Professional Documents
Culture Documents
۱۔ ذوالقرنین
۱۔ ذوالقرنین
میں ہے۔
ذوالقرنین کون؟
تاریخ کی کتابوں کے مطالعے کے بعد لوگوں نے ذوالقرنین کی شخصیت سے متعلق مختلف اندازے
لگائے ہیں۔
ذوالقرنین :سکندر اعظم
بہت سے قدیم علما اور مفکر سکندر اعظم کو ہی ذوالقرنین مانتے ہیں۔ مگر بہت سے اس کا انکار
کرتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ سکندر اعظم نبی نہیں تھا۔ دوسری وجہ یہ کہ وہ زمین کی
مشرقین اور مغربین تک نہ پہنچ سکا۔
ذوالقرنین :سائرس اعظم
تاریخی بیان کے لیے صرف اتنا ذکر کافی ہے کہ خورس (کورش) ایک ایرانی فرمانروا تھا جس کا
عروج 549ق۔ م۔ کے قریب زمانے میں شروع ہوا۔ اس نے چند سال کے عرصے میں میڈیا (الجبال)
اور لیڈیا (ایشیائے کوچک) کی سلطنتوں کو مسخر کرنے کے بعد 539ق ،م ،میں بابل کو بھی فتح
کر لیا جس کے بعد کوئی طاقت اس کے راستہ میں مزاحم نہیں رہی۔ اس کی فتوحات کا
سلسلہ سندھ اور ُصغد (موجودہ ترکستان) سے لے کر ایک طرف مصر اور لیبیا تک اور دوسری
طرف تھریس اور مقدونیہ تک وسیع ہو گیا اور شمال میں اس کی سلطنت قفقاز (کاکیشیا)
اور خوارزم تک پھیل گئی۔ عمًال اس وقت کی پوری مہذب دنیا اس کی تابع فرمان تھی۔
جدید زمانے کے کچھ مفسر و مفکر جن میں موالنا مودودی اور غالم احمد پرویز شامل ہیں
ذوالقرنین کو سائرس کا دوسرا نام قرار دیتے ہیں۔ موالنا مودودی اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں ۔ یہ
[]1
مسئلہ قدیم زمانے سے اب تک مختلف فیہ رہا ہے کہ یہ ’’ ذوالقرنین‘‘ جس کا یہاں ذکر ہو رہا ہے،
کون تھا۔ قدیم زمانے میں بالعموم مفسرین کا میالن سکندر کی طرف تھا ،لیکن قرآن میں اس کی جو
صفات و خصوصیات بیان کی گئی ہیں وہ مشکل ہی سے سکندر پر چسپاں ہوتی ہیں۔ جدید زمانے
میں تاریخی معلومات کی بنا پر مفسرین کا میالن زیادہ تر ایران کے فرماں روا خورس (کورش یا
خسرو یا سائرس) کی طرف ہے اور یہ نسبًۃ زیادہ قرین قیاس ہے ،مگر بہر حال ابھی تک یقین کے
ساتھ کسی شخصیت کو اس کا مصداق نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
قرآن مجید جس طرح اس کا ذکر کرتا ہے اس سے ہم کو چار باتیں وضاحت کے ساتھ معلوم ہوتی
ہیں :
اس کا لقب ذو القرنین (لغوی معنی ’’دو سینگوں واال‘‘) کم از کم یہودیوں میں ،جن .1
کے اشارے سے کفار مکہ نے اس کے بارے میں نبی صلی ہللا علیہ و سلم سے
سوال کیا تھا ،ضرور معروف ہونا چاہیے۔ اس لیے المحالہ ہمیں یہ معلوم کرنے کے
لیے اسرائیلی لٹریچر کی طرف رجوع کرنا پڑے گا کہ وہ ’’دو سینگوں والے‘‘ کی
حیثیت سے کس شخصیت یا سلطنت کو جانتے تھے۔
وہ ضرور کوئی بڑا فرمانروا اور فاتح ہونا چاہیے جس کی .2
فتوحات مشرق سے مغرب تک پہنچی ہوں اور تیسری جانب شمال یا جنوب میں بھی
وسیع ہوئی ہوں۔ ایسی شخصیتیں نزول قرآن سے پہلے چند ہی گذری ہیں اور المحالہ
انہی میں سے کسی میں اس کی دوسری خصوصیات ہمیں تالش کرنی ہوں گی۔
اس کا مصداق ضرور کوئی ایسا فرمانروا ہونا چاہیے جس نے اپنی مملکت .3
کو یاجوج و ماجوج کے حملوں سے بچانے کے لیے کسی پہاڑی درے پر ایک
مستحکم دیوار بنائی ہو۔ اس عالمت کی تحقیق کے لیے ہمیں یہ بھی معلوم کرنا ہوگا
کہ یاجوج و ماجوج سے مراد کونسی قومیں ہیں اور پھر یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ان
کے عالقے سے متصل کونسی ایسی دیوار کبھی دنیا میں بنائی گئی ہے اور وہ کس
نے بنائی ہے
اس میں مذکورہ باال خصوصیات کے ساتھ ایک یہ خصوصیت بھی پائی جانی چاہیے .4
کہ وہ خدا پرست اور عادل فرمانروا ہو ،کیونکہ قرآن یہاں سب سے بڑھ کر اس کی
اسی خصوصیت کو نمایاں کرتا ہے۔
ان میں سے پہلی عالمت آسانی کے ساتھ خورس (کورش) پر چسپاں کی جا سکتی .5
ہے ،کیونکہ بائبل کے صحیفہ دانی ایک میں دانیال نبی کا جو خواب بیان کیا گیا ہے
اس میں وہ یونانیوں کے عروج سے قبل میڈیا اور فارس کی متحدہ سلطنت کو ایک
مینڈھے کی شکل میں دکھتے ہیں جس کے دو سینگ تھے۔ یہودیوں میں اس ’’دو
سینگوں والے‘‘ کا بڑا چرچا تھا کیونکہ اسی کی ٹکر نے آخر کار بابل کی سلطنت
کو پاش پاش کیا اور بنی اسرائیل کو اسیری سے نجات دالئی تاہم وہ خود بعد ازاں
[]2
یونان کے سکندر مقدونی کے ہاتھوں تاراج ہوا۔
پاسادگار میں ١٨٣٨ء دریافت ہوا سائرس کا مجسمہ
دانیال کا خواب
یہودیوں کے بابل کے اسیری کے زمانے میں حضرت دانیال کا ظہور ہوا -جو اپنے علم و حکمت
کی بنا پر شاہان بابل کے دربار میں مقرب ہو گئے تھے-جبکہ اگر تورات کی تعلیمات تسلیم کی
جائیں تو سائرس سے لیکر آرٹازرکیسز(ارتخششت)اول تک تمام شہنشاہان پارس بنی اسرائیل سے
عقیدت رکھتے تھے-شاہ بابل کے تیسرے برس انہوں نے خواب دیکھا جو کتاب دانیال میں ہے "میں
دیکھتا ہوں کہ ندی کے کنارے مینڈھا کھڑا ہے -جس کے دو سینگ اونچے ہیں-لیکن ایک دوسرے
سے زیادہ اونچا تھااور بڑا دوسرے کے پیچھے تھا -میں نے دیکھا کہ پچھم اترا اوردکھن کی طرف
سینگ مارتا ہے -یہاں تک کہ کوئی جانور اس کے سامنے کھڑا نہ رہ سکا-اور وہ بہت بڑا ہو گیا-
یہ بات سوچ ہی رہا تھا کہپچھم کی طرف سے ایک بکرا آکر تمام روئے زمین پر پھر گیا-اس بکرے
کے آگے عجیب طرح کا سینگ تھا-وہ دو سینگوں والے مینڈھے پر خوب بھڑکااسکے دونوں سینگ
توڑ ڈالے اور اس کی ہمت نہ تھی کہ مقابلہ کرے" پھر اس کے بعد ہے کہ جبریل آئے اوربتایا کہ دو
سینگوں واال مینڈھا فارس کی بادشاہت ہے اور بکرا یونان کی اس کا سینگ اس کا پہال بادشاہ ہے-
چنانچہ یہ بادشاہ بعد میں سکندر مقدونی ٹھرا-جبکہ دو سینگ میڈیا اور فارس کی سلطنتیں تھیں-
چنانچہ یہودیوں کے یہاں فارس کے بادشاہ کے لیے ذوالقرنین کا تصورپیدا ہو گیا تھا-یہ صرف
یہودی تخیل نہ تھا بلکہ خود فارس کے بادشاہ کا مجوزہ اور پسندیدہ نام ذوالقرنین تھا-یہ سائرس کا
سنگی تمثال ہے جو پاسارگاد (تخت سلیمان-ایران) کے کھنڈروں میں ١٨٣٨ء کے انکشاف کے بعد
[]3
دستیاب ہوا-
دوسری عالمت بڑی حد تک اس پر چسپاں ہوتی ہے ،مگر پوری طرح نہیں۔ اس کی فتوحات بالشبہ
مغرب میں ایشیائے کوچک اور شام کے سواحل تک اور مشرق میں باختر (بلخ) تک وسیع ہوئیں،
مگر شمال یا جنوب میں اس کی کسی بڑی مہم کا سراغ ابھی تک تاریخ سے نہیں مال ہے ،حاالنکہ
قرآن صراحت کے ساتھ ایک تیسری مہم کا بھی ذکر کرتا ہے ،تاہم اس مہم کا پیش آنا بعید از قیاس
نہیں ہے ،کیونکہ تاریخ کی رو سے خورس (کورش) کی سلطنت شمال میں کاکیشیا (قفقاز) تک
وسیع تھی۔ تیسری عالمت کے بارے میں یہ تو قریب قریب متحقق ہے کہ یاجوج و ماجوج سے
مراد روس اور شمالی چین کے وہ قبائل ہیں جو تاتاری منگولیُ ،ھن اور سیتھین وغیرہ ناموں سے
مشہور ہیں اور قدیم زمانے سے متمدن ممالک پر حملے کرتے رہے ہیں۔ نیز یہ بھی معلوم ہے کہ
ان کے حملوں سے بچنے کے لیے قفقاز کے جنوبی عالقے میں دربند اور دار بال کے استحکامات
تعمیر کیے گئے تھے۔ لیکن یہ ابھی تک ثابت نہیں ہو سکا ہے کہ خورس (کورش) ہی نے یہ
استحکامات تعمیر کیے تھے۔ آخری عالمت قدیم زمانے کے معروف فاتحوں میں اگر کسی پر چسپاں
کی جا سکتی ہے تو وہ خورس (کورش) ہی ہے۔ کیونکہ اس کے دشمنوں تک نے اس کے عدل کی
تعریف کی ہے اور بائبل کی کتاب عْز را اس بات پر شاہد ہے کہ وہ ضرور ایک خدا پرست اور خدا
ترس بادشاہ تھا جس نے بنی اسرائیل کو ان کی خدا پرستی ہی کی بنا پر بابل کی اسیری سے رہا کیا
اور ہللا وحدٗہ الشریک کی عبادت کے لیے بیت المقدس میں دوبارہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کا حکم
دیا۔ اس بنا پر ہم یہ تو ضرور تسلیم کرتے ہیں کہ نزول قرآن سے پہلے جتنے مشہور فاتحین عالم
گذرے ہیں ان میں سے خورس (کورش) ہی کے اندر ’’ذو القرنین‘‘ کی عالمات زیادہ پائی جاتی
ہیں ،لیکن تعین کے ساتھ اسی کو ذو القرنین قرار دے دینے کے لیے ابھی مزید شہادتوں کی
ضرورت ہے۔ تا ہم دوسرا کوئی فاتح قرآن کی بتائی ہوئی عالمات کا اتنا بھی مصداق نہیں ہے جتنا
خورس (کورش) ہے۔
ذوالقرنین :سلیمان علیہ السالم
صرف ایک ہی اسالمی محقق محمد اکبر صاحب نے ذوالقرنین کو سلیمان علیہ السالم کا دوسرا نام
کہا ہے []4۔ اپنے جو دالئل ذوالقرنین کے سلیمان علیہ السالم ہونے کے بارے میں دیے ہیں وہ کچھ
اس طرح ہیں۔
سلیمان ہی زمین کی مشرقین اور مغربین کا سفر کرسکتے تھے کیونکہ ہوا ُان کے .1
تابع تھی اور ُان کی صبح اور شام کی سیر ہی ایک ماہ کی مسافت کے برابر تھی۔
ذوالقرنین کا ہللا تعالٰی سے رابطہ تھا تبھی ُان کو بذریعہ وحی کہا گیا کہ چاہے تو .2
عذاب کرے چاہے تو چھوڑ دے۔ اس لیے ذوالقرنین بادشاہ بھی تھے اور نبی بھی
تھے اور سلیمان بھی بادشاہ بھی تھے اور نبی تھے۔
سلیمان نے یاجوج ماجوج کی قوم سے بچاؤ کے لیے بنائی جانے والی دیوار کا .3
کوئی معاوضہ لینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ُان کے پاس ہللا کا دیا سب کچھ
ہے۔ اس میں بے شمار تانبا وغیرہ بھی شامل ہے۔ بہت بڑے بڑے کڑہاؤ بھی ،یہی
چیزیں دوسری جگہوں پر حضرت سلیمان پاس بتائی گئی ہیں۔
ذوالقرنین اور سلیمان سے ہللا تعالٰی کا طرز تخاطب ایک جیسا رہا ہے۔ .4
قرآن میں سورۃ النمل کی آیت 16کے مطابق سلیمان علیہ السالم کو پرندوں کی زبان .5
کا بھی علم دیا گیا تھا۔ سورۃ کہف آیت 93کے مطابق ذوالقرنین جب دو پہاڑوں کے
درمیان پہنچا تو وہاں کے رہنے والوں کو ذوالقرنین کی فوج کی زبان نہیں آتی تھی،
مگر اگلی آیت 94میں انہوں نے ذوالقرنین سے دیوار کی تعمیر کی درخواست کی
جسے ذوالقرنین نے سمجھا بھی اور اس کا جواب بھی دیا۔ حضرت سلیمان ہی ایسی
شخصیت تھے جو حتٰی کہ جانوروں کی زبان بھی سمجھ لیتے تھے اس لیے ُا ن کے
لیے اس قوم کی بات سمجھنا مشکل نہ تھا۔
بائبل میں جو دعا سلیمان کے لیے کی گئی ہے وہ ویسی ہی بادشاہت کی ہے جیسی .6
ذوالقرنین کو ملی تھی۔
بائبل سے حوالہ دیا ہے کہ سلیمان کے دور میں سر پر سینگوں واال تاج پہنا جاتا تھا .7
اس لیے حضرت سلیمان کا دو سینگوں کا تاج پہننا کوئی بڑی بات نہیں۔