Professional Documents
Culture Documents
Yahoodi Plan
Yahoodi Plan
جو چوری کرتے ہیں اور پھر یہ چوری والی رقم انہی مغربی بینکوں میں رکھتے ہیں جو ہمیں قرض دیتے\ ہیں۔
کیا آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر عالمی سطح پر یہ مٔوقف اختیار کر سکتی ہے کہ جن غریب ممالک پر قرض بہت زیادہ ہو چکا ہے اور
وہ اس کی ادائیگی نہیں کر سکتے ،ان ممالک کے ایسے حکمرانوں نے جو دولت امیر ممالک کے بینکوں میں جمع کروا رکھی اسے قرض کی
ادائیگی کے طور پر ضبط کر لیا جائے۔ ایسا کون کرے گا؟ کوئی نہیں! کیونکہ ہماری لوٹی ہوئی دولت سے ہی تو واپس ہمیں قرض دیا جاتا
ہے اور پھر ہمیں سے سود سمیت وصول کیا جاتا ہے۔
…………………..
بلوچستان میں اس وقت سات "نواب" کئی سو "سردار" اور ہزاروں"ٹکری"" ،ملک" اور "وڈیرے" بلوچ قبائلی نظام کو ستونوں کی طرح قائم
رکھے ہوئے ہیں۔ ان میں سے کچھ سیاسی لحاظ سے قوم پرست بھی ہیں اور کچھ اسٹیبلشمنٹ پرست۔ نواب خیر بخش مری اور سردار عطاء ہللا
مینگل بلوچوں کی قوم پرستانہ سیاست کے سرخیل سمجھے جاتے تھے۔
ان دونوں کے ہمرکاب نواب اکبر بگٹی بھی ہوا کرتے تھے مگر 1974ء میں عطاء ہللا مینگل کی حکومت کے برطرف ہونے کے فوراً بعد جب
فوجی ایکشن کی سرپرستی کے لئے وہ گورنر بلوچستان بن گئے تو پورا ملک چاہے انہیں کسی بھی مقام و مرتبہ پر فائز کرے ،بلوچ قوم
پرست سیاسی حلقوں نے ان پر کبھی اعتبار نہیں\ کیا۔
بلوچستان میں آباد پشتونوں کے حصے میں بھی ایک نواب آتا ہے ،جسے نواب جوگیزئی کہتے\ ہیں ،لیکن جس طرح پشتون معاشرہ اپنے قدیم
قبائلی جال کو بہت حد تک توڑنے میں کامیاب ہو چکا ہے ،اس لئے اب پشتونوں میں نواب بس نام کا ہے ،وہاں قوم پرست باقی رہ گئے ہیں یا
ماّل اور طالب۔
المیہ یہ ہے کہ یہ سب سردار ،نواب ،ٹکری ،ملک اور خان اپنی سیاست و حکومت کے حوالے سے جو بھی کریں ،ایک کے ساتھ اپنی وفاداری
توڑیں اور دوسرے کے ساتھ قائم کریں ،بلوچ قوم کے استحصال کا نعرہ بلند کر کے مراعات لیں ،یا پھر اسی نعرے کی وجہ سے جیل کی
صعوبتیں\ اُٹھائیں ،جمہوریت ،انسانی حقوق ،برابری ،کیمونزم ،انقالب وغیرہ جیسے عالمی تصورات کا پرچار کریں ،لیکن جیسے ہی معاملہ
قبائلی نظام اور اس میں نواب اور سردار کی حیثیت ،مرتبے\ اور کنٹرول کا آ جائے گا یہ اپنے تمام اُصول اور سیاسی مقام و مرتبہ کو باالئے
طاق رکھ کر اس محدود اور مخصوص قبائلی نظام کا بھر پور دفاع کریں گے۔
یہی وجہ ہے کہ کچھ عرصہ پہلے کھیتران قبیلے کے سردار اور صوبائی وزیر عبدالرحمن کھیتران پر یہ الزام لگا کہ اس نے اپنے نجی
عقوبت خانے میں ایک خاندان کی عورتوں اور بچوں کو رکھا ہوا ہے اور ان پر بدترین تشدد کرنے کے عالوہ خواتین سے جنسی زیادتی بھی
کی جاتی ہے۔ یہ خاندان کوہلو کے رہائشی خان محمد مری کا تھا جو اسی سردار کھیتران کے ساتھ کام کرتا تھا۔
ایک قبائلی جھگڑے کی وجہ سے سردار عبدالرحمن کے گھر چھاپہ پڑا اور سردار کے ساتھ خان محمد مری کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ سردار
نے اس پر اپنا جرم بھی تھوپ دیا اور اس کو اپنے مخالف بیٹے کے خالف گواہی دینے\ پر مجبور کیا۔ لیکن اس گواہی سے انکار کی وجہ سے
خان محمد مری کے چھ بچوں ،ایک بچی اور ایک بیوی کو اُٹھا لیا گیا اور اسے نجی جیل میں رکھا گیا۔
یہ 2019ء کا واقعہ ہے۔ یہ آٹھ افراد چار سال سے بلوچ قبائلی نظام کے "الپتہ افراد" تھے جن کی اس چار سال کے عرصے میں نہ تو کوئی
شنوائی ہو سکی اور نہ ہی یہ خبر منظر عام پر آئی۔ ان کا نام الپتہ افراد کی کسی لسٹ میں بھی شامل نہ کیا گیا اور نہ ہی ان کی رہائی کے لئے
کوئی تحریک چلی۔ کچھ عرصہ پہلے خان محمد مری کی بیوی "گران نواز" نے موبائل سے ایک ویڈیو بنائی جس میں وہ قرآن ہاتھ میں لے کر
فریاد کر رہی تھی کہ اسے اور اس کے بچوں کو سردار عبدالرحمن کھیتران کی جیل سے نکاال جائے۔
یہ ویڈیو ابھی ملک میں پھیلی بھی نہیں تھی کہ عبدالرحمن کھیتران کے گھر کے قریب ایک کنویں سے تین الشیں برآمد ہوئیں جن میں سے
ایک اسی خاتون کی الش تھی جس نے قرآن ہاتھ میں پکڑ کر پوری قوم سے فریاد کی تھی۔ اس واقعے نے پوری قوم کو دہال کر رکھ دیا ہے
لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ابھی تک بلوچستان کے کسی قوم پرست سردار ،نواب یا اسٹیبلشمنٹ کے حامی سردار اور نواب میں سے کسی
فرد کا مذمتی بیان سامنے نہیں آیا۔ سیاسی الپتہ افراد کا تو سب کو علم ہوتا ہے کہ وہ کن کے پاس ہیں لوگ ان اداروں کا نام بھی لیتے ہیں مگر
ان "قبائلی الپتہ افراد" کا بھی سب کو پتہ ہے کہ وہ کس سردار کے پاس ہیں مگر کوئی زبان نہیں کھولتا۔ اس لئے کہ بلوچ معاشرے میں یہ
سردار اور نواب ،ملک اور ٹکری سب کے سب ایسے ہی جرائم میں خود ملوث ہیں۔صدیوں سے ان سرداروں کو قبائلی روایات نے نجی جیلیں
بنانے ،لوگوں کو حراست میں رکھ کر تشدد کرنے اور پھر الپتہ کر دینے کے المحدود اختیارات حاصل رہے ہیں اور آج بھی وہ ان اختیارات
کا بے محابہ استعمال کر رہے ہیں۔ یوں تو بلوچ معاشرے میں نواب اور سردار خاصے جمہوری ہوتے ہیں اور جرگے کی عمومی کارروائی
نظام انصاف کے مطابق خاصی بہتر ہوتی ہے لیکن جو آمرانہ اختیارات بلوچ معاشرے میں کلّی طور پر سردار کو حاصل ہیں وہ ِ قبائلی
خوفناک اور ظالمانہ ہیں۔ وہ اپنی دستار بچانے اور ذاتی دشمنی نبھانے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے اور اسے کوئی روکنے ٹوکنے
واال نہیں ہوتا۔ سردار کا ظالمانہ اختیار نچلی سطح پر ملک اور ٹکری وغیرہ بھی اپنی بساط کے مطابق بھر پور استعمال کرتے ہیں اور ان کے
ظالمانہ فیصلوں کے خالف بھی کوئی چوں چرا نہیں کرتا۔ جو جتنا کمزور ہوگا ،اتنا ہی زیادہ مظلوم ہوگا.
ت قالت کے دونوں
ت قالت ،بلکہ پوری بلوچ سیاست کا مرکز و محور رہا ہے۔ ریاس ِ مستونگ وہ ضلع ہے جو ہمیشہ سے نہ صرف ریاس ِ
مرکزی حصے ،ساراوان اور جھاالوان ،میں براہوی قبائل کی اکثریت آباد ہے۔ براہوی قوم نسلی اعتبار سے بھی اور اپنی زبان کے حوالے سے
بھی برصغیر کی قدیم ترین دراوڑ اقوام میں سے سمجھی جاتی ہے۔
دراوڑ اقوام وہ ہیں جو اس خطے میں آریائوں اور دیگر قوموں کی آمد سے پہلے یہاں آباد تھیں اور جنہیں فاتحین نے ہندوستان کے جنوبی
خطوں کی جانب دھکیل دیا گیا تھا۔ براہوی خوش قسمت تھے کہ بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ بلوچوں کے ساتھ رہتے رہتے براہوی بھی اب
بلوچ کلچر کا مکمل حصہ بن چکے ہیں اور ان کے ہاں بھی بلوچوں والی ساری خوبیاں اور خرابیاں پائی جاتی ہیں۔ مستونگ وہ ضلع ہے جو
دو نواب ،شاھوانی اور رئیسانی اور کئی سردار جن میں بنگلزئی ،محمد شہیُ ،کرد اور ساتکزئی وغیرہ کا مسکن ہے۔
…………..
علم سیاسیات افالطون ( )Platoنے اپنی کتاب "الجمہوریہ " ( )The Republicمیں لکھا تھا
آج سے ڈھائی ہزار سال پہلے مشہور فلسفی و ماہر ِ
کہ "تباہ ہوگئیں وہ قومیں جن کے سربراہ کاروباری افراد تھے یا جرنیل ہوئے"۔ حیرت ہے کہ پاکستان کی تباہی کے لئے ہمیں دہرا سامان میسر
ہوا ،ہم پر کاروباری حضرات بھی مسلّط رہے اور جرنیل بھی۔
………….
Panjaaa e yahood
ایک ہفتہ پہلے اخبارات میں چھپنے والی ایک خبر اور تصویر نے مجھے پریشان کر رکھا ہے۔ بائیس کروڑ عوام کے لئے یہ ایک معمول کی
ت خزانہ کے
ت پاکستان کی وزار ِ
خبر ہو سکتی ہے ،لیکن وہ جو جانتے ہیں ان کو خوف کے بادل صاف نظر آ رہے ہیں۔ یہ تصویر حکوم ِ
میٹنگ روم کی ہے۔
خوبصورت لکڑی کی دیواروں میں کتابوں کی الماریوں کے درمیان رکھی ایک بڑی سی میز کی صدارتی کرسی پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار
اعلی افسران موجود ہیں،
ٰ ت خزانہ کےبیٹھے ہیں اور ان کے ساتھ ایک جانب وزیر مملکت برائے خزانہ و ریونیو ڈاکٹر عائشہ غوث اور وزار ِ
جبکہ میز کی دوسری جانب صہیونیت کے سرپرست یہودی خاندان روتھ شیلڈ ( )Rothschildکے نمائندے ایرک اللو ( )Eric Laloاور تھیبوڈ
فورکیڈ ( )Thibaud Fourcadeاپنی ٹیم کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ خبر کی تفصیالت اس تصویر سے زیادہ حیران کن ہیں۔
روتھ شیلڈ کمپنی نے میٹنگ میں سب سے پہلے وزیر خزانہ کو اپنی کمپنی کی تاریخ اور دنیا کے دیگر ممالک میں اس خاندان کی معاشی
خدمات کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی۔ اس کے بعد روتھ شیلڈ خاندان نے پاکستان کی موجودہ حکومت کی ان معاشی پالیسیوں کو سراہا جو
اس پاکستان کی معاشی بہتری اور استحکام کے لئے ہیں اور کہا کہ وہ ان پالیسیوں کے نتیجے میں آنے والی معاشی ترقی پر اعتماد رکھتے
ہیں۔ مذاکرات کے دوران پاکستان کی معاشی مشکالت کا بھی جائزہ لیا گیا ،اور ایک طویل مدتی منصوبے ( )Roadmapپر گفتگو ہوئی ،جس
کے تحت پاکستان کو معاشی بدحالی سے نکال کر اسے طویل مدتی ترقیاتی منصوبوں پر گامزن کیا جا سکے۔
روتھ شیلڈ گروپ نے کہا کہ ہمیں پاکستان کی معیشت کے مثبت پہلوئوں کو دنیا کے سامنے اُجاگر کرنا چاہئے۔ روتھ شیلڈ خاندان کون ہے اور
اہل علم اور دانشور ہوں
اس خاندان کی تاریخ کیا ہے ،اس سے پاکستان کے بائیس کروڑ عوام مکمل اندھیرے میں ہیں۔ بہت کم ایسے پاکستانی ِ
گے جو اس یہودی خاندان سے مکمل واقفیت رکھتے ہوں اور عالمی سیاست میں یہودی غلبے اور دنیا کی معیشت کو یہودی کنٹرول میں النے
کے لئے اس خاندان کی شاطرانہ چالوں سے آگاہ ہوں۔
جس ڈیکلریشن نے گذشتہ ایک صدی میں انسانی تاریخ پر خوفناک اثرات مرتب کئے ہیں اور جس کی وجہ سے مسلمان اُمت گذشتہ پچھتر سال
سے آگ اور خون میں نہا رہی ہے وہ بالفور ( )Balfourڈیکلریشن ہے۔ یہ ڈیکلریشن 2نومبر 1917ء کو برطانوی وزیر خارجہ آرتھر بالفور
نے ایک خط کی صورت میں روتھ شیلڈ خاندان کے سربراہ لیونل والٹر روتھ شیلڈ ( )Lionel Walter Rothschildکو ہی لکھا تھا۔
اس خط میں یہ تحریر کیا گیا تھا کہ برطانوی حکومت اپنی تمام ہمدردیاں\ یہودی صیہونی کمیونٹی کی خواہشات ( )Aspirationsکے ساتھ
رکھتی ہے اور وہ اپنی تمام قوتیں اس مقصد کے حصول کے لئے لگائے گی کہ کیسے فلسطین کے عالقے میں یہودیوں کے لئے ایک وطن (
)Homelandتخلیق کیا جائے۔ یہ خط یوں تو 1917ء میں لکھا گیا ،لیکن اس کے مندرجات پر کام تقریبا ً 13سال پہلے یعنی 1904ء میں ہی
شروع ہوگیا تھا۔
روتھ شیلڈ خاندان نے صیہونیت کے ترجمان چائم ویز مین ( )Chaim Weizmannکو برطانیہ بالیا اور اسے مانچسٹر میں بہت بڑی جائیداد
ت برطانیہ سے اس معاملے میں عطا کر دی۔ اس شخص کو برطانوی حکومت کو شیشے میں اُتارنے کے لئے بالیا گیا تھا اور اس نے حکوم ِ
بہترین پیش رفت کی جس کے تحت ایک خفیہ معاہدہ طے پایا گیا کہ تمام دنیا کے یہودی سرمایہ دار پہلی جنگِ عظیم میں نہ صرف برطانیہ کو
وسیع سرمایہ فراہم کریں گے بلکہ امریکہ میں موجود یہودی البی امریکی حکومت کو اس جنگ میں شامل ہونے کے لئے قائل بھی کرے گی۔
برطانیہ کا وزیر اعظم ڈیوڈ الئیڈ جارج ( )David Lloyd Georgeاور وزیر خارجہ بالفور دونوں عیسائی صیہونیت کے قائل تھے۔ عیسائی
عیسی نے دوبارہ اس دنیا میں آنا ہے اور یروشلم کو آباد کرنا ہے۔ ان کے نزدیک یہ
ٰ صیہونیت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ ایک دن حضرت
اسی وقت ممکن ہوگا جب انجیل کے مطابق تمام بکھرے ہوئے یہودیوں کو ارض موعود ( )Promised Landمیں واپس آباد کر دیا جائے گا۔
اس لئے وہ اس صیہونی ایجنڈے کو اپنے مذہبی تصور کی تکمیل کے لئے بہتر خیال کرتے تھے۔
روتھ شیلڈ کو لکھا جانے واال بالفور کا خط ایک مبہم اور غیر معین ( )Vagueقسم کی تحریر کی صورت میں جان بوجھ کر لکھا گیا تھا تاکہ
دنیا اسے یہودی ایجنڈے کی تکمیل نہ خیال کرے۔ اس مقصد کے لئے لفظ "قوم کا مسکن" ( )National Homeکے الفاظ استعمال کئے گئے
جو دنیا کی نظروں سے اس صیہونی خواب کو چھپاتے جس کے تحت اسرائیل میں ایک صیہونی حکومت کا قیام ہے ،بلکہ یہ الفاظ یہودیوں کو
وہاں آباد کر کے عربوں اور یہودیوں کی ایک مشترکہ ریاست کے قیام کا تصور دیتے ہیں۔
اس خط میں فلسطین میں مقیم عربوں کے قومی حقوق ( )Nation Rightsکا بالکل ذکر نہیں کیا گیا ،بلکہ اس کی جگہ شہری اور مذہبی (
) Civil and Religiousحقوق کا تذکرہ ہے یعنی ایک دن مسلمان اقلیت میں ہوں گے تو ان کے شہری اور مذہبی حقوق انہیں ملنے چاہئیں۔ اس
خط کی تحریر میں یہودیوں\ کی چاالکی اور عیاّری نمایاں نظر آتی ہے۔ اگر وہ ایسی مبہم زبان استعمال نہ کرتے تو برطانوی معاشرے بلکہ دو
ہزار سال سے عیسائی دنیا میں یہودیوں کے خالف جو نفرت موجود تھی وہ برطانیہ کو ہر حالت میں ایسے معاہدہ کرنے سے روک دیتی جس
میں کھلم کھال صیہونیت کے خوابوں کو تعبیر دینے والی بات کی گئی ہوتی۔
بالفور ڈیکلریشن کے تحریر ہونے سے پہلے کے دس سال اسرائیل کے قیام اور عالمی سازشوں کے لئے بہت اہم ہیں۔ 1904ء میں دنیا بھر کے
صیہونی نمائندوں نے برطانیہ کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا اور ساتھ ہی یروشلم کے آس پاس کے عالقوں میں جا کر آباد ہونے کی خفیہ
کوششیں شروع کر دیں۔ برطانیہ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی عالمی قوت تھی جس کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا جبکہ اس کے
ت عثمانیہ تھی جو اپنی آخری ہچکیاں لے رہی تھی۔
مقابل قوتوں میں آسٹروہنگرین ( )Astro Hungarianسلطنت تھی اور مسلمانوں کی خالف ِ
ت عثمانیہ کے عالقے یروشلم سےروتھ شیلڈ کے شاطرانہ ذہن نے ایک خفیہ ترکیب سوچی اور اس نے اس پر عمل درآمد شروع کر دیا۔ خالف ِ
66کلو میٹر دُور جافہ شہر کے شمال میں ایک وسیع ریگستان تھا جس میں ایک بڑے ریت کے ٹیلے پر 1909ء میں روتھ شیلڈ دنیا بھر سے
ساٹھ یہودی سرمایہ داروں کو لے کر پہنچا۔ اس ٹیلے کو عبرانی زبان میں"تِل ابیب" کہتے تھے یعنی ایسا ریتلی ٹیلہ جس کے نیچے پانی
موجود ہو۔ اس کے ایک ہاتھ میں ساٹھ سفید رنگ کے گھونگے تھے اور دوسرے ہاتھ میں ساٹھ سیاہی مائل سفید ( )Grayگھونگے تھے۔
سفید گھونگوں پر ان لوگوں کے نام لکھے ہوئے تھے اور گرے گھونگوں پر پالٹوں کے نمبر۔ روتھ شیلڈ نے قرعہ اندازی کی اور ہر ایک کو
مکان تعمیر کرنے کے لئے پالٹ االٹ کر دیئے۔ ان ساٹھ گھروں کے عالوہ ایک بہت بڑا پالٹ یہودی عبادت گاہ ( )Synagogueکے لئے،
دوسرا ایسا ہی بڑا پالٹ میونسپل کمیٹی کے دفتر کے لئے اور تیسرا بڑا پالٹ قدیم عبرانی ( )Hebrewزبان سکھانے والے ادارے کے لئے
رکھا گیا۔
شہر کو آباد کرنے کے لئے ایک سال کا وقت دیا گیا اور ٹھیک ایک سال کے اندر روتھ شیلڈ نے اپنے ساتھی یہودیوں کے ساتھل مل کر اُم ِ
ت
مسلمہ کی سرزمین پر اسرائیلی ناسور کا مرکز قائم کر دیا۔ (جاری ہے)
عالمی صیہونی ریاست کا خواب یوں تو ہر یہودی کے خمیر میں گندھا ہوا ہے ،لیکن اس کی عملی تشکیل کا آغاز صیہونیت کے سب سے اہم
ستون روتھ شیلڈ خاندان نے تِل ابیب شہر کے قیام سے کیا۔ 1906ء سے تِل ابیب کی بنیاد رکھنے کی تمام کارروائی انتہائی خفیہ انداز سے ہوتی
چلی آ رہی تھی۔ ایک جانب برطانوی حکومت سے گٹھ جوڑ کے لئے خفیہ مذاکرات بھی شروع تھے اور ساتھ ہی فلسطین کے جافہ شہر کے
چند ایک یہودیوں\ نے ایہوذات بایت" کے نام سے ایک سوسائٹی بنائی جس کا مطلب "روشن مسکن" تھا۔
ت عثمانیہ میں فلسطین کے عالقے میںاس کا مقصد یہودیوں کے لئے جدید شہروں کی طرز پر ایک شہری سہولت میسر کرنا تھا۔ خالف ِ
پیش نظر رکھتے ہوئے روتھ شیلڈ خاندان نے ایک ولندیزی ( )Dutchشہری جیکبس ِ یہودیوں پر زمین خریدنے کی پابندی تھی۔ اس پابندی کو
کان ( )Jacobus Kannکو سرمایہ فراہم کیا اور اس نے اپنے نام پر جافہ کے شمال میں واقع ایک ریگستان میں تِل ابیب والی جگہ خریدی،
جہاں گیارہ اپریل 1909ء کو ساٹھ پالٹوں کی تقسیم کی گئی تھی۔ اسی سال انگلینڈ کی کابینہ میں ہربرٹ سیموئیل ( )Herbert Samuelنامی
شخص نے حلف اُٹھایا۔
یہ برطانوی تاریخ کا پہال یہودی وزیر تھا۔ وہ برطانوی سوسائٹی جو شیکسپیئر کے ڈراموں میں شائی الک ( ،)Shylockجیسے ظالم یہودی
سود خوروں کے کرداروں کی وجہ سے یہودیوں سے سخت نفرت کرتی تھی ،اس ملک کی کابینہ میں ایک ایسے یہودی وزیر کا حلف اُٹھانا
ایک اچھنبے\ کی بات تھی ،جو نہ صرف ایک یہودی تھا بلکہ صیہونیت کا علمبردار بھی تھا ،جس کا مشن فلسطین کے عالقے میں ایک یہودی
ریاست کا قیام تھا۔ اس شخص نے برطانوی کابینہ میں 1914ء میں ایک یہودی ریاست کا تصور پیش کیا۔
اسرائیل کے ابتدائی شہر اور موجودہ دارالحکومت تِل ابیب کی سب سے قدیم سڑک کا نام روتھ شیلڈ بلیوارڈ ہے۔ اسی سڑک پر موجود ایک ہال
میں 14مئی 1948ء کو اسرائیل کی آزادی کا ڈیکلریشن پڑھا گیا اور اس پر دستخط ہوئے۔ روتھ شیلڈ کے ہمراہ آنے والے ساٹھ خاندان اسی
سڑک اور صیہونیت کے بانی ہرزل ( )Herzlکے نام والی سڑک پر واقع ہیں۔ انہی سڑکوں کے مالپ پر جو چوراہا ہے وہاں التعداد\ بڑی بڑی
پس منظر
منقش دیواریں ( )Muralsہیں ،جن کے نقش و نگار میں ایک یہودی کو بیج بوتے \،پھر فصل کاٹتے دکھایا گیا ہے اور یروشلم کے ِ
میں ایک گڈریے کو بھیڑوں کے ساتھ پینٹ کیا گیا ہے ،جس کے ساتھ تورات کے باب جرمیاہ کی یہ آیت تحریر ہے "میں اسے دوبارہ تعمیر
کروں گا اور یہ یقینا ً دوبارہ تعمیر ہوگا"۔ اس آیت میں اشارہ ہیکل سلیمانی کی طرف ہے۔
روتھ شیلڈ خاندان صیہونیت کے فروغ میں اس لئے اہم کردار ادا کرتا رہا ہے کیونکہ گزشتہ کئی صدیوں سے یہ خاندان بینکاری کے شعبے
سے منسلک چال آ رہا ہے۔ روم کی بادشاہت کے زمانے سے ہی یہ خاندان اسی سودی کاروبار سے منسلک رہا ہے۔ پورے یورپ میں 1264ء
سے لے کر 1567ء تک ان تین صدیوں کے دوران یہ واحد سودی بینکاری کا نجی ادارہ تھا اور اسی خاندان کی ملکیت تھا۔ لیکن جب 1694ء
میں برطانوی پارلیمنٹ نے ایک قانون کے ذریعے بینک آف انگلینڈ کا چارٹر منظور کیا تو اس حکم نامے کے ساتھ ہی اس بینک کو یہ اختیار
بھی دے دیا گیا کہ وہ کاغذ کے نوٹ جاری کر سکے گا۔ انہیں اس وقت " "Promissory Noteکہا جاتا تھا۔
بینک آف انگلینڈ کے قیام کے دوران خاندان کا سربراہ مائر امشیل روتھ شیلڈ ( )Mayer Amschel Rothschildتھا ،اس نے انگلینڈ کا چارٹر
ملتے ہی اپنے بچوں کو یورپ کے تمام بڑے بڑے شہروں میں بینک قائم کرنے کے لئے روانہ کیا اور ان بچوں میں سے ناتھن مائر (Nathan
)Mayerکو انگلینڈ کے مرکزی بینک کا سربراہ بنا دیا گیا۔ 23فروری 1774ء سے لے کر اب تک یہ خاندان بینکاری ،انوسٹمنٹ اور دیگر
معاشی سرگرمیوں کے حوالے سے دنیا بھر میں سب سے بڑا خاندان سمجھا جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ان کی بینکاری نے یورپ کی سیاسی تاریخ کو تراشا ہے۔ وہ سیاسی تاریخ جس میں دو عالمی جنگیں اور کروڑوں انسانوں کا
اعظم نے یکم جوالئی 1948ء کو سٹیٹ بینک کے افتتاح کے موقع پر اپنی تقریر میں ان دو عالمی جنگوں کا انہی
ؒ قتل عام بھی شامل ہے۔ قائد
بینکاروں کو مور ِد الزام ٹھہرایا ہے۔
اعظم نے کہا تھا" :مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کے لئے ایسے الینحل مسائل پیدا کر دیئے\ ہیں کہ ہم یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ
ؒ قائد
شاید کوئی معجزہ ہی دنیا کو پیش آمدہ تباہی سے بچا سکے۔ یہ نظام انسان اور انسان کے درمیان عدل قائم کرنے اور بین االقوامی سطح پر
انتشار ختم کرنے میں ناکام ہو چکا ہے۔ بلکہ اس کے برعکس یہ گزشتہ پچاس سال کے عرصہ میں دو بڑی عالمی جنگوں کا بنیادی ذمہ دار
ہے"۔
اقبال نے اپنی مشہور نظم "فلسطینی عرب" میں انہی بینکاروں کو یورپ کے اصل حکمران قرار دیتے\ ہوئے فلسطینیوں سے کہا تھا:
ؒ
اقبال نے اس حقیقت کو مزید آشکار کرتے ہوئے اس یہودی سودی بینکاری نظام کو انسانیت کا سب سے بڑا دشمن قرار دیا ہے۔
ؒ
ک یہود\
ایں بنوک ایں فکر چاال ِ
" "For every soldier who died in Battle the international Bankers made a profit of Ten thousand dollar
(ہر سپاہی جو میدا ِن جنگ میں مارا جاتا ہے ،عالمی بینکار اس سے دس ہزار ڈالر منافع کماتے ہیں)۔ پاکستان کو ایک خاص منصوبے کے تحت
گزشتہ چالیس سالوں میں بددیانت حکمرانوں کے ذریعے قرضے کی دلدل میں اُتار دیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسی دلدل ہے جس سے نکلنے کا اب
کوئی راستہ کسی کو بھی سجھائی نہیں\ دے رہا۔ ایک سال سے آئی ایم ایف پاکستان کو ٹرخاتا چال آ رہا ہے۔ سعودی عرب ،دبئی اور چین کی
مدد نہیں آئی کیونکہ یہ بھی آئی ایم ایف سے مشروط ہے۔ قرضوں کی قسط سر پر ہے۔ جبکہ امریکہ پاکستان کو دہشت گردی کے نام پر ایک
اور جنگ میں افغانستان سے لڑانا چاہتا ہے۔
بالول بھٹو ایسا کرنے پر امریکی سرپرستی اور امداد کی خوشخبریاں سنا رہا ہے ،ایسے میں یہودی صیہونی البی کے سب سے شاطر و عیاّر
ب حیثیت روتھ شیلڈ خاندان کی پاکستان آمد التعداد\ شکوک و شبہات پیدا کر رہی ہے۔ کیا ہم گروی رکھے جا رہے ہیں؟ کیا ہم جنگ کا
اور صاح ِ
ایندھن بننے والے؟ کیا ہمیں اسرائیل کے لئے نرم گوشہ رکھنے پر مجبور کیا جا رہا ہے؟ التعداد\ سواالت ہیں ،جن کا فی الحال سوائے پریشان
ہونے کے کسی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ (ختم شد)
Aurat March Ki Transgender Ikhlaqiat
Orya Maqbool JanMar 09, 202392 News1294
ت خداداد پاکستان کے باسیوں کی صدیوں پرانی صنفی اخالقیات اور
پرویز مشرف کی روشن خیالی ایک ایسا زہریال پودا تھا جس نے اس مملک ِ
عرف عام میں
ِ جنہیں تھے، چین خوشہ کے "اوصاف" تمام ایسے معاشرتی حیاء کو آلودہ کر کے رکھ دیا۔ موصوف اپنے عہ ِد شباب میں ہی
سیکولر ،لبرل یا مذہب بیزار کہا جاتا ہے۔ مشرف کی ایوا ِن صدر میں آمد نے اس گھر کے ماحول کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔
ضیاء الحق ،غالم اسحاق خان ،فاروق لغاری اور رفیق تارڑ تک دو دہائیاں جو عمارت ہللا اکبر کی صدائوں سے گونجتی تھی وہاں سے رقص
میالن طبع کو گیارہ ستمبر کے واقعہ نے عالمی پشت پناہی
ِ کے توڑوں اور سرود کے االپ کی آوازیں سنائی دینے\ لگیں۔ مشرف کے اس ذاتی
عطا کر دی۔
اس کی جنوری 2002ء کی مشہور تقریر کو نہ صرف دہشت گردی کے خالف عالمی استعمار کی جنگ کی قیادت کرنے والی طاقت امریکہ
نے سرعام سراہا بلکہ یہ پاکستان میں رہنے والے ہر اُس شخص کے دلوں کی آواز بن گئی جو اس ملک کی بنیادوں سے اسالم کے گہرے
پودے کو اُکھاڑ پھینکنے کی خواہش دل میں دبائے بیٹھا تھا۔
تاریخ میں جہاں کہیں بھی اسالم پر حملہ کیا گیا تو سب سے پہلے اس کی تہذیبی اخالقیات اور صنفی اُصول و قواعد کو تباہ کیا گیا۔ اس تہذیبی
شوری" کے آخر میں ابلیس اپنے خطاب میں اپنے حواریوں کو صرف اور صرف ٰ مجلس
ِ یلغار کا بنیادی ہتھیار ہمیشہ عورت تھی۔ "ابلیس کی
اسالم سے ڈراتے ہوئے متنبہ کرتا ہے۔
"مرد آزما" اور "مرد آفریں" کی صفات ہی ہیں جو ایک اسالمی تہذیب میں خواتین کی ناموس اور عزت و حرمت اور عصمت و حیاء کی
محافظ ہوتی ہیں۔ اس تہذیبی\ اساس پر حملہ خواتین کو خوبصورت ترغیبات دال کر ہی کیا جا سکتا ہے۔ ایسا نسخہ صرف اسالم کی تہذیب کو تباہ
کرنے کے لئے نہیں آزمایا گیا ،بلکہ دنیا کی ہر تہذیب کا اخالقی زوال اور خاندانی نظام کی تباہی نے اسی صنفی بے راہ روی کی کوکھ سے
جنم لیا۔
نظام تعلیم سے لے کر ہر محاذ پر پاکستانی معاشرے کو صرف مغرب زدہ نہیں ،بلکہ مغرب پرست بنانے کی بھر پور
ِ مشرف نے جس طرح
کوشش کی ،اور اس کی ان کوششوں نے مغربی تہذیبی کے جس پودے کو لگایا ،اس کی آبیاری اس کے بعد آنے والے دونوں حکمرانوں،
آصف علی زرداری اور نواز شریف نے بھر پور طریقے سے کی۔
پیپلز پارٹی کا تو خمیر ہی سیکولر تھا ،لیکن نون لیگ چونکہ نئی نئی لبرل خیاالت کے حبالٔہ عقد میں آئی تھی ،اس لئے اس نے پرانے
سیکولروں سے بڑھ کر خود کو مغرب پرست ثابت کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ ان سب کی کوششوں کا نکتہ عروج 2018ء کے سال میں
عظمی کا سال تھا۔ اس سال پاکستان میں اسالمی تہذیبی اخالقیات پر دو بھر
ٰ ت
نظر آیا۔ یہ نون لیگ کی "تلچھٹ" شاہد خاقان عباسی کی وزار ِ
پور حملے ہوئے۔ ایک تو اس سال آٹھ مارچ "عورت مارچ" کا آغاز ہوا۔
یہ مارچ دراصل خواتین کے حقوق نہیں \،بلکہ ان کے جنسی میالنات ،صنفی جذبات اور اخالقی پابندیوں سے آزادی کے پرچم اُٹھائے ہوا تھا،
جبکہ دوسرا بڑا واقعہ 22مئی 2018ء کو پیش آیا جب ہم جنس پرستی کو تحفظ دینے کے لئے "ٹرانس جینڈر پروٹیکشن ایکٹ" پاس کیا گیا۔
جزوالینفک چلے آ رہے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ عورت مارچ میں ِ اس دن سے لے کر آج تک ٹرانس جینڈر لوگ ہر عورت مارچ کا
عرف عام میں
ِ جنہیں اور ہیں ہوتے شکار کا محرومی اس پر طور پیدائشی جو حصہ لینے والوں میں وہ مظلوم مخنث کبھی شامل نہیں ہوتے،
خواجہ سراء کہتے ہیں۔
ان لوگوں کو طبّی اصطالح میں"انٹر سیکس" ( )intersexکہا جاتا ہے۔ لیکن اس متنازعہ بل کے لئے ایک عمومی اصطالح ٹرانس جینڈر
استعمال کی گئی تاکہ ہم جنس پرست اس کا حصہ بن سکیں۔ عورت مارچ میں حصہ لینے والے یہی بہروپئے\ ہوتے ہیں جو دراصل مرد ہوتے
ہیں مگر عورتوں کے ملبوس میں خود کو ٹرانس جینڈر ظاہر کرتے ہیں۔
پیدائشی مخنثوں کی تنظیم کی سربراہ الماس بوبی نے ان ہم جنس پرستوں اور ایل جی بی ٹی کے بہروپیوں کا پردہ ہر جگہ چاک کیا ہے۔ اس
نے شریعت کورٹ میں خوفناک اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ملک بھر میں خواجہ سرائوں پر آج تک جتنے بھی حملے ہوئے ہیں
ان میں سے ایک بھی خواجہ سراء نہیں مارا گیا۔ بلکہ مرنے والوں کی میڈیکل رپورٹس نے ثابت کیا ہے کہ وہ سب کے سب ہم جنس پرست
مرد تھے جو خواجہ سرائوں کا روپ دھار کر جسم فروشی کے مکروہ دھندے میں ملوث تھے۔
ہم جنس پرستی کو تحفظ دینے\ واال ایسا ایکٹ مسلم دنیا میں صرف پاکستان میں ہی منظور کیا جا سکا۔ اسی سال جب عورت مارچ کراچی اور
الہور کی سڑکوں پر گھوما تو برازیل کے جسم فروشی کے اڈے کی ایک طوائف نے پرتگالی زبان میں جو یہ نعرہ بلند کیا تھا "EU sou
"UMA Prostituta Orgulhosa; Meuجس کا انگریزی ترجمہ " "A Proud Prostitute: my body my Choicesتھا اور جسے
1980ء میں ایک طوائفوں کے حقوق کی ترجمان گیبریال الئٹ نے مقبولیت بخشی ،اس نعرے کو اُردو میں ترجمہ کر کے "میرا جسم میری
مرضی" کے نعرے میں تبدیل کیا گیا اور پھر اسے پاکستان کے عورت مارچ کا بنیادی نعرہ بنا دیا گیا۔ یعنی ایک شخص کے جسم پر نہ اس
کے مالک و خالق کا کچھ حق ہے اور نہ ہی اس کے معاشرے کی تہذیب و اخالقیات اس پر کسی بھی قسم کی کوئی پابندی لگا سکتی ہے۔
اسی "میرا جسم میری مرضی" کےنعرے کی آڑ میں وہ تمام ہم جنس پرست جو پہلے خواجہ سرائوں کے بہروپ میں گھومتے\ تھے ،اب اس
عورت مارچ میں دندناتے\ ہوئے پوسٹر پکڑے نظر آنے لگے۔ اس پانچ سال کے عرصے میں جتنے بھی عورت مارچ ہوئے ،ان پر جنسی
آزادی اور صنفی بے راہ روی کی فضاء چھائی رہی۔
پاکستان کی پچھہتر سالہ تاریخ میں شاید ہی کسی اور جلوس یا جلسہ میں اتنی گندی زبان میں نعرے لکھے گئے ہوں اور اتنی فحش زبان میں
لکھے بینر اُٹھائے گئے ہوں ،جتنے فحش نعرے اور تصویری سلوگن عورت مارچ میں ہر سال بلند ہوتے ہیں۔ عورتوں کیلئے صحت ،تعلیم،
پس پشت ڈال دیئے گئے اور جسم
گھریلو تشدد سے آزادی ،جائداد میں حصہ اور سیاسی و معاشرتی سرگرمیوں کے حقوق جیسے مسائل سب ِ
اور صرف جسم کے نعرے ہی گونجتے رہے۔
اس دفعہ عورت مارچ نے خاص طور پر ٹرانس جینڈرز کو اپنا ایجنڈہ بنایا تھا کیونکہ وہ اس متنازعہ ہم جنس پرستی کے قانون "ٹرانس جینڈر
ایکٹ" کے تحفظ کے لئے بھر پور کوشش کر رہی ہیں۔ ان کے محبوب ٹیلی ویژن اینکروں نے انہیں اس ہم جنس پرستی کے قوانین کے حق
میں نکلنے پر داد دی ،سراہا اور ان کی حوصلہ افزائی کی۔ کاش! یہ عورت مارچ کے منتظمین اور ٹی وی اینکر اور دانشور ،منافقت سے کام
لینے کی بجائے کھل کر بتاتے کہ ہمارا اور کوئی مقصد نہیں بس ہم جنس پرستی کا تحفظ چاہتے ہیں۔
گذشتہ چھ سال میں ہونے والے عورت مارچ میں کبھی بھی کسی مظلوم ،غریب اور بے آسرا خاتون نے شرکت نہیں کی۔ سب خوشحال
گھرانوں کی آسائشوں میں پَلی ہوئی عورتیں نظر آتی ہیں۔ انہیں معاشرتی سطح پر تمام حقوق میسر ہیں ،بس جھگڑا صرف جسم کی آزادی کا
ہے۔
نوٹ :آج صبح نو بجے فیڈریل شریعت کورٹ اسالم آباد میں ٹرانس جینڈر بل کے خالف دائر درخواست کی پیشی ہے۔
Khandano Se 22 Lakh Tak (1) 22
Orya Maqbool JanMar 07, 202392 News2524
آج سے تقریبا ً ایک سو سال قبل جب دنیا بھر کے ایوانوں میں روس کے کیمونسٹ انقالب نے ایک ہیجان برپا کر رکھا تھا ،تو ایسے لگنے لگا
تھا کہ جیسے اب اس کرٔہ ارض پر آباد مزدوروں ،کسانوں اور مفلوک الحال انسانوں کی قسمت بدلنے والی ہے۔ کیمونزم کی اس انقالبی تبدیلی
نے غالم برطانوی ہند میں لکھنے والوں کو بے حد متاثر کیا۔ اس دور کی سب سے توانا آواز اور مسلم اُ ّمہ کی نشا ِۃ ثانیہ کے علمبردار عالمہ
اقبال نے بھی اشتراکیت کے مثبت پہلوئوں پر شاعری کی۔
ؒ
چشم تصور میں خدا کے سامنے لے گئے اور ایک بھر پور نظم "لینن ،خدا کے حضور" تحریر کی۔ یہ ِ کیمونسٹ انقالب کے بانی "لینن" کو وہ
اقبال کی اس نظم کے
نظم مکمل طور پر مغرب کے سرمایہ دارانہ سودی نظام کے خالف لینن کی زبان میں ایک بھر پور احتجاج ہے۔ عالمہ ؒ
دو اشعار نے عالمی سودی نظام کے پورے ڈھانچے کو انتہائی آسانی سے بیان کر دیا ہے:
نظم کے آخر میں ،دنیا کے سرمایہ دارانہ نظام کی برائیاں ،ظلم اور جبر و استبداد گنواتے ہوئے لینن ہللا سے یوں شکوہ کناں ہوتا ہے۔
روز مکافات
ِ منتظر
ِ دنیا ہے تری
اقبال اس احتجاج میں تنہا نہیں\ تھے۔ ان کے ہم عصر اور بعد میں آنے والے شاعروں ،ناول نگاروں اور افسانہ نویسوں کا ایک قافلہ تھا جو
ؒ
ب ذوق کی محفلوں میں سرمایہ ّ
انجمن ترقی پسند مصنفین کی صورت میں منظم ہوا اور کبھی مختلف ادیب انفرادی سطح پر حلقٔہ اربا ِ
ِ کبھی
دارانہ نظام کے خالف سراپا احتجاج بنتے چلے گئے۔
اس دور میں جنم لینے والی ٹریڈ یونین سیاست کی گرم جوشی نے بھی بڑے بڑے سیاسی رہنمائوں کو اپنا اسیر کر لیا۔ یہی وجہ ہے کہ
برطانوی ہند کے اہم ترین سیاست دان خواہ وہ جواہر الل نہرو جیسا خاندانی رئیس ہو یا ابوالکالم آزاد اور موالنا حسرت موہانی جیسے مذہبی
خیاالت واال لیڈر ،ان میں بیشتر سرمایہ داری کے مقابلے میں مزدور کی باالدستی کی بات کرتے تھے۔
تخلیق پاکستان کی بھی مخالف تھی۔ ان کے نزدیک تو برصغیر پاک و ہند کی تقسیم اور پاکستان کی تخلیق دراصل ایک سرمایہ
ِ کیمونسٹ پارٹی
دارانہ سازش کا نتیجہ تھی تاکہ مزدوروں ،کسانوں اور غریبوں کی مشترکہ قوت کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے اور سرمایہ داروں کے
قیام پاکستان کے آغاز میں ہی اقتدار کی طنابیں ایسے سیاست دانوں کے ہاتھ میں آ گئیں جو
خالف ان کی توانائیوں کو اکٹھا نہ ہونے دیا جائے۔ ِ
اپنے مخصوص حلقوں سے جیت کر آئے تھے۔ یہ بڑے بڑے زمیندار تھے ،اس لئے انقالب دشمن بھی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ کیمونسٹ پارٹی
اور انجمن ترقی پسند مصنّفین دونوں پاکستان میں شروع دن سے ِ
زیر عتاب ہی رہیں۔
ایک زرعی معاشرہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں کھیتوں میں کام کرنے واال ہاری اور مزارع پورے ملک میں منتشر تھا۔ کسانوں کو کسی
ایسے نعرے پر اکٹھا کرنا بہت مشکل تھا ،کیونکہ وہ دیہی زندگی کے معموالت میں اُلجھے ہوئے ہوتے ہیں اور مطمئن بھی۔ لیکن جیسے ہی
پہلے تیس سالوں میں پاکستان میں بیش بہا صنعتیں لگیں اور صنعتی ترقی نے اپنے پَر پھیالئے\ تو اس کے نتیجے میں مزدور دیہات سے
شہروں میں آ کر ملوں کی چھتری تلے جمع ہونے لگے ،جس سے ٹریڈ یونین سیاست نے ایک دَم عروج پکڑا۔
ایوب خان کے خالف چلنے والی تحریک کا ایک اہم نعرہ یہ بھی تھا کہ "اس ملک پر بائیس خاندانوں کا قبضہ" ہے۔ یہ نعرہ اس قدر مقبول تھا
المولی اور مصطفی کھر جیسے التعداد\ بڑے بڑے زمیندار ٰ کہ ذوالفقار علی بھٹو جیسا بڑا زمیندار جس کی پارٹی میں مصطفی جتوئی ،طالب
تھے ،اس نے بھی ووٹ کی سیاست اور عوامی مقبولیت کے لئے سرمایہ داری کے خالف پارٹی پوزیشن اس حد تک لی کہ پیپلز پارٹی کے
منشور کے چار بنیادی نکات میں سے تیسرا نکتہ یہ تھا کہ "سوشلزم ہماری معیشت ہے"۔ ملک پر بائیس خاندانوں کا قبضہ ہے ،یہ فقرہ بھٹو
جزوالینفق تھا۔ اور اس نعرے سے وہ اپنے جلسوں میں عوام کا لہو گرماتا تھا۔
ِ کی تقریروں کا
آج نصف صدی گزرنے کے بعد\ اب ان بائیس خاندانوں کا دائرٔہ اثر بڑھ کر اس ملک کی ایک فیصد آبادی تک پھیل چکا ہے۔ یعنی بائیس کروڑ
لوگوں کی آبادی میں سے بائیس الکھ لوگ ایسے ہیں جو اس ملک کے نوے فیصد سے زیادہ سرمائے پر قابض ہیں۔ اس کیفیت کو دنیا بھر میں"
"Elite Captureیعنی اشرافیہ کی لوٹ کھسوٹ کہتے\ ہیں۔
یہ اصطالح گذشتہ دو دہائیوں سے پاکستان میں مسلسل استعمال کی جا رہی ہے ،لیکن اس "اشرافیہ کی لوٹ کھسوٹ" پر ایک خالصتا ً تحقیقاتی
کام آسٹریلیا کی نیشنل یونیورسٹی کے علم بشریات ( )Anthropologyڈیپارٹمنٹ کی ڈائریکٹر ڈاکٹر روزیٹا آرمیٹج ( )Rosita Armytageنے
کیا ہے۔ اس نے اپنی چودہ ماہ کی تحقیق کے بعد ایک کتاب تحریر کی جس کا نام ہے "Big Capital in an Unequal Word" ،یعنی "غیر
مساوی دنیا میں سرمایہ کی فراوانی"۔
کتاب کا ذیلی عنوان ہے " "The Micropolitics of Welth in Pakistanیعنی "دولت کی پاکستانی سیاست میں کارستانیاں" روزیٹا نے اپنی
تحقیق کے لئے موضوع کا انتخاب کرتے وقت یہ ارادہ کیا کہ وہ پاکستان جیسے ملک کی مڈل کالس کے بارے میں تحقیق کرے گی۔ اس کی
وجہ اس کے آسٹریلیا میں موجود پاکستانی دوست اور ساتھ کام کرنے والے افراد تھے جو مڈل کالس سے ہی تعلق رکھتے تھے۔ ان کی وجہ
سے ہی وہ پاکستان کی مڈل کالس پر ہی تحقیق کرنے کے لئے پاکستان آ گئی ،لیکن اس کے بقول ،اسالم آباد سے الہور تک کے ایک سفر نے
اس کا ارادہ یکسر بدل دیا۔
اس نے بتایا کہ میں نے اپنی تحقیق کے دوران اسالم آباد سے الہور کی ایک یونیورسٹی کے کچھ اساتذہ سے ملنے جانا تھا اور اس کے لئے
میں نے ایک آرام دہ بس کا ٹکٹ بھی لے لیا تھا ،لیکن میری ایک دوست نے مجھے کہا کہ تم میرے فالں دوست کی گاڑی میں سفر کرو۔ ایک
آرام دہ گاڑی میں سفر کرتے ہوئے ،روزیٹا نے اس شخص سے اس کی زندگی ،خاندان اور کاروبار کے سواالت پوچھنا شروع کر دیئے۔
جوابات سے ایک حیران کن کہانی سامنے آئی اور اسے پاکستان کی ایک "کالس" کے نیٹ ورک کا اندازہ ہونے لگا۔
اس شخص کا خاندان سگریٹ بنانے کے کاروبار سے منسلک تھا اور اس کے خاندان کے افراد" ،انکل" ،کزن" اور دیگر افراد کا ایک بہت بڑا
نیٹ ورک تھا جو چین کے ساتھ بھی تجارت کرتے تھے اور اس دوران وہ مختلف مراحل سے گزرتے تھے ،یہاں تک اس نے یہ بھی بتایا کہ
ہم سے پہلے کچھ عرصہ پہلے کتنی بڑی رشوت مانگی گئی تھی۔
روزیٹا بتاتی ہے کہ اس گفتگو سے اسے اندازہ ہوا کہ پاکستان میں اشرافیہ اور سرمایہ داروں کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک ہے جو ملکی سیاست،
کاروبار اور معیشت پر چھایا ہوا ہے اور اس طبقے پر اسے تحقیق کرنی چاہئے۔ اس کے چند دن بعد ہی وہ ایک بہت بڑے صنعتکار ،اس کے
بھائی ،کزن ،ان کے ایک ایسے خاندانی دوست کے ساتھ بیٹھی تھی جو الہور کے بہت اہم سیاست دان کا بیٹا تھا۔ ان سب نے مل کر روزیٹا کے
لئے تین صفحات پر مشتمل پاکستان کے امیر ترین صنعت کاروں ،کاروباری حضرات اور طاقت ور سرمایہ داروں کی ایک فہرست مرتب کی
جن سے اسے اپنی تحقیق کا آغاز کرنا تھا۔
یہ فہرست آہستہ آہستہ طویل ہوتی گئی اور چودہ ماہ کی تحقیق کے بعد وہ یہ کتاب لے کر سامنے آئی جس کے مطابق پاکستان کی ایک فیصد
اشرافیہ اس ملک کی معیشت ،حکومت اور سیاست پر قابض ہے۔ (جاری ہے)
Khandano Se 22 Lakh Tak (2) 22
Orya Maqbool JanMar 08, 202392 News1895
پاکستان کی ایک فیصد اشرافیہ گذشتہ چالیس سال کے عرصہ میں صرف بائیس خاندانوں سے بائیس الکھ تک کیسے پہنچی؟ دولت کی یہ پیوند\
ارتکاز
ِ کاری کیسے ہوئی؟ اور یہ فصل اتنی ثمربار کس طرح ہوگئی۔ روزیٹا آرمٹیج ( )Rosita Armytageکا تحقیقی مطالعہ پاکستان میں
طریق ہائے کار سے پردہ اُٹھاتا ہے۔
ِ دولت اور استحصالی طبقات کے مختلف
اعلی سطح کے بیوروکریٹس ،فوجی جرنیلوں ،سیاسی رہنمائوں اور کاروباری اشرافیہ کے
ٰ اس کے مطابق یہ ایک خوفناک گٹھ جوڑ ہے جو
درمیان وقت کے ساتھ ساتھ مستحکم ہوتا چال جا رہا ہے۔ یوں تو ہر گروہ کے اپنے اپنے طاقت کے مراکز ( )Power Blocksہیں ،لیکن
مشترکہ مفادات کے تحفظ کے لئے یہ تمام گروہ اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ یہ طاقت کے مراکز فوج ،سول بیوروکریسی ،بزنس اور سیاست میں پائے
جاتے ہیں۔
یہ تمام لوگ اپنے اپنے گروہوں میں انفرادی طور ترقی کی سیڑھیاں چڑھتے رہتے ہیں اور ایک دوسرے کے معامالت میں اکثر اوقات کبھی
مداخلت نہیں\ کرتے۔ انفرادی سطح پر یہ اپنے تعلقات کے حوالے سے کسی جاننے والے ،یا رشتے دار کی مدد\ ضرور کرتے ہیں لیکن دوسرے
گروہ کی حدود کا احترام کرتے ہیں۔ یہ دوسرے کے مضبوط "قلعے" میں کبھی نقب زنی نہیں\ کرتے۔ ان کا آپس کا گٹھ جوڑ ایسا ہے کہ ایک
گروہ کو باقی تمام گروہ مل کر تحفظ فراہم کرتے ہیں۔
یہ سب مل کر اشرافیہ بنتی ہے جو پاکستان کی سمت کا تعین کرتی ہے ،ایسے قوانین بناتی ہے جن سے اس کے ممبران خوب فائدہ اُٹھاتے ہیں
اور اپنے آپ کو مزید مستحکم کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ چاروں گروہ اس قدر "خوش بخت" ہیں کہ پاکستان میں کسی بھی قسم کی آفت،
مصیبت ،جنگ یا بیماری آ جائے ،ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ،ان کا بال بھی بیکا نہیں\ ہوتا۔
یہ 1971ء کے بہت بڑے سانحے سے بھی صاف بچ نکلے۔ سرمایہ کاروں کا سرمایہ محفوظ رہا ،بیوروکریٹس کی نوکریاں چلتی رہیں،
فوجیوں کی پرومشنیں ہوتی رہیں اور سیاست دان بھی ویسے کے ویسے دودھ کے دُھلے نظر آتے رہے۔ گھر ،کاروبار تو غریب بنگالیوں اور
بہاریوں کے اُجڑے۔ جان سے عام لوگ گئے \،نسلیں ان کی برباد ہوئیں۔ اس سانحے میں اشرافیہ کے تحفظ کی مثال صرف ایک اصفہانی خاندان
سے واضح کی جا سکتی ہے۔
مرزا ابو طالب اصفہانی کو 1799ء میں انگریز نے لندن بال کر رچمنڈ کے عالقے میں جائیداد "عطا" فرمائی اور پھر جب "ایسٹ انڈیا
کمپنی"نے سراج الدولہ کے جرنیل میر جعفر کی غ ّد اری سے بنگال فتح کیا تو پھر اپنے "الڈلوں" کو یہاں ال کر آباد کیا جانے لگا۔ یوں اصفہانی
خاندان لندن سے آ کر یہاں آباد ہوگیا اور چائے کا کاروبار کرنے لگا جس کی وسعت پورے برصغیر اور پھر دنیا بھر میں پھیل گئی۔ متحدہ
پاکستان تک اصفہانی چائے مغربی پاکستان میں بھی مقبو ِل عام برانڈ تھا۔
پاکستان بننے\ کے بعد یہ خاندان کلکتہ سے چٹاگانگ منتقل ہوگیا ،جس کی پہاڑیوں پر چائے کے وسیع باغات تھے۔ مشرقی پاکستان میں
بنگالیوں ،بہاریوں اور دیگر قومیتوں پر 1971ء میں کیا کیا مظالم نہیں ٹوٹے ،لیکن اصفہانی خاندان کی کاروباری سلطنت کو اس سانحے کے
دوران بھی تحفظ فراہم کیا گیا۔ روزیٹا کے مطابق یہ تمام طبقات قوانین تو بناتے ہیں ،مگر ان میں سے ایسے راستے نکالتے ہیں تاکہ انہیں اپنے
ہی بنائے ہوئے ان قوانین پر عمل نہ کرنا پڑے۔
قوانین سے باالتر ہونے کی یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ دن بدن امیر سے امیر تر ہوتے چلے جا رہے ہیں اور خوفناک حد تک طاقت ور بھی۔
طریق کار یا گٹھ جوڑ کا تذکرہ اس کتاب
ِ جم غفیر میں ڈھلنے کے عمل کے اہم ترین راستے،
بائیس خاندانوں کے گروہ کا بائیس الکھ افراد کے ِ
میں دو اہم اصطالحات سے کیا گیا ہے۔ پہال "Socialising and Marriages" ،معاشرتی میل جول اور شادیاں ،دوسرا "Culture of
"Exemptionاستثناء کا کلچر۔
شادیاں اور معاشرتی میل جول وہ زینہ ہے جس کے ذریعے یہ تمام گروہ بلندی کی منازل طے کرتے ہیں۔ روزیٹا لکھتی ہے کہ دلچسپی کی
اعلی بیوروکریٹس کی بیٹیاں بھی ایسے ہی
ٰ بات یہ ہے کہ نوجوان فوجی افسران ،صنعت کاروں کی بیٹیوں\ سے شادی کرنا پسند کرتے ہیں اور
سرمایہ دار اور صنعت کار افراد کو پسند کرتی ہیں اور سیاست دانوں سے کنارہ کشی ( )Shyawayاختیار کرتی ہیں۔ اس کتاب کا ایک فقرہ
غضب کا ہے ،جسے ہوبہو انگریزی میں تحریر کر رہا ہوں تاکہ اس کا اصل لطف قائم رہے اور ترجمہ کرنے کے بعد اُردو قارئین بھی آگاہ ہو
سکیں۔
"Marital strategies continue to be one of the most powerful mechanisms employed by the Pakistani elite to protect
their economic assets and their social status، to foster inter-elite networks and to gather information on other elite
families۔ "
طریق کار ہے جسے پاکستان کی اشرافیہ مسلسل استعمال کرتی ہے تاکہ وہ اس کے ذریعے\ اپنے
ِ ت عملی ایک ایسا طاقتور
"شادیوں کی حکم ِ
مالی اثاثوں اور معاشرتی ُر تبے کا تحفظ کر سکے اور اس کے ذریعے اپنے اشرافیہ کے نیٹ ورک کی شاندار نشوونما کرنے کے ساتھ ساتھ
ب حیثیت خاندانوں کے بارے میں بھی اپنی معلومات میں اضافہ کرتی رہے"۔دوسرے صاح ِ
اس سارے کھیل میں پاکستان میں دو مختلف اقسام کی اشرافیہ پائی جاتی ہیں ،جن کا آپس میں میل کچھ عرصہ پہلے تک مشکل سے ہوا کرتا
تھا ،لیکن اب یہ فرق تقریبا ً مٹ چکا ہے۔ پہلی قسمِ ،
قیام پاکستان سے قبل کی اشرافیہ کی ہے جو مغلوں اور پھر انگریزوں کی وفاداریوں کے
عوض مراعات حاصل کر کے مقام و مرتبہ پر صدیوں پہلے ہی فائز ہو چکی تھی۔ اس اشرافیہ کے لئے یہ کڑوی گولی نگلنا مشکل تھی کہ وہ
بعد میں امیر بننے والوں کو اپنے برابر سمجھیں۔
روزیٹا نے اپنی کتاب میں ہمارے ملک میں زبان ز ِد عام اصطالح "نودولتئے" کا استعمال اس فرانسیسی نعم البدل " "Nouveau Richeکی
اصطالح سے کیا ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ 1970ء کے بعد\ امارت کی بلندیوں کو اچانک چھونے والے خاندان اس قدیم اشرافیہ کی نظروں میں
شروع شروع میں گھٹیا تصور ہوتے تھے۔ قدیم اشرافیہ اپنے لئے مخصوص "ٹھکانوں" کے دروازے ان کے لئے بند رکھتی تھی ،جیسے یہ
لوگ جم خانہ جیسے بڑے کلبوں کی ممبر شپ نہیں لے سکتے تھے اور ان کی اوالدوں کے لئے ایچی سن جیسے سکولوں میں داخلہ مشکل
سے ہوتا تھا۔
قدیم اشرافیہ ،یہ ر ّو یہ اس لئے اختیار کرتی تھی ،کیونکہ ان پرانے "خاندانی رئیس" لوگوں کی آمدن وقت کے ساتھ کم ہو رہی تھی اور وہ ان
نودولتیوں کا کسی صورت مقابلہ نہیں کر پاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی معاشرتی میل جول کی جگہوں سے انہیں دُور رکھتے تھے اور
"اعلی پیڈسٹل" یا
ٰ وہ آج بھی عموما ً ایسا ہی کرتے ہیں۔ لیکن اب کسی ایک خاندان کی دولت اور دوسرے خاندان کے مرتبے کو شادی کے
"منچ" پر یوں اکٹھا کر دیا جاتا ہے کہ ایک جرنیل کی طاقت و قوت ،ایک بیوروکریٹ کی حیثیت و مرتبہ اور ایک عام سے خاندان سے تعلق
رکھنے والے کسی نودولتئے\ پراپرٹی ٹائیکون ،صنعت کار یا بزنس مین کی دولت کا یہ ایک حسین مالپ بن جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی ایک فیڈرل سیکرٹری یا ایک جرنیل کا بیٹا یا بیٹی کسی ایسے ہی نودولتئے کے ہاں بیاہا جاتا ہے تو پھر وہ ایک ہی
زقند میں دولت میں نہانے لگتا ہے اور نودولتیا خاندان اس مرتبے ،مقام اور سماجی حیثیت کا لطف اُٹھانے لگتا ہے جس کے بارے میں اس نے
کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ اس غیر مقدس ( )Unholyمالپ کے نتیجے میں پاکستان کے معاشرے میں ایک "معاشرتی استثنائ" پیدا ہو چکا
ہے ،جو اس اشرافیہ کو ہر جرم کی سزا سے مبّرا کر دیتا ہے۔ اس ملک کے یہ بائیس الکھ لوگ ہی تو ہیں جو اب ایک خاندان بن چکے ہیں اور
جن کا شجرہ نسب بھی ایک ہے۔
یہ آپس میں لڑتے ضرور ہیں مگر عوام کے مقابل یہ سب کے سب اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ یہ اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھے ہوئے وہ سانپ ہیں
جن کے ہاتھوں میں لوٹی ہوئی دولت کے خزانوں کی چابیاں ہیں اور ان کے نتھنوں\ سے قوت و غلبے کی پھنکاریں نکل رہی ہیں۔ (ختم شد)