی صلی ہللا علیہ وسلم میں حضرت ؓ
تمام صحابہ کو جمع کرکے رائے طلب کی،حضرت طلحہ ؓ نے کہا امیرالمومنین ٓاپ خود
ہم سے زیادہ سمجھ سکتے ہیں ،البتہ ہم لوگ تعمیل حکم کے لیے تیار ہیں،حضرت عثمان ؓ
نے مشورہ دیا کہ شام ویمن وغیرہ سے فوجیں جمع کرکے ٓاپ خود سپہ ساالر ہوکر میدا ِن
عم نے ان کی جنگ تشریف لے جائیں ،حضرت علی کرم ہللا وجہہ خاموش تھے،حضرتؓ i
طرف دیکھا تو بولے کہ شام سے اگر فوجیں ہٹیں تو مفتوحہ مقامات پر دشمنوں کا تسلط
ہوجائے گا اور ٓاپ نے مدینہ چھوڑا تو عرب میں ہر طرف قیامت برپا ہوجائے گی ،اس
لیے میری رائے یہ ہے کہ ٓاپ یہاں سے نہ ہلیں اورشام ویمن وغیرہ میں فرمان بھیج دیئے
جائیں کہ جہاں جہاں جس قدر فوجیں ہوں ایک ایک ثلث ادھر روانہ کردی جائیں،حضرت
عمر ؓ نے اس رائے کو پسند کیا اورکہا کہ میرا بھی یہی خیال ہے۔
حضرت عثمان ؓ نے بھی ان سے اہم معامالت میں مشورے لیے اور اگر ان کے مشورہ پر
عمل کیا جاتا تو ان کا عہد نہ صرف فتنہ وفساد سے محفوظ رہتا ؛بلکہ قبائل عرب میں
ایک ایسا توازن قائم ہوجاتا کہ ٓائندہ جھگڑے کی کوئی صورت ہی نہ پیدا ہوتی۔
ٓاپ کی اصابت iرائے کا سب سے بڑا ثبوت ٓاپ کے فیصلوں میں ملتا ہےاحادیث کی کتابوں
میں بہت سے ایسے پیچیدہ مقامات iمذکورہیں جن کا فیصلہ حضرت علی کرم ہللا وجہہ نے
کیا اورجب وہ فیصلے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے سامنے پیش کیے گئے تو ٓاپ نے
فرمایا:
مااجد فیھا االماقال علی
میرے نزدیک بھی اس کا فیصلہ وہی ہے جو علی نے کیا۔
ان کے ایک اورفیصلہ کا ذکر کیا گیاتوٓاپ صلی ہللا علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اور فرمایا:
الحمدہلل الذی جعل فینا الحکمۃ اھل البیت
(ازالۃ الخفاء)۲۶۹ : i
اسی سے ان دونوں فریق کی جوافراط وتفریط کرتے ہیں غلطی بھی ظاہر ہوگئی ،ایک کہتا
ہے کہ قوم کی حمایت کے لیے غلبہ کا خواستگار ہونا خلوص نہیں،دوسراکہتا ہے کہ
استحقاق خالفت کے لیے اخوت نسبتی شرط ہے۔
محاسن اخالق میں ایک زہداورشہوت نفسانی سے اجتناب ہے،حضرت iامیر معاویہ ؓ ِ ان کے
نے ضراراسدی سے کہا کہ مجھ سے حضرت علی کرم ہللا وجہہ کے اوصاف بیان کرو،
انہوں نے کہا کہ امیرالمومنین اس سے مجھے معاف فرمائیے،معاویہ ؓ نے اصرار کیا
ضراربولے،اگر اصرار ہے تو سنیے وہ بلند حوصلہ اورنہایت قوی تھے،فیصلہ کن بات
کہتے تھے،عادالنہ فیصلہ کرتے تھے،ان کے ہرجانب سے علم کا سرچشمہ پھوٹتا تھا ،ان
کے تمام اطراف سے حکمت ٹپکتی تھی،دنیا کی دلفریبی اورشادابی سے وحشت کرتے
اوررات کی وحشت ناکی سے انس رکھتے تھے،بڑے رونے والے اوربہت زیادہ
غوروفکر کرنے والے تھے،چھوٹالباس اورموٹاجھوٹاکھانا پسندتھا،ہم میں بالکل ہماری
طرح رہتے تھے،جب ہم ان سے سوال کرتے تھے تو وہ ہمارا جواب دیتے تھے اورجب ہم
ان سے انتظار کی درخواست کرتے تھے تو وہ ہمارا انتظار کرتے تھے،باوجود یکہ اپنی
خوش خلقی سے ہم کو اپنے قریب کرلیتے تھے اور وہ خود ہم سے قریب ہوجاتے تھے؛
لیکن اس کے باوجود خدا کی قسم ان کی ہیبت سے ہم ان سے گفتگو نہیں کرسکتے تھے،
وہ اہل دین کی عزت کرتے تھے،غریبوں کو مقرب بناتے تھے ،قوی کو اس کے باطل میں
حرص وطمع کا موقع نہیں دیتے تھے،ان کے انصاف سے ضعیف ناامید نہیں ہوتا تھا،میں
شہادت دیتا ہوں کہ میں نے ان کو بعض معرکوں میں دیکھا کہ رات گزرچکی ہے،ستارے
ڈوب چکے ہیں اور وہ اپنی داڑھی پکڑے ہوئے ایسے مضطرب ہیں جیسے مارگزیدہ
مضطرب ہوتا ہے اوراس حالت iمیں وہ غمزدہ ٓادمی کی طرح رورہے ہیں اورکہتے ہیں کہ
اے دنیا مجھ کو فریب نہ دے تو مجھ سے چھیڑ چھاڑ کرتی ہے،یا میری مشتاق ہوتی ہے،
افسوس افسوس! میں نے تجھ کو تین طالقیں دے دی ہیں جس سے رجعت نہیں
ہوسکتی ،تیری عمر کم اورتیرا مقصدحقیر ہےٓ،اہ!زادراہ کم اورسفر دوردرازکا ہے،راستہ
وحشت خیز ہے’’
یہ سن کر امیر معاویہ ؓ روپڑے اورفرمایا خدا ابوالحسن پر رحم کرے،خدا کی قسم!وہ
ایسے ہی تھے۔
ان کے محاسن اخالق میں ایک چیز شبہات سے اجتناب ہے،ان کی صاحبزادی حضرت ام
کلثوم ؓ سے روایت ہے کہ اگر حضرت علی کرم ہللا وجہہ کے پاس لیموں ٓاجاتے تھے
اورحسن ؓ وحسین ؓ ان میں سے کوئی لیموں لے کر کھانے لگتا تو وہ اس کو ان کے ہاتھ
سے چھین لیتے اوراس کو تقسیم کرنے کا حکم دیتے تھے،ابوعمروسے روایت ہے کہ وہ
فے کی تقسیم میں حضرت ابوبکر ؓ کا طریقہ اختیار کرتے تھے ،یعنی جب ان کے پاس ٓاتا
تھا تو سب تقسیم کردیتے تھے اور فرماتے اے دنیا میرے سوا کسی اورکو دھوکہ دے
اورخود اس سے اپنے لیے کوئی چیز انتخاب نہ کرتے تھے اور نہ تقسیم میں اپنے کسی
رشتہ دار یا اورعزیز کی تخصیص کرتے تھے،حکومت اورامانت صرف متدین لوگوں
کے سپرد کرتے تھے ،اورجب یہ معلوم ہوتا کہ کسی نے اس میں خیانت کی ہے تو اس کو
لکھتے:
قدجاءتکم موعظۃ من ربکم فاو فواالکیل والمیزان بالقسط والتدخسوا الناس اشیاء ھم وال
تعثوافی االرض مفسدین بقیۃ ہللا خیر لکم ان کنتم مومنین وماانا علیکم بحفیظ
"تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے نصیحت ٓاچکی ہے تو ناپ جو کھ کر انصاف
کے ساتھ پورا کرو اورلوگوں کی چیزوں میں کمی نہ کرو اورزمین میں فساد نہ
پھیالٔو،خداکا ثواب تمہارے لیے بہتر ہے،اگر تم ایماندار ہو اورمیں تمہارا نگران نہیں
ہوں۔"
جب تمہارے پاس میراخط پہنچے تو تمہارے ہاتھ میں جو کام ہے اس وقت تک تم اس کی
پوری حفاظت کرو جب تک کہ ہم تمہارے پاس دوسرے شخص کو نہ بھیجیں جو تمہارے
ہاتھوں سے لے لے،پھر اپنی نگاہ کو ٓاسمان کی طرف اٹھاتے اورکہتے کہ خداوندتوجانتا
ہے کہ میں نے ان کو تیری مخلوق پر ظلم کرنے اورتیرے حق کو چھوڑنے کا حکم نہیں
دیاہے۔
مجع التمیمی سے روایت ہے کہ بیت المال میں جو کچھ تھا اس کو حضرت علی ؓ نے
مسلمانوں میں تقسیم کردیا ،پھر حکم دیا کہ اس میں جھاڑودے دی جائے اوراس میں نماز
پڑھی تاکہ قیامت کے دن ان کی گواہ رہے۔
حضرت کلیب ؓ سے روایت ہے کہ حضرت علی کرم ہللا وجہہ کے پاس اصفہان سے مال
ٓایا تو انہوں نے اس کے ساتھ حصے کیے ،اس میں ایک روٹی بھی تھی اس کے بھی سات
ٹکڑے کیے اورہر حصے پر ایک ایک ٹکڑاتقسیم کیا،پھر قرعہ ڈاالکہ ان میں کس کوکون
ساحصہ دیا جائے۔
محاسن اخالق میں ایک چیز یہ ہے کہ وہ معاش کی تنگی پر صبر کرتے تھے ِ ان کے
اوراس کو اپنے لیے گوارہ کرلیتے تھے،خود ان سے روایت ہے کہ حضرت فاطمہ ؓ
ہمارے گھر میں ٓائیں تو ہمارے بچھانے کے لیے صرف مینڈھے کی ایک کھال تھی،
ضمرہ سے روایت ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے اپنے گھر کا کام اپنی
صاحبزادی حضرت فاطمہ کے متعلق کیا تھا اوربیرونی انتظامات حضرت علی کرم ہللا
وجہہ کے سپرد کیے تھے ،حضرت علی کرم ہللا وجہہ سے روایت ہے کہ جب رسول ہللا
صلی ہللا علیہ و سلم نے ان سے حضرت فاطمہ ؓ کا نکاح کیا تو جہیز میں ایک
چادر،چمڑے کا ایک گدا جس میں کھجور کی پتیاں بھری ہوئی تھیں ،ایک چکی ،ایک
مشک اوردو گھڑے دیے ،ایک دن حضرت علی ؓ نے حضرت فاطمہ ؓ سے کہا کہ پانی
بھرتے بھرتے میرا سینہ درد کرنے لگا ،رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے پاس لونڈی
غالم ٓاتے ہیںٓ ،اپ صلی ہللا علیہ وسلم سے ایک خادم کی درخواست کرو،انہوں نے کہا کہ
ٓاٹا پیستے پیستے میرے ہاتھوں میں بھی ٓابلے پڑگئے؛چنانچہ وہ ٓاپ کی خدمت میں حاضر
ہوئیںٓ ،اپ صلی ہللا علیہ وسلم نے پوچھا،بیٹی کس غرض سے ٓائی ہو؟ بولیں سالم کرنے؛
لیکن سوال کرنے سے ان کو شرم ٓائی اور واپس چلی گئیں ،حضرت علی ؓ نے پوچھا ،تم
نے کیا کیا؟ بولیں سوال کرنے میں مجھے شرم ٓائی ،دوبارہ دونوں ٓاپ صلی ہللا علیہ وسلم
کی خدمت میں حاضر ہوئے،حضرت iعلی ؓ نے عرض کیا کہ پانی بھرتے بھرتے میرا
سینہ درد کرنے لگا اورحضرت فاطمہ ؓ نے کہا کہ ٓاٹا پیستے پیستے میرے ہاتھوں میں
چھالے پڑگئے ،خدانے ٓاپ صلی ہللا علیہ وسلم کے پاس لونڈی غالم اورمال بھیجا ہے ،ہم
کو بھی ایک خادم عنایت ہوٓ ،اپ صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ،یہ نہیں ہوسکتا کہ
میں تم کو دوں اوراہل صفہ کو فاقہ مستی کی حالت میں چھوڑدوں میں ان لونڈی غالموں
کو فروخت کرکے ان کی قیمت ان پر صرف کروں گا،یہ جواب پاکر دونوں لوٹ ٓائے،ان
کی واپسی کے بعدخود رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے،
حضرت علی کرم ہللا وجہہ اورحضرت فاطمہ ؓ چادر اوڑھ کر سوچکی تھیں ،یہ چادر اتنی
چھوٹی تھی کہ جب سرڈھکتے تھے تو پأوں اورجب پأوں ڈھکتے تھے تو سرکھل جاتا
تھا ،رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے تشریف النے پر دونوں اُٹھ گئےٓ،اپ صلی ہللا علیہ
وسلم نے فرمایا کیا تم کو میں ایسی چیز نہ بتالدوں جو اس چیز سے بہتر ہے جس چیز کو
تم مجھ سے مانگ سکتے ہو،دونوں نے کہا،ہاں!فرمایا،مجھ کو جبرئیل نے چند کلمے
سکھائے اورکہا کہ دونوں ہر نماز کےبعد دس بار تسبیح اور دس بار تحمید اوردس بار
تکبیر کہہ لیا کرو ،اس طرح تم دونوں سوتے وقت ۳۳بار تحمید اور ۳۴بار تکبیر کہہ لیا
کرو،حضرت iعلی کرم ہللا وجہہ کا بیان ہے کہ جب سے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے
مجھ کو یہ کلمے سکھائے ،اس وقت سے میں نے ان کو نہیں چھوڑا ،ابن کواء نے کہا کہ
صفین کی رات میں بھی نہیں؟فرمایا ،نہیں۔
حضرت علی کرم ہللا وجہہ کا بیان ہے کہ مدینہ میں ایک مرتبہ مجھے سخت بھوک لگی،
کھانے کو کچھ نہ تھا اس لیے عوالی میں مزدوری کی تالش میں نکال ،ایک عورت ملی،
جس نے ڈھیلے اکھٹے کیے تھے ،میں نے خیال کیا کہ غالبا ان کو وہ بھگوانا چاہتی ہے؛
چنانچہ میں نے ہر ڈول پر ایک کھجور اجرت طے کی اور ۱۶ڈول پانی بھرے جس سے
میرے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے ،اس نے مجھے سولہ کھجوریں گن کردیں ،رسول ہللا
صلی ہللا علیہ ہوسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اورٓاپ صلی ہللا علیہ وسلم نے ان کھجوروں
کو میرے ساتھ کھایا۔
(ازالۃ الخفاء iکا خالصہ ختم ہوا)
pervaz khan
PM 02:18 ,07-16-2012
جزاک ہللا
طارق راحیل
PM 02:12 ,11-03-2012
جزاک ہللا خیراً۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وي بلیٹن® ,v4.1.12حقوق نقل و اشاعت ,2022-2000 :اردو منظر .اردو ترجمہ از:
سيد شاکرالقادری
اسالم ٹائمز :جب عبدالرحمان ابن ملجم پکڑا گیا اور اسے موال کے سامنے الیا گیا تو موال
نے اس سے فرمایا! اے عبدالرحمان کیا میں تمہارا اچھا امام نہیں تھا؟؟ جب اس نے کچھ
بولنا چاہا اور بول نہ پایا تو موال سمجھ گئے کہ اس کا گال خشک ہو گیا ہے ،اس لیے بول
نہیں پا رہا ،اسی وقت موال کے لیے ایک شربت آیا تھا جو طبیب نے نسخے کے طور پر
موال کو دیا تھا تا کہ درد کم ہو ،موال نے فرمایا کہ یہ شربت اسے پالؤ۔۔ دیکھیں موال کا
اخالق کس درجے کا ہے ،یاد رکھیں سزا اپنی جگہ ہے ،سزا کے لیے موال امام حسن علیہ
السالم کو وصیت کر چکے ہیں ،اس نے مجھے ایک ضرب ماری ہے آپ بھی اسے ایک
ضرب مارنا ،سزا اپنی جگہ ہے لیکن اخالقی رویہ اپنی جگہ ہے۔
مدرس :استاد محترم سید حسین موسوی
ترتیب :عاطف مہدی سیال
قرآن صامت
ِ ماہ مبارک رمضان میں انسان خود کو قرآن مجید کے قریب کرے چاہے وہ
قرآن ہو یا ناطق قرآن ،امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السالم ناطق قرآن
کے حوالے سے ہمیں موال کی سیرت کے قریب جانے کی ضرورت ہے جتنا موال کے
سیرت کے قریب جائیں گے اتنا ئی قرآن کے قریب جائیں گے۔ قرآن پاک میں جتنے بہی
اعلی درجے میں موجود اخالق بتائیں گے وہ سب رسول خدا کی طرح امیر المومنین میں ٰ
ہیں ہمیں اخالق پر زیادہ دھیان دینے کی ضرورت ہے کیوںکہ انسان مومن مومنہ اخالق
سے بنتا ہے اور کافر بہی کافرانہ اخالق کی وجہ سے بنتا ہے۔۔ہمیں موال کی سیاسی اور
اخالقی زندگی کو سمجھنے کی ضرورت ہے اگر ہم سمجھ جائیں تو کافی مشکالت حل ہو
سکتی ہیں۔
جہاں پر آکر رستہ الگ ہونا تھا تو موال کوفہ واال رستہ چھوڑ کر اس کے راستے پر اس
کے ساتھ چل پڑے ،تو اس نے کہا آپ شاید بھول گئے ہیں آپکو کوفہ جانا تھا ،موال نے
فرمایا مجھے یاد ہے مجھے کوفہ جانا تھا اور جانا ہے تو اس نے کہا وہ راستہ تو آپ نے
چھوڑ دیا ،موال نے فرمایا! مین نے جان بوجھ کر چھوڑا ہے ،کیوںکہ رسول خدا( ص)
نے ہمیں تاکید فرمائی ہے کہ ہمسفر کا حق یہ ہے کہ کچھ دیر اس کے ساتھ اسکے راستے
پر چلیں اسے الوداع کریں ،اس لیے میں آپ کے ساتھ آیا ہوں تاکہ تمہارے راستے پر چل
کر تمیں الوداع کہوں ،اس نے حیران کو کر کہا کیا آپ کے نبی نے ایسا فرمایا ہے؟ موال
نے کہا جی ہاں ،تو اس شخص نے کہا یہ واقعی انبیاء کا اخالق ہے اس نے امیر المومنین
کے اس اخالق کو دیکھ کر دین اسالم قبول کیا اور مسلمان ہو گیا۔۔ امیر المومنین نے کبھی
بھی سنت رسول کو تبدیل نہیں کیا اور ہمیشہ سنت رسول پر ہی عمل کیا ہے۔
عمال کی نگرانی
ملکی نظم ونسق کے سلسلہ میں سب سے اہم کام عمال کی نگرانی ہے،حضرت علی ؓ نے
اس کاخاص اہتمام مدنظر رکھا ،وہ جب کسی عامل کو مقرر کرتے تھے تو اس کو نہایت
مفیداورگراں بہانصائح کرتے تھے(،کتاب الخراج )۷۹ : iوقتا فوقتا عمال وحکام کے طرز
عمل کی تحقیقات iکرتے تھے ،چنانچہ ایک مرتبہ جب حضرت کعب بن مالک ؓ کو اس
خدمت پر مامور کیا تو یہ ہدایت فرمائی:
اخرت فی طائفۃ من اصحابک حتی تمر بارض السواد کورۃ فتسالھم عن عمالھم وتنظر فی
سیرتھم
تم اپنے ساتھیوں کا ایک گروہ لے کر روانہ ہوجأو اور عراق کے ہر ضلع میں پھر
و،عمال کی تحقیقات کرو اور ان کی روش پر غائر نظر ڈالو۔’’
عمال کے اسراف اورمالیات میں ان کی بدعنوانیوں کی سختی سے باز پرس فرماتے
تھے،ایک دفعہ اردشیر کے عامل مصقلہ نے بیت المال سے قرض لے کر پانچسو لونڈی
اورغالم خرید کر ٓازاد کئے،کچھ دنوں کے بعد حضرت علی ؓ نے سختی کےساتھ اس رقم
کا مطالبہ کیا ،مصقلہ نے کہا خدا کی قسم عثمان ؓ کے نزدیک اتنی رقم کا چھوڑدینا کوئی
بات نہ تھی؛ لیکن یہ تو ایک ایک حبہ کا تقاضہ کرتےہیں اورناداری کے باعث مجبور
ہوکر امیر معاویہ ؓ کی پناہ میں چلے گئے،جناب iامیر کو معلوم ہوا تو فرمایا:
برحہ ہللا فعل فعل السید وفرفرار العبد وخان خیانۃ الفاجرا ماوہللا لوانہ اقام فعجز ماز دنا
علی حبس فان وجدنا لہ شیئا اخذناہ وات لم نقتہ علی مال ترکناہ
خدا اس کا برا کرے اس نے کام تو سید کا کیا ؛لیکن غالم کی طرح بھاگا اورفاجر کی
طرح خیانت کی خدا کی قسم اگر وہ مقیم ہوتا تو قید سے زیادہ اس کو سزادیتا اوراگر اس
کے پاس کچھ ہوتا تو لیتا ورنہ معاف کردیتا۔’’
مستثنی نہ تھے ،ایک مرتبہ ٓاپ
ٰ اس باز پرس سے ٓاپ کے مخصوص اعزہ واقارب بھی
کے چچیرے بھائی حضرت عبدہللا بن عباس ؓ عامل بصرہ نے بیت المال سے ایک بیش
قرار رقم لی ،حضرت علی ؓ نے چشم نمائی فرمائی تو جواب دیا کہ میں نے ابھی اپنا پورا
حق نہیں لیا ہے؛ لیکن اس عذر کے باوجود وہ خائف ہوکر بصرہ سے مکہ چلے گئے۔
(ایضا ً )۳۴۵۳:
صیغٔہ محاصل
حضرت علی ؓ نے محاصل کے صیغہ میں خاص اصالحات جاری کیںٓ ،اپ سے پہلے
جنگل سے کسی قسم کا مالی فائدہ نہیں لیا جاتا تھآ ،اپ کے عہد میں جنگالت کو بھی
محاصل ملکی کے ضمن میں داخل کیا گیا؛چنانچہ برص کے جنگل پر چار ہزار درہم
مالگذاری تشخیص کی گئی۔( کتاب الخراج iص )۵۰
مستثنی تھے؛لیکن عہد فاروقی میں
ٰ عہد نبوی صلی ہللا علیہ وسلم میں گھوڑے ٰ
زکوۃ سے
زکوۃ مقرر کردی ،حضرت جب عام طورسے اس کی تجارت ہونے لگی تو اس پر بھی ٰ
علی ؓ کے نزدیک تمدنی اورجنگی فوائد کے لحاظ سے گھوڑوں کی افزائش نسل میں
زکوۃ موقوف کردی، سہولت بہم پہنچانا ضروری تھا اس لئے ٓاپ نے اپنے زمانہ میں ٰ
(کتاب الخراج )۵۰ : iگو ٓاپ محاصل ملکی وصول کرنے میں نہایت سخت تھے ؛لیکن اسی
کےساتھ رعایا کی فالح وبہبود کا بھی خاص خیال رکھا تھا؛چنانچہ معذور اورنادار ٓادمیوں
کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی نہیں کی جاتی تھی۔
( ایضا ً )۴۴ :
درے مارنے والوں کو ہدایت تھی کہ چہرہ اورشرمگاہ کے عالوہ تمام جسم پر کوڑا
مارسکتے ہیں ،عورتوں کے لئے حکم تھا کہ ان کو بٹھا کر سزادیں اورکپڑے سے تمام
جسم کو اس طرح چھپادیں کہ کوئی عضو بے ستر نہ ہونے پائے،اسی طرح رجم کی
صورت میں ناف تک زمین میں گاڑ دینا چاہیے۔
(کتاب الخراج)۹۸ : i
اقرار جرم کی حالت iمیں صرف ایک دفعہ کا اقرار کافی نہ سمجھتے تھے؛چنانچہ ایک
مرتبہ ایک شخص نے حاضر ہوکر عرض کیا امیر المومنین! میں نے چوری کی
ہے،حضرت علی ؓ نے غضب ٓالود نگاہ ڈال کراس کو واپس کردیا؛لیکن جب اس نے پھر
مکرر حاضر ہوکر اقرار جرم کیا تو فرمایا اب تم نے اپنا جرم ٓاپ ثابت کردیا اوراس وقت
اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔
(ایضا ً )۱۰۳ :
تنہا جرم کا ارادہ اوراس کے لئے اقدام بغیر جرم کئے ہوئے مجرم بنانے کے لئے کافی
نہیں ہے؛چنانچہ ایک شخص نے ایک مکان میں نقب لگائی اورچوری کرنے سے قبل
پکڑلیا گیا،حضرت iعلی ؓ کے سامنے پیش کیا گیا تو ٓاپ نے اس پر کسی قسم کی حدجاری
نہیں کی،
(کتاب الخراج)۱۰۴ : i
جو عورتیں ناجائز حمل سے حاملہ ہوتی تھیں ،ان پر حد جاری کرنے کے لئے وضع حمل
کا انتظار کیا جاتا تھا تاکہ بچہ کی جان کو نقصان نہ پہنچے ،جس کا کوئی گناہ نہیں ہے۔
عام قیدیوں کو بیت المال سے کھانا دیا جاتا تھا ؛لیکن جو لوگ محض اپنے فسق وفجور
کے باعث نظر بند کئے جاتے تھے ،وہ اگر مالدار ہوتے تھے تو خود ان کے مال سے ان
کے کھانے پینے کا انتظام کیا جاتا تھا ،ورنہ بیت المال سے مقرر کردیا جاتا تھا۔
(ایضا ً )۱۰۰ :
تعزیزی سزا
حضرت علی ؓ نے جو بعض غیر معمولی سزائیں تجویز کیں وہ دراصل تعزیزی سزائیں
عمر نے بھی اس قسم کی سزائیں جاری کی تھیں؛چنانچہ ان کے عہد میں
تھیں،حضرتؓ i
ایک شخص نے رمضان میں شراب پی تو اسی کوڑوں کے بجائے سوکوڑے
لگوائے،کیونکہ اس نے بادہ نوشی کے ساتھ رمضان کی بھی بےحرمتی کی تھی۔