You are on page 1of 5

‫ذوالقرنین کا ذکر قرآن پاک کی سورۃ الکہف کی آیت ‪ 83‬سے ‪ 98‬تک‬

‫میں ہے۔‬
‫ذوالقرنین کون؟‬
‫تاریخ کی کتابوں کے مطالعے کے بعد لوگوں نے ذوالقرنین کی شخصیت سے متعلق مختلف اندازے‬
‫لگائے ہیں۔‬
‫ذوالقرنین‪ :‬سکندر اعظم‬
‫بہت سے قدیم علما اور مفکر سکندر اعظم کو ہی ذوالقرنین مانتے ہیں۔ مگر بہت سے اس کا انکار‬
‫کرتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ سکندر اعظم نبی نہیں تھا۔ دوسری وجہ یہ کہ وہ زمین کی‬
‫مشرقین اور مغربین تک نہ پہنچ سکا۔‬
‫ذوالقرنین‪ :‬سائرس اعظم‬
‫تاریخی بیان کے لیے صرف اتنا ذکر کافی ہے کہ خورس (کورش) ایک ایرانی فرمانروا تھا جس کا‬
‫عروج ‪ 549‬ق۔ م۔ کے قریب زمانے میں شروع ہوا۔ اس نے چند سال کے عرصے میں میڈیا (الجبال)‬
‫اور لیڈیا (ایشیائے کوچک) کی سلطنتوں کو مسخر کرنے کے بعد ‪ 539‬ق‪ ،‬م‪ ،‬میں بابل کو بھی فتح‬
‫کر لیا جس کے بعد کوئی طاقت اس کے راستہ میں مزاحم نہیں رہی۔ اس کی فتوحات کا‬
‫سلسلہ سندھ اور ُصغد (موجودہ ترکستان) سے لے کر ایک طرف مصر اور لیبیا تک اور دوسری‬
‫طرف تھریس اور مقدونیہ تک وسیع ہو گیا اور شمال میں اس کی سلطنت قفقاز (کاکیشیا)‬
‫اور خوارزم تک پھیل گئی۔ عمًال اس وقت کی پوری مہذب دنیا اس کی تابع فرمان تھی۔‬
‫جدید زمانے کے کچھ مفسر و مفکر جن میں موالنا مودودی اور غالم احمد پرویز شامل ہیں‬
‫ذوالقرنین کو سائرس کا دوسرا نام قرار دیتے ہیں۔ موالنا مودودی اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں ۔ یہ‬
‫[‪]1‬‬

‫مسئلہ قدیم زمانے سے اب تک مختلف فیہ رہا ہے کہ یہ ’’ ذوالقرنین‘‘ جس کا یہاں ذکر ہو رہا ہے‪،‬‬
‫کون تھا۔ قدیم زمانے میں بالعموم مفسرین کا میالن سکندر کی طرف تھا‪ ،‬لیکن قرآن میں اس کی جو‬
‫صفات و خصوصیات بیان کی گئی ہیں وہ مشکل ہی سے سکندر پر چسپاں ہوتی ہیں۔ جدید زمانے‬
‫میں تاریخی معلومات کی بنا پر مفسرین کا میالن زیادہ تر ایران کے فرماں روا خورس (کورش یا‬
‫خسرو یا سائرس) کی طرف ہے اور یہ نسبًۃ زیادہ قرین قیاس ہے‪ ،‬مگر بہر حال ابھی تک یقین کے‬
‫ساتھ کسی شخصیت کو اس کا مصداق نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔‬
‫قرآن مجید جس طرح اس کا ذکر کرتا ہے اس سے ہم کو چار باتیں وضاحت کے ساتھ معلوم ہوتی‬
‫ہیں ‪:‬‬

‫اس کا لقب ذو القرنین (لغوی معنی ’’دو سینگوں واال‘‘) کم از کم یہودیوں میں‪ ،‬جن‬ ‫‪.1‬‬
‫کے اشارے سے کفار مکہ نے اس کے بارے میں نبی صلی ہللا علیہ و سلم سے‬
‫سوال کیا تھا‪ ،‬ضرور معروف ہونا چاہیے۔ اس لیے المحالہ ہمیں یہ معلوم کرنے کے‬
‫لیے اسرائیلی لٹریچر کی طرف رجوع کرنا پڑے گا کہ وہ ’’دو سینگوں والے‘‘ کی‬
‫حیثیت سے کس شخصیت یا سلطنت کو جانتے تھے۔‬
‫وہ ضرور کوئی بڑا فرمانروا اور فاتح ہونا چاہیے جس کی‬ ‫‪.2‬‬
‫فتوحات مشرق سے مغرب تک پہنچی ہوں اور تیسری جانب شمال یا جنوب میں بھی‬
‫وسیع ہوئی ہوں۔ ایسی شخصیتیں نزول قرآن سے پہلے چند ہی گذری ہیں اور المحالہ‬
‫انہی میں سے کسی میں اس کی دوسری خصوصیات ہمیں تالش کرنی ہوں گی۔‬
‫اس کا مصداق ضرور کوئی ایسا فرمانروا ہونا چاہیے جس نے اپنی مملکت‬ ‫‪.3‬‬
‫کو یاجوج و ماجوج کے حملوں سے بچانے کے لیے کسی پہاڑی درے پر ایک‬
‫مستحکم دیوار بنائی ہو۔ اس عالمت کی تحقیق کے لیے ہمیں یہ بھی معلوم کرنا ہوگا‬
‫کہ یاجوج و ماجوج سے مراد کونسی قومیں ہیں اور پھر یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ان‬
‫کے عالقے سے متصل کونسی ایسی دیوار کبھی دنیا میں بنائی گئی ہے اور وہ کس‬
‫نے بنائی ہے‬
‫اس میں مذکورہ باال خصوصیات کے ساتھ ایک یہ خصوصیت بھی پائی جانی چاہیے‬ ‫‪.4‬‬
‫کہ وہ خدا پرست اور عادل فرمانروا ہو‪ ،‬کیونکہ قرآن یہاں سب سے بڑھ کر اس کی‬
‫اسی خصوصیت کو نمایاں کرتا ہے۔‬
‫ان میں سے پہلی عالمت آسانی کے ساتھ خورس (کورش) پر چسپاں کی جا سکتی‬ ‫‪.5‬‬
‫ہے‪ ،‬کیونکہ بائبل کے صحیفہ دانی ایک میں دانیال نبی کا جو خواب بیان کیا گیا ہے‬
‫اس میں وہ یونانیوں کے عروج سے قبل میڈیا اور فارس کی متحدہ سلطنت کو ایک‬
‫مینڈھے کی شکل میں دکھتے ہیں جس کے دو سینگ تھے۔ یہودیوں میں اس ’’دو‬
‫سینگوں والے‘‘ کا بڑا چرچا تھا کیونکہ اسی کی ٹکر نے آخر کار بابل کی سلطنت‬
‫کو پاش پاش کیا اور بنی اسرائیل کو اسیری سے نجات دالئی تاہم وہ خود بعد ازاں‬
‫[‪]2‬‬
‫یونان کے سکندر مقدونی کے ہاتھوں تاراج ہوا۔‬
‫پاسادگار میں ‪١٨٣٨‬ء دریافت ہوا سائرس کا مجسمہ‬
‫دانیال کا خواب‬
‫یہودیوں کے بابل کے اسیری کے زمانے میں حضرت دانیال کا ظہور ہوا‪ -‬جو اپنے علم و حکمت‬
‫کی بنا پر شاہان بابل کے دربار میں مقرب ہو گئے تھے‪-‬جبکہ اگر تورات کی تعلیمات تسلیم کی‬
‫جائیں تو سائرس سے لیکر آرٹازرکیسز(ارتخششت)اول تک تمام شہنشاہان پارس بنی اسرائیل سے‬
‫عقیدت رکھتے تھے‪-‬شاہ بابل کے تیسرے برس انہوں نے خواب دیکھا جو کتاب دانیال میں ہے "میں‬
‫دیکھتا ہوں کہ ندی کے کنارے مینڈھا کھڑا ہے‪ -‬جس کے دو سینگ اونچے ہیں‪-‬لیکن ایک دوسرے‬
‫سے زیادہ اونچا تھااور بڑا دوسرے کے پیچھے تھا‪ -‬میں نے دیکھا کہ پچھم اترا اوردکھن کی طرف‬
‫سینگ مارتا ہے ‪-‬یہاں تک کہ کوئی جانور اس کے سامنے کھڑا نہ رہ سکا‪-‬اور وہ بہت بڑا ہو گیا‪-‬‬
‫یہ بات سوچ ہی رہا تھا کہپچھم کی طرف سے ایک بکرا آکر تمام روئے زمین پر پھر گیا‪-‬اس بکرے‬
‫کے آگے عجیب طرح کا سینگ تھا‪-‬وہ دو سینگوں والے مینڈھے پر خوب بھڑکااسکے دونوں سینگ‬
‫توڑ ڈالے اور اس کی ہمت نہ تھی کہ مقابلہ کرے" پھر اس کے بعد ہے کہ جبریل آئے اوربتایا کہ دو‬
‫سینگوں واال مینڈھا فارس کی بادشاہت ہے اور بکرا یونان کی اس کا سینگ اس کا پہال بادشاہ ہے‪-‬‬
‫چنانچہ یہ بادشاہ بعد میں سکندر مقدونی ٹھرا‪-‬جبکہ دو سینگ میڈیا اور فارس کی سلطنتیں تھیں‪-‬‬
‫چنانچہ یہودیوں کے یہاں فارس کے بادشاہ کے لیے ذوالقرنین کا تصورپیدا ہو گیا تھا‪-‬یہ صرف‬
‫یہودی تخیل نہ تھا بلکہ خود فارس کے بادشاہ کا مجوزہ اور پسندیدہ نام ذوالقرنین تھا‪-‬یہ سائرس کا‬
‫سنگی تمثال ہے جو پاسارگاد (تخت سلیمان‪-‬ایران) کے کھنڈروں میں ‪١٨٣٨‬ء کے انکشاف کے بعد‬
‫[‪]3‬‬
‫دستیاب ہوا‪-‬‬
‫دوسری عالمت بڑی حد تک اس پر چسپاں ہوتی ہے‪ ،‬مگر پوری طرح نہیں۔ اس کی فتوحات بالشبہ‬
‫مغرب میں ایشیائے کوچک اور شام کے سواحل تک اور مشرق میں باختر (بلخ) تک وسیع ہوئیں‪،‬‬
‫مگر شمال یا جنوب میں اس کی کسی بڑی مہم کا سراغ ابھی تک تاریخ سے نہیں مال ہے‪ ،‬حاالنکہ‬
‫قرآن صراحت کے ساتھ ایک تیسری مہم کا بھی ذکر کرتا ہے‪ ،‬تاہم اس مہم کا پیش آنا بعید از قیاس‬
‫نہیں ہے‪ ،‬کیونکہ تاریخ کی رو سے خورس (کورش) کی سلطنت شمال میں کاکیشیا (قفقاز) تک‬
‫وسیع تھی۔ تیسری عالمت کے بارے میں یہ تو قریب قریب متحقق ہے کہ یاجوج و ماجوج سے‬
‫مراد روس اور شمالی چین کے وہ قبائل ہیں جو تاتاری منگولی‪ُ ،‬ھن اور سیتھین وغیرہ ناموں سے‬
‫مشہور ہیں اور قدیم زمانے سے متمدن ممالک پر حملے کرتے رہے ہیں۔ نیز یہ بھی معلوم ہے کہ‬
‫ان کے حملوں سے بچنے کے لیے قفقاز کے جنوبی عالقے میں دربند اور دار بال کے استحکامات‬
‫تعمیر کیے گئے تھے۔ لیکن یہ ابھی تک ثابت نہیں ہو سکا ہے کہ خورس (کورش) ہی نے یہ‬
‫استحکامات تعمیر کیے تھے۔ آخری عالمت قدیم زمانے کے معروف فاتحوں میں اگر کسی پر چسپاں‬
‫کی جا سکتی ہے تو وہ خورس (کورش) ہی ہے۔ کیونکہ اس کے دشمنوں تک نے اس کے عدل کی‬
‫تعریف کی ہے اور بائبل کی کتاب عْز را اس بات پر شاہد ہے کہ وہ ضرور ایک خدا پرست اور خدا‬
‫ترس بادشاہ تھا جس نے بنی اسرائیل کو ان کی خدا پرستی ہی کی بنا پر بابل کی اسیری سے رہا کیا‬
‫اور ہللا وحدٗہ الشریک کی عبادت کے لیے بیت المقدس میں دوبارہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کا حکم‬
‫دیا۔ اس بنا پر ہم یہ تو ضرور تسلیم کرتے ہیں کہ نزول قرآن سے پہلے جتنے مشہور فاتحین عالم‬
‫گذرے ہیں ان میں سے خورس (کورش) ہی کے اندر ’’ذو القرنین‘‘ کی عالمات زیادہ پائی جاتی‬
‫ہیں‪ ،‬لیکن تعین کے ساتھ اسی کو ذو القرنین قرار دے دینے کے لیے ابھی مزید شہادتوں کی‬
‫ضرورت ہے۔ تا ہم دوسرا کوئی فاتح قرآن کی بتائی ہوئی عالمات کا اتنا بھی مصداق نہیں ہے جتنا‬
‫خورس (کورش) ہے۔‬
‫ذوالقرنین ‪ :‬سلیمان علیہ السالم‬
‫صرف ایک ہی اسالمی محقق محمد اکبر صاحب نے ذوالقرنین کو سلیمان علیہ السالم کا دوسرا نام‬
‫کہا ہے [‪]4‬۔ اپنے جو دالئل ذوالقرنین کے سلیمان علیہ السالم ہونے کے بارے میں دیے ہیں وہ کچھ‬
‫اس طرح ہیں۔‬

‫سلیمان ہی زمین کی مشرقین اور مغربین کا سفر کرسکتے تھے کیونکہ ہوا ُان کے‬ ‫‪.1‬‬
‫تابع تھی اور ُان کی صبح اور شام کی سیر ہی ایک ماہ کی مسافت کے برابر تھی۔‬
‫ذوالقرنین کا ہللا تعالٰی سے رابطہ تھا تبھی ُان کو بذریعہ وحی کہا گیا کہ چاہے تو‬ ‫‪.2‬‬
‫عذاب کرے چاہے تو چھوڑ دے۔ اس لیے ذوالقرنین بادشاہ بھی تھے اور نبی بھی‬
‫تھے اور سلیمان بھی بادشاہ بھی تھے اور نبی تھے۔‬
‫سلیمان نے یاجوج ماجوج کی قوم سے بچاؤ کے لیے بنائی جانے والی دیوار کا‬ ‫‪.3‬‬
‫کوئی معاوضہ لینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ُان کے پاس ہللا کا دیا سب کچھ‬
‫ہے۔ اس میں بے شمار تانبا وغیرہ بھی شامل ہے۔ بہت بڑے بڑے کڑہاؤ بھی‪ ،‬یہی‬
‫چیزیں دوسری جگہوں پر حضرت سلیمان پاس بتائی گئی ہیں۔‬
‫ذوالقرنین اور سلیمان سے ہللا تعالٰی کا طرز تخاطب ایک جیسا رہا ہے۔‬ ‫‪.4‬‬
‫قرآن میں سورۃ النمل کی آیت ‪ 16‬کے مطابق سلیمان علیہ السالم کو پرندوں کی زبان‬ ‫‪.5‬‬
‫کا بھی علم دیا گیا تھا۔ سورۃ کہف آیت ‪ 93‬کے مطابق ذوالقرنین جب دو پہاڑوں کے‬
‫درمیان پہنچا تو وہاں کے رہنے والوں کو ذوالقرنین کی فوج کی زبان نہیں آتی تھی‪،‬‬
‫مگر اگلی آیت ‪ 94‬میں انہوں نے ذوالقرنین سے دیوار کی تعمیر کی درخواست کی‬
‫جسے ذوالقرنین نے سمجھا بھی اور اس کا جواب بھی دیا۔ حضرت سلیمان ہی ایسی‬
‫شخصیت تھے جو حتٰی کہ جانوروں کی زبان بھی سمجھ لیتے تھے اس لیے ُا ن کے‬
‫لیے اس قوم کی بات سمجھنا مشکل نہ تھا۔‬
‫بائبل میں جو دعا سلیمان کے لیے کی گئی ہے وہ ویسی ہی بادشاہت کی ہے جیسی‬ ‫‪.6‬‬
‫ذوالقرنین کو ملی تھی۔‬
‫بائبل سے حوالہ دیا ہے کہ سلیمان کے دور میں سر پر سینگوں واال تاج پہنا جاتا تھا‬ ‫‪.7‬‬
‫اس لیے حضرت سلیمان کا دو سینگوں کا تاج پہننا کوئی بڑی بات نہیں۔‬

You might also like