You are on page 1of 15

‫(ماضی کا تذکرہ‪ ،‬حال کا جائزہ‪،‬مستقبل کا الئحۂ عمل)‬

‫اسالم میں خواتین کا مقام و مرتبہ واضح ہے۔ انہیں علمی اور عملی ہرط رح کی س رگرمیاں انج ام دی نے کی‬
‫اجازت ہے۔ ان کے حقوق اور فرائض س ب متعین ک ردیے گ ئے ہیں ۔لیکن مق ِام ح یرت و افس وس ہے کہ ان‬
‫کے بارے میں اپنے اور پرایے سب غلط بیانی اور غلط فہمی کا شکار ہیں ۔ای ک ط رف اس الم کے مخ الفین‬
‫اوربدخواہ طرح طرح کے اعتراضات اور الزامات عائد ک رتے ہیں۔ وہ کہ تے ہیں کہ اس الم نے م ردوں کے‬
‫مقابلے میں عورت وں ک و پس ت درجہ دی ا ہے۔ انہیں گھ ر کی چہ ار دی واری میں قی دی بناکررکھ اہے۔ ان پ ر‬
‫حجاب کی بندشیں عائد کرکے انہیں سماج سے بالکلیہ کاٹ دیاہے اور کسی کو ان کی علمی صالحیتوں سے‬
‫فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں ۔ ظاہر ہے کہ یہ اور اس طرح کے دیگر اعتراضات اسالم کی ص حیح تعلیم ات‬
‫سے ن اواقفیت ک ا ن تیجہ ہیں۔ لیکن دوس ری ط رف یہ بھی ای ک تلخ حقیقت ہے کہ اس الم کے ن ام لی واؤں نے‬
‫اس الم میں خ واتین کے مق ام و م رتبہ ک ا ص حیح تع ارف نہیں کرای ا ہے۔ یہی نہیں ‪ ،‬بلکہ ان ک ا عملی رویّہ‬
‫مخالفین اسالم کے مذکورہ باال اعتراضات کی تائید و توثیق کرتاہوانظر آتاہے۔‬
‫ِ‬

‫دور زوال میں مسلم خواتین ک و ان ک ا ص حیح مق ام نہیں دی ا گی ا۔ انہیں محض‬ ‫یہ واقعہ ہے کہ مسلمانوں کے ِ‬
‫توال د و تناس ل ک ا ای ک آلہ س مجھاگیا۔ ص رف بچ وں کی پ رورش کرن ا اور گھ ر گرہس تی کے ک اموں میں‬
‫یل علم کے‬ ‫رض منص بی ق رار دیاگی ا۔علم کے دروازے ان پ ر بن د رکھے گ ئے۔ تحص ِ‬ ‫ِ‬ ‫مصروف رہنا ان کا ف‬
‫ّ‬
‫مواقع سے محرومی ان کا مقدر ٹھہری اور افسوس کی ب ات ت ویہ کہ اس ظلم و ج بر اور ح ق تلفی کے ل یے‬
‫ث نبوی سے س ن ِد ج واز ف راہم کی گ ئی۔ کہاگی ا کہ ہللا کے رس ول ﷺ نے عورت وں ک و ’ن اقص العق ل‘‬ ‫احادی ِ‬
‫قراردیاہے۔[صحیح البخاری‪ ،‬کتاب الزکاۃ‪ ،‬باب الزکاۃ علی االقارب‪] ۱۴۶۲،‬اور اس سے م راد یہ لی گ ئی کہ‬
‫ان میں عقل و فہم اور غور و فکر کی صالحیتوں کی کمی ہوتی ہے‪ ،‬حاالں کہ جس موقع پ ر ہللا کے رس ول‬
‫ﷺ نے یہ بات ارشاد فرمائی تھی وہ وعظ و ارشاد اور تعلیم و تلقین کی مجلس تھی‪ ،‬نہ کہ کوئی قانون‬
‫انداز بیان الگ الگ ہوتا ہے۔ م اہرین‬
‫ِ‬ ‫بتانے اور حکم لگانے کا موقع۔ اور سب جانتے ہیں کہ دونوں مواقع پر‬
‫کہتے ہیں کہ عورتوں پر عقل کے مقابلے میں جذبات غالب رہتے ہیں اور مردوں پر جذبات کے مقابلے میں‬
‫عقل کا غلبہ رہتا ہے۔اور یہی دونوں کی ضروریات کے عین مطابق ہے۔اس حدیث میں درحقیقت جذبات کے‬
‫مق ابلے میں عق ل کی کمی کی ب ات کہی گ ئی ہے۔[مالحظہ کیج یے‪ :‬محم د علی الص ابونی‪ ،‬من کن وز‬
‫السنۃ‪:‬دراسات أدبیۃ و لغویۃ من الح دیث الش ریف‪ ،‬مکتبۃ االقص ٰی مکۃ المک رمۃ‪۱۹۷۰ ،‬ء‪ ،‬ص ‪ ،۱۵۴‬س میعۃ‬
‫نازش‪ ،‬مقالہ‪:‬داللۃ سیاق بعض االحادیث حول المرأۃ مقاالً و مقاماً‪ ،‬سہ ماہی الدراس ات االس المیۃ‪ ،‬اس الم آب اد‪،‬‬
‫جلد‪ ،۵۱‬شمارہ‪،۴‬اکت وبر۔دس مبر‪۲۰۱۶‬ء ]اس ی ط رح کہ ا گی ا کہ ہللا کے رس ول ﷺ نے عورت وں ک و لکھن ا‬
‫سکھانے سے منع کی ا ہے۔[ اس کی روایت ابن حب ان‪ ،‬ح اکم اور بیہقی نے کی ہے۔]ح االں کہ یہ روایت س ند‬
‫کے اعتب ار س ے انتہ ائی ض عیف‪ ،‬بلکہ موض وع ہے۔[ مالحظہ کیج یے‪ :‬محم د ناص ر ال دین االلب انی‪،‬سلس لۃ‬
‫االحادیث الضعیفۃ و الموض وعۃ و أثرھ ا الس ئ علی االمۃ‪ ،۵/۳۰ ،‬ح دیث نم بر‪ ،۲۰۱۷‬ن یز سلس لۃ األح ادیث‬
‫الصحیحۃ‪ ،‬جلد اول‪ ،‬جز اول‪ ،‬ص‪۳۴۶‬۔ ‪۳۴۷‬۔ مزید مالحظہ کیجیے‪:‬الشیخ شمس الحق عظیم آبادی کا رس الہ’‬
‫عقود الجمان فی جواز تعلیم الکتابۃ للنسوان‘۔]‬
‫خواتین کا امتیازی کردار‬
‫اسالمی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو سماج کی تعمیر و ترقی میں خ واتین ک ا ک ردار ب ڑا درخش اں اور مث الی‬
‫نظر آتاہے۔ان کی خدمات ہمہ جہت ہیں ۔ خاص طور سے علوم و فنون کی اشاعت کے می دان میں انہ وں نے‬
‫بہت سرگرمی سے حصہ لیا ہے۔ اسالم کی ابتدائی صدیوں میں ان کا یہ کردار بہت نمایاں نظر آتاہے۔‬
‫علم کی نسل در نسل منتقلی میں خواتین نے اہم کردار نبھایا ہے۔ انہوں نے قرآن کریم حف ظ کی اہے اور حف ظ‬
‫کرایاہے‪،‬تجوید اور علم قراء ت میں مہارت حاصل کی ہے اور دوس روں ک و یہ فن س کھایا ہے‪،‬اپ نے ش یوخ‬
‫ث نبوی کا سرمایہ حاصل کیا ہے اور پوری حفاظت کے ساتھ اسے دوسروں ت ک پہنچای ا ہے‪ ،‬فقہ‬ ‫سے احادی ِ‬
‫ٰ‬
‫سے اشتغال رکھاہے اور اپنے فتاوی کے ذریعہ عوام کی رہ نمائی کی ہے‪ ،‬زہد وتصوف میں شہرت حاصل‬
‫کی ہے اور وعظ وارشاد کی محفلیں سجائی ہیں ۔ الغرض علوم و فنون اور خاص طور پر اس المی عل وم ک ا‬
‫مرہون منت نہ ہو۔‬
‫ِ‬ ‫کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جو خواتین کا‬
‫خواتین کے ذریعہ علوم کی سرپرستی‬
‫فروغ علم کا ایک اہم ذریعہ یہ ہے کہ تعلیم وتربیت کے ل یے مک اتب‪ ،‬م دارس‪ ،‬رباط ات‪ ،‬ادارے اور مراک ز‬
‫ِ‬
‫قائم کیے جائیں ‪ ،‬ان کے لیے اوقاف خاص کیے ج ائیں ‪ ،‬ان میں تعلیم دی نے وال وں کے ل یے وظ ائف مق رر‬
‫کیے جائیں اور تعلیم حاصل کرنے والوں کے مصارف برداشت کیے ج ائیں ۔جن لوگ وں نے خ ود ک و علمی‬
‫کاموں کے لیے وقف کررکھاہے انہیں معاشی تگ ودورکرنے سے آزاد رکھا جائے۔ اسالمی تاریخ بتاتی ہے‬
‫کہ حکم راں طبقے س ے تعل ق رکھ نے والی اور دولت وث روت س ے بہ رہ ور خ واتین نے ہ ر دور میں یہ‬
‫خدمات انجام دی ہیں ۔ یہاں صرف چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں ‪:‬‬
‫عباسی خلیفہ ہارون رشید (م‪۱۹۳‬ھ)کی بیوی زبیدہ بنت جعفر (م ‪۲۱۶‬ھ) کو رفاہی ک اموں کی انج ام دہی کے‬
‫مع املے میں بہت ش ہرت حاص ل ہے۔ اس ے ق رآن مجی د کی تعلیم س ے بہت دل چس پی تھی۔ ابن خلک ان نے‬
‫لکھاہے کہ اس نے اپنی سو (‪ )۱۰۰‬باندیوں کو اس کے لیے فارغ کررکھاتھا‪:‬‬
‫کان لھا ماءۃ جاریۃ یحفظن القرآن‪ ،‬ولکل واحدۃ ِورد ُعش ر الق رآن‪ ،‬وک ان یس مع في قص رھا ک دو ّ‬
‫ي‬
‫النحل من قرا ء ۃ القرآن (وفیات األعیان‪۳ ،‬؍‪)۳‬‬
‫رآن ک ریم کی تالوت اور حف ظ میں مش غول رہ تی‬
‫’’اس کی سو سے زیادہ باندیاں تھیں ‪ ،‬جو زیادہ ت ر وقت ق ِ‬
‫تھیں ۔ ان میں س ے ہ ر ای ک ق رآن کے دس ویں حص ہ کی تالوت ک رتی تھی۔ مح ل میں ان کی آواز ش ہد کی‬
‫مکھیوں کی بھنبھناہٹ کے مثل سنائی دیتی تھی۔‘‘‬
‫زم ّرد خاتون(‪۵۵۷‬ھ)‪ ،‬جو دمشق کے حکم راں الملک دقّ اق کی بہن تھیں ‪ ،‬انھ وں نے ای ک مدرس ہ ق ائم کی ا‬
‫تھا‪ ،‬جو المدرسۃ الخاتونیۃ البرانیۃ کے نام سے معروف تھا۔[ال زرکلی‪ ،‬االعالم‪۳،‬؍‪] ۴۹‬عائش ہ ہ انم ( ب ارہویں‬
‫صدی ہجری) نے ‪ ۱۱۵۴‬ھ میں ایک مسافر خانہ تعمیر کرایا تھا جس کو ’ سبیل عائشہ ہانم ‘ کہا جاتا تھا۔ اس‬
‫کے اوپر انھوں نے قرآن کی تعلیم کے لیے ایک مکتب قائم کیا تھا اور ان دونوں کے مصارف کے لیے بہت‬
‫سی جائیدادیں وقف کر دی تھیں اور اپنے ورثاء کو ان کا متولّی بنا دیا تھا۔ [ عمر رض ا کح الۃ‪،‬اعالم النس اء‪،‬‬
‫‪۳‬؍‪ ] ۱۹۴‬یمن کے سلطان الملک المظفر کی بیوی مریم نے زبید میں المدرسۃ المجاھدیۃ قایم کیا‪ ،‬اس میں ی تیم‬
‫اور غریب بچوں اور دیگر طالب علموں ک و داخ ل کی ا‪ ،‬اس میں ام ام‪ ،‬م ؤذن اور معلّم ک و رکھ ا اوراس کے‬
‫مصارف کے لیے وق ف ک ا معق ول نظم کی ا۔[عم ر رض ا کح الۃ‪،‬اعالم النس اء‪۵ ،‬؍‪]۴۰‬الس یدۃ ملکۃ بنت اب راہیم‬
‫البعلیۃ الدمشقیۃ نے خواتین کے لیے مخصوص ایک رباط قائم کیا‪ ،‬جس میں قرآن مجید کے حف ظ اور ح دیث‬
‫نبوی کی تعلیم کا نظم کیا۔[ عمر رضا کحالۃ‪،‬اعالم النساء‪۲،‬؍‪]۳‬‬
‫صحابیات و تابعیات کی علمی خدمات‬
‫علوم اسالمیہ کی اشاعت و ترویج کا کام عہ ِد نبوی اور عہ ِد صحابہ ہی سے شروع ہو گیا تھا اور خواتین نے‬
‫لمہ‬
‫عائشہ اور حضرت ام س ؓ‬‫ؓ‬ ‫اس میں سرگرمی سے حصہ لیا تھا۔۔امہات المومنین میں خاص طور پر حضرت‬
‫عائشہ نہایت ذہین اور غ یر معم ولی ح افظہ کی‬
‫ؓ‬ ‫نے بڑے پیمانے پر امت کو علمی فیض پہنچایا ہے۔حضرت‬
‫مالک تھیں ۔ چنانچہ انہوں نے رسول ہللا ﷺ سے سنی ہوئی ہر بات کو اس کی صحیح ترین اور کام ل ت رین‬
‫شکل میں یادرکھ ا اور آپ کے جن اعم ال ک ا مش اہدہ کی ا ان ک و بھی پ وری ط رح س مجھ ک ر اپ نے ذہن میں‬
‫محفوظ رکھا۔وہ رسول ہللا ﷺ کی وفات کے بعد پچاس(‪ )۵۰‬برس تک زندہ رہیں اور مسلمانوں کی دونس لوں‬
‫آپ کی تعلیمات کو پہنچانے کا ذریعہ بنیں ۔وہ ایک قسم کا’ زندہ ٹیپ ریکارڈ‘ بن کر تقریباًنص ف ص دی‬‫تک ؐ‬
‫تک امت کے حق میں فیض رسانی ک ا ذریعہ ب نی رہیں ۔(ڈاک ٹر فری دہ خ انم‪ ،‬امہ ات الموم نین‪ ،‬الرس الہ ب ک‬
‫سینٹر‪ ،‬نئی دہلی ‪۲۰۰۱‬ء‪ ،‬ص‪۹‬۔‪)۱۰‬‬
‫عائشہ سے دوہ زار دوس ودس(‪ )۲۲۱۰‬اح ادیث م روی ہیں ۔ان س ے دو س و نن انوے(‪ )۲۹۹‬ص حابہ‬ ‫ؓ‬ ‫حضرت‬
‫سلمہ کا شمار فقہ ائے ص حابیات‬‫ؓ‬ ‫وتابعین نے روایت کی ہے‪ ،‬جن میں سڑسٹھ( ‪)۶۷‬خواتین تھیں ۔ حضرت ام‬
‫ٰ‬
‫فتاوی جمع کیے جائیں تو ایک رس الہ تی ار ہوس کتاہے۔‬ ‫قیم نے لکھاہے کہ اگر ان کے‬
‫میں ہوتاہے۔عالمہ ابن ؒ‬
‫[ اعالم الم وقعین‪ ،‬ابن قیم‪ ،‬دار الکتب العلمیۃ‪ ،‬ب یروت‪۱۹۹۶ ،‬ء‪۱،‬؍‪۱۰‬۔‪]۱۲‬ان س ے ای ک س و ای ک (‬
‫‪)۱۰۱‬صحابہ وتابعین نے روایت کی ہے‪ ،‬جن میں تیئس(‪)۲۳‬خواتین ہیں ۔اح ادیث کی روایت میں ص حابیات‪،‬‬
‫تابعیات اور بعد کی خواتین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔یہاں صرف چند مشہور خ واتین ک ا ت ذکرہ کی ا ج ا‬
‫رہا ہے‪:‬‬
‫المسیب (م‪۹۴‬ھ)بڑے علم و فضل کے مال ک تھے۔ ان کے حلقۂ درس س ے بے‬ ‫ؒ‬ ‫سید التابعین حضرت سعید بن‬
‫شمار لوگوں نے فائدہ اٹھایا اور ان سے احادیث روایت کیں ۔ ان کی صاحب زادی ’د ّرۃ‘ نے ان س ے م روی‬
‫تمام احادیث حفظ کرلی تھیں ۔خلیفۂ وقت عبد الملک بن مروان(م‪۸۶‬ھ) نے اپنے بی ٹے اور ولی عہ د ولی دکے‬
‫لیے ان کا رشتہ مانگا‪ ،‬لیکن ابن المسیب ؒ نے انکار کردی ا اور ان ک ا نک اح اپ نے ای ک ش اگرد ابن ابی وداعہ‬
‫المسیب کی علمی مجلس میں جانے لگے ت و‬ ‫ؒ‬ ‫سے کردیا۔ نکاح کے کچھ روز کے بعد جب شوہر حضرت ابن‬
‫بیوی نے کہا‪ :‬اجلس أعلّمک علم سعید۔’’یہیں رہیے۔ (میرے والد )حضرت سعیدؒ کے پاس جو علم ہے وہ میں‬
‫ہی آپ کو دے دوں گی۔‘‘( ابن الحاج‪ ،‬المدخل‪۱ ،‬؍‪،۲۱۵‬ابن سعد‪،‬الطبقات‪۵ ،‬؍‪ ،۱۳۸‬ابو نعیم‪ ،‬حلیۃ االولیاء‪۲ ،‬؍‬
‫‪)۱۶۷‬‬
‫انس (م‪۱۷۹‬ھ)کی صاحب زادی کو پوری مؤطا یاد تھی۔ان کے بارے میں بیان کیاگی اہے کہ وہ‬ ‫امام مالک بن ؒ‬
‫اپنے والد کے حلقۂ درس میں دروازے کی اوٹ سے شریک رہتی تھیں ۔ احادیث پڑھ نے میں ک وئی ش خص‬
‫غلطی کرت ا ت و وہ دروازہ کھٹکھٹادی اکرتی تھیں ۔ ام ام مال ک س مجھ ج اتے اور پڑھ نے والے کی اص الح‬
‫کردیتے تھے۔[ابن فرحون‪ ،‬الدیباج المذھّب فی أعیان علماء المذھب‪۱ ،‬؍‪]۸۶‬‬
‫فاطمہ بنت منذر بن زب یر بن الع وام عظیم مح دثہ اور فقیہہ تھیں ۔انہ وں نے بہت س ی اح ادیث کی روایت کی‬
‫بکر سے۔ان کی بیش تر روایات ان کے شوہر حض رت‬ ‫ہے‪،‬خاص طور پر اپنی دادی حضرت اسماء بنت ابی ؓ‬
‫روی ہیں ۔‬ ‫ےم‬ ‫طے س‬ ‫روہ ؒ (م‪۱۴۶‬ھ)کے واس‬ ‫ام بن ع‬ ‫ہش‬
‫نفیسہ بنت الحسن بن زید بن الحسن بن علی بن ابی طالب(م ‪۲۰۸‬ھ)‪،‬جو امام جعفر صادقؒ کی بہو تھیں ‪ ،‬ب ڑی‬
‫ب علم و فضل خاتون تھیں ۔ وہ ا پنے شوہر اسحاق مؤتمن کے ساتھ مدینہ سے مصر چلی گئیں تو وہ اں‬ ‫صاح ِ‬
‫ان کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔ چنانچہ لوگ علم کی پیاس بجھانے کے لیے جوق درجوق ان کے گھر‬
‫افعی ک ا ہے‪ ،‬ج و ان س ے علمی اس تفادہ‬
‫کا رخ کرتے تھے۔ان کے شاگردوں میں سب سے مشہورنام ام ام ش ؒ‬
‫یر ق رآن دون وں کی ب ڑی‬
‫کے لیے برابر ان کے گھر تشریف لے جایا کرتے تھے۔ سیدہ نفیسہ حدیث اور تفس ِ‬
‫عالمہ تھیں ۔ انہیں پورا قرآن حفظ تھا۔ وہ احادیث بھی روایت ک رتی تھیں ۔ م ورخین نے دون وں می دانوں میں‬
‫ان کی عظمت ومہارت کا تذکرہ کیاہے۔زرکلی نے لکھ اہے‪ :‬ع المۃ بالتفس یر والح دیث[ال زرکلی‪ ،‬االعالم‪۸ ،‬؍‬
‫‪] ۴۴‬‬
‫’’وہ تفسیر اور حدیث کی عالمہ تھیں ۔‘‘سیدہ نفیسہ کی علمی عظمت کا اعتراف ہی ہے کہ ت اریخ میں ان کی‬
‫شہرت ’نفیسۃ العلم‘ کے نام سے ہے۔‬
‫مساجد میں خواتین کے حلقے‬
‫آج ہمارے درمیان اس موضوع پر مباحثے جاری ہیں کہ مساجد میں خواتین کا داخلہ ج ائز ہے ی ا نہیں ؟جب‬
‫کہ ابتدائی صدیوں میں خواتین کے علمی دروس کی مجلسیں منعقد ہونا ایک ع ام ب ات تھی۔ وہ اپ نے گھ روں‬
‫میں ‪ ،‬دوسروں کے گھروں میں ‪،‬مسجدوں میں ‪ ،‬مدارس اور رباطات میں ‪،‬باغات میں اور دیگر مقام ات میں‬
‫مسن ِد تدریس پر بیٹھتی تھیں اور ان سے استفادہ کرنے والوں میں مرد اور خ واتین دون وں ہ وتے تھے۔ اس الم‬
‫میں تین مسجدوں (مس ج ِد ح رام‪ ،‬مس ج ِد نب وی اور مس جد اقص ٰی) کی غ یر معم ولی اہمیت ہے۔ م ؤرخین نے‬
‫صراحت کی ہے کہ ان سب میں خواتین کی علمی مجلسیں منعقد ہوتی تھیں اور وہ باقاعدہ درس دیتی تھیں۔‬
‫مسجد حرام میں درس دینے والوں میں ام محمد سارہ بنت عبدالرحمن المقدس یۃ‪،‬مس جد نب وی میں درس دی نے‬
‫والی خواتین میں ام الخیر وام محمد فاطمہ بن ابراہیم بن محمود بن جوھر البعلبکی المعروف بالبطائحی‪،‬قاضی‬
‫القضاۃ شیخ تقی الدین سلیمان بن حمزہ کی بیوی زینب بنت نجم ال دین اس ماعیل المقدس یۃ‪ ،‬ام محم د زینب بنت‬
‫اقصی میں درس دینے والی خواتین میں ام ال درداء الت ابعیۃاورام محم د ھ دیۃ‬
‫ٰ‬ ‫احمد بن عمر المقدسیۃاورمسجد‬
‫بنت علی بن عسکر البغدادی (‪ ۸‬؍ ویں صدی ہجری) شہرت رکھتی ہیں۔‬
‫اسالمی ت اریخ میں دمش ق کی مس جد ام وی کی بھی غ یر معم ولی اہمیت ہے۔ اس میں بھی خ واتین کی درس‬
‫وتدریس کی مجلسیں قائم ہوتی تھیں ۔ابن بطوطہ نے اپنے سفر نامے میں لکھاہے کہ اس نے مسج ِد اموی کی‬
‫زیارت کی اور وہاں متعدد خواتین‪ ،‬مثالً زینب بنت احم د بن اب راہیم اور عائش ہ بنت محم د بن مس لم الح رّانیۃ‬
‫سے حدیث کی سماعت کی۔‬
‫خواتین۔ اکاب ِر امت کی معلّمات‬
‫دور عروج میں خواتین کے افادہ کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ان س ے دیگ ر خ واتین بھی اس تفادہ ک رتی‬ ‫اسالم کے ِ‬
‫تھیں اور مرد بھی فیض اٹھانے میں پیچھے نہیں رہتے تھے۔ اس پر نہ صحابہ اور ت ابعین نے نک یر کی اور‬
‫نہ بعد کی صدیوں میں محدثین اور فقہ اء نے کبھی اس پ ر پابن دی عائ د ک رنے کی کوش ش کی۔ خ واتین کے‬
‫فخر کے لیے یہ بات کافی ہے کہ ان کی مجلسوں میں بڑے بڑے علماء و فقہاء و محدثین حاضر ہ وتے تھے‬
‫تاریخ اسالم کی چند اہم شخصیات اور ان کی معلّمات کا تذکرہ کی ا جات ا‬ ‫ِ‬ ‫اور ان سے استفادہ کرتے تھے۔ یہاں‬
‫ہے ‪:‬‬
‫ذہبی (م‪۷۴۸‬ھ)نے اپنی کتاب’ معجم شیوخ الذھبی‘ میں ‪،‬اسی ط رح عالمہ ابن حج ؒر (م‪۸۵۲‬ھ) نے اپ نی‬ ‫امام ؒ‬
‫ّ‬
‫کتاب’ المعجم المؤسس للمعجم المفہرس‘ میں اپ نی بہت س ے معلم ات اور ش یخات ک ا ذک ر کی اہے۔انہ وں نے‬
‫الدرر الکامنۃ في أعیان الماءۃ الثامنۃاور انباء الغمر فی أنباء العم ر میں بہت س ی خ واتین ک ا ت ذکرہ کی اہے۔ان‬
‫سخاوی (م‪۹۰۲‬ھ)نے اپنی کتاب الضوء الالمع ألھل القرن التاسع کی ایک جل د خ واتین کے‬ ‫ؒ‬ ‫کے شاگرد عالمہ‬
‫ّ‬
‫لیے خاص کی ہے۔ انہوں نے ایک ہزار ستر(‪)۱۰۷۰‬خواتین کا تذکرہ کیاہے‪ ،‬جن میں سے زیادہ تر مح دثات‬
‫سیوطی (م ‪۹۱۱‬ھ)نے متعدد خواتین سے علم حاصل کی ا۔ مثالً ام ہ انی بنت‬ ‫ؒ‬ ‫و فقیہات تھیں ۔ عالمہ جالل الدین‬
‫الھووینی‪ ،‬ام الفضل بنت محمد المقدسی‪ ،‬خدیجہ بنت ابی الحس ن المقن‪،‬نش وان بنت عب دہللا الکن انی‪،‬ھ اجر بنت‬
‫محمد المصریۃ‪ ،‬امۃ الخالق بنت عبداللطیف العقبی وغیرہ۔ انہوں نے اپ نی معجم اور دیگ ر مؤلف ات میں ان ک ا‬
‫حزم (م‪۴۵۶‬ھ) کی تعلیم وتربیت میں متع دد خ واتین‬ ‫تذکرہ کیا ہے اور ان کی روایات بیان کی ہیں ۔عالمہ ابن ؒ‬
‫ک ا اہم ک ردار ہے‪ ،‬جنہ وں نے انہیں ق رآن ک ریم کی تعلیم دی‪،‬لکھن ا پڑھن ا س کھایا اور ان میں ش عری ذوق‬
‫دادی (م‪)۴۶۳‬نے ط اہرہ بنت احم د بن یوس ف‬ ‫ؒ‬ ‫زم نے ب رمال اع تراف کی اہے۔خطیب بغ‬ ‫پی داکیا۔ اس ک ا ابن ح ؒ‬
‫التنوخیہ سے سماعت کی‪ ،‬جو بڑی محدثہ اور فقیہہ تھیں ۔ جلیلۃ بنت علی بن الحسن الش جری نے ع راق اور‬
‫سمعانی (م‪۵۶۲‬ھ)اور دیگر علمائے کبار نے ان س ے فیض اٹھای ا۔اب وعمر ومس لم بن‬ ‫ؒ‬ ‫شام کا سفر کیا توعالمہ‬
‫ّ‬
‫دی (م ‪۲۲۲‬ھ) نے س تر(‪ )۷۰‬خ واتین س ے روایت کی ہے۔اس ط رح ابوالولیدہش ام بن‬ ‫اب راہیم االزدی الفراھی ؒ‬
‫اکر (م‬
‫ؒ‬ ‫عس‬ ‫ابن‬ ‫ظ‬ ‫حاف‬ ‫اہے۔‬ ‫ملت‬ ‫ام‬ ‫ن‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫واتین‬ ‫خ‬ ‫)‬‫‪۷۰‬‬ ‫ر(‬‫ّ‬ ‫ت‬ ‫س‬ ‫بھی‬ ‫میں‬ ‫یوخ‬ ‫ش‬ ‫کے‬ ‫ھ)‬‫‪۲۲۷‬‬ ‫عب دالملک الطیالس ؒی (م‬
‫اس ی(‪)۸۰‬س ے متج اوز‬ ‫‪۵۷۱‬ھ) نے جن خواتین سے استفادہ کیا اور ان سے احادیث روایت کیں ان کی تع داد ّ‬
‫ہے۔ ابوعبدہللا محم د بن محم ود بن النج ؒار (م ‪۶۴۳‬ھ)کے اس اتذہ اور ش یوخ میں تین ہ زار (‪ )۳۰۰۰‬م رد اور‬
‫چار سو(‪ )۴۰۰‬خواتین تھیں ۔ حافظ ابن حجر ؒ نے تقریب التہذیب میں تیسری صدی ہجری کے اوائل ت ک آٹھ‬
‫ت ح دیث میں ش ہرت حاص ل تھی۔ علم ح دیث‬ ‫سو چوبیس(‪ )۸۲۴‬خواتین کے نام ذک ر ک یے ہیں ‪ ،‬جنھیں روای ِ‬
‫کی اشاعت و ترویج کے میدان میں زمانہ کے اعتبار سے بھی کتابیں لکھی گئی ہیں ‪ ،‬مق ام کے اعتب ار س ے‬
‫بھی اور عمومی انداز میں بھی۔[ مثالً مالحظہ کیجیے‪ :‬آمال قرداش بنت الحسین‪ ،‬دور المرأۃ فی خدمۃ الحدیث‬
‫االولی‪ ،‬وزارۃ االوقاف‪ ،‬الدوحۃ‪۱۴۲۰،‬ھ‪،‬صالح یوسف معتوق‪ ،‬جہود المرأۃ فی روایۃ الث امن‬ ‫ٰ‬ ‫فی القرون الثالثہ‬
‫الھجری)‪ ،‬دار البشائر االسالمیۃ‪ ،‬بیروت‪ ،‬ال دکتور محم د بن ع زوز‪،‬جھ ود الم رأۃ الدمش قیۃ فی روایۃ الح دیث‬
‫الشریف‪،‬الشیخ مسھور حسن سلمان‪ ،‬عنایۃ النساء بالحدیث النبوی‪ ،‬عالیۃ عبد ہللا محمد بالطو الح دیث ( الق رن ‪،‬‬
‫االستاذۃ المساعدۃ بکلیۃ اعداد المعلّم ات بمکۃ المک رمۃ‪ ،‬ت راجم المح دثات من التابعی ات و مروی اتھن فی الکتب‬
‫الستۃ‪ :‬جمع و دراسۃ و تعلیق‪(،‬رسالۃ ماجستیر)ڈاکٹر محمد اکرم ندوی (آکسفورڈ) نے محدثات پر غیر معمولی‬
‫اور زبردست ک ام کی اہے۔ انہ وں نے چ الیس جل دوں میں دس ہ زار س ے زائ د ایس ی خ واتین ک ا ت ذکرہ جم ع‬
‫ث نب وی کی روایت‪ ،‬تعلیم وت دریس اور تص نیف و‬ ‫کردیاہے جنہوں نے چودہ سو برس کے عرصے میں حدی ِ‬
‫تالیف کی خدمت انجام دی ہے۔ان کی کتاب کا ن ام ہے‪ :‬الوف اء في أس ماء النس اء‪ :‬ت راجم نس اء الح دیث النب وی‬
‫الشریف۔ اس کی پہلی جلدحال میں شائع ہوئی ہے۔ بقیہ جلدوں کی اشاعت ابھی ہ ونی ہے‪ ،‬البتہ اس ک ا مق دمہ‬
‫انگریزی زبان میں )‪Al-Muhaddithat(The women Scholars in Islam‬کے نام سے شائع ہوگیاہے۔‬

‫یر ق رآن‪ ،‬علم ق راء ت اور فقہ میں بھی خ واتین‬ ‫علم حدیث کے عالوہ اسالمیات کے دیگر میدانوں ‪ ،‬مثالً تفس ِ‬ ‫ِ‬
‫ٰ‬
‫الصغری‪ ،‬جن کا نام ھجیمۃ بنت ح یی االوص ابیۃ تھ ا‪،‬‬ ‫کی عظمت مسلّم تھی۔ مشہور تابعیہ حضرت ام الدرداء‬
‫انہیں علم ق راء ت میں مہ ارت حاص ل تھی۔[ ابن الج زری المق ری‪ ،‬غ ایۃ النہ ایۃ فی طبق ات الق رّاء )ف اطمہ‬
‫نیشاپوریہ(چوتھی صدی ہجری) حافظۂ قرآن‪ ،‬عالمہ‪ ،‬مفسّرہ‪ ،‬اور فقیہہ کی حیثیت سے مش ہور ہ وئیں ۔ انھیں‬
‫علم قراء ت میں بھی کمال حاصل تھا۔ حج کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لے گئیں ت و وہ اں درس دین ا ش روع‬ ‫ِ‬
‫کیا۔ رفتہ رفتہ ان کا حلقۂ درس وسیع ہوتا گیا اور ان کی شہرت دور دراز عالق وں ت ک پہنچ گ ئی۔ اس ی وجہ‬
‫سے انھیں ’ مفسّرہ فاطمہ نیشاپوریہ ‘ کہا جاتا تھا۔[عمر رضا کحالۃ‪،‬أعالم النس اء‪۴،‬؍‪۱۴۷‬۔‪] ۱۴۸‬ام الع ز بنت‬
‫ت س بعہ میں مہ ارت حاص ل تھی۔ [عم ر س بعہ‬ ‫محمد بن علی بن ابی غالب العبدری الدانی(‪۶۱۰‬ھ) کو ق راء ا ِ‬
‫ت میں مہ ارت‬ ‫رضا کحالۃ‪،‬أعالم النساء‪۳،‬؍‪] ۲۶۹‬خدیجۃ بنت ہارون (م‪۶۹۵‬ھ) عمدہ قاریہ تھیں ۔ ان کو ق راء ا ِ‬
‫فن قراء ت کی کتاب ’الشاطبیۃ‘ انہیں پوری ازبر تھی۔ [عمر رضا کحالۃ‪،‬أعالم النس اء‪۱،‬؍‪] ۳۴۵‬‬ ‫حاصل تھی۔ ِ‬
‫خدیجۃ بنت قیم البغدادیۃ(م‪۶۹۹‬ھ) قرآن مجید کی بہت عمدہ ق اریہ تھیں۔ بہت س ے لوگ وں نے ان س ے تجوی د‬
‫اور قراء ت کا علم حاصل کیا تھا۔ وعظ و ارشاد کی مجلسیں منعقد کرتی تھیں‪ ،‬جن میں لوگ ب ڑی تع داد میں‬
‫سلمی بنت محمد الج زری( ن ویں ص دی ہج ری)‬ ‫سریک ہوتے تھے۔ [عمر رضا کحالۃ‪،‬أعالم النساء‪۱،‬؍‪ٰ ] ۳۳۹‬‬
‫اپنے وقت کی مشہور قاریہ تھیں ۔ دس(‪ )۱۰‬قراء توں کے س اتھ ق رآن پڑھ تی تھیں ۔[ ب دوی خلی ل‪ ،‬ش ھیرات‬
‫النساء‪،‬ص‪ ] ۱۴۵‬فاطمہ بنت محمد بن یوسف بن احمد بن محمد الدیروطی (نویں صدی ہج ری) ب ڑی ع المہ و‬
‫علم قراء ت میں مہ ارت حاص ل تھی۔ ان س ے عورت وں اورم ردوں کی ای ک ب ڑی‬ ‫فاضلہ خاتون تھیں۔ انھیں ِ‬
‫جم اعت نے اس تفادہ کی ا۔[عم ر رض ا کح الۃ‪،‬أعالم النس اء‪۴،‬؍‪] ۱۴۱‬امۃ الواح د بنت الحس ین بن اس ماعیل(م‬
‫‪۳۷۷‬ھ)فقہ شافعی میں غیر معمولی درک رکھتی تھیں۔ اس کے عالوہ علم الفرائض‪ ،‬حساب اور نح و کی بھی‬
‫ماہر تھیں ۔ حدیث کی بھی روایت ک رتی تھیں ۔ ف اطمہ البغ دادیۃ ک و فقہ حنبلی کے تم ام اص ول و ف روع میں‬
‫قدامہ المقدسی کی کتاب المغ نيپوری ازب ر تھی۔ ان س ے فقہ حنبلی‬ ‫ؒ‬ ‫خوب مہارت حاصل تھی۔ انہیں عالمہ ابن‬
‫کے بارے میں کوئی س وال کیاجات اتو اس ک ا نص وص کی روش نی میں ج واب دی تی تھیں۔ انہ وں نے فقہ کی‬
‫تیمیہ (م‪۷۲۸‬ھ) س ے حاص ل کی تھی۔[ابن رجب‪ ،‬ال ذیل علی طبق ات الحن ابلۃ‪۴ ،‬؍‪]۴۶۷‬س ت‬ ‫ؒ‬ ‫تعلیم عالمہ ابن‬
‫الوزراء (م‪۶۳۷‬ھ) کو فقہ حنفی میں مہارت حاصل تھی۔ انھوں نے امام ابو حنیفہ ؒ (م ‪۱۵۰‬ھ)کی فقہ ک ا زی ادہ‬
‫تر حصہ یاد کر رکھا تھا۔ [ عمر رضا کحالۃ‪،‬أعالم النساء‪۲،‬؍‪] ۱۷۴‬‬
‫خواتین کا ایک اہم ترین اعزاز‬
‫علم حدیث کے میدان میں خواتین کے شرف اور فخر کے لیے یہ بات کافی ہے کہ جہ اں اح ادیث کی روایت‬ ‫ِ‬
‫وضع حدیث ک ا ال زام لگای ا گی ا ہے اور ض عف‬
‫ِ‬ ‫پر‬ ‫ان‬ ‫ہے‪،‬‬ ‫کیاگیا‬ ‫ہم‬‫ّ‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫کو‬ ‫تعداد‬ ‫بڑی‬ ‫کی‬ ‫مردوں‬ ‫والے‬ ‫کرنے‬
‫کی وجہ سے ان کی روایات قبول نہیں کی گ ئی ہیں ‪ ،‬وہ اں ای ک ع ورت بھی ایس ی نہیں پ ائی گ ئی ج و اس‬
‫بی (م‪۷۴۸‬ھ) نے ص اف الف اظ میں اس کی‬ ‫’عیب‘ سے داغ دار ہو۔ امام الجرح والتعدیل عالمہ شمس الدین ذہ ؒ‬
‫شہادت دی ہے۔ انہوں نے لکھاہے‪:‬‬
‫وما علمت فی النساء من اتّھمت‪ ،‬والمن ترکوھا( ذہبی‪،‬میزان االعتدال‪۴ ،‬؍‪)۶۰۴‬‬
‫ت حدیث میں ایک بھی عورت متّہم ہوئی ہو اور نہ مح دثین نے ض عف کی وجہ‬
‫’’مجھے نہیں معلوم کہ روای ِ‬
‫سے کسی ایک عورت کو ترک کیاہے۔‘‘‬
‫خواتین۔ مردوں سے آگے‬
‫تاریخ اسالم میں ایسی بھی بہت سی مثالیں مل تی ہیں کہ کت اب و س نت کے فہم اور عل وم اس المیہ کی نش ر و‬
‫ِ‬
‫اشاعت میں خواتین کا کردار مردوں سے بڑھ کررہا ہے۔ اس طرح انھوں نے عملی طور پر ثابت کردی ا ہے‬
‫کہ عورتوں کے ’ن اقص العق ل‘ ہ ونے ک ا مطلب یہ نہیں کہ ان کے ان دفہم و اس تنباط اور ابالغ و ترس یل کی‬
‫صالحیتیں مردوں سے کم تر ہوتی ہیں ۔یہاں چند ایسی ممتاز خواتین کا تذکرہ دل چسپی سے خالی نہ ہوگا ‪:‬‬
‫فہم قرآن میں بھی ان کا مقام بہت‬ ‫ؒ‬
‫سیرین (‪۱۰۱‬ھ)بلند پایہ کی محدثہ تھیں ۔ ِ‬ ‫مشہور تابعیہ حضرت حفصہ بنت‬
‫ؒ‬
‫سیرین کو ک وئی‬ ‫اعلی تھا۔ علم قرا ء ت میں ان کو اس قدر مہارت حاصل تھی کہ جب ان کے بھائی محمد بن‬
‫ٰ‬
‫مشکل پیش آتی تو فرماتے‪’’:‬حفصہ سے پوچھو کہ وہ کیسے پڑھتی ہیں ؟‘‘‬
‫شیخہ صالحہ(چھٹی صدی ہجری)‪ ،‬عبدالواحد بن محمد بن علی بن احمد الشیرازی(جو ابوالفرج کے لقب سے‬
‫مش ہورتھے)کی ص احب زادی اور زین ال دین علی بن اب راہیم بن نج ا(ج و ابن النجیّہ کے ن ام س ے مع روف‬
‫تھے)کی والدہ تھیں ۔شیخ ابوالفرج اپنے وقت میں شام کے مشہور شیخ اور فقہ حنبلی کے ام ام تھے۔ فقہ میں‬
‫ان کی متعدد تصانیف ہیں ۔انہوں نے کتاب الجواھر کے نام سے تیس(‪)۳۰‬جلدوں میں ای ک تفس یر لکھی تھی۔‬
‫ان کی صاحب زادی نے وہ پوری تفسیر یادکرلی تھی۔ زین الدین بی ان ک رتے ہیں کہ میں اپ نے م اموں س ے‬
‫تفسیر پڑھتاتھا۔ جب میں اپنی والدہ کے پاس آتا تو وہ مجھ سے دریافت کرتیں کہ آج تمہارے م اموں نے کس‬
‫سورہ کی تفسیر بیان کی؟اور انہوں نے کیا کی ا ب اتیں بت ائیں ؟جب میں ان س ے بتات ا ت و وہ پوچھ تیں کہ فالں‬
‫س ورہ کی تفس یر میں انہ وں نے فالں ب ات بت ائی کہ نہیں ؟میں ج واب دیت ا ‪ :‬نہیں ‪ ،‬ت و وہ فرم اتیں ‪:‬تمہ ارے‬
‫ماموں نے فالں آیت کی تفسیر میں فالں فالں باتیں چھوڑ دی ہیں ۔ [زین الدین ابوالفرج البغ دادی‪،‬کت اب ال ذیل‬
‫علی طبقات الحنابلۃ البن رجب‪ ،‬مطبعۃ السنۃ المحمدیۃ القاہرۃ‪۱ ،۱۹۵۳ ،‬؍‪]۴۴۰‬‬
‫فاطمہ بنت محمد بن احمد الس مرقندی(م ‪۵۸۱‬ھ)فقہ حنفی میں بہت ش ہرت رکھ تی تھیں ۔ ان کے وال د مش ہور‬
‫محدث اور فقیہ تھے۔ فاطمہ نے ان سے فقہ کی تعلیم حاص ل کی اور اس میں کم ال پی داکیا۔ انہیں اپ نے وال د‬
‫کی کتاب تحفۃ الفقہاء پوری ازبر تھی۔ فقہ میں ا ن کی مہارت کا اندازہ اس س ے لگای ا جاس کتاہے کہ ان کے‬
‫والد کے پاس کوئی استفتاآتاتو وہ اپنی صاحب زادی سے مشورہ کرتے تھے‪،‬پھ ر وہ ج واب تی ار ک رتیں اور‬
‫اس پر باپ اور بیٹی دونوں کے دستخط ہوتے۔ فاطمہ کا نکاح ان کے والد نے اپنے عزیز ش اگرد عالؤ ال دین‬
‫ابوبکر بن مسعود الکاسانی سے کردیا تھا۔ کاس انی ک و ان کی تص نیف ب دائع الص نائع في ت رتیب الش رائع کی‬
‫وجہ سے علمی دنیا میں بہت شہرت حاصل ہوئی۔ فاطمہ کا علمی فیض نکاح کے بعد بھی جاری رہا۔وہ اپنے‬
‫گھر میں درس کے حلقے لگاتی تھیں ۔ان سے بہت بڑی تعداد میں لوگوں نے استفادہ کی ا۔ش یخ ک ا س انی بہت‬
‫بڑے فقیہ تھے۔ ان کا لقب’ملک العلماء‘ تھا‪ ،‬لیکن ان کی بیوی فاطمہ ان سے بڑھ کر تھیں ۔ س وانح نگ اروں‬
‫نے لکھاہے‪:‬‬
‫انھا کانت تنقل المذھب نقال جیداً‪ ،‬وکان زوجھ ا الکاس انی ربّم ا یھم في الفت ٰ‬
‫وی ف تر ّدہ الی الص واب‪،‬‬
‫وتعرّفہ وجہ الخطأ‪ ،‬فیرجع الی قولھا۔‬
‫’’وہ (حنفی)مسلک کی بہت اچھی طرح ترجمانی کرتی تھیں ۔ان کے شوہر کا سانی کو بسااوقات کوئی مسئلہ‬
‫بیان کرتے ہوئے وہم ہوجاتاتو فاطمہ اس کی تصحیح کردیتی تھیں اور انہ وں نے کی ا غلطی کی ہے؟ یہ بھی‬
‫بتادیتی تھیں ۔ چنانچہ کاسانی ان کی تصحیح کوقبول کرلیتے تھے۔‘‘‬
‫[ ف اطمہ الس مرقندیہ کے ح االت کے ل یے مالحظہ کیج ئے‪ :‬ابن ابی الوف اء القرش ی‪ ،‬الج واھر المض یءۃ فی‬
‫طبق ات الحنفیۃ‪۴،‬؍‪۱۲۲‬۔‪،۱۲۴‬زینب بنت علی الع املی‪،‬ال د ّر المنث ور فی طبق ات ربّ ات الح ذور‪ ،‬ص ‪ ،۳۶۷‬ابن‬
‫قطلوبغا‪،‬ت اج ال تراجم‪ ،‬ص ‪۳۲۷ ،۲۵۲‬۔ ‪ ،۳۲۸‬عم ر رض اکحالۃ‪،‬اعالم النس اء‪۴ ،‬؍‪۹۴‬۔‪ ،۹۵‬ط اش ک بری زادہ‪،‬‬
‫مفتاح السعادۃ‪۲ ،،‬؍‪۲۴۷‬۔ ‪،۲۴۸‬محمد خیررمضان یوسف‪ ،‬المؤلفات من النساء‪،‬ص‪۸۴‬۔‪]۸۶‬‬
‫علم حدیث کے میدان میں شیخ ابوالحجاج جمال الدین یوسف الم ّزی (م ‪۷۴۲‬ھ)کی خدمات سے اسالمیات س ے‬ ‫ِ‬
‫دل چسپی رکھنے واال ہ ر ط الب علم اچھی ط رح واق ف ہے۔ خ اص ط ور س ے فن اس ماء الرج ال میں انہیں‬
‫طولی حاصل تھا۔ ان کی تصانیف ‪ :‬تہذیب الکمال في أس ماء الرج ال‪ ،‬تحفۃ األش راف بمع رفۃ األط راف اور‬ ‫ٰ‬ ‫ی ِد‬
‫المنتقی من الفوائد الحسان فی الحدیث اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں ۔شیخ مزی کو جتنی مہ ارت اور ش ہرت علم‬
‫حدیث اور رج ال کے می دان میں تھی‪ ،‬ات نی ہی‪ ،‬بلکہ اس س ے زی ادہ مہ ارت اور ش ہرت س ے ان کی زوجہ‬
‫ت ق رآن کے می دان‬ ‫عائشہ بنت ابراہیم بن صدیق (جو ام فاطمہ کے لقب سے مشہور تھیں )علم تجوید و ق راء ِ‬
‫اس ی(‪)۸۰‬ب رس کی عم ر میں ان ک ا انتق ال ہ وا۔ نص ف‬ ‫میں بہرہ ور تھیں ۔ وہ بہترین قاریہ تھیں ۔‪۷۴۱‬ھ میں ّ‬
‫صدی سے زائد عرصہ انہوں نے قرآن کی تعلیم و تدریس میں گزارا اور ہ زاروں م ردوں اور عورت وں نے‬
‫ان سے استفادہ کیا۔ ان سے یہ فن سیکھنے وال وں میں ان کی ص احب زادی امۃ ال رحیم زینب بھی تھیں ‪،‬ج و‬
‫یر جہ اں ش یخ‬ ‫قی (م‪۷۷۴‬ھ) کی زوجہ تھیں ۔ ابن کث ؒ‬ ‫مشہور مفس ر‪ ،‬مح دث اور م ؤرخ عالمہ ابن کث یر الدمش ؒ‬
‫م ّز ی کے مشہور تالمذہ میں سے ہیں ‪ ،‬وہیں انہوں نے اپنی خوش دامن صاحبہ سے بھی علمی استفادہ کیاتھا۔‬
‫اہے‪:‬‬ ‫داز میں کی‬ ‫ڑے اچھے ان‬ ‫ذکرہ ب‬ ‫ات‬ ‫یر نے ان ک‬
‫ؒ‬ ‫ابن کث‬
‫ت قرآن اور فص احت و بالغت اور ص حیح ادا کے س اتھ‬ ‫ت عبادت‪ ،‬تالو ِ‬
‫’’اپنے زمانے کی عورتوں میں کثر ِ‬
‫قرآن پڑھانے کے معاملے میں کوئی دوسرا ان کا ہم س ر نہ تھ ا۔ انہ وں نے بہت س ی عورت وں ک ا ق رآن ختم‬
‫ا۔‘‘‬ ‫رآن پڑھ‬ ‫ےق‬ ‫وں نے ان س‬ ‫مار عورت‬ ‫ا اور بے ش‬ ‫کروای‬
‫کثیر کے اس جملے نے توچونکادیا‪:‬‬ ‫ان کے بارے میں ابن ؒ‬
‫’’ان کی طرح کی قراء ت کرنے سے بہت سے مرد حضرات عاجز تھے۔‘‘(ابن کث یر‪ ،‬الب دایۃ والنھ ایۃ‪،‬دا ر‬
‫احیاء التراث العربی‪۱۹۸۸ ،‬ء‪۲۱،‬؍‪)۱۱۳‬‬
‫خواتین اور تصنیف و تالیف‬
‫البتہ جہاں تک علوم اسالمیہ میں تصنیف و ت الیف ک ا مع املہ ہے‪ ،‬اس سلس لے میں خ واتین بہت پیچھے رہی‬
‫ہیں ۔ شیخ محمد خ یر رمض ان یوس ف نے ت ذکرہ و ت راجم کی کت ابوں میں بہت غ ائرانہ ان داز س ے تف تیش و‬
‫تفحّص کے بع د اپ نی کت اب المؤلِّف ات من النس اء ومؤلَّف اتھن في الت اریخ االس الميمیں ‪۱۲۰۰‬ھ ت ک چھ تیس(‬
‫‪)۳۶‬مؤلِّفات کا تذکرہ کیا ہے اور لکھا ہے کہ ان کی کتابوں کی تعداد عربی زبان میں سو (‪ )۱۰۰‬س ے زی ادہ‬
‫نہ ہوگی۔[محمد خیر رمضان یوسف‪ ،‬المؤلفات من النساء ومؤلفاتھن فی التاریخ االسالمی‪،‬دارابن حزم ب یروت‪،‬‬
‫ار خی ال کی اہے کہ خ واتین کی ج انب س ے تص نیف و‬ ‫‪۲۰۰۲‬ء‪ ،‬ص ‪۵‬۔‪]۶‬انہوں نے اس موضوع پر بھی اظہ ِ‬
‫تالیف میں کمی کے اسباب کیاہیں ؟ انہوں نے تین اسباب بیان کیے ہیں ‪:‬‬
‫‪۱‬۔ تصنیف وتالیف ذہنی سکون واطمینان اور کسی حدتک فرصت وفراغت کا تقاضا کرتی ہے‪،‬جب کہ خواتین اپنی فطری مص روفیات‪ ،‬مثالً‬
‫حمل‪ ،‬والدت‪ ،‬رضاعت‪ ،‬بچوں کی پرورش اور گھریلو کاموں میں مصروفیت وغیرہ کی وجہ سے بیش ت ر اوق ات اس س ے عموم ا ً مح روم‬
‫رہتی ہیں۔‬
‫‪۲‬۔ خواتین کی رغبت عموما ً تحریر وتصنیف کے مقابلے میں کہنے سننے کی طرف زیادہ رہتی ہے۔اسی ل یے ان کی ص الحیتوں ک ا اظہ ار‬
‫شاعری‪ ،‬ادب‪ ،‬لغت اور انسانی و وجدانی علوم میں دیگر میدانوں کے مقابلے میں زیادہ ہواہے۔ علم ح دیث کی بنی اد س ماع وروایت پ ر ہے‪،‬‬
‫اس کے لیے تحریر ش رط نہیں ہے‪ ،‬اس ی ل یے اس میں خ واتین کی ص الحیتوں ک ا غ یر معم ولی اظہ ار ہ واہے اور ہ زاروں کی تع داد میں‬
‫مح ّدثات پیداہوئی ہیں۔‬
‫ث زمانہ کی نذر ہوگئیں اور مورخین اور تذکرہ‬ ‫‪۳‬۔ خواتین کی بہت سی تصنیفات‪ ،‬جو ایک عرصہ تک امت کے درمیان متداول تھیں ‪ ،‬حواد ِ‬
‫ب تصنیف خ واتین کے ح االت لکھ نے س ے تغاف ل برت ا۔اس ل یے کہ عموم ا ً پ ردہ نش یں‬ ‫وتراجم کی کتابیں تالیف کرنے و الوں نے ان صاح ِ‬
‫خواتین کے حاالت جمع کرنے میں بہت دشواریاں تھیں ۔[محمد خیر رمضان یوسف‪ ،‬المؤلفات من النساء ص‪۱۳‬۔‪)۱۵‬‬

‫موجودہ دور میں خواتین کی علمی خدمات‬


‫تعلیم نس واں ک و ف روغ مال ہے اور خ واتین کے ل یے‬
‫ِ‬ ‫یہ بات بڑی خوش آئن د ہے کہ گزش تہ دو ص دیوں میں‬
‫تحصیل علم کے مواقع بڑھے ہیں۔ دینی و عص ری تعلیم کے مراک ز‪ ،‬م دارس اور جامع ات ق ائم ہ وئے ہیں ‪،‬‬
‫ِ‬
‫جن میں طالبات کو داخلہ مال ہے اور ان کے ل یے مخص وص درس گ اہیں بھی ق ائم کی گ ئی ہیں ۔اس ط رح‬
‫خواتین کو اپنی صالحیتوں کو پروان چڑھانے اور اپنے ج وہر دکھ انے کے ل یے وس یع می دان ہ اتھ آی ا ہے‪،‬‬
‫زیور علم سے آراستہ ہوکر انھوں نے درس و تدریس ک ا ک ام بھی س نبھاال ہے‪ ،‬اس ط رح ان ک ا علمی فیض‬ ‫ِ‬
‫عام ہوا ہے اور امت کو ان سے فائدہ پہنچا ہے۔‬

‫قرآنیات اور سیرت نگاری کے میدان میں بیسویں صدی کی خواتین میں ڈاکٹر عائشہ عبدالرحمن بنت الشاطی‬
‫اعلی تعلیم ق اہرہ ی ونی ورس ٹی س ے‬‫ٰ‬ ‫(‪۱۹۱۳‬۔‪۱۹۹۸‬ء)کا نام بہت نمایاں ہے۔انہوں نے عربی زب ان وادب کی‬
‫حاصل کی‪ ،‬پھر مختلف ممالک میں تدریسی خدمت انج ام دیں ‪ ،‬لیکن پھ ر ان ک ا رجح ان قرآنی ات کی ط رف‬
‫ہوا۔ وہ جامعۃ الق رویین م راکش میں ش عبۂ تفس یر میں پرفیس ر رہی ہیں ۔ وہ پہلی خ اتون ہیں جس کے ج امع‬
‫اعلی اع زاز‬
‫ٰ‬ ‫ازہر میں لیکچر ہوئے۔ انہیں بہت سے ایوارڈز سے نوازا گیا‪ ،‬جن میں سے ایک عالم اس الم ک ا‬
‫اعلی‬
‫ٰ‬ ‫کا شاہ فیصل ایوارڈ ہے‪ ،‬جو انہیں ‪۱۹۹۴‬ء میں اسالمیات اور خ اص ط ور پ ر قرآنی ات کے می دان میں‬
‫دان نب وت کی‬
‫خدمات انجام دینے پر دیاگیا۔ بنت الشاطی کی تصانیف کی تعداد چالیس(‪ )۴۰‬سے زائد ہے۔ خان ِ‬
‫خواتین پر ان کی تیارکردہ سیریز میں أ ّم النبي‪ ،‬نساء الن بي‪،‬بن ات الن بي اور زینب بطلۃ ک ربال ش امل ہیں ۔ اس‬
‫کے عالوہ قرآنیات پر ان کی تصانیف میں التفسیر البیاني للقرآن الکریم‪ ،‬االعجاز البیاني للقرآن الکریم‪ ،‬القرآن‬
‫۔تفسیر قرآن میں ان کا ای ک خ اص منہج ہے‪ ،‬وہ یہ‬‫ِ‬ ‫والتفسیر العصري اور مقال في االنسان اہمیت رکھتی ہیں‬
‫کہ جس موضوع پر مطالعہ مقصود ہو اس سے متعلق قرآن کی تمام آیات جمع کرلی جائیں ‪،‬پھر ان پ ر غ ور‬
‫اصول تفسیر سے متعلق ان کی‬ ‫ِ‬ ‫۔علوم قرآن اور‬
‫ِ‬ ‫وفکر کیاجائے تو اس سے نئے نئے معانی مستنبط ہوتے ہیں‬
‫منہج تفسیر انہ وں نے‬
‫ِ‬ ‫اور بھی آراء ہیں ‪ ،‬جو ان کی کتابوں میں مذکور ہیں ۔ انہوں نے اعتراف کیاہے کہ یہ‬
‫اپنے استاذ شیخ امین الخولی(‪۱۸۹۵‬۔‪۱۹۶۶‬ء)جو ان کے شوہر بھی تھے‪ ،‬سے حاصل کیاہے۔‬
‫زینب الغزالی (م‪۱۴۲۶‬ھ) کا شمار موجودہ دور کی ان خواتین میں ہوتا ہے جنھیں اپنی دع وتی اور تح ریکی‬
‫سرگرمیوں کی وجہ سے عالمی سطح پر شہرت حاصل ہے۔ وہ اخوان المسلمون سے وابستہ سرکردہ خواتین‬
‫میں سے تھیں ۔ ان کی پوری زندگی اسالم کی راہ میں جدو جہ د اور قرب انی س ے عب ارت ہے۔ عرص ہ ت ک‬
‫انھوں نے قید بند کی صعوبتیں برداشت کیں ۔ آزادی ملی تو اپنا سارا وقت درس و تدریس‪ ،‬وعظ و ارشاد اور‬
‫تصنیف و تالیف میں گزارا۔ یوں تو دینی موضوعات پر ان کی متعدد تصانیف ہیں ‪ ،‬لیکن ان میں سب سے اہم‬
‫ان کی تفسیر ہے جو’ نظرات فی کتاب ہللا‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ اس کی پہلی جلد سورۂ ابراہیم ت ک (‬
‫‪۷۱۱‬؍ صفحات) ‪۱۴۱۴‬ھ میں دار الشروق ق اہرہ س ے ش ائع ہ وئی تھی۔ مکم ل تفس یر (‪۱۳۰۰‬؍ ص فحات) دار‬
‫التوزیع و النشر االس المیہ ق اہرہ س ے منظ ر ع ام پ ر آئی۔ اس تفس یر میں دع وتی اس لوب نمای اں ہے۔ [زینب‬
‫الغزالی اور ان کی تفسیر کے بارے میں تفصیل کے لیے مالحظہ کیجیے ‪ :‬مرج ان عثم انی‪ ،‬مص ر کی بی ٹی‬
‫زینب الغزالی‪ ،‬مرکزی مکتبہ اسالمی پبلیشرز نئی دہلی‪۲۰۱۶ ،‬ء]‬
‫موجودہ دور کی مفسّرات میں ایک اہم نام محترمہ نائلہ ہاشم ص بری ک ا ہے‪ ،‬ج و فلس طین کے مش ہور مف تی‬
‫اور خطیب ش یخ ڈاک ٹر عک رمہ س عید ص بری کی زوجہ ہیں ۔ ان کی س رگرمیاں علمی اور عملی دون وں‬
‫میدانوں میں ہیں ۔ وہ بہت سے رفاہی اداروں اور سماجی تنظیم وں س ے وابس تہ ہیں ۔ ان کی متع دد تص انیف‬
‫دینی موضوعات پر شائع ہوئی ہیں ‪ ،‬جن میں سے ایک ’کواکب النس اء‘ ہے‪ ،‬جس میں پ انچ س و(‪ )۵۰۰‬س ے‬
‫زائد خواتین کے تذکرے جمع کیے ہیں ۔ ان میں امہات الموم نین‪ ،‬ص حابیات‪ ،‬مح دثات‪ ،‬فقیہ ات‪ ،‬زاہ دات اور‬
‫حکوت و سیاست اور شعرو ادب سے دل چس پی رکھ نے والی خ واتین ش امل ہیں ۔ انھ وں نے المبص ر لن ور‬
‫الق رآن کے ن ام س ے ای ک مبس وط تفس یر لکھی ہے‪ ،‬جس ک ا پہال ایڈیش ن گی ارہ (‪ )۱۱‬جل دوں میں ‪ ،‬جب کہ‬
‫دوسرا ایڈیشن ‪۲۰۰۸‬ء میں سولہ (‪ )۱۶‬جلدوں میں ش ائع ہ وا ہے۔ یہ تفس یر بالم أثور کی ای ک نمائن دہ تفس یر‬
‫ت حاضرہ سے ربط کا خصوصی اہتمام کیا گیا ہے۔ [ اس تفسیر کے تجزیاتی مطالعہ کے‬ ‫ہے‪ ،‬جس میں حاال ِ‬
‫لیے مالحظہ کیجیے‪ :‬عفاف عبد الغف ور حمی د‪ ،‬من جھ ود الم رأۃ‪ ،‬المبص ر لن ور الق رآن ‪ :‬اول جھ د کام ل فی‬
‫التفسیر للمرأۃ حدیثاً‪ ،‬مقالہ پیش ک ردہ دوس ری بین االق وامی ق رآن ک انفرنس‪ ،‬زی ر اہتم ام تنظیم مرک ز بح وث‬
‫روری ‪۲۰۱۲‬ء)‬ ‫یا‪ ،‬ف‬ ‫ور‪ ،‬ملیش‬ ‫واال لمپ‬ ‫ا‪ ،‬ک‬ ‫امعہ مالی‬ ‫رآن‪ ،‬ج‬ ‫الق‬
‫ان کے عالوہ خواتین کے ذریعہ تیار ہونے والی تفسیروں میں ماجدہ فارس الشمری کی التوضیح و البی ان فی‬
‫تفسیر القرآن (‪۸‬؍ جلدیں ) فوقیہ ابراہیم الشربینی کی تیسیر التفسیر (‪۴‬؍ جلدیں )‪ ،‬فاطمہ کریمان حم زہ کی الل ؤ‬
‫لو والمرجان فی تفسیر القرآن اور ترکی زبان میں سمرا کورون کی تفسیر الق اری (‪۱۳‬؍ جل دیں ) خصوص یت‬
‫سے قابل ذکر ہیں۔‬
‫خواتین نے جزئی تفسیریں بھی لکھی ہیں‪ ،‬مختلف زبانوں میں قرآن مجید کے مکمل یا نامکمل ترجمے ک یے‬
‫ہیں اور علوم القرآن کے مختلف پہلوؤں پرکت ابیں بھی تص نیف کی ہیں ۔ ان میں ق راء ت‪ ،‬تجوی د‪ ،‬فص احت و‬
‫تدبر ق رآن‪،‬ا قس ام الق رآن اور لغ وی و بالغی موض وعات و مب احث ش امل ہیں ۔ قرآنی ات کے عالوہ‬
‫ِ‬ ‫بالغت‪،‬‬
‫حدیث‪ ،‬سیرت اور فقہ میں بھی خ واتین کی علمی کاوش یں اہمیت رکھ تی ہیں ۔ موج ودہ دور میں ع الم ع رب‬
‫میں علوم اسالمیہ میں تصنیف و تالیف کی خدمات انجام دینے والی خواتین میں حنان لحام‪ ،‬عفاف عبد الغف ور‬
‫حمید‪ ،‬لطیفہ قزامل‪ ،‬ہیفاء عثمان‪ ،‬عالمہ محمد ناصر ال دین االلب انی کی ص احب زادی اں ‪ :‬حس انۃ اور س کینۃ‪،‬‬
‫امانی بنت عاشور‪ ،‬عزیزہ یونس‪ ،‬وسیمہ عبد المحسن‪ ،‬ام معن‪ ،‬ربیعۃ الکعبی‪ ،‬س عاد عب د الحمی د‪ ،‬آم ال محم د‬
‫عبد الرحمن‪ ،‬صباح عبد الکریم‪ ،‬منیرہ الدوسری‪ ،‬سحر سویلم‪ ،‬ہند شلبی‪ ،‬عائشہ غلوم‪ ،‬سحر عبد العزیز‪ ،‬کاملہ‬
‫ا لکواری‪ ،‬صفیہ عبد الرحمن السحیبانی‪ ،‬اسماء المرائط‪ ،‬عصمۃ الدین کرک را‪ ،‬م وینہ ط راز‪ ،‬ن ادیہ ش رقاوی‪،‬‬
‫فاطمہ ماردینی اور فاطمہ اسماعیل خصوصیت س ے قاب ِل ذک ر ہیں ۔ ان کی تص انیف نے عل وم اس المیہ میں‬
‫قابل قدر اضافہ کیا ہے۔‬
‫برصغیر میں خواتین کے ذریعے علمی کاموں کی سرپرستی‬
‫ِّ‬
‫علوم اسالمیہ کے فروغ میں خواتین کی ز ّریں خدمات ہیں ۔ انھوں نے اش اع ِ‬
‫ت علم کی‬ ‫ِ‬ ‫برِّ صغیر ہند میں بھی‬
‫اعلی معیار کے علمی کام انجام دیے ہیں۔‬
‫ٰ‬ ‫سرپرستی کی ہے اور‬
‫مغل حکم راں اورنگ زیب ( م ‪۱۱۱۸‬ھ )کی صاحب زادی زیب النساء نے شیخ صفی الدین ولی قزوینی سے‬
‫قرآن مجید ک ا فارس ی زب ان میں ت رجمہ کروای ا تھ ا۔ س اتھ ہی ام ام رازی (م ‪۶۰۶‬ھ) کی تفس یر کب یر ک ا بھی‬
‫فارس ی ت رجمہ کروای ا تھ ا۔[ڈاک ٹر عالؤ ال دین خ اں ‪ ،‬عہ د اورن گ زیب میں علم اء کی خ دمات‪،‬ص ‪۱۷۳‬۔‬
‫وسطی کے ہندوس تان کی فارس ی تفس یریں ۔ ای ک تع ارفی مط العہ‪ ،‬س ہ‬ ‫ٰ‬ ‫‪،۱۷۴‬ڈاکٹر ظفر االسالم‪ ،‬مقالہ‪ :‬عہد‬
‫ماہی علوم القرآن‪ ،‬علی گڑھ‪ ،‬جوالئی۔ دس مبر ‪۱۹۸۵‬ء‪،‬ص ‪]۱۳۳‬ماض ی ق ریب میں ریاس ت بھوپ ال کی حکم‬
‫راں نواب خواتین نے علمی سرپرستی کی مثال قائم کی ہے۔انہوں نے خ وب فیاض ی س ے تعلیمی اداروں کی‬
‫م الی ام داد کی ہے اور خط یر س رمایہ ص رف ک رکے علمی ک ام ک رایے ہیں ۔ ن واب س کندر جہ اں بیگم(م‬
‫‪ ۱۸۶۸‬ء) نے شیخ احمد داغستانی سے ترکی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ کروایا۔ ان کی صاحب زادی اور‬
‫جانشین نواب شاہ جہاں بیگم نے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج علی گڑھ کا بھر پور مالی تعاون کی ا۔ انہ وں نے‬
‫موالنا جمال الدین وزیر ریاست بھوپال سے پشتوزبان میں قرآن مجی د ک ا ت رجمہ کروای ا۔[ عبدالص مد ص ارم‬
‫االزھری‪،‬تاریخ التفس یر‪ ،‬ادارۂ علمیہ الہ ور‪۱۹۶۶ ،‬ء]ان کی ص احب زادی اور جانش ین ن واب س لطان جہ اں‬
‫بیگم نے بہت سی دینی درس گاہوں اور تعلیمی اداروں ک و م الی ام داد ف راہم کی‪ ،‬جن میں علی گ ڑھ‪ ،‬دیوبن د‬
‫اور ندوہ خاص طور سے قابل ذکر ہیں ۔[موالنا محمداسلم ج یراج پ وری‪ ،‬خ واتین‪ ،‬ص ‪۲۲۹‬۔‪]۲۳۶‬انہ وں نے‬
‫انی ک و گ راں ق در م الی تع اون دی ا۔[ ڈاک ٹر محم د الی اس‬
‫ہی سیرۃ النبی کی تالیف کے لیے عالمہ ش بلی نعم ؒ‬
‫االعظمی‪ ،‬آث ار ش بلی‪ ،‬دار المص نفین ش بلی اکی ڈمی اعظم گ ڑھ‪]،‬جس زم انے میں دارالعل وم ن دوۃ العلم اء‬
‫لکھنؤکی مرکزی عمارت زیرتعمیر تھی‪،‬ریاست بہاول پور کی خاتون محترمہ فلک احتج اب نے اس م د میں‬
‫انی نے انہیں ’زن دہ زبی دہ خ اتون‘‬
‫ب خاص سے پچاس ہزار روپے عطا کیے تھے۔ عالمہ شبلی نعم ؒ‬ ‫اپنے جی ِ‬
‫کا لقب دیاہے اور ان کی فیاضی اور علم دوستی کی تحسین کی ہے۔ [مقاالت شبلی‪۸ ،‬؍‪]۸۸‬‬
‫اسالمیات میں کام کرنے والی چند اہم خواتین‬
‫بر صغیر میں خواتین کے ذریعے انجام پانے والے علمی کاموں کا دائرہ تفس یر‪ ،‬ح دیث‪ ،‬فقہ‪ ،‬س یرت نب وی‪،‬‬
‫ت اریخ اور اس المیات کے دیگ ر مض امین پ ر محی ط ہے۔ اردو تفاس یر میں ماض ی ق ریب میں ہندوس تان میں‬
‫مح ترمہ ثری ا ش حنہ کی ’تب یین الق رآن فی تفس یر الق رآن‘ (طب ع حی درآباد‪ ،‬ان ڈیا ‪۲۰۱۲‬ء) اور پاکس تان میں‬
‫محترمہ شکیلہ افضل کی ’تسہیل البیان فی تفسیر القرآن‘ (طبع الہور‪۲۰۱۳ ،‬ء) ش ائع ہ وئی ہیں ۔ اہلیہ موالن ا‬
‫گل (نو مسلمہ‪ ،‬م ‪۱۹۶۶‬ء) نے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر انگریزی زب ان میں ق رآن مجی د ک ا ت رجمہ‬ ‫عزیز ؒ‬
‫زیور طبع سے آراستہ نہ ہو سکا۔ [عبد الصمد ص ارم‪ ،‬ت اریخ التفس یر]ڈاکٹرفری دہ خ انم‬‫ِ‬ ‫ً‬
‫کیا تھا‪ ،‬لیکن غالبا وہ‬
‫(سابق پروفیسر شعبۂ اسالمک اسٹڈیز‪ ،‬جامعہ ملیہ اسالمیہ نئی دہلی) نے اپ نے وال د موالن ا وحی د ال دین خ اں‬
‫کے انگریزی ترجمۂ قرآن پر نظر ثانی کی ہے اور ان کی تفسیر ’تذکیر القرآن‘ کا انگریزی میں ت رجمہ کی ا‬
‫الھدی انٹرنیشنل‘ کے ذریعے قرآن فہمی کی ایک ک ام ی اب تحری ک‬ ‫ٰ‬ ‫ہے۔ڈاکٹر فرحت ہاشمی نے اپنے ادارہ’‬
‫برپا کی ہے۔ان کی قرآن کالسز کو عالمی شہرت حاصل ہوئی ہے۔ ترجمۂ قرآن اور تفسیر پر مش تمل ان کے‬
‫لیکچرز کی سی ڈیز اور ڈی وی ڈیز اور کیسٹس خواتین کے درمیان دنیا بھر میں مقب ول ہیں ۔ ان ک ا ت رجمۂ‬
‫ٰ‬
‫الہدی پبلی کیش نز اس الم آب اد س ے ش ائع ہ و گی ا ہے۔ اس کے عالوہ‬ ‫قرآن بھی چند سال قبل (دو جلدوں میں )‬
‫علوم قرآن کے مختلف پہلوؤں پر خواتین کی تصنیفات کی ایک معتد بہ تعداد ہے‪ ،‬جن ک ا یہ اں‬ ‫ِ‬ ‫ہندو پاک میں‬
‫تذکرہ کرنا ممکن نہیں۔‬

‫نبوی پر بھی خواتین نے محبت‪ ،‬عقیدت اور تحقیق کے ساتھ خامہ فرسائی کی ہے اور معیاری کت ابیں‬ ‫ؐ‬ ‫ت‬
‫سیر ِ‬
‫نبوی کے غزوات و س رایا‘ اور مح ترمہ نجمہ‬ ‫ؐ‬ ‫تصنیف کی ہیں ۔ ڈاکٹر رؤفہ اقبال (علی گڑھ) کی کتاب ’عہد‬
‫نبوی کا بلدیاتی نظم و نسق‘ ہندوستان اور پاکستان دون وں جگہ وں س ے‬ ‫ؐ‬ ‫راجہ ٰیسین (تلنگانہ) کی کتاب ’ عہ ِد‬
‫شائع ہوئی ہے۔ محترمہ شہناز کوثر (الہور) اور محترمہ نگہت ہاشمی ( بہاول پ ور) نے س یرت کے مختل ف‬
‫پہلوؤں کو اپنی تحقیق کا موض وع بنای ا ہے۔ ڈاک ٹر س عدیہ غزن وی کی کت ابیں ’ن بی ک ریم ﷺ بہ ط ور م اہر‬
‫نفسیات‘ اور’ اسوۂ حسنہ اور علم نفسیات‘ سیرت کے ایک اہم موضوع پر روشنی ڈالتی ہیں ۔ مح ترمہ عطیہ‬
‫ب سیرت’ محمد ﷺ‘ اور محترمہ عذرا نسیم ف اروقی‬ ‫خلیل عرب نے مشہور عرب ادیب توفیق الحکیم کی کتا ِ‬
‫نے جدید دور کے مشہور سیرت نگار ڈاکٹر اکرم ضیاء العمری کی کتاب ’المجتمع المدنی فی عص ر النب وۃ ‘‬
‫کو اردو کا جامہ پہنای ا ہے۔ مح ترمہ ام عب د م نیب نے س یرت نب وی پ ر ای ک ض خیم انس ائیکلو پی ڈیا ( ‪۶۸۸‬؍‬
‫صفحات) سوال و جواب کے طرز پر تیار کیا ہے۔ جناب حافظ محمد عارف گھانچی نے سیرت پر اردو زبان‬
‫میں لکھی جانے والی نئی تص نیفات کی ج و کتابی ات تی ار کی ہے اس میں خ واتین کے ذریعے لکھی ج انے‬
‫ت س یرت (‪۱۹۸۰‬۔ ‪۲۰۰۹‬ء)‬ ‫والی کتابوں کی تعداد اسّی (‪ )۸۰‬متجاوز ہے۔[ مالحظہ کیجیے‪ :‬جدید اردو کتابیا ِ‬
‫ب س یرت ک ا اس تیعاب ممکن نہ تھ ا‪،‬‬ ‫دار العل وم التحقی ق ک راچی‪ ]۲۰۰۹ ،‬ظ اہر ہے‪ ،‬اس میں خ واتین کی کت ِ‬
‫دوسرے اس میں ایک محدود زمانے کا احاطہ کیا گیا ہے۔‬
‫الئق س تائش‬
‫ِ‬ ‫محترمہ مریم جمیلہ(م‪۱۴۳۳‬ھ) نے اسالمیات کے میدان میں جو ضدمت انجام دی ہے وہ انتہائی‬
‫ہے۔ انھوں نے مغربی فکرو تہذیب اور اس کی مادہ پرستانہ قدروں پر پورے اعتماد کے س اتھ بھرپ ور تنقی د‬
‫کی‪ ،‬سیکولرزم اور جدیدیت پر مبنی نظریات کا محاسبہ کی ا اور فک ر اس المی ک ا ک ام ی اب دف اع کی ا۔ ان کی‬
‫تحریریں معذرت خواہانہ لب و لہجہ سے پاک ہیں ۔انھوں نے اسالم کو موجودہ دنیا کے لیے بہ ط ور متب ادل‬
‫پیش کیا۔ انگریزی زبان میں ان کی تسانیف‪ ،‬جن کی تعداد تقریبا ً تین درجن ہے‪ ،‬اسالمی لٹریچر میں قابل قدر‬
‫سرمایہ کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ ان میں سے متعدد کتابوں ک ا اردو میں ت رجمہ ہ و چک ا ہے۔[ م ریم جمیلہ کی‬
‫بی ف اروق‪ ،‬م ریم جمیلہ۔ مغ رب کی بے ب اک‬ ‫تصانیف اور افکار کے تع ارف کے ل یے مالحظہ کیج یے‪:‬مجت ٰ‬
‫ئی دہلی‪۲۰۱۸ ،‬ء]‬ ‫رز ن‬ ‫المی پبلش‬ ‫زی مکتبہ اس‬ ‫د‪ ،‬مرک‬ ‫ناق‬
‫اسالمی تاریخ میں لکھنے والی موجودہ دور کی خواتین میں ایک معتبر نام پروفیسر نگار سجاد ظہیر کا ہے۔‬
‫ان کے ادارہ’ قرطاس ‘نے اسالمی تاریخ پر دیگر مصنفین کی متعدد طبع زاد کتابیں اور قدیم ع ربی کت ابوں‬
‫کے تراجم شائع کیے ہیں ۔خود موصوفہ کی کتابیں (مطالعہ تہذیب‪ ،‬شعوبیت‪ ،‬عرب اور م والی‪ ،‬مخت ار ثقفی‪،‬‬
‫فن تاریخ میں ان کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت پیش کرتی ہیں۔‬ ‫حجاج بن یوسف‪ ،‬خوارج‪،‬جدید ترکی وغیرہ) ِ‬
‫دیگر ممالک میں بھی خواتین نے اہم دینی و علمی خدمات انج ام دی ہیں ۔ خ اص ط ور س ے مغ ربی ممال ک‬
‫رض وج ود میں آئی ہیں ۔ ان‬
‫ِ‬ ‫میں خواتین کے قلم سے اسالمیات کے مختلف پہلوؤں پرقاب ل ق در تص انیف مع‬
‫میں وہ خواتین بھی ہیں جن کا تعلق دیگر مذاہب سے ہے‪ ،‬لیکن انھ وں نے اس المیات س ے دل چس پی لی ہے‬
‫قبول عام حاصل ہوا ہے۔‬
‫ِ‬ ‫اور جو تحقیقات پیش کی ہیں انھیں عالمی پیمانے پر‬
‫خواتین کی علمی ترقی میں جامعات کا کردار‬
‫گزشتہ صدی کے اوائل سے لڑکیوں کی تعلیم ک ا رجح ان بڑھ ا‪ ،‬ان کے ل یے مخص وص تعلیمی ادارے ق ائم‬
‫ہوئے اور عصری جامعات میں بھی انھیں داخلہ کے مواقع ملے تو ان کی علمی صالحیتوں ک و جال ملی اور‬
‫انھ وں نے اس المیات کے مختل ف می دانوں میں ایم اے‪ ،‬ایم ف ل اور پی ایچ ڈی کے مق االت تحری ر ک یے۔ یہ‬
‫مقاالت علوم اسالمیہ کے تمام موضوعات کا اح اطہ ک رتے ہیں ۔ ان س ے خ واتین کے تخلیقی کم االت ک ا بہ‬
‫مناہج تفسیر ک ا تع ارف کرای ا گی ا اور ان ک ا‬
‫ِ‬ ‫خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان میں قدیم و جدید مفسرین کے‬
‫تجزیاتی و تنقیدی مطالعہ کیا ہے‪ ،‬سماجی‪ ،‬معاشی اور سیاسی موضوعات پر قرآن و ح دیث کی روش نی میں‬
‫ت نبوی کے مختلف پہلوؤں پر عصر حاضر کے تناظر میں تحقیق کی گ ئی ہے‪ ،‬ن ئے‬ ‫بحث کی گئی ہے‪،‬سیر ِ‬
‫پیش آمدہ سماجی اور فقہی مسائل کا جائزہ لیا گیا ہے اور مقاص ِد شریعت کی روشنی میں ان کا ح ل پیش کی ا‬
‫گیا ہے۔‬
‫عصری جامعات کا قیام عرب اور مسلم ممالک میں بڑے پیمانے پر ہوا ہے۔ ان میں س ے بعض مخل وط تعلیم‬
‫تعلیم نس واں‬
‫ِ‬ ‫فراہم کرتی ہیں۔ ان میں طلبہ کے س اتھ طالب ات داخلہ لے ک ر تعلیم حاص ل ک رتی ہیں اور بعض‬
‫کے لیے خاص ہیں ۔ ان اداروں میں طالبات کے ذریعے اسالمیات پر خاصا کام ہ وا ہے اور ب ڑی تع داد میں‬
‫اعلی تعلیم کے‬
‫ٰ‬ ‫ایم اے اور پی ایچ ڈی کے مقالے تیار ہوئے ہیں ۔ ب ر ص غیر ہن د وپ اک میں بھی طالب ات میں‬
‫تحصیل کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے اور وہ عصری جامعات میں داخلہ لے کر ایم اے‪ ،‬ایم ف ل اور پی ایچ‬
‫ڈی کی ڈگریاں حاصل کر رہی ہیں ۔ پاکستان اور ہندوستان دونوں جگہوں پر عص ری جامع ات میں دینی ات (‬
‫‪ )Theology‬اور اسالمیات (‪ )Islamic Studies‬کی فیکلٹیز قائم ہ وئی ہیں اور ان کے تحت ق رآن‪ ،‬ح دیث‪،‬‬
‫سیرت‪ ،‬اسالمی تاریخ اور دیگر مضامین کے الگ الگ ش عبے ق ائم ہ وئے ہیں اور ان کے تحت طالب ات نے‬
‫تحقیقی مق االت لکھے ہیں ۔ خ اص ط ور س ے پاکس تان کی عص ری جامع ات میں طالب ات کے ذریعہ عل وم‬
‫اسالمیہ پر خاصا کام ہوا ہے۔[ جناب محمد عاص م ش ہباز نے پاکس تان کی بیس(‪ )۲۰‬جامع ات میں اس المیات‬
‫میں کی گئی پی ایچ ڈیز کی فہرست تیار کی ہے۔ اس کے مطابق کل آٹھ سو سڑسٹھ(‪ )۸۶۷‬میں سے ایک سو‬
‫تیرہ(‪)۱۱۳‬مقاالت خواتین کے ہیں ۔] کسی قدر کام ہندوستان میں بھی ہو رہ ا ہے۔ لیکن افس وس کہ ان تحقیقی‬
‫زیور طبع سے آراستہ ہو سکے ہیں۔ اس بنا پر عصری جامعات میں خ واتین‬ ‫ِ‬ ‫مقاالت میں سے صرف چند ہی‬
‫ّ‬
‫کے ذریعہ انجام پانے والے علمی کاموں کا نہ کما حقہ تعارف ہو سکا ہے اور نہ ان س ے اس تفادہ کی ک وئی‬
‫سبیل نکل سکی ہے۔‬
‫مستقبل کا منظر نامہ‪ ‬‬
‫علوم اسالمیہ کے میدان میں خواتین کی موجودہ پیش رفت کو اطمین ان بخش کہ ا جاس کتا ہے‪ ،‬لیکن ان س ے‬
‫ِ‬
‫مزید کی توقع رکھنا بے جا نہ ہوگا۔ جس طرح ان کا ماضی درخشاں اور تاب ناک رہا ہے اسی طرح مستقبل‬
‫قابل ق در اور معی اری ک ام س امنے‬
‫میں بھی امید ہے کہ ان کے ذریعہ علوم اسالمیہ کے مختلف میدانوں میں ِ‬
‫آئے گا۔ اس تعلق سے چند پہلوؤں کی طرف توجہ دالنا معلوم ہوتا ہے۔‬
‫‪۱‬۔ عربی زبان کی اچھی صالحیت‪:‬‬
‫علوم اسالمیہ میں کام ک رنے کے ل یے ع ربی زب ان میں مہ ارت ض روری ہے۔ اس ل یے کہ تم ام مص ادر و‬
‫مراجع اسی زبان میں ہیں ۔ اگر چہ بہت سی قدیم کتابوں کا دیگر زبانوں میں ترجمہ ہو گیا ہے‪ ،‬لیکن اب بھی‬
‫خاصا بڑا سرمایہ عربی زبان میں ہے۔ پھر یہ کہ جن کتابوں کا ترجمہ ہ و گی ا تھ ا‪ ،‬ان س ے ک ام چالنے کے‬
‫بجائے محقق کے لیے ضروری ہے کہ وہ براہ راست اص ل کت ابوں س ے رج وع ک رے اور ان کے ح والے‬
‫دے۔ مجھے ان لوگوں پر تعجب ہوتا ہے جو عربی زبان سے واقفیت نہیں رکھتے‪ ،‬پھر بھی بڑی ج رأت کے‬
‫ساتھ علوم اسالمیہ میں تحریر و تصنیف کا کام انجام دیتے ہیں اور خود کو محقق کہالنا پسند کرتے ہیں۔‬
‫اس موقع پر ایک لطیفہ بیان کر دینا بے موقع نہ ہوگا۔ ڈاکٹر عائشہ عب د ال رحمن بنت الش اطی ع ربی زب ان و‬
‫ادب کی ایک عظیم اسکالر ہیں ۔وہ ایک سمینار میں ہندوستان تشریف الئیں ۔ واپس جانے کے بع د انھ وں نے‬
‫ایک مجلس میں اپنے تأثرات بیان کیے ت و یہ بھی کہ ا کہ میں نے دنی ا میں بہت س ے عجائب ات دیکھے ہیں ۔‬
‫ایک عجوبہ یہ بھی ہے کہ مجھے ہندوستان میں یہ معلوم ہوا کہ وہاں کے بعض ایسے لوگوں نے قرآن مجید‬
‫کا ترجمہ کیا ہے جنھیں عربی زبان نہیں آتی۔‬
‫عربی زبان سے ناواقفیت کے ن تیجے میں محققین س ے ب ڑی دل چس پ غلطی اں س رزد ہ وتی ہیں ۔ اس وقت‬
‫صرف ایک مثال کافی ہوگی۔ پاکستان کی ایک یونی ورسٹی س ے م یرے پ اس ای ک ط البہ ک ا پی ایچ ڈی ک ا‬
‫مقالہ ‪Evaluation‬کے لیے بھیجا گیا‪ ،‬جس میں قرآن اور سائنس کی روشنی میں ’ نظ ریۂ ارتق اء‘ ک ا ج ائزہ‬
‫لیا گیا تھا۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میری نظر سے ان کا یہ جملہ گزرا‪ ’’:‬ارتقاء ع ربی لف ظ ’رقی‘‬
‫ث مبارکہ‬‫سے بنا ہے۔ قرآن پاک کی کسی بھی آیت میں لفظ ’ارتقاء‘ یا ’رقی‘ استعمال نہیں ہوا‪ ،‬جب کہ احادی ِ‬
‫میں ’رقی‘ کا لفظ موجود ہے‘‘۔اس لیے کہ قرآن مجید میں مج ّرد اور مزید (رقی اور ارتقاء) دونوں ص یغوں‬
‫میں یہ لفظ موجود ہے۔ [مالحظہ کیجیے سورۂ ص‪ ،‬آیت‪ ،۱۰‬سورۂ االسراء‪ ،‬آیت ‪]۹۳‬‬
‫ہندوستان میں طالبات کے لیے مخصوص تعلیم کے ادارے قائم ہیں ۔ ان کا نصاب عموم ا ً ہلک ا رکھ ا گی ا ہے۔‬
‫اس کے پیچھے غالبا ً یہی منطق کارفرما ہے کہ عورتیں ’ناقص العقل‘ ہوتی ہیں ‪ ،‬اس لیے ان پر زیادہ بوجھ‬
‫ڈالنا مناس ب نہیں ‪ ،‬ح االں کہ اگ ر ان ک ا نص اب وہی رکھ ا ج ائے ج و طلبہ کے ل یے ہے اور ان کی تعلیم و‬
‫تدریس کے لیے طلبہ کے مثل س ہولتیں ف راہم کی ج ائیں ت و طلبہ کے مث ل ان کی ق ابلیتوں میں بھی نکھ ار آ‬
‫سکتا ہے۔‬
‫‪۲‬۔ جملہ مواد کا استحضار‬
‫محقق کے لیے ضروری ہے کہ جس موضوع پر وہ کام کرنا چاہتا ہے‪ ،‬اس پر اب تک جتنا کام ہو چکا ہے‪،‬‬
‫اس سے واقف ہو جائے۔ جدید اصطالح میں اسے ’لٹریچر سروے‘ کہا جاتا ہے۔ بعض حضرات اسے بالک ل‬
‫اہمیت نہیں دیتے۔ وہ دوسروں کی تحریریں دیکھنا اپنی توہین سمجھتے ہیں اور بڑے فخر سے کہ تے ہیں کہ‬
‫میری تحریر بالکل طبع زاد ہے‪ ،‬میں نے کسی س ے اس تفادہ نہیں کی ا ہے‪ ،‬ح االں کہ علمی دنی ا میں یہ رویّہ‬
‫پسندیدہ نہیں ہے۔ سابقہ کاموں کو دیکھنا اس لیے ضروری ہے کہ مباحث کی تکرار نہ ہو۔ ج و ک ام پہلے ہ و‬
‫یل حاص ل ہے۔ ل ٹریچر س روے ک ا ای ک فائ دہ یہ بھی ہے کہ محق ق ک ا ذہن‬ ‫چکا ہے اسے دوبارہ کرنا تحص ِ‬
‫موضوع کے نئے پہلوؤں کی طرف منتقل ہوتا ہے اور بسا اوقات وہ ایس ے مب احث اٹھ انے ی ا ان کے دالئ ل‬
‫فراہم کرنے میں کام یاب ہوجاتا ہے جو اس سے پہلے کے محققین کے حاشیۂ خیال میں نہیں آئے تھے۔ چوں‬
‫کہ تمام دست یاب لٹریچر تک رسائی اور فراہمی زحمت طلب ہوتی ہے‪ ،‬اس کے لیے کتب خانوں میں آم د و‬
‫رفت کی ضرورت ہوتی ہے‪ ،‬اس لیے اس معاملے میں بسا اوقات محقق خواتین تن آسانی کا ش کار ہ و ج اتی‬
‫ہیں اور وہ بہ آسانی مل جانے والے لٹریچر پر اکتفا کر لیتی ہیں ۔‬
‫‪۳‬۔ تحقیقی معیار‬
‫بعض محقق سمجھتے ہیں کہ اپنی بحثوں میں قدماء یا متاخرین کے زیادہ سے زیادہ ح والے دین ا تحقی ق ک ا ا‬
‫علی معیار ہے۔ چنانچہ ان کی تحریروں میں حوالوں کی بھر مار ہوتی ہے۔ مقالہ یا بحث ک ا آغ از ک رتے ہی‬
‫ٰ‬
‫وہ حوالہ دینا شروع کر دیتے ہیں اور اختتام تک کچھ کچھ وقفے سے حوالے دیتے چلے ج اتے ہیں ۔ وہ ذرا‬
‫رک یہ سوچنے کی زحمت نہیں کرتے ہیں کہ اس جگہ کسی سابق مصنف کا حوالہ دینے کی ض رورت بھی‬
‫ہے یا نہیں ؟ کوئی عام سی بات‪ ،‬جو ہر شخص کہہ سکتا ہے‪ ،‬یا وہ بہ آسانی ہر کسی کی س مجھ میں آس کتی‬
‫ہے‪ ،‬اس کا حوالہ دینے کی ضرورت کیا ہے؟ حوالہ دینے کے جوش میں انھیں یہ بھی خیال نہیں رہتا کہ وہ‬
‫جس کتاب کا حوالہ دے رہے ہیں اس ک ا معی ار کی ا ہے؟ چن انچہ وہ بے تکلّ ف ث انوی بلکہ ث الثی درجے کی‬
‫کتابوں کو بھی اپنے مراجع میں شامل کر دیتے ہیں ۔ ضروری نہیں کہ جتنی کتابوں کا مط العہ کی ا گی ا ہے‪،‬‬
‫قدر ضرورت ح والے دیے‬ ‫سب کا کسی نہ کسی طرح حوالہ دے دیا جائے‪ ،‬بلکہ ہونا یہ چاہیے کہ صرف بہ ِ‬
‫جائیں اور ان باتوں کے حوالے دیے جائیں جن کی واقعی ضرورت ہو اور جن سے کوئی استدالل کیا جا رہا‬
‫ہو۔‬
‫‪۴‬۔ اسالم کی صحیح ترجمانی‪ ‬‬
‫آج اسالم پر چہار جانب سے فکری یلغار ہے۔ پہلے شمشیر و سناں اور توپ و تفنگ سے حملے کیے ج اتے‬
‫تھے اور طاقت کے زور سے عالقوں پر قبضہ کیا جاتا اور انسانوں کو غالم بنا لیا جاتا تھا۔ آج باط ل افک ار‬
‫کے ذریعہ عقلوں پر قبضہ کیا جا تا اور ذہنوں کو غالم بنایا جاتا ہے۔آج اسالم پر طرح طرح کے اعتراضات‬
‫نظام خان دان‬
‫ِ‬ ‫کیے جا رہے ہیں ۔ اس پر دہشت گردی کا لیبل چسپاں کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کا‬
‫زد پر ہے اور اس میں عورتوں کے حقوق کو نشانہ بنایا جا رہ ا ہے۔ اس کے نظ ِام سیاس ت ک و م ور ِد ال زام‬
‫ٹھہرایا جا رہ ا ہے۔ غ رض مختل ف پہل وؤں س ے اس الم ک و مطع ون ک رنے کی کوش ش کی ج ا رہی ہے۔ آج‬
‫ضرورت اس بات کی ہے کہ باطل کا مقابلہ اسی کے ہتھیاروں س ے کی ا ج ائے اور اس کے اعتراض ات ک ا‬
‫رسول‬
‫ِ‬ ‫صدر اسالم میں خواتین نے اسالم اور‬
‫ِ‬ ‫جواب اسی کے اسلوب و انداز اور معیار کے مطابق دیا جائے۔‬
‫اسالم کے دفاع میں اہم خدمات انجام دی ہیں اور غیر معمولی قربانیاں پیش کی ہیں ۔ آج بھی وہ علم و تحقی ق‬
‫دفاع اسالم کا فریضہ بہ حس ن و خ وبی انج ام دے س کتی‬ ‫ِ‬ ‫کے میدان میں اپنی خدمات پیش کر سکتی ہیں اور‬
‫ہیں ۔‬
‫‪۵‬۔ نسائی مباحث و مسائل کی درست تشریح‬
‫آج عالمی سطح پر خود نام نہاد مسلم خواتین کا ایک ایسا گروپ تیار ہو گیا ہے جو اس المی مس لّمات و اق دار‬
‫پر حملے کرنے میں پیش پیش ہے۔ وہ مردوں اور عورتوں کے درمیان ہر سطح پر ہر اعتبار س ے مس اوات‬
‫نظام خاندان پ ر‬
‫ِ‬ ‫چاہتا ہے۔ یہ خواتین کہتی ہیں کہ قرآن سماج میں ’رجالی تسلّط‘ کا علم بردار ہے۔ اسالم کے‬
‫ان کا اعتراض یہ ہے کہ اس میں خواتین کو دبا کر رکھا گیا ہے اور انہیں بہت سے حقوق سے محروم رکھا‬
‫ت ح ال میں ض رورت محس وس ہ وتی ہے کہ علم و تحقی ق س ے لیس ایس ی مس لم خ واتین‬ ‫گیا ہے۔ اس صور ِ‬
‫سامنے آئیں جو نسائی مباحث و مسائل کی درست تشریح کریں ۔ وہ واض ح ک ریں کہ عم ل اور اس کے اج ر‬
‫نظام خاندان میں اس نے دونوں ک ا‬
‫ِ‬ ‫میں اسالم نے مردوں اور عورتوں کے درمیان مساوات رکھی ہے‪ ،‬لیکن‬
‫حقوق نسواں کی درست تعبیر و تش ریح وقت کی ض رورت ہے۔ اس‬ ‫ِ‬ ‫دائرہ کار الگ الگ رکھا ہے۔ اسالم میں‬
‫ضرورت کو مسلم خواتین بہ حسن و خوبی پورا کر سکتی ہیں ۔‬
‫نئے موضوعات‪ ،‬جن پر کام کرنے کی ضرورت ہے‬
‫تحقیق کی دو صورتیں عام طور پر رائج ہیں ‪ :‬ایک یہ کہ کسی مخطوطے کے چند نس خے حاص ل ک ر ل یے‬
‫جائیں اور ان کا موازنہ کرتے ہوئے اس مخطوطے کو ایڈٹ کر دی ا ج ائے۔ کس ی نس خے میں ک ون س ا لف ظ‬
‫چھوٹ گیا ہے؟ کس نسخے کی عبارت میں تھوڑا سا فرق ہے؟ اور داخلی شہادتوں کی روشنی میں ک ون س ا‬
‫عالم عرب میں اس طرز کا کام بڑے‬ ‫نسخہ سب سے زیادہ معبتر ہے؟ ان چیزوں کی وضاحت کر دی جائے۔ ِ‬
‫منظر ع ام پ ر آئے ہیں ۔ تحقی ق کی‬
‫ِ‬ ‫پیمانے پر ہوا ہے۔ اس طرح قدیم مصادر و مراجع کے نئے تحقیق اڈیشن‬
‫ت زندگی بیان ک ر دیے ج ائیں اور اس کی‬ ‫دوسری صورت یہ ہے کہ کسی شخصیت کو لے کر اس کے حاال ِ‬
‫علمی‪ ،‬دینی یا رفاہی خدمات کا تعارف کرا دیا جائے‪ ،‬یا کسی مصنف کی کتابوں کا تعارف کراتے ہوئے اس‬
‫منہج تالیف سے بحث کی جائے‪ ،‬یا کسی دور کو متعین کر کے اس میں ہونے والے کاموں کا تجزیہ کیا‬ ‫ِ‬ ‫کے‬
‫جائے اور اس دور کی اہم شخصیات کا تذکرہ کر دیا جائے۔تحقیق کی یہ دونوں ص ورتیں اف ادیت رکھ تی ہیں‬
‫اور ان کے مطابق بڑے پیمانے پر کام ہوا ہے اور ہ و رہ ا ہے‪ ،‬لیکن م یرے اس تاذ گ رامی موالن ا س ید جالل‬
‫الدین عمری صدر ادارۂ تحقیق و تصنیف اسالمی علی گڑھ اور امیر جماعت اسالمی ہند کہتے ہیں کہ تحقی ق‬
‫اعلی صورت یہ ہے کہ فکری موضوعات پ ر ک ام کی ا ج ائے اور ایس ے مب احث اٹھ ائے ج ائیں جن میں‬ ‫ٰ‬ ‫کی‬
‫سماج کو درپیش نت نئے مسائل کا حل پیش کیا گیا ہو۔‬

‫الحمد ہلل اسالمیات کے میدان میں بحث و تحقیق کا کام بڑے پیمانے پ ر ہ و رہ ا ہے اور خ واتین بھی اس میں‬
‫س رگرمی س ے حص ہ لے رہی ہیں ۔ لیکن زی ادہ ت ر ک ام روای تی ان داز ک ا ہے۔ ت یزی س ے ب دلتی دنی ا میں‬
‫اعلی تحقیقی کام انجام دی ا ج ائے۔ یہ‬
‫ٰ‬ ‫ضرورت ہے کہ جو بہت سے نئے موضوعات سامنے آرہے ہیں ان پر‬
‫موضوعات بہت سے ہیں اور ان کا دائرہ عقائد و ٰالہیات‪ ،‬تہذیب و معاشرت‪ ،‬سیاست و معیشت‪ ،‬بین االق وامی‬
‫ان‬
‫تعالی‪ ،‬اس کی صفات اور ش ِ‬ ‫ٰ‬ ‫امور و مسائل اور دیگر میدانوں کو محیط ہے۔ مثال کے طور پر وجود باری‬
‫رین خ دا‪ ،‬متش ککین اورملح دین کے اعتراض ات و‬ ‫ّر توحی د اور منک ِ‬ ‫ال وہیت کی تفہیم جدی د‪ ،‬اس الم ک ا تص و ِ‬
‫ور توحی د‪ ،‬وحی و رس الت ک ا‬ ‫ِ‬ ‫تص‬ ‫المی‬ ‫اس‬ ‫اور‬ ‫ود‬ ‫الوج‬ ‫وحدۃ‬ ‫ر‪،‬‬ ‫و‬
‫ّ‬ ‫تص‬ ‫ت ٰالہ کا‬
‫شبہات کا تنقیدی جائزہ‪ ،‬حاکمی ِ‬
‫قرآنی تصور اور عقل انسانی کی نارسائی‪ ،‬ایمان بالغیب کی تفہیم جدید‪ ،‬ق رآن مجی د اور سائنس ی حق ائق کے‬
‫درمیان تطبیق اور موافقت یا مخالفت کے پہلوؤں کی تحقیق‪ ،‬نئے دس توری‪ ،‬سیاس ی اور س ماجی مس ائل میں‬
‫نبوی سے استفادہ کے حدود‪ ،‬نئے حاالت میں اسالمی زندگی کی تشکیل میں اجتہاد کے امکان ات‪ ،‬ن ئے‬ ‫ؐ‬ ‫ت‬
‫سن ِ‬
‫احکام کے استنباط میں مقاص ِدشریعت کی رعایت‪ ،‬بدلتے ہوئے حاالت میں ن ئے علم کالم اور فقہ کی ت دوین‪،‬‬
‫اسالمی حدود و تعزیرات کی معقولیت کا اثبات‪ ،‬ارتداد اور آزادئ ضمیر کا مسئلہ‪ ،‬نفا ِذ حدود میں جدید وسائل‬
‫و ذرائع سے استفادہ کے ح دود‪ ،‬م ذاہب اور تہ ذیبوں کے درمی ان مک المہ کی ض رورت اور اس کے ح دود‪،‬‬
‫تدوین نو‪ ،‬نئے تناظر میں معاشرہ میں عورت کا مقام اور اس کے سیاس ی و س ماجی‬ ‫ِ‬ ‫اسالمی فلسفۂ تاریخ کی‬
‫حقوق‪ ،‬وراثت‪ ،‬شہادت اور طالق وغیرہ میں عورت کے ساتھ مرد سے مختلف س لوک کی حکم تیں ‪ ،‬ع ائلی‬
‫حق خلع کی‬‫قوانین کی اصالح‪ :‬تع ّد ِد ازواج کے حق کی تحدید‪ ،‬طالق کے اختیار کو بعض آداب کا پابند بنانا‪ِ ،‬‬
‫تجدید‪ ،‬مطلقہ کے حقوق‪ ،‬ایک ساتھ تین طالق کا مسئلہ‪ ،‬اسالمی ریاست میں قانون س ازی اور انتظ ِام مملکت‬
‫میں غیر مسلموں سے اشتراک کے حدود‪ ،‬مسلمان اقلیتوں ک ا سیاس ی موق ف‪ ،‬بین االق وامی تعلق ات‪ ،‬مش ترکہ‬
‫عالمی مسائل کے حل میں غیر مس لموں کے س اتھ اش تراک کی بنی ادیں ‪ ،‬معاش ی ت رقی کے اس المی ح دود‪،‬‬
‫ت س ود کی حکم تیں ‪ ،‬س ود ک ا ج واز ف راہم‬ ‫گلوبالئزیشن کے مثبت اور منفی پہلوؤں کا تنقی دی ج ائزہ‪ ،‬ح رم ِ‬
‫کرنے والے نظریات کا علمی و تنقیدی جائزہ‪ ،‬غ یر س ودی معیش ت ک ا تنقی دی ج ائزہ‪ ،‬اس المی بینکن گ اور‬
‫فنانس کے مختلف پہل و‪ ،‬اس المی بنی ادوں پ ر انش ورنس کی تنظیم جدی د‪ ،‬وغ یرہ۔[ پروفیس ر محم د نج ات ہللا‬
‫صدیقی نے اپنے کتابچے میں ان موضوعات کی نشان دہی کی ہے جن پر موجودہ حاالت میں کام کرنے کی‬
‫ضرورت ہے۔مالحظہ کیجیے‪ :‬معاص ر اس المی فک ر ‪ :‬چن د ت وجہ طلب مس ائل‪ ،‬ہ دایت پبلش رز این ڈ ڈس ٹری‬
‫بیوٹرس‪ ،‬نئی دہلی‪]۲۰۱۶،‬‬
‫یہ چند موضوعات ہیں جن کی نشان دہی کی گئی ہے۔ اس طرح کے دیگر بہت سے موض وعات کی فہرس ت‬
‫نظر کرم کے منتظر ہیں ۔ ان موضوعات پر خواتین بھی دا ِد تحقی ق دے‬
‫ِ‬ ‫تیار کی جاسکتی ہے جو محققین کی‬
‫سکتی ہیں۔‬
‫خواتین کے علمی کاموں کے تعارف کی ضرورت‬
‫واقعہ یہ ہے کہ اسالمی علوم میں خواتین کی خدمات کا کما حقہ تعارف اب تک نہیں کرایا جاس کاہے اور نہ‬
‫ان کے بارے میں عموما ً لوگوں کو کچھ معلومات ہیں ۔تذکرہ و تراجم کی کتابیں بھی ان کے ذکر سے تقریب ا ً‬
‫المقری (م ‪۸۳۳‬ھ)نے اپنی کتب غایۃ النھایۃ في طبقات القرّاء میں‬
‫ؒ‬ ‫خاموش ہیں ۔مثال کے طور پر ابن الجزری‬
‫تین ہزار نوسو پچپن(‪)۳۹۵۵‬قاریوں کا تذکرہ جمع کیاہے‪،‬جن میں سے قاریات ص رف تین (‪ )۳‬ہیں ۔اس ماعیل‬
‫ب تص نیف‬ ‫بغدادی نے اپنی کتاب ھدیۃ العارفین في أسماء الم ؤلّفین وآث ار المص نّفین میں ص رف دو(‪ )۲‬ص اح ِ‬
‫خواتین کا ذکر کیاہے۔ اسی طرح زرکلی کی األعالم میں تیرہ(‪)۱۳‬اور عمر رضا کحالہ کی أعالم النس اء میں‬
‫صرف دس(‪)۱۰‬ایسی خواتین کا تذکرہ ہے جنہوں نے کسی موضوع پر تصنیف و تالیف کا کام کیاہے۔‬
‫خواتین کی خدمات سے بے خبری کا اندازہ ایک واقعہ سے لگایاجاسکتاہے۔ چھ برس قبل جب میری بھ تیجی‬
‫عزیزہ ندیم سحر عنبریں کے پی ایچ ڈی مقالے کے لیے عنوان کے انتخاب کا مرحلہ درپیش تھا‪ ،‬میں نے یہ‬
‫خواہش ظاہر کی کہ وہ ’تفسیر وعلوم قرآنی میں خواتین کی خدمات ‘پر کام کرے۔ مشورہ کے لیے میں شعبۂ‬
‫اسالمک اسٹڈیز‪ ،‬جامعہ ملیہ اسالمیہ‪ ،‬نئی دہلی کے استاد اور سرپرست پروفیسر اخترالواسع کی خ دمت میں‬
‫قابل ذکر کام نہیں ہے‪ ،‬اس لیے اسے پی ایچ‬
‫تفسیر قرآن میں خواتین کا کوئی ِ‬
‫ِ‬ ‫حاضر ہوا۔ انہوں نے فرمایا کہ‬
‫ڈی کا موضوع نہیں بنایا جا سکتا۔ میں نے جب ان کے سامنے موضوع کی اہمیت بیان کرنی چاہی ت و انہ وں‬
‫نے فرمایا‪:‬کسی ایک خاتون کا نام بتائیے‪ ،‬جس نے کسی زبان میں قرآن مجید کی مکمل تفسیر لکھی ہ و؟میں‬
‫نے عرض کیا ‪ :‬تحقیق اسی کا نام ہے‪،‬معلوم ہوجائے گا کہ کسی خاتون نے تفسیر نہیں لکھی ہے اور یہ بھی‬
‫ممکن ہے کہ تالش وجستجو سے کوئی تفسیر نکل آئے۔باآلخر یہ موضوع منظور ہوا اور جب کام مکمل ہ وا‬
‫تو اس کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ عربی‪ ،‬ترکی اور اردو میں ایک درجن سے زیادہ خواتین کی مکمل تفسیریں‬
‫موجود ہیں‪ ،‬جن میں سے بعض بہت مبسوط اور ضخیم مجلدات پر مشتمل ہیں۔ اس کے عالوہ انہوں نے بہت‬
‫سی جزئی تفسیریں (سورتوں اور آیات)لکھی ہیں ‪ ،‬کئی زب انوں میں ق رآن مجی د کے ت رجمے ک یے ہیں۔ اس‬
‫کے عالوہ ق رآنی موض وعات پ ر ایم ف ل اور پی ایچ ڈی کے مق االت س یکڑوں کی تع داد میں ہیں۔ یہی ح ال‬
‫اسالمیات کے دیگر میدانوں کا ہے کہ ان میں خواتین کے کاموں سے عموم ا ً بے خ بری ہے۔ ض رورت ہے‬
‫کہ خواتین کے علمی کاموں کے تعارف کی طرف توجہ دی جائے‪ ،‬انھیں تحقیق ک ا موض وع بنایاج ائے اور‬
‫ان کو نمایاں کیاجائے۔‬

You might also like