You are on page 1of 11

‫ف‬ ‫ن‬ ‫ض‬

‫ح رت آدم علی ہ السالم کی ز دگی کا س ر‬


‫حضرت آدم علیہ السالم کو دنیا میں پہال انسان مانا جاتا ہے جن ک و ہللا تع الی نے اپ نے ہ اتھوں س ے بنای ا ۔‬
‫حضرت آدم علیہ السالم سے پہلے ہللا تعالی نے فرشتوں کو اس دنیا میں پیدا کیا تھا جو ہللا تعالی کی عبادت‬
‫میں مشغول رہتے تھے ۔ اور وہ ہر وقت اس کی تسبیح کرتے رہتے تھے ۔ اور اس کے بعد جو مخل وق اس‬
‫دنیا میں وج ود میں آئی وہ جن ات تھے‪  ‬ہللا تع الی نے ان ک وآگ کے ش علہ س ے پی دا کی ا تھ ا ۔ جن ات ایس ی‬
‫مخلوق تھے جو دنیا میں اتارے گئے اور انہوں نے دنیا میں‪  ‬میں فساد برپا کیا۔‪  ‬جن ات کی عق ل کے ب ارے‬
‫میں علماء کرام کا یہ کہنا ہے کہ س ب س ے عقلمن د جن کی عق ل انس ان کے ‪ 12‬س ال کے بچے کے براب ر‬
‫ہے ۔ جب ہللا تعالی نے یہ ارادہ کیا کہ وہ زمین پ ر اپن ا ن ائب جب ی ا خلیفہ بھیجے گ ا ت و اس نے‪  ‬نے س ب‬
‫سے پہلے فرشتوں کو اس بات سے آگاہ کیا۔ قرآن پاک میں آتا ہے کہ ہللا تعالی نے فرشتوں سے مکالمہ کی ا‬
‫اور اس میں انہیں بتایا کہ وہ‪  ‬زمین پر اپنا نائب یعنی خلیفہ بنانے جا رہا ہے ‪  ‬جو میرا مختار ک ل ہوگ ا اور‬
‫وہ اپنے ارادوں کا مالک کا ہوگا اور زمین پر جس طرح چاہے رہے گا‪  ‬اور دنی ا کی ہ ر چ یز ک و تص رف‬
‫میں النے کا مجاز ہوگا۔ گویا میری قدرت میرے اختیار اور تصرف ک ا مظہ ر اور م یرا مخت ار ع ام ہوگ ا ۔‬
‫انسان کو ہللا تعالی نے تھوڑی سی چھوٹ دی تھی کہ وہ اپنے فیصلے خود کر سکتا ہے۔ یہ سن کر فرشتے‬
‫بہت حیران ہوئے اور انہوں نے ہللا تعالی سے عرض کی کہ تو اسے زمین پر بنا ہاں تو وہ زمیندار خ رابی‬
‫پیدا کرے گا خون ریزی کرےگا۔ حاالنکہ ہم تیری حمد و ثنا کرتے ہیں تیری پ اکی بی ان ک رتے ہیں قدوس ی‬
‫کاخیال رکھتے ہیں اور اپنی حیثیت کے مط ابق ت یری عب ادت میں ہ ر وقت مش غول رہ تے ہیں ۔ انہ وں نے‬
‫پوچھا کہ ایسی کیا وجہ ہے کہ کائنات میں ایک اور مخلوق انسان کو بنانے کی ضرورت پیش آ رہی ہے ۔‬
‫‪ ‬یہاں یہ بات سمجھنا ضروری ہے اس کے فرشتوں نے ہللا تع الی س ے اختالف‪  ‬نہیں کی ا تھ ا۔ اور نہ وہ ہللا‬
‫تعالی سے اختالف کر سکتے تھے بلکہ انہوں نے اس راز کو جاننے کی کوشش کے ہللا تعالی نے فرشتوں‬
‫کے سامنے یہ اظہار کیوں کیا کے ایک نئی مخلوق‪  ‬اس‪  ‬دنیا میں آئے گی ۔ اور ایسی کیا وجوہ ات تھی جن‬
‫بنیاد پر ہللا تعالی نے انسان کو تخلیق کیا۔ کیوںکہ فرشتوں کو یاد تھا کہ جب جنات کو زمین پر بھیجا گیا ت و‬
‫انہ وں نے کس ط رح س ے زمین پ ر فس اد برپ ا کی ا تھ ا ۔ ت و فرش توں کے ان تم ام س والوں کے پیچھے یہ‬
‫وجوہات تھیں ۔ ہللا تعالی نے فرشتوں کو اس کا بڑا مختص ر ج واب دی ا کہ تم نہیں ج انتے جانت امیں‪  ‬ہ وں ۔‬
‫اور یہی ایک حقیقت ہے کہ جتنا ہللا جانتا ہے کوئی بھی نہیں جانتا ۔‪ ‬‬
‫جو ہللا تعالی نے ارادہ کرلیا کہ وہ ایک مخلوق یا نے انسان کو تخلی ق میں الئے گ ا ت و اس کے س اتھ ہی یہ‬
‫فیصلہ بھی ہو گیا کہ اس کا وجود زمین کی مٹی سے بنایا جائے گا۔ اس کام کے لئے ہللا تعالی نے حض رت‬
‫جبرائیل علیہ السالم کو حکم دیا کہ وہ زمین کے پ اس ج ائے اور ای ک مٹھی م ٹی کی لے آئے ۔ اس واقعے‬
‫کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ جب حضرت عزرائیل علیہ السالم زمین پر م ٹی لی نے کے ل یے گ ئے ت و‬
‫زمین نے اس کا سبب پوچھا تو حضرت جبرائیل علیہ السالم نے سارا واقعہ بیان کر دیا تو زمین کہنے لگی‬
‫کہ میں خدا کی پناہ چاہتی ہوں اس بات سے کہ مجھ پ ر کم س ے کم ظلم کی ا ج ائے اور م یری م ٹی ک و اس‬
‫انسان کے وجود کا حصہ نہ بنایا جائے ۔ حضرت جبرائیل علیہ السالم ک و جب زمین نے ہللا ک ا واس طہ دی ا‬

‫‪1‬‬
‫اور ہللا کی پناہ مانگی تو آپ واپس لوٹ آئے اور آ کر ہللا سے عرض کی کہ مٹی نے تیری پناہ م انگی تھی‬
‫میں تیری بزرگی اورتیری پاکی کا ادب کرتے ہوئے میں واپس آگیا اور زمین کو پناہ دے دی۔‪ ‬‬
‫پھر یہی کام ہللا تعالی نے حضرت میکائیل علیہ السالم کو سونپا اور حض رت میکائی ل علیہ الس الم نے بھی‬
‫مٹی کو ہللا کے نام پر پنا دے دی۔ اس کے بعد تیسرے فرشتے حضرت میکائیل علیہ السالم کو یہی ک ام دی ا‬
‫گیا تو وہ بھی ہللا کے نام پر مٹی کو پناہ دے کر واپس لوٹ گئے۔ پھر ہللا تع الی نے حض رت عزرائی ل علیہ‬
‫السالم کو بھیجا تو جب زمین نے ان سے پناہ مانگی تو انہ وں نے فرمای ا کہ میں اس ب ات س ے ہللا کی پن اہ‬
‫مانگتا ہوں کے ہللا جو مجھے حکم دے وہ کام میں نہ کروں۔‪  ‬چناچہ انہوں نے زمین سے مٹی لے لی تو ہللا‬
‫پاک نے انسان کی روح کو قبض کرنے کا جو کام تھا وہ حضرت عزرائی ل علیہ الس الم کے س پرد کی ا اور‬
‫یہ کہا کہ تم ہی اس زمین سے مٹی لے کر آئے ہو اور جس مٹی کا ایک وجود انسان بنے گا‪  ‬ت و اس وج ود‬
‫کو مٹّی میں مالنے کا کام تمہارے ہی ذمے ہے۔‪  ‬‬
‫یہاں پہ ایک اور بات کا ذکر ضروری ہے کہ حضرت امام ترم ذی رحمۃ ہللا علیہ نے حب ان رحمتہ ہللا علیہ‬
‫اور امام احمد رحمۃ ہللا علیہ سے روایت ہے کہ ہللا کے آخری نبی حضرت محم د ص لی ہللا علیہ وس لم نے‬
‫ارشاد فرمایا کہ ہللا پاک نے آدم کو ایک مٹھی مٹی سے پیدا کیا ہے جو تمام روئے زمین سے لی گ ئی ہے ۔‬
‫اس لیے اوالد آدم جب زمین پر آئیں گی تو اس میں سفید‪  ‬بھی ہوں گے کالے بھی ہوں گے سرخ انس ان اور‬
‫اسی طرح چھوٹے انسان بھی ہوں گے بڑے بھی‪ ،‬س خت ج ان انس ان بھی ہ وں گے اور ن رم بھی اور یہ اں‬
‫تک کہ پاک اور پلید انسان بھی ہوں گے کیوں کہ یہ مٹی ساری زمین سے لی گئی ہے۔ یہ ہللا کے رسول کا‬
‫ارشاد ہے ۔‪ ‬‬
‫آگے بڑھنے سے پہلے ہمیں اس مٹی کے بارے میں جان لینا چاہیے جو مٹی زمین س ے اٹھ ا ک ر الئی گ ئی‬
‫تھی ۔ اس مٹی کے لیے قرآن پاک میں لفظ "تراب" استعمال کیا گی ا ہے۔ اس م ٹی ک و جب نم کی ا گی ا ت و وہ‬
‫مٹی "تئین" بن گئی۔ پھر ہللا تعالی نے اس سے مجسمہ بنایا۔ یہاں یہ بات قاب ل ذک ر ہے ہللا تع الی نے انس ان‬
‫کو بنانے کا کام فرشتوں کے سپرد نہیں کیا کیا بلکہ اپنے مبارک ہاتھوں سے انسان کو تخلی ق کی ا ہے۔‪  ‬ہے‬
‫جب وہ مٹی کا مجسمہ بنا لیا گیا تو اس کو ایک مخصوص مدت کے لیے رکھ دیا گیا۔ کچھ علم اء ک رام نے‬
‫اس بارے میں یہ بھی لکھا کہ چالیس دن تک اس ے رکھ ا لیکن ہللا تع الی کے دن اور انس ان کے دن وں میں‬
‫بہت فرق ہے اس لیے یہ کہنا مناسب ہوگا کہ ہللا تعالی نے ایک مخصوص وقت کے لئے اس ے چھ وڑ دی ا۔‬
‫مخصوص وقت کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ وہ مٹی جس سے مجسمہ بنایا گیا تھا وہ سیاہ رنگ کی ب د‬
‫بو دار اور کھنکھناتی ہوئی مٹی بن گئی۔ کھنکھنانا کو اس طرح بھی سمجھا جاس کتا ہے کہ اگ ر ای ک م ٹی‬
‫کے برتن کے اوپر ٹھوکر ماری جائے تو اس میں سے ایک خاص آواز آتی ہے جو اس کے پختہ ہونے کو‬
‫ظاہر کرتی ہے۔ اور جو سیاح مٹی ہے اسے ہمایون کہتے ہیں اور بدبودار م ٹی ہے اس ے مس نون کہ ا جات ا‬
‫ہے ۔ اور جو کھنکھنا کے بولنے والے مٹی ہوتی ہے اسے صلصال کہتے ہیں ۔ اور جو ٹھیک ری کی ط رح‬
‫کی مٹی سے برتن بنتے ہیں اس کو الفخ ار کہ تے ہیں۔ جب ہللا تع الی نے اس وج ود ک و کچھ عرص ے کے‬
‫لیے رکھ دیا اور ایک کھنکھناتی ہوئی مٹی بن گئی۔‪  ‬‬

‫‪2‬‬
‫اس کی ترتیب کو اگر سمجھیں تو تخلیق کے عمل کا پہال م رحلہ ت راب تھ ا جب ع ام ح الت کی م ٹی یع نی‬
‫خشک مٹی تھی اور پھر تئین یعنی بھگوئی ہوئی مٹی بن گئی اور اس کے بعد یہ مٹی صلصال ہ وگی‪  ‬یع نی‬
‫ٹھیکری جیسی ہوگی اور پھر‪  ‬الفخار ہوگی ۔ اور یہ سب کام جمعہ کے آخ ری دن وں میں ہ وئے۔ لیکن یہ اں‬
‫اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ ہللا تعالی کے دنوں میں اور انسانوں کے دنوں میں بہت فرق ہے۔‪ ‬‬
‫یہاں پے آگے بڑھنے س ے پہلے ہم ابلیس کے ب ارے میں ج انتے ہیں جس ک ا اص ل ن ام عزازئی ل تھ ا۔ ۔ یہ‬
‫جنوں میں سے تھا اور اس کا وجود آگ سے بنایا گی ا تھ ا ۔ لیکن یہ بے انتہ ا عب ادت گ زار جن تھ ا اور اس‬
‫نے کبھی ہللا تعالی کی نافرمانی نہیں کی تھی ۔ ہللا تعالی نے اس کی عبادت اور نافرمانی نہ کرنے کی وجہ‬
‫سے اس کا تعین فرشتوں کے ساتھ کیا تھا اور اس کو انعام کے طور پ ر فرش توں کے س اتھ رکھ ا ہ وا تھ ا۔‬
‫حضرت انس رضی ہللا تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم میرے ساتھ فرمایا کہ‬
‫جب ہللا پاک نے جنت میں حضرت آدم علیہ السالم کی ص ورت بن ائی اور ان ک و اس ی ح الت میں رکھ ا ت و‬
‫ابلیس ان کے ارد گرد چکر لگاتا تھا اور وہ یہ دیکھنا تھا کہ یہ کیا چ یز ہے ؟ اور جب اس نے ان ک ا خ الی‬
‫پیٹ دیکھا تو وہ سمجھ گیا کہ یہ ایسی مخلوق ہے جو اپنے اوپ ر ق ابو نہیں پ ا س کے گی ۔ یع نی یہ مخل وق‬
‫شہوت اور غصے کی حالت میں اپنے نفس کو قابو میں نہیں رکھ سکے گی اور وسوسے سے آس انی س ے‬
‫دور نہیں ہوگی ۔‪ ‬‬
‫اس کے بارے میں ایک اور روایت ہے حضرت آدم علیہ السالم کے مبارک وجود کو جب ابلیس نے دیکھ ا‬
‫تو اس نے دیکھا کہ ان کے سینے کے بائیں جانب ایک بند کوٹھڑی ہے ۔ تو سوچا کہ شاید یہ وہی ک وٹھڑی‬
‫ہے جس کی بدولت یہ خالفت کا حق دار ہ وا ہے ۔ ابلیس نے فرش توں س ے پوچھ ا کہ اگ ر حض رت آدم علیہ‬
‫السالم کو تم سے افضل بنایا گیا تو تم کیا کروگے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم اپنے ہللا تعالی ک ا حکم م انیں‬
‫گے ۔ لیکن ابلیس نے ایسا کرنے سے منع کردیا ۔‪ ‬‬
‫ابلیس نے صاف کہا کہ اگر اس انسان کو مجھ پر مسلط کیا گیا تو میں یقینا اسے ہالکت میں ڈال دوں گا اور‬
‫بالشبہ اس کی نافرمانی کروں گا۔ یعنی ابلیس وہ ہستی تھی جو شروع ہی سے حضرت آدم علیہ السالم سے‬
‫بغض رکھتی تھی۔ اس لیے ہمیں کہنا چاہیے کہ ال حول وال قوۃ اال باہلل العلی العظیم۔‬
‫‪ ‬بخاری شریف سے روایت ہے کہ حضرت آدم علیہ السالم کا ق د س اٹھ ہ اتھ ی ا س اٹھ گ ز یع نی ‪ 90‬فٹ تھی۔‬
‫جبکہ ان کی چوڑائی تقریبا سات ہاتھ یا ‪ 07‬گز کے برابر تھی۔ حضرت آدم لحیم اور خوبص ورت اور وجیہ‬
‫خدوخال تھے۔‪  ‬جو شخص جنت میں جائے گا وہ حضرت آدم علیہ السالم کی صورت کا ہوگا اور اس کا ق د‬
‫حضرت آدم علیہ السالم کے برابریعنی ساٹھ ہاتھ ہوگا‪  ‬چاہے وہ دنیا میں کسی بھی قدوقامت کا مالک ہو‪ .‬‬
‫حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ ہللا علیہ ایک حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ جنت میں ص رف‬
‫انسان ہی ج ائیں گے ‪ .‬ج انور اور جن ات جنت میں نہیں ج ائیں گے‪ .‬اور جنت میں تم ام انس ان حض رت آدم‬
‫علیہ السالم کی طرح حسین و جمیل تندرست ہوں گے ‪ .‬کوئی بھی شخص ب د ش کل ی ا بیم ار نہیں ہوگ ا اور‬
‫سب کا قد ساٹھ ہاتھ یعنی ساٹھ گرلز کا ہوگا‪ .‬اس سے کم نہیں ہوگا چاہے دنیا میں اس کا قد کتنا ہی چھوٹا ی ا‬
‫بڑا کیوں نہ ہو‪ .‬دنیا میں چاہے وہ بچہ ہو یا بوڑھا ہو وہ سب کے سب حضرت آدم کی ط رح کے ہ و ج ائیں‬

‫‪3‬‬
‫گے ‪ .‬یہ سارے قدوقامت اور شکلیں دنیا کے لیے ہیں جنت میں سب ایک ہی شکل کے ہ ونگے‪ .‬یہ اں غ ور‬
‫طلب بات یہ ہے کہ ہللا نے ساٹھ گز کا انسان دنیا میں پیدا کیا تھا لیکن جیس ے جیس ے آگے بڑھ تی ج ا رہی‬
‫ہے انسان کا قد کم سے کم ہوتا جا رہا ہے۔‬
‫جب ہللا تعالی نے حضرت آدم کے جسم میں روح پھونکنے کا ارادہ کیا تو اس سے پہلے ہللا کی طرف سے‬
‫اہل جنت کوحکم ہوا کے جیسے ہی روکنے ک ا عم ل مکم ل ہ و ج ائے س جدے میں گ ر جان ا‪ .‬یہ اں یہ ب ات‬
‫واضح ہے کہ یہ حکم اہل جنت کے لئے تھا یعنی کہ تمام فرشتوں اور ابلیس جو کے اس وقت عزازی ل تھ ا‬
‫اور بلند مرتبے پر فائز تھا ان سب کے لئے تھا‪ .‬اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ جس سجدے کا حکم دی ا گی ا‬
‫تھا وہ سجدہ تعظیم تھا وہ سجدہ عبادت نہیں تھا ‪ .‬فرشتوں کو آدم کی تعظیم کرنے کا حکم ہے نہ کی عب ادت‬
‫کا‪ .‬حضرت آدم میں جب روح پھونکنی گئی تو سر کی طرف سے روح پھونکنے کا آغ از ہ وا ت و حض رت‬
‫آدم کو ایک چھینک آئی جس پر فرشتوں نے کہا کہ کہ یے الحم دہللا ۔ اور جس پ ر حض رت آدم علیہ الس الم‬
‫نے الحمد ہلل کہا اور ہللا کی طرف سے جواب آیا "يا رحمه رب ك" یع نی تجھ پ ر تمہ ارا رب مہرب ان ہ و۔ ہللا‬
‫تعالی نے آدم کی روح کو مکمل ہونے سے پہلے ہی رحمت سے نواز دیا تھا۔ جیسے ہی روح آنکھ وں میں‬
‫داخل ہوئی تو جنت کے پھلوں کا مشاہدہ شروع ہوگیا ‪ ،‬سوچنے سمجھنے کا‪  ‬عمل شروع ہوگی ا اور جیس ے‬
‫ہی روح وہ پیٹ میں داخل ہوئیں تو بھوک لگنا شروع ہ وگی اور کھ انے کی طلب ہ ونے لگی۔ ابھی ٹ انگوں‬
‫تک روح پہنچی بھی نہیں تھی تھی کہ انسان کو بھوک لگنا شروع ہ و گ ئی اس س ے پتہ چلت ا ہے کہ انس ان‬
‫بہت زیادہ جلد باز مخلوق ہے ۔ ہللا نے تمام مخلوقات کو انسان ک و س جدے ک ا حکم دی ا س ب نے انس ان ک و‬
‫سجدہ کیا سوائے ابلیس کے۔‪ ‬‬
‫ہللا تعالی نے ابلیس سے پوچھا کہ تجھے کس بات نے سجدے سے روکا تو وہ تکبر میں آ گیا اور ب وال کے‬
‫میں آگ سے بنا یا گیا ہوں اور مٹی سے۔ میں اسے سجدہ کیوں کروں؟ تو سب سے پہال گناہ جو س رزد ہ وا‬
‫وہ تکبر تھا ابلیس سے سرزد ہوا اور جس نے ہللا کے حکم کی نافرمانی کی اور غرور کیا اپ نے وج ود پہ‪ ‬‬
‫جو کہ آگ سے بنایا گیا تھا اور کہا کہ میں حضرت آدم علیہ السالم کو سجدہ نہیں کروں گا جو کہ مٹی سے‬
‫بنائے گئے ہیں اور مٹی آگ سے بہتر نہیں ہوس کتی۔ اس ب ات س ے ہللا تع الی نے ابلیس ک و جنت س ے ات ر‬
‫جانے کا حکم دیا۔ جب اسے جنت سے اتر جانے کا حکم مال تو اس نے ہللا تعالی سے مہلت مانگی۔‪  ‬‬
‫ابلیس نے ہللا سے مہلت مانگی اور کہا کہ میں انسان کی وجہ س ے جنت ات روں گ ا میں ہللا تع الی س ے اس‬
‫بات کی مہلت مانگتا ہوں کہ جب تک انسان اس دنیا میں رہے گا میں اس کو گمراہی کی راہ پر ڈالت ا رہ وں‬
‫نیک کاموں سے بھٹکا کر رہا ہوں۔ اور ہللا تعالی نے ابلیس کو اس بات کی اج ازت دے دی ۔ ہللا تع الی میں‬
‫نے کہا کہ تجھے اجازت ہے کہ تو اس انسان کو گمراہ کرتا رہ۔ جس انسان ک و گم راہ ک رے گ ا میں اس ے‬
‫جنت میں نہیں داخل ہونے دوں گا اور وہ جہنم کا ایندھن بنے گا۔ ای ک اور جگہ پ ر روایت ہے کہ اس وقت‬
‫ابلیس کو ایک لقب دیا گیا جو کافر کا لقب تھا ۔ کافر اس کا مطلب ہوتا ہے نعمت ک ا انک ار ک رنے واال۔ک افر‬
‫کا لقب میں پہلی دفعہ ابلیس کے حصے میں آیاتھا اور‪  ‬یوں ابلیس جنت سے نکاال گیا ۔‬
‫‪ ‬جب ہللا تعالی نے حضرت آدم علیہ السالم کے جسم میں روح پھونک دی تو پہال ک ام یہ کی ا کہ ہللا نے اپن ا‬
‫دایاں ہاتھ حضرت آدم کی کمر پر پھیرا تو بہت سارے لوگوں کا ایک گروپ پیدا ہ وا ۔ ہللا تع الی نے فرمای ا‬

‫‪4‬‬
‫کہ یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا میں اپنے اپنے وقت پر جائیں گے آج جنتی کام کریں گے ۔ ہللا تعالی نے اپنا بایاں‬
‫ہاتھ حضرت آدم علیہ السالم کی کمر پر پھیرا تو لوگوں کا ایک گروپ پی دا ہ وا اس فرمای ا کہ یہ ل وگ دنی ا‬
‫میں اپنے اپنے وقت پر جائیں گے اور دوزخ کہ اعمال کریں گے۔ ہللا تعالی نے جب حضرت آدم کو پیدا کیا‬
‫تو آدم کی اوالد‪  ‬کی ارواح اسی دن وجود میں آگئی۔ بنی نوع انسان کو بنانے کے لیے یہ مٹی استعمال ہوئی‬
‫وہ پوری دنیا سے اکٹھی کی گئی تھیں اس لیے آدم کی اوالد میں ہر قسم کے کالے سفید سرخ‪  ‬لوگ چھوٹے‬
‫لمبے نرم دل والے اور سخت دل والے سب کے سب شامل ہوں گے۔ ان سب کو اوالد آدم کہا جاتا ہے۔‪ ‬‬
‫حضرت آدم علیہ السالم کو آدم کیوں کہا جاتا ہے اس بارے میں حضرت عب دہللا بن عب اس رض ی ہللا تع الی‬
‫عنہ سے روایت ہے‪  ‬بے ش ک ہللا تع الی نے آدم ک و جمعہ کے دن عص ر کے بع د پی دا کی ا ۔ آپ ک و ع دیم‬
‫االرض یعنی ظاہری زمین ایک مٹھی سے پیدا کیا اس لیے آپ ک و آدم کہ ا جات ا ہے۔‪  ‬اور ج و آپ کی اوالد‬
‫ہیں اس کو آدمی کہا جاتا ہے ۔ آدمی کا مطلب ہوتا ہے آدم واال ۔ حضرت آدم علیہ السالم کی کنیت ابو البش ر‬
‫ہے ۔ یعنی تمام انسانوں کے والد۔ حضرت آدم کی ایک اور کنیت بھی ہے سمجھا ہمارے نبی حضرت محمد‬
‫صلی ہللا علیہ وسلم کے وسیلے سے ہم ت ک پہنچ تی ہے ۔ یہ جنت میں اس تعمال ہ وگی ۔ جنت میں حض رت‬
‫آدم علیہ السالم کے عالوہ کسی کی کنیت استعمال نہیں ہوگی ۔ اور وہاں پہ آپ کی ک نیت اب و المحم د ہ وگی‬
‫جو جنت میں استعمال ہوگی۔‪ ‬‬
‫جب ہللا تع الی نے حض رت آدم علیہ الس الم ک ا وج ود مکم ل کردی ا ت و انہیں تم ام موج ود چ یزوں کے ن ام‬
‫سکھائے اور ہر چیز کے بارے میں تفصیل بتائی۔ اس کے بعد ہللا تعالی نے حضرت آدم کو حکم دیا ہے کہ‬
‫آپ پر اس کے پاس جاؤ اور انہیں کہو کہ اسالم علیکم ۔ آپ فرشتوں کے پاس گئے اور بلند آواز میں اس الم‬
‫و علیکم کہاتو فرشتوں نے اس کے بدلے وعلیکم ورحمۃ‪  ‬ہللا و برکاته سے ج واب دی ا۔ یع نی ہللا کی ط رف‬
‫سے تم پر رحمت ہو۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ جنت میں حضرت آدم علیہ السالم نے ج و زب ان اس تعمال کی‬
‫وہ عربی تھی۔ اور یہ کہا جاتا ہے کہ یہی جنت کی زب ان ہے۔‪  ‬اور اس ط رح حض رت آدم علیہ الس الم کے‬
‫درمیان جنت میں مقیم ہوگئے ۔ کافی عرصہ ت ک وہ فرش توں کے س اتھ رہے اور جنت کے پھل وں ک ا م زہ‬
‫اٹھاتے رہے۔ پھر انہیں اکیالپن محسوس ہونے لگا تو ہللا تعالی نے ان کی بائیں پسلی سے جب وہ س و رہے‬
‫تھے تب اماں حوا کو پیدا کیا ۔ جب وہ بیدار ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ ان کے برابر میں بیٹھا ہ وا ہے ت و‬
‫آپ نے ان سے پوچھا کہ کون ہو۔ تو انہوں نے جواب دیا عورت ۔ تو آپ نے پھر پوچھا ک ون ہ و تم جب آپ‬
‫کی ہم سفر ۔‪  ‬حضرت آدم علیہ السالم نے پوچھا کہ تمہیں کیوں پیدا کیا گیا۔ انہوں نے جواب دیا اس ل یے کہ‬
‫آپ مجھ سے سکون حاصل کر سکیں اور میری قربت آپ کو سکون دے سک‬
‫ے۔‬
‫جب فرشتوں کا وہاں سے گزر ہوا اور انہوں نے ای ک اور وج ود دیکھ ا ت و حض رت آدم علیہ الس الم س ے‬
‫پوچھا کہ یہ کون ہے ؟ حضرت آدم علیہ السالم نے جواب دیا یہ حوا ہے ۔ تو فرش توں نے س وال کی ا کہ یہ‬
‫ہے؟‪  ‬تو آپ نے فرمایا کہ یہ نام اس لیے ہے کہ اس کو ایک زندہ چیز س ے پی دا کی ا گی ا ہے ۔ اور‬
‫کیسا نام َ‬
‫اس طرح حضرت اماں حوا کا وجود جنت میں پیدا ہوا۔ پھر دونوں مل کر ک افی عرص ے ت ک رہ تے رہے۔‬
‫پھر ہللا تعالی نے حکم دیا کہ اس جنت میں جو چاہے کھاؤ جو چاہے پیو مگ ر ص رف اور ص رف ای ک یہ‬
‫درخت ہے اس کے قریب نہیں آنا اس کے پاس تمہارا آنا منع ہے۔ اوریوں اماں ح وا کے س اتھ حض رت آدم‬

‫‪5‬‬
‫علیہ السالم جوڑے کی صورت میں جنت میں مقیم ہوگئے اور یہاں ان کے جسموں پر ایک نور کا لباس تھا‬
‫اور کھانے کو مزیدار جنت کے پھل تھے اور رہنے کے لئے بہت اعلی اور مرتبے واال گھر تھا۔‪ ‬‬
‫ایسے میں ابلیس اپنا کام شروع کیا کیوں کہ اس نے ہللا س ے اج ازت لی تھی کہ وہ ب نی ن و آدم کے دل میں‬
‫وسوسہ پیدا کرے گا۔‪  ‬ہللا تعالی نے شیطان کو جنت سے اتر جانے کا حکم دیا تھا لیکن اسے اتنی صالحیت‬
‫دی تھی کہ وہ جہاں کہیں بھی ہونیک لوگوں کے دل وں میں وسوس ے پی دا کرس کتا ہے۔ اس نے اپ نی اس ی‬
‫طاقت کو استعمال کرتے ہوئے حضرت آدم علیہ السالم اور اماں ح وا کے دل میں یہ وسوس ہ پی دا کی ا کہ‬
‫تمہیں جس درخت کا پھل کھانے سے منع کیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہےکہ اس درخت کا پھ ل کھ انے س ے‬
‫دائمی زندگی کا آغاز ہوگا۔ ایک ایسی زندگی جو کبھی ختم نہیں ہوگی اور ایک اعلی قس م کی بادش اہت ج و‬
‫کہ فرشتوں کو حاصل ہے ۔ ابلیس نے اپنی بات پر یقین دلوانے کے لیے جھوٹی قسمیں بھی کھائی اور یہاں‬
‫تک کہ ہللا کی جھوٹی قسم بھی کھائی اور یہیں سے قسموں ک ا آغ از ہ وا۔ اس ط رح دھ وکہ دے بہال پھس ال‬
‫کے شیطان نے اماں حوا کے دل کو راضی ک ر لی ا کہ وہ حض رت آدم علیہ الس الم ک و بھی اس خی انت پ ر‬
‫راضی کرے ۔‪ ‬‬
‫اور کہا یہ جات ا ہے کہ اس درخت س ے پھ ل کھ انے والی س ب س ے پہلی ام اں ہ وا تھی اور انہ وں نے ہی‬
‫حضرت آدم علیہ السالم کو اس خیانت پر راضی کیا۔انبیاء‪  ‬گناہ اور خطا سے پ اک ہ وتے ہیں اور ہللا تع الی‬
‫خود ان کی حفاظت اور نگرانی فرماتے ہیں۔ انبیاء کے ہر کام میں ہللا تعالی کی رضا شامل ہ وتی ہے جیس ا‬
‫کہ ان کا اٹھنا ان کا چلنا ان کا سونا ان کا کھانا نیز ہر چیز میں ہللا کی رضا شامل ہوتی ہے۔ مگر تمام انبی اء‬
‫بشر‪  ‬یعنی انسان ہوتے ہیں ۔اور انسان کی ایک خاصیت ہے کہ اس سے بھول کا احتمال ہو جاتا ہے۔ ارج اء‬
‫لیکن جب انبیاء سے بھول ہوتی ہے تو ہللا تعالی انہیں خبردار فرماتے ہیں ۔ اور بعض دفعہ ان کی بھ ول ہللا‬
‫تعالی کی حکمت کا نتیجہ ہوتی ہے۔‪  ‬اگر ایسا نہ ہوتا تو بہت سارے انبیاء کے معجزات دیکھ کر ربوبیت کا‬
‫خطرہ پیدا ہو جاتا اور ایسا ہوا بھی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السالم کے معجزات دیکھ کر ان کے م اننے‬
‫والوں نے ان کو نعوذ باہلل خدا کا بیٹا تصور کر لیا۔ اگر انبیاء سے بھ ول نہ ہ وتی‪  ‬ت و وہ الہ بن ج اتے لیکن‬
‫انبیا الہ نہیں ہیں بلکہ بشر ہیں۔‪   ‬‬
‫اگر ہم حضرت آدم علیہ السالم کی بھول کو دیکھے تو اس کے اندر ہللا تعالی کی حکمت ہے اور وہ حکمت‬
‫یہ ہے کہ انہیں دنیا میں آکر دنیا کو آباد کرنا تھا۔‪  ‬اور جب حض رت آدم علیہ الس الم نے ممن وعہ درخت ک ا‬
‫پھل کھایا تو ان کے جسم سے نور کا لباس اتر گیا اور وہ یہاں بھاگنے لگے اور اس ص ورتحال میں انہ وں‬
‫نے اپنے جسم کو پت وں سےس ے ڈھکن ا ش روع ک ر دی ا۔ یہ حض رت آدم علیہ الس الم س ے بھی ای ک بھ ول‬
‫کااحتمال ہوا ۔ یہاں یہ‪  ‬سمجھنا ضروری ہے کہ کیا انہوں نے اپنا رویہ ابلیس جیسا رکھا؟ جس نے ہللا تعالی‬
‫کے حکم کی نافرمانی کی اور حضرت آدم علیہ السالم کو سجدہ تعظیمی سے انکار کیا اور تک بر کی ا۔ بلکہ‬
‫حضرت آدم علیہ السالم نے توبہ کی اور آپ نے خیانت کا اقرار کیا اور ہللا تعالی س ے مع افی کے طلبگ ار‬
‫ہوئے۔ ہللا تعالی رحیم و غفور ہے جب کوئی بھی شخص اس سے معافی مانگتا ہے اور اپنی خطا ک ا اق رار‬
‫کرتا ہے تو ہللا تعالی اسے معاف فرماتے ہیں۔ بالکل ایسا ہی حضرت آدم علیہ السالم کے ساتھ ہوابالکل ایسا‬
‫ہی حضرت آدم علیہ السالم اور اماں ہوا کے ساتھ ہوا۔ ہللا تع الی نے ان کے جس موں ک و لب اس عط ا فرمای ا‬

‫‪6‬‬
‫اور ان کی معافی کو قبول فرمایا مگ ر انہیں ف وری ط ور پ ر جنت س ے ات ر ج انے ک ا حکم دی ا۔ پھ ر ی وں‬
‫حضرت آدم علیہ السالم اماں حوا سمیت جنت سے اتر کر زمین پر آگئے ۔‪ ‬‬
‫‪Zameen Per Otarna Aur Amma Hwwa say milna‬‬
‫یہ بات واضح نہیں ہے کہ دونوں کو جنت سے زمین پر کہاں اتارا گیا۔ لیکن حض رت ابن عب اس رض ی ہللا‬
‫تعالی عنہ کی روایت زیادہ بہتر سمجھی جاتی ہے کہ حضرت آدم علیہ السالم کو ہند میں اور حضرت ام اں‬
‫حوا کو جدہ میں اتارا گیا۔ زمین پر اترنے کے ساتھ ہی حضرت آدم علیہ الس الم نے ام اں ح وا کی تالش ک ا‬
‫کام جاری رکھا اور باآلخر میدان عرفات میں میں ان دونوں کی مالقات ہوئی ایک دوسرے سے تعارف ہ وا‬
‫۔ کسی وجہ سے پہاڑوں کے درمیان وادی کا نام میدان عرافات ہے۔‪ ‬‬
‫‪Nasal e Insani ki afzaish‬‬
‫حضرت امام طبری رضی ہللا تعالی عنہ سے روایت ہے حضرت اماں حوا نےبیس والدتوں میں ‪ 40‬بچ وں‬
‫کو جنم دے۔ اور ہر بار ان دو بچے پیدا ہوتے تھےایک لڑکا اور ایک لڑکی ہوتی تھی۔ اور ان کی ج و پہلی‬
‫اوالد اس میں لڑکے کا نام قابیل تھا اور لڑکی کا نام قمیہ تھا۔ اس طرح انسان کی افزائش ش روع ہ وگی‪  ‬ہ ر‬
‫نسل آگے بڑھنے لگی اور حضرت آدم علیہ السالم کو اس بنی نوع انسان کے چھ وٹے س ے ق بیلے ک ا ن بی‬
‫مقرر کردیا گیا۔ اور سب کے سب ایک ہیں ہللا کی عبادت کرتے تھےاور کسی کو ہللا ک ا ش ریک بن انے ک ا‬
‫شائبہ تک نہیں تھا ۔ ہللا تعالی نے بنی نوع انسان کو سیدھا راستہ دکھانے کے لئے نبی اور رس ول دنی ا میں‬
‫بھیجے ہیں۔ یہاں ہم رسول اور نبی کا فرق جان لی تے ہیں۔ رس ول وہ ہ وتے ہیں ج و ش ریعت اور احکام ات‬
‫لےکر آتے ہیں اور لوگوں کو کو اصولوں کی پاسداری ک رواتے ہیں۔ جبکہ ن بی وہ ہ وتے ہیں جن پ ر وحی‬
‫نازل ہوتی ہے اور وہ اس وحی کے ذریعے بنی نوع انسان کو سیدھا راستہ دکھاتے ہیں۔‪ ‬‬
‫‪Habeel Aur Qabeel‬‬
‫ہم ہابیل اور قابیل جو کہ حضرت آدم کی ابتدائی اوالدوں میں سے تھے ان کی بات کر رہے تھے۔ ہللا تعالی‬
‫نے حضرت اماں حوا کو جڑواں یع نی ج وڑوں کی ص ورت میں اوالدیں تھیں جن میں س ے ای ک بیٹ ا اور‬
‫ایک بیٹی ہوتی تھی۔ حضرت آدم کی شریعت اور جو قانون ہللا تعالی نے انسانیت کو آگے بڑھانے کے لیے‬
‫بنائے تھے ان میں سے ایک قانون یہ تھا کہ حضرت آدم علیہ السالم کا پی دا ہ ونے واال ہ ر بیٹ ا اپ نے س اتھ‬
‫پیدا ہونے والی بہن کے عالوہ کسی بھی بہن سے شادی کر سکتا ہے۔‪  ‬لیکن اب اس حکم کو ختم کر دیا گی ا‬
‫ہے اور اسے حرام قرار دیا گیا ہے۔ لہذا اس وقت یہ ہوسکتا تھا کہ قابیل اپ نی ج ڑواں بہن کے عالوہ کس ی‬
‫سے بھی شادی کر لے ۔ تو یہ طے پایا کہ قابیل ہابیل کی جڑواں بہن سے ش ادی ک رے گ ا اور ہابی ل قابی ل‬
‫کی جڑواں بہن سے شادی کرے گا۔ قابیل سخت مزاج کا مالک تھا جبکہ ہابیل نرم مزاج کا انسان تھ ا۔ قابی ل‬
‫کا پیشہ کھیتی باڑی تھا جبکہ ہابیل مویشی چراتے تھے۔‪ ‬‬
‫کہا یہ جاتا ہے کہ چرواہا نرم دل کا انسان ہوتا ہے اس لئے ہابیل نرم دل کے انسان تھے۔ آپ نے یہ پای ا کہ‬
‫ہابیل کی شادی قابیل کی بہن سے ہوگی اور قابیل کی شادی ہابیل کی بہن سے ہوگی۔ مگر ہ وا یہ کے قابی ل‬

‫‪7‬‬
‫نے ایسا کرنے سے انک ار ک ر دی ا۔‪  ‬اس کی وجہ یہ تھی کہ قابی ل کی ج ڑواں بہن ہابی ل کی بہن کی نس بت‬
‫زیادہ خوبصورت تھی ۔ لیکن حضرت آدم علیہ السالم شریعت کے پاسدار تھے۔ تو حض رت آدم علیہ الس الم‬
‫کی شریعت کے مطابق قابیل اپنی جڑواں بہن اور ہابیل اپنی جڑواں بہن سے شادی نہیں کرسکتے تھے۔ ت و‬
‫نتیجہ یہ نکال کے قابیل کو اس شرح کے خالف غصہ آگیا‪  ‬اور اس نے ہابیل کو قتل کرنے کا ارادہ کرلیا۔‬
‫‪Habeel Aur Qabeel ka Hadia‬‬
‫قابیل کو غضبناک دیکھ کرحضرت آدم علیہ السالم نے فیصلہ کیا کہ ان کے دون وں بی ٹے ہللا کے حض ور‬
‫ہدیہ پیش کریں گے۔ ہدیہ پیش ک رنے ک ا رواج اس وقت یہ تھ ا کہ آس مان س ے بجلی ی ا اگ آتی تھی اور یہ‬
‫اگر اس ہدیے کو جال دیتی تھی تو یہ سمجھا جاتا تھا کہ یہ ہدیہ قبول ک ر لی ا گی ا ہے۔ اگ ر وہ اس ہ دیے ک و‬
‫نہیں جالتی تھی تو اس کا مطلب یہ ہوتا تھ ا کہ یہ ہ دیہ ہللا کی بارگ اہ میں قب ول نہیں کی ا گی ا۔ اس ط رح یہ‬
‫فیصلہ ہوا کہ دونوں بیٹے اپنی بہترین قربانی کے لئے پیش کریں گے اور ہللا نے جس کی قربانی ک و قب ول‬
‫کرلیا اس کی بات کو مانا جائے گا۔ لہذا جب قربانی کا دن آی ا ت و حض رت ہابی ل علیہ الس الم نے س ب س ے‬
‫بہترین مویشی اپنے ریوڑ سے نکال کر قربانی کے لیے پیش کر دئیے جبکہ قابی ل نے کچھ بوس یدہ س امان‬
‫اپنے گلے سے نکال کر پیش کر دیا۔ قابیل در اصل کھیتی باڑی کرتا تھا۔‪ ‬‬
‫اگلے دن جب دونوں بھائی قربان گاہ پہنچے تو دیکھتے ہیں کہ ہابیل کی قربانی ت و قب ول ہ وگی لیکن قابی ل‬
‫کی قربانی قبول نہیں ہوئی۔ اس بات نے قابی ل ک و اور غض بناک کردی ا اور اس نے پختہ ارادہ کرلی ا کہ وہ‬
‫ہابیل کو قتل کر دے گا۔ اور اس کا اظہار اس نے اپنے بھائی ہابیل سے کیا بھی کہ وہ اسے قتل کر دے گا۔‪ ‬‬
‫تو جواب میں ہابیل نے کہا کہ اگر تم مجھے قتل کرنے کے ارادے سے ہاتھ اٹھائے گا تو میں ہرگ ز تجھ پہ‬
‫ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا اور نہ ہی تجھے قتل کرنے کی کوشش کروں گا ۔کیونکہ میں یہ چاہتا ہوں کہ میرے قتل‬
‫کا گناہ بھی تمہارے مزید گناہوں کے ساتھ شامل ہو جائے۔اور میں ہللا کی بارگاہ میں کسی قسم کا گن اہ نہیں‬
‫کرنا چاہتا۔‪  ‬‬
‫‪Habeel ka Qatal‬‬
‫اور پھر ہوا یہ کہ ایک رات جب ہابیل سو رہا تھا تو قابیل نے ای ک ب ڑا س ا پتھ ر اٹھ ا کے اس کے س ر پ ر‬
‫مارا اور اس طرح ہابیل کو قتل کر دیا۔ جب قابیل نے ہابیل کو قتل کر دیا تو وہ زیادہ پریشان ہوگیا کی وں کہ‬
‫اس سے پہلے حضرت آدم علیہ السالم کی اوالد میں سے کسی کی بھی موت نہیں ہوئی تھی۔ یعنی قابی ل وہ‬
‫پہال انسان تھا جس نے بنی نوع انسان میں سے پہلی بار کسی کا ناحق قتل کیا ۔ اب قت ل کے بع د وہ اس کی‬
‫الش کا کیا کرے اسے اس بات کا علم نہیں تھا کیونکہ اس سے پہلے اس نے کبھی کس ی ک و م رتے ہ وئے‬
‫نہیں دیکھا تھا ۔ لہذا اس نے اپنے بھائی کی الش کو اپنے کندھے پر ڈاال اور تھوڑا سا آگے بڑھ ا۔ اس وقت‬
‫ہللا تعالی نے وہاں پر دو کو ّوں کو نازل کیا۔ کہ وہ آپس میں لڑنے لگے اور ایک ک ّوے نے دوس رے ک ّوے‬
‫کو مار دیا۔ تو جو کو اس زندہ بچا تھا اس نے زمین کھودنا شروع کیں اور م رے ہ وئے ک وے ک و اس میں‬
‫دبا دیا۔ اس طرح قابیل نے یہ سیکھ لیا کہ اس نے اپنے بھائی کی الش کو دفنان ا ہے۔‪  ‬اس نے اس ک وے کی‬
‫طرح اپنے بھائی کی الش کو دفن کر دیا۔‪ ‬‬

‫‪8‬‬
‫‪Qabeel ka farar‬‬
‫ہابیل اور قابیل کا مکمل ذکر ہللا تعالی نے قرآن پاک میں فرمایا ہےاور سورہ المائدہ میں ان کے قص ے ک و‬
‫مکمل طور پر بیان کیا گیا ہے۔ یہاں ہللا تعالی نے یہ بھی بتایا ہے کہ قابیل نے جب اپنے بھائی ہابیل کو قتل‬
‫کر دیا تو وہ پشیمان ضرور تھا لیکن اس نے ہللا تعالی سے پشیمانی کا اظہار نہیں کی ا ارن ا ہللا س ے مع افی‬
‫مانگی۔‪  ‬جب کہ ہمیں یہ حکم ہے کہ اگر کوئی غلطی سرزد ہو جائے چاہے وہ چھوٹی ہو یا بڑی تو ہللا کے‬
‫حضور اس کی معافی مانگی جائے۔ لیکن قابیل نے اپنے بھائی کے قت ل کے پچھت اوے کے ب اوجود اس ک ا‬
‫اظہار ہللا تعالی سے نہیں کیا۔ اس نے حضرت آدم علیہ السالم کا سامنا بھی نہیں کیا اور اپنی بیوی کو س اتھ‬
‫لے کر دور ایک جگہ پر بس گیا ۔ اور وہاں پر اس نے اپنے ہی جیسا شیطانی فطرت ای ک گ روہ جم ع کی ا‬
‫جو ہر قسم کے گناہ اور بے حیائی کو قائم رکھے ہ وئے تھے ۔ ح االنکہ وہ عب ادت ہللا ہی کی ک رتے تھے۔‬
‫جبکہ وہ لوگ جو پاک باز اور نیک تھے وہ حضرت آدم علیہ السالم کے ساتھ اپنے زندگی گ زارنے لگے ۔‬
‫اور اس کے بعد قابیل نے حضرت آدم علیہ السالم کا سامنا نہیں کیا۔ یہاں پر بنی ن و انس ان دو گروپ وں میں‬
‫تقسیم ہوگئے ایک وہ گروہ تھا جو شریر اور گناہ گار تھے انہوں نے قابیل کی پیروی کرنی شروع کر دی۔‪ ‬‬
‫نبی اکرم صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ دنی ا میں ج و بھی ن احق قت ل ہوگ ا اس ک ا کچھ نہ کچھ گن اہ‬
‫قابیل‪  ‬کی گردن پر ضرور جائے گا اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نہ حق قتل کا گناہ قائم کرنے واال تھا ۔‬
‫اس طرح دو گروپ بن گئے جو شریر اور گناہ گار لوگ تھے وہ قابیل کے ساتھ ہ و گ ئے جہ اں بے حی ائی‬
‫اور غلط کاموں کا دور دورہ تھا اور جو نیکاوالد کی وہ حضرت آدم علیہ السالم کے ساتھ رہنے لگی۔‪ ‬‬
‫‪Hazrat Shees ki paidaish‬‬
‫ہابیل کے قتل کے بعد حضرت آدم علیہ الس الم اور ام اں ح وا بہت غمگین رہ نے لگے تھے۔ ہللا تع الی نے‬
‫انہیں ایک اور تحفے سے نوازا اور انہوں نے اس کا نام شیث علیہ السالم رکھا۔ شیث کا مطلب ہوت ا ہے ہللا‬
‫کا دیا ہوا تحفہ۔ حضرت شیث علیہ السالم ہللا کے نبی تھے اور بہت نیک ان لوگوں میں سے تھے۔‪  ‬‬
‫حضرت ابوذر غفاری رضی ہللا تعالی عنہ‪  ‬سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی ہللا علیہ وس لم نے فرمای ا کہ‬
‫ہللا تعالی نے دنیا میں ایک سو چار صحیفے نازل کیے ہیں جن میں سے پچاس صحیفہ حض رت ش یث علیہ‬
‫السالم کے اوپر نازل ہوئے۔ حضرت شیث علیہ السالم نے دنی اوی علم اپ نے ب اپ حض رت آدم علیہ الس الم‬
‫س ے س یکھا تھ ا۔ لیکن وہ کبھی بھی حض رت آدم علیہ الس الم س ے زی ادہ نہیں س یکھ س کتے تھے کی ونکہ‬
‫حضرت آدم علیہ السالم کو سکھانے والی ہللا تعالی کی ذات تھی۔ حضرت آدم علیہ السالم نے اپن ا زی ادہ ت ر‬
‫علم حضرت شیث علیہ سالم کو منتقل کیا۔‪ ‬‬
‫‪Hazrat Aadam ki omar‬‬
‫یہ بات بڑی دلچسپ ہے کے تمام نبیوں کو اپنی عمر کا پتہ ہوتا ہے اسی طرح حضرت آدم علیہ الس الم ک و‬
‫بھی یہ معلوم تھا کہ ان کی عمر ایک ہ زار س ال ہے۔ لیکن ‪ 960‬س ال کے بع د جب فرش تہ ان کی روح ک و‬
‫قبض کرنے کے لئے آیا۔ اس بارے میں حض رت اب و ہری رہ رض ی ہللا تع الی عنہ س ے روایت ہے کہ ن بی‬
‫‪9‬‬
‫اکرم صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب حضرت آدم علیہ السالم کے جسم میں روح پھونکی گئی اور ہللا‬
‫تعالی نے اپنا دایاں ہاتھ آپ کی کمر پر پھیرا اور تمام بنی نوع انسان کی ارواح ک و ج و کہ قی امت ت ک پی دا‬
‫ک یے ج ائیں گے پی دا فرمای ا ۔ ت و اس وقت ان کی آنکھ وں کے درمی ان ای ک ن ور رکھ ا ہے اس ن ور س ے‬
‫حضرت آدم علیہ السالم نے تمام ارواح کو دیکھا تو انہیں ایک روح کی پیشانی چمک تی ہ وئی نظ ر آئی۔ ت و‬
‫آپ نے ہللا تعالی سے فرمایا کہ یہ کون ہے ؟ ہللا تع الی نے ج واب دی ا کہ یہ ت یری اوالد ہے ج و بہت آگے‬
‫جاکر پیدا ہوگی اور اس کا نام داؤد ہے۔ تو آپ نے ہللا تعالی س ے پوچھ ا کہ اس کی عم ر کت نی ہ وگی ؟ ہللا‬
‫نے جواب دیا کہ اس کی عمر ساٹھ سال ہوگی۔ تو آپ نے ہللا تعالی سے درخواس ت کی کہ م یری عم ر میں‬
‫سے سے چالیس سال لے کر اس کو دے دیئے جائیں۔ اس ط رح حض رت آدم علیہ الس الم کی عم ر ن و س و‬
‫ساٹھ سال رہ گئی‪  ‬کیوں کہ انہوں نے چالیس سال حضرت داؤد علیہ السالم اس کو تحفے کے ط ور پ ر دے‬
‫دیے تھے۔اصل میں حضرت آدم علیہ السالم کی زندگی ایک ہزار سال تھی لیکن انہیں ‪ 960‬سال کی زندگی‬
‫ملی۔‪ ‬‬
‫یہاں ایک روایت اور ہے کہ نبی اکرم صلی ہللا علیہ وسلم نے حض رت آدم علیہ الس الم کے کچھ اعم ال ک ا‬
‫ذکر کیا کہ کیوں کے حضرت آدم علیہ السالم یہ بھول گئے تھے کہ انہوں نے اپنی زندگی کے چالیس س ال‬
‫حضرت داؤد علیہ السالم کو تحفہ کے طور پر دیے ہیں تو ان کی اوالد کو بھی بھول کی عادت پ ڑ گ ئی ی ا‬
‫یوں کہیے کہ انہوں نے غل ط بی انی س ے ک ام لی ا ت و ان کی اوالد ک و بھی غل ط بی انی کی ع ادت پ ڑ گ ئی۔‪ ‬‬
‫حضرت آدم علیہ السالم نے خطا کی تو ان کی اوالد بھی خط اب ک رتی ہے۔ اس کے ب ارے میں ش اعر نے‬
‫کیا خوب کہا ہے‪ ‬‬
‫؎ آدم سے چل رہا ہے خطاؤں کا سلسلہ‬
‫اوالد اپنے باپ کے نقش قدم پے ہے‬
‫‪Hazrat Aadam ka aakhri waqt‬‬
‫ابی بن کعب رضی ہللا تعالی عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت آدم علیہ السالم کا وقت قریب آیا تو انہوں‬
‫نے اپنے بیٹوں کو بالیا اور کہا کہ میرا دل جنت کے پھ ل کھ انے ک و چ اہ رہ ا ہے ۔ اب یہ اں اس ب ات ک و‬
‫سمجھنا ضروری ہے کہ جنت کے پھ ل بھی بالک ل دنی ا کے پھول وں کی ط رح ہ وتے ہیں لیکن ان ک ا ذائقہ‬
‫ہمیشہ کے لئے ہوتا ہے اور وہ بدبو دار نہیں ہوتے اپنا وہ گل تے س ڑتے ہیں۔ لہ ذا حض رت آدم علیہ الس الم‬
‫نے جنت کے پھلوں کا ذائقہ چکھا ہوا تھا تو انہوں نے اپنے بیٹوں سے خواہش ظاہر کی کہ م یرا جنت کے‬
‫ہر کھانے کو جی چاہ رہا ہے۔ تو بیٹا نہیں اوزار اٹھائے اور جنت کے پھل ڈھون ڈنے کے ل ئے نک ل پ ڑے۔‬
‫راستے میں ان کا سامنا فرشتوں سے ہوا جو انسان کی شکل میں آئے تھے ۔ فرشتوں کے زمین پ ر آنے ک ا‬
‫مقصد حضرت آدم علیہ السالم کی روح کو قبض کرنا تھا اور بنی نوع آدم کو انسان کے آخ ری مراح ل ک و‬
‫سمجھانا تھا۔‪  ‬وہ اپنے ساتھ کفن اور خوشبو لے کر آئے تھے۔ جب ان فرش توں ک ا س امنا آدم کی اوالد س ے‬
‫ہوا تو انہوں نے ان سے دریافت کیا کہ تم کہاں جا رہے ہو ؟ انہوں نے بتایا کہ ہمارا باپ قریب الم رگ ہے‬
‫اور اس نے جنت کے پھل کھانے کی خواہش ظاہر کی ہے اور ہم اس کی تالش میں نکلے ہیں۔ تو فرش توں‬

‫‪10‬‬
‫نے بتایا کہ اب تم واپس جاؤں اور اس کی خدمت کرو۔ تمہ ارا ب اپ ق ریب الم رگ ہے اور اب اس میں پھ ل‬
‫کھانے کی طاقت نہیں ہے۔‬
‫جب فرشتوں نے حضرت آدم علیہ السالم کی روح قبض کرنے کے لئے آئے تو اماں حوا نے ان کو پہچ ان‬
‫لیا اور بلند آواز میں حضرت آدم علیہ السالم کو پکارنا شروع ک ر دی ا۔ ایس ے میں حض رت آدم علیہ الس الم‬
‫نے انہیں منع فرمایا‪  ‬کہ تم میرے اور میرے ہللا کے فرشتوں کے درمیان نہ آؤں۔‬
‫اس طرح حضرت آدم علیہ السالم کی روح کو فرشتوں نے قبض کرلیا۔ روح قبض کرنے کے بعد فرش توں‬
‫نے حضرت آدم علیہ السالم کو غس ل دی ا انہیں کفن پہنای ا اور انہیں خوش بو لگ ائیں اور اس کے بع د ان ک ا‬
‫جنازہ پڑھایا۔ اور اس طرح سے انہوں نے اہل دنیا کو جو اس وقت کفن دفن کے طریقوں سے ناواقف تھے‬
‫ایک مکمل طریقہ سکھایا ۔ اوریوں ہللا تعالی نے اپنے برگزیدہ بندے کو نو سو ساٹھ سال کی عم ر کے بع د‬
‫دنیا سے واپس بال لیا۔ حضرت اماں حوا کے بارے میں کہا جات ا ہے کہ حض رت آدم علیہ الس الم کی م وت‬
‫کے ایک سال بعد وہ بھی اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ اور اس طرح اس کہانی کا اختتام ہوا۔‪  ‬‬

‫‪11‬‬

You might also like