You are on page 1of 21

‫اصول صحافت ‪l -‬‬

‫)‪(5623‬‬
‫طالبہ ۔ تہمینہ شہزادی‬
‫پروگرام ۔ ایم اے اردو‬
‫ر‬
‫سمسٹ خزاں‬
‫(‪)2022‬‬
‫ر‬
‫یونیورسٹ اسالم آباد‬ ‫عالمہ اقبال اوپن‬
‫مشق نمٹ ‪01‬‬

‫سوال نمٹ ‪1‬‬

‫اسالم کا نظریہ صحافت کیا ےہ؟ صحافت یک اہمیت اور مقاصد پر تفصییل نوٹ تحریر کریں۔‬
‫ٓ‬ ‫ٓ‬
‫صحافت یا جرنلزم حقائق س راست طور پر اگایہ کا نام ےہ۔صحافت کا انسان زندگ س چویل دامن کا ساتھ ےہ۔اج ےک‬
‫اس برق رفتار دور میںذرائع ابالغ انسان زندگ می ایک الزیم حصہ گ حیثیت رکھتا ےہ۔یہ ہماری زندگ می ایک ضورت‬
‫سکت۔یہ صحافت گ یہ کرشمہ‬ ‫گ شکل می شامل ہوچکا ہ۔انسان زندگ ےک تمام حواس اس س متاثر ہوئ بغی نہی رہ ے‬
‫ے‬
‫ے‬
‫خیپوری دنیا می پھیل جان ےہ۔اور عمل اور رد عمل کا سلسلہ‬ ‫ے‬
‫جھپکت یہ کیس واقعہ یا حادث گ ر‬ ‫سازی ےہ کہ پلک‬
‫ٓ‬
‫مسلسل چل پڑتا ہ۔اپن اس متاثر کن خاصیت ےک سبب صحافت اج جمہوری نظام می چوتھے ستون کا درجہ ر ے‬
‫کھن‬ ‫ے‬
‫ےہ۔واقعات یا حقائق جانت کا نام صحافت ےہ۔سچان اور انکشافات کا پتہ لگانا یہ صحافت ےہ۔عوام کو سچان اور تمام‬
‫واقعات س باخی رکھنا صحافت ہ۔سچان پر یہ صحافت گ تعمی ے‬
‫ہون ےہ۔ وہ لفظ جےس ہم زبان اردو می ’’صحافت‬ ‫ے‬ ‫ر‬
‫عرن زبان ےک لفظ ’’صحیفہ ‘‘س ماخوذ ےہ۔جس ےک لغوی معن صفحہ‪،‬کتاب‪،‬رسالہ‪،‬ورق ےک ہی۔اپت‬ ‫ے‬
‫کہت ہی در اصل ر‬
‫عرن معن می جریدہ اور اخبار بیھ لفظ صحیفہ‬
‫وقت مقررہ پر شائع ہوئ واال مطبوعہ مواد بیھ صحیفہ ےہ۔لہذاجدید ر‬
‫ہون ہ ْانہی صحاف ے‬
‫کہت ہی اور‬ ‫س مستعار ہ۔اخبار و رسائل کو ترتیب دیت اور مزین کرئ می جن لوگوں گ شمولیت ے‬
‫ے‬ ‫ے‬
‫کہا جاتا ےہ ‪ Journalist‬اور اس پیشہ س وابستہ افراد کو ‪ Journalism‬اس پیےس کو صحافت۔انگریزی می صحافت کو‬
‫۔صحافت گ تعریف کا جہاں تک معاملہ ےہ مختلف ماہرین ث مختلف انداز و مختلف پیائ می صحافت گ تعریف و‬
‫تشی ح گ ےہ۔لیکن سب کا ماحصل ایک یہ ےہ۔‬

‫ٓ‬
‫خیوں س اگاہ کیا جاث ۔عرص حاض ےک ’’‬
‫صحافت ایک عظیم مشن ےہ۔اس کا مقصد یہ ےہ کہ لوگوں کو تازہ ترین ر‬
‫واقعات گ تشی ح گ جاث اور ان کا پس منظر واضح کیا جاث تاکہ رائ عامہ گ تشکیل کا راستہ صاف ہو۔صحافت رائ‬
‫دین ےہ۔عوام گ خدمت اس‬ ‫ے‬
‫ہون ہ۔اور رائ عامہ گ رہنمان ےک فرائض بیھ رس انجام ے‬ ‫عامہ گ ترجمان اور عکاس بیھ‬
‫ے‬
‫‘‘کا مقصد فرض ہ۔اس لت صحافت معارسے ےک ایک اہم ادارے گ حیثیت ر ے‬
‫کھن ےہ۔‬ ‫ے‬

‫صحافت کا مقصد‪:‬‬

‫صحافت بنیادی طور پر فن ابالغ ےہ۔صحافت ابالغ کا وہ مستند ذریعہ ےہ جو عوام کو حاالت اور واقعات کا شعور‬
‫بخشتا ےہ۔صحافت کا اصل مقصد دنیا می رونما ہوئ وال واقعات اور حاالت گ تازہ ترین صورت حال س عوام کو واقف‬
‫کروانا اور ان واقعات گ پیش کش می صداقت اور راست بازی س کام لینا ےہ۔رائ عامہ کو ہموار کرنا بیھ صحافت کا‬
‫ایک اہم مقصد ےہ۔کیونکہ جب تک عوام می شعور پیدا نہی ہوتا اس وقت تک رائ عامہ گ تشکیل ممکن نہی۔عوام‬
‫می غور و فکر گ صالحیت پیدا کرنا ‪،‬ان ےک دلوں می اخبار گ عزت و عظمت قائم کرنا ‪،‬ان ےک خیاالت و احساسات گ‬

‫‪Page 2 of 21‬‬
‫ر‬
‫سماج ادارہ‬ ‫سماج خدمت اور اخبار ایک‬‫ر‬ ‫ترجمان کرنا یہ تمام صحافت ےک فرائض می شامل ہی۔صحافت ایک‬
‫ٓ‬ ‫ٓ‬
‫ےہ۔سماج کو ائینہ دکھاث کا کام صحافت کا ےہ۔سماج گ اچھائیاں اور برائیاں صحافت ےک ذریےع یہ سامت ا ےن ہی۔سماج‬
‫می تبدیل پیدا کرئ ےک عالوہ قارئی کو ے‬
‫بہیین تفری ح مہیا کرانا اور اس تفری ح ےک ذریےع ان گ ذہن تربیت کرنا بیھ‬
‫صحافت ےک مقاصد می‬

‫ریڈیو‪:‬‬

‫غٹ معمویل اہمیت حاصل ہ۔دور ر‬ ‫ی‬ ‫ٓ‬


‫می ریڈیو خٹوں کا مستند ذریعہ‬‫حاض ں‬ ‫ے‬ ‫می بیھ ریڈیو کو ں‬‫اج ےک اس ترق یافتہ دور ں‬
‫ام‪،‬موسیق ےک دلچسپ‬‫ی‬ ‫ی‬
‫ثقافٹ پروگر‬ ‫نش کرتا ےہ بلکہ خٹوں پر تبرصے‪،‬تہذیٹ و‬‫تسلیم کیا جاتا ہ۔ریڈیو نہ ضف خٹیں ر‬
‫ے‬
‫می دنیا بھر‬ ‫ر‬
‫پروگرام کا فریضہ بیھ ریڈیو انجام دیتا ےہ۔ریڈیو یہ انیسویں صدی یک ایجاد ےہ۔جس ن بہت یہ قلیل مدت ں‬
‫ہوت ںہی۔جب ےک اخبار‬‫می انقالب برپا کردیا ہ۔ریڈیو کا سب ےس بڑا فائدہ یہ ہ کہ اس ےس نا خواندہ لوگ بیھ مستفید ی‬
‫ے‬ ‫ے‬ ‫ں‬
‫ر‬ ‫ٓ‬ ‫ی‬ ‫ی‬
‫خواندہ لوگ یہ استعمال کرت ںہی۔ریڈیو ذرائع ابالغ کا ایک سستا اور موثر ذریعہ ہ ر‬
‫یعٹ کوئ بیھ سامیع اسائ ےس اےس‬ ‫ے‬
‫ی‬
‫نہی وہاں ریڈیو کام کرتا ےہ۔ہل چالن کسان بیھ گےل‬
‫خرید سکتا ےہ۔دور دراز ےک دیہات جہاں بجیل اور دورسے وسائل موجود ں‬
‫ن دنیا بھر ےک حاالت و واقعات ےس ٓاگایہ حاصل ی‬
‫کرت ںہی۔‬ ‫انسٹ لٹکا ی‬
‫می ٹر ر‬ ‫ں‬

‫ٹییل ویژن‪:‬‬

‫می ٹییل ویژن ایک اہم اور موثر ایجاد ےہ۔سائنیس ایجادات ےک سلسےل یک ایک اہم کڑی ٹییل‬
‫بیسویں صدی یک ایجادات ں‬
‫ویژن ےہ۔ٹییل ویژن کا موجد جان ایل ںبٹڈ ےہ۔ٹییل ویژن یک سب ےس نمایاں خاصیت یہ ےہ کہ ٹییل ویژن پر خٹیں نہ ضف‬
‫جائ ےہ۔اور ییہ وصف اےس دورسوں ےس ممتاز کرتا ےہ۔ٹییل ویژن ےک ذریعہ گھر بیٹھے‬ ‫جائ ہی بلکہ دیکیھ بیھ ی‬
‫سٹ ی‬‫پڑیھ یا ر‬
‫ں‬
‫ٓ‬ ‫شئ زیادہ متاثر ی‬ ‫ہوت واےل واقعات کو دیکھا جاسکتا ہ۔چونکہ دیکیھ ی‬
‫ہوئ ی‬ ‫دنیا بھر می رونما ر‬
‫کرئ ےہ اس ںلئ اج ہر ایک ےک‬ ‫ے‬ ‫ں‬
‫ی‬ ‫ی‬
‫دل و دماغ پر ٹییل ویژن صحافت چھائ ہوئ ےہ اس بات ےس انکا رنہ ںی کیا جاسکتا ۔‬

‫ٓ‬
‫وی یس ار‪:‬‬

‫ٓ‬ ‫ی‬
‫می مقبول و موثر ذریعہ ابالغ تھا۔اب اسیک جگہ‬
‫می وی یس ار کو بیھ اہمیت حاصل ےہ۔فلم جو کیس دور ں‬ ‫برق صحافت ں‬
‫ٓ‬ ‫ٓ ر‬
‫فلمی گھر بیٹھے وی‬
‫وی یس ار ن ےل یل ےہ۔وہ گھرجہاں وی یس ار موجود ےہ۔سنیما گھر کا متبادل بن گیا ےہ۔دنیا بھر یک ں‬
‫یس ٓار ےک ذریعہ دیکیھ جاریہ ہ۔وی یس ٓار یک ایک اہم خوئ یہ ہ کہ اےس ہم ایک جگہ ےس دورسی جگہ بہ ٓا ر‬
‫سائ منتقل‬ ‫ے‬ ‫ے‬
‫ی‬
‫کرسکئ ںہی۔‬

‫ر‬
‫انٹنیٹ‪:‬‬

‫ٓ‬ ‫می انقالب یک حیثیت حاصل ہ ر‬ ‫ی‬ ‫ر‬


‫۔انٹنیٹ ےک ذریعہ ہر کام اتنا اسان ہوگیا ےہ جس کا تصور بیھ‬ ‫ے‬ ‫انٹنیٹ کو برق صحافت ں‬
‫ٓ‬
‫می سب ےس پہےل‬‫نہی کیا جاسکتا ۔جدید ٹکنالوج یک امد ےس اردو صحافت کو بہت فائدہ پہنچا ےہ۔ہندوستان ں‬‫بغٹ ں‬
‫اس ےک ں‬

‫‪Page 3 of 21‬‬
‫ٓ‬
‫تھا۔اج تقربیا اردو ےک تمام اخبارات اپنا ر‬ ‫می اپنا ر‬ ‫ر‬
‫انٹنیٹ‬ ‫انٹنیٹ ایڈیشن شائع کر نا ررسوع کیا‬ ‫روزنامہ سیاست ن سن ‪ ۱۹۹۷‬ں‬
‫۔انٹنیٹ ےک ذریعہ ےس اردو صحافت ےک ںلئ فیس بک اور‬ ‫ایڈیشن شائع کررہ ںہی۔یہ اردو صحافت یک بہت بری کامیائ ہ ر‬
‫ے‬ ‫ے‬
‫ر‬ ‫ی‬ ‫ر‬ ‫ی‬ ‫ر‬ ‫ٓ‬
‫واٹس ایپ کا بیھ استعمال کیا جا رہا ےہ۔جہاں اسائ ےس لوگوں تک رسائ ممکن ہو پاریہ ےہ۔انٹنیٹ پر کٹ لوگوں ن اپنا‬
‫می حصہ بیھ ےل‬ ‫ے‬ ‫ذائ بالگ بیھ بنایا ہ جہاں ٓاپکو خٹیں بیھ مل ی‬ ‫ی‬
‫مباحئ ں‬ ‫جائ ںہی۔اور کیس خاص موضوع پر بحث و‬ ‫ے‬
‫ن تو ن جا نہ ہوگا کہ ر‬ ‫کرسکئ ہی۔اگر ایسا کہا جا ی‬ ‫اپٹ ر ی‬
‫انٹنیٹ اس وقت موثر ترین ذریعہ ابالغ‬ ‫ی ں‬ ‫ات کا اظہار بیھ‬ ‫ی‬
‫سکئ ںہی۔اور ر‬

‫نہی‬ ‫اپن اندر ‪،‬اخبارات ‪،‬میگزین ‪،‬رساےل ‪،‬ریڈیو ‪،‬ٹییل ویژن ‪،‬فلم وغٹہ کوسمیٹ لیا ہ۔دنیا یک ی‬
‫کوئ اییس ں ر‬ ‫ن ر‬‫۔انٹنیٹ ر‬
‫ہ ر‬
‫چٹ ں‬ ‫ے‬ ‫ں‬ ‫ے‬
‫ٓ‬ ‫ر‬ ‫ر‬
‫جو انٹنیٹ پر موجود نہیںہے۔انٹنیٹ یک ایک اہم خوئ یہ بیھ ےہ کہ اس ےک ذریعہ اپ اپنا پیغام خواہ وہ تقریری ہو یا‬
‫انٹنیٹ ےک‬ ‫می اردو صحافت بیھ ر‬ ‫کوت تک پہنچا ی‬‫کوت ر‬ ‫تحریری دنیا ےک ر‬
‫سکئ ںہی۔مخترص یہ کہ اس جدید ٹکنالوج ےک دور ں‬
‫می اہم کردار ادا کرریہ ےہ۔‬ ‫ی‬
‫ذریعہ دورسی زبانوں یک صحافت ےک ساتھ ترق یک راہ پر گامزن ےہ۔اور اردو ےک فروغ ں‬

‫اردو صحافت کا فن‪:‬‬

‫صحافت در اصل ایک دو طرفہ ترسیل عمل ےہ اور اس پر اسیک اساس قائم ےہ۔صحافت کو ابتداء یہ س اطالع رسان‬
‫ر‬
‫۔سماج تبدیل ےک لت رائ عامہ ہموار کرئ می‬ ‫ےک ساتھ ساتھ معارس ےن بیداری کا سب س موثر وسیلہ تصور کیا جاتا ےہ‬
‫ٓ‬
‫سماج مصلحتوں‪،‬سیاس‬ ‫ر‬ ‫صحافت ےک رول کو اساس سمجھا جاتا ےہ۔ییہ سبب ےہ کہ ازادی وطن س قبل ےک متعدد‬
‫لیڈروں‪،‬مفکروں ‪،‬دانشوروںت فرسودہ معارس ےن رسوم ےک خالف عوام می بیداری پیدا کرئ اور غی ملیک تسلط ےک خالف‬
‫ٓ‬
‫صداث احتجاج بلند کرئ ےک لت اخبار و جرائد نکاےل۔ہندوستان گ تحریک ازادی می صحافت کا کردار بہت فعال رہا‬
‫ٓ‬ ‫ٓ‬ ‫ہ۔اردو صحافت نہ ے‬
‫ہون تو شاید ہندوستان گ ازادی کا کو سورج دیکھنا نصیب نہ ہوتا ۔ازادی اور انقالب ےک جذ رث کو‬ ‫ے‬
‫ْ‬
‫بیدا ر کرئ می سب س اہم رول اردو صحافت کا رہا ےہ۔اور زبان کو فروغ دیت می جوخدمات صحافت گ ریہ ےہ اس‬
‫ٓ‬
‫فراموش نہی کیا جاسکتا ۔اج ےک عہد می اردو زبان بہ ذریعہ صحافت عوام تک پہنچ ریہ ےہ۔‬

‫ہوئ ہی جو اسیک رسومیات کہال ے‬


‫ث ہی۔انسان جب س دنیا می س ر‬
‫ماج زندگ‬ ‫دنیا ےک تمام فنون ےک کچھ اصول و ضوابط ے‬

‫۔خیوں گ ترسیل بیھ اس عہد س جاری ےہ۔ابتدا می انسان معلومات گ ترسیل کا کیا معیار تھا یہ اس عہد‬
‫بش کررہا ےہ ر‬
‫خیوں گ‬
‫بخون پتہ چلتا ےہ۔جیےس جیےس انسان متمدن اور مہذب طرز معارست گ طرف بڑھتا رہا ر‬
‫ر‬ ‫مذہن صحیفوں س‬
‫ر‬ ‫ےک‬
‫ترسیل کا مرحلہ بیھ فن لحاظ س مستحکم بنت لگا۔اور دیگر علوم گ طرح اسےک بیھ اپت کچھ اصول و ضوابط تیار کیت‬
‫گت لیکن عہد قدیم می یہ فن عرص حاض گ طرح زندگ کا اہم شعبہء نہی بن سکا تھا۔اسیک بنیادی وجہ ذرائع ابالغ گ‬
‫قلت ےک عالوہ اس فن گ غی فن حیثیت بیھ تیھ۔عہد جدید می صحافت کو باقاعدہ ایک علیم فن تسلیم کیا گیا‬
‫ہ۔ماہرین صحافت ث اس فن کو جدید خطوط پر دنیا ےک سامت پیش کیا۔ہندوستان می اس فن کو انگریزوں ث ے‬
‫ترف‬ ‫ے‬
‫دی۔اور اس کچھ قوانی کا پابند بیھ بنایا۔یہ ویہ قوانی تھے جنیک بناء پر فن صحافت غی مہذبانہ انداز گفتگو س پاک‬
‫ٓ‬
‫ہوتا چال گیا۔حاالنکہ اگ چل کر انگریزوں ث فن صحافت پر قدغن بیھ لگان لیکن بہ حیثیت فن مجموع طور پر‬

‫‪Page 4 of 21‬‬
‫صحافت کا میدان وسیع س وسیع تر ہوتا رہا۔اس ضمن می ے‬
‫محیم محمد شکیل و نادر عل خان ہندوستان پریس ےک‬
‫‪:‬حوال س ے‬
‫لکھت ہی‬

‫ایسٹ انڈیا کمپن ےک وجود س جہاں المتنایہ نقصانات کا سلسلہ رسوع ہوا۔وہی فنون طباعت و صحافت می مفید ’’‬
‫‘‘اضاف بیھ ہوئ چناچہ موجودہ صحافت کا سنگ بنیاد بیھ اس کا رہی منت ےہ۔‬

‫ڈسمی ‪۲۰۱۵‬۔ص۔‪(۲۱‬‬
‫ر‬ ‫)اردو دنیا‬

‫صحافت کا فن علم زبان ےک بغی ادھورا ےہ۔لیکن تصویری صحافت (کارٹون وغیہ )ث اس فن کو زبان کا محتاج تسلیم‬
‫کرئ س انکار کیا ےہ۔ ذیل می فن صحافت گ تفہیم ےک لت چند رسومیات فن صحافت درج ہی۔‬

‫خیی‬
‫حصولیان ےک تمام طریقہء کار س با ر‬
‫ر‬ ‫خیوں گ‬
‫ر‬

‫ذرائع ابالغ س رشتہ‬

‫خیوں گ تفہیم پر ے‬
‫دسیس‬ ‫ر‬

‫ر‬
‫الیکیانیک میڈیا کا شعور‬

‫زبان و بیان پر گرفت‬

‫اس ےک عالوہ بیھ کچھ اور بنیادی عناض ہی جو صحافت ےک فن می صحاف کو امتیازی شناخت کا حامل بنا ے‬
‫ث ہی۔مثال‬
‫ے‬
‫صحافن کو حق گو ہونا چاہت‪،‬نی س رث باک بیھ ہونا چاہت‪،‬صحاف کا صحاف شعور انتہان مستحکم اور پائدار ہونا‬
‫چاہت‪،‬ییہ وہ عناض ہی جو کیس بیھ صحاف کو صحافت ےک میدان می رسفراز اور کامیاب بنا ے‬
‫ث ہی۔‬

‫صحافت یک اہمیت ‪)Importance of Journalism(:‬‬

‫ٓ‬ ‫صحافت کو ر‬
‫غٹ معمویل اہمیت حاصل ےہ۔ صحافت یک قوت در اصل عوام یک قوت ےہ۔اج کا دور ابالغیات‬
‫می ں‬
‫معارسے ں‬
‫می اسیک اہمیت ےک غماز‬ ‫کا دور ہ۔صداقت اور راست بازی صحافت یک وہ بنیادی خصوصیات ںہی جو ر‬
‫معارسے ں‬ ‫ے‬
‫ی‬ ‫ی‬ ‫ر‬
‫ںہی۔صحافت انسائ اقدار ےک تحفظ یک ضامن ہوئ ےہ۔مجبور و مظلوم عوام ےک جذبات یک پیامٹ ہوئ ےہ۔تاری خ گواہ ےہ‬
‫ر‬
‫صحاق ےک نوک قلم ر‬ ‫ْ‬ ‫کہ جب کبیھ سماج می ظلم و ستم ر‬
‫ن ظالم کا رس قلم کرےک رکھ دیا ۔عام طور پر‬ ‫ن رس اٹھایا تو‬ ‫ں‬
‫تعبٹ کیا جاتا ےہ۔(‪ )Journalism is the Fourth pole of Democracy‬کیس‬ ‫صحافت کو مملکت ےک چوتھے ستون ےس ں‬
‫بیھ جمہوری حکومت می قانون ساز ادارے پارلیمنٹ ‪،‬انتظامیہ اور عدلیہ ن حد رضوری ی‬
‫ہوت ںہی۔ان تینوں اداروں یک بقاء‬ ‫ں‬
‫بغٹ ان تینوں اداروں کا جمہوریت پسند ہونا شک و شبہ یک‬ ‫ی‬
‫سالمٹ ےک ںلئ صحافت کا وجود ناگزیر ےہ۔صحافت ےک ں‬ ‫اور‬
‫می کس‬
‫ہمی کیےس پتہ چےل گا کہ پارلیمنٹ ں‬
‫می صحافت کا عمل دخل نہ ہوتو ں‬
‫گنجائش پیدا کرتا ےہ۔اگر ان تینوں اداروں ں‬

‫‪Page 5 of 21‬‬
‫وغٹہ۔عوام یک بات حکومت اور‬
‫وغٹہ ں‬
‫ہورہ ںہی‪،‬بجٹ کس طرح کا ےہ ں‬ ‫ے‬
‫ںر‬
‫قوانی تیار‬ ‫موضو ع پر بحث ہوریہ ےہ‪،‬کون ےس ینئ‬
‫دیٹ ہ۔صحافت یک اہمیت و افادیت ےس اس ےک مثبت و ر‬
‫منق‬ ‫ن کا فریضہ صحافت انجام ی‬ ‫حکومت یک بات عوام تک پہچا ر‬
‫ے‬
‫می ی‬
‫لکھن ںہی‪:‬‬ ‫ہوت کنور محمد دلشاد ر‬ ‫کرت ی‬
‫پہلوئوں کا تذکرہ ی‬
‫اپٹ تصنیف ’’ابالغ نامہ‘‘ ں‬

‫خی ‪،‬ایک افواہ یا ایک غلط ’’‬


‫صحافت ایک جادو ےہ۔جس ےک بول می خی و رس گ بجلیاں روپوش ہی۔ایک معمویل س ر‬
‫بیان ےک دو رس نتائج مرتب ے‬
‫ہوئ ہی جن پر قابو پانا مشکل ہوجاتا ےہ۔کیس شخص کو بام عروج پر پہنچانا ہومذلت می‬
‫ڈھکیلنا ہو‪،‬کیس یا تحریک کو قبولیت گ سند عطا کرنا ہوگا یا اس س متفر کرنا ہوگا ‪،‬حکومت گ کیس پالییس کو‬
‫ے‬
‫دوسن پیدا کرنا ہوتو یہ صحافت کا ادن سا کرشمہ‬ ‫کامیاب بنانا یا ناکام کرنا ہو‪،‬یا مختلف اقوام می جذبات نفرت یا‬
‫‘‘ہ۔‬
‫ے‬

‫اپٹ دھاک بٹھاتا ہ۔اخبارات یک بدولت حکومت ی‬


‫بنٹ‬ ‫می ر‬ ‫ایک اچھا ذی اثر حق گو اور ن باک اخبار خود بہ خود ر‬
‫معارسے ں‬
‫ے‬
‫ی‬
‫جادوئ اثر ےس متاثر ہو کر کہا تھا۔۔۔‬ ‫نیپولی بوناپارٹ ر‬
‫ن اخبار یک ن پناہ قوت اور اس ےک‬ ‫ں ر‬ ‫بیھ ہ اور ی‬
‫ٹوٹٹ بیھ ےہ۔ایس ںلئ‬ ‫ے‬
‫ٓ‬
‫اکی الہ ابادی ث ’’‬ ‫می سو ر‬
‫فوج دستوں ےک مقابےل می ایک اخبار س زیادہ ڈرتا ہوں۔ ‘‘اردو ےک مشہور و معروف شاعر ر‬
‫اخبارات گ اہمیت س متاثر ہوکر کہا تھا۔۔‬

‫کھینچو نہ کمانو کو نہ تلوا ر نکالو‬

‫جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکا‬

‫ٓ‬
‫اردو صحافت کا اغاز و ارتقاء‪)Origin of Urdu Journalism(:‬‬

‫اردو صحافت کا جنم اردو شاعری گ طرح فارس صحافت گ کوکھ س ہوا۔ہندوستان می فارس زبان ےک اخبارات مغل‬
‫حکومت ےک سنہری دور می جاری ہوئ ۔لیکن یہ فارس اخبارات بیھ فارس شاعری گ طرح عام ہندوستان معارسے س‬
‫ے‬
‫صدیق گ مشہور کتاب ’’فوزی‘‘ےک حوال س‬ ‫التعلق تھے فارس اخبار تک ضف طبقہ ارسافیہ گ ے‬
‫دسیس تیھ۔عالمہ عتیق‬
‫‪:‬گروبچن چندن ث اپت ایک مضمون می مغلیہ اخبار ےک متعلق گفتگو گ ےہ‬

‫ٓ‬
‫اورنگ زیب عالمگی ر ح ےک زماث می شایہ محل ےک لت روزانہ ایک اخبار شائع کیا جاتا تھا۔یہ اخبار اج گ طرح چاندن ’’‬
‫ٓ‬
‫چوک می اواز لگا کر بیچا نہی جاتا تھا۔مزید ان ےک پیش رومغل بادشاہوں ےک وقت می بیھ ایک اخبار شایہ محل ےک لت‬
‫جان تھی۔مغل عہد ےک کن سو اخبارات لندن‬ ‫بھیج ے‬‫جاری ہوتا تھا۔اور اسیک نقلی دور دراز ےک عالقوں ےک امرا وغیہ کو ر‬
‫الئییری می محفوظ ہی۔‬ ‫ر‬
‫سوسائن گ ر‬ ‫‘‘ےک رائل ایشیا ٹک‬

‫ٓ‬
‫ہندوستان می اردو صحافت کا باضابطہ اغاز سن ‪ ۱۸۲۲‬س ہوا۔ حاالں کہ اس قبل ہندوستان می فارس صحافت کا‬
‫ْ‬
‫رواج تھا ۔لیکن کلکتہ گ رسزمی س اردو ےک افق پر ایک تابندہ تارا’’جام جہاں نما ‘‘طلوع ہوا۔ ’’جام جہاں نما ‘‘اردو کا‬

‫‪Page 6 of 21‬‬
‫ایڈیی منیس سداسکھ لعل اور مالک‬ ‫ر‬ ‫اولی مطبوعہ اخبار ےہ۔جو ‪ ۲۷‬مارچ ‪ ۱۸۲۲‬کو کلکتہ س جاری ہوا۔اس اخبار ےک‬
‫ْ‬
‫ہری ہر دت تھے۔ یہ ایک ہفت روزہ اخبار تھا ۔یہ اخبار فارس ٹائپ می چھپتا تھا۔چوں کہ اس وقت فارس ٹائپ کا یہ‬
‫ایڈیی اور مالک غی مسلم تھے۔جدو‬ ‫ر‬ ‫خون یہ تیھ کہ یہ اردو کا پہال اخبار تھااور اسےک‬
‫رواج تھا اس اخبار گ سب س بڑی ر‬
‫ٓ‬
‫جہد ازادی ‪ ۱۸۵۷‬س قبل ہندوستان ےک مختلف شہروں س متعدد اردواخبارات جاری ہوچےک تھے ۔‪ ۱۸۳۴‬می ممبن‬
‫ٓ‬
‫س ’’ائینہ سکندری ‘‘یہ اخبار اردو می جاری ہوا۔حاالں کہ فارس زبان می یہ اخبار ‪ ۱۸۲۲‬س یہ جاری تھا۔یہ ایک نیم‬
‫ٓ‬
‫رسکاری اخبار اور ممبن ےک گورنر گ ایما پر جاری ہوا تھا۔انیسویں صدی می جو سب س بڑا اردو اخبار سامت ایا وہ ’’دیل‬
‫ٓ‬
‫اردو اخبار ‘‘تھا۔اردو ےک مشہور و معروف ادیب موالنامحمد حسی ازاد ےک والد مولوی محمد باقر ث ‪ ۱۸۳۶‬می جاری کیا‬
‫ٓ‬
‫تھا۔یہ اخبار اپت عہد گ عکاس کرتا تھا۔جدوجہد ازادی می مولوی محمد باقر گ خدمات کو فراموش نہی کیا جاسکتا‬
‫ٓ‬
‫۔اردو ےک پہےل شہید صحاف ےک طورپر اپکو موسوم کیا جاتا ےہ۔مولوی محمدباقر کا اپنا ایک چھاپا خانہ اور ایک بڑی‬
‫الئییری بیھ تیھ۔جو ‪ ۱۸۵۷‬گ لڑان می تباہ ہوگن۔لیکن ’’دیل اردو اخبار ‘‘ث ایک تاری خ ضور ثبت کردی۔سن ‪۱۸۳۷‬‬
‫ر‬
‫مذہن اخبار تھا جےس ایک پادری ث جاری کیا‬
‫ر‬ ‫می مرزا پور اترپردیش س ایک اخبار ’’خیخواہ ہند‘‘جاری ہوا۔یہ ایک‬
‫تھا۔اس اخبار کا مقصد عیسائیت گ تبلیغ تھا۔سن ‪ ۱۸۴۱‬می دہل س ’’سید االخبار ‘‘جاری ہوا۔جےس مصلح قوم رسسید‬
‫ر‬
‫ایڈیی ےک‬ ‫احمد خاں ےک بڑے بھان سید محمود ث جاری کیا تھا۔سید محمود ےک انتقال ےک بعد رسسید ث اس اخبار ےک‬
‫جنون ہند کا پہال اردو اخبار تسلیم کیا جاتا‬
‫ر‬ ‫فرائض انجام دیت۔‪ ۱۸۴۲‬می چنن س ’’جامع االخبار ‘‘جاری ہوا۔اس‬
‫ایڈیی تھے ۔یہ اخبار اپت عہد کا دلچسپ مرقع اور دل کش ترجمان تھا۔سن ‪ ۱۸۴۵‬می‬ ‫ر‬ ‫ےہ۔سید رحمت ہللا اس اخبار ےک‬
‫ر‬ ‫ٓ‬
‫ایڈیی پنڈت دھرم نارائن بھاسکر تھے جو غی معمویل‬ ‫دہل کالج س ہفت روزہ ’’قران السعدین ‘‘جاری ہوا۔اس ےک پہےل‬
‫صالحیت ےک مالک تھے۔اس اخبار می سائنیس ‪،‬ادن اور سیاس مضامی شائع ے‬
‫ہوئ۔علیم افادیت اور اردو مضامی ےک تنوع‬ ‫ر‬
‫ےک اعتبار س ہندوستان ےک ممتاز اخبارات می اس اخبار کا شمار تھا۔‬

‫ر‬
‫ایڈیی الل رج تھے۔اس سن میٹھ س ’’جام‬ ‫لکھنئو کا پہال اخبار’’لکھنئواخبار ‘‘ےک نام س‪ ۱۸۴۷‬می جاری ہوا۔اس ےک‬
‫ٓ‬ ‫ر‬
‫ایڈیی بابو شیو چندر ناتھ تھے۔اس س قبل اگرہ س ‪ ۱۸۴۶‬می ’’صدراالخبار ‘‘جاری‬ ‫جمشیدی ‘‘جاری ہوا۔اس اخبار ےک‬
‫ٓ‬ ‫ٓ‬
‫ہوا جےس اگرہ کا پہال اردو اخبار تسلیم کیا جاتا ےہ۔سن ‪ ۱۸۴۹‬می چنن س ایک اور اخبار ’’افتاب عالم تاب ‘‘جاری ہوا۔‬
‫ر‬
‫ماسی رام چند ر ےک اخبار ’’فوائد الناظرین ‘‘می پایا جاتا ےہ۔‪ ۱۸۵۰‬می الہور‬ ‫خیوں کا حوالہ مشہور ریاض داں‬ ‫اس گ ر‬
‫ایڈیی منیس ہری سکھ رائ تھے۔یہ اردو زبان اور فارس رسم الخط می جاری ہوئ‬ ‫ر‬ ‫س ’’کوہ نور ‘‘جاری ہوا ۔اس اخبار ےک‬
‫پہال اخبار تھا۔سن ‪ ۱۸۵۶‬می لکھنئو س کن اخبار ات جاری ہوئ۔رجب عل بیگ رسور ےک دوست مولوی محمد یعقوب‬
‫انصاری ث ’’اخبار طلسم لکھنو ‘‘جاری کیا۔اس ےک عالوہ امی مینان اور رگھوویر پرشاد ث’’سحر سامری ‘‘اور عبد ہللا‬
‫عرن اور فارس گ کتابوں گ طباعت می گراں قدر خدمات انجام دیت وال منیس نول‬
‫ث’’مخزن االخبار ‘‘جاری کیا۔اردو ر‬
‫کشور ث ‪ ۱۸۵۸‬می لکھنو س ’’اودھ اخبار‘‘رسوع کیا۔یہ اخبار پہےل ہفت روزہ تھا پھر یہ سہ روزہ ہوااور ‪ ۱۸۷۷‬می یہ‬
‫اخبار روزنامہ ہوگیا۔اپت دور کا اردو کا یہ بہت بڑا اخبار تھا۔یہ پہال اردو اخبار تھا جس ےک رپورٹرمختلف صوبوں گ‬
‫ٓ‬
‫رہ۔اردو ےک نامور ادیب و شاعر اس اخبار س وابستہ تھے۔اج بیھ اس اخبار گ تحریریں بڑے‬ ‫راجدھانیوں می نمائندے ے‬

‫‪Page 7 of 21‬‬
‫ٓ‬ ‫ر‬ ‫ذوق و شوق س پڑھ ے‬
‫سوسائن ‘‘کا اجرا عمل می ایا ۔جس ےک روح رواں اور مرکز اور‬ ‫جان ہی۔‪ ۱۸۶۶‬می ’’سائنٹفک‬
‫ٓ‬
‫محور رسسید احمد خان تھے۔سن ‪ ۱۸۷۷‬می لکھنو س ایک بڑا اخبار’’اودھ پنچ ‘‘منظر عام پر ایا۔اس منیس سجاد حسی‬
‫ث ’’لندن پنچ ‘‘ےک طرز پر جاری کیا تھا۔یہ اخبار ‪ ۳۵‬برس تک جاری رہا۔‬

‫ٓ‬
‫انیسویں صدی ےک اخر می ایک اخبار’’پیسہ اخبار ‘‘نام س جاری ہوا۔جےس منیس محبوب عالم ث جاری کیا تھا۔بیسویں‬
‫ٓ‬ ‫ث ٓا ے‬
‫صدی ےک ٓا ے‬
‫ث سب کچھ بدل چکا تھا۔سیاس بیداری اور ازادی گ تحریک تی ہوچیک تیھ۔دنیا بھر ےک حاالت می تیی‬
‫ے‬ ‫ٓ‬
‫‪،‬ثقافن ‪،‬طییہ و مزاحیہ‬‫‪،‬ادن‬
‫تھے۔مذہن ‪،‬سیاس ر‬
‫ر‬ ‫س تبدیلیاں رونما ہوریہ تھی۔اردو اخبارات بیھ ازمائشوں س گذر چےک‬
‫ہر طرح ےک اخبارات و سائل نکل چےک تھے۔منیس محبوب عالم کا ’’پیسہ اخبار ‘‘اور شیخ غالم محمد کا اخبار ’’وکیل‬
‫ٓ‬
‫رہ۔جنہوں ث بعد می’’الہالل ‘‘اور ’’البالغ‘‘جیےس موقر ‘‘‬ ‫ابیھ نکل رہا تھا۔ جس س موالنا ابوالکالم ازاد بیھ وابستہ ے‬
‫اخبارات جاری کت۔اردو صحافت گ تاری خ موالنا ابوالکالم ٓازاد ےک ان اخبارات ےک ذکر ےک بنا ادھوری تسلیم گ ے‬
‫جان‬
‫ےہ۔’’الہالل ‘‘اور ’’البالغ ‘‘یہ تاری خ ساز اخبارات تھے۔سن ‪ ۱۹۰۱‬می شیخ عبدالقادر ث الہور س ’’مخزن ‘‘جاری‬
‫ادن رسالہ‬
‫کیا۔اردو ےک مشہور و معروف شاعر حشت موہان ث سن ‪ ۱۹۰۳‬می ’’اردوئ معل ‘‘اخبار جاری کیا۔یہ ایک ر‬
‫ہوئ تھے۔سن ‪ ۱۹۰۸‬می خواتی کا رسالہ ’’عصمت‘‘دہل س‬ ‫تھا۔لیکن سیاس موضوعات پر بیھ اسمی مضامی شائع ے‬

‫رہ۔اردو ےک ایک عظیم صحاف موالنا محمد عل‬ ‫ر‬


‫جاری ہوا۔اس ےک ایڈیی شیخ محمد اکرام اور پھر عالمہ راشد الخیی ے‬
‫جوہر ث ‪ ۱۹۱۲‬می دہل س ’’ہمدرد ‘‘اخبار جاری کیا۔یہ اخبار حکومت کا نکتہ چی تھا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ‬
‫ٓ‬
‫می یہ اخبار بند ہوگیا۔اور پھر کچھ عرصہ بعد جاری ہوا۔موالنا محمد عل جوہر گ ساری زندگ جدوجہد ازادی ‪۱۹۱۵‬‬
‫ٓ‬ ‫ْ‬
‫می گذری ۔انہوں ث اپت اخبارات ےک لت باضابطہ اخالق بیھ مرتب کیاجو اج ےک ضابطہ اخالق س بہت کچھ ملتاجلتا‬
‫ےہ۔سن ‪ ۱۹۲۰‬می اللہ لچپت رائ ث ایک کثی رسمایہ ےک ساتھ الہور س ’’وندے ماترم ‘‘جاری کیا۔ الہور یہ س مہاس‬
‫کرشن ث ’’پرتاپ ‘‘جاری کیا۔جو‬
‫ٓ‬
‫دہل س اج بیھ نکل رہا ےہ‬

‫ٓ‬ ‫سن ‪ ۱۹۲۱‬می شہر حید ٓراباد دکن ےس ’’رہٹ دکن‘‘جاری ہوا۔جو بعد می ’’رہنما ی‬
‫ن دکن ‘‘ کہالیا۔اج یہ اخبار سید وقاراالدین‬ ‫ں‬ ‫ں‬
‫ٓ‬
‫می اس‬ ‫می اس اخبار کا شمار ہوتا ےہ۔فروغ اردو زبان ں‬ ‫می شائع ہو رہا ےہ۔ حیدراباد ےک چند بڑے اخبارات ں‬ ‫قادری یک ادرات ں‬
‫اخبار ر‬
‫ن اہم کردار ادا کیا ےہ۔‬

‫می موالنا عبدالماجد دریا بادی ث ’’سچ ‘‘جاری کیا۔اس کا نام بعد می ’’صدق ‘‘ہوگیا اور پھر ’’صدق جدید ‘‘ےک ‪۱۹۲۵‬‬
‫ے‬ ‫ٓ‬ ‫ٓ‬
‫رسپرسن اور حیات ہللا‬ ‫نام س نکال۔ازادی س قبل ایک اہم اخبار’’قویم اواز ‘‘جاری ہوا۔جو پنڈت جواہر لعل نہروگ‬
‫انصاری گ ادارت می ‪ ۱۹۴۵‬می شہر لکھنو س جاری ہوا۔اس اخبار ث اردو می جدید صحافت گ بنیاد ڈایل۔اور بہت س‬
‫کامیان ےک ساتھ شائع‬
‫ر‬ ‫معیارات قائم کیت۔ممبن شہر ’’روزنامہ انقالب ‘‘اور ’’روزنامہ اردو ٹائمز ‘‘ایک طویل مدت س‬
‫ہورہ ہی۔ہندوستان کو ٓازادی ملت ےک بعد اخبارات کو پھلت پھولت کا موقع مال اور اخبارات ث تیی س ے‬
‫ترف گ۔ملک ےک‬ ‫ے‬
‫ٓ‬
‫مختلف حصوں س بہت س اخبارات جاری ہوئ۔اگست ‪ ۱۹۴۹‬کو شہر حیدراباد س پدم رسی عابد عل خان ث محبوب‬

‫‪Page 8 of 21‬‬
‫حسی جگر ےک ساتھ مل کر ’’روزنامہ سیاست ‘‘جاری کیا۔یہ اخبار ضف اخبار یہ نہی بلکہ ایک تحریک تھا۔جس ث‬
‫اقلیتوں ےک مسائل حل کرئ ‪،‬اردو زبان کو فروغ دیت‪،‬می نمایاں کردار ادا کیا ےہ۔اس اخبار گ خاصیت یہ ےہ کہ یہ اخبار‬
‫ٓ‬ ‫ٓ‬
‫نہ ضف حیدراباد اور ہندوستان بلکہ بیون ہندوستان می بیھ بڑے ذوق و شوق س پڑھا جاتا ےہ۔اج یہ اخبار عابد عل‬
‫خان صاحب ےک فرزند زاہد عل خان صاحب گ زیر نگران شائع ہورہا ےہ ۔سن ‪ ۱۹۷۹‬می محمود انصاری گ ادارت می‬
‫ٓ‬
‫حیدراباد یہ س ’’روزنامہ منصف ‘‘جاری ہوا۔اس اخبار گ سب س بڑی خاصیت یہ ےہ کہ یہ ہندوستان کا ایک کثی‬
‫ٓ‬
‫ڈسمی‬
‫ر‬ ‫رہ کہ‬‫االاشاعت اخبار تسلیم کیا جاتا ےہ۔اج یہ اخبار جناب خان لطیف خان گ ادارت می نکل رہا ےہ۔ واضح ے‬
‫اشییہ ‪۲۰۱۷‬‬ ‫پرسن می پورے ‪ ۲۰‬برس مکمل کرلت ہی۔عالوہ ازیں ’’ر ر‬ ‫می اس اخبار ث خان لطیف خان صاحب گ رس ے‬
‫ٓ‬
‫ہورہ ہی۔سن ‪ ۱۹۶۳‬می اترپردیش لکھنو س‬ ‫ے‬ ‫سہارا’’ ‘‘صحاف دکن’’ ‘‘روزنامہ مالپ ‘‘بیھ شہر حیدراباد یہ س شائع‬
‫ٓ‬
‫روزنامہ ’’اگ‘‘جاری ہوا۔ دہل س ’’سہ روزہ دعوت’’ ‘‘عوام ‘‘اور ’’سویرا ‘‘جاری ہوئ۔پٹنہ س ایک نامور اخبار ’’قویم‬
‫ٓ‬ ‫ٓ‬
‫اواز ‘‘جاری ہوا۔پنجاب س نکلت وال اخبارات می رسفہرست ’’ہند سماچار ‘‘جدید سہولیات س اراستہ ےہ۔اس اخبار کا‬
‫رسکیولیشن ایک زماث می ‪ ۷۳‬ہزار تک پہنچ گیا تھا۔کرناٹک بنگلور س روزنامہ’’ساالر( ‘‘‪) ۱۹۶۴‬ہبل س ’’کرناٹک‬
‫ہورہ ہی۔‬
‫ے‬ ‫ٹائمز ‘‘شائع‬

‫ان ےک عالوہ سینکڑوں اخبارات جاری ہوئ ۔لیکن ان گ اشاعت ‪،‬مایل وسائل اور قارئی گ کیم ےک باعث بند ہوگت۔لیکن‬
‫ٓ‬
‫رہ ہی۔اردو اخبارات گ‬ ‫بعض اخبارات مختلف مسائل ےک باوجود اج بیھ جاری ہی اور قابل تحسی خدمات انجا م دے ے‬
‫ٓ‬
‫کررہ‬
‫ے‬ ‫ایک طویل تاری خ ریہ ےہ۔اردو صحافت ث معارسے کو ایک خاص ڈگر پر الث می اہم کردار ادا کیا ےہ اور اج بیھ‬
‫*ہی۔جس کا ے‬
‫اعیاف ہمی کھےل دل س کرنا چاہت۔‬

‫سوال نمٹ ‪2‬‬

‫ڈالی۔‬ ‫ر‬
‫روشٹ ں‬ ‫صحافت یک مختلف اقسام بیان کریں ں ر‬
‫نٹ صحافت ےک آغاز پر‬

‫صحافت ےک اقسام‪)Types of Journalism(:‬‬

‫می بانٹا جاسکتا ےہ۔‬


‫صحافت کو درج ذیل قسموں ں‬

‫مطبوعہ صحافت‬

‫ے‬
‫برف صحافت‬

‫مطبوعہ صحافت‬

‫فن صحافت گ ترسیل و اشاعت جب مطبوعہ طور پر اخبار و رسائل گ صورت می پریس ےک ذریعہ انجام ے‬
‫پان ےہ تو اس‬
‫ادن مجےل‪،‬پیشہ وارانہ رساےل ‪،‬سہ مایہ و ساالنہ‬ ‫ے‬
‫ہم مطبوعہ صحافت کہت ہی۔روزناےم‪،‬سہ روزہ‪ ،‬ہفت روزہ اخبار‪،‬علیم و ر‬

‫‪Page 9 of 21‬‬
‫ے‪،‬پوسیز‪،‬اسٹکرز‪،‬ہینڈ بلز وغیہ مطبوعہ صحافت ےک دائرے می ٓا ے‬
‫ث ہی۔مطبوعہ صحافت می اخبارات کو بہت‬ ‫ر‬ ‫جرید‬
‫اہمیت حاصل ےہ۔اخبارات کو موجودہ تاری خ کا ترجمان بیھ کہا جاتا ےہ۔دنیا بھر می روزانہ الکھوں کروڑوں گ تعداد می‬
‫خی گ جمع ےہ۔اخبار ےک تحت‬
‫عرن زبان کا لفظ ےہ جو ر‬
‫ہورہ ہی۔اخبار یہ ر‬
‫ے‬ ‫سینکڑوں زبانوں می اخبارات شائع‬
‫روزناےم‪،‬سہ روزہ ‪،‬ہفت روزہ کا شمار ہوتا ہ۔کچھ لوگ پندرہ روزہ کو بیھ اخبار ے‬
‫کہت ہی۔روزناےم ےک لت یہ ضوری ےہ کہ‬ ‫ے‬
‫ٓ‬
‫ہفتہ می کم از کم پانچ شمارے جاری ہوں ۔سہ روزہ اخبار کا چلن اب نہی رہا ۔اج یہ صورت حال ےہ کہ بہت کم سہ روزہ‬
‫ہورہ ہی۔‬
‫ے‬ ‫شائع‬

‫رسائل‪:‬‬

‫بہٹین وسیلہ تسلیم کئ جا ی‬


‫ن ںہی۔ رسائل ی‬
‫کٹ‬ ‫رسالہ یہ عرئ زبان ےک لفظ ’’رسل‘‘ ےس ماخوذ ہ۔رساےل یہ عوام یک ترسیل کا ی‬
‫ں‬ ‫ے‬
‫ر‬ ‫ر ی‬ ‫طرح ےک ی‬
‫‪،‬قانوئ‪،‬فلیم‬‫‪،‬علیم‪،‬فٹ‪،‬میل‬‫ہوت ںہی۔ادئ‬

‫وغٹہ‬
‫‪،‬خالص تفری ح پیش وارانہ ں‬

‫ر‬ ‫ٓ‬ ‫ر‬ ‫برف صحافت ‪ :‬ے‬


‫ے‬
‫پروجیکی وغیہ کو اہمیت‬ ‫ویژن‪،‬انینیٹ‪،‬فلم ‪،‬وی س ار ‪،‬سالئیڈز‪،‬اوورہیڈ‬ ‫برف صحافت می ریڈیو‪،‬ٹیل‬
‫حاصل ےہ۔‬

‫ریڈیو‪:‬‬

‫غٹ معمویل اہمیت حاصل ہ۔دور ر‬ ‫ی‬ ‫ٓ‬


‫می ریڈیو خٹوں کا مستند ذریعہ‬‫حاض ں‬ ‫ے‬ ‫می بیھ ریڈیو کو ں‬‫اج ےک اس ترق یافتہ دور ں‬
‫ام‪،‬موسیق ےک دلچسپ‬‫ی‬ ‫ی‬
‫ثقافٹ پروگر‬ ‫نش کرتا ےہ بلکہ خٹوں پر تبرصے‪،‬تہذیٹ و‬ ‫تسلیم کیا جاتا ہ۔ریڈیو نہ ضف خٹیں ر‬
‫ے‬
‫می دنیا بھر‬ ‫ر‬
‫پروگرام کا فریضہ بیھ ریڈیو انجام دیتا ےہ۔ریڈیو یہ انیسویں صدی یک ایجاد ےہ۔جس ن بہت یہ قلیل مدت ں‬
‫می انقالب برپا کردیا ہ۔ریڈیو کا سب ےس بڑا فائدہ یہ ہ کہ اس ےس نا خواندہ لوگ بیھ مستفید ی‬
‫ہوت ںہی۔جب ےک اخبار‬ ‫ے‬ ‫ے‬ ‫ں‬
‫ر‬ ‫ٓ‬ ‫ی‬ ‫ی‬
‫خواندہ لوگ یہ استعمال کرت ںہی۔ریڈیو ذرائع ابالغ کا ایک سستا اور موثر ذریعہ ہ ر‬
‫یعٹ کوئ بیھ سامیع اسائ ےس اےس‬ ‫ے‬
‫ی‬
‫نہی وہاں ریڈیو کام کرتا ےہ۔ہل چالن کسان بیھ گےل‬
‫خرید سکتا ےہ۔دور دراز ےک دیہات جہاں بجیل اور دورسے وسائل موجود ں‬
‫ن دنیا بھر ےک حاالت و واقعات ےس ٓاگایہ حاصل ی‬
‫کرت ںہی۔‬ ‫انسٹ لٹکا ی‬
‫می ٹر ر‬ ‫ں‬

‫ٹییل ویژن‪ )Television(:‬بیسویں صدی یک ایجادات ں‬


‫می ٹییل ویژن ایک اہم اور موثر ایجاد ےہ۔سائنیس ایجادات ےک سلسےل‬
‫یک ایک اہم کڑی ٹییل ویژن ےہ۔ٹییل ویژن کا موجد جان ایل ںبٹڈ ےہ۔ٹییل ویژن یک سب ےس نمایاں خاصیت یہ ےہ کہ ٹییل‬
‫جائ ےہ۔اور ییہ وصف اےس دورسوں ےس ممتاز کرتا ےہ۔ٹییل‬‫جائ ہی بلکہ دیکیھ بیھ ی‬‫سٹ ی‬ ‫ویژن پر خٹیں نہ ضف پڑیھ یا ر‬
‫ں‬
‫شئ زیادہ متاثر ی‬
‫کرئ‬ ‫ہوت واےل واقعات کو دیکھا جاسکتا ہ۔چونکہ دیکیھ ی‬
‫ہوئ ی‬ ‫ویژن ےک ذریعہ گھر بیٹھے دنیا بھر می رونما ر‬
‫ے‬ ‫ں‬
‫ی‬ ‫ی‬ ‫ٓ‬
‫نہی کیا جاسکتا ۔‬
‫ےہ اس ںلئ اج ہر ایک ےک دل و دماغ پر ٹییل ویژن صحافت چھائ ہوئ ےہ اس بات ےس انکا ر ں‬

‫‪Page 10 of 21‬‬
‫ٓ‬ ‫ٓ‬
‫می مقبول و موثر ذریعہ ابالغ‬ ‫می وی یس ار کو بیھ اہیت حاصل ےہ۔فلم جو کیس دور ں‬ ‫وی یس ار‪ ))VCR:‬بر صحافت ں‬
‫ٓ‬ ‫تھا۔اب اسیک جگہ وی یس ٓار ر‬
‫ن ےل یل ےہ۔وہ گھرجہاں وی یس ار موجود ےہ۔سنیما گھر کا متبادل بن گیا ےہ۔دنیا بھر یک‬
‫ٓ‬ ‫ٓ‬
‫فلمی گھر بیٹھے وی یس ار ےک ذریعہ دیکیھ جاریہ ےہ۔وی یس ار یک ایک اہم خوئ یہ ےہ کہ اےس ہم ایک جگہ ےس دورسی‬ ‫ں‬
‫ی‬ ‫ٓ‬
‫جگہ بہ ا ر‬
‫کرسکئ ںہی۔‬ ‫سائ منتقل‬

‫ٓ‬ ‫می انقالب یک حیثیت حاصل ہ ر‬ ‫ی‬ ‫انٹنیٹ‪ )Internet(:‬ر‬


‫ر‬
‫۔انٹنیٹ ےک ذریعہ ہر کام اتنا اسان ہوگیا ےہ‬ ‫ے‬ ‫انٹنیٹ کو برق صحافت ں‬
‫ٓ‬
‫نہی کیا جاسکتا ۔جدید ٹکنالوج یک امد ےس اردو صحافت کو بہت فائدہ پہنچا ےہ۔ہندوستان‬ ‫بغٹ ں‬
‫جس کا تصور بیھ اس ےک ں‬
‫ٓ‬ ‫می اپنا ر‬ ‫ر‬
‫انٹنیٹ ایڈیشن شائع کر نا ررسوع کیا تھا۔اج تقربیا اردو ےک تمام‬ ‫می سب ےس پہےل روزنامہ سیاست ن سن ‪ ۱۹۹۷‬ں‬ ‫ں‬
‫۔انٹنیٹ ےک ذریعہ ےس اردو صحافت ےک‬‫انٹنیٹ ایڈیشن شائع کررہ ںہی۔یہ اردو صحافت یک بہت بری کامیائ ہ ر‬ ‫اخبارات اپنا ر‬
‫ے‬ ‫ے‬
‫رسائ ممکن ہو پاریہ ہ ر‬
‫۔انٹنیٹ پر‬ ‫ی‬ ‫سائ ےس لوگوں تک‬‫لئ فیس بک اور واٹس ایپ کا بیھ استعمال کیا جا رہا ہ۔جہاں ٓا ر‬
‫ے‬ ‫ے‬ ‫ں‬
‫ے‬ ‫ٓ‬
‫ذائ بالگ بیھ بنایا ہ جہاں اپکو خٹیں بیھ مل ی‬ ‫ن اپنا ی‬
‫کٹ لوگوں ر‬ ‫ی‬
‫می‬‫مباحئ ں‬ ‫جائ ںہی۔اور کیس خاص موضوع پر بحث و‬ ‫ے‬
‫ن تو ن جا نہ ہوگا کہ ر‬‫کرسکئ ہی۔اگر ایسا کہا جا ی‬ ‫اپٹ ر ی‬
‫انٹنیٹ اس وقت موثر‬ ‫ی ں‬ ‫ات کا اظہار بیھ‬ ‫حصہ بیھ ےل ی‬
‫سکئ ںہی۔اور ر‬
‫اپن اندر ‪،‬اخبارات ‪،‬میگزین ‪،‬رساےل ‪،‬ریڈیو ‪،‬ٹییل ویژن ‪،‬فلم وغٹہ کوسمیٹ لیا ہ۔دنیا یک ی‬
‫کوئ‬ ‫ن ر‬ ‫۔انٹنیٹ ر‬
‫ترین ذریعہ ابالغ ہ ر‬
‫ے‬ ‫ں‬ ‫ے‬
‫ٓ‬ ‫ر‬ ‫نہی جو ر‬ ‫اییس ں ر‬
‫نہیںہے۔انٹنیٹ یک ایک اہم خوئ یہ بیھ ےہ کہ اس ےک ذریعہ اپ اپنا پیغام خواہ وہ‬ ‫انٹنیٹ پر موجود‬ ‫چٹ ں‬
‫می اردو صحافت‬ ‫کوت ر‬
‫کوت تک پہنچا ی‬ ‫تقریری ہو یا تحریری دنیا ےک ر‬
‫سکئ ںہی۔مخترص یہ کہ اس جدید ٹکنالوج ےک دور ں‬
‫می اہم کردار ادا کرریہ‬ ‫ی‬ ‫بیھ ر‬
‫انٹنیٹ ےک ذریعہ دورسی زبانوں یک صحافت ےک ساتھ ترق یک راہ پر گامزن ےہ۔اور اردو ےک فروغ ں‬
‫ےہ۔‬

‫سوال نمٹ ‪3‬‬

‫ی‬
‫صحافٹ تاری خ کا تفصییل جائزہ ںلی۔‬ ‫می ‪ 1857‬ء ےک بعد یک‬
‫برصغٹ ں‬
‫ں‬

‫می‬ ‫ر‬
‫کتابی اردو اور انگریزی ں‬
‫می اردو صحافت یک تاری خ تقریبا دو سو سال پرائ ےہ اور اس موضوع پر اب تک متعدد ں‬ ‫برصغٹ ں‬
‫ں‬
‫ٓ‬
‫می اردو اخبارات ےک قائدانہ اور رسفروشانہ کردار کو بہت کم لکھا گیا‬‫شائع ہوچیک ںہی‪ ،‬لیکن پہیل جنگ ازادی سنہ ‪ 1857‬ں‬
‫ٓ‬ ‫می ں ر‬
‫اولی جنگ ازادی کا ڈیڑھ صد سالہ جشن نہایت تزک و احتشام ےک ساتھ دار الحکومت دہیل اور دورسے‬ ‫ےہ۔ ‪ 2007‬ں‬
‫صحاق مولوی محمد باقر ےک ‪ 150‬سالہ یوم‬ ‫ر‬ ‫ن ملک ےک پہےل شہید‬‫شہروں می منایا گیا۔ پریس کلب ٓاف انڈیا ینٹ دہیل ر‬
‫ں‬
‫صحاق تھے۔‬‫ر‬ ‫می کیا تھا۔ اس تقریب ےک محرک ہندی اور انگریزی ےک نامور‬ ‫شہادت پر ایک جلسہ کااہتمام ‪ ۲۰۰۷‬ےک ستمٹ ں‬
‫ر‬
‫صحاق اور پندرہ روزہ خٹدار‪ ،‬ینٹ دہیل ےک‬ ‫کرت یک توفیق نہی ی‬
‫ہوئ۔ نوجوان اردو‬ ‫اردو اداروں کو ان یک یاد می جلسہ منعقد ر‬
‫ں‬ ‫ں‬
‫ٓ‬
‫ہوت ےک یلئ امادہ کیا۔ اس موضوع پر مواد تالش ر‬ ‫مدیر معصوم مراد ٓابادی کو اس کوتایہ یک ر‬
‫تالق ےک یلئ کمر بستہ ر‬
‫کرت اور‬
‫کرئ پڑی۔ اس ےک یلئ انہی نیشنل ٓارکائیوز ینٹ دہیل ےس استفادہ ر‬
‫کرت ےک عالوہ عیل‬ ‫فشائ ر‬
‫ر‬ ‫انہی نہایت جاں‬ ‫ترتیب ر‬
‫ں‬ ‫می ں‬ ‫دین ں‬
‫گڑھ‪ ،‬حیدر ٓاباد‪ ،‬دہیل‪ ،‬رامپور اور ملک یک دیگر معروف الئٹیریوں ےس مواد حاصل ر‬
‫کرت ےک یلئ جانا پڑا۔‬

‫‪Page 11 of 21‬‬
‫سال بھر گ محنت شاقہ ےک بعد اس موضوع پر اردو می یہ پہل کتاب شائع ہون ےہ۔ مصنف ث تاریج شواہد س‬
‫ٓ‬
‫ثابت کیا ےہ کہ ہندوستان گ پہل جنگ ازادی می سب س زیادہ قربان اردو ےک صحافیوں ث دی ےہ۔کتاب کا مقدمہ‬
‫نامور صحاف جناب گربچن چندن ث تحریر کیا ےہ۔ انہوں ث اردو صحافت اور صحافیوں ےک قائدانہ کردار پر روشن ڈایل‬
‫ٓ‬
‫ےہ اور اس کتاب گ نمایاں خوبیوں کو اجاگر کیا ےہ۔ کتاب کا اغاز ”اردو صحافت اور سنہ ‪” 1857‬ےک عنوان س ہوتا ےہ‬
‫ٓ‬
‫جس می مصنف ث پہل جنگ ازادی ےک اسباب کا تجزیہ کیا ےہ جس ث پورے ملک می انگریزی حکومت اور حکام ےک‬
‫ٓ‬
‫خالف نفرت پیدا کردی تیھ اور عوام و خواص صحاف و ادیب غاصب حکومت کو جڑ س اکھاڑ پھینکت ےک لت صف ارا‬
‫خیوں ےک ذرائع اور جنگ‬
‫ہوگت۔ اس باب می اخبارات اور رسکاری پالییس‪ ،‬علما گ جانب س اعالن جہاد‪ ،‬اخبارات ےک لت ر‬
‫ٓ‬
‫ازادی ےک خاتمہ ےک بعد صحافت بالخصوص اردو صحافت کو پہنچت وال صدمہ کا ذکر ےہ۔‬

‫کرت ی‬
‫ہوت لکھا ےہ ‪:‬‬ ‫کرت می اردو اخبارات یک ن باکانہ تحریروں کا تجزیہ پیش ی‬
‫ن بغاوت برپا ر‬
‫مصنف ر‬
‫ں‬

‫بغاوت گ وہ لہر جو مرکز حریت میٹھ س رسوع ہوکر دہل پہنج تیھ اس گ چنگاری کو شعلہ بناث می اردو صحافت ”‬
‫ث کلیدی کردار کیا تھا۔ مولوی محمد باقر ےک ‘دہل اردو اخبار ’جمیل الدین ہجر ےک ‘صادق االخبار ’اور مرزا بیدار بخت‬
‫ٓ‬ ‫ٓ‬ ‫ٓ‬
‫”ےک اخبار ‘پیام ازادی ’ث وطن کو ازاد کرائ ےک لت عوام ےک دلوں ےک دلوں می جذبہ ازادی پیدا کیا۔‬

‫ی‬ ‫می انگریزوں یک ٓامد اور ایسٹ انڈیا ر‬ ‫ر‬


‫کمپٹ ےک قیام‪ ،‬فرنیک استعمار ےک خالف علما یک جد و‬ ‫می ہند ں‬‫مصنف ن ایک باب ں‬
‫ی‬ ‫ٓ‬ ‫ٓ‬
‫کاروائ کا ذکر کیا‬ ‫می انگریزوں یک انتقایم‬ ‫جہد اور اعالن جہاد و فتوی‪ ،‬بغاوت کا اغاز‪ ،‬بہادر شاہ ظفر ےک اخری ایام اور دہیل ں‬
‫ےہ۔ اردو ےک پہےل اخبار ‘جام جہاں نما’ کلکتہ اور اس ےک مدیر سدا سکھ الل یک خدمات کا ذکر ےہ۔ کتاب کا اصل باب ‘دہیل‬
‫کئ ںہی۔‬ ‫ن اس اخبار ےک ٓاغاز اشاعت ےس ےل کر اشاعت بند ر‬
‫ہوت تک ےک تما واقعات قلم بند ی‬ ‫اردو اخبار’ ہ جس می انہوں ر‬
‫ں‬ ‫ے‬
‫می مولوی محمد باقر ےک خاندان‪ ،‬تعلیم و تربیت‪،‬‬ ‫اگال باب مولوی باقر یک شہادت ےک جاں فرسا واقعات پر مشتمل ےہ۔ اس ں‬
‫ن ےک معروف اخبار‬ ‫صحافٹ خدمات مذکور ہی۔ ایک باب اس زما ر‬ ‫ی‬ ‫مالزمت‪ ،‬بہادر شاہ ظفر ےک ساتھ تعلقات اور پھر ان یک‬
‫ں‬
‫ٓ‬ ‫ر‬
‫می اہم کردار ادا کیا تھا ۔ اس‬‫‘صادق االخبار’ دہیل کا تذکرہ ےہ جس ن سنہ ‪ 1857‬یک جنگ ازادی ےک واقعات یک خٹ نگاری ں‬
‫بغٹ حکومت ےک خالف وہ فتوی شائع کیا تھا‬ ‫ن ظالم و جابر حکومت ےک جٹ یک پروا ی‬ ‫اخبار کا نمایاں وصف یہ ہ کہ اس ر‬
‫کئ ں‬ ‫ے‬
‫می بہادر شاہ ظفر ےک مقدمہ‬ ‫تھی۔ اس ےک عالوہ کتاب ں‬
‫جس پر اس وقت ےک ‪ 35‬جید علما کرام ےک دستخط اور مہریں ثبت ں‬
‫می قلعہ‬ ‫ر‬ ‫ر‬
‫می شامل اس اخبار ےک ان تراشوں کا ذکر کیا گیا ےہ جس یک بنیاد پر استغاثہ ن سنہ ‪ 1857‬یک بغاوت کو برپا کرت ں‬ ‫ں‬
‫معیل اور اردو صحافت ےک درمیان سازش کا الزام عائد کیا تھا۔ اس ےک بعد بہادر شاہ ظفر ےک ی‬
‫پوت مرزا بیدار بخت ےک اخبار‬
‫ن پہیل بار اس‬‫‘پیام ٓازادی’ کا مفصل ذکر ہ جس ےک خاص نگراں تحریک ٓازادی ےک سپہ ساالر عظیم ہللا خاں تھے۔ مصنف ر‬
‫ے‬
‫ر‬
‫روشٹ ڈایل ےہ۔ انگریز اس اخبار ےس اس قدر خوف زدہ تھے کہ جب انگریزوں ن واپس دہیل پر قبضہ پایا تو ڈھونڈ‬ ‫ر‬ ‫اخبار پر‬
‫ٓ‬ ‫ٓ‬
‫ڈھونڈ کر ان سبیھ لوگوں کو پھانیس پر لٹکادیا گیا جن ےک گھروں ےس پیام ازادی کا ایک شمارہ بیھ برامد ہوا۔ سب ےس درد‬
‫ایڈیٹ مرزا بیدار بخت یک ہ۔ انگریزوں ر‬
‫ر‬ ‫ٓ‬ ‫ناک ر‬
‫ن مرزا بیدار بخت ےک جسم پر سور یک چرئ مل کر‬ ‫ے‬ ‫کہائ ‘پیام ازادی’ ےک‬
‫ٓ‬
‫می دہیل ےس شائع ہوتا تھا‬‫پھانیس دے دی تیھ۔ اج ےس ڈیڑھ سو سال قبل یہ اخبار دیونا گری اور فاریس دونوں رسم الخط ں‬

‫‪Page 12 of 21‬‬
‫می‬ ‫ر‬ ‫ر‬
‫اور ستمٹ سنہ ‪ 1857‬ےس جھانیس ےس اس کا مراٹیھ اڈیشن بیھ شائع ہوت لگا تھا۔ عظیم ہللا خان ن سنہ ‪ 1857‬ں‬
‫می مقیم لندن ٹائمز کا نمائندہ‬
‫می اس یک اشاعت یک منصوبہ بندی یک تیھ۔ اس اخبار ےک اقتباسات کا ترجمہ دہیل ں‬ ‫یوروپ ں‬
‫ی‬ ‫ٓ‬ ‫ٓ‬
‫نہی ےہ جب کہ سنہ ‪ 1936‬تک‬ ‫می بیھ ‘پیام ازادی’ کا کوئ شمارہ محفوظ ں‬ ‫لندن بھیجا کرتا تھا۔ اج برطانوی عجائب خانہ ں‬
‫اس ےک شمارے وہاں محفوظ تھے۔ اس ےک عالوہ فاریس ےک اخبار ‘رساج االخبار’ اور الہور ےس شائع ر‬
‫ہوت واےل انگریز پرست‬
‫ن می ملک ےک دیگر شہروں ےس بیھ اردو ےک اخبارات شائع ی‬
‫ہوت تھے‬ ‫ر‬
‫اخبار ‘کوہ نور’ کا بیھ ذکر ےہ۔ دہیل ےک عالوہ اس زما ں‬
‫ٓ‬ ‫ر‬
‫می ‘سحر سامری’ لکھنو‪ ،‬طلسم‪،‬لکھنو’ رسالہ‬ ‫می نمایاں طور پر حصہ لیا تھا۔ ان ں‬
‫جنہوں ن جنگ ازادی یک خٹ نگاری ں‬
‫ٓ‬
‫می موجود‬ ‫‘بغاوت ہند’اگرہ‪ ،‬عمدہ االخبار’برییل‪ ،‬چشمہ فیض’سیالکوٹ ”پنجاب” گلشن نو بہار’ کلکتہ کا ذکر اس کتاب ں‬
‫گٹ سنش شپ کا ذکر ےہ جس یک وجہ ےس‬ ‫ہ۔ ٓاخر می سنہ ‪ 1857‬ےک بعد انگریزی حکومت ےک ذریعہ اخبارات پر ی‬
‫لگائ ی‬ ‫ں‬ ‫ے‬
‫ی‬ ‫ر‬
‫می شائع ہوت واےل اخبارات یک اشاعت بہت کم ہوگٹ تیھ۔‬ ‫می دییس زبانوں ں‬ ‫ملک ں‬

‫ن معصوم مرادآبادی اور ان یک اس کتاب ےک‬ ‫صحاق فضیل جعفری ر‬‫ر‬ ‫حاض ےک معتٹ نقاد اور بزرگ‬ ‫کتاب ےک فلیپ پر عرص ر‬
‫ن انیسویں صدی می شائع ر‬
‫ہوت واےل‬ ‫ات اہمیت یک حامل ہ کہ ”معصوم مراد ٓابادی ر‬ ‫ات پیش یک ہ۔ ان یک یہ ر ی‬
‫اپٹ ر ی‬
‫متعلق ر‬
‫ں‬ ‫ے‬ ‫ے‬
‫ی‬
‫تجزیائ‬ ‫ن وایل اہم کتابوں ےک تفصییل اور دقیق مطالےع ےک بعد جو‬ ‫اخبارات‪ ،‬رسائل اور پہیل جنگ ٓازادی ےک متعلق لکیھ جا ر‬

‫می جو لوگ بیھ اردو صحافت اور جنگ‬


‫می بہت اضافہ ہوا ےہ اور مستقبل ں‬ ‫نتائج اخذ ی‬
‫کئ ںہی ان ےس خود ںمٹی معلومات ں‬
‫کرسکی‬
‫ں‬ ‫نہی‬ ‫اٹھائی یےک وہ معصوم مراد ٓابادی یک اس تصنیف کو نظر انداز کرےک ر‬
‫اپن موضوع ےک ساتھ انصاف ں‬ ‫ں‬ ‫ازادی پر قلم‬
‫ٓ‬
‫ٓ‬ ‫ی‬
‫کتابی شاذ و نادر یہ منظر عام پر ا یئ ںہی۔”‬ ‫ی‬
‫ےک۔ اییس حوالہ جائ نوعیت یک ں‬
‫ٓ‬
‫معصوم مراد ابادی قابل مبارک باد ہی کہ انہوں ث ایےس موضوع پر قلم اٹھایا جو ان ےک پیشہ س متعلق ےہ اور جس‬
‫ٓ‬ ‫پر کام کرئ س دانش گاہوں ےک ریشچ اسکالرز بیھ ہچکچا ے‬
‫ث یہں۔ مجھے یقی ےہ کہ ائندہ جو حرصات بیھ اردو صحافت‬
‫گ تاری خ گ ُپرخار وادی می قدم رکھی ےک ان ےک لت مصنف گ اس کتاب س استفادہ ناگزیر ہوگا۔ یہ کتاب یقینا حوالہ‬
‫جان نوعیت گ ہ اور تشنگان تحقیق اس س اپن تشنیک دور ے‬
‫کرئ رہی ےک۔‬ ‫ے‬
‫ے‬

‫سوال نمٹ ‪4‬‬

‫قیام پاکستان ےک بعد ےس اب تک یک مطبوعہ صحافت کا احوال بیان کریں۔‬

‫ٔ‬
‫بدالو ےس گزر رہا‬ ‫می ہوا جب پورا ملک سماج اور تہذیٹ‬ ‫ر‬
‫می اردو یک مطبوعہ صحافت کا آغاز اس بحرائ دور ں‬ ‫ہندوستان ں‬
‫درت تھے۔ اس کشیدہ صورت حال‬ ‫ر‬ ‫ر‬
‫تھا۔ انگریزوں کا اقتدار مستحکم ہو گیا تھا اور وہ اپٹ تہذیب اور روایات کو نافذ کرت ےک ے‬
‫کہی اس یک‬ ‫ر‬ ‫ر ر‬ ‫ن مختلف حصوں ں ر‬ ‫می اردو اخبارات ر‬
‫کہی انہوں ن حکومت ےس مقابلہ کیا تو ں‬
‫کئ۔ ں‬‫می اپن بال و پر نکالئ رسوع ں‬ ‫ں‬
‫ہم ی‬
‫نوائ یک۔‬

‫‪Page 13 of 21‬‬
‫معارس یئ مسائل‬
‫ر‬ ‫ی‬
‫موضوعائ مطالعہ بتاتا ےہ کہ یہ اخبارات سیایس خٹوں یک اشاعت ےک ساتھ ساتھ‬ ‫اردو ےک ان اخبارات کا‬
‫ر‬
‫الوطٹ کو پروان چڑھا ریہ تیھ اور دار و رسن یک‬ ‫می حصہ ےل کر جذبہ حب‬ ‫ی‬
‫بیھ اٹھان تھے۔ ان یک بڑی تعداد تحریک آزادی ں‬
‫آزمائش ےس بیھ گزر ریہ تیھ۔‬

‫نہی بلکہ ٹیپو سلطان شہید ؒ کا ”فوج اخبار“ تھا جو انہوں‬ ‫ں ر‬


‫محققی کا خیال ےہ کہ اردو کا پہال اخبار ”جام جہاں نما“ ں‬ ‫بعض‬
‫می جاری کیا تھا۔ یہ اخبار‬ ‫ر‬
‫ن ر‬
‫اپٹ شہادت ےس پانچ سال اور جام جہاں نما ےس کم و بیش اٹھائیس سال قبل ‪1894‬ء یہ اخبار ں‬
‫ں ر‬
‫مضامی اور وطن ےک دفاع ےس متعلق مختلف لوگوں یک تحریر‬ ‫می جہاد ےک متعلق‬‫خاص طور پر فوجیوں ےک ےل تھا۔ اس ں‬
‫ہوئ تھی۔ سقوط رسنگا پٹنم ےک بعد انگریزوں ر‬
‫ن اس اخبار یک تمام فائلوں اور ساز و سامان کو نذر آتش کر دیا تھا۔‬ ‫شائع ی‬
‫ں‬
‫نہی تھا۔ اس ےک بعد اردو اخبار دہیل‪ ،‬روز نامہ اردو اخبار‪ ،‬پیسہ‬ ‫ی‬
‫می کوئ بیھ اردو اخبار موجود ں‬ ‫اس وقت تک پورے ملک ں‬
‫می اردو صحافت کا یہ کارواں چلتا رہا۔‬ ‫اخبار‪ ،‬منادی‪ ،‬اسالیم ر‬
‫فریٹ رنٹ‪ ،‬آزاد ہند اور الہالل ں‬
‫وغٹہ یک صورت ں‬

‫ی‬
‫سچائ ےک اظہار اور اعالن کا‪ ،‬اس وقت حق بات کہنا اور لکھنا بہت ےس صحافیوں یک‬ ‫می اخبار نکالنا ایک ذریعہ تھا‬
‫اس دور ں‬
‫می مولوی محمد باقر رسفہرست ںہی۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ آزادی یک تاری خ اگر لکیھ‬ ‫موت کا باعث بنا۔ ان صحافیوں ں‬
‫لین ہی جنہوں ر‬
‫ن‬ ‫می یےک بعد دیگرے ان گیارہ خٹوں کا جائزہ ی ں‬ ‫می صحافیوں کا خون بیھ شامل ےہ۔ ذیل ں‬ ‫ی‬
‫گٹ ےہ تو اس ں‬
‫ر‬
‫کی۔‬‫اہی ہموار ں‬ ‫می آن واےل پرچوں اور تصور صحافت ےک یلئ ر ں‬
‫ایک عہد ساز جان کو جنم دیا اور بعد ں‬

‫فوج اخبار‬

‫کرت کا سہرا سلطان ٹیپو ےک رس ہ ہ۔ ‪1894‬ء می ٹیپو سلطان ر‬


‫ن اردو اخبار جاری‬ ‫ہندوستان می اردو کا پہال اخبار جاری ر‬
‫ں‬ ‫ے ے‬ ‫ں‬
‫ںر‬
‫مضامی‬ ‫می دفاع اور جہاد ےس متعلق‬‫کروایا جس کا نام ”فوج اخبار“ تھا۔ یہ اخبار خاص طور پر فوجیوں ےک یلئ تھا۔ اس ں‬
‫تھی۔ فوج ےک متعلق‬ ‫ی‬ ‫می فوج یک نقل و حرکت اور افشوں ےک ں ر‬ ‫ی‬
‫تعی اور تبادےل یک اطالعات درج ہوئ ں‬ ‫شائع ہوت تھے تھے۔ اس ں‬
‫ن تھے۔ یہ اخبار سلطان یک شہادت تک مسلسل شائع ہوتا رہا۔ سقوط رسنگا پٹنم ےک بعد انگریزوں‬ ‫احکامات بیھ شائع کئ جا ی‬
‫ں‬
‫می صحافت ےک یلئ راہ ہموار‬ ‫ر ر‬ ‫ر‬
‫ن اخبار یک تمام فائلوں اور ساز و سامان کو نذر آتش کر دیا تھا۔ فوج اخبار ن آن واےل دور ں‬
‫یک۔ یہ اخبار ہفت روزہ تھا۔‬

‫مراۃ االخبار‬

‫ہوت واال ( ‪ 20‬اپریل ‪1822‬ء) ہفت روزہ اخبار تھا۔ رام موہن ر ی‬
‫ات پر فلسفہ‬ ‫ات یک ادارت می کلکتہ ےس جاری ر‬ ‫راجہ رام موہن ر ی‬
‫ں‬
‫جٹل ہند الرڈ‬‫می گورنر ر‬ ‫ی‬ ‫ن سب ےس پہےل ی‬ ‫ویدانت کا گہرا اثر تھا تھا۔ انہوں ر‬
‫”سٹ“ یک رسم ےک خالف مہم چالئ۔ ‪1828‬ء ں‬
‫ٔ‬ ‫ً‬ ‫ً‬ ‫ولیم بنٹنک ر‬
‫ہندووں ےک ںلئ مغرئ تعلیم ےک بڑے حایم تھے۔ ان کو‬ ‫ن اس رسم کو قانونا بند کر دیا۔ وہ ہندوستان خصوصا‬
‫ن پریس آرڈیننس ےک پریویو‬ ‫بہٹین ذریعہ صحافت یہ ہ۔ انہوں ر‬ ‫ن کا ی‬ ‫اپن ہم وطنوں تک پہنچا ر‬ ‫اپن خیاالت ر‬
‫احساس تھا کہ ر‬
‫ے‬
‫ً‬ ‫گٹ اپیل رد کئ جا ر‬‫می دائر یک ی‬
‫ن پر احتجاجا اپنا اخبار ‪ 4‬اپریل ‪1823‬ء کو بند کر دیا۔‬ ‫ں‬ ‫کونسل ں‬

‫‪Page 14 of 21‬‬
‫جام جہاں نما‬

‫خییں مقایم انگریزی اخباروں س ترجمہ کر ےک ‪27‬‬ ‫مارچ ‪1822‬ء کو کلکتہ س ہر ی دت ےک زیر ادارت جاری ہوا۔ زیادہ تر ر‬
‫ث تھے۔ یورن قارئی اس اخبار کو اردو زبان پر مہارت‬ ‫جان تیھ۔ دییس ریاستوں ےک حاالت خیناموں س اخذ کت جا ے‬‫دی ے‬
‫ر‬
‫ر‬
‫ایڈیی کا نام منیس سدا سکھ تھا۔‬ ‫حاصل کرئ ےک لت ے‬
‫پڑھت تھے۔ اخبار گ زبان سادہ اور انداز بیان سلجھا ہوا تھا‪ ،‬پہےل‬
‫چھاپت گ ذمہ داری ”ولیم ر‬
‫پییس الپ کنس اینڈ کمپن “ےک سید تیھ۔ جام جہاں نما کشیدہ صورتحال ےک باوجود دہل ےک‬
‫لوگوں گ فرنیک حکام س بیاری کو دلیی س شائع کرتا تھا۔ ‪ 23‬جنوری ‪1828‬ء کو اخبار کو بند کر دیا گیا۔‬

‫دہیل اردو اخبار‬

‫ر‬ ‫ر ؔ‬
‫می دہیل ےس شائع کیا۔ یہ دہیل کا پہال اردو اخبار تھا۔ اس‬
‫حسی آزاد ےک والد مولوی محمد باقر ن ‪1837‬ء ں‬
‫ں‬ ‫موالنا محمد‬
‫ہمی اس عہد یک سیایس رسگرمیوں ےک عالوہ ادئ اور علیم رسگرمیوں کا حال بیھ معلوم ہوتا ےہ۔ اس اخبار کا‬
‫اخبار ےک ذریےع ں‬
‫می کھل کر انگریز رسکار‬
‫مٹ ‪1840‬ء کو اس کا نام ”دہیل اردو اخبار“ ہو گیا۔ اس اخبار ں‬ ‫پہال نام ”اخبار دہیل“ تھا لیکن ‪ 10‬ی‬

‫می جنگ آزادی یک ناکایم اور مغلیہ سلطنت یک تاراج ےک ساتھ‬ ‫ی‬
‫اور ان ےک اقدامات یک مخالفت یک جائ تیھ اور ایس ضمن ں‬
‫ی‬ ‫انگریزوں یک جانب ےس مولوی محمد باقر کو شہید کر ر‬
‫دین ےک بعد باآلخر اس اخبار یک زندیک بیھ ‪ 13‬ستمٹ ‪1858‬ء کو ختم‬
‫ی‬
‫ہو یک۔‬

‫روزنامہ اردو اخبار‬

‫ن نوزائیدہ اردو صحافت ےک ںلئ ایک مخصوص‬ ‫ن جاری کیا۔ اس اخبار ر‬ ‫کلکتہ ےس ‪1858‬ء می مولوی قدیر الدین احمد ر‬
‫ں‬
‫ی‬
‫ثقافٹ خٹیں‬ ‫ی‬
‫عالقائ ‪ ،‬سیایس اور‬ ‫می روزمرہ یک‬ ‫ر‬ ‫ی‬
‫می توانائ بیھ تیھ اور بو قلموئ بیھ۔ اس ں‬ ‫مزاج اور آہنگ پیدا کیا جس ں‬
‫ن واےل واقعات و حادثات اخبار کا حصہ تھے۔ اس‬ ‫ہوئ تھی۔ جنگ آزادی ےک حاالت و واقعات اور اس دوران پیش آ ر‬‫شائع ی‬
‫ں‬
‫می روزنامہ اردو اخبار‬ ‫ر‬
‫رہ تھے جن ں‬
‫پرچ نکل ے‬‫رہ تھے لیکن روزانہ یک بنیاد پر بہت کم ے‬
‫می چند دیگر اخبارات بیھ چل ے‬‫زمان ں‬
‫بیھ شامل ہ۔ کچھ عرصہ بعد اس کا نام بدل کر ”اردو گائیڈ“ کر دیا گیا۔ اس می اردو اور فاریس کالم بیھ شائع ی‬
‫ہوت تھے۔‬ ‫ں‬ ‫ے‬

‫اخبار عام‬

‫می‬ ‫ر‬
‫ایڈیٹ تھے۔ پنجاب یک اردو صحافت ں‬ ‫گوئ ناتھ پہےل‬
‫پنڈت مکند رام یکم جنوری ‪1871‬ء کو الہور ےس جاری کیا۔ پنڈت ی‬
‫ر‬
‫تاریخ اور علیم‬ ‫تھی۔‬ ‫ی‬
‫چھپٹ ں‬ ‫معارس یئ اصالح پر تحریریں‬
‫می سماج اور ر‬ ‫پرچ ں‬
‫جدید دور کا آغاز ایس اخبار ےس ہوا۔ ے‬
‫ں ر‬
‫خواتی یک تعلیم ےک حصول ےک ںلئ بالخصوص زور دیا جاتا تھا۔ ملیک‬ ‫ں ر‬
‫مضامی ےک عالوہ مسلمانوں یک تعلیم ےک ںلئ بالعموم اور‬
‫غٹ ملیک اخبارات یک اہم خٹوں کو جن م ںی سیایس اور سماج حاالت کا تذکرہ ہوتا تھا بیھ پیش کیا جاتا تھا۔ ے‬
‫اکٹ‬ ‫اور ں‬
‫خواتی یک شادی اور سماج مسائل درج ی‬
‫ہوت‬ ‫ں ر‬ ‫می بیوہ‬
‫اشتہارات ےک ںلئ چار صفحات پر مشتمل الگ ضمیمہ نکلتا تھا جن ں‬
‫تھے۔‬

‫‪Page 15 of 21‬‬
‫پیسہ اخبار‬

‫منیس محبوب عالم ر‬


‫ن جاری کیا۔ موالنا ظفر عیل خان‬ ‫یہ ایک اردو روزنامہ تھا جو ںفٹوزواال ےس جنوری ‪1887‬ء کو ر‬

‫ہوت تھے۔ سماج اور سیایس ہر طرح ےک‬ ‫کرت پر اس کا ستارہ گردش می آ گیا۔ اس ےک ادارت بہت اہم ی‬ ‫ےک ”زمیندار“ جاری ر‬
‫ے‬ ‫ں‬
‫ن۔ مسائل کا تجزیہ بالکل آزادانہ اور غٹ جانبدارانہ ہوتا‪ ،‬معتدل فکر کا حامل ر‬
‫ہوت ےک باوجود مسلمانوں‬ ‫مسائل زیر بحث آ ی‬
‫ں‬
‫نہی چوکتا‬ ‫می صالح و مشورہ بیھ ر‬
‫دین ےس ں‬ ‫می پرجوش ہوتا تھا۔ حکومت کو خارجہ پالییس ےک بارے ں‬ ‫ےک مسائل ےک بارے ں‬
‫تھا۔ ”پیسہ اخبار ر‬
‫سٹیٹ“ الہور ایس یک یادگار ےہ۔‬

‫منادی‬

‫می جاری ہوا۔ ”منادی“ روزنامہ تھا جو ‪1974‬ء تک شائع ہوتا رہا۔ ان‬ ‫خواجہ حسن نظایم ےک زیر ادارت دہیل ےس ‪1909‬ء ں‬
‫می ر‬
‫ڈاکٹ‬ ‫ثائ نظایم اس ےک مدیر ہی ‪ ،‬خواجہ حسن نظایم ر‬
‫ن ایک مرتبہ ر‬ ‫صاحٹادے خواجہ حسن ر‬ ‫ر‬
‫می لکھا کہ ں‬‫اپن اخبار ں‬ ‫ں‬ ‫ےک‬
‫ڈاکٹ اقبال ےک گھٹنوں می درد ہو گیا‪ ،‬خواجہ صاحب ر‬
‫ن ان کو‬ ‫نہی سمجھتا۔ انیہ دنوں ر‬
‫ں‬ ‫اقبال کو ہندوستان کا عظیم شاعر ں‬
‫ن خواجہ صاحب کو خط لکھا کہ مجھے افاقہ ہوا ےہ۔‬ ‫اپنا روغن فاسفورس بھیجا جس ےس ان کو افاقہ ہو گیا۔ انہوں ر‬
‫ات ہ۔ عالمہ اقبال ر‬
‫ن‬ ‫ی‬ ‫خواجہ صاحب ر‬
‫ن وہ خط ر‬
‫می شائع کروا دیا کہ اس تیل ےک متعلق شاعر اعظم یک کیا ر ے‬ ‫اپن اخبار ں‬
‫اخبار پڑھ کر کہا کہ ”شکر ہ خواجہ صاحب ےک روغن فاسفورس ر‬
‫ن مجھے شاعر اعظم تو بنا دیا“ ۔‬ ‫ے‬
‫اسالمک ر‬
‫فریٹ رنٹ‬

‫انقالن تھے ”‬ ‫ے‬


‫بھارن‬ ‫اسالمک ر‬
‫فریی رنن “موالنا برکت ہللا بھوپایل ےک زیر ادارت ‪1910‬ء می ٹوکیو جاپان س جاری ہوا۔ وہ ایک‬
‫ر‬
‫جن گ ہمدردیاں پان اسالیم تحریک ےک ساتھ تھی۔ وہ بھارت س باہر رہ کر اپن پرجوش تقاریر اور بیانات اپت اخبارات ےک‬
‫رہ۔ مستقبل پر نظر رکھت وال ایک‬ ‫ے‬ ‫ے‬
‫ذریعہ عوام تک پہنچاث تھے۔ انقالب تحریروں ےک ذریےع تحریک آزادی می حصہ لیت ے‬
‫رہنما گ حیثیت س انہوں ث نہ ضف انقالب کا پرچار کیا بلکہ اس ےک پس پردہ عوامل پر بیھ نگاہ رکیھ۔ انہوں ث‬
‫اجنن تصور تھا۔ اس اخبار ث‬
‫سیکولر نظام حکومت کا تصور اس وقت پیش کیا جب یہ کم ازکم ہندوستان عوام ےک لت ر‬
‫انقالن تحریروں ےک ذریےع تحریک آزادی می اہم کردار ادا کیا۔‬
‫ر‬

‫آزاد ہند‬

‫می مسلم مسائل کا تجزیہ اور ان پر تبرصہ‬ ‫ی‬


‫می جاری ہوا۔ اس اخبار ں‬
‫می محمد لطیف فاروق یک ادارت ں‬
‫مدراس ےس ‪1922‬ء ں‬
‫وقٹ جذباتیت‪ ،‬جوش و ولولہ‪ ،‬احتجاج اور مظلومیت کا غلبہ رہتا تھا۔ جب اردو پر‬ ‫می ی‬‫اوت ےس کیا جاتا تھا جس ں‬
‫خاص ز ے‬
‫ی‬
‫ن لیک تو ”آزاد ہند“ ر‬
‫عالقائ زبانوں کو ترجیح دی جا ر‬
‫ی‬ ‫دین یک بجا ی‬
‫توجہ ر‬
‫ن مسلمانوں ےک مسائل اور ان ےک‬ ‫ن ہندی اور دیگر‬
‫ٔ‬ ‫ی‬
‫می انگریزوں ےک خالف ہیجان برپا ہو‬
‫تدارک بالخصوص زبان ےک ںلئ آواز اٹھائ۔ جب سانحہ جلیانوالہ باغ پیش آیا تو ملک ں‬

‫‪Page 16 of 21‬‬
‫گٹ چنانچہ اس صورتحال می ”آزاد ہند“ ر‬
‫ن اپنا بیانیہ‬ ‫ں‬ ‫تو مسلم صحافت ایک ینئ بامقصد اور مثبت دور ں‬
‫می داخل ہو ی‬
‫بھرپور ی‬
‫طریق ےس جاری رکھا۔‬

‫سوال نمٹ ‪5‬‬

‫لکھی۔‬ ‫ی‬
‫صحافٹ زبان یک خصوصیات پر تفصییل نوٹ ں‬

‫جواب‬

‫ٓ‬ ‫ٓ‬
‫صحافت یا جرنلزم حقائق س راست طور پر اگایہ کا نام ےہ۔صحافت کا انسان زندگ س چویل دامن کا ساتھ ےہ۔اج ےک‬
‫اس برق رفتار دور میںذرائع ابالغ انسان زندگ می ایک الزیم حصہ گ حیثیت رکھتا ےہ۔یہ ہماری زندگ می ایک ضورت‬
‫سکت۔یہ صحافت گ یہ کرشمہ‬ ‫گ شکل می شامل ہوچکا ہ۔انسان زندگ ےک تمام حواس اس س متاثر ہوئ بغی نہی رہ ے‬
‫ے‬
‫جھپکت یہ کیس واقعہ یا حادث گ خیپوری دنیا می پھیل ے‬
‫جان ےہ۔اور عمل اور رد عمل کا سلسلہ‬ ‫ے‬ ‫سازی ےہ کہ پلک‬
‫ر‬
‫مسلسل چل پڑتا ہ۔اپن اس متاثر کن خاصیت ےک سبب صحافت ٓاج جمہوری نظام می چوتھے ستون کا درجہ ر ے‬
‫کھن‬ ‫ے‬
‫ےہ۔واقعات یا حقائق جانت کا نام صحافت ےہ۔سچان اور انکشافات کا پتہ لگانا یہ صحافت ےہ۔عوام کو سچان اور تمام‬
‫واقعات س باخی رکھنا صحافت ہ۔سچان پر یہ صحافت گ تعمی ے‬
‫ہون ےہ۔ وہ لفظ جےس ہم زبان اردو می ’’صحافت‬ ‫ے‬ ‫ر‬
‫عرن زبان ےک لفظ ’’صحیفہ ‘‘س ماخوذ ےہ۔جس ےک لغوی معن صفحہ‪،‬کتاب‪،‬رسالہ‪،‬ورق ےک ہی۔اپت‬ ‫ے‬
‫کہت ہی در اصل ر‬
‫عرن معن می جریدہ اور اخبار بیھ لفظ صحیفہ‬
‫وقت مقررہ پر شائع ہوئ واال مطبوعہ مواد بیھ صحیفہ ےہ۔لہذاجدید ر‬
‫ْ‬
‫ہون ہ انہی صحاف ے‬ ‫س مستعار ہ۔اخبار و رسائل کو ترتیب دیت اور مزین کرئ می جن لوگوں گ شمولیت ے‬
‫کہت ہی اور‬ ‫ے‬ ‫ے‬
‫کہا جاتا ےہ ‪ Journalist‬اور اس پیشہ س وابستہ افراد کو ‪ Journalism‬اس پیےس کو صحافت۔انگریزی می صحافت کو‬
‫۔صحافت گ تعریف کا جہاں تک معاملہ ےہ مختلف ماہرین ث مختلف انداز و مختلف پیائ می صحافت گ تعریف و‬
‫تشی ح گ ےہ۔لیکن سب کا ماحصل ایک یہ ےہ۔‬

‫حسی ر‬
‫ن صحافت یک تعریف کچھ اس طرح ےس یک ےہ‪:‬‬ ‫ںر‬ ‫ر‬
‫ڈاکٹ محمد شاہد‬

‫خی ےہ‪،‬اطالع ےہ‪،‬جانکاری ےہ۔صحافت عوام ےک لت عوام ےک بارے می تخلیق کیا گیا وہ مواد ےہ جو دن بھر ’’‬
‫صحافت ر‬
‫کرن ےہ‪ ،‬جس‬‫ےک واقعات کو تحریر می نکھار کر ٓ‪،‬اواز می سجا کر‪،‬تصویر می سمو کر انسان گ اس خواہش گ تکمیل ے‬

‫ےک تحت وہ ہر نن بات جانت ےک لت رث چی رہتا ےہ۔‬

‫برنارڈ شاہ ر‬
‫ن صحافت یک متعلق کہا ےہ‪:‬‬

‫”‪“All Great LIterature is Journalism‬‬

‫میتھیو ٓارنلڈ ر‬
‫ن صحافت یک مخترص تعریف یوں بیان یک ےہ‪:‬‬

‫‪Page 17 of 21‬‬
‫می لکھا گیا ادب ہی ‘‘ “‪”Journalism is a Literature in a Hurry‬‬
‫’’صحافت عجلت ں‬

‫می ی‬
‫لکھن ںہی‪:‬‬ ‫ر‬
‫ڈاکٹ عبدالسالم خورشید صحافت ےک ضمن ں‬
‫ٓ‬
‫خیوں س اگاہ کیا جاث ۔عرص حاض ےک ’’‬
‫صحافت ایک عظیم مشن ےہ۔اس کا مقصد یہ ےہ کہ لوگوں کو تازہ ترین ر‬
‫واقعات گ تشی ح گ جاث اور ان کا پس منظر واضح کیا جاث تاکہ رائ عامہ گ تشکیل کا راستہ صاف ہو۔صحافت رائ‬
‫دین ےہ۔عوام گ خدمت اس‬ ‫ے‬
‫ہون ہ۔اور رائ عامہ گ رہنمان ےک فرائض بیھ رس انجام ے‬ ‫عامہ گ ترجمان اور عکاس بیھ‬
‫ے‬
‫‘‘کا مقصد فرض ہ۔اس لت صحافت معارسے ےک ایک اہم ادارے گ حیثیت ر ے‬
‫کھن ےہ۔‬ ‫ے‬

‫صحافت کا مقصد‪:‬‬

‫صحافت بنیادی طور پر فن ابالغ ےہ۔صحافت ابالغ کا وہ مستند ذریعہ ےہ جو عوام کو حاالت اور واقعات کا شعور‬
‫بخشتا ےہ۔صحافت کا اصل مقصد دنیا می رونما ہوئ وال واقعات اور حاالت گ تازہ ترین صورت حال س عوام کو واقف‬
‫کروانا اور ان واقعات گ پیش کش می صداقت اور راست بازی س کام لینا ےہ۔رائ عامہ کو ہموار کرنا بیھ صحافت کا‬
‫ایک اہم مقصد ےہ۔کیونکہ جب تک عوام می شعور پیدا نہی ہوتا اس وقت تک رائ عامہ گ تشکیل ممکن نہی۔عوام‬
‫می غور و فکر گ صالحیت پیدا کرنا ‪،‬ان ےک دلوں می اخبار گ عزت و عظمت قائم کرنا ‪،‬ان ےک خیاالت و احساسات گ‬
‫ر‬
‫سماج ادارہ‬ ‫سماج خدمت اور اخبار ایک‬‫ر‬ ‫ترجمان کرنا یہ تمام صحافت ےک فرائض می شامل ہی۔صحافت ایک‬
‫ٓ‬ ‫ٓ‬
‫ےہ۔سماج کو ائینہ دکھاث کا کام صحافت کا ےہ۔سماج گ اچھائیاں اور برائیاں صحافت ےک ذریےع یہ سامت ا ےن ہی۔سماج‬
‫می تبدیل پیدا کرئ ےک عالوہ قارئی کو ے‬
‫بہیین تفری ح مہیا کرانا اور اس تفری ح ےک ذریےع ان گ ذہن تربیت کرنا بیھ‬
‫بیہ ْا ے‬
‫ٹھان‬ ‫‪،‬قلن‪،‬جسمان اور روحان تربیت کا ر‬
‫صحافت ےک مقاصد می شامل ےہ۔غرض صحافت نہ ضف ایک فردگ ذہن ر‬
‫بہی سماج گ تشکیل بیھ ے‬
‫کرن ےہ۔‬ ‫ہ بلکہ ایک ے‬
‫ے‬

‫صحافت ےک اقسام‪:‬‬

‫می بانٹا جاسکتا ےہ۔‬


‫صحافت کو درج ذیل قسموں ں‬

‫‪:Print Journalism‬۔ مطبوعہ صحافت‪۱‬‬

‫‪ :Electronic Journalism‬۔ ے‬
‫برف صحافت‪۲‬‬

‫مطبوعہ صحافت ‪:‬فن صحافت گ ترسیل و اشاعت جب مطبوعہ طور پر اخبار و رسائل گ صورت می پریس ےک ذریعہ‬
‫ادن مجےل‪،‬پیشہ وارانہ رساےل‬ ‫ے‬ ‫ے‬
‫انجام پان ےہ تو اس ہم مطبوعہ صحافت کہت ہی۔روزناےم‪،‬سہ روزہ‪ ،‬ہفت روزہ اخبار‪،‬علیم و ر‬
‫ث ہی۔مطبوعہ صحافت می ‪،‬‬ ‫ے‪،‬پوسیز‪،‬اسٹکرز‪،‬ہینڈ بلز وغیہ مطبوعہ صحافت ےک دائرے می ٓا ے‬
‫ر‬ ‫سہ مایہ و ساالنہ جرید‬
‫اخبارات کو بہت اہمیت حاصل ےہ۔اخبارات کو موجودہ تاری خ کا ترجمان بیھ کہا جاتا ےہ۔دنیا بھر می روزانہ الکھوں‬

‫‪Page 18 of 21‬‬
‫خی گ جمع‬
‫عرن زبان کا لفظ ےہ جو ر‬
‫ہورہ ہی۔اخبار یہ ر‬
‫ے‬ ‫کروڑوں گ تعداد می سینکڑوں زبانوں می اخبارات شائع‬
‫ہ۔اخبار ےک تحت روزناےم‪،‬سہ روزہ ‪،‬ہفت روزہ کا شمار ہوتا ہ۔کچھ لوگ پندرہ روزہ کو بیھ اخبار ے‬
‫کہت ہی۔روزناےم ےک لت‬ ‫ے‬ ‫ے‬
‫ٓ‬
‫یہ ضوری ےہ کہ ہفتہ می کم از کم پانچ شمارے جاری ہوں ۔سہ روزہ اخبار کا چلن اب نہی رہا ۔اج یہ صورت حال ےہ‬
‫ہورہ ہی‬
‫ے‬ ‫کہ بہت کم سہ روزہ شائع‬

‫بہٹین وسیلہ تسلیم کئ جا ی‬


‫ن ںہی۔رسائل‬ ‫رسائل‪ :‬رسالہ یہ عرئ زبان ےک لفظ ’’رسل‘‘ ےس ماخوذ ہ۔رساےل یہ عوام یک ترسیل کا ی‬
‫ں‬ ‫ے‬
‫ر‬ ‫ر ی‬ ‫کٹ طرح ےک ی‬ ‫ی‬
‫وغٹہ۔‬
‫‪،‬علیم‪،‬فٹ‪،‬میل‪،‬قانوئ‪،‬فلیم‪،‬خالص تفری ح پیش وارانہ ں‬ ‫ہوت ںہی۔ادئ‬

‫ر‬ ‫ٓ‬ ‫ر‬ ‫برف صحافت‪ :‬ے‬


‫ے‬
‫پروجیکی وغیہ کو اہمیت‬ ‫ویژن‪،‬انینیٹ‪،‬فلم ‪،‬وی س ار ‪،‬سالئیڈز‪،‬اوورہیڈ‬ ‫برف صحافت می ریڈیو‪،‬ٹیل‬
‫حاصل ےہ۔‬

‫ریڈیو‪:‬‬

‫غٹ معمویل اہمیت حاصل ہ۔دور ر‬ ‫ی‬ ‫ٓ‬


‫می ریڈیو خٹوں کا مستند ذریعہ‬‫حاض ں‬ ‫ے‬ ‫می بیھ ریڈیو کو ں‬‫اج ےک اس ترق یافتہ دور ں‬
‫ام‪،‬موسیق ےک دلچسپ‬‫ی‬ ‫ی‬
‫ثقافٹ پروگر‬ ‫نش کرتا ےہ بلکہ خٹوں پر تبرصے‪،‬تہذیٹ و‬ ‫تسلیم کیا جاتا ہ۔ریڈیو نہ ضف خٹیں ر‬
‫ے‬
‫می دنیا بھر‬ ‫ر‬
‫پروگرام کا فریضہ بیھ ریڈیو انجام دیتا ےہ۔ریڈیو یہ انیسویں صدی یک ایجاد ےہ۔جس ن بہت یہ قلیل مدت ں‬
‫می انقالب برپا کردیا ہ۔ریڈیو کا سب ےس بڑا فائدہ یہ ہ کہ اس ےس نا خواندہ لوگ بیھ مستفید ی‬
‫ہوت ںہی۔جب ےک اخبار‬ ‫ے‬ ‫ے‬ ‫ں‬
‫ر‬ ‫ٓ‬ ‫ی‬ ‫ی‬
‫خواندہ لوگ یہ استعمال کرت ںہی۔ریڈیو ذرائع ابالغ کا ایک سستا اور موثر ذریعہ ہ ر‬
‫یعٹ کوئ بیھ سامیع اسائ ےس اےس‬ ‫ے‬
‫ی‬
‫نہی وہاں ریڈیو کام کرتا ےہ۔ہل چالن کسان بیھ گےل‬
‫خرید سکتا ےہ۔دور دراز ےک دیہات جہاں بجیل اور دورسے وسائل موجود ں‬
‫ن دنیا بھر ےک حاالت و واقعات ےس ٓاگایہ حاصل ی‬
‫کرت ںہی۔‬ ‫انسٹ لٹکا ی‬
‫می ٹر ر‬ ‫ں‬

‫ٹییل ویژن‪:‬‬

‫می ٹییل ویژن ایک اہم اور موثر ایجاد ےہ۔سائنیس ایجادات ےک سلسےل یک ایک اہم کڑی ٹییل‬
‫بیسویں صدی یک ایجادات ں‬
‫ویژن ےہ۔ٹییل ویژن کا موجد جان ایل ںبٹڈ ےہ۔ٹییل ویژن یک سب ےس نمایاں خاصیت یہ ےہ کہ ٹییل ویژن پر خٹیں نہ ضف‬
‫جائ ےہ۔اور ییہ وصف اےس دورسوں ےس ممتاز کرتا ےہ۔ٹییل ویژن ےک ذریعہ گھر بیٹھے‬ ‫جائ ہی بلکہ دیکیھ بیھ ی‬
‫سٹ ی‬‫پڑیھ یا ر‬
‫ں‬
‫ٓ‬ ‫شئ زیادہ متاثر ی‬ ‫ہوت واےل واقعات کو دیکھا جاسکتا ہ۔چونکہ دیکیھ ی‬
‫ہوئ ی‬ ‫دنیا بھر می رونما ر‬
‫کرئ ےہ اس ںلئ اج ہر ایک ےک‬ ‫ے‬ ‫ں‬
‫نہی کیا جاسکتا ۔‬ ‫ی‬ ‫ی‬
‫دل و دماغ پر ٹییل ویژن صحافت چھائ ہوئ ےہ اس بات ےس انکا ر ں‬
‫ٓ‬
‫وی یس ار‪:‬‬

‫ٓ‬ ‫ی‬
‫می مقبول و موثر ذریعہ ابالغ تھا۔اب اسیک جگہ‬
‫می وی یس ار کو بیھ اہمیت حاصل ےہ۔فلم جو کیس دور ں‬ ‫برق صحافت ں‬
‫ٓ‬ ‫ٓ ر‬
‫فلمی گھر بیٹھے وی‬
‫وی یس ار ن ےل یل ےہ۔وہ گھرجہاں وی یس ار موجود ےہ۔سنیما گھر کا متبادل بن گیا ےہ۔دنیا بھر یک ں‬

‫‪Page 19 of 21‬‬
‫یس ٓار ےک ذریعہ دیکیھ جاریہ ہ۔وی یس ٓار یک ایک اہم خوئ یہ ہ کہ اےس ہم ایک جگہ ےس دورسی جگہ بہ ٓا ر‬
‫سائ منتقل‬ ‫ے‬ ‫ے‬
‫ی‬
‫کرسکئ ںہی۔‬

‫ر‬
‫انٹنیٹ‪:‬‬

‫ٓ‬ ‫می انقالب یک حیثیت حاصل ہ ر‬ ‫ی‬ ‫ر‬


‫۔انٹنیٹ ےک ذریعہ ہر کام اتنا اسان ہوگیا ےہ جس کا تصور بیھ‬ ‫ے‬ ‫انٹنیٹ کو برق صحافت ں‬
‫ٓ‬
‫می سب ےس پہےل‬ ‫نہی کیا جاسکتا ۔جدید ٹکنالوج یک امد ےس اردو صحافت کو بہت فائدہ پہنچا ےہ۔ہندوستان ں‬ ‫بغٹ ں‬
‫اس ےک ں‬
‫ٓ‬
‫تھا۔اج تقربیا اردو ےک تمام اخبارات اپنا ر‬ ‫می اپنا ر‬ ‫ر‬
‫انٹنیٹ‬ ‫انٹنیٹ ایڈیشن شائع کر نا ررسوع کیا‬ ‫روزنامہ سیاست ن سن ‪ ۱۹۹۷‬ں‬
‫۔انٹنیٹ ےک ذریعہ ےس اردو صحافت ےک ںلئ فیس بک اور‬ ‫ایڈیشن شائع کررہ ںہی۔یہ اردو صحافت یک بہت بری کامیائ ہ ر‬
‫ے‬ ‫ے‬
‫ر‬ ‫ی‬ ‫ر‬ ‫ٓ‬
‫واٹس ایپ کا بیھ استعمال کیا جا رہا ہ۔جہاں اسائ ےس لوگوں تک رسائ ممکن ہو پاریہ ہ۔ان رٹنیٹ پر ی‬
‫کٹ لوگوں ن اپنا‬ ‫ے‬ ‫ے‬
‫ے‬ ‫ی‬ ‫ٓ‬ ‫ی‬
‫می حصہ بیھ ےل‬ ‫ذائ بالگ بیھ بنایا ےہ جہاں اپکو خٹیں بیھ مل جائ ںہی۔اور کیس خاص موضوع پر بحث و مباحئ ں‬
‫ن تو ن جا نہ ہوگا کہ ر‬ ‫کرسکئ ہی۔اگر ایسا کہا جا ی‬ ‫اپٹ ر ی‬
‫انٹنیٹ اس وقت موثر ترین ذریعہ ابالغ‬ ‫ی ں‬ ‫ات کا اظہار بیھ‬ ‫ی‬
‫سکئ ںہی۔اور ر‬

‫نہی‬ ‫اپن اندر ‪،‬اخبارات ‪،‬میگزین ‪،‬رساےل ‪،‬ریڈیو ‪،‬ٹییل ویژن ‪،‬فلم وغٹہ کوسمیٹ لیا ہ۔دنیا یک ی‬
‫کوئ اییس ں ر‬ ‫ن ر‬ ‫۔انٹنیٹ ر‬
‫ہ ر‬
‫چٹ ں‬ ‫ے‬ ‫ں‬ ‫ے‬
‫ٓ‬ ‫ر‬ ‫جو ر‬
‫نہیںہے۔انٹنیٹ یک ایک اہم خوئ یہ بیھ ےہ کہ اس ےک ذریعہ اپ اپنا پیغام خواہ وہ تقریری ہو یا‬ ‫انٹنیٹ پر موجود‬
‫انٹنیٹ ےک‬ ‫می اردو صحافت بیھ ر‬ ‫کوت ر‬
‫کوت تک پہنچا ی‬ ‫تحریری دنیا ےک ر‬
‫سکئ ںہی۔مخترص یہ کہ اس جدید ٹکنالوج ےک دور ں‬
‫می اہم کردار ادا کرریہ ےہ۔‬ ‫ی‬
‫ذریعہ دورسی زبانوں یک صحافت ےک ساتھ ترق یک راہ پر گامزن ےہ۔اور اردو ےک فروغ ں‬

‫صحافت یک اہمیت ‪)Importance of Journalism(:‬‬

‫ٓ‬ ‫صحافت کو ر‬
‫غٹ معمویل اہمیت حاصل ےہ۔ صحافت یک قوت در اصل عوام یک قوت ےہ۔اج کا دور ابالغیات‬
‫می ں‬
‫معارسے ں‬
‫می اسیک اہمیت ےک غماز‬ ‫کا دور ہ۔صداقت اور راست بازی صحافت یک وہ بنیادی خصوصیات ںہی جو ر‬
‫معارسے ں‬ ‫ے‬
‫ی‬ ‫ی‬ ‫ر‬
‫ںہی۔صحافت انسائ اقدار ےک تحفظ یک ضامن ہوئ ےہ۔مجبور و مظلوم عوام ےک جذبات یک پیامٹ ہوئ ےہ۔تاری خ گواہ ےہ‬
‫ر‬
‫صحاق ےک نوک قلم ر‬ ‫ْ‬ ‫کہ جب کبیھ سماج می ظلم و ستم ر‬
‫ن ظالم کا رس قلم کرےک رکھ دیا ۔عام طور پر‬ ‫ن رس اٹھایا تو‬ ‫ں‬
‫تعبٹ کیا جاتا ےہ۔(‪ )Journalism is the Fourth pole of Democracy‬کیس‬ ‫صحافت کو مملکت ےک چوتھے ستون ےس ں‬
‫بیھ جمہوری حکومت می قانون ساز ادارے پارلیمنٹ ‪،‬انتظامیہ اور عدلیہ ن حد رضوری ی‬
‫ہوت ںہی۔ان تینوں اداروں یک بقاء‬ ‫ں‬
‫بغٹ ان تینوں اداروں کا جمہوریت پسند ہونا شک و شبہ یک‬ ‫ی‬
‫سالمٹ ےک ںلئ صحافت کا وجود ناگزیر ےہ۔صحافت ےک ں‬ ‫اور‬
‫می کس‬
‫می صحافت کا عمل دخل نہ ہوتو ہم ںی کیےس پتہ چےل گا کہ پارلیمنٹ ں‬
‫گنجائش پیدا کرتا ےہ۔اگر ان تینوں اداروں ں‬
‫وغٹہ۔عوام یک بات حکومت اور‬
‫وغٹہ ں‬
‫ہورہ ںہی‪،‬بجٹ کس طرح کا ےہ ں‬ ‫ے‬
‫ںر‬
‫قوانی تیار‬ ‫موضو ع پر بحث ہوریہ ےہ‪،‬کون ےس ینئ‬
‫دیٹ ہ۔صحافت یک اہمیت و افادیت ےس اس ےک مثبت و ر‬
‫منق‬ ‫ن کا فریضہ صحافت انجام ی‬ ‫حکومت یک بات عوام تک پہچا ر‬
‫ے‬
‫می ی‬
‫لکھن ںہی‪:‬‬ ‫ہوت کنور محمد دلشاد ر‬ ‫کرت ی‬
‫پہلوئوں کا تذکرہ ی‬
‫اپٹ تصنیف ’’ابالغ نامہ‘‘ ں‬

‫‪Page 20 of 21‬‬
‫خی ‪،‬ایک افواہ یا ایک غلط ’’‬
‫صحافت ایک جادو ےہ۔جس ےک بول می خی و رس گ بجلیاں روپوش ہی۔ایک معمویل س ر‬
‫بیان ےک دو رس نتائج مرتب ے‬
‫ہوئ ہی جن پر قابو پانا مشکل ہوجاتا ےہ۔کیس شخص کو بام عروج پر پہنچانا ہومذلت می‬
‫ڈھکیلنا ہو‪،‬کیس یا تحریک کو قبولیت گ سند عطا کرنا ہوگا یا اس س متفر کرنا ہوگا ‪،‬حکومت گ کیس پالییس کو‬
‫ے‬
‫دوسن پیدا کرنا ہوتو یہ صحافت کا ادن سا کرشمہ‬ ‫کامیاب بنانا یا ناکام کرنا ہو‪،‬یا مختلف اقوام می جذبات نفرت یا‬
‫‘‘ہ۔‬
‫ے‬

‫اپٹ دھاک بٹھاتا ہ۔اخبارات یک بدولت حکومت ی‬


‫بنٹ‬ ‫می ر‬ ‫ایک اچھا ذی اثر حق گو اور ن باک اخبار خود بہ خود ر‬
‫معارسے ں‬
‫ے‬
‫ی‬
‫جادوئ اثر ےس متاثر ہو کر کہا تھا۔۔۔‬ ‫نیپولی بوناپارٹ ر‬
‫ن اخبار یک ن پناہ قوت اور اس ےک‬ ‫ں ر‬ ‫بیھ ہ اور ی‬
‫ٹوٹٹ بیھ ےہ۔ایس ںلئ‬ ‫ے‬
‫ٓ‬
‫اکی الہ ابادی ث ’’‬ ‫می سو ر‬
‫فوج دستوں ےک مقابےل می ایک اخبار س زیادہ ڈرتا ہوں۔ ‘‘اردو ےک مشہور و معروف شاعر ر‬
‫اخبارات گ اہمیت س متاثر ہوکر کہا تھا۔۔‬

‫کھینچو نہ کمانو کو نہ تلوا ر نکالو‬

‫جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکا‬

‫ان ےک عالوہ سینکڑوں اخبارات جاری ہوئ ۔لیکن ان گ اشاعت ‪،‬مایل وسائل اور قارئی گ کیم ےک باعث بند ہوگت۔لیکن‬
‫ٓ‬
‫رہ ہی۔اردو اخبارات گ‬ ‫بعض اخبارات مختلف مسائل ےک باوجود اج بیھ جاری ہی اور قابل تحسی خدمات انجا م دے ے‬
‫ٓ‬
‫کررہ‬
‫ے‬ ‫ایک طویل تاری خ ریہ ےہ۔اردو صحافت ث معارسے کو ایک خاص ڈگر پر الث می اہم کردار ادا کیا ےہ اور اج بیھ‬
‫ہی۔جس کا ے‬
‫اعیاف ہمی کھےل دل س کرنا چاہت۔‬

‫‪Page 21 of 21‬‬

You might also like