You are on page 1of 13

‫ماہنامہ دارالعلوم ‪ ،‬شمارہ ‪ ، 9-8‬جلد‪ 

، 95 :‬رمضان — شوال‪ 1432 ‬ہجری مطابق‪ ‬اگست — ستمبر‪2011 ‬ء‬


‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬

‫ت تصویر کی نوعیت‬
‫حرم ِ‬
‫از‪           :‬موالنامحمد شعیب ہللا خاں‪ ،‬جامعہ اسالمیہ مسیح العلوم‪ ،‬بنگلور‬
‫‪ ‬‬
‫‪                 ‬تصویر‪ ,‬کی حرمت پر بہت سے علماء نے اب تک بہت کچھ لکھ‪,,‬ا ہے اور ہن‪,,‬د و ب‪,,‬یرو ِن ہن‪,,‬د‬
‫داراالفتاوں سے بھی اس کے بارے میں حرمت کے فتاوی باربار‪ ,‬جاری ہ‪,,‬وتے رہے ہیں۔ اور تقریب‪,‬ا ً‬ ‫ٴ‬ ‫کے‬
‫اس کا حرام و ناجائز ہونا عوام و خواص کے نزدی‪,,‬ک ای‪,,‬ک مس‪,,‬لمہ ام‪,,‬ر ہے ؛مگ‪,,‬ر اس کے ب‪,,‬اوجو د اس‬
‫ت حال ک‪,,‬و دیکھ ک‪,,‬ر بعض ن‪,,‬اواقف‬ ‫خواص امت کا بھی ابتالء عام ہے ‪ ،‬اور اسی صور ِ‬
‫ِ‬ ‫میں عوام تو عوام‬
‫لوگوں کو اس کے جائز ہونے کا شبہ ہوجاتا ہے ‪،‬بالخصوص جب علماء و م‪,,‬دارس اس‪,,‬المیہ کے ذمہ دار‬
‫حضرات کی جانب سے تصاویر کے سلسلہ میں نرم رویہ برت‪,,‬ا جات‪,,‬ا ہے اور ان کی تص‪,,‬اویر‪ ,‬اخب‪,,‬ارات و‬
‫رسائل وجرائد میں بال کسی روک ٹوک کے ش‪,,‬ائع ہ‪,,‬وتی ہیں‪ ،‬ت‪,,‬و ای‪,,‬ک ع‪,,‬ام آدمی یہ س‪,,‬وچنے پ‪,,‬ر مجب‪,,‬ور‬
‫ہوجاتا ہے کہ یہ حالل ہونے کی وجہ سے لی جا رہی ہے یا یہ کہ ان کے تساہل ک‪,,‬ا ن‪,,‬تیجہ ہے؟ پھ‪,,‬ر جب‬
‫وہ علماء کی جانب رجوع‪ ,‬کرتا ہے اور اس کے حالل یا حرام ہ‪,,‬ونے کے ب‪,,‬ارے میں س‪,,‬وال کرت‪,,‬ا ہے ت‪,,‬و‬
‫اس کو کہا جاتا ہے کہ یہ تو ح‪,‬رام ہے ۔اس س‪,‬ے اس کی پریش‪,‬انی‪ ,‬اور ب‪,‬ڑھ ج‪,‬اتی ہے اور وہ علم‪,‬اء کے‬
‫بارے میں کسی منفی رائے کے قائم‪ ,‬کرنے میں حق بجانب معلوم ہوتا ہے۔ علماء کی تصاویر کے سلس‪,,‬لہ‬
‫نے جہاں عوام الناس کو بے چینی و پریشانی‪ ,‬میں مبتال کر دیا ہے‪ ،‬وہیں اس س‪,,‬ے ای‪,,‬ک ح‪,,‬رام کے حالل‬
‫سمجھنے کا رجحان بھی پیدا ہو رہا ہے ‪ ،‬ج‪,,‬و اور بھی زی‪,,‬ادہ خطرن‪,,‬اک و انتہ‪,,‬ائی تش‪,,‬ویش ن‪,,‬اک ص‪,,‬ورت‬
‫حال ہے ؛ کیونکہ حرام کو حرام اورحالل کو حالل سمجھنا ایمان کا الزمہ ہے ‪،‬اگر کوئی حرام کو حالل‬
‫سمجھنے لگے تو اس سے ایمان بھی متأثر ہو تا ہے ۔‬
‫‪                 ‬کسی عربی شاعر نے اسی صورت پر دلگیر ہو کر یہ مرثیہ لکھا ہے ‪:‬‬
‫ین َأنّ َح َما َت ُہ‬
‫َک ٰفی ح ُْز ًنا لِل ِّد ِ‬
‫نصر‪‬‬ ‫ْف ْ ُی َ‬‫ا َِذا َخ َذل ُ ْوہُ قُ ْل لَ َنا َکی َ‬
‫صا َبہ‪‬‬ ‫َم ٰتی َیسْ لَ ُم ااْل ِسْ اَل ُم ِممَّا َأ َ‬
‫ان َمنْ یُرْ ٰجی ی َُخافُ َو یُحْ َذر‪‬‬ ‫ا َِذا َک َ‬
‫‪(                ‬دین پر غم کے لیے یہ ک‪,‬افی‪ ,‬ہے کہ دین کے محاف‪,‬ظ‪ ,‬ہی جب اس ک‪,,‬و ذلی‪,,‬ل ک‪,,‬ریں ت‪,‬و مجھے‬
‫بتاو دین کی کیسے نصرت ہو گی ؟ اسالم کب ان باتوں سے محف‪,,‬وظ رہ س‪,,‬کتا ہے ج‪,,‬و اس ک‪,,‬و پیش آرہی‬ ‫ٴ‬
‫ہیں جبکہ جن لوگوں سے اسالم کی حفاظت کے لیے امید لگی ہوئی تھی انھیں سے اس کو خوف وخطرہ‬
‫الحق ہو گیا ہے)‬
‫‪                 ‬آج ک‪,‬ئی م‪,‬دارس اور علم‪,‬اء اور دی‪,,‬نی و ملی تحریک‪,‬ات کے ذمہ داران کی تص‪,,‬اویر‪ ,‬آئے دن‬
‫اخب‪,,‬ارات میں بال تام‪,,‬ل ش‪,,‬ائع ہ‪,,‬و تی ہیں ‪ ،‬یہ‪,,‬اں ت‪,,‬ک کہ بعض علم‪,,‬اء کی ج‪,,‬انب س‪,,‬ے ش‪,,‬ائع ہ‪,,‬و نے والے‬
‫ماہناموں میں بھی تصاویر کی بھرمار ہو تی ہے اور ان میں عورتوں اور ل‪,,‬ڑ کی‪,,‬وں کی تص‪,,‬اویر‪ ,‬بھی ہ‪,,‬و‬
‫ت حال انتہائی تعجب خیزاور افسوس‪ ,‬ناک نہیں ؟ علم‪,,‬اء ج‪,‬و رہ‪,‬برا ِن ق‪,,‬وم تھے ان ک‪,,‬ا‬‫تی ہیں ۔کیا یہ صور ِ‬
‫خود یہ حال ہو تو عوام الناس کہاں جائیں ؟ کسی شاعر نے کہا‪:‬‬
‫ت ِب ِہ ْال ِغ َیر‪‬‬ ‫ِب ْالم ِْل ِح ُنصْ لِ ُح َما َن ْخ ٰشی َت َغی َُّرہ‪َ                  ‬فکَی َ‬
‫ْف ِب ْالم ِْل ِح اِنْ َحلَّ ْ‬
‫‪(                ‬ہم نمک کے ذریعہ اس کھ‪,,‬انے کی اص‪,,‬الح ک‪,,‬رتے ہیں جس کے خ‪,,‬راب ہوج‪,,‬انے ک‪,,‬ا خدش‪,,‬ہ‬
‫ہو ‪ ،‬اگر نمک ہی میں خرابی پیدا ہو جائے تو کیا حال ہو گا)‬
‫‪                 ‬ہمارے اکابر و علماء و مشائخ تو حالل ام‪,‬ور میں بھی احتی‪,‬اط برت‪,‬تے اور لوگ‪,‬وں کے ل‪,‬یے‬
‫تقوے کا ایک اعلی نمونہ ہ‪,,‬وا ک‪,,‬رتے تھے ‪،‬اور یہ‪,,‬اں یہ ہ‪,,‬و رہ‪,,‬ا ہے کہ ح‪,,‬رام ک‪,,‬ا ارتک‪,,‬اب بے محاب‪,,‬ا اور‬
‫رہبران قوم کا کیا فرض بنت‪,,‬ا ہے‬
‫ِ‬ ‫کھلے طور پر کیا جا رہا ہے ۔اگر اس میں اختالف بھی مان لیا جائے تو‬
‫؟ اس پر غور کیجیے ۔‬
‫جمہور امت کا مسلک‬
‫ِ‬ ‫ت تصویراور‬
‫‪ ‬حرم ِ‬
‫‪                 ‬عکسی تصویراور‪ ,‬ٹی وی اور ویڈیو‪ ,‬کے بارے میں عام ط‪,,‬ور پ‪,,‬ر یہ خی‪,,‬ال کی‪,,‬ا جات‪,,‬ا ہے کہ‬
‫علماء ہند و پاک ہی ان کو ناجائز‪ ,‬قرار دیتے ہیں اور عالم اسالم کے دوسرے علماء جیس‪,,‬ے علم‪,‬اء ع‪,,‬رب‬
‫و مصر وغیرہ سب کے سب ان کو ج‪,‬ائز کہ‪,,‬تے ہیں ‪،‬یہ غل‪,,‬ط فہمی خ‪,,‬ود بن‪,,‬دے ک‪,,‬و بھی رہی ‪،‬لیکن ای‪,,‬ک‬
‫مطالعہ کے دوران علماء عرب و مصر کے متعدد فتاوی وتحریرات‪ ,‬نظر سے گزریں تو اندازہ ہوا کہ ان‬
‫حضرات میں سے بھی جمہورعلم‪,,‬اء ک‪,,‬ا ” عکس‪,,‬ی تص‪,,‬ویر“‪ ,‬اور” ٹی وی“ اور” وی‪,,‬ڈیو “کے ب‪,,‬ارے میں‬
‫وہی نقطہ ٴ نظر ہے جو ہندوستانی و پاکستانی علماء کا شروع‪ ,‬سے رہا ہے ۔‬
‫‪                 ‬ہاں اس میں شک نہیں کہ وہاں کے بعض گنے چنے علماء نے عکسی تصویر‪ ,‬کو جائز کہ‪,,‬ا‬
‫ہے اور ٹی وی اور ویڈیو کی تصاویر‪ ,‬کو بھی عکس مان کر ان کو بھی جائز کہ‪,,‬ا ہے‪،‬لیکن یہ وہ‪,,‬اں کے‬
‫جمہور کا فتوی‪ ,‬نہیں ہے‪ ،‬جمہور علماء اسی کے قائل ہیں کہ یہ تص‪,,‬اویر کے حکم میں ہیں اور اس ل‪,,‬یے‬
‫حرام و ناجائز ہیں ۔ اور خود وہاں کے علماء نے مج‪,‬وزین ک‪,‬ا خ‪,‬وب رد و انک‪,‬ار بھی کردی‪,‬ا‪ ,‬ہے ۔جیس‪,‬ے‬
‫شیخ حمود بن عبد ہللا التویجری نے ” تح‪,,‬ریم‪ ,‬التص‪,,‬ویر “ اور” االعالن ب‪,,‬النکیر علی المفت‪,,‬ونین بالتص‪,,‬ویر‪,‬‬
‫“نامی رسائل اسی سلسلہ میں لکھے ہیں ‪ ،‬نیز جامعہ قصیم‪ ,‬کے استاذ شیخ عبد ہللا بن محم‪,,‬د الطی‪,,‬ار نے ”‬
‫صناعة الصورة بالید مع بیان احکام التصویر الفوتوغرافي‪ “ ,‬کے نام سے رسالہ لکھا ہے ‪،‬اور مص‪,,‬ر کے‬
‫عالم شیخ ابو ذر القلمونی نے ”فتنة تصویر‪ ,‬العلماء “ کے نام سے ان کا رد لکھا ہے ‪ ،‬نیز علماء نے اپنے‬
‫اپنے فتاوی میں بھی اس پر کالم کیا ہے ۔اسی طرح ڈش آنٹینا جس کا فساد‪ ,‬اب حد سے تج‪,,‬اوز کرگی‪,,‬ا ہے‬
‫اور اس نے انسانوں کی تباہی میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے‪ ،‬اس کے ب‪,,‬ارے میں بھی علم‪,,‬اء ع‪,,‬رب‬
‫کے فتاوی میں حرمت کا حکم اور اس سے بچنے کی تلقین موجود‪ ,‬ہے ۔‬
‫ت تصویر اور علماء ہند وپاک‬
‫حرم ِ‬
‫‪                ‬جیسا کہ اوپر عرض کیا گیاکہ کیمرے کی عکس‪,‬ی تص‪,‬ویر کی ح‪,‬رمت میں اگ‪,‬ر چہ معاص‪,‬ر‪,‬‬
‫علماء کے درمیان میں اختالف ہوا ہے ‪،‬اور ایک چھوٹی سی جماعت اس کے جواز کی جانب مائل ہو ئی‬
‫ہے ‪،‬لیکن اس میں کیا شک ہے کہ تصویر کی حرمت جمہ‪,,‬ور امت ک‪,,‬ا متفقہ فت‪,,‬وی‪ ,‬و فیص‪,,‬لہ ہے ‪ ،‬ع‪,,‬رب‬
‫سے لے کر عجم تک جمہور امت نے اسی کو قبول کیا ہے ۔‬
‫‪                ‬جہاں تک علماء ہند و پاک کا تعلق ہے ‪،‬بات بالکل واضح و مسلم ہے ۔ فقیہ العص‪,,‬ر حض‪,,‬رت‬
‫موالنا مفتی محمد شفیع صاحب‪  ‬نے تو اپنے رسالہ ”التصویر‪ ,‬ألحکام التصویر“میں یہ تص‪,,‬ریح کی ہے‬
‫کہ ان کے زمانے ت‪,,‬ک کم از کم ہندوس‪,,‬تان (ج‪,,‬و اس وقت ت‪,,‬ک غ‪,‬یر منقس‪,,‬م تھ‪,,‬ا)میں حض‪,,‬رت موالن‪,‬ا‪ ,‬س‪,,‬ید‬
‫سلیمان ندوی‪ ‬کے عالوہ کسی نے جواز‪ ,‬پر قلم نہیں اٹھایااور پھر انھوں نے بھی اس سے رجوع کر لیا۔‬
‫(جواہر الفقہ‪)۳/۱۷۱ :‬‬
‫‪                ‬یہاں یہ عرض کردین‪,,‬ا مناس‪,,‬ب ہوگ‪,,‬ا کہ حض‪,,‬رت موالن‪,,‬ا س‪,,‬ید س‪,,‬لیمان ن‪,,‬دوی‪  ,‬نے ماہن‪,,‬امہ ”‬
‫معارف“ کی متعدد قسطوں میں ایک مض‪,‬مون عکس‪,‬ی تص‪,,‬ویر کے ج‪,,‬ائز ہ‪,‬ونے پ‪,‬ر لکھ‪,‬ا تھ‪,‬ا ‪ ،‬حض‪,,‬رت‬
‫موالنا مفتی محمد شفیع صاحب نے اس کے رد میں ”التصویر ألحکام التصویر“ لکھی ‪ ،‬اس کو دیکھ ک‪,,‬ر‬
‫حضرت موالنا سید سلیمان ندوی نے اپنے جواز کے قول سے رجوع کر لیا تھ‪,,‬ا ‪ ،‬حض‪,,‬رت موالن‪,,‬ا مف‪,,‬تی‬
‫محمد شفیع صاحب لکھتے ہیں کہ یہ رجوع‪ ,‬و اعتراف کا مضمون عالمہ سید ص‪,,‬احب کے کم‪,,‬ال علم اور‬
‫کمال تقوی کا بہت بڑا شاہکار ہے ‪ ،‬اس پر خود حضرت مرشد تھانوی‪ ,‬سیدی حکیم االمت رحم‪,,‬ة ہللا علیہ‬
‫نے غیر معمولی مسرت کا اظہار نظم میں فرمایا ۔‬
‫‪                ‬اس سلسلہ میں دوس‪,‬ری ب‪,‬ڑی ش‪,‬ہادت و گ‪,‬واہی یہ ہے کہ ع‪,‬الم اس‪,‬الم کی مش‪,‬ہور‪ ,‬و مع‪,‬روف‪,‬‬
‫علمی و روحانی شخصیت حضرت اقدس موالنا ابو الحس‪,,‬ن علی ن‪,,‬دوی علیہ ال‪,,‬رحمہ نے بھی اس ب‪,,‬ات ک‪,,‬ا‬
‫ذکر کیا ہے کہ ہندوستان کے تمام مسلمان تصویر‪ ,‬کے حرام ہ‪,,‬و نے پ‪,,‬ر متف‪,,‬ق ہیں ۔ چن‪,,‬انچہ آپ کی کت‪,,‬اب‬
‫الجواب ” ما ذا خسر العالم بانحطاط المسلمین “ کے شروع میں فضیلة الشیخ االستاذ احمد الشرباص‪,‬ی‪ ,‬نے‬
‫حضرت واال کا جو تعارف‪ ,‬لکھا ہے ‪،‬اس میں وہ لکھتے ہیں کہ ‪:‬‬
‫‪ ”                ‬آپ ہر قسم‪ ,‬کی تصویر‪ ,‬کو برا سمجھتے تھے ‪،‬اور خود پر اس کو پوری‪ ,‬سختی س‪,‬ے ح‪,‬رام‬
‫قرار دیتے تھے ۔ کہتے ہیں کہ میں ایک بار آپ کے ساتھ قاہرہ کے ایک ب‪,,‬ڑے مطب‪,,‬ع میں گی‪,,‬ا ت‪,,‬و مطب‪,,‬ع‬
‫کے مصور نے آپ کی ایک یاد گار تصویر اتارنے کی اجازت چاہی تو آپ نے من‪,,‬ع کردی‪,‬ا‪ ,‬اور ذک‪,,‬ر کی‪,,‬ا‬
‫کہ ‪ :‬ان المسلمین في الھند متفق‪,,‬ون علی حرم‪,‬ة التص‪,‬ویر“ (ہندوس‪,‬تان کے مس‪,,‬لمان تص‪,,‬ویر کی ح‪,‬رمت پ‪,,‬ر‬
‫متفق ہیں)(ماذا خسر العالم‪)۲۱ :‬‬
‫‪                ‬اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موالنا ابو الحسن ندوی علیہ الرحمہ بھی خود تصویر‪ ,‬کو‬
‫حرام سمجھتے تھے اور اس کو کم از کم ہندوستان کے تمام علماء کا متفقہ فیصلہ‪ ,‬قرار دیتے تھے ۔‬
‫‪                ‬اور یہاں یہ بھی عرض کر دینا خالی از فائدہ و عبرت نہیں کہ حضرت موالنا ابو الکالم آزاد‬
‫ت دراز ت‪,,‬ک اپن‪,‬ا مش‪,‬ہور اخب‪,,‬ار ” الہالل“ ب‪,‬ا تص‪,‬ویر‪ ,‬ش‪,‬ائع کی‪,,‬ا ‪ ،‬جب وہ‬‫صاحب مرح‪,,‬وم‪ ,‬جنھ‪,‬وں نے م‪,,‬د ِ‬
‫رانچی کی جیل میں تھے‪،‬آپ کے متعلقین نے آپ کی سوانح شائع کرنا چاہی تو آپ سے سوانح کے س‪,,‬اتھ‬
‫شائع کرنے کے لیے ایک تصویر کا مطالبہ‪ ,‬کیا ‪ ،‬اس پر موالنا ابو لکالم آزاد نے جو ج‪,,‬واب دی‪,,‬ا وہ خ‪,,‬ود‬
‫اسی ” تذکرہ“ میں شائع کیا گیا ہے ‪ ،‬جس میں آپ نے لکھا ہے کہ‪:‬‬
‫‪”                ‬تصویر‪ ,‬کا کھنچوانا‪ ، ,‬رکھنا ‪ ،‬ش‪,,‬ائع کرن‪,,‬ا س‪,,‬ب ناج‪,,‬ائز ہے ‪ ،‬یہ م‪,,‬یری س‪,,‬خت غلطی تھی کہ‬
‫تصویر‪ ,‬کھنچوائی اور” الہالل“ کو باتصویر نکاال تھا ‪ ،‬اب میں اس غلطی سے تائب ہوچکا ہ‪,,‬وں ‪ ،‬م‪,,‬یری‬
‫پچھلی لغزش‪,,‬وں ک‪,,‬و چھپان‪,,‬ا چ‪,,‬اہئے نہ کہ از س‪,,‬ر ن‪,,‬و ان کی تش‪,,‬ہیر کرن‪,,‬ا چ‪,,‬اہیے “ ۔ (بح‪,,‬والہ ج‪,,‬واہر‬
‫الفقہ‪             )۳/۱۷۱ :‬الغ‪,,‬رض اس س‪,,‬ے کی‪,,‬ا یہ ث‪,,‬ابت نہیں ہوت‪,,‬ا کہ کم از کم ہندوس‪,,‬تان کے علم‪,,‬اء ک‪,,‬ا‬
‫تصویر‪ ,‬کے عدم جواز پر اتفاق تھا ۔اور رہا حضرت سلیمان ندوی کا ج‪,,‬واز کاخی‪,,‬ال ‪،‬ت‪,,‬و آپ نے خ‪,,‬ود اس‬
‫سے رجوع کر لیا اور سب کے موافق عدم جواز کے قائل ہو گئے ۔‬
‫تصویر کے بارے میں علماء عرب و مصر کا موقف‬
‫‪                ‬اسی طرح دیگر ممالک اسالمیہ میں بھی جمہور علماء کا فت‪,,‬وی تص‪,,‬ویر کے ناج‪,,‬ائز ہ‪,,‬و نے‬
‫ہی کا ہے ‪ ،‬عام طور‪ ,‬پر لوگ مصر کے علماء ک‪,,‬ا ذک‪,,‬ر ک‪,,‬رتے ہیں کہ وہ اس ک‪,,‬و ج‪,,‬ائز ق‪,,‬رار‪ ,‬دی‪,,‬تے ہیں‪،‬‬
‫مگر یہاں بھی یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ بھی مصر‪ ,‬کے چند علماء کا فتوی ہے ‪ ،‬سب ک‪,,‬ا اور جمہ‪,,‬ور ک‪,,‬ا‬
‫نہیں ‪،‬اس کی شہادت مصر ہی کے ایک عالم شیخ ابو ذر القلمونی کی یہ عبارت دیتی ہے ج‪,,‬و انھ‪,,‬وں نے‬
‫اپنی کتاب ” فتنة تصویر العلماء “ میں لکھی ہے کہ ‪:‬‬
‫‪ ”                ‬ثم حر ّ‬
‫ي بطلبة العلم تدارک ھذہ الفتن‪,,‬ة‪ ،‬اذ تح‪,,‬ریم التص‪,,‬اویر ک‪,,‬ان مس‪,,‬تقرا بین اخوانن‪,,‬ا‪ ،‬ثم في‬
‫العقد االخیر اخذ ھذا المنکر یفشو و یذیع ‪،‬حتی صار ھو االصل‪ ،‬وصار‪ ,‬المحق عازف‪,,‬ا عن االنک‪,,‬ار‪ ،‬اجتناب‪,,‬ا‬
‫للذم“․ (فتنة تصویرالعلماء ‪)۵:‬‬
‫‪                ‬اس سے معلوم ہوا کہ مصر میں بھی جمہور علماء کے مابین یہی بات مسلم و طے ش‪,,‬دہ تھی‬
‫کہ تصویر‪ ,‬حرام ہے ۔لہٰذا مطلقا یہ کہنا کہ مصر‪ ,‬کے علماء اس کو جائز کہتے ہیں خالف واقعہ ہے ۔‬
‫‪                ‬اور سعودی حکومت کی جانب سے قائم کردہ دار االفتاء اور علمی مسائل کی تحقیق کا ای‪,,‬ک‬
‫بڑا و معتبر عالمی مرکز”اللجنة الدائمة للبحوث العلمیة واإلفتاء“‪ ,‬نے ایک فتوی‪ ,‬میں کہا کہ‪:‬‬
‫‪”                ‬القول الصحیح الذي دلت علیہ األدلة الشرعیة وعلیہ جماھیر العلم‪,,‬اء ‪:‬أن أدل‪,,‬ة تح‪,,‬ریم تص‪,,‬ویر‬
‫ذوات األرواح تضم التصویر الفوتوغرافي‪ ,‬والیدوي‪،‬مجسما أو غیر مجسم ‪،‬لعموم االدلة“․‬
‫‪(                 ‬صحیح قول جس پر شرعی دالئل داللت ک‪,‬رتے ہیں اور جس پ‪,‬ر جمہ‪,‬ور علم‪,,‬اء ق‪,‬ائم ہیں یہ‬
‫ہے کہ جاندار چیزوں کی تصویر کی حرمت کے دالئل فوٹوگرافی‪ ,‬کی تصویر اور ہاتھ سے بنائی ج‪,,‬انے‬
‫والی تصاویر‪ ,‬سبھی کو شامل ہیں ‪،‬خواہ وہ مجسم ہو یا غیر مجسم ہو ‪،‬دالئل کے عام ہو نے کی وجہ سے‬
‫) (فتاوی‪ ,‬اسالمیة‪)۴/۳۵۵:‬‬
‫‪                ‬اس سے بھی معلوم‪ ,‬ہوا کہ جمہور امت خواہ وہ مصر کے لوگ ہوں یا س‪,,‬عودی کے ی‪,,‬ا کس‪,,‬ی‬
‫اور عالقے کے وہاں جمہور اس کے عدم جواز پر متفق ہیں۔‬
‫‪                ‬نیز یہ بھی سنتے چلیے کہ ایک مرتبہ عربی مجلہ ”عکاظ “ میں سات علماء کا تص‪,,‬ویر کے‬
‫جواز کا فتوی‪ ,‬شائع ہوا‪ ،‬تو علماء نے اسی وقت اس کا رد کیا ۔ سعودی عرب کے ایک مف‪,,‬تی ش‪,,‬یخ حم‪,,‬ود‬
‫بن عبد ہللا بن حمود التویجری نے ” تحریم التصویر“ کے نام سے اس کا باقاعدہ رد لکھ‪,,‬ا ہے‪،‬اس رس‪,,‬الہ‬
‫میں لکھا ہے جس کا خالصہ یہ ہے کہ‪:‬‬
‫‪ ”                ‬جریدہ عکاظ والوں نے اس شاذ فتوی ک‪,,‬ا ج‪,,‬و رس‪,,‬ول‪ ,‬ہللا ﷺ کے تص‪,,‬اویر‪ ,‬ک‪,,‬و مٹ‪,,‬انے کے‬
‫حکم کے مخ‪,,‬الف ہے ‪ ،‬اس ک‪,,‬ا ج‪,,‬و عن‪,,‬وان رکھ‪,,‬ا ہے وہ ہے ‪ :‬علم‪,,‬اء مص‪,,‬لحت پ‪,,‬ر متف‪,,‬ق ہیں ‪ ،‬اور یہ کہ‬
‫تص‪,,‬ویر ح‪,,‬رام نہیں ہے ۔ اس باط‪,,‬ل عن‪,,‬وان ک‪,,‬و ق‪,,‬ائم ک‪,,‬رنے میں اہ‪,,‬ل جری‪,,‬دہ ک‪,,‬و بہت ب‪,,‬ڑی خط‪,,‬ا لگی‬
‫ہے ‪،‬کیونکہ‪ ,‬اس سے عوام یا خواص کالعوام کو یہ وہم ہو تا ہے کہ مصلحت کی وجہ سے تص‪,,‬ویر‪ ,‬لی‪,,‬نے‬
‫کے حالل ہو نے میں کوئی اختالف نہیں ہے ۔ اور یہ کتاب ہللا و سنت رسول ک‪,,‬و مض‪,,‬بوط‪ ,‬پک‪,,‬ڑنے والے‬
‫متقدمین و متأخرین علماء پر ایک بہتان ہے ؛کیونکہ وہ تو تص‪,,‬ویر س‪,,‬ے من‪,,‬ع ک‪,,‬رتے اور اس میں س‪,,‬ختی‬
‫کرتے ہیں‪،‬اور ان سہولت پسند لوگوں کا کوئی اعتبار نہیں جو فتوی دینے میں بغیر تثبت کے جل‪,‬د ب‪,‬از ی‬
‫ت مطہرہ میں مصلحت سے ی‪,,‬ا بغ‪,,‬یر مص‪,,‬لحت کس‪,,‬ی بھی وجہ س‪,,‬ے تص‪,,‬ویر ک‪,,‬ا‬ ‫کرتے ہیں ؛کیونکہ شریع ِ‬
‫حالل ہو نا وارد نہیں ہے ۔اور اگر ان مسائل میں سے کسی مس‪,,‬ئلہ میں جس میں ک‪,,‬وئی نص نہ ہ‪,,‬و ‪،‬س‪,,‬ات‬
‫علماء ایک قول پر اجماع کر لیں اور ان کی بات معقول بھی ہو تب بھی ان ک‪,,‬ا ق‪,,‬ول اجم‪,,‬اع نہیں ہے جس‬
‫کا ماننا الزم ہو ‪،‬بلکہ ان کے اور دیگ‪,‬ر علم‪,‬اء کے اق‪,‬وال ک‪,‬و دیکھ‪,‬ا ج‪,‬ائے گ‪,‬ا اور ان کی ب‪,‬ات قب‪,‬ول کی‬
‫موید ہو ۔(تحریم التصویر‪)۲ ,:‬‬‫جائے گی ‪،‬جن کا قول کتاب ہللا و سنت سے ٴ‬
‫‪                ‬دیکھیے کس قدر‪ ,‬صفائی کے ساتھ اس فتوی‪ ,‬ک‪,,‬و ش‪,,‬اذ اور مخ‪,,‬الف اح‪,,‬ادیث ق‪,,‬رار دی‪,,‬ا ہے اور‬
‫نقطہ نظر سے ٹکرانے واال قرار دی‪,,‬ا ہے ۔اس س‪,,‬ے معل‪,,‬وم ہ‪,,‬وا کہ حج‪,,‬از و مص‪,,‬ر کے‬ ‫ٴ‬ ‫جمہور علماء کے‬
‫ت تصویر‪ ,‬پر متفق ہیں ۔‬
‫جمہور علماء بھی حرم ِ‬
‫تصویر کے باب میں اختالف کی حیثیت‬
‫‪                ‬ہ‪,,‬اں بعض علم‪,,‬اء جن کی تع‪,,‬داد آٹے میں نم‪,,‬ک کے براب‪,,‬ر ہے‪ ،‬انھ‪,,‬وں نے ض‪,,‬رور عکس‪,,‬ی‬
‫تصویر‪ ,‬کے متعلق جواز کا فتوی دیا ہے ‪ ،‬مگر اس کے ب‪,,‬ارے میں غ‪,,‬ور طلب ب‪,,‬ات یہ ہے کہ اس مس‪,,‬ئلہ‬
‫میں اختالف کی حیثیت و نوعیت کیا ہے ؟‬
‫بنظر غائر مطالعہ سے یہ بات واضح طور پ‪,,‬ر س‪,,‬امنے آتی ہے کہ ہ‪,,‬ر اختالف ای‪,,‬ک‬‫ِ‬ ‫‪                ‬کیونکہ‬
‫ہی درجہ کا نہیں ہوتا ‪ ،‬اور اس کی وجہ سے مسئلہ میں تخفیف نہیں ہوج‪,,‬اتی‪ ، ,‬بلکہ اس میں بھی اختالف‬
‫کی نوعیت و حیثیت کا لحاظ رکھنا پ‪,,‬ڑے گ‪,,‬ا ‪،‬ورنہ غ‪,,‬ور کیج‪,,‬یے کہ ڈاڑھی من‪,,‬ڈانے کے مس‪,,‬ئلہ میں بھی‬
‫مصریوں کا اختالف ہے ‪،‬جمہور امت یہ کہتی ہے کہ ح‪,,‬رام ہے جبکہ مص‪,,‬ریوں نے اس ک‪,,‬و ج‪,,‬ائز ق‪,,‬رار‬
‫دیا ہے ‪ ،‬حتی کہ جامعة االزھر کے بعض مفتیوں نے بھی اس کو صرف سنت کہ‪,,‬تے ہ‪,,‬وئے من‪,,‬ڈانے ک‪,,‬و‬
‫جائز کہا ہے ۔ (دیکھو فتاوی االزھر ‪)۲/۱۶۶:‬‬
‫‪                ‬کیا اس کا کوئی اثر جمہور امت نے قبول کی‪,,‬ا ؟اورکی‪,,‬ا اس کی وجہ س‪,,‬ے ح‪,,‬رمت کے فت‪,,‬وے‬
‫میں کوئی گنجائش برتی گئی ؟کیا یہاں بھی یہ کہا جاسکے گ‪,,‬ا کہ ڈاڑھی من‪,,‬ڈانے کے مس‪,,‬ئلہ میں چ‪,,‬ونکہ‬
‫مصریوں کا اختالف ہے ‪،‬اس لیے اس میں بھی شدت نہ برتی جائے اور من‪,,‬ڈانے وال‪,,‬وں ک‪,,‬و گنج‪,,‬ائش دی‬
‫جائے‪ ،‬اور اگر امام لوگ بھی منڈائیں‪ ،‬تو ان پر بھی کوئی نکیر نہ کی جائے؟‬
‫‪                ‬اسی طرح ربا یعنی سود کی حرمت ایک متفقہ امر ہے مگ‪,,‬ر چن‪,,‬د برس‪,,‬وں س‪,,‬ے بینک‪,,‬وں کے‬
‫نظام کے تحت وصول ہو نے والے سود ک‪,,‬و بعض ل‪,,‬وگ ج‪,‬ائز کہ‪,,‬نے لگے ہیں اور ان ک‪,‬ا کہن‪,‬ا یہ ہے کہ‬
‫رسول ہللا ﷺ کے زمانے میں اور نزول قرآن کے وقت جو سود رائج تھا وہ ذاتی و شخصی ض‪,,‬روریات‬
‫پر لیے جانے والے قرضوں کی بنیاد پر لیا جاتا تھا اور یہ واقعی ایک ظلم ہے ‪،‬لہٰذا وہ ناجائز‪ ,‬ہے ‪،‬مگ‪,,‬ر‬
‫بینکوں کے اس دور میں قرضے ذاتی ضرورت کے بجائے تجارتی ضرورت کے ل‪,,‬یے ل‪,,‬یے ج‪,,‬اتے ہیں‬
‫ت سود کی وہ علت نہیں پائی جاتی جو اُس دور میں تھی ‪،‬لہٰذا یہ بینکوں واال سود ج‪,,‬ائز‬ ‫اور اس میں حرم ِ‬
‫ہے ۔ اور لکھنے والوں نے اس پر مضامین بھی لکھے اور کتابیں بھی لکھیں ‪،‬جیس‪,,‬ے ای‪,,‬ک ص‪,,‬احب نے‬
‫م‪,‬وثر‪ ,‬ماناج‪,‬ائے‬ ‫” کمر شیل انٹرس‪,,‬ٹ کی فقہی حی‪,,‬ثیت “ لکھی ہے ۔فرم‪,,‬ائیے کہ کی‪,,‬ا اس اختالف ک‪,,‬و بھی ٴ‬
‫گا ؟ اور اس کی وجہ سے سود کی ح‪,,‬رمت بھی ح‪,,‬دو ِد ج‪,,‬واز میں داخ‪,,‬ل س‪,,‬مجھی ج‪,,‬ائے گی اور اس میں‬
‫سختی کرنا فعل مکروہ اور غیر دانشمندانہ‪ ,‬کام ہو گا؟‬
‫‪                ‬ایک اور مسئلہ س‪,,‬نیے کہ چان‪,,‬د کے ثب‪,,‬وت ک‪,,‬ا م‪,,‬دار ش‪,,‬ریعت نے رویت پ‪,,‬ر رکھ‪,,‬ا ہے ‪،‬نہ کہ‬
‫فلکیاتی حسابات پر ‪ ،‬جمہور امت نے اسی کو اختیار کیا ہے ‪،‬اور اس س‪,,‬ے ہٹ ک‪,,‬ر ای‪,,‬ک ط‪,,‬ائفہ قلیلہ نے‬
‫چاند کے ثبوت کے لیے فلکیاتی حسابات کو بھی معیار مانا ہے مگر اس کو علماء نے مذہب باطل قرارد‬
‫یا ہے ۔‬
‫‪                ‬اسی ط‪,‬رح گان‪,‬ا بجان‪,‬ا مزام‪,‬یر کے س‪,‬اتھ ح‪,‬رام ہے ‪،‬مگ‪,‬ر اس میں عالمہ ابن ح‪,‬زم ظ‪,‬اہری‪، ,‬‬
‫عالمہ محمد بن طاہر‪ ,‬المقدسی اور عالمہ ابو الفرج اصفہانی نے اختالف کی‪,,‬ا ہے اور اس ک‪,,‬و ج‪,,‬ائز ق‪,,‬رار‪,‬‬
‫دیا ہے ۔اور بالخصوص آخری دو حضرات نے تو اس سلسلہ میں مواد فراہم‪ ,‬کرنے کی ب‪,,‬ڑی کوش‪,,‬ش کی‬
‫ہے حتی کہ اب‪,‬و الف‪,‬رج نے اپ‪,,‬نی کت‪,,‬اب ” االغ‪,,‬انی“ میں ش‪,,‬رابیوں کب‪,,‬ابیوں ‪ ،‬گوی‪,,‬وں اور موس‪,,‬یقاروں‪ ,‬کے‬
‫‪,‬ور‬
‫حاالت بھی خوب جمع کردئے ہیں مگر کی‪,,‬ا اس اختالف ک‪,,‬و کس‪,,‬ی بھی معت‪,,‬بر ع‪,,‬الم و مف‪,,‬تی نے در خ‪ِ ,‬‬
‫اعتناء سمجھا اور گانے بجانے کی حرمت کو خفیف و معمولی قرار دیا ؟‬
‫‪                ‬اسی طرح ایک مجلس کی تین طالقیں ایک ہوتی ہیں یا تین؟ اس میں جمہ‪,,‬ور امت ک‪,,‬ا موق ‪,‬ف‪,‬‬
‫یہ ہے کہ تین طالق تین ہی ہو تی ہیں خواہ مجلس ایک ہو یا الگ الگ ۔ مگرعالمہ ابن تیمیہ نے اس میں‬
‫بعض حضرات ص‪,,‬حابہ و ائمہ کے اختالف ک‪,,‬ا ذک‪,,‬ر کی‪,,‬ا ہے ‪،‬اور امت کے علم‪,,‬اء و ع‪,,‬وام میں س‪,,‬ے اہ‪,,‬ل‬
‫حدیث و اہل ظواہر نے اسی کو اختیار‪ ,‬کی‪,,‬ا ہے اوروہ ای‪,,‬ک مجلس کی تین طالق‪,,‬وں ک‪,,‬و ای‪,,‬ک ق‪,,‬رار دی‪,,‬تے‬
‫ہیں ‪،‬مگر جمہور امت نے اس کو قبول نہیں کیا ‪ ،‬بلکہ ہمیشہ فتوی‪ ,‬اسی پر دیا گیا کہ ای‪,,‬ک مجلس کی تین‬
‫طالقیں تین ہی ہو تی ہیں ۔دیکھئے اختالف ہو نے کے باوجد اس کا کوئی اثر ح‪,‬رمت کے فت‪,‬وے پ‪,‬ر نہیں‬
‫پڑا ۔ کیا کسی معتبر عالم و مفتی نے اس اختالف کے پیش نظر ایک مجلس کی تین طالق میں ایک ق‪,,‬رار‬
‫دینے کی گنجائش دی؟‬
‫‪                ‬اس کی ایک اور مث‪,,‬ال لیج‪,,‬یے کہ اس‪,,‬الف میں س‪,,‬ے بعض ب‪,,‬ڑی اہم شخص‪,,‬یات س‪,,‬ے متعہ ک‪,,‬ا‬
‫جواز نقل کیا گیا ہے‪ ،‬جس کو جمہور امت نے قبول نہیں کیا ‪ ،‬اور بعد کے ادوار میں ت‪,,‬و اس کی ح‪,,‬رمت‬
‫پر اجماع ہی ہو گیا ۔(دیکھو فتح الباری‪)۹/۱۷۳ :‬‬
‫‪                ‬اسی طرح بعض ب‪,,‬ڑے ب‪,,‬ڑے ص‪,,‬حابہ و ائمہ س‪,,‬ے ج‪,,‬واز وطی فی ال‪,,‬دبر ک‪,,‬ا ق‪,,‬ول بھی منق‪,,‬ول‬
‫ہے ‪،‬اگرچہ کہ بعض کی جانب اس کا انتساب صحیح طور پر ثابت نہیں؛لیکن بعض حضرات جیسے ابن‬
‫عمر‪ ‬سے اس کا بروایت صحیحہ ثابت ہونا‪ ،‬ابن حج‪,,‬ر نے فتح الب‪,,‬اری میں بی‪,,‬ان کی‪,,‬ا ہے؛لیکن حض‪,,‬رت‬
‫ابن عباس نے ان کی بات کو وہم قرار‪ ,‬دیا ہے ۔اسی طرح بعض نے ام‪,,‬ام مالک‪ ‬س‪,,‬ے اس ک‪,,‬ا ث‪,,‬ابت ہون‪,,‬ا‬
‫لکھ‪,,‬ا ہے ‪،‬اگ‪,,‬رچہ کہ ان کے اص‪,,‬حاب اس ک‪,,‬ا انک‪,,‬ار ک‪,,‬رتے ہیں ۔(دیکھ‪,,‬و تفس‪,,‬یر القرط‪,,‬بی‪ ،۳/۹۳ :‬ال‪,,‬در‬
‫المنثور‪ ،۶۱۲-۲/۶۱۰ :‬فتح الباری‪ ،۸/۱۹۰ :‬عمدة القاری‪)۲۶/۴۶۲ :‬‬
‫‪                ‬اس سے معلوم ہوا کہ ہر اختالف ای‪,,‬ک درجہ ک‪,,‬ا نہیں ‪ ،‬کہ اس ک‪,,‬و اہمیت دی ج‪,,‬ائے اور اس‬
‫کی وجہ سے مسئلہ میں خفت و ہلکا پن خیال کی‪,,‬ا ج‪,,‬ائے؛لہٰ‪,,‬ذا ج‪,,‬و حض‪,,‬رات اس ک‪,,‬و ای‪,‬ک اختالفی‪ ,‬مس‪,,‬ئلہ‬
‫قرار دیکر اس کی حرمت کو ہلکا سمجھتے یا سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں‪ ،‬وہ ای‪,,‬ک س‪,,‬عی الحاص‪,,‬ل‬
‫میں لگے ہوئے ہیں۔‬
‫اختالف سے فائدہ اٹھانے والوں‪ ,‬کے لیے قابل غور بات‬
‫‪                ‬لہٰ ذایہاں ان حضرات کے لیے جو اختالف سے فائدہ اٹھانے کی کوش‪,,‬ش ک‪,,‬رتے ہیں دو ب‪,,‬اتیں‬
‫قابل غور ہیں ‪:‬‬
‫‪                ‬ایک تو یہ کہ تصویر‪ ,‬کو جائز کہنے وال‪,,‬وں نے کس‪,,‬ی مض‪,,‬بوط‪ ,‬دلی‪,,‬ل کی بنی‪,,‬اد پ‪,,‬ر ج‪,,‬واز ک‪,,‬و‬
‫اختیار نہیں کیا ہے‪ ،‬بلکہ بعض احادیث کے سمجھنے میں غلط فہمی کا شکار ہو کر ج‪,,‬واز کی ب‪,,‬ات کہی‬
‫ہے۔ اور وہ غلط فہمی کیا ہے؟ اس کا ذکر اس رسالہ میں علماء کے فتاوی سے معلوم ہو ج‪,,‬ائے گی؛لہٰ‪,,‬ذا‬
‫کسی غلط فہمی کی بنیاد پر اختالف ک‪,,‬و دلی‪,,‬ل کی بنی‪,,‬اد پ‪,,‬ر اختالف کے درجہ میں س‪,,‬مجھنا‪ ,‬ای‪,,‬ک اص‪,,‬ولی‪,‬‬
‫غلطی ہے۔اس اختالف کی مثال ڈاڑھی منڈانے میں اختالف سے دی جا سکتی ‪،‬جس کو محض ایک غل‪,,‬ط‬
‫فہمی کہا جا سکتا ہے؛لہٰ ذا ان مجوزین کا قول ایک شاذ قول کی حیثیت رکھتا ہے‪ ،‬جس کو معمول بہ بنانا‬
‫اور اس پر عمل در آمد کرنا کیس‪,,‬ے ج‪,,‬ائز ہوس‪,,‬کتا ہے؟ بالخص‪,,‬وص‪ ,‬اس ص‪,,‬ورت میں جب کہ ج‪,,‬واز کے‬
‫دالئل کے ضعف و کمزوری‪ ,‬کو حضرات علماء نے واضح کر کے حقیقت س‪,,‬ے پ‪,,‬ردہ اٹھ‪,,‬ا دی‪,,‬ا اور ج‪,,‬ائز‬
‫قرار دینے والوں کی غلط فہمی کو دور کردیا ہے ۔‬
‫ت تص‪,,‬ویر کے ق‪,,‬ائلین ان‬ ‫جواز تصویر‪ ,‬کے قائلین اور ح‪,,‬رم ِ‬‫ِ‬ ‫‪                ‬دوسری‪ ,‬بات قابل غور یہ ہے کہ‬
‫دونوں کے علمی و عملی مق‪,,‬ام و حی‪,,‬ثیت اوران کے تفقہ و دی‪,,‬انت کے معی‪,,‬ار میں مح‪,,‬اکمہ کی‪,,‬ا ج‪,,‬ائے ت‪,,‬و‬
‫حرمت کے قائلین کے لحاظ سے جواز کے قائلین کا کوئی خاص مقام و حیثیت نہیں معل‪,,‬وم ہ‪,,‬و تی ۔ ای‪,,‬ک‬
‫جانب حرمت تصویر کے قائلین میں اپنے زمانے کے آسما ِن علم و عم‪,,‬ل کے آفت‪,,‬اب و مہت‪,,‬اب فقہ‪,,‬اء نظ‪,,‬ر‬
‫آئیں گے ‪،‬جن کے علم و عمل ‪ ،‬تقوی وطہارت ‪،‬تفقہ و بصیرت ‪ ،‬ثق‪,,‬اہت و دی‪,,‬انت اہ‪,,‬ل اس‪,,‬الم کے نزدی‪,,‬ک‬
‫مسلمات میں سے ہیں‪،‬تو دوسری جانب ج‪,‬واز کے ق‪,‬ائلین وہ حض‪,‬رات ہیں‪ ،‬جن میں س‪,‬ے بیش‪,‬تر‪ ,‬ک‪,‬و ع‪,‬ام‬
‫طور پر جانا پہچانا بھی نہیں جاتا اور اگر جانا پہچانا جاتا ہو تو ان کا مقام و درجہ فتوی‪ ,‬و فقہ کے بارے‬
‫میں وہ نہیں جو پہلے طبقے کے لوگوں کو حاصل ہے؛ لہٰ ذا ان دونوں میں سے کیا ان کا فتوی‪ ,‬قابل عم‪,,‬ل‬
‫و الئق توجہ ہونا چاہیے جن کی شان تفقہ و افتاء اور ‪،‬جن کی ثقاہت و عدالت مسلم ہے یا ان کا جن کو یہ‬
‫درجہ حاصل ہی نہیں ؟ اس پر غور کیا جائے ۔‬
‫‪                ‬ایک اور بات قابل توجہ یہ ہے کہ اس مس‪,,‬ئلہ میں اگ‪,,‬رچہ اختالف ہ‪,,‬وا ہے ؛ مگ‪,,‬ر فت‪,,‬وی کے‬
‫لیے علم‪,,‬اء نے ح‪,‬رمت ہی کے ق‪,,‬ول ک‪,,‬و ت‪,‬رجیح دی ہے ‪،‬ہندوس‪,‬تان‪ ,‬و پاکس‪,,‬تان کے ب‪,,‬ارے میں ت‪,‬و س‪,,‬بھی‬
‫جانتے ہیں کہ یہاں کے علماء نے ہمیشہ اس کے عدم جواز ہی ک‪,,‬ا فت‪,,‬وی دی‪,,‬ا ہے ‪،‬اور اس‪,,‬ی ط‪,,‬رح ع‪,,‬رب‬
‫دنیا میں بھی یہی صورت‪ ,‬حال ہے ‪،‬سعودی عرب کے ایک عالم شیخ ولی‪,,‬د بن راش‪,,‬د الس‪,,‬عیدان نے ” حکم‬
‫التصویر‪ ,‬الفوتوغرافی“ میں لکھا ہے کہ عکسی تصویر کے بارے میں اختالف ہے ‪ ،‬بعض نے اس س‪,,‬ے‬
‫منع کیا ہے اور یہ حضرات اکثر ہیں اور اسی قول پر سعودی عرب کے اندر فتوی ہے ۔ (حکم التص‪,,‬ویر‬
‫الفوتوغرافی‪)۱۱:‬‬
‫‪                ‬جب فتوی حرمت پر ہے ت‪,‬و اس س‪,‬ے اع‪,‬راض کرن‪,‬ا اور اس کے خالف ک‪,‬و ت‪,‬رجیح دین‪,‬ا چہ‬
‫معنے دارد ؟ یہ بات قاب ِل غور ہے ؛کیونکہ بال وجہ مفتی بہ قول ک‪,‬و چھ‪,‬وڑ ک‪,‬ر ش‪,‬اذ ق‪,‬ول پ‪,‬ر عم‪,‬ل کرن‪,‬ا‬
‫صحیح نہیں ہے ۔‬
‫‪,‬ور امت ہے اور اس کے اس‪,,‬اطین و ائمہ‬ ‫‪                ‬الغرض تصویر‪ ,‬کے مسئلہ میں جب ایک جانب جمہ‪ِ ,‬‬
‫ہیں اور وہ سب کے سب تقریبا ً اس کی حرمت پر متفق ہیں ‪،‬اور جمہ‪,,‬ور کے نزدی‪,,‬ک مج‪,,‬وزین کی رائے‬
‫غلط فہمی کا نتیجہ اور بے دلیل ہے ‪،‬اور پھر جمہور نے ان کی غلط فہمیوں کا ازالہ کردی‪,‬ا اور ح‪,‬ق ک‪,‬و‬
‫دالئل کی روشنی‪ ,‬میں واضح کردیا ہے ‪،‬تو ان کے قول س‪,‬ے گری‪,,‬ز کرن‪,‬ا اور ای‪,‬ک چھ‪,,‬وٹی س‪,,‬ی جم‪,,‬اعت‬
‫جمہور امت ک‪,,‬ا موق‪,‬ف‪ ,‬اس الئ‪,,‬ق نہیں کہ اس ک‪,,‬و ت‪,,‬رجیح‬‫ِ‬ ‫کے قول ہی کو ترجیح دینا کس بنیاد پر ہے؟ کیا‬
‫دی جائے ؟بلکہ جمہور علماء عرب و عجم کی بات کو قبول‪ ,‬نہ کر کے ایک شاذ قول کا اس ق‪,,‬در اح‪,,‬ترام‬
‫ط‪,‬رز عم‪,,‬ل کس‪,‬ی ص‪,‬الح‬ ‫ِ‬ ‫کرنا کہ گویا وہی صحیح ہے اور حرمت کا قول گوی‪,,‬ا باط‪,‬ل و غل‪,‬ط ہے ‪،‬کی‪,,‬ا یہ‬
‫معاشرے و نیک ذہن کی پیداوار ہے یا کسی بیمار ذہنیت کا نتیجہ ؟ امام حدیث عبد الرحمن بن مھ‪,,‬دی نے‬
‫اسی لیے فرمایا‪ ,‬کہ‪”:‬الَ یَ ُکونُ اِ َماالً في ْال ِع ْل ِم َم ْن َأخَ َذ بِال َّشا ِذ ِمنَ ْال ِع ْل ِم“ (جو شخص علم‪,,‬اء کے ش‪,,‬اذ ق‪,,‬ول ک‪,,‬و‬
‫لیتا ہے وہ علم کی دنیا میں امام نہیں ہو سکتا ) (جامع بیان العلم‪)۲/۴۸ :‬‬
‫مسئلہ تصویر میں جمہور علما کی شدت‬
‫ٴ‬
‫قابل لحاظ ہے کہ اگر مسئلہ ٴ تصویر ای‪,,‬ک اختالفی‪ ,‬مس‪,,‬ئلہ ہ‪,,‬و نے کی‬ ‫‪                ‬پھر یہاں ایک اور بات ِ‬
‫وجہ سے اس میں شدت بلکہ اس پر نکیر کوئی غلط بات ہو تی ت‪,,‬و جمہ‪,,‬ور علم‪,,‬اء امت نے اس پ‪,,‬ر کی‪,,‬وں‬
‫نکیر کی اور پوری شدت سے کی ؟ چنانچہ علماء عرب و عجم نے تصویر کو جائز قرار دینے والوں پر‬
‫جس قدر شدت برتی ہے ‪ ،‬اس سے بھی یہ بات واضح ہو تی ہے کہ اس مسئلہ میں اختالف کی وہ حیثیت‬
‫ت اکابر کا یہ ش‪,,‬دت برتن‪,‬ا‪ ,‬ج‪,,‬ائز نہ ہ‪,,‬و ت‪,,‬ا ؛کی‪,,‬ونکہ‬
‫نہیں جو مسائل اختالفیہ کو حاصل ہے ورنہ ان حضرا ِ‬
‫علماء نے تصریح کی ہے کہ مسائ ِل اختالفیہ میں ایک دوسرے پر اعتراض جائز نہیں اور یہاں ص‪,,‬ورت‬
‫حال یہ ہے کہ جواز کے قول کی سختی سے تردید کی گئی ہے ۔ جس کے نمونے اس رسالہ میں موجود‪,‬‬
‫اکابرین کے فتاوی‪ ,‬میں دیکھے جا سکتے ہیں۔‬
‫‪                ‬مثال عالمہ شیخ ابن باز‪ ‬نے بعض فتاوی میں لکھا ہے کہ‪ ” :‬ہم نے جواب میں جو اح‪,,‬ادیث‬
‫اہل علم کا کالم نقل کیا ہے‪ ،‬اس سے حق کے متالشی پ‪,‬ر یہ ب‪,,‬ات واض‪,,‬ح ہ‪,,‬و ج‪,,‬اتی ہے کہ ل‪,‬وگ ج‪,‬و‬ ‫اور ِ‬
‫کتابوں ‪،‬مجلوں ‪،‬رسالوں اورجریدوں میں جان‪,,‬دار کی تص‪,,‬ویر‪ ,‬کے سلس‪,,‬لہ میں وس‪,,‬عت ب‪,,‬رت رہے ہیں‪ ،‬یہ‬
‫واضح غلطی اور کھال ہوا گناہ ہے ۔“ (فتاوی شیخ ابن باز‪)۱۸۹-۴/۱۷۹ :‬‬
‫‪                ‬مفتی عالمہ شیخ محمد بن ابراہیم آل الشیخ نے لکھا ہے کہ‪:‬‬
‫‪ ”                ‬جس نے یہ خیال کیا کہ شمس‪,‬ی تص‪,‬ویر‪ ,‬من‪,‬ع کے حکم میں داخ‪,‬ل نہیں اور یہ کہ من‪,‬ع ہون‪,‬ا‬
‫مجسم صورت اور سایہ دار چیزوں کی تصویر‪ ,‬کے ساتھ خاص ہے‪ ،‬تو اس کا خیال باط‪,,‬ل ہے۔“ (فت‪,,‬اوی‬
‫و رسائل شیخ محمدبن ابراہیم ‪)۱/۱۳۴:‬‬
‫‪                ‬اللجنة الدائمة کے ایک فتوی‪ ,‬میں لکھا ہے کہ ‪:‬‬
‫‪”                ‬انسان و حیوان وغیرہ جاندار چیزوں کی شمسی وعکسی تصویر‪ ,‬لینا اور ان کو باقی رکھن‪,,‬ا‬
‫حرام ہے؛ بلکہ کبیرہ گناہوں میں سے ہے ۔“(فتاوی اللجنة الدائمة ‪،۱/۴۵۹ :‬رقم الفتوی‪)۱۹۷۸:‬‬
‫‪                ‬اورعالمہ شیخ عبد الرحمن بن فریان ”شمسی تص‪,,‬ویر کی ح‪,,‬رمت“ پ‪,,‬ر تفص‪,,‬یلی کالم ک‪,,‬رتے‬
‫ہوئے لکھتے ہیں کہ ‪:‬‬
‫وبرہ‪3‬ان‪ ،‬ب‪3‬ل بمج‪3‬ر ِد ال‪3‬رأي‬
‫ٍ‬ ‫ِی‪3‬ل‬ ‫الکالم َو َقا َم ی َُحلِّ ُل وی َُح‪ 3‬رِّ ُم‪ِ ،‬ب َغی ِ‬
‫ْ‪3‬ر دَ ل ٍ‬ ‫ِ‬ ‫”والَ َت ْغ َترِّ اَیُّہا ْالمُسْ لِ ُم ِب َمنْ َت َن َّط َع ِب َمعْ س ِ‬
‫ُول‬ ‫‪َ           ‬‬
‫ہّٰللا‬ ‫ِّ‬
‫َ‬
‫صا ِبما لہ‪ ‬أجسا ٌم‪ ،‬سبحان ! مِنْ‬ ‫َ‬ ‫ْ‬
‫وج َع َل ال َمن َع خا ً‬ ‫الض ْوِئیَّة َ‬ ‫ض ُمت َعل َم ِة ہذہ األزمان‪ ،‬وأجاز الص َُّو َر َ‬ ‫َ‬ ‫یان‪ ،‬مِنْ َبعْ ِ‬‫والہ َذ ِ‬
‫قرآن“․‬
‫ٍ‬ ‫التفریق َولَ ْم َی ِجیْ الَ فِي ُس َّن ٍة َوالَ‬ ‫ُ‬ ‫أین ہذا‬
‫َ‬
‫(اے مسلم ! تو اس زمانے کے بعض علم کی جانب منسوب لوگوں سے دھوکہ نہ کھانا جو چک‪,,‬نی چ‪,,‬پڑی‬
‫باتیں کرتے اور بال دلیل و برہان ‪ ،‬محض اپنی رائے اور بکواس سے حالل کو حرام اور حرام ک‪,,‬و حالل‬
‫کر تے ہیں ‪ ،‬اور عکسی تصویر‪ ,‬کو جائز قرار‪ ,‬دیتے اور منع کو صرف ان تصویروں سے خاص ک‪,,‬رتے‬
‫ہیں جو مجسمہ کی شکل میں ہوں ۔ سبحان ہللا ! یہ فرق کہاں سے آیا ؟ جب کہ نہ تو سنت میں یہ فرق‪ ,‬آی‪,,‬ا‬
‫اور نہ قرآن میں آیا ؟ )‬
‫‪                ‬پھر آگے چل کر لکھتے ہیں کہ‪:‬‬
‫ُوت َوالَ یُغترّ ِب َف ْش ِوہ‪َ  ‬‬
‫وروا ِجہ‪َ  ‬ف‪ 3‬اِنَّ المُنکَ‪َ 3‬‬
‫‪3‬ر ہ‪33‬و‬ ‫‪َ ”          ‬ف ْی ِجبُ َعلی المُسْ لِ ِمی َْن ا ْنکَا ُر َہذا ال ُم ْنک َِر َوالَ َیج ُْو ُز َل ُہ ْم ال ُّسک ُ‬
‫محبة البعض وارتکابُہ“․‪( ‬الدر السنیة‪)۱۵/۲۳۴ :‬‬ ‫ُ‬ ‫بحالہ‪ ‬منکَ ٌر کما ہو في ال َشرْ ِع وال ُی ِحلّلہ کثر ُتہ و رواجُہ وال‬
‫‪ ‬‬
‫(ل ٰہذا مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اس منکر پر انکار و نکیر کریں اور اس پران کی خاموشی جائز نہیں‬
‫ہے‪ ،‬اور تصویر‪ ,‬کے رواج اور عام ہو جانے سے دھوکہ‪ ,‬نہ کھایا ج‪,,‬ائے؛کی‪,,‬ونکہ منک‪,,‬ر ت‪,,‬و ہ‪,,‬ر ح‪,,‬ال میں‬
‫منکر ہے ‪،‬اس کا عام ہو جانا اور رواج پاجانا اس کو حالل نہیں کر دیتا اور نہ بعض لوگوں کی اس سے‬
‫محبت اور اس کا مرتکب ہو نا اس کو جائز کر تا ہے)‬
‫قابل غ‪,‬ور یہ ہے کہ اگ‪,‬ر تص‪,‬ویر کے مس‪,‬ئلہ میں اختالف اس درجہ ک‪,‬ا ہوت‪,‬ا ج‪,‬و مختل‪,‬ف فیہ‬ ‫‪ِ                 ‬‬
‫مسائل میں ہوتاہے تو کیا اس قدر‪ ,‬شدت کا جواز تھا ‪ ،‬جو ان حضرات نے اختیار کیا ہے ‪ ،‬اور تصویر کو‬
‫حرام؛ بلکہ گناہ کبیرہ قرار‪ ,‬دیا ہے اور جواز کے قائلین کو کھلی غلطی و واضح گناہ پر ٹھیرایا ہے ؟اور‬
‫اہل اسالم کو اس پر انکار و نکیر کرنا ضروری ق‪,,‬رار دی‪,,‬ا ہے اور خاموش‪,,‬ی ک‪,,‬و ناج‪,,‬ائز کہ‪,,‬ا ہے اور اس‬
‫کے عام ہو جانے اور رواج پا جانے کو بے اثر ٹھیرا یا ہے ؟ نہیں ‪ ،‬اس س‪,,‬ے معل‪,,‬وم ہ‪,,‬وا کہ اس اختالف‬
‫قابل لحاظ ہی نہیں مانتے تھے ۔‬
‫کو وہ حضرات کوئی‪ِ ,‬‬
‫‪                ‬اسی طرح ہند و پاک کے علماء کا بھی رویہ رہا ہے ‪،‬ایک دو حض‪,,‬رات کے اس سلس‪,,‬لہ میں‬
‫فتاوی نقل کردینا‪ ,‬اس جگہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ فقیہ العصر‪ ,‬حضرت موالنا‪ ,‬مف‪,,‬تی رش‪,,‬ید احم‪,,‬د ل‪,,‬دھیانوی‬
‫‪ ‬نے ایک اسکول کے جلسہ (جس میں تصویر لی جاتی ہے )کے بارے میں سوال پر لکھا ہے کہ‪:‬‬
‫دوران مجلس اس قس‪,,‬م‬‫ِ‬ ‫‪”                ‬یہ معص‪,,‬یت کی مجلس ہے‪ ،‬جس میں ش‪,,‬رکت قطعاًج‪,,‬ائز‪ ,‬نہیں؛ بلکہ‬
‫کی حرکت شروع ہو تب بھی روکنے کی قدرت نہ ہونے والے ہر ش‪,,‬خص پ‪,,‬ر اٹھ جان‪,,‬ا واجب ہے “‪ ،‬ن‪,,‬یز‬
‫لکھا کہ تصویر سازی‪ ,‬شریعت کی رو سے ای‪,,‬ک کب‪,,‬یرہ گن‪,,‬اہ ہے ۔ ن‪,,‬یز فرم‪,,‬اتے ہیں کہ‪ :‬انتہ‪,,‬ائی قل‪,,‬ق کے‬
‫ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ تصویر کی لعنت عوام سے تجاوز‪ ,‬کرکے خواص؛ بلکہ علماء ت‪,,‬ک پھی‪,,‬ل گ‪,,‬ئی ہے‬
‫طرز عمل ک‪,,‬و دیکھ ک‪,,‬ر‬ ‫ِ‬ ‫جس کا افسوسناک نتیجہ سامنے آرہا ہے کہ بہت سے لوگ ان حضرات کے اس‬
‫اس قطعی حرام کو حالل باور کرنے لگے۔ (احسن الفتاوی‪)۴۱۸،۴۳۴ ،۸/۴۱۷ :‬‬
‫‪                ‬پاکستان میں ایک جگہ ایک مسجد میں رمضان میں ختم قرآن کے م‪,,‬وقعہ پرجلس‪,,‬ہ ہ‪,,‬وا ‪ ،‬اس‬
‫میں ایک وہیں کے مدرس صاحب نے جلسہ کی تصاویر لیں ‪،‬لوگوں کے منع ک‪,,‬رنے پ‪,,‬ر اس نے بتای‪,,‬ا کہ‬
‫یہ ریل امام صاحب نے بھروائی‪ ,‬ہے ‪ ،‬اور ان ہی کی اجازت س‪,,‬ے تص‪,,‬ویر‪ ,‬لے رہ‪,,‬ا ہ‪,,‬وں ‪ ،‬اور ایس‪,,‬ا س‪,,‬ب‬
‫جگہ ہوتا ہے ‪ ،‬الغرض اس نے ضد میں تصاویر‪ ,‬کھینچیں اور خود ان امام صاحب کے مائک پر آنے پ‪,,‬ر‬
‫ان کی بھی تصاویر لیں ‪ ،‬ااس واقعہ کا ذکر کر کے کسی نے حضرت موالنا‪ ,‬محمد یوسف‪ ,‬لدھیانوی س‪,,‬ے‬
‫سوال کیا تو اس کے جواب میں حضرت نے لکھا ہے کہ ‪:‬‬
‫”تصویریں بنانا خصوصا ً مسجد کو اس گن‪,,‬دگی کے س‪,,‬اتھ مل‪,,‬وث کرن‪,,‬ا ح‪,,‬رام اور س‪,,‬خت گن‪,,‬اہ ہے۔ اگ‪,,‬ر یہ‬
‫حضرات اس سے عالنیہ توبہ ک‪,,‬ا اعالن ک‪,,‬ریں اور اپ‪,,‬نی غلطی ک‪,,‬ا اق‪,,‬رار ک‪,,‬ر کے ہللا تع‪,,‬الی س‪,,‬ے مع‪,,‬افی‪,‬‬
‫مانگیں تو ٹھیک ہے ‪،‬ورنہ ان حافظ‪ ,‬صاحب کو امامت سے اور تدریس سے ال‪,‬گ ک‪,‬ر دی‪,‬ا ج‪,‬ائے ۔اور ان‬
‫کے پیچھے نماز ناجائز اور مکرو ِہ تحریمی ہے“ (آپ کے مسائل اور ان کاحل ‪)۷/۶۱ :‬‬
‫‪                ‬اسی طرح علماء و بزرگان کی آئے دن اخبارات میں ش‪,,‬ائع ہ‪,,‬و نے والی تص‪,,‬اویر‪ ,‬کے ب‪,,‬ارے‬
‫میں س‪,,‬وال ک‪,,‬ا ج‪,,‬واب دی‪,,‬تے ہ‪,,‬وئے لکھ‪,,‬تے ہیں کہ‪ :‬تص‪,,‬ویر بنان‪,,‬ا اور بنوان‪,,‬ا گن‪,,‬اہ ہے؛ لیکن اگ‪,,‬ر ق‪,,‬انونی‪,‬‬
‫مجب‪,‬وری کی وجہ س‪,,‬ے ایس‪,‬ا کرن‪,,‬ا پ‪,‬ڑے ت‪,,‬و امی‪,,‬د ہے کہ مواخ‪,‬ذہ نہ ہوگ‪,,‬ا۔ ب‪,‬اقی بزرگ‪,,‬ان دین نے اول ت‪,,‬و‬
‫تصویریں اپنی خوشی سے بنوائی‪ ,‬نہیں‪ ،‬اور اگر کسی نے بنوائی‪ ,‬ہوں تو کسی کا عم‪,‬ل حجت نہیں ‪،‬حجت‬
‫خدا و رسول ﷺ کا ارشاد ہے ۔ (آپ کے مسائل‪)۷/۶۲ :‬‬
‫‪                ‬ایک اور سوال کا ج‪,,‬واب دی‪,,‬تے ہ‪,,‬وئے فرم‪,,‬اتے ہیں کہ ‪ :‬فلم اور تص‪,,‬ویر آنحض‪,,‬رت ﷺ کے‬
‫ارشاد سے حرام ہے ‪ ،‬اور ان کو بنانے والے ملعون ہیں ۔ (آپ کے مسائل‪)۷/۶۷:‬‬
‫‪                 ‬پاکستان کے وزی‪,‬ر‪ ,‬خ‪,,‬ارجہ س‪,,‬ردار آص‪,,‬ف احم‪,,‬د نے ای‪,,‬ک بی‪,,‬ان میں کہ‪,,‬ا تھ‪,,‬ا کہ‪ :‬اس‪,,‬الم میں‬
‫رقص وموسیقی اور تص‪,,‬ویر س‪,,‬ازی پ‪,,‬ر ک‪,,‬وئی پابن‪,,‬دی‪ ,‬نہیں ہے ۔ اس ک‪,,‬ا رد ک‪,,‬رتے ہ‪,,‬وئے آپ نے اوالً ان‬
‫امور کے بارے میں احادیث نقل کیے ہیں پھر لکھا ہے کہ ‪ :‬آنحضرت ﷺ کے ارشادات کے بع‪,‬د س‪,‬ردار‬
‫وخالف واقعہ ہے اور ان‬ ‫ِ‬ ‫آصف احمد کا یہ کہنا کہ اسالم میں ان چیزوں پر کوئی‪ ,‬پابندی نہیں ‪،‬قطعا ً غل‪,,‬ط‬
‫کے اس فتوی کا منشأ یا تو ناقص مطالعہ ہے یا خاکم ب‪,,‬دہن ص‪,,‬احب ش‪,,‬ریعت ﷺ س‪,,‬ے اختالف ہے ۔ پہلی‬
‫کفر خالص ۔(آپ کے مسائل‪)۷/۷۶:‬‬ ‫وجہ جہل مرکب اور دوسری‪ ,‬وجہ ِ‬
‫‪                ‬علماء کی تصاویر‪ ,‬اور ان کا ٹی وی پر آنا عوام ک‪,,‬و ی‪,‬ا ت‪,,‬و بے چین کرت‪,,‬ا ہے ی‪,‬ا یہ کہ وہ اس‬
‫سے اس کے جواز پر استدالل کرتے ہیں ‪ ،‬ایک صاحب نے آپ سے جب اس سلسلہ میں علماء کے فع‪,,‬ل‬
‫کا حوالہ دیا تو جواب لکھا کہ ‪:‬‬
‫”یہ اصول ذہن میں رکھیے کہ کہ گناہ ہر حال میں گناہ ہے ‪،‬خواہ س‪,,‬اری دنی‪,,‬ا اس میں مل‪,,‬وث ہ‪,,‬و ج‪,,‬ائے ۔‬
‫دوسرا اصول یہ بھی ملحوظ‪ ,‬رکھیے کہ جب کوئی برائی عام ہوجائے تو اگرچہ اس کی نحوست بھی عام‬
‫ہو گی ؛مگر آدمی مکلف اپنے فعل کا ہے ۔ پہلے اصول کے مطابق‪ ,‬علماء کا ٹی وی پر آنا اس کے جواز‬
‫امام حرم کا تراویح پڑھانا ہی اس کے جواز کی دلیل ہے ‪،‬اگر طبیب کسی بیم‪,,‬اری میں‬ ‫کی دلیل نہیں ‪ ،‬نہ ِ‬
‫مبتال ہوجائیں تو بیماری بیماری‪ ,‬ہی رہے گی ‪ ،‬اس کو صحت ک‪,,‬ا ن‪,,‬ام نہیں دی‪,,‬ا ج‪,,‬ا س‪,,‬کتا۔(آپ کے مس‪,,‬ائل‪:‬‬
‫‪)۷/۸۱‬‬
‫‪                ‬ان فتاوی پر غور کیجیے کہ کیا ایک اختالفی مسئلہ پ‪,,‬ر کس‪,,‬ی ک‪,,‬و ملع‪,,‬ون کہن‪,,‬ا ‪،‬اور اس ک‪,,‬ام‬
‫کے ارتک‪,,‬اب پ‪,,‬ر ام‪,,‬امت س‪,,‬ے ہٹ‪,,‬انے کی تج‪,,‬ویز رکھن‪,‬ا‪ ,‬بلکہ اس ک‪,,‬ا فت‪,,‬وی‪ ,‬ص‪,,‬ادر کرن‪,,‬ا ص‪,,‬حیح ہ‪,,‬و س‪,,‬کتا‬
‫ہے ‪،‬اگر نہیں اور یقینا نہیں تو یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ اس مسئلہ کی وہ نوعیت نہیں ج‪,,‬و اختالفی مس‪,,‬ائل‬
‫کی ہو تی ہے؛بلکہ ان حضرات علماء کے نزدیک اس مسئلہ میں اختالف غل‪,‬ط فہمی ک‪,‬ا ن‪,‬تیجہ ہے ‪،‬نہ یہ‬
‫کہ اس کی بنیاد دالئل ہیں ۔‬
‫مجوزین کی ایک لچر دلیل کا جواب‬
‫‪                ‬یہاں یہ ذکر کر دینا بھی مناسب ہے کہ موجودہ دور کے مجو ّزین ِتصویر میں سے بعض کو‬
‫سنا گیا کہ وہ دلیل جواز یہ دیتے ہیں کہ آج کل تصویر کا عام رواج ہ‪,,‬و چک‪,,‬ا ہے ‪ ،‬ک‪,,‬وئی محف‪,,‬ل و مجلس‬
‫اس سے خالی نہیں ‪ ،‬عوام تو عوام علم‪,,‬اء بھی لی‪,,‬تے ہیں ‪،‬ت‪,,‬و کب ت‪,,‬ک اس ک‪,,‬و ناج‪,,‬ائز‪ ,‬کہ‪,,‬تے رہیں گے ؟‬
‫ابھی قریب میں ہمارے مدرسہ میں ایک مفتی صاحب کا ورود ہوا‪ ،‬میں تو سفر پر تھا ‪،‬ل ٰہ‪,,‬ذا مالق‪,,‬ات نہیں‬
‫ہوئی ‪،‬دیگر اساتذہ کے درمیان انھوں نے یہ باتیں کہیں ‪،‬اور تصویر‪ ,‬ک‪,,‬و ناج‪,,‬ائز کہ‪,,‬نے وال‪,,‬وں پ‪,,‬ر ط‪,,‬نز و‬
‫تعریض کی ۔‬
‫‪                ‬مگر اس دلیل کو مان لیا جائے تو پھر تمام حرام کاموں کو جائز ہو جانا چ‪,,‬اہیے ؛کی‪,,‬ونکہ آج‬
‫شراب بھی عام ہے ‪،‬موسیقی و گانا بجانا بھی عام ہے ‪ ،‬موبائیل فون س‪,,‬ے گ‪,,‬انے بج‪,,‬انے کی ٹی‪,,‬ون ہم نے‬
‫علماء کو بھی رکھ‪,‬تے دیکھ‪,‬ا ہے ‪،‬اور بے پ‪,‬ردگی‪ ,‬بھی ع‪,‬ام ہے ‪ ،‬س‪,‬ود و ج‪,‬وا بھی ع‪,‬ام ہے‪،‬اور رش‪,‬وت‪,‬‬
‫خوری کا بھی خوب چلن ہے؛بلکہ غور کرن‪,,‬ا چ‪,,‬اہیے کہ کونس‪,,‬ا گن‪,,‬اہ ایس‪,,‬ا ہے ج‪,,‬و آج کے معاش‪,,‬رے میں‬
‫رواج نہیں پا رہا ہے ‪،‬ل ٰہذا یہ سب کے سب حرام کام اس لیے جائز ہو جانا چاہیے کہ ان کا رواج ع‪,,‬ام ہ‪,,‬و‬
‫گیا ہے ‪،‬ل ٰہذا کب تک اس کو حرام کہتے رہیں؟ ال حول وال قوة االباہلل ‪،‬اگر یہ مفتیانہ منطق‪ ,‬چل جائے ت‪,,‬و‬
‫اسالم کا خدا ہی حافظ !‪   ‬‬
‫‪                ‬یہاں ان مفتی صاحب کی دلیل کے جواب میں صرف‪ ,‬یہ بات ک‪,,‬افی ہے کہ ہم حض‪,,‬رت اق‪,,‬دس‬
‫مفتی محمد شفیع ص‪,‬احب علیہ الرحم‪,‬ة کے رس‪,‬الہ ” گن‪,‬اہ بے ل‪,‬ذت“ س‪,‬ے ای‪,‬ک عب‪,‬ارت نق‪,‬ل ک‪,‬یے دی‪,‬تے‬
‫ہیں ‪،‬بغور مالحظہ کیجیے‪ :‬حضرت لکھتے ہیں کہ‪:‬‬
‫‪”                ‬آج کل یہ گناہ اس قدر وباء کی ط‪,‬رح تم‪,‬ام دنی‪,,‬ا پ‪,,‬ر چھ‪,,‬ا گی‪,,‬ا ہے کہ اس س‪,‬ے پرہ‪,,‬یز ک‪,‬رنے‬
‫والے کو زندگی کے ہر شعبے میں مشکالت ہیں ‪،‬ٹ‪,,‬وپی س‪,,‬ے لے ک‪,,‬ر ج‪,,‬وتے ت‪,,‬ک ک‪,,‬وئی‪ ,‬چ‪,,‬یز ب‪,,‬ازارمیں‬
‫دواوں‬
‫تصویر‪ ,‬سے خالی ملنا مشکل ہوگیا ہے ‪،‬گھریلو استعمال کی چ‪,,‬یزیں ‪،‬ب‪,,‬رتن ‪،‬چھ‪,,‬تری ‪،‬دی‪,,‬ا س‪,,‬الئی‪ ،‬ٴ‬
‫کے ڈبے اور بوتلیں اخبارات ورسائل یہاں ت‪,‬ک کہ م‪,‬ذہبی اور اص‪,‬الحی کت‪,‬ابیں بھی اس گن‪,‬ا ِہ عظیم س‪,‬ے‬
‫خالی نہ رہیں‪ ،‬فالی ہللا المشتکی! اور غور کیا جائے تو ان میں س‪,,‬ے اک‪,,‬ثر حص‪,,‬ہ تص‪,,‬اویر ک‪,,‬ا محض بے‬
‫کار وبے فائدہ‪ ،‬گن‪,,‬ا ِہ بے ل‪,,‬ذت ہے ‪ ،‬مس‪,,‬لمان ک‪,,‬و چ‪,,‬اہیے کہ گن‪,,‬اہ کے ع‪,,‬ام ہوج‪,,‬انے س‪,,‬ے اس ک‪,,‬و ہلک‪,,‬ا نہ‬
‫سمجھے؛ بلکہ زیادہ اہمیت کے ساتھ اس سے بچنے اور دوسرے مسلمانوں کو بچانے کی فک‪,,‬ر ک‪,,‬ریں“ ۔‬
‫(گناہ بے لذت‪)۵۲ :‬‬
‫مفتی بے مث‪,,‬ال ت‪,,‬و تص‪,,‬ویر‪ ,‬کے‬
‫ِ‬ ‫‪                ‬حضرت مفتی محمد شفیع صاحب‪ ‬جیسے اپنے زمانے کے‬
‫عام ہ‪,,‬و ج‪,,‬انے کے ب‪,,‬اوجود‪ ,‬یہ کہ‪,,‬تے ہیں کہ‪ :‬ع‪,,‬ام ہ‪,,‬و ج‪,,‬انے س‪,,‬ے دھ‪,,‬وکہ نہ کھ‪,,‬ائیں اور اس ک‪,,‬و ہلک‪,,‬ا نہ‬
‫سمجھیں؛ بلکہ اس س‪,‬ے مس‪,‬لمانوں ک‪,‬و بچ‪,‬انے کی فک‪,‬ر ک‪,‬ریں اور یہ جدی‪,‬د الخی‪,‬ال و روش‪,‬ن خی‪,‬ال مف‪,‬تی‬
‫صاحب یہ کہتے ہیں کہ جب یہ عام ہو گئی تو اب حرام کو حرام نہیں؛ بلکہ حالل کہو۔ فیا للعجب!‬
‫‪ ‬‬
‫‪$           $           $‬‬
‫‪ ‬‬

‫‪Fatwa ID: 749-749/Sd=01/1437-U‬‬


‫تصویر کھینچنا کھنچوانا ناجائز اور حرام ہے‪ ،‬احادیث میں اس پر سخت وعید یں وارد ہوئی‬
‫ہیں‪ ،‬ایک حدیث میں ہے کہ ”قیامت کے دن سب سے سخت عذا ب تصویر بنانے والوں کو‬
‫ہوگا“‪ ،‬ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ”جو شخص دنیا میں کوئی (جاندار) کی تصویر‬
‫بنائے گا‪ ،‬قیامت میں اُس کو حکم دیا جائے گا کہ وہ اُس میں روح ڈالے‪ ،‬لیکن وہ ہر گز‬
‫ت شدیدہ کے وقت‬ ‫نہیں ڈال سکے گا“ (اس پر اُس کو شدید عذاب ہوگا)؛ البتہ ضرور ِ‬
‫تصویر کھنچوانے کی گنجائش ہے اور جو شخص بغیر کسی ضرورت کے شوقیہ تصویر‬
‫کھنچواتا ہے‪ ،‬شرعا ً وہ فاسق ہے‪ ،‬اُس کی امامت مکروہ تحریمی ہے۔ تصویر کے بارے‬
‫میں حکم شرعی یہی ہے‪ ،‬باقی جو علماء تصویر اور ویڈیو بنواتے ہیں‪ ،‬اُن کا عمل شریعت‬
‫میں حجت نہیں‪ ،‬اس حوالے سے اُن کی ضرورت اور مجبوری سے ہم واقف نہیں ہیں۔ عن‬
‫سمعت النبيَّ صلی ہّٰللا علیہ وسلم یقول‪ :‬ان أش َّد الناس‬
‫ُ‬ ‫عبد ہّٰللا بن مسعود رضي ہّٰللا عنہ قال‬
‫عذابا ً عند ہّٰللا المصوّ رون۔ (صحیح البخاري‪ ،‬باب بیان عذاب المصورین یوم القیامة‪ ،‬رقم‪:‬‬
‫ُ‬
‫سمعت‬ ‫کنت عند ابن عباس رضي ہّٰللا عنہ (الی قولہ) حتی سئل‪ ،‬فقال‪:‬‬ ‫ُ‬ ‫‪ )۵۹۵۰‬عن قتادة قال‬
‫محمداً صلی ہّٰللا علیہ وسلم یقول‪ :‬من صور صور ًة في الدنیا‪ ،‬کلف یوم القیامة أن ینفخ فیہا‬
‫الروح و لیس بنافخ۔ (صحیح البخاري‪ ،‬باب بیان عذاب المصورین یوم‪ ،‬القیامة) وقال العیني‬
‫نقالً عن التوضیح‪ 3:‬قال أصحابنا و غیرہم تصوی ُر صورة الحیوان حرام أشد التحریم و ہو من‬
‫الکبائر و سواء صنعہ لما یمتہن أو لغیرہ فحرام بکل حال‪ ،‬ألن فیہ مضاہات بخلق ہّٰللا ۔۔۔۔ أما‬
‫مالیس فیہ صورة حیوان کالبحر ونحوہ‪ ،‬فلیس بحرام‪ ،‬و بمعناہ قال جماعة العلماء مالک‪‬‬
‫والسفیان‪ ‬وأبو حنیفة‪ ‬و غیرہم۔ (عمدة القاري‪ ،۳۰۹ /۱۰ :‬باب عذاب المصورین یوم‬
‫القیامة‪ ،‬ط‪ :‬دار الطباعة العامرة) وقال النووي‪ 3:‬تصوی ُر صورة الحیوان حرام شدید التحریم‪،‬‬
‫وہو من الکبائر ألنہ متوعد علیہ بہذا الوعید الشدید المذکور في األحادیث۔۔۔۔۔۔ الخ۔ (النووي‬
‫علی مسلم‪ ،۱۹۹ /۲ :‬ط‪ :‬رحیمیة‪ ،‬دیوبند‪ ،‬و کذا في رد المحتار مع الدر المختار‪،۴۰۲ /۲ :‬‬
‫مطلب اذا تردد الحکم بین سنة و بدعة‪ ،‬و الفتاوی الہندیة‪ ،۳۷۹ /۵ :‬والبدائع‪ ،۱۱۶ /۱ :‬ط‪:‬‬
‫زکریا‪ ،‬دیوبند‪ ،‬جواہر الفقہ‪۱۷۷ /۷ :‬۔۔ ‪ ،۲۸۶‬ط‪ :‬زکریا)‬
‫تعالی اعلم‬
‫ٰ‬ ‫وہللا‬

‫‪،‬داراالفتاء‬
‫دارالعلوم‪ ,‬دیوبند‬

‫سوال‬

‫موبائل سے تصویرکھنچوانا جائز ہے یا ناجائز ؟‬

‫جواب‬

‫دین اس الم میں ج ان دار کی‪  ‬تص ویر س ازی‪ ،‬کس ی بھی ش کل میں ہ و (متح رک ہ و ی ا‬
‫ِ‬
‫ساکن)کسی بھی طریقے سے بنائی جائے‪ ،‬بناوٹ کے لیے جو بھی آلہ اس تعمال ہ و‪ ،‬کس ی‬
‫بھی غرض و مقصد سے تصویر بنائی جائے‪ ،‬حرام ہے‪ ،‬اس تن وع واختالف س ے ص ورت‬
‫گ ری اور تص ویر س ازی کے حکم میں ک وئی ف رق ی انرمی نہیں آتی‪ ،‬نص وص کی کث یر‬
‫تعداداور بے شمار فقہی تصریحات اس مضمون کے بیان پر مشتمل ہیں‪ ،‬جو اہ ِل علم س ے‬
‫مخفی نہیں ہیں‪ ،‬ماضی قریب تک تصویر سازی کی حرمت کا مسئلہ اہ ِل علم کے ہاں مس لم‬
‫و متفق علیہ رہا ہے اور اسے بدیہی امور میں سمجھا جاتا تھ ا‪ ،‬یع نی جس ک و ع رف نے‬
‫تصویر کہا وہ تصویر قرار پائی۔‬
‫لہذا کسی بھی جان دار کی تصویر کھینچنا‪ ،‬بنانای ا بنوان ا ناج ائز اور ح رام ہے‪ ،‬خ واہ‪  ‬اس‬
‫تصویر کشی کے‪  ‬لیے موبائل‪  ‬یااس کے عالوہ کوئی بھی‪  ‬آلہ استعمال کی ا ج ائے‪،‬اہ ِل علم‬
‫دم ج واز کے‬
‫و اہ ِل فت وی کی ب ڑی تع داد کی تحقی ق کے مط ابق تص ویر کے ج واز وع ِ‬
‫بارےمیں ڈیجیٹل اور غیر ڈیجیٹل کی تقسیم شرعی نقطہ نظر س ے ناقاب ِل اعتب ار ہے ۔فق ط‬
‫وہللا اعلم‬

‫فتوی نمبر ‪144110200992 :‬‬

‫داراالفتاء ‪ :‬جامعہ علوم اسالمیہ عالمہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن‬

‫[‪ :Syed Shabbir Ahmad Kaka K ]12/6/2020 ,10:01‬دار االفتاء جامعۃ الرشید‬
‫کراچی‬

‫فتاوی‬

‫[‪ :Syed Shabbir Ahmad Kaka K ]12/6/2020 ,10:05‬تمہید کے بعد اب آپ‬


‫اپنے اصل سواالت کے جوابات ترتیب وار مالحظہ فرمائیں‪:‬‬
‫‪1،4‬۔ڈیجیٹل تصویر کے بارے میں علمائے کرام کی تین ٓاراء ہیں‪:‬‬
‫‪۱‬۔یہ ناجائز تصویر کے حکم میں داخل نہیں ‪،‬بلکہ پانی یا ٓائینہ میں دکھائی دینے والے‬
‫عکس کی مانند ہے‪،‬لہذا جس چیز کا عکس دیکھنا جائز ہے اس کی ویڈیو یا تصویر بنانا‬
‫اور دیکھنا بھی جائز ہےاور جس چیز کا عکس دیکھنا جائز نہیں اس کی ویڈیو یا تصویر‬
‫بنانا اور دیکھنا بھی جائز نہیں۔‬
‫‪۲‬۔اس کا بھی وہی حکم ہے جو عام پرنٹ شدہ تصویر کا ہے ‪،‬لہذا صرف ضرورت کے‬
‫وقت جائز ہے ۔‬
‫‪۳‬۔ ڈیجیٹل تصویر بھی اگرچہ اپنی حقیقت کے لحاظ سے تصویر ہی ہے‪،‬البتہ اس کے‬
‫تصویر ہونے یا نہ ہونے میں چونکہ ایک سے زیادہ فقہی آراء موجود ہیں‪،‬اس لیے‬
‫صرف شرعی ضرورت جیساکہ جہاد اور دین کے خالف پروپیگنڈوں سے دفاع اور صحیح‬
‫دینی معلومات کی فراہمی کی خاطر یا اس کے عالوہ کسی واقعی اورمعتبردینی یادنیوی‬
‫مصلحت کی خاطر ایسی چیزوں اور مناظر کی تصویر اور ویڈیو بنانے کی گنجائش ہےجن‬
‫میں تصویر ہونے کے عالوہ کوئی اور حرام پہلو مثال عریانیت‪،‬موسیقی یا غیرمحرم کی‬
‫تصاویر وغیرہ نہ ہوں۔‬
‫ایسی صورت حال میں عوام کے لئے یہ حکم ہےکہ عام مسائل میں جن مفتیان کرام کے‬
‫علم وتقوی پر اعتما د کرتے ہیں اس مسئلے میں بھی انہی کی رائے پر عمل کریں اور‬
‫اس طرح کے مختلف فیہ مسائل کو آپس میں اختالف و انتشار کی بنیاد بنانے سے گریز‬
‫کریں‪،‬البتہ احتیاط بہر حال دوسری رائے پر عمل کرنے میں ہے‪،‬جبکہ ہمارے نزدیک‬
‫تیسری رائے راجح ہے۔‬
‫‪2‬۔یہ بات درست نہیں‪،‬جب نماز کی صحت کی دیگر شرائط کا اہتمام کیا گیا ہو تو اس کی‬
‫وجہ سے نماز پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔‬
‫‪3‬۔جو علماء ڈیجیٹل تصویر کے جواز کے قائل ہیں‪،‬ان کے نزدیک بھی صرف ان چیزوں‬
‫کی تصاویر یا ویڈیوز بنانا جائز ہے جن کا خارج میں دیکھنا جائز ہے اور نامحرم لڑکیوں‬
‫کی تصاویر کا خارج میں دیکھنا بھی جائز نہیں‪،‬خاص طور پر جب وہ فحش اور عریان‬
‫بھی ہو تو ان کی شناعت مزید بڑھ جاتی ہے اور ان کا دیکھنا مزیدسنگین گناہ ہے‪،‬لہذا‬
‫ڈیجیٹل تصویر کے جواز سے فحش اور عریان تصاویر کا جوازکسی بھی طرح الزم نہیں‬
‫آتا۔‬

You might also like