Professional Documents
Culture Documents
Internet
Internet
انٹرنیٹ موجودہ صدی کی سب سے حیرت انگیزاور مفید ایج اد ہے۔اسے معلوم ات 'کاروب اری ت رقی اور تف ریح کا
ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔جس کے ذریعے زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھ نے والے اف راد فائ دہ اٹھا س کتے ہیں۔
انٹرنیٹ ایسی جدید ٹیکنالوجی ہے جسے کم پیوٹر ک وڈ کے ذریعے دنیا کے کسی بھی ملک سے مطل وبہ معلوم ات
حاصل کی جاسکتی ہیں۔ سائنس کی اس تر قی کے فوائد اور نقص انات بھی بہت ہیں۔ای ران نے مغ ربی ممالک سے
درآمد کی جانے والی وڈیو گیمزپر پابن دی عائد کر دی ہے اور خ ود اپ نی وڈیو گیمز تی ار کرنا ش روع کر دی ہیں۔
اس پابندی کی وجہ یہ بت ائی گ ئی ہے کہ ی ورپی ممالک سے امپ ورٹ کی ج انے والی وی ڈیوگیمز بچ وں میں تش دد
پسندانہ رجحانات پیدا کرتی ہیں 'جس سے مستقبل میں ان بچوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
:-انٹرنیت کے فوائد
پاکستان میں ہزاروں کی تعداد میں انٹرنیٹ نصب ہیں۔جو معلوم اتی 'تج ارتی 'سائنسی اور س فارتی ام ور کے ل ئے
اس تعمال ک ئے ج اتے ہیں اگر یہ ان ٹر نیٹ ت رقی ی افتہ ممالک کی یونیورس ٹیوں سے منس لک کر دئ یے ج ائیں تو
پاکستان میں تعلیمی انقالب آسکتا ہے۔اس سے طلبہ کی علمی قابلیت میں اضافہ ہو س کتا ہے اور ہم ارے ملک کے
طلباء کا تحقیقی کام بھی ترقی کر سکتا ہے۔ہر تحقیق کے لئے انٹر نیشنل رفرنس حاصل کر نا ضروری ہوتے ہیں۔
ہر مضمون کے لئے درآمدی کتب بازار میں دستیاب نہیں لیکن یہ کئی سال پہلے لکھی گئی ہوتی ہیں۔نئے تجرب ات
کے بارے میں ک افی عرصہ بعد ہمیں معل وم ہوتا ہے۔درآم دی کتب ایک تو مہنگی بہت ہ وتی ہیں۔جو ہر ط الب علم
کے لئے خریدنا مشکل ہے۔ اگر کسی کالج یا یونیورسٹی الئبریری میں ایسی کتب آ بھی جائیں تو ان کی تع داد بہت
کم ہوتی ہے۔ایک مضمون پر صر ف ایک ہی کتا ب خریدی جا تی ہے۔وہ اگر ک وئی ط الب علم ج اری کر والے تو
دو ہفتوں کے لئے ایک ہی طالب علم کے پاس رہتی ہے۔
ان ٹر نیش نل رس الو ں میں مختصر معلوم ات پر مض امین ہ وتے ہیں جو ط الب علم کی ض رورت کو پ ورا نہیں کر
سکتے۔اس ط رح پاکس تان کے ب ارے میں مکمل معلوم ات کو ان ٹرنیٹ پر النا ض روری ہے ت اکہ دنیا کے ہر ملک
میں ہم ارے ملک کے ب ارے میں مفید معلوم ات پہنچ ائی جا س کیں۔سائنسی ' ط بی ' زرعی ' انجینئرنگ ' ف نی اور
آرٹس میں انٹر نیٹ سے رابطہ ہماری تعلیم کے حص ول کے ل ئے کہیں ج انے کی ض رورت نہیں رہے گی۔ی ورپ
اور امریکی ممالک میں یہ سہولتیں میسر ہیں۔تعلیم کے میدان میں انٹرنیٹ سے بین االقوامی رابطہ سے تمام یونیو
رسٹیاں دفاتر کی شکل اختیار کر لیں گی۔ہمارا زرمب ادلہ بچ ج ائے گ ا۔یہ ان ٹر نیٹ اگر ہم ارے س رکاری ہس پتالوں
الہور ' کراچی اور اسالم آب اد میں موج ود م اہرین سے
ُ میں نصب کر دئیے جائیں تو بعض امراض کے عالج لئے
رابطہ کرکے وقت بچایا جاسکتا ہے اور ہنگامی صورت میں مریض کی جان بچائی جا سکتی ہے ۔
پاکستان میں ہونے والے کسی آپریشن میں غیر ممالک میں موجود ماہر ڈاک ٹر ان ٹر نیٹ سے رابطہ سے ض روری
ص الح مش ورہ لے س کتے ہیں۔ت رقی ی افتہ ممالک میں م ریض کی کیس ہس ٹری ان ٹرنیٹ کے ذریعہ بتا کر م اہر
ڈاکٹروں کی خدمات سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ان ضروری معامالت میں انٹرنیٹ ہر ملک کو ایک دوس رے سے
قریب کر دے گ ا۔جس سے دنیا میں امن بر ق رار رکھ نے میں آس انی پی دا ہوج ائے گی۔پھر ایک ''انٹرنیش نل ویلج ''
قائم ہوسکتا ہے۔حاالت بتا رہے ہیں کہ یہ رابطہ ایک دن ضرور قا ئم ہوجائے گا۔تعلیم کی روشنی مزید پھیلے گی۔
غریب ط الب علم بھی ام یر تعلیم حاصل کر س کے گے۔پھر ب ات م یرٹ پر آج ائے گی۔س فارش اور تعلیم میں غ یر
قانونی اقدامات خود ہی دم ت وڑ دیں گے۔نفر تیں مٹ جا ئیں گی ' جب ان ٹر نیٹ دنیا کے لوگ وں کو آپس میں مالنے
اور سمجھنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔محبت کا راج ہو گا۔ترقی کے راستے کھولے گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ انٹرنیٹ مختلف معلومات کے لیے ایک ایسا اہم ذریعہ بن چکا ہے ،جس کے
ذریعہ انسان مختصر وقت کے اندر معمولی الگت سے بے شمار دینی ،علمی ،اقتصادی اور سیاسی معلومات
ت حاضرہ سے بھی واقفیت حاصل کرسکتا ہے۔ اسی طرح اس تک رسائی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ حاال ِ
کے توسط سے دینی اور عصری اداروں میں دفتری کاموں کے اندر سہولت اور آپس میں معلومات کے
تبادلے سے متعلق بھی کافی آسانیاں پیدا ہوچکی ہیں ،ل ٰہذا اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ مختلف
دور حاضر میں بےمیدانوں کے اندر انسان کے لیے بے شمار سہولتیں فراہم کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ِ
شمار لوگ جن میں چھوٹے بڑے ،مردوعورت ،مال دار وغریب ،پرہیزگار اور آزاد خیال ہر قسم کے لوگ
شامل ہیں ،کسی نہ کسی حد تک اس سے منسلک اور اس کے ثناخواں نظر آتے ہیں ،اور اپنی مجالس میں
اس کی خوبیاں گننے اور بیان کرنے سے نہیں تھکتے۔
البتہ ایک افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ انٹرنیٹ کی ستائش کرنے والے اور اس پر فریفتہ ہونے والے اکثر
حضرات اس کے نقصانات اور اُس کے منفی گوشوں پر سنجیدگی کے ساتھ غور نہیں کرتے ،جس کی وجہ
سے وہ آہستہ آہستہ مختلف دینی ،جسمانی اور نفسیاتی مشکالت کے شکار ہوجاتے ہیں۔ اسی حقیقت کو
تعالی کی توفیق سے احقر نے اس مضمون کے اندر انٹرنیٹ کے غلط استعمال کے ٰ م ِدنظر رکھتے ہوئے ہللا
نقصانات بیان کرنے اور ان سے بچنے کا طریقہ بتانے کی کوشش کی ہے ،تاکہ اس جدید آلہ سے منسلک
لوگ اس کے نقصانات سے باخبر وہوشیار رہیں۔
میرے اس مضمون سے یہ ہرگز نہ سمجھا جائے کہ میں انٹرنیٹ کے فوائد سے انکار کرتا ہوں ،یا لوگوں
کو اس کے استعمال سے کلی طور پر منع کرتا ہوں ،اس لیے کہ ایک طرف تو اس کے بعض فوائد میں
ت حاضرہ کے اندر موجودہ معاشرے کے افراد بظاہر شک وشبہ کی گنجائش نہیں اور دوسری طرف حاال ِ
اس بات کے لیے ہرگز تیار نہیں ہوں گے کہ اس کے استعمال کو مکمل طور پر ترک کریں ،ل ٰہذا ان کو کلی
طور پر منع کرنا الحاصل ہوگا۔
چند احباب کی طرف سے مجھے انٹرنیٹ استعمال کرنے کی ترغیب اور میرا موقف
چند سال قبل جب انٹرنیٹ کا استعمال خواص وعوام میں پھیلنے لگا اور اس سے منسلک آالت جیسے
سمارٹ فون ،لیپ ٹاپ وغیرہ لوگوں میں مشہور ہونے لگے ،اور اس کا استعمال صرف دنیوی ضروریات
صول فقہ ،ادب و عقائدِ علوم دینیہ جیسے تفسیر وحدیث ،فقہ واُ
ِ اور عصری علوم تک محدود نہیں رہا ،بلکہ
ومدارس اسالمیہ
ِ علوم دینی جو نے احباب چند میرے تو لگے، وغیرہ میں بھی لوگ اس سے استفادہ کرنے
ث نبویہ کے ایک خادم سے تعلق رکھنے والے تھے ،مجھ سے بار بار اصرار کے ساتھ کہا کہ تمہیں احادی ِ
اور دینی علوم کے ایک مدرس اور علمی تحقیقات سے دل چسپی رکھنے والے ایک فرد کی حیثیت سے اس
ث نبویہ کے مراجع آلہ سے استفادہ کرنا چاہیے ،اس لیے کہ اس کے ذریعے مختصر وقت میں تمہیں احادی ِ
تک پہنچنے ،اسانی ِد حدیث کی صحت وضعف معلوم کرنے اور دیگر علمی تحقیقات تک رسائی حاصل
کرنے میں کافی مدد ملے گی اور ساتھ ساتھ یہ اصرار بھی کرتے رہے کہ تم انٹرنیٹ سے منسلک سمارٹ
فون کا سیٹ اپنے استعمال میں رکھو ،تاکہ جس وقت بھی اور جہاں بھی تمہیں کوئی علمی ضرورت پیش
آئے گی ،تم اس سے استفادہ کرسکو گے۔
ان حضرات کی باتیں سن کر میں ہمیشہ یہ جواب دیتا رہا کہ آپ جیسے تجربہ کار حضرات کی اس
وضاحت کے بعد میرے لیے انٹرنیٹ کے بعض فوائد سے انکار کرنے کی تو کوئی گنجائش باقی نہیں رہی!
تاہم مجھے ایک خوف ضرور الحق ہے کہ انٹرنیٹ کے مفید ومضر گہرے سمندر میں اگر میں داخل ہوا تو
کہیں اس کی خطرناک لہروں اور بے رحم مگرمچھوں کا شکار نہ ہوجاؤں ،اور میں چونکہ تیراکی اور
مگرمچھوں کے مقابلہ کرنے میں مہارت کا دعویدار بھی نہیں ،اس لیے مجھے خطرہ ہے کہ اس گہرے
اور خطرناک سمندر میں داخل ہونے کے بعد اس کی لہروں میں غرق ہوکر یا اس کے َمگرْ َمچھوں کا لقمہ
بن کر ساحل تک واپسی کا موقع نہیں پاسکوں گا۔
ایک گراں قدر نصیحت وتربیت کا اثر
تعالی کی توفیق سے احقر نے اپنے زمانٔہ طالب علمی سے لے کر زمانٔہ تدریس تک ہمیشہ اپنے والدین ٰ ہللا
انداز تربیت کو حتی االمکان ِ کے ان اور رکھنے یاد کو نصیحتوں کی عظام مشایخ اور کرام اساتذٔہ اور
اپنانے کی کوشش کی ہے ،اور آج تک اپنی غفلتوں کے باوجود ان کی گراں قدر نصیحتوں اور مخلصانہ
انداز تربیت کے ایسے فوائد وثمرات مجھے نظر آتے ہیں جنہیں دیکھ کر ان کے لیے غائبانہ طور پر دل ِ
کی گہرائیوں سے دعائیں نکلتی ہیں۔ میرے والدین مکرمین اور اساتذٔہ کرام و مشایخ عظام (جن میں
سرہ سابق
سرفہرست میرے مرشد ومکرم استاذ فقیہ االمت حضرت موالنا مفتی محمود حسن گنگوہی قدس ٗ ِ
رئیس داراالفتاء دارالعلوم دیوبند اور میرے محترم اُستاذ حضرت موالنا مفتی سعید احمد پالن پوری دامت
برکاتہم شیخ الحدیث وصدر المدرسین دارالعلوم دیوبند ہیں) کی پر اَثر نصیحتوں میں سے اس مضمون کی
مناسبت سے صرف ایک قیمتی نصیحت کا خالصہ پیش کیا جارہا ہے:
ت جدیدہ کو جو مختلف الجہات یعنی فوائد ونقصانات دونوں پر مشتمل نظر آتے ہوں ،اس وقت ’’ ایسے آال ِ
تک استعمال کرنے کی کوشش نہ کریں ،جب تک ان کے مثبت ومنفی دونوں گوشوں پر غور اور دونوں
کے درمیان موازنہ نہ کریں ،اس لیے کہ انسان جلد باز واقع ہوا ہے ،وہ مثبت گوشوں سے جلد متٔاثر ہوتا
ہے اور منفی گوشوں سے غفلت برتتا ہے ،چنانچہ ذرائع ابالغ واشتہارات کے ذریعہ جب کسی نئی چیز کے
فوائد اس کے علم میں آتے ہیں تو وہ فوراً اس کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے اس کے منفی گوشوں اور
نقصانات پر غور کرنے کی کوشش نہیں کرتا ،جس کے نتیجے میں وہ آہستہ آہستہ اس کے نقصانات کا
شکار ہوجاتا ہے اور اس کو اندازہ بھی نہیں ہوتا ،اور باآلخر بہت بڑا نقصان اُٹھاتا ہے۔‘‘
حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری مدظلُّہم کا میرے موبائل فون کو جانچنا
۱۴۳۳ھ مطابق ۲۰۱۲ء کو افریقی ملک ’’زامبیا‘‘ کے شہر ’’لوساکا‘‘ میں واقع ’’جامعہ اسالمیہ‘‘ کے
منتظمین حضرات (جو جامعہ علوم اسالمیہ عالمہ بنوری ٹاؤن کے فضالء ہیں) کی طرف سے مجھے
دعوت دی گئی کہ ’’جامعہ اسالمیہ‘‘ کا ساالنہ اجالس ما ِہ شعبان ۱۴۳۳ھ کو حضرت موالنا مفتی سعید
احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتہم العالیہ شیخ الحدیث وصدر المدرسین دارالعلوم دیوبند کی صدارت میں
منعقد ہونے واال ہے ،آپ کو بھی اس اجالس میں شرکت کی دعوت دی جارہی ہے۔ احقر نے اس موقع کو
غنیمت وسعادت سمجھ کر دعوت قبول کرلی ،اس لیے کہ اس بہانے تقریبا ً گیارہ سال بعد حضرت االستاذ
مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری مدظلہم العالی سے مالقات اور ان سے استفادہ کرنے کا موقع ملنے واال
تھا ،چنانچہ شعبان کے شروع میں احقر ’’زامبیا‘‘ پہنچ گیا۔
’’زامبیا‘‘ پہنچنے کے بعد تقریبا ً دس روز تک مسلسل حضرت کی خدمت میں رہنے اور ان کے علمی
وتربیتی بیانات اور مشفقانہ ہدایات سے استفادے کا موقع ملتا رہا ،اس دوران یہ واقعہ پیش آیا کہ ایک دفعہ
میزبان حضرات کی گاڑی میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنے کے لیے حضرت االستاذ روانہ ہونے
ب معمول میرے لیے بھی اُسی گاڑی میں بیٹھنے کا انتظام کرلیا ،حضرت والے تھے ،میزبانوں نے حس ِ
االستاذ سامنے والی سیٹ پر ڈرائیور کے بغل میں تشریف فرما ہوئے اور میں ان کے پیچھے والی سیٹ پر
بیٹھ گیا اور گاڑی روانہ ہوگئی۔
زیراستعمال سادے موبائل فون کی گھنٹی بجنے لگی ،میں نے تھوڑی دیر کے بعد گاڑی ہی کے اندر میرے ِ
فون وصول کرکے فون کرنے والے سے مختصر بات کی اور فون بند کردیا ،حضرت االستاذ نے فون کی
گھنٹی کی آواز اور میری گفتگو دونوں سن لیں ،میری گفتگو ختم ہونے کے بعد اپنے پیچھے سے میری
طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے فرمایا’’ :ذرا اپنا موبائل فون مجھے دکھادو‘‘ میں نے فوراً اپنا موبائل ان کی
خدمت میں پیش کیا اور سمجھ گیا کہ حضرت االستاذ اس موبائل فون کی نوعیت کو دیکھ کر یہ جانچنا
چاہتے ہیں کہ کیا ان کے اس حقیر شاگرد نے اُن سے جدائی کے بعد اُن کی نصیحتوں کو خداناخواستہ
ت جدیدہ کو ان کے انجام پر غور کیے بغیر استعمال کرنا شروع کردیا ہے؟ یا آج فراموش کرکے پرکشش آال ِ
تک ہللا کی توفیق سے بیدارمغزی کے ساتھ سادگی کو ترجیح دیتے ہوئے اپنے محسنین کی نصیحتوں کو یاد
کیے رکھا ہے؟
بہرصورت! حضرت االستاذ نے جب میرے سیدھے سادے موبائل فون کا معائنہ فرماتے ہوئے اپنے ہاتھوں
میں اُسے اُلٹ پلٹ کر دیکھا اور ان کو اطمینان ہوا کہ ایک بالکل سیدھا سادا اور انٹرنیٹ سے غیرمنسلک
سستا سا موبائل فون ہے ،تو زباں سے کچھ کہے بغیر مجھے واپس کردیا ،البتہ ان کے چہرے پر اطمینان
کی عالمت بکھری ہوئی نظر آرہی تھی ،جس سے میں نے اندازہ لگایا کہ وہ مطمئن ہوگئے۔ حضرت االستاذ
تعالی کا شکر ادا کیا کہ ٰ کے اطمینان کو دیکھ کر دل دل میں میری خوشی کی کوئی انتہا نہیں رہی ،اور ہللا
اس نے اپنے اُستا ِذ محترم کی قیمتی نصیحت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرماتے ہوئے مجھے شرمندگی
سے بچایا۔
انٹرنیٹ کے استعمال سے پہلے اس کے نقصانات کا پتہ لگانا
الغرض! اپنے بڑوں کی تربیت کی برکت سے میں نے دوستوں کے اصرار کے باوجود اپنے آپ کو
انٹرنیٹ اور اس سے منسلک موبائل فون کے استعمال سے دور رکھا اور اپنی علمی ضرورتوں اور تحقیقی
کاموں کے لیے تسلسل کے ساتھ پرانے طریقوں سے کام لیتا رہا ،اور اس مضمون کو قلمبند کرنے کی
تاریخ (۱۴۴۰-۰۴-۱۴ھ مطابق ۲۰۱۸-۱۲-۲۲ء) تک اپنے پاس ایک معمولی اور سادہ موبائل فون رکھنے
پر اکتفا کرتا رہا ،البتہ انٹرنیٹ کے مشہور ومعروف فوائد کے ساتھ ساتھ اس کے نقصانات سے واقف ہونے
کی کوششوں میں بھی لگارہا ،چنانچہ باخبر اور تجربہ کار وبااعتماد ساتھیوں اور دوستوں سے اس کے
نقصانات اور مضر اثرات سے متعلق معلومات حاصل کرتا رہا ،اسی طرح خود بھی انٹرنیٹ سے منسلک
ایسے افراد کے احوال وعادات پر گہرائی کے ساتھ غور کرتارہا جو میرے جاننے والے اور وقتا ً فوقتا ً
مالقات کرنے والے تھے ،تاکہ مجھے یہ اندازہ ہوجائے کہ ان کی عادتوں اور خصلتوں میں انٹرنیٹ کے
استعمال کے بعد بہتری نظر آرہی ہے یا خدانخواستہ کچھ کمزوری؟ یا پھر ان کی عادات اپنی سابقہ حالت پر
برقرار رہتی ہیں؟ تاکہ مذکورہ حاالت جاننے کے بعد مجھے انٹرنیٹ کے استعمال سے متعلق فیصلہ کرنے
میں آسانی رہے۔
انٹرنیٹ کے فوائد ونقصانات معلوم کرنے اور ان پر غور کرنے کے دوران اگرچہ میں اس کے مثبت
گوشوں سے استفادہ تو نہ کرسکا ،جب کہ میرے بعض دوست واحباب نے ان گوشوں سے اچھا خاصا
تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے اپنی توفیق سے اس کے نقصانات ٰ استفادہ کیا ،تاہم میں اس بات پر ہللا
ومفاسد سے بچاتے ہوئے ان کو میرے سامنے واضح کردیا ،تاکہ ان کا سامنا کرنے سے پہلے ان سے
بچنے کی فکرکروں ،اور اپنی اوالد ومتعلقین کو بھی ان نقصانات سے آگاہ کرنے کی کوشش کروں۔
انٹرنیٹ کے فوائد تو زبان ز ِد خاص وعام ہوچکے ہیں ،اس لیے انہیں تفصیل کے ساتھ بیان کرنے کی
ضرورت نہیں ،اجمالی طور پر مضمون کے شروع میں ان کا ذکر آبھی چکا ہے ،البتہ اس کے نقصانات
میں سے چند بنیادی نقصانات کا تذکرہ اور ان سے بچنے کا طریقہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں ،تاکہ ہمارے
وہ مسلمان بھائی جو انٹرنیٹ سے منسلک ہیں یا بعد میں منسلک ہونے والے ہیں ،وہ ان نقصانات کو
سمجھیں اور ان سے بچنے کی فکر کریں:
پہال نقصان :بے حیائی پھیالنا
انٹرنیٹ کا پہال نقصان یہ ہے کہ وہ بے حیائی وعریانیت پھیالنے ،فسق وفجور کے مناظر پیش کرنے کا
سب سے بنیادی اور سستا ذریعہ ہے ،اس کے ذریعہ اخالقی ودینی تباہی ،نوجوان مرد وخواتین کی بے راہ
روی وگمراہی ،شروفساد کی وادیوں میں ان کی ہالکت اور اسالمی اقدار وپاکیزہ روایات سے ان کی التعلقی
عام ہوتی جارہی ہے! کتنے والدین ایسے ہیں جو انٹرنیٹ سے منسلک ہونے کے بعد اپنی اوالد کی گمراہی
کا رونا رورہے ہیں؟! اور کتنی نوجوان لڑکیاں ایسی ہیں جنہیں اس انٹرنیٹ کے توسط سے سبزباغ دکھایا
گیا اور وہ دھوکہ کھا کر اپنے گھروں سے بھاگ گئیں؟! کچھ عرصے تک دھوکہ بازوں کی مذموم
خواہشات کا نشانہ بن کر پھر بے یارومددگار چھوڑی گئیں ،جس سے دنیا وآخرت دونوں کا نقصان اُنہیں
اُٹھانا پڑا۔
baloch
«PREVIOUSسحری کے احکام
Leave a Comment
SHARE
PUBLISHED BY
baloch
YEARS AGO 2
RELATED POST
کالم نگاری بھاری ذمہ داری ہے
فرانس میں اسالم دشمن قانون کی منظوری