قرآن کریم کے بے شمار علوم میں سے ایک علم نظم و مناسبت کا بھی ہے جس کی بنیاد قرآن مجید کی ترتیب کے توقیفی ہونے پر ہے ،اس کے بارے میں جدید و قدیم لٹریچر میں بہت سے نظریات ملتے ہیں۔ نظم کی لغوی تعریف باہم مالنا ،ترتیب دینا،منسلک کرنا۔۱ اصطالحی تعریف کسی ایک آیت میں یا جملہ آیات یا سورتوں کا باہمی ربط سبب نظم قرآن یا مناسبت قرآن کہالتا ہے۔۲ نظم ومناسبت کے تین اقسام ایک جماعت نے اس علم کے محض عقلی ہونے کی بنیاد پر اس سے ذرہ برابر بھی اعتنا نہ کیا۔ دوسرا گروہ قرآن میں نظم و مناسبت کو اہمیت تو دیتا ہے ،لیکن ہر جگہ تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی اسے الزمی قرار دیتا ہے۔ تیسرا مکتبۂ فکر وہ ہے جو کل قرآن کو منظم و مربوط تسلیم کر تا ہے۔ بنیادی طور پر نظم کے دو اقسام ہیں :ایک وحدۃالموضوع ،یعنی موضوع اور مرکزی نقطۂ نظر کی وحدت اوردوسری قسم مناسبت۔ اس کی دیگر انواع الفاظ کاالفاظ سے ربط،اجزاے آیات کا نظم ،آیات اور سورتوں کی مناسبت وغیرہ ہیں۔ پورے قرآن میں وحدت موضوع کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کا ایک ہی عنوان ہو اور اس کے تحت تمام سورتوں اور آیات کو الیا گیا ہو۔ ابن عربی القاضی لکھتے ہیں' :إرتباط آی القرآن بعضھا ببعض حتّی تکون کالکلمۃ الواحدۃ' ، ۳یعنی قرآن مجید کی آیات ایک دوسرے سے اس طرح مرتبط ہیں ،گویا وہ ایک ہی کلمہ ہے۔ وحدت موضوع ہی میں دوسرا پہلو یہ ہے کہ سورہ ماسبق کے کسی ایک اہم پہلو کی وضاحت کے باب میں ہو ،جیسے سورۂ حجرات ،جو سورۂ فتح کی آخری آیت کی تفسیر ہے۔۴ آیات قرآن کے مابین نظم و مناسبت :اس کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں ۱۔ نظم ظاہر، ۲۔ نظم غامض۔ نظم ظاہر ط الَّ ِذیْنَ ا َ ْنعَ ْمتَ َعلَی ِْہ ْم َغ ْی ِر ص َرا َ ط ال ُمست َ ِقی َْمِ ،الص َرا َ دوسری آیت پہلی آیت کا بدل ہو جیسے ارشاد ہے' :اِہ ْ ِدنَا ِ ّ ب َعلَی ِْہ ْم َوالَ الضَّآ ِلّیْنَ ' (الفاتحہ۶ :۱۔۷ ) ْال َم ْغ ُ ض ْو ِ نظم غامض آیات کے مابین ایسا ربط ہو جو نہ تو ظاہر ہو اور نہ ہی لفظوں سے کھل کر واضح ہو رہا ہو،بلکہ معنوی اور تعبیری طور پر حاصل ہو،آیات کا نظم غامض کہالتا ہے ،جیسے ارشاد ہےٰ ' :یبَنِ ْْٓی ٰادَ َم قَ ْد ا َ ْنزَ ْلنَا َعلَ ْی ْْ ُک ْم ّٰللا لَعَلَّ ُہ ْم یَذَّ َّک ُر ْونَ ' (االعراف)۲۶ :۷۔ یہاں ت ہِ ک ِم ْن ٰا ٰی ِ ک َخ ْی ْْ ٌر ٰذ ِل َ اس الت َّ ْق ٰوی ٰذ ِل َ س ْو ٰاتِ ُک ْم َو ِر ْی ً شا َو ِلبَ ُ ی َسا ی َُّو ِار ْ ِلبَا ً تقوی کا ذکر ہے۔ ٰ حقیقی لباس کے ساتھ لباس نظم ومناسبت کی اہمیت وافادیت یعنی اسرائیلیات سے اجتناب ،روایات کی حقیقت سے واقفیت اور ان میں صحیح و ضعیف کا امتیاز اور تفاسیر میں موضوع روایات کس طرح راہ پاگئیں۔ان سب چیزوں کی معرفت ،ان کا سد باب ،گویااس حیثیت سے نظم کے تحت قرآن کی تفسیر کرنا ایک بہت ہی اہم اور مفید ذریعہ ہے۔ یہی نظم ،تفسیر القرآن بالقرآن ی ا ََِّّل اِذَا ت َ َمنّآی ا َ ْلقَیس ْو ٍل َّو َال نَبِ ٍ ّ ک ِم ْن َّر ُ س ْلنَا ِم ْن قَ ْب ِل َ کا بھی ایک اہم جز ہے۔ مثالً ارشاد باری ہے'َ :و َمآ ا َ ْر َ ّٰللاُ َع ِل ْی ٌم َح ِک ْی ٌم' (الحج)۵۲ :۲۲۔ مذکورہ ش ْی ْْ ٰطنُ ث ُ َّم یُحْ ِک ُم ہ ّٰللاُ ٰا ٰیتِ ٖہ َو ہ ّٰللاُ َما ی ُْل ِقی ال َّس ُخ ہ ش ْی ْْ ٰطنُ فِ ْْٓی ا ُ ْمنِیَّتِ ٖہ فَیَ ْن َ ال َّ آیت کے بارے میں بیش تر مفسرین نے اپنی تفاسیر میں قصۂ غرانیق کو منطبق کرنے کی کوشش کی ہے، یعنی بعض مفسرین نے اپنی تفاسیر میں اس چیز کو ذکر کیا ہے کہ نبی صلی ہللا علیہ وسلم کے آیت َ'و َم ٰنوۃ َ شفاعتھن لترجی' کے ّ الثَّا ِلث َ َۃ ْاالُ ْخ ٰری' (النجم )۲۰ :۵۳پڑھنے کے دوران شیطان نے 'تلک الغرانیق العلی و أن الفاظ شامل کر دیے،اس روایت کے مرسل طرق سے وارد ہونے کی وجہ سے علماے حدیث نے رد کر دیا، مگر جن علماے تفسیر نے آیات کے نظم و ربط اور موضوعی وحدت کا خیال رکھا ،مثالً برہا ن الدین عمر بقاعی نے اپنی تفسیر ''نظم الدرر'' میں اور ابو حیان نے ''البحرالمحیط'' میں ذکر کیا ہے کہ آیت باال میں ش ْی ْْ ٰط ُن' سے النضر بن الحارث جیسے انسان نما شیطان مراد ہیں جو اپنی قوم اور بیرونی زائرین کو 'اَل َّ اسالم سے دور رکھنے کے لیے شکوک وشبہات میں ڈالتے تھے ،کیونکہ مذکورہ آیت سے قبل یہ آیت آئی ب ْال َج ِحی ِْم' (الحج( )۵۱ :۲۲جن لوگوں نے ہماری صحٰ ُ ک اَ ْ ول ِء َ سعَ ْوا فِ ْْٓی ٰا ٰیتِنَا ُمع ِٰج ِزیْنَ ا ُ ٰ ْٓ ہے ،ارشاد ہے'َ :والَّ ِذیْنَ َ آیات کو شک وشبہ کا ذریعہ بنانے کی سعی کی وہی دوزخی ہیں)گویا ان انسان نما شیطان کی ہمیشہ یہی کوشش ہوتی تھی کہ لوگوں کے دلوں میں شکوک وشبہات ڈالیں اس سعی کو شیطان کی طرف اس لیے منسوب کیا گیا کہ انسانی شیاطین اسی کی جنس میں شمار ہوتے ہیں۔۵ موالنا شبیر احمد عثمانی مذکورہ آیت کے ضمن میں فرماتے ہیں کہ جب کوئی نبی یا رسول کوئی بات بیان کرتا یا ہللا کی آیات پڑھ کرسناتا ہے تو شیطان اس بیان کی ہوئی بات یاآیت میں طرح طرح کے شکوک ت َعلَ ْی ْْ ُک ُم ْال َم ْی ْْتَۃُ' (۱لمائدہ )۵:۳پڑھ کر وشبہات ڈال دیتا ہے۔ مثالً نبی صلی ہللا علیہ وسلم نے آیتُ ' :ح ِ ّر َم ْ تعالی کا مارا ہو ا حرام کہتے ٰ سنائی توانسان نما شیطان نے شبہ ڈاال کہ دیکھواپنا ماراہوا تو حالل اور ہللا ہیں ۔۶ ی َعد ًُّوا ْ ک َجعَلنَا ِل ُک ِّل نَ ِب ٍ ّ ٰ مزید انسان نما شیطان کی وضاحت اس آیت میں بالکل صاف نظر آتی ہے'َ :وکَذ ِل َ ک َما فَعَلُ ْوہُ فَذَ ْرہ ُ ْم َو َما یَ ْفت َُر ْونَ ' غ ُر ْو ًرا َولَ ْو شَآ َء َربُّ َ ف ْالقَ ْو ِل ُ ض ُز ْخ ُر َ ض ُہ ْم ا ِٰلی بَ ْع ٍ اال ْن ِس َو ْال ِج ِّن ی ُْو ِح ْی بَ ْع ُ ش ٰی ِطیْنَ ْ ِ َ (االنعام)۱۱۲ :۶۔ موالنا امین احسن اصالحی اس آیت کے سلسلے میں فرماتے ہیں کہ ''ہر نبی کو اپنے اپنے زمانہ کے شیاطین جن وانس نے دکھ پہنچایا ،آپ صلی ہللا علیہ وسلم کو قریش کے لیڈروں اور ان کے ہم نواؤں نے بہت د ُکھ پہنچایا''۔۷ موالنا شبیر احمدعثمانی فرماتے ہیں کہ'' رؤساے مکہ ہی نہیں ،بلکہ ہمیشہ کافروں کے سردارحیلے نکالتے موسی علیہ السالم نے معجزہ ٰ رہے ہیں تاکہ عوام الناس پیغمبروں کے مطیع نہ ہو جائیں،جیسے حضرت ک ٰ دکھایا تو فرعون نے حیلہ نکاال کہ سحر کے زور سے سلطنت لیا چاہتا ہے'' ،قرآن میں آیا ہے'َ :وکَذ ِل َ جْر ِم ْی َہا ِلیَ ْم ُک ُر ْوا فِ ْی َہا َو َما یَ ْم ُک ُر ْونَ اِالَّ ِبا َ ْنفُس ِِہ ْم َو َما یَ ْشعُ ُر ْونَ ' (االنعام )۱۲۳ :۶۔۸ َجعَ ْلنَا فِ ْی ُک ِّل قَ ْریَ ٍۃ ا َ ٰک ِب َر ُم ِ قرآن کریم میں موضوعی وحدت :سورتوں کا نظام ،تفسیر القرآن بالقرآن کا جزو الینفک ہے ،لیکن مطالعہ قرآن میں اس منہج کی معرفت کے لیے قرآن میں تدبر و تفکر بہت ضروری ہے اور یہ بغیر بہت گہرے تعالی نے بغیر سوچے سمجھے قرآن پڑھنے والوں سے ناگواری کا ٰ سوچ بچار کے حاصل نہ ہو گا ،ہللا ب ا َ ْقفَالُ َہا' (محمد)۲۴ :۴۷۔ دوسری جگہ آیا کہ جو اظہار کیا ہے ،ارشاد ہے' :اَفَ َال یَتَدَب َُّر ْونَ ْالقُ ْر ٰانَ ا َ ْم َع ٰلی قُلُ ْو ٍ لوگ دل،کان،آنکھ ہونے کے باوجودان سے کام نہیں لیتے ،یعنی دل سے آیات ہللا میں غور نہیں کرتے ہیں نہ قدرت کی نشانیوں کا بغورمطالعہ کرتے ہیں ،ان لوگوں کاحال چوپائے سے بھی بدتر ہے ،کیونکہ جانور مالک کے بُالنے پر چال آتا ہے ،مگر کچھ لوگ کبھی مالک حقیقی کی آواز پر کان نہیں دھرتے،جیساکہ ہللا ْص ُر ْونَ ِب َہا َولَ ُہ ْم اال ْن ِس لَ ُہ ْم قُلُ ْوبٌ الَّ یَ ْفقَ ُہ ْونَ ِب َہا َولَ ُہ ْم ا َ ْعی ٌُن الَّ یُب ِ کا ارشاد ہے'َ :ولَقَ ْد ذَ َراْنَا ِل َج َہنَّ َم َکثِی ًْرا ِ ّمنَ ْال ِج ِّن َو ْ ِ ک ہ ُ ُم ْال ٰغ ِفلُ ْونَ ' (االعراف)۱۷۹ :۷۔ غور و فکر کر نے ول ِء َض ُّل ا ُ ٰ ْٓ ک ک َْاالَ ْنعَ ِام بَ ْل ہ ُ ْم ا َ َ ول ِء َ ان الَّ یَ ْس َمعُ ْونَ ِب َہا ا ُ ٰ ْٓ ٰاذَ ٌ والوں کے لیے قرآن کریم کے معانی و مفاہیم اور عجائب ولطائف ختم نہیں ہوتے ہیں اور نہ بار بار ث ِف ْی ُک ِّل ا ُ َّم ٍۃ ش َِہ ْیدًا َعلَ ْی ْْہِ ْم ِ ّم ْن ا َ ْنفُس ِِہ ْم َوجِ ْءنَا دھرانے،پڑھنے سے پرانا ہوتا ہے ،ارشاد ربانی ہے'َ :ویَ ْو َم نَ ْبعَ ُ ش ْی ْْءٍ َّوہُدًی َّو َر ْح َم ًۃ َّوبُ ْش ٰری ِل ْل ُم ْس ِل ِمیْنَ ' (النحل:۱۶ ب تِ ْبیَانًا ِلّ ُک ِّل َ ک ش َِہ ْیدًا َع ٰلی ٰہؤ ََُّل ِء َون ََّز ْلنَا َعلَ ْی ْْ َ ک ْال ِک ٰت َ بِ َ )۸۹۔ مذکورہ آیت کی تفسیرمیں حضرت عبدہللا بن مسعود رضی ہللا عنہ نے فرمایا' :قد بیّن لنا فی ھذا القرآن کل علم و کل شء' (اس قرآن میں ہمارے لیے تمام معلومات اور تمام اشیا بیان کر دی گئی ہیں)۔ ۹ ش َج َرۃٍض ِم ْن َ قرآن کی یہ حقیقت بھی اسی بات کی طرف اشارہ کر رہی ہے ،ارشادہے'َ :ولَ ْو ا َ َّن َما فِی ْاالَ ْر ِ ّٰللاَ َع ِزی ٌْز َح ِک ْی ٌم' (لقمان )۲۷ :۳۱۔ ّٰللا ا َِّن ہ ت َکلِمٰ تُ ہ ِ س ْبعَ ُۃ ا َ ْب ُح ٍر َّما نَ ِفدَ ْ ا َ ْق َال ٌم َّو ْالبَحْ ُر یَ ُمد ُّٗہ ِم ْنم بَ ْعد ِٖہ َ تعالی نے دوسری ٰ غور وفکر کے نتیجہ میں قرآن کے عجائب ولطائف نہ ختم ہونے کے سلسلے میں ہللا ج ْءنَا بِ ِمثْ ِل ٖہ َمدَدًا' ْ جگہ فرمایا ہے' :قُ ْل لَّ ْو کَانَ ْالبَحْ ُر ِمدَادًا ِلّ َکلِمٰ ِ ت َر ِبّ ْی لَنَ ِفدَ البَحْ ُر قَ ْب َل ا َ ْن ت َنفَدَ َکلِمٰ تُ َر ِبّ ْی َولَ ْو ِ (الکہف )۱۰۹ :۱۸۔ اس طرح مطالعہ قرآن کے دوران پوری سورہ پرمجموعی نظر نہایت ضروری ہے، اس لیے کہ ایک مفسر کا یہ حق بنتا ہے کہ سورہ کے مختلف اجزا کے درمیان موضوعی رشتوں پر اس وقت تک غور نہ کرے،جب تک کہ سورہ کے تمام اجزا کو شمار اور اس کے مقاصد کا تعین کر کے پوری سورہ پرپوری طرح سے غوروفکرنہ کرے ۔۱۰ مذکورہ باال آیات سے مترشح ہوا کہ کسی بھی سورہ کے تفہیم النظم کے لیے پوری سورہ پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔ جیسے کسی مسئلہ کے سمجھنے کے لیے اس کے تمام اجزا پر تدبر وتفکرکرنا الزمی ہو تا ہے۔۱۱ عود الی البدء :ایک منہج آغاز کی طرف واپسی کے اصول میں موال نا فراہی نے لکھا ہے کہ''میں نے ہللا کی کالم کی ترتیب میں دیکھا کہ کالم ایک بات سے دوسری بات کی طرف لوٹتا ہے ،ان میں ہر بات مقصود ہونے کی مستحق ہوتی :ہے۔ ۱۲چند مثالیں ْ ْ ی َو َعد َُّو ُک ْم ا َ ْو ِلیَآ َء تُلقُ ْونَ اِلَ ْی ْْہِ ْم بِال َم َودَّۃِ َوقَ ْد َکفَ ُر ْوا بِ َما ُ ٰ َّ ْٓ ۱۔ ابتدا ارشاد باری ہےٰ ' :یاَیُّ َہا ال ِذیْنَ ا َمنُ ْوا َال تَت َّ ِخذ ْوا َعدُ ّ ِو ْ ضاتِ ْی س ِب ْی ِل ْی َوا ْبتِغَآ َء َم ْر َ اّٰلل َر ِبّ ُک ْم ا ِْن ُک ْنت ُ ْم خ ََر ْجت ُ ْم ِج َہادًا فِ ْی َ س ْو َل َواِیَّا ُک ْم ا َ ْن تُؤْ ِمنُ ْوا ِب ہ ِ ق ی ُْخ ِر ُج ْونَ َّ الر ُ َجآ َء ُک ْم ِ ّمنَ ْال َح ّ ِ س ِب ْی ِل' (الممتحنہ۶۰ س َوآ َء ال َّ ض َّل َ تُس ُِّر ْونَ اِلَ ْی ْْہِ ْم ِب ْال َم َودَّۃِ َواَنَا ا َ ْعلَ ُم ِب َمآ ا َ ْخفَ ْی ْْت ُ ْم َو َمآ ا َ ْعلَ ْنت ُ ْم َو َم ْن یَّ ْفعَ ْل ُہ ِم ْن ُک ْم فَقَ ْد َ )۱:۔ س ی ِء َاال ِخ َر ِۃ َک َما َ س ْوا ِمنَ ْ ٰی ِء ُ ّٰللاُ َعلَ ْی ْْہِ ْم قَ ْد َب ہ َض َ انتہا ارشاد ربانی ہےٰ ' :یْٓاَیُّ َہا الَّ ِذیْنَ ٰا َمنُ ْوا َال تَت ََولَّ ْوا قَ ْو ًما غ ِ ب ْالقُب ُْو ِر' (الممتحنہ)۱۳ :۶۰۔ صحٰ ِ ار ِم ْن ا َ ْ ْال ُکفَّ ُ ض َوہ َُو ْالعَ ِزی ُْز ْال َح ِک ْی ُم' (الحشر )۱ :۵۹۔ ت َو َما فِی ْاالَ ْر ِ ّٰلل َما فِی السَّمٰ ٰو ِ سبَّ َح ِ ہ ِ ۲۔ ابتدا ارشاد باری ہےَ ' : ض َوہ َُو ْ ت َواالَ ْر ِ سبِّ ُح ل ٗہ َما فِی السَّمٰ ٰو ِ َ ٰ ْ ْ ص ّ ِو ُر لہُ االَ ْس َمآ ُء ال ُح ْسنی یُ َ َ ْ ئ ال ُم َ ار ُ ْ ْ ّٰللاُ الخَا ِل ُق البَ ِ انتہا ارشاد ربانی ہے' :ہ َُو ہ ْالعَ ِزی ُْز ْال َح ِک ْی ُم' (الحشر)۲۴ :۵۹۔ ۳۔ ابتدا ارشاد ربانی ہے' :قَدْ ا َ ْفلَ َح ْال ُمؤْ ِمنُ ْونَ ' (المومنون)۱ :۲۳۔ الر ِح ِمیْنَ ' (المومنون)۱۱۸ :۲۳۔ ار َح ْم َوا َ ْنتَ َخ ْی ْْ ُر ہ ب ا ْغ ِف ْر َو ْ انتہا ارشاد باری ہے'َ :وقُ ْل َّر ّ ِ ّٰللاُ ا َ َحد ٌ' (االخالص ) ۱ :۱۱۲۔ ۴۔ ابتدا ارشاد سبحانی ہے' :قُ ْل ہ َُو ہ انتہا ارشاد ربانی ہے'َ :ولَ ْم یَ ُک ْن لَّ ٗہ ُکفُ ًوا ا َ َحد ٌ' (االخالص )۴ :۱۱۲۔ پورے کالم ہللا میں موضوعی وحدت قرآنی آیات کے درمیان ارتباط ومناسبت کے اعتراف کا مطلب یہ ہے کہ مختلف ،متنوع اغراض ومقاصد کے باوجود ہرسورہ ایک عام مقصد کے تحت متعین موضوعی وحدت سے مربوط ہوتی ہے،آیات قرآنی کی ترتیب کے باب میں تو اتفاق ہے کہ وہ توقیفی ہے اور سورتوں کے باب میں بھی یہی راجح ہے کہ وہ بھی توقیفی ہے،اس لحاظ سے متقدمین و متاخرین مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تفسیر القرآن بالقرآن سب سے زیادہ معتبر اور صحیح ترین طریقۂ تفسیر ہے ،کیونکہ قرآن شریف میں جو بات ایک جگہ مجمل بیان ہوئی ہے ،دوسری جگہ اس کی توضیح ہللا نے خود ہی کر دی ،اور جو بات ایک جگہ مختصر بیان ہوئی ہے ،دوسری جگہ اس کی تفصیل پیش کر دی ہے۔۱۳ ی' (الزمر )۲۳ :۳۹ ث ِک ٰتبًا ُّمتَشَابِ ًہا َّمثَانِ َ سنَ ْال َح ِد ْی ِ 'ّٰللاُ ن ََّز َل اَحْ َتعالی کا فرمان ہے َ :ہ ٰ اس سلسلے میں ہللا سبحانہ مذکورہ آیت میں ' ُمتَشَابِ ًہا' کے معنی،قرآن کے بعض حصے بعض سے مشابہ اور مثانی کے معنی ہیں کہ اس کے موضوعات کو باربار دہرایا گیا ہے،اس یہ بات نکلتی ہے کہ کل قرآن میں موضوعی وحدت ہے۔ قرآن کریم کل علوم کا منبع تعالی نے آسمان سے ایک سو چار کتب اتاریں ،ان کے علوم چار ٰ حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ ہللا کتابوں توریت ،انجیل،زبوراور فرقان میں جمع کیے ،سمو دیے ،پھر ان چاروں کتب کے علوم فرقان حمید میں یکجا کیے ،پھر علوم القرآن کو مفصل سورتوں میں جمع کیا ،پھر مفصل سورتوں کے علوم سورۃ تعالی کی ٰ الفاتحہ میں سمو دیے۔ اب جس نے اس سورہ ''الحمد'' کا علم حاصل کر لیا ،گویا کہ اس نے ہللا نازل کردہ تمام کتب کے علوم حاصل کر لیے ،اور جس نے اس سورہ کی تالوت کی ،اس نے گویا توریت، انجیل ،زبور و فرقان ،سب کی تالوت کی۔۱۴ عالمہ حمید الدین فراہی نے بھی لکھا ہیں کہ''سورۂ حمد'' جو ایک دیباچہ کی طرح جامع ہے اور اس میں ی'ث ِک ٰتبًا ُّمتَشَا ِب ًہا َّمثَانِ َ سنَ ْال َح ِد ْی ِ قرآن کریم کی تمام باتوں کی کلید محفوظ ہے۔ ۱۵ارشاد باری ہے َ :ہ 'ّٰللاُ ن ََّز َل ا َ ْح َ (الزمر )۲۳ :۳۹۔ مذکورہ آیت کے تحت مشابہ اور مثانی کی چند مثالیں۔ مشابہ کی مثال الص َرا َ ط ک نَ ْست َ ِعیْنُ ،اِہ ْ ِدنَا ِ ّ ک نَ ْعبُدَُ ،واِیَّا َ ک یَ ْو ِم ال ِدّی ِْن ،اِیَّا َ الر ِحی ِْم ،مٰ ِل ِ الر ْحمٰ ِن َّ ب ْال ٰعلَ ِمیْنَ َّ ، ارشاد ہے' :ا َ ْل َح ْمدُ ِ ہ ِ ّٰلل َر ّ ِ ب َعلَی ِْہ ْم َوالَ الضَّآ ِلّیْنَ ' (الفاتحہ۱ :۱۔ )۷۔ مذکورہ سورہ میں ض ْو ِ ط الَّ ِذیْنَ ا َ ْنعَمتَ َعلَی ِْہ ْم َغی ِْر ال َم ْغ ُ ص َرا َ ال ُم ْست َ ِقی َْمِ ، ّٰلل'' سے توحید اسما ْ توحید کی تینوں اقسام اور جزا وسزا اور رسالت کا ثبوت موجود ہے ،جیسے ''اَل َح ْمدُ ِ ہ ِ ک یَ ْو ِم ال ِدّی ِْن'' سے انصاف پر مبنی جزا ب ْال ٰعلَ ِمیْنَ '' سے توحید ربوبیت ماخوذ ہو تی ہے۔ ''مٰ ِل ِ وصفات اور'' َر ّ ِ ط ال ُمست َ ِقی َْم'' الص َرا َ ک نَ ْست َ ِعیْنُ '' سے توحید الوہیت ماخوذ ہے ،اور ''اِہ ْ ِدنَا ِ ّ ک نَ ْعبُدُ َواِیَّا َ وسزا ماخوذ ہے اور ''اِیَّا َ سے رسالت کا ثبوت ملتا ہے ،کیونکہ یہ راستہ ہم کو رسول ہی نے بتایا ہے۔۱۶ مثانی کی مثال بعض سورتوں پر ،جن میں ان کے موضوعات دہرائے گئے ،معلوم ہوتا ہے کہ اسلوب وطریق سیاق کے اختالف کے باوجود معنی و مفہوم میں یکسانیت ہے،بالفاظ دیگر ان سورتوں میں موضوعی وحدت کا اصول حاصل ہوتا ہے،مثال کے طور پرمشرکین سے اظہار براء ت کر تے ہوئے سورۂ توبہ اور سورۂ ممتحنہ، س ْو ِل ٖ ْٓہ اِلَی الَّ ِذیْنَ ٰع َہ ْدت ُّ ْم ِ ّمنَ دونوں ایک ہی مفہوم سے شروع ہو رہی ہیں ،ارشاد باری ہے' :بَ َرآ َء ۃ ٌ ِ ّمنَ ہ ِ ّٰللا َو َر ُ ی َو َعد َُّو ُک ْم ا َ ْو ِلیَآ َء ت ُ ْلقُ ْونَ اِلَ ْی ْْہِ ْم بِال َم َودَّۃِ َوقَ ْد َکفَ ُر ْوا بِ َما ْ ْال ُم ْش ِر ِکیْنَ ' (التوبہ)۱ :۹۔ ' ٰیْٓاَیُّ َہا الَّ ِذیْنَ ٰا َمنُ ْوا َال تَت َّ ِخذُ ْوا َعدُ ّ ِو ْ ضاتِ ْی س ِب ْی ِل ْی َوا ْبتِغَآ َء َم ْر َ اّٰلل َر ِبّ ُک ْم ا ِْن ُک ْنت ُ ْم خ ََر ْجت ُ ْم ِج َہادًا فِ ْی َ س ْو َل َواِیَّا ُک ْم ا َ ْن تُؤْ ِمنُ ْوا ِب ہ ِ الر ُ ق ی ُْخ ِر ُج ْونَ َّ َجآ َء ُک ْم ِ ّمنَ ْال َح ّ ِ س ِب ْی ِل' (الممتحنہ:۶۰ س َوآ َء ال َّ ض َّل َ تُس ُِّر ْونَ اِلَ ْی ْْہِ ْم ِب ْال َم َودَّۃِ َواَنَا ا َ ْعلَ ُم ِب َمآ ا َ ْخفَ ْی ْْت ُ ْم َو َمآ ا َ ْعلَ ْنت ُ ْم َو َم ْن یَّ ْفعَ ْل ُہ ِم ْن ُک ْم فَقَ ْد َ )۱۔ مذکورہ دونوں سورتوں کا خالصہ اس سورہ' :قُ ْل ٰیْٓاَیُّ َہا ْال ٰک ِف ُر ْونَ ََّ ،ل ا َ ْعبُدُ َما ت َ ْعبُد ُْونَ َ ،و ََّل ا َ ْنت ُ ْم ٰع ِبد ُْونَ َمآ ا َ ْعبُدُ، ی ِدی ِْن' (الکافرون ۱ :۱۰۹۔ )۶میں سمیٹ لیا گیا َو ََّل اَنَا َعابِدٌ َّما َعبَ ْدت ُّ ْمَ ،و ََّل ا َ ْنت ُ ْم ٰعبِد ُْونَ َمآ ا َ ْعبُدُ ،لَ ُک ْم ِد ْینُ ُک ْم َو ِل َ ہے۔ دوسری مثال صب ِْر' ص ْوا بِال َّ ق َوت ََوا َ ْ ص ْوا بِال َح ّ ِت َوت ََوا َ ص ِلحٰ ِ ُ ٰ َّ َّ سانَ لَ ِف ْی ُخس ٍْر ،اِال ال ِذیْنَ ا َمنُ ْوا َو َع ِملوا ال ہ ْ اال ْن َ ارشاد باری ہے' :ا َِّن ِ (العصر ۲ :۱۰۳۔)۳۔ مذکورہ آیت نمبر ۳میں انسان کے چار اوصاف کا تذکرہ کیا گیا ،یعنی ایمان باہلل ،عمل صالح ،حق کی تلقین اور صبر کی تلقین۔ ان اوصاف کا بیان طویل ترین سورتوں میں ملتاہے ،جیسے سورۂ بقرہ و آل عمران جو اسالم و ایمان کی تفصیالت پر مشتمل ہیں اور سورۂ بقرہ میں مفصل شریعی احکام بھی ص ِلحٰ تِ' میں مذکور ہیں ،اور سورۂ نساء میں رشتہ داروں مذکور ہیں،یہ سب باتیں 'ا َِّال الَّ ِذیْنَ ٰا َمنُ ْوا َو َع ِملُوا ال ہ کے حقوق کی تشریح اورعدل و انصاف کے ساتھ ان حقوق کی ادائیگی کا حکم ہے ،ان سب کی تفصیالت ق' ،اور سورۂ مائدہ میں معامالت کی حلت وحرمت کی تفصیالت ہیں، ص ْوا بِ ْال َح ّ ِ مجمل طور پریوں ہے' :ت ََوا َ یعنی حالل کی پابندی اور حرام سے پرہیز اور حالل معامالت کو حسب معاملہ پورا کر نے سے متعلق صب ِْر' میں بیان کیا گیا ،کیونکہ حالل کی فکر اور حرام سے اجتناب ص ْوا ِبال َّ احکام،ان سب کا خالصہ 'ت ََوا َ صبر کا طالب ہے۔۱۷ خالصۂ بحث جب تک انسان روے زمین پر موجود ہے اور قرآن کے ماننے والے موجود رہیں گے ،وہ قرآن کریم کے نئے نئے مطالب ومعانی پر غورو فکر کر تے رہیں گے ،جس سے علم تفسیر کے نئے نئے مناہج ومسالک سامنے آتے رہیں گے۔ اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ،تفسیر القرآن کے کئی رجحانات میں سے ایک نیا رجحان تفسیرموضوعی بھی سامنے آیا ہے،یہ طرز تفسیر نہ صرف نیا ہے ،بلکہ یہ اصطالح چودھویں صدی ہجری کی پیداوار ہے اور اس اصول پر لکھی ہوئی تفاسیرکی تعداد بہت کم ہے۔ اس طرح قرآن کریم پر تدبروتفکر کے نتیجہ میں نئے نئے اسالیب کا سامنے آنا جس کا اشارہ اس روایت میں محفوظ ہے'' :قال فلیثور''( حضرت ابن مسعودنے فرمایا :جوشخص اولین و آخرین ابن مسعود :من أراد علم األولین واَّلخرین ّ کے علم حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہو ،وہ مباحثہ کرے)۔۱۸ ________ ریسرچ اسکالر ،شعبۂ دینیات،مسلم یونیورسٹی علیگڑھ ،انڈیا۔ * ۱القاموس الوحید ،وحید الزماں قاسمی کیرانوی۱۶۶۹۔ ۲مباحث فی العلوم القرآن ،منا ع القطان۹۷۔ ۳سراج المریدین ،ا بن ا لعربی،القاضی :بحوالہ ،البرہان فی علوم القرآن ،بدر الدین زرکشی ۳۷ /۱۔ ۴تدبر قرآن ،موالناامین احسن اصالحی۱ ،؍ن۔ و ایضا۴۷۹ /۷ ،۔ ۵البحر المحیط ،ابو حیان ،۳۵۲ /۶نظم الدرر ،...بقاعی۶۷ /۱۳۔ ۶تفسیر عثمانی ،موالنا شبیر احمد عثمانی ۴۵۰۔ ۷تدبر قرآن ،موالناامین احسن اصالحی ۱۴۲ /۳۔۱۴۳۔ ۸تفسیر عثمانی ،موالنا شبیر احمد عثمانی۱۹۱۔ ۹تفسیر القرآن العظیم ،ابن کثیر۵۸۲ /۲۔ ۱۰البناء العظیم۱۹۹۔ ۱۱الموافقات فی اصول الشریعہ ،الشاطبی ۴۱۳ /۳۔ ۱۲دالئل النظام ،عالمہ حمید الدین فراہی۵۵۔ ۱۳مقدمۃ فی اصول التفسیر ،ابن تیمیہ ۳۹ /۱۔ دالئل النظام،عالمہ فراہی۱۷۔ ۱۴التفسیر الکبیر ،امام رازی۱۲۲ /۷۔ تناسق الدررفی تناسب السور ،السیوطی۶۔ ۱۵دالئل النظام ،عالمہ فراہی۵۵۔ ۱۶تیسیر اللطیف المنان فی خالصۃ تفسیر القرآن ،السعدی ۱۲۔ ۱۷امعان النظر فی نظام اَّلی من السور ،محمد عنایت ہللا سبحانی۳۱۵۔ ۱۸بحوالہ،البر ہان فی علوم القرآن ،بدر الدین زرکشی۱۵۴ /۲۔ ____________