Professional Documents
Culture Documents
خبر کب وجود میں آئی؟ اس کے لیے کسی خاص زمانے کا تعین تاحال نہیں کیا جاس کا ہے۔ ابت دائی دور س ے ہی انس ان
ایک دوسرے کے بارے میں جاننے ،اپنے ماحول اور اس میں رونما ہونے والے واقعات و حاالت سے متعل ق معلوم ات
حاصل کرنے کا متجسس تھا۔ انسانی معاشرہ کے ابتدائی ادوار میں بھی انسان اپنے عزیز و اقارب کے حاالت اور عالقہ
کے واقعات سے باخبر رہنے کی ضرورت محسوس کرتا اور آپس میں معلوم ات ک ا تب ادلہ کرت ا تھ ا۔ انس انی فط رت ک ا
خاصہ ہے کہ انسان دوسروں کے بارے میں زیادہ سے زی ادہ جانن ا چاہت ا ہے اور معاش رہ ،زمین و آس مان دنی ا اور اس
میں بس نے والی مخل وق (ج انور اور انس ان دون وں) کے ب ارے میں علم حاص ل ک رنے کے ل یے کوش اں رہت ا ہے۔ علم
البشریات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پتھر کے دور میں بھی انس ان جنگل وں ،غ اروں ،وادی وں ،دری اؤں کے کن اروں اور
بیابانوں میں رہتے تھے۔ انھیں اپنے ارد گرد کے ماحول سے ب ا خ بر رہ نے میں دل چس پی تھی۔ وہ ای ک دوس رے س ے
تبادلہ خیال کرتے تھے۔ وہ ابتدا میں اشاروں ،کنایوں میں بات کرتے یا پھر خاکوں ،تص ویروں اور لک یروں کے ذریعے
اپنا مافی الضمیر بیان کرتے تھے۔ پھر جب انسان بات کہنے کے الئق ہوا اور زب ان وج ود میں آئی ت و ح االت و واقع ات
سے آگاہی کا طرز بھی بدال اور مٹی کی ٹکیوں ،چٹانوں اور پتھر کے سلوں پر تحری ری اش اروں کے ذریعے معلوم ات
فراہم کرنے کا دور آیا۔ پھر بادشاہوں ،راج وں اور مہ اراجوں کے فرم ان مختل ف عالق وں میں لوگ وں ت ک پہنچ انے ک ا
سلسلہ شروع ہوا۔ یہ انسانی تاریخ کا ابتدائی دور تھا اور خبر نگاری کی بالیدگی بھی ساتھ س اتھ ج اری رہی ،ج وں ج وں
ئی۔ دت آتی گ ونے لگیں اور اس میں ج تر ہ ح اور بہ ورتیں واض ار کی ص ا اظہ ا گی وقت گزرت
برصغیر میں خبروں کی ترسیل کا نظام اشوک کے زمانہ میں ش روع ہ وا۔ چن در گپت کے دور میں اس میں بہ تری الئی
گئی۔ چندر گپت کے وزیراعظم کو خبروں کی ترسیل کا خاصا ش عور تھ ا۔ اس نے اس میں بہت س ی اص الحات کیں اور
نئے طریقے رائج کیے۔ اس مقصد کے لیے خاص افراد مقرر کیے ج و ’’پلس ا‘‘ کہالتے تھے۔ ان ک ا ک ام خفیہ طریق وں
ا۔ ان بین تھ بروں کی چھ ےخ س
ظہور اسالم سے قبل عرب میں خبر رسانی کا کوئی نظام موجود نہیں تھا۔ حضرت عم ؓر کے عہ د میں اس پ ر ت وجہ دی
1
معاویہ کے دور میں ’’البرید‘‘ یعنی ڈاک کا باقاعدہ نظام ق ائم ہ وا اور مملکت کے مختل ف حص وں کی خ بریں
ؓ گئی۔ امیر
وا۔ روع ہ لہ ش ا منظم سلس انے ک ات پہنچ وں میں احکام روں عالق رنے اور دوس لک حاص
برصغیر میں ڈاک کا نظام غزنوی کے حکم رانوں نے جاری کیا اور سالطین دہلی کے عہد میں اسے عروج حاصل ہوا۔
بلبن سلطان کے دور میں تمام شہروں اور قصبوں میں وقائع نگار مقرر ک یے گ ئے۔ عالؤال دین خلیجی کے عہ د میں اس
نظام سے تجارتی نرخ قائم رکھنے میں بھی مدد لی جاتی تھی۔ محمد بن تغلق نے خبر رسانی میں ت یز رفت اری پ ر ت وجہ
دی۔ اس زمانہ میں ڈاک کی ترسیل کے لیے گھوڑے استعمال ہوتے تھے۔ برصغیر میں ص حافت کے ابت دائی ادوار تھے۔
جوں جوں وقت بڑھتا گیا صحافت کے معیار اور وسعت میں بھی اضافہ ہوتا گیا اور خبر نویسی جدید رجحانات اور نئے
ئی۔ وتی گ ناس ہ ے روش وں س تقاض
تاریخ صحافت کی ابتدائی منازل میں خ بر کی ک وئی طے ش دہ ش کل نہیں تھی۔ اس ے بن انے اور س نوارنے اور تک نیکی
لحاظ سے آراستہ کرنے کے لیے باقاعدہ کلیہ موجود نہیں تھا۔ خبر ای ک ع ام س ی ب ات ہ وتی تھی اور ذاتی خی ال ،آراء،
ا۔ ا تھ ا جات رے میں ڈال دی بر کے زم و بھی خ اتوں ک نائی ب نی س وں اور س افواہ
جب اخبار نویسی کا باقاعدہ آغاز ہوا اور اسے صنعت کی حیثیت حاصل ہوئی تو اخبارات میں مسابقت اور مقابلہ ش روع
ہوا۔ جدید پرنٹنگ پریس قائم ہوئے اور اخب ارات کی اش اعت بڑھ انے اور ق ارئین ک و معی اری اور مص دقہ خ بریں ف راہم
کرنے کا دور آیا تو خبر میں بھی نکھار آئی اور اسے بنانے اور اس کی ن وک پل ک س نوارنے کے ط ریقے اور قاع دے
وضع ہوئے اور خبر نگاری کو باقاعدہ ایک علمی اور فنی موضوع کی حی ثیت حاص ل ہ وئی۔ پاکس تان میں 1960ء کے
عشرہ میں اردو صحافت جدید طرز طباعت سے روشناس ہوئی۔ خبر کو پیشہ ورانہ مہارت اور تقاضوں کے عین مطابق
ڈھاال گیا اور اخبارات نے خبر کی تیاری میں اپنی تمام تر صالحیتوں ک و ب روئے ک ار الی ا۔ اب خ بر کی تمہی د ،متن اور
اختتامیہ پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ خبر کے چناؤ میں زبان کی سادگی اور شائستگی اور مٹھاس النے کی طرف تم ام
اخبارات خصوصی توجہ دیتے ہیں۔
ANS 02
میڈیا کو معاشرے میں ایک بنیادی اور مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ ابالغ اگر صدق پر مبنی ہوگ ا ت و معاش رے میں اچھی
اقدار کو فروغ اور استحکام ملے گا اور معاشرہ ایک مثبت سمت آگے بڑھتا جائے گا۔ اگر ابالغ میں کذب ہوگا یا اس پ ر
کذب کا غلبہ ہوگا تو معاشرے میں ہر طرف نفرت ،انتشار ،بے چینی اور پریشانی کا ماحول پیدا ہوگا۔
ت رس ول ص لی ہللا علیہ وآلہ
ابالغ صدق کا عمل پیغمبرانہ روش ،سنت اور طریق ہے۔ جیسے معلمیت و معلم کا پیشہ سن ِ
ِ
ت رسول صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم ہے۔ انبی اء ک رام علیہم الس الم
ابالغ صدق بھی سن ِ
ِ ابالغ کامل اور
ِ وسلم ہے اسی طرح
ابالغ صدق ہے ،جسے وہ اپنے اپنے عہد میں نبھاتے رہے ہیں ،ارشاد فرمایا: ِ کی سب سے بڑی ذمہ داری
فَاِ ْن تَ َو لَّ ْیتُ ْم فَا ْعلَ ُموْ آ اَنَّ َما ع َٰلی َرسُوْ لِنَا ْالبَ ٰل ُغ ْال ُمبِیْنُ .
’’پھر اگر تم نے روگردانی کی تو جان لو کہ ہمارے رسول (صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم) پر صرف (اَحکام کا) واضح ط ور
پر پہنچا دینا ہی ہے (اور وہ یہ فریضہ ادا فرما چکے ہیں)‘‘۔
(المائدة)92 :5 ،
2
’’ابالغ مبین‘‘ کی ب ات کرت ا ہے۔ ایس ا ابالغ کہ جس
ِ یہ بات بھی قاب ِل توجہ ہے کہ قرآن فقط ’’ابالغ‘‘ کی بات نہیں بلکہ
کے بعد کسی اور ابالغ کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ کسی حقیقت کو اس طرح واضح کرنا کہ کوئی ف رد اس حقیقت ک و
جھٹال نہ سکے۔ وہ ابالغ اپنے اندر ایک واضح حقیقت رکھتا ہو اور انسانی عقول کو سیراب کرنے کے ساتھ ساتھ انسانی
ارواح کو بھی منور کرے۔
’’ابالغ مبین‘‘ سے معاشرے کے افراد کے اقوال و اعمال کی اصالح ہوتی ہے۔
ِ گویا
عصر حاضر میں معاشرے کی تعمیر اور تخریب میں میڈیا کو ایک بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ میڈیا اگر لوگوں کو شعور
ِ
دے تو لوگ باشعور ہوں گے۔۔۔ اگر لوگوں کو معاشرتی خرابیوں سے آگاہ کرے گ ا ت و ل وگ ان معاش رتی برائی وں س ے
اجتناب کریں گے۔۔۔ اگر لوگوں کو تعلیم دے گا تو لوگ تعلیم یافتہ اور مہذب ہوں گے۔ اسی ط رح اگ ر می ڈیا منفی ک ردار
ادا کرے گا ،قاتلوں اور ظالموں کو تحفظ دے گا تو قتل و غارت گری اور ظلم و ستم کا خاتمہ نہ ہوگا۔
میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ حق و صداقت کی نشانی بنیں ،کسی کا خوف و خط رہ اور کس ی کی م زاحمت و مالمت ان
کو حق کے اظہار سے نہ روک سکے۔ اس لیے مومنین کی پہچان ہی یہ ہوتی ہے کہ
َواَل یَخَافُوْ نَ لَوْ َمةَ آَل ِئ ٍم.
’’وہ کسی مالمت کرنے والے کی مالمت سے خوفزدہ نہیں ہوتے‘‘۔
(المائدة)54 :5 ،
اس آیت مبارکہ کی روشنی میں ذیل میں میڈیا کی دینی اور قومی ذمہ داریوں کو بیان کیا جارہا ہے:
1۔ میڈیا کا کردار شعور و آگہی فراہم کرنا
میڈیا کا کام راستہ دکھانا ہے۔ صحیح بات کو پہنچانا ہے ،انس انی ذہن ت ک حقیقت ک ا ابالغ کرن ا ہے۔ یع نی خ بر کے پس
پردہ کوئی قوت اس خبر کی ’’خ بریت‘‘ پ ر اث ر ان داز نہ ہوس کے اور اس خ بر ک و اپ نے مف ادات کے ل یے اس تعمال نہ
کرسکے۔
تعالی ہے:
ٰ اس حوالے سے سورۃ الدہر سے ہمیں راہنمائی ملتی ہے۔ ارشاد باری
فَ َج َع ْل ٰنـهُ َس ِم ْیعًام بَ ِ
ص ْیرًا .اِنَّا هَ َدی ْٰنـهُ ال َّسبِ ْی َل اِ َّما َشا ِکرًا َّواِ َّما َکفُوْ رًا.
’’پس ہم نے اسے (ترتیب س ے) س ننے واال (پھ ر) دیکھ نے واال بنای ا ہے۔ بے ش ک ہم نے اس ے(ح ق وباط ل میں تم یز
کرنے کے لیے شعور و بصیرت کی) راہ بھی دکھا دی( ،اب) خواہ وہ شکر گزار ہو جائے یا ناشکر گزار رہے‘‘۔
(الدهر)3-2 :76 ،
ت کریمہ کے ذریعے ہمیں میڈیا کے کردار کے حوالے سے یہ راہنمائی میسر آتی ہے کہ می ڈیا ک ا ک ام’’ ان ا هدین ه
ان آیا ِ
السبیل‘‘ سے مزیّن ہو۔ یعنی سیدھے راستے کی جانب راہنمائی فراہم کرنا ،صحیح موقف سے آگاہ کرنا ،حقیقت امر سے
باخبر رکھنا اور حق و سچ سے آگاہ کرنا میڈیا کی ذمہ داری ہے۔
میڈیا ہر بات اس طرح لوگوں تک پہنچائے کہ وہ ’’سمیعا‘‘ سننے کے قابل ہو’’ ،بص یرا‘‘ دیکھے ج انے کے الئ ق ہ و۔
قطع نظر اس کے کہ اس خبر کو سن کر یا دیکھ کرکون کیا رائے قائم کرتا ہے؟ کی ا وہ خ بر ک ا حم ایتی ہوت ا ہے ی ا اس
3
کے مخالف ہوتا ہے؟میڈیا کا یہ مطمع نظر نہ ہو۔ کسی کو کس ی ب ات کے مواف ق و مخ الف بن انے س ے می ڈیا اپ نی غ یر
جانبدارانہ حیثیت کھودے گا۔
اگر میڈیا کے کسی بھی شخص کا ارادہ کسی کی پگڑی و عزت کو اچھالنا ہوگا ،کس ی کی ک ردار کش ی کرن ا ہ وگی اور
کسی کے مال و زر سے اپنی زبان کو سیاہ و متلذذ کرن ا ہوگ ا اور اپ نے منص ب ک ا ناج ائز اس تعمال کرن ا ہوگ ا ت و ایس ا
شخص زیادہ دیر تک اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہوگا ،اس لیے کہ باآلخر فتح سچ اور حق کی ہی ہ وتی ہے۔ جب ک ردار
کشی کا گرد اور غبار چھٹے گا تو اس میڈیا پرسن کا چہرہ بھی اپنی حقیقت کے ساتھ بے نقاب ہوجائے گ ا اور اس عم ل
سے سوائے ذلت اور حقارت کے اسے کچھ میسر نہ آئے گا۔
2۔ فاسق کی خبر سے اعراض
وہ شخص جو فسق و فجور کی طرف راغب ہو اور جس کا مزاج صلح پسندی کی بجائے شرارت پسندی کا ہو ت و ایس ے
شخص کی خبر پر دھیان نہیں دینا چاہئے ،جب تک کہ اس کی خبر کی تائید و تصدیق مصدقہ ذرائع سے نہ ہوجائے۔ اس
لیے کہ ایسے شخص کی خبر اپنے اندر شرمساری و خجالت کے ہزاروں امکانات لیے ہوئے ہوتی ہے۔ اس بنا پر فاس ق
کی خبر ہمیشہ غیر معتبر اور غیر مستند رہی ہے۔ اس حقیقت کو قرآن مجید نے یوں بیان کیا:
ص ْیبُوْ ا قَوْ ًمام بِ َجهَالَ ٍة فَتُصْ بِحُوْ ا ع َٰلی َما فَ َع ْلتُ ْم ٰن ِد ِم ْینَ . ٰیٓـاَیُّهَا الَّ ِذ ْینَ ٰا َمنُ ْٓوا اِ ْن َجآَئ ُک ْم فَ ِ
اسقٌم بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُ ْٓوا اَ ْن تُ ِ
’’اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق (شخص) کوئی خبر الئے تو خ وب تحقی ق کرلی ا ک رو (ایس ا نہ ہ و) کہ تم
کسی قوم کو العلمی میں (ناحق) تکلیف پہنچا بیٹھو ،پھر تم اپنے کیے پر پچھتاتے رہ جاؤ‘‘۔
(الحجرات)6 :49 ،
ت کریمہ ک و ہم اپ نے عص ری
یہ آیت کریمہ میڈیا کے کردار کے حوالے سے بنیادی راہنمائی فراہم کرتی ہے۔ اگر اس آی ِ
ابالغی کرداروں پر منطبق کریں تو راہنمائی کا ایک بہت بڑا ذریعہ میسر آتا ہے۔ ہمارے سامنے ظ اہر ہ ونے واال مخ بر
کردار کذب کا غلبہ رکھتا ہے تو ایسا شخص ’’فاسق‘‘ کہالئے گا لہٰ ذا اب وہ جو نئی خبر دے رہا ہے ،اس
ِ اگر اپنے اندر
خبر کو کریدنا اور تفتیش حال کرنا ،اس کا کھوج لگانا اور اس کی حقیقت ک و جانن ا ض روری ہے۔ اگ ر اس کی خ بر ک و
اس عمل میں نہ ڈھاال گیا تو پھر العلمی اور بے خبری کی بنا پر نقصان کا خطرہ اور ندامت کا اندیش ہ ض رور ہے۔ اس
لیے میڈیا کی وہی خبر معتبر اور مستند ہے جو چھان بین اور تفتیش و تحقیق کے عمل س ے گ زر ک ر آئی ہے۔ جہ اں یہ
عمل نہیں ہوتا وہاں نقصان و خسارہ کا اندیشہ بہت زیادہ ہوجاتا ہے۔
اصالح معاشرہ
ِ 3۔ میڈیا اور
میڈیا کی سب سے بڑی ذمہ داری معاش رے کی ت رقی اور اص الح ہے۔ معاش رتی اور انس انی اق دار ک ا تحف ظ اور ان ک ا
شعور دینا میڈیا کی ذمہ داری ہے۔ مسلم معاش رے میں ج و ذمہ داری ای ک ای ک ف رد کی ہے ،وہ اجتم اعی ص ورت میں
تعالی ہے:
ٰ میڈیا کی ہے۔ اس ذمہ داری کا ذکر قرآن مجید نے یوں کیا ہے ،ارشاد باری
َواِ ْن طَآِئفَ ٰت ِن ِمنَ ْال ُمْٔو ِمنِ ْینَ ا ْقتَتَلُوْ ا فَاَصْ لِحُوْ ا بَ ْینَهُ َما.
’’اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑائی کریں تو اُن کے درمیان صلح کرادیا کرو‘‘۔
(الحجرات)9 :49 ،
4
تعالی ہے:
ٰ کردار اصالح کو اگلی آیت کریمہ میں یوں واضح کیا ،ارشاد باری
ِ اسی طرح ایک مسلم کے
اِنَّ َما ْال ُمْٔو ِمنُوْ نَ اِ ْخ َوةٌ فَاَصْ لِحُوْ ا بَ ْینَ اَ َخ َو ْی ُک ْم َواتَّقُوا ﷲَ لَ َعلَّ ُک ْم تُرْ َح ُموْ نَ .
اہل ایمان (آپس میں) بھائی ہیں۔ سو تم اپ نے دو بھ ائیوں کے درمی ان ص لح کرای ا ک رو ،اور اﷲ
’’بات یہی ہے کہ (سب) ِ
سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے‘‘۔
(الحجرات)10 :49 ،
جب ایک مسلمان مصلح بنتا ہے تو دوسروں کی ہمدردیاں اپنے ساتھ پاتا ہے ،ان کی نظ روں میں انس انیت ک ا خ یر خ واہ
بنتا ہے اور ان کے دلوں میں عزت و عظمت کا باعث بنتا ہے جبکہ وہی مسلمان جب اس کردار کو ترک کردیتا ہے اور
معاشرے کے لیے ’’مفسد‘‘ بن جاتا ہے تو لوگوں کی نظروں سے گر جاتا ہے۔ اسالمی معاشرہ اسی کردار کو اجتم اعی
صورت میں میڈیا میں دیکھنا چاہتا ہے۔ میڈیا کی ذمہ داری لوگوں کے ذہنوں ک و س نوارنا ہے۔ لوگ وں ت ک غل ط اور بے
بنیاد خبریں پہنچا کر ان کے اذہان کو بگاڑنا میڈیا کی ذمہ داریوں کے برعکس ہے۔ میڈیا کی ذمہ داری ٹھوس حق ائق ک ا
اظہار کرنا ہے جن کے ذریعے لوگوں کی سوچ و فکر ،قول و عمل اور عادت و رویے سنور جائیں۔
4۔ میڈیا ظالم کا نہیں مظلوم کا خیر خواہ ہو
ظالم اپنی قوت کے نشے میں مخمور ہوتا ہے ،اسے اپنی طاقت پر گھمنڈ ہوتا ہے ،وہ اپنے اثر و رسوخ پر ناز کرتا ہے،
خود کو قانون سے باال دست محسوس کرتا ہے ،قانون کو اپنی لونڈی و کنیز کی صورت میں دیکھتا ہے اور اپنی مرضی
کو قانون بناتا ہے۔ یوں ناروا قوت و طاقت کا اظہار کرتے ہوئے کمزور شخص پر ظلم کے پہاڑ گراتا ہے۔
میڈیا کا کردار ظالم کے ظلم کو مٹانا ہے ،ظالم کو اس کے ظلم سے روکنا ہے ،مظلوم کا ساتھ دین ا ہے اور ظ الم ک و بے
دست و پا کرنا ہے۔ حتی کہ ظالم خود اپنے ظلم سے باز آجائے۔ اسی لیے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وآلہ وس لم نے ارش اد
فرمایا:
انصر اخاک ظالما او مظلوما .فقال رجل :یارسول هللا! انصره اذا کان مظلوما ،ارایت ان کان ظالما کیف انصره؟ قال تمنعه
من الظلم فان ذلک نصره.
’’اپنے مسلمان بھائی کی مدد کرو ،خواہ وہ ظالم ہے ،خواہ وہ مظلوم ہے۔ ایک شخص نے عرض کیا :یارس ول ہللا ص لی
ہللا علیہ وآلہ وسلم! اگر وہ مظلوم ہو تب میں اس کی مدد کروں لیکن مجھے یہ بتایئے کہ جب وہ ظالم ہ و ت و َمیں اس کی
مدد کیسے کروں؟ فرمایا :اسے ظلم سے باز رکھو ،کیونکہ یہ بھی اس کی مدد ہے‘‘۔
(صحیح بخاری ،کتاب االکراه ،باب یمین الرجل لصاحبه ،ج ،6 :ص ،255 :رقم)6552 :
اگر آج معاشرے کی سب سے بڑی طاقتور آواز اور معاشرے کی سب سے بڑی قوت میڈیا مظلوم کا س اتھی نہ ب نے اور
مظلوم کے ساتھ کھڑا نہ ہو ،بلکہ ظالم کا ساتھ دے اور اس کے ظلم سے مرعوب ہوج ائے ،اس کے حرب وں اور حمل وں
سے ڈر جائے ،اس کے خالف آواز بلند نہ کرے اور اس کے خالف کسی بھی صدائے احتجاج کو منظ ِر ع ام پ ر نہ آنے
دے تو ایسی صورت میں میڈیا اپنے بنیادی فرض کو ترک کرکے ظالم کا ساتھی بن جائے گا ،جس کے باعث لوگ وں ک ا
اس سے اعتماد اٹھ جائے گا۔
5
میڈیا کا کام حق کو سربلند کرنا اور باطل کو سرنگوں کرنا ہے مگ ر اس عم ل میں بہت محت اط ہ ونے کی ض رورت ہے
تاکہ کوئی غلط فیصلہ نہ کیا جاسکے۔
5۔ میڈیا کی ذمہ داری ،کردار کشی اور پگڑی اچھالنا نہیں
میڈیا پر لوگ اعتبار ک رتے ہیں ،اس کی دی ج انے والی معلوم ات پ ر بھروس ہ ک رتے ہیں ،اس ے مص دقہ اور ثقہ خی ال
کرتے ہیں۔ ل ٰہذا میڈیا کی خبروں میں کسی قسم کا شک و ریب نہیں ہونا چاہئے۔ می ڈیا ک ا ک ام یہ ہرگ ز نہیں کہ وہ لوگ وں
کی تضحیک کرے ،ان کا تمسخر اور استہزاء اڑائے ،ان کی ک ردار کش ی ک رے اور ان کی پگڑی اں اچھ الے اور ان پ ر
طعنہ زنی کرے۔
غرضیکہ ہر منفی کام ،میڈیا کا اپنی ذمہ داریوں س ے تج اوز ہے اور ہ ر مثبت ک ام می ڈیا کی بنی ادی ذمہ داری ہے۔ منفی
اقدار کا قلع قمع کرنا میڈیا کا فرض اور مثبت تص ورات ک و ف روغ دین ا می ڈیا کی ش ناخت ہے۔ می ڈیا کے اس ک ردار کے
حوالے سے راہنمائی ہمیں قرآن مجید سے یوں میسر آئی ہے:
َس ی اَ ْن یَّ ُک َّن خَ ْی رًا ِّمنهُنَّجَ واَل ت َْل ِم ُز ْٓواَسی اَ ْن یَّ ُکوْ نُ وْ ا َخ ْی رًا ِّم ْنهُ ْم َواَل نِ َس آ ٌء ِّم ْن نِّ َس آ ٍء ع ٰ ٓ
ٰیٓاَیُّهَا الَّ ِذ ْینَ آ َمنُوْ ا اَل یَسْخَرْ قَوْ ٌم ِّم ْن قَوْ ٍم ع ٰ ٓ
ولٓـ ک هُم ٰ
الظّلِ ُموْ نَ . ق بَ ْع َد ااْل ِ ْی َمانِ َ و َم ْن لَّ ْم یَتُبْ فَا ُ ٰ ِئ َ ُ س ااْل ِ ْس ُم ْالفُسُوْ ُ
اَ ْنفُ َس ُک ْم َواَل تَنَابَ ُزوْ ا بِااْل َ ْلقَابِط بِْئ َ
ج
’’اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے وہ لوگ اُن (تمس ُخر کرنے وال وں) س ے بہ تر ہ وں اور
نہ عورتیں ہی دوسری عورتوں کا (مذاق اڑائیں) ممکن ہے وہی عورتیں اُن (مذاق اڑانے والی عورتوں) سے بہتر ہ وں،
اور نہ آپس میں طعنہ زنی اور الزام تراش ی کی ا ک رو اور نہ ای ک دوس رے کے ب رے ن ام رکھ ا ک رو ،کس ی کے ایم ان
(النے) کے بعد اسے فاسق و بدکردار کہنا بہت ہی برا نام ہے ،اور جس نے توبہ نہیں کی سو وہی لوگ ظالم ہیں‘‘۔
(الحجرات)11 :49 ،
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اسالمی معاشرے کا کوئی بھی فرد انفرادی اور اجتماعی ص ورت میں کس ی بھی ش خص ک و
بال وجہ تضحیک و تمسخر کا نشانہ نہ بنائے ،خواہ مخواہ کسی کا استہزاء نہ کیا جائے ،کسی کے کردار کو غیر مص ّدقہ
اطالعات کی بنا پر داغدار نہ کیا جائے ،بے بنیاد الزام تراشی نہ کی جائے ،طعنہ زنی سے اجتناب کیا ج ائے ،کس ی ک و
بے عزت کرنے کا ارتکاب نہ کیا جائے ،اپنی زبان کو شائستہ اور مہذب رکھا ج ائے ،زب ان ک و گ الی گل وچ س ے بچای ا
جائے ،برے القابات اور برے ناموں سے احتراز کیا جائے ،حق کا اظہار کیا جائے اور گناہ اور ظلم کو ہر صورت سے
روکا جائے۔ یہی کردار مسلم معاشرہ اور معاشرتی اداروں کا ہے۔
6۔ میڈیا کسی سازش کا شکار نہ ہو
سازش ہمیشہ بدگمانی اور جھوٹ سے وجود پاتی ہے۔ قرآن مجید میں ہمیں ان دونوں چیزوں سے اجتناب کا حکم دی ا گی ا
تعالی ہے: ٰ ہے ،ارشاد باری
ٰیٓاَیُّهَا الَّ ِذ ْینَ ٰا َمنُوا اجْ تَنِبُوْ ا َکثِ ْیرًا ِّمنَ الظَّنِّ اِ َّن بَع َ
ْض الظَّنِّ اِ ْث ٌم َّواَل تَ َج َّسسُوْ ا.
’’اے ایمان والو! زیادہ تر گمانوں سے بچا کرو بے شک بعض گمان (ایسے) گناہ ہوتے ہیں (جن پر اُخ روی س زا واجب
ہوتی ہے) اور (کسی کے عیبوں اور رازوں کی) جستجو نہ کیا کرو‘‘۔
(الحجرات)12 :49 ،
6
سازش کی بنیاد ظن اور تجسس ہے۔ بدگمانی اور عیب ج وئی ک ا عم ل انس ان میں مسلس ل بڑھت ا رہت ا ہے ،یہ اں ت ک کہ
انسان ،حدود و قیود کو بھی بھول جاتا ہے۔ رازوں کی جس تجو اور دوس روں کے عیب وں س ے آگہی کی ت ڑپ نہ ص رف
انسان کو رسوا کردیتی ہے بلکہ دشمنی و عداوت کی بنی ادوں ک و مس تحکم ک رتی ہے اور نف رت و ک دورت کے االؤ ک و
بھڑکاتی ہے۔ اس عمل میں جھوٹ کی آمیزش ہوجائے تو سازش اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہے۔ جھوٹ خواہ کسی ف رد کی
زندگی میں آئے یا کسی ادارے و شعبے کی شناخت میں آئے ،اس کا انجام تباہی و بربادی ہے۔ جھوٹ نہ ہللا کو پس ند ہے
تعالی ہے:
ٰ اور نہ ہللا کی مخلوق کو۔ اسی لیے جھوٹے شخص پر لعنت بھیجی گئی ہے۔ اس ضمن میں ارشاد باری
فَنَجْ َعلْ لَّ ْعنَتَ ﷲِ َعلَی ْال ٰک ِذبِ ْینَ .
’’جھوٹوں پر ہللا کی لعنت بھیجتے ہیں‘‘۔
(آل عمران)61 :3 ،
میڈیا اگر جھوٹ جیسی اخالقی برائی کو اپنی صفوں سے دور کرلے تو اس ے معاش رے میں وہ وقعت اور عظمت میس ر
آسکتی ہے جو اس کی پہچان ہے اور جو اس کا حق ہے۔
ANS 03
خبر ،)news( کوئی بھی نئی معلومات یا حالیہ واقعات کی معلومات ہیں ج و ع ام ط ور پ ر خبررس اں اِدار ےپیش ک رتے
ہیں
خبر کی دنیا بہت وسیع ہے اور اسی ل یے اس ی نس بت س ے اس کی تعریف ات بھی بہت وس عت ہے۔ بس ااوقات یہ تع ریفیں
ایک دوسرے کے متضاد نظر آتی ہیں لیکن دراصل ی خبر کو دیکھنے کا زاویہ ہے جہاں سے تعریف مرتب کرنے واال
خبر کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر خبر کی چند ایک معروف تعریفیں مندرجہ ذیل ہیں
خلیل ہللا فراز کہتا ہے۔ خبر ایسا جملہ ہوت ا ہے جس ک ا ک وئی منش ا ہے ،اور اس جملہ کے بع د ای ک انش ائیہ جملہ ب نے۔
جیسے ؛ کسی نے خبر دی "آپ کی سائیکل کا ٹائر پنکچر ہے" انشا یہ بنا کہ پنکچر بنوالو۔
اب آج کل یہ جو میڈیا میں خبریں چل رہی ہیں کہ "فالں جگہ تین لوگ مر گ ئے" اس ط رح کی خ بریں در اص ل خ بریں
نہیں ہوتیں۔ یہ ذہنی ٹارچر ہوتا ہے۔
امریکی صحافی اینڈرسن ڈانا کے مطابق ’اگر کتا انسان کو کاٹے ت و یہ خ بر نہیں لیکن اگ ر انس ان ک تے ک و
7
کینیڈین ماہر ابالغیات کے مطابق ’ حقیقی خبر کوئی بدخبری ہی ہوتی ہے‘.
امریکی پبلشر ایل گراہم کے مطابق’ خبر تاریخ کا پہال مسود ہ ہوتا ہے‘
ول ارن ’’ Will Irwinایسا واقعہ جو مانوس اور معمول کی دنیا کے متعلق قاری کے تصور سے مختلف
بنی نوع انسان کی ایسی سرگرمیوں کےمتعلق ہوتی ہے جو قارئین یا سامعین کے لیے دلچسپی ،تف ریح ی ا معولم ات
کا موجب ہوں،،۔
ولیم ایف بروکس خبر کو اس انداز سے بیان کرتے ہیں کہ ’’ خبر دراصل غیر متوقع کا مترادف ہے ،،
ویلکم سٹیڈ کے مطابق ’’ ہر وہ چیز جو غیر معمولی اور انوکھی ہو خبر کہالتی ہے ،،۔
امریکی صحافی فراسٹر بانڈ کے مطابق’’ کوئی واقعہ خبر نہیں اس کا بیان خبر ہے ،،
فن ادارت میں خبر کی تعریف یوں کرتے ہیں ۔’’ ہر وہ واقعہ خ بر ہے
ڈاکٹر مسکین علی حجازی اپنی کتاب ِ
جو درست ہو۔ لوگوں کے لیے دلچسی کا باعث ہو جس کے متعلق لوگ جاننا اور اخبار نویس بتانا چاہیے۔
آکسفورڈ لغت(انگریزی) میں خبر ’’ نئی اطالع ،تازہ واقعات کی رپورٹ کو کہتے ہیں۔
حالیہ واقعات سے متعلق ایسی قابل ذکر نوموصولہ اطالع کو خبر کہتے ہیں جو نشرو اشاعت س ے وابس تہ کس ی ادارے
کی جانب سے جاری کی گئی ہو۔
ANS 04
صحافت کا وجود قدیم دور میں بھی الہ ام کی ص ورت میں موج ود تھ ا ،لیکن الہ ام س ے اخب ار ک ا س فرطے ک رنے میں
صحافت کو ہزاروں سال کا عرصہ لگا ۔ اس عرصے میں کرہ ارض نے ک ئی عظیم الش ان ت اریخی تب دیلیا ں دیکھیں جن
کی خبر ٓانے والے زمانے کے لوگوں کے لیے مختلف ذرائع سے محفوظ کی گئی۔ ٓاج کی ہر لمحہ بدلتی دنی ا نے گزش تہ
چند سالوں میں صحافت کا انداز بھی تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ اخبار س ے ری ڈیو ،پھ ر ٹی وی اور اس کے بع د ٓان الئن
جرنلزم کا سفر محض چند سالوں میں طے ہوگیا اور ٓاج ہم ذرائع ابالغ کے تیز ترین دور میں سانس لے رہے ہیں۔ ایسے
میں ضرورت اس امر کی ہے جہاں ہر شخص ’خ بر‘ جانن ا‘ چاہت ا ہے اور سوش ل می ڈیا کے ذریعے خ بر کی ترس یل و
ترویج میں حصے دار بھی بننا چاہتا ہے ،ایک ایسی کتاب کی شدت س ے ض رورت محس وس ہ ورہی تھی ج و ص حافت
کےطالب علموں کے لیے بالخصوص اور خبر میں دلچسپی رکھنے والے افراد کے لیے بالعموم ایک اہم ماخذ ثابت ہو۔
یی خ ان کے
صحافت میں ادب و آداب کا مسئلہ اپنی موجودہ شکل و صورت میں نیا ہے ،لیکن درحقیقت اس ک ا آغ از یح ٰ
زمانے سے ہو گیا تھا جب ملکی سیاست نظریاتی بنیادوں پر تقسیم ہو گ ئی تھی۔ ایس ے میں ب ائیں ب ازو کی ص حافت نے
عروج پکڑا اور بائیں بازو کی یہ صحافت اکثر و بیشتر اخالقی اعتبار سے س والیہ نش ان تھی۔ آغ از موالن ا ک وثر نی ازی
کے رسالے شہاب نے کیا ،جس کے متعلق کسی نے کہا تھا کہ اگ ر اس خب ار س ے گالی اں ح ذف ک ر دی ج ائیں ت و پھ ر
پیشانی کے سوا کچھ نہیں بچے گ ا کہ یہ رس الے میں واح د لف ظ ہے ج و گ الی نہیں ہے۔ ش ہاب کے بع د ب ائیں ب ازو کے
8
دوسرے اخبار اور رسالے بھی گالی نامہ بنتے چلے گئے۔ 1971ء میں ملک ٹوٹ نے اور پھ ر مغ ربی پاکس تان کے ب اقی
ماندہ پاکستان بن جانے کے بعد یہاں بھٹو صاحب کی حکومت آ گئی۔ دائیں بازو کے اخبارات پر سخت پابندیاں لگ گ ئیں
اور بائیں بازو کی صحافت مرجھانے لگی۔ چنانچہ عوامی سطح پر مقابلے کی فضا ختم ہونے سے گالم گلوچ کم ہو گئی،
لیکن سرکاری اخبارات کے سرکاری دانشور اپوزیشن کے لئے غیر اخالقی زبان استعمال کرتے رہے۔ خاص طور س ے
پاکستان ٹائمز اور امروز کی زبان سخت قابل اعتراض ہو گئی تھی۔ چن انچہ ای ک م رتبہ پ ارلیمنٹ میں این اے پی (نیپ)
کے رہنماؤں کو پاکستان ٹائمز کے کالم نگار جس کا نام برکی تھا کی زبان کا نوٹس لینا پڑا اور اسے ’’بارکنگ ب رکی‘‘
کا خطاب دیا۔ یہ دور بھٹو صاحب کی حکومت کے ساتھ ہی ختم ہو گیا۔ ضیاء الحق کے دس گیارہ سالہ دور حکومت کے
بعد جمہوریت کی جزوی بحالی ہوئی تو ملک پھر دو سیاسی کیمپوں میں بٹ گیا اور سیاس ی کش یدگی س ٹیج پ ر بدتہ ذیبی
کی شکل میں ابھری ،بعض سیاسی رہنما گالم گلوچ کے عنوان میں بہت نامور ہوئے جن میں شیخ رشید کا نام سرفہرست
ہے۔ پھر زمانہ بدل گیا اگرچہ شیخ صاحب کی روایت پسندی نہیں بدلی اور وہ آج بھی اپنی وضع پر قائم ہیں تاہم زیادہ تر
دوسرے سیاست دانوں نے اخالق کی پاسداری ک ا مظ اہرہ کی ا۔ اس دور میں سیاس ی می دان میں ہ ونے والی بدتہ ذیبی نے
صحافت کو زیادہ متاثر نہیں کیا۔ صحافت سے مراد پرنٹ می ڈیا ہے ،کی ونکہ الیکٹران ک می ڈیا اس دور میں تھ ا ہی نہیں۔
صرف سرکاری ٹی وی تھا جو سیاست سے کافی حد تک دور تھا۔
اخالقیات کا موجودہ بحران مشرف کے آخ ری دن وں میں ش روع ہ وا جب ع دلیہ کی آزادی کی تحری ک چلی اور ٹی وی
چینلز پر مباحثوں کی بھرمار ہو گئی۔ ریکارڈ بتاتا ہے کہ بدتہذیبی کے زیادہ تر مظ اہرے مش رف کے ح امی دانش وروں
کی طرف سے ہوئے۔ بہرحال اس وقت ٹی وی چینل اتنے زیادہ نہیں تھے جتنے اب ہیں اور پھر جوں ج وں ان کی تع داد
بڑھتی گئی بدتہذیبی کے ’’ مقابلہ ہائے حسن‘‘ بھی بڑھتے گئے اور بدقسمتی سے اس ک ا ای ک گہ را تعل ق پروگرام وں
کی ریٹنگ سے ہو گیا جس کا مطلب تھا زیادہ اشتہارات ،چنانچہ میڈیا مالکان جن پر تہذیب کا پاس بان ہ ونے ک ا انحص ار
تھا بدتہذیبی کی نا صرف حوصلہ افزائی کرنے لگے ،بلکہ اپنے اینکرز سے اصرار کرنے لگے کہ پروگرام زیادہ س ے
زیادہ گرم کرو ،بس پھر کپڑے اتارنے کی دوڑ شروع ہو گئی۔ اینکرز حضرات نے مہمانوں کی فہرست اس ی’’م یرٹ‘‘
سے بنانا شروع کر دی اور صرف ایسے حضرات کو بالنے کی پالیسی بن گئی جو ٹاک شو میں گرم ا گ رمی کے م اہر
ہوں اور پھر یہ بھی دیکھا کہ اگر مہمانوں نے مطلوبہ بدتہذیبی کا مظاہرہ نہیں کیا یا کم کی ا ت و اینک رز نے انہیں اش تعال
دالنے کی واضح طور پر نظر آنے والی حکمت عملی اختیار کی اور ایسے بہت س ے ش و ہ ونے لگے ،جن میں حری ف
نقطہ نظر کے لوگ زبان کے ساتھ ساتھ بگڑے ہوئے ’’دہن ‘‘کی تصویر بن گ ئے۔ یہ آص ف علی زرداری کی ص دارت
کا دور تھا جو ختم ہوا تو سیاس تدانوں میں ای ک قس م کی مف اہمتی اور برداش ت کی پالیس ی راہ پ ا چکی تھی لیکن اس ک ا
عکس ٹی وی پ ر نظ ر نہیں آت ا تھ ا۔ اس ل ئے کہ ٹی وی کے اینک ر حض رات’’ منتخب روزگ ار‘‘ قس م کے کوت اہ عق ل
اورزبان دراز فنکاروں ہی کو زیادہ بالتے تھے۔ اسی عرصے میں عمران خان کی ش کل میں آس مان سیاس ت س ے ای ک
شوخ ستارہ طلوع ہو چکا تھا جس کے جلو میں ممی ڈیڈی گروپ کے وہ ہ زاروں الکھ وں نوج وان تھے ج و کھ انے ک و
بھی SHITبولتے ہیں۔ چنانچہ بدتہذیبی اور بے ہودہ زبان کا ایک سونامی جلسہ گاہوں سے اٹھا اور ٹی وی چینلوں کے
9
سٹوڈیوز کو بھی بہاکرلے گیا۔ گالیوں کے ایسے ایسے نمونے ٹی وی کی سکرینز پ ر پیش ہ وئے کہ معاش رت کی ش کل
ہی بدل گئی۔
یہ الیکٹرانک میڈیا کی صورتحال ہوئی،اخبارات بھی غیر متاثر نہیں رہے۔ اگرچہ اخبارات میں لکھنے والوں کی اکثریت
پرانی ہونے کی وجہ سے شاید تہذیب اور شائستگی کا دامن نہ چھوڑ سکی لیکن پھ ر بھی ای ک خاص ی قاب ل ذک ر تع داد
دشنام نگاروں کی ان میں موجود ہے۔ان میں سے چند ایک تو وہ ہیں جو بھٹو دور سے اپنے فن کا مظ اہرہ ک رتے آرہے
ہیں ،لیکن زیادہ تر نئے دور کی پیداوار ہیں اور ان میں واضح اکثریت وہ ہے جو مش رف کے دور میں ع دالتی تحری ک
کے دوران مشرف کی وکالت سے نامور ہوئی۔ آج یہ حض رات مش رف کی وک الت ت و نہیں ک رتے ،لیکن جمہ وریت اور
سیاستدانوں کے لتے لیتے ہیں۔ ان حضرات کے نزدی ک ’’آزادئ ص حافت ‘‘ک ا مطلب سیاس تدانوں کی ک ردار کش ی ہے
اور کردار کشی کی اس مہم میں یہ لوگ اپنی بے کرداری عیاں کرتے چلے آرہے ہیں۔ کم و بیش یہ سارے ہی ل برل ازم
کے علمبردار ہیں اور پاکستان میں لبرل ازم کے معنی وہ نہیں ہیں جو مغرب میں ہیں۔ یہاں لبرل ازم کے معنی اخالقیات
کا لبادہ تار تار کرنے کے ہیں۔ایک ایسے ہی لبرل بزرگ کالم نویس اپنے کالم میں ہم جنس پرستی کو ’’نافذ‘‘ ک رنے ک ا
مطالبہ بھی کرتے رہے۔ یہ لبرل حضرات مخالفوں کو برداشت کرنے کی سوچ نہیں رکھتے ان کی خ واہش ہ وتی ہے کہ
مخالفوں کو زن بچے سمیت کولہو میں پلوا دیا جائے اور جب یہ خواہش پوری نہیں ہوتی تو دشنام ک ا طوف ان ان کے منہ
اور قلم سے ابل پڑتا ہے۔
اس بحث ک ا ای ک نکتہ یہ بھی ہے کہ سیاس ت میں اچان ک در آنے والی گ الم گل وچ کی گ رم ب ازاری والی جم اعت نے
الیکٹرانک میڈیا اور کالم نویسی میں پائی جانے والی بدتہذیبی کو فروغ دینے میں ایک اہم عامل کا کردار ادا کیا ہے اور
یہ بات خاص طور سے نوٹ کرنے کی ہے کہ زیادہ تر بدتہ ذیبی ک ا ارتک اب ک رنے والے دانش وروں کی دانش ک ا منب ع
کچھ مخصوص طاقتی مراکز ہیں۔ دھرنے کے دوران ہر طرح کی مہم انہی مراک ز س ے کن ٹرول ہ وتی تھی۔بدتہ ذیبی ک ا
ایک اور پہلو طبقاتی بھی ہے۔ پرنٹ میڈیا میں زیادہ تر مڈل اور لوئر کالس کے لوگ ہیں ،کم سے کم اردو ص حافت میں
ایسا ہی ہے لیکن ٹی وی چینلز پر ’’برگر کالس‘‘ کا غلبہ ہے ،جس نے ان تعلیمی اداروں س ے تعلیم اور ت ربیت حاص ل
کی ہے جہاں اخالقیات کا لفظ ہی اجنبی ہے ،چنانچہ یہ لوگ صحافت کی حدود و قیود سے کیا واقف ہ وتے ،ج و منہ میں
آیا اسے اگل دینے کو ہی دانش سمجھتے ہیں ،چن انچہ یہ ذمہ داری می ڈیا مالک ان اور ص حافتی اداروں کی ہے کہ وہ اس
کالس سے آئے ہوئے ان گھڑ صحافیوں کو پہلے ابتدائی اخالقی اور قانونی تربیت دیں پھر ان سے کام لیں۔
ANS 05
جھوٹی خبروں کو پھیالنا ،ان سے معاشرے میں اضطراب پیدا کرنا اور ان سے ذاتی و معاشی فائدے حاص ل ک رنے کی
تاریخ بہت قدیم ہے۔ انسان کب سے جھوٹی خبروں کا شکار ہے اس حقیقت کو جاننے کے لیے ہمیں ہزاروں س ال پ رانی
انسانی تاریخ میں جھانکنا ہو گا۔
اگر ہم قدیم زمانے کی بات کریں تو پہلی صدی قبل مسیح میں مشہور زم انہ رومن سیاس تدان اور ج زل م ارک انٹ نی کی
خودکشی کی وجہ ایک جھوٹی خبر ہی تھی۔ دوسری اور تیسری صدی عیسوی میں عیسائیوں کے خالف جھ وٹی خ بریں
پھیالئی گئیں کہ عیسائی آدم خوری کے عادی ہیں اور اس کے عالوہ ماں باپ بچوں کے ساتھ اور بھائی بہنوں کے س اتھ
10
شادی کرتے ہیں۔ بغیر تصدیق کیے یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی گئی جس نے عیسائیت کو ناقاب ل تالفی نقص ان
پہنچایا۔
1475میں جھوٹی خبر پھیالئی گئی کہ یہودی کمیونٹی نے سائمن نامی ڈھائی سال کے عیسائی بچے کو قتل کر دی ا ہے۔
اس خبر کے نتیجے میں شہر کے سارے یہودیوں کوگرفتار کیا گیا ،تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پندرہ یہودیوں کوزندہ جال
دیا گیا۔ پوپ نے جب مداخلت کی کوشش کی تو پلوں کے نیچے س ے ک افی پ انی گ زر چک ا تھ ا اور مع امالت ق ابو کرن ا
ناممکن ہو گیا تھا۔
1439میں پرنٹنگ پریس کی ایجاد کے بعد خبروں کی باقاعدہ اشاعت کا آغاز ہ وا۔ اس وقت ص حافت کے ک وئی اص ول
اور ض ابطے طے نہیں ک یے گ ئے تھے۔ 1610میں مش ہور زم انہ گلیلی و کے ٹرائ ل کے دوران خ بر اور ثبوت وں کی
تصدیق پر بہت زور دیا گیا۔ سترہویں صدی میں تاریخ دانوں نے خبر کے ساتھ ذرائع کا حوالہ دینا ش روع کی ا۔ اٹھ ارویں
صدی کے دوران پہلی مرتبہ نیدر لینڈ میں جھ وٹی خ بر دی نے وال وں اور چھ اپنے وال وں کے ل یے جرم انے اور بن دش
جیسی سزأوں کا تعین کیا گیا۔ ڈچ حکومت نے جھوٹی خبر دینے پر جیرارڈ نامی شخص کو چار مرتبہ سزا دی ،پرنٹن گ
پریس بند کیا اور اسے چاروں مرتبہ نیا پرنٹنگ پریس شروع کرنا پڑا۔
اٹھارویں صدی میں ”دی سن“ نامی نیویارک اخبار نے ”گریٹ مون ہوکس“ کے نام سے ای ک جھ وٹی کہ انی ش ائع کی۔
اس میں مختلف تصویریں شائع کی گئیں جن میں انسان نما جانور کو چاند پر پروں کے ساتھ اڑتا ہ وا دکھای ا گی ا تھ ا۔ اس
ٰ
دعوی کیا گیا تھا کہ جارن ہارشل نامی خال باز نے چاند پر نئی تہذیب اور دنیا دیکھی ہے۔ اس کہانی کے چھ آرٹیکل میں
شائع ہوئے جس نے اس اخبار کی فروخت میں ڈرامائی اضافہ کیا لیکن جب ایک ماہ بعد ق ارئین ک وعلم ہ وا کہ یہ کہ انی
جھوٹ پر مبنی ہے تو اخبار کو بہت برے عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑا اور جرمانہ بھی کیا گیا۔
انیسویں صدی میں جوزف پولٹزر اور ولیم رن ڈولف نے زرد ص حافت ک و ع روج بخش ا۔ یہ دون وں اخب ارات کے مال ک
تھے۔ اخبارات کی فروخت بڑھانے کے لیے انھوں نے سنسنی خیز اور جھوٹ پ ر مب نی خ بریں ش ائع کرن ا ش روع کیں۔
اخبارات کی فروخت بڑھی لیکن ان جھوٹی خبروں نے امریکہ ک و اس پین ام ریکہ جن گ میں دھکی ل دی ا۔ اس جن گ کے
نتیجے میں 18150لوگوں کی موت ہوئی اور 2445لوگوں زخمی ہوئے۔
بیسویں صدی میں پہلی جن گ عظیم کے دوران برط انیہ کے ا ن ٹیلی جنس کے آرمی چی ف ج ان چ ارٹرز نے چ ائنہ ک و
جرمنی سے بدظن کرنے کے لیے جرمن محالف جھوٹی کہانی شائع کروائی۔ جس میں کہا گیا کہ جرمن فیکٹری اں جن گ
کے دوران مر جانے والے فوجیوں اور عوام کی الشوں کو صابن ،گلیسرین ،جوتے اور روز مرہ کی دیگ ر اش یا بن انے
کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ اس کہانی سے جرمن ایکسپورٹ کو ش دیددھچکا لگ ا اور ج رمن معیش یت تب اہی کے دہ انے
تک پہنچ گئی۔
اوپر بیان کیے گئے حقائق ماضی میں پھیالئی جانے والی اور ش ا ئ ع ہ ونے والی جھ وٹی خ بروں کی ای ک جھل ک ہے۔
جنھوں نے تاریخ کا رخ موڑ دیا اورانسانی اور صحافتی بربریت کی ب دترین مث الیں ق ا ئم ہ وئیں۔ لیکن اہم ب ات یہ ہے کہ
ہزاروں سالوں کی جھوٹی خبروں کی تاریخ کے باوجود ہم اس بیماری سے جان نہیں چھڑا پائے اور اکسویں ص دی میں
11
بھی جھوٹی اور غیر مصدقہ خبروں کے جال میں جکڑے ہوئے ہیں۔ اکیسویں ص دی میں خ بر ک ا اث ر ماض ی کی نس بت
سب سے زیادہ ہے۔
12