You are on page 1of 3

‫پیش نظر اسے ’’قومی ستون‘‘ کا‬ ‫میڈیا دور حاضر کا ایک اہم ’’ہتھیار‘‘ ہے۔ اہمیت کے ِ‬

‫درجہ دینا بے جا نہ ہوگا۔ اس کے بنیادی مقاصد میں عوا ْم النّاس کو ہر طرح کی معلومات‬
‫پرنٹ میڈیا اور‬‫ب َہم پہنچانا‪ ،‬تشہیر اور تفریح شامل ہیں۔ اس کے لیے الیکٹرانِک میڈیا ‪ِ ،‬‬
‫سوشَل میڈیا سبھی اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ میڈیا جدیدیت کا ایک اہم ہتھیار ہے کیونکہ‬
‫جو ہمیں دکھایا جاتا ہے وہ ہماری سوچ اور شخصیت پر گہری چ َھاپ ڈالتا ہے۔ میڈیا عوام‬
‫کے ذہنوں کو کنٹرول کرتا ہے اور حکومت اور عوام کے درمیان رابطے کا کام کرتا ہے۔‬
‫عوام اپنے منتخب نمائندوں کی کارکردگی سے باخبر رہتے ہیں اور اس کے مطابق ر ِد‬
‫عمل یا رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ اس کے عالوہ میڈیا گورنمنٹ اور دوسرے اداروں کے‬
‫کرپٹ سیاست دانوں کے اعمال سے پردہ اٹھا کر ان کی اصلیت عوام کو دکھاتا ہے۔ میڈیا‬
‫ہی کے توسط عوام اسٹیل مل ‪ 26‬ملین ڈالر کرپشن‪ ،‬رینٹل پاور کرپشن‪ ،‬حج کرپشن‪ ،‬پانامہ‬
‫لیکس وغیرہ جیسے کیسز سے آگاہ ہوسکے اور ناخواندگی کی بڑی شرح کے باوجود اس‬
‫پر تنقید اور رائے دہی کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اس طرح رائے عامہ سے جمہوریت کو‬
‫فروغ دیا جا رہا ہے۔‬

‫میڈیا نے تعلیم و ترقّی میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ مختلف اداروں کی تعلیمی ویب‬
‫سائٹس‪ ،‬فارمز ‪ ،‬بالگز فروغِ تعلیم کے لیے کوشاں ہیں۔ حالیہ سالوں میں آن الئن لیکچرز‬
‫کے ذریعے تعلیم و ت َدریس کا رواج عام ہورہا ہے۔ سوشل میڈیا پر ’’رائٹرز کلب‘‘ جیسے‬
‫صفحات اور گروپس عام لوگوں کے لکھنے کے شوق کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔‬
‫دنیا بھر میں ہونے والی نت نئی ایجادات اور دریافتوں سے واقفیت ہمیں سائنس و ٹیکنالوجی‬
‫کی دنیا کے برابر صف آرا ہونے میں معاون ثابت ہوگی۔‬

‫مزید برآں ٹیلی وڑن پر اسالمی نشریات جن کا اہتمام بالخصوص ضیاء دور میں کیا گیا‬
‫کے ذریعے بہت سے اصالحی اور تعمیراتی پروگرام نشر کیے گئے۔ جس سے تفریح‬
‫کے ساتھ ساتھ بچوں کی تعلیم و تربیت میں بھی معاونت ہوئی اور عام لوگوں کو دینی‬
‫احکامات و مسائل سے متعلق راہنمائی ملی۔ میڈیا کے ثقافتی پروگرام اور کھیلوں کی‬
‫نشریات قومی ہم آہنگی پیدا کرنے میں بھی اپنی اہمیت کی حامل ہیں۔‬

‫میڈیا کی وساطت سے ہمیں دنیا میں موجود مختلف قوموں کی تہذیب‪ ،‬رسم و رواج‪ ،‬تہوار‪،‬‬
‫سیاسی و سماجی حاالت و واقعات اور ملکی پالیسیوں کے متعلق علم ہوتا ہے جس کے‬
‫ذریعے ہم دوسرے ممالک کے ساتھ پرامن اور خوشگوار تعلقات استوار کرسکتے ہیں۔‬
‫میڈیا کے ذریعے ہمیں بہت سے جرائم اور امراض سے آگاہی اور ِحفاظتی تدَابِیر بتائی‬
‫جاتی ہیں۔ میڈیا کے ذریعے بہت سے ایسے موضوعات پر روشنی ڈالی جاتی ہے جو اس‬
‫سے پہلے تاریک تھے۔میڈیا کے ذریعے آن الئن خرید و فروخت نے بھی ملکی معیشت‬
‫پر مثبت اثر ڈاال ہے اور اشتہارات چال کر بہت سے مصنوعات کی خرید میں اضافہ‬
‫دیکھنے میں آیا ہے۔‬

‫جہاں میڈیا پاکستان کی فالح و ترقی میں اپنا مثبت کردار ادا کر رہا ہے وہاں اس کے منفی‬
‫نتائج بھی اتنی ہی ْق َّوت سے اْبھر رہے ہیں۔ میڈیا نے ہماری تہذیب و ثقافت اور زبان پر‬
‫گہرا اثر ڈاال ہے۔ کم علمی کے باعث اندھی تقلید کے نتیجے میں ہم غیر ملکی تہذیب میں‬
‫جذب ہوکر اپنی تہذیب کھو چکے ہیں۔ ہم نے جہیز‪ ،‬مہندی وغیرہ جیسی بے شمار غیر‬
‫اسالمی رسومات کو اپنے گلے کا طوق بنا لیا ہے۔ فرینڈ شپ ڈے‪،‬ویلنٹائن ڈے‪ ،‬نیو ائیر‬
‫وغیرہ جیسی خرافات کا زہر میڈیا کے ذریعے ہی نئی نسل کے ذہنوں میں انڈیال جارہا‬
‫ہے۔ اولڈ ہاؤس کے قیام اور خواتین آرڈینینس کے نام پر ہمارے مضبوط خاندانی نظام کو‬
‫توڑنے کی سعی جاری ہے۔ میڈیا کی طرف سے مغربی مصنوعات کے برانڈز کی ت َشہیر‪،‬‬
‫غیر ملکی زبانوں اور کھانوں کی ترغیب نہایت خاموشی سے ہمارے معاشرے کی ثقافت‬
‫پر اپنا َرنگ جما رہی ہے۔‬

‫محض ریٹنگ کے حصول کے لیے ہمارا میڈیا جرائم کو جس طرح اْچھالتا ہے کہ لوگوں‬
‫کو اس سے جرائم کے طریقے پتا چلتے ہیں۔ جیسے کچھ عرصہ پہلے ایک مقتول کی‬
‫الش جسے قتل کرکے گٹر میں پھینک دیا گیا تھا جیب میں موبائل کی وجہ ٹریس کر لی‬
‫گئی۔ مگر اب میڈیا کی نشاندہی کے باعث مجرم آئندہ اس بارے میں خاص احتیاط کریں‬
‫گے۔‬

‫میڈیا قوانین سے آگاہی کے ساتھ ‪ ،‬القانونیت کا بھی ذمہ دار ہے۔ غیر سزا یافتہ مجرم‬
‫جیسے ریمن ڈیوس وغیرہ کی خبروں کو ہوا دینے سے جرائم پیشہ لوگوں کی حوصلہ‬
‫افزائی ہوگی اور عوام میں حکومت کے لیے نفرت پیدا ہوگی۔ لوگ قانون کو اپنے ہاتھ‬
‫میں لینے کی کوشش کریں گے۔ میڈیا نے سیاسی پارٹیوں کی حمایت کرکے لوگوں کو‬
‫سیاسی انتشار میں مبتال کردیا ہے۔ بہت سے واقعات کی یک طرفہ تصویر دکھا کر عوام‬
‫کی طرف داری حاصل کرنا بھی میڈیا کا جرم ہے۔‬

‫بہت سے غیر تعمیری پروگرام اور تفریحی نشریات وقت کے ضیاع کا باعث بنتے ہیں۔‬
‫پاکستان سوشل میڈیا خصوصا ً انٹرنیٹ ‪ ،‬فیس بک نے بے راہ روی کو بہت فروغ دیا۔ آئی‬
‫ٹی پورٹل کے مطابق پاکستان میں انٹر نیٹ ‪ 1990‬کی دہائی کے آغاز سے موجود ہے۔‬
‫جون ‪ 2009‬کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی ‪10‬۔‪ %4‬آبادی انٹرنیٹ استعمال‬
‫کررہی ہے جس میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی سائٹ فیسبک ہے جس کے‬
‫صارفین کے لحاظ سے سے ‪3‬۔‪ 4‬ملین مرد اور ‪1‬۔‪ 6‬ملین خواتین صارفین کیساتھ پاکستان‬
‫دنیا میں ‪ 26‬ویں نمبر پر آتا ہے۔ اور ان فیسبکی صارفین میں ‪ %76‬صارفین کی عمر ‪18‬‬
‫سے ‪ 34‬سال کے درمیان ہے۔ موبائل اور انٹرنیٹ کے ذریعے ہونے والی دوستیوں نے‬
‫معاشرے میں گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ جیسے واحیات تصورات کو تقویت دی۔ انٹرنیٹ‬
‫دوستی محبت کا شیطانی روپ دَھارتی ہے تو ویلنٹائن ڈے مالقات کا سنہرا موقع فراہم‬
‫کرتا ہے۔ نتیجتا بہت سی لڑکیاں لڑکوں کے ہاتھوں بلیک میلنگ سے تنگ آکر خود سوزی‬
‫کرتی ہیں یا اسمگل ہوجاتی ہیں۔ لہذا بڑھتے ہوئے ِزنا اور بے حیائی میں انٹرنیٹ دوستی‬
‫کا بڑا ہاتھ ہے۔‬

‫میڈیا پر ہر خبر کو اچھالنے کے ساتھ ریٹنگ کے لیے مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہوئے‬
‫کچھ خبریں رائی کا پہاڑ بنا کر پیش کی جاتی ہیں۔ میڈیا کی بدولت رائے عامہ نے فروغ‬
‫پایا لیکن اس نے ہمیں غیر ضروری تبصروں کی عادت بھی ڈال دی ہے۔ قتل و غارت‬
‫کی وارداتوں‪ ،‬دھماکوں اور کرپشن وغیرہ کی مرچ مصالحہ لگی خبروں سے میڈیا نے‬
‫بین االقوامی طور پر لوگوں کو پاکستان کا تا?َثر بطور غیر محفوظ ملک دیا ہے۔ میڈیا کی‬
‫ذمہ داری ہے کہ خبر کو اس طرح نشر کرے کہ ملکی وقار خراب نا ہو۔ سیالب‪ ،‬حملے‬
‫‪،‬دھماکے خونی مناظر کی خبریں بیک گراؤنڈ میوزک کے ساتھ پیش کی جاتی ہیں جس‬
‫سے ڈرے سہمے عوام میں مزید اضطراب اور بے چینی پیدا ہوجاتی ہے۔ پاکستانی میڈیا‬
‫کو چاہیے کہ غیر جانبداری سے کام کرے‪ ،‬حقائق پر مبنی خبریں نشر کرے ۔ایسا کچھ‬
‫بھی نا دکھایا جائے جو اسالم کے احکام کے منافی ہو۔‬

You might also like