Professional Documents
Culture Documents
اسالم میں خواتین کا مقام و مرتبہ واضح ہے۔ انہیں علمی اور عملی ہرط رح کی س رگرمیاں انج ام دی نے کی
اجازت ہے۔ ان کے حقوق اور فرائض س ب متعین ک ردیے گ ئے ہیں ۔لیکن مق ِام ح یرت و افس وس ہے کہ ان
کے بارے میں اپنے اور پرایے سب غلط بیانی اور غلط فہمی کا شکار ہیں ۔ای ک ط رف اس الم کے مخ الفین
اوربدخواہ طرح طرح کے اعتراضات اور الزامات عائد ک رتے ہیں۔ وہ کہ تے ہیں کہ اس الم نے م ردوں کے
مقابلے میں عورت وں ک و پس ت درجہ دی ا ہے۔ انہیں گھ ر کی چہ ار دی واری میں قی دی بناکررکھ اہے۔ ان پ ر
حجاب کی بندشیں عائد کرکے انہیں سماج سے بالکلیہ کاٹ دیاہے اور کسی کو ان کی علمی صالحیتوں سے
فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں ۔ ظاہر ہے کہ یہ اور اس طرح کے دیگر اعتراضات اسالم کی ص حیح تعلیم ات
سے ن اواقفیت ک ا ن تیجہ ہیں۔ لیکن دوس ری ط رف یہ بھی ای ک تلخ حقیقت ہے کہ اس الم کے ن ام لی واؤں نے
اس الم میں خ واتین کے مق ام و م رتبہ ک ا ص حیح تع ارف نہیں کرای ا ہے۔ یہی نہیں ،بلکہ ان ک ا عملی رویّہ
مخالفین اسالم کے مذکورہ باال اعتراضات کی تائید و توثیق کرتاہوانظر آتاہے۔
ِ
دور زوال میں مسلم خواتین ک و ان ک ا ص حیح مق ام نہیں دی ا گی ا۔ انہیں محض یہ واقعہ ہے کہ مسلمانوں کے ِ
توال د و تناس ل ک ا ای ک آلہ س مجھاگیا۔ ص رف بچ وں کی پ رورش کرن ا اور گھ ر گرہس تی کے ک اموں میں
یل علم کے رض منص بی ق رار دیاگی ا۔علم کے دروازے ان پ ر بن د رکھے گ ئے۔ تحص ِ ِ مصروف رہنا ان کا ف
ّ
مواقع سے محرومی ان کا مقدر ٹھہری اور افسوس کی ب ات ت ویہ کہ اس ظلم و ج بر اور ح ق تلفی کے ل یے
ث نبوی سے س ن ِد ج واز ف راہم کی گ ئی۔ کہاگی ا کہ ہللا کے رس ول ﷺ نے عورت وں ک و ’ن اقص العق ل‘ احادی ِ
قراردیاہے۔[صحیح البخاری ،کتاب الزکاۃ ،باب الزکاۃ علی االقارب] ۱۴۶۲،اور اس سے م راد یہ لی گ ئی کہ
ان میں عقل و فہم اور غور و فکر کی صالحیتوں کی کمی ہوتی ہے ،حاالں کہ جس موقع پ ر ہللا کے رس ول
ﷺ نے یہ بات ارشاد فرمائی تھی وہ وعظ و ارشاد اور تعلیم و تلقین کی مجلس تھی ،نہ کہ کوئی قانون
انداز بیان الگ الگ ہوتا ہے۔ م اہرین
ِ بتانے اور حکم لگانے کا موقع۔ اور سب جانتے ہیں کہ دونوں مواقع پر
کہتے ہیں کہ عورتوں پر عقل کے مقابلے میں جذبات غالب رہتے ہیں اور مردوں پر جذبات کے مقابلے میں
عقل کا غلبہ رہتا ہے۔اور یہی دونوں کی ضروریات کے عین مطابق ہے۔اس حدیث میں درحقیقت جذبات کے
مق ابلے میں عق ل کی کمی کی ب ات کہی گ ئی ہے۔[مالحظہ کیج یے :محم د علی الص ابونی ،من کن وز
السنۃ:دراسات أدبیۃ و لغویۃ من الح دیث الش ریف ،مکتبۃ االقص ٰی مکۃ المک رمۃ۱۹۷۰ ،ء ،ص ،۱۵۴س میعۃ
نازش ،مقالہ:داللۃ سیاق بعض االحادیث حول المرأۃ مقاالً و مقاماً ،سہ ماہی الدراس ات االس المیۃ ،اس الم آب اد،
جلد ،۵۱شمارہ،۴اکت وبر۔دس مبر۲۰۱۶ء ]اس ی ط رح کہ ا گی ا کہ ہللا کے رس ول ﷺ نے عورت وں ک و لکھن ا
سکھانے سے منع کی ا ہے۔[ اس کی روایت ابن حب ان ،ح اکم اور بیہقی نے کی ہے۔]ح االں کہ یہ روایت س ند
کے اعتب ار س ے انتہ ائی ض عیف ،بلکہ موض وع ہے۔[ مالحظہ کیج یے :محم د ناص ر ال دین االلب انی،سلس لۃ
االحادیث الضعیفۃ و الموض وعۃ و أثرھ ا الس ئ علی االمۃ ،۵/۳۰ ،ح دیث نم بر ،۲۰۱۷ن یز سلس لۃ األح ادیث
الصحیحۃ ،جلد اول ،جز اول ،ص۳۴۶۔ ۳۴۷۔ مزید مالحظہ کیجیے:الشیخ شمس الحق عظیم آبادی کا رس الہ’
عقود الجمان فی جواز تعلیم الکتابۃ للنسوان‘۔]
خواتین کا امتیازی کردار
اسالمی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو سماج کی تعمیر و ترقی میں خ واتین ک ا ک ردار ب ڑا درخش اں اور مث الی
نظر آتاہے۔ان کی خدمات ہمہ جہت ہیں ۔ خاص طور سے علوم و فنون کی اشاعت کے می دان میں انہ وں نے
بہت سرگرمی سے حصہ لیا ہے۔ اسالم کی ابتدائی صدیوں میں ان کا یہ کردار بہت نمایاں نظر آتاہے۔
علم کی نسل در نسل منتقلی میں خواتین نے اہم کردار نبھایا ہے۔ انہوں نے قرآن کریم حف ظ کی اہے اور حف ظ
کرایاہے،تجوید اور علم قراء ت میں مہارت حاصل کی ہے اور دوس روں ک و یہ فن س کھایا ہے،اپ نے ش یوخ
ث نبوی کا سرمایہ حاصل کیا ہے اور پوری حفاظت کے ساتھ اسے دوسروں ت ک پہنچای ا ہے ،فقہ سے احادی ِ
ٰ
سے اشتغال رکھاہے اور اپنے فتاوی کے ذریعہ عوام کی رہ نمائی کی ہے ،زہد وتصوف میں شہرت حاصل
کی ہے اور وعظ وارشاد کی محفلیں سجائی ہیں ۔ الغرض علوم و فنون اور خاص طور پر اس المی عل وم ک ا
مرہون منت نہ ہو۔
ِ کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جو خواتین کا
خواتین کے ذریعہ علوم کی سرپرستی
فروغ علم کا ایک اہم ذریعہ یہ ہے کہ تعلیم وتربیت کے ل یے مک اتب ،م دارس ،رباط ات ،ادارے اور مراک ز
ِ
قائم کیے جائیں ،ان کے لیے اوقاف خاص کیے ج ائیں ،ان میں تعلیم دی نے وال وں کے ل یے وظ ائف مق رر
کیے جائیں اور تعلیم حاصل کرنے والوں کے مصارف برداشت کیے ج ائیں ۔جن لوگ وں نے خ ود ک و علمی
کاموں کے لیے وقف کررکھاہے انہیں معاشی تگ ودورکرنے سے آزاد رکھا جائے۔ اسالمی تاریخ بتاتی ہے
کہ حکم راں طبقے س ے تعل ق رکھ نے والی اور دولت وث روت س ے بہ رہ ور خ واتین نے ہ ر دور میں یہ
خدمات انجام دی ہیں ۔ یہاں صرف چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں :
عباسی خلیفہ ہارون رشید (م۱۹۳ھ)کی بیوی زبیدہ بنت جعفر (م ۲۱۶ھ) کو رفاہی ک اموں کی انج ام دہی کے
مع املے میں بہت ش ہرت حاص ل ہے۔ اس ے ق رآن مجی د کی تعلیم س ے بہت دل چس پی تھی۔ ابن خلک ان نے
لکھاہے کہ اس نے اپنی سو ( )۱۰۰باندیوں کو اس کے لیے فارغ کررکھاتھا:
کان لھا ماءۃ جاریۃ یحفظن القرآن ،ولکل واحدۃ ِورد ُعش ر الق رآن ،وک ان یس مع في قص رھا ک دو ّ
ي
النحل من قرا ء ۃ القرآن (وفیات األعیان۳ ،؍)۳
رآن ک ریم کی تالوت اور حف ظ میں مش غول رہ تی
’’اس کی سو سے زیادہ باندیاں تھیں ،جو زیادہ ت ر وقت ق ِ
تھیں ۔ ان میں س ے ہ ر ای ک ق رآن کے دس ویں حص ہ کی تالوت ک رتی تھی۔ مح ل میں ان کی آواز ش ہد کی
مکھیوں کی بھنبھناہٹ کے مثل سنائی دیتی تھی۔‘‘
زم ّرد خاتون(۵۵۷ھ) ،جو دمشق کے حکم راں الملک دقّ اق کی بہن تھیں ،انھ وں نے ای ک مدرس ہ ق ائم کی ا
تھا ،جو المدرسۃ الخاتونیۃ البرانیۃ کے نام سے معروف تھا۔[ال زرکلی ،االعالم۳،؍] ۴۹عائش ہ ہ انم ( ب ارہویں
صدی ہجری) نے ۱۱۵۴ھ میں ایک مسافر خانہ تعمیر کرایا تھا جس کو ’ سبیل عائشہ ہانم ‘ کہا جاتا تھا۔ اس
کے اوپر انھوں نے قرآن کی تعلیم کے لیے ایک مکتب قائم کیا تھا اور ان دونوں کے مصارف کے لیے بہت
سی جائیدادیں وقف کر دی تھیں اور اپنے ورثاء کو ان کا متولّی بنا دیا تھا۔ [ عمر رض ا کح الۃ،اعالم النس اء،
۳؍ ] ۱۹۴یمن کے سلطان الملک المظفر کی بیوی مریم نے زبید میں المدرسۃ المجاھدیۃ قایم کیا ،اس میں ی تیم
اور غریب بچوں اور دیگر طالب علموں ک و داخ ل کی ا ،اس میں ام ام ،م ؤذن اور معلّم ک و رکھ ا اوراس کے
مصارف کے لیے وق ف ک ا معق ول نظم کی ا۔[عم ر رض ا کح الۃ،اعالم النس اء۵ ،؍]۴۰الس یدۃ ملکۃ بنت اب راہیم
البعلیۃ الدمشقیۃ نے خواتین کے لیے مخصوص ایک رباط قائم کیا ،جس میں قرآن مجید کے حف ظ اور ح دیث
نبوی کی تعلیم کا نظم کیا۔[ عمر رضا کحالۃ،اعالم النساء۲،؍]۳
صحابیات و تابعیات کی علمی خدمات
علوم اسالمیہ کی اشاعت و ترویج کا کام عہ ِد نبوی اور عہ ِد صحابہ ہی سے شروع ہو گیا تھا اور خواتین نے
لمہ
عائشہ اور حضرت ام س ؓؓ اس میں سرگرمی سے حصہ لیا تھا۔۔امہات المومنین میں خاص طور پر حضرت
عائشہ نہایت ذہین اور غ یر معم ولی ح افظہ کی
ؓ نے بڑے پیمانے پر امت کو علمی فیض پہنچایا ہے۔حضرت
مالک تھیں ۔ چنانچہ انہوں نے رسول ہللا ﷺ سے سنی ہوئی ہر بات کو اس کی صحیح ترین اور کام ل ت رین
شکل میں یادرکھ ا اور آپ کے جن اعم ال ک ا مش اہدہ کی ا ان ک و بھی پ وری ط رح س مجھ ک ر اپ نے ذہن میں
محفوظ رکھا۔وہ رسول ہللا ﷺ کی وفات کے بعد پچاس( )۵۰برس تک زندہ رہیں اور مسلمانوں کی دونس لوں
آپ کی تعلیمات کو پہنچانے کا ذریعہ بنیں ۔وہ ایک قسم کا’ زندہ ٹیپ ریکارڈ‘ بن کر تقریباًنص ف ص دیتک ؐ
تک امت کے حق میں فیض رسانی ک ا ذریعہ ب نی رہیں ۔(ڈاک ٹر فری دہ خ انم ،امہ ات الموم نین ،الرس الہ ب ک
سینٹر ،نئی دہلی ۲۰۰۱ء ،ص۹۔)۱۰
عائشہ سے دوہ زار دوس ودس( )۲۲۱۰اح ادیث م روی ہیں ۔ان س ے دو س و نن انوے( )۲۹۹ص حابہ ؓ حضرت
سلمہ کا شمار فقہ ائے ص حابیاتؓ وتابعین نے روایت کی ہے ،جن میں سڑسٹھ( )۶۷خواتین تھیں ۔ حضرت ام
ٰ
فتاوی جمع کیے جائیں تو ایک رس الہ تی ار ہوس کتاہے۔ قیم نے لکھاہے کہ اگر ان کے
میں ہوتاہے۔عالمہ ابن ؒ
[ اعالم الم وقعین ،ابن قیم ،دار الکتب العلمیۃ ،ب یروت۱۹۹۶ ،ء۱،؍۱۰۔]۱۲ان س ے ای ک س و ای ک (
)۱۰۱صحابہ وتابعین نے روایت کی ہے ،جن میں تیئس()۲۳خواتین ہیں ۔اح ادیث کی روایت میں ص حابیات،
تابعیات اور بعد کی خواتین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔یہاں صرف چند مشہور خ واتین ک ا ت ذکرہ کی ا ج ا
رہا ہے:
المسیب (م۹۴ھ)بڑے علم و فضل کے مال ک تھے۔ ان کے حلقۂ درس س ے بے ؒ سید التابعین حضرت سعید بن
شمار لوگوں نے فائدہ اٹھایا اور ان سے احادیث روایت کیں ۔ ان کی صاحب زادی ’د ّرۃ‘ نے ان س ے م روی
تمام احادیث حفظ کرلی تھیں ۔خلیفۂ وقت عبد الملک بن مروان(م۸۶ھ) نے اپنے بی ٹے اور ولی عہ د ولی دکے
لیے ان کا رشتہ مانگا ،لیکن ابن المسیب ؒ نے انکار کردی ا اور ان ک ا نک اح اپ نے ای ک ش اگرد ابن ابی وداعہ
المسیب کی علمی مجلس میں جانے لگے ت و ؒ سے کردیا۔ نکاح کے کچھ روز کے بعد جب شوہر حضرت ابن
بیوی نے کہا :اجلس أعلّمک علم سعید۔’’یہیں رہیے۔ (میرے والد )حضرت سعیدؒ کے پاس جو علم ہے وہ میں
ہی آپ کو دے دوں گی۔‘‘( ابن الحاج ،المدخل۱ ،؍،۲۱۵ابن سعد،الطبقات۵ ،؍ ،۱۳۸ابو نعیم ،حلیۃ االولیاء۲ ،؍
)۱۶۷
انس (م۱۷۹ھ)کی صاحب زادی کو پوری مؤطا یاد تھی۔ان کے بارے میں بیان کیاگی اہے کہ وہ امام مالک بن ؒ
اپنے والد کے حلقۂ درس میں دروازے کی اوٹ سے شریک رہتی تھیں ۔ احادیث پڑھ نے میں ک وئی ش خص
غلطی کرت ا ت و وہ دروازہ کھٹکھٹادی اکرتی تھیں ۔ ام ام مال ک س مجھ ج اتے اور پڑھ نے والے کی اص الح
کردیتے تھے۔[ابن فرحون ،الدیباج المذھّب فی أعیان علماء المذھب۱ ،؍]۸۶
فاطمہ بنت منذر بن زب یر بن الع وام عظیم مح دثہ اور فقیہہ تھیں ۔انہ وں نے بہت س ی اح ادیث کی روایت کی
بکر سے۔ان کی بیش تر روایات ان کے شوہر حض رت ہے،خاص طور پر اپنی دادی حضرت اسماء بنت ابی ؓ
روی ہیں ۔ ےم طے س روہ ؒ (م۱۴۶ھ)کے واس ام بن ع ہش
نفیسہ بنت الحسن بن زید بن الحسن بن علی بن ابی طالب(م ۲۰۸ھ)،جو امام جعفر صادقؒ کی بہو تھیں ،ب ڑی
ب علم و فضل خاتون تھیں ۔ وہ ا پنے شوہر اسحاق مؤتمن کے ساتھ مدینہ سے مصر چلی گئیں تو وہ اں صاح ِ
ان کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔ چنانچہ لوگ علم کی پیاس بجھانے کے لیے جوق درجوق ان کے گھر
افعی ک ا ہے ،ج و ان س ے علمی اس تفادہ
کا رخ کرتے تھے۔ان کے شاگردوں میں سب سے مشہورنام ام ام ش ؒ
یر ق رآن دون وں کی ب ڑی
کے لیے برابر ان کے گھر تشریف لے جایا کرتے تھے۔ سیدہ نفیسہ حدیث اور تفس ِ
عالمہ تھیں ۔ انہیں پورا قرآن حفظ تھا۔ وہ احادیث بھی روایت ک رتی تھیں ۔ م ورخین نے دون وں می دانوں میں
ان کی عظمت ومہارت کا تذکرہ کیاہے۔زرکلی نے لکھ اہے :ع المۃ بالتفس یر والح دیث[ال زرکلی ،االعالم۸ ،؍
] ۴۴
’’وہ تفسیر اور حدیث کی عالمہ تھیں ۔‘‘سیدہ نفیسہ کی علمی عظمت کا اعتراف ہی ہے کہ ت اریخ میں ان کی
شہرت ’نفیسۃ العلم‘ کے نام سے ہے۔
مساجد میں خواتین کے حلقے
آج ہمارے درمیان اس موضوع پر مباحثے جاری ہیں کہ مساجد میں خواتین کا داخلہ ج ائز ہے ی ا نہیں ؟جب
کہ ابتدائی صدیوں میں خواتین کے علمی دروس کی مجلسیں منعقد ہونا ایک ع ام ب ات تھی۔ وہ اپ نے گھ روں
میں ،دوسروں کے گھروں میں ،مسجدوں میں ،مدارس اور رباطات میں ،باغات میں اور دیگر مقام ات میں
مسن ِد تدریس پر بیٹھتی تھیں اور ان سے استفادہ کرنے والوں میں مرد اور خ واتین دون وں ہ وتے تھے۔ اس الم
میں تین مسجدوں (مس ج ِد ح رام ،مس ج ِد نب وی اور مس جد اقص ٰی) کی غ یر معم ولی اہمیت ہے۔ م ؤرخین نے
صراحت کی ہے کہ ان سب میں خواتین کی علمی مجلسیں منعقد ہوتی تھیں اور وہ باقاعدہ درس دیتی تھیں۔
مسجد حرام میں درس دینے والوں میں ام محمد سارہ بنت عبدالرحمن المقدس یۃ،مس جد نب وی میں درس دی نے
والی خواتین میں ام الخیر وام محمد فاطمہ بن ابراہیم بن محمود بن جوھر البعلبکی المعروف بالبطائحی،قاضی
القضاۃ شیخ تقی الدین سلیمان بن حمزہ کی بیوی زینب بنت نجم ال دین اس ماعیل المقدس یۃ ،ام محم د زینب بنت
اقصی میں درس دینے والی خواتین میں ام ال درداء الت ابعیۃاورام محم د ھ دیۃ
ٰ احمد بن عمر المقدسیۃاورمسجد
بنت علی بن عسکر البغدادی ( ۸؍ ویں صدی ہجری) شہرت رکھتی ہیں۔
اسالمی ت اریخ میں دمش ق کی مس جد ام وی کی بھی غ یر معم ولی اہمیت ہے۔ اس میں بھی خ واتین کی درس
وتدریس کی مجلسیں قائم ہوتی تھیں ۔ابن بطوطہ نے اپنے سفر نامے میں لکھاہے کہ اس نے مسج ِد اموی کی
زیارت کی اور وہاں متعدد خواتین ،مثالً زینب بنت احم د بن اب راہیم اور عائش ہ بنت محم د بن مس لم الح رّانیۃ
سے حدیث کی سماعت کی۔
خواتین۔ اکاب ِر امت کی معلّمات
دور عروج میں خواتین کے افادہ کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ان س ے دیگ ر خ واتین بھی اس تفادہ ک رتی اسالم کے ِ
تھیں اور مرد بھی فیض اٹھانے میں پیچھے نہیں رہتے تھے۔ اس پر نہ صحابہ اور ت ابعین نے نک یر کی اور
نہ بعد کی صدیوں میں محدثین اور فقہ اء نے کبھی اس پ ر پابن دی عائ د ک رنے کی کوش ش کی۔ خ واتین کے
فخر کے لیے یہ بات کافی ہے کہ ان کی مجلسوں میں بڑے بڑے علماء و فقہاء و محدثین حاضر ہ وتے تھے
تاریخ اسالم کی چند اہم شخصیات اور ان کی معلّمات کا تذکرہ کی ا جات ا ِ اور ان سے استفادہ کرتے تھے۔ یہاں
ہے :
ذہبی (م۷۴۸ھ)نے اپنی کتاب’ معجم شیوخ الذھبی‘ میں ،اسی ط رح عالمہ ابن حج ؒر (م۸۵۲ھ) نے اپ نی امام ؒ
ّ
کتاب’ المعجم المؤسس للمعجم المفہرس‘ میں اپ نی بہت س ے معلم ات اور ش یخات ک ا ذک ر کی اہے۔انہ وں نے
الدرر الکامنۃ في أعیان الماءۃ الثامنۃاور انباء الغمر فی أنباء العم ر میں بہت س ی خ واتین ک ا ت ذکرہ کی اہے۔ان
سخاوی (م۹۰۲ھ)نے اپنی کتاب الضوء الالمع ألھل القرن التاسع کی ایک جل د خ واتین کے ؒ کے شاگرد عالمہ
ّ
لیے خاص کی ہے۔ انہوں نے ایک ہزار ستر()۱۰۷۰خواتین کا تذکرہ کیاہے ،جن میں سے زیادہ تر مح دثات
سیوطی (م ۹۱۱ھ)نے متعدد خواتین سے علم حاصل کی ا۔ مثالً ام ہ انی بنت ؒ و فقیہات تھیں ۔ عالمہ جالل الدین
الھووینی ،ام الفضل بنت محمد المقدسی ،خدیجہ بنت ابی الحس ن المقن،نش وان بنت عب دہللا الکن انی،ھ اجر بنت
محمد المصریۃ ،امۃ الخالق بنت عبداللطیف العقبی وغیرہ۔ انہوں نے اپ نی معجم اور دیگ ر مؤلف ات میں ان ک ا
حزم (م۴۵۶ھ) کی تعلیم وتربیت میں متع دد خ واتین تذکرہ کیا ہے اور ان کی روایات بیان کی ہیں ۔عالمہ ابن ؒ
ک ا اہم ک ردار ہے ،جنہ وں نے انہیں ق رآن ک ریم کی تعلیم دی،لکھن ا پڑھن ا س کھایا اور ان میں ش عری ذوق
دادی (م)۴۶۳نے ط اہرہ بنت احم د بن یوس ف ؒ زم نے ب رمال اع تراف کی اہے۔خطیب بغ پی داکیا۔ اس ک ا ابن ح ؒ
التنوخیہ سے سماعت کی ،جو بڑی محدثہ اور فقیہہ تھیں ۔ جلیلۃ بنت علی بن الحسن الش جری نے ع راق اور
سمعانی (م۵۶۲ھ)اور دیگر علمائے کبار نے ان س ے فیض اٹھای ا۔اب وعمر ومس لم بن ؒ شام کا سفر کیا توعالمہ
ّ
دی (م ۲۲۲ھ) نے س تر( )۷۰خ واتین س ے روایت کی ہے۔اس ط رح ابوالولیدہش ام بن اب راہیم االزدی الفراھی ؒ
اکر (م
ؒ عس ابن ظ حاف اہے۔ ملت ام ن ا ک واتین خ )۷۰ ر(ّ ت س بھی میں یوخ ش کے ھ)۲۲۷ عب دالملک الطیالس ؒی (م
اس ی()۸۰س ے متج اوز ۵۷۱ھ) نے جن خواتین سے استفادہ کیا اور ان سے احادیث روایت کیں ان کی تع داد ّ
ہے۔ ابوعبدہللا محم د بن محم ود بن النج ؒار (م ۶۴۳ھ)کے اس اتذہ اور ش یوخ میں تین ہ زار ( )۳۰۰۰م رد اور
چار سو( )۴۰۰خواتین تھیں ۔ حافظ ابن حجر ؒ نے تقریب التہذیب میں تیسری صدی ہجری کے اوائل ت ک آٹھ
ت ح دیث میں ش ہرت حاص ل تھی۔ علم ح دیث سو چوبیس( )۸۲۴خواتین کے نام ذک ر ک یے ہیں ،جنھیں روای ِ
کی اشاعت و ترویج کے میدان میں زمانہ کے اعتبار سے بھی کتابیں لکھی گئی ہیں ،مق ام کے اعتب ار س ے
بھی اور عمومی انداز میں بھی۔[ مثالً مالحظہ کیجیے :آمال قرداش بنت الحسین ،دور المرأۃ فی خدمۃ الحدیث
االولی ،وزارۃ االوقاف ،الدوحۃ۱۴۲۰،ھ،صالح یوسف معتوق ،جہود المرأۃ فی روایۃ الث امن ٰ فی القرون الثالثہ
الھجری) ،دار البشائر االسالمیۃ ،بیروت ،ال دکتور محم د بن ع زوز،جھ ود الم رأۃ الدمش قیۃ فی روایۃ الح دیث
الشریف،الشیخ مسھور حسن سلمان ،عنایۃ النساء بالحدیث النبوی ،عالیۃ عبد ہللا محمد بالطو الح دیث ( الق رن ،
االستاذۃ المساعدۃ بکلیۃ اعداد المعلّم ات بمکۃ المک رمۃ ،ت راجم المح دثات من التابعی ات و مروی اتھن فی الکتب
الستۃ :جمع و دراسۃ و تعلیق(،رسالۃ ماجستیر)ڈاکٹر محمد اکرم ندوی (آکسفورڈ) نے محدثات پر غیر معمولی
اور زبردست ک ام کی اہے۔ انہ وں نے چ الیس جل دوں میں دس ہ زار س ے زائ د ایس ی خ واتین ک ا ت ذکرہ جم ع
ث نب وی کی روایت ،تعلیم وت دریس اور تص نیف و کردیاہے جنہوں نے چودہ سو برس کے عرصے میں حدی ِ
تالیف کی خدمت انجام دی ہے۔ان کی کتاب کا ن ام ہے :الوف اء في أس ماء النس اء :ت راجم نس اء الح دیث النب وی
الشریف۔ اس کی پہلی جلدحال میں شائع ہوئی ہے۔ بقیہ جلدوں کی اشاعت ابھی ہ ونی ہے ،البتہ اس ک ا مق دمہ
انگریزی زبان میں )Al-Muhaddithat(The women Scholars in Islamکے نام سے شائع ہوگیاہے۔
یر ق رآن ،علم ق راء ت اور فقہ میں بھی خ واتین علم حدیث کے عالوہ اسالمیات کے دیگر میدانوں ،مثالً تفس ِ ِ
ٰ
الصغری ،جن کا نام ھجیمۃ بنت ح یی االوص ابیۃ تھ ا، کی عظمت مسلّم تھی۔ مشہور تابعیہ حضرت ام الدرداء
انہیں علم ق راء ت میں مہ ارت حاص ل تھی۔[ ابن الج زری المق ری ،غ ایۃ النہ ایۃ فی طبق ات الق رّاء )ف اطمہ
نیشاپوریہ(چوتھی صدی ہجری) حافظۂ قرآن ،عالمہ ،مفسّرہ ،اور فقیہہ کی حیثیت سے مش ہور ہ وئیں ۔ انھیں
علم قراء ت میں بھی کمال حاصل تھا۔ حج کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لے گئیں ت و وہ اں درس دین ا ش روع ِ
کیا۔ رفتہ رفتہ ان کا حلقۂ درس وسیع ہوتا گیا اور ان کی شہرت دور دراز عالق وں ت ک پہنچ گ ئی۔ اس ی وجہ
سے انھیں ’ مفسّرہ فاطمہ نیشاپوریہ ‘ کہا جاتا تھا۔[عمر رضا کحالۃ،أعالم النس اء۴،؍۱۴۷۔] ۱۴۸ام الع ز بنت
ت س بعہ میں مہ ارت حاص ل تھی۔ [عم ر س بعہ محمد بن علی بن ابی غالب العبدری الدانی(۶۱۰ھ) کو ق راء ا ِ
ت میں مہ ارت رضا کحالۃ،أعالم النساء۳،؍] ۲۶۹خدیجۃ بنت ہارون (م۶۹۵ھ) عمدہ قاریہ تھیں ۔ ان کو ق راء ا ِ
فن قراء ت کی کتاب ’الشاطبیۃ‘ انہیں پوری ازبر تھی۔ [عمر رضا کحالۃ،أعالم النس اء۱،؍] ۳۴۵ حاصل تھی۔ ِ
خدیجۃ بنت قیم البغدادیۃ(م۶۹۹ھ) قرآن مجید کی بہت عمدہ ق اریہ تھیں۔ بہت س ے لوگ وں نے ان س ے تجوی د
اور قراء ت کا علم حاصل کیا تھا۔ وعظ و ارشاد کی مجلسیں منعقد کرتی تھیں ،جن میں لوگ ب ڑی تع داد میں
سلمی بنت محمد الج زری( ن ویں ص دی ہج ری) سریک ہوتے تھے۔ [عمر رضا کحالۃ،أعالم النساء۱،؍ٰ ] ۳۳۹
اپنے وقت کی مشہور قاریہ تھیں ۔ دس( )۱۰قراء توں کے س اتھ ق رآن پڑھ تی تھیں ۔[ ب دوی خلی ل ،ش ھیرات
النساء،ص ] ۱۴۵فاطمہ بنت محمد بن یوسف بن احمد بن محمد الدیروطی (نویں صدی ہج ری) ب ڑی ع المہ و
علم قراء ت میں مہ ارت حاص ل تھی۔ ان س ے عورت وں اورم ردوں کی ای ک ب ڑی فاضلہ خاتون تھیں۔ انھیں ِ
جم اعت نے اس تفادہ کی ا۔[عم ر رض ا کح الۃ،أعالم النس اء۴،؍] ۱۴۱امۃ الواح د بنت الحس ین بن اس ماعیل(م
۳۷۷ھ)فقہ شافعی میں غیر معمولی درک رکھتی تھیں۔ اس کے عالوہ علم الفرائض ،حساب اور نح و کی بھی
ماہر تھیں ۔ حدیث کی بھی روایت ک رتی تھیں ۔ ف اطمہ البغ دادیۃ ک و فقہ حنبلی کے تم ام اص ول و ف روع میں
قدامہ المقدسی کی کتاب المغ نيپوری ازب ر تھی۔ ان س ے فقہ حنبلی ؒ خوب مہارت حاصل تھی۔ انہیں عالمہ ابن
کے بارے میں کوئی س وال کیاجات اتو اس ک ا نص وص کی روش نی میں ج واب دی تی تھیں۔ انہ وں نے فقہ کی
تیمیہ (م۷۲۸ھ) س ے حاص ل کی تھی۔[ابن رجب ،ال ذیل علی طبق ات الحن ابلۃ۴ ،؍]۴۶۷س ت ؒ تعلیم عالمہ ابن
الوزراء (م۶۳۷ھ) کو فقہ حنفی میں مہارت حاصل تھی۔ انھوں نے امام ابو حنیفہ ؒ (م ۱۵۰ھ)کی فقہ ک ا زی ادہ
تر حصہ یاد کر رکھا تھا۔ [ عمر رضا کحالۃ،أعالم النساء۲،؍] ۱۷۴
خواتین کا ایک اہم ترین اعزاز
علم حدیث کے میدان میں خواتین کے شرف اور فخر کے لیے یہ بات کافی ہے کہ جہ اں اح ادیث کی روایت ِ
وضع حدیث ک ا ال زام لگای ا گی ا ہے اور ض عف
ِ پر ان ہے، کیاگیا ہمّ ت م کو تعداد بڑی کی مردوں والے کرنے
کی وجہ سے ان کی روایات قبول نہیں کی گ ئی ہیں ،وہ اں ای ک ع ورت بھی ایس ی نہیں پ ائی گ ئی ج و اس
بی (م۷۴۸ھ) نے ص اف الف اظ میں اس کی ’عیب‘ سے داغ دار ہو۔ امام الجرح والتعدیل عالمہ شمس الدین ذہ ؒ
شہادت دی ہے۔ انہوں نے لکھاہے:
وما علمت فی النساء من اتّھمت ،والمن ترکوھا( ذہبی،میزان االعتدال۴ ،؍)۶۰۴
ت حدیث میں ایک بھی عورت متّہم ہوئی ہو اور نہ مح دثین نے ض عف کی وجہ
’’مجھے نہیں معلوم کہ روای ِ
سے کسی ایک عورت کو ترک کیاہے۔‘‘
خواتین۔ مردوں سے آگے
تاریخ اسالم میں ایسی بھی بہت سی مثالیں مل تی ہیں کہ کت اب و س نت کے فہم اور عل وم اس المیہ کی نش ر و
ِ
اشاعت میں خواتین کا کردار مردوں سے بڑھ کررہا ہے۔ اس طرح انھوں نے عملی طور پر ثابت کردی ا ہے
کہ عورتوں کے ’ن اقص العق ل‘ ہ ونے ک ا مطلب یہ نہیں کہ ان کے ان دفہم و اس تنباط اور ابالغ و ترس یل کی
صالحیتیں مردوں سے کم تر ہوتی ہیں ۔یہاں چند ایسی ممتاز خواتین کا تذکرہ دل چسپی سے خالی نہ ہوگا :
فہم قرآن میں بھی ان کا مقام بہت ؒ
سیرین (۱۰۱ھ)بلند پایہ کی محدثہ تھیں ۔ ِ مشہور تابعیہ حضرت حفصہ بنت
ؒ
سیرین کو ک وئی اعلی تھا۔ علم قرا ء ت میں ان کو اس قدر مہارت حاصل تھی کہ جب ان کے بھائی محمد بن
ٰ
مشکل پیش آتی تو فرماتے’’:حفصہ سے پوچھو کہ وہ کیسے پڑھتی ہیں ؟‘‘
شیخہ صالحہ(چھٹی صدی ہجری) ،عبدالواحد بن محمد بن علی بن احمد الشیرازی(جو ابوالفرج کے لقب سے
مش ہورتھے)کی ص احب زادی اور زین ال دین علی بن اب راہیم بن نج ا(ج و ابن النجیّہ کے ن ام س ے مع روف
تھے)کی والدہ تھیں ۔شیخ ابوالفرج اپنے وقت میں شام کے مشہور شیخ اور فقہ حنبلی کے ام ام تھے۔ فقہ میں
ان کی متعدد تصانیف ہیں ۔انہوں نے کتاب الجواھر کے نام سے تیس()۳۰جلدوں میں ای ک تفس یر لکھی تھی۔
ان کی صاحب زادی نے وہ پوری تفسیر یادکرلی تھی۔ زین الدین بی ان ک رتے ہیں کہ میں اپ نے م اموں س ے
تفسیر پڑھتاتھا۔ جب میں اپنی والدہ کے پاس آتا تو وہ مجھ سے دریافت کرتیں کہ آج تمہارے م اموں نے کس
سورہ کی تفسیر بیان کی؟اور انہوں نے کیا کی ا ب اتیں بت ائیں ؟جب میں ان س ے بتات ا ت و وہ پوچھ تیں کہ فالں
س ورہ کی تفس یر میں انہ وں نے فالں ب ات بت ائی کہ نہیں ؟میں ج واب دیت ا :نہیں ،ت و وہ فرم اتیں :تمہ ارے
ماموں نے فالں آیت کی تفسیر میں فالں فالں باتیں چھوڑ دی ہیں ۔ [زین الدین ابوالفرج البغ دادی،کت اب ال ذیل
علی طبقات الحنابلۃ البن رجب ،مطبعۃ السنۃ المحمدیۃ القاہرۃ۱ ،۱۹۵۳ ،؍]۴۴۰
فاطمہ بنت محمد بن احمد الس مرقندی(م ۵۸۱ھ)فقہ حنفی میں بہت ش ہرت رکھ تی تھیں ۔ ان کے وال د مش ہور
محدث اور فقیہ تھے۔ فاطمہ نے ان سے فقہ کی تعلیم حاص ل کی اور اس میں کم ال پی داکیا۔ انہیں اپ نے وال د
کی کتاب تحفۃ الفقہاء پوری ازبر تھی۔ فقہ میں ا ن کی مہارت کا اندازہ اس س ے لگای ا جاس کتاہے کہ ان کے
والد کے پاس کوئی استفتاآتاتو وہ اپنی صاحب زادی سے مشورہ کرتے تھے،پھ ر وہ ج واب تی ار ک رتیں اور
اس پر باپ اور بیٹی دونوں کے دستخط ہوتے۔ فاطمہ کا نکاح ان کے والد نے اپنے عزیز ش اگرد عالؤ ال دین
ابوبکر بن مسعود الکاسانی سے کردیا تھا۔ کاس انی ک و ان کی تص نیف ب دائع الص نائع في ت رتیب الش رائع کی
وجہ سے علمی دنیا میں بہت شہرت حاصل ہوئی۔ فاطمہ کا علمی فیض نکاح کے بعد بھی جاری رہا۔وہ اپنے
گھر میں درس کے حلقے لگاتی تھیں ۔ان سے بہت بڑی تعداد میں لوگوں نے استفادہ کی ا۔ش یخ ک ا س انی بہت
بڑے فقیہ تھے۔ ان کا لقب’ملک العلماء‘ تھا ،لیکن ان کی بیوی فاطمہ ان سے بڑھ کر تھیں ۔ س وانح نگ اروں
نے لکھاہے:
انھا کانت تنقل المذھب نقال جیداً ،وکان زوجھ ا الکاس انی ربّم ا یھم في الفت ٰ
وی ف تر ّدہ الی الص واب،
وتعرّفہ وجہ الخطأ ،فیرجع الی قولھا۔
’’وہ (حنفی)مسلک کی بہت اچھی طرح ترجمانی کرتی تھیں ۔ان کے شوہر کا سانی کو بسااوقات کوئی مسئلہ
بیان کرتے ہوئے وہم ہوجاتاتو فاطمہ اس کی تصحیح کردیتی تھیں اور انہ وں نے کی ا غلطی کی ہے؟ یہ بھی
بتادیتی تھیں ۔ چنانچہ کاسانی ان کی تصحیح کوقبول کرلیتے تھے۔‘‘
[ ف اطمہ الس مرقندیہ کے ح االت کے ل یے مالحظہ کیج ئے :ابن ابی الوف اء القرش ی ،الج واھر المض یءۃ فی
طبق ات الحنفیۃ۴،؍۱۲۲۔،۱۲۴زینب بنت علی الع املی،ال د ّر المنث ور فی طبق ات ربّ ات الح ذور ،ص ،۳۶۷ابن
قطلوبغا،ت اج ال تراجم ،ص ۳۲۷ ،۲۵۲۔ ،۳۲۸عم ر رض اکحالۃ،اعالم النس اء۴ ،؍۹۴۔ ،۹۵ط اش ک بری زادہ،
مفتاح السعادۃ۲ ،،؍۲۴۷۔ ،۲۴۸محمد خیررمضان یوسف ،المؤلفات من النساء،ص۸۴۔]۸۶
علم حدیث کے میدان میں شیخ ابوالحجاج جمال الدین یوسف الم ّزی (م ۷۴۲ھ)کی خدمات سے اسالمیات س ے ِ
دل چسپی رکھنے واال ہ ر ط الب علم اچھی ط رح واق ف ہے۔ خ اص ط ور س ے فن اس ماء الرج ال میں انہیں
طولی حاصل تھا۔ ان کی تصانیف :تہذیب الکمال في أس ماء الرج ال ،تحفۃ األش راف بمع رفۃ األط راف اور ٰ ی ِد
المنتقی من الفوائد الحسان فی الحدیث اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں ۔شیخ مزی کو جتنی مہ ارت اور ش ہرت علم
حدیث اور رج ال کے می دان میں تھی ،ات نی ہی ،بلکہ اس س ے زی ادہ مہ ارت اور ش ہرت س ے ان کی زوجہ
ت ق رآن کے می دان عائشہ بنت ابراہیم بن صدیق (جو ام فاطمہ کے لقب سے مشہور تھیں )علم تجوید و ق راء ِ
اس ی()۸۰ب رس کی عم ر میں ان ک ا انتق ال ہ وا۔ نص ف میں بہرہ ور تھیں ۔ وہ بہترین قاریہ تھیں ۔۷۴۱ھ میں ّ
صدی سے زائد عرصہ انہوں نے قرآن کی تعلیم و تدریس میں گزارا اور ہ زاروں م ردوں اور عورت وں نے
ان سے استفادہ کیا۔ ان سے یہ فن سیکھنے وال وں میں ان کی ص احب زادی امۃ ال رحیم زینب بھی تھیں ،ج و
یر جہ اں ش یخ قی (م۷۷۴ھ) کی زوجہ تھیں ۔ ابن کث ؒ مشہور مفس ر ،مح دث اور م ؤرخ عالمہ ابن کث یر الدمش ؒ
م ّز ی کے مشہور تالمذہ میں سے ہیں ،وہیں انہوں نے اپنی خوش دامن صاحبہ سے بھی علمی استفادہ کیاتھا۔
اہے: داز میں کی ڑے اچھے ان ذکرہ ب ات یر نے ان ک
ؒ ابن کث
ت قرآن اور فص احت و بالغت اور ص حیح ادا کے س اتھ ت عبادت ،تالو ِ
’’اپنے زمانے کی عورتوں میں کثر ِ
قرآن پڑھانے کے معاملے میں کوئی دوسرا ان کا ہم س ر نہ تھ ا۔ انہ وں نے بہت س ی عورت وں ک ا ق رآن ختم
ا۔‘‘ رآن پڑھ ےق وں نے ان س مار عورت ا اور بے ش کروای
کثیر کے اس جملے نے توچونکادیا: ان کے بارے میں ابن ؒ
’’ان کی طرح کی قراء ت کرنے سے بہت سے مرد حضرات عاجز تھے۔‘‘(ابن کث یر ،الب دایۃ والنھ ایۃ،دا ر
احیاء التراث العربی۱۹۸۸ ،ء۲۱،؍)۱۱۳
خواتین اور تصنیف و تالیف
البتہ جہاں تک علوم اسالمیہ میں تصنیف و ت الیف ک ا مع املہ ہے ،اس سلس لے میں خ واتین بہت پیچھے رہی
ہیں ۔ شیخ محمد خ یر رمض ان یوس ف نے ت ذکرہ و ت راجم کی کت ابوں میں بہت غ ائرانہ ان داز س ے تف تیش و
تفحّص کے بع د اپ نی کت اب المؤلِّف ات من النس اء ومؤلَّف اتھن في الت اریخ االس الميمیں ۱۲۰۰ھ ت ک چھ تیس(
)۳۶مؤلِّفات کا تذکرہ کیا ہے اور لکھا ہے کہ ان کی کتابوں کی تعداد عربی زبان میں سو ( )۱۰۰س ے زی ادہ
نہ ہوگی۔[محمد خیر رمضان یوسف ،المؤلفات من النساء ومؤلفاتھن فی التاریخ االسالمی،دارابن حزم ب یروت،
ار خی ال کی اہے کہ خ واتین کی ج انب س ے تص نیف و ۲۰۰۲ء ،ص ۵۔]۶انہوں نے اس موضوع پر بھی اظہ ِ
تالیف میں کمی کے اسباب کیاہیں ؟ انہوں نے تین اسباب بیان کیے ہیں :
۱۔ تصنیف وتالیف ذہنی سکون واطمینان اور کسی حدتک فرصت وفراغت کا تقاضا کرتی ہے،جب کہ خواتین اپنی فطری مص روفیات ،مثالً
حمل ،والدت ،رضاعت ،بچوں کی پرورش اور گھریلو کاموں میں مصروفیت وغیرہ کی وجہ سے بیش ت ر اوق ات اس س ے عموم ا ً مح روم
رہتی ہیں۔
۲۔ خواتین کی رغبت عموما ً تحریر وتصنیف کے مقابلے میں کہنے سننے کی طرف زیادہ رہتی ہے۔اسی ل یے ان کی ص الحیتوں ک ا اظہ ار
شاعری ،ادب ،لغت اور انسانی و وجدانی علوم میں دیگر میدانوں کے مقابلے میں زیادہ ہواہے۔ علم ح دیث کی بنی اد س ماع وروایت پ ر ہے،
اس کے لیے تحریر ش رط نہیں ہے ،اس ی ل یے اس میں خ واتین کی ص الحیتوں ک ا غ یر معم ولی اظہ ار ہ واہے اور ہ زاروں کی تع داد میں
مح ّدثات پیداہوئی ہیں۔
ث زمانہ کی نذر ہوگئیں اور مورخین اور تذکرہ ۳۔ خواتین کی بہت سی تصنیفات ،جو ایک عرصہ تک امت کے درمیان متداول تھیں ،حواد ِ
ب تصنیف خ واتین کے ح االت لکھ نے س ے تغاف ل برت ا۔اس ل یے کہ عموم ا ً پ ردہ نش یں وتراجم کی کتابیں تالیف کرنے و الوں نے ان صاح ِ
خواتین کے حاالت جمع کرنے میں بہت دشواریاں تھیں ۔[محمد خیر رمضان یوسف ،المؤلفات من النساء ص۱۳۔)۱۵
قرآنیات اور سیرت نگاری کے میدان میں بیسویں صدی کی خواتین میں ڈاکٹر عائشہ عبدالرحمن بنت الشاطی
اعلی تعلیم ق اہرہ ی ونی ورس ٹی س ےٰ (۱۹۱۳۔۱۹۹۸ء)کا نام بہت نمایاں ہے۔انہوں نے عربی زب ان وادب کی
حاصل کی ،پھر مختلف ممالک میں تدریسی خدمت انج ام دیں ،لیکن پھ ر ان ک ا رجح ان قرآنی ات کی ط رف
ہوا۔ وہ جامعۃ الق رویین م راکش میں ش عبۂ تفس یر میں پرفیس ر رہی ہیں ۔ وہ پہلی خ اتون ہیں جس کے ج امع
اعلی اع زاز
ٰ ازہر میں لیکچر ہوئے۔ انہیں بہت سے ایوارڈز سے نوازا گیا ،جن میں سے ایک عالم اس الم ک ا
اعلی
ٰ کا شاہ فیصل ایوارڈ ہے ،جو انہیں ۱۹۹۴ء میں اسالمیات اور خ اص ط ور پ ر قرآنی ات کے می دان میں
دان نب وت کی
خدمات انجام دینے پر دیاگیا۔ بنت الشاطی کی تصانیف کی تعداد چالیس( )۴۰سے زائد ہے۔ خان ِ
خواتین پر ان کی تیارکردہ سیریز میں أ ّم النبي ،نساء الن بي،بن ات الن بي اور زینب بطلۃ ک ربال ش امل ہیں ۔ اس
کے عالوہ قرآنیات پر ان کی تصانیف میں التفسیر البیاني للقرآن الکریم ،االعجاز البیاني للقرآن الکریم ،القرآن
۔تفسیر قرآن میں ان کا ای ک خ اص منہج ہے ،وہ یہِ والتفسیر العصري اور مقال في االنسان اہمیت رکھتی ہیں
کہ جس موضوع پر مطالعہ مقصود ہو اس سے متعلق قرآن کی تمام آیات جمع کرلی جائیں ،پھر ان پ ر غ ور
اصول تفسیر سے متعلق ان کی ِ ۔علوم قرآن اور
ِ وفکر کیاجائے تو اس سے نئے نئے معانی مستنبط ہوتے ہیں
منہج تفسیر انہ وں نے
ِ اور بھی آراء ہیں ،جو ان کی کتابوں میں مذکور ہیں ۔ انہوں نے اعتراف کیاہے کہ یہ
اپنے استاذ شیخ امین الخولی(۱۸۹۵۔۱۹۶۶ء)جو ان کے شوہر بھی تھے ،سے حاصل کیاہے۔
زینب الغزالی (م۱۴۲۶ھ) کا شمار موجودہ دور کی ان خواتین میں ہوتا ہے جنھیں اپنی دع وتی اور تح ریکی
سرگرمیوں کی وجہ سے عالمی سطح پر شہرت حاصل ہے۔ وہ اخوان المسلمون سے وابستہ سرکردہ خواتین
میں سے تھیں ۔ ان کی پوری زندگی اسالم کی راہ میں جدو جہ د اور قرب انی س ے عب ارت ہے۔ عرص ہ ت ک
انھوں نے قید بند کی صعوبتیں برداشت کیں ۔ آزادی ملی تو اپنا سارا وقت درس و تدریس ،وعظ و ارشاد اور
تصنیف و تالیف میں گزارا۔ یوں تو دینی موضوعات پر ان کی متعدد تصانیف ہیں ،لیکن ان میں سب سے اہم
ان کی تفسیر ہے جو’ نظرات فی کتاب ہللا‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ اس کی پہلی جلد سورۂ ابراہیم ت ک (
۷۱۱؍ صفحات) ۱۴۱۴ھ میں دار الشروق ق اہرہ س ے ش ائع ہ وئی تھی۔ مکم ل تفس یر (۱۳۰۰؍ ص فحات) دار
التوزیع و النشر االس المیہ ق اہرہ س ے منظ ر ع ام پ ر آئی۔ اس تفس یر میں دع وتی اس لوب نمای اں ہے۔ [زینب
الغزالی اور ان کی تفسیر کے بارے میں تفصیل کے لیے مالحظہ کیجیے :مرج ان عثم انی ،مص ر کی بی ٹی
زینب الغزالی ،مرکزی مکتبہ اسالمی پبلیشرز نئی دہلی۲۰۱۶ ،ء]
موجودہ دور کی مفسّرات میں ایک اہم نام محترمہ نائلہ ہاشم ص بری ک ا ہے ،ج و فلس طین کے مش ہور مف تی
اور خطیب ش یخ ڈاک ٹر عک رمہ س عید ص بری کی زوجہ ہیں ۔ ان کی س رگرمیاں علمی اور عملی دون وں
میدانوں میں ہیں ۔ وہ بہت سے رفاہی اداروں اور سماجی تنظیم وں س ے وابس تہ ہیں ۔ ان کی متع دد تص انیف
دینی موضوعات پر شائع ہوئی ہیں ،جن میں سے ایک ’کواکب النس اء‘ ہے ،جس میں پ انچ س و( )۵۰۰س ے
زائد خواتین کے تذکرے جمع کیے ہیں ۔ ان میں امہات الموم نین ،ص حابیات ،مح دثات ،فقیہ ات ،زاہ دات اور
حکوت و سیاست اور شعرو ادب سے دل چس پی رکھ نے والی خ واتین ش امل ہیں ۔ انھ وں نے المبص ر لن ور
الق رآن کے ن ام س ے ای ک مبس وط تفس یر لکھی ہے ،جس ک ا پہال ایڈیش ن گی ارہ ( )۱۱جل دوں میں ،جب کہ
دوسرا ایڈیشن ۲۰۰۸ء میں سولہ ( )۱۶جلدوں میں ش ائع ہ وا ہے۔ یہ تفس یر بالم أثور کی ای ک نمائن دہ تفس یر
ت حاضرہ سے ربط کا خصوصی اہتمام کیا گیا ہے۔ [ اس تفسیر کے تجزیاتی مطالعہ کے ہے ،جس میں حاال ِ
لیے مالحظہ کیجیے :عفاف عبد الغف ور حمی د ،من جھ ود الم رأۃ ،المبص ر لن ور الق رآن :اول جھ د کام ل فی
التفسیر للمرأۃ حدیثاً ،مقالہ پیش ک ردہ دوس ری بین االق وامی ق رآن ک انفرنس ،زی ر اہتم ام تنظیم مرک ز بح وث
روری ۲۰۱۲ء) یا ،ف ور ،ملیش واال لمپ ا ،ک امعہ مالی رآن ،ج الق
ان کے عالوہ خواتین کے ذریعہ تیار ہونے والی تفسیروں میں ماجدہ فارس الشمری کی التوضیح و البی ان فی
تفسیر القرآن (۸؍ جلدیں ) فوقیہ ابراہیم الشربینی کی تیسیر التفسیر (۴؍ جلدیں ) ،فاطمہ کریمان حم زہ کی الل ؤ
لو والمرجان فی تفسیر القرآن اور ترکی زبان میں سمرا کورون کی تفسیر الق اری (۱۳؍ جل دیں ) خصوص یت
سے قابل ذکر ہیں۔
خواتین نے جزئی تفسیریں بھی لکھی ہیں ،مختلف زبانوں میں قرآن مجید کے مکمل یا نامکمل ترجمے ک یے
ہیں اور علوم القرآن کے مختلف پہلوؤں پرکت ابیں بھی تص نیف کی ہیں ۔ ان میں ق راء ت ،تجوی د ،فص احت و
تدبر ق رآن،ا قس ام الق رآن اور لغ وی و بالغی موض وعات و مب احث ش امل ہیں ۔ قرآنی ات کے عالوہ
ِ بالغت،
حدیث ،سیرت اور فقہ میں بھی خ واتین کی علمی کاوش یں اہمیت رکھ تی ہیں ۔ موج ودہ دور میں ع الم ع رب
میں علوم اسالمیہ میں تصنیف و تالیف کی خدمات انجام دینے والی خواتین میں حنان لحام ،عفاف عبد الغف ور
حمید ،لطیفہ قزامل ،ہیفاء عثمان ،عالمہ محمد ناصر ال دین االلب انی کی ص احب زادی اں :حس انۃ اور س کینۃ،
امانی بنت عاشور ،عزیزہ یونس ،وسیمہ عبد المحسن ،ام معن ،ربیعۃ الکعبی ،س عاد عب د الحمی د ،آم ال محم د
عبد الرحمن ،صباح عبد الکریم ،منیرہ الدوسری ،سحر سویلم ،ہند شلبی ،عائشہ غلوم ،سحر عبد العزیز ،کاملہ
ا لکواری ،صفیہ عبد الرحمن السحیبانی ،اسماء المرائط ،عصمۃ الدین کرک را ،م وینہ ط راز ،ن ادیہ ش رقاوی،
فاطمہ ماردینی اور فاطمہ اسماعیل خصوصیت س ے قاب ِل ذک ر ہیں ۔ ان کی تص انیف نے عل وم اس المیہ میں
قابل قدر اضافہ کیا ہے۔
برصغیر میں خواتین کے ذریعے علمی کاموں کی سرپرستی
ِّ
علوم اسالمیہ کے فروغ میں خواتین کی ز ّریں خدمات ہیں ۔ انھوں نے اش اع ِ
ت علم کی ِ برِّ صغیر ہند میں بھی
اعلی معیار کے علمی کام انجام دیے ہیں۔
ٰ سرپرستی کی ہے اور
مغل حکم راں اورنگ زیب ( م ۱۱۱۸ھ )کی صاحب زادی زیب النساء نے شیخ صفی الدین ولی قزوینی سے
قرآن مجید ک ا فارس ی زب ان میں ت رجمہ کروای ا تھ ا۔ س اتھ ہی ام ام رازی (م ۶۰۶ھ) کی تفس یر کب یر ک ا بھی
فارس ی ت رجمہ کروای ا تھ ا۔[ڈاک ٹر عالؤ ال دین خ اں ،عہ د اورن گ زیب میں علم اء کی خ دمات،ص ۱۷۳۔
وسطی کے ہندوس تان کی فارس ی تفس یریں ۔ ای ک تع ارفی مط العہ ،س ہ ٰ ،۱۷۴ڈاکٹر ظفر االسالم ،مقالہ :عہد
ماہی علوم القرآن ،علی گڑھ ،جوالئی۔ دس مبر ۱۹۸۵ء،ص ]۱۳۳ماض ی ق ریب میں ریاس ت بھوپ ال کی حکم
راں نواب خواتین نے علمی سرپرستی کی مثال قائم کی ہے۔انہوں نے خ وب فیاض ی س ے تعلیمی اداروں کی
م الی ام داد کی ہے اور خط یر س رمایہ ص رف ک رکے علمی ک ام ک رایے ہیں ۔ ن واب س کندر جہ اں بیگم(م
۱۸۶۸ء) نے شیخ احمد داغستانی سے ترکی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ کروایا۔ ان کی صاحب زادی اور
جانشین نواب شاہ جہاں بیگم نے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج علی گڑھ کا بھر پور مالی تعاون کی ا۔ انہ وں نے
موالنا جمال الدین وزیر ریاست بھوپال سے پشتوزبان میں قرآن مجی د ک ا ت رجمہ کروای ا۔[ عبدالص مد ص ارم
االزھری،تاریخ التفس یر ،ادارۂ علمیہ الہ ور۱۹۶۶ ،ء]ان کی ص احب زادی اور جانش ین ن واب س لطان جہ اں
بیگم نے بہت سی دینی درس گاہوں اور تعلیمی اداروں ک و م الی ام داد ف راہم کی ،جن میں علی گ ڑھ ،دیوبن د
اور ندوہ خاص طور سے قابل ذکر ہیں ۔[موالنا محمداسلم ج یراج پ وری ،خ واتین ،ص ۲۲۹۔]۲۳۶انہ وں نے
انی ک و گ راں ق در م الی تع اون دی ا۔[ ڈاک ٹر محم د الی اس
ہی سیرۃ النبی کی تالیف کے لیے عالمہ ش بلی نعم ؒ
االعظمی ،آث ار ش بلی ،دار المص نفین ش بلی اکی ڈمی اعظم گ ڑھ]،جس زم انے میں دارالعل وم ن دوۃ العلم اء
لکھنؤکی مرکزی عمارت زیرتعمیر تھی،ریاست بہاول پور کی خاتون محترمہ فلک احتج اب نے اس م د میں
انی نے انہیں ’زن دہ زبی دہ خ اتون‘
ب خاص سے پچاس ہزار روپے عطا کیے تھے۔ عالمہ شبلی نعم ؒ اپنے جی ِ
کا لقب دیاہے اور ان کی فیاضی اور علم دوستی کی تحسین کی ہے۔ [مقاالت شبلی۸ ،؍]۸۸
اسالمیات میں کام کرنے والی چند اہم خواتین
بر صغیر میں خواتین کے ذریعے انجام پانے والے علمی کاموں کا دائرہ تفس یر ،ح دیث ،فقہ ،س یرت نب وی،
ت اریخ اور اس المیات کے دیگ ر مض امین پ ر محی ط ہے۔ اردو تفاس یر میں ماض ی ق ریب میں ہندوس تان میں
مح ترمہ ثری ا ش حنہ کی ’تب یین الق رآن فی تفس یر الق رآن‘ (طب ع حی درآباد ،ان ڈیا ۲۰۱۲ء) اور پاکس تان میں
محترمہ شکیلہ افضل کی ’تسہیل البیان فی تفسیر القرآن‘ (طبع الہور۲۰۱۳ ،ء) ش ائع ہ وئی ہیں ۔ اہلیہ موالن ا
گل (نو مسلمہ ،م ۱۹۶۶ء) نے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر انگریزی زب ان میں ق رآن مجی د ک ا ت رجمہ عزیز ؒ
زیور طبع سے آراستہ نہ ہو سکا۔ [عبد الصمد ص ارم ،ت اریخ التفس یر]ڈاکٹرفری دہ خ انمِ ً
کیا تھا ،لیکن غالبا وہ
(سابق پروفیسر شعبۂ اسالمک اسٹڈیز ،جامعہ ملیہ اسالمیہ نئی دہلی) نے اپ نے وال د موالن ا وحی د ال دین خ اں
کے انگریزی ترجمۂ قرآن پر نظر ثانی کی ہے اور ان کی تفسیر ’تذکیر القرآن‘ کا انگریزی میں ت رجمہ کی ا
الھدی انٹرنیشنل‘ کے ذریعے قرآن فہمی کی ایک ک ام ی اب تحری ک ٰ ہے۔ڈاکٹر فرحت ہاشمی نے اپنے ادارہ’
برپا کی ہے۔ان کی قرآن کالسز کو عالمی شہرت حاصل ہوئی ہے۔ ترجمۂ قرآن اور تفسیر پر مش تمل ان کے
لیکچرز کی سی ڈیز اور ڈی وی ڈیز اور کیسٹس خواتین کے درمیان دنیا بھر میں مقب ول ہیں ۔ ان ک ا ت رجمۂ
ٰ
الہدی پبلی کیش نز اس الم آب اد س ے ش ائع ہ و گی ا ہے۔ اس کے عالوہ قرآن بھی چند سال قبل (دو جلدوں میں )
علوم قرآن کے مختلف پہلوؤں پر خواتین کی تصنیفات کی ایک معتد بہ تعداد ہے ،جن ک ا یہ اں ِ ہندو پاک میں
تذکرہ کرنا ممکن نہیں۔
نبوی پر بھی خواتین نے محبت ،عقیدت اور تحقیق کے ساتھ خامہ فرسائی کی ہے اور معیاری کت ابیں ؐ ت
سیر ِ
نبوی کے غزوات و س رایا‘ اور مح ترمہ نجمہ ؐ تصنیف کی ہیں ۔ ڈاکٹر رؤفہ اقبال (علی گڑھ) کی کتاب ’عہد
نبوی کا بلدیاتی نظم و نسق‘ ہندوستان اور پاکستان دون وں جگہ وں س ے ؐ راجہ ٰیسین (تلنگانہ) کی کتاب ’ عہ ِد
شائع ہوئی ہے۔ محترمہ شہناز کوثر (الہور) اور محترمہ نگہت ہاشمی ( بہاول پ ور) نے س یرت کے مختل ف
پہلوؤں کو اپنی تحقیق کا موض وع بنای ا ہے۔ ڈاک ٹر س عدیہ غزن وی کی کت ابیں ’ن بی ک ریم ﷺ بہ ط ور م اہر
نفسیات‘ اور’ اسوۂ حسنہ اور علم نفسیات‘ سیرت کے ایک اہم موضوع پر روشنی ڈالتی ہیں ۔ مح ترمہ عطیہ
ب سیرت’ محمد ﷺ‘ اور محترمہ عذرا نسیم ف اروقی خلیل عرب نے مشہور عرب ادیب توفیق الحکیم کی کتا ِ
نے جدید دور کے مشہور سیرت نگار ڈاکٹر اکرم ضیاء العمری کی کتاب ’المجتمع المدنی فی عص ر النب وۃ ‘
کو اردو کا جامہ پہنای ا ہے۔ مح ترمہ ام عب د م نیب نے س یرت نب وی پ ر ای ک ض خیم انس ائیکلو پی ڈیا ( ۶۸۸؍
صفحات) سوال و جواب کے طرز پر تیار کیا ہے۔ جناب حافظ محمد عارف گھانچی نے سیرت پر اردو زبان
میں لکھی جانے والی نئی تص نیفات کی ج و کتابی ات تی ار کی ہے اس میں خ واتین کے ذریعے لکھی ج انے
ت س یرت (۱۹۸۰۔ ۲۰۰۹ء) والی کتابوں کی تعداد اسّی ( )۸۰متجاوز ہے۔[ مالحظہ کیجیے :جدید اردو کتابیا ِ
ب س یرت ک ا اس تیعاب ممکن نہ تھ ا، دار العل وم التحقی ق ک راچی ]۲۰۰۹ ،ظ اہر ہے ،اس میں خ واتین کی کت ِ
دوسرے اس میں ایک محدود زمانے کا احاطہ کیا گیا ہے۔
الئق س تائش
ِ محترمہ مریم جمیلہ(م۱۴۳۳ھ) نے اسالمیات کے میدان میں جو ضدمت انجام دی ہے وہ انتہائی
ہے۔ انھوں نے مغربی فکرو تہذیب اور اس کی مادہ پرستانہ قدروں پر پورے اعتماد کے س اتھ بھرپ ور تنقی د
کی ،سیکولرزم اور جدیدیت پر مبنی نظریات کا محاسبہ کی ا اور فک ر اس المی ک ا ک ام ی اب دف اع کی ا۔ ان کی
تحریریں معذرت خواہانہ لب و لہجہ سے پاک ہیں ۔انھوں نے اسالم کو موجودہ دنیا کے لیے بہ ط ور متب ادل
پیش کیا۔ انگریزی زبان میں ان کی تسانیف ،جن کی تعداد تقریبا ً تین درجن ہے ،اسالمی لٹریچر میں قابل قدر
سرمایہ کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ ان میں سے متعدد کتابوں ک ا اردو میں ت رجمہ ہ و چک ا ہے۔[ م ریم جمیلہ کی
بی ف اروق ،م ریم جمیلہ۔ مغ رب کی بے ب اک تصانیف اور افکار کے تع ارف کے ل یے مالحظہ کیج یے:مجت ٰ
ئی دہلی۲۰۱۸ ،ء] رز ن المی پبلش زی مکتبہ اس د ،مرک ناق
اسالمی تاریخ میں لکھنے والی موجودہ دور کی خواتین میں ایک معتبر نام پروفیسر نگار سجاد ظہیر کا ہے۔
ان کے ادارہ’ قرطاس ‘نے اسالمی تاریخ پر دیگر مصنفین کی متعدد طبع زاد کتابیں اور قدیم ع ربی کت ابوں
کے تراجم شائع کیے ہیں ۔خود موصوفہ کی کتابیں (مطالعہ تہذیب ،شعوبیت ،عرب اور م والی ،مخت ار ثقفی،
فن تاریخ میں ان کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت پیش کرتی ہیں۔ حجاج بن یوسف ،خوارج،جدید ترکی وغیرہ) ِ
دیگر ممالک میں بھی خواتین نے اہم دینی و علمی خدمات انج ام دی ہیں ۔ خ اص ط ور س ے مغ ربی ممال ک
رض وج ود میں آئی ہیں ۔ ان
ِ میں خواتین کے قلم سے اسالمیات کے مختلف پہلوؤں پرقاب ل ق در تص انیف مع
میں وہ خواتین بھی ہیں جن کا تعلق دیگر مذاہب سے ہے ،لیکن انھ وں نے اس المیات س ے دل چس پی لی ہے
قبول عام حاصل ہوا ہے۔
ِ اور جو تحقیقات پیش کی ہیں انھیں عالمی پیمانے پر
خواتین کی علمی ترقی میں جامعات کا کردار
گزشتہ صدی کے اوائل سے لڑکیوں کی تعلیم ک ا رجح ان بڑھ ا ،ان کے ل یے مخص وص تعلیمی ادارے ق ائم
ہوئے اور عصری جامعات میں بھی انھیں داخلہ کے مواقع ملے تو ان کی علمی صالحیتوں ک و جال ملی اور
انھ وں نے اس المیات کے مختل ف می دانوں میں ایم اے ،ایم ف ل اور پی ایچ ڈی کے مق االت تحری ر ک یے۔ یہ
مقاالت علوم اسالمیہ کے تمام موضوعات کا اح اطہ ک رتے ہیں ۔ ان س ے خ واتین کے تخلیقی کم االت ک ا بہ
مناہج تفسیر ک ا تع ارف کرای ا گی ا اور ان ک ا
ِ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان میں قدیم و جدید مفسرین کے
تجزیاتی و تنقیدی مطالعہ کیا ہے ،سماجی ،معاشی اور سیاسی موضوعات پر قرآن و ح دیث کی روش نی میں
ت نبوی کے مختلف پہلوؤں پر عصر حاضر کے تناظر میں تحقیق کی گ ئی ہے ،ن ئے بحث کی گئی ہے،سیر ِ
پیش آمدہ سماجی اور فقہی مسائل کا جائزہ لیا گیا ہے اور مقاص ِد شریعت کی روشنی میں ان کا ح ل پیش کی ا
گیا ہے۔
عصری جامعات کا قیام عرب اور مسلم ممالک میں بڑے پیمانے پر ہوا ہے۔ ان میں س ے بعض مخل وط تعلیم
تعلیم نس واں
ِ فراہم کرتی ہیں۔ ان میں طلبہ کے س اتھ طالب ات داخلہ لے ک ر تعلیم حاص ل ک رتی ہیں اور بعض
کے لیے خاص ہیں ۔ ان اداروں میں طالبات کے ذریعے اسالمیات پر خاصا کام ہ وا ہے اور ب ڑی تع داد میں
اعلی تعلیم کے
ٰ ایم اے اور پی ایچ ڈی کے مقالے تیار ہوئے ہیں ۔ ب ر ص غیر ہن د وپ اک میں بھی طالب ات میں
تحصیل کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے اور وہ عصری جامعات میں داخلہ لے کر ایم اے ،ایم ف ل اور پی ایچ
ڈی کی ڈگریاں حاصل کر رہی ہیں ۔ پاکستان اور ہندوستان دونوں جگہوں پر عص ری جامع ات میں دینی ات (
)Theologyاور اسالمیات ( )Islamic Studiesکی فیکلٹیز قائم ہ وئی ہیں اور ان کے تحت ق رآن ،ح دیث،
سیرت ،اسالمی تاریخ اور دیگر مضامین کے الگ الگ ش عبے ق ائم ہ وئے ہیں اور ان کے تحت طالب ات نے
تحقیقی مق االت لکھے ہیں ۔ خ اص ط ور س ے پاکس تان کی عص ری جامع ات میں طالب ات کے ذریعہ عل وم
اسالمیہ پر خاصا کام ہوا ہے۔[ جناب محمد عاص م ش ہباز نے پاکس تان کی بیس( )۲۰جامع ات میں اس المیات
میں کی گئی پی ایچ ڈیز کی فہرست تیار کی ہے۔ اس کے مطابق کل آٹھ سو سڑسٹھ( )۸۶۷میں سے ایک سو
تیرہ()۱۱۳مقاالت خواتین کے ہیں ۔] کسی قدر کام ہندوستان میں بھی ہو رہ ا ہے۔ لیکن افس وس کہ ان تحقیقی
زیور طبع سے آراستہ ہو سکے ہیں۔ اس بنا پر عصری جامعات میں خ واتین ِ مقاالت میں سے صرف چند ہی
ّ
کے ذریعہ انجام پانے والے علمی کاموں کا نہ کما حقہ تعارف ہو سکا ہے اور نہ ان س ے اس تفادہ کی ک وئی
سبیل نکل سکی ہے۔
مستقبل کا منظر نامہ
علوم اسالمیہ کے میدان میں خواتین کی موجودہ پیش رفت کو اطمین ان بخش کہ ا جاس کتا ہے ،لیکن ان س ے
ِ
مزید کی توقع رکھنا بے جا نہ ہوگا۔ جس طرح ان کا ماضی درخشاں اور تاب ناک رہا ہے اسی طرح مستقبل
قابل ق در اور معی اری ک ام س امنے
میں بھی امید ہے کہ ان کے ذریعہ علوم اسالمیہ کے مختلف میدانوں میں ِ
آئے گا۔ اس تعلق سے چند پہلوؤں کی طرف توجہ دالنا معلوم ہوتا ہے۔
۱۔ عربی زبان کی اچھی صالحیت:
علوم اسالمیہ میں کام ک رنے کے ل یے ع ربی زب ان میں مہ ارت ض روری ہے۔ اس ل یے کہ تم ام مص ادر و
مراجع اسی زبان میں ہیں ۔ اگر چہ بہت سی قدیم کتابوں کا دیگر زبانوں میں ترجمہ ہو گیا ہے ،لیکن اب بھی
خاصا بڑا سرمایہ عربی زبان میں ہے۔ پھر یہ کہ جن کتابوں کا ترجمہ ہ و گی ا تھ ا ،ان س ے ک ام چالنے کے
بجائے محقق کے لیے ضروری ہے کہ وہ براہ راست اص ل کت ابوں س ے رج وع ک رے اور ان کے ح والے
دے۔ مجھے ان لوگوں پر تعجب ہوتا ہے جو عربی زبان سے واقفیت نہیں رکھتے ،پھر بھی بڑی ج رأت کے
ساتھ علوم اسالمیہ میں تحریر و تصنیف کا کام انجام دیتے ہیں اور خود کو محقق کہالنا پسند کرتے ہیں۔
اس موقع پر ایک لطیفہ بیان کر دینا بے موقع نہ ہوگا۔ ڈاکٹر عائشہ عب د ال رحمن بنت الش اطی ع ربی زب ان و
ادب کی ایک عظیم اسکالر ہیں ۔وہ ایک سمینار میں ہندوستان تشریف الئیں ۔ واپس جانے کے بع د انھ وں نے
ایک مجلس میں اپنے تأثرات بیان کیے ت و یہ بھی کہ ا کہ میں نے دنی ا میں بہت س ے عجائب ات دیکھے ہیں ۔
ایک عجوبہ یہ بھی ہے کہ مجھے ہندوستان میں یہ معلوم ہوا کہ وہاں کے بعض ایسے لوگوں نے قرآن مجید
کا ترجمہ کیا ہے جنھیں عربی زبان نہیں آتی۔
عربی زبان سے ناواقفیت کے ن تیجے میں محققین س ے ب ڑی دل چس پ غلطی اں س رزد ہ وتی ہیں ۔ اس وقت
صرف ایک مثال کافی ہوگی۔ پاکستان کی ایک یونی ورسٹی س ے م یرے پ اس ای ک ط البہ ک ا پی ایچ ڈی ک ا
مقالہ Evaluationکے لیے بھیجا گیا ،جس میں قرآن اور سائنس کی روشنی میں ’ نظ ریۂ ارتق اء‘ ک ا ج ائزہ
لیا گیا تھا۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میری نظر سے ان کا یہ جملہ گزرا ’’:ارتقاء ع ربی لف ظ ’رقی‘
ث مبارکہسے بنا ہے۔ قرآن پاک کی کسی بھی آیت میں لفظ ’ارتقاء‘ یا ’رقی‘ استعمال نہیں ہوا ،جب کہ احادی ِ
میں ’رقی‘ کا لفظ موجود ہے‘‘۔اس لیے کہ قرآن مجید میں مج ّرد اور مزید (رقی اور ارتقاء) دونوں ص یغوں
میں یہ لفظ موجود ہے۔ [مالحظہ کیجیے سورۂ ص ،آیت ،۱۰سورۂ االسراء ،آیت ]۹۳
ہندوستان میں طالبات کے لیے مخصوص تعلیم کے ادارے قائم ہیں ۔ ان کا نصاب عموم ا ً ہلک ا رکھ ا گی ا ہے۔
اس کے پیچھے غالبا ً یہی منطق کارفرما ہے کہ عورتیں ’ناقص العقل‘ ہوتی ہیں ،اس لیے ان پر زیادہ بوجھ
ڈالنا مناس ب نہیں ،ح االں کہ اگ ر ان ک ا نص اب وہی رکھ ا ج ائے ج و طلبہ کے ل یے ہے اور ان کی تعلیم و
تدریس کے لیے طلبہ کے مثل س ہولتیں ف راہم کی ج ائیں ت و طلبہ کے مث ل ان کی ق ابلیتوں میں بھی نکھ ار آ
سکتا ہے۔
۲۔ جملہ مواد کا استحضار
محقق کے لیے ضروری ہے کہ جس موضوع پر وہ کام کرنا چاہتا ہے ،اس پر اب تک جتنا کام ہو چکا ہے،
اس سے واقف ہو جائے۔ جدید اصطالح میں اسے ’لٹریچر سروے‘ کہا جاتا ہے۔ بعض حضرات اسے بالک ل
اہمیت نہیں دیتے۔ وہ دوسروں کی تحریریں دیکھنا اپنی توہین سمجھتے ہیں اور بڑے فخر سے کہ تے ہیں کہ
میری تحریر بالکل طبع زاد ہے ،میں نے کسی س ے اس تفادہ نہیں کی ا ہے ،ح االں کہ علمی دنی ا میں یہ رویّہ
پسندیدہ نہیں ہے۔ سابقہ کاموں کو دیکھنا اس لیے ضروری ہے کہ مباحث کی تکرار نہ ہو۔ ج و ک ام پہلے ہ و
یل حاص ل ہے۔ ل ٹریچر س روے ک ا ای ک فائ دہ یہ بھی ہے کہ محق ق ک ا ذہن چکا ہے اسے دوبارہ کرنا تحص ِ
موضوع کے نئے پہلوؤں کی طرف منتقل ہوتا ہے اور بسا اوقات وہ ایس ے مب احث اٹھ انے ی ا ان کے دالئ ل
فراہم کرنے میں کام یاب ہوجاتا ہے جو اس سے پہلے کے محققین کے حاشیۂ خیال میں نہیں آئے تھے۔ چوں
کہ تمام دست یاب لٹریچر تک رسائی اور فراہمی زحمت طلب ہوتی ہے ،اس کے لیے کتب خانوں میں آم د و
رفت کی ضرورت ہوتی ہے ،اس لیے اس معاملے میں بسا اوقات محقق خواتین تن آسانی کا ش کار ہ و ج اتی
ہیں اور وہ بہ آسانی مل جانے والے لٹریچر پر اکتفا کر لیتی ہیں ۔
۳۔ تحقیقی معیار
بعض محقق سمجھتے ہیں کہ اپنی بحثوں میں قدماء یا متاخرین کے زیادہ سے زیادہ ح والے دین ا تحقی ق ک ا ا
علی معیار ہے۔ چنانچہ ان کی تحریروں میں حوالوں کی بھر مار ہوتی ہے۔ مقالہ یا بحث ک ا آغ از ک رتے ہی
ٰ
وہ حوالہ دینا شروع کر دیتے ہیں اور اختتام تک کچھ کچھ وقفے سے حوالے دیتے چلے ج اتے ہیں ۔ وہ ذرا
رک یہ سوچنے کی زحمت نہیں کرتے ہیں کہ اس جگہ کسی سابق مصنف کا حوالہ دینے کی ض رورت بھی
ہے یا نہیں ؟ کوئی عام سی بات ،جو ہر شخص کہہ سکتا ہے ،یا وہ بہ آسانی ہر کسی کی س مجھ میں آس کتی
ہے ،اس کا حوالہ دینے کی ضرورت کیا ہے؟ حوالہ دینے کے جوش میں انھیں یہ بھی خیال نہیں رہتا کہ وہ
جس کتاب کا حوالہ دے رہے ہیں اس ک ا معی ار کی ا ہے؟ چن انچہ وہ بے تکلّ ف ث انوی بلکہ ث الثی درجے کی
کتابوں کو بھی اپنے مراجع میں شامل کر دیتے ہیں ۔ ضروری نہیں کہ جتنی کتابوں کا مط العہ کی ا گی ا ہے،
قدر ضرورت ح والے دیے سب کا کسی نہ کسی طرح حوالہ دے دیا جائے ،بلکہ ہونا یہ چاہیے کہ صرف بہ ِ
جائیں اور ان باتوں کے حوالے دیے جائیں جن کی واقعی ضرورت ہو اور جن سے کوئی استدالل کیا جا رہا
ہو۔
۴۔ اسالم کی صحیح ترجمانی
آج اسالم پر چہار جانب سے فکری یلغار ہے۔ پہلے شمشیر و سناں اور توپ و تفنگ سے حملے کیے ج اتے
تھے اور طاقت کے زور سے عالقوں پر قبضہ کیا جاتا اور انسانوں کو غالم بنا لیا جاتا تھا۔ آج باط ل افک ار
کے ذریعہ عقلوں پر قبضہ کیا جا تا اور ذہنوں کو غالم بنایا جاتا ہے۔آج اسالم پر طرح طرح کے اعتراضات
نظام خان دان
ِ کیے جا رہے ہیں ۔ اس پر دہشت گردی کا لیبل چسپاں کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کا
زد پر ہے اور اس میں عورتوں کے حقوق کو نشانہ بنایا جا رہ ا ہے۔ اس کے نظ ِام سیاس ت ک و م ور ِد ال زام
ٹھہرایا جا رہ ا ہے۔ غ رض مختل ف پہل وؤں س ے اس الم ک و مطع ون ک رنے کی کوش ش کی ج ا رہی ہے۔ آج
ضرورت اس بات کی ہے کہ باطل کا مقابلہ اسی کے ہتھیاروں س ے کی ا ج ائے اور اس کے اعتراض ات ک ا
رسول
ِ صدر اسالم میں خواتین نے اسالم اور
ِ جواب اسی کے اسلوب و انداز اور معیار کے مطابق دیا جائے۔
اسالم کے دفاع میں اہم خدمات انجام دی ہیں اور غیر معمولی قربانیاں پیش کی ہیں ۔ آج بھی وہ علم و تحقی ق
دفاع اسالم کا فریضہ بہ حس ن و خ وبی انج ام دے س کتی ِ کے میدان میں اپنی خدمات پیش کر سکتی ہیں اور
ہیں ۔
۵۔ نسائی مباحث و مسائل کی درست تشریح
آج عالمی سطح پر خود نام نہاد مسلم خواتین کا ایک ایسا گروپ تیار ہو گیا ہے جو اس المی مس لّمات و اق دار
پر حملے کرنے میں پیش پیش ہے۔ وہ مردوں اور عورتوں کے درمیان ہر سطح پر ہر اعتبار س ے مس اوات
نظام خاندان پ ر
ِ چاہتا ہے۔ یہ خواتین کہتی ہیں کہ قرآن سماج میں ’رجالی تسلّط‘ کا علم بردار ہے۔ اسالم کے
ان کا اعتراض یہ ہے کہ اس میں خواتین کو دبا کر رکھا گیا ہے اور انہیں بہت سے حقوق سے محروم رکھا
ت ح ال میں ض رورت محس وس ہ وتی ہے کہ علم و تحقی ق س ے لیس ایس ی مس لم خ واتین گیا ہے۔ اس صور ِ
سامنے آئیں جو نسائی مباحث و مسائل کی درست تشریح کریں ۔ وہ واض ح ک ریں کہ عم ل اور اس کے اج ر
نظام خاندان میں اس نے دونوں ک ا
ِ میں اسالم نے مردوں اور عورتوں کے درمیان مساوات رکھی ہے ،لیکن
حقوق نسواں کی درست تعبیر و تش ریح وقت کی ض رورت ہے۔ اس ِ دائرہ کار الگ الگ رکھا ہے۔ اسالم میں
ضرورت کو مسلم خواتین بہ حسن و خوبی پورا کر سکتی ہیں ۔
نئے موضوعات ،جن پر کام کرنے کی ضرورت ہے
تحقیق کی دو صورتیں عام طور پر رائج ہیں :ایک یہ کہ کسی مخطوطے کے چند نس خے حاص ل ک ر ل یے
جائیں اور ان کا موازنہ کرتے ہوئے اس مخطوطے کو ایڈٹ کر دی ا ج ائے۔ کس ی نس خے میں ک ون س ا لف ظ
چھوٹ گیا ہے؟ کس نسخے کی عبارت میں تھوڑا سا فرق ہے؟ اور داخلی شہادتوں کی روشنی میں ک ون س ا
عالم عرب میں اس طرز کا کام بڑے نسخہ سب سے زیادہ معبتر ہے؟ ان چیزوں کی وضاحت کر دی جائے۔ ِ
منظر ع ام پ ر آئے ہیں ۔ تحقی ق کی
ِ پیمانے پر ہوا ہے۔ اس طرح قدیم مصادر و مراجع کے نئے تحقیق اڈیشن
ت زندگی بیان ک ر دیے ج ائیں اور اس کی دوسری صورت یہ ہے کہ کسی شخصیت کو لے کر اس کے حاال ِ
علمی ،دینی یا رفاہی خدمات کا تعارف کرا دیا جائے ،یا کسی مصنف کی کتابوں کا تعارف کراتے ہوئے اس
منہج تالیف سے بحث کی جائے ،یا کسی دور کو متعین کر کے اس میں ہونے والے کاموں کا تجزیہ کیا ِ کے
جائے اور اس دور کی اہم شخصیات کا تذکرہ کر دیا جائے۔تحقیق کی یہ دونوں ص ورتیں اف ادیت رکھ تی ہیں
اور ان کے مطابق بڑے پیمانے پر کام ہوا ہے اور ہ و رہ ا ہے ،لیکن م یرے اس تاذ گ رامی موالن ا س ید جالل
الدین عمری صدر ادارۂ تحقیق و تصنیف اسالمی علی گڑھ اور امیر جماعت اسالمی ہند کہتے ہیں کہ تحقی ق
اعلی صورت یہ ہے کہ فکری موضوعات پ ر ک ام کی ا ج ائے اور ایس ے مب احث اٹھ ائے ج ائیں جن میں ٰ کی
سماج کو درپیش نت نئے مسائل کا حل پیش کیا گیا ہو۔
الحمد ہلل اسالمیات کے میدان میں بحث و تحقیق کا کام بڑے پیمانے پ ر ہ و رہ ا ہے اور خ واتین بھی اس میں
س رگرمی س ے حص ہ لے رہی ہیں ۔ لیکن زی ادہ ت ر ک ام روای تی ان داز ک ا ہے۔ ت یزی س ے ب دلتی دنی ا میں
اعلی تحقیقی کام انجام دی ا ج ائے۔ یہ
ٰ ضرورت ہے کہ جو بہت سے نئے موضوعات سامنے آرہے ہیں ان پر
موضوعات بہت سے ہیں اور ان کا دائرہ عقائد و ٰالہیات ،تہذیب و معاشرت ،سیاست و معیشت ،بین االق وامی
ان
تعالی ،اس کی صفات اور ش ِ ٰ امور و مسائل اور دیگر میدانوں کو محیط ہے۔ مثال کے طور پر وجود باری
رین خ دا ،متش ککین اورملح دین کے اعتراض ات و ّر توحی د اور منک ِ ال وہیت کی تفہیم جدی د ،اس الم ک ا تص و ِ
ور توحی د ،وحی و رس الت ک ا ِ تص المی اس اور ود الوج وحدۃ ر، و
ّ تص ت ٰالہ کا
شبہات کا تنقیدی جائزہ ،حاکمی ِ
قرآنی تصور اور عقل انسانی کی نارسائی ،ایمان بالغیب کی تفہیم جدید ،ق رآن مجی د اور سائنس ی حق ائق کے
درمیان تطبیق اور موافقت یا مخالفت کے پہلوؤں کی تحقیق ،نئے دس توری ،سیاس ی اور س ماجی مس ائل میں
نبوی سے استفادہ کے حدود ،نئے حاالت میں اسالمی زندگی کی تشکیل میں اجتہاد کے امکان ات ،ن ئے ؐ ت
سن ِ
احکام کے استنباط میں مقاص ِدشریعت کی رعایت ،بدلتے ہوئے حاالت میں ن ئے علم کالم اور فقہ کی ت دوین،
اسالمی حدود و تعزیرات کی معقولیت کا اثبات ،ارتداد اور آزادئ ضمیر کا مسئلہ ،نفا ِذ حدود میں جدید وسائل
و ذرائع سے استفادہ کے ح دود ،م ذاہب اور تہ ذیبوں کے درمی ان مک المہ کی ض رورت اور اس کے ح دود،
تدوین نو ،نئے تناظر میں معاشرہ میں عورت کا مقام اور اس کے سیاس ی و س ماجی ِ اسالمی فلسفۂ تاریخ کی
حقوق ،وراثت ،شہادت اور طالق وغیرہ میں عورت کے ساتھ مرد سے مختلف س لوک کی حکم تیں ،ع ائلی
حق خلع کیقوانین کی اصالح :تع ّد ِد ازواج کے حق کی تحدید ،طالق کے اختیار کو بعض آداب کا پابند بناناِ ،
تجدید ،مطلقہ کے حقوق ،ایک ساتھ تین طالق کا مسئلہ ،اسالمی ریاست میں قانون س ازی اور انتظ ِام مملکت
میں غیر مسلموں سے اشتراک کے حدود ،مسلمان اقلیتوں ک ا سیاس ی موق ف ،بین االق وامی تعلق ات ،مش ترکہ
عالمی مسائل کے حل میں غیر مس لموں کے س اتھ اش تراک کی بنی ادیں ،معاش ی ت رقی کے اس المی ح دود،
ت س ود کی حکم تیں ،س ود ک ا ج واز ف راہم گلوبالئزیشن کے مثبت اور منفی پہلوؤں کا تنقی دی ج ائزہ ،ح رم ِ
کرنے والے نظریات کا علمی و تنقیدی جائزہ ،غ یر س ودی معیش ت ک ا تنقی دی ج ائزہ ،اس المی بینکن گ اور
فنانس کے مختلف پہل و ،اس المی بنی ادوں پ ر انش ورنس کی تنظیم جدی د ،وغ یرہ۔[ پروفیس ر محم د نج ات ہللا
صدیقی نے اپنے کتابچے میں ان موضوعات کی نشان دہی کی ہے جن پر موجودہ حاالت میں کام کرنے کی
ضرورت ہے۔مالحظہ کیجیے :معاص ر اس المی فک ر :چن د ت وجہ طلب مس ائل ،ہ دایت پبلش رز این ڈ ڈس ٹری
بیوٹرس ،نئی دہلی]۲۰۱۶،
یہ چند موضوعات ہیں جن کی نشان دہی کی گئی ہے۔ اس طرح کے دیگر بہت سے موض وعات کی فہرس ت
نظر کرم کے منتظر ہیں ۔ ان موضوعات پر خواتین بھی دا ِد تحقی ق دے
ِ تیار کی جاسکتی ہے جو محققین کی
سکتی ہیں۔
خواتین کے علمی کاموں کے تعارف کی ضرورت
واقعہ یہ ہے کہ اسالمی علوم میں خواتین کی خدمات کا کما حقہ تعارف اب تک نہیں کرایا جاس کاہے اور نہ
ان کے بارے میں عموما ً لوگوں کو کچھ معلومات ہیں ۔تذکرہ و تراجم کی کتابیں بھی ان کے ذکر سے تقریب ا ً
المقری (م ۸۳۳ھ)نے اپنی کتب غایۃ النھایۃ في طبقات القرّاء میں
ؒ خاموش ہیں ۔مثال کے طور پر ابن الجزری
تین ہزار نوسو پچپن()۳۹۵۵قاریوں کا تذکرہ جمع کیاہے،جن میں سے قاریات ص رف تین ( )۳ہیں ۔اس ماعیل
ب تص نیف بغدادی نے اپنی کتاب ھدیۃ العارفین في أسماء الم ؤلّفین وآث ار المص نّفین میں ص رف دو( )۲ص اح ِ
خواتین کا ذکر کیاہے۔ اسی طرح زرکلی کی األعالم میں تیرہ()۱۳اور عمر رضا کحالہ کی أعالم النس اء میں
صرف دس()۱۰ایسی خواتین کا تذکرہ ہے جنہوں نے کسی موضوع پر تصنیف و تالیف کا کام کیاہے۔
خواتین کی خدمات سے بے خبری کا اندازہ ایک واقعہ سے لگایاجاسکتاہے۔ چھ برس قبل جب میری بھ تیجی
عزیزہ ندیم سحر عنبریں کے پی ایچ ڈی مقالے کے لیے عنوان کے انتخاب کا مرحلہ درپیش تھا ،میں نے یہ
خواہش ظاہر کی کہ وہ ’تفسیر وعلوم قرآنی میں خواتین کی خدمات ‘پر کام کرے۔ مشورہ کے لیے میں شعبۂ
اسالمک اسٹڈیز ،جامعہ ملیہ اسالمیہ ،نئی دہلی کے استاد اور سرپرست پروفیسر اخترالواسع کی خ دمت میں
قابل ذکر کام نہیں ہے ،اس لیے اسے پی ایچ
تفسیر قرآن میں خواتین کا کوئی ِ
ِ حاضر ہوا۔ انہوں نے فرمایا کہ
ڈی کا موضوع نہیں بنایا جا سکتا۔ میں نے جب ان کے سامنے موضوع کی اہمیت بیان کرنی چاہی ت و انہ وں
نے فرمایا:کسی ایک خاتون کا نام بتائیے ،جس نے کسی زبان میں قرآن مجید کی مکمل تفسیر لکھی ہ و؟میں
نے عرض کیا :تحقیق اسی کا نام ہے،معلوم ہوجائے گا کہ کسی خاتون نے تفسیر نہیں لکھی ہے اور یہ بھی
ممکن ہے کہ تالش وجستجو سے کوئی تفسیر نکل آئے۔باآلخر یہ موضوع منظور ہوا اور جب کام مکمل ہ وا
تو اس کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ عربی ،ترکی اور اردو میں ایک درجن سے زیادہ خواتین کی مکمل تفسیریں
موجود ہیں ،جن میں سے بعض بہت مبسوط اور ضخیم مجلدات پر مشتمل ہیں۔ اس کے عالوہ انہوں نے بہت
سی جزئی تفسیریں (سورتوں اور آیات)لکھی ہیں ،کئی زب انوں میں ق رآن مجی د کے ت رجمے ک یے ہیں۔ اس
کے عالوہ ق رآنی موض وعات پ ر ایم ف ل اور پی ایچ ڈی کے مق االت س یکڑوں کی تع داد میں ہیں۔ یہی ح ال
اسالمیات کے دیگر میدانوں کا ہے کہ ان میں خواتین کے کاموں سے عموم ا ً بے خ بری ہے۔ ض رورت ہے
کہ خواتین کے علمی کاموں کے تعارف کی طرف توجہ دی جائے ،انھیں تحقیق ک ا موض وع بنایاج ائے اور
ان کو نمایاں کیاجائے۔