Professional Documents
Culture Documents
The Journey of Hazrat Adam: Exploring The Life History of The First Man: Hazrat Aadam AS
The Journey of Hazrat Adam: Exploring The Life History of The First Man: Hazrat Aadam AS
1
اور ہللا کی پناہ مانگی تو آپ واپس لوٹ آئے اور آ کر ہللا سے عرض کی کہ مٹی نے تیری پناہ م انگی تھی
میں تیری بزرگی اورتیری پاکی کا ادب کرتے ہوئے میں واپس آگیا اور زمین کو پناہ دے دی۔
پھر یہی کام ہللا تعالی نے حضرت میکائیل علیہ السالم کو سونپا اور حض رت میکائی ل علیہ الس الم نے بھی
مٹی کو ہللا کے نام پر پنا دے دی۔ اس کے بعد تیسرے فرشتے حضرت میکائیل علیہ السالم کو یہی ک ام دی ا
گیا تو وہ بھی ہللا کے نام پر مٹی کو پناہ دے کر واپس لوٹ گئے۔ پھر ہللا تع الی نے حض رت عزرائی ل علیہ
السالم کو بھیجا تو جب زمین نے ان سے پناہ مانگی تو انہ وں نے فرمای ا کہ میں اس ب ات س ے ہللا کی پن اہ
مانگتا ہوں کے ہللا جو مجھے حکم دے وہ کام میں نہ کروں۔ چناچہ انہوں نے زمین سے مٹی لے لی تو ہللا
پاک نے انسان کی روح کو قبض کرنے کا جو کام تھا وہ حضرت عزرائی ل علیہ الس الم کے س پرد کی ا اور
یہ کہا کہ تم ہی اس زمین سے مٹی لے کر آئے ہو اور جس مٹی کا ایک وجود انسان بنے گا ت و اس وج ود
کو مٹّی میں مالنے کا کام تمہارے ہی ذمے ہے۔
یہاں پہ ایک اور بات کا ذکر ضروری ہے کہ حضرت امام ترم ذی رحمۃ ہللا علیہ نے حب ان رحمتہ ہللا علیہ
اور امام احمد رحمۃ ہللا علیہ سے روایت ہے کہ ہللا کے آخری نبی حضرت محم د ص لی ہللا علیہ وس لم نے
ارشاد فرمایا کہ ہللا پاک نے آدم کو ایک مٹھی مٹی سے پیدا کیا ہے جو تمام روئے زمین سے لی گ ئی ہے ۔
اس لیے اوالد آدم جب زمین پر آئیں گی تو اس میں سفید بھی ہوں گے کالے بھی ہوں گے سرخ انس ان اور
اسی طرح چھوٹے انسان بھی ہوں گے بڑے بھی ،س خت ج ان انس ان بھی ہ وں گے اور ن رم بھی اور یہ اں
تک کہ پاک اور پلید انسان بھی ہوں گے کیوں کہ یہ مٹی ساری زمین سے لی گئی ہے۔ یہ ہللا کے رسول کا
ارشاد ہے ۔
آگے بڑھنے سے پہلے ہمیں اس مٹی کے بارے میں جان لینا چاہیے جو مٹی زمین س ے اٹھ ا ک ر الئی گ ئی
تھی ۔ اس مٹی کے لیے قرآن پاک میں لفظ "تراب" استعمال کیا گی ا ہے۔ اس م ٹی ک و جب نم کی ا گی ا ت و وہ
مٹی "تئین" بن گئی۔ پھر ہللا تعالی نے اس سے مجسمہ بنایا۔ یہاں یہ بات قاب ل ذک ر ہے ہللا تع الی نے انس ان
کو بنانے کا کام فرشتوں کے سپرد نہیں کیا کیا بلکہ اپنے مبارک ہاتھوں سے انسان کو تخلی ق کی ا ہے۔ ہے
جب وہ مٹی کا مجسمہ بنا لیا گیا تو اس کو ایک مخصوص مدت کے لیے رکھ دیا گیا۔ کچھ علم اء ک رام نے
اس بارے میں یہ بھی لکھا کہ چالیس دن تک اس ے رکھ ا لیکن ہللا تع الی کے دن اور انس ان کے دن وں میں
بہت فرق ہے اس لیے یہ کہنا مناسب ہوگا کہ ہللا تعالی نے ایک مخصوص وقت کے لئے اس ے چھ وڑ دی ا۔
مخصوص وقت کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ وہ مٹی جس سے مجسمہ بنایا گیا تھا وہ سیاہ رنگ کی ب د
بو دار اور کھنکھناتی ہوئی مٹی بن گئی۔ کھنکھنانا کو اس طرح بھی سمجھا جاس کتا ہے کہ اگ ر ای ک م ٹی
کے برتن کے اوپر ٹھوکر ماری جائے تو اس میں سے ایک خاص آواز آتی ہے جو اس کے پختہ ہونے کو
ظاہر کرتی ہے۔ اور جو سیاح مٹی ہے اسے ہمایون کہتے ہیں اور بدبودار م ٹی ہے اس ے مس نون کہ ا جات ا
ہے ۔ اور جو کھنکھنا کے بولنے والے مٹی ہوتی ہے اسے صلصال کہتے ہیں ۔ اور جو ٹھیک ری کی ط رح
کی مٹی سے برتن بنتے ہیں اس کو الفخ ار کہ تے ہیں۔ جب ہللا تع الی نے اس وج ود ک و کچھ عرص ے کے
لیے رکھ دیا اور ایک کھنکھناتی ہوئی مٹی بن گئی۔
2
اس کی ترتیب کو اگر سمجھیں تو تخلیق کے عمل کا پہال م رحلہ ت راب تھ ا جب ع ام ح الت کی م ٹی یع نی
خشک مٹی تھی اور پھر تئین یعنی بھگوئی ہوئی مٹی بن گئی اور اس کے بعد یہ مٹی صلصال ہ وگی یع نی
ٹھیکری جیسی ہوگی اور پھر الفخار ہوگی ۔ اور یہ سب کام جمعہ کے آخ ری دن وں میں ہ وئے۔ لیکن یہ اں
اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ ہللا تعالی کے دنوں میں اور انسانوں کے دنوں میں بہت فرق ہے۔
یہاں پے آگے بڑھنے س ے پہلے ہم ابلیس کے ب ارے میں ج انتے ہیں جس ک ا اص ل ن ام عزازئی ل تھ ا۔ ۔ یہ
جنوں میں سے تھا اور اس کا وجود آگ سے بنایا گی ا تھ ا ۔ لیکن یہ بے انتہ ا عب ادت گ زار جن تھ ا اور اس
نے کبھی ہللا تعالی کی نافرمانی نہیں کی تھی ۔ ہللا تعالی نے اس کی عبادت اور نافرمانی نہ کرنے کی وجہ
سے اس کا تعین فرشتوں کے ساتھ کیا تھا اور اس کو انعام کے طور پ ر فرش توں کے س اتھ رکھ ا ہ وا تھ ا۔
حضرت انس رضی ہللا تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم میرے ساتھ فرمایا کہ
جب ہللا پاک نے جنت میں حضرت آدم علیہ السالم کی ص ورت بن ائی اور ان ک و اس ی ح الت میں رکھ ا ت و
ابلیس ان کے ارد گرد چکر لگاتا تھا اور وہ یہ دیکھنا تھا کہ یہ کیا چ یز ہے ؟ اور جب اس نے ان ک ا خ الی
پیٹ دیکھا تو وہ سمجھ گیا کہ یہ ایسی مخلوق ہے جو اپنے اوپ ر ق ابو نہیں پ ا س کے گی ۔ یع نی یہ مخل وق
شہوت اور غصے کی حالت میں اپنے نفس کو قابو میں نہیں رکھ سکے گی اور وسوسے سے آس انی س ے
دور نہیں ہوگی ۔
اس کے بارے میں ایک اور روایت ہے حضرت آدم علیہ السالم کے مبارک وجود کو جب ابلیس نے دیکھ ا
تو اس نے دیکھا کہ ان کے سینے کے بائیں جانب ایک بند کوٹھڑی ہے ۔ تو سوچا کہ شاید یہ وہی ک وٹھڑی
ہے جس کی بدولت یہ خالفت کا حق دار ہ وا ہے ۔ ابلیس نے فرش توں س ے پوچھ ا کہ اگ ر حض رت آدم علیہ
السالم کو تم سے افضل بنایا گیا تو تم کیا کروگے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم اپنے ہللا تعالی ک ا حکم م انیں
گے ۔ لیکن ابلیس نے ایسا کرنے سے منع کردیا ۔
ابلیس نے صاف کہا کہ اگر اس انسان کو مجھ پر مسلط کیا گیا تو میں یقینا اسے ہالکت میں ڈال دوں گا اور
بالشبہ اس کی نافرمانی کروں گا۔ یعنی ابلیس وہ ہستی تھی جو شروع ہی سے حضرت آدم علیہ السالم سے
بغض رکھتی تھی۔ اس لیے ہمیں کہنا چاہیے کہ ال حول وال قوۃ اال باہلل العلی العظیم۔
بخاری شریف سے روایت ہے کہ حضرت آدم علیہ السالم کا ق د س اٹھ ہ اتھ ی ا س اٹھ گ ز یع نی 90فٹ تھی۔
جبکہ ان کی چوڑائی تقریبا سات ہاتھ یا 07گز کے برابر تھی۔ حضرت آدم لحیم اور خوبص ورت اور وجیہ
خدوخال تھے۔ جو شخص جنت میں جائے گا وہ حضرت آدم علیہ السالم کی صورت کا ہوگا اور اس کا ق د
حضرت آدم علیہ السالم کے برابریعنی ساٹھ ہاتھ ہوگا چاہے وہ دنیا میں کسی بھی قدوقامت کا مالک ہو .
حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ ہللا علیہ ایک حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ جنت میں ص رف
انسان ہی ج ائیں گے .ج انور اور جن ات جنت میں نہیں ج ائیں گے .اور جنت میں تم ام انس ان حض رت آدم
علیہ السالم کی طرح حسین و جمیل تندرست ہوں گے .کوئی بھی شخص ب د ش کل ی ا بیم ار نہیں ہوگ ا اور
سب کا قد ساٹھ ہاتھ یعنی ساٹھ گرلز کا ہوگا .اس سے کم نہیں ہوگا چاہے دنیا میں اس کا قد کتنا ہی چھوٹا ی ا
بڑا کیوں نہ ہو .دنیا میں چاہے وہ بچہ ہو یا بوڑھا ہو وہ سب کے سب حضرت آدم کی ط رح کے ہ و ج ائیں
3
گے .یہ سارے قدوقامت اور شکلیں دنیا کے لیے ہیں جنت میں سب ایک ہی شکل کے ہ ونگے .یہ اں غ ور
طلب بات یہ ہے کہ ہللا نے ساٹھ گز کا انسان دنیا میں پیدا کیا تھا لیکن جیس ے جیس ے آگے بڑھ تی ج ا رہی
ہے انسان کا قد کم سے کم ہوتا جا رہا ہے۔
جب ہللا تعالی نے حضرت آدم کے جسم میں روح پھونکنے کا ارادہ کیا تو اس سے پہلے ہللا کی طرف سے
اہل جنت کوحکم ہوا کے جیسے ہی روکنے ک ا عم ل مکم ل ہ و ج ائے س جدے میں گ ر جان ا .یہ اں یہ ب ات
واضح ہے کہ یہ حکم اہل جنت کے لئے تھا یعنی کہ تمام فرشتوں اور ابلیس جو کے اس وقت عزازی ل تھ ا
اور بلند مرتبے پر فائز تھا ان سب کے لئے تھا .اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ جس سجدے کا حکم دی ا گی ا
تھا وہ سجدہ تعظیم تھا وہ سجدہ عبادت نہیں تھا .فرشتوں کو آدم کی تعظیم کرنے کا حکم ہے نہ کی عب ادت
کا .حضرت آدم میں جب روح پھونکنی گئی تو سر کی طرف سے روح پھونکنے کا آغ از ہ وا ت و حض رت
آدم کو ایک چھینک آئی جس پر فرشتوں نے کہا کہ کہ یے الحم دہللا ۔ اور جس پ ر حض رت آدم علیہ الس الم
نے الحمد ہلل کہا اور ہللا کی طرف سے جواب آیا "يا رحمه رب ك" یع نی تجھ پ ر تمہ ارا رب مہرب ان ہ و۔ ہللا
تعالی نے آدم کی روح کو مکمل ہونے سے پہلے ہی رحمت سے نواز دیا تھا۔ جیسے ہی روح آنکھ وں میں
داخل ہوئی تو جنت کے پھلوں کا مشاہدہ شروع ہوگیا ،سوچنے سمجھنے کا عمل شروع ہوگی ا اور جیس ے
ہی روح وہ پیٹ میں داخل ہوئیں تو بھوک لگنا شروع ہ وگی اور کھ انے کی طلب ہ ونے لگی۔ ابھی ٹ انگوں
تک روح پہنچی بھی نہیں تھی تھی کہ انسان کو بھوک لگنا شروع ہ و گ ئی اس س ے پتہ چلت ا ہے کہ انس ان
بہت زیادہ جلد باز مخلوق ہے ۔ ہللا نے تمام مخلوقات کو انسان ک و س جدے ک ا حکم دی ا س ب نے انس ان ک و
سجدہ کیا سوائے ابلیس کے۔
ہللا تعالی نے ابلیس سے پوچھا کہ تجھے کس بات نے سجدے سے روکا تو وہ تکبر میں آ گیا اور ب وال کے
میں آگ سے بنا یا گیا ہوں اور مٹی سے۔ میں اسے سجدہ کیوں کروں؟ تو سب سے پہال گناہ جو س رزد ہ وا
وہ تکبر تھا ابلیس سے سرزد ہوا اور جس نے ہللا کے حکم کی نافرمانی کی اور غرور کیا اپ نے وج ود پہ
جو کہ آگ سے بنایا گیا تھا اور کہا کہ میں حضرت آدم علیہ السالم کو سجدہ نہیں کروں گا جو کہ مٹی سے
بنائے گئے ہیں اور مٹی آگ سے بہتر نہیں ہوس کتی۔ اس ب ات س ے ہللا تع الی نے ابلیس ک و جنت س ے ات ر
جانے کا حکم دیا۔ جب اسے جنت سے اتر جانے کا حکم مال تو اس نے ہللا تعالی سے مہلت مانگی۔
ابلیس نے ہللا سے مہلت مانگی اور کہا کہ میں انسان کی وجہ س ے جنت ات روں گ ا میں ہللا تع الی س ے اس
بات کی مہلت مانگتا ہوں کہ جب تک انسان اس دنیا میں رہے گا میں اس کو گمراہی کی راہ پر ڈالت ا رہ وں
نیک کاموں سے بھٹکا کر رہا ہوں۔ اور ہللا تعالی نے ابلیس کو اس بات کی اج ازت دے دی ۔ ہللا تع الی میں
نے کہا کہ تجھے اجازت ہے کہ تو اس انسان کو گمراہ کرتا رہ۔ جس انسان ک و گم راہ ک رے گ ا میں اس ے
جنت میں نہیں داخل ہونے دوں گا اور وہ جہنم کا ایندھن بنے گا۔ ای ک اور جگہ پ ر روایت ہے کہ اس وقت
ابلیس کو ایک لقب دیا گیا جو کافر کا لقب تھا ۔ کافر اس کا مطلب ہوتا ہے نعمت ک ا انک ار ک رنے واال۔ک افر
کا لقب میں پہلی دفعہ ابلیس کے حصے میں آیاتھا اور یوں ابلیس جنت سے نکاال گیا ۔
جب ہللا تعالی نے حضرت آدم علیہ السالم کے جسم میں روح پھونک دی تو پہال ک ام یہ کی ا کہ ہللا نے اپن ا
دایاں ہاتھ حضرت آدم کی کمر پر پھیرا تو بہت سارے لوگوں کا ایک گروپ پیدا ہ وا ۔ ہللا تع الی نے فرمای ا
4
کہ یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا میں اپنے اپنے وقت پر جائیں گے آج جنتی کام کریں گے ۔ ہللا تعالی نے اپنا بایاں
ہاتھ حضرت آدم علیہ السالم کی کمر پر پھیرا تو لوگوں کا ایک گروپ پی دا ہ وا اس فرمای ا کہ یہ ل وگ دنی ا
میں اپنے اپنے وقت پر جائیں گے اور دوزخ کہ اعمال کریں گے۔ ہللا تعالی نے جب حضرت آدم کو پیدا کیا
تو آدم کی اوالد کی ارواح اسی دن وجود میں آگئی۔ بنی نوع انسان کو بنانے کے لیے یہ مٹی استعمال ہوئی
وہ پوری دنیا سے اکٹھی کی گئی تھیں اس لیے آدم کی اوالد میں ہر قسم کے کالے سفید سرخ لوگ چھوٹے
لمبے نرم دل والے اور سخت دل والے سب کے سب شامل ہوں گے۔ ان سب کو اوالد آدم کہا جاتا ہے۔
حضرت آدم علیہ السالم کو آدم کیوں کہا جاتا ہے اس بارے میں حضرت عب دہللا بن عب اس رض ی ہللا تع الی
عنہ سے روایت ہے بے ش ک ہللا تع الی نے آدم ک و جمعہ کے دن عص ر کے بع د پی دا کی ا ۔ آپ ک و ع دیم
االرض یعنی ظاہری زمین ایک مٹھی سے پیدا کیا اس لیے آپ ک و آدم کہ ا جات ا ہے۔ اور ج و آپ کی اوالد
ہیں اس کو آدمی کہا جاتا ہے ۔ آدمی کا مطلب ہوتا ہے آدم واال ۔ حضرت آدم علیہ السالم کی کنیت ابو البش ر
ہے ۔ یعنی تمام انسانوں کے والد۔ حضرت آدم کی ایک اور کنیت بھی ہے سمجھا ہمارے نبی حضرت محمد
صلی ہللا علیہ وسلم کے وسیلے سے ہم ت ک پہنچ تی ہے ۔ یہ جنت میں اس تعمال ہ وگی ۔ جنت میں حض رت
آدم علیہ السالم کے عالوہ کسی کی کنیت استعمال نہیں ہوگی ۔ اور وہاں پہ آپ کی ک نیت اب و المحم د ہ وگی
جو جنت میں استعمال ہوگی۔
جب ہللا تع الی نے حض رت آدم علیہ الس الم ک ا وج ود مکم ل کردی ا ت و انہیں تم ام موج ود چ یزوں کے ن ام
سکھائے اور ہر چیز کے بارے میں تفصیل بتائی۔ اس کے بعد ہللا تعالی نے حضرت آدم کو حکم دیا ہے کہ
آپ پر اس کے پاس جاؤ اور انہیں کہو کہ اسالم علیکم ۔ آپ فرشتوں کے پاس گئے اور بلند آواز میں اس الم
و علیکم کہاتو فرشتوں نے اس کے بدلے وعلیکم ورحمۃ ہللا و برکاته سے ج واب دی ا۔ یع نی ہللا کی ط رف
سے تم پر رحمت ہو۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ جنت میں حضرت آدم علیہ السالم نے ج و زب ان اس تعمال کی
وہ عربی تھی۔ اور یہ کہا جاتا ہے کہ یہی جنت کی زب ان ہے۔ اور اس ط رح حض رت آدم علیہ الس الم کے
درمیان جنت میں مقیم ہوگئے ۔ کافی عرصہ ت ک وہ فرش توں کے س اتھ رہے اور جنت کے پھل وں ک ا م زہ
اٹھاتے رہے۔ پھر انہیں اکیالپن محسوس ہونے لگا تو ہللا تعالی نے ان کی بائیں پسلی سے جب وہ س و رہے
تھے تب اماں حوا کو پیدا کیا ۔ جب وہ بیدار ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ ان کے برابر میں بیٹھا ہ وا ہے ت و
آپ نے ان سے پوچھا کہ کون ہو۔ تو انہوں نے جواب دیا عورت ۔ تو آپ نے پھر پوچھا ک ون ہ و تم جب آپ
کی ہم سفر ۔ حضرت آدم علیہ السالم نے پوچھا کہ تمہیں کیوں پیدا کیا گیا۔ انہوں نے جواب دیا اس ل یے کہ
آپ مجھ سے سکون حاصل کر سکیں اور میری قربت آپ کو سکون دے سک
ے۔
جب فرشتوں کا وہاں سے گزر ہوا اور انہوں نے ای ک اور وج ود دیکھ ا ت و حض رت آدم علیہ الس الم س ے
پوچھا کہ یہ کون ہے ؟ حضرت آدم علیہ السالم نے جواب دیا یہ حوا ہے ۔ تو فرش توں نے س وال کی ا کہ یہ
ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ یہ نام اس لیے ہے کہ اس کو ایک زندہ چیز س ے پی دا کی ا گی ا ہے ۔ اور
کیسا نام َ
اس طرح حضرت اماں حوا کا وجود جنت میں پیدا ہوا۔ پھر دونوں مل کر ک افی عرص ے ت ک رہ تے رہے۔
پھر ہللا تعالی نے حکم دیا کہ اس جنت میں جو چاہے کھاؤ جو چاہے پیو مگ ر ص رف اور ص رف ای ک یہ
درخت ہے اس کے قریب نہیں آنا اس کے پاس تمہارا آنا منع ہے۔ اوریوں اماں ح وا کے س اتھ حض رت آدم
5
علیہ السالم جوڑے کی صورت میں جنت میں مقیم ہوگئے اور یہاں ان کے جسموں پر ایک نور کا لباس تھا
اور کھانے کو مزیدار جنت کے پھل تھے اور رہنے کے لئے بہت اعلی اور مرتبے واال گھر تھا۔
ایسے میں ابلیس اپنا کام شروع کیا کیوں کہ اس نے ہللا س ے اج ازت لی تھی کہ وہ ب نی ن و آدم کے دل میں
وسوسہ پیدا کرے گا۔ ہللا تعالی نے شیطان کو جنت سے اتر جانے کا حکم دیا تھا لیکن اسے اتنی صالحیت
دی تھی کہ وہ جہاں کہیں بھی ہونیک لوگوں کے دل وں میں وسوس ے پی دا کرس کتا ہے۔ اس نے اپ نی اس ی
طاقت کو استعمال کرتے ہوئے حضرت آدم علیہ السالم اور اماں ح وا کے دل میں یہ وسوس ہ پی دا کی ا کہ
تمہیں جس درخت کا پھل کھانے سے منع کیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہےکہ اس درخت کا پھ ل کھ انے س ے
دائمی زندگی کا آغاز ہوگا۔ ایک ایسی زندگی جو کبھی ختم نہیں ہوگی اور ایک اعلی قس م کی بادش اہت ج و
کہ فرشتوں کو حاصل ہے ۔ ابلیس نے اپنی بات پر یقین دلوانے کے لیے جھوٹی قسمیں بھی کھائی اور یہاں
تک کہ ہللا کی جھوٹی قسم بھی کھائی اور یہیں سے قسموں ک ا آغ از ہ وا۔ اس ط رح دھ وکہ دے بہال پھس ال
کے شیطان نے اماں حوا کے دل کو راضی ک ر لی ا کہ وہ حض رت آدم علیہ الس الم ک و بھی اس خی انت پ ر
راضی کرے ۔
اور کہا یہ جات ا ہے کہ اس درخت س ے پھ ل کھ انے والی س ب س ے پہلی ام اں ہ وا تھی اور انہ وں نے ہی
حضرت آدم علیہ السالم کو اس خیانت پر راضی کیا۔انبیاء گناہ اور خطا سے پ اک ہ وتے ہیں اور ہللا تع الی
خود ان کی حفاظت اور نگرانی فرماتے ہیں۔ انبیاء کے ہر کام میں ہللا تعالی کی رضا شامل ہ وتی ہے جیس ا
کہ ان کا اٹھنا ان کا چلنا ان کا سونا ان کا کھانا نیز ہر چیز میں ہللا کی رضا شامل ہوتی ہے۔ مگر تمام انبی اء
بشر یعنی انسان ہوتے ہیں ۔اور انسان کی ایک خاصیت ہے کہ اس سے بھول کا احتمال ہو جاتا ہے۔ ارج اء
لیکن جب انبیاء سے بھول ہوتی ہے تو ہللا تعالی انہیں خبردار فرماتے ہیں ۔ اور بعض دفعہ ان کی بھ ول ہللا
تعالی کی حکمت کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو بہت سارے انبیاء کے معجزات دیکھ کر ربوبیت کا
خطرہ پیدا ہو جاتا اور ایسا ہوا بھی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السالم کے معجزات دیکھ کر ان کے م اننے
والوں نے ان کو نعوذ باہلل خدا کا بیٹا تصور کر لیا۔ اگر انبیاء سے بھ ول نہ ہ وتی ت و وہ الہ بن ج اتے لیکن
انبیا الہ نہیں ہیں بلکہ بشر ہیں۔
اگر ہم حضرت آدم علیہ السالم کی بھول کو دیکھے تو اس کے اندر ہللا تعالی کی حکمت ہے اور وہ حکمت
یہ ہے کہ انہیں دنیا میں آکر دنیا کو آباد کرنا تھا۔ اور جب حض رت آدم علیہ الس الم نے ممن وعہ درخت ک ا
پھل کھایا تو ان کے جسم سے نور کا لباس اتر گیا اور وہ یہاں بھاگنے لگے اور اس ص ورتحال میں انہ وں
نے اپنے جسم کو پت وں سےس ے ڈھکن ا ش روع ک ر دی ا۔ یہ حض رت آدم علیہ الس الم س ے بھی ای ک بھ ول
کااحتمال ہوا ۔ یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کیا انہوں نے اپنا رویہ ابلیس جیسا رکھا؟ جس نے ہللا تعالی
کے حکم کی نافرمانی کی اور حضرت آدم علیہ السالم کو سجدہ تعظیمی سے انکار کیا اور تک بر کی ا۔ بلکہ
حضرت آدم علیہ السالم نے توبہ کی اور آپ نے خیانت کا اقرار کیا اور ہللا تعالی س ے مع افی کے طلبگ ار
ہوئے۔ ہللا تعالی رحیم و غفور ہے جب کوئی بھی شخص اس سے معافی مانگتا ہے اور اپنی خطا ک ا اق رار
کرتا ہے تو ہللا تعالی اسے معاف فرماتے ہیں۔ بالکل ایسا ہی حضرت آدم علیہ السالم کے ساتھ ہوابالکل ایسا
ہی حضرت آدم علیہ السالم اور اماں ہوا کے ساتھ ہوا۔ ہللا تع الی نے ان کے جس موں ک و لب اس عط ا فرمای ا
6
اور ان کی معافی کو قبول فرمایا مگ ر انہیں ف وری ط ور پ ر جنت س ے ات ر ج انے ک ا حکم دی ا۔ پھ ر ی وں
حضرت آدم علیہ السالم اماں حوا سمیت جنت سے اتر کر زمین پر آگئے ۔
Zameen Per Otarna Aur Amma Hwwa say milna
یہ بات واضح نہیں ہے کہ دونوں کو جنت سے زمین پر کہاں اتارا گیا۔ لیکن حض رت ابن عب اس رض ی ہللا
تعالی عنہ کی روایت زیادہ بہتر سمجھی جاتی ہے کہ حضرت آدم علیہ السالم کو ہند میں اور حضرت ام اں
حوا کو جدہ میں اتارا گیا۔ زمین پر اترنے کے ساتھ ہی حضرت آدم علیہ الس الم نے ام اں ح وا کی تالش ک ا
کام جاری رکھا اور باآلخر میدان عرفات میں میں ان دونوں کی مالقات ہوئی ایک دوسرے سے تعارف ہ وا
۔ کسی وجہ سے پہاڑوں کے درمیان وادی کا نام میدان عرافات ہے۔
Nasal e Insani ki afzaish
حضرت امام طبری رضی ہللا تعالی عنہ سے روایت ہے حضرت اماں حوا نےبیس والدتوں میں 40بچ وں
کو جنم دے۔ اور ہر بار ان دو بچے پیدا ہوتے تھےایک لڑکا اور ایک لڑکی ہوتی تھی۔ اور ان کی ج و پہلی
اوالد اس میں لڑکے کا نام قابیل تھا اور لڑکی کا نام قمیہ تھا۔ اس طرح انسان کی افزائش ش روع ہ وگی ہ ر
نسل آگے بڑھنے لگی اور حضرت آدم علیہ السالم کو اس بنی نوع انسان کے چھ وٹے س ے ق بیلے ک ا ن بی
مقرر کردیا گیا۔ اور سب کے سب ایک ہیں ہللا کی عبادت کرتے تھےاور کسی کو ہللا ک ا ش ریک بن انے ک ا
شائبہ تک نہیں تھا ۔ ہللا تعالی نے بنی نوع انسان کو سیدھا راستہ دکھانے کے لئے نبی اور رس ول دنی ا میں
بھیجے ہیں۔ یہاں ہم رسول اور نبی کا فرق جان لی تے ہیں۔ رس ول وہ ہ وتے ہیں ج و ش ریعت اور احکام ات
لےکر آتے ہیں اور لوگوں کو کو اصولوں کی پاسداری ک رواتے ہیں۔ جبکہ ن بی وہ ہ وتے ہیں جن پ ر وحی
نازل ہوتی ہے اور وہ اس وحی کے ذریعے بنی نوع انسان کو سیدھا راستہ دکھاتے ہیں۔
Habeel Aur Qabeel
ہم ہابیل اور قابیل جو کہ حضرت آدم کی ابتدائی اوالدوں میں سے تھے ان کی بات کر رہے تھے۔ ہللا تعالی
نے حضرت اماں حوا کو جڑواں یع نی ج وڑوں کی ص ورت میں اوالدیں تھیں جن میں س ے ای ک بیٹ ا اور
ایک بیٹی ہوتی تھی۔ حضرت آدم کی شریعت اور جو قانون ہللا تعالی نے انسانیت کو آگے بڑھانے کے لیے
بنائے تھے ان میں سے ایک قانون یہ تھا کہ حضرت آدم علیہ السالم کا پی دا ہ ونے واال ہ ر بیٹ ا اپ نے س اتھ
پیدا ہونے والی بہن کے عالوہ کسی بھی بہن سے شادی کر سکتا ہے۔ لیکن اب اس حکم کو ختم کر دیا گی ا
ہے اور اسے حرام قرار دیا گیا ہے۔ لہذا اس وقت یہ ہوسکتا تھا کہ قابیل اپ نی ج ڑواں بہن کے عالوہ کس ی
سے بھی شادی کر لے ۔ تو یہ طے پایا کہ قابیل ہابیل کی جڑواں بہن سے ش ادی ک رے گ ا اور ہابی ل قابی ل
کی جڑواں بہن سے شادی کرے گا۔ قابیل سخت مزاج کا مالک تھا جبکہ ہابیل نرم مزاج کا انسان تھ ا۔ قابی ل
کا پیشہ کھیتی باڑی تھا جبکہ ہابیل مویشی چراتے تھے۔
کہا یہ جاتا ہے کہ چرواہا نرم دل کا انسان ہوتا ہے اس لئے ہابیل نرم دل کے انسان تھے۔ آپ نے یہ پای ا کہ
ہابیل کی شادی قابیل کی بہن سے ہوگی اور قابیل کی شادی ہابیل کی بہن سے ہوگی۔ مگر ہ وا یہ کے قابی ل
7
نے ایسا کرنے سے انک ار ک ر دی ا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قابی ل کی ج ڑواں بہن ہابی ل کی بہن کی نس بت
زیادہ خوبصورت تھی ۔ لیکن حضرت آدم علیہ السالم شریعت کے پاسدار تھے۔ تو حض رت آدم علیہ الس الم
کی شریعت کے مطابق قابیل اپنی جڑواں بہن اور ہابیل اپنی جڑواں بہن سے شادی نہیں کرسکتے تھے۔ ت و
نتیجہ یہ نکال کے قابیل کو اس شرح کے خالف غصہ آگیا اور اس نے ہابیل کو قتل کرنے کا ارادہ کرلیا۔
Habeel Aur Qabeel ka Hadia
قابیل کو غضبناک دیکھ کرحضرت آدم علیہ السالم نے فیصلہ کیا کہ ان کے دون وں بی ٹے ہللا کے حض ور
ہدیہ پیش کریں گے۔ ہدیہ پیش ک رنے ک ا رواج اس وقت یہ تھ ا کہ آس مان س ے بجلی ی ا اگ آتی تھی اور یہ
اگر اس ہدیے کو جال دیتی تھی تو یہ سمجھا جاتا تھا کہ یہ ہدیہ قبول ک ر لی ا گی ا ہے۔ اگ ر وہ اس ہ دیے ک و
نہیں جالتی تھی تو اس کا مطلب یہ ہوتا تھ ا کہ یہ ہ دیہ ہللا کی بارگ اہ میں قب ول نہیں کی ا گی ا۔ اس ط رح یہ
فیصلہ ہوا کہ دونوں بیٹے اپنی بہترین قربانی کے لئے پیش کریں گے اور ہللا نے جس کی قربانی ک و قب ول
کرلیا اس کی بات کو مانا جائے گا۔ لہذا جب قربانی کا دن آی ا ت و حض رت ہابی ل علیہ الس الم نے س ب س ے
بہترین مویشی اپنے ریوڑ سے نکال کر قربانی کے لیے پیش کر دئیے جبکہ قابی ل نے کچھ بوس یدہ س امان
اپنے گلے سے نکال کر پیش کر دیا۔ قابیل در اصل کھیتی باڑی کرتا تھا۔
اگلے دن جب دونوں بھائی قربان گاہ پہنچے تو دیکھتے ہیں کہ ہابیل کی قربانی ت و قب ول ہ وگی لیکن قابی ل
کی قربانی قبول نہیں ہوئی۔ اس بات نے قابی ل ک و اور غض بناک کردی ا اور اس نے پختہ ارادہ کرلی ا کہ وہ
ہابیل کو قتل کر دے گا۔ اور اس کا اظہار اس نے اپنے بھائی ہابیل سے کیا بھی کہ وہ اسے قتل کر دے گا۔
تو جواب میں ہابیل نے کہا کہ اگر تم مجھے قتل کرنے کے ارادے سے ہاتھ اٹھائے گا تو میں ہرگ ز تجھ پہ
ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا اور نہ ہی تجھے قتل کرنے کی کوشش کروں گا ۔کیونکہ میں یہ چاہتا ہوں کہ میرے قتل
کا گناہ بھی تمہارے مزید گناہوں کے ساتھ شامل ہو جائے۔اور میں ہللا کی بارگاہ میں کسی قسم کا گن اہ نہیں
کرنا چاہتا۔
Habeel ka Qatal
اور پھر ہوا یہ کہ ایک رات جب ہابیل سو رہا تھا تو قابیل نے ای ک ب ڑا س ا پتھ ر اٹھ ا کے اس کے س ر پ ر
مارا اور اس طرح ہابیل کو قتل کر دیا۔ جب قابیل نے ہابیل کو قتل کر دیا تو وہ زیادہ پریشان ہوگیا کی وں کہ
اس سے پہلے حضرت آدم علیہ السالم کی اوالد میں سے کسی کی بھی موت نہیں ہوئی تھی۔ یعنی قابی ل وہ
پہال انسان تھا جس نے بنی نوع انسان میں سے پہلی بار کسی کا ناحق قتل کیا ۔ اب قت ل کے بع د وہ اس کی
الش کا کیا کرے اسے اس بات کا علم نہیں تھا کیونکہ اس سے پہلے اس نے کبھی کس ی ک و م رتے ہ وئے
نہیں دیکھا تھا ۔ لہذا اس نے اپنے بھائی کی الش کو اپنے کندھے پر ڈاال اور تھوڑا سا آگے بڑھ ا۔ اس وقت
ہللا تعالی نے وہاں پر دو کو ّوں کو نازل کیا۔ کہ وہ آپس میں لڑنے لگے اور ایک ک ّوے نے دوس رے ک ّوے
کو مار دیا۔ تو جو کو اس زندہ بچا تھا اس نے زمین کھودنا شروع کیں اور م رے ہ وئے ک وے ک و اس میں
دبا دیا۔ اس طرح قابیل نے یہ سیکھ لیا کہ اس نے اپنے بھائی کی الش کو دفنان ا ہے۔ اس نے اس ک وے کی
طرح اپنے بھائی کی الش کو دفن کر دیا۔
8
Qabeel ka farar
ہابیل اور قابیل کا مکمل ذکر ہللا تعالی نے قرآن پاک میں فرمایا ہےاور سورہ المائدہ میں ان کے قص ے ک و
مکمل طور پر بیان کیا گیا ہے۔ یہاں ہللا تعالی نے یہ بھی بتایا ہے کہ قابیل نے جب اپنے بھائی ہابیل کو قتل
کر دیا تو وہ پشیمان ضرور تھا لیکن اس نے ہللا تعالی سے پشیمانی کا اظہار نہیں کی ا ارن ا ہللا س ے مع افی
مانگی۔ جب کہ ہمیں یہ حکم ہے کہ اگر کوئی غلطی سرزد ہو جائے چاہے وہ چھوٹی ہو یا بڑی تو ہللا کے
حضور اس کی معافی مانگی جائے۔ لیکن قابیل نے اپنے بھائی کے قت ل کے پچھت اوے کے ب اوجود اس ک ا
اظہار ہللا تعالی سے نہیں کیا۔ اس نے حضرت آدم علیہ السالم کا سامنا بھی نہیں کیا اور اپنی بیوی کو س اتھ
لے کر دور ایک جگہ پر بس گیا ۔ اور وہاں پر اس نے اپنے ہی جیسا شیطانی فطرت ای ک گ روہ جم ع کی ا
جو ہر قسم کے گناہ اور بے حیائی کو قائم رکھے ہ وئے تھے ۔ ح االنکہ وہ عب ادت ہللا ہی کی ک رتے تھے۔
جبکہ وہ لوگ جو پاک باز اور نیک تھے وہ حضرت آدم علیہ السالم کے ساتھ اپنے زندگی گ زارنے لگے ۔
اور اس کے بعد قابیل نے حضرت آدم علیہ السالم کا سامنا نہیں کیا۔ یہاں پر بنی ن و انس ان دو گروپ وں میں
تقسیم ہوگئے ایک وہ گروہ تھا جو شریر اور گناہ گار تھے انہوں نے قابیل کی پیروی کرنی شروع کر دی۔
نبی اکرم صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ دنی ا میں ج و بھی ن احق قت ل ہوگ ا اس ک ا کچھ نہ کچھ گن اہ
قابیل کی گردن پر ضرور جائے گا اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نہ حق قتل کا گناہ قائم کرنے واال تھا ۔
اس طرح دو گروپ بن گئے جو شریر اور گناہ گار لوگ تھے وہ قابیل کے ساتھ ہ و گ ئے جہ اں بے حی ائی
اور غلط کاموں کا دور دورہ تھا اور جو نیکاوالد کی وہ حضرت آدم علیہ السالم کے ساتھ رہنے لگی۔
Hazrat Shees ki paidaish
ہابیل کے قتل کے بعد حضرت آدم علیہ الس الم اور ام اں ح وا بہت غمگین رہ نے لگے تھے۔ ہللا تع الی نے
انہیں ایک اور تحفے سے نوازا اور انہوں نے اس کا نام شیث علیہ السالم رکھا۔ شیث کا مطلب ہوت ا ہے ہللا
کا دیا ہوا تحفہ۔ حضرت شیث علیہ السالم ہللا کے نبی تھے اور بہت نیک ان لوگوں میں سے تھے۔
حضرت ابوذر غفاری رضی ہللا تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی ہللا علیہ وس لم نے فرمای ا کہ
ہللا تعالی نے دنیا میں ایک سو چار صحیفے نازل کیے ہیں جن میں سے پچاس صحیفہ حض رت ش یث علیہ
السالم کے اوپر نازل ہوئے۔ حضرت شیث علیہ السالم نے دنی اوی علم اپ نے ب اپ حض رت آدم علیہ الس الم
س ے س یکھا تھ ا۔ لیکن وہ کبھی بھی حض رت آدم علیہ الس الم س ے زی ادہ نہیں س یکھ س کتے تھے کی ونکہ
حضرت آدم علیہ السالم کو سکھانے والی ہللا تعالی کی ذات تھی۔ حضرت آدم علیہ السالم نے اپن ا زی ادہ ت ر
علم حضرت شیث علیہ سالم کو منتقل کیا۔
Hazrat Aadam ki omar
یہ بات بڑی دلچسپ ہے کے تمام نبیوں کو اپنی عمر کا پتہ ہوتا ہے اسی طرح حضرت آدم علیہ الس الم ک و
بھی یہ معلوم تھا کہ ان کی عمر ایک ہ زار س ال ہے۔ لیکن 960س ال کے بع د جب فرش تہ ان کی روح ک و
قبض کرنے کے لئے آیا۔ اس بارے میں حض رت اب و ہری رہ رض ی ہللا تع الی عنہ س ے روایت ہے کہ ن بی
9
اکرم صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب حضرت آدم علیہ السالم کے جسم میں روح پھونکی گئی اور ہللا
تعالی نے اپنا دایاں ہاتھ آپ کی کمر پر پھیرا اور تمام بنی نوع انسان کی ارواح ک و ج و کہ قی امت ت ک پی دا
ک یے ج ائیں گے پی دا فرمای ا ۔ ت و اس وقت ان کی آنکھ وں کے درمی ان ای ک ن ور رکھ ا ہے اس ن ور س ے
حضرت آدم علیہ السالم نے تمام ارواح کو دیکھا تو انہیں ایک روح کی پیشانی چمک تی ہ وئی نظ ر آئی۔ ت و
آپ نے ہللا تعالی سے فرمایا کہ یہ کون ہے ؟ ہللا تع الی نے ج واب دی ا کہ یہ ت یری اوالد ہے ج و بہت آگے
جاکر پیدا ہوگی اور اس کا نام داؤد ہے۔ تو آپ نے ہللا تعالی س ے پوچھ ا کہ اس کی عم ر کت نی ہ وگی ؟ ہللا
نے جواب دیا کہ اس کی عمر ساٹھ سال ہوگی۔ تو آپ نے ہللا تعالی سے درخواس ت کی کہ م یری عم ر میں
سے سے چالیس سال لے کر اس کو دے دیئے جائیں۔ اس ط رح حض رت آدم علیہ الس الم کی عم ر ن و س و
ساٹھ سال رہ گئی کیوں کہ انہوں نے چالیس سال حضرت داؤد علیہ السالم اس کو تحفے کے ط ور پ ر دے
دیے تھے۔اصل میں حضرت آدم علیہ السالم کی زندگی ایک ہزار سال تھی لیکن انہیں 960سال کی زندگی
ملی۔
یہاں ایک روایت اور ہے کہ نبی اکرم صلی ہللا علیہ وسلم نے حض رت آدم علیہ الس الم کے کچھ اعم ال ک ا
ذکر کیا کہ کیوں کے حضرت آدم علیہ السالم یہ بھول گئے تھے کہ انہوں نے اپنی زندگی کے چالیس س ال
حضرت داؤد علیہ السالم کو تحفہ کے طور پر دیے ہیں تو ان کی اوالد کو بھی بھول کی عادت پ ڑ گ ئی ی ا
یوں کہیے کہ انہوں نے غل ط بی انی س ے ک ام لی ا ت و ان کی اوالد ک و بھی غل ط بی انی کی ع ادت پ ڑ گ ئی۔
حضرت آدم علیہ السالم نے خطا کی تو ان کی اوالد بھی خط اب ک رتی ہے۔ اس کے ب ارے میں ش اعر نے
کیا خوب کہا ہے
؎ آدم سے چل رہا ہے خطاؤں کا سلسلہ
اوالد اپنے باپ کے نقش قدم پے ہے
Hazrat Aadam ka aakhri waqt
ابی بن کعب رضی ہللا تعالی عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت آدم علیہ السالم کا وقت قریب آیا تو انہوں
نے اپنے بیٹوں کو بالیا اور کہا کہ میرا دل جنت کے پھ ل کھ انے ک و چ اہ رہ ا ہے ۔ اب یہ اں اس ب ات ک و
سمجھنا ضروری ہے کہ جنت کے پھ ل بھی بالک ل دنی ا کے پھول وں کی ط رح ہ وتے ہیں لیکن ان ک ا ذائقہ
ہمیشہ کے لئے ہوتا ہے اور وہ بدبو دار نہیں ہوتے اپنا وہ گل تے س ڑتے ہیں۔ لہ ذا حض رت آدم علیہ الس الم
نے جنت کے پھلوں کا ذائقہ چکھا ہوا تھا تو انہوں نے اپنے بیٹوں سے خواہش ظاہر کی کہ م یرا جنت کے
ہر کھانے کو جی چاہ رہا ہے۔ تو بیٹا نہیں اوزار اٹھائے اور جنت کے پھل ڈھون ڈنے کے ل ئے نک ل پ ڑے۔
راستے میں ان کا سامنا فرشتوں سے ہوا جو انسان کی شکل میں آئے تھے ۔ فرشتوں کے زمین پ ر آنے ک ا
مقصد حضرت آدم علیہ السالم کی روح کو قبض کرنا تھا اور بنی نوع آدم کو انسان کے آخ ری مراح ل ک و
سمجھانا تھا۔ وہ اپنے ساتھ کفن اور خوشبو لے کر آئے تھے۔ جب ان فرش توں ک ا س امنا آدم کی اوالد س ے
ہوا تو انہوں نے ان سے دریافت کیا کہ تم کہاں جا رہے ہو ؟ انہوں نے بتایا کہ ہمارا باپ قریب الم رگ ہے
اور اس نے جنت کے پھل کھانے کی خواہش ظاہر کی ہے اور ہم اس کی تالش میں نکلے ہیں۔ تو فرش توں
10
نے بتایا کہ اب تم واپس جاؤں اور اس کی خدمت کرو۔ تمہ ارا ب اپ ق ریب الم رگ ہے اور اب اس میں پھ ل
کھانے کی طاقت نہیں ہے۔
جب فرشتوں نے حضرت آدم علیہ السالم کی روح قبض کرنے کے لئے آئے تو اماں حوا نے ان کو پہچ ان
لیا اور بلند آواز میں حضرت آدم علیہ السالم کو پکارنا شروع ک ر دی ا۔ ایس ے میں حض رت آدم علیہ الس الم
نے انہیں منع فرمایا کہ تم میرے اور میرے ہللا کے فرشتوں کے درمیان نہ آؤں۔
اس طرح حضرت آدم علیہ السالم کی روح کو فرشتوں نے قبض کرلیا۔ روح قبض کرنے کے بعد فرش توں
نے حضرت آدم علیہ السالم کو غس ل دی ا انہیں کفن پہنای ا اور انہیں خوش بو لگ ائیں اور اس کے بع د ان ک ا
جنازہ پڑھایا۔ اور اس طرح سے انہوں نے اہل دنیا کو جو اس وقت کفن دفن کے طریقوں سے ناواقف تھے
ایک مکمل طریقہ سکھایا ۔ اوریوں ہللا تعالی نے اپنے برگزیدہ بندے کو نو سو ساٹھ سال کی عم ر کے بع د
دنیا سے واپس بال لیا۔ حضرت اماں حوا کے بارے میں کہا جات ا ہے کہ حض رت آدم علیہ الس الم کی م وت
کے ایک سال بعد وہ بھی اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ اور اس طرح اس کہانی کا اختتام ہوا۔
11