You are on page 1of 5

‫نظم قرآن‪ :‬ایک مطالعہ‬

‫*نذیر احمد عالئی‬


‫قرآن کریم کے بے شمار علوم میں سے ایک علم نظم و مناسبت کا بھی ہے جس کی بنیاد قرآن مجید کی‬
‫ترتیب کے توقیفی ہونے پر ہے‪ ،‬اس کے بارے میں جدید و قدیم لٹریچر میں بہت سے نظریات ملتے ہیں۔‬
‫نظم کی لغوی تعریف‬
‫باہم مالنا‪ ،‬ترتیب دینا‪،‬منسلک کرنا۔؂‪۱‬‬
‫اصطالحی تعریف‬
‫کسی ایک آیت میں یا جملہ آیات یا سورتوں کا باہمی ربط سبب نظم قرآن یا مناسبت قرآن کہالتا ہے۔؂‪۲‬‬
‫نظم ومناسبت کے تین اقسام‬
‫ایک جماعت نے اس علم کے محض عقلی ہونے کی بنیاد پر اس سے ذرہ برابر بھی اعتنا نہ کیا۔ دوسرا‬
‫گروہ قرآن میں نظم و مناسبت کو اہمیت تو دیتا ہے‪ ،‬لیکن ہر جگہ تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی اسے الزمی‬
‫قرار دیتا ہے۔ تیسرا مکتبۂ فکر وہ ہے جو کل قرآن کو منظم و مربوط تسلیم کر تا ہے۔ بنیادی طور پر نظم‬
‫کے دو اقسام ہیں‪ :‬ایک وحدۃالموضوع‪ ،‬یعنی موضوع اور مرکزی نقطۂ نظر کی وحدت اوردوسری قسم‬
‫مناسبت۔ اس کی دیگر انواع الفاظ کاالفاظ سے ربط‪،‬اجزاے آیات کا نظم‪ ،‬آیات اور سورتوں کی مناسبت‬
‫وغیرہ ہیں۔ پورے قرآن میں وحدت موضوع کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کا ایک ہی عنوان ہو اور اس کے تحت‬
‫تمام سورتوں اور آیات کو الیا گیا ہو۔ ابن عربی القاضی لکھتے ہیں‪' :‬إرتباط آی القرآن بعضھا ببعض حتّی‬
‫تکون کالکلمۃ الواحدۃ'‪ ،‬؂‪ ۳‬یعنی قرآن مجید کی آیات ایک دوسرے سے اس طرح مرتبط ہیں‪ ،‬گویا وہ ایک‬
‫ہی کلمہ ہے۔ وحدت موضوع ہی میں دوسرا پہلو یہ ہے کہ سورہ ماسبق کے کسی ایک اہم پہلو کی وضاحت‬
‫کے باب میں ہو‪ ،‬جیسے سورۂ حجرات‪ ،‬جو سورۂ فتح کی آخری آیت کی تفسیر ہے۔؂‪۴‬‬
‫آیات قرآن کے مابین نظم و مناسبت‬
‫‪:‬اس کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں‬
‫‪۱‬۔ نظم ظاہر‪،‬‬
‫‪۲‬۔ نظم غامض۔‬
‫نظم ظاہر‬
‫ط الَّ ِذیْنَ ا َ ْنعَ ْمتَ َعلَی ِْہ ْم َغ ْی ِر‬ ‫ص َرا َ‬ ‫ط ال ُمست َ ِقی َْم‪ِ ،‬‬‫الص َرا َ‬ ‫دوسری آیت پہلی آیت کا بدل ہو جیسے ارشاد ہے‪' :‬اِہ ْ ِدنَا ِ ّ‬
‫ب َعلَی ِْہ ْم َوالَ الضَّآ ِلّیْنَ ' (الفاتحہ‪۶ :۱‬۔‪۷‬‬ ‫) ْال َم ْغ ُ‬
‫ض ْو ِ‬
‫نظم غامض‬
‫آیات کے مابین ایسا ربط ہو جو نہ تو ظاہر ہو اور نہ ہی لفظوں سے کھل کر واضح ہو رہا ہو‪،‬بلکہ معنوی‬
‫اور تعبیری طور پر حاصل ہو‪،‬آیات کا نظم غامض کہالتا ہے‪ ،‬جیسے ارشاد ہے‪ٰ ' :‬یبَنِ ْْٓی ٰادَ َم قَ ْد ا َ ْنزَ ْلنَا َعلَ ْی ْْ ُک ْم‬
‫ّٰللا لَعَلَّ ُہ ْم یَذَّ َّک ُر ْونَ ' (االعراف‪)۲۶ :۷‬۔ یہاں‬ ‫ت ہِ‬ ‫ک ِم ْن ٰا ٰی ِ‬ ‫ک َخ ْی ْْ ٌر ٰذ ِل َ‬ ‫اس الت َّ ْق ٰوی ٰذ ِل َ‬ ‫س ْو ٰاتِ ُک ْم َو ِر ْی ً‬
‫شا َو ِلبَ ُ‬ ‫ی َ‬‫سا ی َُّو ِار ْ‬
‫ِلبَا ً‬
‫تقوی کا ذکر ہے۔‬ ‫ٰ‬ ‫حقیقی لباس کے ساتھ لباس‬
‫نظم ومناسبت کی اہمیت وافادیت‬
‫یعنی اسرائیلیات سے اجتناب ‪،‬روایات کی حقیقت سے واقفیت اور ان میں صحیح و ضعیف کا امتیاز اور‬
‫تفاسیر میں موضوع روایات کس طرح راہ پاگئیں۔ان سب چیزوں کی معرفت ‪،‬ان کا سد باب ‪ ،‬گویااس حیثیت‬
‫سے نظم کے تحت قرآن کی تفسیر کرنا ایک بہت ہی اہم اور مفید ذریعہ ہے۔ یہی نظم‪ ،‬تفسیر القرآن بالقرآن‬
‫ی ا ََِّّل اِذَا ت َ َمنّآی ا َ ْلقَی‬‫س ْو ٍل َّو َال نَبِ ٍ ّ‬
‫ک ِم ْن َّر ُ‬ ‫س ْلنَا ِم ْن قَ ْب ِل َ‬
‫کا بھی ایک اہم جز ہے۔ مثالً ارشاد باری ہے‪'َ :‬و َمآ ا َ ْر َ‬
‫ّٰللاُ َع ِل ْی ٌم َح ِک ْی ٌم' (الحج‪)۵۲ :۲۲‬۔ مذکورہ‬ ‫ش ْی ْْ ٰطنُ ث ُ َّم یُحْ ِک ُم ہ‬
‫ّٰللاُ ٰا ٰیتِ ٖہ َو ہ‬ ‫ّٰللاُ َما ی ُْل ِقی ال َّ‬‫س ُخ ہ‬ ‫ش ْی ْْ ٰطنُ فِ ْْٓی ا ُ ْمنِیَّتِ ٖہ فَیَ ْن َ‬ ‫ال َّ‬
‫آیت کے بارے میں بیش تر مفسرین نے اپنی تفاسیر میں قصۂ غرانیق کو منطبق کرنے کی کوشش کی ہے‪،‬‬
‫یعنی بعض مفسرین نے اپنی تفاسیر میں اس چیز کو ذکر کیا ہے کہ نبی صلی ہللا علیہ وسلم کے آیت َ'و َم ٰنوۃ َ‬
‫شفاعتھن لترجی' کے‬ ‫ّ‬ ‫الثَّا ِلث َ َۃ ْاالُ ْخ ٰری' (النجم‪ )۲۰ :۵۳‬پڑھنے کے دوران شیطان نے 'تلک الغرانیق العلی و أن‬
‫الفاظ شامل کر دیے‪،‬اس روایت کے مرسل طرق سے وارد ہونے کی وجہ سے علماے حدیث نے رد کر دیا‪،‬‬
‫مگر جن علماے تفسیر نے آیات کے نظم و ربط اور موضوعی وحدت کا خیال رکھا‪ ،‬مثالً برہا ن الدین عمر‬
‫بقاعی نے اپنی تفسیر ''نظم الدرر'' میں اور ابو حیان نے ''البحرالمحیط'' میں ذکر کیا ہے کہ آیت باال میں‬
‫ش ْی ْْ ٰط ُن' سے النضر بن الحارث جیسے انسان نما شیطان مراد ہیں جو اپنی قوم اور بیرونی زائرین کو‬ ‫'اَل َّ‬
‫اسالم سے دور رکھنے کے لیے شکوک وشبہات میں ڈالتے تھے‪ ،‬کیونکہ مذکورہ آیت سے قبل یہ آیت آئی‬
‫ب ْال َج ِحی ِْم' (الحج‪( )۵۱ :۲۲‬جن لوگوں نے ہماری‬ ‫صحٰ ُ‬ ‫ک اَ ْ‬ ‫ول ِء َ‬ ‫سعَ ْوا فِ ْْٓی ٰا ٰیتِنَا ُمع ِٰج ِزیْنَ ا ُ ٰ ْٓ‬ ‫ہے‪ ،‬ارشاد ہے‪'َ :‬والَّ ِذیْنَ َ‬
‫آیات کو شک وشبہ کا ذریعہ بنانے کی سعی کی وہی دوزخی ہیں)گویا ان انسان نما شیطان کی ہمیشہ یہی‬
‫کوشش ہوتی تھی کہ لوگوں کے دلوں میں شکوک وشبہات ڈالیں اس سعی کو شیطان کی طرف اس لیے‬
‫منسوب کیا گیا کہ انسانی شیاطین اسی کی جنس میں شمار ہوتے ہیں۔؂‪۵‬‬
‫موالنا شبیر احمد عثمانی مذکورہ آیت کے ضمن میں فرماتے ہیں کہ جب کوئی نبی یا رسول کوئی بات بیان‬
‫کرتا یا ہللا کی آیات پڑھ کرسناتا ہے تو شیطان اس بیان کی ہوئی بات یاآیت میں طرح طرح کے شکوک‬
‫ت َعلَ ْی ْْ ُک ُم ْال َم ْی ْْتَۃُ' (‪۱‬لمائدہ‪ )۵:۳‬پڑھ کر‬ ‫وشبہات ڈال دیتا ہے۔ مثالً نبی صلی ہللا علیہ وسلم نے آیت‪ُ ' :‬ح ِ ّر َم ْ‬
‫تعالی کا مارا ہو ا حرام کہتے‬ ‫ٰ‬ ‫سنائی توانسان نما شیطان نے شبہ ڈاال کہ دیکھواپنا ماراہوا تو حالل اور ہللا‬
‫ہیں ۔؂‪۶‬‬
‫ی َعد ًُّوا‬ ‫ْ‬
‫ک َجعَلنَا ِل ُک ِّل نَ ِب ٍ ّ‬ ‫ٰ‬
‫مزید انسان نما شیطان کی وضاحت اس آیت میں بالکل صاف نظر آتی ہے‪'َ :‬وکَذ ِل َ‬
‫ک َما فَعَلُ ْوہُ فَذَ ْرہ ُ ْم َو َما یَ ْفت َُر ْونَ '‬ ‫غ ُر ْو ًرا َولَ ْو شَآ َء َربُّ َ‬ ‫ف ْالقَ ْو ِل ُ‬ ‫ض ُز ْخ ُر َ‬ ‫ض ُہ ْم ا ِٰلی بَ ْع ٍ‬ ‫اال ْن ِس َو ْال ِج ِّن ی ُْو ِح ْی بَ ْع ُ‬ ‫ش ٰی ِطیْنَ ْ ِ‬ ‫َ‬
‫(االنعام‪)۱۱۲ :۶‬۔ موالنا امین احسن اصالحی اس آیت کے سلسلے میں فرماتے ہیں کہ ''ہر نبی کو اپنے اپنے‬
‫زمانہ کے شیاطین جن وانس نے دکھ پہنچایا‪ ،‬آپ صلی ہللا علیہ وسلم کو قریش کے لیڈروں اور ان کے ہم‬
‫نواؤں نے بہت د ُکھ پہنچایا''۔؂‪۷‬‬
‫موالنا شبیر احمدعثمانی فرماتے ہیں کہ'' رؤساے مکہ ہی نہیں‪ ،‬بلکہ ہمیشہ کافروں کے سردارحیلے نکالتے‬
‫موسی علیہ السالم نے معجزہ‬ ‫ٰ‬ ‫رہے ہیں تاکہ عوام الناس پیغمبروں کے مطیع نہ ہو جائیں‪،‬جیسے حضرت‬
‫ک‬ ‫ٰ‬
‫دکھایا تو فرعون نے حیلہ نکاال کہ سحر کے زور سے سلطنت لیا چاہتا ہے''‪ ،‬قرآن میں آیا ہے‪'َ :‬وکَذ ِل َ‬
‫جْر ِم ْی َہا ِلیَ ْم ُک ُر ْوا فِ ْی َہا َو َما یَ ْم ُک ُر ْونَ اِالَّ ِبا َ ْنفُس ِِہ ْم َو َما یَ ْشعُ ُر ْونَ ' (االنعام‪ )۱۲۳ :۶‬۔؂‪۸‬‬ ‫َجعَ ْلنَا فِ ْی ُک ِّل قَ ْریَ ٍۃ ا َ ٰک ِب َر ُم ِ‬
‫قرآن کریم میں موضوعی وحدت‪ :‬سورتوں کا نظام ‪،‬تفسیر القرآن بالقرآن کا جزو الینفک ہے‪ ،‬لیکن مطالعہ‬
‫قرآن میں اس منہج کی معرفت کے لیے قرآن میں تدبر و تفکر بہت ضروری ہے اور یہ بغیر بہت گہرے‬
‫تعالی نے بغیر سوچے سمجھے قرآن پڑھنے والوں سے ناگواری کا‬ ‫ٰ‬ ‫سوچ بچار کے حاصل نہ ہو گا‪ ،‬ہللا‬
‫ب ا َ ْقفَالُ َہا' (محمد‪)۲۴ :۴۷‬۔ دوسری جگہ آیا کہ جو‬ ‫اظہار کیا ہے‪ ،‬ارشاد ہے‪' :‬اَفَ َال یَتَدَب َُّر ْونَ ْالقُ ْر ٰانَ ا َ ْم َع ٰلی قُلُ ْو ٍ‬
‫لوگ دل‪،‬کان‪،‬آنکھ ہونے کے باوجودان سے کام نہیں لیتے‪ ،‬یعنی دل سے آیات ہللا میں غور نہیں کرتے ہیں‬
‫نہ قدرت کی نشانیوں کا بغورمطالعہ کرتے ہیں‪ ،‬ان لوگوں کاحال چوپائے سے بھی بدتر ہے‪ ،‬کیونکہ جانور‬
‫مالک کے بُالنے پر چال آتا ہے‪ ،‬مگر کچھ لوگ کبھی مالک حقیقی کی آواز پر کان نہیں دھرتے‪،‬جیساکہ ہللا‬
‫ْص ُر ْونَ ِب َہا َولَ ُہ ْم‬ ‫اال ْن ِس لَ ُہ ْم قُلُ ْوبٌ الَّ یَ ْفقَ ُہ ْونَ ِب َہا َولَ ُہ ْم ا َ ْعی ٌُن الَّ یُب ِ‬ ‫کا ارشاد ہے‪'َ :‬ولَقَ ْد ذَ َراْنَا ِل َج َہنَّ َم َکثِی ًْرا ِ ّمنَ ْال ِج ِّن َو ْ ِ‬
‫ک ہ ُ ُم ْال ٰغ ِفلُ ْونَ ' (االعراف‪)۱۷۹ :۷‬۔ غور و فکر کر نے‬ ‫ول ِء َ‬‫ض ُّل ا ُ ٰ ْٓ‬ ‫ک ک َْاالَ ْنعَ ِام بَ ْل ہ ُ ْم ا َ َ‬ ‫ول ِء َ‬ ‫ان الَّ یَ ْس َمعُ ْونَ ِب َہا ا ُ ٰ ْٓ‬ ‫ٰاذَ ٌ‬
‫والوں کے لیے قرآن کریم کے معانی و مفاہیم اور عجائب ولطائف ختم نہیں ہوتے ہیں اور نہ بار بار‬
‫ث ِف ْی ُک ِّل ا ُ َّم ٍۃ ش َِہ ْیدًا َعلَ ْی ْْہِ ْم ِ ّم ْن ا َ ْنفُس ِِہ ْم َوجِ ْءنَا‬ ‫دھرانے‪،‬پڑھنے سے پرانا ہوتا ہے‪ ،‬ارشاد ربانی ہے‪'َ :‬ویَ ْو َم نَ ْبعَ ُ‬
‫ش ْی ْْءٍ َّوہُدًی َّو َر ْح َم ًۃ َّوبُ ْش ٰری ِل ْل ُم ْس ِل ِمیْنَ ' (النحل‪:۱۶‬‬ ‫ب تِ ْبیَانًا ِلّ ُک ِّل َ‬ ‫ک ش َِہ ْیدًا َع ٰلی ٰہؤ ََُّل ِء َون ََّز ْلنَا َعلَ ْی ْْ َ‬
‫ک ْال ِک ٰت َ‬ ‫بِ َ‬
‫‪)۸۹‬۔ مذکورہ آیت کی تفسیرمیں حضرت عبدہللا بن مسعود رضی ہللا عنہ نے فرمایا‪' :‬قد بیّن لنا فی ھذا القرآن‬
‫کل علم و کل شء' (اس قرآن میں ہمارے لیے تمام معلومات اور تمام اشیا بیان کر دی گئی ہیں)۔ ؂‪۹‬‬
‫ش َج َرۃٍ‬‫ض ِم ْن َ‬ ‫قرآن کی یہ حقیقت بھی اسی بات کی طرف اشارہ کر رہی ہے‪ ،‬ارشادہے‪'َ :‬ولَ ْو ا َ َّن َما فِی ْاالَ ْر ِ‬
‫ّٰللاَ َع ِزی ٌْز َح ِک ْی ٌم' (لقمان ‪)۲۷ :۳۱‬۔‬ ‫ّٰللا ا َِّن ہ‬ ‫ت َکلِمٰ تُ ہ ِ‬ ‫س ْبعَ ُۃ ا َ ْب ُح ٍر َّما نَ ِفدَ ْ‬ ‫ا َ ْق َال ٌم َّو ْالبَحْ ُر یَ ُمد ُّٗہ ِم ْنم بَ ْعد ِٖہ َ‬
‫تعالی نے دوسری‬ ‫ٰ‬ ‫غور وفکر کے نتیجہ میں قرآن کے عجائب ولطائف نہ ختم ہونے کے سلسلے میں ہللا‬
‫ج ْءنَا بِ ِمثْ ِل ٖہ َمدَدًا'‬ ‫ْ‬ ‫جگہ فرمایا ہے‪' :‬قُ ْل لَّ ْو کَانَ ْالبَحْ ُر ِمدَادًا ِلّ َکلِمٰ ِ‬
‫ت َر ِبّ ْی لَنَ ِفدَ البَحْ ُر قَ ْب َل ا َ ْن ت َنفَدَ َکلِمٰ تُ َر ِبّ ْی َولَ ْو ِ‬
‫(الکہف ‪)۱۰۹ :۱۸‬۔ اس طرح مطالعہ قرآن کے دوران پوری سورہ پرمجموعی نظر نہایت ضروری ہے‪،‬‬
‫اس لیے کہ ایک مفسر کا یہ حق بنتا ہے کہ سورہ کے مختلف اجزا کے درمیان موضوعی رشتوں پر اس‬
‫وقت تک غور نہ کرے‪،‬جب تک کہ سورہ کے تمام اجزا کو شمار اور اس کے مقاصد کا تعین کر کے پوری‬
‫سورہ پرپوری طرح سے غوروفکرنہ کرے ۔؂‪۱۰‬‬
‫مذکورہ باال آیات سے مترشح ہوا کہ کسی بھی سورہ کے تفہیم النظم کے لیے پوری سورہ پر نظر ڈالنا‬
‫ضروری ہے۔‬
‫جیسے کسی مسئلہ کے سمجھنے کے لیے اس کے تمام اجزا پر تدبر وتفکرکرنا الزمی ہو تا ہے۔؂‪۱۱‬‬
‫عود الی البدء‪ :‬ایک منہج‬
‫آغاز کی طرف واپسی کے اصول میں موال نا فراہی نے لکھا ہے کہ''میں نے ہللا کی کالم کی ترتیب میں‬
‫دیکھا کہ کالم ایک بات سے دوسری بات کی طرف لوٹتا ہے‪ ،‬ان میں ہر بات مقصود ہونے کی مستحق ہوتی‬
‫‪:‬ہے۔؂‪ ۱۲‬چند مثالیں‬
‫ْ‬ ‫ْ‬
‫ی َو َعد َُّو ُک ْم ا َ ْو ِلیَآ َء تُلقُ ْونَ اِلَ ْی ْْہِ ْم بِال َم َودَّۃِ َوقَ ْد َکفَ ُر ْوا بِ َما‬ ‫ُ‬ ‫ٰ‬ ‫َّ‬ ‫ْٓ‬
‫‪۱‬۔ ابتدا ارشاد باری ہے‪ٰ ' :‬یاَیُّ َہا ال ِذیْنَ ا َمنُ ْوا َال تَت َّ ِخذ ْوا َعدُ ّ ِو ْ‬
‫ضاتِ ْی‬ ‫س ِب ْی ِل ْی َوا ْبتِغَآ َء َم ْر َ‬ ‫اّٰلل َر ِبّ ُک ْم ا ِْن ُک ْنت ُ ْم خ ََر ْجت ُ ْم ِج َہادًا فِ ْی َ‬
‫س ْو َل َواِیَّا ُک ْم ا َ ْن تُؤْ ِمنُ ْوا ِب ہ ِ‬ ‫ق ی ُْخ ِر ُج ْونَ َّ‬
‫الر ُ‬ ‫َجآ َء ُک ْم ِ ّمنَ ْال َح ّ ِ‬
‫س ِب ْی ِل' (الممتحنہ‪۶۰‬‬ ‫س َوآ َء ال َّ‬ ‫ض َّل َ‬ ‫تُس ُِّر ْونَ اِلَ ْی ْْہِ ْم ِب ْال َم َودَّۃِ َواَنَا ا َ ْعلَ ُم ِب َمآ ا َ ْخفَ ْی ْْت ُ ْم َو َمآ ا َ ْعلَ ْنت ُ ْم َو َم ْن یَّ ْفعَ ْل ُہ ِم ْن ُک ْم فَقَ ْد َ‬
‫‪)۱:‬۔‬
‫س‬
‫ی ِء َ‬‫اال ِخ َر ِۃ َک َما َ‬ ‫س ْوا ِمنَ ْ ٰ‬‫ی ِء ُ‬ ‫ّٰللاُ َعلَ ْی ْْہِ ْم قَ ْد َ‬‫ب ہ‬ ‫َض َ‬ ‫انتہا ارشاد ربانی ہے‪ٰ ' :‬یْٓاَیُّ َہا الَّ ِذیْنَ ٰا َمنُ ْوا َال تَت ََولَّ ْوا قَ ْو ًما غ ِ‬
‫ب ْالقُب ُْو ِر' (الممتحنہ‪)۱۳ :۶۰‬۔‬ ‫صحٰ ِ‬ ‫ار ِم ْن ا َ ْ‬ ‫ْال ُکفَّ ُ‬
‫ض َوہ َُو ْالعَ ِزی ُْز ْال َح ِک ْی ُم' (الحشر ‪)۱ :۵۹‬۔‬ ‫ت َو َما فِی ْاالَ ْر ِ‬ ‫ّٰلل َما فِی السَّمٰ ٰو ِ‬ ‫سبَّ َح ِ ہ ِ‬ ‫‪۲‬۔ ابتدا ارشاد باری ہے‪َ ' :‬‬
‫ض َوہ َُو‬ ‫ْ‬
‫ت َواالَ ْر ِ‬ ‫سبِّ ُح ل ٗہ َما فِی السَّمٰ ٰو ِ‬ ‫َ‬ ‫ٰ‬ ‫ْ‬ ‫ْ‬
‫ص ّ ِو ُر لہُ االَ ْس َمآ ُء ال ُح ْسنی یُ َ‬ ‫َ‬ ‫ْ‬
‫ئ ال ُم َ‬ ‫ار ُ‬ ‫ْ‬ ‫ْ‬
‫ّٰللاُ الخَا ِل ُق البَ ِ‬ ‫انتہا ارشاد ربانی ہے‪' :‬ہ َُو ہ‬
‫ْالعَ ِزی ُْز ْال َح ِک ْی ُم' (الحشر‪)۲۴ :۵۹‬۔‬
‫‪۳‬۔ ابتدا ارشاد ربانی ہے‪' :‬قَدْ ا َ ْفلَ َح ْال ُمؤْ ِمنُ ْونَ ' (المومنون‪)۱ :۲۳‬۔‬
‫الر ِح ِمیْنَ ' (المومنون‪)۱۱۸ :۲۳‬۔‬ ‫ار َح ْم َوا َ ْنتَ َخ ْی ْْ ُر ہ‬ ‫ب ا ْغ ِف ْر َو ْ‬ ‫انتہا ارشاد باری ہے‪'َ :‬وقُ ْل َّر ّ ِ‬
‫ّٰللاُ ا َ َحد ٌ' (االخالص ‪) ۱ :۱۱۲‬۔‬ ‫‪۴‬۔ ابتدا ارشاد سبحانی ہے‪' :‬قُ ْل ہ َُو ہ‬
‫انتہا ارشاد ربانی ہے‪'َ :‬ولَ ْم یَ ُک ْن لَّ ٗہ ُکفُ ًوا ا َ َحد ٌ' (االخالص ‪)۴ :۱۱۲‬۔‬
‫پورے کالم ہللا میں موضوعی وحدت‬
‫قرآنی آیات کے درمیان ارتباط ومناسبت کے اعتراف کا مطلب یہ ہے کہ مختلف ‪،‬متنوع اغراض ومقاصد‬
‫کے باوجود ہرسورہ ایک عام مقصد کے تحت متعین موضوعی وحدت سے مربوط ہوتی ہے‪،‬آیات قرآنی کی‬
‫ترتیب کے باب میں تو اتفاق ہے کہ وہ توقیفی ہے اور سورتوں کے باب میں بھی یہی راجح ہے کہ وہ بھی‬
‫توقیفی ہے‪،‬اس لحاظ سے متقدمین و متاخرین مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تفسیر القرآن بالقرآن سب‬
‫سے زیادہ معتبر اور صحیح ترین طریقۂ تفسیر ہے‪ ،‬کیونکہ قرآن شریف میں جو بات ایک جگہ مجمل بیان‬
‫ہوئی ہے‪ ،‬دوسری جگہ اس کی توضیح ہللا نے خود ہی کر دی‪ ،‬اور جو بات ایک جگہ مختصر بیان ہوئی‬
‫ہے‪ ،‬دوسری جگہ اس کی تفصیل پیش کر دی ہے۔؂‪۱۳‬‬
‫ی' (الزمر ‪)۲۳ :۳۹‬‬ ‫ث ِک ٰتبًا ُّمتَشَابِ ًہا َّمثَانِ َ‬ ‫سنَ ْال َح ِد ْی ِ‬ ‫'ّٰللاُ ن ََّز َل اَحْ َ‬‫تعالی کا فرمان ہے‪ َ :‬ہ‬ ‫ٰ‬ ‫اس سلسلے میں ہللا سبحانہ‬
‫مذکورہ آیت میں ' ُمتَشَابِ ًہا' کے معنی‪،‬قرآن کے بعض حصے بعض سے مشابہ اور مثانی کے معنی ہیں کہ‬
‫اس کے موضوعات کو باربار دہرایا گیا ہے‪،‬اس یہ بات نکلتی ہے کہ کل قرآن میں موضوعی وحدت ہے۔‬
‫قرآن کریم کل علوم کا منبع‬
‫تعالی نے آسمان سے ایک سو چار کتب اتاریں ‪،‬ان کے علوم چار‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ ہللا‬
‫کتابوں توریت‪ ،‬انجیل‪،‬زبوراور فرقان میں جمع کیے‪ ،‬سمو دیے‪ ،‬پھر ان چاروں کتب کے علوم فرقان حمید‬
‫میں یکجا کیے‪ ،‬پھر علوم القرآن کو مفصل سورتوں میں جمع کیا‪ ،‬پھر مفصل سورتوں کے علوم سورۃ‬
‫تعالی کی‬ ‫ٰ‬ ‫الفاتحہ میں سمو دیے۔ اب جس نے اس سورہ ''الحمد'' کا علم حاصل کر لیا‪ ،‬گویا کہ اس نے ہللا‬
‫نازل کردہ تمام کتب کے علوم حاصل کر لیے‪ ،‬اور جس نے اس سورہ کی تالوت کی ‪،‬اس نے گویا توریت‪،‬‬
‫انجیل‪ ،‬زبور و فرقان‪ ،‬سب کی تالوت کی۔؂‪۱۴‬‬
‫عالمہ حمید الدین فراہی نے بھی لکھا ہیں کہ''سورۂ حمد'' جو ایک دیباچہ کی طرح جامع ہے اور اس میں‬
‫ی'‬‫ث ِک ٰتبًا ُّمتَشَا ِب ًہا َّمثَانِ َ‬ ‫سنَ ْال َح ِد ْی ِ‬ ‫قرآن کریم کی تمام باتوں کی کلید محفوظ ہے۔؂‪ ۱۵‬ارشاد باری ہے‪ َ :‬ہ‬
‫'ّٰللاُ ن ََّز َل ا َ ْح َ‬
‫(الزمر ‪)۲۳ :۳۹‬۔ مذکورہ آیت کے تحت مشابہ اور مثانی کی چند مثالیں۔‬
‫مشابہ کی مثال‬
‫الص َرا َ‬
‫ط‬ ‫ک نَ ْست َ ِعیْنُ ‪ ،‬اِہ ْ ِدنَا ِ ّ‬ ‫ک نَ ْعبُدُ‪َ ،‬واِیَّا َ‬ ‫ک یَ ْو ِم ال ِدّی ِْن‪ ،‬اِیَّا َ‬ ‫الر ِحی ِْم‪ ،‬مٰ ِل ِ‬ ‫الر ْحمٰ ِن َّ‬ ‫ب ْال ٰعلَ ِمیْنَ ‪َّ ،‬‬ ‫ارشاد ہے‪' :‬ا َ ْل َح ْمدُ ِ ہ ِ‬
‫ّٰلل َر ّ ِ‬
‫ب َعلَی ِْہ ْم َوالَ الضَّآ ِلّیْنَ ' (الفاتحہ‪۱ :۱‬۔ ‪)۷‬۔ مذکورہ سورہ میں‬ ‫ض ْو ِ‬ ‫ط الَّ ِذیْنَ ا َ ْنعَمتَ َعلَی ِْہ ْم َغی ِْر ال َم ْغ ُ‬ ‫ص َرا َ‬ ‫ال ُم ْست َ ِقی َْم‪ِ ،‬‬
‫ّٰلل'' سے توحید اسما‬ ‫ْ‬
‫توحید کی تینوں اقسام اور جزا وسزا اور رسالت کا ثبوت موجود ہے‪ ،‬جیسے ''اَل َح ْمدُ ِ ہ ِ‬
‫ک یَ ْو ِم ال ِدّی ِْن'' سے انصاف پر مبنی جزا‬ ‫ب ْال ٰعلَ ِمیْنَ '' سے توحید ربوبیت ماخوذ ہو تی ہے۔ ''مٰ ِل ِ‬ ‫وصفات اور'' َر ّ ِ‬
‫ط ال ُمست َ ِقی َْم''‬ ‫الص َرا َ‬
‫ک نَ ْست َ ِعیْنُ '' سے توحید الوہیت ماخوذ ہے‪ ،‬اور ''اِہ ْ ِدنَا ِ ّ‬ ‫ک نَ ْعبُدُ َواِیَّا َ‬ ‫وسزا ماخوذ ہے اور ''اِیَّا َ‬
‫سے رسالت کا ثبوت ملتا ہے‪ ،‬کیونکہ یہ راستہ ہم کو رسول ہی نے بتایا ہے۔؂‪۱۶‬‬
‫مثانی کی مثال‬
‫بعض سورتوں پر‪ ،‬جن میں ان کے موضوعات دہرائے گئے‪ ،‬معلوم ہوتا ہے کہ اسلوب وطریق سیاق کے‬
‫اختالف کے باوجود معنی و مفہوم میں یکسانیت ہے‪،‬بالفاظ دیگر ان سورتوں میں موضوعی وحدت کا اصول‬
‫حاصل ہوتا ہے‪،‬مثال کے طور پرمشرکین سے اظہار براء ت کر تے ہوئے سورۂ توبہ اور سورۂ ممتحنہ‪،‬‬
‫س ْو ِل ٖ ْٓہ اِلَی الَّ ِذیْنَ ٰع َہ ْدت ُّ ْم ِ ّمنَ‬ ‫دونوں ایک ہی مفہوم سے شروع ہو رہی ہیں‪ ،‬ارشاد باری ہے‪' :‬بَ َرآ َء ۃ ٌ ِ ّمنَ ہ ِ‬
‫ّٰللا َو َر ُ‬
‫ی َو َعد َُّو ُک ْم ا َ ْو ِلیَآ َء ت ُ ْلقُ ْونَ اِلَ ْی ْْہِ ْم بِال َم َودَّۃِ َوقَ ْد َکفَ ُر ْوا بِ َما‬
‫ْ‬ ‫ْال ُم ْش ِر ِکیْنَ ' (التوبہ‪)۱ :۹‬۔ ' ٰیْٓاَیُّ َہا الَّ ِذیْنَ ٰا َمنُ ْوا َال تَت َّ ِخذُ ْوا َعدُ ّ ِو ْ‬
‫ضاتِ ْی‬ ‫س ِب ْی ِل ْی َوا ْبتِغَآ َء َم ْر َ‬ ‫اّٰلل َر ِبّ ُک ْم ا ِْن ُک ْنت ُ ْم خ ََر ْجت ُ ْم ِج َہادًا فِ ْی َ‬ ‫س ْو َل َواِیَّا ُک ْم ا َ ْن تُؤْ ِمنُ ْوا ِب ہ ِ‬ ‫الر ُ‬ ‫ق ی ُْخ ِر ُج ْونَ َّ‬ ‫َجآ َء ُک ْم ِ ّمنَ ْال َح ّ ِ‬
‫س ِب ْی ِل' (الممتحنہ‪:۶۰‬‬ ‫س َوآ َء ال َّ‬ ‫ض َّل َ‬ ‫تُس ُِّر ْونَ اِلَ ْی ْْہِ ْم ِب ْال َم َودَّۃِ َواَنَا ا َ ْعلَ ُم ِب َمآ ا َ ْخفَ ْی ْْت ُ ْم َو َمآ ا َ ْعلَ ْنت ُ ْم َو َم ْن یَّ ْفعَ ْل ُہ ِم ْن ُک ْم فَقَ ْد َ‬
‫‪)۱‬۔‬
‫مذکورہ دونوں سورتوں کا خالصہ اس سورہ‪' :‬قُ ْل ٰیْٓاَیُّ َہا ْال ٰک ِف ُر ْونَ ‪ََّ ،‬ل ا َ ْعبُدُ َما ت َ ْعبُد ُْونَ ‪َ ،‬و ََّل ا َ ْنت ُ ْم ٰع ِبد ُْونَ َمآ ا َ ْعبُدُ‪،‬‬
‫ی ِدی ِْن' (الکافرون ‪۱ :۱۰۹‬۔‪ )۶‬میں سمیٹ لیا گیا‬ ‫َو ََّل اَنَا َعابِدٌ َّما َعبَ ْدت ُّ ْم‪َ ،‬و ََّل ا َ ْنت ُ ْم ٰعبِد ُْونَ َمآ ا َ ْعبُدُ‪ ،‬لَ ُک ْم ِد ْینُ ُک ْم َو ِل َ‬
‫ہے۔‬
‫دوسری مثال‬
‫صب ِْر'‬ ‫ص ْوا بِال َّ‬ ‫ق َوت ََوا َ‬ ‫ْ‬
‫ص ْوا بِال َح ّ ِ‬‫ت َوت ََوا َ‬ ‫ص ِلحٰ ِ‬ ‫ُ‬ ‫ٰ‬ ‫َّ‬ ‫َّ‬
‫سانَ لَ ِف ْی ُخس ٍْر‪ ،‬اِال ال ِذیْنَ ا َمنُ ْوا َو َع ِملوا ال ہ‬ ‫ْ‬
‫اال ْن َ‬
‫ارشاد باری ہے‪' :‬ا َِّن ِ‬
‫(العصر ‪۲ :۱۰۳‬۔‪)۳‬۔ مذکورہ آیت نمبر‪ ۳‬میں انسان کے چار اوصاف کا تذکرہ کیا گیا‪ ،‬یعنی ایمان باہلل‪ ،‬عمل‬
‫صالح ‪،‬حق کی تلقین اور صبر کی تلقین۔ ان اوصاف کا بیان طویل ترین سورتوں میں ملتاہے‪ ،‬جیسے سورۂ‬
‫بقرہ و آل عمران جو اسالم و ایمان کی تفصیالت پر مشتمل ہیں اور سورۂ بقرہ میں مفصل شریعی احکام بھی‬
‫ص ِلحٰ تِ' میں مذکور ہیں‪ ،‬اور سورۂ نساء میں رشتہ داروں‬ ‫مذکور ہیں‪،‬یہ سب باتیں 'ا َِّال الَّ ِذیْنَ ٰا َمنُ ْوا َو َع ِملُوا ال ہ‬
‫کے حقوق کی تشریح اورعدل و انصاف کے ساتھ ان حقوق کی ادائیگی کا حکم ہے‪ ،‬ان سب کی تفصیالت‬
‫ق'‪ ،‬اور سورۂ مائدہ میں معامالت کی حلت وحرمت کی تفصیالت ہیں‪،‬‬ ‫ص ْوا بِ ْال َح ّ ِ‬
‫مجمل طور پریوں ہے‪' :‬ت ََوا َ‬
‫یعنی حالل کی پابندی اور حرام سے پرہیز اور حالل معامالت کو حسب معاملہ پورا کر نے سے متعلق‬
‫صب ِْر' میں بیان کیا گیا‪ ،‬کیونکہ حالل کی فکر اور حرام سے اجتناب‬ ‫ص ْوا ِبال َّ‬ ‫احکام‪،‬ان سب کا خالصہ 'ت ََوا َ‬
‫صبر کا طالب ہے۔؂‪۱۷‬‬
‫خالصۂ بحث‬
‫جب تک انسان روے زمین پر موجود ہے اور قرآن کے ماننے والے موجود رہیں گے‪ ،‬وہ قرآن کریم کے‬
‫نئے نئے مطالب ومعانی پر غورو فکر کر تے رہیں گے‪ ،‬جس سے علم تفسیر کے نئے نئے مناہج ومسالک‬
‫سامنے آتے رہیں گے۔ اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ‪،‬تفسیر القرآن کے کئی رجحانات میں سے ایک‬
‫نیا رجحان تفسیرموضوعی بھی سامنے آیا ہے‪،‬یہ طرز تفسیر نہ صرف نیا ہے‪ ،‬بلکہ یہ اصطالح چودھویں‬
‫صدی ہجری کی پیداوار ہے اور اس اصول پر لکھی ہوئی تفاسیرکی تعداد بہت کم ہے۔ اس طرح قرآن کریم‬
‫پر تدبروتفکر کے نتیجہ میں نئے نئے اسالیب کا سامنے آنا جس کا اشارہ اس روایت میں محفوظ ہے‪'' :‬قال‬
‫فلیثور''( حضرت ابن مسعودنے فرمایا‪ :‬جوشخص اولین و آخرین‬ ‫ابن مسعود‪ :‬من أراد علم األولین واَّلخرین ّ‬
‫کے علم حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہو‪ ،‬وہ مباحثہ کرے)۔؂‪۱۸‬‬
‫________‬
‫ریسرچ اسکالر‪ ،‬شعبۂ دینیات‪،‬مسلم یونیورسٹی علیگڑھ‪ ،‬انڈیا۔ *‬
‫؂‪ ۱‬القاموس الوحید ‪،‬وحید الزماں قاسمی کیرانوی‪۱۶۶۹‬۔‬
‫؂‪ ۲‬مباحث فی العلوم القرآن ‪،‬منا ع القطان‪۹۷‬۔‬
‫؂‪ ۳‬سراج المریدین‪ ،‬ا بن ا لعربی‪،‬القاضی ‪ :‬بحوالہ ‪،‬البرہان فی علوم القرآن ‪،‬بدر الدین زرکشی ‪۳۷ /۱‬۔‬
‫؂‪ ۴‬تدبر قرآن‪ ،‬موالناامین احسن اصالحی‪۱ ،‬؍ن۔ و ایضا‪۴۷۹ /۷ ،‬۔‬
‫؂‪ ۵‬البحر المحیط ‪،‬ابو حیان ‪ ،۳۵۲ /۶‬نظم الدرر‪ ،...‬بقاعی‪۶۷ /۱۳‬۔‬
‫؂‪ ۶‬تفسیر عثمانی‪ ،‬موالنا شبیر احمد عثمانی ‪۴۵۰‬۔‬
‫؂‪ ۷‬تدبر قرآن ‪ ،‬موالناامین احسن اصالحی ‪۱۴۲ /۳‬۔‪۱۴۳‬۔‬
‫؂‪ ۸‬تفسیر عثمانی‪ ،‬موالنا شبیر احمد عثمانی‪۱۹۱‬۔‬
‫؂‪ ۹‬تفسیر القرآن العظیم‪ ،‬ابن کثیر‪۵۸۲ /۲‬۔‬
‫؂‪ ۱۰‬البناء العظیم‪۱۹۹‬۔‬
‫؂‪ ۱۱‬الموافقات فی اصول الشریعہ‪ ،‬الشاطبی ‪۴۱۳ /۳‬۔‬
‫؂‪ ۱۲‬دالئل النظام ‪ ،‬عالمہ حمید الدین فراہی‪۵۵‬۔‬
‫؂‪ ۱۳‬مقدمۃ فی اصول التفسیر ‪،‬ابن تیمیہ ‪۳۹ /۱‬۔ دالئل النظام‪،‬عالمہ فراہی‪۱۷‬۔‬
‫؂‪ ۱۴‬التفسیر الکبیر ‪،‬امام رازی‪۱۲۲ /۷‬۔ تناسق الدررفی تناسب السور‪ ،‬السیوطی‪۶‬۔‬
‫؂‪ ۱۵‬دالئل النظام ‪،‬عالمہ فراہی‪۵۵‬۔‬
‫؂‪ ۱۶‬تیسیر اللطیف المنان فی خالصۃ تفسیر القرآن‪ ،‬السعدی ‪۱۲‬۔‬
‫؂‪ ۱۷‬امعان النظر فی نظام اَّلی من السور‪ ،‬محمد عنایت ہللا سبحانی‪۳۱۵‬۔‬
‫؂‪ ۱۸‬بحوالہ‪،‬البر ہان فی علوم القرآن‪ ،‬بدر الدین زرکشی‪۱۵۴ /۲‬۔‬
‫____________‬

You might also like