Professional Documents
Culture Documents
سیاست کا ایک حسن یہ بھی ہے کہ سیاستدان برجستہ اپنے مخالف کیلئے ایسے جملے بول دیتے ہیں کہ مہینوں جنکا چرچہ رہتا ہے
سیاست کا ایک حسن یہ بھی ہے کہ سیاستدان برجستہ اپنے مخالف کیلئے ایسے جملے بول دیتے ہیں کہ مہینوں جنکا چرچہ رہتا ہے
سیاست کا ایک حسن یہ بھی ہے کہ سیاستدان برجستہ اپنے مخالف کیلئے ایسے
جملے بول دیتے ہیں کہ جنکا مہینوں چرچہ رہتا ہے۔ بعض اوقات تو کسی اہم
مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے بھی ایسے جملے ادا کرجاتے ہیں کہ بات پھر
کہاں سے کہاں نکل جاتی ہے۔ کئی معنی جنم لیتے ہیں۔ پانچ سالہ دور کا جائرہ
لیا جائے تو کچھ ایسے ہی جملوں اور بیانات نے مین سٹریم میڈیا کیساتھ ساتھ
سوشل میڈیا پر کافی رونق لگائے رکھی۔ صارفین نے بھی میمز بنائیں۔ آئیے ان
پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔۔۔
ویں قومی اسمبلی کی تشکیل ہوئی اور ایوان میں اظہار خیال کیلئے بالول 15
بھٹو نے اظہارخیال کیا۔ سابق وزیراعظم عمران خان کیلئے انکا استعمال کیا گیا
لفظ " سلیکٹڈ پی ایم " اتنا مشہور ہوا کہ آج تک استعمال ہوتا ہے۔
مگر " کانپیں ٹانگ رہیں " یا پھر جب زیادہ بارش ہوتی ہے تو زیادہ پانی آتا ہے
بالول کے ان دلچسپ جملوں پر نہ صرف میمز بنی بلکہ ریپ بھی بنائے گئے۔
اب بات ہوجائے سابق وزیراعظم اور چئیرمین تحریک انصاف کی تو انکا
کونسا جملہ ہے جس نے داد نہ سمیٹی ہوں
گھبرانا نہیں ،کیا انڈیا پر حملہ کردو ،مودی میرا فون نہیں سنتا ،وسیم اکرم پلس
،نیوٹرل جانور ہوتا ہے،ایمپورٹڈ حکومت ،میرجعفر می صادق ،نواز شریف
تمھیں دیکھ لونگا۔ آصف زرداری میری بندوق کی نوق پرہے۔ ایبسلوٹلی ناٹ،
مرشد بشری بی بی ،باجوہ سپرکنگ ،لگ جائے مارشل الء ،انڈے،مرغیاں
" کٹے،مریم میری بہترین کھالڑی۔ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔
شہباز شریف کے بیان نے بھی خوب سوشل میڈیا پر رونق لگائے رکھی" میں
مانگنے نہیں آیا " جبکہ جاتے جاتے فرما گئے " تیس سال سے اسٹیبلشمنٹ کا
تارا ہوں " اس پر تو سوشل میڈیا پر خوب ٹرینڈ چال۔
جملہ بازی اور تپے تلے انداز میں تنقید کرنے میں موالنا فضل الرحمن کا کوئی
ثانی نہیں۔ جنرل باجوہ کا نام لئے بغیر " نکے کے ابا " سے شروع ہوئے۔ پھر
یوٹرن ،زمین گرم کر دینگے ،موالنا کا ہتھوڑا ،حکیم رانا ثناء ہللا وغیرہ ۔ موالنا
فضل الرحمن نے حس مزاح کا ثبوت ہیں۔
شیخ رشید نے بالول کیلئے " بلو رانی " استعمال کیا تاہم جہاں انکو تنقید کا
سامنا کرنا پڑا وہی سوشل میڈیا پر میمز نے رونق لگائے رکھی۔ شیخ رشید نے
یہ لفظ اتنا دہرایا کہ بالول غصے میں آگئے اور ایک پریس کانفرنس میں بالول
نے انکو ٰ
پنڈ کا شیطان کر پکارا۔۔۔
مریم نواز نے گڑھی خدا بخش میں تقریر میں عمران خان کی جو نقل اتاری
اس کو کوئی بھال کیسے کیسے بھول سکتا ہے" ہاہاہاہاہا لڑائی ہوگئی ہے " پھر
جیل کو یاد کرکے " فری پین سے کپڑے استری کرنا " فارن فنڈنگ فتنہ ،باپ
کا باپ،لکیر کھینچ گئی
شہریار افریدی کے دو جملے آج بھی بطور ریفرنس استعمال ہوتے ہیں۔ جان ہللا
کو دینی ہے ،آرمی چیف قوم کا باپ ہوتا ہے۔
جملہ بازی میں فواد چوہدری بھی کسی سے پیچھے نہیں۔تاہم انکا بیان
ہیلی کاپٹر کا فی کلومیٹر خرچ 55روپے 74پیسے ہے اتنا چال کہ میمز کا
سلسلہ تھا کہ رکنے کا نام نہ لیا۔
زرتاج گل کا بیان عمران خان کی برکت ہے کہ زیادہ بارشیں ہو رہیں نے بھی
خود تنقید سمیٹی
ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے بھی خوب رونق لگائے رکھی۔
کرونا نیچے سے بھی آسکتا ،مہارانی ،کنیزیں جسے القابات مشہور ہوئے۔
عمران خان کے وسیم اکرم پلس عثمان بزدار کی سادگی تو کیا ہی بات ہے "
کرونا کاٹتا کیسے ہے ؟ انتا مشہور ہوا کہ خود بھی سائیں کو اندازہ نہ تھا
جنوبی پنجاب Yکے ایک دورے کے دوران جب سابق صوبائی وزیر سمیع ہللا
چوہدری نے انکا تعارف کروایا کہ " شہباز شریف لگے ہوئے ہیں " یہ ویڈیو
کلپ خوب چال۔
اسکے عالوہ شہباز گل کا رندھا ،جٹ دا پتر ۔۔۔ دادی آلو پاک پکا رہی تھی اب
تک یاد ہے۔
تحریک انصاف پر جب بھی برا وقت آتا ہے تو مرحوم مشاہد ہللا خان کی سینیٹ
میں تقریر کے اکثر جملے سوشل میڈیا پر وائرل ہونا شروع ہوجاتے ہیں "
تمھارے آنسو ابھی سے دیکھ رہا ہوں ،آنسو پونچھنے واال کوئی نہیں ہوگا۔ پھر
ڈبو اور چوزے جیسے القابات ۔۔۔
سابق چئیرمین نیب کے حوالے سے " سر سے لیکر پاوں تک " اور ہواوں کا
رخ بدل رہا ہے خوب رونق لگائے رکھی۔
خواجہ آصف نے بھی اسمبلی میں رونق لگائے رکھی اور انکے بھی بہت
" فقرے مشہور ہوئے جیسے " ٹریکٹر ٹرالی
آصف زرداری کا قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے یہ بیان " بہت نیب
دیکھی،جب تم دیکھوں گے تو کیا بنے گا؟
امیر جماعت اسمبلی سراج الحق کا بیان کہ پی ٹی آئی،ن لیگ اور پیپلزپارٹی
ایک گملے کے تین پھول کافی موضوع بنا رہا
اک بیان یا جملے کا زکر نہ کیا جائے تو زیادتی ہوگی اور وہ تھی سابق ڈی جی
آئی ایس پی آر اصف غفور کا۔ پلوامہ حملے اور بھارت کی جانب سے گھس کر
" مارنے کی دھمکی کے ردعمل میں۔
علی زیدی نے بھی چئیرمین تحریک انصاف کی تعریف میں اک جملہ بوال تھا
کہ " خان آیا تھا " جس پر ٹویٹر ٹرینڈ بنا۔
پانچ سال میں عالمتی باتیں اتنی مشہور ہوئیں کہ سیاست میں نئی جہتیں متعارف
کروا گئیں۔
مثال۔ ہم خیال بینچ،ساسو ماں کا کرش ،اسکو ٹھوکو ،جناح ہاوس وغیرہ۔۔ ڈسکہ
ضمنی انتخاب کے دوران دھند ٹرینڈ کو کون بھول سکتا ہے۔
ایسا نہیں کہ صرف سیاستدانوں کے جملے اور بیان ہی موضوع بحث رہے اور
سوشل میڈیا پر رونق کی وجہ بنے۔ منصورہ الہور میں جب آصف زرداری
سراج الحق سے مالقات کیلئے آئے تحریک عدم اعتماد کے سلسلہ میں۔ تو
آصف علی زرداری کے سابق ترجمان" میاں شمس " نے تو ایسا نعرہ متعارف
کرایا کہ سیاست کا رخ بدل گیا پہلے زرداری صاحب کے بارے میں مشہور تھا
کہ اک زرداری سب پہ بھاری " لیکن انھوں نے یہ نعرہ لگایا" اک زرداری سب
'سے یاری