You are on page 1of 12

‫‪ANS 01‬‬

‫خبر کب وجود میں آئی؟ اس کے لیے کسی خاص زمانے کا تعین تاحال نہیں کیا جاس کا ہے۔ ابت دائی دور س ے ہی انس ان‬
‫ایک دوسرے کے بارے میں جاننے‪ ،‬اپنے ماحول اور اس میں رونما ہونے والے واقعات و حاالت سے متعل ق معلوم ات‬
‫حاصل کرنے کا متجسس تھا۔ انسانی معاشرہ کے ابتدائی ادوار میں بھی انسان اپنے عزیز و اقارب کے حاالت اور عالقہ‬
‫کے واقعات سے باخبر رہنے کی ضرورت محسوس کرتا اور آپس میں معلوم ات ک ا تب ادلہ کرت ا تھ ا۔ انس انی فط رت ک ا‬
‫خاصہ ہے کہ انسان دوسروں کے بارے میں زیادہ سے زی ادہ جانن ا چاہت ا ہے اور معاش رہ‪ ،‬زمین و آس مان دنی ا اور اس‬
‫میں بس نے والی مخل وق (ج انور اور انس ان دون وں) کے ب ارے میں علم حاص ل ک رنے کے ل یے کوش اں رہت ا ہے۔ علم‬
‫البشریات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پتھر کے دور میں بھی انس ان جنگل وں‪ ،‬غ اروں‪ ،‬وادی وں‪ ،‬دری اؤں کے کن اروں اور‬
‫بیابانوں میں رہتے تھے۔ انھیں اپنے ارد گرد کے ماحول سے ب ا خ بر رہ نے میں دل چس پی تھی۔ وہ ای ک دوس رے س ے‬
‫تبادلہ خیال کرتے تھے۔ وہ ابتدا میں اشاروں‪ ،‬کنایوں میں بات کرتے یا پھر خاکوں‪ ،‬تص ویروں اور لک یروں کے ذریعے‬
‫اپنا مافی الضمیر بیان کرتے تھے۔ پھر جب انسان بات کہنے کے الئق ہوا اور زب ان وج ود میں آئی ت و ح االت و واقع ات‬
‫سے آگاہی کا طرز بھی بدال اور مٹی کی ٹکیوں‪ ،‬چٹانوں اور پتھر کے سلوں پر تحری ری اش اروں کے ذریعے معلوم ات‬
‫فراہم کرنے کا دور آیا۔ پھر بادشاہوں‪ ،‬راج وں اور مہ اراجوں کے فرم ان مختل ف عالق وں میں لوگ وں ت ک پہنچ انے ک ا‬
‫سلسلہ شروع ہوا۔ یہ انسانی تاریخ کا ابتدائی دور تھا اور خبر نگاری کی بالیدگی بھی ساتھ س اتھ ج اری رہی‪ ،‬ج وں ج وں‬
‫ئی۔‬ ‫دت آتی گ‬ ‫ونے لگیں اور اس میں ج‬ ‫تر ہ‬ ‫ح اور بہ‬ ‫ورتیں واض‬ ‫ار کی ص‬ ‫ا اظہ‬ ‫ا گی‬ ‫وقت گزرت‬
‫برصغیر میں خبروں کی ترسیل کا نظام اشوک کے زمانہ میں ش روع ہ وا۔ چن در گپت کے دور میں اس میں بہ تری الئی‬
‫گئی۔ چندر گپت کے وزیراعظم کو خبروں کی ترسیل کا خاصا ش عور تھ ا۔ اس نے اس میں بہت س ی اص الحات کیں اور‬
‫نئے طریقے رائج کیے۔ اس مقصد کے لیے خاص افراد مقرر کیے ج و ’’پلس ا‘‘ کہالتے تھے۔ ان ک ا ک ام خفیہ طریق وں‬
‫ا۔‬ ‫ان بین تھ‬ ‫بروں کی چھ‬ ‫ےخ‬ ‫س‬
‫ظہور اسالم سے قبل عرب میں خبر رسانی کا کوئی نظام موجود نہیں تھا۔ حضرت عم ؓر کے عہ د میں اس پ ر ت وجہ دی‬

‫‪1‬‬
‫معاویہ کے دور میں ’’البرید‘‘ یعنی ڈاک کا باقاعدہ نظام ق ائم ہ وا اور مملکت کے مختل ف حص وں کی خ بریں‬
‫ؓ‬ ‫گئی۔ امیر‬
‫وا۔‬ ‫روع ہ‬ ‫لہ ش‬ ‫ا منظم سلس‬ ‫انے ک‬ ‫ات پہنچ‬ ‫وں میں احکام‬ ‫روں عالق‬ ‫رنے اور دوس‬ ‫لک‬ ‫حاص‬
‫برصغیر میں ڈاک کا نظام غزنوی کے حکم رانوں نے جاری کیا اور سالطین دہلی کے عہد میں اسے عروج حاصل ہوا۔‬
‫بلبن سلطان کے دور میں تمام شہروں اور قصبوں میں وقائع نگار مقرر ک یے گ ئے۔ عالؤال دین خلیجی کے عہ د میں اس‬
‫نظام سے تجارتی نرخ قائم رکھنے میں بھی مدد لی جاتی تھی۔ محمد بن تغلق نے خبر رسانی میں ت یز رفت اری پ ر ت وجہ‬
‫دی۔ اس زمانہ میں ڈاک کی ترسیل کے لیے گھوڑے استعمال ہوتے تھے۔ برصغیر میں ص حافت کے ابت دائی ادوار تھے۔‬
‫جوں جوں وقت بڑھتا گیا صحافت کے معیار اور وسعت میں بھی اضافہ ہوتا گیا اور خبر نویسی جدید رجحانات اور نئے‬
‫ئی۔‬ ‫وتی گ‬ ‫ناس ہ‬ ‫ے روش‬ ‫وں س‬ ‫تقاض‬
‫تاریخ صحافت کی ابتدائی منازل میں خ بر کی ک وئی طے ش دہ ش کل نہیں تھی۔ اس ے بن انے اور س نوارنے اور تک نیکی‬
‫لحاظ سے آراستہ کرنے کے لیے باقاعدہ کلیہ موجود نہیں تھا۔ خبر ای ک ع ام س ی ب ات ہ وتی تھی اور ذاتی خی ال‪ ،‬آراء‪،‬‬
‫ا۔‬ ‫ا تھ‬ ‫ا جات‬ ‫رے میں ڈال دی‬ ‫بر کے زم‬ ‫و بھی خ‬ ‫اتوں ک‬ ‫نائی ب‬ ‫نی س‬ ‫وں اور س‬ ‫افواہ‬
‫جب اخبار نویسی کا باقاعدہ آغاز ہوا اور اسے صنعت کی حیثیت حاصل ہوئی تو اخبارات میں مسابقت اور مقابلہ ش روع‬
‫ہوا۔ جدید پرنٹنگ پریس قائم ہوئے اور اخب ارات کی اش اعت بڑھ انے اور ق ارئین ک و معی اری اور مص دقہ خ بریں ف راہم‬
‫کرنے کا دور آیا تو خبر میں بھی نکھار آئی اور اسے بنانے اور اس کی ن وک پل ک س نوارنے کے ط ریقے اور قاع دے‬
‫وضع ہوئے اور خبر نگاری کو باقاعدہ ایک علمی اور فنی موضوع کی حی ثیت حاص ل ہ وئی۔ پاکس تان میں ‪1960‬ء کے‬
‫عشرہ میں اردو صحافت جدید طرز طباعت سے روشناس ہوئی۔ خبر کو پیشہ ورانہ مہارت اور تقاضوں کے عین مطابق‬
‫ڈھاال گیا اور اخبارات نے خبر کی تیاری میں اپنی تمام تر صالحیتوں ک و ب روئے ک ار الی ا۔ اب خ بر کی تمہی د‪ ،‬متن اور‬
‫اختتامیہ پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ خبر کے چناؤ میں زبان کی سادگی اور شائستگی اور مٹھاس النے کی طرف تم ام‬
‫اخبارات خصوصی توجہ دیتے ہیں۔‬
‫‪ANS 02‬‬
‫میڈیا کو معاشرے میں ایک بنیادی اور مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ ابالغ اگر صدق پر مبنی ہوگ ا ت و معاش رے میں اچھی‬
‫اقدار کو فروغ اور استحکام ملے گا اور معاشرہ ایک مثبت سمت آگے بڑھتا جائے گا۔ اگر ابالغ میں کذب ہوگا یا اس پ ر‬
‫کذب کا غلبہ ہوگا تو معاشرے میں ہر طرف نفرت‪ ،‬انتشار‪ ،‬بے چینی اور پریشانی کا ماحول پیدا ہوگا۔‬
‫ت رس ول ص لی ہللا علیہ وآلہ‬
‫ابالغ صدق کا عمل پیغمبرانہ روش‪ ،‬سنت اور طریق ہے۔ جیسے معلمیت و معلم کا پیشہ سن ِ‬
‫ِ‬
‫ت رسول صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم‪  ‬ہے۔ انبی اء ک رام علیہم الس الم‬
‫ابالغ صدق بھی سن ِ‬
‫ِ‬ ‫ابالغ کامل اور‬
‫ِ‬ ‫وسلم‪  ‬ہے اسی طرح‬
‫ابالغ صدق ہے‪ ،‬جسے وہ اپنے اپنے عہد میں نبھاتے رہے ہیں‪ ،‬ارشاد فرمایا‪:‬‬ ‫ِ‬ ‫کی سب سے بڑی ذمہ داری‬
‫فَاِ ْن تَ َو لَّ ْیتُ ْم فَا ْعلَ ُموْ آ اَنَّ َما ع َٰلی َرسُوْ لِنَا ْالبَ ٰل ُغ ْال ُمبِیْنُ ‪.‬‬
‫’’پھر اگر تم نے روگردانی کی تو جان لو کہ ہمارے رسول (صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم) پر صرف (اَحکام کا) واضح ط ور‬
‫پر پہنچا دینا ہی ہے (اور وہ یہ فریضہ ادا فرما چکے ہیں)‘‘۔‬
‫(المائدة‪)92 :5 ،‬‬

‫‪2‬‬
‫’’ابالغ مبین‘‘ کی ب ات کرت ا ہے۔ ایس ا ابالغ کہ جس‬
‫ِ‬ ‫یہ بات بھی قاب ِل توجہ ہے کہ قرآن فقط ’’ابالغ‘‘ کی بات نہیں بلکہ‬
‫کے بعد کسی اور ابالغ کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ کسی حقیقت کو اس طرح واضح کرنا کہ کوئی ف رد اس حقیقت ک و‬
‫جھٹال نہ سکے۔ وہ ابالغ اپنے اندر ایک واضح حقیقت رکھتا ہو اور انسانی عقول کو سیراب کرنے کے ساتھ ساتھ انسانی‬
‫ارواح کو بھی منور کرے۔‬
‫’’ابالغ مبین‘‘ سے معاشرے کے افراد کے اقوال و اعمال کی اصالح ہوتی ہے۔‬
‫ِ‬ ‫گویا‬
‫عصر حاضر میں معاشرے کی تعمیر اور تخریب میں میڈیا کو ایک بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ میڈیا اگر لوگوں کو شعور‬
‫ِ‬
‫دے تو لوگ باشعور ہوں گے۔۔۔ اگر لوگوں کو معاشرتی خرابیوں سے آگاہ کرے گ ا ت و ل وگ ان معاش رتی برائی وں س ے‬
‫اجتناب کریں گے۔۔۔ اگر لوگوں کو تعلیم دے گا تو لوگ تعلیم یافتہ اور مہذب ہوں گے۔ اسی ط رح اگ ر می ڈیا منفی ک ردار‬
‫ادا کرے گا‪ ،‬قاتلوں اور ظالموں کو تحفظ دے گا تو قتل و غارت گری اور ظلم و ستم کا خاتمہ نہ ہوگا۔‬
‫میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ حق و صداقت کی نشانی بنیں‪ ،‬کسی کا خوف و خط رہ اور کس ی کی م زاحمت و مالمت ان‬
‫کو حق کے اظہار سے نہ روک سکے۔ اس لیے مومنین کی پہچان ہی یہ ہوتی ہے کہ‬
‫َواَل یَخَافُوْ نَ لَوْ َمةَ آَل ِئ ٍم‪.‬‬
‫’’وہ کسی مالمت کرنے والے کی مالمت سے خوفزدہ نہیں ہوتے‘‘۔‬
‫(المائدة‪)54 :5 ،‬‬
‫اس آیت مبارکہ کی روشنی میں ذیل میں میڈیا کی دینی اور قومی ذمہ داریوں کو بیان کیا جارہا ہے‪:‬‬
‫‪1‬۔ میڈیا کا کردار شعور و آگہی فراہم کرنا‬
‫میڈیا کا کام راستہ دکھانا ہے۔ صحیح بات کو پہنچانا ہے‪ ،‬انس انی ذہن ت ک حقیقت ک ا ابالغ کرن ا ہے۔ یع نی خ بر کے پس‬
‫پردہ کوئی قوت اس خبر کی ’’خ بریت‘‘ پ ر اث ر ان داز نہ ہوس کے اور اس خ بر ک و اپ نے مف ادات کے ل یے اس تعمال نہ‬
‫کرسکے۔‬
‫تعالی ہے‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫اس حوالے سے سورۃ الدہر سے ہمیں راہنمائی ملتی ہے۔ ارشاد باری‬
‫فَ َج َع ْل ٰنـهُ َس ِم ْیعًام‪ ‬بَ ِ‬
‫ص ْیرًا‪ .‬اِنَّا هَ َدی ْٰنـهُ ال َّسبِ ْی َل اِ َّما َشا ِکرًا َّواِ َّما َکفُوْ رًا‪.‬‬
‫’’پس ہم نے اسے (ترتیب س ے) س ننے واال (پھ ر) دیکھ نے واال بنای ا ہے۔ بے ش ک ہم نے اس ے(ح ق وباط ل میں تم یز‬
‫کرنے کے لیے شعور و بصیرت کی) راہ بھی دکھا دی‪( ،‬اب) خواہ وہ شکر گزار ہو جائے یا ناشکر گزار رہے‘‘۔‬
‫(الدهر‪)3-2 :76 ،‬‬
‫ت کریمہ کے ذریعے ہمیں میڈیا کے کردار کے حوالے سے یہ راہنمائی میسر آتی ہے کہ می ڈیا ک ا ک ام‪’’ ‬ان ا هدین ه‬
‫ان آیا ِ‬
‫السبیل‘‘‪ ‬سے مزیّن ہو۔ یعنی سیدھے راستے کی جانب راہنمائی فراہم کرنا‪ ،‬صحیح موقف سے آگاہ کرنا‪ ،‬حقیقت امر سے‬
‫باخبر رکھنا اور حق و سچ سے آگاہ کرنا میڈیا کی ذمہ داری ہے۔‬
‫میڈیا ہر بات اس طرح لوگوں تک پہنچائے کہ وہ ’’سمیعا‘‘ سننے کے قابل ہو‪’’ ،‬بص یرا‘‘ دیکھے ج انے کے الئ ق ہ و۔‬
‫قطع نظر اس کے کہ اس خبر کو سن کر یا دیکھ کرکون کیا رائے قائم کرتا ہے؟ کی ا وہ خ بر ک ا حم ایتی ہوت ا ہے ی ا اس‬

‫‪3‬‬
‫کے مخالف ہوتا ہے؟میڈیا کا یہ مطمع نظر نہ ہو۔ کسی کو کس ی ب ات کے مواف ق و مخ الف بن انے س ے می ڈیا اپ نی غ یر‬
‫جانبدارانہ حیثیت کھودے گا۔‬
‫اگر میڈیا کے کسی بھی شخص کا ارادہ کسی کی پگڑی و عزت کو اچھالنا ہوگا‪ ،‬کس ی کی ک ردار کش ی کرن ا ہ وگی اور‬
‫کسی کے مال و زر سے اپنی زبان کو سیاہ و متلذذ کرن ا ہوگ ا اور اپ نے منص ب ک ا ناج ائز اس تعمال کرن ا ہوگ ا ت و ایس ا‬
‫شخص زیادہ دیر تک اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہوگا‪ ،‬اس لیے کہ باآلخر فتح سچ اور حق کی ہی ہ وتی ہے۔ جب ک ردار‬
‫کشی کا گرد اور غبار چھٹے گا تو اس میڈیا پرسن کا چہرہ بھی اپنی حقیقت کے ساتھ بے نقاب ہوجائے گ ا اور اس عم ل‬
‫سے سوائے ذلت اور حقارت کے اسے کچھ میسر نہ آئے گا۔‬
‫‪2‬۔ فاسق کی خبر سے اعراض‬
‫وہ شخص جو فسق و فجور کی طرف راغب ہو اور جس کا مزاج صلح پسندی کی بجائے شرارت پسندی کا ہو ت و ایس ے‬
‫شخص کی خبر پر دھیان نہیں دینا چاہئے‪ ،‬جب تک کہ اس کی خبر کی تائید و تصدیق مصدقہ ذرائع سے نہ ہوجائے۔ اس‬
‫لیے کہ ایسے شخص کی خبر اپنے اندر شرمساری و خجالت کے ہزاروں امکانات لیے ہوئے ہوتی ہے۔ اس بنا پر فاس ق‬
‫کی خبر ہمیشہ غیر معتبر اور غیر مستند رہی ہے۔ اس حقیقت کو قرآن مجید نے یوں بیان کیا‪:‬‬
‫ص ْیبُوْ ا قَوْ ًمام بِ َجهَالَ ٍة فَتُصْ بِحُوْ ا ع َٰلی َما فَ َع ْلتُ ْم ٰن ِد ِم ْینَ ‪.‬‬ ‫ٰیٓـاَیُّهَا الَّ ِذ ْینَ ٰا َمنُ ْٓوا اِ ْن َجآَئ ُک ْم فَ ِ‬
‫اسقٌم‪ ‬بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُ ْٓوا اَ ْن تُ ِ‬
‫’’اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق (شخص) کوئی خبر الئے تو خ وب تحقی ق کرلی ا ک رو (ایس ا نہ ہ و) کہ تم‬
‫کسی قوم کو العلمی میں (ناحق) تکلیف پہنچا بیٹھو‪ ،‬پھر تم اپنے کیے پر پچھتاتے رہ جاؤ‘‘۔‬
‫(الحجرات‪)6 :49 ،‬‬
‫ت کریمہ ک و ہم اپ نے عص ری‬
‫یہ آیت کریمہ میڈیا کے کردار کے حوالے سے بنیادی راہنمائی فراہم کرتی ہے۔ اگر اس آی ِ‬
‫ابالغی کرداروں پر منطبق کریں تو راہنمائی کا ایک بہت بڑا ذریعہ میسر آتا ہے۔ ہمارے سامنے ظ اہر ہ ونے واال مخ بر‬
‫کردار کذب کا غلبہ رکھتا ہے تو ایسا شخص ’’فاسق‘‘ کہالئے گا لہٰ ذا اب وہ جو نئی خبر دے رہا ہے‪ ،‬اس‬
‫ِ‬ ‫اگر اپنے اندر‬
‫خبر کو کریدنا اور تفتیش حال کرنا‪ ،‬اس کا کھوج لگانا اور اس کی حقیقت ک و جانن ا ض روری ہے۔ اگ ر اس کی خ بر ک و‬
‫اس عمل میں نہ ڈھاال گیا تو پھر العلمی اور بے خبری کی بنا پر نقصان کا خطرہ اور ندامت کا اندیش ہ ض رور ہے۔ اس‬
‫لیے میڈیا کی وہی خبر معتبر اور مستند ہے جو چھان بین اور تفتیش و تحقیق کے عمل س ے گ زر ک ر آئی ہے۔ جہ اں یہ‬
‫عمل نہیں ہوتا وہاں نقصان و خسارہ کا اندیشہ بہت زیادہ ہوجاتا ہے۔‬
‫اصالح معاشرہ‬
‫ِ‬ ‫‪3‬۔ میڈیا اور‬
‫میڈیا کی سب سے بڑی ذمہ داری معاش رے کی ت رقی اور اص الح ہے۔ معاش رتی اور انس انی اق دار ک ا تحف ظ اور ان ک ا‬
‫شعور دینا میڈیا کی ذمہ داری ہے۔ مسلم معاش رے میں ج و ذمہ داری ای ک ای ک ف رد کی ہے‪ ،‬وہ اجتم اعی ص ورت میں‬
‫تعالی ہے‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫میڈیا کی ہے۔ اس ذمہ داری کا ذکر قرآن مجید نے یوں کیا ہے‪ ،‬ارشاد باری‬
‫َواِ ْن طَآِئفَ ٰت ِن ِمنَ ْال ُمْٔو ِمنِ ْینَ ا ْقتَتَلُوْ ا فَاَصْ لِحُوْ ا بَ ْینَهُ َما‪.‬‬
‫’’اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑائی کریں تو اُن کے درمیان صلح کرادیا کرو‘‘۔‬
‫(الحجرات‪)9 :49 ،‬‬

‫‪4‬‬
‫تعالی ہے‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫کردار اصالح کو اگلی آیت کریمہ میں یوں واضح کیا‪ ،‬ارشاد باری‬
‫ِ‬ ‫اسی طرح ایک مسلم کے‬
‫اِنَّ َما ْال ُمْٔو ِمنُوْ نَ اِ ْخ َوةٌ فَاَصْ لِحُوْ ا بَ ْینَ اَ َخ َو ْی ُک ْم َواتَّقُوا ﷲَ لَ َعلَّ ُک ْم تُرْ َح ُموْ نَ ‪.‬‬
‫اہل ایمان (آپس میں) بھائی ہیں۔ سو تم اپ نے دو بھ ائیوں کے درمی ان ص لح کرای ا ک رو‪ ،‬اور اﷲ‬
‫’’بات یہی ہے کہ (سب) ِ‬
‫سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے‘‘۔‬
‫(الحجرات‪)10 :49 ،‬‬
‫جب ایک مسلمان مصلح بنتا ہے تو دوسروں کی ہمدردیاں اپنے ساتھ پاتا ہے‪ ،‬ان کی نظ روں میں انس انیت ک ا خ یر خ واہ‬
‫بنتا ہے اور ان کے دلوں میں عزت و عظمت کا باعث بنتا ہے جبکہ وہی مسلمان جب اس کردار کو ترک کردیتا ہے اور‬
‫معاشرے کے لیے ’’مفسد‘‘ بن جاتا ہے تو لوگوں کی نظروں سے گر جاتا ہے۔ اسالمی معاشرہ اسی کردار کو اجتم اعی‬
‫صورت میں میڈیا میں دیکھنا چاہتا ہے۔ میڈیا کی ذمہ داری لوگوں کے ذہنوں ک و س نوارنا ہے۔ لوگ وں ت ک غل ط اور بے‬
‫بنیاد خبریں پہنچا کر ان کے اذہان کو بگاڑنا میڈیا کی ذمہ داریوں کے برعکس ہے۔ میڈیا کی ذمہ داری ٹھوس حق ائق ک ا‬
‫اظہار کرنا ہے جن کے ذریعے لوگوں کی سوچ و فکر‪ ،‬قول و عمل اور عادت و رویے سنور جائیں۔‬
‫‪4‬۔ میڈیا ظالم کا نہیں مظلوم کا خیر خواہ ہو‬
‫ظالم اپنی قوت کے نشے میں مخمور ہوتا ہے‪ ،‬اسے اپنی طاقت پر گھمنڈ ہوتا ہے‪ ،‬وہ اپنے اثر و رسوخ پر ناز کرتا ہے‪،‬‬
‫خود کو قانون سے باال دست محسوس کرتا ہے‪ ،‬قانون کو اپنی لونڈی و کنیز کی صورت میں دیکھتا ہے اور اپنی مرضی‬
‫کو قانون بناتا ہے۔ یوں ناروا قوت و طاقت کا اظہار کرتے ہوئے کمزور شخص پر ظلم کے پہاڑ گراتا ہے۔‬
‫میڈیا کا کردار ظالم کے ظلم کو مٹانا ہے‪ ،‬ظالم کو اس کے ظلم سے روکنا ہے‪ ،‬مظلوم کا ساتھ دین ا ہے اور ظ الم ک و بے‬
‫دست و پا کرنا ہے۔ حتی کہ ظالم خود اپنے ظلم سے باز آجائے۔ اسی لیے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وآلہ وس لم‪  ‬نے ارش اد‬
‫فرمایا‪:‬‬
‫انصر اخاک ظالما او مظلوما‪ .‬فقال رجل‪ :‬یارسول هللا! انصره اذا کان مظلوما‪ ،‬ارایت ان کان ظالما کیف انصره؟ قال تمنعه‬
‫من الظلم فان ذلک نصره‪.‬‬
‫’’اپنے مسلمان بھائی کی مدد کرو‪ ،‬خواہ وہ ظالم ہے‪ ،‬خواہ وہ مظلوم ہے۔ ایک شخص نے عرض کیا‪ :‬یارس ول ہللا ص لی‬
‫ہللا علیہ وآلہ وسلم! اگر وہ مظلوم ہو تب میں اس کی مدد کروں لیکن مجھے یہ بتایئے کہ جب وہ ظالم ہ و ت و َمیں اس کی‬
‫مدد کیسے کروں؟ فرمایا‪ :‬اسے ظلم سے باز رکھو‪ ،‬کیونکہ یہ بھی اس کی مدد ہے‘‘۔‬
‫(صحیح بخاری‪ ،‬کتاب االکراه‪ ،‬باب یمین الرجل لصاحبه‪ ،‬ج‪ ،6 :‬ص‪ ،255 :‬رقم‪)6552 :‬‬
‫اگر آج معاشرے کی سب سے بڑی طاقتور آواز اور معاشرے کی سب سے بڑی قوت میڈیا مظلوم کا س اتھی نہ ب نے اور‬
‫مظلوم کے ساتھ کھڑا نہ ہو‪ ،‬بلکہ ظالم کا ساتھ دے اور اس کے ظلم سے مرعوب ہوج ائے‪ ،‬اس کے حرب وں اور حمل وں‬
‫سے ڈر جائے‪ ،‬اس کے خالف آواز بلند نہ کرے اور اس کے خالف کسی بھی صدائے احتجاج کو منظ ِر ع ام پ ر نہ آنے‬
‫دے تو ایسی صورت میں میڈیا اپنے بنیادی فرض کو ترک کرکے ظالم کا ساتھی بن جائے گا‪ ،‬جس کے باعث لوگ وں ک ا‬
‫اس سے اعتماد اٹھ جائے گا۔‬

‫‪5‬‬
‫میڈیا کا کام حق کو سربلند کرنا اور باطل کو سرنگوں کرنا ہے مگ ر اس عم ل میں بہت محت اط ہ ونے کی ض رورت ہے‬
‫تاکہ کوئی غلط فیصلہ نہ کیا جاسکے۔‬
‫‪5‬۔ میڈیا کی ذمہ داری‪ ،‬کردار کشی اور پگڑی اچھالنا نہیں‬
‫میڈیا پر لوگ اعتبار ک رتے ہیں‪ ،‬اس کی دی ج انے والی معلوم ات پ ر بھروس ہ ک رتے ہیں‪ ،‬اس ے مص دقہ اور ثقہ خی ال‬
‫کرتے ہیں۔ ل ٰہذا میڈیا کی خبروں میں کسی قسم کا شک و ریب نہیں ہونا چاہئے۔ می ڈیا ک ا ک ام یہ ہرگ ز نہیں کہ وہ لوگ وں‬
‫کی تضحیک کرے‪ ،‬ان کا تمسخر اور استہزاء اڑائے‪ ،‬ان کی ک ردار کش ی ک رے اور ان کی پگڑی اں اچھ الے اور ان پ ر‬
‫طعنہ زنی کرے۔‬
‫غرضیکہ ہر منفی کام‪ ،‬میڈیا کا اپنی ذمہ داریوں س ے تج اوز ہے اور ہ ر مثبت ک ام می ڈیا کی بنی ادی ذمہ داری ہے۔ منفی‬
‫اقدار کا قلع قمع کرنا میڈیا کا فرض اور مثبت تص ورات ک و ف روغ دین ا می ڈیا کی ش ناخت ہے۔ می ڈیا کے اس ک ردار کے‬
‫حوالے سے راہنمائی ہمیں قرآن مجید سے یوں میسر آئی ہے‪:‬‬
‫َس ی اَ ْن یَّ ُک َّن خَ ْی رًا ِّمنهُنَّج‪َ  ‬واَل ت َْل ِم ُز ْٓوا‬‫َسی اَ ْن یَّ ُکوْ نُ وْ ا َخ ْی رًا ِّم ْنهُ ْم َواَل نِ َس آ ٌء ِّم ْن نِّ َس آ ٍء ع ٰ ٓ‬
‫ٰیٓاَیُّهَا الَّ ِذ ْینَ آ َمنُوْ ا اَل یَسْخَرْ قَوْ ٌم ِّم ْن قَوْ ٍم ع ٰ ٓ‬
‫ولٓـ ک هُم ٰ‬
‫الظّلِ ُموْ نَ ‪.‬‬ ‫ق بَ ْع َد ااْل ِ ْی َمانِ ‪َ  ‬و َم ْن لَّ ْم یَتُبْ فَا ُ ٰ ِئ َ ُ‬ ‫س ااْل ِ ْس ُم ْالفُسُوْ ُ‬
‫اَ ْنفُ َس ُک ْم َواَل تَنَابَ ُزوْ ا بِااْل َ ْلقَابِط‪ ‬بِْئ َ‬
‫ج‬

‫’’اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے وہ لوگ اُن (تمس ُخر کرنے وال وں) س ے بہ تر ہ وں اور‬
‫نہ عورتیں ہی دوسری عورتوں کا (مذاق اڑائیں) ممکن ہے وہی عورتیں اُن (مذاق اڑانے والی عورتوں) سے بہتر ہ وں‪،‬‬
‫اور نہ آپس میں طعنہ زنی اور الزام تراش ی کی ا ک رو اور نہ ای ک دوس رے کے ب رے ن ام رکھ ا ک رو‪ ،‬کس ی کے ایم ان‬
‫(النے) کے بعد اسے فاسق و بدکردار کہنا بہت ہی برا نام ہے‪ ،‬اور جس نے توبہ نہیں کی سو وہی لوگ ظالم ہیں‘‘۔‬
‫(الحجرات‪)11 :49 ،‬‬
‫یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اسالمی معاشرے کا کوئی بھی فرد انفرادی اور اجتماعی ص ورت میں کس ی بھی ش خص ک و‬
‫بال وجہ تضحیک و تمسخر کا نشانہ نہ بنائے‪ ،‬خواہ مخواہ کسی کا استہزاء نہ کیا جائے‪ ،‬کسی کے کردار کو غیر مص ّدقہ‬
‫اطالعات کی بنا پر داغدار نہ کیا جائے‪ ،‬بے بنیاد الزام تراشی نہ کی جائے‪ ،‬طعنہ زنی سے اجتناب کیا ج ائے‪ ،‬کس ی ک و‬
‫بے عزت کرنے کا ارتکاب نہ کیا جائے‪ ،‬اپنی زبان کو شائستہ اور مہذب رکھا ج ائے‪ ،‬زب ان ک و گ الی گل وچ س ے بچای ا‬
‫جائے‪ ،‬برے القابات اور برے ناموں سے احتراز کیا جائے‪ ،‬حق کا اظہار کیا جائے اور گناہ اور ظلم کو ہر صورت سے‬
‫روکا جائے۔ یہی کردار مسلم معاشرہ اور معاشرتی اداروں کا ہے۔‬
‫‪6‬۔ میڈیا کسی سازش کا شکار نہ ہو‬
‫سازش ہمیشہ بدگمانی اور جھوٹ سے وجود پاتی ہے۔ قرآن مجید میں ہمیں ان دونوں چیزوں سے اجتناب کا حکم دی ا گی ا‬
‫تعالی ہے‪:‬‬ ‫ٰ‬ ‫ہے‪ ،‬ارشاد باری‬
‫ٰیٓاَیُّهَا الَّ ِذ ْینَ ٰا َمنُوا اجْ تَنِبُوْ ا َکثِ ْیرًا ِّمنَ الظَّنِّ اِ َّن بَع َ‬
‫ْض الظَّنِّ اِ ْث ٌم َّواَل تَ َج َّسسُوْ ا‪.‬‬
‫’’اے ایمان والو! زیادہ تر گمانوں سے بچا کرو بے شک بعض گمان (ایسے) گناہ ہوتے ہیں (جن پر اُخ روی س زا واجب‬
‫ہوتی ہے) اور (کسی کے عیبوں اور رازوں کی) جستجو نہ کیا کرو‘‘۔‬
‫(الحجرات‪)12 :49 ،‬‬

‫‪6‬‬
‫سازش کی بنیاد ظن اور تجسس ہے۔ بدگمانی اور عیب ج وئی ک ا عم ل انس ان میں مسلس ل بڑھت ا رہت ا ہے‪ ،‬یہ اں ت ک کہ‬
‫انسان‪ ،‬حدود و قیود کو بھی بھول جاتا ہے۔ رازوں کی جس تجو اور دوس روں کے عیب وں س ے آگہی کی ت ڑپ نہ ص رف‬
‫انسان کو رسوا کردیتی ہے بلکہ دشمنی و عداوت کی بنی ادوں ک و مس تحکم ک رتی ہے اور نف رت و ک دورت کے االؤ ک و‬
‫بھڑکاتی ہے۔ اس عمل میں جھوٹ کی آمیزش ہوجائے تو سازش اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہے۔ جھوٹ خواہ کسی ف رد کی‬
‫زندگی میں آئے یا کسی ادارے و شعبے کی شناخت میں آئے‪ ،‬اس کا انجام تباہی و بربادی ہے۔ جھوٹ نہ ہللا کو پس ند ہے‬
‫تعالی ہے‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫اور نہ ہللا کی مخلوق کو۔ اسی لیے جھوٹے شخص پر لعنت بھیجی گئی ہے۔ اس ضمن میں ارشاد باری‬
‫فَنَجْ َعلْ لَّ ْعنَتَ ﷲِ َعلَی ْال ٰک ِذبِ ْینَ ‪.‬‬
‫’’جھوٹوں پر ہللا کی لعنت بھیجتے ہیں‘‘۔‬
‫(آل عمران‪)61 :3 ،‬‬
‫میڈیا اگر جھوٹ جیسی اخالقی برائی کو اپنی صفوں سے دور کرلے تو اس ے معاش رے میں وہ وقعت اور عظمت میس ر‬
‫آسکتی ہے جو اس کی پہچان ہے اور جو اس کا حق ہے۔‬
‫‪ANS 03‬‬
‫خبر‪ ،)news( ‬کوئی بھی نئی معلومات یا‪ ‬حالیہ واقعات‪ ‬کی معلومات ہیں ج و ع ام ط ور پ ر‪ ‬خبررس اں اِدار‪ ‬ےپیش ک رتے‬
‫ہیں‬
‫خبر کی دنیا بہت وسیع ہے اور اسی ل یے اس ی نس بت س ے اس کی تعریف ات بھی بہت وس عت ہے۔ بس ااوقات یہ تع ریفیں‬
‫ایک دوسرے کے متضاد نظر آتی ہیں لیکن دراصل ی خبر کو دیکھنے کا زاویہ ہے جہاں سے تعریف مرتب کرنے واال‬
‫خبر کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر خبر کی چند ایک معروف تعریفیں مندرجہ ذیل ہیں‬
‫خلیل ہللا فراز کہتا ہے۔ خبر ایسا جملہ ہوت ا ہے جس ک ا ک وئی منش ا ہے‪ ،‬اور اس جملہ کے بع د ای ک انش ائیہ جملہ ب نے۔‬
‫جیسے ؛ کسی نے خبر دی "آپ کی سائیکل کا ٹائر پنکچر ہے" انشا یہ بنا کہ پنکچر بنوالو۔‬
‫اب آج کل یہ جو میڈیا میں خبریں چل رہی ہیں کہ "فالں جگہ تین لوگ مر گ ئے" اس ط رح کی خ بریں در اص ل خ بریں‬
‫نہیں ہوتیں۔ یہ ذہنی ٹارچر ہوتا ہے۔‬
‫امریکی صحافی‪ ‬اینڈرسن ڈانا‪ ‬کے مطابق ’اگر کتا انسان کو کاٹے ت و یہ خ بر نہیں لیکن اگ ر انس ان ک تے ک و‬ ‫‪‬‬

‫کاٹے تو یہ خبر ہے‘‬


‫فن صحافت میں خبر کی تعریف یوں کرتے ہیں ’‘ خبر کا تعل ق ایس ے واقع ات اور‬
‫ڈاکٹر عبدالسالم خورشید ِٕ‬ ‫‪‬‬

‫مشاہدات سے ہوتا ہے جو معمول سے ہٹ کر ہوں‪،،‬‬


‫برطانوی پبلشر‪ ‬الرڈ نورتھ کلف‪ ‬کے مطابق ’خبر وہ اطالع ہے جس ے ک وئی ای ک ش خص چھپان ا چاہت ا ہے‬ ‫‪‬‬

‫جبکہ دیگر تمام لوگ اسے مشتہر کرنا چاہتے ہیں‘‪.‬‬


‫امریکی صحافی‪ ‬کرٹ لوڈر‪ ‬کے مطابق’خبر کوئی بھی ایسی چیز ہوسکتی ہے جودلچسپ ہوجس کا تعلق دنیا‬ ‫‪‬‬

‫میں ہونے والے واقعات سے ہو‘‪.‬‬


‫فرانسیسی صحافی‪ ‬ہاولے‪ ‬کے مطابق’ اچھی خبر کوئی خبر نہیں ہوتی۔‬ ‫‪‬‬

‫‪7‬‬
‫کینیڈین ماہر ابالغیات کے مطابق ’ حقیقی خبر کوئی بدخبری ہی ہوتی ہے‘‪.‬‬ ‫‪‬‬

‫امریکی پبلشر‪ ‬ایل گراہم‪ ‬کے مطابق’ خبر تاریخ کا پہال مسود ہ ہوتا ہے‘‬ ‫‪‬‬

‫ول ارن‪ ’’ Will Irwin‬ایسا واقعہ جو مانوس اور معمول کی دنیا کے متعلق قاری کے تصور سے مختلف‬ ‫‪‬‬

‫ہوتا ہے ۔ یہ متصادم طاقتوں کی کشمکش کا نام ہے ۔‬


‫کارل وارن ’’ خبر عموما ً وہ رپورٹ ہوتی ہے جو اس سے پہلے عام لوگوں کو معلوم نہیں ہوتی۔ یہ رپورٹ‬ ‫‪‬‬

‫بنی نوع انسان کی ایسی سرگرمیوں کےمتعلق ہوتی ہے جو قارئین یا سامعین کے لیے دلچسپی ‪ ،‬تف ریح ی ا معولم ات‬
‫کا موجب ہوں‪،،‬۔‬
‫ولیم ایف بروکس خبر کو اس انداز سے بیان کرتے ہیں کہ ’’ خبر دراصل غیر متوقع کا مترادف ہے ‪،،‬‬ ‫‪‬‬

‫ویلکم سٹیڈ کے مطابق ’’ ہر وہ چیز جو غیر معمولی اور انوکھی ہو خبر کہالتی ہے ‪،،‬۔‬ ‫‪‬‬

‫امریکی صحافی فراسٹر بانڈ کے مطابق’’ کوئی واقعہ خبر نہیں اس کا بیان خبر ہے ‪،،‬‬ ‫‪‬‬

‫فن ادارت میں خبر کی تعریف یوں کرتے ہیں ۔’’ ہر وہ واقعہ خ بر ہے‬
‫ڈاکٹر مسکین علی حجازی‪ ‬اپنی کتاب ِ‬ ‫‪‬‬

‫جو درست ہو۔ لوگوں کے لیے دلچسی کا باعث ہو جس کے متعلق لوگ جاننا اور اخبار نویس بتانا چاہیے۔‬
‫آکسفورڈ لغت(انگریزی) میں خبر ’’ نئی اطالع‪ ،‬تازہ واقعات کی رپورٹ کو کہتے ہیں۔‬ ‫‪‬‬

‫ان تمام تعریفوں سے جامع تر تعریف مندرجہ ذیل ہے‬ ‫‪‬‬

‫حالیہ واقعات سے متعلق ایسی قابل ذکر نوموصولہ اطالع کو خبر کہتے ہیں جو نشرو اشاعت س ے وابس تہ کس ی ادارے‬
‫کی جانب سے جاری کی گئی ہو۔‬
‫‪ANS 04‬‬
‫صحافت کا وجود قدیم دور میں بھی الہ ام کی ص ورت میں موج ود تھ ا ‪ ،‬لیکن الہ ام س ے اخب ار ک ا س فرطے ک رنے میں‬
‫صحافت کو ہزاروں سال کا عرصہ لگا ۔ اس عرصے میں کرہ ارض نے ک ئی عظیم الش ان ت اریخی تب دیلیا ں دیکھیں جن‬
‫کی خبر ٓانے والے زمانے کے لوگوں کے لیے مختلف ذرائع سے محفوظ کی گئی۔ ٓاج کی ہر لمحہ بدلتی دنی ا نے گزش تہ‬
‫چند سالوں میں صحافت کا انداز بھی تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ اخبار س ے ری ڈیو ‪ ،‬پھ ر ٹی وی اور اس کے بع د ٓان الئن‬
‫جرنلزم کا سفر محض چند سالوں میں طے ہوگیا اور ٓاج ہم ذرائع ابالغ کے تیز ترین دور میں سانس لے رہے ہیں۔ ایسے‬
‫میں ضرورت اس امر کی ہے جہاں ہر شخص ’خ بر‘ جانن ا‘ چاہت ا ہے اور سوش ل می ڈیا کے ذریعے خ بر کی ترس یل و‬
‫ترویج میں حصے دار بھی بننا چاہتا ہے ‪ ،‬ایک ایسی کتاب کی شدت س ے ض رورت محس وس ہ ورہی تھی ج و ص حافت‬
‫کےطالب علموں کے لیے بالخصوص اور خبر میں دلچسپی رکھنے والے افراد کے لیے بالعموم ایک اہم ماخذ ثابت ہو۔‬
‫یی خ ان کے‬
‫صحافت میں ادب و آداب کا مسئلہ اپنی موجودہ شکل و صورت میں نیا ہے‪ ،‬لیکن درحقیقت اس ک ا آغ از یح ٰ‬
‫زمانے سے ہو گیا تھا جب ملکی سیاست نظریاتی بنیادوں پر تقسیم ہو گ ئی تھی۔ ایس ے میں ب ائیں ب ازو کی ص حافت نے‬
‫عروج پکڑا اور بائیں بازو کی یہ صحافت اکثر و بیشتر اخالقی اعتبار سے س والیہ نش ان تھی۔ آغ از موالن ا ک وثر نی ازی‬
‫کے رسالے شہاب نے کیا‪ ،‬جس کے متعلق کسی نے کہا تھا کہ اگ ر اس خب ار س ے گالی اں ح ذف ک ر دی ج ائیں ت و پھ ر‬
‫پیشانی کے سوا کچھ نہیں بچے گ ا کہ یہ رس الے میں واح د لف ظ ہے ج و گ الی نہیں ہے۔ ش ہاب کے بع د ب ائیں ب ازو کے‬

‫‪8‬‬
‫دوسرے اخبار اور رسالے بھی گالی نامہ بنتے چلے گئے۔ ‪1971‬ء میں ملک ٹوٹ نے اور پھ ر مغ ربی پاکس تان کے ب اقی‬
‫ماندہ پاکستان بن جانے کے بعد یہاں بھٹو صاحب کی حکومت آ گئی۔ دائیں بازو کے اخبارات پر سخت پابندیاں لگ گ ئیں‬
‫اور بائیں بازو کی صحافت مرجھانے لگی۔ چنانچہ عوامی سطح پر مقابلے کی فضا ختم ہونے سے گالم گلوچ کم ہو گئی‪،‬‬
‫لیکن سرکاری اخبارات کے سرکاری دانشور اپوزیشن کے لئے غیر اخالقی زبان استعمال کرتے رہے۔ خاص طور س ے‬
‫پاکستان ٹائمز اور امروز کی زبان سخت قابل اعتراض ہو گئی تھی۔ چن انچہ ای ک م رتبہ پ ارلیمنٹ میں این اے پی (نیپ)‬
‫کے رہنماؤں کو پاکستان ٹائمز کے کالم نگار جس کا نام برکی تھا کی زبان کا نوٹس لینا پڑا اور اسے ’’بارکنگ ب رکی‘‘‬
‫کا خطاب دیا۔ یہ دور بھٹو صاحب کی حکومت کے ساتھ ہی ختم ہو گیا۔ ضیاء الحق کے دس گیارہ سالہ دور حکومت کے‬
‫بعد جمہوریت کی جزوی بحالی ہوئی تو ملک پھر دو سیاسی کیمپوں میں بٹ گیا اور سیاس ی کش یدگی س ٹیج پ ر بدتہ ذیبی‬
‫کی شکل میں ابھری‪ ،‬بعض سیاسی رہنما گالم گلوچ کے عنوان میں بہت نامور ہوئے جن میں شیخ رشید کا نام سرفہرست‬
‫ہے۔ پھر زمانہ بدل گیا اگرچہ شیخ صاحب کی روایت پسندی نہیں بدلی اور وہ آج بھی اپنی وضع پر قائم ہیں تاہم زیادہ تر‬
‫دوسرے سیاست دانوں نے اخالق کی پاسداری ک ا مظ اہرہ کی ا۔ اس دور میں سیاس ی می دان میں ہ ونے والی بدتہ ذیبی نے‬
‫صحافت کو زیادہ متاثر نہیں کیا۔ صحافت سے مراد پرنٹ می ڈیا ہے‪ ،‬کی ونکہ الیکٹران ک می ڈیا اس دور میں تھ ا ہی نہیں۔‬
‫صرف سرکاری ٹی وی تھا جو سیاست سے کافی حد تک دور تھا۔‬
‫اخالقیات کا موجودہ بحران مشرف کے آخ ری دن وں میں ش روع ہ وا جب ع دلیہ کی آزادی کی تحری ک چلی اور ٹی وی‬
‫چینلز پر مباحثوں کی بھرمار ہو گئی۔ ریکارڈ بتاتا ہے کہ بدتہذیبی کے زیادہ تر مظ اہرے مش رف کے ح امی دانش وروں‬
‫کی طرف سے ہوئے۔ بہرحال اس وقت ٹی وی چینل اتنے زیادہ نہیں تھے جتنے اب ہیں اور پھر جوں ج وں ان کی تع داد‬
‫بڑھتی گئی بدتہذیبی کے ’’ مقابلہ ہائے حسن‘‘ بھی بڑھتے گئے اور بدقسمتی سے اس ک ا ای ک گہ را تعل ق پروگرام وں‬
‫کی ریٹنگ سے ہو گیا جس کا مطلب تھا زیادہ اشتہارات ‪،‬چنانچہ میڈیا مالکان جن پر تہذیب کا پاس بان ہ ونے ک ا انحص ار‬
‫تھا بدتہذیبی کی نا صرف حوصلہ افزائی کرنے لگے‪ ،‬بلکہ اپنے اینکرز سے اصرار کرنے لگے کہ پروگرام زیادہ س ے‬
‫زیادہ گرم کرو‪ ،‬بس پھر کپڑے اتارنے کی دوڑ شروع ہو گئی۔ اینکرز حضرات نے مہمانوں کی فہرست اس ی’’م یرٹ‘‘‬
‫سے بنانا شروع کر دی اور صرف ایسے حضرات کو بالنے کی پالیسی بن گئی جو ٹاک شو میں گرم ا گ رمی کے م اہر‬
‫ہوں اور پھر یہ بھی دیکھا کہ اگر مہمانوں نے مطلوبہ بدتہذیبی کا مظاہرہ نہیں کیا یا کم کی ا ت و اینک رز نے انہیں اش تعال‬
‫دالنے کی واضح طور پر نظر آنے والی حکمت عملی اختیار کی اور ایسے بہت س ے ش و ہ ونے لگے‪ ،‬جن میں حری ف‬
‫نقطہ نظر کے لوگ زبان کے ساتھ ساتھ بگڑے ہوئے ’’دہن ‘‘کی تصویر بن گ ئے۔ یہ آص ف علی زرداری کی ص دارت‬
‫کا دور تھا جو ختم ہوا تو سیاس تدانوں میں ای ک قس م کی مف اہمتی اور برداش ت کی پالیس ی راہ پ ا چکی تھی لیکن اس ک ا‬
‫عکس ٹی وی پ ر نظ ر نہیں آت ا تھ ا۔ اس ل ئے کہ ٹی وی کے اینک ر حض رات’’ منتخب روزگ ار‘‘ قس م کے کوت اہ عق ل‬
‫اورزبان دراز فنکاروں ہی کو زیادہ بالتے تھے۔ اسی عرصے میں عمران خان کی ش کل میں آس مان سیاس ت س ے ای ک‬
‫شوخ ستارہ طلوع ہو چکا تھا جس کے جلو میں ممی ڈیڈی گروپ کے وہ ہ زاروں الکھ وں نوج وان تھے ج و کھ انے ک و‬
‫بھی ‪ SHIT‬بولتے ہیں۔ چنانچہ بدتہذیبی اور بے ہودہ زبان کا ایک سونامی جلسہ گاہوں سے اٹھا اور ٹی وی چینلوں کے‬

‫‪9‬‬
‫سٹوڈیوز کو بھی بہاکرلے گیا۔ گالیوں کے ایسے ایسے نمونے ٹی وی کی سکرینز پ ر پیش ہ وئے کہ معاش رت کی ش کل‬
‫ہی بدل گئی۔‬
‫یہ الیکٹرانک میڈیا کی صورتحال ہوئی‪،‬اخبارات بھی غیر متاثر نہیں رہے۔ اگرچہ اخبارات میں لکھنے والوں کی اکثریت‬
‫پرانی ہونے کی وجہ سے شاید تہذیب اور شائستگی کا دامن نہ چھوڑ سکی لیکن پھ ر بھی ای ک خاص ی قاب ل ذک ر تع داد‬
‫دشنام نگاروں کی ان میں موجود ہے۔ان میں سے چند ایک تو وہ ہیں جو بھٹو دور سے اپنے فن کا مظ اہرہ ک رتے آرہے‬
‫ہیں‪ ،‬لیکن زیادہ تر نئے دور کی پیداوار ہیں اور ان میں واضح اکثریت وہ ہے جو مش رف کے دور میں ع دالتی تحری ک‬
‫کے دوران مشرف کی وکالت سے نامور ہوئی۔ آج یہ حض رات مش رف کی وک الت ت و نہیں ک رتے‪ ،‬لیکن جمہ وریت اور‬
‫سیاستدانوں کے لتے لیتے ہیں۔ ان حضرات کے نزدی ک ’’آزادئ ص حافت ‘‘ک ا مطلب سیاس تدانوں کی ک ردار کش ی ہے‬
‫اور کردار کشی کی اس مہم میں یہ لوگ اپنی بے کرداری عیاں کرتے چلے آرہے ہیں۔ کم و بیش یہ سارے ہی ل برل ازم‬
‫کے علمبردار ہیں اور پاکستان میں لبرل ازم کے معنی وہ نہیں ہیں جو مغرب میں ہیں۔ یہاں لبرل ازم کے معنی اخالقیات‬
‫کا لبادہ تار تار کرنے کے ہیں۔ایک ایسے ہی لبرل بزرگ کالم نویس اپنے کالم میں ہم جنس پرستی کو ’’نافذ‘‘ ک رنے ک ا‬
‫مطالبہ بھی کرتے رہے۔ یہ لبرل حضرات مخالفوں کو برداشت کرنے کی سوچ نہیں رکھتے ان کی خ واہش ہ وتی ہے کہ‬
‫مخالفوں کو زن بچے سمیت کولہو میں پلوا دیا جائے اور جب یہ خواہش پوری نہیں ہوتی تو دشنام ک ا طوف ان ان کے منہ‬
‫اور قلم سے ابل پڑتا ہے۔‬
‫اس بحث ک ا ای ک نکتہ یہ بھی ہے کہ سیاس ت میں اچان ک در آنے والی گ الم گل وچ کی گ رم ب ازاری والی جم اعت نے‬
‫الیکٹرانک میڈیا اور کالم نویسی میں پائی جانے والی بدتہذیبی کو فروغ دینے میں ایک اہم عامل کا کردار ادا کیا ہے اور‬
‫یہ بات خاص طور سے نوٹ کرنے کی ہے کہ زیادہ تر بدتہ ذیبی ک ا ارتک اب ک رنے والے دانش وروں کی دانش ک ا منب ع‬
‫کچھ مخصوص طاقتی مراکز ہیں۔ دھرنے کے دوران ہر طرح کی مہم انہی مراک ز س ے کن ٹرول ہ وتی تھی۔بدتہ ذیبی ک ا‬
‫ایک اور پہلو طبقاتی بھی ہے۔ پرنٹ میڈیا میں زیادہ تر مڈل اور لوئر کالس کے لوگ ہیں‪ ،‬کم سے کم اردو ص حافت میں‬
‫ایسا ہی ہے لیکن ٹی وی چینلز پر ’’برگر کالس‘‘ کا غلبہ ہے‪ ،‬جس نے ان تعلیمی اداروں س ے تعلیم اور ت ربیت حاص ل‬
‫کی ہے جہاں اخالقیات کا لفظ ہی اجنبی ہے‪ ،‬چنانچہ یہ لوگ صحافت کی حدود و قیود سے کیا واقف ہ وتے‪ ،‬ج و منہ میں‬
‫آیا اسے اگل دینے کو ہی دانش سمجھتے ہیں‪ ،‬چن انچہ یہ ذمہ داری می ڈیا مالک ان اور ص حافتی اداروں کی ہے کہ وہ اس‬
‫کالس سے آئے ہوئے ان گھڑ صحافیوں کو پہلے ابتدائی اخالقی اور قانونی تربیت دیں پھر ان سے کام لیں۔‬
‫‪ANS 05‬‬
‫جھوٹی خبروں کو پھیالنا‪ ،‬ان سے معاشرے میں اضطراب پیدا کرنا اور ان سے ذاتی و معاشی فائدے حاص ل ک رنے کی‬
‫تاریخ بہت قدیم ہے۔ انسان کب سے جھوٹی خبروں کا شکار ہے اس حقیقت کو جاننے کے لیے ہمیں ہزاروں س ال پ رانی‬
‫انسانی تاریخ میں جھانکنا ہو گا۔‬
‫اگر ہم قدیم زمانے کی بات کریں تو پہلی صدی قبل مسیح میں مشہور زم انہ رومن سیاس تدان اور ج زل م ارک انٹ نی کی‬
‫خودکشی کی وجہ ایک جھوٹی خبر ہی تھی۔ دوسری اور تیسری صدی عیسوی میں عیسائیوں کے خالف جھ وٹی خ بریں‬
‫پھیالئی گئیں کہ عیسائی آدم خوری کے عادی ہیں اور اس کے عالوہ ماں باپ بچوں کے ساتھ اور بھائی بہنوں کے س اتھ‬

‫‪10‬‬
‫شادی کرتے ہیں۔ بغیر تصدیق کیے یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی گئی جس نے عیسائیت کو ناقاب ل تالفی نقص ان‬
‫پہنچایا۔‬
‫‪ 1475‬میں جھوٹی خبر پھیالئی گئی کہ یہودی کمیونٹی نے سائمن نامی ڈھائی سال کے عیسائی بچے کو قتل کر دی ا ہے۔‬
‫اس خبر کے نتیجے میں شہر کے سارے یہودیوں کوگرفتار کیا گیا‪ ،‬تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پندرہ یہودیوں کوزندہ جال‬
‫دیا گیا۔ پوپ نے جب مداخلت کی کوشش کی تو پلوں کے نیچے س ے ک افی پ انی گ زر چک ا تھ ا اور مع امالت ق ابو کرن ا‬
‫ناممکن ہو گیا تھا۔‬
‫‪ 1439‬میں پرنٹنگ پریس کی ایجاد کے بعد خبروں کی باقاعدہ اشاعت کا آغاز ہ وا۔ اس وقت ص حافت کے ک وئی اص ول‬
‫اور ض ابطے طے نہیں ک یے گ ئے تھے۔ ‪ 1610‬میں مش ہور زم انہ گلیلی و کے ٹرائ ل کے دوران خ بر اور ثبوت وں کی‬
‫تصدیق پر بہت زور دیا گیا۔ سترہویں صدی میں تاریخ دانوں نے خبر کے ساتھ ذرائع کا حوالہ دینا ش روع کی ا۔ اٹھ ارویں‬
‫صدی کے دوران پہلی مرتبہ نیدر لینڈ میں جھ وٹی خ بر دی نے وال وں اور چھ اپنے وال وں کے ل یے جرم انے اور بن دش‬
‫جیسی سزأوں کا تعین کیا گیا۔ ڈچ حکومت نے جھوٹی خبر دینے پر جیرارڈ نامی شخص کو چار مرتبہ سزا دی‪ ،‬پرنٹن گ‬
‫پریس بند کیا اور اسے چاروں مرتبہ نیا پرنٹنگ پریس شروع کرنا پڑا۔‬
‫اٹھارویں صدی میں ”دی سن“ نامی نیویارک اخبار نے ”گریٹ مون ہوکس“ کے نام سے ای ک جھ وٹی کہ انی ش ائع کی۔‬
‫اس میں مختلف تصویریں شائع کی گئیں جن میں انسان نما جانور کو چاند پر پروں کے ساتھ اڑتا ہ وا دکھای ا گی ا تھ ا۔ اس‬
‫ٰ‬
‫دعوی کیا گیا تھا کہ جارن ہارشل نامی خال باز نے چاند پر نئی تہذیب اور دنیا دیکھی ہے۔ اس کہانی کے چھ آرٹیکل‬ ‫میں‬
‫شائع ہوئے جس نے اس اخبار کی فروخت میں ڈرامائی اضافہ کیا لیکن جب ایک ماہ بعد ق ارئین ک وعلم ہ وا کہ یہ کہ انی‬
‫جھوٹ پر مبنی ہے تو اخبار کو بہت برے عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑا اور جرمانہ بھی کیا گیا۔‬

‫انیسویں صدی میں جوزف پولٹزر اور ولیم رن ڈولف نے زرد ص حافت ک و ع روج بخش ا۔ یہ دون وں اخب ارات کے مال ک‬
‫تھے۔ اخبارات کی فروخت بڑھانے کے لیے انھوں نے سنسنی خیز اور جھوٹ پ ر مب نی خ بریں ش ائع کرن ا ش روع کیں۔‬
‫اخبارات کی فروخت بڑھی لیکن ان جھوٹی خبروں نے امریکہ ک و اس پین ام ریکہ جن گ میں دھکی ل دی ا۔ اس جن گ کے‬
‫نتیجے میں ‪ 18150‬لوگوں کی موت ہوئی اور ‪ 2445‬لوگوں زخمی ہوئے۔‬
‫بیسویں صدی میں پہلی جن گ عظیم کے دوران برط انیہ کے ا ن ٹیلی جنس کے آرمی چی ف ج ان چ ارٹرز نے چ ائنہ ک و‬
‫جرمنی سے بدظن کرنے کے لیے جرمن محالف جھوٹی کہانی شائع کروائی۔ جس میں کہا گیا کہ جرمن فیکٹری اں جن گ‬
‫کے دوران مر جانے والے فوجیوں اور عوام کی الشوں کو صابن‪ ،‬گلیسرین‪ ،‬جوتے اور روز مرہ کی دیگ ر اش یا بن انے‬
‫کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ اس کہانی سے جرمن ایکسپورٹ کو ش دیددھچکا لگ ا اور ج رمن معیش یت تب اہی کے دہ انے‬
‫تک پہنچ گئی۔‬
‫اوپر بیان کیے گئے حقائق ماضی میں پھیالئی جانے والی اور ش ا ئ ع ہ ونے والی جھ وٹی خ بروں کی ای ک جھل ک ہے۔‬
‫جنھوں نے تاریخ کا رخ موڑ دیا اورانسانی اور صحافتی بربریت کی ب دترین مث الیں ق ا ئم ہ وئیں۔ لیکن اہم ب ات یہ ہے کہ‬
‫ہزاروں سالوں کی جھوٹی خبروں کی تاریخ کے باوجود ہم اس بیماری سے جان نہیں چھڑا پائے اور اکسویں ص دی میں‬

‫‪11‬‬
‫بھی جھوٹی اور غیر مصدقہ خبروں کے جال میں جکڑے ہوئے ہیں۔ اکیسویں ص دی میں خ بر ک ا اث ر ماض ی کی نس بت‬
‫سب سے زیادہ ہے۔‬

‫‪12‬‬

You might also like