You are on page 1of 12

‫‪:-‬اہمیت‬

‫انٹرنیٹ موجودہ صدی کی سب سے حیرت انگیزاور مفید ایج اد ہے۔اسے معلوم ات 'کاروب اری ت رقی اور تف ریح کا‬
‫ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔جس کے ذریعے زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھ نے والے اف راد فائ دہ اٹھا س کتے ہیں۔‬
‫انٹرنیٹ ایسی جدید ٹیکنالوجی ہے جسے کم پیوٹر ک وڈ کے ذریعے دنیا کے کسی بھی ملک سے مطل وبہ معلوم ات‬
‫حاصل کی جاسکتی ہیں۔ سائنس کی اس تر قی کے فوائد اور نقص انات بھی بہت ہیں۔ای ران نے مغ ربی ممالک سے‬
‫درآمد کی جانے والی وڈیو گیمزپر پابن دی عائد کر دی ہے اور خ ود اپ نی وڈیو گیمز تی ار کرنا ش روع کر دی ہیں۔‬
‫اس پابندی کی وجہ یہ بت ائی گ ئی ہے کہ ی ورپی ممالک سے امپ ورٹ کی ج انے والی وی ڈیوگیمز بچ وں میں تش دد‬
‫پسندانہ رجحانات پیدا کرتی ہیں 'جس سے مستقبل میں ان بچوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔‬

‫‪:-‬انٹرنیت کے فوائد‬
‫پاکستان میں ہزاروں کی تعداد میں انٹرنیٹ نصب ہیں۔جو معلوم اتی 'تج ارتی 'سائنسی اور س فارتی ام ور کے ل ئے‬
‫اس تعمال ک ئے ج اتے ہیں اگر یہ ان ٹر نیٹ ت رقی ی افتہ ممالک کی یونیورس ٹیوں سے منس لک کر دئ یے ج ائیں تو‬
‫پاکستان میں تعلیمی انقالب آسکتا ہے۔اس سے طلبہ کی علمی قابلیت میں اضافہ ہو س کتا ہے اور ہم ارے ملک کے‬
‫طلباء کا تحقیقی کام بھی ترقی کر سکتا ہے۔ہر تحقیق کے لئے انٹر نیشنل رفرنس حاصل کر نا ضروری ہوتے ہیں۔‬
‫ہر مضمون کے لئے درآمدی کتب بازار میں دستیاب نہیں لیکن یہ کئی سال پہلے لکھی گئی ہوتی ہیں۔نئے تجرب ات‬
‫کے بارے میں ک افی عرصہ بعد ہمیں معل وم ہوتا ہے۔درآم دی کتب ایک تو مہنگی بہت ہ وتی ہیں۔جو ہر ط الب علم‬
‫کے لئے خریدنا مشکل ہے۔ اگر کسی کالج یا یونیورسٹی الئبریری میں ایسی کتب آ بھی جائیں تو ان کی تع داد بہت‬
‫کم ہوتی ہے۔ایک مضمون پر صر ف ایک ہی کتا ب خریدی جا تی ہے۔وہ اگر ک وئی ط الب علم ج اری کر والے تو‬
‫دو ہفتوں کے لئے ایک ہی طالب علم کے پاس رہتی ہے۔‬
‫ان ٹر نیش نل رس الو ں میں مختصر معلوم ات پر مض امین ہ وتے ہیں جو ط الب علم کی ض رورت کو پ ورا نہیں کر‬
‫سکتے۔اس ط رح پاکس تان کے ب ارے میں مکمل معلوم ات کو ان ٹرنیٹ پر النا ض روری ہے ت اکہ دنیا کے ہر ملک‬
‫میں ہم ارے ملک کے ب ارے میں مفید معلوم ات پہنچ ائی جا س کیں۔سائنسی ' ط بی ' زرعی ' انجینئرنگ ' ف نی اور‬
‫آرٹس میں انٹر نیٹ سے رابطہ ہماری تعلیم کے حص ول کے ل ئے کہیں ج انے کی ض رورت نہیں رہے گی۔ی ورپ‬
‫اور امریکی ممالک میں یہ سہولتیں میسر ہیں۔تعلیم کے میدان میں انٹرنیٹ سے بین االقوامی رابطہ سے تمام یونیو‬
‫رسٹیاں دفاتر کی شکل اختیار کر لیں گی۔ہمارا زرمب ادلہ بچ ج ائے گ ا۔یہ ان ٹر نیٹ اگر ہم ارے س رکاری ہس پتالوں‬
‫الہور ' کراچی اور اسالم آب اد میں موج ود م اہرین سے‬
‫ُ‬ ‫میں نصب کر دئیے جائیں تو بعض امراض کے عالج لئے‬
‫رابطہ کرکے وقت بچایا جاسکتا ہے اور ہنگامی صورت میں مریض کی جان بچائی جا سکتی ہے ۔‬
‫پاکستان میں ہونے والے کسی آپریشن میں غیر ممالک میں موجود ماہر ڈاک ٹر ان ٹر نیٹ سے رابطہ سے ض روری‬
‫ص الح مش ورہ لے س کتے ہیں۔ت رقی ی افتہ ممالک میں م ریض کی کیس ہس ٹری ان ٹرنیٹ کے ذریعہ بتا کر م اہر‬
‫ڈاکٹروں کی خدمات سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ان ضروری معامالت میں انٹرنیٹ ہر ملک کو ایک دوس رے سے‬
‫قریب کر دے گ ا۔جس سے دنیا میں امن بر ق رار رکھ نے میں آس انی پی دا ہوج ائے گی۔پھر ایک ''انٹرنیش نل ویلج ''‬
‫قائم ہوسکتا ہے۔حاالت بتا رہے ہیں کہ یہ رابطہ ایک دن ضرور قا ئم ہوجائے گا۔تعلیم کی روشنی مزید پھیلے گی۔‬
‫غریب ط الب علم بھی ام یر تعلیم حاصل کر س کے گے۔پھر ب ات م یرٹ پر آج ائے گی۔س فارش اور تعلیم میں غ یر‬
‫قانونی اقدامات خود ہی دم ت وڑ دیں گے۔نفر تیں مٹ جا ئیں گی ' جب ان ٹر نیٹ دنیا کے لوگ وں کو آپس میں مالنے‬
‫اور سمجھنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔محبت کا راج ہو گا۔ترقی کے راستے کھولے گے۔‬

‫‪:-‬انٹر نیت کے نقصانات‬


‫خفیہ دستاویزات اور اہم راز انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا میں کہیں بھی ٹرانسفر ک ئے جا س کتے ہیں۔اب ملکی رازوں‬
‫کی چوری مشکل نہیں رہی۔انٹر نیٹ کمیونی کیشن کا ایک ایسا ذریعہ ہے جس پر کوئی چیک ہی نہیں ہے۔فیکس یا‬
‫دیگر ذرائع استعمال کی بج ائے ان ٹر نیٹ اس تعمال کیا جا رہا ہے کم پیوٹر کے چند بٹن دبا کر یہ اں کی معلوم ات‬
‫دنیا کے کسی خطے میں پہنچ س کتی ہیں اور کسی کو خ بر تک نہیں ہو س کتی کی ونکہ اس سے راز افش اہونے کا‬
‫کوئی ثب وت ب اقی نہیں رہت ا۔ص نعتکاراپنی ٹیکن الو جی یا کاروب اری خفیہ رپ ورٹس یا مس تقبل کے پروگرام وں کو‬
‫کم پیوٹر کو مخص وص تکنیک کے اس تعمال سے اوپن کر کے اس میں محف وظ معلوم ات حاصل کر س کتا ہے۔‬
‫کریمینل جسٹس اکیڈیمی ن ارتھ کیرولینا'ام ریکہ کے پروفیسر رچ رڈ م ورنے واش نگٹن پوسٹ سہ م اہی رس الہ میں‬
‫انٹر نیٹ پر اپنے خیاالت کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ آئندہ جرائم پیشہ تنظیمیں انٹرنیٹ کے ذریعہ معلوم ات‬
‫حاصل کر کے بڑے بڑے سرمایہ داروں سے جبری دولت حاصل کرنا شروع کر دیں گی۔‬
‫انٹر نیٹ کی مداخلت سے کئی اداروں کا ترقیاتی کام رک جائے گا۔ان ٹر نیٹ کم پیوٹر کے ہ ارڈوئیر کو بھی متا ثر‬
‫کر دے گا۔منشیات کے سمگلروں کو اپنے ک ام میں آس انی پی دا ہو ج ائے گی۔ان ٹر نیش نل ج رائم پیشہ تنظیمیں جدید‬
‫طریق وں سے ڈاکے اور چوری وں کی وارداتیں کر نے لگیں گی۔ ‪ 1992‬ء میں کینی ڈی انٹرنیش نل ائ یر پ ورٹ نیو‬
‫یارک سے ہا ئی ٹیک جہازوں کا ائیر گائیڈ سسٹم جو چار حصوں میں منقسم تھا۔اس کا ہر حصہ ایک الکھ امریکی‬
‫ڈالر کے ع وض ڈرگ مافیا کو ف روخت کر دیا گی ا۔جو منش یات کے س مگلروں کے جہ ازوں میں نصب پایا گیا ۔‬
‫ہسپتالوں سے میڈیکل کے جدید آالت انٹر نیشنل مارکیٹوں میں فروخت کئے گئے۔ج رائم پیشہ تنظیمیں کم پیوٹر کی‬
‫جدید تعلیم کے ماہرین سے بھاری معاوضہ کے عوض معلوم ات حاصل ک رتی ہیں اور ان ٹرنیٹ سے مکمل کوائف‬
‫جمع کر کے اپنی وارداتیں عمل میں التی ہیں۔‬
‫ان ٹرنیٹ کی م دد سے کسی ب ڑے ادارے کا بینک ریک ارڈ حاصل کر کے اس سے رقم اپ نے اک اؤنٹ میں ٹرانس فر‬
‫کرانے کے چوبیس گھنٹوں کے بعد رقم نکلوالیتی ہیں۔بعض حالتوں میں ملٹری ریکارڈبھی نکلوالیتی ہیں۔کسی ف رد‬
‫اعلی درجے کی‬‫ٰ‬ ‫واحد کا ریک ارڈ معل وم کرنا تو ان کے ل ئے بہت آس ان ہے۔بعض ب ڑے کاروب اری اداروں میں‬
‫آسامیاں حاصل کرنے کے لئے ایسی تنطیموں سے رابطہ کیا جاتاہے۔وہ ایسے امیدواروں کی خفیہ زندگی تک کے‬
‫حاالت معقول معاوضہ کے عوض دے دیتی ہیں۔جاپان کی سب سے بڑی تنظیم خفیہ زندگی تک کے حاالت معق ول‬
‫خفیہ رپ ورٹیں '' ‪ YAKUZY‬معاوضہ کے ع وض دے دی تی ہیں۔جاپ ان کی سب سے ب ڑی خفیہ تنظیم ''ی اکوزے‬
‫فروخت کر نے کے عالوہ انٹر نیشنل مار کیٹوں میں کاروب ار بھی ک رتی ہے۔یہ ع المی ض روریات کے پ روڈکٹس‬
‫کو خرید کر سٹاک کر لیتی ہے ۔جب مارکیٹوں میں ان مصنوعات کی قلت ہو جا تی ہے تو دوگ نے دام وں ف روخت‬
‫کر تی ہیں۔جس سے اس تنظیم کو بھاری منافع حاصل ہوتا ہے۔جاپان کی یہ تنظیم دنیا کے بڑے ب ڑے ش ہروں میں‬
‫بننے والے پالزے خرید لیتی ہے پھر مہنگے داموں فروخت کرتی ہے۔‬
‫کاروباری بڑی عمارتیں خریدنے کا دھن داامریکہ اور جاپ ان میں کیا جاتا ہے جو اسی تنظیم کے کن ٹرول میں رہتا‬
‫ہے۔کاروباری وصنعتکار لوگوں کے راز حاصل کرنے کے لئے 'ان کے مستقبل کے پروگرام کے عمل کو چوری‬
‫کرنے کیلئے ان کی مصنوعات کی تیاری کے فارمولے چرانے کے لئے اور بڑے پبلیشرز سے معی اری کتب کے‬
‫مسودے حاصل کرنے کے ل ئے ج رائم پیشہ تنظیمیں جدید کم پیوٹر کے م اہرین سے ان ٹرنیٹ کی م دد سے یہ راز‬
‫چوری ک راتے ہیں اور انہیں بھ اری معاوضہ دی تی ہیں۔ان رازوں کو خری دنے کے ل ئے دوس رے ص نعتکار اپ نے‬
‫م اہرین کو س اتھ الکر ان کی نگ رانی میں س وداطے کر تے ہیں۔پ روڈکٹس کی تی اری بہت جلد ک رتے ہیں اور‬
‫م ارکیٹوں میں پھال دی تے ہیں۔رازوں کی اس چ وری کا تو پتہ ہی نہیں چلت ا۔ایسے موقعو ں پر ب ڑے کاروب اری‬
‫اداروں کے متعلقہ مالزمین ہی شک کی گرفت میں آتے ہیں اور بے قصور مجرم ٹھہرائے جاتے ہیں۔‬

‫جرائم میں اضافہ‬


‫کا اس تعمال آئن دہ ‪ SATELLITES‬ام ریکہ کے ایک کرائمز رس الے میں یہ بھی انکش اف کیا گیا ہے کہ س یاروں‬
‫مجرموں کے لئے ایک آلہ اس تعمال ہو گ ا۔جس سے وہ دنیا کے ہر ملک میں مواص التی نظ ام کو مت اثر کر س کیں‬
‫گے۔سیٹاالئٹ سے حاصل ہو نے والی مواص التی س روس اور نیٹ ورک کمر شل م ارکیٹوں میں ع ام دس تیاب ہیں۔‬
‫آئندہ آنے والی اکیسویں صدی میں ایسے جرائم پیشہ ادارے اپنے سیارے خود خرید س کیں گے۔مث ال کے ط ور پر‬
‫ڈرگ مافیا کا گروپ اپنے سائنس دانوں کی ایک ٹیم مالزم رکھ لے گ ا۔جس سے وہ س یاروں کو النچ کر س کے گے‬
‫اور منشیات کی ترسیل کے لئے راستہ ہموار کر س کیں گے۔ان کے پ اس دولت کی ف راوانی دنیا کی ہر چ یز خرید‬
‫سکے گی۔‬
‫اس سے ڈرگ مافیا کے ل وگ حکومت وں کو بھی پریش ان کرنا ش روع کر دیں گے۔ایسی دہش تگرد تنظیمیں اپ نی‬
‫پرائیویٹ آرمی منظم کریں گی جو ساری دنیا میں قائم ہو گی۔ح االت کو مزید خ راب ک رنے کے ل ئے گزش تہ بیس‬
‫سالوں سے ''ایٹمی مافیا '' بھی قائم ہو چکا ہے۔اس مافیا کے گروپ کسی نہ کسی طریقے سے ایٹمی ہتھیار چور ی‬
‫کر کے دوسرے ممالک میں فروخت کر دیتے ہیں اور بھاری رقم وص ول کر تے ہیں ۔جرم نی ایٹمی ہتھی اروں کی‬
‫س مگلنگ کا مرکز بن گیا ہے۔جرم نی بین االق وامی دب اؤ کے خ وف سے ڈر رہا ہے۔اگلی ص دی میں ج رائم پیشہ‬
‫تنظیمیں ایٹمی ہتھیارخود بن انے لگیں گی۔آئن دہ آنے والے س الوں میں ج رائم پیشہ تنظیمیں پس پ ردہ یا ب راہ راس تہ‬
‫حکومت کنٹرول کرے گی۔‬

‫‪:-‬جاسوسی تنظیموں کی کاروائی‬


‫انٹر نیٹ کو تخریبی کاموں میں بڑی کامیابی سے استعمال کیا جارہا ہے۔اس کا استعمال عالمی بد ن ام ش ہرت ی افتہ‬
‫جاسوسی کی تنظیمیں کر تی ہیں۔جس میں اسرائیل کی جاسوس تنظیم''موس اد ''اٹلی کی مافیا'ف رانس کی ڈی جی ایس‬
‫ای 'روس کی این بی آر ایف ایم ‪ 15‬اوربرط انیہ کی سی آئی اے ش امل ہیں۔جس سے پ وری دنیا میں دہشت گ ردی‬
‫'ف رقہ واریت اور ملک دش من س رگرمیوں میں ان ٹر نیٹ کے اس تعمال کا خدشہ نظر ان داز نہیں کیا جا س کتا۔ایسے‬
‫ممالک جو سیٹالئٹ کے جدید ذرائع استعمال نہیں کرسکتے وہ حس اس آالت ان ٹرنیٹ سے منس لک ک رکے ان ٹرنیٹ‬
‫سیٹالئٹ سسٹم اس تعمال کر س کتے ہیں۔جس کے ذریعے کسی اہم ادارے میں ہ ونے والی خفیہ میٹنگ کی ک اروائی‬
‫براہ راست کسی ملک میں دیکھی اور سنی جا سکتی ہے۔انٹر نیٹ کے ذریعہ تخریب ک اروں کی ت ربیت بھی چیک‬
‫کی جا س کتی ہے اور انہیں گائیڈ بھی کیا جا س کتا ہے۔اس جدید ٹیکن الوجی نے تخ ریب ک اری پھیالنے میں اہم‬
‫کردار ادا کیا ہے۔امریکہ میں انٹرنیٹ کو کنٹرول کر نے کے لئے خصوصی کوڈ نمبر کمپیوٹر میں نصب کر دئیے‬
‫گئے ہیں مگر یہ کوڈ نمبر کا راز ادارہ کے چیف کے عالوہ کمپیوٹر آپریٹر کے پ اس ہی رہے گا جو اسے چالئے‬
‫گا۔‬
‫!انٹرنیٹ کے منفی استعمال کے نقصانات اور اُن سے بچنے کا طریقہ‬

‫‪ ‬‬

‫اس میں کوئی شک نہیں کہ انٹرنیٹ مختلف معلومات کے لیے ایک ایسا اہم ذریعہ بن چکا ہے‪ ،‬جس کے‬
‫ذریعہ انسان مختصر وقت کے اندر معمولی الگت سے بے شمار دینی‪ ،‬علمی‪ ،‬اقتصادی اور سیاسی معلومات‬
‫ت حاضرہ سے بھی واقفیت حاصل کرسکتا ہے۔ اسی طرح اس‬ ‫تک رسائی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ حاال ِ‬
‫کے توسط سے دینی اور عصری اداروں میں دفتری کاموں کے اندر سہولت اور آپس میں معلومات کے‬
‫تبادلے سے متعلق بھی کافی آسانیاں پیدا ہوچکی ہیں‪ ،‬ل ٰہذا اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ مختلف‬
‫دور حاضر میں بے‬‫میدانوں کے اندر انسان کے لیے بے شمار سہولتیں فراہم کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ِ‬
‫شمار لوگ جن میں چھوٹے بڑے‪ ،‬مردوعورت‪ ،‬مال دار وغریب‪ ،‬پرہیزگار اور آزاد خیال ہر قسم کے لوگ‬
‫شامل ہیں‪ ،‬کسی نہ کسی حد تک اس سے منسلک اور اس کے ثناخواں نظر آتے ہیں‪ ،‬اور اپنی مجالس میں‬
‫اس کی خوبیاں گننے اور بیان کرنے سے نہیں تھکتے۔‬
‫البتہ ایک افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ انٹرنیٹ کی ستائش کرنے والے اور اس پر فریفتہ ہونے والے اکثر‬
‫حضرات اس کے نقصانات اور اُس کے منفی گوشوں پر سنجیدگی کے ساتھ غور نہیں کرتے‪ ،‬جس کی وجہ‬
‫سے وہ آہستہ آہستہ مختلف دینی‪ ،‬جسمانی اور نفسیاتی مشکالت کے شکار ہوجاتے ہیں۔ اسی حقیقت کو‬
‫تعالی کی توفیق سے احقر نے اس مضمون کے اندر انٹرنیٹ کے غلط استعمال کے‬ ‫ٰ‬ ‫م ِدنظر رکھتے ہوئے ہللا‬
‫نقصانات بیان کرنے اور ان سے بچنے کا طریقہ بتانے کی کوشش کی ہے‪ ،‬تاکہ اس جدید آلہ سے منسلک‬
‫لوگ اس کے نقصانات سے باخبر وہوشیار رہیں۔‬
‫میرے اس مضمون سے یہ ہرگز نہ سمجھا جائے کہ میں انٹرنیٹ کے فوائد سے انکار کرتا ہوں‪ ،‬یا لوگوں‬
‫کو اس کے استعمال سے کلی طور پر منع کرتا ہوں‪ ،‬اس لیے کہ ایک طرف تو اس کے بعض فوائد میں‬
‫ت حاضرہ کے اندر موجودہ معاشرے کے افراد بظاہر‬ ‫شک وشبہ کی گنجائش نہیں اور دوسری طرف حاال ِ‬
‫اس بات کے لیے ہرگز تیار نہیں ہوں گے کہ اس کے استعمال کو مکمل طور پر ترک کریں‪ ،‬ل ٰہذا ان کو کلی‬
‫طور پر منع کرنا الحاصل ہوگا۔‬

‫چند احباب کی طرف سے مجھے انٹرنیٹ استعمال کرنے کی ترغیب اور میرا موقف‬
‫چند سال قبل جب انٹرنیٹ کا استعمال خواص وعوام میں پھیلنے لگا اور اس سے منسلک آالت جیسے‬
‫سمارٹ فون‪ ،‬لیپ ٹاپ وغیرہ لوگوں میں مشہور ہونے لگے‪ ،‬اور اس کا استعمال صرف دنیوی ضروریات‬
‫صول فقہ‪ ،‬ادب و عقائد‬‫ِ‬ ‫علوم دینیہ جیسے تفسیر وحدیث‪ ،‬فقہ واُ‬
‫ِ‬ ‫اور عصری علوم تک محدود نہیں رہا‪ ،‬بلکہ‬
‫ومدارس اسالمیہ‬
‫ِ‬ ‫علوم‬ ‫دینی‬ ‫جو‬ ‫نے‬ ‫احباب‬ ‫چند‬ ‫میرے‬ ‫تو‬ ‫لگے‪،‬‬ ‫وغیرہ میں بھی لوگ اس سے استفادہ کرنے‬
‫ث نبویہ کے ایک خادم‬ ‫سے تعلق رکھنے والے تھے‪ ،‬مجھ سے بار بار اصرار کے ساتھ کہا کہ تمہیں احادی ِ‬
‫اور دینی علوم کے ایک مدرس اور علمی تحقیقات سے دل چسپی رکھنے والے ایک فرد کی حیثیت سے اس‬
‫ث نبویہ کے مراجع‬ ‫آلہ سے استفادہ کرنا چاہیے‪ ،‬اس لیے کہ اس کے ذریعے مختصر وقت میں تمہیں احادی ِ‬
‫تک پہنچنے‪ ،‬اسانی ِد حدیث کی صحت وضعف معلوم کرنے اور دیگر علمی تحقیقات تک رسائی حاصل‬
‫کرنے میں کافی مدد ملے گی اور ساتھ ساتھ یہ اصرار بھی کرتے رہے کہ تم انٹرنیٹ سے منسلک سمارٹ‬
‫فون کا سیٹ اپنے استعمال میں رکھو‪ ،‬تاکہ جس وقت بھی اور جہاں بھی تمہیں کوئی علمی ضرورت پیش‬
‫آئے گی‪ ،‬تم اس سے استفادہ کرسکو گے۔‬
‫ان حضرات کی باتیں سن کر میں ہمیشہ یہ جواب دیتا رہا کہ آپ جیسے تجربہ کار حضرات کی اس‬
‫وضاحت کے بعد میرے لیے انٹرنیٹ کے بعض فوائد سے انکار کرنے کی تو کوئی گنجائش باقی نہیں رہی!‬
‫تاہم مجھے ایک خوف ضرور الحق ہے کہ انٹرنیٹ کے مفید ومضر گہرے سمندر میں اگر میں داخل ہوا تو‬
‫کہیں اس کی خطرناک لہروں اور بے رحم مگرمچھوں کا شکار نہ ہوجاؤں‪ ،‬اور میں چونکہ تیراکی اور‬
‫مگرمچھوں کے مقابلہ کرنے میں مہارت کا دعویدار بھی نہیں‪ ،‬اس لیے مجھے خطرہ ہے کہ اس گہرے‬
‫اور خطرناک سمندر میں داخل ہونے کے بعد اس کی لہروں میں غرق ہوکر یا اس کے َمگرْ َمچھوں کا لقمہ‬
‫بن کر ساحل تک واپسی کا موقع نہیں پاسکوں گا۔‬
‫ایک گراں قدر نصیحت وتربیت کا اثر‬
‫تعالی کی توفیق سے احقر نے اپنے زمانٔہ طالب علمی سے لے کر زمانٔہ تدریس تک ہمیشہ اپنے والدین‬ ‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫انداز تربیت کو حتی االمکان‬ ‫ِ‬ ‫کے‬ ‫ان‬ ‫اور‬ ‫رکھنے‬ ‫یاد‬ ‫کو‬ ‫نصیحتوں‬ ‫کی‬ ‫عظام‬ ‫مشایخ‬ ‫اور‬ ‫کرام‬ ‫اساتذٔہ‬ ‫اور‬
‫اپنانے کی کوشش کی ہے‪ ،‬اور آج تک اپنی غفلتوں کے باوجود ان کی گراں قدر نصیحتوں اور مخلصانہ‬
‫انداز تربیت کے ایسے فوائد وثمرات مجھے نظر آتے ہیں جنہیں دیکھ کر ان کے لیے غائبانہ طور پر دل‬ ‫ِ‬
‫کی گہرائیوں سے دعائیں نکلتی ہیں۔ میرے والدین مکرمین اور اساتذٔہ کرام و مشایخ عظام (جن میں‬
‫سرہ سابق‬
‫سرفہرست میرے مرشد ومکرم استاذ فقیہ االمت حضرت موالنا مفتی محمود حسن گنگوہی قدس ٗ‬ ‫ِ‬
‫رئیس داراالفتاء دارالعلوم دیوبند اور میرے محترم اُستاذ حضرت موالنا مفتی سعید احمد پالن پوری دامت‬
‫برکاتہم شیخ الحدیث وصدر المدرسین دارالعلوم دیوبند ہیں) کی پر اَثر نصیحتوں میں سے اس مضمون کی‬
‫مناسبت سے صرف ایک قیمتی نصیحت کا خالصہ پیش کیا جارہا ہے‪:‬‬
‫ت جدیدہ کو جو مختلف الجہات یعنی فوائد ونقصانات دونوں پر مشتمل نظر آتے ہوں‪ ،‬اس وقت‬ ‫’’ ایسے آال ِ‬
‫تک استعمال کرنے کی کوشش نہ کریں‪ ،‬جب تک ان کے مثبت ومنفی دونوں گوشوں پر غور اور دونوں‬
‫کے درمیان موازنہ نہ کریں‪ ،‬اس لیے کہ انسان جلد باز واقع ہوا ہے‪ ،‬وہ مثبت گوشوں سے جلد متٔاثر ہوتا‬
‫ہے اور منفی گوشوں سے غفلت برتتا ہے‪ ،‬چنانچہ ذرائع ابالغ واشتہارات کے ذریعہ جب کسی نئی چیز کے‬
‫فوائد اس کے علم میں آتے ہیں تو وہ فوراً اس کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے اس کے منفی گوشوں اور‬
‫نقصانات پر غور کرنے کی کوشش نہیں کرتا‪ ،‬جس کے نتیجے میں وہ آہستہ آہستہ اس کے نقصانات کا‬
‫شکار ہوجاتا ہے اور اس کو اندازہ بھی نہیں ہوتا‪ ،‬اور باآلخر بہت بڑا نقصان اُٹھاتا ہے۔‘‘‬
‫حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری مدظلُّہم کا میرے موبائل فون کو جانچنا‬
‫‪۱۴۳۳‬ھ مطابق ‪۲۰۱۲‬ء کو افریقی ملک ’’زامبیا‘‘ کے شہر ’’لوساکا‘‘ میں واقع ’’جامعہ اسالمیہ‘‘ کے‬
‫منتظمین حضرات (جو جامعہ علوم اسالمیہ عالمہ بنوری ٹاؤن کے فضالء ہیں) کی طرف سے مجھے‬
‫دعوت دی گئی کہ ’’جامعہ اسالمیہ‘‘ کا ساالنہ اجالس ما ِہ شعبان ‪۱۴۳۳‬ھ کو حضرت موالنا مفتی سعید‬
‫احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتہم العالیہ شیخ الحدیث وصدر المدرسین دارالعلوم دیوبند کی صدارت میں‬
‫منعقد ہونے واال ہے‪ ،‬آپ کو بھی اس اجالس میں شرکت کی دعوت دی جارہی ہے۔ احقر نے اس موقع کو‬
‫غنیمت وسعادت سمجھ کر دعوت قبول کرلی‪ ،‬اس لیے کہ اس بہانے تقریبا ً گیارہ سال بعد حضرت االستاذ‬
‫مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری مدظلہم العالی سے مالقات اور ان سے استفادہ کرنے کا موقع ملنے واال‬
‫تھا‪ ،‬چنانچہ شعبان کے شروع میں احقر ’’زامبیا‘‘ پہنچ گیا۔‬
‫’’زامبیا‘‘ پہنچنے کے بعد تقریبا ً دس روز تک مسلسل حضرت کی خدمت میں رہنے اور ان کے علمی‬
‫وتربیتی بیانات اور مشفقانہ ہدایات سے استفادے کا موقع ملتا رہا‪ ،‬اس دوران یہ واقعہ پیش آیا کہ ایک دفعہ‬
‫میزبان حضرات کی گاڑی میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنے کے لیے حضرت االستاذ روانہ ہونے‬
‫ب معمول میرے لیے بھی اُسی گاڑی میں بیٹھنے کا انتظام کرلیا‪ ،‬حضرت‬ ‫والے تھے‪ ،‬میزبانوں نے حس ِ‬
‫االستاذ سامنے والی سیٹ پر ڈرائیور کے بغل میں تشریف فرما ہوئے اور میں ان کے پیچھے والی سیٹ پر‬
‫بیٹھ گیا اور گاڑی روانہ ہوگئی۔‬
‫زیراستعمال سادے موبائل فون کی گھنٹی بجنے لگی‪ ،‬میں نے‬ ‫تھوڑی دیر کے بعد گاڑی ہی کے اندر میرے ِ‬
‫فون وصول کرکے فون کرنے والے سے مختصر بات کی اور فون بند کردیا‪ ،‬حضرت االستاذ نے فون کی‬
‫گھنٹی کی آواز اور میری گفتگو دونوں سن لیں‪ ،‬میری گفتگو ختم ہونے کے بعد اپنے پیچھے سے میری‬
‫طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے فرمایا‪’’ :‬ذرا اپنا موبائل فون مجھے دکھادو‘‘ میں نے فوراً اپنا موبائل ان کی‬
‫خدمت میں پیش کیا اور سمجھ گیا کہ حضرت االستاذ اس موبائل فون کی نوعیت کو دیکھ کر یہ جانچنا‬
‫چاہتے ہیں کہ کیا ان کے اس حقیر شاگرد نے اُن سے جدائی کے بعد اُن کی نصیحتوں کو خداناخواستہ‬
‫ت جدیدہ کو ان کے انجام پر غور کیے بغیر استعمال کرنا شروع کردیا ہے؟ یا آج‬ ‫فراموش کرکے پرکشش آال ِ‬
‫تک ہللا کی توفیق سے بیدارمغزی کے ساتھ سادگی کو ترجیح دیتے ہوئے اپنے محسنین کی نصیحتوں کو یاد‬
‫کیے رکھا ہے؟‬
‫بہرصورت! حضرت االستاذ نے جب میرے سیدھے سادے موبائل فون کا معائنہ فرماتے ہوئے اپنے ہاتھوں‬
‫میں اُسے اُلٹ پلٹ کر دیکھا اور ان کو اطمینان ہوا کہ ایک بالکل سیدھا سادا اور انٹرنیٹ سے غیرمنسلک‬
‫سستا سا موبائل فون ہے‪ ،‬تو زباں سے کچھ کہے بغیر مجھے واپس کردیا‪ ،‬البتہ ان کے چہرے پر اطمینان‬
‫کی عالمت بکھری ہوئی نظر آرہی تھی‪ ،‬جس سے میں نے اندازہ لگایا کہ وہ مطمئن ہوگئے۔ حضرت االستاذ‬
‫تعالی کا شکر ادا کیا کہ‬ ‫ٰ‬ ‫کے اطمینان کو دیکھ کر دل دل میں میری خوشی کی کوئی انتہا نہیں رہی‪ ،‬اور ہللا‬
‫اس نے اپنے اُستا ِذ محترم کی قیمتی نصیحت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرماتے ہوئے مجھے شرمندگی‬
‫سے بچایا۔‬
‫انٹرنیٹ کے استعمال سے پہلے اس کے نقصانات کا پتہ لگانا‬
‫الغرض! اپنے بڑوں کی تربیت کی برکت سے میں نے دوستوں کے اصرار کے باوجود اپنے آپ کو‬
‫انٹرنیٹ اور اس سے منسلک موبائل فون کے استعمال سے دور رکھا اور اپنی علمی ضرورتوں اور تحقیقی‬
‫کاموں کے لیے تسلسل کے ساتھ پرانے طریقوں سے کام لیتا رہا‪ ،‬اور اس مضمون کو قلمبند کرنے کی‬
‫تاریخ (‪۱۴۴۰-۰۴-۱۴‬ھ مطابق ‪۲۰۱۸-۱۲-۲۲‬ء) تک اپنے پاس ایک معمولی اور سادہ موبائل فون رکھنے‬
‫پر اکتفا کرتا رہا‪ ،‬البتہ انٹرنیٹ کے مشہور ومعروف فوائد کے ساتھ ساتھ اس کے نقصانات سے واقف ہونے‬
‫کی کوششوں میں بھی لگارہا‪ ،‬چنانچہ باخبر اور تجربہ کار وبااعتماد ساتھیوں اور دوستوں سے اس کے‬
‫نقصانات اور مضر اثرات سے متعلق معلومات حاصل کرتا رہا‪ ،‬اسی طرح خود بھی انٹرنیٹ سے منسلک‬
‫ایسے افراد کے احوال وعادات پر گہرائی کے ساتھ غور کرتارہا جو میرے جاننے والے اور وقتا ً فوقتا ً‬
‫مالقات کرنے والے تھے‪ ،‬تاکہ مجھے یہ اندازہ ہوجائے کہ ان کی عادتوں اور خصلتوں میں انٹرنیٹ کے‬
‫استعمال کے بعد بہتری نظر آرہی ہے یا خدانخواستہ کچھ کمزوری؟ یا پھر ان کی عادات اپنی سابقہ حالت پر‬
‫برقرار رہتی ہیں؟ تاکہ مذکورہ حاالت جاننے کے بعد مجھے انٹرنیٹ کے استعمال سے متعلق فیصلہ کرنے‬
‫میں آسانی رہے۔‬
‫انٹرنیٹ کے فوائد ونقصانات معلوم کرنے اور ان پر غور کرنے کے دوران اگرچہ میں اس کے مثبت‬
‫گوشوں سے استفادہ تو نہ کرسکا‪ ،‬جب کہ میرے بعض دوست واحباب نے ان گوشوں سے اچھا خاصا‬
‫تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے اپنی توفیق سے اس کے نقصانات‬ ‫ٰ‬ ‫استفادہ کیا‪ ،‬تاہم میں اس بات پر ہللا‬
‫ومفاسد سے بچاتے ہوئے ان کو میرے سامنے واضح کردیا‪ ،‬تاکہ ان کا سامنا کرنے سے پہلے ان سے‬
‫بچنے کی فکرکروں‪ ،‬اور اپنی اوالد ومتعلقین کو بھی ان نقصانات سے آگاہ کرنے کی کوشش کروں۔‬
‫انٹرنیٹ کے فوائد تو زبان ز ِد خاص وعام ہوچکے ہیں‪ ،‬اس لیے انہیں تفصیل کے ساتھ بیان کرنے کی‬
‫ضرورت نہیں ‪ ،‬اجمالی طور پر مضمون کے شروع میں ان کا ذکر آبھی چکا ہے‪ ،‬البتہ اس کے نقصانات‬
‫میں سے چند بنیادی نقصانات کا تذکرہ اور ان سے بچنے کا طریقہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں‪ ،‬تاکہ ہمارے‬
‫وہ مسلمان بھائی جو انٹرنیٹ سے منسلک ہیں یا بعد میں منسلک ہونے والے ہیں‪ ،‬وہ ان نقصانات کو‬
‫سمجھیں اور ان سے بچنے کی فکر کریں‪:‬‬
‫پہال نقصان‪ :‬بے حیائی پھیالنا‬
‫انٹرنیٹ کا پہال نقصان یہ ہے کہ وہ بے حیائی وعریانیت پھیالنے ‪ ،‬فسق وفجور کے مناظر پیش کرنے کا‬
‫سب سے بنیادی اور سستا ذریعہ ہے‪ ،‬اس کے ذریعہ اخالقی ودینی تباہی ‪ ،‬نوجوان مرد وخواتین کی بے راہ‬
‫روی وگمراہی‪ ،‬شروفساد کی وادیوں میں ان کی ہالکت اور اسالمی اقدار وپاکیزہ روایات سے ان کی التعلقی‬
‫عام ہوتی جارہی ہے! کتنے والدین ایسے ہیں جو انٹرنیٹ سے منسلک ہونے کے بعد اپنی اوالد کی گمراہی‬
‫کا رونا رورہے ہیں؟! اور کتنی نوجوان لڑکیاں ایسی ہیں جنہیں اس انٹرنیٹ کے توسط سے سبزباغ دکھایا‬
‫گیا اور وہ دھوکہ کھا کر اپنے گھروں سے بھاگ گئیں؟! کچھ عرصے تک دھوکہ بازوں کی مذموم‬
‫خواہشات کا نشانہ بن کر پھر بے یارومددگار چھوڑی گئیں‪ ،‬جس سے دنیا وآخرت دونوں کا نقصان اُنہیں‬
‫اُٹھانا پڑا۔‬

‫دوسرا نقصان‪ :‬وقت کا ضیاع‬


‫تعالی نے قرآن پاک میں وقت کی اہمیت کی‬‫ٰ‬ ‫تعالی کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہے‪ ،‬ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫وقت ہللا‬
‫طرف اشارہ فرماتے ہوئے اس کی اور اس کے مختلف اجزاء کی قسمیں کھائی ہیں! چنانچہ کہیں تو زمانے‬
‫کی قسم کھاتے ہوئے فرماتے ہیں‪َ ’’ :‬و ْال َعصْ ِر‘‘ (زمانے کی قسم) اور کہیں رات اور دن کی قسم کھاتے‬
‫ار إِ َذا تَ َج ٰلّی‘‘ (رات کی قسم! جب وہ چھا جائے اور دن کی قسم!‬
‫ہوئے فرماتے ہیں‪َ ’’ :‬والَّی ِْل إِ َذا یَ ْغ ٰشی َوالنَّہَ ِ‬
‫جب اس کی روشنی پھیل جائے) اور کہیں چاشت کی قسم کھاتے ہوئے فرماتے ہیں‪َ ’’ :‬والضُّ ٰحی‘‘ (چاشت‬
‫تعالی نے مسلمانوں کودین کی بنیادی عبادات جیسے‪ :‬نماز وروزہ اور حج ادا کرنے‬ ‫ٰ‬ ‫کی قسم!)ا سی طرح ہللا‬
‫کا حکم دیتے ہوئے ان کے لیے اوقات بھی متعین کردیئے جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ شریعت کی‬
‫روشنی میں وقت کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ وقت کی اہمیت کو مدِّنظر رکھتے ہوئے اگر انسان اس سے‬
‫استفادہ کرنے اور اس کو فضولیات وعبثیات میں خرچ کرنے سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرے تو بڑے‬
‫مثبت نتائج حاصل کرسکتا ہے‪ ،‬اور اگر ا س کو بے فائدہ اور گھٹیا کاموں میں خرچ کرتا رہا تو وہ ایک‬
‫بڑے قیمتی سرمائے سے محروم ہو جائے گا۔‬
‫انٹرنیٹ کے نقصانات میں سے دوسرا نقصان یہ ہے کہ اس سے منسلک اکثر لوگوں کے قیمتی اوقات ا س‬
‫کے استعمال کی وجہ سے ضائع ہوجاتے ہیں! وہ گھنٹوں تک بے حس وحرکت ہوکر اس کی اسکرین پر‬
‫نظریں جماکربیٹھتے ہیں‪ ،‬اور اکثر غیر ضروری بلکہ نقصان دہ اُمور کا مشاہدہ کرتے ہوئے ایک ہی نشست‬
‫میں اپنے قیمتی اوقات میں سے ایک اچھا خاصا حصہ ضائع کردیتے ہیں اور اُن کو اندازہ تک نہیں ہوتا۔‬
‫تیسرا نقصان‪ :‬صحت پر اس کے منفی اثرات‬
‫ماہرین کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کے زیادہ استعمال سے انسان ذہنی تناؤ اور نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوکر‬
‫ہائی بلڈپریشر‪ ،‬شوگر‪ ،‬جسمانی کاہلی وسستی اور وزن وموٹاپے کی زیادتی اور دیگر قلبی واعصابی‬
‫بیماریوں میں مبتال ہوجاتا ہے‪ ،‬اس لیے کہ جب انسان طویل وقت تک ایسی حالت میں اسکرین کے سامنے‬
‫بیٹھا ہوا ہوتا ہے کہ صرف دماغ کے عالوہ اس کے دیگر اعضاء ساکت ہوں تو سارا دباؤ دماغ ہی پر ہوتا‬
‫ہے‪ ،‬جسے وہ برداشت نہیں کرسکتا اور تناؤ کا شکار ہوجاتاہے‪ ،‬اور باقی اعضاء طویل وقت تک حرکت نہ‬
‫کرنے کی وجہ سے دیگر امراض کے شکار ہوجاتے ہیں!‬
‫میرے ایک مخلص دوست جناب حافظ ڈاکٹر محمد سمیر قریشی صاحب جو ذہنی امراض کے متخصص اور‬
‫ڈاؤیونیورسٹی کراچی (‪ )Dow Univesity Karachi‬کے پروفیسر ہیں‪ ،‬انہوں نے بتایا کہ بعض ماہرین کا‬
‫ت استعمال سے وہ بیماریاں پیدا ہوسکتی ہیں جو منشیات کے استعمال‬ ‫یہ بھی کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کی کثر ِ‬
‫سے پیدا ہوتی ہیں‪ ،‬اس لیے کہ اس کے زیادہ استعمال سے جسم کے اندر وہی مضر کیمیاوی مواد پیدا‬
‫ہوجاتے ہیں جو منشیات کے استعمال سے پیدا ہوتے ہیں اور وہ مواد انسان کو اس کے مزید استعمال کرنے‬
‫پر مجبور کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ مختلف بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے۔‬
‫چوتھا نقصان‪ :‬تعلیمی میدان میں پستی‬
‫احقر جس مسجد میں امامت وخطابت کی ذمہ داری انجام دے رہا ہے‪ ،‬ا س مسجد کے نمازی حضرات اور‬
‫ت استعمال کی وجہ سے‬ ‫دیگر متعلقین میں سے مختلف لوگوں نے بتایا کہ اُن کے بچے انٹر نیٹ کی کثر ِ‬
‫تعلیمی میدان میں کافی پیچھے رہ گئے‪ ،‬پڑھنے اور مطالعہ کرنے سے ان کا تعلق کمزور پڑگیا‪ ،‬اس لیے‬
‫کہ وہ اپنا اچھا خاصا وقت انٹرنیٹ سے منسلک لیپ ٹاپ اور موبائل فون کی اسکرین کے سامنے بیٹھ کر‬
‫خرچ کرتے ہیں اور جب تھک جاتے ہیں تو باقی وقت کھیل کود‪ ،‬کھانے پینے اور سونے میں خرچ کرتے‬
‫ہیں‪ ،‬پڑھنے کے لیے ان کے پاس وقت نہیں بچتا۔‬
‫پانچواں نقصان‪ :‬معلومات چوری کرنے کا ذریعہ‬
‫انٹر نیٹ دوسروں کی معلومات ُچرالینے کا ذریعہ بھی بن گیا ہے‪ ،‬چنانچہ بعض لوگ اس کے ذریعے‬
‫دوسروں کی خفیہ معلومات تک جو اُن کے خصوصی اُمور یا بینک کے حسابات سے متعلق ہوں رسائی‬
‫حاصل کر لیتے ہیں اور پھر کبھی تو ان کے ذاتی معامالت میں دخل اندازی کرتے ہیں اور کبھی بینکوں‬
‫سے اُن کی رقوم ُچرالیتے ہیں! اسی طرح کچھ لوگ انٹرنیٹ کے ذریعے مختلف علماء کی تالیفات ومضامین‬
‫تک آسانی کے ساتھ رسائی حاصل کر لیتے ہیں اور پھر اُن میں کچھ ر ّد وبدل کرکے اپنی طرف منسوب‬
‫کرتے ہیں‪ ،‬تاکہ وہ محنت وجد وجہد کے بغیر مصنّفین کی فہرست میں شامل ہوجائیں۔‬
‫چند دفعہ خود میرے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا کہ کوئی صاحب ایک علمی مس ّودہ لے کر اس دعوے کے ساتھ‬
‫میرے پاس تشریف الئے کہ وہ مس ّودہ اُن کی تصنیف ہے اور وہ مجھ سے اس پر تقریظ لکھوانا چاہتے ہیں!‬
‫مجھے کچھ قرائن سے اندازہ ہوگیا کہ یہ مس ّودہ اُن ہی کی محنتوں کا نتیجہ نہیں‪ ،‬بلکہ انہوں نے اِدھر اُدھر‬
‫سے دوسروں کے مضامین لے کر تیار کرلیا ہے‪ ،‬ل ٰہذا میں نے اپنے اطمینان کے لیے اس کے اوراق کو‬
‫پلٹتے ہوئے اُن سے مختلف مقامات کی کچھ تشریح کرنے کی درخواست کی! لیکن افسوس کہ وہ تشریح نہ‬
‫کرسکے‪ ،‬میں نے کہا کہ‪ :‬بتائیے! میں ایسی کتاب کی تقریظ لکھنے کی جرٔات کیسے کرسکتا ہوں جس کے‬
‫مصنف اس کی تشریح کرنے سے عاجز ہوں؟ وہ الجواب ہوکر خاموشی سے واپس تشریف لے گئے۔‬
‫چھٹا نقصان‪ :‬خاندان کے افراد کے درمیان التعلقی‬
‫انٹرنیٹ کے زیادہ استعمال کی وجہ سے اوالد و والدین‪ ،‬میاں بیوی اور دیگر قریبی رشتہ داروں کے درمیان‬
‫دوریاں پیدا ہورہی ہیں جس سے اُن کے آپس کے حقوق متٔاثر ہوکر ناچاقیاں جنم لے رہی ہیں‪ ،‬اور میاں‬
‫بیوی کے درمیان تلخیاں بڑھتی جارہی ہیں! یہاں تک کہ بعض دفعہ طالق تک نوبت پہنچتی ہے۔ اور اس‬
‫میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ خاندانی جھگڑے‪ ،‬قریبی رشتہ داروں اور میاں بیوی کے درمیان تلخیاں اور‬
‫دوریاں پیدا ہونا بڑی ناکامی اور محرومی کی بات ہے۔‬
‫ساتواں نقصان‪ :‬غلط معلومات کی اشاعت‬
‫انٹرنیٹ کے ذریعے دینی ودنیوی موضوعات سے متعلق بڑے پیمانے پر غلط معلومات کی اشاعت کا کام‬
‫بھی کیا جارہا ہے۔ باطل تحریکات مسلمانوں کے ذہنوں میں شکوک وشبہات پیدا کرنے‪ ،‬ان کے عقائد کو‬
‫بگاڑنے اور اپنے باطل عقائد ونظریات کو پھیالنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اسی طرح خود مسلمانوں میں‬
‫سے بعض کم علم یا باطل افکار کے حامل لوگ تفسیر وحدیث وفقہ اور دیگر دینی علوم سے متعلق ایسی‬
‫غلط معلومات انٹرنیٹ کے ذریعے پھیالتے ہیں جنہیں درست سمجھ کر ایک عام مسلمان دینی موضوعات‬
‫سے متعلق غلطیوں کا شکار ہوجاتا ہے‪ ،‬ل ٰہذا! جب تک کسی مستند ذریعے سے تصدیق نہ کی جائے اس‬
‫وقت تک صرف انٹرنیٹ کی معلومات پراعتماد نہ کیاجائے۔‬
‫انٹرنیٹ کے نقصانات میں سے مذکورہ باال ایسے بنیادی سات نقصانات ہیں جن سے بچنے کے لیے‬
‫ہرمسلمان مرد وخاتون کو ہوشیار رہنا چاہیے۔‬
‫انٹرنیٹ کے نقصانات سے بچنے کا راستہ‬
‫تعالی کی توفیق سے مندرجہ ذیل چند ایسی باتوں کا تذکرہ کرتے ہیں کہ اگر مسلمان مرد وخواتین‬ ‫ٰ‬ ‫اب ہم ہللا‬
‫ان باتوں کو ذہن نشین کرتے ہوئے ان پر عمل کریں گے‪ ،‬تو اُمید ہے کہ انٹرنیٹ کے نقصانات سے بچ‬
‫سکیںگے‪:‬‬
‫پہلی بات‬
‫تعالی نے قرآن پاک میں ہرمسلمان مرد وخاتون کو نگاہ کی حفاظت کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے‪:‬‬ ‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫ْ‬ ‫ِّ‬ ‫ُ‬ ‫ہّٰللا‬ ‫ٰ‬ ‫ْ‬ ‫َٔا‬ ‫ٰ‬ ‫ُ‬ ‫ُ‬ ‫َٔا‬ ‫ْ‬ ‫ِّ‬ ‫ُ‬
‫ک زکی لَہُ ْم إِ َّن َ خَ بِ ْی ٌر بِ َمایَصْ نَعُوْ نَ ‪َ ،‬وقلْ لل ُم ْؤ ِمنَا ِ‬
‫ت‬ ‫ار ِہ ْم َویَحْ فَظوْ ا فرُوْ َجہُ ْم ذلِ َ‬
‫ص ِ‬ ‫’’قلْ لل ُم ْؤ ِمنِ ْینَ یَ ُغضُّ وْ ا ِم ْن ْب َ‬
‫ُ‬ ‫ْ‬
‫ار ِہ َّن َویَحْ فَظنَ فرُوْ َجہُ َّن۔‘‘ (النور‪)۳۱-۳۰:‬‬ ‫ص ِ‬ ‫یَ ْغضُضْ نَ ِم ْن َٔا ْب َ‬
‫ترجمہ‪’’ :‬اے پیغمبر! ایمان والوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت‬
‫کریں‪ ،‬یہ ان کے لیے بڑی پاکیزگی کی بات ہے‪ ،‬بالشبہ جو کچھ یہ کرتے ہیں ہللا اس سے باخبر ہے‪ ،‬اور‬
‫ایمان والی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔‘‘‬
‫اور نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے بدنگاہی کی تباہ کاری کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے‪:‬‬
‫’’النظرۃ سہ ٌم من سہام إبلیس مسمومۃٌ۔‘‘ (رواہ الحاکم فی المستدرک‪ ،‬ج‪،۴:‬ص‪)۳۴۹:‬‬
‫ترجمہ‪’’:‬بدنگاہی شیطان کے زہر آلود تیروں میں سے ایک تیر ہے۔‘‘‬
‫ل ٰہ ذا !ہر مسلمان مرد وخاتون کے لیے ضروری ہے کہ مندرجہ باال نصوص کو مدِّنظر رکھتے ہوئے‬
‫بدنگاہی اور بے حیائی وفساد کے مناظر سے اجتناب کرے‪ ،‬کیا خوب کہا ہے ایک عرب شاعر ابومحمد عبد‬
‫ہللا بن محمد اَندلسی قحطانی نے اپنے قصیدہ نونیہ میں‪:‬‬
‫بریبۃ فی ظلمۃ‬ ‫وإذا خلوتَ ِ‬
‫والنفس داعیۃ إلی الطغیان‬
‫اإللہ وقل لہا‬ ‫فاستحي من نظر ٰ‬
‫إن الذی خلق الظالم یراني‬
‫ترجمہ‪’’:‬جب تمہیں تنہائی میں کسی تہمت والے کام کا موقع ملے اور تمہاری خواہش تمہیں گناہ کی دعوت‬
‫دے رہی ہو تو ایسی حالت میں تم ہللا کی غیبی نگاہ سے شرم کرتے ہوئے اپنی خواہش سے کہو کہ جس‬
‫ذات نے تاریکی پیدا کی ہے‪ ،‬وہ مجھے دیکھ رہی ہے۔‘‘‬
‫دوسری بات‬
‫ُ‬
‫تعالی نے اپنے مسلمان بندوں کو جہاں عبادت کرنے کا حکم دیا ہے‪ ،‬وہاں ان کے رشتہ داروں اور‬ ‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫زیارت کرنے والوں اور خود ا ن کی اپنی ذات کے حقوق کو بجاالنے کا بھی حکم دیا ہے‪ ،‬چنانچہ فرماتے‬ ‫ُ‬
‫ہیں‪:‬‬
‫َت َعلَی ْال ُم ْؤ ِمنِ ْینَ ِکتَابًا َّموْ قُوْ تًا‘‘ (بے شک مؤمنوں پر مقررہ اوقات میں نماز فرض ہے)‪ ،‬اور‬ ‫’’إِ َّن الص َّٰلوۃَ َکان ْ‬
‫ت َذا ْالقُرْ ٰبی َحقَّ ٗہ‘‘ (اور رشتہ دار کو اس کا حق دو)۔‬ ‫فرماتے ہیں‪َ ’’ :‬ؤٰا ِ‬
‫اور نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے حضرت عبد ہللا بن عمرو بن العاص رضی ہللا عنہما سے فرمایا‪:‬‬
‫’’فإن لجسدک علیک حقًا وإن لعینیک علیک حقًا‪ ،‬وإن لزوجک علیک حقًا وإن لزورک علیک حقًا‘‘ (رواہ‬
‫البخاری‪ ،‬ج‪ ،۱:‬ص‪)۲۶۵:‬‬
‫ترجمہ‪’’ :‬تیرے جسم کا تیرے اوپر حق ہے‪ ،‬اور تیری آنکھوں کا تیرے اوپر حق ہے‪ ،‬اور تیری بیوی کا‬
‫تیرے اوپر حق ہے‪ ،‬اور تیرے زائرین کا تیرے اوپر حق ہے۔‘‘‬
‫ل ٰہ ذا ہر مسلمان کے ذمے یہ ضروری ہے کہ ان تمام حقوق کا خیال رکھے اور اپنا نظام االوقات اس طرح‬
‫بنادے کہ حقوق ہللا اور حقوق العبادسب کے سب اپنے اپنے اوقات میں ادا ہوتے رہیں‪ ،‬اور انٹرنیٹ کے بے‬
‫جا استعمال سے اپنا قیمتی وقت ضائع نہ کرے اور نہ ہی اپنی صحت کو برباد کرے‪ ،‬اس لیے کہ صحت‬
‫وفراغت ہللا کی بڑی نعمتوں میں سے ہیں‪ ،‬اگرچہ اکثر لوگ اُن کی قدر نہیں کرتے۔ نبی کریم صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم کی مندرجہ ذیل حدیث مالحظہ ہو‪:‬‬
‫’’عن ابن عباس رضي ہّٰللا عنہما قال‪ :‬قال رسول صلی علیہ وسلم‪ :‬نعمتان مغبون فیہما کثیر من الناس‪:‬‬
‫ہّٰللا‬ ‫ہّٰللا‬
‫الصحۃ والفراغ۔‘‘ (رواہ البخاری‪ ،‬ج‪،۲:‬ص‪)۹۴۹:‬‬
‫ترجمہ‪’’ :‬حضرت ابن عباس رضی ہللا عنہما سے روایت ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا‬
‫کہ‪ :‬ہللا کی نعمتوں میں سے دو نعمتیں ایسی ہیں کہ بہت سے لوگ اُن کی ناقدری کرتے ہوئے دھوکے میں‬
‫پڑے ہوئے ہیں‪ ،‬ان میں سے ایک نعمت صحت وتندرستی اور دوسری نعمت فرصت وفراغت ہے۔‘‘‬
‫تیسری بات‬
‫والدین اور سرپرستوں کے ذمے ضروری ہے کہ اپنی اوالد اور بچوں کو انٹرنیٹ کے نقصانات اور منفی‬
‫گوشوں سے اچھی طرح آگاہ کریں‪ ،‬اور اُنہیں ان نقصانات سے بچنے کی تلقین کریں‪ ،‬اور خلوتوں میں ان‬
‫کی سرگرمیوں کی کڑی نگرانی کریں‪ ،‬ان کو اس طرح آزاد ہرگز نہ چھوڑیں کہ وہ جو چاہیں کریں‪ ،‬تاکہ‬
‫وہ شر وفساد کی خطرناک وادیوں میں ہالکت سے محفوظ رہیں۔‬
‫چوتھی بات‬
‫اگر کسی کا اپنے اوپر یہ اعتماد نہیں کہ وہ انٹرنیٹ کے استعمال کی صورت میں اس کے منفی گوشوں سے‬
‫بچ سکتا ہے تو ایسے شخص کے لیے شریعت کی روشنی میں اس کا استعمال تنہائی میں جائز نہیں‪ ،‬ل ٰہذا وہ‬
‫نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرے اور بوقت ضرورت صرف مثبت اندازمیں اپنے بزرگوں یا نیک‬
‫ساتھیوں کی موجودگی میں اُسے استعمال کرے۔ اپنے اس مضمون کے آخر میں شاعر مشرق عالمہ اقبال‬
‫مرحوم کا ایک شعر ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے‪:‬‬
‫ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت‬
‫احساس مر ّوت کو کچل دیتے ہیں آالت‬
‫ِ‬
‫دشمنان‬
‫ِ‬ ‫تعالی تمام مسلمانوں اور بالخصوص ان کی نئی نسل کو اپنے دین پر استقامت عطا فرماتے ہوئے‬ ‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫اسالم کے پھندوں اور شیطان کے فریبوں سے محفوظ فرمائے۔‬

‫‪baloch‬‬

‫‪NEXT‬رمضان کی برکتیں قرآن پاک سے ماخوذ ہیں »‬

‫‪ «PREVIOUS‬سحری کے احکام‬
Leave a Comment
SHARE


 

 

 

 

 

PUBLISHED BY

baloch
YEARS AGO 2

RELATED POST


‫کالم نگاری بھاری ذمہ داری ہے‬
 


‫فرانس میں اسالم دشمن قانون کی منظوری‬
 

 

You might also like