Professional Documents
Culture Documents
Episode 3
Episode 3
www.historicseries.com
تو ناظرین اکرام کیا بات کر رہے تھے ہم۔۔۔
سلطان طغرل بے کے خالف جب بغاوت کی جنگ ہوئی تو طغرل بے کے پاس لشکر کی تعداد مخالف کے
مقابلے میں بہت کم تھی۔
طغرل شکست کے قریب ہی تھا تو چاغری بے کے بیٹے عین وقت پر اپنے چچا سلطان طغرل کی مدد کو پہنچے
اور اس طرح ان کو فتح نصیب ہوئی۔
طغرل بے نے بہت سے عالقے فتح کیے
1040 میں محمود غزنوی کو فیصلہ کن شکست دینے کے بعد ہی تمام سلجوق نے طغرل بے کو اپنا
سلطان مقرر کیا تھا۔ حاالنکہ وہ چاغری بے سے چھوٹے تھے۔ سلطان طغرل کو ہّٰللا نے بہت سے اوصاف و
کماالت دیے تھے۔سلطان طغرل کو
ہللا نے صرف دلیری اور شجاعت سے ہی نہیں نوازا تھا۔ بلکہ وہ ذہین اور معاملہ فہم بھی تھے
وہ ایک بہترین سوچ رکھنے والے انسان تھے۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ اگر سوچ اچھی اور لگن سچی ہو تو منزل مل
ہی جاتی ہے۔ سلطان طغرل کی اسالم کو پھیالنے کی لگن میں ہّٰللا نے ان کا ساتھ دیا اور انہوں نے میلوں دور اپنی
فتح کے جھنڈے گاڑے۔۔۔
پہلے پہل جرجان اور طبرستان کے زیاریوں نے ساالنہ خراج ادا کرنے کی شرط پر اس کی اطاعت قبول کی۔
قزوین اور ہمزان نے بھی سالجقہ کی حکومت تسلیم کرلی اور اصفہان حکمراں فرامرز نے بھی ایک خطیر رقم
کی ادائیگی قبول کرلی۔
اس فتح کے بعد ان کی سلطنت کی سرحدیں دہلوی خاندان کی سلطنت سے جا ملیں۔ دہلوی خاندان کے متعلق
مختصر سی تفصیل یہ ہے کہ یہ خاندان ایک صدی سے عراق ،کرمان اور ترکی پر حکومت کر رہا تھا۔ عباسی
خلیفہ بھی ان کے سامنے کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ دونوں سلطنت کے
ملنے سے ان میں جنگ کا امکان بڑھ گیا تھا۔ مگر خلیفہ نے مداخلت کر کے سلجوقیوں اور دہلوی سلطنت کے
درمیان خوشگوار تعلقات قائم کر دیے۔ مگر سلطنت کی افواج آپس میں الجھی رہتی تھیں۔ 1048میں دہلوی خاندان
کے حکمران کا انتقال ہوا تو اس کے بیٹوں کے درمیان اقتدار کی جنگ چھڑ گئی۔ سلطان طغرل نے اس موقع کا
فائدہ اٹھایا اور دہلوی خاندان کی حکومت ختم کر دی اور عراق اور فارس پر حملے کرنے شروع کر دیے۔1054
میں سلطان طغرل نے آذربائجان اور شیراز کے عالقے فتح کیے۔
بعد ازاں فرامرز کے بدلنے پر اُنہوں نے اصفہان پر قبضہ کر لیا اور دوسرے عالقوں پر قبضہ کرتے ہوئے بغداد
تک جا پہنچے تھے وہیں پر سلطان طغرل نے خلیفہ کی بیٹی سے شادی کی تھی۔ طغرل بیگ جب نیشاپور میں
داخل ہوا تھا تو اس کا نام خطبہ میں پڑھا گیا تھا۔ اور سلطان کو "رکن الدین" کا لقب بھی دیا گیا
وسطی ایشیا اور یوریشیا کے عالقوں میں اسالم
طغرل بیگ کے دم سے ہی اپنی جڑیں مضبوط کرنے میں کامیاب ہوا ،لیکن ایک جانب اگر طغرل بیگ نئے
عالقوں میں اسالم کو پھیالنے میں ممد و معاون ثابت ہوا تو دوسری جانب اس کا دامن ایک ایسے واقعے سے بھی
داغدار ہوا جس کی عالم اسالم میں ا ُس سے پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی تھی۔ دراصل طغرل جب بغداد میں داخل ہوا
تو اسکے کچھ فوجیوں نے اُس وقت تک دنیا کا سب سے بہترین کتب خانہ جال دیا۔ یہ کتب خانہ ’’دارالعلم‘‘ کہالتا
تھا۔ دارالعلم اسالمی دنیا کا سب سے پہال عمومی کتب خانہ تھا جسے ابو نصر شاپور وزیر بہاء الدولہ نے381ھ
میں بغداد کے محلہ کرخ میں قائم کیا تھا۔ اِس کتب خانے میں دس ہزار سے زائد ایسی کتب موجود تھیں جو خود
مصنفین یا مشہور خطاطوں کی لکھی ہوئی تھیں۔ دنیائے اسالم کے بہتر سے بہترین کتب خانے دیکھنے اور
کھنگالنے واال بارہویں صدی عیسوی کا مشہور مؤرخ یاقوت الحموی الرومی ’’عالم اسالم‘‘ میں لکھتا ہے کہ ’’دنیا
‘‘میں اُس وقت تک ’’دارالعلم
سے بہتر کوئی کتب خانہ موجود نہ تھا۔‘‘ فاطمین مصرکے دور میں قاہرہ کے قصر شاہی کا عدیم النظیرکتب خانہ
تمام اسالمی دنیا کے کتب خانوں پر سبقت لے گیا تھا جسے سلطان ایوبی کی فوج نے تباہ کردیا تھا۔ رے فتح ہوا تو
وہاں صاحب بن عباد وزیر کا عظیم الشان کتب خانہ جو ’’دارالکتب رے‘‘ کے نام سے معروف تھا ،اسے محمود
غزنوی کی فوج نے جال کر تباہ کر دیا۔ چُھٹی صدی ہجری کے وسط میں ترکوں کے ایک گروہ نے ماوراء النہر
سے آ کر نیشا پور کے کتب خانے جال دیئے جبکہ 586ھ میں ملک الموید نے نیشا پور کے باقی ماندہ کتب خانوں
کو جال کر تباہ کر دیا۔
اسالمی دنیا میں باہمی چپقلشوں اور بیرونی قوتوں کے ساتھ لڑائی میں نشانہ بننے واال یہ کوئی واحد کتب خانہ نہیں
تھا بلکہ اسالمی تاریخ ایسے افسوسناک واقعات سے بھری پڑی ہے
ناظرین کرام! جنگوں اور لڑائیوں میں کتب خانوں اور علمی خزانوں کو تباہ کرنا تاریخ میں معمول رہا ہے۔ کتب
خانے جالئے جانے کی اول وجہ تو یہ رہی کہ
جنگجوؤں کی نظر میں علم کی کبھی اہمیت نہ ہوتی تھی اور دوم وہ الئبریریوں اور کتب کو دشمن کی ثقافت کا
ماخذ اور فروغ کا باعث سمجھا کرتے تھے۔ حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ دوسری عالمی جنگ میں مختلف ممالک
میں ہزاروں کی تعداد میں الئبریریوں میں الکھوں کتب ضائع ہو گئیں اور یوں علم کا بہت بڑا خزانہ بھی تباہ ہوگیا،
لیکن کروڑوں لوگوں کو لقمہ اجل بنانے والی اس عالمی جنگ میں کسی فریق کی جانب سے کسی تعلیمی ادارے
پر بھی حملہ نہیں کیا گیا ،یعنی ماضی میں کتب تو جالئی گئیں لیکن کتب بین کو کچھ نہ کہا گیا ،لیکن سانحہ پشاور
میں تاریخ نے ایک نیا موڑ لیا اور علم کو مٹانے کی بجائے تشنگان علم کو مٹانے کی نہایت تکلیف دہ روایت
شروع کی گئی ہے۔ اس ایک سانحے نے تاریخ کا وہ المناک باب بھی لکھ ڈاال جو ہالکو خان بھی نہ لکھ پایا۔ کہا
جاتا ہے کہ سلجوق سلطان طغرل کو جب پتہ چال کہ اس کی فوج نے کتب خانہ جال دیا ہے تو وہ کئی راتوں تک
سو بھی نہ سکا۔ سلطان طغرل نے کہا تھا ’’میرا
بس چلے تو علم کو جالنے والوں کو بھی اُسی طرح جال دوں۔‘‘ تاریخ کے نازک موڑ پر کئی دنوں سے ایک ہی
سوال ذہن میں کلبال رہا ہے کہ کتب کے جالنے پر آگ بگولہ ہونیوالے اُس علم دوست حکمران کوگھروں سے
حصول علم کیلئے نکلنے والے بچوں کے گولیوں سے بھونے جانے کا پتہ چلتا تو طغرل کیا کرتا ِ
آہ افوس کے ہمارے پاس طغرل بے جیسے اثاثے اب نہیں ہیں۔۔۔
تاریخ بتاتی ہے کہ طغرل بے کی اپنی کوئی اوالد نہیں تھی۔
سلطان طغرل اپنے بھتیجوں کو اپنی اوالد سے کم نہیں سمجھتا تھا۔ خاص طور پر الپ ارسالن ،سلطان طغرل کی
نظر میں خاص اہمیت کا حامل تھا۔۔۔
کیوں کہ اُس میں اکثر اوصاف اپنے چچا جیسے تھے۔
بہت سی جنگوں میں الپ ارسالن اور اِس کے
بھائیوں نے اپنے بابا اور چچا کے شانہ بشانہ جنگیں لڑیں۔۔۔
اب تک کی episodes میں آپ نے الپ ارسالن کا صرف نام سنا ہے کہ کس طرح اس
نے اپنے چچا کی مدد کی۔ لیکن الپ ارسالن در حقیقت تھا کون؟ اس کی زندگی کیسی تھی؟ اس کی بہادری کے
قصوں کے بارے میں تاریخ کے اوراق کیا کہتے ہیں؟ اس کے سائے تلے اسالم کو کتنی وسعت ملی؟ کیسے عالم
اسالم نے اس کی بدولت اپنا کھویا ہوا مقام پایا؟ ہر وہ سر زمین جس پر الپ ارسالن قدم رکھتا سلجوق سلطنت میں
کیسے بدلتی؟ الپ ارسالن کی زندگی کے ان تمام دلچسپ حقائق کو جاننے کے لیے ہمارے ساتھ جڑے رہیے گا
ملتے ہیں اگلی قسط میں
تب تک کے لیے اپنا اور اپنے پیاروں کا خیال رکھیے گا
اس کے ساتھ ہی اپنے میزبان سلیمان خان کو اجازت دیجیے
ہّٰللا حافظ