You are on page 1of 10

‫‪Episode no: 03‬‬

‫سلطان طغرل کو مدد مل گئی۔۔۔‬


‫السالم علیکم دوستو! میں ہوں آپ کا ہوسٹ سلیمان خان‬

‫‪welcome to Historic news‬‬ ‫۔۔۔‬

‫‪episode 3‬‬ ‫آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں‬


‫اور بڑھتے ہیں اپنے سوالوں کے جوابات کی طرف۔۔۔‬
‫طغرل بے نے کیسے اپنے خالف ہونے والی بغاوت کا سر کچال؟‬
‫آخر وہ کون تھا جس نے سلطان طغرل کی مدد کی؟‬
‫تو چلیے جانتے ہیں ان سوالوں کے جواب جلدی سے۔۔۔‬
‫لیکن ا ُس سے پہلے اگر آپ نے ابھی تک ہمارا چینل سبسکرائب نہیں کیا تو جلدی سے چینل کو سبسکرائب کریں‬
‫تاکہ اس طرح کی مزید معلوماتی ویڈیوز دیکھ سکیں۔‬

‫اور ساتھ ہی ساتھ بیل کے‬ ‫‪button‬‬ ‫پر کلک کریں‬


‫تا کہ آپ کو آنے والی نئی ویڈیو کا‬ ‫‪notification‬‬ ‫مل سکے اور اگر آپ اسالمی‬
‫تاریخی سیریز دیکھنا چاہتے ہیں تو ہماری ویبسائٹ وزٹ کریں‬

‫‪www.historicseries.com‬‬
‫تو ناظرین اکرام کیا بات کر رہے تھے ہم۔۔۔‬
‫سلطان طغرل بے کے خالف جب بغاوت کی جنگ ہوئی تو طغرل بے کے پاس لشکر کی تعداد مخالف کے‬
‫مقابلے میں بہت کم تھی۔‬
‫طغرل شکست کے قریب ہی تھا تو چاغری بے کے بیٹے عین وقت پر اپنے چچا سلطان طغرل کی مدد کو پہنچے‬
‫اور اس طرح ان کو فتح نصیب ہوئی۔‬
‫طغرل بے نے بہت سے عالقے فتح کیے‬

‫‪1040‬‬ ‫میں محمود غزنوی کو فیصلہ کن شکست دینے کے بعد ہی تمام سلجوق نے طغرل بے کو اپنا‬
‫سلطان مقرر کیا تھا۔ حاالنکہ وہ چاغری بے سے چھوٹے تھے۔ سلطان طغرل کو ہّٰللا نے بہت سے اوصاف و‬
‫کماالت دیے تھے۔سلطان طغرل کو‬
‫ہللا نے صرف دلیری اور شجاعت سے ہی نہیں نوازا تھا۔ بلکہ وہ ذہین اور معاملہ فہم بھی تھے‬
‫وہ ایک بہترین سوچ رکھنے والے انسان تھے۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ اگر سوچ اچھی اور لگن سچی ہو تو منزل مل‬
‫ہی جاتی ہے۔ سلطان طغرل کی اسالم کو پھیالنے کی لگن میں ہّٰللا نے ان کا ساتھ دیا اور انہوں نے میلوں دور اپنی‬
‫فتح کے جھنڈے گاڑے۔۔۔‬
‫پہلے پہل جرجان اور طبرستان کے زیاریوں نے ساالنہ خراج ادا کرنے کی شرط پر اس کی اطاعت قبول کی۔‬
‫قزوین اور ہمزان نے بھی سالجقہ کی حکومت تسلیم کرلی اور اصفہان حکمراں فرامرز نے بھی ایک خطیر رقم‬
‫کی ادائیگی قبول کرلی۔‬
‫اس فتح کے بعد ان کی سلطنت کی سرحدیں دہلوی خاندان کی سلطنت سے جا ملیں۔ دہلوی خاندان کے متعلق‬
‫مختصر سی تفصیل یہ ہے کہ یہ خاندان ایک صدی سے عراق‪ ،‬کرمان اور ترکی پر حکومت کر رہا تھا۔ عباسی‬
‫خلیفہ بھی ان کے سامنے کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ دونوں سلطنت کے‬
‫ملنے سے ان میں جنگ کا امکان بڑھ گیا تھا۔ مگر خلیفہ نے مداخلت کر کے سلجوقیوں اور دہلوی سلطنت کے‬
‫درمیان خوشگوار تعلقات قائم کر دیے۔ مگر سلطنت کی افواج آپس میں الجھی رہتی تھیں۔ ‪ 1048‬میں دہلوی خاندان‬
‫کے حکمران کا انتقال ہوا تو اس کے بیٹوں کے درمیان اقتدار کی جنگ چھڑ گئی۔ سلطان طغرل نے اس موقع کا‬
‫فائدہ اٹھایا اور دہلوی خاندان کی حکومت ختم کر دی اور عراق اور فارس پر حملے کرنے شروع کر دیے۔‪1054‬‬
‫میں سلطان طغرل نے آذربائجان اور شیراز کے عالقے فتح کیے۔‬
‫بعد ازاں فرامرز کے بدلنے پر اُنہوں نے اصفہان پر قبضہ کر لیا اور دوسرے عالقوں پر قبضہ کرتے ہوئے بغداد‬
‫تک جا پہنچے تھے وہیں پر سلطان طغرل نے خلیفہ کی بیٹی سے شادی کی تھی۔ طغرل بیگ جب نیشاپور میں‬
‫داخل ہوا تھا تو اس کا نام خطبہ میں پڑھا گیا تھا۔ اور سلطان کو "رکن الدین" کا لقب بھی دیا گیا‬
‫وسطی ایشیا اور یوریشیا کے عالقوں میں اسالم‬
‫طغرل بیگ کے دم سے ہی اپنی جڑیں مضبوط کرنے میں کامیاب ہوا‪ ،‬لیکن ایک جانب اگر طغرل بیگ نئے‬
‫عالقوں میں اسالم کو پھیالنے میں ممد و معاون ثابت ہوا تو دوسری جانب اس کا دامن ایک ایسے واقعے سے بھی‬
‫داغدار ہوا جس کی عالم اسالم میں ا ُس سے پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی تھی۔ دراصل طغرل جب بغداد میں داخل ہوا‬
‫تو اسکے کچھ فوجیوں نے اُس وقت تک دنیا کا سب سے بہترین کتب خانہ جال دیا۔ یہ کتب خانہ ’’دارالعلم‘‘ کہالتا‬
‫تھا۔ دارالعلم اسالمی دنیا کا سب سے پہال عمومی کتب خانہ تھا جسے ابو نصر شاپور وزیر بہاء الدولہ نے‪381‬ھ‬
‫میں بغداد کے محلہ کرخ میں قائم کیا تھا۔ اِس کتب خانے میں دس ہزار سے زائد ایسی کتب موجود تھیں جو خود‬
‫مصنفین یا مشہور خطاطوں کی لکھی ہوئی تھیں۔ دنیائے اسالم کے بہتر سے بہترین کتب خانے دیکھنے اور‬
‫کھنگالنے واال بارہویں صدی عیسوی کا مشہور مؤرخ یاقوت الحموی الرومی ’’عالم اسالم‘‘ میں لکھتا ہے کہ ’’دنیا‬
‫‘‘میں اُس وقت تک ’’دارالعلم‬
‫سے بہتر کوئی کتب خانہ موجود نہ تھا۔‘‘ فاطمین مصرکے دور میں قاہرہ کے قصر شاہی کا عدیم النظیرکتب خانہ‬
‫تمام اسالمی دنیا کے کتب خانوں پر سبقت لے گیا تھا جسے سلطان ایوبی کی فوج نے تباہ کردیا تھا۔ رے فتح ہوا تو‬
‫وہاں صاحب بن عباد وزیر کا عظیم الشان کتب خانہ جو ’’دارالکتب رے‘‘ کے نام سے معروف تھا‪ ،‬اسے محمود‬
‫غزنوی کی فوج نے جال کر تباہ کر دیا۔ چُھٹی صدی ہجری کے وسط میں ترکوں کے ایک گروہ نے ماوراء النہر‬
‫سے آ کر نیشا پور کے کتب خانے جال دیئے جبکہ ‪586‬ھ میں ملک الموید نے نیشا پور کے باقی ماندہ کتب خانوں‬
‫کو جال کر تباہ کر دیا۔‬
‫اسالمی دنیا میں باہمی چپقلشوں اور بیرونی قوتوں کے ساتھ لڑائی میں نشانہ بننے واال یہ کوئی واحد کتب خانہ نہیں‬
‫تھا بلکہ اسالمی تاریخ ایسے افسوسناک واقعات سے بھری پڑی ہے‬
‫ناظرین کرام! جنگوں اور لڑائیوں میں کتب خانوں اور علمی خزانوں کو تباہ کرنا تاریخ میں معمول رہا ہے۔ کتب‬
‫خانے جالئے جانے کی اول وجہ تو یہ رہی کہ‬
‫جنگجوؤں کی نظر میں علم کی کبھی اہمیت نہ ہوتی تھی اور دوم وہ الئبریریوں اور کتب کو دشمن کی ثقافت کا‬
‫ماخذ اور فروغ کا باعث سمجھا کرتے تھے۔ حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ دوسری عالمی جنگ میں مختلف ممالک‬
‫میں ہزاروں کی تعداد میں الئبریریوں میں الکھوں کتب ضائع ہو گئیں اور یوں علم کا بہت بڑا خزانہ بھی تباہ ہوگیا‪،‬‬
‫لیکن کروڑوں لوگوں کو لقمہ اجل بنانے والی اس عالمی جنگ میں کسی فریق کی جانب سے کسی تعلیمی ادارے‬
‫پر بھی حملہ نہیں کیا گیا‪ ،‬یعنی ماضی میں کتب تو جالئی گئیں لیکن کتب بین کو کچھ نہ کہا گیا‪ ،‬لیکن سانحہ پشاور‬
‫میں تاریخ نے ایک نیا موڑ لیا اور علم کو مٹانے کی بجائے تشنگان علم کو مٹانے کی نہایت تکلیف دہ روایت‬
‫شروع کی گئی ہے۔ اس ایک سانحے نے تاریخ کا وہ المناک باب بھی لکھ ڈاال جو ہالکو خان بھی نہ لکھ پایا۔ کہا‬
‫جاتا ہے کہ سلجوق سلطان طغرل کو جب پتہ چال کہ اس کی فوج نے کتب خانہ جال دیا ہے تو وہ کئی راتوں تک‬
‫سو بھی نہ سکا۔ سلطان طغرل نے کہا تھا ’’میرا‬
‫بس چلے تو علم کو جالنے والوں کو بھی اُسی طرح جال دوں۔‘‘ تاریخ کے نازک موڑ پر کئی دنوں سے ایک ہی‬
‫سوال ذہن میں کلبال رہا ہے کہ کتب کے جالنے پر آگ بگولہ ہونیوالے اُس علم دوست حکمران کوگھروں سے‬
‫حصول علم کیلئے نکلنے والے بچوں کے گولیوں سے بھونے جانے کا پتہ چلتا تو طغرل کیا کرتا‬ ‫ِ‬
‫آہ افوس کے ہمارے پاس طغرل بے جیسے اثاثے اب نہیں ہیں۔۔۔‬
‫تاریخ بتاتی ہے کہ طغرل بے کی اپنی کوئی اوالد نہیں تھی۔‬
‫سلطان طغرل اپنے بھتیجوں کو اپنی اوالد سے کم نہیں سمجھتا تھا۔ خاص طور پر الپ ارسالن‪ ،‬سلطان طغرل کی‬
‫نظر میں خاص اہمیت کا حامل تھا۔۔۔‬
‫کیوں کہ اُس میں اکثر اوصاف اپنے چچا جیسے تھے۔‬
‫بہت سی جنگوں میں الپ ارسالن اور اِس کے‬
‫بھائیوں نے اپنے بابا اور چچا کے شانہ بشانہ جنگیں لڑیں۔۔۔‬

‫اب تک کی‬ ‫‪episodes‬‬ ‫میں آپ نے الپ ارسالن کا صرف نام سنا ہے کہ کس طرح اس‬
‫نے اپنے چچا کی مدد کی۔ لیکن الپ ارسالن در حقیقت تھا کون؟ اس کی زندگی کیسی تھی؟ اس کی بہادری کے‬
‫قصوں کے بارے میں تاریخ کے اوراق کیا کہتے ہیں؟ اس کے سائے تلے اسالم کو کتنی وسعت ملی؟ کیسے عالم‬
‫اسالم نے اس کی بدولت اپنا کھویا ہوا مقام پایا؟ ہر وہ سر زمین جس پر الپ ارسالن قدم رکھتا سلجوق سلطنت میں‬
‫کیسے بدلتی؟ الپ ارسالن کی زندگی کے ان تمام دلچسپ حقائق کو جاننے کے لیے ہمارے ساتھ جڑے رہیے گا‬
‫ملتے ہیں اگلی قسط میں‬
‫تب تک کے لیے اپنا اور اپنے پیاروں کا خیال رکھیے گا‬
‫اس کے ساتھ ہی اپنے میزبان سلیمان خان کو اجازت دیجیے‬
‫ہّٰللا حافظ‬

You might also like