Professional Documents
Culture Documents
5624 2
5624 2
سوال نمبر 1۔ اخبار کی اشاعت میں درپیش مختلف مسائل کا جائزہ لیں؟
پاکستان کے اخباری اداروں کی نمائندہ تنظیم آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی ) (APNSہے۔ اس
ادارے کے بنیادی فرائض رکن مطبوعات کے مفادات کا تحفظ ،انہیں اے پی این ایس سے منظور
شدہ ) (Accrediatedاشتہاری ایجنسیوں کے ذریعے ملنے والے اشتہارات کی رقوم کی ادائی یقینی
ہاوس کا بھی ہے۔ حکومت پریسبنانا ہے۔ اس لحاظ سے اے پی این ایس کا کردار ایک کلیئرنگ ٔ
تعلقات اے پی این ایس کے ای جنڈے پر ہمیشہ ایک اہم نکتہ رہے ہیں۔ حکومت پریس تعلقات پر بحث
میں پرنٹ میڈیا کے بارے میں حکومتی پالیسیوں ،قانون سازی یا اخباری اداروں پر کسی وقت پڑنے
دباو پر بات ہوتی رہی ہے۔ اخبارات و رسائل کو سرکاری اشتہارات کی پالیسی،
والے حکومتی ٔ
اشتہارات کے واجبات کی ا خبارات کو ادائی بھی مخصوص موضوعات رہے ہیں۔ سرکاری
اشتہارات سے ملنے والے ریونیو پر پاکستان کے چند بڑے اخبارات یعنی میٹرو پولیٹن Aاخبارات کا
انحصار بیس سے تیس فیصد تک ہے۔ میٹرو پولیٹن Bاور عالقائی اخبارات کا اس ریونیو پر انحصار
ستر سے اسی فیصد تک ہے۔ واضح رہے کہ ان میں اردو اور انگریزی کے عالوہ سندھی ،پنجابی،
پشتو ،بلوچی ،سرائیکی ،براہوی ،گجراتی اور دیگر زبانوں میں شائع ہونے والے اخبارات بھی شامل
ہیں۔ اردو اور انگریزی کے بعد سندھی زبان میں سب سے زیادہ اخبارات اور رسائل شائع ہو رہے
ہیں۔ ملک میں اکنامک انڈیکیٹرز مثبت اشارے دے رہے ہوں ،صنعتی ،تجارتی سرگرمیوں میں تیزی
ہو ،خصوصا ً تعمیراتی صنعت میں نئے نئے پروجیکٹس متعارف ہو رہے ہوں تو اخبارات و رسائل
کو اشتہارات کا اجرا مناسب انداز سے جاری رہتا ہے۔
وطن عزیز میں اخبارات آج کل مشکالت کا سامنا کر رہے ہیں۔ صرف میٹرو پولیٹن Bاور عالقائی
اخبارات ہی نہیں بلکہ پرائیویٹ سیکٹر کی طرف سے اشتہارات میں کمی کے منفی اثرات اب بڑے
اخباری اداروں میں بھی سامنے آرہے ہیں۔ پاکستان میں اخبارات کی اشاعت کے لئے غیر ملکی
کاغذ استعمال ہوتا ہے۔ پچھلے چند ماہ میں بین االقوامی مارکیٹ میں نیوز پرنٹ کی قیمتوں میں بہت
اضافہ ہوا ہے۔ پاکستانی اخبارات ابھی نیوز پرنٹ کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے ہونے والے اثرات
سے نمٹنے کے منصوبے بنا رہے تھے کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں بھی تیزی سے
کمی ہو گئی۔ اس طرح اخبار کے بنیادی خام مال یعنی نیوز پرنٹ کی قیمت میں تقریبا ً دگنا اضافہ ہو
گیا۔ طباعت میں استعمال ہونے والی دیگر کئی اشیاء بھی امپورٹ ہوتی ہیں ،ڈالر کی قیمت بڑھنے
سے ان کی درآمدی قیمت بھی بڑھ چکی ہے۔ طباعتی الگت میں جتنا اضافہ ہوا ہے اخبارات بوجوہ
اپنی قیمت اس تناسب سے نہیں بڑھا سکتے۔ ایسے میں پرائیویٹ سیکٹر اور پبلک سیکٹر سے جاری
ہونے والے اشتہارات میں کمی اور شائع شدہ اشتہارات کے اکثر واجبات کا نہ ملنا پاکستانی اخبارات
و رسائل کے لئے شدید بحران بلکہ بقا کا مسئلہ بن گیا ہے۔ ان مشکل حاالت میں 16اکتوبر کو
پاکستانی اخبارات کی تنظیم آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی کے ایک وفد کی مالقات وزیراعظم
پاکستان عمران خان سے ہوئی۔ اے پی این ایس کے صدر حمید ہارون ،سیکریٹری جنرل سرمد علی
نے عمران خان کو انتخابات میں کامیابی اور وزیراعظم کا منصب سنبھالنے پر مبارکباد دی۔
جمہوریت کے استحکام کے لئے پریس کے تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ اس کے بعد اخباری اداروں
کو درپیش شدید مالی بحران سے وزیر اعظم کو آگاہ کیا۔ اے پی این ایس کے سینئر نائب صدر
قاضی اسد عابد ،محترمہ رمیزہ نظامی ،مجیب الرحمٰ ن شامی ،مہتاب خان عباسی ،جمیل اطہر
قاضی ،ممتاز اے طاہر ،وسیم احمد اور سردار خان نیازی نے بھی میٹرو پولیٹن عالقائی اخبارات
پہلووں کو مزید واضح کیا۔ اس موقع پر وفاقی وزیر اطالعات فواد
ٔ اور رسائل کو درپیش مختلف
چوہدری ،معاون خصوصی برائے میڈیا افتخار درانی ،سینیٹر فیصل جاوید اور سیکریٹری اطالعات
شفقت جلیل بھی موجود تھے۔ اخباری اداروں کے نمائندگان کے ب یان کردہ مسائل پر بات کرتے
ہوئے وزیراعظم پاکستان عمران خان نے واضح طور پر کہا کہ انہیں سیاسی جدوجہد میں پرنٹ
میڈیا کا بھرپور تعاون ملتا رہا۔ عمران خان نے واضح الفاظ میں کہا کہ آج میں جس مقام پر ہوں وہ
مرہون منت ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ کرپشن کی وجہ سے ملک کی معاشی حالت تباہ
ِ میڈیا کا ہی
ہو چکی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایکسپورٹ میں تیز رفتار اضافے اور غیر ممالک میں مقیم
پاکستانیوں کو ترغیبات دیتے ہوئے ترسیالت زر میں اضافے کی پالننگ کی جا رہی ہے۔ ان شاء ہللا
ہم جلد ہی 30ارب ڈالر ایکسپورٹ اور ترسیالت زر میں 30ارب ڈالر کا اہداف حاصل کر لیں گے۔
اخبارات کو درپیش مسائل پر وزیراعظم نے وفاقی وزیر اطالعات فواد چوہدری کی سربراہی میں
ایک کمیٹی کے قیام کا اعالن کیا۔ اگلے روز بدھ 17اکتوبر کو اے پی این ایس ،کونسل آف پاکستان
نیوز پیپرز ایڈیٹر ) (CPNEاور پاکستان براڈ کاسٹنگ ایسوی ایشن )(PBAکے عہدہ داروں کے
ایک مشترکہ وفد نے وزیراعظم سے مالقات کی اور اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کو درپیش مسائل
پر بات کی۔ اس موقع پر اے پی این اسی کے سیکریٹری جنرل سرمد علی نے وزیراعظم کو بتایا کہ
نیوز پرنٹ پر پانچ فیصد امپورٹ ڈیوٹی عائد ہے ،یہ رقم 15تا 18کروڑ ساالنہ بنتی ہےجبکہ ود
ہولڈنگ ٹیکس اس کے عالوہ ہے۔ سرمد علی نے کہا کہ اگر یہ ڈیوٹی اور ود ہولڈنگ ٹیکس ختم کر
دئیے جائیں تو اس سے اخبارات کو کچھ ریلیف مل جائے گا۔ وزیراعظم عمران خان نے اس مالقات
میں کہا کہ پاکستان کی معیشت تباہ اور ادارے برباد ہو چکے ہیں؛ تاہم مثبت پالیسیوں کے ذریعے
آئندہ چھ ماہ میں حاالت کافی بہتر ہو جائیں گے۔ میٹنگ کے اختتام پر وزیراعظم نے اے پی این ایس
کے صدر حمید ہارون کو مخاطب کیا اور اعالن کیا کہ سرمد علی کی تجویز پر نیوز پرنٹ پر پانچ
فیصد امپورٹ ڈیوٹی ختم کر رہا ہوں۔
پاکستا ن کی اقتصادی مشکالت کی وجوہات کئی غلط پالیسیوں میں پنہاں ہیں۔ غلط پالیسیوں کی
اصالح آسان کام نہیں ہے۔ وزیراعظم پر قوم نے اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ توقع ہے کہ عمران
حکومت کم وقت میں اقتصادی حاالت بہتر بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ پاکستان کی معاشی
مضبوطی کے ث مرات عوام کے ہر طبقے تک پہنچیں گے۔ پرنٹ میڈیا عوام کی آواز ،حکومت اور
عوام کے درمیان موثر رابطے کا ایک ذریعہ ہے۔ پرنٹ میڈیا کو موجودہ مالی مشکالت سے نکالنا
اظہار رائے ،جمہوریت کے استحکام اور
ِ حکومت کی ترجیحات میں شامل کرنا ملک میں آ ٔ
زادی
علوم و فنون کے فروغ میں معاون ہو گا۔
سوال نمبر 2۔ جدید دور میں صحافت میں رونما ہونے والے تبدیلیوں پر روشنی ڈالیں؟
1970میں ٹیلی ٹیکسٹ کے نام سے یوکے میں متعارف ہونے واال ٹول ڈیجیٹل صحافت کا نقطہ آغاز
تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہ ایک نظام تھا جس میں صارف کو موقع دیا جاتا تھا کہ وہ پہلے کون سی
اسٹوری دیکھنا یا پڑھنا چاہتا ہے۔ ٹیلی ٹیکسٹ کے ذریعہ مہیا کی جانے والی معلومات مختصر مگر
فوری ہوا کرتی تھیں۔ ورٹیکل بلیکنگ انٹرویل یا وی بی آئی کے نام سے معروف ٹیلی ویژن سگنلز
فریم کے ذریعے معلومات کی ترسیل کی جاتی تھی۔
پریسٹل دنیا کا وہ پہال نظام تھا جس کے ذریعے ویڈیوٹیکس کی تخلیق عمل میں آئی۔ 1979میں
متعدد برطانوی اخبارات مثال فنانشل ٹائمز نے اپنی اسٹوریز آن الئن مہیا کرنا شروع کیں۔ صارفین
کی ضروریات پوری نہ کر سکنے کے سبب ویڈیوٹیکس 1986میں ختم ہو گیا تھا۔ اسی دوران
امریکا میں ویوٹورن ،کی کام اور گیٹ وے وغیرہ شروع ہوئیں تاہم یہ بھی 1986تک بند ہو چکی
تھیں۔
1980کے اختتام اور 1990کے ابتدا بلیٹن بورڈ سسٹم متعارف کیا گیا۔ بی بی سی سافٹ ویئر اور
ٹیلی فون موڈیمز کے ذریعہ متعدد چھوٹے اخبارات نے آن الئن نیوز سرور شروع کی۔
آن الئن نیوز خبرس نے سے کام شروع کیا۔ مبینہ طور پر شمالی کیرولینا کے امریکی اخبار دی
نیوز اینڈ آبزرور نے نینڈو کے نام سے آن الئن خبروں کی فراہمی شروع کی۔ 1994میں پہلے
کمرشل ویب براؤزر نیٹ اسکیپ اور 1995میں انٹرنیٹ ایکسپلورر کے متعارف ہونے والے کو
ڈیجیٹل جرنلزم میں اضافے کا وقت تسلیم کیا جاتا ہے۔ 1996تک متعدد ابالغی ادارے آن الئن شکل
اختیار کر چکے تھے۔ اس مرحلہ پر ادارتی مواد اخبار ،ریڈیو یا ٹیلی ویژن کے لیے تیار شکل میں
ہی انٹرنیٹ پر پیش کیا جاتا تھا۔
اے او ایل اور یاہو کی صورت جلد ہی نیوز ایگری گیٹرز سروسز متعارف کرائی گئیں جو خبروں
سے متعلق پلیٹ فارم سے مواد جمع کر کے صارف کو فراہم کیا کرتے۔ 1995میں سیلون متعارف
ہوا۔ 2001میں امریکن جرنلزم ریویو نے سیلون کو دنیائے انٹرنیٹ کا پہال نمایاں پلیٹ فارم قرار دیا
جس نے ڈیجیٹل صحافت کو ایک قدم آگے بڑھایا۔
ڈیجیٹل صحافت کی انفرادیت
ڈیجیٹل صحافت کی ابتدا کے کچھ ہی عرصہ میں بالگنگ اور اسی شعبہ کی دیگر اصناف بھی
متعارف ہو چکی تھیں۔ پہلے سے صحافت سے وابستہ افراد یا لکھنے میں دلچسپی رکھنے والے
نئے افراد نے بالگنگ کو ابالغ کا ذریعہ بنایا جس نے تیزی سے صارفین کی توجہ حاصل کی۔
روایتی میڈیا کے برعکس پورا دن ہر لمحہ اپ ڈیٹ ہونے والی معلومات بروقت صارف تک پہنچ کر
اسے بہتر انداز میں باخبر رکھتی ہیں یہ ڈیجیٹل صحافت کی بنیادی خوبیوں میں سے ایک تصور کی
گئی۔ اتنا ہی نہیں بلکہ پیش کی جانے والی معلومات کی تفصیل اور متعدد ذرائع سے اس کی دستیابی
نے وہ کمی بھی پوری کی جو دیگر میڈیمز پوری نہیں کر سکتے تھے۔ ڈیجیٹل صحافت نے
معلومات پر سے کارپوریٹ اور حکومتی کنٹرول کو بھی ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
اخبارا ت جگہ کی تنگی اور مخصوص وقت پر شائع ہوتے تھے۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن زیادہ سے
زیادہ معلومات کو سامع اور ناظر تک پہنچانے کے چکر میں انہیں بہت مختصر کر دیتے تھے لیکن
ڈیجیٹل صحافت نے ناصرف بروقت معلومات مہیا کیں بلکہ صارف کو یہ سہولت بھی فراہم کی وہ
اپنے مطلب کی معلومات پوری تفصیل سے حاصل کر سکے۔
پاکستان میں ڈیجیٹل صحافت
1990کی دہائی کی ابتدا میں انٹرنیٹ پاکستان میں متعارف کیا گیا جس کے بعد سے آئی سی ٹی یا
انفارمیشن اینڈ کیمونیکیشن ٹیکنالوجی تیزی سے فروغ پانے والی صنعتوں میں نمایاں رہا۔ 2001
میں محض ایک اعشاریہ تین فیصد پاکستان انٹرنیٹ تک رسائی رکھتے تھے تاہم آئندہ پانچ برسوں
میں اس میں تیزی سے اضافہ ہوا اور 2006تک یہ تعداد بڑھ کر چھ اعشاریہ پانچ اور 2012میں
کل ملکی آبادی کا دس فیصد ہو چکی تھی۔ اکتوبر 2018تک پاکستان میں براڈبینڈ انٹرنیٹ استعمال
کرنے والوں کی ت عداد انتیس اعشاریہ سات فیصد سے تجاوز کر چکی تھی ،گویا چھ کروڑ بیس الکھ
افراد ورلڈ وائڈ ویب سے منسلک ہو چکی تھے۔ یہ تعداد پاکستان کو دنیا میں انٹرنیٹ سے منسلک
ہونے والے بڑے ممالک میں شامل کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کو ایشیا میں ٹیکنالوجی حب کا
خطاب بھی دے چکی تھی۔
اسی عرصہ میں پاکستانی اخبارات انٹرنیٹ پر دستیاب ہونا شروع ہوئے۔ روزنامہ
جسارت اور انگریزی زبان کا اخبار روزنامہ ڈان انٹرنیٹ پر آنے والے اولین پاکستانی اخبارات
تھے۔ روزنامہ جنگ سمیت دیگر پاکستانی اخبارات بھی 90کی دہائی کے وسط تک انٹرنیٹ کا رخ
کر چکے تھے۔ اس مرحلہ پر بالگرز بھی منظرعام پر آنا شروع ہوئے۔
اکیسویں صدی شروع ہو کر آگے بڑھی تو پاکستان میں موبائل فونز کے فروغ اور انٹرنیٹ کی
رسائی میں اضافہ نے مزید افراد کو اس جانب راغب کیا۔ اس مرحلہ پر متعدد آزاد پبلشرز سامنے
آئے اور 11-2010تک دی نیوز ٹرائب ،پاکستان ٹرائب ،پروپاکستانی ،ہماری ویب ،اردو پوائنٹ کی
صورت متعدد نیوز اور میگزین پورٹلز صارفین کا اعتماد حاصل کر چکے تھے۔ ڈیجیٹل صحافت
سے منسلک ان پلیٹ فارمز کو شروع کرنے والوں میں شاہد عباسی پہلے سے ہی شعبہ صحافت
سے منسلک تھے۔ تلخابہ اور ابوشامل نامی بالگز بھی پہلے سے شعبہ صحافت سے وابستہ نعمت
خان اورفہدکیہر کی کوششوں کا حصہ تھے۔
جوں جوں انٹرنیٹ کی رسائی میں اضافہ ہوا ڈیجیٹل صحافت نے مخصوص شعبوں کے لیے بھی
خدمات کی فراہمی شروع کی۔ یہاں بھی آزاد خبرس روایتی میڈیا سے آگے رہیں۔ اس دوران ابوشامل
کے بانی فہد کیہر کی جانب سے کرک نامہ شروع کیا گیا جو اردو میں کرکٹ کے موضوع پر
پہلی خبر بنی۔ زراعت ،معیشت ،تعلیم کے موضوع پر بھی متعدد خبرس سامنے آئیں جن میں علم کی
دنیا ،ایجو ویژن وغیرہ شامل ہیں۔
اکیسویں صدی کی دوسری دہائی شروع ہوئی تو ڈیجیٹل صحافت کے اولین افراد کے تجربوں کو
دیکھتے ہوئے اس شعبہ میں نئے تجربات کیے گئے۔ 2015میں پاکستانی صحافی جمال عبد ہللا
عثمان نے اردو ٹرائب 2016 ،میں کالم نگار وجاہت مسعود نے ہم سب اور اردو صحافت سے
منسلک عامر ہاشم خاکوانی نے دلیل نامی خبرس کا اجرا کیا
مینگوباز ،پڑھ لو نامی خبرس نے بھی انٹرنیٹ صارفین کی توجہ حاصل کی۔ انگریزی زبان میں
معمول سے ہٹ کر پیش کردہ موضوعات نے یوزرز کو متوجہ تو کیا لیکن مواد کی سطحی نوعیت
نے اس کا کوئی خاص اثر پیدا نہ ہونے دیا۔
پاکستان میں ڈیجیٹل پبلشنگ
ڈیجیٹل صحافت اور بالگنگ وغیرہ کے فروغ پانے کے ساتھ ساتھ روایتی میڈیا بھی اس شعبہ میں آ
چکا تھا۔ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کی ابتدا میں روایتی میڈیا سے منسلک افراد نے ڈیجیٹل
پبلشرز ایسوسی ایشن آف پاکستان کی بنیاد رکھی۔ اس تنظیم نے آزاد خبرس کو نظر انداز کیا۔ روایتی
میڈیا مالکان کی شعبہ سے عدم واقفیت اور دلچسپی نہ ہونے نے بھی اس موثر نہ ہونے دیا اور یہ
غیر عالنیہ طور پر معطل ہو گئی
سوال نمبر 3۔ آفسٹ پرنٹنگ اور تصاویر کی پرنٹنگ کا طریق کار تفصیال بیان کریں؟
آفسٹ پرنٹنگ کا طریقہ کار
انیسویں صدی میں تمام اخبارات ٹائپ یا لیھوطریق طباعت کے مطابق چھپتے تھے مگر یہ دونں
طباعت اب متروک ہو چکے ہیں اور ا ب تو ایسی مشینیں بننا بھی بند ہو گئی ہیں۔ بیسویں صدی میں
اخبارات کی اشاعت میں اضافے کے بعدلیتھومشنیوں کے ذریعے اخبارات کی مانگ پورا کرنا
ممکن نہ تھا۔ وقت کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے لیتھو طریق طباعت کی جگہ آفسٹ طریق
طباعت نے لے لی۔ اس طریق طباعت کا اصول لیتھو سے ملتا جلتا ہے اس لئے اسے آفسٹ لیتھو
گرافی بھی کہتے ہیں۔
بیسویں صدی کی نویں دھائی کے آغاز تک پاکستان کے تمام بڑے بڑے اخبارات ونڈائک آفسٹ پر
سائع ہوتے تھے۔ اس طریق طباعت کے مطابق اردو اخبارات ورسائل کی کتابت مومی کاغذ پر کی
جاتی تھی۔
تصاویر ،کارٹوں ،نقشوں اور خاکوں نیز اشتہارات کے پازیٹو فلم کی صورت بنائے جاتے تھے۔
تیسرا مرحلہ کاپی جوڑنے کا ہوتا تھا ،جسے سب ایڈیٹر اور آرٹ ایڈیٹر مل کر لے آوٹ کے مطابق
جوڑتے تھے۔
کاپی جوڑنے ک بعد اسے پراسسنگ سیکشن میں بھیجا جاتاتھا ۔ اگر کتابت آرٹ پیپر ہوتو پھر اس کا
عکس لے کر نیگیٹو بنایا جاتا تھا۔ بٹر پیپر پر کتابت کی صورت میں اسے ایک مشین میں رکھ کر
اس کا عکس زنک پلیٹ پر ڈاال جاتاتھا۔ یہاں آفسٹ پلیٹ تیار ہو جاتی تھی ۔
طباعت
اخبار کی طباعت کیلئے دو طرح کی آفسٹ مشینیں استعمال ہوتی ہیں۔ اس مشین کو شیٹ فیڈ آفسٹ
مشین کہتے ہیں ۔ یہ بیک وقت اخبار کے صرف دو صفحات چھاپ سکتی ہے ۔ کیونکہ اس پر کاغذ
تختوں اور رموں کی صورت میں استعمال کیا جاتاہے ۔ اس کے مقابلے میں دوسری مشین کوروٹری
پریس کہتے ہیں۔ ان مشینوں پر سارا اخبار بیک وقت چھپتا اور تہہ ہوتا چال جاتاہے ۔ جدید صحافت
کی ترقی میں ویب روٹری مشینوں نے انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے ۔ جو اخبار الکھوں کی تعداد میں
چھپتے ہیں انہیں روٹری مشینوں کی مدد کے بغیر شائع کرنا ممکن نہ تھا۔
تصویر کی پرنٹنگ کا طریقہ کار
رنگ آفسیٹ پرنٹنگ جدید گرافک پرنٹنگ کا بنیادی ذریعہ ہے .پرنٹ کردہ تصاویر کے معیار کا
اندازہ طویل عرصہ سے کسٹمر کے بصری اور ذہنی امتیاز کی طرف سے کیا گیا ہے .یہ ایک بہت
غریب اور مشکل کام ہے .لہذا ،رنگ پرنٹنگ کی تصویر کوالٹی کنٹرول حاصل کرنے کے لۓ
معقول طور پر اندازہ اور مکمل کرنے کے لئے تکنیکی عمل کو کیسے الگو کرنا ضروری ہے.
پرنٹ کی تصویر کے معیار کا تعین ایک مصنوعات اور اصل کے درمیان رابطے کی نمائندگی
کرنے کے لئے اعداد و شمار کے استعمال سے مراد ہے .بعض اعداد و شمار اور شاخصوں کے
ساتھ ،مصنوعات کے معیار کی غلطیوں کی قابل حد تک حد اور معیار کی خرابی کو تصویر کی
.اور معیار استحکام کو یقینی بنانے کے لئے کنٹرول کیا جاتا ہے repeatability
چھپی ہوئی تصاویر کی کیفیت میں تین کلیدی عوامل ہیں 1 :کی تصویر کی تیز رفتار ،یہ ہے کہ،
تصویر کی کنارے کثافت میں تبدیلی انسانی بصیرت کی درجہ بندی کے ساتھ ہے ،بنیادی طور پر
اسکرین پرنٹنگ اور ڈاٹ پر منحصر ہے .پرنٹنگ میں اضافہ 2 .تصویر کی سطح ،جس میں،
تصویر میں ظہور سے متضاد کثافت کی سطح ،بنیادی طور پر اس کے برعکس توسیع اور پری
پریس اور پرنٹنگ میں کمی ہے 3 .تصویر کا رنگ ،یہ ہے کہ ،تصویر کے مختلف رنگوں اور غیر
جانبدار بھوری توازن کی پنروکتا کی درستگی ،بنیادی طور پر رنگ علیحدگی کے میکانزم ،معیار
.سازی ،کاغذ ،سیاہی اور اس طرح کی معیار پر منحصر ہے
دوسرا ،روایتی چھپی ہوئی تصویر کے معیار کی تشخیص کا اہم طریقہ
طباعت شدہ تصاویر کی کیفیت کا اندازہ کرنے کا طریقہ ،جس کا کوئی طریقہ اختیار نہیں کیا جاتا
ہے ،باآلخر تصویر کی وضاحت ،نظم و نسق اور رنگ کے تین پہلوؤں کو منسوب کیا جانا چاہئے.
تشخیص کے طریقہ کار بنیادی طور پر بصیرت تشخیص پر مبنی مضامین تشخیص اور مقصد کے
.تشخیص اور ایک جامع طریقہ میں تقسیم کیے جاتے ہیں
مضامین تشخیص
چھپی ہوئی تصاویر کی ذہنی تشخیص تجربے پر مبنی تصاویر کی کیفیت کا اندازہ لگانے کا ایک
طریقہ ہے .عموما استعمال ہونے والی مضامین تشخیص کے طریقہ کار بصری تشخیص کے
طریقوں اور کوالٹی تشخیص کے طریقے ہیں .بصری تشخیص کا طریقہ یہ ہے کہ اسی تشخیص
کے ماحول کے حاالت (جیسے روشنی کا ذریعہ اور روشنی) ،تجرباتی منبع ،ٹیکنشینک اور صارف
کا دستخط اور طباعت شدہ معاملہ ،اور پھر ہر شخص کے تجربے ،احساسات اور جذبات کا جائزہ لیا
جاتا ہے .بنیاد کے مطابق ،ہر پرنٹ کی کیفیت عمدہ ،اچھی ،درمیانی اور فرق ہے ،اور ہر گریڈ کی
تعدد شمار کی جاتی ہے .جو لوگ تعریف کرتے ہیں وہ عمدہ اور اچھے ہیں ،اور برعکس .کیفیت
انڈیکس تشخیص کا طریقہ ایک مخصوص کوالیفیکیشن انڈیکس سے منسلک کرتا ہے ،اور ہر
انڈیکس کے معیار پر اثر انداز کرنے والے اہم عوامل کی فہرست .یہ بہت سے تجربہ کار ارزوین
.کی طرف سے بنائے گئے ہیں .کل سکور کا معیار بہت اچھا ہے ،اور کم ایک غریب ہے
سوال نمبر 5۔ اشتمالیت اور سرمایہ دارانہ نظام معیشت میں فرق واضح کریں؟
استمالیت کی خوبیاں
اشتمالیت یا کمیونزم ایک انقالبی سماجی تحریک ہے جس کے ذریعہ درجہ بندی اور ملک سے
ذرائع پیداوار مشترکہ ملکیت میں ہوتے
ِ باالتر سماجی نظام کی تخلیق مقصود ہے۔ اشتمالی نظام میں
ہیں۔ یہ اشتراکیت کی ایک شاخ ہے۔ مارکسیت اور اشتمالیت میں مماثلتیں بہت ہے۔یہ آپ یوں کہہ لیں۔
کہ ملک میں دولت کی تقسیم کا فرسودہ نظام ختم کر کے ایک منصفانہ اور مساوی نظام الیا جا
سکے۔
1۔ طبقاتی امیاز کا خاتمہ
2۔ معاشی تحفظ کی ضمانت
3۔ معاشرتی مساوات
4۔ ذرائع پیداوار کا بھر پور استعمال
5۔ نجی اجارہ داری کا خاتمہ
6۔ معاشی استحکام
استمالیت کی خامیاں
اشتمالی نظام معیشت میں مندرجہ ذیل خامیاں واضح طور پر نظر آتی ہیں۔
1۔ معاشی آزادی کا خاتمہ
2۔ معاشی حقوق سے محرومی
3۔ غیر فطری نظام
4۔ استعداد کار میں کمی
5۔ صارفین کی اکتاہٹ