You are on page 1of 13

‫کورس ‪ :‬اُصول صحافت‬

‫کوڈ ‪5624 :‬‬


‫سمسٹر بہار ‪2023‬‬
‫مشق نمبر‪2‬‬
‫پروگرام ‪ :‬ایم اے اُردو‬

‫سوال نمبر‪ 1‬۔ اخبار کی اشاعت میں درپیش مختلف مسائل کا جائزہ لیں؟‬
‫پاکستان کے اخباری اداروں کی نمائندہ تنظیم آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی )‪ (APNS‬ہے۔ اس‬
‫ادارے کے بنیادی فرائض رکن مطبوعات کے مفادات کا تحفظ‪ ،‬انہیں اے پی این ایس سے منظور‬
‫شدہ )‪ (Accrediated‬اشتہاری ایجنسیوں کے ذریعے ملنے والے اشتہارات کی رقوم کی ادائی یقینی‬
‫ہاوس کا بھی ہے۔ حکومت پریس‬‫بنانا ہے۔ اس لحاظ سے اے پی این ایس کا کردار ایک کلیئرنگ ٔ‬
‫تعلقات اے پی این ایس کے ای جنڈے پر ہمیشہ ایک اہم نکتہ رہے ہیں۔ حکومت پریس تعلقات پر بحث‬
‫میں پرنٹ میڈیا کے بارے میں حکومتی پالیسیوں‪ ،‬قانون سازی یا اخباری اداروں پر کسی وقت پڑنے‬
‫دباو پر بات ہوتی رہی ہے۔ اخبارات و رسائل کو سرکاری اشتہارات کی پالیسی‪،‬‬
‫والے حکومتی ٔ‬
‫اشتہارات کے واجبات کی ا خبارات کو ادائی بھی مخصوص موضوعات رہے ہیں۔ سرکاری‬
‫اشتہارات سے ملنے والے ریونیو پر پاکستان کے چند بڑے اخبارات یعنی میٹرو پولیٹن‪ A‬اخبارات کا‬
‫انحصار بیس سے تیس فیصد تک ہے۔ میٹرو پولیٹن‪ B‬اور عالقائی اخبارات کا اس ریونیو پر انحصار‬
‫ستر سے اسی فیصد تک ہے۔ واضح رہے کہ ان میں اردو اور انگریزی کے عالوہ سندھی‪ ،‬پنجابی‪،‬‬
‫پشتو‪ ،‬بلوچی‪ ،‬سرائیکی‪ ،‬براہوی‪ ،‬گجراتی اور دیگر زبانوں میں شائع ہونے والے اخبارات بھی شامل‬
‫ہیں۔ اردو اور انگریزی کے بعد سندھی زبان میں سب سے زیادہ اخبارات اور رسائل شائع ہو رہے‬
‫ہیں۔ ملک میں اکنامک انڈیکیٹرز مثبت اشارے دے رہے ہوں‪ ،‬صنعتی‪ ،‬تجارتی سرگرمیوں میں تیزی‬
‫ہو‪ ،‬خصوصا ً تعمیراتی صنعت میں نئے نئے پروجیکٹس متعارف ہو رہے ہوں تو اخبارات و رسائل‬
‫کو اشتہارات کا اجرا مناسب انداز سے جاری رہتا ہے۔‬
‫وطن عزیز میں اخبارات آج کل مشکالت کا سامنا کر رہے ہیں۔ صرف میٹرو پولیٹن‪ B‬اور عالقائی‬
‫اخبارات ہی نہیں بلکہ پرائیویٹ سیکٹر کی طرف سے اشتہارات میں کمی کے منفی اثرات اب بڑے‬
‫اخباری اداروں میں بھی سامنے آرہے ہیں۔ پاکستان میں اخبارات کی اشاعت کے لئے غیر ملکی‬
‫کاغذ استعمال ہوتا ہے۔ پچھلے چند ماہ میں بین االقوامی مارکیٹ میں نیوز پرنٹ کی قیمتوں میں بہت‬
‫اضافہ ہوا ہے۔ پاکستانی اخبارات ابھی نیوز پرنٹ کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے ہونے والے اثرات‬
‫سے نمٹنے کے منصوبے بنا رہے تھے کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں بھی تیزی سے‬
‫کمی ہو گئی۔ اس طرح اخبار کے بنیادی خام مال یعنی نیوز پرنٹ کی قیمت میں تقریبا ً دگنا اضافہ ہو‬
‫گیا۔ طباعت میں استعمال ہونے والی دیگر کئی اشیاء بھی امپورٹ ہوتی ہیں‪ ،‬ڈالر کی قیمت بڑھنے‬
‫سے ان کی درآمدی قیمت بھی بڑھ چکی ہے۔ طباعتی الگت میں جتنا اضافہ ہوا ہے اخبارات بوجوہ‬
‫اپنی قیمت اس تناسب سے نہیں بڑھا سکتے۔ ایسے میں پرائیویٹ سیکٹر اور پبلک سیکٹر سے جاری‬
‫ہونے والے اشتہارات میں کمی اور شائع شدہ اشتہارات کے اکثر واجبات کا نہ ملنا پاکستانی اخبارات‬
‫و رسائل کے لئے شدید بحران بلکہ بقا کا مسئلہ بن گیا ہے۔ ان مشکل حاالت میں ‪16‬اکتوبر کو‬
‫پاکستانی اخبارات کی تنظیم آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی کے ایک وفد کی مالقات وزیراعظم‬
‫پاکستان عمران خان سے ہوئی۔ اے پی این ایس کے صدر حمید ہارون‪ ،‬سیکریٹری جنرل سرمد علی‬
‫نے عمران خان کو انتخابات میں کامیابی اور وزیراعظم کا منصب سنبھالنے پر مبارکباد دی۔‬
‫جمہوریت کے استحکام کے لئے پریس کے تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ اس کے بعد اخباری اداروں‬
‫کو درپیش شدید مالی بحران سے وزیر اعظم کو آگاہ کیا۔ اے پی این ایس کے سینئر نائب صدر‬
‫قاضی اسد عابد‪ ،‬محترمہ رمیزہ نظامی‪ ،‬مجیب الرحمٰ ن شامی‪ ،‬مہتاب خان عباسی‪ ،‬جمیل اطہر‬
‫قاضی‪ ،‬ممتاز اے طاہر‪ ،‬وسیم احمد اور سردار خان نیازی نے بھی میٹرو پولیٹن عالقائی اخبارات‬
‫پہلووں کو مزید واضح کیا۔ اس موقع پر وفاقی وزیر اطالعات فواد‬
‫ٔ‬ ‫اور رسائل کو درپیش مختلف‬
‫چوہدری‪ ،‬معاون خصوصی برائے میڈیا افتخار درانی‪ ،‬سینیٹر فیصل جاوید اور سیکریٹری اطالعات‬
‫شفقت جلیل بھی موجود تھے۔ اخباری اداروں کے نمائندگان کے ب یان کردہ مسائل پر بات کرتے‬
‫ہوئے وزیراعظم پاکستان عمران خان نے واضح طور پر کہا کہ انہیں سیاسی جدوجہد میں پرنٹ‬
‫میڈیا کا بھرپور تعاون ملتا رہا۔ عمران خان نے واضح الفاظ میں کہا کہ آج میں جس مقام پر ہوں وہ‬
‫مرہون منت ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ کرپشن کی وجہ سے ملک کی معاشی حالت تباہ‬
‫ِ‬ ‫میڈیا کا ہی‬
‫ہو چکی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایکسپورٹ میں تیز رفتار اضافے اور غیر ممالک میں مقیم‬
‫پاکستانیوں کو ترغیبات دیتے ہوئے ترسیالت زر میں اضافے کی پالننگ کی جا رہی ہے۔ ان شاء ہللا‬
‫ہم جلد ہی ‪30‬ارب ڈالر ایکسپورٹ اور ترسیالت زر میں ‪30‬ارب ڈالر کا اہداف حاصل کر لیں گے۔‬
‫اخبارات کو درپیش مسائل پر وزیراعظم نے وفاقی وزیر اطالعات فواد چوہدری کی سربراہی میں‬
‫ایک کمیٹی کے قیام کا اعالن کیا۔ اگلے روز بدھ ‪17‬اکتوبر کو اے پی این ایس‪ ،‬کونسل آف پاکستان‬
‫نیوز پیپرز ایڈیٹر )‪ (CPNE‬اور پاکستان براڈ کاسٹنگ ایسوی ایشن )‪(PBA‬کے عہدہ داروں کے‬
‫ایک مشترکہ وفد نے وزیراعظم سے مالقات کی اور اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کو درپیش مسائل‬
‫پر بات کی۔ اس موقع پر اے پی این اسی کے سیکریٹری جنرل سرمد علی نے وزیراعظم کو بتایا کہ‬
‫نیوز پرنٹ پر پانچ فیصد امپورٹ ڈیوٹی عائد ہے‪ ،‬یہ رقم ‪15‬تا ‪18‬کروڑ ساالنہ بنتی ہےجبکہ ود‬
‫ہولڈنگ ٹیکس اس کے عالوہ ہے۔ سرمد علی نے کہا کہ اگر یہ ڈیوٹی اور ود ہولڈنگ ٹیکس ختم کر‬
‫دئیے جائیں تو اس سے اخبارات کو کچھ ریلیف مل جائے گا۔ وزیراعظم عمران خان نے اس مالقات‬
‫میں کہا کہ پاکستان کی معیشت تباہ اور ادارے برباد ہو چکے ہیں؛ تاہم مثبت پالیسیوں کے ذریعے‬
‫آئندہ چھ ماہ میں حاالت کافی بہتر ہو جائیں گے۔ میٹنگ کے اختتام پر وزیراعظم نے اے پی این ایس‬
‫کے صدر حمید ہارون کو مخاطب کیا اور اعالن کیا کہ سرمد علی کی تجویز پر نیوز پرنٹ پر پانچ‬
‫فیصد امپورٹ ڈیوٹی ختم کر رہا ہوں۔‬
‫پاکستا ن کی اقتصادی مشکالت کی وجوہات کئی غلط پالیسیوں میں پنہاں ہیں۔ غلط پالیسیوں کی‬
‫اصالح آسان کام نہیں ہے۔ وزیراعظم پر قوم نے اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ توقع ہے کہ عمران‬
‫حکومت کم وقت میں اقتصادی حاالت بہتر بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ پاکستان کی معاشی‬
‫مضبوطی کے ث مرات عوام کے ہر طبقے تک پہنچیں گے۔ پرنٹ میڈیا عوام کی آواز‪ ،‬حکومت اور‬
‫عوام کے درمیان موثر رابطے کا ایک ذریعہ ہے۔ پرنٹ میڈیا کو موجودہ مالی مشکالت سے نکالنا‬
‫اظہار رائے‪ ،‬جمہوریت کے استحکام اور‬
‫ِ‬ ‫حکومت کی ترجیحات میں شامل کرنا ملک میں آ ٔ‬
‫زادی‬
‫علوم و فنون کے فروغ میں معاون ہو گا۔‬

‫سوال نمبر ‪ 2‬۔ جدید دور میں صحافت میں رونما ہونے والے تبدیلیوں پر روشنی ڈالیں؟‬
‫‪ 1970‬میں ٹیلی ٹیکسٹ کے نام سے یوکے میں متعارف ہونے واال ٹول ڈیجیٹل صحافت کا نقطہ آغاز‬
‫تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہ ایک نظام تھا جس میں صارف کو موقع دیا جاتا تھا کہ وہ پہلے کون سی‬
‫اسٹوری دیکھنا یا پڑھنا چاہتا ہے۔ ٹیلی ٹیکسٹ کے ذریعہ مہیا کی جانے والی معلومات مختصر مگر‬
‫فوری ہوا کرتی تھیں۔ ورٹیکل بلیکنگ انٹرویل یا وی بی آئی کے نام سے معروف ٹیلی ویژن سگنلز‬
‫فریم کے ذریعے معلومات کی ترسیل کی جاتی تھی۔‬
‫پریسٹل دنیا کا وہ پہال نظام تھا جس کے ذریعے ویڈیوٹیکس کی تخلیق عمل میں آئی۔ ‪ 1979‬میں‬
‫متعدد برطانوی اخبارات مثال فنانشل ٹائمز نے اپنی اسٹوریز آن الئن مہیا کرنا شروع کیں۔ صارفین‬
‫کی ضروریات پوری نہ کر سکنے کے سبب ویڈیوٹیکس ‪ 1986‬میں ختم ہو گیا تھا۔ اسی دوران‬
‫امریکا میں ویوٹورن‪ ،‬کی کام اور گیٹ وے وغیرہ شروع ہوئیں تاہم یہ بھی ‪ 1986‬تک بند ہو چکی‬
‫تھیں۔‬
‫‪1980‬کے اختتام اور ‪ 1990‬کے ابتدا بلیٹن بورڈ سسٹم متعارف کیا گیا۔ بی بی سی سافٹ ویئر اور‬
‫ٹیلی فون موڈیمز کے ذریعہ متعدد چھوٹے اخبارات نے آن الئن نیوز سرور شروع کی۔‬
‫آن الئن نیوز خبرس نے سے کام شروع کیا۔ مبینہ طور پر شمالی کیرولینا کے امریکی اخبار دی‬
‫نیوز اینڈ آبزرور نے نینڈو کے نام سے آن الئن خبروں کی فراہمی شروع کی۔ ‪ 1994‬میں پہلے‬
‫کمرشل ویب براؤزر نیٹ اسکیپ اور ‪ 1995‬میں انٹرنیٹ ایکسپلورر کے متعارف ہونے والے کو‬
‫ڈیجیٹل جرنلزم میں اضافے کا وقت تسلیم کیا جاتا ہے۔ ‪ 1996‬تک متعدد ابالغی ادارے آن الئن شکل‬
‫اختیار کر چکے تھے۔ اس مرحلہ پر ادارتی مواد اخبار‪ ،‬ریڈیو یا ٹیلی ویژن کے لیے تیار شکل میں‬
‫ہی انٹرنیٹ پر پیش کیا جاتا تھا۔‬
‫اے او ایل اور یاہو کی صورت جلد ہی نیوز ایگری گیٹرز سروسز متعارف کرائی گئیں جو خبروں‬
‫سے متعلق پلیٹ فارم سے مواد جمع کر کے صارف کو فراہم کیا کرتے۔ ‪ 1995‬میں سیلون متعارف‬
‫ہوا۔ ‪ 2001‬میں امریکن جرنلزم ریویو نے سیلون کو دنیائے انٹرنیٹ کا پہال نمایاں پلیٹ فارم قرار دیا‬
‫جس نے ڈیجیٹل صحافت کو ایک قدم آگے بڑھایا۔‬
‫ڈیجیٹل صحافت کی انفرادیت‬
‫ڈیجیٹل صحافت کی ابتدا کے کچھ ہی عرصہ میں بالگنگ اور اسی شعبہ کی دیگر اصناف بھی‬
‫متعارف ہو چکی تھیں۔ پہلے سے صحافت سے وابستہ افراد یا لکھنے میں دلچسپی رکھنے والے‬
‫نئے افراد نے بالگنگ کو ابالغ کا ذریعہ بنایا جس نے تیزی سے صارفین کی توجہ حاصل کی۔‬
‫روایتی میڈیا کے برعکس پورا دن ہر لمحہ اپ ڈیٹ ہونے والی معلومات بروقت صارف تک پہنچ کر‬
‫اسے بہتر انداز میں باخبر رکھتی ہیں یہ ڈیجیٹل صحافت کی بنیادی خوبیوں میں سے ایک تصور کی‬
‫گئی۔ اتنا ہی نہیں بلکہ پیش کی جانے والی معلومات کی تفصیل اور متعدد ذرائع سے اس کی دستیابی‬
‫نے وہ کمی بھی پوری کی جو دیگر میڈیمز پوری نہیں کر سکتے تھے۔ ڈیجیٹل صحافت نے‬
‫معلومات پر سے کارپوریٹ اور حکومتی کنٹرول کو بھی ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔‬
‫اخبارا ت جگہ کی تنگی اور مخصوص وقت پر شائع ہوتے تھے۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن زیادہ سے‬
‫زیادہ معلومات کو سامع اور ناظر تک پہنچانے کے چکر میں انہیں بہت مختصر کر دیتے تھے لیکن‬
‫ڈیجیٹل صحافت نے ناصرف بروقت معلومات مہیا کیں بلکہ صارف کو یہ سہولت بھی فراہم کی وہ‬
‫اپنے مطلب کی معلومات پوری تفصیل سے حاصل کر سکے۔‬
‫پاکستان میں ڈیجیٹل صحافت‬
‫‪ 1990‬کی دہائی کی ابتدا میں انٹرنیٹ پاکستان میں متعارف کیا گیا جس کے بعد سے آئی سی ٹی یا‬
‫انفارمیشن اینڈ کیمونیکیشن ٹیکنالوجی تیزی سے فروغ پانے والی صنعتوں میں نمایاں رہا۔ ‪2001‬‬
‫میں محض ایک اعشاریہ تین فیصد پاکستان انٹرنیٹ تک رسائی رکھتے تھے تاہم آئندہ پانچ برسوں‬
‫میں اس میں تیزی سے اضافہ ہوا اور ‪ 2006‬تک یہ تعداد بڑھ کر چھ اعشاریہ پانچ اور ‪ 2012‬میں‬
‫کل ملکی آبادی کا دس فیصد ہو چکی تھی۔ اکتوبر ‪ 2018‬تک پاکستان میں براڈبینڈ انٹرنیٹ استعمال‬
‫کرنے والوں کی ت عداد انتیس اعشاریہ سات فیصد سے تجاوز کر چکی تھی‪ ،‬گویا چھ کروڑ بیس الکھ‬
‫افراد ورلڈ وائڈ ویب سے منسلک ہو چکی تھے۔ یہ تعداد پاکستان کو دنیا میں انٹرنیٹ سے منسلک‬
‫ہونے والے بڑے ممالک میں شامل کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کو ایشیا میں ٹیکنالوجی حب کا‬
‫خطاب بھی دے چکی تھی۔‬
‫اسی عرصہ میں پاکستانی اخبارات انٹرنیٹ پر دستیاب ہونا شروع ہوئے۔ روزنامہ‬
‫جسارت اور انگریزی زبان کا اخبار روزنامہ ڈان انٹرنیٹ پر آنے والے اولین پاکستانی اخبارات‬
‫تھے۔ روزنامہ جنگ سمیت دیگر پاکستانی اخبارات بھی ‪ 90‬کی دہائی کے وسط تک انٹرنیٹ کا رخ‬
‫کر چکے تھے۔ اس مرحلہ پر بالگرز بھی منظرعام پر آنا شروع ہوئے۔‬
‫اکیسویں صدی شروع ہو کر آگے بڑھی تو پاکستان میں موبائل فونز کے فروغ اور انٹرنیٹ کی‬
‫رسائی میں اضافہ نے مزید افراد کو اس جانب راغب کیا۔ اس مرحلہ پر متعدد آزاد پبلشرز سامنے‬
‫آئے اور ‪ 11-2010‬تک دی نیوز ٹرائب‪ ،‬پاکستان ٹرائب‪ ،‬پروپاکستانی‪ ،‬ہماری ویب‪ ،‬اردو پوائنٹ کی‬
‫صورت متعدد نیوز اور میگزین پورٹلز صارفین کا اعتماد حاصل کر چکے تھے۔ ڈیجیٹل صحافت‬
‫سے منسلک ان پلیٹ فارمز کو شروع کرنے والوں میں شاہد عباسی پہلے سے ہی شعبہ صحافت‬
‫سے منسلک تھے۔ تلخابہ اور ابوشامل نامی بالگز بھی پہلے سے شعبہ صحافت سے وابستہ نعمت‬
‫خان اورفہدکیہر کی کوششوں کا حصہ تھے۔‬
‫جوں جوں انٹرنیٹ کی رسائی میں اضافہ ہوا ڈیجیٹل صحافت نے مخصوص شعبوں کے لیے بھی‬
‫خدمات کی فراہمی شروع کی۔ یہاں بھی آزاد خبرس روایتی میڈیا سے آگے رہیں۔ اس دوران ابوشامل‬
‫کے بانی فہد کیہر کی جانب سے کرک نامہ شروع کیا گیا جو اردو میں کرکٹ کے موضوع پر‬
‫پہلی خبر بنی۔ زراعت‪ ،‬معیشت‪ ،‬تعلیم کے موضوع پر بھی متعدد خبرس سامنے آئیں جن میں علم کی‬
‫دنیا‪ ،‬ایجو ویژن وغیرہ شامل ہیں۔‬
‫اکیسویں صدی کی دوسری دہائی شروع ہوئی تو ڈیجیٹل صحافت کے اولین افراد کے تجربوں کو‬
‫دیکھتے ہوئے اس شعبہ میں نئے تجربات کیے گئے۔ ‪ 2015‬میں پاکستانی صحافی جمال عبد ہللا‬
‫عثمان نے اردو ٹرائب‪ 2016 ،‬میں کالم نگار وجاہت مسعود نے ہم سب اور اردو صحافت سے‬
‫منسلک عامر ہاشم خاکوانی نے دلیل نامی خبرس کا اجرا کیا‬
‫مینگوباز‪ ،‬پڑھ لو نامی خبرس نے بھی انٹرنیٹ صارفین کی توجہ حاصل کی۔ انگریزی زبان میں‬
‫معمول سے ہٹ کر پیش کردہ موضوعات نے یوزرز کو متوجہ تو کیا لیکن مواد کی سطحی نوعیت‬
‫نے اس کا کوئی خاص اثر پیدا نہ ہونے دیا۔‬
‫پاکستان میں ڈیجیٹل پبلشنگ‬
‫ڈیجیٹل صحافت اور بالگنگ وغیرہ کے فروغ پانے کے ساتھ ساتھ روایتی میڈیا بھی اس شعبہ میں آ‬
‫چکا تھا۔ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کی ابتدا میں روایتی میڈیا سے منسلک افراد نے ڈیجیٹل‬
‫پبلشرز ایسوسی ایشن آف پاکستان کی بنیاد رکھی۔ اس تنظیم نے آزاد خبرس کو نظر انداز کیا۔ روایتی‬
‫میڈیا مالکان کی شعبہ سے عدم واقفیت اور دلچسپی نہ ہونے نے بھی اس موثر نہ ہونے دیا اور یہ‬
‫غیر عالنیہ طور پر معطل ہو گئی‬

‫سوال نمبر‪ 3‬۔ آفسٹ پرنٹنگ اور تصاویر کی پرنٹنگ کا طریق کار تفصیال بیان کریں؟‬
‫آفسٹ پرنٹنگ کا طریقہ کار‬
‫انیسویں صدی میں تمام اخبارات ٹائپ یا لیھوطریق طباعت کے مطابق چھپتے تھے مگر یہ دونں‬
‫طباعت اب متروک ہو چکے ہیں اور ا ب تو ایسی مشینیں بننا بھی بند ہو گئی ہیں۔ بیسویں صدی میں‬
‫اخبارات کی اشاعت میں اضافے کے بعدلیتھومشنیوں کے ذریعے اخبارات کی مانگ پورا کرنا‬
‫ممکن نہ تھا۔ وقت کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے لیتھو طریق طباعت کی جگہ آفسٹ طریق‬
‫طباعت نے لے لی۔ اس طریق طباعت کا اصول لیتھو سے ملتا جلتا ہے اس لئے اسے آفسٹ لیتھو‬
‫گرافی بھی کہتے ہیں۔‬
‫بیسویں صدی کی نویں دھائی کے آغاز تک پاکستان کے تمام بڑے بڑے اخبارات ونڈائک آفسٹ پر‬
‫سائع ہوتے تھے۔ اس طریق طباعت کے مطابق اردو اخبارات ورسائل کی کتابت مومی کاغذ پر کی‬
‫جاتی تھی۔‬
‫تصاویر ‪ ،‬کارٹوں ‪ ،‬نقشوں اور خاکوں نیز اشتہارات کے پازیٹو فلم کی صورت بنائے جاتے تھے۔‬
‫تیسرا مرحلہ کاپی جوڑنے کا ہوتا تھا ‪ ،‬جسے سب ایڈیٹر اور آرٹ ایڈیٹر مل کر لے آوٹ کے مطابق‬
‫جوڑتے تھے۔‬
‫کاپی جوڑنے ک بعد اسے پراسسنگ سیکشن میں بھیجا جاتاتھا ۔ اگر کتابت آرٹ پیپر ہوتو پھر اس کا‬
‫عکس لے کر نیگیٹو بنایا جاتا تھا۔ بٹر پیپر پر کتابت کی صورت میں اسے ایک مشین میں رکھ کر‬
‫اس کا عکس زنک پلیٹ پر ڈاال جاتاتھا۔ یہاں آفسٹ پلیٹ تیار ہو جاتی تھی ۔‬
‫طباعت‬
‫اخبار کی طباعت کیلئے دو طرح کی آفسٹ مشینیں استعمال ہوتی ہیں۔ اس مشین کو شیٹ فیڈ آفسٹ‬
‫مشین کہتے ہیں ۔ یہ بیک وقت اخبار کے صرف دو صفحات چھاپ سکتی ہے ۔ کیونکہ اس پر کاغذ‬
‫تختوں اور رموں کی صورت میں استعمال کیا جاتاہے ۔ اس کے مقابلے میں دوسری مشین کوروٹری‬
‫پریس کہتے ہیں۔ ان مشینوں پر سارا اخبار بیک وقت چھپتا اور تہہ ہوتا چال جاتاہے ۔ جدید صحافت‬
‫کی ترقی میں ویب روٹری مشینوں نے انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے ۔ جو اخبار الکھوں کی تعداد میں‬
‫چھپتے ہیں انہیں روٹری مشینوں کی مدد کے بغیر شائع کرنا ممکن نہ تھا۔‬
‫تصویر کی پرنٹنگ کا طریقہ کار‬
‫رنگ آفسیٹ پرنٹنگ جدید گرافک پرنٹنگ کا بنیادی ذریعہ ہے‪ .‬پرنٹ کردہ تصاویر کے معیار کا‬
‫اندازہ طویل عرصہ سے کسٹمر کے بصری اور ذہنی امتیاز کی طرف سے کیا گیا ہے‪ .‬یہ ایک بہت‬
‫غریب اور مشکل کام ہے‪ .‬لہذا‪ ،‬رنگ پرنٹنگ کی تصویر کوالٹی کنٹرول حاصل کرنے کے لۓ‬
‫معقول طور پر اندازہ اور مکمل کرنے کے لئے تکنیکی عمل کو کیسے الگو کرنا ضروری ہے‪.‬‬
‫پرنٹ کی تصویر کے معیار کا تعین ایک مصنوعات اور اصل کے درمیان رابطے کی نمائندگی‬
‫کرنے کے لئے اعداد و شمار کے استعمال سے مراد ہے‪ .‬بعض اعداد و شمار اور شاخصوں کے‬
‫ساتھ‪ ،‬مصنوعات کے معیار کی غلطیوں کی قابل حد تک حد اور معیار کی خرابی کو تصویر کی‬
‫‪.‬اور معیار استحکام کو یقینی بنانے کے لئے کنٹرول کیا جاتا ہے ‪repeatability‬‬
‫چھپی ہوئی تصاویر کی کیفیت میں تین کلیدی عوامل ہیں‪ 1 :‬کی تصویر کی تیز رفتار‪ ،‬یہ ہے کہ‪،‬‬
‫تصویر کی کنارے کثافت میں تبدیلی انسانی بصیرت کی درجہ بندی کے ساتھ ہے‪ ،‬بنیادی طور پر‬
‫اسکرین پرنٹنگ اور ڈاٹ پر منحصر ہے‪ .‬پرنٹنگ میں اضافہ‪ 2 .‬تصویر کی سطح‪ ،‬جس میں‪،‬‬
‫تصویر میں ظہور سے متضاد کثافت کی سطح‪ ،‬بنیادی طور پر اس کے برعکس توسیع اور پری‬
‫پریس اور پرنٹنگ میں کمی ہے‪ 3 .‬تصویر کا رنگ‪ ،‬یہ ہے کہ‪ ،‬تصویر کے مختلف رنگوں اور غیر‬
‫جانبدار بھوری توازن کی پنروکتا کی درستگی‪ ،‬بنیادی طور پر رنگ علیحدگی کے میکانزم‪ ،‬معیار‬
‫‪.‬سازی‪ ،‬کاغذ‪ ،‬سیاہی اور اس طرح کی معیار پر منحصر ہے‬
‫دوسرا‪ ،‬روایتی چھپی ہوئی تصویر کے معیار کی تشخیص کا اہم طریقہ‬
‫طباعت شدہ تصاویر کی کیفیت کا اندازہ کرنے کا طریقہ‪ ،‬جس کا کوئی طریقہ اختیار نہیں کیا جاتا‬
‫ہے‪ ،‬باآلخر تصویر کی وضاحت‪ ،‬نظم و نسق اور رنگ کے تین پہلوؤں کو منسوب کیا جانا چاہئے‪.‬‬
‫تشخیص کے طریقہ کار بنیادی طور پر بصیرت تشخیص پر مبنی مضامین تشخیص اور مقصد کے‬
‫‪.‬تشخیص اور ایک جامع طریقہ میں تقسیم کیے جاتے ہیں‬

‫مضامین تشخیص‬
‫چھپی ہوئی تصاویر کی ذہنی تشخیص تجربے پر مبنی تصاویر کی کیفیت کا اندازہ لگانے کا ایک‬
‫طریقہ ہے‪ .‬عموما استعمال ہونے والی مضامین تشخیص کے طریقہ کار بصری تشخیص کے‬
‫طریقوں اور کوالٹی تشخیص کے طریقے ہیں‪ .‬بصری تشخیص کا طریقہ یہ ہے کہ اسی تشخیص‬
‫کے ماحول کے حاالت (جیسے روشنی کا ذریعہ اور روشنی)‪ ،‬تجرباتی منبع‪ ،‬ٹیکنشینک اور صارف‬
‫کا دستخط اور طباعت شدہ معاملہ‪ ،‬اور پھر ہر شخص کے تجربے‪ ،‬احساسات اور جذبات کا جائزہ لیا‬
‫جاتا ہے‪ .‬بنیاد کے مطابق‪ ،‬ہر پرنٹ کی کیفیت عمدہ‪ ،‬اچھی‪ ،‬درمیانی اور فرق ہے‪ ،‬اور ہر گریڈ کی‬
‫تعدد شمار کی جاتی ہے‪ .‬جو لوگ تعریف کرتے ہیں وہ عمدہ اور اچھے ہیں‪ ،‬اور برعکس‪ .‬کیفیت‬
‫انڈیکس تشخیص کا طریقہ ایک مخصوص کوالیفیکیشن انڈیکس سے منسلک کرتا ہے‪ ،‬اور ہر‬
‫انڈیکس کے معیار پر اثر انداز کرنے والے اہم عوامل کی فہرست‪ .‬یہ بہت سے تجربہ کار ارزوین‬
‫‪.‬کی طرف سے بنائے گئے ہیں‪ .‬کل سکور کا معیار بہت اچھا ہے‪ ،‬اور کم ایک غریب ہے‬

‫‪:‬سکیننگ طریقہ ‪multidimensional‬‬


‫ریاضیاتی اعداد و شمار پر مبنی کثیر جہتی سکیننگ ایک پیمانے پر ٹیکنالوجی ہے‪ .‬نمونے کے‬
‫جوڑوں کے درمیان اختالفات کا مقابلہ کرتے ہوئے یا نمونے کے ساتھ اطمینان کی ڈگری کا تعین‬
‫کرتے وقت‪ ،‬لوگوں کی تشخیص میں استعمال ہونے والے اہم پیرامیٹرز کا تجزیہ اور اس کی شناخت‬
‫کے لئے کثیر جہتی پیمانے کا طریقہ استعمال کیا جا سکتا ہے‪ .‬اس طریقہ کار کے ذریعے ایک‬
‫طباعت نمونے کا فیصلہ کرتے وقت‪ ،‬پرنٹ کوالٹی کے اہم پیرامیٹرز کا تعلق اہمیت کا تعین کیا جا‬
‫سکتا ہے؛ فیصلے کی طرف سے حاصل کردہ قیمت مضامین تشخیص اور مقصد تشخیص یا کاغذ‬
‫کی جائیداد کے درمیان ایک اندرونی رابطے کر سکتے ہیں؛ اور ہر پرنٹ کی کیفیت حاصل کی جا‬
‫کے ماہرین‪ papermaking ،‬سکتی ہے‪ .‬تشخیص کی وشوسنییتا‪ ،‬ہر تجزیہ کار (جیسے پرنٹنگ‪،‬‬
‫‪.‬قارئین‪ ،‬اشتہاری عملے‪ ،‬وغیرہ) کی استحکام اور تشخیص کی ٹیم کا اندازہ‬
‫کثیر جہتی سکیننگ کی تکنیک ٹوگنسن کی طرف سے پیش کی گئی تھی‪ .‬مواد یہ ہے‪ :‬اگر دونوں‬
‫عناصر کے درمیان احساس میں فرق ہوتا ہے‪ ،‬تو فرق ایک لمومی میٹر کی طرف سے اظہار کیا جا‬
‫سکتا ہے‪ .‬اگر آپ اس لینکر پیمانے پر ریکارڈ کرتے ہیں تو‪ ،‬پیمانے پر پیمانے کی قیمت فاصلے‬
‫سے ظاہر ہوتا ہے‪ ،‬اور پھر آپ ایک سے زیادہ جہتی جامیاتی ماڈل بنانے کے لئے فاصلہ استعمال‬
‫‪.‬کرسکتے ہیں جو نمونے کے درمیان تعلقات کی عکاس کرتا ہے‬
‫کثیر جہتی سکیننگ کی تکنیک کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ ججوں کے ذہنی نفسیاتی عوامل‬
‫کے لئے کثیر جہتی سکیننگ کی کارکردگی کا مظاہرہ کیا جا سکتا ہے‪ .‬تشخیص میں ہر پیرامیٹر کا‬
‫‪.‬کردار کسی ویکٹر کی طرف سے پیش کیا جا سکتا ہے‬
‫‪:‬مقابلے کے طریقوں کے ‪ 2‬جوڑوں‬
‫پرنٹ کردہ معامالت کے معیار کا فیصلہ کرتے وقت لوگ ذہنی خصوصیات رکھتے ہیں‪ .‬مختلف‬
‫لوگوں کو مکمل طور پر مختلف نتیجہ ملے گی‪ .‬اس مقصد کی موجودگی متنازعہ انحراف یا بے‬
‫ترتیب کے طور پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا‪ .‬یہاں تک کہ اگر ایک حوالہ ہے کہ تشخیص میں‬
‫معیار کی حی ثیت سے استعمال کیا جاسکتا ہے تو‪ ،‬تشخیص کے نتائج متضاد ہو جائیں گے‪ ،‬اور ذہنی‬
‫‪.‬تشخیص میں متضاد انحراف اور بے ترتیب کے طور پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا‬
‫اس میں کوئی حوالہ نہیں ہے جو اس کے مقابلے میں ایک بنیادی الئن کے طور پر استعمال کیا جا‬
‫سکتا ہے‪ .‬اس وقت‪ ،‬دا خلی مقابلے صرف عدالتی اشیاء کے درمیان ہی بنایا جا سکتا ہے‪ .‬دو عام‬
‫طریقوں ہیں‪ :‬کسی کو ایک خاص حکم میں فیصلہ شدہ نمونے کا بندوبست کرنا ہے؛ دوسرا نمونے‬
‫کا ایک گروپ میں نمونے کا دوسرا نمونہ موازنہ کرنا ہے‪ .‬دوسرا فیصلہ کیا نمونے ایک کے‬
‫مقابلے میں ایک کے مقابلے میں‪ ،‬مقابلے کے مطابق‪ ،‬اور پوائنٹس کے مطابق فیصلہ کیا ہے‪ .‬یہ‬
‫‪.‬جوڑی والی موازنہ کا طریقہ ہے‪ .‬یہ ایک مضامین تشخیص کا طریقہ ہے‬
‫جوڑی سے متوازن طریقہ کار کو نافذ کرنے پر دیکھ بھال کی جانی چاہیئے‪ :‬جب اس بات کو یقینی‬
‫بنائے کہ جب جج جج کو دو نمونے کے برابر کریں تو اس کے مقابلے میں مداخلت کرنے کے لئے‬
‫متعدد عوامل نہیں ہیں‪ .‬پرنٹ کردہ مواد کو اسی معیاری نظم روشنی میں ہونا چاہئے‪ ،‬اور پس منظر‬
‫غیر جانبدار ہونا چاہئے‪ .‬مقابلے کے لئے استعمال ہونے والے کمرے کو یہ یقینی بنانا چاہئے کہ‬
‫ججوں کو توجہ مرکوز اور ججوں کے ساتھ فیصلہ یا مداخلت میں مداخلت نہیں کرسکتا‪ .‬جتنا نمونہ‬
‫ہونے کے نمونے بے ترتیب حکم میں ججوں کو فراہم کی جانی چاہئے تاکہ مقابلے کے عمل کسی‬
‫بھی تعصب سے پاک ہو‪ .‬جج کو واضح طور پر واضح طور پر بیان کیا جاسکتا ہے کہ اس کی بنیاد‬
‫‪.‬پر فیصلہ کیا جاسکتا ہے‬
‫اس طرح کے مضامین کے بر عکس تجربات اندرونی نمونے کے درمیان صرف ایک مقابلے ہیں‪،‬‬
‫اور موازنہ کے نتائج صرف نمونے کے مقابلے میں صرف متعلقہ ہیں‪ .‬چاہے جوڑی کے مقابلے‬
‫کے نتائج کے قابل اعتماد ججوں کی طرف سے "فیصلے کی وشوسنییتا" کی جانچ پڑتال کی طرف‬
‫سے معلوم کیا جا سکتا ہے‪ ،‬جو کہ قابل اعتماد گنجائش کی حساب سے ہے۔‬
‫‪.‬‬
‫سوال نمبر‪ 4‬۔ پاریلمانی اور صدارتی طرز حکومت میں فرق واضح کریں۔‬
‫ان دنوں پاکستان کے الیکٹرانک‪ ،‬پرنٹ اور سوشل میڈیا پر صدارتی طرز حکومت کی نفاذ کے لئے‬
‫زور و شور سے تحریک چل رہی ہے‪ ،‬پاکستانی دانشوروں کا خیال ہے کہ چونکہ پارلیمانی طرز‬
‫حکومت سے ملکی مسائل حل نہیں ہوئے اس لئے اس نظام کو لپیٹ کر اس کی جگہ صدارتی طرز‬
‫حکومت نافذ کیا جائے تو پلک جھپکتے ہی سارے مسائل حل ہوں گے معیشت بہتر ہوگی قانون پر‬
‫عمل درآمد ہوگا اور عدالت اپنے فیصلے بروقت کریں گے۔ کیا ایسا ہونا ممکن ہے۔ ؟ یہ سوال قاریئن‬
‫پ ہ چھوڑ کے دوسرے سوال کی جانب جاتے ہیں آخر یہ صدارتی طرز حکومت کیا ہے۔ ؟‬
‫بہت سارے لوگوں کا خیال ہے کہ دنیا میں دو قسم کے جمہوری نظام رائج ہے ایک پارلیمانی اور‬
‫دوسرا صدارتی۔ پارلیمانی طرز سیاست و حکومت ”مادر آف ڈیموکریسیز“ یعنی برطانیہ کی پیداوار‬
‫ہے جبکہ صدا رتی نظام حکومت کا آغاز امریکہ سے ہوا۔ مگر اس کے عالوہ بھی دنیا میں مختلف‬
‫قسم کے جمہوری نظام رائج ہے مگر ہمارے دانشوروں کو ان کا علم تک نہیں۔ مثال فرانس میں‬
‫صدارتی کم پارلیمانی نظام جمہوریت رائج ہے یہ ماڈل ترکی میں بھی کئی سالوں سے نافذ ہے تاہم‬
‫جدید دور میں اردوان نے سارے اختیارات کو اپنی ذات تک محدود کرنے کے لئے آئین میں ترامیم‬
‫الکر پارلیمان کے اختیارات میں کمی کی تاہم اب بھی ترکی میں صدارتی کم پارلیمانی نظام حکومت‬
‫رائج ہے۔‬
‫جرمنی کا اپنا الگ جمہوری نظام ہے۔ اگر خالص صدارتی نظام کی بات کی جائے تو اس کے لئے‬
‫ہ میں امریکن سیاسی نظام کا مطالعہ کرنا ہوگا۔ امریکہ شاید دنیا کی واحد جمہوریت ہے جہاں ہر سال‬
‫انتخابات ہوتے رہتے ہیں۔ کبھی صدارتی انتخابات‪ ،‬کبھی ایوان نمائندگان کے الیکشن‪ ،‬کبھی سینٹ‪،‬‬
‫کسی سال ریاستی گورنرز کے انتخابات اور کسی سال بلدیاتی الیکشن۔ اس لئے یہ کہنا بے جا نہ‬
‫ہوگا کہ امریکہ کا سیاسی نظام سب سے زیادہ متحرک ہے۔‬
‫امریکی سیاسی نظام کے مطالعہ سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ یہاں ایگزیکٹیو اختیارات‬
‫صدر کے پاس ہوتے ہیں جبکہ پارلیمانی نظام میں یہ اختیارات وزیر اعظم کے پاس ہوتے ہیں۔ قانون‬
‫ہاوس آف ریپریذنٹیٹیوز یعنی ایوان نمائندگان کے عالوہ سینٹ میں‬
‫سازی کے لئے امریکہ میں بھی ٔ‬
‫ہاوسز کو مال کر کانگریس کہا جاتا ہے۔ کوئی بھی قانونی‬
‫بھی دو تہائی اکثریت درکار ہے۔ دونوں ٔ‬
‫مسودہ راتوں رات پاس نہیں ہوتا۔ امریکی نظام کو وفاقی طرز حکومت بھی کہا جاتا ہے جس میں‬
‫دفاع‪ ،‬کرنسی او ر خارجہ امور کے عالوہ سارے اختیارات ریاستوں کے پاس ہوتے ہیں۔ البتہ اس‬
‫نظام کے اندر یہ خوبی موجود ہے کہ کابینہ کا انتخاب صدر اپنی مرضی سے کرتے ہیں کابینہ کے‬
‫اراکین کے لئے یہ الزم نہیں کہ وہ منتخب نمائندے ہو۔‬
‫فرض کیا پاکستان سے پارلیمانی نظام حکومت کا بوریا بستر لپیٹ کر یہاں امریکی طرز کا صدارتی‬
‫نظام نافذ کیا گیا تو اس سے پاکستان کے مسائل کس طرح حل ہوں گے۔ ؟ فی الحال اس سوال کا‬
‫کوئی تسلی بخش جواب نہیں مل پارہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے دانشور صدارتی اور پارلیمانی‬
‫طرز حکومت کے عالوہ وفاقی اور وحدانی طرز حکومت میں تمیز نہیں کرتے۔ امریکہ میں وفاقی‬
‫صدارتی طرز حکومت رائج ہے جبکہ برطانیہ میں وحدانی پارلیمانی نظام حکومت۔ مگر جہاں ہم‬
‫سوشل میڈیا سے لے کر الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر صدارتی نظام کی خوبیان بیان کرتے نہیں‬
‫تھکتے وہیں ہمیں یہ تک پتہ نہیں کہ وفاقی اور وحدانی حکومتین کس چڑیا کا نام ہے۔‬
‫ہاوس یا سینٹ ریاستوں‬
‫وفاقی طرز حکومت دو ایوانی مقننہ پر مشتمل ہوتی ہے جس میں عموما اپر ٔ‬
‫ہاوس آف ریپریذنٹیٹیو ‪ /‬ایوان نمائندگان (‬
‫ہاوس یعنی ٔ‬
‫یا صوبوں کی نمائندگی کرتے ہیں جبکہ لوئر ٔ‬
‫پاکستان میں قومی اسمبلی ) وفاق کے نمائندے ہے۔ وحدانی طرز حکومت میں صوبوں کے پاس‬
‫اختیارات نہیں ہوتے نہ ہی صوبوں کی اپنی اسمبلیاں اور قانون ساز ادارے ہوتے ہیں سارے‬
‫اختیارات مرکز کی تحویل میں ہوتی ہے۔ ہمارے دانشور امریکہ کے طرز کا وفاقی صدارتی نظام‬
‫چاہتے ہیں یا پھر یہاں وحدانی صدارتی نظام النے کے خواہاں ہے۔ ؟‬
‫حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی دانشور وں کو نہ صدارتی نظام کا علم ہے اور نہ ہی پارلیمانی نظام کا وہ‬
‫مطالعہ کرتے ہیں نہ وہ وفاقی طرز حکومت کے متعلق جانتے ہیں اور نہ ہی وحدانی طرز حکومت‬
‫کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ وہ خود بھی کنفیوز اور عوام کو بھی صدارتی ٹرک کی بتی‬
‫کے پیچھے لگا دیتے ہیں۔‬

‫سوال نمبر‪ 5‬۔ اشتمالیت اور سرمایہ دارانہ نظام معیشت میں فرق واضح کریں؟‬
‫استمالیت کی خوبیاں‬
‫اشتمالیت یا کمیونزم ایک انقالبی سماجی تحریک ہے جس کے ذریعہ درجہ بندی اور ملک سے‬
‫ذرائع پیداوار مشترکہ ملکیت میں ہوتے‬
‫ِ‬ ‫باالتر سماجی نظام کی تخلیق مقصود ہے۔ اشتمالی نظام میں‬
‫ہیں۔ یہ اشتراکیت کی ایک شاخ ہے۔ مارکسیت اور اشتمالیت میں مماثلتیں بہت ہے۔یہ آپ یوں کہہ لیں۔‬
‫کہ ملک میں دولت کی تقسیم کا فرسودہ نظام ختم کر کے ایک منصفانہ اور مساوی نظام الیا جا‬
‫سکے۔‬
‫‪1‬۔ طبقاتی امیاز کا خاتمہ‬
‫‪2‬۔ معاشی تحفظ کی ضمانت‬
‫‪3‬۔ معاشرتی مساوات‬
‫‪4‬۔ ذرائع پیداوار کا بھر پور استعمال‬
‫‪5‬۔ نجی اجارہ داری کا خاتمہ‬
‫‪6‬۔ معاشی استحکام‬

‫استمالیت کی خامیاں‬
‫اشتمالی نظام معیشت میں مندرجہ ذیل خامیاں واضح طور پر نظر آتی ہیں۔‬
‫‪1‬۔ معاشی آزادی کا خاتمہ‬
‫‪2‬۔ معاشی حقوق سے محرومی‬
‫‪3‬۔ غیر فطری نظام‬
‫‪4‬۔ استعداد کار میں کمی‬
‫‪5‬۔ صارفین کی اکتاہٹ‬

‫سرمایہ دارانہ نظام کی خوبیاں‬


‫سرمایہ دارانہ نظام میں ایک دولت مند شخص اپنے اعمال و افکار میں خود مختار ہوتا ہے۔‬
‫اس نظام میں ذاتی ملکیت کا تحفظ کیا جاتا ہے۔‬
‫اس نظام میں آزاد معیشت پائی جاتی ہے۔‬
‫اس نظام میں روزگار کے مواقع بکثرت پائے جاتے ہیں ۔‬
‫نجی ملکیت بغیر حدود و قیود کے ہوتی ہے‬
‫منڈی مکمل طور پر آزاد ہوتی ہے‬
‫سرمایہ کی ترسیل اور نقل و حرکت آزاد ہوتی ہے‬
‫منافع کی مقدار کو حکومت یا کسی ادارہ کے اختیار میں نہیں التا جاتا‬
‫قیمتیں طلب و رسد کے توازن سے متعین ہوتی ہیں چاہے طلب مصنوعی ہو یا چاہے رسد کو‬
‫سرمایہ دار قیمت بڑھانے کے لیے مصنوعی طور پر کم کریں‬
‫منڈی کی قوتیں خود کو درست کرنے کی طاقت رکھتی ہیں چنانچہ سرمایہ دارانہ نظام میں حکومت‬
‫یا کسی ادارہ کی منڈی میں مداخلت کا تصور حقیقی سرمایہ دارانہ نظام کی روح کے خالف ہے۔‬

‫سرمایہ دارنہ نظام کی خامیاں‬


‫کارل مارکس سمجھتے تھے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے اپنے اندر یہ خامی موجود ہے کہ یہ مسلسل‬
‫بڑے پیمانے پر معاشی اتارچڑھاؤ پیدا کرتا ہے اور آخر کار اپنے آپ ہی کو ختم کر لے گا۔‬
‫مارکس نے سرمایہ دارانہ نظام کی خود ہی کو تباہ کرنے کی خصوصیت کا خیرمقدم کیا۔ انہیں اس‬
‫بات پر اعتماد تھا کہ ایک عوامی انقالب آ کر رہے گا اور جس کے نتیجے میں کمیونسٹ نظام آ‬
‫جائے گا جو زیادہ پیداوار کرنے واال اور زیادہ انسان دوست نظام ہے۔‬
‫مارکس کے کمیونسٹ نظریات غلط تھے لیکن سرمایہ دارانہ نظام سے متعلق وہ پیغمبرانہ حد تک‬
‫صحیح تھا۔ وہ نہ صرف سرمایہ دارانہ نظام میں مستقل طور پر پائے جانے والے عدم استحکام کو‬
‫صحیح طور پر سمجھا تھا بلکہ وہ اِس نظام پر اپنے زمانے اور موجودہ دور کے معیشت دانوں کے‬
‫مقابلے میں زیادہ گہری نظر رکھتا تھا۔‬
‫مارکس کو اِس بات کی پوری س مجھ تھی کہ سرمایہ دارانہ نظام کس طرح اپنے ہی سماجی ڈھانچے‪،‬‬
‫متوسط طبقے کا طرز زندگی کو تباہ کر دیتا ہے‬

You might also like